Published using Google Docs
مصادر الإسلام
Updated automatically every 5 minutes

مصادر الإسلام                 https://Quran1book.blogspot.com                                    

        

أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ 

رساله تجديد الاسلام

قرآن اور اسلامی مذہبی تاریخ کے گہرے مطالعه سےحیران کن حقائق کا انکشاف ہوا جو پہلی صدی ہجری کے دین کامل کے احیاء کی ایمیت کو واضح کرتے ہیں۔ "أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَﷺ" کی بنیاد پر "رساله تجديد الاسلام" مسلمانوں کے انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی کا پیغام ہے-

مصادر الاسلام

https://bit.ly/Islamic-Sources \ https://bit.ly/IslamicSources-pdf

Sources of Islam

 تحقیق و تجزیہ: بریگیڈئر آفتاب احمد خان (ر )

https://bit.ly/Tejdeed-Islam 

http://SalaamOne.com/Revival

https://Quran1book.blogspot.com

https://Quran1book.wordpress.com

https://www.facebook.com/IslamiRevival     

Updated: 15-09-21  03:00 PM


وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (قرآن:3:132)

 الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے

رساله تجديد الاسلام

پہلی صدی کے اسلام دین کامل کی بحالی

بسم الله الرحمن الرحيم

لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ

شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی  گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ اس کی ہٹ دھرمی پر گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا-  ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ  پر اہل بیت، خلفاء راشدین واصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین  پر- .دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی (ضَلَالَۃٌ) ہے- جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا -


قرآن اور اسلامی مذہبی تاریخ کے گہرے مطالعه سےحیران کن حقائق کا انکشاف ہوا، جو پہلی صدی ہجری کے دین کامل کے احیاء کی ایمیت کو واضح کرتے ہیں۔ "أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ﷺ" کی بنیاد پر "رساله تجديد الاسلام" مسلمانوں کے انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی کا پیغام ہے-


"رساله تجديد الاسلام" بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ریٹائرڈ) کی تحقیقی کاوش ہے- آپ فری لانس مصنف ، محقق اور بلاگر ہیں، پولیٹیکل سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، اسٹریٹجک اسٹڈیزمیں ماسٹرزکیا ہے اور قرآن کریم، دیگر آسمانی کتب، تعلیمات اور پیروکاروں کے مطالعہ میں دو دہائیوں سے زیادہ وقت صرف کیا ہے-  وہ 2006 سے " Defence Journal کے لیے لکھ رہے ہیں۔ ان کی منتخب تحریریں پچاس سے زائد کتب میں مہیا [ہیں۔ ان کے علمی و تحقیقی  کام کو 4.5 ملین تک رسائی ہو چکی ہے:

https://SalaamOne.com/About


انڈکس

مصادر الإسلام        

  1. تعارف        3
  2. "کتب حدیث" پر پابندی کیوں؟        5
  3. رسول اللہ ﷺ کے حدیث پر احکام        12
  1. صرف ایک کتاب - قرآن        12
  2. حدیث کی قبولیت- موافق قرآن، سنت        13
  3. حدیث: موافق عقل         13
  4. قرآن حدیث کو منسوخ کرتا ہے حدیث نہیں کر سکتی        14
  5. قرآن سے مطابقت  والی احادیث صحیح,باقی ضعیف        14
  1. نتائج                                                                   16

  2. حرف آخر         19
  3. پس تحریر        20

ضمیمہ1: رسول اللہ ﷺ  کی اطاعت کے احکام، نافرمانی  پر جہنم        21

24        The Author &  Books

رساله تجديد الاسلام: انڈکس                                                             25

رساله تجديد الاسلام

مزید کتب و مضامین

  1. رساله تجديد الاسلام - انڈکس: ویب سائٹ :  https://bit.ly/Tejdeed-Islam

2.  مصادر الإسلام https://bit.ly/IslamicSources-pdf \ https://bit.ly/Islamic-Sources

  1. رساله تجديد الاسلام: مقدمہ-  ویب سائٹ : https://bit.ly/Tejddeed

https://bit.ly/تجدیدالسلام-مقدمہ     PDF

  1. تجديد الاسلام تحقیق( :  https://bit.ly/Tejdeed-Islam-PDF (Pdf eBook
  2.  تجديد ایمان Web https://bit.ly/Aymaan /  https://bit.ly/Aymaan-g
  3. شفاعت اور شریعت : https://bit.ly/Shfaat   \ https://bit.ly/Shafaat-pdf
  4. رسول اللہ ﷺ کا میعار حدیث: https://bit.ly/Hdees
  5. مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ :  https://bit.ly/Muslim-Tragedy
  6. Important Hadiths اہم احادیث: https://bit.ly/Hadiths
  7.  متضاد عقائد و نظریات: https://bit.ly/WrongBeliefs-Pdf  https://bit.ly/Wrong-Beliefs

مصادر الإسلام

تعارف

علم دین اسلام کے ماخز صرف تین ہیں باقی زائد (extra) ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:

وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:   الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ وَمَا كَانَ سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فضل  . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه

ترجمہ:

عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ علم تین ہیں:

1)آیت محکمہ اور

2)سنت* ثابتہ اور

3)فریضہ عادلہ (فرائض منصفانہ):

(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 239، رواہ ابوداؤد (2558) و ابن ماجہ (54) الذھبی فی تلخیص المستدرک (۴/ ۳۳۲)۔

*سنت اور حدیث دو عیلحدہ چیزیں ہیں ، عمومی طور پر عام مسلمان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ ایک بات ہے جو کہ درست نہیں - رسول ﷺ  نے ان دونوں میں فرق[1] رکھا-

امام سیوتی نے متواتر 113 احادیث شمار کیں جن میں ہر درجہ پر دس راوی ہیں ، زیادہ احکام عبادات سے متعلق) یہ سنت کے قریب تر ہیں- باقی ہزاروں "احد" احادیث کو "اصول حدیث" پر پرکھنے سے ان کی حیتیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے -تحقیق [2]کے بغیر آنکھیں بند کرکہ قبول کرنا گمراہی کا سبب ہو سکتا ہے-

تمام جھگڑے، فرقے، فساد ، فتنہ ، قرآن کی محکم آیات[3] (3:7) کو چھوڑ کر دوسری غیر محکم آیات سے تاویلیں کے زور پر عقائد و نظریات نکالنے کی بدعة پر کھڑے ہیں ، جو باطل ہیں، کوئی بھی چیک کر سکتا ہے دلیل مانگ کر۔  کسی لقمان،  ارسطو، آئین سٹائین  کی ضرورت نہیں۔ جب دلیل ، آیت قرآن محکم ہو تو اسے تشریح کی ضرورت نہیں ہوتی، عام عقل common sense کافی ہے جس کا استعمال کرنا common نہیں۔

مزید پڑھیں :

  1. شاه کلید قرآن: آیات محکمہ Master Key Quran (3:7)
  2. اسنت , حدیث اور متواتر حدیث
  3. فریضہ عادلہ (فرائض منصفانہ): منصفانہ وراثت،  فرائض کا علم جس سے ترکے کی تقسیم انصاف کے ساتھ ہو سکے‘‘

احادیث کا علم زائد ہے ، یہ اسلام کے بنیادی مصادر میں شامل نہیں ، لیکن عملی طور پر معامله الٹ ہے

قرآن کی آیات کو منسوخ سمجھنا درست نہیں

وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قوما  يتدارؤون فِي الْقُرْآنِ فَقَالَ:   إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِهَذَا: ضَرَبُوا كِتَابَ اللَّهِ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ وَإِنَّمَا نَزَلَ كِتَابُ اللَّهِ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا فَلَا تُكَذِّبُوا بَعْضَهُ بِبَعْضٍ فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْهُ فَقُولُوا وَمَا جَهِلْتُمْ فَكِلُوهُ إِلَى عَالِمِهِ  . رَوَاهُ أَحْمد وَابْن مَاجَه

ترجمہ:

عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا،

نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو قرآن کے بارے میں جھگڑا کرتے ہوئے پایا تو فرمایا:’’ تم سے پہلے لوگ بھی اسی وجہ سے ہلاک ہوئے انہوں نے اللہ کی کتاب کے بعض حصوں کا بعض حصوں سے رد کیا، حالانکہ اللہ کی کتاب تو اس لیے نازل ہوئی کہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے،

پس تم قرآن کے بعض حصے سے بعض کی تکذیب نہ کرو، اس سے جو تم جان لو تو اسے بیان کرو، اور جس کا تمہیں پتہ نہ چلے اسے اس کے جاننے والے کے سپرد کر دو۔‘‘

(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 237)،   (رواہ احمد (۲/ ۱۸۵ ح ۶۷۴۱۹) و ابن ماجہ (۸۵)۔

دنیا بھر میں مسلمان مکمل اعتماد سے یہ دعوی کرنے میں  حق بجانب ہیں کہ ان کے پاس الله تعالی  کی آخری کتاب  هدایت، قرآن  مکمل اور محفوظ عین اسی حالت میں موجود ہے جیسے یہ حضرت محمد رسول اللهﷺ  پر بذریعہ وحی چودہ سو سال قبل نازل ہوا تھا- اسے خلفاء راشدین نے بہت احتیاط سے اکٹھا کرکہ مدون[4] مسلمانوں کو مہیا کیا جس کی مثال انسانی مذہبی تاریخ میں نہیں ملتی اوراس کے علاوہ حفظ و بیان سے سینہ بہ سینہ، نسل  در نسل تواتر سے منتقل ہوا- اب بھی دنیا میں مسلمانوں کے ہر شہر، گاؤں   میں ہر عمر، نسل کے عام مسلمانوں کے حافظہ میں اور کتاب کی شکل میں بھی موجود ہے- اگر تمام دنیا کی کتب سے تحریرغائب ہو جائے تو یہ حفاظ مل کے ہر گاؤں ، شہر میں قرآن لکھ کر پیش کر سکتے ہیں- یہ ایک معجزہ سے کم نہیں- قرآن واحد آسمانی کتاب ہے جو خود اپنے آپ کوبلا شک،  مکمل ، محفوظ کتاب قرار دیتی ہے جس کی حفاظت کی  ذمہ داری الله تعالی نے اپنے ذمہ لی،  باطل نہ اس کلام کے آگے سے آسکتا ہے نہ پیچھے سے، مکمل ہدایت کی کتاب، الفرقان[5] ہے جو حق و باطل کی پہچان اور لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے اتاری گئی ہے[6]- کیا یہ اہتمام اس لیے کیا گیا کہ قرآن کی صرف تلاوت کی جا سکے؟

قرآن حکم دیتا ہے:

وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (قرآن:3:132)

الله  اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے-

 آپ ﷺ قرآن پر عمل کرنے کا بہترین نمونہ تھے[7] جس کی تفصیل سنت ,احد احادیث اور متواتر احادیث سے ملتی ہے[8]-  رسول اللہ ﷺ  کی سنت (عمل) کو ہزاروں صحابہ نے دیکھا اور اس پر عمل کیا اور سنت  رسول اللہ ﷺ  بھی نسل در نسل تسلسل ہے منتقل ہوتی چلی آرہی ہے اس لے قرآن کی طرح محفوظ ہے- اسلامی شریعت کی بنیاد قرآن و سنت پر ہے جو بنیادی ماخذ ہیں پھر اجماع اور قیاس- ان چار شرعی مصادر پر جمهور علماء کا اتفاق ہے۔

رہنمائی کے لیے قرآن و سنت کے علاوہ احادیث (ارشادات و اقوال ) ہزاروں (بلکہ لاکھوں) کی تعداد میں موجود ہیں جن کی اکثریت احد احادیث ہیں جو ایک یا دو افراد کی سند سے ہیں ان کا درجہ ظنی[9] ہے[10]- پختہ اینٹ کو چھوڑ کر عمارت کی بنیاد میں کچی اینٹیں شامل کرنے کا کیا مقصد ہے؟ عقائد و نظریات کی بنیاد صرف قرآن کی ”آیات محکمات" (احکام کی واضح آیات)  جو کہ "اُمُّ الۡكِتٰبِ "[11] ہیں (قرآن 3:7) پر ہو سکتی ہے-

یقینی درجہ کی احادیث جن کو متواتر کہا جاتا ہے وہ قلیل تعداد میں ہیں- متواتر کی ایک رپورٹ تقریبا اتنی ہی یقینی بات ہے جتنا کہ قرآن مجید ، لہذا  متواتر حدیث کے رد کو کفر مان جاتا  ہے۔ جلال الدین سیوطی نے 113 متواتر[12] احادیث کو ایک کتاب میں عنوان کیا ہے زیادہ ترعبادات پر ہیں- انہوں نے ہر ایک ایسی حدیث کو متواتر شمار کیا جس کے ہررابطہ پر 10 راوی تھے۔

"کتب حدیث" پر پابندی کیوں؟

قرآن میں یہود نصاری کی گمراہی کا ذکرکیا گیا: "انہوں ( یہود نصاری) نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے (9:31قرآن ) 

رسول اللہ ﷺ نے بھی بار بار سختی سے مسلمانوں کو تنبیہ فرمائی کہ یہود و نصاری[13] کے گمراہی کے راستہ کو اختیار نہیں کرنا[14]-  یہود نے ایک تورات کے مقابل تلمود کی 38 ضخیم کتب لکھیں اور نصاری نے انجیل کے ساتھ 23 کتب شامل کرکہ "عہد نامہ جدید" مرتب کی[15]- اس لیے جب  رسول اللہ ﷺ نے  "کتب حدیث" پر پابندی لگا دی تو فرمایا : "کیا تم الله  کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس  سے پہلے قومیں  (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں"۔ [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم[16] ][17]

مگر کچھ صحابہ اکرام کو کمزور حافظہ پر ذاتی نوٹس لکھنے کی انفرادی اجازت[18] دی اور بہت کو انکار[19]، ذاتی نوٹس کا مطلب "کتاب حدیث" مدون کرنا نہیں ورنہ حضرت ابو ہریرہ کی کتاب (اگر ان کو انکار نہ ہوتا) سب سے زیادہ مشہور ہوتی-

حضرت ابوہریرہ (رضی الله) کے ایک شاگرد نے صحیفہ "ہمام ابن منبہ"[20]  (138 احادیث) لکھا- یہ ان کے ذاتی نوٹس تھے جو شاگرد اپنے استاد سے احادیث سماع کے بعد لکھ لیا کرتے تھے تاکہ حفظ میں سہولت ہو- لیکن ابوہریرہ (رضی الله) نے خود کیوں نہ لکھا؟ کیونکہ  رسول اللہ ﷺ نے پابندی لگائی تھی[21] ، انہوں نے مرتے دم تک اطاعت  رسول اللہ ﷺ کی ، مروان[22] نے مدینہ میں ان سے احادیث لکھنے کی کوشش کی تو آپ نے انکار کر دیا-  یہ ایک فضول بحث ہے جس میں منکر رسول اللہ ﷺ لوگوں کو الجھا کر اصل موضوع سے سائیڈ ٹریک کرتے ہیں- اس اختلاف، بحث  کا فیصلہ خلفاء راشدین نے کر دیا تھا، کتب حدیث پر پابندی لگا کر، ان کو یہ اختیار  رسول اللہ ﷺ نے عطا فرمایا تھا، لیکن لوگ  رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ سے انحراف کرکہ  ایسے بحث کرتے ہیں جسے ان کو  رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین سے زیادہ علم ہے (استغفر الله)- جبکہ ان لوگوں کو ایسا کرنے کا کوئی اختیار نہیں-

حدیث کے حفظ و بیان کی اجازت عام بلکہ مستحب ہے-  اس پابندی[23] پر خلفاء راشدین [24]سمیت سب صحابہ اور مسلمانوں نے صدیوں تک عمل کیا- قرآن کی تدوین کے باوجود کتب احادیث پر پابندی قائم رہی -  رسول اللہ ﷺ نے خلفاء راشدین کی سنت پر عمل کی وصیت[25] فرما کر ان کے  فیصلہ (اجتماعی سنت اربع خلفا راشدین) پرپہلے ہی مہرنبوت سے تصدیق ثبت کر دی-

‏‏‏‏‏‏فَقَالَ الْعِرْبَاضُصَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، ‏‏‏‏‏‏فَقَالَ قَائِلٌ:‏‏‏‏ يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، ‏‏‏‏‏‏فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا ؟ فَقَالَ:‏‏‏‏ أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، ‏‏‏‏‏‏فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، ‏‏‏‏‏‏وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ.( ابی داود 4607، ابن ماجہ42)-

عرباض ؓ نے کہا: ایک دن ہمیں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہوگئیں، اور دل کانپ گئے، پھر ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ "جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت[26] اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعة  ہے، اور ہر بدعة گمراہی ہے[27] [23] ( ابی داود 4607[24]، ابن ماجہ42)-

تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٦)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٦ (٤٣، ٤٤)، (تحفة الأشراف: ٩٨٩٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٢٦)، سنن الدارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح )

سنة الخلفاء الراشدين سے درحقیقت رسول اللہ ﷺ ہی کی سنت مراد ہے جسے رسول اکرم ﷺ کے زمانہ میں کسی وجہ سے شہرت حاصل نہ ہوسکی، اور خلفاء راشدین کے زمانہ میں رواج پذیر اور مشہور ہوئی اس بنا پر ان کی طرف منسوب ہوئی (أشعة اللمعات، للدهلوي) نیز اگر خلفاء راشدین کسی بات پر متفق ہوں تو اس حدیث کے بموجب ان کی سنت ہمارے لئے سنت ہے۔[ تشریح ]

حدیث گھڑی جا سکتی جسے موضوع کہتے ہیں مگر سنت گھڑی نہیں جا سکتی کہ اس عمل/ سنت کوسینکڑوں ، ہزاروں لوگوں نے دیکھا اور عمل کیا ہوتا ہے اور نسل در نسل منتقل ہوتی ہے اس میں جھوٹ نہیں ہو سکتا یہ قرآن کی طرح مظبوط ہوتی ہے. اسی لیے  رسول اللہ ﷺ نے سنت کو دانتوں سے پکڑنے کا حکم دیا حدیث کو نہیں-سب کو معلوم ہے کہ کتب حدیث کس نے اور کب لکھیں-

جو کتب حدیث لکھنے کو justify کرنے کے لیے لکھنے پر پابندی اور اجازت پر بحث کرتے ہیں اس حدیث اور سنت کے بعد وہ سب کچھ غیرضروری (irrelevant) ہو جاتا ہے ان کی کوئی اہمیت نہیں (لیکن دلائل اور تاریخ و حدیث سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ پابندی تھی، جس   حضرت ابو ھریرہ( 5374 احادیث) ، عبدللہ بن عبّاس (2660) ، عبدللہ بن مسعود( 800)، عبداللہ بن عمر(2630) ، زيد بن ثابت، کاتب وحی  (92)، ابو سعید خضری (1170) (رضی الله تعالی عنہم ) اگریہ صحابہ حدیث کی کتب لکھتے تو وہ مصدقہ ہوتیں جبکہ دوسرے راوی بھی زندہ تھے، اس طرح سے وہ ہزاروں احادیث حفظ کرنے کی مشکل سے بچ جاتے.[28]اگر ان کو پابندی کے نہ ہونے کا علم نہیں تھا تو ان کی احادیث قبول نہیں ہو سکتیں، تو باقی کیا بچے گا؟  زيد بن ثابت تو کاتب وحی اور قرآن مدون کرنے والے ہیں) .امام ابوحنیفہ (رح)  (پیدائئش 80 ھ) احدادیث کا خزانہ تھے، ان کے 97 طالب علم حدیث کے مشہور عالم تھے ، اور ان کی بیان کردہ احادیث صحیح بخاری ، صحیح مسلم اور حدیث کی دیگر مشہور کتابوں میں مرتب کی گئیں۔ مگر انہوں نے حدیث کی کتاب نہیں لکھی- وہ سنت  رسول اللہ ﷺ، سنت خلفا راشدین و صحابہ پر سختی سے کاربند تھے-[29]

 رسول اللہ ﷺ کے فیصلہ کا انکار اور حجت بازی لا حاصل، گناہ کبیرہ ہے جہنم کی آگ-

یہ ہے پیغمبرانه علم ، حکمت و فراست اور نبوت کا زندہ ثبوت!   رسول اللہ ﷺ  نے اپنی سنت میں کوئی مجلد کتاب نہیں چھوڑی، مجلد قرآن خلفاء راشدین کی سنت ہے اور حدیث کی کتب نہ لکھنا بھی انہی کی سنت ہے (ایک اعزاز جو رسول اللہ ﷺ نے حکمت سے اپنے ساتھیوں کو دیا) دونوں  میں حضرت عمر (رضی الله) کا اہم کردار ہے- جس کو  رسول اللہ ﷺ نے وصیت میں پیغمبرانہ علم و حکمت و فراست  سے پہلے ہی منظور فرمایا- (سبحان الله)

کیا یہ عجیب بات نہیں کہ اپنے آپ کو "اہل سنت" کہلاتے ہیں اور  رسول اللہ ﷺ کی سنت (جو قرآن ، حدیث اور تاریخ سے بھی ثابت ہے) کو مسترد کرکہ بدعة اختیار کر کہ فخر محسوس کرتے ہیں؟

 اگر کوئی اس وصیت کو نہیں مانتا، اور بدعت کرتا ہے تو وہ کیا رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا منکر نہیں؟ (جھوٹی داستانوں سے حق نہیں چھپ سکتا، تفصیل لنک [30])

دوسری ، تیسری صدی حجرہ میں مشہور کتب حدیث مدون ہونے کے باوجود ان کوفوری عوامی قبولیت حاصل نہ ہوئی[31]- احادیث حفظ کرکہ بیان و سماء سے نسل در نسل منتقل ہوتی رہیں تھیں ذاتی نوٹس بھی مروج تھے- افسوس  جب دوسری ، تیسری صدی میں بدعات [32] نے زور پکڑا تو تاویلیں گھڑی گیئں- پھر تیسری صدی میں مشہور کتب احدیث لکھی گیئں جن  کو عوام نے فوری طور پر قبول نہ کیا اور بلآخربہت کوششوں سے دو صدی کے بعد 464 حجرہ / 1072 عیسوی میں نیشا پور میں البخاری کو پہلی مرتبہ پڑھا گیا[33]-

 پھر ایسا مقابلہ شروع ہوا کہ رسول اللہ ﷺ کے حکم اور تنبیہ کو مسترد کر کہ (جو کہ گناہ کبیرہ ہے) مسلمانوں نے ایک مقدس قرآن کے مقابل اب تک سو سے زیادہ "مقدس کتب احادیث"[34]بنا ڈالیں، تعداد  بتدریج بڑھ رہی ہے- دنیا میں تمام  قدیم مذاهب  (زرتشت، مسیحیت، یہودیت، بدھ مت، ہندو وغیرہ) کی مقدس کتاب یا کتب کی ایک مقررہ تعداد ہے جو مذھب کے بانی (یا گمنام) کی وفات کے بہت عرصہ بعد لکھی گیئں- مگرمسلمان دنیا میں واحد مذھب ہے جن کے پاس اللہ کی مستند محفوظ ترین مقدس کتاب قرآن موجود ہے پیغبرﷺ کی وفات کوچودہ صدیاں گزر گیئں  مگرمسلمان مقدس کتب کے اتنے شوقین ہیں کہ  پیغبرﷺ سے منسوب کتب احادیث کی تعداد میں تسلسل سے اضافہ ہوتا رہا ہے جبکہ رسول اللہ ﷺ نے حدیث کتب سے منع فرمایا تھا- اسے گستاخی، حکم عدولی، انکار رسالت، بدعة[35]  کہیں یا کچھ اور؟

یہ پیشن گوئی آج بھی قرآن میں موجود ہے جو کتاب اللہ کا زندہ معجزہ ہے :

وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰﴾

اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو ترک العمل کرکہ چھوڑ رکھا تھا ۔ (قرآن 25:30)[36]

علامہ اقبال (رح) کے اس مصرعے میں اسی آیت کی تلمیح پائی جاتی ہے ع

” خوار از مہجورئ قرآں شدی “

کہ اے مسلمان آج تو اگر ذلیل و خوار ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔

’’مہجورا‘‘  ایسے جانور کو بھی کہتے ہیں جس کے گلے میں رسی ڈال کر اس کا دوسرا سرا پاؤں سے باندھ دیا گیا ہو، اس طرح جانور چلنے پھرنے کے قابل ہونے کے باوجود مکمل طور سے آزاد نہیں ہوتا۔ وہ چلتا پھرتا ہے لیکن اتنا ہی جتنا اس کے گلے کی رسی اجازت دے۔ قرآن کو حدیث کی سو کتب سے مہجور کر دیا گیا ہے-

کتب حدیث پر پابندی کے حکم، اس کی خلاف درزی اور موجودہ حالات سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کو اللہ کے عطا کردہ علم[37][جس کا ایک حصہ آپ ﷺ نے حضرت عمر (رضی الله) کو بھی دیا] حکمت و فراست سے یہ سب کچھ  معلوم تھا ، کیونکہ  رسول اللہ ﷺ نے اس کا آسان حل بھی دے دیا جس سے عام مسلمان کے لیے بھی بآسانی، اصل اور نقلی  احادیث میں متن (Text) کی بنیاد پر فرق اور پہچان کرنا ممکن ہے [متن کی تحقیق کے بغیر صرف اسناد کی بنیاد پر صحیح، حسن، ضعیف،موضوع وغیرہ بعد کی ایجاد ہیں] اور قرآن کو مہجور (متروک العمل ) بنانا بھی ناممکن ہو جاتا ہے- یہ آپ ﷺ کے پیغمبرانہ علم، عقل و دانش، حکمت و فراست کا کھلا معجزانہ منہ بولتا ثبوت ہے اور آج بھی یہ ثابت کرتا ہے کہ حضرت محمدﷺ سچے رسول اللهﷺ  ہیں- یہ مسلمانوں کی بدقسمتی اور جہالت ہے کہ قرآن اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کو چھوڑ کر مذہبی پیشواوں کی اندھی تقلید میں گمراہی کا راستہ کا انتخاب کیا جس سے خبردار کیا گیا[38]- 

رسول اللہ ﷺ کے حدیث پر احکام  

واضح رہے کہ، رسول اللہ ﷺ کی اطاعت فرض ہے، جان بوجھ کر نافرمانی کرنا گناہ کبیرہ، ابدی جہنم ہے-احکام اطاعت قرآن میں بار بار نازل ہوے(ضمیمہ1):  

وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾      

اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول  (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا  ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾

تمام احکام مذکورہ اللہ تعالیٰ کی باندھی ہوئی حدیں اور اس کے مقرر کردہ ضابطے ہیں  جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اللہ و رسول کا کہنا نہ مانے گا اور اس کی باندھی ہوئی حدوں کو توڑ کر بڑھ جائے گا اور اس کے مقررہ ضابطوں سے تجاوز کرنے پر اصرار کرے گا اور اس کے قوانین کی بالکل خلاف ورزی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ میں داخل کردے گا۔ اور اس کا یہ حال ہوگا کہ وہ اس آگ میں ہمیشہ ہمیش پڑا رہے گا اور اس کو ذلت و اہانت آمیز اور رسوا کن عذاب ہوگا-[39]

1. کتاب صرف ایک کتاب الله، قرآن:

ایک الله، ایک کتاب اور ایک آخری رسول اللہ ﷺ یہ قرآن سے ثابت ہے ، اسی لئے ایمان کا حصہ ہے جس میں صرف کتاب الله پر ایمان شامل ہے کسی اور کتاب پر نہیں یہود و نصاری کی دوسری مقدس کتب شامل نہیں صرف تورات اور انجیل پھر قرآن پر ایمان ----

تفصیل : تجديد ایمان Web https://bit.ly/Aymaan /  https://bit.ly/Aymaan-g

رسول اللہ ﷺ نے حدیث کی کتاب پر پابندی نافذ[40] کی، کیونکہ پہلی امتیں کتاب الله کے ساتھ اور کتب لکھ کر گمراہ ہوائیں[41]- خلفاء راشدین نے بھی حدیث کی کتاب نہیں بنائی، اور حضرت عمر (رضی الله) نے مکمل پابندی[42] لگا دی جس پر صدیوں عمل ہوا- قرآن بھی[43] اپنے علاوہ کسی کتاب حدیث کا انکار[44] کرتا ہے-  قرآن نے تو مسلسل کئی مرتبہ کہا: فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ( المرسلات 77:50) ترجمہ : اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ ( المرسلات 77:50)، (الأعراف 7:185) ، (الجاثية45:6) ...[ تفصیل لنک پر ]

 حدیث کا حفظ، بیان و سماع[45] معروف و مقبول طریقہ تھا جس کے آثار اب بھی مدارس میں کہیں کہیں مل جاتے ہیں-

  1. حدیث: موافق قرآن، سنت:  

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ: میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو "کتاب الله" اور "میری سنّت" کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی. اور جو "کتاب الله" اور "میری-سنّت" کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی [الرئيسية الكفاية في علم الرواية للخطيب, باب الكلام في أحكام الأداء وشرائطه، حديث رقم 1303][46]

  1. حدیث: موافق عقل :

 قرآن نے عقل شعور[47] کے استعمال پر بہت زور دیا ہے(49 مرتبہ) - نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا : "جب تم میرے حوالے سے کوئی ایسی حدیث سنو جس سے تمہارے دل شناسا ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم ہوجائے اور تم اس سے قرب محسوس کرو تو میں اس بات کا تم سے زیادہ حقدار ہوں اور اگر کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل نامانوس ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم نہ ہو اور تم اس سے دوری محسوس کرو تو میں تمہاری نسبت اس سے بہت زیادہ دور ہوں۔" [ مسند احمد- حدیث: 22505][48]،[49]

  1. قرآن حدیث کو منسوخ کرتا ہے حدیث قرآن کو منسوخ نہیں کرتی

"---- آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کر دوں بس میں تو اسی کا اتباع کرونگا جو میرے پاس وحی کے ذریعے سے پہنچا ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں" (قرآن 10:15)[50]

وَعَنْہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم کَلَامِیْ لَا یَنْسَخُ کَلَامَ اﷲِ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ کَلَامِیْ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ بَعْضُہ، بِعْضًا (مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: 189)

اور حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا  میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،حدیث189) (سنن دارقطنی: ۱؍۱۱۷) (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 190)

  1. قرآن سے مطابقت  والی حدیث صحیح اورباقی ضعیف

حدیث کی سند ضعیف بھی ہو مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے ( تفہیم القرآن، سید ابو اعلی مودودی )[51]

  1.  شیخ حمید الدین فراہی فرماتے ہیں: "میں نے صحاح میں بعض ایسی احادیث دیکھیں ، جو قرآن کا صفایا کر دیتی ہیں۔ ہم اس عقیدہ سے پناہ مانگتے ہیں کہ کلام رسول ، کلام خدا کو منسوخ کر سکتا ہے" (نظام القرآن)[52]
  2. أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَکْذِبُوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَکْذِبْ عَلَيَّ يَلِجْ النَّارَ

حضرت علی نے دوران خطبہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا : مجھ پر جھوٹ مت باندھو جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ (صحیح مسلم, :حدیث نمبر: 2)[53] یہ اہم ترین حدیث ، متواتر[54] ہے ، جسے 62 را ویوں نے رپورٹ کیا ہے-

  1. حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم  ﷺ   نے ارشاد فرمایا: ’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے[55] …‘‘(ترمذی 2906)
  2. "جس شخص نے کتاب اللہ کی پیروی کی تو نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بدبخت ہوگا (یعنی اسے عذاب نہیں دیا جائے گا) اس کے بعد عبداللہ ابن عباس ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت ]فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي (20۔ طہ 123[56])] ترجمہ جس آدمی نے میری ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ,حدیث نمبر 185)[57]
  3.  نیک لوگوں کا جھوٹ حدیث میں کذب سے بڑھ کر کسی بات میں نہیں دیکھا  [صحیح مسلم,  حدیث نمبر: 40][58]
  4. جو شخص  رسول اللہ ﷺ کے میعار حدیث (جو کہ مندرجہ بالا بیان کیا گیا) پر پوری نہ اترنے والی احادیث کو بیان کرتا پھرتا ہے وہ در اصل رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ منسوب کر رہا ہے اور جہنم میں داخل ہوگا-  iاس لئے احادیث بیان کرنے سے پہلے مکمل تحقیق و اطمنان کر لیں-

نتائج

 رسول اللہ ﷺ کے مندرجہ بالا احکام کی خلاف درزی کے نتایج اچھے کیسے ہو سکتے ہیں؟ سارا زور قرآن کی تضعیف (undermine) پر لگا دیا گیا- اسلام جو کہ ایک سادہ عملی دین کامل ہے، اسے مذہبی پیشواؤں نے یہود و نصاری کی تقلید کر کہ ایک انسانی ساختہ دین بنا دیا-

  1. احادیث کی کتب لکھ کر کتاب الله قرآن کو صرف تلاوت تک محدود کر کہ (مہجور) متروک العمل[59] بنا دیا- ساری توجہ احادیث کی طرف مبذول کر دی-
  2. اسی وجہ سے کتب حدیث کی سختی سے  ممانعت کی گئی تھی- حضرت عمر[60]،[61] (رضی الله) کی طرح  حضرت علی (رضی الله) نے بھی رسول اللہ ﷺ کے فرمان سے بنیادی وجہ[62] کو خطبہ میں اس طرح بیان فرمایا : "جس کے پاس  (قرآن کے علاوہ) تحریر ہے میں اسے قسم دیتا ہوں کہ وہ گھر لوٹ جایے اور اسے مٹا دے،  پہلی قومیں اس وقت ہلاک ہوئیں جب وہ اپنے رب کی کتاب چھوڑکر اپنےعلماء کی قیل قال میں پھنس گیئں (رواہ عبدللہ بن بسیار)[63]
  3. رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ میعار، حدیث بمطابق: "قرآن ، سنت اور عقل" کو مسترد کرکہ لوگوں نے صرف اسناد کومیعاربنایا، جبکہ متن کی تحقیق بھی رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ میعارکے بمطابق اہم ہیں-  [52] جن کو چھوڑ کراپنی مرضی سے احادیث کو جوڑتوڑ(manipulate)  کرکہ مطلوبہ نتائج حاصل کرنا ممکن ہے- درجہ بندیاں کی گیئں، کسی کو صحیح ، مخالف کو ضعیف، آج بھی درجے تبدیل ہوتے  رہتے  ہیں اور فرقہ بازی کا بازار گرم ہے-
  4. ایسی احادیث  جن کا ہدایت و رہنمائی سے براہ راست واسطہ نہیں، جو عقل و دانش سے ماورا، باعث تضحیک ہیں ان کو کتب میں لکھ کرنہ صرف یہ کہ منطقی دین کامل کو غیر منطقی کمزور (undermine) کیا گیا بلکہ  رسول اللہ ﷺ کی عظیم شخصیت پر ذاتی حملے، کردار کشی، ان کی ذاتی زندگی (privacy) کو بھی نہیں چھوڑا- حضرت عمر (رضی الله) احکام والی  احادیث کی اہم سمجھتے تھے-
  5. کتمان حق[64]، حق کو چھپانا جو کہ گناہ کبیرہ جہنم کی آگ کا راستہ ہے اختیار کیا گیا - اہم احادیث جو ان کے نظریات کو مسترد کرتی ہیں ان کو مشہور کتب حدیث میں شامل نہ کیا مگر حق تلاش کرنے والوں کوحق مل جاتا ہے- جس عمارت کی بنیاد کچی اینٹوں پرہو وہ مظبوط کیسے ہو سکتی ہے؟
  6.  رسول اللہ ﷺ کے حکم کی خلاف درزی کے لیے  عجیب و غریب[65]تاویلیں[66]اوربدعة[67]ایجاد کیں- حدیث کو وحی خفی/ غیرمتلو[68] قرار دے کر قرآن کے برابر بلکہ بلند کر دیا اور حدیث سے قرآن کی آیات کی منسوخی کا خود ساختہ جواز پیدا کیا- جو  رسول اللہﷺ  کے حکم اور عقل کے برخلاف ہے- جب رسول اللہ ﷺ نے پابندی لگائی تو حضرت  ابوہریرہ  نے احادیث کو جلایا[69]،[70]  (مسند احمد 10670) بعد میں حضرت عمر (رض) نے بھی جلایا[71]، تو کیا ان کو معلوم نہ تھا کہ وہ وحی خفی کو آگ لگا رہے ہیں؟ مگر دو صدی بعد والوں کو زیادہ علم ہو گیا؟   یہ یہود کی ہو بہو نقل ہے، جنہوں نے زبانی تورات (Oral Torah) بنائی (اصل میں علماء کی تفاسیر تھیں پھر زبانی وحی قرار دیا) پھر لکھ کر تلمود بنائی اور تورات کو تلاوت تک محدود کر دیا[72]-

حرف آخر

مندرجہ بالا نتائج  کی بنیاد قرآن[73]، سنت [74]، احادیث[75] اورناقابل تردید تاریخ،[76]،[77] پر ہے جو خود واضح (self evident) حقائق ہیں جن کو ہر کوئی تسلیم کرتا ہے، مثلا (1) رسول اللہ ﷺ نے کوئی مجلد کتاب نہ چھوڑی[78] (2)خلفاء راشدین مہدین کا  قرآن مجلد کرنا اورکتب احادیث نہ مدون کرنے کا سوچا سمجھا فیصلہ[79]،[80]، (3) احادیث کی مشہور کتب[81] تیسری  صدی حجرہ میں لکھی گیئں-[82]

یہ ایسے حقائق ہیں جن کے ثبوت کی ضرورت نہیں ہے مگر تمام ریفرنسز / حوالہ جات مہیا کیے گئے ہیں-

[These self evident truths are obvious facts which everyone acknowledges – they do not need proof]

ان تینوں حقائق کے ساتھ کیوں؟ لگا کر جوابات تلاش کریں تو مزید حقائق  سامنے آ جاتےہیں جو پہلی صدی ہجری کے دین کامل اسلام کے احیاء کی ایمیت اور ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔ "أَطِيعُوا اللَّهَ الرَّسُولَ ﷺ کی بنیاد یر "رساله تجديد الاسلام"،  "مصادر اسلام" کی قرآن اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کی روشنی میں تشکیل نوکے لیے اجتماعی طور پر عملی اقدام کے لیے اتفاق رائے (اجماع) پیدا کرنے کا پیغام ہے-

قرآن و سنت ،احادیث اور تاریخ  سے واضح دلائل کی وجہ سے اجماع شرعی کی ضرورت نہیں، اتفاق رائے (consensus) حکمت عملی (implementation strategy) ہے، تاکہ اسلام اپنی اصل کامل صورت میں بغیرنفاق، فتنہ و فساد کے پر امن طور پر مکالمہ و تحقیق کے زریعہ بحال ہو-

اس طرح سے الله تعالی اور  رسول اللہ ﷺ کی خوشنودی حاصل ہوگی اور مسلمانوں کے انداز فکرو عمل میں بھی مثبت تبدیلی ممکن ہے، جس سے موجودہ انحطاط وجمود کا خاتمہ کر ہو سکے- اس کوشش میں تمام مسلمان شامل ہوں تو جلد اتفاق رائے  ممکن ہو سکتا ہے، تاکہ بروز قیامت:"اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو متروک العمل کرکہ چھوڑ رکھا تھا ۔ (قرآن 25:30)

تو ہم قرآن کو  متروک العمل کرکہ چھوڑنے والوں میں شامل نہ ہوں-


پس تحریر:

یہ خلاصہ صرف تعارف ہے، اہل علم حضرات سے درخواست ہے کہ موضوع کو سمجھنے کے لئے مکمل تحقیق کا مطالعہ کریں، فٹ نوٹس میں لنکس کو وزٹ کریں اورویب سائٹ انڈکس سے مدد لیں[83]-  اگر محسوس کریں کہ احقر سے کہیں علمی غلطی ہوئی توریفرنسز کےساتھ غلطیوں آورمجوزہ تصحیح کی نشاندھی کرنا آپ کا فرض ہے، کیونکہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :

مَنْ سُئِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَهُ ثُمَّ كَتَمَهُ أُلْجِمَ يَوْمَ الْقِيَامَةِ بِلِجَامٍ مِنْ نَارٍ

”جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی، جسے وہ جانتا ہے، پھر اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔“[84]

[ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم : 2649۔ أحمد : 2؍263، ح : 7588۔ أبو داوٗد : 3658، عن أبی ہریرۃ ؓ و صححہ الألبانی]

الله  کے احکام  اور ہدایت کو چھپانا ممنوع  ہے- (قرآن 2:159), (2:174),  (3:187)

اِنَّ الَّذِيۡنَ يَكۡتُمُوۡنَ مَآ اَنۡزَلۡنَا مِنَ الۡبَيِّنٰتِ وَالۡهُدٰى مِنۡۢ بَعۡدِ مَا بَيَّنّٰهُ لِلنَّاسِ فِى الۡكِتٰبِۙ اُولٰٓئِكَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰهُ وَ يَلۡعَنُهُمُ اللّٰعِنُوۡنَۙ ۞ (القرآن الکریم - سورۃ نمبر 2 البقرة ، آیت نمبر159)

ترجمہ: "بیشک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے اتارا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کردیا ہے، ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔"(قران:2:159)

الله تعالی ہمیں توفیق دے کہ ہم الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی مکمل اطاعت کرسکیں - آمین

رابطہ :

  1. E Mail: Tejdeed@gmail.com
  2. FB Inbox: https://www.facebook.com/IslamiRevival/inbox

ضمیمہ1

رسول اللہ ﷺ  کی اطاعت کے احکام، نافرمانی  کی سزا جہنم

مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (النساء : ۸۰)

جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(٤:٨٠)

رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :  "--- جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی....[رواہ ابو ہریرہ، البخاری،2957][85]

وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ  وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14﴾      

اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول  (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا  ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿قران :4:14 ﴾

تمام احکام مذکورہ اللہ تعالیٰ کی باندھی ہوئی حدیں اور اس کے مقرر کردہ ضابطے ہیں  جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اللہ و رسول کا کہنا نہ مانے گا اور اس کی باندھی ہوئی حدوں کو توڑ کر بڑھ جائے گا اور اس کے مقررہ ضابطوں سے تجاوز کرنے پر اصرار کرے گا اور اس کے قوانین کی بالکل خلاف ورزی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ میں داخل کردے گا۔ اور اس کا یہ حال ہوگا کہ وہ اس آگ میں ہمیشہ ہمیش پڑا رہے گا اور اس کو ذلت و اہانت آمیز اور رسوا کن عذاب ہوگا-[86]

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿٣٣﴾

اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو (قرآن 47:33)

يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٢١﴾  إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾

 اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (قرآن؛ 8:22)

ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا[87]

 جو اللہ کا رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے روکے اس سے باز رہو۔(قران 59:7)[88]

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰)

اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرواور سن کر اس سے منہ نہ پھیرو ۔ (الانفال : ۲)

یَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوۡہُہُمۡ فِی النَّارِ یَقُوۡلُوۡنَ یٰلَیۡتَنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰہَ وَ اَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا ﴿۶۶﴾

"جس دن ان کے چہرے جہنم میں الٹ پلٹ کیے جا رہے ہوں۔تو وہ کہیں گے کاش! ہم نے اللہ کی اور رسول  صلی الله علیہ وسلم  کی اطاعت کی ہوتی۔"(الاحزاب:66)

یَوۡمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ عَصَوُا الرَّسُوۡلَ لَوۡ تُسَوّٰی بِہِمُ الۡاَرۡضُ ؕ وَ لَا یَکۡتُمُوۡنَ اللّٰہَ حَدِیۡثًا ﴿٪۴۲﴾  3

"جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش! انہیں زمین کے ساتھ ہموار کر دیا جاتا اور اللہ تعالٰی سے کوئی بات نہ چھُپا سکیں گے ۔۔" (النساء: 42)

وَ یَوۡمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیۡہِ یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِی اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِیۡلًا ﴿۲۷﴾

اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کو (شرمندگی اور ندامت سے) کاٹتے ہوئے کہے گا،ہائے کاش! میں رسول اللہ  صلی الله علیہ وسلم  کے طریقہ کو ہی اپناتا۔"(الفرقان: 27)

وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ {ترجمہ: ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی (2:256قرآن)}


"لو اب تم ایسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا ۔ جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا ‘ وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو ‘ اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے ۔ تمہارے آپس میں سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہوگئے جن کا تم زعم رکھتے تھے "(سورة الأنعام, 6:94)[89]


Books and Article by By  Brigadier Aftab Khan (r)

رساله تجديد الاسلام

Author: Brig Aftab Ahmad Khan (r)

اردو -  (اس ترتیب میں پڑھیں )

  1. رساله تجديد الاسلام - انڈکس: ویب سائٹ :  https://bit.ly/Tejdee0d-Islam
  2. مصادر الإسلام: -https://bit.ly/IslamicSources-pdf \ https://bit.ly/Islamic-Sources
  3. رساله تجديد الاسلام: مقدمہ-  ویب سائٹ : https://bit.ly/Tejddeed

 https://bit.ly/تجدیدالسلام-مقدمہ  PDF

  1. تجديد الاسلام تحقیق( :  https://bit.ly/Tejdeed-Islam-PDF (Pdf eBook
  2.  تجديد ایمان Web https://bit.ly/Aymaan /  https://bit.ly/Aymaan-g
  3. شفاعت اور شریعت : https://bit.ly/Shfaat   \ https://bit.ly/Shafaat-pdf
  4. رسول اللہ ﷺ کا میعار حدیث: https://bit.ly/Hdees
  5. مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ :  https://bit.ly/Muslim-Tragedy
  6. Important Hadiths اہم احادیث: https://bit.ly/Hadiths 
  7.  متضاد عقائد و نظریات: https://bit.ly/WrongBeliefs-Pdf  https://bit.ly/Wrong-Beliefs
  8. Google Doc (Urdu): https://bit.ly/3jsw67y
  9. Full Research  Google Doc (Urdu): http://bit.ly/31lYQV3 

English

  1. Web  link: https://wp.me/scyQCZ-tajdid
  2. Exclusive Website: https://Quran1book.wordpress.com
  3. Download/ Share  eBooklet- pdf: http://bit.ly/3s6eEse
  4. Full Research (Web): https://wp.me/scyQCZ-index
  5. Full Research (Google Doc): https://bit.ly/3fM75jH
  6. Contact: https://www.facebook.com/IslamiRevival/inbox
  7. E Mail: Tejdeed@gmail.com

1)غیر تجارتی مقصد، .دعوہ  کے لیے ویب سائٹ / لنک کا حوالہ دے کر میڈیا پر کاپی اور شیئر کرنا احسن اقدام ہو گا 2)یہ مطالعہ قرآن کی واضح (آیاتٌ مُّحْكَمَاتٌ ، أُمُّ الْكِتَابِ) سنت ، حدیث اور مستند تاریخ  کی بنیاد پر ہے۔ ا اینڈ نوٹس/ لنکس / ریفرنسز ملاحضہ فرمائیں 3) پڑھنے کے بعد  اگر کوئی سوالات  اور شبہات ہوں تو وہ  مکمل تحقیق کا مطالعہ کرنے سے دور ہو سکتے ہیں ان شاءاللہ


رسالہ تجديد الإسلام - انڈکس

https://bit.ly/Tejdeed-Islam

  1. مصادر الإسلام
  2. تجدید ایمان
  3.  تجديد الإسلام: مقدمہ  [-Abstract English]
  4. رسول اللہ ﷺ کا  میعارحدیث
  5. متضاد عقائد و نظریات  https://bit.ly/Wrong-Beliefs
  6. مسلم المیہ (تضاد \ Paradox)  https://bit.ly/Muslim-Tragedy
  7. شفاعت یا شریعت
  8.  قرآن  ترک العمل  ( مھجور)
  9. مقصد حیات: کامیاب  اور ناکام کون؟
  10. بدعة،  گمراہی (ضَلَالَۃٌ)
  11. اسلام ، مسلم فرقہ واریت کا خاتمہ
  12. قرآن اور عقل و شعور
  13. اصول دین (بنیادی عقائد) اور فروع دین ( ارکان اسلام )
  14. شاه کلید قرآن:  Master Key Quran (3:7)
  15. اہم احادیث
  16. حادیث لکھنے کی ممانعت 
  17. احادیث پر احادیث - تقييد العلم للخطيب البغدادي
  18. رسول اللہ ﷺ وصیت  (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )  کا انکار اور بدعت
  19. سنت خلفاء راشدین کی شرعی حثیت اور کتابت حدیث  کیوں نہ کی؟ 
  20. احادیث سے استفادہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی؟
  21. مسلمان بھی یہود و نصاری کے نقش قدم پر
  22. قرآن و حدیث اور" توریت و تلمود" موازنہ
  23. تجدید اسلام کا آغاز
  24.  تجديد الإسلام کا آغاز  / MBS Video
  25. تدوین قرآن مجید
  26. ‎قرآن احسن الحدیث
  27. قرآن کا تعارف قرآن سے
  28. اہم آیات قرآن
  29. موضوع تحقیق (تھیم)
  30. خلاصہ تحقیق -  تجديد الإسلام-1
  31. : احیاء دین کامل
  32. حدیث لسٹ  https://wp.me/scyQCZ-list  Hadith List
  33. اہل قرآن اور اہل حدیث کے مغالطے
  34. سینٹ پال ، سینٹ پطرس اور امام بخاری (رح ) کے خواب
  35.  من گھڑت داستانوں سے حقائق  مسخ ، رسول اللہﷺ کی حکم عدولی
  36. حضرت عمر (رضی الله) کا اہم ترین کارنامہ(1)
  37. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اجتہاد
  38. حضرت عمر بن خطاب  ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ (سیرہ)
  39. عظیم فاتح: اﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ یا ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ؟
  40. Caliph Umer & Hadith
  41. Uumar Ibn Al-khattab  By Micheal Hart
  42. البدعة الكبيرة Big Bid'ah
  43. تجديد الإسلام  (ای - بک)
  44. آخری رسول اور آخری کتاب - قرآن : اطاعت رسول و سنت
  45. حدیث کی قبولیت ، قرآن سے مشروط ( مودودی )
  46. اسنت , حدیث اور متواتر حدیث
  47. وحی متلو اور غیر متلو تحقیقی جائزہ (1)
  48. وحی متلو  اور غیر متلوتحقیقی جائزہ (2) [قرآن کا مثل ؟]
  49. الله ، قرآن پر غلط بیانی کرنا حرام [Don't Hide Truth ]
  50.  "کتاب حدیث" ممنوع - قرآن
  51. کتمان حق : آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا سنگین جرم
  52. فقیہ و محدثین
  53. احیا  دین کامل -٩٩: تحقیق کے اہم نقاط و نتائج
  54. دلیل روشن کے ساتھ ہلاک یا زندہ -( سورة الأنفال42)
  55. فقیہ و محدثین
  56. عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
  57. عالم، محدث، مفسرین صحابہ نے  حدیث لکھنے کی ممانعت  پر مکمل عمل کیا  
  58. تجديد الإسلام- خلاصہ تحقیق-2
  59. شیعہ اصلاحات
    اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر ﴿ البقرة ٢٨٦﴾


أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ 

رساله تجديد الاسلام

https://bit.ly/Tejdeed-Islam 

http://SalaamOne.com/Revival

https://Quran1book.blogspot.com

https://Quran1book.wordpress.com

https://www.facebook.com/IslamiRevival 

https://bit.ly/Tejdeed-Islam

<iframe height="1000px" src="https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vTO_3GitvkQhdOAGkSKiTzz3LeLGjoQA1LzIMQIXTl6SdFLrMM1Ib0m8ANGM52QyO-81BO09gxRxIM9/pub?embedded=true" width="100%"></iframe></div>

https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vTO_3GitvkQhdOAGkSKiTzz3LeLGjoQA1LzIMQIXTl6SdFLrMM1Ib0m8ANGM52QyO-81BO09gxRxIM9/pub?

تدبرِ قرآن

مولانا امین احسن اصلاحی

سورۃ نمبر 2 البقرة

آیت نمبر 129

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

رَبَّنَا وَابۡعَثۡ فِيۡهِمۡ رَسُوۡلًا مِّنۡهُمۡ يَتۡلُوۡا عَلَيۡهِمۡ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الۡكِتٰبَ وَالۡحِكۡمَةَ وَ يُزَكِّيۡهِمۡ‌ؕ اِنَّكَ اَنۡتَ الۡعَزِيۡزُ الۡحَكِيۡمُ  ۞

ترجمہ:

اور اے ہمارے رب تو ان میں انہی میں سے ایک رسول مبعوث فرما جو ان کو تیری آیتیں سنائے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دے اور ان کا تزکیہ کرے، بیشک تو غالب اور حکمت والا ہے۔  ؏

تفسیر:

“ ان میں انہی میں سے ایک رسول اٹھا، یعنی ہماری ذریت میں سے ”۔ چونکہ اس موقع پر حضرت ابراہیم کے ساتھ صرف حضرت اسماعیل (علیہ السلام) ہی تھے اور وہی اس وادی غیر ذی زرع میں بسائے جا رہے تھے اس وجہ سے اس دعا کا تعلق لازما انہی کی ذریت سے تھا۔ اس کا کوئی تعلق بھی حضرت اسحاق کی ذریت سے نہیں ہوسکتا۔ تورات کے الفاظ سے بھی یہی بات نکلتی ہے کہ آخری نبی کی بعثت حضرت اسماعیل کی نسل سے ہونے والی تھی۔ تثنیہ باب 18 میں حضرت موسیٰ کی جو مشہور پیشین گوئی ہے اس میں فرمایا ہے “ تیرے ہی بھائیوں میں سے تیری مانند ایک نبی برپا کرے گا ” آگے چل کر ہے “ میں ان کے لیے انہیں کے بھائیوں میں سے ”۔ یہ الفاظ صاف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس سے مراد بنی اسماعیل ہی ہیں۔ گر بنی اسرائیل مراد ہوتے تو صحیح تعبیر “ انہی کے بھائیوں میں سے ” کی بجائے “ انہی میں سے ” کی ہوتی۔ اسی طرح “ تیرے ہی بھائیوں میں سے ” کی جگہ “ تمہارے ہی اندر سے ” کے الفاظ وارد ہوتے۔ علاوہ ازیں یہاں “ میری مانند ” کے الفاظ بھی قابل لحاظ ہیں۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ جس نبی کی بعثت کے پیشین گوئی کی گئی تھی ایک صاحب رسالت رسول کی تھی۔ قرآن مجید کی مذکورہ دعا میں اسی لحاظ سے رسول کا لفظ وارد ہوا ہے۔ ہم آگے کسی مناسب موقع پر رسول اور نبی کے فرق کو ظاہر کریں گے۔ یہاں جس رسول کی بعثت کے لیے دعا کی گئی ہے۔ اس کے تین مقاصد بتائے گئے۔ ایک تلاوت آیات، دوسرا تعلیم کتاب و حکمت، تیسرا تزکیہ۔

تلاوت آیات کا مفہوم : آیت لغت میں اس چیز کو کہتے ہیں، جس سے کسی چیز پر دلیل لائی جاسکے۔ اس پہلو سے آسمان و زمین کی ہر چیز آیت ہے۔ اس لیے کہ ان میں سے ہر چیز خدا کی قدرت و حکمت اور اس کی مختلف صفات خلق و تدبیر پر ایک دلیل ہے۔ اسی طرح وہ معجزات بھی آیت ہیں جو انبیاء (علیہم السلام) سے ظاہر ہوئے اس لیے کہ وہ بھی اپنے پیش کرنے والوں کی سچائی پر دلیل تھے۔ علی ہذا القیاس قرآن مجید کے الگ الگ جملوں کے لیے بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ اس لیے کہ فی الحقیقت ان میں سے ہر آیت کی حیثیت ایک دلیل وبرہان کی ہے جس سے خدا کی صفات اور ان کے احکام و قوانین اور اس کی مرضیات کا علم ہوتا ہے۔ “ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ ” کے الفاظ سے اس زور اور اختیار کا اظہار ہورہا ہے، جس سے مسلح ہو کر خدا کا ایک رسول اس دنیا میں آت ہے۔ یہ واضح رہے کہ رسول محض ایک خوش الحان قاری کی طرح لوگوں کو قرآن سنانے نہیں آتا، بلکہ وہ خدا کے سفیر کی حیثیت سے لوگوں کو آسمان و زمین کے خالق ومالک کے احکام و فرامین اور اس کے دلائل وبراہین سے آگاہ کرتا ہے۔ علاوہ ازیں وحی الٰہی کے لیے آیات کے لفظ سے اس حقیقت کا بھی اظہار ہورہا ہے کہ خدا کا دین تحکم اور جبر پر مبنی نہیں ہے بلکہ یہ تمام تر دلائل وبراہین پر مبنی ہے اور اس کے ہر ٹکڑے کے اندر اس کی دلیل ہے۔

تعلیم کتاب و حکمت کا مفہوم : اب آئیے تعلیم کتاب و حکمت کے الفاظ پر غور فرمائیے۔ یہ بات بالکل واضح ہے کہ تعلیم، تلاوت سے ایک بالکل مختلف چیز ہے۔ تلاوت آیات تو یہ ہے کہ رسول نے لوگوں کو آگاہ کردیا کہ خدا نے اس کے اوپر یہ وحی نازل کی ہے۔ تعلیم یہ ہے کہ نہایت شفقت و توجہ کے ساتھ ہر استعداد کے لوگوں کے لیے اس کی مشکللات کی وضاحت کی جائے، اس کے اجمالات کی تشریح کی جائے، اس کے مقدرات کھولے جائیں اور اس کے مضمرات بیان کیے جائیں اور اس توضیح وبیان کے بعد بھی اگر لوگوں کے ذہن میں سوالات پیدا ہوں تو ان کے سوالوں کے جواب دیے جائیں۔ مزید برآں لوگوں کی ذہنی تربیت کے لیے خود ان کے سامنے سوالات رکھے جائیں اور ان کے جوابات معلوم کرنے کی کوشش کی جائے تاکہ لوگوں کے اندر فکر و تدبر کی صلاحیت اور کتاب الٰہی پر غور کرنے کی استعداد پوری طرح بیدار کرنے کی استعداد پوری طرح بیدار ہوجائے۔ یہ ساری باتیں تعلیم کے ضروری اجزا میں سے ہیں اور ہر شخص جس نے آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے حالات زندگی کا مطالعہ کیا ہے اس بات سے اچھی طرح واقف ہے کہ آپ نے اپنے صحابہ کے لیے تعلیم کتاب کے یہ تمام طریقے اختیار فرمائے۔ تعلیم کے ساتھ یہاں دو چیزوں کا ذکر کیا گیا ہے۔ ایک کتاب کا، دوسری حکمت کا۔ کتاب سے مراد تو ظاہر ہے کہ قرآن مجید ہے۔ اس لفظ کی تحقیق ہم اس سورة کی آیت 2 کی تفسیر کے ذیل میں بیان کر آئے ہیں۔ لفظ حکمت کی تحقیق مولانا فراہی نے اپنی کتاب مفردات القرآن میں جو بیان فرمائی ہے اس کا ضروری حصہ ہم یہاں پیش کرتے ہیں۔ وہ لکھتے ہیں۔ “ رہی حکمت تو وہ تعبیر ہے اس قوت و صلاحیت کی جس سے انسام معاملات کا فیصلہ حق کے مطابق کرتا ہے۔ حضرت داود کی تعریف میں ارشاد ہوا ہے “ واتیناہ الحکمۃ وفصل الخطاب۔ ہم نے اس کو حکمت عطا کی اور فیصلہ معاملات کی صلاحیت ”۔ یہاں فصل الخطاب کے لفظ سے اس اثر کو بیان کیا ہے جو حکمت کا ثمرہ ہے۔ جس طرح فیصلہ معاملات کی صلاحیت حکمت کے ثمرات میں سے ہے۔ اسی طرح اخلاق کی پاکیزگی اور تہذیب بھی اس کے ثمرات میں سے ہے۔ اسی وجہ سے اہل عرب حکمت کا لفظ انسان کی اس قوت وصلاحیت کے لیے بھی استعمال کرتے ہیں جو عقل و رائے کی پختگی اور شرافت اخلاق کی جامع ہوتی ہے۔ چناچہ دانش مند اور مہذب آدمی کو حکم کہا جاتا ہے اور جو بات عقل اور دل دونوں کے نزدیک بالکل واضح ہو اس کو حکمت سے تعبیر کرتے ہیں ”۔ حکمت کا ذکر یہاں کتاب کے ساتھ اس بات پر دلیل ہے کہ تعلیم حکمت تعلیم کتاب سے ایک زائد شے ہے، اگرچہ یہ حکمت سر تا سر قرآن حکیم ہی سے ماخوذ و مستنبط ہو۔ اس وجہ سے ہمارے نزدیک جو لوگ حکمت سے حدیث مراد لیتے ہیں، ان کی بات میں بڑا وزن ہے۔ یہاں یہ امر ملحوظ رکھنا چاہیے کہ حکمت چونکہ حکیمانہ بات کو بھی کہتے ہیں اور حکیمانہ بات کہنے کی صلاحیت کو بھی، اس وجہ سے تعلیم حکمت کے معنی جس طرح کسی کو کوئی حکیمانہ بات بتا دینے کے ہیں اسی طرح اس کے معنی لوگوں کے اندر حکمت کی صفت و صلاحیت پیدا کرنے کے بھی ہیں۔ رسول کا تیسرا مقصد تزکیہ بتایا گیا ہے۔ لفظ تزکیہ دو مفہوموں پر مشتمل ہے۔ ایک پاک و صاف کرنے پر، دوسرے نشوونما دینے پر، ہمارے نزدیک یہ دونوں چیزیں ایک دوسرے کے لیے لازم و ملزوم ہیں۔ جو چیز مخالف و مزاحم رواید و مفاسد سے پاک ہوگی وہ لازماً اپنی فطری صلاحیتوں کے مطابق پروان بھی چڑھے گی۔ انبیاء (علیہم السلام) نفوس انسانی کا جو تزکیہ کرتے ہیں اس میں یہ دونوں باتیں پائی جاتی ہیں۔ وہ لوگوں کے دلوں اور ان کے اعمال و اخلاق کو غلط چیزوں سے پاک صاف بھی کرتے ہیں اور ان کے اعمال و اخلاق کو نشوونما دے کر ان میں مفاسد اور مخالف و مزاحم چیزوں کے بالمقابل استقلال کے ساتھ سینہ سپر رہنے اور استقامت دکھانے کی قوت بھی پیدا کردیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تعلیم کتاب کے مقابلہ میں فوس کا تزکیہ کہیں زیادہ دیدہ ریزی، مشقت اور صبر وریاض کا طالب ہے۔ چناچہ قرآن مجید میں اس کا ذکر تمام دین و شریعت کے غایت و مقصد کی حیثیت سے ہوا ہے۔ اس حقیقت کی وضاحت ہم انشاء اللہ آگے کسی موزوں مقام پر کریں گے۔ عزیز اور حکیم کا مفہوم : آیت کے خاتمہ پر خدا کی دو صفتوں۔ عزیز و حکیم۔ کا حوالہ ہے۔ عزیز کے معنی غالب عزت و قوت والے کے ہیں۔ یعنی وہ ذات جو پوری قوت وصولت اور پورے اختیار و اقتدار کے ساتھ اس کائنات پر فرمانروائی کر رہی ہے۔ حکیم کے معنی ہیں جس کے ہر کام میں حکمت، مصلحت اور مقصد وغایت ہو۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفتوں کا حوالہ بالعموم ایک ساتھ آتا ہے۔ اس سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی ان دونوں صفتوں کا حوالہ بالعموم ایک ساتھ آتا ہے۔ اس سے اس حقیقت کا اظہار ہوتا ہے کہ اللہ ت عالیٰ اس کائنات پر پوری قوت اور پورے غلبہ کے ساتھ حاوی اور متصرف ہے لیکن اس کے غلبہ و اقتدار کے معنی یہ نہیں ہیں کہ وہ اس کے زور میں جو چاہے کر ڈالے، بلکہ وہ جو کچھ بھی کرتا ہے حکمت و مصلحت کے ساتھ کرتا ہے۔ اس کا کوئی کام بھی حکمت و مصلحت سے خالی نہیں ہوتا۔ یہاں ان دونوں صفتوں کا حوالہ دینے سے مقصود یہ ہے کہ جو عزیز و حکیم ہے، اس کی عزت و حکمت کا لازمی تقاضا یہ ہے کہ وہ اپنی پیدا کی ہوئی اس مملکت میں اپنا سفیر اور پیغمبر بھیجے جو اس کی رعیت کو اس کے احکام وقوانین سے آگاہ کرے اور ان کو شریعت اور حکمت کی تعلیم دے۔

نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی : منکرین سنت کا دعوی یہ ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اصلی ذمہ داری بحیثیت پیغمبر کے صرف یہ تھی کہ اللہ تعالیٰ آپ پر جو وحی نازل فرمائے آپ وہ لوگوں تک پہنچا دیں۔ اس کے بعد بحیثیت رسول کے آپ کا فرض ختم ہوجاتا ہے۔ اس کے بعد نہ تو اللہ تعالیٰ کی طرف سے آپ پر کوئی ذمہ داری ہی ہے اور نہ وحی الٰہی یا بالفاظ دیگر قرآن، کے سوا آپ کے کسی قول یا فعل کی کوئی مستقل شرعی اہمیت ہی ہے۔ ہمارے نزدیک منکرین سنت کے اس دعوے کی تردید کے لیے قرآن مجید کی یہ آیت ہی کافی ہے۔ اس میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض منصبی کی جو تفصیل کی گئی ہے۔ اس میں صرف لوگوں کو قرآن سنا دینے ہی کا ذکر نہیں ہے بلکہ اس کے ساتھ متعدد دوسری چیزوں کا بھی ذکر ہے اور اس آیت سے واضح ہے کہ ان چیزوں کا ذکر بھی آپ کے فرائض نبوت ہی کی حیثیت سے ہوا ہے۔ آیت پر ایک نظر پھر ڈال لیجیے۔ فرمایا ہے “ رَبَّنَا وَابْعَثْ فِيْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْھُمْ يَتْلُوْا عَلَيْهِمْ اٰيٰتِكَ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَالْحِكْمَةَ وَيُزَكِّيْهِمْ ۭ اِنَّكَ اَنْتَ الْعَزِيْزُ الْحَكِيْمُ ” اے ہمارے رب، ان میں بھیجیو ایک رسول انہی میں سے جو ان کو پڑھ کر سنائے تیری آیتی اور ان کو تعلیم دے کتاب اور حکمت کی اور ان کا تزکیہ کرے۔ بیشک تو غالب اور حکمت والا ہے۔

یہ اس دعا کے الفاظ ہیں جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی بعثت کے لیے حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل نے فرمائی تھی۔ اسی دعا کے مطابق جب آنحضرت کی بعثت ہوئی تو اللہ تعالیٰ نے اہل عرب پر اپنے اس احسان عظیم کا اظہار یوں فرمایا هُوَ الَّذِي بَعَثَ فِي الأمِّيِّينَ رَسُولا مِنْهُمْ يَتْلُو عَلَيْهِمْ آيَاتِهِ وَيُزَكِّيهِمْ وَيُعَلِّمُهُمُ الْكِتَابَ وَالْحِكْمَةَ وَإِنْ كَانُوا مِنْ قَبْلُ لَفِي ضَلالٍ مُبِينٍ ، وہی خدا ہے جس نے بھیجا امیوں (بنی اسماعیل) میں ایک رسول انہی میں سے جو ان کو پڑھ کر سناتا ہے اس کی آیتیں اور ان کو پاک کرتا ہے اور ان کو کتاب اور حکمت کی تعلیم دیتا ہے۔ بیشک یہ لوگ اس سے پہلے کھلی ہوئی گمراہی میں تھے۔

ان دونوں آیتوں پر غور کیجیے تو یہ حقیقت واضح ہوگی کہ حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے جن صفات کے پیغمبر کے لیے دعا کی تھی آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعینہ انہیں صفات کے ساتھ مبعوث ہوئے اور آپ نے امیوں کے اندر عملاً وہ سارے کام انجام دیے بھی جن کے لیے حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعا فرمائی تھی۔ ان دونوں ہی مقامات میں جہاں تک آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے فرائض کا تعلق ہے ان کے بیان میں کوئی اختلاف نہیں۔ اگر کوئی اختلاف ہے تو صرف یہ کہ پہلی آیت میں تزکیہ کا ذکر سب کے آخر میں ہے اور دوسری آیت میں تعلیم کتاب و حکم ت سے پہلے لیکن تلاوت آیات کے بعد۔ یہ فرق کوئی خاص اہمیت رکھنے والا فرق نہیں۔ تزکیہ کے مقدم و موخر ہونے کی وجہ ایک دوسرے مقام میں ہم واضح کرچکے ہیں کہ تزکیہ تمام دین و شریعت کی غایت اور بعثت انبیاء کا اصل مقصود ہے اور جو چیز کسی کام میں غایت و مقصود کی حیثیت رکھتی ہے وہ عمل میں اگرچہ موخر ہوتی ہے لیکن ارادہ میں مقدم ہوتی ہے اس وجہ سے اصل اسکیم میں اس کا ذکر مقدم بھی ہوسکتا ہے اور موخر بھی۔ چناچہ اسی اعتبار سے تزکیہ کا ذکر ایک آیت میں مقدم ہوا ہے دوسری میں موخر۔ اس ترتیب کے فرق کے علاوہ دوسری ساری باتیں دونوں آیتوں میں بالکل مشترک ہیں اور ان میں نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے مندرجہ ذیل فرائض بتائے گئے ہیں۔ 1 ۔ تلاوت آیات۔ 2 ۔ تعلیم کتاب و حکمت۔ 3 ۔ تزکیہ۔ ان میں سے جہاں تک پہلی چیز۔ تلاوت آیات۔ کا تعلق ہے، ہم بلا کسی بحث و نزع کے تسلیم کیے لیتے ہیں کہ اس سے مراد لوگوں کو قرآن مجید سنانا ہی ہے۔ دین و دانش دونوں ہی سے اس بات کی شہادت ملتی ہے کہ خدا کے ایک رسول کا اولین فریضہ یہی ہونا چاہیے کہ وہ اللہ کے بندوں تک اس کی وحی کو پہنچائے لیکن اس تلاوت کے متعلق یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ یہ اس طرح نہیں ہوئی ہے کہ لوگوں کو پوری کتاب بیک دفعہ سنادی گئی ہو بلکہ یہ 23 سال کی وسیع و طویل مدت میں تھوڑی تھوری کر کے اتاری گئی اور اسی تدریج کے ساتھ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے لوگوں کو سبقاً سبقاً اس کی تعلیم دی۔ یہ اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ کتاب کوئی سہل اور سپاٹ کتاب نہیں ہے بلکہ یہ نہایت گہرے علوم و معارف اور اعلی اسرار و حقائق کی کتاب ہے۔ اس وجہ سے اس کے لیے یہ ضروری ہوا کہ یہ سبق سبق کر کے پڑھائی جائے تاکہ لوگوں کی اس کے خزانوں تک رسائی ہوسکے۔ اس حقیقت کو قرآن نے یوں واضح کیا ہے وَقُرْآنًا فَرَقْنَاهُ لِتَقْرَأَهُ عَلَى النَّاسِ عَلَى مُكْثٍ (اسراء :106) اور ہم نے اس قرآن کو تھوڑا تھوڑا کر کے اتارا تاکہ تو لوگوں کو اس کو وقفہ وقفہ کے ساتھ سنائے۔ قرآن حکیم کی مذکورہ بالا خصوصیت اس بات کی مقتضی ہوئی کہ پیغمبر (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اس کو ایک قاری کی طرح صرف سناد ینے ہی پر اکتفا نہ فرمائیں بلکہ ایک معلم کی طرح پوری دلسوزی اور پورشی شفقت کے ساتھ لوگوں کو اس کی تعلیم بھی دیں۔ چناچہ اسی بنا پر تلاوت کے ساتھ ساتھ آپ کا دوسرا فرض تعلیم کتاب بتایا گیا۔ یہ تعلیم کتاب کا فریضہ آپ کے فرائض نبوت ہی کا ایک جز اور آپ کا معلم ہونا آپ کے منصب رسالت ہی کا ایک پہلو ہے۔ اس وجہ سے اپنی اس حیثیت میں آپ نے جو کچھ لوگوں کو سکھایا اور بتایا اس کو آپ کے فرائض نبوت سے نہ تو خارج کیا جاسکتا اور نہ اس کا درجہ اصل کتاب کے مقابل میں گرایا ہی جاسکتا۔ اب غور فرمائے کہ اس تعلیم کے تقاضے کیا کیا ہوسکتے ہیں۔ اس کا ایک بالکل ابتدائی تقاضا تو یہ ہے کہ قرآن میں جو شرعی اصطلاحات مثلاً زکوۃ صلوۃ، زکوۃ، حج، صیام، طواف، عمرہ، نکاح، طلاق وغیرہ استعمال ہوئی ہیں لیکن ان کی عملی شکلیں واضح نہیں کی گئی ہیں ان کو آپ اچھی طرح لوگوں پر واضح کردیں تاکہ لوگ عملی زندگی میں ان کو اختیار کرسکیں اور ان کے مختلف اجزاء کا دین میں جو مقام ہے اس کو متعین کرسکیں۔ دوسری چیز یہ ہے کہ قرآن میں فکر و عمل کی تصحیح کے جو اصول دیے گئے ہیں ان کے لوازم و تضمنات کے ضروری گوشے واضح کردیے جائیں تاکہ ان ابواب میں مزید رہنمائی حاصل کرنے کے لیے وہ روشنی کے میناروں کا کام دیں۔ اسی طرح ایک چیز یہ بھی ہے کہ قرآن میں جو احکام شریعت دیے گئے ہیں ان کی حیثیت صرف اصولی احکام کی ہے۔ ان میں سے ہر باب کے تحت بیشمار صورتیں ایسی آتی ہیں جن میں احکام کا تعین معلم کی رہنمائی اور اجتہاد پر چھور دیا گیا ہے۔ ظاہر ہے کہ اس اجتہاد کے لیے امت کو بہترین رہنمائی ان مثالوں ہی سے مل سکتی تھی جو اس کتاب کے معصوم معلم نے اپنے اجتہاد سے قائم کیں۔ چوتھی چیز یہ ہے کہ قرآن اجتماعی زندگی کا ایک نظام بھی پیش کرتا ہے لیکن اس کے صرف چاروں گوشے متعین کردینے والے اصول دے کر اس کی جزئیات و تفصیلات اور اس کے عملی ڈھانچہ کے معاملہ کو معلم کی ذمہ داری پر چھوڑ دیا گیا ہے۔ اس چیز کو بھی لوگوں نے حضور ہی کی تعلیم سے سیکھا۔ ان کے علاوہ ایک اہم چیز یہ بھی ہے کہ زیر بحث آیت میں صرف تعلیم کتاب ہی کا ذکر نہیں ہے بلکہ تعلیم حکمت کا بھی ذکر ہے۔ تعلیم حکمت تعلیم شریعت سے بہت وسیع چیز ہے۔ اس سے مراد، جیسا کہ اس لفظ کی وضاحت کرتے ہوئے ہم بیان کرچکے ہیں، وہ دانش و بینش اور بصیرت و معرفت ہے جو زندگی کے ان بعید گوشوں میں بھی انسان کی رہنمائی کرتی ہے جہاں رہنمائی کرنے والی اس کے سامنے کوئی اور روشنی نہیں ہوتی۔ اب غور کیجیے کہ یہ ساری باتیں تعلیم کے تقاضوں میں سے ہیں یا نہیں ؟ اور آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان ساری چیزوں کی تعلیم کے لیے بحیثیت ایک خدائی معلم کے مامور تھے یا نہیں ؟ اگر ان سوالوں کا جواب اثبات میں ہے اور ظاہر ہے کہ ان کا جواب اثبات ہی کی صورت میں ہوسکتا ہے تو غور کیجیے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اپنی اس حیثیت میں جو کچھ کہا اور کیا ہے اس کو آپ کے فرائض نبوت کے دائرے سے الگ کس طرح کیا جاسکتا ہے اور اس کی اہمیت کو گھٹا یا کس طرح جاسکتا ہے ؟ اور پھر اس بات پر غور کیجیے کہ احادیث میں ان چیزوں کے سوا کیا ہے جو آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بحیثیت معلم کتاب و حکمت ہونے کے بتائی ہیں یا ان پر عمل کرکے دکھایا ہے ؟ اسی طرح اب تزکیہ پر غور کیجیے۔ تزکیہ کا عمل ظاہر ہے کہ تعلیم سے کہیں زیادہ پیچیدہ اور سیع الاطراف ہے۔ اوپر ہم واضح کر آئے ہیں کہ اس لفظ میں پاک صاف کرنے اور نشوونما دینے، دونوں کا مفہوم شامل ہے یہ بیک وقت علمی بھی ہے اور عمی بھی، ظاہری بھی باطنی بھی، مادی اور جسمانی بھی ہے اور عقلی و روحانی بھی، نیز یہ انفرادی بھی ہے اور سماجی واجتماعی بھی۔ مختصراً چند بنیادی تقاضے اس کے بھی سامنے رکھ لیجیے۔ اس کا ایک ضروری تقاضا تو یہ ہے کہ لوگوں کے اذہان، اعمال اور اخلاق پر خورد بینی نگاہ ڈال کر ان جراثیم سے ان کو پاک کیا جائے جو روحانی اور اخلاقی بیماریوں کے سبب بنتے ہیں اور ساتھ ہی ان کے اندر نیکیوں کی تخم ریزی کی جائے جو انسان کے ظاہرو باطن کو سنوارتی اور اس کے عادات و خصائل کو مہذب بناتی ہیں۔ اس کا دوسرا تقاضا یہ ہے کہ لوگوں کی اس طرح تربیت کی جائے کہ ہر خوبی ان کے اندر جڑ پکڑ جائے اور ہر برائی کے خلاف طبیعتوں میں نفرت بیٹھ جائے۔ اس کا تیسرا تقاضا یہ ہے کہ اس تعلیم و تربیت سے ایک ایسا ماحول پیدا کردیا جائے جو تزکیہ نفوس کے لیے ایک وسیع تربیت گاہ کا کام دینے لگ جائے، جو شخص بھی اس میں اٹھے اسی ماحول کے اثرات لیے ہوئے اٹھے اور جو شخص بھی اس کے اندر داخل ہوجائے اس پر اسی کا رنگ چڑھ جائے۔ اس تفصیل سے یہ حقیقت واضح ہوئی کہ یہ خیال بڑا مغالطہ انگیز ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا فریضہ منصبی بحیثیت رسول کے رف یہ تھا کہ آپ لوگوں کو قرآن پہنچا دیں۔ قرآن کا پہنچا دینا آپ کے فرائض منصبی کا صرف ایک جزو تھا۔ اس کے علاوہ آپ کی یہ ذمہ داری بھی تھی کہ آپ ایک معلم کی طرح لوگوں کو اس قرآن کی تعلیم دیں، اس کے مضمرات و تضمنات، اس کے اجمالات و اشارات اور اس کے اسرار و حقائق لوگوں پر واضح کردیں، اس کے عجائب حکمت کی روشنی میں افراد اور معاشرہ کی تربیت کے اصول و فروع بھی متعین فرمائیں اور ان اصولوں کے مطابق لوگوں کا تزکیہ بھی کریں۔ یہ سارے کام آپ کے فرائض نبوت میں شامل تھے۔ اس وجہ سے ان مقاصد کے تحت آپ نے جو کچھ بتایا یا جو کچھ کیا اس سب کو امت نے اسی طرح واجب التعمیل سمجھا جس طرح قرآن کو سمجھا اور اسی اہمیت کے ساتھ اس کی حفاظت اور اس کے نقل و روایت کا اہتمام کیا۔ اس کے کسی جزو کے متعلق یہ سوال تو اٹھایا جاسکتا ہے کہ اس کا انتساب آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی طرف پوری صحت کے ساتھ ثابت ہے یا نہیں لیکن اس کو دین و شریعت سمجھنے سے انکار کرنا خود قرٓن مجید کے انکار کے ہم معنی ہے۔

القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة

آیت نمبر 269

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

يُؤۡتِى الۡحِكۡمَةَ مَنۡ يَّشَآءُ‌‌ ۚ وَمَنۡ يُّؤۡتَ الۡحِكۡمَةَ فَقَدۡ اُوۡتِىَ خَيۡرًا كَثِيۡرًا‌ ؕ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ۞

ترجمہ:

وہ جس کو چاہتا ہے حکمت بخشتا ہے اور جسے حکمت ملی اسے خیر کثیر کا خزانہ ملا، مگر یاد دہانی وہی حاصل کرتے ہیں جو عقل والے ہیں۔

القرآن - سورۃ نمبر 2 البقرة

آیت نمبر 251

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

فَهَزَمُوۡهُمۡ بِاِذۡنِ اللّٰهِ ۙ وَقَتَلَ دَاوٗدُ جَالُوۡتَ وَاٰتٰٮهُ اللّٰهُ الۡمُلۡكَ وَالۡحِکۡمَةَ وَعَلَّمَهٗ مِمَّا يَشَآءُ ‌ؕ وَلَوۡلَا دَفۡعُ اللّٰهِ النَّاسَ بَعۡضَهُمۡ بِبَعۡضٍ لَّفَسَدَتِ الۡاَرۡضُ وَلٰـکِنَّ اللّٰهَ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَى الۡعٰلَمِيۡنَ ۞

ترجمہ:

تو اللہ کے حکم سے انہوں نے ان کو شکست دی اور داوٗد نے جالوت کو قتل کردیا اور اللہ نے اس کو بادشاہی اور حکمت بخشی اور اس علم سے اس کو سکھایا جس میں سے وہ چاہتا ہے۔ اور اگر اللہ ایک کو دوسرے کے ذریعہ سے دفع نہ کرتا رہتا تو زمین فساد سے بھر جاتی۔ لیکن اللہ دنیا والوں پر بڑا فضل فرمانے والا ہے۔

القرآن - سورۃ نمبر 3 آل عمران

آیت نمبر 58

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

ذٰ لِكَ نَـتۡلُوۡهُ عَلَيۡكَ مِنَ الۡاٰيٰتِ وَ الذِّكۡرِ الۡحَكِيۡمِ ۞

ترجمہ:

(اے محمدﷺ) یہ ہم تم کو (خدا کی) آیتیں اور حکمت بھری نصیحتیں پڑھ پڑھ کر سناتے ہیں

القرآن - سورۃ نمبر 28 القصص

آیت نمبر 14

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَلَمَّا بَلَغَ اَشُدَّهٗ وَاسۡتَوٰٓى اٰتَيۡنٰهُ حُكۡمًا وَّعِلۡمًا‌ ؕ وَكَذٰلِكَ نَجۡزِى الۡمُحۡسِنِيۡنَ ۞

ترجمہ:

اور جب موسٰی جوانی کو پہنچے اور بھرپور (جوان) ہو گئے تو ہم نے اُن کو حکمت اور علم عنایت کیا۔ اور ہم نیکو کاروں کو ایسا ہی بدلہ دیا کرتے ہیں

القرآن - سورۃ نمبر 31 لقمان

آیت نمبر 2

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

تِلۡكَ اٰيٰتُ الۡكِتٰبِ الۡحَكِيۡمِۙ‏ ۞

ترجمہ:

یہ حکمت کی (بھری ہوئی) کتاب کی آیتیں ہیں

القرآن - سورۃ نمبر 33 الأحزاب

آیت نمبر 34

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاذۡكُرۡنَ مَا يُتۡلٰى فِىۡ بُيُوۡتِكُنَّ مِنۡ اٰيٰتِ اللّٰهِ وَالۡحِكۡمَةِؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ لَطِيۡفًا خَبِيۡرًا  ۞

ترجمہ:

اور تمہارے گھروں میں جو خدا کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں) ان کو یاد رکھو۔ بےشک خدا باریک بیں اور باخبر ہے  ؏

القرآن - سورۃ نمبر 36 يس

آیت نمبر 2

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَالۡقُرۡاٰنِ الۡحَكِيۡمِ ۞

ترجمہ:

قسم ہے قرآن کی جو حکمت سے بھرا ہوا ہے

القرآن - سورۃ نمبر 39 الزمر

آیت نمبر 1

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

تَنۡزِيۡلُ الۡكِتٰبِ مِنَ اللّٰهِ الۡعَزِيۡزِ الۡحَكِيۡمِ ۞

ترجمہ:

اس کتاب کا اُتارا جانا خدائے غالب (اور) حکمت والے کی طرف سے ہے

القرآن - سورۃ نمبر 43 الزخرف

آیت نمبر 4

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِنَّهٗ فِىۡۤ اُمِّ الۡكِتٰبِ لَدَيۡنَا لَعَلِىٌّ حَكِيۡمٌؕ ۞

ترجمہ:

اور یہ بڑی کتاب (یعنی لوح محفوظ) میں ہمارے پاس (لکھی ہوئی اور) بڑی فضیلت اور حکمت والی ہے


[1] https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Hadith-Criteria.html

[2] https://bit.ly/Hadith-Basics

[3] https://quransubjects.blogspot.com/2021/03/quran-key.html

[4] https://quransubjects.blogspot.com/2021/07/compilation.html

[5] https://tanzil.net/#3:4

[6] https://quransubjects.blogspot.com/2019/11/guide.html

[7] أَوَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ

https://quran1book.blogspot.com/2020/06/last-book-messenger.html

[8] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-sunnah.html

[9] تأمل, تخيل, ظن، اشتبه, ارتاب, ظن, توهم (suspect suspicious, suspicious, illusion)

[10] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-sunnah.html

[11] https://quransubjects.blogspot.com/2021/03/quran-key.html

[12] : “قطف الازہر متناتھرہ فی الخبار المتواتر”   [Qatf al-Azhar al-Mutanathara fi al-Akhbar al-Mutawatirah https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-sunnah.html

[13] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith.html

[14] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/jews-christian-footsteps.html   

(ترجمہ :  صحيح البخاري :3456 ،الأنبياء – صحيح مسلم :6781)

[15] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-talmud.html

[16] https://quran1book.blogspot.com/2020/10/hadith-ban.html

[17] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith.html

[18]  https://wp.me/scyQCZ-ban04

[19] https://wp.me/scyQCZ-ban05

[20] https://ur.wikipedia.org/wiki/صحیفہ_ہمام_ابن_منبہ

[21]   [تقييد العلم :33  / مسند احمد، حدیث 10670 ] http://lib.efatwa.ir/43553/1/33/ /  http://www.equranlibrary.com/hadith/musnadahmad/32/10670 , https://wp.me/scyQCZ-ban01 

[22] https://wp.me/scyQCZ-ban06

[23] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith.html

[24] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/4caliphs.html

[25] https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Last-Will.htm

[26] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-sunnah.html

[27] ابن ماجہ42 , سنن ابی داود 4607، انگریزی ترجمہ: کتاب41حدیث, 4590]  [سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر ١٢١٩، سنت کا بیان :سنت کو لازم پکڑنے کا بیان] وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني): https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Last-Will.html

[28] https://quran1book.blogspot.com/2021/11/HadithBan-Sahabh.html

[29] https://quran1book.blogspot.com/2021/11/HadithBan-Sahabh.html

[30] https://quran1book.blogspot.com/2021/07/Distortion.html

[31] https://bit.ly/Tejddeed

[32] https://quran1book.blogspot.com/2021/08/Bidah.html 

[33] Jonathan A.C. Brown, The Canonization of al-Bukhārī and Muslim: The Formation and Function of The Sunnī Ḥadīīh Canon (Leiden: Brill, 2007). Ignaz Goldziher, Muslim Studies, 242–3  ،: https://bit.ly/Tejddeed 

[34] https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_hadith_collections

[35] https://quran1book.blogspot.com/2021/08/Bidah.html [بدعة،  گمراہی (ضَلَالَۃٌ]

[36] https://quran1book.blogspot.com/2021/09/Quran-Neglected.html

[37] (بخاری 7006# ومسلم 6190 ) (مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 5988) http://www.equranlibrary.com/hadith/muslim/1705/6190

[38]  (قرآن :9:31)

[39] [ماخوز ازتفسیر،کشف الرحمان، احمد سید دہلوی] https://trueorators.com/quran-tafseer/4/14

[40] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith.html

[41] [رقم الحديث : ٣٣, تقييد العلم ]

[42] https://quran1book.blogspot.com/2020/08/narrative.html

[43] https://quran1book.blogspot.com/2021/07/Best-Hadith.html

[44] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/verses.html

[45] https://www.mubashirnazir.org/ER/Hadith/L0004-0902-Hadith.htm

[46] https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Hadith-Criteria.html

[47] https://salaamone.com/ur-intellect/

[48] Ibid

[49] http://www.equranlibrary.com/hadith/musnadahmad/947/22505

[50] https://trueorators.com/quran-tafseer/10/15

[51]http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/022/1.html ، https://quran1book.blogspot.com/2021/07/Hadith-Criteria.html

[52] https://wp.me/s9pwXk-2islam ڈاکٹر غلام جیلانی برق: دو اسلام

[53] http://www.equranlibrary.com/hadith/muslim/1792/2

[54] https://salaamone.com/mutwatir/

[55] http://www.equranlibrary.com/hadith/tirmadhi/1704/2906

[56] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/20:123

[57] http://www.equranlibrary.com/hadith/mishkaat/1908/185

[58] http://www.equranlibrary.com/hadith/muslim/1792/40

[59] https://quran1book.blogspot.com/2021/09/Quran-Neglected.html

[60] https://quran1book.blogspot.com/2020/08/narrative.html

[61] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/4caliphs.html

[62] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith.html ، [الحديث : ٣٣, تقييد العلم ]

[63] کتابت حدیث کی تاریخ – نخبة الفکر – ابن حجرالعسقلانی : https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-compilation-history.html

[64] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/misquoting-quran.html

[65] https://quran1book.blogspot.com/2021/07/Distortion.html

[66] https://quran1book.blogspot.com/2021/07/St-Paul-Imam-Bukhari-Dreams.html

[67] https://quran1book.blogspot.com/2021/08/Bidah.html

[68] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/wahi-ghair-matloo.html

[69] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadiths-prohibit-hadith.html

[70] http://www.equranlibrary.com/hadith/musnadahmad/32/10670

[71]  Umer Burns, Ban Hadith Book   https://wp.me/scyQCZ-omar3

[72] https://wp.me/scyQCZ-wahi2

[73] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/verses.html

[74] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-sunnah.html

[75] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith.html

[76] https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Last-Will.html

[77] https://salaamone.com/hadith-history/

[78] https://quransubjects.blogspot.com/2021/07/compilation.html

[79] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/4caliphs.html

[80] https://wp.me/scyQCZ-mishnah ، https://wp.me/scyQCZ-omar1

[81] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/fiqh-hadith.html

1.محمد بن اسماعیل بخاری (194-256ھ/810-870ء)، 2.مسلم بن حجاج (204-261ھ/820-875ء)، 3.ابو عیسی ترمذی (209-279ھ/824-892ء)، 4..سنن ابی داؤد (امام ابو داؤد متوفی   275ھ/9-888ء، 5۔ سنن نسائی (امام نسائی) متوفی 303ھ/16-915ء 6۔ سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ) متوفی 273ھ/87-886ء

[82] https://quran1book.blogspot.com/2020/10/are-hadees-books-bidaa.html

[83]  https://bit.ly/Tejdeed-Islam

[84] https://quransubjects.blogspot.com/2020/08/hiding-verses.html

[85] http://www.equranlibrary.com/hadith/bukhari/1497/2957

[86] [ماخوز ازتفسیر،کشف الرحمان، احمد سید دہلوی] https://trueorators.com/quran-tafseer/4/14

[87] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/33:21

[88] https://tanzil.net/#59:7

[89] http://www.equranlibrary.com/tafseer/baseeratequran/6/94