اجازت نامہ

  1. یہ متن نوری آستانے کی ملکیت ہے۔ اسے یا اس کے کسی حصے کو (بعینہٖ یا تبدیلی اور خورد برد کر کے) تجارتی یا دیگر کسی بھی مادّی مقاصد و مالی منفعت کے لئے استعمال کرنے کی ممانعت ہے۔ کیونکہ یہ شرعی، اخلاقی اور قانونی جرم ہے۔
  2. اس تحریر کو جو پڑھے اور مسلمانوں کے لئے کارآمد جان کر نیک نیتی کے ساتھ اسے یا اس کے کسی باب یا حصے کو صرف اور صرف تبلیغِ اسلام کے لئے چھپوانا چاہے یا اپنی کسی تحریر میں (Verbatim) پیش کرنا چاہے، یا اس کی وربیٹم نقول (جیسے کمپیوٹر کاپی) تیار کرنا چاہے تو اسے اس کی پوری اجازت ہے۔
  3. میں نے اپنی تمام تر کوششیں کی ہیں کہ متن میں کہیں کسی قسم کی کوئی کوتاہی اور کمی بیشی نہ ہو اور تحریر ہر قسم کی اغلاط سے پاک ہو۔ لیکن پھر بھی انسان ہونے کے ناطے کوئی بھول چوک ہو سکتی ہے۔ اگر کہیں بھی کوئی املا/حوالہ/متن وغیرہ کی غلطی دیکھیں تو اس سے مؤلف کو ضرور مطلع کریں تاکہ آئندہ اس کی اصلاح کی جا سکے۔

فہرست

اجازت نامہ

ابجد کے حروف

جمل کی اقسام (ملفوظی اور مکتوبی اعداد)

حروف و اعداد بسم

حروفِ مقطعات کے اعداد کیا ہیں؟

☜        علم الاعداد(جمل)

علم جمل اور اس کی تینوں اقسام کی مختصر تشریح اور طریقہ

        ابجد کے حروف

آپ نے حروفِ تہجی کے ساتھ ایک مترادف اصطلاح ﴿ابجد ﴾کی بھی سنی ہوگی۔ حروفِ تہجی کو الف باء کہا جاتا ہے۔ لیکن یہ ابجد کیا ہے؟

قدیم عربوں نے چاند کی اٹھائیس منزلوں کے اعتبار سے حروفِ تہجی کے ہر حروف کو ایک تا ایک ہزار ایک عدد دیا ہوا تھا۔ لیکن یہ حروفِ تہجی کی ترتیب کے اعتبار سے نہ تھے اس لئے اعداد اور حرف کو آسانی کے ساتھ یاد رکھنے کیلئے ابجد کی اصطلاح وجود میں آئی۔ ابجد، ہوز، حطی، کلمن وغیرہ۔

اردو کے اعتبار سے حروف کے اعداد کچھ یوں ہیں۔ اس نقشے میں عربی حروف کے اعداد بھی موجود ہیں۔  

یہ کل اٹھائیس حروف ہیں۔ یہ نقشہ اصل ہے علم الاعداد کی۔ آپ بخوبی ملاحظہ کر سکتے ہیں کہ اس میں ہمزہ شامل نہیں۔ لیکن چونکہ کمپیوٹر ہر چیز کو الگ دیکھتا ہے اس لئے وہ ہمزہ (ء) کو الگ دیکھتا ہے اور ﴿ؤ﴾ کو الگ سمجھتا ہے حالانکہ ہماری نظر میں یہ ہمزہ ہی کی ایک شکل ہے۔ اسی طرح دیگر حروفِ مفضلہ کا حال ہے کہ کمپیوٹر انہیں ایک الگ حرف خیال کرتا ہے اس لئے ضرورت محسوس ہوئی کہ ان اضافی حروف کو بھی اعداد کے زمرے میں لایا جائے۔

حروفِ مفضلہ کیلئے ایک ہی اصول ہے کہ جو حرف لکھا جاتا ہے، اعداد اسی کے لئے جاتے ہیں چاہے وہ کسی اور حرف کی آواز ہی کیوں نہ دے۔ اس لئے یہ نقشہ حاصل ہوتا ہے۔

کتاب ﴿شمس المعارف﴾ میں ہے کہ اعداد کا مرتبہ حروف سے بلند ہے۔ شمس المعارف و لطائف العوارف حضرت شیخ ابو العباس احمد بن علی البونی کی تصنیف ہے ۔ عملیات و تعویذات اور اوراد و وظائف کے فن پر یہ سب سے زیادہ مشہور اور مستند عربی کتاب ہے۔ اس کے علاوہ یہ اسماء اللہ الحسنیٰ اور آیات قرآنی و حروف تہجی کے خواص و اسرار و امور پر بے مثال کتاب ہے ۔ آپ وہ پہلی ہستی ہیں جنہوں نے اعداد کے پراسرار اثرات کے بارے میں کھل کر بیان کیا۔

جمل کی اقسام (ملفوظی اور مکتوبی اعداد)

ابجد میں حروف کے اعداد نکالتے وقت حروف کے تلفّظ کو نہیں، تحریر کو دیکھا جاتا ہے۔ جیسے اسمِ ﷴ کی زبان سے ادائیگی کے وقت تین میم (محم مد) کا تلفظ کیا جاتا ہے، لیکن لکھنے میں چونکہ صرف دو میم آتے ہیں اس لئے اس کے اعداد ۹۲ بنتے ہیں نہ کہ ۱۳۲۔

سادہ حروف (لکھے ہوئے مکتوبی حروف) سے اعداد نکالنا جمل کہلاتا ہے۔ جیسے ﴿ محمد﴾ کے اعداد (۴۰+۸+۴۰+۴) ۹۲ اور ﴿اﷲ ﴾ کے اعدادِ جمل (۱+۳۰+۳۰+۵) یعنی ۶۶ بنتے ہیں۔

کبھی کسی ضرورت کے تحت کسی حرف کے تلفظ میں آنے والے حروف سے بھی کام لیا جاتا ہے۔ تلفظ کے اس طریقے سے اعداد معلوم کرنا جملِ بسیط کہلاتا ہے۔ جیسے ﴿۱﴾ کا تلفظ الف ہے یعنی ۱+ل+ف۔ جملِ بسیط کی اس صورت میں الف کے اعداد (۱+۳۰+۸۰) یعنی ۱۱۱ بنتے ہیں۔

مؤکلات کے ناموں کے استخراج میں عموماً جملِ بسیط سے ہی کام لیا جاتا ہے۔

جمل بسیط میں اعدادِ قرآن ﴿36،304،964﴾ بنتے ہیں اور جمل عام میں ﴿24،307،713﴾ یعنی تقریباً ﴿ 11،997،251﴾ سوا کروڑ کا فرق آ جاتا ہے۔ جبکہ جملِ کبیر میں قرآنِ کریم کے کل اعداد آٹھ کروڑ ستائیس لاکھ چالیس ہزار اور تین سو چھپن (82740356) بنتے ہیں۔ جمل میں تسمیہ کے اعداد ۷۸۶ اور جملِ بسیط میں ۱۵۵۳ بنتے ہیں۔ جملِ بسیط کے پھر ملفوظی اعداد نکالے جائیں تو جملِ کبیر نکلتی ہے۔

حروف و اعداد بسم

اگر آپ کلمہ بسم کے اعداد جملِ صغیر (عام) میں اور پھر جمل بسیط اور کبیر میں معلوم کرنا چاہتے ہیں تو اس نقشے کو غور سے دیکھیں۔

آپ آسانی کی خاطر جمل کے تین لیول سمجھ سکتے ہیں، پہلے لیول میں حروف کے اعداد، دوسرے لیول میں تلفظ کے اعداد اور تیسرے لیول میں تلفظ کے تلفظ کے اعداد لئے جاتے ہیں۔

حروفِ مقطعات کے اعداد کیا ہیں؟

حضرت علامہ سیوطیؒ اپنی مشہور عالم کتاب الاتقان (کی مجلد ثالث) میں فرماتے ہیں کہ حروفِ مقطعات کے بارے میں ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ (حروفِ مقطعات) حساب ہے ابی جاد (ابجد کی جمع) کا اور اس امت کی کل عمر کو ظاہر کرتا ہے۔ اور پھر آپ نے ایک حدیث شریف بھی بیان فرمائی ہے کہ

روایت ہے حضرت عبد اللہ بن عباسؓ سے اور آپ روایت فرماتے ہیں حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے کہ ابو یاسر بن اَخطب (ایک یہودی) ایک بار نبی کریم  کے پاس سے گزرا تو آپ اس وقت سورت البقرہ کی ابتدائی آیات تلاوت فرما رہے تھے۔ {الم ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ} اس کو سن کر وہ اپنے بھائی حیی بن اخطب کے پاس گیا اور اس سے کہنے لگا کہ کیا تمہیں معلوم ہے اللہ کی قسم میں نے آپ  کو الف لام میم پڑھتے ہوئے سنا ہے۔ اس کے بھائی نے پوچھا کہ کیا تم نے خود سنا ہے؟ ابو یاسر نے کہا کہ بیشک!

اس کے بعد حیی بن اخطب کئی بڑے بڑے یہودیوں کو، جو وہاں پہلے سے موجود تھے، لے کر رسول اللہ  کی خدمت میں گیا اور ان سب نے آپ  سے یہ دریافت کیا کہ آپ  پر {الم ذَلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ فِيهِ} نازل ہوئی ہے؟ آپ  نے فرمایا کہ ہاں!

یہودیوں کی جماعت نے کہا کہ اللہ نے آپ  سے پہلے بہت سے نبی مبعوث فرمائے مگر ہم کو یہ معلوم نہیں ہوا کہ خدا نے ان میں سے کسی نبی پر اس کے ملک (حکومت) کی مدت بیان کر دی ہو۔ اور یہ بتا دیا ہو کہ اس نبی کی امت کس میعاد تک قائم رہے گی۔ مگر آپ سے یہ بات بتا دی گئی ہے۔ الف لام میم میں الف کا ایک، لام کے تیس اور میم کے چالیس عدد ہیں۔ جو مجموعی طور پر اکہتر سال ہوتے ہیں۔ تو کیا ہم ایسے نبی کے دین میں داخل ہوں جس کے ملک کی مدت اور امت کا زمانہ صرف اکہتر سال ہے؟

پھر اس نے دریافت کیا کہ اے محمد ﷺ! کیا اس کلمے کے ساتھ کا کوئی اور کلمہ بھی ہے؟ رسول اللہ  نے فرمایا کہ ہاں، المص۔ وہ کہنے لگا کہ یہ اس سے زیادہ ثقیل اور طویل ہے۔ الف ایک، لام تیس، میم چالیس اور صاد نوے۔ اس کا مجموعہ ایک سو اکسٹھ سال ہوا۔

پھر اس نے کہا کہ کیا اس کے ساتھ ایسا ہی کوئی اور کلمہ بھی ہے؟ آپ  نے فرمایا کہ ہاں، الر! وہ کہنے لگا کہ یہ اور بھاری ہے۔ الف کے اعداد ایک، لام کے اعداد تیس اور راء کے اعداد دو سو، یہ کل دو سو اکتیس ہوگئے۔

پھر اس نے سوال کیا کہ کیا اس کے علاوہ بھی کچھ نازل ہوا ہے؟ آپ  نے فرمایا کہ ہاں! المر!حیی بن اخطب نے کہا کہ یہ تو اس سے بھی زیادہ ثقیل و طویل ہے۔ الف ایک، لام تیس، میم چالیس اور راء دو سو۔ یہ کل دو سو اکہتر ہوئے۔

پھر اس نے کہا کہ اس میں شک نہیں کہ آپ کا معاملہ ہم کو الجھن میں ڈال رہا ہے جس کی وجہ سے ہم نہیں جان سکے کہ آپ کو تھوڑی مدت دی گئی ہے یا بہت بڑی۔ پھر اس نے اپنے ساتھیوں سے کہا کہ چلو، ان کے پاس سے اٹھ چلو۔

پھر اس کے بعد ابو یاسر نے اپنے بھائی حیی بن اخطب اور اس کے ساتھیوں سے کہا کہ تمہیں کیا معلوم کہ خدا نے یہ سب مدتیں محمد ﷺ کیلئے جمع فرما دی ہوں۔ اور یہ سب مل کر سات سو چونتیس سال کی مدت ہوتی ہے۔ اس کی قوم کے لوگوں نے کہا کہ ہم پر اس کا معاملہ متشابہ ہو گیا ہے۔ چنانچہ علمائے کرام کہتے ہیں کہ

﷽{ هُوَ الَّذِي أَنزَلَ عَلَيْكَ الْكِتَٰبَ مِنْهُ ءَايَٰتٌ مُّحْكَمَٰتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَٰبِ وَ أُخَرُ مُتَشَٰبِهَٰتٌ ۔۔۔ } [آل عمران: 7].

والی آیات انہی یہودیوں کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔

اس حدیث شریف سے یہ بھی پتا چلتا ہے کہ نبی  حروف اور اعداد کے تعلق سے پوری طرح واقف تھے۔ ایک کے بعد ایک کلمہ بتاتے رہے جس کی عددی قیمت پہلے والے سے بڑھ کر تھی۔ واقف نہ ہوتے تو کلمات کی یہ ترتیب بھی نہ بیان فرماتے۔ ان لوگوں پر افسوس جو نبی  کی صفت "اُمّی" کی غلط تشریح کرتے ہیں اور اس کے معنیٰ "اَن پڑھ" کے کرتے ہیں۔ سبحان اللہ! اس کا مطلب تو یہ ہے کہ آپ  ان پڑھوں میں مبعوث ہوئے یعنی وہ لوگ جن پر صدیوں بلکہ ہزاروں سالوں تک کوئی آسمانی ہدایت کسی کتاب کی شکل میں نازل نہ ہوئی۔ دنیا میں کوئی شخص نبی  کا استاد اور معلم نہیں لیکن آپ  معلمِ کائنات ہیں۔ اور آپ کو حق تعالیٰ ﷻ خود پڑھاتا ہے۔ قرآنِ پاک میں ہے

﷽        { سَنُقْرِئُكَ فَلَا تَنسَىٰ (6) إِلَّا مَا شَاءَ اللَّهُ إِنَّهُ يَعْلَمُ الْجَهْرَ وَ مَا يَخْفَىٰ (7) } [الأعلى:6-7].

        (اے حبیبِ مکرّم!) ہم آپ کو خود (ایسا) پڑھائیں گے کہ آپ (کبھی) نہیں بھولیں گے، مگر جو ﷲ چاہے، بیشک وہ جہر اور خفی (یعنی ظاہر و پوشیدہ اور بلند و آہستہ) سب باتوں کو جانتا ہے۔

کیا خوب کہا ہے کسی کہنے والے نے

لکھے نہ پڑھے جنابِ والا

شاگردِ رشیدِ حق تعالیٰ