مَن تَزَكَّىٰ
زکوٰۃ کے بارے میں ایک مبسوط رسالہ جس میں ضرورت کے ہر گوشے کا احاطہ کیا گیا ہے
سید محمد سلیم قادری نوری نقشبندی
Updated on: Mar 20, 2022
فہرست
مادہ ز ک و کے ایک سے زائد مشتقات والی آیات
اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے فرمایا
زکوٰۃ کی حقیقت ہر جگہ موجود ہے
مال کو نصاب میں تقسیم کرنا سیکھیں
سونے چاندی کے (طلائی و نقرئی) زیور
اگر عورتیں بناؤ سنگھار نہ کریں
تقسیمِ زکوٰۃ کیلئے امام غزالی کا مشورہ
کسی بھی دینی کام کیلئے زکوٰۃ کی اجازت
مصرف ملنے پر زکوٰۃ میں تاخیر نہ کریں
مال داروں سے زکوٰۃ وصول کی جائے
وہ سولہ جنہیں زکوٰۃ نہیں دے سکتے
وہ سولہ جنہیں زکوٰۃ دے سکتے ہیں
نصاب پر دسترس نہ ہونا کے کیا معنی ہیں؟
زکوٰۃ میں تملیک (مالک بنانا) شرط ہے
مالِ غیر نامی (فکس اماؤنٹ) کی زکوٰۃ کا طریقہ
صحابۂ کرام کا صدقۃٔ فطر کا طریقہ
صدقۂ فطر دینے والے غنی و فقیر
روزے کا کفارہ واجب ہونے کی چند صورتیں
قسموں، منتوں اور نذروں کا کفارہ
تین گناہ جن کا کوئی کفارہ نہیں
نمازیں، جمعہ اور رمضان: درمیانی گناہوں کے کفارے
اسلام: ماقبل کے تمام گناہوں کا کفارہ
تھکاوٹ، مرض، رنج، غم: گناہوں کے کفارے
علم کی تلاش: گزشتہ گناہوں کا کفارہ
إِنَّا آلُ مُحَمَّدٍ لَا نَأْكُلُ الصَّدَقَةُ
ابراہیم و اسماعیل و اسحاق (علیہم السلام)
تولہ، ماشہ، رتی کا گرام سے تبادلہ
تولہ، ماشہ، رتی اور گرام کا اونس سے تبادلہ
نوری آستانہ کسی تعارف کا محتاج نہیں۔ اس کی دینی خدمات سے آپ بخوبی واقف ہیں۔ آستانے میں کافی تعمیری/مرمتی کام کی ضرورت ہے۔ اور اسے کچھ مشینوں کی بھی ضرورت ہے اور بزرگوں کا کافی تحریری کام ہے جسے شائع کرانا ہے۔ یہ سب آپ کے تعاون سے ہی ممکن ہے۔
اپنی زکوٰۃ (یا اس کا بیشتر یا کچھ حصہ) ہر سال نوری آستانے کو دیا کریں۔ نہ صرف زکوٰۃ بلکہ فطرانہ (صدقۂ فطر)، اپنے صدقات اور عطیات اور اپنے نذرانوں کیلئے اپنے آستانے کو یاد رکھیں، بلکہ دوسروں کو بھی ترغیب دیں کہ وہ آستانے کو اپنی مالی عبادات کا مرکز بنائیں۔ یہ آپ کی طرف سے صدقۂ جاریہ ہوگا۔
اپنے صدقاتِ واجبہ بھی آستانے کو دیئے جاسکتے ہیں اور نافلہ و مستحبہ بھی۔ صدقاتِ واجبہ میں منّتیں اور نماز روزے کے کفارے وغیرہ بھی شامل ہیں۔
جو اپنے احباب سے زکوٰۃ کی تحصیل (کلیکشن) اپنے آستانۂ نوری کیلئے کرے، میری محبتیں اور دعائیں اور نیک تمنائیں اس کے ساتھ ہیں۔
زکوٰۃ کلیکٹ کرنا بھی آپ کی تربیت کا حصہ ہے کہ اپنی صلاحیتوں کو شیخ صاحب کے فرمان کے مطابق استعمال کریں اور اپنے وسائل کو آستانے کی ترویج و اشاعت کیلئے لگائیں۔
یہ نوریوں میں عاجزی اور سمجھ پیدا کرنے کا ایک ذریعہ بھی ہے اور اعتماد کے ساتھ لوگوں کو حکمِ خدا کی طرف مائل کرنے کا وسیلہ بھی۔
سب سے پہلے تو اپنی زکوٰۃ نکالیں کہ عالم باعمل کی بات اثر رکھتی ہے، پھر اپنے رشتہ داروں اور قریبی ساتھیوں سے بھی زکوٰۃ کی کلیکشن کریں۔ کچھ ملے یا نہ ملے، یہ بعد کی بات ہے، سب سے پہلے تو حکمِ شیخ اور اپنی تربیت کا حصہ سمجھ کر دل و جان سے اس طرف توجہ کریں۔
ایک امیر زادہ مرید ہوا تو پِیر نے کشکول تھما کر بھیک لانے کو کہا۔ امیر زادہ شام کو ساری بھیک لا کر شیخ کو دیتا۔ ایک روز خالی ہاتھ لوٹا تو حسرت سے کہنے لگا کہ آج شہر والوں نے بھیک نہ دی۔ پیر نے غصے سے فرمایا کہ دماغ سے ابھی تک امارت نہ گئی۔ تجھے اس سے کیا۔ مال مقصود نہیں، تیرے دماغ سے منصب و مرتبے کا خناس دور کرنا مقصود ہے۔
مالی چندے کی اس اپیل کے بعد اب کچھ باتیں زکوٰۃ فطرہ وغیرہ کے بارے میں یہاں لکھی جا رہی ہیں تاکہ علمی اعتبار سے بھی تمام نوری مضبوط ہوں اور لا علمی میں کسی کے دھوکے یا چرب زبانی کا شکار نہ ہوں۔ نیز اس رسالے میں ساداتِ نوریہ کا مکمل شجرہ بھی دیا گیا ہے۔ اور بھی کافی کچھ آپ کی دلچسپی کا سامان ہے۔
کلمہ "زکوٰۃ" کا مادہ ’زکو (ز ک و)‘ ہے۔ اس کلمے کے مندرجہ ذیل ۱۹؍ مشتقات ۲۹؍ سورتوں کی ۵۶؍ آیات میں کل ۵۹ بار یوں وارد ہوئے ہیں۔
ان ۱۹, مشتقات میں سے ۵؍ مشتقات وہ بھی ہیں جن میں کلمہ "زکوٰۃ" کامل طور پر موجود ہے۔
یہ پانچ کلمات قرآنِ پاک کی ۱۹؍ سورتوں کی ۳۲؍ آیات میں کل ۳۲ بار آئے ہیں۔
قرآنِ پاک کی جن آیات میں زکوٰۃ کے مادے کے مشتقات آئے ہیں ان میں سب سے مختصر اور سب سے طویل آیات یہ ہیں۔
{ وَ الَّذِينَ هُمْ لِلزَّكَوٰةِ فَٰعِلُونَ } [المؤمنون: 4].
اس آیت کے پانچ کلمات میں ۱۹؍ حروف ہیں۔
{ … فَاقْرَءُوا مَا تَيَسَّرَ مِنْهُ وَ أَقِيمُوا الصَّلَوٰةَ وَ ءَاتُوا الزَّكَوٰةَ وَ أَقْرِضُوا اللَّهَ قَرْضًا حَسَنًا … } [المزمل: 20].
اس آیت کے ۹۱؍ کلمات اور ۳۳۰؍ حروف ہیں۔
قرآنِ پاک میں زکوٰۃ کا سب سے پہلا لفظ سورت البقرہ کی آیت ۴۳؍ میں اور سب سے آخری بار سورت البینہ کی پانچویں آیتِ میں وارد ہوا ہے۔
{ وَ أَقِيمُوا الصَّلَوٰةَ وَ ءَاتُوا الزَّكَوٰةَ وَ ارْكَعُوا مَعَ الرَّٰكِعِينَ } [البقرة: 43].
{ وَ مَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا اللَّهَ مُخْلِصِينَ لَهُ الدِّينَ حُنَفَاءَ وَ يُقِيمُوا الصَّلَوٰةَ وَ يُؤْتُوا الزَّكَوٰةَ وَ ذَٰلِكَ دِينُ الْقَيِّمَةِ } [البينة: 5].
تین آیات وہ ہیں جن میں زکوٰۃ کے مادے (روٹ ورڈ [ز ک و]) کے مشتقات دو دو بار آئے ہیں۔ وہ آیات یہ ہیں:
تاہم یہ مشتقات زکوٰۃ کے معنی میں نہیں بلکہ پاکی اور پاک ہونے کے معنوں میں استعمال ہوئے ہیں۔ ان تین کے علاوہ کسی آیت میں اس مادے کے تین یا اس سے زائد مشتقات موجود نہیں۔
زكّى يُزَكّي تزكيةً، و الزكاة سے اسمِ زکوٰۃ مندرجہ ذیل ایک سے زائد معنوں میں استعمال ہوتا ہے۔
یعنی اس لفظ کے معنی میں ہی برکت اور بڑھوتری ہے جو اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ زکوٰۃ دینے کی وجہ سے مال میں کمی نہیں ہوتی بلکہ یہ تو بڑھوتری اور برکت کا باعث ہے۔ کتاب العین[1] (دنیا کی پہلی لغت … المؤلف: أبو عبد الرحمن الخليل بن أحمد بن عمرو بن تميم الفراهيدي البصري (ت ١٧٠هـ)) میں ہے کہ وكل شيء ازداد ونما فهو يزكو زَكاءً "ہر چیز جو زیادہ ہوتی ہے اور نمو پاتی ہے وہ زکاء ہے۔"
قرآنِ پاک میں زکوٰۃ اور انفاق فی سبیل اللہ کیلئے صدقے کا کلمہ بھی آتا ہے۔ اور ۲۲؍ آیاتِ قرآنیہ میں اس کے ۱۸؍ مشتقات وہ ہیں جو صرف خرچ، صدقہ خیرات اور خود زکوٰۃ کیلئے بھی استعمال ہوئے ہیں۔ جیسے
بلکہ جب مصارفِ زکوٰۃ ایک فہرست کی صورت میں گنوائے گئے تو انہیں کلمہ "صدقہ" سے ذکر کیا گیا۔
{ إِنَّمَا الصَّدَقَٰتُ لِلْفُقَرَاءِ وَ الْمَسَٰكِينِ وَ الْعَٰمِلِينَ عَلَيْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَ فِي الرِّقَابِ وَ الْغَٰرِمِينَ وَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ وَ اللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ } [التوبة: 60].
اسی طرح جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کو تحصیلِ زکوٰۃ (مسلمانوں کے اموال سے زکوٰۃ وصول کرنا) کا حکم ہوا تو وہاں بھی زکوٰۃ کے بجائے صدقہ کہا گیا ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے
{ خُذْ مِنْ أَمْوَٰلِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَ تُزَكِّيهِم بِهَا وَ صَلِّ عَلَيْهِمْ إِنَّ صَلَوٰتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ وَ اللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ } [التوبة: 103].
زکوٰۃ کے علاوہ صدقے کا کلمہ ان معنوں میں بھی استعمال ہوا ہے۔
ہر بالغ آزاد صاحب نصاب مسلمان پر زکوٰۃ دینا فرض ہے۔ اس کی فرضیت کا انکار کفر ہے کہ اس کی فرضیت قرآن و حدیث سے واضح طور پر ثابت ہے۔
’تمہارے اسلام کا پورا ہونا یہ ہے کہ تم اپنے مالوں کی زکوٰۃ ادا کرو۔‘ (الحدیث)
"گھوڑوں اور غلاموں کی زکوٰۃ تو میں نے معاف کردی، روپوں کی زکوٰۃ دو ہر چالیس درہم میں سے ایک درہم" (الحدیث)
’جوقوم اپنے اموال کی زکوٰۃ نہیں دیتی اللہ ﷻ اُن سے بارش روک لیتا ہے اور اگر جانور نہ ہوتے تو کبھی بارش نہ ہوتی۔‘ (الحدیث)
مُفَسِّرِ شَہِیر، حکیم الاُمَّت مفتی احمد یار خان نعیمیؒ فرماتے ہیں: زکوٰۃ دينے والے کی زکوٰۃ ہر سال بڑھتی ہی رہتی ہے، تجربہ ہے۔ (یعنی اس کا مال بڑھتا رہتا ہے تو زکوٰۃ بھی بڑھتی رہتی ہے۔ یہ نہ صرف مفتی صاحب کا بلکہ عوام الناس کا بھی تجربہ ہے۔ نوری)
زکوٰۃ کی حقیقت ہر جگہ موجود ہے۔ جیسے کہ پھلوں کا گودا انسان کے لیے ہے مگر چھلکا جانوروں کا حق ہے۔ گندم میں پھل ہمارا حصہ مگر بھوسہ جانوروں کا، گندم میں بھی آٹا ہمارا ہے تو بھوسی جانوروں کی۔ ہمارے جسم میں بال اور ناخن وغیرہ کا حد شرعی سے بڑھنے کی صورت میں علیحدہ کرنا ضروری ہے کہ یہ سب جسم کی زکوٰۃ یعنی اضافی چیز مَیل ہیں۔ بیماری تندرستی کی زکوٰۃ، مصیبت راحت کی زکوٰۃ، نمازیں دنیاوی کاروبار کی گویا زکوٰۃ ہیں۔
زکوٰۃ کی فرضیت کتاب وسنّت سے ثابت ہے۔ اللہ عَزَّوَجَلَّ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے:
{ وَ أَقِيمُوا الصَّلَوٰةَ وَ ءَاتُوا الزَّكَوٰةَ … } [البقرة: 43].
ترجمہ: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو۔
صدر الافاضل حضرت مولانا سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ (م ۱۳۶۷ھ) اس آیت کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں لکھتے ہیں: ''اس آیت میں نماز و زکوٰۃ کی فرضیت کا بیان ہے۔''
آیتِ مبارکہ میں کلمات شریف کی یہ ترکیب قرآنِ پاک میں کُل آٹھ بار وارد ہوئی ہے۔ یہ ایک بہت خوبصورت اور حیرت انگیز اتفاق ہے کہ زکوٰۃ کے مصارف بھی قرآنِ پاک میں آٹھ ہی بیان ہوئے ہیں۔ آیاتِ مبارکہ یہ ہیں۔ علامتِ حذف (…) سے مراد یہ ہے کہ یہاں سے کلمات اختصار کیلئے حذف کئے گئے ہیں۔
حضرت سیدنا عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما سے روا یت ہے کہ شہنشاہِ مدینہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے ارشاد فرمایا :''مجھے اللہ ﷻ نے اس پر مامور کیا ہے کہ مَیں لوگوں سے اس وقت تک لڑوں جب تک وہ یہ گوا ہی نہ دیں کہ اللہ ﷻ کے سوا کو ئی سچا معبود نہیں اور محمد (صلی اللہ تعا لیٰ علیہ وآلہ وسلم ) خدا کے سچے رسول ہیں، ٹھیک طرح نماز ادا کریں، زکوٰۃ دیں، پس اگر ایسا کر لیں تو مجھ سے ان کے مال اور جانیں محفوظ ہو جائیں گے سوائے اس سزا کے جو اِسلام نے (کسی حد کے سلسلہ میں) ان پر لازم کر دی ہو۔''
بخاری شریف میں ہے:-
حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرما تے ہیں: جب رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کا وصالِ ظاہری ہو گیا اور حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ خلیفہ بنے اور کچھ قبائل عرب مرتد ہو گئے (کہ زکوٰۃ کی فرضیت اور ادائیگی سے انکار کر بیٹھے) تو حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: آپ لوگوں سے کیسے معاملہ کریں گے جب کہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ اٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا ہے : ''مَیں لو گوں سے جہاد کرنے پر ما مور ہوں جب تک وہ لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ نہ پڑھیں۔ جس نے لَا اِلٰہَ اِلَّا اللہ کا اقرار کر لیا اس نے اپنی جان اور اپنا مال مجھ سے محفوظ کر لیا مگر یہ کہ کسی کا حق بنتا ہو اور وہ اللہ عَزَّوَجَلَّ کے ذمہ ہے۔'' (یعنی یہ لوگ تو لَآ اِلٰہَ اِلَّا اللہُ کہنے والے ہیں، ان پر کیسے جہاد کیا جائے گا)
حضرت سیدنا ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے کہا: ''اللہ عَزَّوَجَلَّ کی قسم! مَیں (ہر) اس شخص سے جہاد کروں گا جو نماز اور زکوٰۃ میں فرق کریگا (کہ نماز کو فرض مانے اور زکوٰۃ کی فرضیت سے انکار کرے) اور زکوٰۃ مال کا حق ہے۔ بخدا اگر انہوں نے (واجب الأداء) ایک رسی بھی روکی جو وہ رسول اللہ صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم کے دور میں دیا کرتے تھے تو مَیں ان سے جنگ کروں گا۔''
حضرت سیدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ فرماتے ہیں :''وﷲ! میں نے دیکھا کہ ﷲ تعالیٰ نے صدیق کا سینہ کھول دیا ہے۔ اُس وقت میں نے بھی پہچان لیا کہ وہی حق ہے۔''
بہارِ شریعت کے مؤلف حضرت صدر الشریعہ، بدر الطریقہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اس روایت کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں: ''اس حدیث سے معلوم ہوا کہ نِری کلمہ گوئی اِسلام کیلئے کافی نہیں، جب تک تمام ضروریاتِ دِین کا اِقرار نہ کرے اور امیر المؤمنین فاروق اعظم رضی اللہ تعالیٰ عنہ کا بحث کرنا اس وجہ سے تھا کہ ان کے علم میں پہلے یہ بات نہ تھی، کہ وہ فرضیت کے منکر ہیں۔ یہ خیال تھا کہ زکوٰۃ دیتے نہیں اس کی وجہ سے گنہگار ہوئے، کا فر تو نہ ہوئے کہ ان پر جہاد قائم کیا جائے، مگر جب معلوم ہوگیا تو فرماتے ہیں میں نے پہچان لیا کہ وہی حق ہے، جو سیدنا صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے سمجھا اور کیا۔ ''
اپنے متعلقات کے اعتبار سے اس کی چھ قسمیں ہیں:
زکوٰۃ کی بنیادی طور پر ۲؍ قسمیں ہیں۔
زکوٰۃ صرف تین۳؍ چیزوں پر ہے:
باقی کسی چیز پر نہیں۔
مندرجہ ذیل پر زکوٰۃ فرض نہیں:
مندرجہ ذیل صورتوں میں زکوٰۃ نہیں:
جب آپ زکوٰۃ ادا کرتے ہیں تو اس معاملے میں شریعتِ مطہرہ کی جانب سے کچھ چھوٹ بھی ہے جسے عام لوگ تو کجا، بہت سے دیندار لوگ بھی نہیں جانتے۔ اس کی اصل یہ ہے کہ زکوٰۃ کلُ مال پر نہیں بلکہ مال کے نصاب پر ہوتی ہے۔ لوگ آسانی کیلئے اپنی تمام مالیت کو ۴۰؍ سے تقسیم کر دیتے ہیں۔ یاد رکھیں کہ زکوٰۃ نصاب کا چالیسواں حصہ ہوتا ہے، کل مال کا چالیسواں نہیں۔
چونکہ زکوٰۃ کی تقسیم نصاب اور خُمس سے ہوتی ہے اس لئے اپنے قابلِ زکوٰۃ مال کو نصاب اور خُمس میں تقسیم کرنا اچھی طرح سے سیکھ لیں۔
اگر نصابِ زکوٰۃ ایک لاکھ روپے ہے اور کسی شخص کے پاس دو؍ لاکھ ۱۵؍ ہزار روپے قابلِ زکوٰۃ ہیں تو اس کے صرف دو نصاب بنے (یعنی ۲؍ لاکھ) جس پر زکوٰۃ بنے گی۔ باقی ۱۵؍ ہزار جو زائد ہیں اس کا کلیہ دوسرا ہے۔
اگر نصابات سے زائدہ رقم نصاب کے خُمس (پانچویں حصے) سے کم ہے تو معاف ہے۔ اگر زیادہ ہے تو اسے کامل نصاب گردانا جائے گا اور اس کا بھی چالیسواں حصہ ادا کیا جائے گا۔ اوپر کی مثال میں نصاب (ایک لاکھ) کا خُمس ۲۰؍ ہزار بنتا ہے اور اس کے پاس صرف ۱۵؍ ہزار زائد تھے اس لئے ان ۱۵؍ ہزار پر زکوٰۃ نہ ہوگی اور وہ صرف ۲؍ نصابوں کا چالیسواں حصہ (۵؍ ہزار روپے) زکوٰۃ ادا کرے گا۔ تاہم اگر قابلِ زکوٰۃ رقم ڈھائی لاکھ روپے ہوتی تو اسے دو کامل نصابوں اور دو کامل خمسوں کی زکوٰۃ ادا کرنی ہوتی یعنی 6,000.00 چھے ہزار روپے۔
مسئلہ : زید کے پاس زیور ہے، وہ اُس کی زکوٰۃ دیتا ہے۔ آئندہ کو زیور زیادہ ہو تو کس حساب سے زرِ زکوٰۃ زیادہ کیا جائے؟ بینوا توجروا۔
الجواب : شریعتِ مطہرہ نے سونے کی نصاب پر کہ حوائجِ اصلیہ سے فارغ ہو خواہ وُہ روپیہ اشرفی ہو، گہنا یا برتن یا ورق یا کوئی شَے، حولانِ حول قمری (چاند کا پورا سال) کے بعد چالیسواں حصّہ زکوٰۃ مقرر فرمایا ہے۔
سونے کی نصاب ساڑھے سات تولے ہے اور چاندی کی ساڑھے باون تولے، پھر نصاب کے بعد جو کچھ نصابِ مذکور کے پانچویں حصہ (خُمس) تک نہ پہنچے معاف ہے، اُس پر کچھ واجب نہیں۔
ھذا ھو مذھب صاحب المذھب رضی اللہ تعالٰی عنہ وھو الصحیح کما فی التحفۃ ثم مجمع الانہر
یہی صاحبِ مذہب یعنی امامِ اعظم رضی اللہ تعالٰی عنہ کا مذہب ہے اور یہی صحیح ہے؛ جیسا کہ تحفہ میں پھر مجمع الانہر میں ہے۔
جب خُمس کامل ہو جائے اس پر پھر اس خُمس کا چالیسواں حصہ فرض ہوگا یونہی ایک خُمس سے دوسرے تک عفو اور ہر خمسِ کامل پر اس کا ربع عشر (چالیسواں حصہ)۔
مثلاً ایک شخص کے پاس ۷؍ تولے سونا (ہے اور وہ) اس پر ۲؍ ماشے سونا زکٰوۃ دیتا ہے اور اگر ایک تولہ سے کم اس پر زائد ہے (مثلاً ایک رتی کم ۹؍ تولہ ہے) جب بھی وہی ۲؍ ماشے ۲؍ سُرخ واجب ہے؛ یہ رتی کم ایک تولہ معاف ہے۔
ہاں اگر پورا چھ ۶؍ ماشے ایک تولہ کہ خمسِ نصا ب ہے اور ہو تو اس کا بھی ربع عشر (۳/۵ء۳) سُرخ، اور واجب ہو گا کل ۹؍ تولے پر ۶؍ ماشے، ( ۳/۵ ء۵ ) سُرخ ہے۔
پھر ایک تولہ پورا ہونے تک کچھ نہ بڑھے گا، جب ۱۰؍ تولے ۶؍ ماشے کامل ہو وہی (۳/۵ ء۵ ) سُرخ اور بڑھ کر ۳؍ ماشہ (۱/۵ء۳) سُرخ واجب الادا ہوگا، وعلیٰ هذا القیاس۔
اسی طرح جس کے پاس۵۳؍ تولہ ۶؍ ماشہ چاندی ہے اس پر ۱؍ تولہ ۳؍ ماشہ چاندی واجب ہے اور جب تک ۱۰؍ تولے چاندی کہ خُمس نصاب ہے نہ بڑھے، یہی واجب رہے گا۔
جب ۶۳؍ تولے کامل ہو جائے تو اس ۱۰؍ تولے کا (۱/۴۰ ) یعنی ۳؍ ماشہ ۱؍ (۱/۵ ) سُرخ، اور زائد ہو کرایک تولہ ۱۰؍ ماشہ( ۲/۵ ) سُرخ کا وجوب ہوگا و علیہ قس۔
آسانی کیلئے یہ یاد رکھیں کہ ہر نصاب پر چالیسواں اور پھر زائدِ نصاب کے ہر خُمس پر چالیسواں حصہ زکوٰۃ ہے۔ ایک خُمس سے دوسرے خُمس تک زکوٰۃ کی چھوٹ ہے۔
اگر آپ کیلئے یہ مشکل ہے تو آپ اس لنک پر کلک کرکے گوگل شیٹس پر یہ تمام حساب کتاب دیکھ سکتے ہیں۔
نوٹ: اسے استعمال کرنے کیلئے موبائل میں گوگل شیٹس کا موجود ہونا ضرور ہے
زکوٰۃ اور خُمس کا حساب کتاب(لنک)
اس ضمن میں آخری بات یہ یاد رکھیں کہ یہ حساب کتاب اپنی زکوٰۃ بچانے کیلئے نہیں ہے، بلکہ اس لئے ہے کہ آپ شریعت کی باتوں سے واقف ہوں اور زکوٰۃ کی ادائیگی میں باریک بینی اور مبالغے سے کام لیں۔ اور کوشش کرکے ہمیشہ اپنی زکوٰۃ سے زیادہ ہی ادا کرنے کی کوشش کریں۔ اگر براہِ راست قابلِ زکوٰۃ مال کو ۴۰؍ سے تقسیم کردیں تو بھی جائز ہے۔
جہیز چونکہ عورت کی ملک ہوتا ہے لہٰذا فرض ہونے کی صورت میں اس کی زکوٰۃ بھی عورت کو دینا ہوگی۔
مہر دو قسم کا ہوتا ہے،
اگر عورت کا مہر معجل نصاب کے بقدر ہو تواس کا کم از کم پانچواں حصہ وصول ہونے پر اس کی زکوٰۃ ادا کرنا واجب ہو گا۔
اور غیر معجل مہر میں عموماً ادائیگی کا وقت طے نہیں ہو تا اور اس کا مطالبہ عورت طلاق یا شوہر کی موت سے پہلے نہیں کر سکتی۔ اس پر وصول کرنے کے بعد شرائط پوری ہونے کی صورت میں زکوٰۃ فرض ہوگی۔
ممنوعہ زیور (جیسے سونے چاندی کے برتن وغیرہ) میں بھی زکوٰۃ واجب ہے۔
نابالغ لڑکیوں کا جو زیور بنایا گیا اس کی دو صورتیں ہیں:
شفیعُ المذنبین، انیسُ الغریبین، سراجُ السالکین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی بارگاہِ اقدس ميں دو عورتيں حاضر ہوئيں، انہوں نے سونے کے کنگن پہن رکھے تھے، آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ان سے دریافت فرمایا :''کيا تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟'' انہوں نے عرض کی: ''نہيں۔'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا: ''کيا تم اس بات کو پسند کرتی ہو کہ اللہ ﷻ تمہيں آگ کے کنگن پہنائے؟'' انہوں نے عرض کی: ''ہر گز نہيں۔'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمايا: ''پھر اِن کی زکوٰۃ ادا کیا کرو۔''
مَحبوبِ ربُّ العلمین صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے اُم المؤمنين حضرت سيدتنا عائشہ صدیقہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کے ہاتھوں ميں چاندی کے کنگن ديکھے تو دریافت فرمایا :''يہ کيا ہے؟'' انہوں نے عرض کی :''يا رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم! ميں آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے لئے زينت اختیار کرتی ہوں۔'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''کيا تم اس کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو؟'' انہوں نے عرض کی :''نہيں۔'' تو آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا :''يہ تمہيں جہنم کے لئے کافی ہيں۔''
اللہ عَزَّوَجَلَّ کے مَحبوب، دانائے غُیوب، مُنَزَّہٌ عَنِ الْعُیوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم کی خدمت میں ایک عورت آئی، اس کے ساتھ اس کی بیٹی بھی تھی، جس کے ہاتھ میں سونے کے موٹے موٹے کنگن تھے۔ آپ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم نے اس عورت سے پوچھا ''کیا تم ان کی زکوٰۃ ادا کرتی ہو ؟'' اس عورت نے عرض کی ''جی نہیں۔'' آپ نے ارشاد فرمایا '' کیا تم اس بات سے خوش ہو کہ قیامت کے دن اللہ تعالیٰ تمہیں ان کنگنوں کے بدلے آگ کے کنگن پہنا دے؟''
یہ سنتے ہی اس نے وہ کنگن رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم کے آگے ڈال دئیے اور کہا :''یہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول ( صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ والہٖ وسلّم) کے لئے ہیں۔ ''
ایک بی بی چاندی کے چھلّے پہنے تھیں، فرمایا :ان کی زکوٰۃ دو گی ؟ انہوں نے کچھ انکار سا کیا۔ فرمایا: تو یہ ہی جہنّم میں لے جانے کو بہت ہیں۔
یمن کی ایک بی بی اور ان کی بیٹی بارگاہ بیکس پناہ محبوب الہ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم میں حاضر ہوئیں، دختر کے ہاتھ میں بھاری بھاری کنگن سونے کے تھے، مولیٰ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم نے فرمایا : تعطین زکوٰۃ ھذا اس کی زکوٰۃ دے گی۔ عرض کی : نہ۔فرمایا : ایسرک ان یسورک اللہ بھما یوم القیٰمۃ سوارین من نار ٍ۔کیا تجھے یہ بھاتا ہے کہ اللہ تعالٰی قیامت کے دن انکے بدلے تجھے آگ کے دو کنگن پہنائے؟ ان بی بی نے فوراً وہ کنگن اتار کر ڈال دئے اور عرض کی : ھما للہ و رسولہٖ صلی اللہ تعالٰی علیہ وسلم۔ یا رسول اللہ ! یہ دونوں اللہ ﷻ اور اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کے لیے ہیں۔
حضرتِ سیِّدَتُنا اسماء بنت یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا فرماتی ہیں کہ میں بارگاہِ رسالت میں بیعت کے لئے حاضر ہوئی (اس وقت) میں نے سونے کے کنگن پہنے ہوئے تھے۔ جب قریب پہنچی تو آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ان کی چمک دیکھ کر ارشاد فرمایا: ’’اے اسماء! انہیں اتار کر پھینک دو! کیا تم اس بات سے نہیں ڈرتیں کہ (اگر تم نے ان کی زکوٰۃ ادا نہ کی تو بروزِ قیامت) اللّٰہ عَزَّوَجَلَّ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے گا۔‘‘ میں نے کنگن اتار کر پھینک دیئے اور میں نہیں جانتی کہ انہیں کس نے اٹھایا؟
حضرتِ سیِّدَتُنا اسماء بنت یزید رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہَا نبی کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم کی خدمت کیا کرتی تھیں۔ فرماتی ہیں: ایک بار میں خدمت اقدس میں حاضر تھی کہ میری خالہ بارگاہِ رسالت میں کچھ پوچھنے کے لئے حاضر ہوئیں۔ انہوں نے سونے کے دو کنگن پہنے ہوئے تھے۔ آپ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ’’کیا یہ پسند کرتی ہو کہ تمہیں آگ کے کنگن پہنائے جائیں؟‘‘
میں نے کہا: ’’اے خالہ! رَسُوْلُ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم آپ کے ان کنگنوں کے بارے میں ارشاد فرما رہے ہیں (جو آپ نے پہنے ہوئے ہیں)۔‘‘ چنانچہ، انہوں نے وہ اتار کر پھینک دئیے اور عرض کی: ’’یا رَسُوْلَ اللّٰہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ! اگر عورتیں بناؤ سنگھار نہ کریں تو شوہروں کے نزدیک ان کی کوئی قدر ومنزلت نہ رہے گی۔‘‘
حضور نبی ٔرحمت صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے مسکراتے ہوئے ارشاد فرمایا: ’’کیا عورت یہ طاقت نہیں رکھتی کہ وہ چاندی کی بالیاں اور ہار لے کراس پر زعفران کا رنگ چڑھا لے کہ وہ سونے کی طرح ہو جائیں؟ کیونکہ جس نے بھی ٹڈی کی آنکھ کے وزن کے برابر یا چھلے کے برابر سونا پہنا (اور اس کی زکوٰۃ نہ دی) تو بروزِ قیامت اسے اس سے داغا جائے گا۔‘‘
مسئلہ:۔ سونا چاندی جب کہ بقدر نصاب ہوں تو ان کی زکوٰۃ چالیسواں حصہ نکالنی فرض ہے خواہ سونے چاندی کے ٹکڑے ہوں یا سکے یا زیورات یا سونے چاندی کی بنی ہوئی چیزیں مثلاً برتن، گھڑی، سرمہ دانی، سلائی وغیرہ غرض جو کچھ ہو سب کی زکوٰۃ نکالنی فرض ہے۔
مسئلہ:۔ جن زیورات کی مالک عورت ہو خواہ وہ میکے سے لائی ہو یا اس کے شوہر نے اس کو زیورات دے کر ان کا مالک بنادیا ہو تو ان کی زکوٰۃ ادا کرنا عورت پر فرض ہے اور جب زیورات کا مالک مرد ہو یعنی عورت کو صرف پہننے کے لئے دیا ہے مالک نہیں بنایا ہے تو ان زیورات کی زکوٰۃ مرد کے ذمہ ہے عورت پر نہیں۔
قرآنِ پاک میں زکوٰۃ کے کُل آٹھ ۸؍ مصارف بیان ہوئے ہیں۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:
{ إِنَّمَا الصَّدَقَٰتُ لِلْفُقَرَاءِ وَ الْمَسَٰكِينِ وَ الْعَٰمِلِينَ عَلَيْهَا وَ الْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَ فِي الرِّقَابِ وَ الْغَٰرِمِينَ وَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَ ابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللَّهِ وَ اللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ } [التوبة: 60]
ترجمہ: زکوٰة تو انہیں لوگوں کے لیے ہے ۱ محتاج اور ۲ نرے نادار اور ۳ جو اسے تحصیل کرکے لائیں ۴ اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے ۵ اور گردنیں چھڑانے میں ۶ اور قرضداروں کو ۷ اور اللہ کی راہ میں ۸ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا ہے اللہ کا، اور اللہ علم و حکمت والا ہے۔
یعنی زکوٰۃ کے مندرجہ ذیل آٹھ مصارف ہیں:-
آستانے کے تمام دینی مقاصد میں بھی اوپر درج شدہ پانچویں مصرف کے تحت زکوٰۃ لگائی جاسکتی ہے اور اللہ پاک سے قبولیت کی امید ہے۔
آخر کے تین مصارف عموماً شہروں میں موجود نہیں ہوتے۔ اس لئے اب زکوٰۃ پانچ مصارف میں ہی لگائی جاسکتی ہے۔
زکوٰۃ کے علاوہ بھی اللہ کے رستے میں مال خرچ کرنے کی بڑی فضیلت ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:
{ … وَ ءَاتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَ الْيَتَٰمَىٰ وَ الْمَسَٰكِينَ وَ ابْنَ السَّبِيلِ وَ السَّائِلِينَ وَ فِي الرِّقَابِ … } [البقرة: 177]
ترجمہ: … اللہ کی محبت میں اپنا عزیز مال دے رشتہ داروں اور یتیموں اور مسکینوں اور راہ گیر اور سائلوں کو اور گردنیں چھوڑانے میں…
اپنی زکوٰۃ آپ ایک ہی مصرف کو بھی دے سکتے ہیں اور ایک سے زیادہ کو بھی۔ بہتر یہ ہے کہ اس طرح تقسیمِ زکوٰۃ کریں کہ آپ کو زیادہ سے زیادہ اجر ملے۔
زکوٰۃ ادا کرنے والے کو اس (اپنے) شہر میں مصارفِ زکوٰۃ کی تعداد کے مطابق مال تقسیم کرنا چاہے اور مصارف کی تمام اقسام کا احاطہ کرنا چاہئے۔ ان آٹھ مستحقین میں سے دوا قسام اکثر شہروں میں نہیں پائی جاتیں وہ مؤلفۃ القلوب اور زکوٰۃ کے لئے کام کرنے والے ہیں۔ چار اقسام تمام شہروں میں پائی جاتی ہیں: فقراء، مساکین، مقروض اور مسافر۔ او ردو اقسام بعض شہروں میں پائی جاتی ہیں، بعض میں نہیں وہ جہاد کرنے والے اور مکاتب ہیں۔
جتنی اقسام کے لوگ اپنے شہر میں مل جائیں ان کی تعداد کے مطابق ان میں مال تقسیم کر دے پھر ہر قسم کو تین قسموں میں تقسیم کرے یا زیادہ حصے کر دے ایک قسم کے تحت سب کو برابر برابر دینا واجب نہیں اور جب نیک آدمی کو زکوٰۃ دینے پر قادر ہو تو بہتر ہے کہ اسے دے اور وہ متقی، عالم اور مستور الحال (یعنی جس کے حالات لوگوں سے پوشیدہ ہوں) اور (جسے زکوٰۃ دے) وہ اس کے رشتہ داروں میں سے ہو اور جب اس میں یہ باتیں پائی جائیں تواب زکوٰۃ کی قبولیت کے زیادہ قریب ہے۔ وَاللہُ اَعْلَمُ۔
یعنی اگر 6 مصارف شہر میں موجود ہوں تو کل زکوٰۃ (مثلاً 18000 روپے) کے 18 حصے کرے اور ایک مصرف پر تین حصے اس طرح صرف کرے کہ تینوں حصے ایک ہی مصرف کے الگ الگ افراد کے پاس جائیں۔
Zakat = 18000
Musraf = 6
Total Parts = 6 x 3 = 18
One Part = 18000 / 18 = 1000
Give 1000 for each Musraf (3 Different persons)
Zakat = 12000
Musraf = 4
Total Parts = 4 x 3 = 12
One Part = 12000 / 12 = 1000
Give 1000 for each Musraf (3 Different persons)
یہ امام غزالی کا بتایا ہوا طریقہ ہے اور مقبول ہے۔ اس کا بہترین فائدہ زکوٰۃ میں توازن کا قائم ہونا ہے اور اس سے یہ فورا معلوم ہو جاتا ہے کہ ایک فرد کے پاس کم سے کم کتنا حصہ زکوٰۃ کا جانا چاہئے۔
اوپر کی دونوں مثالوں سے یہ معلوم ہوگیا کہ ایک فرد کو کم سے کم زکوٰۃ کتنی ادا کی جائے گی۔ بعض لوگ زکوٰۃ کے اتنے حصے کر دیتے ہیں کہ ایک فرد کے پاس بمشکل 100 روپے آتے ہیں جو زکوٰۃ سے زیادہ خیرات لگتی ہے۔ اور کچھ دوسرے وہ بھی ہیں جو 18 ہزار میں سے 16 ہزار ایک ہی مصرف پر صرف کر دیتے ہیں۔ یہ اگرچہ کہ جائز تو ہے لیکن بہتر نہیں۔
زکوٰۃ اس طرح ادا کریں کہ ایک فرد کے پاس کم سے کم مقدار ضرور آئے۔
امام غزالی نے فی سبیل اللہ کو جہاد فی سبیل اللہ سمجھ کر فرمایا ہے کہ مجاہد ہر شہر میں نہیں ہوتے۔ جبکہ احناف اسے کسی بھی دینی کام کیلئے اجازت سمجھتے ہیں۔ اس لئے ہر شہر میں 5 مصارف زکوٰۃ موجود ہوتے ہیں۔ لہٰذہ کل زکوٰۃ کو 15 سے تقسیم کرکے دی جانے والی زکوٰۃ کی کم سے کم رقم معلوم کی جائے گی۔
Minimum Zakat Amount = Total Zakat / (Musraf x 3)
کیا آپ اس ڈیٹا (معلومات) سے زکوٰۃ کی کم سے کم مقدار معلوم کر سکتے ہیں؟
کل زکوٰۃ = 45000
مصارف = 5
کم سے کم زکوٰۃ = ؟
جو شخص قدرت ہونے کے باوجود زکوٰۃ کی ادائیگی میں تاخیر کرے تو وہ گناہگار ہوگا، پھر اگرچہ مال ہلاک ہو جائے لیکن زکوٰۃ اس سے ساقط نہ ہوگی۔ اور قدرت کا مطلب یہ ہے کہ اُسے مستحقِ زکوٰۃ (مصرف) مل جائے۔
اور اگر مستحق نہ ملنے کی وجہ سے تاخیر کرے اور مال ہلاک ہو جائے تو زکوٰۃ ساقط ہو جائے گی۔
امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فارو ق اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نہ صرف لوگوں سے زکوٰۃ کی وصولی فرماتے تھے بلکہ وقتاً فوقتاً انہیں ترغیب بھی دلاتے رہتے تھے۔ چنانچہ، امیر المؤمنین حضرت سیِّدُنا عمر فاروقِ اعظم رَضِیَ اللّٰہُ تَعَالٰی عَنْہ نے ارشاد فرمایا:
’’يَا اَهْلَ الْمَدِيْنَةِ اِنَّهُ لَا خَيْرَ فِيْ مَالٍ لَا يُزَكّٰى
یعنی اے مدینے والو! اس مال میں کوئی خیر نہیں جس کی زکوٰۃ ادا نہ کی گئی ہو۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو جب یمن بھیجا ‘ تو ان سے فرمایا کہ تم ایک ایسی قوم کے پاس جا رہے ہو جو اہل کتاب ہیں۔ اس لیے جب تم وہاں پہنچو تو پہلے انہیں دعوت دو کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے سچے رسول ہیں۔
وہ اس بات میں جب تمہاری بات مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر روزانہ دن رات میں پانچ وقت کی نمازیں فرض کی ہیں۔ جب وہ تمہاری یہ بات بھی مان لیں تو انہیں بتاؤ کہ ان کے لیے اللہ تعالیٰ نے زکوٰۃ دینا ضروری قرار دیا ہے ‘ یہ ان کے مالداروں سے لی جائے گی اور ان کے غریبوں پر خرچ کی جائے گی۔ پھر جب وہ اس میں بھی تمہاری بات مان لیں تو ان کے اچھے مال لینے سے بچو اور مظلوم کی آہ سے ڈرو کہ اس کے اور اللہ تعالیٰ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں ہوتی۔
اعلیٰ حضرتؒ فرماتے ہیں کہ مصرفِ زکوٰۃ ہر مسلمان حاجتمند ہے جسے اپنے مال مملوک سے مقدار نصاب (فارغ عن الحوائج الاصلیہ) پر دسترس نہیں بشرطیکہ
یہ سولہ شخص ہیں جنھیں زکوٰۃ دینی جائز نہیں، ان کے سوا سب کو روا (جائز)۔
ان سولہ کو بھی دینا روا جبکہ یہ سولہ اُن سولہ سے نہ ہوں ازانجا کہ (چونکہ) اُنھیں اُن سولہ سے مناسبت ہے (جن کو نہیں دے سکتے) جس کے باعث ممکن تھا کہ ان میں بھی عدمِ جواز (ناجائز ہونے) کا وہم جاتا، لہٰذا فقیر (اعلیٰ حضرتؒ) نے انہیں بالتخصیص (الگ) شمار کر دیا۔
جو نصاب مزبور پر دسترس رکھتا ہے ہرگز زکوٰۃ نہیں پاسکتا اگرچہ غازی ہو یا حاجی یا طالب علم یا مفتی۔
زکوٰۃ دینے میں تملیک (مالک بنانا) شرط ہے،جہاں یہ تملیک نہیں جیسے
ان سے زکوٰۃ ادا نہ ہوگی۔
کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ پراویڈنٹ فنڈ پر زکوٰۃ نہیں ہوتی۔ کچھ سمجھتے ہیں کہ سونا جب تک ساڑھے سات تولے کی مقدار کو نہیں پہنچے گا اس پر زکوٰۃ نہیں دینا ہوتی۔ کچھ سستی اور شاید کچھ لوگ تنگ دستی کے خوف سے سالہا سال زکوٰۃ ادا نہیں کرتے۔ ان سب سے گزارش ہے کہ اپنے تصورات پر نظر ثانی کریں۔ اور اگر خدا نخواستہ کئی سال سے زکوٰۃ ادا نہیں کی تو یہ غضب کی سستی ہے۔ اس سے توبہ کریں اور آج ہی اس تمام مال کی زکوٰۃ ادا کریں۔
نیچے بتائے گئے اس قیمتی فارمولے سے اپنی گزشتہ تمام سالوں کی زکوٰۃ معلوم کرلیں۔ یہ فارمولہ کئی طرح سے لکھا جاسکتا ہے۔ آپ کو جو آسان لگے، اسے استعمال کر سکتے ہیں۔ سب کا ایک ہی جواب آتا ہے۔
اس مالیت کی کئی صورتیں ہیں۔
اگر مال کی مالیت مستقل ہے تو اس کی کئی وجوہات ہو سکتی ہیں؛ جن میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے کہ آپ نے کسی بینک وغیرہ میں کوئی رقم رکھی اور پھر اسے بھول گئے۔ یا کسی کو قرض دیا اور اس نے کئی سال کے بعد لوٹایا ان سب صورتوں میں مال گویا کہ جامد ہوتا ہے اور گنتی میں گھٹتا یا بڑھتا نہیں۔
ایسے فکس اماؤنٹ والے مال کی کئی سالوں کی زکوٰۃ اس فارمولے سے معلوم کر سکتے ہیں:
اسی فارمولے کو یوں بھی لکھا جاسکتا ہے:
تاہم اگر آپ ماضی میں کسی خاص ایک سال (مثلاً صرف چوتھے سال) کی زکوٰۃ معلوم کرنا چاہتے ہیں تو یہ فارمولہ استعمال ہوگا۔
اس فارمولے کے دو اجزا کو یوں بھی لکھا جاسکتا ہے:
اگر آپ کیلئے اس فارمولے کو سمجھنا یا استعمال کرنا مشکل ہو تو اس لنک پر کلک کرکے حساب کتاب معلوم کر سکتے ہیں
کئی سالوں کی زکوٰۃ یہاں سے معلوم کریں (لنک)
Note: This same formula may be used for Finding GPF or other bank Accounts' Zakat.
اگر آپ نے ۹؍ سال تک زکوٰۃ نہیں دی تو اب کل رقم کا ۲۰, فیصد ادا کردیں؛ ۱۲؍ سال مہں ۲۶؍ فیصد؛ ۱۵؍ سال میں ۳۱؍ فیصد؛ ۱۸؍ سال میں ۳۶؍ فیصد؛ ۲۵؍ سال میں ۴۷؍ فیصد؛ ۷۰؍ سال میں ۸۳؍ فیصد ادا کریں۔
اگرچہ فارمولے کے مطابق ۴؍ سال میں کل رقم کا نواں حصہ؛ ۱۱؍ سال میں کل رقم کا ¼ حصہ؛ ۱۶؍ سال میں کل رقم کا ⅓ حصہ؛ ۲۸؍ سال میں کل رقم کا ½ حصہ؛ ۴۳؍ سال میں کل رقم کا ⅔ حصہ؛ ۵۵؍ سال میں کل رقم کا ¾ حصہ، اور ۶۰۰؍ سال میں ساری رقم زکوٰۃ کی مد میں ادا کی جائے گی۔ تاہم ایسا عملی طور پر ممکن نہیں کیونکہ پاکستان میں اوسط عمر ستر ۷۰؍ سال سے کم ہے؛ نیز اگر کُل مالیت نصاب سے کم ہو جائے تو اس پر زکوٰۃ نہیں ہوتی۔ یہ یاد رکھیں کہ ۷۰؍ سال میں ۸۳؍ فیصد (⅚ حصہ) رقم زکوٰۃ کی مد میں ادا کرنا ہوگی۔
یاد رکھیں کہ اگر کسی نے 17 سال تک زکوٰۃ ادا نہ کی تو اب اسے ایک تہائی رقم اس مد میں ادا کرنا ہوگی۔ اور اس میں ایک دن کی تاخیر بھی نہ کریں۔ شکریہ۔ کوئی بات سمجھ نہ آئے تو بلا تکلف معلوم کر سکتے ہیں۔
مال اگر نامی ہو اور ایک مستقل شرح سے بڑھ رہا ہو تو اس کیلئے درج ذیل فارمولہ استعمال کیا جاتا ہے۔
اس فارمولے میں اماؤنٹ سے مراد مالِ نامی کی تازہ ترین قیمت ہے۔ اور یہ فارمولہ یہ سمجھتا ہے کہ آپ کا مال ایک مستقل شرح سے بڑھتے بڑھتے موجودہ قیمت تک پہنچا ہے۔ اس لئے اس میں صرف موجودہ مالیت اور سال کی قیمت درج کر کے درست جواب حاصل کر سکتے ہیں۔ اگر آپ چاہیں تو درج ذیل لنک پر بھی کلک کر سکتے ہیں۔
مالِ نامی کی زکوٰۃ معلوم کریں (لنک)
چونکہ يہ فنڈ مالک کی ملک ہوتا ہے اس لئے اگر ملازم مالک نصاب ہے تو جب سے يہ رقم جمع ہونا شروع ہوئی اسي وقت سے اس رقم کی بھی زکوٰۃ ہر سال فرض ہوتی رہے گی۔ (فتاوی فيض الرسول)
ليکن ادائيگی اس وقت واجب ہوگی جب مقدارِ نصاب کا کم از کم پانچواں حصہ وصول ہو جائے۔ (ماخوذ از فتاوی فقيہ ملت )
ایک صدقۂ فطر کی مقدار تقریباً دو کلو اور پچاس گرام گیہوں یا اس کا آٹا یا اس کی رقم ہے۔
صدقہ فطر کی مقدار آج کل کے حساب سے دو کلو اور تقریباً پچاس گرام گیہوں یا اس کا آٹا یا اس کی رقم یا اس کے دگنے (یعنی چار کلو اور سو گرام) جَو یا کھجور یا اس کی رقم ہے۔
صدقہ فطر کی مقدار یہ ہے: گیہوں یا اس کا آٹا یا ستّو نصف صاع، کھجور یا منقے یا جَو یا اس کا آٹا یا ستّو ایک صاع۔
۲ھ میں رمضان کے روزے فرض ہوئے اور اسی سال عید سے دو دن پہلے صدقہ فطرکا حکم دیا گیا۔ صدقۂ فطر واجب ہے۔
زکوٰۃ میں سال کا گزرنا، عاقل بالغ اور نصاب ِ نامی ہونا شرط ہے جبکہ صدقۂ فطر میں یہ شرائط نہیں ہیں۔
جامع ترمذی شریف میں ہے کہ حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدریؓ سے مروی ہے کہ ہم نبئ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم کی حیاتِ ظاہری میں ایک صاع کھانا یا ایک صاع جَو یا ایک صاع کھجور صدقۂ فطر نکالتے تھے۔''
حضرت سیِّدُنا عمرو بن شعیب رحمۃ اللہ تعالیٰ عنہ اپنے باپ سے اور وہ ان کے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ اللہ کے مَحبوب صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہٖ وسلَّم نے مکہ کی شاہراہوں پر ایک اعلان کرنے والا بھیجا (اس نے اعلان کیا) '' سن لو! بے شک صدقۂ فطر دو مُد گندم یا ایک صاع کھانا ہر مسلمان مرد و عورت، آزاد و غلام، چھوٹے بڑے پر واجب ہے۔''
ابو داود و نسائی کی روایت میں ہے کہ عبد اللہ بن عباسؓ نے آخر رمضان میں فرمایا: اپنے روزے کا صدقہ ادا کرو، اس صدقہ کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم نے مقرر فرمایا، ایک صاع خُرما یا جَو یا نصف صاع گیہوں۔
حضرتِ سیدنا کثیر بن عبد اللہ مزنی رضی اللہ تعالی عنہ اپنے والد اور اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں کہ حضور صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم سے اس آیت کریمہ کے بارے میں سوال کیا گیا،
{ قَدْ أَفْلَحَ مَن تَزَكَّىٰ (14) وَ ذَكَرَ اسْمَ رَبِّهِ فَصَلَّىٰ (15) } [الأعلى:14-15].
ترجمہ: بے شک مراد کو پہنچا جو ستھرا ہوا اور اپنے رب کا نام لے کر نماز پڑھی۔''
تو رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا، ''یہ آیت صدقہ فطر کے بارے میں نازل ہوئی۔''
حضرتِ سیدنا عبد اللہ بن ثعلبہؓ سے روایت ہے کہ رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا، ''ہر چھوٹے یا بڑے، آزاد یا غلام، مرد یا عورت، غنی یا فقیر میں سے ہر ایک پر نصف صاع گندم یا جَو (صدقہ فطر) ہے ، غنی کو تو اللہ ﷻ برکت عطا فرمائے گا جبکہ فقیر کو اللہ ﷻ اس سے زیادہ عطا فرمائے گا جو کچھ اس نے راہِ خدا ﷻ میں دیا۔''
صدقۂ فطر سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کی زبانِ مبارک سے ہر اس مسلمان پر واجب ہے جس کے پاس اپنے اور اپنے زیرِ کفالت لوگوں کے لئے عید الفطر اور اس کے رات کے کھانے سے ایک صاع زائد ان چیزوں میں سے ہو جن کو بطورِ غذا استعمال کیا جاتا ہے، اور اس کا اندازہ رسولِ اَکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کے صاع سے ہوگا؛ یہ دوسیر اور ایک سیر کا تہائی حصہ ہے؛ وہ اسے اپنے کھانے کی جنس سے یا اس سے افضل سے نکالے گا اور اسے اس طرح تقسیم کریگا جس طرح زکوٰۃ کا مال تقسیم کیا جاتا ہے۔
نبئ اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''ان لوگوں کی طرف سے صدقۂ فطر ادا کرو جو تمہاری کفالت میں ہیں۔''
احناف کے نزدیک: عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقۂ فطر واجب ہوتا ہے۔
صدقہ فطر واجب ہے، عمر بھر اس کا وقت ہے یعنی اگر ادا نہ کیا ہو تو اب ادا کر دے۔ ادا نہ کرنے سے ساقط نہ ہوگا، نہ اب ادا کرنا قضا ہے بلکہ اب بھی ادا ہی ہے اگرچہ مسنون قبل نمازِ عید ادا کر دینا ہے۔
صدقہ فطر ادا کرنے کے لیے مال کا باقی رہنا بھی شرط نہیں، مال ہلاک ہونے کے بعد بھی صدقہ واجب رہے گا ساقط نہ ہوگا، بخلاف زکوٰۃ و عشر کہ یہ دونوں مال ہلاک ہو جانے سے ساقط ہو جاتے ہیں۔
صدقہ فطر اپنے شہر کے فقرا پر تقسیم کرے۔
چنانچہ اگر گھر میں زائد سامان (جیسے فرج، ٹی وی، ٹچ اسکرین، واشنگ مشین وغیرہ) ہو تو مالِ نامی نہ ہونے کے باوجود اگر اس کی قیمت نصاب کو پہنچتی ہے تو اس کے مالک پر صدقۂ فطر واجب ہو جائے گا۔
زکوٰۃ اور صدقۂ فطر کے نصاب میں یہ فرق صرف کیفیت کے اعتبار سے ہے۔
نصابِ نامی = جس میں بڑھنے کی صلاحیّت ہو جیسے روپیہ پیسہ اور سونا چاندی وغیرہ۔
فطرہ واجب کرنے میں ۲؍ حکمتیں ہیں ایک تو روزہ دار کے روزوں کی کوتاہیوں کی معافی۔ اکثر روزے میں غصہ بڑھ جاتا ہے تو بلاوجہ لڑ پڑتا ہے، کبھی جھوٹ غیبت وغیرہ بھی ہو جاتے ہیں، رب تعالیٰ اس فطرے کی برکت سے وہ کوتاہیاں معاف کر دے گا کہ نیکیوں سے گناہ معاف ہوتے ہیں۔ دوسرے مساکین کی روزی کا انتظام۔
صدقہ فطر کے مصَا رِف وُہی ہیں جو زکوٰۃ کے ہیں۔ یعنی جِن کو زکوٰۃ دے سکتے ہیں اِنہیں فِطْرہ بھی دے سکتے ہیں اور جن کو زکوٰۃ نہیں دے سکتے اُن کو فِطْرہ بھی نہیں دے سکتے۔ لہٰذا زکوٰۃ کی طرح صدقۂ فطر کی رقم بھی حیلہ شرعی کے بعد مدارس و جامعات اور دیگر دینی کاموں میں استعمال کی جاسکتی ہے۔
نابالغ اگر صاحب ِ نصاب ہو تو اس پر بھی صدقۂ فطر واجب ہے۔ اس کا ولی اسکے مال سے فطرہ ادا کرے۔
باپ نہ ہو تو اس کی جگہ دادا پر اپنے غریب یتیم پوتے، پوتی کی طرف سے صدقۂ فطر دینا واجب ہے جبکہ یہ بچے مالدار نہ ہوں۔
عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقۂ فطر واجب ہوجاتا ہے، لہٰذا اگر اس وقت سے پہلے کوئی مسلمان ہوا تو اس پر فطرہ دینا واجب ہے اور اگر بعد میں مسلمان ہوا تو واجب نہیں۔
شب ِ عید بچہ پیدا ہوا توس کا بھی فطرہ دینا ہوگا کیونکہ عید کے دن صبح صادق طلوع ہوتے ہی صدقۂ فطر واجب ہوجاتا ہے، اور اگر بعد میں پیدا ہوا تو واجب نہیں۔
بعد ِ رمضان نمازِ عید کی ادائیگی سے قبل دیا جانے والا صدقہ واجبہ، صدقہ فطر کہلاتا ہے۔
صدقۂ فطر دینا واجب ہے۔ صحیح بخاری میں عبد اللہ بن عمر رضی اﷲ تعالیٰ عنہما روایت کرتے ہیں کہ رسول اﷲ صلی اﷲ تعالیٰ علیه وسلم نے مسلمانوں پر صدقۂ فطر مقرر کیا۔
صدقۂ فطر ہر اس آزاد مسلمان پر واجب ہے جو مالک ِ نصاب ہو اور اس کا نصاب حاجتِ اصلیہ سے فارغ ہو۔ مالِکِ نِصاب مَرد اپنی طرف سے، اپنے چھوٹے بچّوں کی طرف سے اور اگر کوئی مَجْنُون (یعنی پاگل )اولاد ہے (چاہے پھر وہ پاگل اولاد بالِغ ہی کیوں نہ ہو) تو اُس کی طرف سے بھی صدقۂ فطر ادا کرے۔ہاں! اگر وہ بچّہ یا مَجْنُون خود صاحِبِ نِصاب ہے تو پھر اُس کے مال میں سے فِطْرہ ادا کردے۔
جس نے روزوں میں غفلت و کوتاہی برتی، اس شخص کا صدقۂ فطر قبول نہیں اگرچہ حلال چیز سے دے۔
عبادت میں کوتاہی کا کفارہ جو اللّٰہ ﷻ کی رضا کے لیے دیا جائے، اُسے فدیہ کہتے ہیں۔
وہ سزا جوکسی گناہ کی تلافی کے لیے شرعاً مقرر ہوتی ہے۔ جیسے روزوں کا کفارہ۔
عوام الناس کی آسانی کی خاطر ذیل کے چارٹ میں یہ بتایا گیا ہے کہ اگر آپ کو کوئی کفارہ ادا کرنا ہے یا کوئی فدیہ دینا ہے تو آپ کو کم سے کم کتنی رقم کفارے یا فدیئے کی صورت میں دینا ہوگی۔ لیکن بعض کفارے رقم کے علاوہ دیگر صورتوں میں بھی ادا کئے جاسکتے ہیں جیسے مسکینوں کو کپڑے پہنانا یا غلام آزاد کرنا۔ اس کی دیگر تفصیل فقہ کی کتابوں میں ملاحظہ فرمائیں۔
کفارات کی اس چھوٹی سی فہرست کے بعد اب ان کفاروں کی مختصر تفصیل دیکھتے ہیں۔
ایک نما ز کا کفارہ (فدیہ) ایک صدقہ فطر ہے۔ ایک صدقہ فطر کی مقدار تقریباً دو کلو اور پچاس گرام گیہوں یا اس کا آٹا یا اس کی رقم ہے۔
نوٹ: ایک دن میں چھ نمازیں: پانچ فرض اور ایک وتر واجب ہیں چنانچہ ایک دن کی نمازوں کے چھ فدیے دینے ہونگے۔ ان ۶؍ فدیوں کا وزن ۱۲, کلو اور ۳۰۰؍ گرام بنتا ہے۔
یاد رہے کہ نمازوں کا فدیہ بعد وفات ہی دیا جا سکتا ہے۔ اور حدیث شریف میں آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کی امت کی عمر ساٹھ سے ستر سال کے درمیان بتائی گئی ہے۔ اگر کوئی شخص ستر سال کی نمازوں کا بوقتِ وفات فدیہ دینا چاہے تو اسے تقریباً ڈھائی سو ٹن (244,524 کلو گرام) گندم کی وصیت کرنا ہوگی۔ فی الوقت پاکستان میں ۵۵ روپے کلو آٹا ہے۔ اس اعتبار سے اسے ڈیڑھ کروڑ (13,448,820) کے قریب کی وصیت کرنا ہوگی۔ اتنی رقم کی وصیت عام آدمی تو کجا، امیر ترین آدمی بھی نہیں کرسکتا۔ تو بہتری اسی میں ہے کہ اپنی نمازوں کا خیال رکھیں اور اگر نمازیں قضا ہوئی ہیں تو اپنی زندگی میں ہی انہیں پڑھ لے۔ لوگ تو زندہ کو نہیں پوچھتے، مرنے والے کی کون اتنی فکر کرے گا؟
روزے کا کفّارہ ایک غلام آزاد کرنا ہے۔ اگر غلام نہ ہو تو مسلسل دو مہینے کے روزے رکھنا ہے ۔اگر اس سے بھی عاجز ہو تو ساٹھ مسکینوں کو ایک ایک مد (یعنی ایک کلو) کھانا کھلانا ہے۔
روزوں کا فدیہ زندگی میں بھی دیا جاسکتا ہے جبکہ ایسی بیماری میں مبتلا ہوگیا کہ اب صحتیاب ہونے کی امید نہ ہو یا بہت زیادہ بوڑھا ہو گیا ہو جسے شیخ فانی کہتے ہیں۔
اگر کسی وجہ سے رمضان کا یا کوئی دوسرا روزہ ٹوٹ گیا تو اس روزہ کی قضا لازم ہے لیکن بلا عذر رمضان کا روزہ قصداً کھا پی کر یا جماع کر کے توڑ ڈالنے سے قضا کے ساتھ کفارہ ادا کرنا بھی واجب ہے۔
روزہ توڑ ڈالنے کا کفارہ یہ ہے کہ
کفارہ میں روزہ رکھنے کی صورت میں لگا تار ساٹھ روزے رکھنا ضروری ہیں اگر درمیان میں ایک دن کا بھی روزہ چھوٹ گیا تو پھر سے ساٹھ روزے رکھنے پڑیں گے۔
اگر ایک مسکین کا ایک وقت پیٹ بھر کر کھانا سو روپے کا ہو تو ساٹھ مسکینوں کا دو وقت کا کھانا ۱۲؍ ہزار روپے کا ہوگا۔ یہ ایک روزے کا کفارہ ہے۔
کفارہ واجب ہونے کے لیے بھر پیٹ کھانا ضرور نہیں، تھوڑا سا کھانے سے بھی واجب ہو جائے گا۔ احتلام ہوا اور اسے معلوم تھا کہ روزہ نہ گیا پھر کھا لیا تو کفّارہ لازم ہے۔ چنے کا ساگ کھایا تو کفارہ واجب، یہی حکم درخت کے پتوں کا ہے جبکہ کھائے جاتے ہوں ورنہ نہیں۔ تِل یا تِل کے برابر کھانے کی کوئی چیز باہر سے مونھ میں ڈال کر بغیر چبائے نگل گیا تو روزہ گیا اور کفارہ واجب۔ سحری کا نوالہ مونھ میں تھا کہ صبح طلوع ہوگئی یا بھول کر کھا رہا تھا، نوالہ مونھ میں تھا کہ یاد آگیا اور نگل لیا تو دونوں صورتوں میں کفارہ واجب۔ آزاد و غلام، مرد و عورت، بادشاہ و فقیر سب پر روزہ توڑنے سے کفارہ واجب ہوتا ہے۔ حقّہ پینے سے بھی روزہ ٹوٹ جاتا ہے، اگر روزہ یاد ہو اور حقّہ پینے والا اگر پیے گا تو کفارہ بھی لازم آئے گا۔
میّت کے روزے قضا ہوگئے تھے تو اُس کا ولی اس کی طرف سے فدیہ ادا کر دے یعنی جب کہ وصیت کی اور مال چھوڑا ہو، ورنہ ولی پر ضروری نہیں کر دے تو بہتر ہے۔
یاد رہے کہ کفارہ اور ہے، فدیہ اور۔ شیخ فانی یعنی وہ بوڑھا جس کی عمر ایسی ہوگئی کہ اب روز بروز کمزور ہی ہوتا جائے گا، جب وہ روزہ رکھنے سے عاجز ہو یعنی نہ اب رکھ سکتا ہے نہ آئندہ اُس میں اتنی طاقت آنے کی اُمید ہے کہ روزہ رکھ سکے گا، اُسے روزہ نہ رکھنے کی اجازت ہے اور ہر روزہ کے بدلے میں فدیہ یعنی دونوں وقت ایک مسکین کو بھر پیٹ کھانا کھلانا اس پر واجب ہے یا ہر روزہ کے بدلے میں صدقہ فطر کی مقدار مسکین کو دیدے۔
شیخِ فانی کیلئے تیس دن کے روزوں کا فدیہ ساڑھے اکسٹھ کلو گندم ہے جس کی موجودہ قیمت پچپن روپے کے حساب سے 3,382.5 روپے بنتی ہے۔
اور انتیس دن کے روزوں کا فدیہ 59 کلو اور ساڑھے چار سو گرام گندم ہے جس کی موجودہ قیمت پچپن روپے فی کلو کے حساب سے 3,269.75 روپے بنتی ہے۔
ظہار کے یہ معنی ہیں کہ اپنی زوجہ یا اُس کے کسی جزُو ِشائع یا ایسے جز وکو جو کُل سے تعبیر کیا جاتا ہو ایسی عورت سے تشبیہ دینا جو اس پر ہمیشہ کے لئے حرام ہو یا اس کے کسی ایسے عضو سے تشبیہ دینا جس کی طرف دیکھنا حرام ہو مثلاً کہا تو مجھ پر میری ماں کی مثل ہے یا تیرا سر یا تیری گردن یا تیرا نصف میری ماں کی پیٹھ کی مثل ہے ۔ یہ ظہار کہلاتا ہے، اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایک سالم غلام آزاد کرنا یا مسلسل دو ماہ کے روزے رکھنا یا ساٹھ مسکینوں کو پیٹ بھر کر دو وقت کا کھانا کھلانا ہے۔''
کھانا کھلانے کی صورت میں اسے ایک روزے کے کفارے کی مانند ۱۲؍ ہزار روپے کا کھانا مسکینوں کو کھلانا ہوگا۔
قسم کھا کر توڑ دی یا منت پوری نہ کی اور وقت گزر گیا تو ان دونوں کا ایک ہی جیسا کفارہ ہے۔ یعنی غلام آزاد کرنا، یا دس مسکینوں کو دو وقت پیٹ بھر کر کھانا کھلانا یا دس مسکینوں کو متوسط درجے کے کپٹرے پہنانا۔
قسم کا کفارہ صرف اس دِین میں ہے ، پچھلی شریعتوں میں یہ نہ تھا اسی لئے اللّٰہ تعالیٰ نے حضرت ایوب عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کو کفارہ کا حکم نہ دیا بلکہ قسم پوری کرنے کا حیلہ بتایا کہ اپنی بیوی کو جھاڑو مار دیں۔
حدیثِ پاک میں ہے، ’’کَفَّارَۃُ النَّذْرِ کَفَّارَۃُ الْیَمِینِ یعنی نذر کا کفارہ قسم کا ہی کفارہ ہے۔‘‘
اور قسم کا کَفّارہ تین طرح کا ہے:
یعنی یہ اِختِیار ہے کہ ان تین باتوں میں سے جو چاہے کرے۔ اور اگر غلام آزاد کرنے یا دس مسکین کو کھانا یا کپڑے دینے پر قادر نہ ہو تو پے در پے تین روزے رکھے۔ اور جن مساکین کو صبح کے وقت کھلایا انھیں کو شام کے وقت بھی کھلائے۔
یاد رہے!جہاں کَفّارہ ہے بھی تو وہ صِرف آیَندہ کے لئے کھائی گئی قسم پر ہے، گزَشتہ یا موجودہ کے مُتَعلِّق کھائی ہوئی قسم پر کَفّارہ نہیں۔ مَثَلًا کہا:’’خدا کی قسم! میں نے کل ایک بھی گلاس ٹھنڈا پانی نہیں پِیا۔‘‘ اگر پیا تھا اور یاد ہونے کے باوُجُود جھوٹی قسم کھائی تھی تو گنہگار ہوا توبہ کرے،کفّارہ نہیں)
منت مانی کہ آج دو رکعت پڑھے گا اور آج نہ پڑھی تو اس کی قضا نہیں، بلکہ کفارہ دینا ہو گا۔
مر جانے سے قسم کا کفارہ سا قط نہ ہو گا یعنی اوس پر لازم ہے کہ وصیت کر جائے اور تہائی مال سے کفارہ اداکر نا وارثوں پر لازم ہوگا اور اوس نے خود وصیت نہ کی اور وارث دینا چاہتا ہے تو دے سکتا ہے۔
اگر ایک مسکین کا کھانا سو روپے کا ہو تو دس مسکینوں کا دو وقت کا پیٹ بھر کر کھانا دو ہزار روپے کا ہوگا۔
یعنی اگر منت یا قسم پوری نہ کی تو اسے دو ہزار روپے کا کھانا کھلانا ہوگا۔
ترکِ جمعہ کا کفارہ ایک دینار ہے، اور تنگدست ہو تو ½ دینار۔ یہ حکم استحبابی ہے۔
نبی کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے :''جس نے کسی عذر کے بغير نمازِ جمعہ چھوڑ دی وہ ایک دینار صدقہ کرے اور جو نہ پائے وہ نصف دینار صدقہ کرے۔''
یہ دینار اس وقت کا ہے جب بیس دینار پر زکوٰۃ واجب ہوجاتی تھی۔ اس اعتبار سے ایک جمعہ چھوڑنے کا کفارہ تنگ دست پر سوا دو ہزار اور متمول پر ساڑھے چار ہزار روپے ہے۔
اگر ابتدائے حیض میں ہے تو ایک دینار، اور ختم پر ہے تو ½ دینار، اور دینار دس درم کا ہوتا ہے اور دس درہم دو روپے تیرہ آنے کچھ کوڑ یاں کم۔
روایت ہے حضرت ابن عباس سے فرماتے ہیں فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے کہ جب کوئی شخص اپنی بیوی سے بحالت حیض صحبت کر بیٹھے تو آدھا دینار خیرات کرے۔
یہ حکم استحبابی ہے،یعنی چونکہ اس نے بڑا گناہ کیا جس سے وہ عذاب کا مستحق ہوگیا۔ صدقہ و خیرات عذاب دفع کرنے کے لئے اکسیر ہے، اس لئے ایسا کردے ورنہ اس گناہ کا اصل کفارہ تو توبہ ہی ہے۔
ایک بار یہ کیا تو اس کا کفارہ ساڑھے چار ہزار روپے ہے۔
علماء فرماتے ہیں: مسجد کے سائل کو ایک پیسہ دے تو ۷۰؍ ستر پیسے اور درکار ہیں جو اس دینے کا کفارہ ہوں۔
مالی کفاروں کے علاوہ بعض اعمال بھی بعض گناہوں کے لئے کفارہ بن جاتے ہیں۔ ذیل میں ایسے ہی اعمال کا ایک مختصر سا جائزہ لیا گیا ہے
حضرت سیِّدُنا ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہما ارشاد فرماتے ہیں:''دن رات میں کل چوبیس گھنٹے ہیں اور کلمۂ طیِّبہ کے حروف بھی چوبیس ہیں توجو کوئی ایک بار کلمۂ طیبہ پڑھتا ہے تو اس کا ہر حرف ایک گھنٹے کے گناہوں کا کفارہ بن جاتا ہے۔ پس جب بندہ ہرروز ایک مرتبہ کلمۂ طیبہ پڑھتا ہے تواس پر کوئی گناہ باقی نہیں رہتا، تو جو اس کی کثرت کرتا ہے اور اسی کو اپنا مشغلہ بنا لیتا ہے اس کا کیا مقام ومرتبہ ہو گا۔''
حضرت سیِّدُنا عبدُ اللہ بن مسعودؓ روایت کرتے ہیں کہ حضور رحمَتِ دو عالَم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرماىا : مؤمن کى جان پسینے کی طرح بہہ کر نکلتی ہے اور کافر کی جان ایسے نکلتی ہے جیسے گدھے کی جان نکلتی ہے۔ مؤمن کوئی گناہ کرتا ہے تو بوقْتِ موت اس پر سختی کی جاتی ہے تاکہ اس گناہ کا کفارہ ہو جائے اور کافر زندگی میں نیکی کرتا ہے تو بوقْتِ موت اس پر آسانی کی جاتی ہے تاکہ نیکی کا بدلہ(دنیا میں ہی) ہو جائے۔
نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم،شاہِ بنی آدم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عظمت نشان ہے:''فرض نمازوں، جمعہ اور رمضان کے کفاروں کی مثل دیگر ( گناہوں کے) بھی کفارے ہیں مگر اِن تین گناہوں کا کوئی کفارہ نہیں:
حضرت سيدنا ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما بیان کرتے ہيں کہ''حضرت سيدنا عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے ایک باغ کی طرف تشریف لے گئے، جب واپس ہوئے تو لوگ نمازِ عصر ادا کر چکے تھے تو آپ رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَيہ رَاجِعُوْنَ پڑھا اور ارشاد فرمايا :''ميری عصر کی جماعت فوت ہو گئی ہے، لہٰذا ميں تمہيں گواہ بناتا ہوں کہ ميرا باغ مساکين پر صدقہ ہے تاکہ يہ اس کام کا کفارہ ہو جائے۔''
رسول اللہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''مؤمن کا مرض اس کی خطاؤں کا کفارہ ہوتا ہے۔''
حضرتِ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے فرماتے ہیں کہ میں نے نبی مُکَرَّم، نُورِ مُجسَّم، رسول اکرم، شہنشاہ ِبنی آدم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا،''مؤمن کی بیماری اس کے گناہوں کا کفارہ ہے۔''
حضرتِ سیدنا حسنؓ سے مرفوعاً روایت ہے کہ رَحْمَۃ لِّلْعٰلَمِیْن صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا کہ ''اللہ ﷻ ایک رات کے بخار کے سبب مومن کے پچھلے تمام گناہ مٹا دیتا ہے۔''
حضرت ابو الدرداء فرماتے ہیں کہ مؤمن کا ایک رات کا بخار ایک سال کا کفارہ ہے،
سرکارِ دو عالم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:''پانچ نمازيں، جمعہ اگلے جمعہ تک اور رمضان المبارک اگلے رمضان المبارک تک درميان کے گناہوں کا کفارہ ہيں جب تک کبيرہ گناہوں کے ارتکاب سے بچا جائے۔''
نسائی شریف کے الفاظ یوں ہیں،'' جو شخص کامل وضو کرے جیسا کہ اللہ ﷻ نے حکم دیا ہے تو اس کی نَمازیں بیچ کے گناہوں کے لئے کفارہ ہیں ۔''
مَحبوبِ رَبُّ العزت، محسنِ انسانیت ﷻ وصلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:''عمرہ اگلے عمرے تک کے گناہوں کا کفارہ ہوتا ہے اور حجِ مبرور کی جزاء جنت کے سوا کچھ نہيں۔''
سرکار مدينہ، راحت قلب و سينہ صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم نے حضرت سیدنا عمرو بن العاص سے ارشاد فرمایا:''اے عمروؓ! کيا تمہيں معلوم نہيں کہ اسلام لانا پچھلے گناہوں کو مٹا ديتا ہے، ہجرت بھی ماقبل گناہوں کو مٹا ديتی ہے اور حج بھی پچھلے گناہوں کو مٹا ديتا ہے۔''
رسولِ کریم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے:''اہلِ مدائن اللہ ﷻ کی رضا کے لئے ذخيرہ کرتے، لہٰذا وہ نہ تو غذاء ذخیرہ کرتے اور نہ ہی قیمتیں بڑھاتے، پس جس نے ان پر چالیس دن تک کھانا روکے رکھا پھر صدقہ بھی کر ديا تو یہ اس کا کفارہ نہيں ہو سکتا۔''
حضرتِ سیدنا ابن عباس رضی اللہ تعالی عنہما سے مروی ہے کہ نبی اکرم صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا،''جس نے عرفہ کے دن کا روزہ رکھا تو یہ اس کے لئے دو سالوں( کے گناہوں) کا کفارہ ہے اور جس نے محرم کے ایک دن کا روزہ رکھا تو اس کے ہر دن کا روزہ تیس دنوں (کے گناہوں ) کا کفارہ ہے ۔''
حضرتِ سیدتنا ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ میں نے مَحبوبِ رَبِّ اکبر صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم کو فرماتے ہوئے سنا، ''جب اللہ ﷻ کسی بندے کو مصیبت میں مبتلاء فرماتا ہے، اگر وہ بندہ کسی نا پسندیدہ راستے میں ہو تو اللہ ﷻ اس مصیبت کو اس کیلئے کفارہ یا طہارت کر دیتا ہے جب تک وہ اپنی اس مصیبت کو غیر اللہ کی طرف سے نہ سمجھے یاجب تک وہ غیر اللہ کو (معبود سمجھ کر) مصیبت دور کرنے کے لئے نہ پکارے۔''
ایک روایت میں ہے کہ''مسلمان کو تھکاوٹ، مرض، رنج اور غم میں سے جو مصیبت پہنچتی ہے یہاں تک کہ کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ ﷻ اسے اسکے گناہوں کا کفارہ بنادیتا ہے۔''
ایک روایت میں ہے کہ ''جس مسلمان کو کوئی بیماری، تھکاوٹ یا غم پہنچتا ہے وہ اس کے گناہ کا کفارہ ہوجاتا ہے ۔''
حضرت سیِّدُنا مجاہد رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ فرماتے ہیں:''جب تم اپنے بھائی کا گوشت کھاؤ (یعنی اُس کی غیبت کرو)، تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ اس کی تعریف کرو اور اس کے لئے بھلائی کی دعا مانگو۔'' بہتر یہی ہے کہ اظہارِ ندامت کے ساتھ ساتھ معافی مانگی جائے۔
حضرتِ سیِّدُنا سہل بن سعد ساعدی رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہ سے مروی ہے کہ حُضُور نَبیّ رحمت، شفیْعِ امت صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنِ اغْتَابَ اَخَاہٗ فَاسْتَغْفَرَ لَہٗ فَہُوَ کَفَّارَتُہٗ یعنی جس نے اپنے بھائی کی غیبت کی پھر اس کے لئے استغفار کیا تو یہ اس کا کفارہ ہے۔
رَحْمَۃٌ لِّلْعٰلَمِیْن صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم کا فرمانِ عالیشان ہے: ’’غیبت کا کفارہ یہ ہے کہ تو نے جس کی غیبت کی اس کے لئے یہ کہتے ہوئے استغفار کر کہ اے اللہ عَزَّوَجَلَّ! ہماری اور اس کی مغفرت فرما۔‘‘
فرمانِ حضور صَلَّی اللہ عَلَیْہِ وَ سَلَّم ہے کہ ندامت گناہوں کا کفارہ ہے۔
حضرت سیِّدُنا امام ابوبکر احمد بن حسین بیہقیؒ ’’شُعَبُ الإیْمَان‘‘میں فرماتے ہیں کہ اس کے متعلق کئی احادیث ِ مبارکہ آئی ہیں کہ حدود گناہوں کا کفارہ ہوتی ہیں مگر ان کا بھی کفارہ ہونا اس وقت ہے جب وہ توبہ کر لے۔
حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہ وسلم نے ارشاد فرمایا: اِنَّ مِنَ الذُّنُوْبِ ذُنُوْبًا لاَ یُکَفِّرُ ھَا اِلاَّ ھَمُّ الْمَعِیْشَۃِ.
ترجمہ:بے شک کچھ گناہ ایسے ہوتے ہيں کہ جن کا کفارہ صرف فکر معاش ہی ہے۔ (حلیۃ الاولیاء)
حضرت داؤدؑ کا ایک فرزند وفات پاگیا تو آپ کو بے حد غم ہوا۔ آپ سے کسی نے کہا کہ اے داؤدؑ! تم اس بچے کو بچانے کے لیے کتنا فدیہ دے سکتے تھے ٰ؟ تو آپ نے عرض کیا کہ زمین بھر کر سونا۔ تو آپ سے کہاگیا کہ اے داؤدؑ! تم کو اتنا ہی بڑا ثواب ملے گا۔
وضو گناہوں کا کفارہ ہے اور گناہ کے اسباب کا زائل کرنے والا۔''
حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) فرماتے ہیں: ''مسجد میں تھوکنا خطا ہے اور اس کا کفارہ زائل کر دینا ہے۔''
{ وَ كَتَبْنَا عَلَيْهِمْ فِيهَا أَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَ الْعَيْنَ بِالْعَيْنِ وَ الْأَنفَ بِالْأَنفِ وَ الْأُذُنَ بِالْأُذُنِ وَ السِّنَّ بِالسِّنِّ وَ الْجُرُوحَ قِصَاصٌ فَمَن تَصَدَّقَ بِهِ فَهُوَ كَفَّارَةٌ لَّهُ وَ مَن لَّمْ يَحْكُم بِمَا أَنزَلَ اللَّهُ فَأُولَٰئِكَ هُمُ الظَّٰلِمُونَ } [المائدة: 45].
ترجمہ: اور ہم نے توریت میں ان پر واجب کیا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور زخموں میں بدلہ ہے۔ پھر جو دل کی خوشی سے بدلہ کراوے تو یہ اس (کے گناہوں) کے لئے کفارہ ہوگا، اور جو اللہ کے اتارے پر حکم نہ کرے تو وہی لوگ ظالم ہیں۔
{ أَيَّامًا مَّعْدُودَٰتٍ فَمَن كَانَ مِنكُم مَّرِيضًا أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ فَعِدَّةٌ مِّنْ أَيَّامٍ أُخَرَ وَ عَلَى الَّذِينَ يُطِيقُونَهُ فِدْيَةٌ طَعَامُ مِسْكِينٍ فَمَن تَطَوَّعَ خَيْرًا فَهُوَ خَيْرٌ لَّهُ وَ أَن تَصُومُوا خَيْرٌ لَّكُمْ إِن كُنتُمْ تَعْلَمُونَ } [البقرة: 184].
ترجمہ: گنتی کے دن ہیں تو تم میں جو کوئی بیمار یا سفر میں ہو تو اتنے روزے اور دنوں میں اور جنہیں اس کی طاقت نہ ہو وہ بدلہ (فدیہ) دیں ایک مسکین کا کھانا پھر جو اپنی طرف سے نیکی زیادہ کرے تو وہ اس کے لئے بہتر ہے اور روزہ رکھنا تمہارے لئے زیادہ بھلا ہے اگر تم جانو۔
{ إِنَّ الَّذِينَ كَفَرُوا وَ مَاتُوا وَ هُمْ كُفَّارٌ فَلَن يُقْبَلَ مِنْ أَحَدِهِم مِّلْءُ الْأَرْضِ ذَهَبًا وَ لَوِ افْتَدَىٰ بِهِ أُولَٰئِكَ لَهُمْ عَذَابٌ أَلِيمٌ وَ مَا لَهُم مِّن نَّٰصِرِينَ } [آل عمران: 91].
وہ جو کافر ہوئے اور کافر ہی مرے ان میں کسی سے زمین بھر سونا (بطورِ فدیہ) ہرگز قبول نہ کیا جائے گا اگرچہ اپنی خلاصی کو دے، ان کے لئے دردناک عذاب ہے اور ان کا کوئی یار نہیں۔
{ فَإِذَا لَقِيتُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتَّىٰ إِذَا أَثْخَنتُمُوهُمْ فَشُدُّوا الْوَثَاقَ فَإِمَّا مَنًّا بَعْدُ وَ إِمَّا فِدَاءً … } [محمد: 4].
ترجمہ: تو جب کافروں سے تمہارا سامنا ہو تو گردنیں مارنا ہے یہاں تک کہ جب انہیں خوب قتل کرلو تو مضبوط باندھو، پھر اس کے بعد چاہے احسان کرکے چھوڑ دو چاہے فدیہ لے لو … ۔
{ فَالْيَوْمَ لَا يُؤْخَذُ مِنكُمْ فِدْيَةٌ وَ لَا مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا مَأْوَىٰكُمُ النَّارُ هِيَ مَوْلَىٰكُمْ وَ بِئْسَ الْمَصِيرُ } [الحديد: 15].
ترجمہ: تو (اے منافقو!) آج نہ تم سے کوئی فدیہ لیا جائے اور نہ کھلے کافروں سے، تمہارا ٹھکانا آگ ہے، وہ تمہاری رفیق ہے، اور کیا ہی برا انجام۔
سرکارِ مدینہ، راحَتِ قَلْب و سینہ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے اِرشَاد فرمایا : اچھی مَـحْفِل بندۂ مومن کے لئے 20 لاکھ بُری مَجَالِس کا کفارہ ہے ۔
حضرت سیِّدُنا عطا رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ نے فرمایا: ’’ ذکر کی مجلس غفلت کی 70مجلسوں کا کفارہ ہے۔‘‘
آپ صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: ”اگر تم چاہو تو میں تمہیں بھلائی کے دروازوں کے بارے میں بتاؤں، روزہ ڈھال ہے ، صدقہ گناہوں کا کفارہ ہے اور درمیانی رات میں آدمی کا نماز پڑھنا۔“ پھر آپ نے یہ آیت مبارکہ تلاوت فرمائی: تَتَجَافٰی جُنُوۡبُہُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ (پ۲۱،السجدة:۱۶)
ترجمۂ کنز الایمان:ان کی کروٹیں جدا ہوتی ہیں خواب گاہوں سے۔
فرمایا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم نے جس نے تلاش علم کی تو یہ تلاش اس کے گزشتہ گناہوں کا کفارہ ہوگی۔
حضرت سیِّدُنا ابنِ عمر رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا سے روایت ہے کہ حضور نبی کریم صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : جسے بد شگونی اس کے کام سے روک دے اُس نے شرک کیا، اس کا کفارہ یہ ہے کہ ایسا شخص کہے : اَللّٰہُمَّ لَا طَیْرَ اِلَّا طَیْرُکَ وَلَا خَیْرَ اِلَّا خَیْرُکَ وَلَا اِلٰہَ غَیْرُکَ یعنی الٰہی! تیری فال فال ہے اور تیری ہی خیر خیر اور تیرے سوا کوئی معبود نہیں ۔
اگر گناہ دل سے ہو تو اس کا کفارہ یہ ہے کہ گڑگڑاتے ہوئے اللہ ﷻ کی بارگاہ میں مغفرت و معافی کا سوال کرے اور بھاگے ہوئے غلام کی طرح ذلت کا اظہار کرے حتّٰی کہ سب لوگوں پر اس کی ذلت و عاجزی ظاہر ہو جائے اور یہ اس وقت ہوگا کہ لوگوں کے درمیان تکبر نہ کرے کیونکہ بھاگنے والے گناہ گار غلام کو حق نہیں پہنچتا کہ دوسرے غلاموں پر بڑائی کا اظہار کرے۔ اسی طرح دل میں عبادت اور مسلمانوں پر خیرات کا عزم و ارادہ کرے۔
صوفیائے کرام کا تصورِ زکوٰۃ بہت اعلیٰ ہوتا ہے۔ وہ ہر چیز میں زکوٰۃ کے قائل ہیں۔ صرف چند باتوں کا ذکر یہاں مناسب سمجھتا ہوں۔
دل کی زکوٰۃ اللہ پاک کی عظمت، حکمت، قدرت، حجت، نعمت اور رحمت کے بارے میں غور و فکر کرنا ہے۔
علم کی زکوٰۃ اسے پھیلانا اور لوگوں کو راہ ِخدا کی طرف بلانا ہے۔
(حضرت شیخ عبد القادر جیلانی)
بے شک ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور علم کی زکوٰۃ اسے پھیلانا اور لوگوں کو راہ خدا کی طرف بلانا ہے. تو آؤ اور بلاؤ راہ خدا کی طرف اور ادا کرو اپنے علوم کی بروقت زکوٰۃ۔
بیشک ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور علم کی زکوٰۃ اس پر عمل کرنا ہے، تو جو شخص علم کی زکوٰۃ اداکرتا ہے اللہ ﷻ اس میں لازوال برکت عطا فرما دیتا ہے۔
حضرتِ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ تعالی عنہ سے روایت ہے کہ حضورِ پاک، صاحبِ لَولاک، سیّاحِ افلاک صلَّی اللہ تعالیٰ علیہ واٰلہٖ وسلّم نے فرمایا: ''ہر چیز کی زکوٰۃ ہے اور جسم کی زکوٰۃ روزہ ہے اور روزہ آدھا صبر ہے۔ ''
حِبر ُالاُمّہ حضرت سیِّدُنا عبد اللہ بن عباس رَضِیَ اللہُ تَعَالٰی عَنْہُمَا بیان کرتے ہیں کہ دانائے سُبُل، خَتْمُ الرُّسُل، مالکِ کل صَلَّی اللہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا: مَنْ شَبِعَ وَنَامَ قَسٰی قَلْبُہٗ یعنی جو پیٹ بھر کر کھانا کھائے اور سو جائے تو اس کا دل سخت ہوجاتا ہے۔ پھر ارشاد فرمایا: لِکُلِّ شَیْءٍ زَکَاةٌ وَزَکَاةُ الْبَدَنِ الْجُوْع یعنی ہر چیز کی زکوٰۃ ہوتی ہے اور بدن کی زکوٰۃ بھوکا رہنا ہے۔
حضرت سیِّدُنا محمد بن حوشب رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے حضرت سیِّدُنا محمد بن واسع رَحْمَۃُ اللّٰہِ تَعَالٰی عَلَـیْہ کو فرماتے سنا: ’’رزق حلال کی طلب میں کوشاں رہنا بدن کی زکوٰۃ ہے۔ اللّٰہ ﷻ اس شخص پر رحم فرمائے جو حلال کھائے اور حلال ہی کھلائے۔‘‘
عابدوں کی نماز و زکوٰۃ اَور ہے عاشقوں کی اور نوعیت کی، عارِفوں کی اور طرح کی۔ عابدوں کی زکوٰۃ سال کے بعد چالیسواں حصّہ۔ عاشقوں کی زکوٰۃ اشارہ پا کر سارا مال۔ عابدوں کی نماز مسجدوں کی دیواروں کے سایہ میں، عاشقوں کی نماز تلواروں کے سایہ میں۔
دل کی زکوٰۃ، اللہ تعالیٰ کی عظمت، حکمت، قدرت، حجت، نعمت، رحمت کے بارے میں غور و فکر کرنا ہے۔
آنکھ کی زکوٰۃ کسی شے پر نگاہ ِ عبرت ڈالنا اور اسے شہوت بھری اشیاء کو دیکھنے سے جھکا لینا ہے۔
کان کی زکوٰۃ اس شے کو غور سے سننا جو تمہاری نجات کا وسیلہ بن رہی ہو۔
زبان کی زکوٰۃ اس سے وہ کلام کرنا جو تمہیں بارگاہ ِ الٰہی ﷻ میں مقرب بنا دے۔
ہاتھ کی زکوٰۃ انہیں شر کی طرف بڑھنے سے روک کر بھلائی کے لئے پھیلا دینا ہے۔
پاؤں کی زکوٰۃ ان سے چل کر ایسی جگہ (مثلاً اجتماع وغیرہ میں) جانا جہاں تمہارے دل کی درستی اور دین کی سلامتی کا سامان ہو۔
قدرت نے ہر چیز سے زکوٰۃ لی ہے؛ آپ کے جسم پر بیماریاں آتی ہیں یہ تندرستی کی زکوٰۃ ہے، ناخن اور بال کٹوائے جاتے ہیں یہ عضو کی زکوٰۃ ہے۔
زکوٰۃ مال کا مَیل ہے اور سیدوں کو زکوٰۃ نہیں دی جاسکتی کہ یہ ان کے مرتبے اور مقامِ عظمت کے منافی ہے۔ آپ ضرورت مند ساداتِ کرام کی جب بھی مدد کریں تو ہمیشہ عزت کے ساتھ ان کے عظمت اور وقار کا دل میں بے پایاں احساس رکھتے ہوئے اپنے بہترین مال سے کریں۔ ہمیشہ یاد رکھیں کہ دنیا میں جس مسلمان کو جو کچھ بھی ملا ہے، اسی گھرانے کی بدولت ملا ہے:؎
اور ان کی مدد کرنے کے بعد اللہ کی بارگاہ میں عاجزی کریں اور خود کو تاخیر سے مدد کرنے پر ملامت کریں اور ساداتِ کرام سے معافی کے خواستگار ہوں۔
یہاں بہتر معلوم ہوتا ہے کہ اہلِ بیت کی وضاحت بھی کر دی جائے۔
اہل بیت کے معنی ہیں گھر والے۔ اہل بیت رسول چند معنی میں آتا ہے:
1- جن پر زکوٰۃ لینا حرام ہے یعنی بنی ہاشم (حضرت عباس، علی، جعفر،عقیل، حارث) کی اولاد
2- حضور ﷺ کے گھر میں پیدا ہونے والے یعنی اولاد
3- حضور ﷺ کے گھر میں رہنے والے جیسے ازواج پاک
4- حضور ﷺ کے گھر میں آنے جانے والے جیسے حضرت زید ابن حارثہ اور جیسے اسامہ ابن زید وغیرہ
خیال رہے کہ بیویوں کا اہل بیت ہونا قرآنی آیات سے ثابت ہے، رب نے حضرت سارہ کو جناب ابراہیم کی اہل بیت فرمایا : { … رَحْمَتُ اللَّهِ وَ بَرَكَٰتُهُ عَلَيْكُمْ أَهْلَ الْبَيْتِ … } [هود: 73]
حضرت صفورہ کو جناب موسیٰ علیہ السلام کا اہل فرمایا : { إِذْ رَءَا نَارًا فَقَالَ لِأَهْلِهِ امْكُثُوا إِنِّي ءَانَسْتُ نَارًا … } [طه: 10]
حضرت عائشہ صدیقہ کو حضور صلی اللہ علیہ و سلم کا اہل بیت فرمایا : { وَ إِذْ غَدَوْتَ مِنْ أَهْلِكَ تُبَوِّئُ الْمُؤْمِنِينَ مَقَٰعِدَ لِلْقِتَالِ … } [آل عمران: 121]
اور اولاد کا اہل بیت ہونا حدیث سے ثابت ہے، حضور نے جناب فاطمہ حسنین کریمین اور جناب علیؓ کے متعلق فرمایا اللھم ھؤلاء اھل بیتی خدایا یہ لوگ بھی میرے اہل بیت ہیں لہذا حضور صلی اللہ علیہ و سلم کی ازواج، اولاد سب ہی اہل بیت ہے رضی اللہ عنہم۔
خلاصہ یہ ہے کہ بیت تین قسم کے ہیں: بیت نسب، بیت سکن، بیت ولادت اس لیے اہل بیت بھی تین قسم کے ہیں۔
صحیحین میں ابوہریرہ رضی اﷲ تعالیٰ عنہ سے مروی ہے کہ امام حسن رضی اﷲ تعالیٰ عنہ نے صدقہ کا خرما لے کر منہ میں رکھ لیا۔ اس پر حضور اقدس صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم نے فرمایا: "چھی چھی" تاکہ وہ اُسے پھینک دیں، پھر فرمایا: کیا تمھیں نہیں معلوم کہ ہم صدقہ نہیں کھاتے۔"
یاد رہے کہ ہاشمی فقیر کو صدقات واجبہ اور زکوٰۃ وغیرہ نہیں دے سکتے۔ یہ مال کا یا آدمیوں کا میل ہے۔ نور کی پرورش اس شئے سے نہیں کی جاتی جس میں کسی قسم کی ظلمت کی آمیزش ہو۔ نور، نور کو کھینچتا ہے اور نور ہی کی صحبت میں رہنا اسے پسند ہے۔
سادات کرام میں سے بہت سے وہ بھی ہیں کہ وہ اپنے نام کے ساتھ واضح تشریحی نسبت تو کیا، سید لکھنا بھی گوارا نہیں کرتے کہ لوگ تعظیم میں مبالغہ کریں گے۔ لیکن جو لوگ اس کے اظہار میں کوئی قباحت نہیں سمجھتے، وہ سادات کرام اپنے پاک اجداد (اماموں) سے اپنی نسبت کو ظاہر کرنے کیلئے ان کے نام کے آخری کلمے کے بعد یائے نسبت لگاتے ہیں۔ جیسے امام علی رضا سے جن کا نسب جڑتا ہے وہ ان کے نام کے آخری کلمے رضا کے بعد یائے نسبت لگاتے ہیں اور ان سے اپنی نسبت ظاہر کرنے کیلئے رضوی کے لفظ کا اضافہ اپنے نام کے ساتھ کرتے ہیں۔ سوائے امام زین العابدین کی اولاد کے کہ وہ اپنے نام کے ساتھ زیدی کا لفظ بھی لگاتے ہیں اور عابدی کا لفظ بھی۔
بخش دے یا رب محمد مصطفی کے واسطے
اور ان سب … بندگان با صفا کے واسطے
۱۔ حضرت امام علی رضی اللہ عنہ
۲۔ حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ
۳۔ حضرت امام زین العابدین رضی اللہ عنہ
۴۔ حضرت زید شہید رحمۃ اللہ علیہ
۵۔ سید حسین ذو الدمعه (حسین بن زید (ذو الدمعه یا ذی العبرة)
۶۔ سید یحیی محدث
۷۔ سید عمر الاعلیٰ
۸۔ سید احمد محدث
۹۔ سید حسن ظفری
۱۰۔ سید علی زید
۱۱۔ سید عبد اللہ ثانی
۱۲۔ سید ابو طاہر
۱۳۔ سید محمد طاہر
۱۴۔ سید عبد اللہ
۱۵۔ سید ابوبکر
۱۶۔ سید عثمان
۱۷۔ سید کمال الدین ترمذی
۱۸۔ سید علیم الدین
۱۹۔ سید عبد الرحمن
۲۰۔ سید عبد اللہ
۲۱۔سید عبد الوہاب
۲۲۔ سید نظام الدین
۲۳۔ سید نور الدین
۲۴۔ سید محمد شاہ
۲۵۔سید حرمت شاہ
۲۶۔ سید نذیر شاہ
۲۷۔ سید رحیم شاہ
۲۸۔ سید نصیر شاہ
۲۹۔ سید محمد ابراہیم شاہ
۳۰۔ سید مظہر علی
۳۱۔ سید عبد الحمید
۳۲۔ سید محمد حسین
۳۳۔ سید اصغر علی
۳۴۔ سید یعقوب شاہ
۳۵۔ سید حسین شاہ
۳۶۔ سید محمد شریف شاہ
۳۷۔ سید فتح علی شاہ
۳۸۔ سید غوث علی شاہ
۳۹۔ سید بہادر علی شاہ
۴۰۔ سید نور الدین شاہ
۴۱۔ سید حبیب شاہ
۴۲۔ سید صابر شاہ
۴۳۔ سید عابد شاہ (چھوٹے شاہ یا چھٹن شاہ)
۴۴۔ سید اللہ نور (رحمۃ اللہ علیہ)
سادات کرام کے یہ مبارک اور مقدس نام پڑھ کر بس نعت شریف کا ایک شعر یاد آرہا ہے۔
تیری معراج کہ تو رب حرم تک پہنچا
میری معراج کہ میں تیرے قدم تک پہنچا
نوٹ : اس سنہری لڑی میں سب سے آخر میں جو نام آیا ہے وہ میرے والد محترم (رحمت اللہ علیہ) کا نام ہے۔
صوبہ راجستھان، ریاست میوات، ضلع الور کے اجمیر شریف کے قریب ایک گاؤں رسول پور سے ہمارا تعلق ہے۔ رسول پور کا نام اسی لئے رسول پور ہوا تھا کہ وہاں ہمارے زیدی سادات نے قیام کرنا پسند فرمایا تھا۔ پھر شاہ فیصل ٹاؤن (سابقہ ڈرگ کالونی) میں سادات کالونی کو اسی لئے یہ نام دیا گیا کہ ہجرت کے بعد ہمارے اکثر سادات اسی جگہ آکر آباد ہوئے تھے۔
سادات کرام کیلئے شجرہ کا پاس ہونا بہت ضروری خیال کیا جاتا ہے۔ لیکن تقسیم کے بعد سب کچھ تو ادھر ہی رہ گیا تھا، وہاں سے لاتا کون؟ ہم ٹھہرے سویلین اور اتنے ٹھیٹ قسم کے سویلین کہ اگر کبھی غلطی سے بھی اپنے آبائی محلے میں قدم رنجہ فرمائیں تو انڈیا والے، اور واپس آ جائیں تو پاکستان والے ہمارا ناطقہ بند کردیں۔ بھلا ہو میرے دادا مرحوم کی واحد نشانی میرے چچا جان کا کہ انہوں نے اس کام کا بیڑا اٹھایا، اور انڈیا جاکر وہاں موجود اس کام کے ماہر جگّوں سے رابطہ کیا۔ وہاں ہمارا سارا شجرہ پہلے سے ہی موجود تھا۔ میرے چچا جان نے اس نعمت پر ایک کتاب بھی تحریر فرمائی ہے، لیکن ابھی تک مجھے اس کے مطالعے کا شرف حاصل نہیں ہوسکا ہے۔ امید ہے کہ جلد ہی مجھے یہ سعادت بھی ملے گی۔ اس کتاب میں انہوں نے اس سلسلۂ نوری زیدی سادات کے بزرگوں کی کئی کرامات بیان کی ہیں اور شکی مزاج راجہ کے اعتراض پر ایک نوری سید زادے کے ہاتھوں سے آگ اور انگارے اٹھانے کا بھی تذکرہ کیا ہے۔
یہ شجرہ مجھے حال ہی میں ملا ہے، کوئی ایک مہینہ پہلے۔ اس لئے شیئر کردیا کہ جو برادر وہاں جا نہ سکے، وہ اس شجرے سے فائدہ اٹھا لے۔ یہ خاکسار اب کوئی پیر مہر علی شاہ گولڑوی جیسا کرامتی بندہ تو ہے نہیں جو ٹوپی کے نیچے اپنا شجرہ رکھ دے اور معاندین کو چیلنج کردے کہ جس میں طاقت ہے وہ اٹھا کر دیکھ لے۔ ہم نے تو چپ چاپ خود ہی اپنی ٹوپی کے اوپر ہی رکھ دیا ہے شجرہ، جو دیکھنا چاہے، دیکھ لے۔
اس سنہری سلسلے میں سترہویں اور اٹھارویں نمبر پر جو دو مبارک نام آئے ہیں، یہ مشہور ولی اللہ ہوئے ہیں اپنے دور کے۔ اور غیر مشہور ولایت تو اس گھر کی لونڈی رہی ہے۔ حضرت ظفر صاحب میرے پیر و مرشد فرماتے تھے کہ آپ کے والد محترم خاموش ولی (غیر مشہور ولی) ہیں۔ ہاں ٹھیک ہی تو فرمایا تھا آپ نے۔ جسے ولایت ملے، اسے شہرت کی کیا پرواہ؟ خود میں نے سن 2000ء میں جانا کہ ابا جی میں ساری باتیں ولیوں والی ہیں، امی ولی ایسا ہی ہوتا ہے۔ پھر غالباً 2004 میں حضرت صاحب نے بھی ایسا ہی کچھ فرمایا۔
ابا جی نے اپنے وصال سے چار پانچ مہینوں قبل ہی ارشاد فرما دیا تھا کہ بیٹا مجھے جمعہ ملے گا۔ اور ایسا ہی ہوا۔ صبح 11 بجے آپ نے داعی اجل کی آواز پر لبیک کہا۔ آپ کے وصال سے ایک دن پہلے (جمعرات) کو مجھے آپ پر دم کرنے کا موقع ملا تھا۔ میں نے صرف درود تاج پڑھ کر دم کیا اور اپنے لئے آپ سے دعا کی درخواست کی۔ فاروق بھائی میرے ہمراہ تھے۔ دم کے دوران والد صاحب کا سامنا تو میں نے کرلیا تھا، لیکن والدہ سے خشک آنکھیں نہ ملا سکا اور دو آنسو لڑھکا کر خاموشی میں اشارے سے اجازت طلب کی۔
ابا جان نے ساری عمر ڈاکٹروں کے پاس جانے سے مکمل پرہیز کیا۔ تاہم پِیروں کے حق میں تھے لیکن فرماتے تھے کوئی پیر ایسا کامل نہیں ملا جس کی بیعت کر کے خوشی محسوس ہو۔ بلا شبہ آپ ٹھیک ہی فرمایا کرتے تھے، اس دور کی پیری مریدی بس نام کی رہ گئی ہے۔ لیکن جس بیمار کا عیسیٰ آسمان پر چلا جائے، وہ غریب جڑی بوٹیوں کا سہارا نہ لے تو اور کیا کرے۔ پھر نوے کی دہائی میں اعظم صاحب کی وساطت سے مجھے حضرت میاں مظہر احسان ڈاہر رحمت اللہ علیہ کی بیعت کرنے کا شرف حاصل ہوا۔ چند سال آپ کی صحبت ملی تو دل کا رنگ بدل گیا۔ والد نے مجھے ملاحظہ کیا تو فرمایا کہ بیٹا، تیرا پیر واقعی پیر ہے۔ وہ اگر کراچی آیا تو میں اس کی بیعت ضرور کر لوں گا۔ لیکن بڑے حضرت صاحب کا پھر کبھی کراچی آنا نہ ہوسکا۔
ابّاجی فرماتے تھے کہ میں بڑے پیر کا مرید ہوں۔ آپ کا اشارہ غوث پاک کے اس قول کی طرف تھا جس میں آپ نے فرمایا ہے کہ جو اپنے آپ کو میرا مرید جانے وہ میرا ہی مرید ہے۔ والدِ محترم رحمۃ اللہ علیہ، حضرت سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃ اللہ علیہ کے مرید تھے۔آپ کی بیعت اویسی تھی، آپ کو سیدنا شیخ عبد القادر جیلانی رضی اللہ تعالٰی عنہ نے خواب میں اپنا مرید بنایا تھا اور جامِ محبت عطا فرمایا تھا۔ آپ کو غوثِ اعظم جیلانی رضی اللہ عنہ سے بِلا واسطہ فیض ملا تھا۔
سید (سردار) کے لفظ کے اصل حقدار تو آقائے دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم ہیں کہ آپ سید العرب و العجم ہیں، سید البشر ہیں، سید ولد آدم ہیں، سید المرسلین ہیں، سید المعصومین ہیں، سید المبلغین ہیں، سید المجاہدین ہیں، سیادت کا لفظ تو صرف آپ ہی کی ذات پر سجتا اور صادق آتا ہے۔ لیکن جب کسی نے آپ کو کسی نے سیدُ القریش کہہ کر پکارا تو آپ نے اظہار عاجزی کرتے ہوئے فرمایا کہ (اصلی) سید تو اللہ ہے۔
جَاءَ رَجُلٌ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ أَنْتَ سَيِّدُ قُرَيْش فَقَالَ النَّبِي لله السَّيِّدُ اللَّهُ
(الأحاديث المختارة)
لیکن یہ حقیقت ہے کہ آپ نے مختلف مواقع پر اپنا سید و سردار ہونا خود بیان فرمایا ہے۔ وہ احادیث تو کسی اور وقت بیان کروں گا، ابھی دیگر سیدوں کا تذکرہ کرتا چلوں جنہیں احادیث میں سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وآلہٖ وسلم یا صحابۂ کرام یا صالحین امت نے سید فرمایا۔ ان کی تعداد بہت ہے، صرف چند کا تذکرہ کرتا ہوں۔
سید ۔۔۔۔۔ حضرت یحیی علیہ السلام کا قرآنی لقب اور حضرت امام حسن رضی اللہ عنہ کا لقب ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ میرا یہ بیٹا سید ہے۔
یہ بھی یاد رہے کہ اہل بیت پاک کی طرف منسوب نہ ہوگا مگر پاکیزہ خصال۔ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ منافق کو سید نہ کہو۔ اگرچہ یہ سید کے عام معنی (یعنی قوم کا سردار یا اپنا سردار) میں ہے۔ لیکن بہتر ہے کہ پاکیزہ خصال لوگوں کو ہی اس طرح سے پکارا جائے۔
کیوں یاد رکھا جائے اپنے بڑوں کو؟ اس دور میں کون یاد رکھتا ہے؟ کس کے پاس اتنا وقت ہے جو نسلوں سے واقف رہ سکے۔ ہاں، آسانی تو اسی میں ہے کہ انہیں بھول جایا جائے، اپنی دنیا میں گم رہا جائے۔ لیکن کیا کریں، یہ ہمارے اجداد اور ہمارے اسلاف کی سنت نہیں۔
کیا سورۂ بقرہ کی آیت 133 کا سبق بھول گئے؟ جس میں فرمایا گیا کہ
{ أَمْ كُنْتُمْ شُهَدَاءَ إِذْ حَضَرَ يَعْقُوبَ الْمَوْتُ إِذْ قَالَ لِبَنِيهِ مَا تَعْبُدُونَ مِنْ بَعْدِي قَالُوا نَعْبُدُ إِلَهَكَ وَ إِلَهَ آبَائِكَ إِبْرَاهِيمَ وَ إِسْمَاعِيلَ وَ إِسْحَاقَ إِلَهًا وَاحِدًا وَ نَحْنُ لَهُ مُسْلِمُونَ } [البقرة: 133]
یعنی : بلکہ تم میں کے خود موجود تھے جب یعقوب ؑ کو موت آئی جبکہ اس نے اپنے بیٹوں سے فرمایا میرے بعد کس کی پوجا کرو گے بولے ہم پوجیں گے اسے جو خدا ہے آپ کا اور آپ کے آباء ابراہیم ؑ و اسمٰعیل ؑ و اسحاقؑ کا ایک خدا اور ہم اس کے حضور گردن رکھے ہیں۔
ان مقدس لوگوں کو یاد رکھنا دنیا نہیں، دین ہے۔ کیونکہ یہ ہمارے بڑے ہیں جنہوں نے ہمیں توحید کے سبق سے آشنا کیا ہے۔
ایک گرام ایک ہزار ملی گرام پہ مشتمل ہوتا ہے۔
Aadad | 3439882 | ||
Alphabets (Arabic/English/Urdu)) | 54739 | ||
Characters (Excluding Spaces) | 63581 | ||
Characters (With Spaces) | 80529 | ||
Dot-free Words (Longest) | ڈاکٹروں | الأعمال | مالداروں |
Dotted Words (Most Dots) | نقشبندی | خشخاش | مشتقات |
Frequent Nouns | کفارہ | اللہ | زکوٰۃ |
Longest Words | المعصومین | المجاہدین | الِاسْتِغْفَارِ |
Non-alphabets (Symbols etc.) | 25790 | ||
Reading Ease | 67 % | ||
Reading Time | 68 Minutes | ||
Sentences | 5035 | ||
Words (Total) | 15793 | ||
Words (Unique) | 3278 = 20% |
Mar 18, 2022 Aastana-e-Noori
[1] کتاب العین کو عربی زبان کی پہلی لغت ہونے کا شرف حاصل ہے؛ نہ صرف عربی کی بلکہ یہ دنیا کی سب سے پہلی لغت ہے۔ اس سے پہلے دنیا کی کسی زبان میں کوئی لغت مرتب نہ کی گئی۔ کتاب العین میں کلمات کو ان کے مخارج کی ترتیب سے درج کیا گیا ہے کہ جو آواز حلق کے جتنے اندر سے نکلتی ہے، اسے سب سے پہلے درج کیا گیا ہے اور جو آواز منہ کے سب سے باہری حصے سے ادا ہوتی ہے اسے سب سے آخر میں درج کیا گیا ہے سوائے حروفِ علت کے۔ حروف علت کو سب سے آخر میں درج کیا گیا ہے اور اس میں ہمزہ کو بھی حروف علت گنا گیا ہے۔ اس میں کلمات کی ترتیب یوں ہے: (ع، ح، هـ، غ، خ، ق، ك، ج، ش، ض، ص، س، ز، ط، ت، د، ظ، ذ، ث، ر، ل، ن، ف، ب، م، و، ي، ا.) یعنی سب سے پہلے حرف عین کے کلمات ہیں