علم الحديث: سات سنہری اصول https://bit.ly/Hadith-Basics
رساله تجديد الاسلام
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن36:17)
اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پیغام پہنچا دینا ہے
Our mission is only to convey the message clearly
قرآن اور اسلامی مذہبی تاریخ کے گہرے مطالعه سےحیران کن حقائق کا انکشاف ہوا جو پہلی صدی ہجری کے دین کامل کے احیاء کی ایمیت کو واضح کرتے ہیں۔ "رساله تجديد الاسلام" مسلمانوں کے انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی کا پیغام ہے-
علم الحديث سبع قواعد ذهبية
علم الحديث کے سات سنہری اصول
Seven Golden Rules of Science of Hadith
https://bit.ly/Hadith-Basics \ https://bit.ly/Islamic-Sources
تحقیق و تجزیہ: بریگیڈئر آفتاب احمد خان (ر)
https://bit.ly/Tejdeed-Islam \ http://SalaamOne.com/Revival
https://Quran1book.blogspot.com \ https://Quran1book.wordpress.com
https://www.facebook.com/IslamiRevival
Updated: 20-01-22 21:00
رساله تجديد الاسلام
وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن36:17)
اور ہمارے ذمہ تو صرف واضح طور پر پیغام پہنچا دینا ہے
Our mission is only to convey the message clearly
بسم الله الرحمن الرحيم
لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ اس کی ہٹ دھرمی پر گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا- ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ پر اہل بیت، خلفاء راشدین واصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین پر- .دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی (ضَلَالَۃٌ) ہے- جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا -
قرآن اور اسلامی مذہبی تاریخ کے گہرے مطالعه سےحیران کن حقائق کا انکشاف ہوا، جو پہلی صدی ہجری کے دین کامل کے احیاء کی ایمیت کو واضح کرتے ہیں۔ "أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ﷺ" کی بنیاد پر "رساله تجديد الاسلام" مسلمانوں کے انداز فکروعمل میں مثبت تبدیلی کا پیغام ہے-
"رساله تجديد الاسلام" بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ریٹائرڈ) کی تحقیقی کاوش ہے- آپ فری لانس مصنف ، محقق اور بلاگر ہیں، پولیٹیکل سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، اسٹریٹجک اسٹڈیزمیں ماسٹرزکیا ہے اور قرآن کریم، دیگر آسمانی کتب، تعلیمات اور پیروکاروں کے مطالعہ میں دو دہائیوں سے زیادہ وقت صرف کیا ہے- وہ 2006 سے " Defence Journal کے لیے لکھ رہے ہیں۔ ان کی منتخب تحریریں پچاس سے زائد کتب میں مہیا [ہیں۔ ان کے علمی و تحقیقی کام کو 4.5 ملین تک رسائی ہو چکی ہے:
رسول اللہ ﷺ اخطبہ کے شروع میں ارشاد فرماتے تھے :
أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ کِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَی هُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ
اما بعد کہ بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے [1]
قُلْ هَاتُوا بُرْهَانَكُمْ إِن كُنتُمْ صَادِقِينَ
کہہ دو کہ دلیل پیش کرو اگر تم سچے ہو(قرآن:2:111)[2]
علم الحديث کے سات سنہری اصول
قرآن الله تعالی کی آخری کتاب ھدایت ہے، یہ مسلمانوں کے ایمان کا اہم جزو ہے- کسی اور کتاب پر ایمان دائرہ اسلام سے باہر کر دیتا ہے[3]- اللہ کا فرمان ہے:
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّـهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّـهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّـهَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾
در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (33:21)
رسول اللہ ﷺ کے أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ پر عمل کے دو طریقے ہیں، ایک سنت رسول اللہ ﷺ (عمل) جس کو ہزاروں صحابہ نے دیکھا اور اس پر عمل کیا، جیسے صَلَاة ، روزہ ، زکاۃ ، حج، نکاح وغیرہ-
دوسرا آپ کے اقوال، ارشادات اور فرامین (احادیث) جوکہ کبھی زیادہ کبھی کم یا ایک دو صحابہ نے سنے- قرآن[4] اور رسول اللہ ﷺ کے حکم کے مطابق کسی بھی "کتاب حدیث" کی سختی سے ممانعت[5] ہے- (اس حقیقت کو چھپانے، متنازعہ بنانے کی تمام ناکام کوششیں قرآن،[6] سنت، احادیث اور تاریخ سے ثابت ہیں[7]،[8])-
رسول اللہ ﷺ نے اپنے اقوال، مقالے (احادیث) کی ترسیل کا طریقہ بتلایا، فرمایا کہ:
’’اللہ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے میرا مقالہ (مَقَالَتِي/ قول یا ترجمہ: حدیث) کو سنا، اسےحفظ کیا، اور پھر اسے آگے بیان کیا....(نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا)‘‘(مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 228)[9]
صحابہ اکرام نے احادیث کوسنا حفظ کیا اور آگے منتقل کیا [کچھ کو حفظ کی کمزوری پر نوٹس لکھنے کی اجازت ملی مگر حضرت ابوهریره (رضی الله) اور بہت کو انکار ہوا[10] اور وہ مرتے دم تک اس ممانعت پر عمل کی تاکید کر تے رہے]
خلفاء راشدین نے قرآن کی کتابت و تدوین[11] مرحلہ وار کی- احادیث کی منتقلی حفظ و بیان و سماع پر محدودررہی جس پر صدیوں عمل ہوا، دوسری تیسری صدی ھ میں کتب حدیث لکھنے کے باوجود آج بھی یہ سلسلہ کسی حد تک موجود ہے-
قرآن اور سنت رسول اللہ ﷺ متواتر نسل در نسل منتقل ہونے کی وجہ سے مکمل محفوظ ہیں- سنت اور حدیث میں فرق[12] ہے-
جو رسول اللہﷺ ںے بذات خود واضح کیا مگر لوگ جان بوجھ کر ان کو مکس کرتے ہیں تاکہ رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی کے جواز گھڑا جا سکے-
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ وَمَا كَانَ سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فضل . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه
ترجمہ:
عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ علم تین ہیں:
1)آیت محکمہ اور
2)سنت* ثابتہ اور
3)فریضہ عادلہ (فرائض منصفانہ)
(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 239، رواہ ابوداؤد (2558) و ابن ماجہ (54) الذھبی فی تلخیص المستدرک (۴/ ۳۳۲)۔
*سنت اور حدیث دو عیلحدہ چیزیں ہیں ، عمومی طور پر عام مسلمان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ ایک بات ہے جو کہ درست نہیں - رسول ﷺ نے ان دونوں میں فرق رکھا -
امام سیوتی نے متواتر 113 احادیث شمار کیں جن میں ہر درجہ پر دس راوی ہیں ، زیادہ احکام عبادات سے متعلق) یہ سنت کے قریب تر ہیں- باقی ہزاروں "احد" احادیث کو "اصول حدیث" پر پرکھنے سے ان کی حیتیت کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے -تحقیق کے بغیر آنکھیں بند کرکہ قبول کرنا گمراہی کا سبب ہو سکتا ہے-
تمام جھگڑے، فرقے، فساد ، فتنہ ، قرآن کی محکم آیات (3:7) کو چھوڑ کر دوسری غیر محکم آیات سے تاویلیں کے زور پر عقائد و نظریات نکالنے کی بدعة پر کھڑے ہیں ، جو باطل ہیں، کوئی بھی چیک کر سکتا ہے دلیل مانگ کر۔ کسی لقمان، ارسطو، آئین سٹائین کی ضرورت نہیں۔ جب دلیل ، آیت قرآن محکم ہو تو اسے تشریح کی ضرورت نہیں ہوتی، عام عقل common sense کافی ہے جس کا استعمال common نہیں۔
اس علم کو علم الفرائض کہا جاتا ہے. فرائض: فریضہ کی جمع ہے جو فرض سے ماخوذ ہے۔ فرض کے لغوی معنی مقرر کرنے کے ہیں، اس لیے کہ اس علم میں ورثاء کے حصے مقرر شدہ ہوتے ہیں۔ لہذا فریضۃ وہ مقرر حصہ ہے جو شریعت نے مستحق شخص کے لیے مقرر کیا ہے۔ علم فرائض کی تعریف یوں کی جاتی ہے:"فقہ و حساب سے متعلق ان اصولوں کو جاننا جن کے ذریعے سے ترکہ میں سے وارثوں کے حصے معلوم ہوں۔"
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ وَعَلِّمُوهَا فَإِنَّهُ نِصْفُ الْعِلْمِ، وَهُوَ يُنْسَى، وَهُوَ أَوَّلُ شَيْءٍ يُنْزَعُ مِنْ أُمَّتِي"
"علم فرائض سیکھو اور اسے (لوگوں کو) سکھاؤ کیونکہ یہ نصف علم ہے اور اسے بھلا دیا جائے گا۔ اور علم میں سے یہی وہ پہلی شے ہو گی جسے میری امت سے اٹھا لیا جائے گا۔[13]
ایک روایت میں ہے:
"فَإِنِّي امْرُؤٌ مَقْبُوضٌ وَالْعِلْمُ سَيُقْبَضُ وَتَظْهَرُ الْفِتَنُ حَتَّى يَخْتَلِفَ اثْنَانِ فِي فَرِيضَةٍ لَا يَجِدَانِ أَحَدًا يَفْصِلُ بَيْنَهُمَا"
"میں ایسا انسان ہوں جس کی روح قبض کرلی جائے گی اور بے شک علم اٹھالیا جائے گا۔فتنے ظاہر ہوں گے حتی کہ دو آدمی مسئلہ وراثت میں اختلاف کریں گے۔ لیکن کوئی فیصلہ کرنے والا نہ پائیں گے[14]
مفہوم یہ ہے کہ انسان کی دوحالتیں ہیں: ایک حالت حیات اور دوسری حالت موت۔ علم فرائض کا تعلق موت کے بعد کے احکام سے ہے جبکہ بقیہ علوم حیات سے متعلق ہیں۔
وراثت کا موضوع نہایت اہم اور قابل اعتناء ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بہت سی احادیث میں اس علم کو سیکھنے اور سکھانے کی طرف توجہ دلائی ہے[15]
سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کا قول ہے: "تَعَلَّمُوا الْفَرَائِضَ فَإِنَّهَا مِنْ دِينِكُمْ" "علم فرائض سیکھو کیونکہ یہ تمہارے دین کا حصہ ہے۔"[a]
سیدنا ابن مسعود رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے:
"مَن تَعَلَّم الْقُرْآنَ، فَلْيَتَعَلَّم الْفَرَائِضَ" "جو شخص قرآن مجید کا علم حاصل کرے وہ فرائض کا علم بھی سیکھے۔"[b]
بعض علماء نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ تمام لوگوں کو اس علم سے واسطہ پڑتا ہے، یعنی لوگ تقسیم ترکہ میں علم فرائض کے زیادہ محتاج ہیں۔ اسی طرح بعض علماء نے اس کے اور بھی مطالب بیان کیے ہیں۔ الغرض مقصد یہ ہے کہ اس علم کی تعلیم و تدریس میں اہتمام کرنے کی اشد ضرورت ہے۔
منصفانہ وراثت، فرائض کا علم جس سے ترکے کی تقسیم انصاف کے ساتھ ہو سکے‘‘ شریعت کے وضع کردہ احکام میراث میں کسی قسم کا تغیر جائز نہیں ان میں تغیر کرنا اللہ عزوجل کے ساتھ کفر کرنا ہے۔
اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
"تِلْكَ حُدُودُ اللّٰهِ ۚ وَمَن يُطِعِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ يُدْخِلْهُ جَنَّاتٍ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ وَذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٣﴾ وَمَن يَعْصِ اللّٰهَ وَرَسُولَهُ وَيَتَعَدَّ حُدُودَهُ يُدْخِلْهُ نَارًا خَالِدًا فِيهَا وَلَهُ عَذَابٌ مُّهِينٌ "
"یہ حدیں اللہ کی مقرر کی ہوئی ہیں اور جو اللہ کی اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کرے گا اسے اللہ جنتوں میں لے جائے گا جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں جن میں وه ہمیشہ رہیں گے اور یہ بہت بڑی کامیابی ہے ۔اور جو شخص اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے اور اس کی مقرره حدوں سے آگے نکلے اسے وه جہنم میں ڈال دے گا جس میں وه ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لیے رسوا کن عذاب ہے۔" (قرآن 4:13,14)[16]
حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے وہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
" مَنْ قَطَعَ مِيرَاث وَارِثِهِ ، قَطَعَ اللّٰهُ مِيرَاثَهُ مِنَ الْجَنَّةِ يَوْمَ الْقِيَامَةِ. "
"جس نے کسی وارث کو اس کی میراث سے محروم کیا تو اللہ تعالیٰ قیامت کے روزاسے جنت کی میراث سے محروم کردے گا۔"(سنن ابن ماجہ)
علماء کے مطابق وراثت کے احکام میں ترامیم کرنے والا شخص کافر ہے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ کے لیے جہنمی ہے الایہ کہ وہ موت سے قبل توبہ کرلے[17]
مزید پڑھیں :
احادیث کا علم زائد ہے ، یہ اسلام کے بنیادی مصادر میں شامل نہیں ، لیکن عملی طور پر معامله الٹ ہے، حدیث کو قرآن پر ترجیح دی جاتی ہے وہ اس طرح کہ کہتے ہیں ہم قرآن کی تشریح ، تفسیر کرتے ہیں جو احادیث کے بغیر ممکن نہیں - اگر ایسی بات درست ہے تو پھر رسول اللہ نے کیوں حدیث کو بنیادی تین مصادرمیں شامل نہ کیا ؟ اب ایسا کرنا کیا بدعة نہیں ؟
بدعة کو گمراہی (ضَلَالَۃٌ) کہا گیا اور اس کی سختی سے ممانعت ہے - رسول اللہ خطبہ کے آغاز میں جو فرماتے تھے وہ پہلے آپ پڑھ چکے ہیں-
اب موجودہ صورت حال میں ضروری ہے کہ حدیث کے میعار کو قرآن و سنت کے دائرہ کار میں لایا جایے تاکہ افراتفری، گمراہی (ضَلَالَۃٌ) کو کنٹرول کیا جا سکے-[19]
حدیث اور سنت میں فرق:
1.عام غلط فہمی ہے کہ حدیث اور سنت ایک ہی چیز ہے۔ فی الحقیقت ؛ حدیث اور سنت دونوں ایک دوسرے سے ناصرف لسانی اعتبار سے بلکہ شریعت میں اپنے استعمال کے لحاظ سے بھی ایک دوسرے سے مختلف ہیں۔
2.اسلام ؛ قرآن اور سنت پر عمل کرنے کا نام ہے۔ سنت کی تشکیل میں احادیث کا کوئی کردارنہیں، اگرچہ سنت کو لکھ کر کسی کتاب میں شامل کرکہ دوسرے مواد کو جسٹیفا ای justify کرنے کی کوشش کریں – لیکن سنت صرف احادیث سے نہیں بنی ہوتی ہے؛ سنت میں رسول اللہﷺ کی زندگی کا وہ حصہ بھی شامل ہے جو الفاظ کی شکل میں نہیں مثال کے طور پر تقریر اور یا کسی عبادت کا طریقہ ، تقریر کو محدثین حدیث میں بھی شمار کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ سنت میں قرآن اور حدیث میں بیان کردہ ہدایات پر عمل کرنے کا نمونہ پایا جاتا ہے؛ یہ طریقہ یا عملی نمونہ محمد رسول اللہﷺ کے زمانے میں موجود اس عہد کی نسل سے اجتماعی طور پر اگلی اور پھر اگلی نسل میں منتقل ہوتا رہتا ہے اور اس کی اس اجتماعی منتقلی کی وجہ سے اس میں نقص یا ضعف آجانے کا امکان حدیث کی نسبت کم ہوتا ہے کیونکہ حدیث ایک، دو راوی سے دوسرے راوی تک انفرادی طور پر منتقل ہوتی ہے اور اس منتقلی کے دوران اس راوی کی حیثیت ، اعتبار اور اس کی یاداشت کا دخل ہوتا ہے۔ مگر سنت اجتماعئی طور پر منتقل ہوتی ہے تو اس میں غلطی نہ ممکن ہے –
3.نکاح کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ قربانی کرنا سنّت ہے، حدیث نہیں؛ مسواک کرنا سنّت ہے، حدیث کوئی نہیں کہتا. کسی حدیث کو سنت سے پرکھا جا سکتا ہے:
عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ , عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , قَالَ : ” سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ , فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي , وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي ” [(١) سنن الدارقطني: كِتَابٌ فِي الأَقْضِيَةِ وَالأَحْكَامِ وَغَيْرِ ذَلِكَ، كتاب عمر رضي الله عنه إلى أبي موسى الأشعري، رقم الحديث: ٣٩٢٦(٤٤٢٧) ؛
حضرت ابو ہریرہ رضی الله عنہ، نبی صلے الله علیہ وسلم سے مروی ہیں کہ میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو “کتاب الله” اور “میری سنّت” کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی. اور جو “کتاب الله” اور “میری-سنّت” کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی. .(٢) الكفاية في علم الرواية للخطيب:التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ، رقم الحديث: ٣١١(٥٠٠٤)؛ (٣) ذم الكلام وأهله لعبد الله الأنصاري:الْبَابُ التَّاسِعُ، بَابٌ : ذِكْرُ إِعْلَامِ الْمُصْطَفَى صَلَّى اللَّهُ …رقم الحديث: ٥٨٩(٦٠٦)؛ (٤) الأباطيل والمناكير والمشاهير للجورقاني: كِتَابُ الْفِتَنِ، بَابُ : الرُّجُوعِ إِلَى الْكِتَابِ وَالسُّنَّةِ رقم الحديث:٢٧٧(٢٩٠ ٥) الكامل في ضعفاء الرجال » من ابتداء أساميهم صاد » من اسمه صالح؛ رقم الحديث: 4284 ٦) التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ » التَّوَثُّقُ فِي اسْتِفْتَاءِ الْجَمَاعَةِ؛ رقم الحديث: ٣١١] دلیل_فقہ ١) کھڑے ہوکر پیشاب کرنا[صحیح بخاری، کتاب الوضو، حدیث#٢٢١] اور کھڑے ہوکر پانی پینا [صحيح البخاري » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » باب الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: ٥٢١٣(٥٦١٥)] حدیث سے ثابت ہے، مگر یہ سنّت (عادت) نہ تھی، بلکہ سنّت (عادت) بیٹھکر پیشاب کرنا [صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب التَّبَرُّزِ فِي الْبُيُوتِ، رقم الحديث: ١٤٧(١٤٩)] اور بیٹھکر پانی پینا تھی، کھڑے ہوکر پینے سے منع فرمایا.[صحيح مسلم » كِتَاب الْأَشْرِبَةِ » بَاب كَرَاهِيَةِ الشُّرْبِ قَائِمًا، رقم الحديث: ٣٧٧٨(٢٠٢٥)]
٢) وضو میں ہے عضوو کو (حدیث میں)
(١)ایک بار دھونا بھی ثابت ہے[صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ مَرَّةً مَرَّةً، رقم الحديث: ١٥٥(١٥٧)]،
(٢) دو بار دھونا بھی ثابت ہے[صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ مَرَّتَيْنِ مَرَّتَيْنِ، رقم الحديث: ١٥٦(١٥٨)]، اور تین (٣) بار دھونا بھی ثابت ہے [صحيح البخاري » كِتَاب الْوُضُوءِ » بَاب الْوُضُوءِ ثَلَاثًا ثَلَاثًا، رقم الحديث: ١٥٧(١٥٩)] مگر عادت ٣،٣ بار دھونا “عملی-متواتر” سنّت ہے.
٣) (پاک) نعلین(جوتے) پہن-کر نماز “پڑھتے-رہنا”(متواتر-حدیث سے) ثابت ہے [ صحيح البخاري » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الصَّلَاةِ فِي النِّعَالِ، رقم الحديث: ٣٧٦(٣٨٦)] ایک بھی حدیث نعلین اتارکر پڑھنے کی بخاری اور مسلم میں نہیں، مگر “عملی-تواتر” اور “تعامل/اجماع_امت” سے نعلین پھن کر نماز پڑھنا عادت(سنّت) نہیں. عمروبن شعیب بسند والد روایت کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو جوتوں سمیت اور (بغیر جوتوں کے) ننگے پاؤں نماز پڑھتے دیکھا ہے۔
(١) مصنف ابن أبي شيبة » كتاب الصلاة » أَبْوَابٌ شَتَّى مِنَ الصَّلاةِ » مَنْ رَخَّصَ فِي الصَّلَاةِ فِي النَّعْلَيْنِ،رقم الحديث: ٧٦٨٤(٧٩٣٥)،
(٢)سنن ابن ماجه » كِتَاب إِقَامَةِ الصَّلَاةِ وَالسُّنَّةِ فِيهَا » بَاب الصَّلَاةِ فِي النِّعَالِ، رقم الحديث: ١٠٢٨(١٠٣٨)،
(٣)سنن أبي داود » كِتَاب الصَّلَاةِ » بَاب الصَّلَاةِ فِي النَّعْلِ، رقم الحديث: ٥٥٦(٦٥٣)]
٤) نماز میں گردن پر بچی (نبی صلے الله علیہ وسلم کا اپنی بیٹی زینب کی بیٹی “امامہ بنت ابی العاص”=نواسي_رسول) کو اٹھانا حدیث [صحيح البخاري » كِتَاب الصَّلَاةِ » أَبْوَابُ سُتْرَةِ الْمُصَلِّي » بَاب إِذَا حَمَلَ جَارِيَةً صَغِيرَةً عَلَى عُنُقِهِ …،رقم الحديث: ٤٨٩(٥١٦)] میں فعل-ماضی-استمراری کے الفاظ “كان يصلي” (یعنی ایسے نماز پڑتے تھے) سے ثابت ہے، مگر یہ عادت (سنّت) نہ تھی، سو صحابہ(رضی الله عنھم) اور جماعت_مومنین کی بھی عادت(سنّت) نہ بنی.
٥) وضو کے بعد یا حالت_روزہ میں بیوی سے بوس و کنار کرنا ثابت ہے مگر عادت (سنّت) نہ تھی ، لیکن وضو میں کلی کرنا یا روزہ کے لئے سحری کھانا آپ کی سنّت (عادت مبارکہ) تھی جس کو سنّت کہا جاۓ گا.
سنت و الجماع
سنت کا نمونہ رسول اللہﷺ نے پیش کیا اور پھر اس کے بعد اصحاب اکرام اور تابعین سے ہوتا ہوا موجودہ زمانے تک پہنچا ہے اسی ليے اس میں امت کے اجتماعی درست طریقۂ کار یا راہ کا مفہوم بھی شامل ہوتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ عموماً اس کے ساتھ الجماعت کا لفظ لگا کر سنت و الجماع بھی کہا جاتا ہے۔ حدیث اور سنت کا فرق مفہوم کے لحاظ سے اسلامی شریعت میں پایا جاتا ہے –
حدیث کو رد کرنے کا رحجان مغرب کی استعماریت سے مقابل آنے کے ليے اس سے متصادم اسلامی نظریات کو رد کرنے والے جدت پسندوں کی جانب سے بیسویں صدی کے اوائل میں بھی سامنے آیا، ان ہی میں سے ایک شخص عبداللہ چکرالوی نے احادیث کو یکسر رد کر کہ اہل القرآن کی بنیاد ڈالی۔
پڑھیں :
دوسری جانب اہل حدیث بھی انتہا پر پہنچے ہوۓ ہیں؛ ان کے نزدیک حدیث کی متابعت ، قرآن شریف کی آیات کے اتباع کے برابر ہے کیونکہ قرآن کریم میں اللہ تعالٰی نے خود رسول اللہﷺ (کی دین سے متعلق) ہر بات کو اللہ کی اجازت سے ہونے کی ضمانت دی ہے اور اس سلسلے میں سورت النجم کی ابتدائی 15 آیات بکثرت حوالے کے طور پیش کی جاتی ہے :
وَ مَا یَنۡطِقُ عَنِ الۡہَوٰی ؕ﴿۳﴾
اور نہ وہ اپنی خواہش سے کوئی بات کہتے ہیں ۔ (53:3)
اس سورت کے حوالے میں ایک قابل غور بات یہ ہے کہ سورت میں اللہ تعالٰیٰ کا اشارہ ، محمد رسول اللہﷺ کے اس قول کی جانب ہے جو قرآن کی صورت نازل ہو رہا تھا۔ سنت اور حدیث کا لفظ امامیان اور وفقہا مختلف مفہوم رکھتا ہے-
سب کچھ الله کی تخلیق ہے….
وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ وَ مَا تَعۡمَلُوۡنَ ﴿۹۶﴾
حالانکہ اللہ نے تمہیں اور تمہارے کاموں کو پیدا کیا ہے (٣٧:٩٦)
حدیث ، سنت کا حصہ ہوتی ہے لیکن سنت صرف حدیث نہیں ہوتی۔ امام شافعی رح نے کہا:
“میں کسی ایسے شخص کو نہیں جانتا جو تمام سنت اور احادیث کو جانتا ہو۔ اگر احادیث کا علم رکھنے والے علما کے علم کو یکجا کیا جاۓ تو صرف اسی حالت میں تمام سنت آشکار ہوسکتی ہے۔ چونکہ ماہرین حدیث دنیا کے ہر گوشے میں پھیلے ہیں اس وجہ سے بہت سی احادیث ایسی ہوں گی جن تک ایک عالم حدیث کی رسائی نہ ہوگی لیکن اگر ایک عالم ان سے نا آشنا ہے تو دوسروں کو ان کا علم ہوگا”
قران و سنت کے علاوہ اسلام کی تیسری اور چوتھی اصل وبنیاد، اجماع امت اور قیاس ہے اور ان چاروں اصولوں کا مرجع خود رسول اللہﷺ کی ذاتِ گرامی ہے-
احادیث کی بہت قلیل تعداد تواتر سے منتقل ہوئی، متواتر کی ایک رپورٹ تقریبا اتنی ہی یقینی بات ہے جتنا کہ قرآن مجید، لہذا متواتر حدیث کے رد کو کفر مانا جاتا ہے۔ امام جلال الدین سیوطی[20] (1445–1505 CE) نے 113 متواتر[21] احادیث کو ایک کتاب میں عنوان کیا ہے جو زیادہ ترعبادات پر ہیں- انہوں نے ہر ایک ایسی حدیث کو متواتر شمار کیا جس کے هر رابطه پر 10 راوی تھے۔ متواتر احادیث کے علاوہ باقی ذخیرہ "احد حدیث" ہیں جن کا درجہ یقینی نہیں بلکہ ظنی ہے- [ ظن= خیال، شک، اٹکل، اندازہ]- لیکن اگر یہ رسول اللہ ﷺ کے میعار کے مطابق ہوں تو ان کا درجہ تحقیق سے بلند ہو سکتا ہے نہ کہ ضرورت یا سہولت کی بنیاد پر جیسا کہ فرقہ پرست علماء اپنے مخالفین کے دلائل کو رد کرنے کے لئے ان کی پیش کردہ احادیث کو ضعیف قرار دیتے رہتے ہیں-
اس لیے احادیث کے بیان (سوشل میڈیا پر شئیرکرنے) یا عمل سے پہلے یہ یقین کرنا ضروری ہے کہ وہ رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ بنیادی اصولوں اور میعار کے مطابق ہوں- بدقسمتی سے صدیوں سے ایسا نہیں ہو رہا جو کہ فتنہ، فساد، فرقہ واریت آور امت مسلمہ میں نفاق، فکری، روحانی و دنیاوی انحطاط کی بنیادی وجوہ میں سے ایک ہے- [ اہم سوال: بارہ صدیوں سے ایسا کیوں ہو رہا ہے؟]
اسلامی تاریخ میں یہ شاید پہلی کوشش ہے کہ تمام مجموعہ حديث کوکسی فرد یا گروہ کی اجارہ داری، صوابدید، اختیار کے دائرۂ سے نکال کر الله تعالی اور رسول اللہﷺ کے احکام کے دائرہ میں لایا جائے تاکہ ان سے مفید طریقہ سے استفادہ ممکن ہو-
دین اسلام کے متعلق کوئی بھی عنصراگر الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے واضح احکام کی موجودگی میں ان سے ماورا رکھا جاۓ تو وہ مسلمانوں کے لیے فائدہ مند نہیں نقصان دہ ثابت ہو گا، اگرہم عقل کو استعمال کریں، تفکر کریں تو سمجھ سکتے ہیں- جیسےنشہ میں کچھ فوائد ہیں مگرنقصانات زیادہ، مگر شرابی کو صرف فائدے ہیں نظر آتے ہیں، جب تقصان ظاہر ہوتا ہے تو بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے-
الله اور رسول اللہ ﷺ کی حکم عدولی کے نتیجہ میں قرآن کو متروک العمل کر دیا گیا، جس کی بحالی کی سخت ضرورت ہے:
وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰﴾
اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا ۔ (قرآن 25:30)
الله[22] اور رسول (ﷺ) کی ہدایت کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی پیروی کرنا اللہ کے حکم کے خلاف ہے:-
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن؛ 4:14)
علم الحديث کے سات سنہری اصول
قرآن ، سنت رسول اللہ ﷺ اور احادیث کے گہرے مطالعه سے یہ اہم اصول ملتے ہیں جن کی بنیاد پر موجودہ احادیث کے معیار کی درستگی کو پرکھ کر قبول یا مسترد کیا جاسکتا ہے-
درج ذیل اصول مروجہ اصولوں اور طریقہ کار میں بنیادی اضافہ ہے جس میں مزید تحقیق سے بہتری ممکن ہے- سات سنہری اصول، سنہری اس لیے ہیں کہ قرآن،سنت و حدیث ان کی بنیاد ہے- اور ان میں آیات اور احادیث کے حوالہ جات ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں لہذا ان سب کو اکٹھا ایک مربوط پیکج integrated) package) کے طورپر قبول کرنا ہو گا-
"---- آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کر دوں بس میں تو اسی کا اتباع کرونگا جو میرے پاس وحی[23] کے ذریعے سے پہنچا ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں" (قرآن 10:15)[24]
وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا ﴿٢٧﴾
"اے نبیؐ! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں رد و بدل کرو گے تو) اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے" (18:27)[25]
وَعَنْہ، قَالَ: قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صلی اللہ علیہ وسلم کَلَامِیْ لَا یَنْسَخُ کَلَامَ اﷲِ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ کَلَامِیْ وَ کَلَامُ اﷲِ یَنْسَخُ بَعْضُہ، بِعْضًا (مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: 189)
اور حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا؛ میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،حدیث 189) (سنن دارقطنی: ۱؍۱۱۷) (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 190)
قرآن کی آیات کو منسوخ سمجھنا درست نہیں
وَعَنْ عَمْرِو بْنِ شُعَيْبٍ عَنْ أَبِيهِ عَنْ جَدِّهِ قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قوما يتدارؤون فِي الْقُرْآنِ فَقَالَ: إِنَّمَا هَلَكَ مَنْ كَانَ قَبْلَكُمْ بِهَذَا: ضَرَبُوا كِتَابَ اللَّهِ بَعْضَهُ بِبَعْضٍ وَإِنَّمَا نَزَلَ كِتَابُ اللَّهِ يُصَدِّقُ بَعْضُهُ بَعْضًا فَلَا تُكَذِّبُوا بَعْضَهُ بِبَعْضٍ فَمَا عَلِمْتُمْ مِنْهُ فَقُولُوا وَمَا جَهِلْتُمْ فَكِلُوهُ إِلَى عَالِمِهِ . رَوَاهُ أَحْمد وَابْن مَاجَه
ترجمہ:
عمرو بن شعیب اپنے والد سے اور وہ اپنے دادا سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا،
نبی ﷺ نے کچھ لوگوں کو قرآن کے بارے میں جھگڑا کرتے ہوئے پایا تو فرمایا:’’ تم سے پہلے لوگ بھی اسی وجہ سے ہلاک ہوئے انہوں نے اللہ کی کتاب کے بعض حصوں کا بعض حصوں سے رد کیا، حالانکہ اللہ کی کتاب تو اس لیے نازل ہوئی کہ وہ ایک دوسرے کی تصدیق کرتا ہے،
پس تم قرآن کے بعض حصے سے بعض کی تکذیب نہ کرو، اس سے جو تم جان لو تو اسے بیان کرو، اور جس کا تمہیں پتہ نہ چلے اسے اس کے جاننے والے کے سپرد کر دو۔‘‘
(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 237)، (رواہ احمد (۲/ ۱۸۵ ح ۶۷۴۱۹) و ابن ماجہ (۸۵)۔
جو اکیلے اللہ چاہتا ہے (وہی ہوتا ہے)
عن عبد الله بن عباس -رضي الله عنهما- أن رجلا قال للنبي -صلى الله عليه وسلم-: ما شاء الله وشِئْتَ، فقال: «أجعلتني لله نِدًّا؟ ما شاء الله وَحْدَه». [إسناده حسن.] - [رواه أحمد.]
عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ ﷺ سے کہا جو اللہ چاہے اور جو آپ چاہیں (وہی ہوتا ہے)۔ آپ ﷺ نے فرمایا: ”کیا تم نے مجھے اللہ کے ساتھ شریک ٹھہرا دیا؟!“ (ایسا نہیں بلکہ یوں کہا کرو کہ) جو اکیلے اللہ چاہتا ہے (وہی ہوتا ہے)۔ [احَسَنْ، رواه امام احمد]
وَلَا يُشْرِكُ فِي حُكْمِهِ أَحَدًا ﴿٢٦﴾
اللہ تعالیٰ اپنے حکم میں کسی کو شریک نہیں کرتا (قرآن :18:26)[26]
عندالله بن بسیار کہتے ہیں کہ میں نے حضرت علی (رضی الله) کو خطبہ دیتے ہوے سنا : "جس کے پاس (قرآن کے علاوہ) تحریر ہے میں اسے قسم دیتا ہوں کہ وہ گھر لوٹ جایے اور اسے مٹا دے، پہلی قومیں اس وقت ہلاک ہوئیں جب وہ اپنے رب کی کتاب چھوڑکر اپنےعلماء کی قیل قال میں پھنس گیئں (رواہ عبدللہ بن بسیار)[27]
قرآن کا علم اورعمل راہ ھدائیت
وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسِ قَالَ: مَنْ تَعَلَّمَ کِتَابَ اﷲِ ثُمَّ اتَّبَعَ مَافِیْہِ ھَدَاہُ اﷲُ مِنَ الضَّلَالَۃِ فِی الدُّنْیَا وَوَقَاہُ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ سُوْ ۤءَ الْحِسَابِ وَفِیْ رِوَایَۃِ ، قَالَ : مَنِ اقْتَدَی بِکِتَابِ اﷲِ لَایَضِلُّ فِی الدُّنْیَا وَلَا یَشْقٰی فِی الْاٰخِرَۃِ ثُمَّ تَلَا ھٰذِہِ الْآیَۃَ(فَمَنِ اتَّبَعَ ھُدَایَ فَلَا یَضِلُّ وَلَا یَشْقٰی)) (رواہ رزین)
(مشکوٰۃ المصابیح: حدیث نمبر: 185)
اور حضرت ابن عباس ؓ فرماتے ہیں کہ جس شخص نے کتاب اللہ کا علم حاصل کیا اور پھر اس چیز کی پیروی کی جو اس (کتاب اللہ) کے اندر ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو دنیا میں گمراہی سے ہٹا کر راہ ہدایت پر لگائے (یعنی اس کو ہدایت کے راستہ پر ثابت قدم رکھے گا اور گمراہی سے بچالے گا) اور قیامت کے دن اس کو برے حساب سے بچالے گا ( یعنی اس سے مواخذہ نہیں ہوگا) اور ایک روایت میں ہے کہ جس شخص نے کتاب اللہ کی پیروی کی تو نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بدبخت ہوگا (یعنی اسے عذاب نہیں دیا جائے گا) اس کے بعد عبداللہ ابن عباس ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی:
فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي ( 20۔ طہ 123)[28]
ترجمہ جس آدمی نے میری ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا ( 20۔ طہ 123)۔ (رزین) (مشکوٰۃ المصابیح: حدیث:185)[29]
مزید پڑھیں:
فَالَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا بِہٖ وَ عَزَّرُوۡہُ وَ نَصَرُوۡہُ وَ اتَّبَعُوا النُّوۡرَ الَّذِیۡۤ اُنۡزِلَ مَعَہٗۤ ۙ اُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡمُفۡلِحُوۡنَ ﴿٧:۱۵۷﴾
سو جو لوگ اس نبی پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی حمایت کرتے ہیں اور ان کی مدد کرتے ہیں اور اس نور (قرآن)[30] کا اتباع کرتے ہیں جو ان کے ساتھ نازل گیا ہے ، ایسے لوگ پوری فلاح پانے والے ہیں (قرآن 7:157)[31]
فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي ( 20۔ طہ 123)[32]
ترجمہ جس آدمی نے میری ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا ( 20۔ طہ 123)۔
قرآن کے بغیر گمراہی
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ح و حَدَّثَنَا إِسْحَقُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ أَخْبَرَنَا جَرِيرٌ کِلَاهُمَا عَنْ أَبِي حَيَّانَ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَ حَدِيثِ إِسْمَعِيلَ وَزَادَ فِي حَدِيثِ جَرِيرٍ کِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَی وَالنُّورُ مَنْ اسْتَمْسَکَ بِهِ وَأَخَذَ بِهِ کَانَ عَلَی الْهُدَی وَمَنْ أَخْطَأَهُ ضَلَّ
ترجمہ: "اللہ کی کتاب میں ہدایت اور نور ہے، جو اسے پکڑے گا وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔" (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6227)[33]
’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(رواہ حضرت علیؓ، ماخوز، ترمذی 2906)
نبی کریم ﷺ نے کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامے رہنے کی وصیت فرمائی تھی(قَالَ: أَوْصَى بِكِتَابِ اللَّهِ.)[34]۔ (البخاری: حدیث نمبر: 5022)
خطبہ حج الوداع ہزاروں مومنین ۓ سنا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
"... اور تمہارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں میں ایسی چیز کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو اللہ کی کتاب اور تم سے سوال ہو گا (قیامت میں) اور میرا حال پوچھا جائے گا پھر تم کیا کہو گے؟“ تو ان سب نے عرض کی کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیر خواہی کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا اپنی انگشت شہادت (کلمہ کی انگلی) سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے: ”یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو۔“ تین بار یہی فرمایا" [ صحیح مسلم 2950، ابی داوود 1905][35]
[ایک دوسری حدیث میں قرآن و سنت کا ذکر ہے لیکن کہیں حدیث کا ذکر نہیں]
"آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے جو بھی وحی چھوڑی وہ سب دو دفتیوں کے درمیان (قرآن مجید کی شکل میں ) محفوظ ہے" [ماخوزالبخاری، حدیث: 5019]
حضرت علی ؓ ۓ فرمایا : اس ذات کی قسم! جس نے دانے کو (زمین) چیر کر (نکالا) اور جس نے روح کو پیدا کیا ‘ مجھے تو کوئی ایسی وحی معلوم نہیں (جو قرآن میں نہ ہو) [ماخوز البخاری, حدیث: 3047][36]
حَدَّثَنَا آدَمُ بْنُ أَبِي إِيَاسٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ مُرَّةَ ، سَمِعْتُ مُرَّةَ الْهَمْدَانِيَّ يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ اللَّهِ : إِنَّ أَحْسَنَ الْحَدِيثِ كِتَابُ اللَّهِ، وَأَحْسَنَ الْهَدْيِ هَدْيُ مُحَمَّدٍ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا، وَإِنَّ مَا تُوعَدُونَ لَآتٍ وَمَا أَنْتُمْ بِمُعْجِزِينَ. (البخاری، حدیث 7277)
ترجمہ: عبداللہ بن مسعود ؓ نے کہا کہ سب سے اچھی بات کتاب اللہ اور سب سے اچھا طریقہ رسول اللہ ﷺ کا طریقہ ہے اور سب سے بری نئی بات (بدعة ) پیدا کرنا ہے (دین میں) اور بلاشبہ جس کا تم سے وعدہ کیا جاتا ہے وہ آ کر رہے گی اور تم پروردگار سے بچ کر کہیں نہیں جاسکتے۔ (البخاری، حدیث:7277)[37]
حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ بُكَيْرٍ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ عُقَيْلٍ ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ ، أَخْبَرَنِي أَنَسُ بْنُ مَالِكٍ ، أَنَّهُ سَمِعَ عُمَرَ الْغَدَ حِينَ بَايَعَ الْمُسْلِمُونَ أَبَا بَكْرٍ وَاسْتَوَى عَلَى مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَشَهَّدَ قَبْلَ أَبِي بَكْرٍ، فَقَالَ: أَمَّا بَعْدُ، فَاخْتَارَ اللَّهُ لِرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي عِنْدَهُ عَلَى الَّذِي عِنْدَكُمْ وَهَذَا الْكِتَابُ الَّذِي هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَكُمْ، فَخُذُوا بِهِ تَهْتَدُوا وَإِنَّمَا هَدَى اللَّهُ بِهِ رَسُولَهُ. [صحیح بخاری: حدیث نمبر: 7269]
ترجمہ. تلخیص: ا" --- احضرت عمرے (رضی الله) ۓ فرمایا : " -- اور یہ کتاب اللہ موجود ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رسول کو دین و سیدھا راستہ بتلایا پس اسے تم تھامے رہو تو ہدایت یاب رہو گے۔ یعنی اس راستے پر رہو گے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو بتلایا تھا۔[38][ البخاری: 7269]
جب حضرت ابو بکرصدیقؓ (رضی الله) مسند خلافت پر جلوہ آرا ہوئے تو آپ نے ایک دن ایک مجمع عام کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا:
"تم لوگ آج حدیث میں اختلاف رکھتے ہو آئندہ یہ اختلاف بڑھتا چلا جائے گا اس لئے تم آنحضرت سے کوئی حدیث روایت نہ کرو۔ اگر کوئی پوچھے تو کہو کہ ہمارے پاس قرآن موجود ہے۔ جو اس نے جائز قرار دیا اسے جائز سمجھو" (تذکرۃ الحفاظ ذہبی ص 3)
قران : نبی ﷺ کا معجزہ
حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مِنَ الْآيَاتِ مَا مِثْلُهُ، أُومِنَ أَوْ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ، وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ، فَأَرْجُو أَنِّي أَكْثَرُهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ. [البخاری: حدیث7274]
ترجمہ:
ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں (یعنی معجزات) نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا (آپ ﷺ نے فرمایا کہ) انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے۔ [صحیح بخاری: حدیث نمبر: 7274][39]
رسول اللہ ﷺ کا کردار قرآن تھا
لَّقَدْ كَانَ لَكُمْ فِي رَسُولِ اللَّهِ أُسْوَةٌ حَسَنَةٌ لِّمَن كَانَ يَرْجُو اللَّهَ وَالْيَوْمَ الْآخِرَ وَذَكَرَ اللَّهَ كَثِيرًا ﴿٢١﴾
در حقیقت تم لوگوں کے لیے اللہ کے رسولؐ میں ایک بہترین نمونہ تھا، ہر اُس شخص کے لیے جو اللہ اور یوم آخر کا امیدوار ہو اور کثرت سے اللہ کو یاد کرے (قرآن؛33:21)[40]
عن قتادة قُلْتُ يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ (عائشة) أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَتْ أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ قُلْتُ بَلَى قَالَتْ فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كَانَ الْقُرْآنَ
میں نے کہا: ام المومنین، مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے کردار کے بارے میں بتاینے۔ انہوں نے فرمایا: کیا تم قرآن نہیں پڑھتے ہو؟ میں نے کہا ہاں. اس پر انہوں نے کہا: رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا کردار قرآن تھا۔ [746 صحيح مسلم[41] كتاب صلاة المسافرين وقصرها باب جامع صلاة الليل ومن نام عنه أو مرض]
یعنی جو حدیث قرآن کے خلاف ہو وہ رسول اللہ ﷺ کی طرف سے نہیں ہو سکتی-
حلال و حرام قرآن میں بیان ہیں
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ، قَالَ: الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ.(سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 3367)
ترجمہ: سلمان فارسی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے گھی، پنیر اور جنگلی گدھے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:" حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں چپ رہے وہ معاف (مباح) ہے (سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 3367)[42]
تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/اللباس ٦ (١٧٢٦)، (تحفة الأشراف: ٤٤٩٦) (حسن) (شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، تراجع الألبانی: رقم: ٤٢٨)
نوٹ : یہ حدیث اور دوسری احدیث جن کا حوالہ یہں دیا گیا ہے وہ سب ابو داود 4604 اور اس موضوع پر احادیث کے کی واضح تردید ہے جس سے حدیث کو قرآن پر برترپیش کیا جاتا ہے[ تفصیل ملاحضہ لنک[43]،[44]]
مچھلی مردار حلال
یہ دعوی کیا جاتا ہے کہ مردار حرام ہے قرآن کے مطابق مگر مچھلی حلال ہے حدیث کے مطابق!
ان لوگوں ںے قرآن کو کو سمجھ کر پڑھنا چھوڑ رکھا ہے- الله تعالی کا فرمان ہے:
اُحِلَّ لَکُمۡ صَیۡدُ الۡبَحۡرِ وَ طَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمۡ وَ لِلسَّیَّارَۃِ ۚ (سورة المائدة، آیت 96)،[45]
ترجمہ : تمہارے لئے سمندر (دریا) کا کا شکار پکڑنا اور اس کا کھانا حلال کیا گیا ہے تمہارے فائدے کے واسطے اور مسافروں کے واسطے ۚ (سورة المائدة، آیت 96)[46]
یہ ان لوگوں کی کم علمی اور قرآن کو مھجور (متروک العمل)[47] کرنے کا ثبوت ہے، ہے جس کا ذکر قرآن میں ہے اور حدیث لکھنے پر پابندی کی احادیث اور خلفاء راشدین[48] ، خاص طور پر حضرت عمر اور علی (رضی الله) کے فرامین میں بھی تذکرہ ہے کہ اگر کتب حدیث لکھی گیئں تو مسلمان بھی پہلی امتوں کی طرح کتاب الله، قرآن کو ترک کر دیں گئے- اور یہ بات سچ ثابت ہو چکی ہے کہ مسلمان احادیث میں اتنے مشغول ہیں کہ قرآن صرف تلاوت کر تے ہیں اسے سمجھنے کی کوشش بھی نہیں کرتے-
أَخْبَرَنَا إِبْرَاهِيمُ بْنُ مَخْلَدِ بْنِ جَعْفَرٍ الْمُعَدِّلُ ، ثنا أَحْمَدُ بْنُ كَامِلٍ الْقَاضِي ، ثنا أَبُو جَعْفَرٍ مُحَمَّدُ بْنُ جَرِيرٍ الطَّبَرِيُّ ، ثنا مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ يَعْنِي الْمُحَارِبِيَّ ، ثنا صَالِحُ بْنُ مُوسَى , عَنْ عَبْدِ الْعَزِيزِ بْنِ رُفَيْعٍ , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ,عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ قَالَ:
سَيَأْتِيكُمْ عَنِّي أَحَادِيثُ مُخْتَلِفَةٌ , فَمَا جَاءَكُمْ مُوَافِقًا لِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَلِسُنَّتِي فَهُوَ مِنِّي , وَمَا جَاءَكُمْ مُخَالِفًا لِكِتَابِ اللَّهِ تَعَالَى وَلِسُنَّتِي فَلَيْسَ مِنِّي [الرئيسية الكفاية في علم الرواية للخطيب, باب الكلام في أحكام الأداء وشرائطه، حديث رقم 1303]
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ:
ترجمہ : میری طرف سے کچھ اختلافی احادیث آئینگی، ان میں سے جو "کتاب الله" اور "میری سنّت" کے موافق ہونگی، وہ میری طرف سے ہونگی. اور جو "کتاب الله" اور "میری سنّت" کے خلاف ہونگی وہ میری طرف سے نہیں ہونگی [الرئيسية الكفاية في علم الرواية للخطيب, باب الكلام في أحكام الأداء وشرائطه، حديث رقم 1303][49]
اس اصول / حدیث کی سپورٹ قرآن اور دوسری احادیث اصول#1 سے #7 تک بھی ہوتی ہے- تمام مذکورآیات قرآن اور احادیث و اصول ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں ان سب کو اکٹھا ایک مربوط پیکج integrated) package) کے طور پر قبول اور سمجھا جاۓ-
قرآن نے عقل شعور[50] کے استعمال پر بہت زور دیا ہے(49 مرتبہ):
عقلمندوں کے سوا کوئی نصیحت قبول نہیں کرتا۔ (قرآن 2:269)
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
"بے شک اللہ کے نزدیک سب جانوروں سے بدتر جانور وہ (انسان) ہیں جو بہرے گونگے ہیں جو عقل سے ذرا کام نہیں لیتے" (قرآن8:22)[51]
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا :
"جب تم میرے حوالے سے کوئی ایسی حدیث سنو جس سے تمہارے دل شناسا ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم ہوجائے اور تم اس سے قرب محسوس کرو تو میں اس بات کا تم سے زیادہ حقدار ہوں اور اگر کوئی ایسی بات سنو جس سے تمہارے دل نامانوس ہوں تمہارے بال اور تمہاری کھال نرم نہ ہو اور تم اس سے دوری محسوس کرو تو میں تمہاری نسبت اس سے بہت زیادہ دور ہوں۔" " [ مسند احمد- حدیث: 22505][52]،[53]
حدیث کی سند ضعیف بھی ہو مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے ( تفہیم القرآن، سید ابو اعلی مودودی، تفسیر،الحج، 22:1 نوٹ1[54] )
2.شیخ حمید الدین فراہی فرماتے ہیں:
"میں نے صحاح میں بعض ایسی احادیث دیکھیں ، جو قرآن کا صفایا کر دیتی ہیں۔ ہم اس عقیدہ سے پناہ مانگتے ہیں کہ کلام رسول ، کلام خدا کو منسوخ کر سکتا ہے" (نظام القرآن)
3۔ جن احادیث کے متن (text/ contents) کا معیار رسول اللہ ﷺ پر پورا نہیں اترتا تو ان کی تشہیر(سوشل میڈیا یا کسی بھی زریعہ سے) یا عمل رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صریح نافرمانی ہے جس کی سزا ابدی جہنم ہے﴿قرآن؛ 4:14 ﴾ - ایسی احادیث کوتحقیق کے بعد علیحدہ کر دینا چاہۓ-
4۔ جو احادیث قرآن کے مخالف نہیں مگر کوئی تفصیل نہیں ملتی اور سنت میں بھی ایک دوسرے سے کچھ اختلاف ہو جیسے "رفع یدین" ، صَلَاة میں "آمین بلند یا آہستہ" اور دوسرے فروعی مسائل وغیرہ ان پر بحث مباحث سے فتنہ ، فساد اور فرقہ واریت کے علاوہ کچھ نہیں حاصل ہوتا، فرقہ واریت کی قرآن میں اجازت نہیں حرام ہے۔ جس تک جو کچھ پہنچا ہے توتحقیق کے بعد جوقران، سنت اور عقل سے قریب تر ہے اس پر عمل کریں اللہ غفور الرحیم ہے دونوں کو نیت پر اجر ملے گا [55] (ان شاءاللہ) ۔ یہ ہمارا امتحان ہے ورنہ اگر تیمم قرآن[56] میں بیان ہے تو نماز بھی بیان ہو سکتی تھی۔
مزید پڑھیں : قرآن اور عقل و شعور
کسی غلط فہمی کو دور کرنے کے لیے الله تعالی نے جس طرح قرآن کی آیات کو محکمات اور متشابھات [57]میں تقسیم کیا اسی طرح احادیث میں بھی اس اصول کو لاگو کرنے سے بہت سے مسائل حل ہو سکتے ہیں-
"وہی خدا ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے۔ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دُوسری متشابہات۔ *جن لوگوں کو دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی (تاویلیں) پہنانے کی کو شش کیا کرتے ہیں حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلا ف اِ س کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ”ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں۔“ اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں(القرآن 3:7)
تفصیل : شاه کلید قرآن: (Master Key Quran (3:7)
ایسی احادیث جو بہت منفرد ہوں ، قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتیں یا رسول اللہ ﷺ نے راوی کو انہیں بیان کرنے سے منع فرمایا لیکن راوی ںے حکم عدولی کرکہ بیان کر دیا لیکن ان کا درجہ بہت مستند و اعلی ہے تو ان کو متشابھات میں شامل کرکہ معامله اللہ کے حوالہ کر دیں- یا کسی صحابی کا عمل ، اجتہاد قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتا معلوم ہو تو ان کو بھی متشابھات میں رکھا جاسکتا ہے- قرآن کی طرح صرف واضح "محکم" احادیث قبول کرکہ اختلافات ، فرقہ واریت سے محفوظ رہا جا سکتا ہے
علمائے حدیث کے پاس رپورٹس کے لیے کئی قسمیں مروج ہیں، جو ان کے معیار کے مطابق مختلف ہوتی ہیں۔ ایسی ہی ایک صورت حدیث کی اقسام میں تقسیم ہے اس بنیاد پر کہ حدیث کس کی طرف منسوب ہے۔ چار قسمیں ہیں. پہلی دو یہ ہیں[58]:
1۔ حدیث قدسی: یہ حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے ہم تک پہنچی ہے، جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ الفاظ اپنے رب کی طرف منسوب کیے ہیں، اور جس میں راوی کہتا ہے: رسول اللہ ﷺ نے اپنے رب کی طرف سے بیان کرتے ہوئے فرمایا، وہ پاک اور بلند ہو، وغیرہ۔
2. مرفوع حدیث (حدیث نبوی) یہ وہ حدیث ہے جس میں قول، فعل، منظوری یا کوئی تفصیل نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف منسوب کی گئی ہے۔
3. حدیث قدسی اور حدیث نبوی واضح ہیں مگر حدیث کو وحی غیرمتلو/وحی خفی کی اصطلاحات بہت بعد کی ایجاد ہیں-[59]
مزید پڑھیں: وحی متلو اور غیر متلو تحقیقی جائزہ (1) ، (2)
سلسلہ اسناد حدیث کو بیان کرنے والے راویوں کا سلسلہ ہوتا ہے جو ہر حدیث کے شروع میں موجود ہوتا ہے۔ اس سے پتہ چلتا ہے کہ یہ بات نبی ﷺ سے کس نے سنی ، پھر اس سے کس نے سنی اور آخر میں کاتب حدیث تک کس کے ذریعے پہنچی۔
اگر حدیث کا متن منطقی اور مناسب ہو پھر بھی حدیث کی اسناد کو چیک کرنا ضروری ہے- "اگر اسناد کوبلکل اہمیت نہ دی جائے تو جس کا جو جی چاہے گا اللہ کے نبی ﷺ کے نام پر کہتا پھرے گا"۔ [60]
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (کہو: اگر تم سچے ہو تو اپنی دلیل لاؤ) (البقرۃ:111)
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو [الحجرات: 6][61]
اللہ تعالیٰ نے فرمایا: (اور ان کو اس کا کوئی علم نہیں ہے اگر وہ گمان کے سوا کسی چیز کی پیروی کریں، اور اٹکل حق کے لیے بالکل بھی کافی نہیں ہے۔)
اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
کسی ایسی چیز کے پیچھے نہ لگو جس کا تمہیں علم نہ ہو یقیناً آنکھ، کان اور دل سب ہی کی باز پرس ہونی ہے (قرآن 17:36)[63]
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (آخری عشرے میں جھوٹ بولنے والے جھوٹے، آتنکم گفتگو جن میں نہ آپ کو سنا، نہ آپ کے باپ دادا، ان کے ساتھ ویاکم، نہ عدلونکم، نہ اعتکاف۔ ) اسے مسلم نے اپنی صحیح کے تعارف میں روایت کیا ہے-
اسناد کا سلسلہ ایک انسانی کوشش ہے جس میں غلطی ، شرارت ، دھوکہ کے امکان کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- اس کی اجازت نہیں دی جا سکتی کہ دو ، چار لوگ مل کراسناد کے زور پر قرآن کی بنیادی ہدایت یا کسی حکم / احکام کو تبدیل کریں-
اس لیے تمام میعار اور اصول جو رسول اللہ ﷺ نے مقرر فرمایے ان کی ترجیج قائم رکھنا ضروری ہے اور کسی ایک کو نظر انداز کرنا درست نہ ہوگا :
حاکم نے ثابت بن قیس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا:
’آپ (صحابہ کرام) مجھ سے سن رہے ہیں اور وصول کر رہے ہیں اور لوگ (تبعون یعنی جانشین) آپ سے سنیں گے اور قبول کریں گے۔ پھر لوگ (عتبہ التبیعون) ان (جانشینوں) سے سنیں گے اور قبول کریں گے جنہوں نے آپ سے سنا اور قبول کیا۔ پھر لوگ (چوتھی نسل) ان لوگوں (عتبہ التبیعون) سے سنیں گے اور وصول کریں گے جو آپ کے جانشینوں کے سامعین اور وصول کنندہ تھے، جنہوں نے آپ سے سنا اور وصول کیا تھا۔ [متعلق الحاکم معرفۃ العلوم الحدیث، ص:60][64]
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’اللہ تعالیٰ اس کو خوش رکھے جس نے مجھ سے کوئی بات سنی، اسے حفظ کیا اور اسے اپنے ذہن میں رکھا اور پھر دوسروں کو سنایا۔‘‘[65]
[اس حدیث اور اس طرح کی روایات میں حدیث کو سن کر آگے بیان کرنے کی تاکید ہے ، لکھنے کا تذکرہ نہیں]
حدیث کی سند ضعیف بھی ہو مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے ( تفہیم القرآن، سید ابو اعلی مودودی، تفسیر،الحج، 22:1 نوٹ1 )
کسی بھی حدیث (کتاب) کی قرآن نے ممانعت کر دی (فَبِأَيِّ حَدِيثٍ بَعْدَهُ يُؤْمِنُونَ) ترجمہ: "اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟". [66]. (قرآن:177, 2:285، 39:23، 45:6، 77:50،7:185، 4:87)[67]. لیکن آیات قرآن کی تراجم میں معنوی تحریف[68] سے قرآن جو کہ عربی میں ہے بدلا نہیں جا سکتا- ایمان کے چھ اراکین میں بھی صرف آخری کتاب الله تعالی قرآن پر ایمان[69] اور عمل لازم ہے(2:269,177)- کہاں کہاں تحریف کریں گے؟ اس لیے جو لوگ قرآن کی ان آیات کا معنوی انکار کرتے ہیں، ان کے لئے احادیث سے ثبوت مہیا ہیں جو قرآن کی مذکوره آیات کی تفسیر ہیں:
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :
أَخْبَرَنَا أَبُو الْقَاسِمِ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مُحَمَّدِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ السَّرَّاجُ، بِنَيْسَابُورَ,حَدَّثَنَا أَبُو الْعَبَّاسِ مُحَمَّدُ بْنُ يَعْقُوبَ الْأَصَمُّ , حَدَّثَنَا الْعَبَّاسُ الدُّورِيُّ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو، قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: خَرَجَ عَلَيْنَا رَسُولُ اللَّهِ , صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ , وَنَحْنُ نَكْتُبُ الْأَحَادِيثَ , فَقَالَ: «مَا هَذَا الَّذِي تَكْتُبُونَ؟» , قُلْنَا: أَحَادِيثَ سَمِعْنَاهَا مِنْكَ. قَالَ: «أَكِتَابًا غَيْرَ كِتَابِ اللَّهِ تُرِيدُونَ؟ مَا أَضَلَّ الْأُمَمَ مِنْ قَبْلِكُمْ إِلَّا مَا اكْتَتَبُوا مِنَ الْكُتُبِ مَعَ كِتَابِ اللَّهِ» . قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ فَقُلْتُ: أَنَتَحَدَّثُ عَنْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ قَالَ: «نَعَمْ , تَحَدَّثُوا عَنِّي وَلَا حَرَجَ فَمَنْ كَذَبَ عَلَيَّ مُتَعَمِّدًا فَلْيَتَبَوَّأْ مَقْعَدَهُ مِنَ النَّارِ» . كَذَا رَوَى لَنَا السَّرَّاجُ هَذَا الْحَدِيثَ , وَرَوَاهُ غَيْرُ الْأَصَمِّ , عَنِ الْعَبَّاسِ الدُّورِيِّ , عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَوْنٍ الْخَرَّازُ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدٍ , فَاللَّهُ أَعْلَمُ
مفھوم :
ابوہریرہ (رضی الله) نے فرمایا کہ:
اللہ کے رسول اللہ ﷺ ہمارے پاس آئے ، اور ہم احادیث لکھ رہے تھے ، اور آپ ﷺ نے فرمایاا:
"یہ کیا لکھ رہے ہو؟"
ہم نے کہا: ہم نے جو آپ کی احادیث سنی ہیں لکھ رہے ہیں-
(وہ صرف احادیث لکھ رہے تھے، قرآن کا ذکر نہیں)
انہوں نے فرمایا:
کیا تم کتاب اللہ کے علاوہ کوئی اور کتاب لکھنا چاہتے ہو؟
تم سے پہلی امتیں گمراہ ہو گیی تھیں کیونکہ انہوں نے کتاب اللہ کے ساتھ دوسری کتابیں لکھیں۔
{یہ جواز قطعی حتمی اور ابدی ہے جو آج یہودیت اور مسیحیت کی ہزاروں سالہ تاریخ سے ثابت ہے، احقر کی تحقیق کے مطابق اس جواز کی آج بھی تصدیق ہوتی ہے، تفصیل اس لنک پر[70] - یہ رسول اللہ ﷺ کی نبوت کا زندہ معجزہ ہے- مقام حیرت اور افسوس ہے کہ رسول اللہ ﷺ کے اس حکم اوراس پر سنت خلفاء راشدین کو بھی نظرانداز کیا گیا، بڑے بڑے علماء و محدثین ںے اس پر عمل اور تحقیق کی بجانے اسے مخفی رکھنے کی مذموم کوشش کی جو اب بھی جاری ہے- ان کا معاملہ الله تعالی کے سپرد}
ابوہریرہ نے کہا، اور میں نے کہا:
یا رسول اللہ ، کیا ہم آپ کے بارے میں بات کر سکتے ہیں؟
انہوں نے کہا:
"ہاں ، میرے بارے میں بات کرو (حفظ و بیان) ، کوئی حرج نہیں مگر جو شخص جان بوجھ کر مجھ پر جھوٹ بولتا ہے، اسے اپنی جگہ جہنم میں پاتے ۔" فَاللَّهُ أَعْلَمُ ["تقييد العلم للخطيب 33][71], [الفاظ میں فرق کے ساتھ ، مسند احمد، حدیث: 10670.مزید ملاحضہ، ابی داوود 4607, ترمزی 2676، ماجہ 42، صحیح مسلم، حدیث: 7510، تقييد العلم ، الخطيب البغدادي : 49)
مزید پڑھیں :
"ہم نے نیک لوگوں کا جھوٹ حدیث میں کذب سے بڑھ کر کسی بات میں نہیں دیکھا"- امام مسلم نے اس کی تاویل یوں ذکر کی ہے کہ جھوٹی حدیث ان کی زبان سے نکل جاتی ہے وہ قصدا جھوٹ نہیں بولتے" [مسلم، حدیث 40][72]
ابن مسعود ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے میری حدیث کو سنا، اسےحفظ کیا، اور پھر اسے آگے بیان کیا....(نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا)‘‘
[(مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 228, صحیح، رواہ الشافعی (فی الرسالۃ ص ۴۰۱ فقرہ: ۱۱۰۲ ص ۴۲۳) و البیھقی فی شعب الایمان (۱۷۳۸) و الترمذی (۲۶۵۸) و احمد (۱/ ۴۳۶) تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ العلم 10 (3660)، سنن ابن ماجہ/المقدمة: 18 (230) (تحفة الأشراف: 3694)، و مسند احمد (1/437)، و (5/183)، وسنن الدارمی/المقدمة 24 (235) (صحیح)[73]
نَضَّرَ اﷲُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي، فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا.
’اللہ تعالیٰ اس کو خوش رکھے جس نے مجھ سے کوئی بات سنی، اسے یاد رکھا اور اسے اپنے ذہن میں رکھا اور پھر دوسروں کو سنایا۔‘‘
[اسے امام شافعی نے مسند (ص 240) اور الرسالہ (ص401 # 1102) میں روایت کیا ہے۔ اور طبرانی المعجم الکبیر میں، جلد 1۔ 2، ص۔ 126 # 1541][74]
حاکم نے ثابت بن قیس سے روایت کی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے صحابہ سے فرمایا: ’آپ (صحابہ کرام) مجھ سے سن رہے ہیں اور وصول کر رہے ہیں اور لوگ (تبعون یعنی جانشین) آپ سے سنیں گے اور قبول کریں گے۔ پھر لوگ (عتبہ التبیعون) ان (جانشینوں) سے سنیں گے اور قبول کریں گے جنہوں نے آپ سے سنا اور قبول کیا۔ پھر لوگ (چوتھی نسل) ان لوگوں (عتبہ التبیعون) سے سنیں گے اور وصول کریں گے جو آپ کے جانشینوں کے سامعین اور وصول کنندہ تھے، جنہوں نے آپ سے سنا اور وصول کیا تھا۔ [متعلق الحاکم معرفۃ العلوم الحدیث، ص:60][75]
ان احادیث میں لکھنے یا حدیث پڑھنے کا کوئی تزکرہ نہیں، مگر باوجود اس سے سے یہ تاثر نکلانا کہ حدیث کا حفظ و بیان مستحب طریقہ ہے اور کتاب حدیث بھی جائز ہے صرف ضد ہے، جبکہ دوسری احادیث، سنت رسول اللہ ﷺ ، سنت خلفاء راشدین میں ممانعت کتابت حدیث، صحابہ کا اس پر عمل اور بعد میں بھی صدیوں تک مکمل پھر جزوی عمل ہوتا چلا آ رہا ہے-
وارننگ: اصول حدیث کی سپورٹ قرآن اور دوسری احادیث اصول#1 سے #7 تک سے ہوتی ہے- تمام مذکورہ آیات قرآن اور احادیث و اصول ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں ان سب کو اکٹھا ایک مربوط پیکج integrated) package) کے طور پرسمجھا جاۓ-
نوٹ:
1.علم حدیث[76] کا معروف طریقہ سماع، حفظ و بیان ہے مگر رسول اللہ ﷺ نے کچھ صحابہ کو کمزوری حفظ پر زاتی نوٹس بنانے کی اجازت دی (کتاب نہیں) بہت کو انکار[77] جن میں ابوهریره (رض) بھی شامل تھے۔ اس سے مندرجہ بالا معیار رسول اللہ ﷺ پر پورا اترنے والی آحادیث کے نوٹس یا ڈیجیٹل ٹیکنولوجی[78] کا جواز شائید ممکن ہو (واللہ اعلم)، اس پر مزید تحقیق کی ضرورت ہے -
2۔ رسول اللہ ﷺ نے خلفاء راشدین کے فیصلوں پر وصیت میں پہلے ہی تصدیق کرکہ مہر رسالت ثبت کرکہ؛ قرآن کی تدوین کرنے اور احادیث کی کتابت نہ کرنے کے خلفاء راشدین کے فیصلہ[79] (سنت) کو اپنا فیصلہ (سنت) بنا دیا[80] جس پر صدیوں عمل ہوتا رہا۔
فَقَالَ الْعِرْبَاضُصَلَّى بِنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ ثُمَّ أَقْبَلَ عَلَيْنَا فَوَعَظَنَا مَوْعِظَةً بَلِيغَةً ذَرَفَتْ مِنْهَا الْعُيُونُ وَوَجِلَتْ مِنْهَا الْقُلُوبُ، فَقَالَ قَائِلٌ: يَا رَسُولَ اللَّهِ كَأَنَّ هَذِهِ مَوْعِظَةُ مُوَدِّعٍ، فَمَاذَا تَعْهَدُ إِلَيْنَا ؟ فَقَالَ: أُوصِيكُمْ بِتَقْوَى اللَّهِ وَالسَّمْعِ وَالطَّاعَةِ، فَإِنَّهُ مَنْ يَعِشْ مِنْكُمْ بَعْدِي فَسَيَرَى اخْتِلَافًا كَثِيرًا، فَعَلَيْكُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّةِ الْخُلَفَاءِ الْمَهْدِيِّينَ الرَّاشِدِينَ تَمَسَّكُوا بِهَا وَعَضُّوا عَلَيْهَا بِالنَّوَاجِذِ، وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الْأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ.( ابی داود 4607، ابن ماجہ42)-
عرباض ؓ نے کہا: ایک دن ہمیں رسول اللہ ﷺ نے نماز پڑھائی، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہوگئیں، اور دل کانپ گئے، پھر ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں؟ آپ ﷺ نے فرمایا: میں تمہیں اللہ سے ڈرنے، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ "جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت[81] اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعة ہے، اور ہر بدعة گمراہی ہے[82] [23] ( ابی داود 4607[24]، ابن ماجہ42) تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٦)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٦ (٤٣، ٤٤)، (تحفة الأشراف: ٩٨٩٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٢٦)، سنن ال[83]دارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح )
یہ صرف ایک حدیث نہیں بلکہ تاریخ سے ثابت ہے کہ قرآن کی تدوین[84] کس نے کب کی اور احادیث کی کتب کس کس نے کب لکھیں[85]- اورچھ اراکین ایمان میں پہلی کتب کے بعد اب صرف آخری کتاب اللہ، قرآن پرعمل اور ایمان لازم ہے[86]-
تمام اصول حدیث کی سپورٹ قرآن اور دوسری احادیث اصول#1 سے #7 تک سے ہوتی ہے- تمام مذکورہ آیات قرآن اور احادیث و اصول ایک دوسرے کو سپورٹ کرتے ہیں ان سب کو اکٹھا ایک مربوط پیکج integrated) package) کے طور پرسمجھا جاۓ-
3. دوسری تیسری صدی ھ میں کتب احادیث لکھنے والوں نے اپنی صوابدید، عقیدہ، نظریات اور مسلک کے مطابق احادیث اپنی کتب میں شامل کیں، مخالف کو مسترد ، شامل نہ کیا یا بھول گۓ- کچھ مذکوراحادیث مثال ہیں۔
4۔ رسول اللہ ﷺ سے ثابت علم الحدیث کے اصولوں کونظر انداز کرکہ صرف اسناد پرزور دیا۔
5. بدعة گمراہی (وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ’): https://bit.ly/Bidaah
اللہ کا حکم ہے۔۔۔۔
وَمَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ (قرآن؛ 4:14 )
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن: 4:14)
رسول اللہ ﷺ ںے فرمایا : "جس آدمی نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا (یعنی رائج کیا) جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی تو اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا بغیر اس کے کہ اس (سنت پر عمل کرنے والوں) کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے۔ اور جس آدمی نے گمراہی کی کوئی ایسی نئی بات (بدعت) نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول خوش نہیں ہوتا تو اس کو اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا کہ اس بدعت پر عمل کرنے والوں کو گناہ ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی کی جائے۔
(جامع ترمذی) اور اس روایت کو سنن ابن ماجہ نے کثیر بن عبداللہ بن عمر سے اور عمر نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے۔ [مشکوٰۃ المصابیح - حدیث نمبر 165][87]
مسلمانوں کو آگے بڑھ کر درج بالا اصول علم الحدیث جو کہ قرآن اور سنت رسول اللہ ﷺ کی بنیاد پر پر ہیں ان پر عمل پیرا ہو کر سنت رسول اللہ ﷺ کو زندہ کریں-
"اصول علم الحديث" کے مطابق احادیث کی تدوین و ترتیب نو
Compilation and Rearrangement of Hadiths according to the Principles of Science of Hadith
"علم الحديث کے سات سنہری اصول" قرآن اور اطاعت رسول اللہ ﷺ میں مرتب کیے گئے ہیں جو صدیوں سے نظر انداز ہوئے- یھاں اہم اصول مختصر طور پر بیان کیے گۓ ہیں. اگر مزید تحقیق کی جایے تو ہر اصول پر کتابیں لکھی جا سکتی ہیں- حدیث رسول اللہ ﷺ کو رسول اللہ ﷺ کے قائم کردہ بنیادی اصولوں اور میعار کے مطابق نہ رکھنا فتنہ، فساد، فرقہ واریت اورامت مسلمہ میں نفاق اور فکری، روحانی و دنیاوی انحطاط کی بنیادی وجوہ میں سے ایک ہے- اسلام کے اہم جزو (علم حدیث) کوکسی فرد یا گروہ کی اجارہ داری, صوابدید, اختیار کے دائرۂ سے نکال کر الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کے طابع کرنا اس لیے ضروری ہے کہ دین کا کوئی جزو اگر الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے احکام سے باہرہو تو وہ گمراہی کا باعث ہو سکتا ہے اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کی موجودگی میں ان کو نظر انداز کرنا گناہ کبیرہ ہے-
رسول اللہ ﷺ ںے فرمایا : "جس آدمی نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا (یعنی رائج کیا) جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی تو اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا بغیر اس کے کہ اس (سنت پر عمل کرنے والوں) کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے۔ اور جس آدمی نے گمراہی کی کوئی ایسی نئی بات (بدعت) نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول خوش نہیں ہوتا تو اس کو اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا کہ اس بدعت پر عمل کرنے والوں کو گناہ ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی کی جائے۔ [جامع ترمذی، مشکوٰۃ المصابیح - حدیث نمبر 165]
اب اہل علم اورحدیث رسولﷺ سے دلی محبت کرنے والوں کا فرض ہے کہ ان اصولوں کی روشنی میں احادیث کے خزانہ کو از سر نو مرتب کیا جائے- یہ کوئی نیا کام یا دین میں اضافہ، بدعة نہیں بلکہ بدعة کو ختم کرنے اور احادیث کے موجودہ ذخیرہ کو قرآن اور رسول اللہ ﷺ کے احکام کے مطابق مرتب کرنا ہے تاکہ مسلمانوں اور محققین کے پاس یہ آپشن بھی میسر ہو جا ئے-
یہ اہم کام صرف وہی کر سکتا ہے جس کا دل (أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَﷺ) سے معمورہو, صرف زبانی دعوے نہیں- انفرادی کوششوں کے ساتھ ساتھ اس کار خیر میں جتنے زیادہ لوگ حصہ لیں گے اس میں زیادہ درستی اور برکت ہو گی- ہم سب کو ذاتی مفادات اور تشہیر سے بلند ہو کر اس اہم ذمہ داری کو نبھانا ہے، جس کا اجر صرف اللہ ہی دے سکتا ہے- بہتر ہے دو تین ہم خیال علماء / محدثین/ مسلمان اپنے گروپ بنائیں اور یہ نیک کام شروع کر دیں.**گائیڈ لائنز سے استفادہ کر سکتے ہیں- جو لوگ یہ کام نہیں کر سکتے وہ کم از کم یہ پیغام ان لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں جو یہ کام کر سکتے ہیں- (جزاک الله)
[https://bit.ly/Hadith-Basics]
********
اللہ کا حکم ہے۔۔۔۔
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴿٨٥﴾
جو شخص اچھی سفارش کرے گا اسے اس کا حصہ ّملے گااور جو بری سفارش کرے گا اسے اس میں سے حصہّ ملے گا اور اللہ ہر شے پر اقتدار رکھنے والا ہے (قرآن : 4:85)
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن؛ 4:14)
"تم لوگوں کی ر ہنما ئی کر تے ہولیکن تم ہی اندھے ہو تم تو پینے کے مشروبات میں سے چھوٹے مچھر کو نکا ل کر بعد میں خود اونٹ کو نگل جا نے وا لو ں کی طرح ہو" (حضرت عیسی علیہ السلام کا علماء یہود کو خطاب[88])
********
کسی مسلمان کے لیے یہ کام مشکل نہیں- علم، عقل ،خواہش اور جذبہ درکار ہے-
مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (النساء : ۸۰)
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(٤:٨٠)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "--- جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی....[رواہ ابو ہریرہ، البخاری،2957][93]
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿قران :4:14 ﴾
تمام احکام مذکورہ اللہ تعالیٰ کی باندھی ہوئی حدیں اور اس کے مقرر کردہ ضابطے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اللہ و رسول کا کہنا نہ مانے گا اور اس کی باندھی ہوئی حدوں کو توڑ کر بڑھ جائے گا اور اس کے مقررہ ضابطوں سے تجاوز کرنے پر اصرار کرے گا اور اس کے قوانین کی بالکل خلاف ورزی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ میں داخل کردے گا۔ اور اس کا یہ حال ہوگا کہ وہ اس آگ میں ہمیشہ ہمیش پڑا رہے گا اور اس کو ذلت و اہانت آمیز اور رسوا کن عذاب ہوگا-[94]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿٣٣﴾
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو (قرآن 47:33)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٢١﴾ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (قرآن؛ 8:22)
ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا[95]
جو اللہ کا رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے روکے اس سے باز رہو۔(قران 59:7)[96]
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرواور سن کر اس سے منہ نہ پھیرو ۔ (الانفال : ۲)
یَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوۡہُہُمۡ فِی النَّارِ یَقُوۡلُوۡنَ یٰلَیۡتَنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰہَ وَ اَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا ﴿۶۶﴾
"جس دن ان کے چہرے جہنم میں الٹ پلٹ کیے جا رہے ہوں۔تو وہ کہیں گے کاش! ہم نے اللہ کی اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کی ہوتی۔"(الاحزاب:66)
یَوۡمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ عَصَوُا الرَّسُوۡلَ لَوۡ تُسَوّٰی بِہِمُ الۡاَرۡضُ ؕ وَ لَا یَکۡتُمُوۡنَ اللّٰہَ حَدِیۡثًا ﴿٪۴۲﴾ 3
"جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش! انہیں زمین کے ساتھ ہموار کر دیا جاتا اور اللہ تعالٰی سے کوئی بات نہ چھُپا سکیں گے ۔۔" (النساء: 42)
وَ یَوۡمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیۡہِ یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِی اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِیۡلًا ﴿۲۷﴾
اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کو (شرمندگی اور ندامت سے) کاٹتے ہوئے کہے گا،ہائے کاش! میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ کو ہی اپناتا۔"(الفرقان: 27)
وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ {ترجمہ: ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی (2:256قرآن)}
رسول اللہ ﷺ ںے فرمایا : "جس آدمی نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا (یعنی رائج کیا) جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی تو اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا بغیر اس کے کہ اس (سنت پر عمل کرنے والوں) کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے۔ اور جس آدمی نے گمراہی کی کوئی ایسی نئی بات (بدعت) نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول خوش نہیں ہوتا تو اس کو اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا کہ اس بدعت پر عمل کرنے والوں کو گناہ ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی کی جائے۔
(جامع ترمذی) اور اس روایت کو سنن ابن ماجہ نے کثیر بن عبداللہ بن عمر سے اور عمر نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے۔ [مشکوٰۃ المصابیح - حدیث نمبر 165][97]
"لو اب تم ایسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا ۔ جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا ‘ وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو ‘ اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے ۔ تمہارے آپس میں سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہوگئے جن کا تم زعم رکھتے تھے "(سورة الأنعام, 6:94)[98]
رساله تجديد الاسلام
Author: Brig Aftab Ahmad Khan (r)
اردو - (اس ترتیب میں پڑھیں )
https://bit.ly/تجدیدالسلام-مقدمہ PDF
English
1)غیر تجارتی مقصد، .دعوہ کے لیے ویب سائٹ / لنک کا حوالہ دے کر میڈیا پر کاپی اور شیئر کرنا احسن اقدام ہو گا 2)یہ مطالعہ قرآن کی واضح (آیاتٌ مُّحْكَمَاتٌ ، أُمُّ الْكِتَابِ) سنت ، حدیث اور مستند تاریخ کی بنیاد پر ہے۔ ا اینڈ نوٹس/ لنکس / ریفرنسز ملاحضہ فرمائیں 3) پڑھنے کے بعد اگر کوئی سوالات اور شبہات ہوں تو وہ مکمل تحقیق کا مطالعہ کرنے سے دور ہو سکتے ہیں ان شاءاللہ
I-Quranic Odyssey (Eng & Urdu) [قرآنی سفر کے مظاہر]
Demystifying the Debate: A Guide to Researching Challenging Topics
III-Legacy
IV-Interfaith
~~~~~~~~~~~
Another Sequence
Theology
Islam:
General Topics:
Jihad, Extremism:
Christianity:
Interfaith
Power Politics, Conspiracies; Threat to World Peace:
~~~~~~~~~~~~
Salaam Network Websites/ Blogs
Abrahamic Monotheism, Ethics, Science, Spiritually & Peace
http://FreeBooPark.blogspot.com
“Salaam One Network'', is a non profit e-Forum for ethical, spiritual & world peace. The Forum is open to all the rational people of any faith, belief, gender or race. Collection of books and articles are freely available at blogs, websites & web pages for study & distribution:
---------------------
Salaam One Network:
MAGAZINES:
SOCIAL MEDIA:
VIDEO CHANNELS:
eBooks Box: http://goo.gl/xmxPP
WP- WORDPRESS
[googleapps domain="docs" dir="document/d/e/2PACX-1vT6gM-n4oz9cinVWbL2eQ-2ZAkNCeE_8B1vfDSk0EDOlSbufuG1WURaSK3BLUJWsd_fZol8WssnW5PX/pub" query="embedded=true" width="100%" height="1000" /]
Blogspot: Embed google doc in blogspot
<iframe height="1000px" src=https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vT6gM-n4oz9cinVWbL2eQ-2ZAkNCeE_8B1vfDSk0EDOlSbufuG1WURaSK3BLUJWsd_fZol8WssnW5PX/pub?embedded=true" width="100%"></iframe></div>
اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر ﴿ البقرة ٢٨٦﴾
أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ ﷺ
رساله تجديد الاسلام
https://Quran1book.blogspot.com
https://Quran1book.wordpress.com
https://www.facebook.com/IslamiRevival
Link
https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vT6gM-n4oz9cinVWbL2eQ-2ZAkNCeE_8B1vfDSk0EDOlSbufuG1WURaSK3BLUJWsd_fZol8WssnW5PX/pub
Embed WORDPRESS
WP
[googleapps domain="docs" dir="document/d/e/2PACX-1vT6gM-n4oz9cinVWbL2eQ-2ZAkNCeE_8B1vfDSk0EDOlSbufuG1WURaSK3BLUJWsd_fZol8WssnW5PX/pub" query="embedded=true" width="100%" height="1000" /]
Blogspot: Embed google doc in blogspot
<iframe height="1000px" src="https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vT6gM-n4oz9cinVWbL2eQ-2ZAkNCeE_8B1vfDSk0EDOlSbufuG1WURaSK3BLUJWsd_fZol8WssnW5PX/pub?embedded=true" width="100%"></iframe></div>
عام طور پر یہ بیان کیا جاتا ہے کہ نبی کریم ﷺ نے نزول وحی کے دور میں قرآن کے ساتھ احادیث کے اختلاط کے خدشے کے پیشِ نظر احادیث لکھنے سے منع فرمایا تھا۔ تاہم، یہ دعویٰ معتبر تاریخی شواہد سے خالی ہے۔ گہری تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ نبی ﷺ نے کبھی بھی اس خاص وجہ کو بیان نہیں فرمایا۔
تاریخی روایات کے مطابق، حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ (جو 7 ہجری میں خیبر کی مہم کے وقت مسلمانوں میں شامل ہوئے) اور حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سمیت دیگر صحابہ کو نبی ﷺ نے قرآن کے علاوہ احادیث لکھنے سے واضح طور پر روکا تھا۔ یہاں تک کہ ابو ھریرہ نے لکھی گئی احادیث کو جلا دیا اور وفات تک دوبارہ لکھنے کی کوشش نہیں کی (حالانکہ حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے 5374 احادیث زبانی روایت کی گئیں)۔ اس ممانعت کی بنیادی وجہ "قرآن کے ساتھ اختلاط" کا خدشہ نہیں، بلکہ آپ ﷺ کا یہ ارشاد تھا کہ "سابقہ امتوں کی طرح ہماری کتاب اللہ (قرآن) میں اضافے نہ ہوں"۔( یہودیوں کے تالمود (38 جلدیں اور عیسائیوں کی انجیل کے علاوہ 23 کتب) اضافی مذہبی تحریریں وحیِ الٰہی میں تحریف کا سبب بنتی ہیں۔ بعد میں خلیفہ دوم حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے بھی بعین اسی خدشے کے تحت احادیث کی کتابت کی مخالفت کی اور مواد جلا دیا-
تاریخی تضاد: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کے اسلام لانے کا زمانہ (7 ہجری) اس "اختلاط" کے دعوے کو بے بنیاد ثابت کرتا ہے۔ اس وقت تک قرآن 17 سال سے نازل ہو رہا تھا اور اس کی منفرد لسانی ساخت عربوں (جنہیں اپنی فصاحت پر فخر تھا) کے لیے بالکل واضح تھی۔ اتنی طویل مدت کے بعد یہ کہنا کہ "احادیث کو قرآن سمجھ لیا جاتا" منطقی طور پر ناقابلِ قبول ہے۔
نتیجہ: یہ دعویٰ کہ "احادیث قرآن کے ساتھ گڈمڈ ہونے کے ڈر سے نہیں لکھی گئیں" ایک بے سند افواہ ہے۔ نبی ﷺ کی ممانعت درحقیقت سابقہ امتوں کی کتاب الله میں تحریفوں سے بچاؤ کا حکیمانہ اقدام تھا، جوآج احادیث کے 171 مجموعوں کی موجودگی میں درست ثابت ہوا۔ قرآن کی حیثیت بطور الہامی کتاب ہمیشہ مسلمہ رہی ہے اور وحی صرف قرآن ہے، اور اس میں کسی قسم کا ابہام پیدا نہیں ہوسکتا۔
سنت اور حدیث[99] کے درمیان فرق پہلے ہی واضح کیا جا چکا ہے؛ ایک بار پھر نظر ڈالی جا سکتی ہے۔ علماء نے حدیث کے درجے کو بڑھا کر "وحی غیر متلو"[100] قرار دے دیا، جو ایک ایسی اصطلاح ہے جسے نہ تو نبی کریم ﷺ نے استعمال کیا اور نہ ہی صحابہ کرامؓ نے۔ ایک بدعت (بدعة) کو جائز قرار دینے کے لیے، کئی اور بدعتیں ایجاد کی گئیں، اور قرآن (3:7) کو نظرانداز کر دیا گیا[101]۔ اس سے بھی بڑھ کر، حدیث کو (جسے کم از کم دو مواقع پر جلایا گیا) "وحی غیر متلو" جبکہ قرآن کو "وحی متلو" قرار دے دیا گیا۔ یہ اصطلاحات قرآن میں موجود نہیں بلکہ محض بدعت[102] ہیں، جو چوتھی/پانچویں صدی ہجری میں عام ہوئیں۔ اس سے پہلے کے جید علماء، جیسے امام ابو حنیفہؒ، نے بھی ان اصطلاحات کو استعمال نہیں کیا۔
حدیث کے حفظ و بیان کی پالیسی میں بہت حکمت پوشیدہ ہے- اس سلسلہ سے غیر ضروری اورمن گھڑت احادیث کا خودبخود خاتمہ ہوتا ہے کہ ان کو حفظ کرنا کسی کے لینے فائدہ مند نہیں ہو سکتا یہ خودکار نظام ہے جس کی سمجھنے کی ضرورت ہے- مزید مجوزہ اصول احادیث بھی غیر ضروری من گھڑت احادیث کو معیار پر پرکھ کر سچ اور جھوٹ کا خاتمہ کر سکتے ہیں جس کی آج بہت ضرورت ہے-
حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے # …‘‘(ترمذی 2906)
جس شخص نے کتاب اللہ کی پیروی کی تو نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ آخرت میں بدبخت ہوگا (یعنی اسے عذاب نہیں دیا جائے گا) اس کے بعد عبداللہ ابن عباس ؓ نے یہ آیت تلاوت فرمائی آیت (فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي( 20:123) ترجمہ جس آدمی نے میری ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح ,حدیث نمبر 185)#
اللہ شیطان کی ڈالی ہوئی کسی رکاوٹ کو مٹا کر آیات قرآن کو مستحکم کرتا ہے. قرآن کی آیات پکی ہیں ایک ہی درجہ ہے-
وَمَا اٴَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَسُولٍ وَلاَنَبِیٍّ إِلاَّ إِذَا تَمَنَّی اٴَلْقَی الشَّیْطَانُ فِی اٴُمْنِیَّتِہِ فَیَنْسَخُ اللهُ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ ثُمَّ یُحْکِمُ اللهُ آیَاتِہِ وَاللهُ عَلِیمٌ حَکِیمٌ
Satan would try to tamper with the desires of every Prophet or Messenger whom We sent. Then God would remove Satan's temptations and strengthen His revelations. God is All-knowing and All-wise.(22:52)#
”اور ہم نے آپ سے پہلے کوئی ایسا رسول یا نبی نہیں بھیجا ہے کہ جب بھی اس نے کوئی نیک آرزو کی تو شیطان نے اس کی آرزو کی راہ میں رکاوٹ ڈال دی تو پھراللہ نے شیطان کی ڈالی ہوئی رکاوٹ کو مٹا دیا اور پھر اپنی آیات کو مستحکم بنا دیا کہ وہ بہت زیادہ جاننے والا اور صاحب حکمت ہے“، اور پیغمبر اور دوسرے مومنین کو تاکید کی گئی ہے ۔(قرآن ، الحج 22:52)
لِیَجْعَلَ مَا یُلْقِی الشَّیْطَانُ فِتْنَةً لِلَّذِینَ فِی قُلُوبِہِمْ مَرَضٌ وَالْقَاسِ قُلُوبُہُمْ
”تاکہ وہ شیطانی القا کو ان لوگوں کے لئے آزمائش بنادے جن کے قلوب میں مرض ہےاور جن کے دل سخت ہوگئے ہیں“۔(الحج 22:53)
سورة الْحَشْر 59:23
اصل میں لفظ اَلْمُھَیْمِنُ استعمال ہوا ہے جس کے تین معنی ہیں۔ ایک نگہبانی اور حفاظت کرنے والا۔ دوسرے، شاہد، جو دیکھ رہا ہو کہ کون کیا کرتا ہے۔ تیسرے، قائم بامور الخلق، یعنی جس نے لوگوں کی ضروریات اور حاجات پوری کرنے کا ذمہ اٹھا رکھا ہو۔ یہاں بھی چونکہ مطلقاً لفظ المہیمن استعمال کیا گیا ہے، وہ تمام مخلوقات کی نگہبانی و حفاظت کر رہا ہے، سب کے اعمال کو دیکھ رہا ہے، اور کائنات کی ہر مخلوق کی خبر گیری، اور پرورش، اور ضروریات کی فراہمی کا اس نے ذمہ اٹھا رکھا ہے۔
الْمُهَيْمِنُ : اس کے معنی ہیں نگرانی کرنے والا (کذاقال ابن عباس و مجاہد و قتادہ ؒ قاموس میں ہے کہ ہمن یہیمن کے معنی دیکھ بھال اور نگرانی کرنے کے آتے ہیں (مظہری) (معارف القرآن, مفسر: مفتی محمد شفیع)
قرآن بھی مھیمن (5:48) اس لئے ہے کہ وہ تمام آسمانی صحیفوں کے لئے کسوٹی ہے (اصلاحی)
سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر 48
وَاَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بالْحَقِّ مُصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیْہِ مِنَ الْکِتٰبِ وَمُہَیْمِنًا عَلَیْہ (5:48)
یہ کتاب (قرآن) تورات اور انجیل کی مصداق بھی ہے اور مصدق بھیّ۔ اور اس کی حیثیت کسوٹی (فرقان) کی ہے۔ پہلی کتابوں کے اندر جو تحریفات ہوگئی تھیں اب ان کی تصحیح اس کے ذریعے سے ہوگی۔ (بیان القرآن، مفسر: ڈاکٹر اسرار احمد)
عربی میں ھیمن یھمن ھیمنۃ کے معنی محافظت، نگرانی، شہادت، امانت، تائد اور حمایت کے ہیں۔ قرآن کو ”الکتاب“ پر مھیمن کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس نے ان تمام بر حق تعلیمات کو جو پچھلی کتب آسمانی میں دی گئی تھیں، اپنے اندر لے کر محفوظ کرلیا ہے۔ وہ ان پر نگہبان ہے اس معنی میں کہ اب ان کی تعلیمات برحق کا کوئی حصہ ضائع نہ ہونے پائے گا۔ وہ ان کا مؤید ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندرالله کا کلام جس حد تک موجود ہے قرآن سے اس کی تصدیق ہوتی ہے۔ وہ ان پر گواہ ہے اس معنی میں کہ ان کتابوں کے اندر خدا کے کلام اور لوگوں کے کلام کی جو آمیزش ہوگئی ہے قرآن کی شہادت سے اس کو پھر چھانٹا جاسکتا ہے، جو کچھ ان میں قرآن کے مطابق ہے وہ اللہ کا کلام ہے اور جو قرآن کے خلاف ہے وہ لوگوں کا کلام ہے۔( تفہیم القرآن )
نزول قرآن کے وقت کتب حدیث موجود نہ تھیں، صدیوں بعد جب ان کو مدون کیا گیا تو کسی غلطی یا شیطانی آمیزش (قرآن 22:52) سے حفاظت صرف قرآن کی شہادت اور تصدیق سے ممکن ہے جو الفرقان (حق و باطل کی کسوٹی) بھی ہے۔ جو کچھ احادیث میں قرآن کے مطابق ہے وہ رسول اللہ ﷺ کا کلام ہے اور جو قرآن کےمطابق نہیں ہے وہ لوگوں کا کلام ہے یا شیطانی مداخلت جسے قرآن منسوح کر دیتا ہے- رسول اللہ ﷺ نے بھی فرمایا :
"میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،حدیث 189) (سنن دارقطنی: ۱؍۱۱۷) (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 190) [الكفاية في علم الرواية للخطيب, باب الكلام في أحكام الأداء وشرائطه، حديث رقم 1303]
علم الحديث کے سنہری اصول : https://bit.ly/Hadith-Basics
قرآن پچھلی تمام کتابوں کا مصدق ہے اور تصدیق کا مطلب یہ ہے کہ یہ ساری کتابیں فی الواقع اللہ کی نازل کردہ ہیں۔ لیکن قرآن مصدق ہونے کے ساتھ ساتھ مُھَیْمِنْ (محافظ، امین، شاہد اور حاکم) بھی ہے۔ یعنی پچھلی کتابوں میں چونکہ تحریف اور تغیر (یعنی کاٹ چھانٹ اور تبدیلی) بھی ہوئی ہے اس لئے قرآن کا فیصلہ ناطق ہوگا، جس کو صحیح قرار دے گا وہی صحیح ہے۔ باقی باطل ہے-
قرآن ان سب کتابوں کے لیے ایک کسوٹی کے معیار کا کام دیتا ہے وہ اس طرح کہ :
١۔ انجیل و تورات میں جو مضمون قرآن کے مطابق ہوگا وہ یقینا اللہ ہی کا کلام ہوگا۔
٢۔ اور جو مضمون قرآن کے خلاف ہوگا وہ ہرگز اللہ کا کلام نہیں ہوسکتا۔ وہ یقینا لوگوں کا کلام ہے۔ جو کتاب اللہ میں شامل کردیا گیا ہے۔ جیسے موجودہ اناجیل میں عقیدہ تثلیث اور الوہیت مسیح اور کفارہ مسیح کے عقائد پائے جاتے ہیں اور بائیبل میں انبیاء کی توہین کے علاوہ کئی ایسے مضامین پائے جاتے ہیں جن سے واضح طور پر معلوم ہوجاتا ہے کہ وہ اللہ کا کلام نہیں ہوسکتے۔(عبدلرحمان کیلانی )
تورات اور انجیل کے ہر حکم کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھا جائے گا، صحیح اترنے کی صورت میں قبول کرلیا جائے گا ورنہ رد کردیا جائے گا (عبدالسلام بھٹوی)
احادیث کے لیے یہ بھی اصول ضروری ہیں رسول اللہ ﷺ نے اس کا حل بھی بتلا دیا- اصول علم الحديث کے سنہری اصول# دیے-
القرآن - سورۃ نمبر 3 آل عمران, آیت نمبر 7
اس آئیت کی بنیاد پر تمام عقائید ، نظریات کو "مِحکم ، واضح آیات" سے چیک کریں اور تمام بدعات، فرقہ واریت، گمراہیوں سے ہمیشہ کے لئیے محفوظ ہو جائیں
هُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ مِنۡهُ اٰيٰتٌ مُّحۡكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الۡكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌؕ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ زَيۡغٌ فَيَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَهَ مِنۡهُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَةِ وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِيۡلِهٖۚ وَمَا يَعۡلَمُ تَاۡوِيۡلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ؔۘ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِى الۡعِلۡمِ يَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ كُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ۞
وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری جس کی کچھ آیتیں تومحکم (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی) ہیں جو اصل کتاب ہیں اوردوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں۔ اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے تو وہ من مانی تاویلیں کرنے کی خاطر متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقل والے ہیں، (قرآن 3:7)
قرآن مکمل ، محفوظ کلام اللہ ہے جس میں کوئی شک نہیں ، مگر الله تعالی نے اس کی آیات کے بھی دو درجہ رکھ دیے محکمات اور متشابھات، تو احادیث جوکہ کلام الله تعالی کی طرح مدون نہ ہوئیں ان کو کسے کھلا چوڑا جا سکتا ہے اللہ کے احکام کو چھوڑ کر انسانی اصول کیسے لاگو ہو سکتے ہیں رسول اللہ ﷺ کے نام کی آڑ میں- اگر قرآن کی آیات سے تاویلوں کے زور پر احکام نہیں نکالے جا سکتے تو احادیث قرآن سے اوپر نہیں- ان پر تحقیق سے وہ احادیث جو کہ قرآن کے احکام کی تفصیل بیان کرتی ہیں نیے احکام نہیں دیتیں ان کو دوسری قسم کی احادیث سے الگ کیا جایے- اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین سے حاصل شدہ اصولوں کی روشنی میں ذخیرہ احادیث کی تدوین نو کی جایے-
کوئی عقیدہ، نظریہ، عبادت ، کلمہ ، قول جو قرآن کی "آئیت محکمہ" کے مطابق نہیں، تشریحات و تاویلات کے زور پر جسے قرآن سے ثابت کرنا پڑے اور تشریحات و تاویلات کے ہی زور پر جسے قرآن مخالف ، باطل بھی ثابت کیا جاسکے وہ نظریہ ، عقیدہ، قول، کلام ایمان کی بنیاد نہیں ہو سکتا۔ ایسے کچے قول ، نظریہ پر ایمان کی عمارت کھڑی نہیں کی جاسکتی جو ابدی جہنم کی طرف لے جا سکتی ہو۔ اس میں کسی رسک (risk) یا شک و شبہ کی گنجائیش نہیں۔ صرف ایک کتاب ہے جو خود دعوی کرتی ہے : ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ (یہ وہ کتاب ہے جس میں کوئی بھی شک نہیں ).
اس طرح تمام فرقے اور اختلافات جن کی بنیاد مختلف متضاد احادیث ہیں ختم ہو جاتے ہیں کیونکہ متضاد احادیث خودبخود متشابھات میں شامل ہو جآتی ہیں، ان سے الگ ہونا ہو گا- اللہ تعالی ہم سب کو محکم مضبوط ایمان کے ساتھ صراط مستقیم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین
[1] رسول اللہ ﷺ خطبہ سے قبل ارشاد فرماتے تھے: (صحیح مسلم، حدیث نمبر:2005 ، نسایی؛ 1579 ، ابن ماجہ 45، مشکوات المصابیح 139، معارف حدیث 1889) / http://www.equranlibrary.com/hadith/muslim/1470/2005
[13] سنن ابن ماجہ، الفرائض، باب الحث علی تعلیم الفرائض ،حدیث2719۔وسنن الدارقطنی۔4/66حدیث4014۔۔(ضعیف)
[14] ۔ جامع الترمذی الفرائض باب ماجاء فی تعلیم الفرائض ،حدیث 2091وسنن الدارمی ،المقدمۃ، باب الاقتداء بالعلماء ،حدیث 227 واللفظ لہ۔(ضعیف)
[15] https://shamilaurdu.com/book/fiqhi-ahkam-o-masail-jild-02/184/
[a] ۔السنن الکبری للبیہقی 6/209۔ ۔السنن الکبری للبیہقی 6/209۔, سنن ابن ماجہ، الفرائض، باب الحث علی تعلیم الفرائض ،حدیث2719۔وسنن الدارقطنی۔4/66حدیث4014۔۔(ضعیف) [b] جامع الترمذی الفرائض باب ماجاء فی تعلیم الفرائض ،حدیث 2091وسنن الدارمی ،المقدمۃ، باب الاقتداء بالعلماء ،حدیث 227 واللفظ لہ۔ ۔(ضعیف) https://shamilaurdu.com/book/fiqhi-ahkam-o-masail-jild-02/185
[17] (کتاب: فقہی احکام و مسائل، صفحہ نمبر: 186-188):،
https://shamilaurdu.com/book/fiqhi-ahkam-o-masail-jild-02/186/
[18] https://shamilaurdu.com/book/fiqhi-ahkam-o-masail-jild-02/184,
https://shamilaurdu.com/book/fiqhi-ahkam-o-masail-jild-02/186/, [1] ۔تفسیر فتح القدیر، النساء 4/13۔14۔واللفظ لہ، و سنن ابن ماجہ، بلفظ :"مَنْ فَرَّ مِنْ مِيرَاثِ ...."الوصایا، باب الحیف فی الوصیۃ،حدیث 2703۔ (یہ روایت ضعیف ہے)۔
[2] ۔النساء:4۔7۔ , [3] ۔النساء:4/11۔, [4] النساء:4/176۔
[21] : “قطف الازہر متناتھرہ فی الخبار المتواتر” [Qatf al-Azhar al-Mutanathara fi al-Akhbar al-Mutawatirah https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-sunnah.html
[27] کتابت حدیث کی تاریخ – نخبة الفکر – ابن حجرالعسقلانی : https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-compilation-history.html
[41] ibid-
[52] Ibid
[65] اسے امام شافعی نے مسند (ص 240) اور الرسالہ (ص401 # 1102) میں روایت کیا ہے۔ اور طبرانی المعجم الکبیر میں، جلد 2، ص۔ 126 # 1541]، https://www.minhajuk.org/index.php/about-us/187-the-founder-shaykh-ul-islam/394-
[82] ابن ماجہ42 , سنن ابی داود 4607، انگریزی ترجمہ: کتاب41حدیث, 4590] [سنن ابوداؤد:جلد سوم:حدیث نمبر ١٢١٩، سنت کا بیان :سنت کو لازم پکڑنے کا بیان] وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني): https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Last-Will.html
[85] 1.محمد بن اسماعیل بخاری (194-256ھ/810-870ء)، 2.مسلم بن حجاج (204-261ھ/820-875ء)، 3.ابو عیسی ترمذی (209-279ھ/824-892ء)، 4..سنن ابی داؤد (امام ابو داؤد متوفی 275ھ/9-888ء ، 5۔ سنن نسائی (امام نسائی) متوفی 303ھ/16-915ء ، 6۔ سنن ابنِ ماجہ (امام ابنِ ماجہ) متوفی 273ھ/87-886ء
[88] (متّی 23:24)
[94] [ماخوز ازتفسیر،کشف الرحمان، احمد سید دہلوی] https://trueorators.com/quran-tafseer/4/14
[101] (Quran;6:114-115, 16:89, 39:23)\ https://tanzil.net/#trans/en.shakir/6:114 , 16:89, 23:93
[102] (Quran;6:114-115, 16:89, 39:23)\ https://tanzil.net/#trans/en.shakir/6:114 , 16:89, 23:93