نجات کے ستارے

نجات کی دوسری طرف

سید محمد سلیم قادری نوری نقشبندی

Apr 10, 2022

فہرست

طرفینِ نجات

نجات کے ستارے

ایک لطیف اشارہ

صحابۂ کرام کے لئے ادب و تعظیم کے القابات

اللہ کی رضا اور صحابۂ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین)

ذکر الانبیاء و الصالحین

نجات کے ستارے

طرفینِ نجات

نجات کی دو طرفیں ہیں: ایک اللہ اور اس کے رسول کی طرف اور ایک ہماری طرف۔

نجات کی جو طرف ہمای ہے اس میں تمام اسلام پر پورا عمل ہے۔ نماز، روزہ، حج اور زکوٰۃ و جہاد وغیرہ۔ یہ طرف تقویٰ، ورع اور قلبی اور جسمانی اعمال اور جانی و مالی عبادات پر مشتمل ہے۔ اس پر آئندہ گفتگو رہے گی۔

نجات کی ایک طرف اور بھی ہے اور وہ ہے اللہ اور اس کے رسول کی طرف۔ یعنی نجات کے عملی پہلو کے علاوہ اس کا ایک پہلو اعتقادی بھی ہے۔ یعنی اکابرینِ اسلام اور شعائرِ اسلام کی بے پناہ عظمت اہنے دل میں رکھنا اور ہمیشہ ان کے رتبے کا خیال رکھنا۔

جب نجات کی دوسری طرف اور اس کے دوسرے پہلو کی بات ہوتی ہے تو نجات مطلق ہوتی ہے۔ یعنی اس وقت نہ نماز کا ذکر ہے اور نہ ہی دیگر نیک اعمال کا۔ جیسا کہ اللہ کے پیارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی حدیثِ پاک ہے جو حضرت امام احمد بن حنبل (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) فضائلِ صحابہ میں لائے ہیں کہ

 حضرتِ سیدنا ابوذر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) نے کعبۃ اللہ شریف کا دروازہ پکڑے ہوئے فرمایا کہ جو مجھے جانتا ہے تو میں وہی ہوں جیسا وہ جانتا ہے اور جو مجھے نہیں جانتا تو (وہ اچھی طرح جان لے کہ) میں ابو ذر (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ہوں۔ میں نے سرکارِ مدینہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کو فرماتے ہوئے سنا: ''خبردار! تم میں میرے اہل ِ بیت کی مثال کشتی نوح (عَلیٰ نبیّنا و عَلیہ الصَّلَوٰةُ و السَّلام) کی طرح ہے، جو اس میں سوار ہوا ،وہ نجات پاگیا اور جو پیچھے رہا وہ ہلاک ہوگیا۔''

عَنْ حَنَشٍ الْكِنَانِيِّ قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا ذَرٍّ يَقُولُ: وَهُوَ آخِذٌ بِبَابِ الْكَعْبَةِ: مَنْ عَرَفَنِي فَأَنَا مَنْ قَدْ عَرَفَنِي، وَمَنْ أَنْكَرَنِي فَأَنَا أَبُو ذَرٍّ، سَمِعْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «أَلَا إِنَّ مَثَلَ أَهْلِ بَيْتِي فِيكُمْ مَثَلُ سَفِينَةِ نُوحٍ، مَنْ رَكِبَهَا ‌نَجَا، وَمَنْ تَخَلَّفَ عَنْهَا هَلَكَ». [«فضائل الصحابة لأحمد بن حنبل»]

دیکھا آپ نے؟ جب نجات کی دوسری طرف کی بات ہوئی تو مطلق نجات کا ذکر ہے۔ اعمال ہماری طرف ہیں۔ نماز ہماری، روزہ ہمارا، نیکیاں ہماری، تقویٰ ہمارا۔ لیکن دوسری طرف اللہ کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے اہلِ بیت ہیں۔ یہ نبی کے گھر والے ہیں، ان کا رشتہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے ہے۔ جب ان کے وسیلے سے نجات کی بات ہوئی تو براہِ راست فرمایا کہ میرے اہلِ بیت سفینۂ نوح (عَلیٰ نبیّنا و عَلیہ الصَّلَوٰةُ و السَّلام) کی مانند ہیں کہ جو اس میں سوار ہوگیا، نجات پا گیا اور جو سوار ہونے سے رہ گیا وہ ہلاک ہو گیا۔

حضرتِ سیِّدُنا ابن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا فرماتے ہیں: جناب احمد مجتبیٰ، محمد مصطفٰے (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے ارشاد فرمایا: میرے اہْلِ بیت، نوح (عَلیٰ نبیّنا و عَلیہ الصَّلَوٰةُ و السَّلام) کی کشتی کی مثل ہیں کہ جو اس میں سوار ہوا اس نے نجات پائی اور جس نے اس سے منہ موڑا وہ غرق ہوا۔

گویا کہ فرمایا جا رہا ہے کہ اے لوگو! نماز تمہاری، اہلِ بیت میرے۔ تمہیں اپنی نمازوں کی فکر اور ان سے محبت ہے، مجھے اپنے اہلِ بیت (یعنی گھر والوں) کی فکر ہے اور ان سے محبت ہے۔

صرف اہلِ بیت ہی کی بات نہیں، اہلِ بیت تو نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے ہیں اور قرآن اللہ کا ہے۔ اس لئے ایک اور حدیث شریف میں ارشاد فرمایا کہ

روایت ہے حضرت زید ابن ارقم (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے فرماتے ہیں کہ رسول الله (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) ایک دن ہم میں خطیب کھڑے ہوئے اس پانی پر جسے خم کہا جاتا ہے، مکہ مدینہ کے بیچ، تو الله کی حمدوثناء کی اور وعظ و نصیحت فرمائی پھر فرمایا کہ حمد کے بعد لوگو خبردار میں بشر ہوں قریب ہے کہ میرے رب کا قاصد میرے پاس آجائے میں اس کا بلاوا قبول کرلوں (یہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا اپنی رحلت کی طرف اشارہ ہے۔ سلیم نوری) میں تم میں دو عظیم چیزیں چھوڑتا ہوں جن میں سے پہلی تو الله کی کتاب ہے جس میں ہدایت اور نور ہے تم الله کی کتاب لو، اسے مضبوط پکڑو۔ پھر کتاب الله پر ابھارا اس کی رغبت دی پھر فرمایا اور میرے اہل بیت۔ میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق الله سے ڈراتا ہوں، میں تم کو اپنے اہل بیت کے متعلق الله سے ڈراتا ہوں۔

کتاب اللہ کی ہے اور اہلِ بیت رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے ہیں۔ بس انہی دو کا تذکرہ فرمایا۔

اعظمی تھی نوح کی کشتی میں عالم کی نجات

اہلِ بیت پاک کا لیکن سفینہ اور ہے

اور کتاب "الضياء اللامع من صحيح الكتب الستة وصحيح الجامع" میں حضرت ابو ہریرہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) سے روایت ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے ارشاد فرمایا کہ میں تم میں دو چیزیں چھوڑ کر جا رہا ہوں، اس کے بعد کبھی گمراہ نہ ہوگے۔ ایک اللہ کی کتاب ہے اور دوسری میری سنت۔ یہ دونوں کبھی ایک دوسرے سے جدا نہ ہوں گے یہاں تک کہ حوض (کوثر) پر مجھ سے آن ملیں گے۔

«عن أبى هريرة رضي الله عنه (تركتُ فيكم شيئين لن تضلوا بعدهما كتاب الله وسنتي، ولن يتفرقا حتى يردا عليَّ الحوض)». [«الضياء اللامع من صحيح الكتب الستة وصحيح الجامع»]

کتاب اللہ کی ہے اور سنت اس کے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی ہے۔ ان دونوں کو تھامے رہو اور ایک ساتھ دونوں کے مطابق زندگی گزارو۔ نہ اللہ کی کتاب سے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کی سنت جدا ہوگی اور نہ کبھی سنتِ رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) سے اللہ کی کتاب جدا ہوگی۔ دونوں ایک دوسرے کے مؤید رہیں گے۔

نجات کے ستارے

اللہ کے پیارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) نے ارشاد فرمایا ہے کہ

«‌أَصْحَابِي ‌كَالنُّجُومِ بِأَيِّهِمْ اقْتَدَيْتُمْ اهْتَدَيْتُمْ». [«الفصول في الأصول»]

میرے صحابہ ستاروں کی مانند ہیں، تم ان میں سے جس کی بھی پیروی کر لو گے تو ہدایت (نجات) پا جاؤ گے۔

دوسری جگہ ارشاد فرمایا کہ

«"كُلُّ النَّاسِ يَرْجُو ‌النَّجَاةَ يَوْمَ الْقِيَامَة إلا مَنْ سَبَّ أصْحَابِى، فَإنَّ أهْلَ المَوْقِفِ يَلعَنُونَهُمْ"». [جمع الجوامع المعروف بـ «الجامع الكبير»]

یعنی کل بروزِ قیامت ہر شخص اللہ (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) سے نجات کی آس لگائے ہوئے ہوگا سوائے اس شخص کے جس نے میرے اصحابِ با صفا پر لعن طعن کیا ہو۔ پس سارے اہلِ محشر ان پر اس روز لعنت کریں گے۔

دیکھا آپ نے؟ صحابی اللہ کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے اور نجات ہماری۔ یہ ہیں نجات کی دوسری جہت اور پہلو۔

ایک لطیف اشارہ

یعنی جیسے طوفان نوحی کے وقت ذریعہ نجات صرف کشتی نوح علیہ السلام تھی ایسے ہی تاقیامت ذریعہ نجات صرف محبت اہل بیت اور ان کی اطاعت، ان کی اتباع ہے، بغیر اطاعت و اتباع دعویٰ محبت بے کار ہے۔ اور دوسری حدیث میں ہے کہ میرے صحابہ تارے ہیں تم جس کی پیروی کرو گے ہدایت پاجاؤ گے، گویا دنیا سمندر ہے اس سفر میں جہاز کی سواری اور تاروں کی رہبری دونوں کی ضرورت ہے۔ الحمد ﷲ! اہل سنت کا بیڑا پار ہے کہ یہ اہلِ بیت اور صحابہ دونوں کے قدم سے وابستہ ہیں۔ خوارج کے پاس کشتی نہیں روافض کی نظر ان تاروں پر نہیں یہ دونوں اس سمندر سے پار نہیں لگ سکتے۔

اہلِ سنت کا ہے بیڑا پار اصحابِ حضور

نجم ہیں اور ناؤ ہے عترت رسول اللہ کی

اعلیٰ حضرت فاضل بریلوی (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) فرماتے ہیں کہ

"اہلسنت کے عقیدہ میں تمام صحابہ کرام رضی اللہ تعالٰی عنہم کی تعظیم فرض ہے اور ان میں سے کسی پر طعن حرام اور انکے مشاجر ت میں خوض ممنوع۔"

حدیث میں ارشاد: "اذا ذکر اصحابی فامسکوا" جب میرے صحابہ کا ذکر کیا جائے،(بحث و خوض سے) رُک جاؤ۔

صحابۂ کرام کے لئے ادب و تعظیم کے القابات

اہلِ عشق و محبت نے جب بھی نبی کریم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے پیارے اہلِ بیت یا صحابہ کا تذکرہ فرمایا ہے تو ہمیشہ صحابۂ کرام کے ناموں کے بعد (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) ضرور لکھتے ہیں۔ آج کی نئی نسل شارٹ کٹ کی متلاشی ہے، ان سے کہتا ہوں کہ خدارا! ہوش کے ناخن لیں اور ان عظیم ہستیوں کی تعظیم اور ان کے ادب میں ڈنڈی نہ ماریں اور ہمیشہ (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) پورا پورا لکھا کریں۔

اور سچ پوچھیں تو یہ ٹائٹل اور لقب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) صحابۂ کرام ہی کی شان ہے اور انہی پر جچتا ہے۔

  1. { قَالَ اللَّهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّٰدِقِينَ صِدْقُهُمْ لَهُمْ جَنَّٰتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ } [المائدة:119].

ترجمہ: اللہ نے فرمایا کہ یہ ہے وہ دن جس میں سچوں کو ان کا سچ کام آئے گا، ان کے لئے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں رواں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی، یہ ہے بڑی کامیابی۔

  1. { وَ السَّٰبِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَٰجِرِينَ وَ الْأَنصَارِ وَ الَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَٰنٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ وَ أَعَدَّ لَهُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ } [التوبة:100].

ترجمہ: اور سب میں اگلے پہلے مہاجر اور انصار اور جو بھلائی کے ساتھ ان کے پیرو ہوئے اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی اور ان کے لیے تیار کر رکھے ہیں باغ جن کے نیچے نہریں بہیں ہمیشہ ہمیشہ ان میں رہیں، یہی بڑی کامیابی ہے۔

  1. { لَّا تَجِدُ قَوْمًا يُؤْمِنُونَ بِاللَّهِ وَ الْيَوْمِ الْءَاخِرِ يُوَادُّونَ مَنْ حَادَّ اللَّهَ وَ رَسُولَهُ وَ لَوْ كَانُوا ءَابَاءَهُمْ أَوْ أَبْنَاءَهُمْ أَوْ إِخْوَٰنَهُمْ أَوْ عَشِيرَتَهُمْ أُولَٰئِكَ كَتَبَ فِي قُلُوبِهِمُ الْإِيمَٰنَ وَ أَيَّدَهُم بِرُوحٍ مِّنْهُ وَ يُدْخِلُهُمْ جَنَّٰتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ أُولَٰئِكَ حِزْبُ اللَّهِ أَلَا إِنَّ حِزْبَ اللَّهِ هُمُ الْمُفْلِحُونَ } [المجادلة: 22].

ترجمہ: تم نہ پاؤ گے ان لوگوں کو جو یقین رکھتے ہیں اللہ اور پچھلے دن پر کہ دوستی کریں ان سے جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول سے مخالفت کی اگرچہ وہ ان کے باپ یا بیٹے یا بھائی یا کنبے والے ہوں یہ ہیں جن کے دلوں میں اللہ نے ایمان نقش فرمادیا اور اپنی طرف کی روح سے ان کی مدد کی اور انہیں باغوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہیں ان میں ہمیشہ رہیں، اللہ ان سے راضی اور وہ اللہ سے راضی یہ اللہ کی جماعت ہے، سنتا ہے اللہ ہی کی جماعت کامیاب ہے۔

  1. { جَزَاؤُهُمْ عِندَ رَبِّهِمْ جَنَّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَٰرُ خَٰلِدِينَ فِيهَا أَبَدًا رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَ رَضُوا عَنْهُ ذَٰلِكَ لِمَنْ خَشِيَ رَبَّهُ } [البينة:8].

ترجمہ: ان کا صلہ ان کے رب کے پاس بسنے کے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہیں ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں، اللہ ان سے راضی اور وہ اس سے راضی یہ اس کے لیے ہے جو اپنے رب سے ڈرے۔

یہ بات بھی یاد رہے کہ اہلِ سنت اس بات کے قائل ہیں کہ یہ ٹائٹل (یعنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ) صحابۂ کرام کے سوا دیگر عظیم ہستیوں کیلئے بھی استعمال کیا جاسکتا ہے جو دنیا سے گزر چکے ہیں اور زندگی بھر اللہ کی خشیت سے لرزتے رہے اور نیک اعمال کرتے رہے اور ایمان پر کلمۂ توحید کے ساتھ اللہ کو پیارے ہوگئے جیسے غوثِ پاک اور خواجۂ اجمیر اور حضرت بہاؤ الدین نقشبند (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ)۔ لیکن چوں کہ اوپر ذکر کردہ آیات میں ان کلمات کیلئے حصر نہیں ہے اس لئے علمائے اہلِ سنت اس کے خصوصی عموم کے قائل ہیں۔

اللہ کی رضا اور صحابۂ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین)

یہ بھی یاد رہے کہ اللہ کی رضا کا لفظ تو گویا صحابۂ کرام (رضوان اللہ تعالیٰ علیہم اجمعین) پر ہی سجتا ہے۔ قرآنِ پاک میں ربّ العزّت (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) ارشاد فرماتا ہے:

{ … الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَ أَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَ رَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَٰمَ دِينًا … } [المائدة: 3].

ترجمہ: … آج میں نے تمہارے لئے دین کامل کردیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کردی اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا …

{ لَّقَدْ رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ إِذْ يُبَايِعُونَكَ تَحْتَ الشَّجَرَةِ فَعَلِمَ مَا فِي قُلُوبِهِمْ فَأَنزَلَ السَّكِينَةَ عَلَيْهِمْ وَ أَثَٰبَهُمْ فَتْحًا قَرِيبًا } [الفتح: 18].

ترجمہ: بیشک اللہ راضی ہوا ایمان والوں سے جب وہ اس پیڑ کے نیچے تمہاری بیعت کرتے تھے تو اللہ نے جانا جو ان کے دلوں میں ہے تو ان پر اطمینان اتارا اور انہیں جلد آنے والی فتح کا انعام دیا۔

اسی لئے مجھے یہ پسند ہے کہ جس طرح نبی (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے صحابۂ کرام باقی ساری امت (بلکہ ساری امتوں) سے افضل ہیں اور منفرد اور ممتاز ہیں، اسی طرح ان کا ادبی ٹائٹل بھی باقی سب لوگوں سے ممتاز ہو۔

بیشک کوئی بڑے سے بڑا ولی اگر احد پہاڑ کے برابر سونا بھی اللہ (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) کی راہ میں خرچ کردے تو وہ سونا نبی اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم) کے ایک ادنیٰ صحابی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے مٹھی بھر جَو خرچ کرنے کے برابر بھی نہیں ہوسکتا۔

ذکر الانبیاء و الصالحین

کتاب الورع میں ہے کہ صالحین کے ذکر کے وقت اللہ کی رحمت نازل ہوتی ہے۔

«كَانَ يُقَالُ عِنْدَ ‌ذِكْرِ ‌الصَّالِحِينَ تَنْزِلُ الرَّحْمَةُ». [«الورع - المرُّوذي» (ص86)]

اولیاء اللہ کے لئے (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) سے بہتر اور کونسے کلمات ہوں گے؟ اس لئے بہتر ہے کہ اللہ کے ولیوں کیلئے (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) ہی کے کلمات استعمال کئے جائیں۔ اگر صالحین کیلئے (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے کلمات بھی استعمال کئے جائیں تو اگرچہ ہمارے بزرگوں کے مطابق جائز تو ہیں، لیکن ولیوں کیلئے (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے کثیر استعمال سے عوام الناس کو اشتباہ ہوسکتا ہے۔ اس لئے اگر ایک آدھ بار کسی بڑے معروف و مشہور ولی کیلئے؛ جیسے غوثِ پاک کیلئے (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے کلمات لکھیں تو (رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ) کے کلمات کا بھی اضافہ کر لیا جائے تاکہ اشتباہ باقی نہ رہے۔

اسے طرح انبیائے کرام کے ناموں کے ساتھ (عَلیٰ نبیّنا و عَلیہ الصَّلَوٰةُ و السَّلام) ہی لکھا جائے اور غیرِ نبی کیلئے بہتر ہے کہ یہ کلمات نام کے ساتھ نہ لکھے جائیں کہ انبیائے کرام کی ایک امتیازی شان یہ ہے ان پر اللہ پاک نے براہِ راست سلام نازل فرمایا ہے۔ قرآنِ پاک میں ربّ العزّت (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) ارشاد فرماتا ہے:

{ وَ سَلَٰمٌ عَلَى الْمُرْسَلِينَ } [الصافات: 181].

بلکہ اللہ (جَلَّ جَلالُہٗ وَ عَمَّ نَوالُہٗ) نے انبیائے کرام کو براہِ راست یہ کلمات نام کے ساتھ ارشاد فرمائے ہیں۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے۔

{ سَلَٰمٌ عَلَىٰ نُوحٍ فِي الْعَٰلَمِينَ } [الصافات:79].

{ سَلَٰمٌ عَلَىٰ إِبْرَٰهِيمَ } [الصافات:109].

{ سَلَٰمٌ عَلَىٰ مُوسَىٰ وَ هَٰرُونَ } [الصافات:120].

{ سَلَٰمٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ } [الصافات:130].

اسی طرح بہت سے لوگ اہلِ بیت اور بالخصوص حضرت علی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کیلئے (عَلیہ السَّلام) لکھتے ہیں۔ بہتر ہے کہ آپ کے نامِ مبارک کے ساتھ بھی (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) کے کلمات لکھے جائیں اور اگر (کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم) کے کلمات کا بھی اضافہ کیا جائے تو کیا ہی بات ہے۔ بیشک حضرت علی (کرم اللہ تعالیٰ وجہہ الکریم) کے چہرے کو محبت کی نظر سے دیکھنا بھی عبادت ہے۔




اجازت نامہ

  1. یہ متن نوری آستانے کی ملکیت ہے۔ اسے یا اس کے کسی حصے کو (بعینہٖ یا تبدیلی اور خورد برد کر کے) تجارتی یا دیگر کسی بھی مادّی مقاصد و مالی منفعت کے لئے استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ یہ شرعی، اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔
  2. اس تحریر کو جو پڑھے اور مسلمانوں کے لئے کارآمد جان کر نیک نیتی کے ساتھ اسے یا اس کے کسی باب یا حصے کو صرف اور صرف تبلیغِ اسلام کے لئے چھپوانا چاہے یا اپنی کسی تحریر میں (Verbatim) پیش کرنا چاہے، یا اس کی وربیٹم نقول (جیسے کمپیوٹر کاپی) تیار کرنا چاہے تو اسے اس کی پوری اجازت ہے۔

Apr 10, 2022 Aastana-e-Noori