Published using Google Docs
احکام القرآن 2 حصہ دوئم
Updated automatically every 5 minutes

 احکام القرآن                                         https://Quran1book.blogspot.com                                        

        

احکام القرآن

 حصہ دوئم

 وَمَا عَلَيْنَا إِلَّا الْبَلَاغُ الْمُبِينُ ‎﴿١٧﴾‏

اور ہمارے ذمے اس کے سوا کچھ نہیں کہ ہم (پیغام حق) پہنچا دیں کھول کر(36:17)

توہین رسول اللہ ﷺ کی شیطانی مہم ، مسلمانوں کا احتجاج اور آپ سے توقع

نوپور شرما نے  انڈیا میں گستاخی رسول اللہ ﷺ  کا جرم کرکہ دنیا بھر میں مسلمانوں کے جزبات کو مجروح کیا۔ لیکن مسلمان نادان بنے بیٹھے ہیں کہ بارہ سو سال سے رسول اللہ ﷺ  کے مقدس کلام کی آڑ میں یہ سازش جاری ہے تاکہ پکڑائ نہ ہو سکے۔  کتب حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے تصدیق شدہ نہیں ہیں یہ اعزاز صرف قرآن کا ہے جو کلام اللہ ہے اور اس میں کوئی شک نہیں قرآن کتاب الله کے علاوہ دنیا کی ہر کتاب مشکوک ہے- کتب حدیث میں جہاں اقوال  رسول اللہ ﷺ کے ہیرے اور موتی ہیں، ان کے ساتھ نوکیلے سنگریزے بھی شامل پیں جومسلمانوں کے دل کو زخمی کر رہے ہیں۔  ایک ایسا  کنکر ہشام بن عروہ راوی البخاری حدیث  5134 ہے۔

البخاری حدیث 5134

اس حدیث میں ام المومنین حضرت عائشہؓ  کی شادی کی عمر نو سال بیان ہے، یہ حدیث "ہشام بن عروہ" سے مروی ہے  جو61ھ مدینہ میں پیدا ہوا، بغداد میں  146ھ میں 85  سال کی عمر میں وفات پائی  (680-763ء) ۔ امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150ھ/699 -767ء)  اورامام مالک بن انس (93-179ھ/ 712-795ء) آپ کے ہم عصر تھے- ہشام ابن عروہ حضرت عائشہؓ  (وفات 58ھ مطابق 678ء ) سے نہیں ملا نہ ہی وہ مزکورہ شادی کے چشم دید گواہ ہیں- ھشام بن عروہ کی زندگی کے دو دور ہیں ایک عراق جانے سے قبل اوردوسرا عراق جانے کے بعد ، ان کی عراق جانے سے قبل کی مروی احادیث مقبول ہیں اورعراق جانے کے بعد کی روایات یاداشت میں کمزوری اور فتنہ سبائیت کی سازش کے زیر اثر ہیں-

ہشام بن عروہ،  امام مالک ؒکے استادوں میں تھے اسکے باوجود امام مالک نے اپنے استاد کے قول مزکور کواپنی کتاب میں جگہ دینا مناسب ہی نہیں سمجھا اس کی وجہ کیایہ نہیں کہ اس قول کی صحت کاامام مالکؒ کو یقین نہیں تھا یہی وجہ امام ابو حنیفہ کی بھی ہو گی۔

جس بندہ کی یاداشت مشکوک ہو اس سے ایسی نامعقول بات قبول کرنا جو ناصرف یہ کہ قرآن کے خلاف ہے بلکہ رسول اللہ ﷺ کی شان، تہزیب، طبی ، اخلاقی نقطہ نظر میں بھی معیوب ہے- یہ کہنا کہ یہ اس دور کا  رواج تھا درست نہیں اگر رواج تھا تو بطور خاص حضرت عائشہؓ کی عمر کا ذکر کیوں؟  رسول اللہ ﷺ صرف عربوں کے لیے نہیں تا قیامت پوری دنیا کے لئے قرآن کا عملی تمونہ تھے ان کی سنت پر عمل کرنا اہم ہے وہ آیات قرآن  4:6 [1] کے خلاف نمونہ کیسے پیش کیسے کر سکتے تھے؟ جو اس دور میں بھی مناسب نہ تھا؟

ظاہر ہے یہ  رسول اللہ ﷺ پر کھلا بہتان ہے جس کو اہم فقہاء ، علماء ںے بھی نہ قبول کیا بلکہ اس کا ذکرکرنا بھی مناسب نہ سمجھا-  لیکن دو صدی بعد اس کو کتب حدیث جن کو لکھنے سے  رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین ںے سختی سے منع فرمایا[2] تھا ان میں شامل کر لیا گیا-

اب جب انڈیا میں ملعون "نوپور شرما"  نے اسی حدیث کی بات دہرائی تو پوری دنیا میں احتجاج ہو رہا ہے۔ اس فتنہ و فساد کی جڑ کو ختم کرنا ہوگا-

حق کے بارے میں خاموشی اختیار کرنے والے کو  رسول اللہ ﷺ  ںے گونگا شیطان قرار دیا-

اگر اب بھی کوئی گونگا شیطان اصرار کرے کہ اس حدیث میں کوئی غلط بات نہیں تو پھر احتجاج کیوں؟ اس شخص  اور ملعون "نوپور شرما" میں کیا فرق رہ جاتا ہے؟ صرف نام کا!

 البخاری حدیث  5134 : مسترد، منسوخ کی وجوہات  کا خلاصہ:

راوی ہشام بن عروہ کی حافظہ کی کمزوری کے علاوہ "البخاری "5134[3] کی منسوخی کی اہم وجوہات:

1.اس حدیث کا قرآن 4:6 سے متصادم ہونا [  آیت  قرآن کا انکار کفر ہے]

2.  رسول الله کی شان کے خلاف ہونا [ گستاخ رسول سلمان رشدی  کی سزا موت ہے]

3. احد حدیث ہونا ، متواتر نہ ہونا [ احد حدیث کی قبولیت شرعی طور پرلازم نہیں لیکن متواتر حدیث کا انکار کفر ہے]

4. سنت کے خلاف ہونا ، سنت صحابہ سے ثبوت نہ ہونا [قرآن کے بعد سنت ثابتہ مصدراسلام ہے حدیث نہیں]

5. مروجہ تہذیب ، اخلاق ، طبی طور پربھی درست نہ ہونا-

6.  ائمہ  فقہ اربعہ اور امام ابو حنیفہ کا اس حدیث کوقبول نہ کرنا؛ قرآن (بَلَغُوا النِّكَاحَ) ( 4:6) سنت اور دوسری احادیث کے مطابق بلوغت و شادی کی عمرسترہ سے  پندرہ سال مقرر کرنا- جبکہ  امام ابو حنیفہ اور امام مالک، ہشام بن عروہ  کے ہم عصر بھی تھے  امام مالک  تو  ہشام بن عروہ کے شاگرد بھی تھے-

7. علمی ، تاریخی تحقیق و حقائق سے غلط ثابت  ( https://bit.ly/AyeshaMyth )

حب رسول اللہ ﷺ  کا تقاضا ہے کہ تمام مسلمان انفرادی و اجتماعی طور پر حکومت اور علماء سے مطالبہ کریں کہ "البخاری حدیث  5134" کو فوری طور پر منسوِِخ قرار دیا جائیے اور اس طرح کی دل آزار احادیث کا رسول اللہ ﷺ کے مقررکردہ اصول "پہچان حديث" کی بنیاد پر تحقیقی تجزیہ کرکہ زخیرہ حدیث کی تشکیل نو کی جائیے۔

 

قُلۡ هَاتُوۡا بُرۡهَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ

"..کہو ! دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو.." (قرآن 2:111)

لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ

"..تاکہ جو ہلاک وہ اتمام حجت کے بعد ہلاک ہو اور جو زندہ رہے وہ اتمام حجت کے بعد زندہ رہے.." (قرآن 8:42)

 مزید تفصیل تحقیق .... 》》》

 https://bit.ly/Gustakh-Rasool

 https://bit.ly/Hadith-Basics

یا رسول اللہ ﷺ  ناچیز نے آپﷺ سے محبت کے زبانی دعوی کا حق، عملی طور پر ادا کرنے کی ایک عاجزانہ کوشش کی ہے ، یا اللہ اسے قبول فرما اور جو مومنین اس کوشش میں شامل ہوتے ہیں ، اس پیغام کو آگے بھیجتے ہیں، اس پر عمل درآمد کی پرخلوص کاوش کرتے ہیں، اس کو بھی قبول فرما، ان سب کی بھی بخشش فرما-  بروز قیامت ہم کو حوض کوثر پر رسول اللہ ﷺ کی قربت عطا فرما۔

 یا اللہ دشمنان رسول اللہ ﷺ اور دشمنان اسلام کی شیطانی سازشوں، مکر و فریب کو تباہ و برباد فرما۔ جو اہل علم اپنے فرقہ وارانہ اور دنیاوی مفادات کی وجہ سے گونگے شیطان بنے پیٹھے ہیں ان کے دماغ سے جہالت کے پردے ہٹا.آمین

 " کہہ دو کہ اگر تمہارے باپ اور تمہارے بیٹے بھائی بیویاں قبیلے اور تمہارے کمائے ہوئے مال اور وہ تجارت جس کی کمی سے تم ڈرتے ہو اور وہ حویلیاں جنہیں تم پسند کرتے ہو اگر یہ تمہیں اللہ سے اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے اور اس کی راہ میں جہاد سے بھی زیادہ عزیز ہیں تو تم انتظار کرو کہ اللہ تعالیٰ اپنا عذاب لے آئے، اللہ تعالیٰ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔"(التوبہ24)۔

                                                  ☆🌹☆🌹☆🌹☆🌹☆

اللَّهُمَّ صَلِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ۔۔

اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد۔

                                     ☆ ☆ ☆ ☆ ☆

جریر بن عبداللہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: جس قوم میں گناہوں کا ارتکاب ہوتا ہے، اور ان میں ایسے زور آور لوگ ہوں جو انہیں روک سکتے ہوں لیکن وہ نہ روکیں، تو اللہ تعالیٰ سب کو اپنے عذاب میں گرفتار کرلیتا ہے ۔[ تخریج دارالدعوہ: تفرد بہ ابن ماجہ 4009، (تحفة الأشراف: ٣٢٢١)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/٣٦١، ٣٦٣، ٣٦٤، ٣٦٦) (حسن )[4]]

امام ابن القیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:

’’ایسے شخص میں کیا دِینداری اور کونسی خیر و بھلائی رہ جاتی ہے جو اللہ کے محارم کو پامال ہوتا دیکھے، اس کی حدود کو ضائع ہوتا دیکھے، دِین سے لوگوں کی بیزاری اور سنتِ رسول سے رُوگردانی دیکھے لیکن اس کا دِل ٹھنڈا رہے اور اس کی زبان خاموش رہے۔ ایسا شخص گونگا شیطان ہوتا ہے، جس طرح کہ باطل کے حق میں بات کرنے والا؛ بولنے والا شیطان ہوتا ہے، دِین کے لیے آفت اور آزمائش [الخلال فی الأمر بالمعروف والنہی عن المنکر: ۴۴][5]

Who remains  silent about the truth is the Dumb Devil

 Who was Abdullah bin Saba & what was his Conspiracy

A Jew of Yemen, Arabia, of the seventh century, who settled in Medina and ..... 》》》》 https://www.jewishencyclopedia.com/articles/189-abdallah-ibn-saba

 قُلۡ هَاتُوۡا بُرۡهَانَکُمۡ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِيۡنَ  

کہو ! دلیل پیش کرو اگر تم اپنے دعوے میں سچے ہو۔

Say, "Produce your proof, if you are truthful

(قرآن 2:111)

SalaamOne.com


انڈکس حصہ دوئم

  1. صَلَاة‎ - طویل یا مختصرآیات قرآن کی تلاوت
  2. احترام و آداب  رسول اللہ ﷺ
  3. روضہ  رسول اللہ ﷺ پر شور! جرم یا گناہ ؛  قرآن و سنت کی روشنی میں
  4. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں مبالغہ آرائی، غلو
  5. حبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے  تقاضے
  6. توحید اور  کفر و شرک
  7. قبر پرستی
  8. مردوں سے کلام
  9. عالم برزخ
  10. قبروں کو سجدہ گاہ بنانا
  11. زیارتِ قبور کا  شرعی طریقہ
  12. Contemporary echoes of sins characteristic of that time
  13. نیکی اور تقوی میں تعاون
  14. آیات قرآن اور احادیث شئیر کرنے کے اصول اور احتیاط
  15. معاشرے کی تباہی میں اونچے طبقوں سے  بگاڑ

توہین رسول اللہ ﷺ کی 1200 سالہ مہم

تدوین حدیث میں محدثین کی طرف سے متن کے بجایے "سلسلہ اسناد" پر زور دینے کی وجہ سے علم کے ہیروں،موتیوں، جواہرات کے ساتھ کنکر بھی شامل ہو گۓ-  ایسی لایعنی محیر العقول[6] احادیث بھی شامل کر دی گیئں جوکہ نہ صرف قرآن ، سنت اور عقل[7] کے خلاف ہیں بلکہ توہین و گستاخی  رسول اللہ ﷺ کے زمرے میں بھی شمار ہوتی ہیں- رسول اللہ ﷺ  ںے جب صرف ایک کتاب، قرآن  لکھنے اور احادیث کو حفظ و بیان تک محدود[8] کیا تو حضرت ابو حریرہ (رضی الله )  نے ذخیرہ احادیث کو آگ لگا دی[9] اور پھر مرتے دم تک احادیث نہ لکھیں ان کے ساتھ اور جید علماء ، محدث صحابہ بھی شامل تھے[10]- صرف کچھ کو حفظ کمزوری پر ذاتی نوٹس کی اجازت ملی[11]- خلفاء راشدین ںے بھی اس پابندی کی سنت پر سختی سے عمل کیا [12] حضرت عمر (رضی الله)  نے توپابندی کا فرمان جاری کرکہ معامله ختم کر دیا[13]-  رسول اللہ ﷺ نے اپنی پیغمبرانہ حکمت و فراست سے ایسا طریقہ بھی بتلا دیا کہ ایک عام مسلمان بھی اصل اور نقل میں فرق کر سکتا ہے جن کو "اصول علم حدیث" کی شکل میں احقر نے اکٹھا کیا ہے[14]، سب سے اہم , حدیث  کے متن ( text, contents) کو بمطابق قرآن ، سنہ اور عقل و فہم قابل قبول ہونا ہے،پھر سلسلہ اسناد وغیرہ-  مگر بدعة نے سنت  رسول اللہ ﷺ پر غلبہ پا لیا اور گمراہی و ضلاله کا راستہ کھل  گیا[15]-

غلطی کی اصلاح کی  بجایے بعد کے علماء عجیب و غریب تاویلات سے  مشکوک احادیث کے حق میں دلائل دے کر درست ثابت کرنے کی لاحاصل کوشش کرتے رہتے ہیں جو کہ فضول اختلافات اور فرقہ واریت کے علاوہ کوئی مقصد حاصل نہیں کر سکتیں- کیونکہ  صحاح ستہ کی تدوین سے قبل اہل سنّه کے چاروں مشہورفقہی مکاتب وجود پزیر ہو چکے تھے اور پہلی دوسری صدی کے فقہا اور جید علماء پہلے ہی اس قسم کی متنازعہ احادیث کو نظر انداز کرچکے تھے-  ان میں سے ایک ام المومنین  حضرت عائشہ (رضی الله)  کی  رسول اللہ ﷺ سے شادی کے وقت عمر کا معامله ہے[16]- اس حدیث کی بنیاد پراسلام دشمن رسول اللہ ﷺ اور ام المومنین کی ذات مقدس پر توہین آمیز پراپیگنڈا کرکہ مسلمانوں کی دل آزاری کرتے رہتے ہیں- اس حدیث کا اس کے علاوہ اور کوئی مقصد نہیں مگر علماء اس قسم کی احادیث کو منسوخ کرنے سے منکر ہیں جبکہ وہ راویوں کی متنازعہ روایات ہیں جو تحقیق سے بھی نادرست قرار پاتی ہیں- جب کوئی اسلام دشمن ان احادیث کو بیان کرتا ہے تو مسلمان احتجاج کرتے ہیں-

جون 2022 میں انڈیا کی حکمران جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کی رہنما نوپور شرما کے پیغمبر اسلام کی کم عمر  حضرت عائشہ (رضی الله)  سے شادی کے متعلق متنازع بیان کا معاملہ بین الاقوامی سطح پر بھی اٹھ رہا ہے- تمام دنیا میں احتجاج ہو رہا ہے- مگر  گستاخ رسول اللہ ﷺ کہتے ہیں کہ ہم تو آپ کی مقدس کتاب البخاری ، المسلم سے حدیث دھرا رہے ہیں!

قرآن میں "بَلَغُوا النِّکَاحَ" نکاح کی عمر کا بیان ہے[17]۔ فقہا اور علماء نے قرآن، سنت اور مستند احادیث کی روشنی میں لڑکے کے لئےسن بلوغت  اٹھارہ اور لڑکی کے لئے سترہ سال مقرر کئے، بعض نے پندرہ - امام اعظم ابوحنیفہ کے مذہب میں لڑکا اور لڑکی پندرہ سال کی عمر پر شرعاً بالغ قرار ہیں

اگر سنت  محمد رسول اللهﷺ الرسول اللہ ﷺ میں کسی زوجہ کی عمر نو سال ہوتی تو پھر اس سنت پر تواتر سےعمل بھی ہوتا۔ مگر نہ عمل صحابہ سے یہ سنت ثابت ہے نہ ہی اس کے قائل اپنی بیٹیوں پر لاگو کرتے ہیں۔

جو بات قرآن، سنت، مستند احادیث، عقل و فہم سے ثابت نہیں وہ متروک، مسترد ہے، اس پر اصرار، ملحدین وکفار کو رسول اللہ ﷺ پر بہتان تراشی میں مدد کرنا ہے جو گناہ کبیرہ فتنہ و فساد ہے۔ کتب احادیث کو رسول اللہ ﷺ کے احکام کی روشنی میں خرافات سے پاک کرنا ضروری ہے[18]۔

تمام لوگ ہندو، مسلم، یہود و نصاری، ملحدین جو اس گستاخ رسول اللہ ﷺ مہم میں کسی طریقہ سے بھی شامل ہیں ملعون جہنمی ہیں۔

https://bit.ly/AyeshaMyth

مسلہ:  بعض اعمال جو قطعاً مُنافیٔ ایمان ہوں اُن کے مرتکب کو کافر کہا جائے گا، جیسے بُت یا چاند سورج کو سجدہ کرنا اور قتلِ نبی یا نبی کی توہین یا مصحَف شریف یا کعبۂ معظمہ کی توہین اور کسی سنّت کو ہلکا بتانا، یہ باتیں یقینا کُفر ہیں[19]

اہل سنت سن بلوغت

شافعی اور حنبلی مسلک میں لڑکے اور لڑکی دونوں کے بلوغ کا زمانہ پندرہ سال کا مکمل ہونا قرار دیا گیا ہے۔ مالکی مسلک میں سترہ یا اٹھارہ سال قرار دیا گیا ہے۔ اگرچہ امام مالک کے بارے میں یہ بھی نقل کیا گیا ہے کہ وہ بنیادی طور پر بعض علماء کی طرح عمر کو بلوغ کی علامت نہیں سمجھتے تھے۔ امام ابو حنیفہ کے نزدیک لڑکی سترہ سال میں بالغ ہوتی ہے اور لڑکا سترہ یا اٹھارہ سال میں، لیکن امام ابو حنیفہ کے پیرو تمام علماء لڑکے اور لڑکی دونوں کو پندرہ سال مکمل ہونے پر بالغ سمجھتے ہیں[20]

لڑکی کی بلوغت کی کم سے کم عمر نو سال ہے، یعنی نو سال سے پہلے کوئی بھی علامت معتبر نہیں ہوگی، نو سال پورے ہونے کے بعد جب بھی بلوغت کی کوئی علامت مثلاً: حیض آنا، احتلام ہونا، یا استقرار حمل ہونا، ان میں سے کوئی ایک علامت لڑکی میں ظاہر ہوجائے، تو وہ بالغ سمجھی جائے گی اور اس پر بلوغت کے احکام لاگو ہوں گے، یعنی نماز، روزہ اس پر فرض ہو جائیں گے۔ نیز اگر مذکورہ بالا علامات بلوغت میں سے کوئی بھی ظاہر نہ ہو، تو پندرہ سال کی عمر ہونے پر بہر صورت وہ لڑکی شرعاً بالغ سمجھی جائے گی۔[21]

ہشام بن عروہ

ہشام ابن عروہ ابن زبیر  مشہور تابعی ہیں، بڑے محدث، علما سے ہیں۔ آپ  61ھ مدینہ میں پیدا ہوئے، بغداد میں  146ھ میں 85  سال کی عمر میں وفات پائی  (680-763ء) ۔امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150ھ/699 -767ء)  اورامام مالک بن انس (93-179ھ/ 712-795ء) آپ کے ہم عصر تھے- ہشام ابن عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ (وفات 58ھ مطابق 678ء ) سے نہیں ملےنہ ہی رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے شادی کے چشم دید گواہ ہیں -  

ھشام بن عروہ کی زندگی کے دو دورہیں ایک عراق جانے سے قبل اوردوسرا عراق جانے کے بعدکا ہے ، ان کی عراق جانے سے قبل کی مروی احادیث مقبول ہیں اورعراق جانے کے بعد کی روایات یاداشت میں کمزوری اور فتنہ سبائیت کی سازش کے زیر اثر ہیں-

حضرت عائشہ ؓ کی روایت کے اکثرراوی عراقی اورکوفی ہیں اور دوسرے بھی ان سے متاثر ہیں- انہیں اورامام مالک ؒنے ہشام بن عروہ پرتنقید کی ہے اورکہاہے کہ ان کی عراقی احادیث مردود ہیں اور اہل مدینہ میں سے کوئی بھی راوی اس حدیث کوروایت نہیں کرتااورہشام پر تنقید والی بات حافظ ذہبیؒ نے بھی لکھی ہے ہم نے اپنی طرف سے نہیں کی -

درحقیقت محدثین کرام نے ہشام بن عروہ کے بارے میں یہ لکھاہے کہ آخری عمر میں ان کا حافظہ ٹھیک نہیں رہاتھا لیکن حافظہ کی یہ خرابی اس درجہ نہیں تھی کہ وہ کسی روایت کے روایوں کوالٹ پلٹ دے یاکسی حدیث کو غلط بیان کردے یعنی ہشام اپنے حافظہ کی خرابی میں انتہاکونہیں پہنچے تھے اس ضمن میں  حافظ ذہبی ؒ لکھتے ہیں کہ :

یعنی’’ہشام بن عروہ کا  بڑھا پے میں حافظہ پہلے سے کم ہو گیا تھا

انکے بارے میں امام ابن القطان ؒ نے کہاکہ وہ مختلط ہوگئے تھے توان کی بات کا کوئی اعتبارنہیں ہے ہاں  ان کے حافظے میں تبدیلی ضرور ہوئی تھی اوران کاحافظہ جوانی والانہیں رہا تھا اس لئے بعض احادیث ان کو بھول گئیں تھیں اوربعض میں ان سے وہم بھی ہوااس سے کیا ہوگیا کیا وہ غلطی سے معصوم تھے ‘‘جب وہ عراق گئے تو وہاں بعض احادیث جاکر بیان کیںان میں سے بعض کووہ اچھی طرح بیان نہیں کرسکے-

امام ابن حجر نے اپنی کتاب تہذیب میں یعقوب بن ابی شیبہ کابیان نقل کیاہے کہ:

 "ہشام کی عراقی روایات کو اہل مدینہ نے برا تصورکیاہے ،مدینہ میں رہتے ہوئے ہشام صرف وہی روایات بیان کرتے جوانھوں نے اپنے والد سے سنی تھیں لیکن عراق جانے کے بعد اپنے والدسے منسوب کرکے وہ روایات بھی مرسلاً بیان کرناشروع کردیںجو انھوں نے دوسروں سے سنی تھیں"

لہذا ہشام کی وہ روایات جو اہل عراق ان سے بیان کرتے ہیں ان کاکوئی بھروسہ نہیں ہے

تہذیب میں یحیٰ بن سعید ؒ کاقول مذکورہے کہ:

"میں نے امام مالک ؒکو خواب میں دیکھا اورہشام کی روایات کے بارے میں دریافت کیا تو انھوں نے فرمایاکہ جب وہ ہمارے پاس مدینہ میں تھا تواسکی روایات وہی ہیں یعنی درست ہیں اورجب وہ عراق گیاتو اسکی روایات درست نہیں"

ابن حجرؒ نے تہذیب میں یعقوب بن ابی شیبہ ؒ کا یہ قول نقل کیاہے کہ:

’’یعقوب بن ابی شیبہ ؒ نے کہا کہ ہشام بن عروہ ثقہ ہے اورحدیث و محدثین کاامام ہے اس پراس کی کسی حدیث کی وجہ سے اعتراض نہیں کیا گیا مگر جب وہ عراق گیا تووہاں اس نے اپنے والد کی حدیثیں کھل کربیان کرنا شروع کردیں تواسکے شہر والوں نے اس پرانکاریعنی اعتراض کیا کہ اس نے اپنے والد کی سنی اوران سنی روایات کو’’عن‘‘ سے بیان کرناشروع کردیاہے جبکہ چاہیے یہ تھاکہ اپنے والد کی جو روایات اس نے بالواسطہ سنی ہیں ان کوبالواسطہ ہی بیان کرتامگرایسی روایات کوبھی اس نے بلاواسطہ بیان کیا‘‘

 ہشام کے ذہن پر یہ نو(۹) سال کچھ اس طرح بھوت بن کرسوارہوگئے تھے کہ انھوں نے اپنی بیوی کوبھی شادی کے وقت نوسال بنا ڈالا جبکہ امام ذہبی ؒ اس واقعہ کواس طرح بیان کرتے ہیں کہ فاطمہ بنت المنذر اپنے خاوند ہشام سے تقریباً تیرہ (۱۳)سال بڑی تھیں اورجب فاطمہ کی رخصتی عمل میں آئی توان کی عمرانتیس(۲۹) سال تھی یعنی ہشام نے صرف اتنی کرامت کی کہ انتیس میں سے دہائی گراکر نو(۹) رہنے دیا

ان کی سندات جمع کرنے کے بعد ایک نئے عقدہ کا انکشاف ہوتاہے کہ کچھ راوی تواسے حضرت عائشہؓ کا قول قرار دیتے ہیں اورکچھ اسے حضرت عروہ کا قول بتاتے ہیں-

چونکہ بی بی عائشہؓ کی حدیث شان نبوی کے خلاف ہے اس لئے وہ ضعیف و غیر مقبول ہے- حافظ سخاوی کے قواعد سے اتفاق ہے

یہ دعوی کرنا کہ  کہ صحیح بخاری و مسلم میں باتفاق علماء و محدثین و بااجماع امت مسلمہ ایسی کوئی حدیث نہیں جو رسول اﷲ ﷺ کی شان کے خلاف ہو لا یعنی ہے - مذکورہ حدیث رسول اﷲ ﷺ کی شان کے خلاف ہے اور بخاری میں موجود ہے-

ہشام والی روایت کویہ کہہ کررد کیا کہ اس کے راوی صرف کوفی ہیں اورتمام راویوں نے یہ روایت ہشام سے لی ہے نیزہشام بن عروہ کے علاوہ کوئی دوسراراوی اس حدیث کوبیان نہیں کرتا اورہشام بن عروہ کا حافظہ عراق جانے کے بعد خراب ہوگیاتھا اسلئے یہ روایت قابل قبول نہیں ہے - ایک ہی قول الگ الگ راویوں کے ذریعہ بیان کرنے سے کچھ فرق نہیں پڑتا-

 ہشام بن عروہ امام مالک ؒکے استادوں میں تھے اسکے باوجود امام مالک نے اپنے استاد کے قول ’’عمر عائشہؓ ‘‘‘ کواپنی کتاب میں جگہ دینا مناسب ہی نہیں سمجھا اس کی وجہ کیایہ نہیں کہ اس قول کی صحت کاامام مالکؒ کو یقین نہیں تھا

(واللہ اعلم بالصواب )

https://forum.mohaddis.com/threads/7117/ 

توہین رسالت کی جڑ

ہشام بن عروہ راوی البخاری حدیث  5134

آج کل تمام دنیآ کے مسلمان انڈیا میں گستاخ رسول پر غم و غصہ و احتجاج کر رہے ہیں۔ مگر اس گستاخی،  توہین کی جڑیں مسلمانوں کی اپنی کتب آحادیث میں موجود ہیں جن کو بارہ سو سال سے کسی نے  چیک کرکہ منسوخ نہ کیا- کتب حدیث وحی نہیں، نہ ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم یا صحابہ سے سند یافتہ۔ ان میں جہاں اقوال  رسول اللہ ﷺ کے ہیرے اور موتی ہیں مگر ان کے ساتھ نوکیلے سنگریزے بھی شامل پیں جو زخمی کر رہے ہیں۔

ایک کنکر ہشام بن عروہ راوی البخاری حدیث  5134 ہے۔

ہشام ابن عروہ ابن زبیر  مشہور تابعی ہیں، بڑے محدث، علما سے ہیں۔ آپ  61ھ مدینہ میں پیدا ہوئے، بغداد میں  146ھ میں 85  سال کی عمر میں وفات پائی  (680-763ء) ۔امام ابوحنیفہ نعمان بن ثابت (80-150ھ/699 -767ء)  اورامام مالک بن انس (93-179ھ/ 712-795ء) آپ کے ہم عصر تھے- ہشام ابن عروہ حضرت عائشہ رضی اللہ (وفات 58ھ مطابق 678ء ) سے نہیں ملے-  

ھشام بن عروہ کی زندگی کے دو دورہیں ایک عراق جانے سے قبل اوردوسرا عراق جانے کے بعد کا ہے ، ان کی عراق جانے سے قبل کی مروی احادیث مقبول ہیں اورعراق جانے کے بعد کی روایات یاداشت میں کمزوری اور فتنہ سبائیت کی سازش کے زیر اثر ہیں-

یہ دعوی کرنا کہ  کہ صحیح بخاری و مسلم میں باتفاق علماء و محدثین و بااجماع امت مسلمہ ایسی کوئی حدیث نہیں جو رسول اﷲ ﷺ کی شان کے خلاف ہو درست نہیں- مذکورہ حدیث  (البخاری 5134) رسول اﷲ ﷺ کی شان کے خلاف ہے  ، ان کو توہین ہے-

ہشام بن عروہ امام مالک ؒکے استادوں میں تھے اسکے باوجود امام مالک نے اپنے استاد کے مذکورہ  قول کواپنی کتاب میں جگہ دینا مناسب نہیں سمجھا اس کی وجہ کیایہ نہیں کہ اس قول کی صحت کاامام مالکؒ کو یقین نہیں تھا؟

راوی ہشام بن عروہ  کی آخری عمر میں حافظہ کمزوری اتنی اہم ہے کہ ایک ایسی روایت جو  رسول اﷲ ﷺ کی شان میں گستاخی ، بہتان اور توہین کے لیے استعمال ہوتی ہے اس کو کوئی عقلمند مسلمان کیسے قبول کر سکتا ہے؟ توہین  رسول اللہ ﷺ کفر ہے اور اس کی سزا بھی بہت عبرتناک ہے-

 البخاری حدیث  5134 : مسترد، منسوخ کی وجوہات  کا خلاصہ:

1.اس حدیث کا قرآن 4:6 سے متصادم ہونا [  آیت  قرآن کا انکار کفر ہے]

2.  رسول الله کی شان کے خلاف ہونا [ گستاخ رسول سلمان رشدی  کی سزا موت ہے]

3. احد حدیث ہونا ، متواتر نہ ہونا [ احد حدیث کی قبولیت شرعی طور پرلازم نہیں لیکن متواتر حدیث کا انکار کفر ہے]

4. سنت کے خلاف ہونا ، سنت صحابہ سے ثبوت نہ ہونا [قرآن کے بعد سنت ثابتہ مصدراسلام ہے حدیث نہیں]

5. مروجہ تہذیب ، اخلاق ، طبی طور پربھی درست نہ ہونا

6.  ائمہ  فقہ اربعہ اور امام ابو حنیفہ کا اس حدیث کوقبول نہ کرنا؛ قرآن ، سنت و احادیث کے مطابق  شادی کی عمر پندرہ سال مقرر کرنا - جبکہ وہ اور امام ملک ہشام بن عروہ  کے ہم عصر بھی تھے  امام ملک  تو  ہشام بن عروہ کے شاگرد بھی تھے-

7. علمی ، تاریخی حقائق سے  غلط ثابت

 ( https://bit.ly/AyeshaMyth )

https://quran1book.blogspot.com/2022/06/AyeshaMyth.html

نفس انسانی میں نیکی اور بدی کاعلم الہام

فَاَلۡهَمَهَا فُجُوۡرَهَا وَتَقۡوٰٮهَا ۞ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَكّٰٮهَا ۞ وَقَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰٮهَا ۞

ترجمہ:

پس اس کے اندر نیکی اور بدی کا علم الہام کردیا۔ ۞ یقینا کامیاب ہوگیا جس نے اس (نفس) کو پاک کرلیا۔ ۞ اور ناکام ہوگیا جس نے اسے مٹی میں دفن کردیا۔ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 91 الشمس, آیت نمبر 8-10 )

تفسیر:

الہام کا لفظ اصلاحاً اللہ تعالیٰ کی طرف سے کسی تصور یا کس خیال کو غیر شعوری طور پر بندے کے دل و دماغ میں اتار دینے کے لیے استعمال ہوتا ہے۔

نفس انسانی پر اس کی بدی اور اس کی نیکی و پرہیزگاری الہام کردینے کے دو مطلب ہیں۔

1 ایک یہ کہ اس کے اندر خالق نے نیکی اور بدی دونوں کے رجحانات و میلات رکھ دیے ہیں، اور یہ وہ چیز ہے جس کو ہر شخص اپنے اندر محسوس کرتا ہے۔

2. دوسرا مطلب یہ ہے کہ ہر انسان کے لاشعور میں اللہ تعالیٰ نے یہ تصورات ودیعت کردیے ہیں کہ اخلاق میں کوئی چیز بھلائی ہے اور کوئی چیز برائی، اچھے اخلاق و اعمال اور برے اخلاق و اعمال یکساں نہیں ہیں، فجور (بد کرداری) ایک قبیح چیز ہے اور تقویٰ (برائیوں سے اجتناب) ایک اچھی چیز۔

یہ تصورات انسان کے لیے اجنبی نہیں ہیں بلکہ اس کی فطرت ان سے آشنا ہے اور خالق نے برے اور بھلے کی تمیز پیدائشی طور پر اس کو عطا کردی ہے۔ یہی بات سورة بلد میں فرمائی گئی ہے کہ

" وَهَدَيْنَاهُ النَّجْدَيْنِ " " اور ہم نے اس کو خیر و شر کے دونوں نمایاں راستے دکھا دیے " (آیت 10)۔

اسی کو سورة دھر میں یوں بیان کیا گیا ہے

" إِنَّا هَدَيْنَاهُ السَّبِيلَ إِمَّا شَاكِرًا وَإِمَّا كَفُورًا "

" ہم نے اس کو راستہ دکھایا خواہ شاکر بن کر رہے یا کافر " (آیت 3)۔

اور اسی بات کو سورة قیامہ میں اس طرح بیان کیا گیا ہے کہ

"انسان کے اندر ایک نفس لوامہ (ضمیر) موجود ہے جو برائی کرنے پر اسے ملامت کرتا ہے (آیت 2) اور ہر انسان خواہ کتنی ہی معذرتیں پیش کرے مگر وہ اپنے آپ کو خوب جانتا ہے کہ وہ کیا ہے (آیات 14۔ 15)۔

اس جگہ یہ بات بھی اچھی طرح سمجھ لینی چاہیے کہ فطری الہام اللہ تعالیٰ نے ہر مخلوق پر اس کی حیثیت اور نوعیت کے لحاظ سے کیا ہے، جیسا کہ سورة طٰہٰ میں ارشاد ہوا ہے کہ

" الَّذِي أَعْطَىٰ كُلَّ شَيْءٍ خَلْقَهُ ثُمَّ هَدَىٰ "

" جس نے ہر چیز کو اس کی ساخت عطا کی پھر راہ دکھائی "۔ (آیت 50)

مثلاً حیوانات کی ہر نوع کو اس کی ضروریات کے مطابق الہامی علم دیا گیا ہے جس کی بنا پر مچھلی کو آپ سے آپ تیرنا، پرندے کو اڑنا، شہد کی مکھی کو چھتہ بنانا اور بئے کو گھونسلا تیار کرنا آجاتا ہے۔

انسان کو بھی اس کی مختلف حیثیتوں کے لحاظ سے الگ الگ قسم کے الہامی علوم دیے گئے ہیں۔ انسان کی ایک حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک حیوانی وجود ہے اور اس حیثیت سے جو الہامی علم اس کو دیا گیا ہے اس کی ایک نمایاں ترین مثال بچے کا پیدا ہوتے ہی ماں کا دودھ چوسنا ہے جس کی تعلیم اگر خدا نے فطری طور پر اسے نہ دی ہوتی تو کوئی اسے یہ فن نہ سکھا سکتا تھا۔

اس کی دوسری حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک عقلی وجود ہے۔

 اس حیثیت سے خدا نے انسان کی آفرینش کے آغاز سے مسلسل اس کو الہامی رہنمائی دی ہے جس کی بدولت وہ پے در پے اکتشافات اور ایجادات کر کے تمدن میں ترقی کرتا رہا ہے۔ ان ایجادات و اکتشافات کی تاریخ کا جو شخص بھی مطالعہ کرے گا وہ محسوس کرے گا کہ ان میں سے شاید ہی کوئی ایسی جو محض انسانی فکر و کاوش کا نتیجہ ہو، ورنہ ہر ایک کی ابتدا اسی طرح ہوئی ہے کہ یکایک کسی شخص کے ذہن میں ایک بات آگئی اور اس کی بدولت اس نے کسی چیز کا اکتشاف کیا یا کوئی چیز ایجاد کرلی۔

ان دونوں حیثیتوں کے علاوہ انسان کی ایک اور حیثیت یہ ہے کہ وہ ایک اخلاقی وجود ہے، اور اس حیثیت سے بھی اللہ تعالیٰ نے اسے خیر و شر کا امتیاز، اور خیر کے خیر اور شر کے شر ہونے کا احساس الہامی طور پر عطا کیا ہے۔ یہ امتیاز و احساس ایک عالمگیر حقیقت ہے جس کی بنا پر دنیا میں کبھی کوئی انسانی معاشرہ خیر و شر کے تصورات سے خالی نہیں رہا ہے، اور کوئی ایسا معاشرہ تاریخ میں کبھی پایا گیا ہے نہ اب پایا جاتا ہے جس کے نظام میں بھلائی اور برائی پر جزا اور سزا کی کوئی نہ کوئی صورت اختیار نہ کی گئی ہو۔

اس چیز کا ہر زمانے ہر جگہ اور ہر مرحلہ تہذیب و تمدن میں پایا جانا اس کے فطری ہونے کا صریح ثبوت ہے اور مزید براں یہ اس بات کا ثبوت بھی ہے کہ ایک خالق حکیم و دانا نے اسے انسان کی فطرت میں ودیعت کیا ہے، کیونکہ جن اجزاء سے انسان مرکب ہے اور جن قوانین کے تحت دنیا کا مادی نظام چل رہا ہے ان کے اندر کہیں اخلاق کے ماخذ کی نشاندی نہیں کی جاسکتی۔

(تفہیم القرآن, مفسر: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

اس وقت قوم انتشار کا شکار ہے ۔۔۔۔۔

موجودہ سیاسی حالات میں قرآن سے راہنمائی

1۔ رشوت ستانی میں ملوث نہ ہوں (2:188)

2۔ایک دوسرے کے مال کو ناجائز استعمال نہ کریں (4:29)

3۔ وعدہ  کی خلاف ورزی نہ کریں (2:177)

4۔ کسی کے اعتماد ، بھروسہ کو ٹھیس مت پہنچاؤ (2:283)

5۔حکمرانوں کو ان کی اہلیت کے مطابق منتخب کریں (4:58. 2:247)

6۔بد دیانت لوگوں کی حمایت نہ  کریں (4:105)

7۔گناه اور ﻇلم و زیادتی میں مدد نہ کرو (5:2)

8۔نیکی اور پرہیزگاری میں تعاون کریں(5:2)

9۔حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ (2:42)

10۔زمین پر زیادتی نہ کرو (2:60)

11۔میرٹ ، لوگوں کے مابین انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں (4:58)

12۔ انصاف کے لئے مضبوطی سے کھڑے ہو جاؤ (4:135)

13۔انصاف کرو (5:8)

14۔جرائم کی سزا  مثالی انداز میں (5:38)

15۔ گناہ اور ناجائز کاموں کے خلاف جدوجہد کریں (5:63)

16۔لغویات سے دور رہو (23:3)

17۔اچھے کاموں کی نصیحت، برے کاموں سے منع کرو (31:17)

18۔مشاورت سے معاملات کا فیصلہ کریں (42:38)

19۔سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے(49:13)

20۔نفس کی حرص سے اپنے آپ کو بچائیں (64:16)

22۔ کفار کو ولی نہ بناو ( 3:28) [یرونی سازش\ مداخلت]

قرآن کے احکام

23۔اللہ کی حاکمیت (3:189)

24۔الله کا  قانون  (5:44,45,46,47)

25۔دوسرے نظاموں کی نفی (25:43, 45:24)

تمام مسلمان اسلام کے  نفاز کا حکومت سے مطالبہ کرتے ہیں کیونکہ ، اللہ کا حکم ہے:

جو اللہ کے قانون کے مطابق

اور جو شخص اس قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتا جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہ؛

 کافر(5:44)

ظالم (5:45 ).

فاسق (5:47 ) ہے

(قرآن: 5:44،45،47)

اب ایک فیصلہ کا اختیار اللہ  نے آپ کے ہاتھ میں دیا ہے کہ آپ موجودہ حالات میں کس کے ساتھ کھڑے ہوں؟

اس کے ساتھ  جو دو گروپوں کے تقابل میں  اللہ کے احکام کے قریب ہو یا اللہ کے احکام سے دور ہے؟

ہارس ٹریڈنگ ، فلور کراسنگ ، حکمرانوں پر بددیانتی کے الزامات ، مقدمات ، ناقابل تردید بنک ٹرانزیکشن ریکاڈ، فرد جرم تیار، تفتیشی افسر ہلاک، ایک سزا یافتہ بددیانت، عدالتی بھگوڑا مجرم (ملزم نہیں مجرم)  بیرون ملک سے حکومت کنٹرول  کر رہا ہو، امریک کی دھمکی اور اس سے تعاون ، مدد گار، ایک دینتدار، کرپشن سے پاک، کوئی بزنس نہئں نہ ہی باہر اثاثہ جات،  مگر بیڈ گورنس لیکن بہتری کے لئیے پر عظم ، حکومت ، خزانہ کے باوجود ہارس ٹریڈنگ سے انکار حکومت کا خاتمہ ۔۔۔  

جس سیاسی پارٹی یا سیاستدان کی آپ حمائیت کرتے ہیں ، اپ اس کے لیڈر کی قومی  اجتماعی قومی نیکی یا قومی اجتماعی بدی میں حصہ دار بن جاتے ہیں:  

مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْھَا وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْھَا وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّقِیْتًا.[سورۃ النساء (آیت ۸۵)]

’’جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا اور جو بُری بات کی سفارش کرے،اس کو اس (کے عذاب) میں سے حصہ ملے گا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘ (قرآن 4:85)

اللہ اس امتحان میں آپ کو تقابل میں حق ، سچ کا ساتھ دینے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین

Response to Vilification by Indian BJP Spokesperson against Respected Hazrat Ayesha رضی اللہ The  Mother of Believers

https://islamphobia.wordpress.com/2012/11/01/was-ayesha-ra-9-year-old-bride/

SUMMARY

It was neither an Arab tradition to give away girls in marriage at an age as young as seven or nine years, nor did the Prophet marry Ayesha at such a young age. The people of Arabia did not object to this marriage because it never happened in the manner it has been narrated.

Obviously, the narrative of the marriage of nine-year-old Ayesha by Hisham ibn `Urwah cannot be held true when it is contradicted by many other reported narratives. Moreover, there is absolutely no reason to accept the narrative of Hisham ibn `Urwah as true when other scholars, including Malik ibn Anas, view his narrative while in Iraq, as unreliable. The quotations from Tabari, Bukhari and Muslim show they contradict each other regarding Ayesha’s age. Furthermore, many of these scholars contradict themselves in their own records. Thus, the narrative of Ayesha’s age at the time of the marriage is not reliable due to the clear contradictions seen in the works of classical scholars of Islam.

Therefore, there is absolutely no reason to believe that the information on Ayesha’s age is accepted as true when there are adequate grounds to reject it as myth. Moreover, the Quran rejects the marriage of immature girls and boys as well as entrusting them with responsibilities.

Read full 》》》》》》

حضرت عائشہ (رضی الله) نبی ﷺ کی 9 سالہ دلہن کا افسانہ بے نقاب

خرافات کا پردہ فاش:

حضرت عائشہ (رضی الله )  رسول اللہ ﷺ  کی نو سالہ دلہن کی داستان

Pedophilia (paedophilia) is a psychiatric disorder in which an adult or older adolescent experiences a primary or exclusive sexual attraction to prepubescent children. Although girls typically begin the process of puberty at age 10 or 11, and boys at age 11 or 12, criteria for pedophilia extend the cut-off point for prepubescence to age 13. A person must be at least 16 years old, and at least five years older than the prepubescent child, for the attraction to be diagnosed as pedophilia. Pedophilia is termed pedophilic disorder, defined as a paraphilia involving intense and recurrent sexual urges towards and fantasies about prepubescent children that have either been acted upon or which cause the person with the attraction distress or interpersonal difficulty. The International Classification of Diseases (ICD-11) defines it as a "sustained, focused, and intense pattern of sexual arousal—as manifested by persistent sexual thoughts, fantasies, urges, or behaviours—involving pre-pubertal children.” The Islamophobes propaganda is automatically proved to be false because there not such pattern or behavior found.

Tweet

Mohammed Zubair  @zoo_bear

https://twitter.com/zoo_bear/status/1530066557191131142

<blockquote class="twitter-tweet"><p lang="en" dir="ltr">Prime Time debates in India have become a platform to encourage hate mongers to speak ill about other religions. <a href="https://twitter.com/TimesNow?ref_src=twsrc%5Etfw">@TimesNow</a>&#39;s Anchor <a href="https://twitter.com/navikakumar?ref_src=twsrc%5Etfw">@navikakumar</a> is encouraging a rabid communal hatemonger &amp; a BJP Spokesperson to speak rubbish which can incite riots. <br>Shame on you <a href="https://twitter.com/vineetjaintimes?ref_src=twsrc%5Etfw">@vineetjaintimes</a> <a href="https://t.co/lrUlkHEJp5">pic.twitter.com/lrUlkHEJp5</a></p>&mdash; Mohammed Zubair (@zoo_bear) <a href="https://twitter.com/zoo_bear/status/1530066557191131142?ref_src=twsrc%5Etfw">May 27, 2022</a></blockquote> <script async src="https://platform.twitter.com/widgets.js" charset="utf-8"></script>


مَن كَانَ يُرِيدُ الْعِزَّةَ فَلِلَّهِ الْعِزَّةُ جَمِيعًا ۚ إِلَيْهِ يَصْعَدُ الْكَلِمُ الطَّيِّبُ وَالْعَمَلُ الصَّالِحُ يَرْفَعُهُ ۚ وَالَّذِينَ يَمْكُرُونَ السَّيِّئَاتِ لَهُمْ عَذَابٌ شَدِيدٌ ۖ وَمَكْرُ أُولَٰئِكَ هُوَ يَبُورُ ‎﴿١٠﴾‏

جوشخص عزت کا طلبگار ہے توتمام تر عزت اللہ ہی کے لئے ہے-  پاکیزہ کلمات اسی کی طرف پہنچتے ہیں اور نیک عمل انہیں بلندی کی طرف لے جاتا ہے جو لوگ بری بری تدبیریں کرتے ہیں ان کے لئے سخت عذاب ہے، اوران  ان کا یہ مکر نیست ونابود ہوجائے گا (قرآن: 35:10)[22]

Chapter: The marrying of a daughter by her father to a ruler(39)

باب تَزْوِيجِ الأَبِ ابْنَتَهُ مِنَ الإِمَامِ

حَدَّثَنَا مُعَلَّى بْنُ أَسَدٍ، حَدَّثَنَا وُهَيْبٌ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ، عَنْ أَبِيهِ، عَنْ عَائِشَةَ، أَنَّ النَّبِيَّ صلى الله عليه وسلم تَزَوَّجَهَا وَهْىَ بِنْتُ سِتِّ سِنِينَ، وَبَنَى بِهَا وَهْىَ بِنْتُ تِسْعِ سِنِينَ‏.‏ قَالَ هِشَامٌ وَأُنْبِئْتُ أَنَّهَا كَانَتْ عِنْدَهُ تِسْعَ سِنِينَ‏.‏

(صحیح البخاری حدیث ٥١٣٤)

ترجمہ : ہم سے معلی بن اسد نے بیان کیا ، کہا ہم سے وہب نے بیان کیا ، ان سے ہشام بن عروہ نے ، ان سے ان کے والد نے اور ان سے حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال تھی اور جب ان سے صحبت کی تو ان کی عمر نو سال تھی ۔ ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نو سال تک رہیں ۔

(صحیح البخاری حدیث 5134)

[23]

Narrated `Aisha: that the Prophet (ﷺ) married her when she was six years old and he consummated his marriage when she was nine years old. Hisham said: I have been informed that `Aisha remained with the Prophet (ﷺ) for nine years (i.e. till his death). [Sahih al-Bukhari 5134][24]

This Hadith is doubtful/ against Quran 4:6, also contradicted by many other Hadiths, hence rejected/ not considered by jurists and scholars. Imam Abu Hanifah fixed the minimum marriageable age for boy and girls a 15 years. [others saying 17-18, see details <here>] Thus quoting this unreliable/ doubtful/ abrogated Hadiths is blasphemy, derogatory, taken as offensive by Muslims. Its high time that the Muslim scholars wakeup and publicly denounce / abrogation of this Hadith.

http://www.equranlibrary.com/tafseer/maarifulquranenglish/4/6 

The Malicious Campaign against Prophet Muhammad(ﷺ)  (peace and mercy be upon him)  must End Now

The Noble Qur'an, describes the marriageable age in Surah 4, verse 6, accordingly after considering relevant Hadiths literature and practices, the Islamic jurists and scholars have set 18 years, the marriageable  age for a boy  and 17 for the girls. If the age of a wife of the Prophet (peace and mercy be upon him)  was nine years, as falsely mentioned in a doubtful Al-Bukhari Hadith, then this practice (Sunnah) would have been followed by Muslims being a sacred obligation. But this is not the case, such a practice has not been proven by the acts of Sahaba (Companions) or Muslims during 1400 years.

Hence the practice not proven by the Qur'an, Sunnah, reliable Hadiths, intellect and understanding is false, fake, obsolete, rejected. It is necessary for the Muslim scholars to purify the books of Hadith from reprehensible material in the light of the commands of the Quran and the Holy Prophet ﷺ .

All the Hindus, Muslims, Jews, Christians and the unbelievers involved in such a disrespectful campaign against Prophet Muhammad(ﷺ) , the Messenger of God in any way, are accursed, destained to suffer in hell.

https://bit.ly/AyeshaMyth

بَلَغُوا النِّکَاحَ- قرآن

قرآن کے مطابق بلاغت ، جوانی ، نکاح کی عمر

وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ‎﴿٥﴾‏ وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا ‎﴿٦﴾‏

Do not entrust (their) property God has given you to maintain (On trust), to those who are immature; but feed them and clothe them from it, and speak to them with kindness. (Quran 4:5)[25]

And test the orphans [in their abilities] until they reach marriageable age [ بَلَغُوا النِّکَاحَ]. Then if you perceive in them sound judgment, release their property to them...(Quran 4:6)[26]

اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے سبب معیشت بنایا ہے، نادان ( نا بالغ ) لوگوں کے حوالہ نہ کرو ، البتہ انہیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو-(Quran 4:5)[27] 

اور یتیموں کی پرورش  ان کے [بَلَغُوا النِّکَاحَ] بالغ ہونے تک کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو(قرآن 4:6)[28]

قرآن کے مطابق بلاغت ، جوانی ، نکاح کی عمر

1.احتلام :

الله تعالی کا فرمان ہے کہ یتیموں کیر یتیموں کی پرورش  ان کے بالغ ہونے تک کرتے رہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائیں [بَلَغُوا النِّکَاحَ] یہاں نکاح سے مراد بلوغت ہے اور بلوغت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب اسے خاص قسم کے خواب آنے لگیں جن میں خاص پانی اچھل کر نکلتا ہے ، حضرت علی فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بخوبی یاد ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں اور نہ تمام دن رات چپ رہتا ہے ۔“ [ أبو داوٗد، الوصایا، باب ما جاء متی ینقطع الیتم : ٢٨٧٣ ]  

دوسری حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے . بچے سے جب تک بالغ نہ ہو ، سوتے سے جب جاگ نہ جائے ، مجنوں سے جب تک ہوش نہ آ جائے ، پس ایک تو علامت بلوغ یہ ہے

2.زیر ناف کے بال:

تیسری علامت بلوغت کی زیر ناف کے بالوں کا نکلنا ہے ، کیونکہ اولاً تو جبلی امر ہے علاج معالجہ کا احتمال بہت دور کا احتمال ہے ٹھیک یہی ہے کہ یہ بال اپنے وقت پر ہی نکلتے ہیں ، دوسری دلیل مسند احمد کی حدیث ہے ، جس میں حضرت عطیہ قرضی کا بیان ہے کہ بنو قریظہ کی لڑائی کے بعد ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے حکم دیا کہ ایک شخص دیکھے جس کے یہ بال نکل آئے ہوں اسے قتل کر دیا جائے اور نہ نکلے ہوں اسے چھوڑ دیا جائے چنانچہ یہ بال میرے بھی نہ نکلے تھے مجھے چھوڑ دیا گیا[ أبو داوٗد، الحدود، باب فی الغلام یصیب الحد : ٤٤٠٤ ] سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں ، حضرت سعد کے فیصلے پر راضی ہو کر یہ قبیلہ لڑائی سے باز آیا تھا پھر حضرت سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان میں سے لڑنے والے تو قتل کر دئیے جائیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں غرائب ابی عبید میں ہے کہ ایک لڑکے نے ایک نوجوان لڑکی کی نسبت کہا کہ میں نے اس سے بدکاری کی ہے دراصل یہ تہمت تھی حضرت عمر نے اسے تہمت کی حد لگانی چاہی لیکن فرمایا دیکھ لو اگر اس کے زیر ناف کے بال اگ آئے ہوں تو اس پر حد جاری کر دو ورنہ نہیں دیکھا تو آگے نہ تھے چنانچہ اس پر سے حد ہٹا دی ۔ پھر فرماتا ہے جب تم دیکھو کہ یہ اپنے دین کی صلاحیت اور مال کی حفاظت کے لائق ہو گئے ہیں تو ان کے ولیوں کو چاہئے کہ ان کے مال انہیں دے دیں ۔

مولانا عبدالرحمن کیلانی کے مطابق بلوغت کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں۔ گرم ممالک میں لڑکے لڑکیاں جلد بالغ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ سرد ممالک میں دیر سے ہوتے ہیں۔ البتہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کچھ ایسی علامات ضرور ہیں جو ان کے بالغ ہونے کا پتہ دیتی ہیں مثلاً لڑکوں کو احتلام ہونا اور عورتوں کو حیض آنا۔ اور چھاتیوں کا ابھر آنا خاص علامات ہیں۔ پھر کچھ علامات ایسی بھی ہیں جو ان دونوں نوعوں میں یکساں پائی جاتی ہیں۔ جیسے عقل داڑھ کا اگنا۔ آواز کا نسبتاً بھاری ہونا جسے گھنڈی پھوٹنا بھی کہتے ہیں اور بغلوں کے نیچے اور زیر ناف بال اگنا اور صرف مردوں کے لیے داڑھی اور مونچھ کے بال اگنا ہے اور ان سب میں سے پکی علامتیں وہی ہیں جو پہلے مذکور ہوئیں یعنی لڑکوں کو احتلام اور عورتوں کو حیض آنا-[29]

3. پندرہ سال کی عمر بلاغت  

ایک علامت بلوغ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ پندرہ سال کی عمر ہو جائے اس کی دلیل بخاری مسلم کی حضرت ابن عمر والی حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ احد والی لڑائی میں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ اس لئے نہیں لیا تھا کہ اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی اور خندق کی لڑائی میں جب میں حاضر کیا گیا تو آپ نے قبول فرما لیا اس وقت میں پندرہ سال کا تھا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو آپ نے فرمایا نابالغ بالغ کی حد یہی ہے “ [ بخاری، الشہادات، باب بلوغ الصبیان۔۔ : ٢٦٦٤ ]

عمر پر فقہا کا اختلاف ہے بعض نے لڑکے کے لئے اٹھارہ سال اور لڑکی کے لئے سترہ سال مقرر کئے ہیں اور بعض نے دونوں کے لئے پندرہ سال قرار دیئے، امام اعظم ابوحنیفہ کے مذہب میں فتوی اس قول پر ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر شرعاً بالغ قرار دیئے جائیں گے، خواہ آثار بلوغ پائے جائیں یا نہیں- (معارف القرآن، مفتی محمد شفیع)

حضرت عائشہ صدیقہؓ نے "بدر" کے حالات پر و واقعات بیان فرمایے ہیں، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس وقت آپ کی عمر پندرہ سال سے زیادہ ہی ہوگی ورنہ ان کوساتھ جانے کی اجازت نہ ملتی- [ملاحضہ صحیح مسلم حدیث نمبر: 4700، مسند احمد حدیث نمبر: 25201، مسند احمد حدیث نمبر: 24055، مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: 3971، جامع ترمذی حدیث نمبر: 1558، سنن کبریٰ للبیہقی ، حدیث نمبر: 13056]

حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے  نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال تھی اور جب ان سے صحبت کی تو ان کی عمر نو سال تھی ۔ ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نو سال تک رہیں - (ماخوز صحیح البخاری حدیث 5134)[30]

جب خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہو گئیں تو خولہ بنت حکیم یعنی عثمان بن مظعون کی اہلیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! آپ شادی نہیں کرو گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کس سے  کروں؟ ) تو انہوں نے کہا آپ چاہیں تو کسی  بکر (کنواری) سے یا کسی بیوہ سے کر لیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کنواری کون ہے؟) اس پر انہوں نے کہا: آپ کے ہاں سب سے عزیز ترین شخصیت  کی بیٹی عائشہ بنت ابو بکر۔۔۔۔” اس کے بعد انہوں نے شادی کی دیگر تفصیلات بھی ذکر کیں، اور اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال رخصتی پر عمر نو سال تھی۔( ماخوز مسند احمد)

کیا کسی زی شعور انسان کا زہن یہ قبول کر سکتا ہے کہ دوسری شادی کے لئیے کنواری (بکر) لڑکی جس کی عمر 6 سال ہو تجویز کی جائیے؟  یہ روایت درست کیسے ہو سکتی ہے؟   اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عائشہ (رض) شادی کی عمر کی کنواری (بکر)  لڑکی تھی نہ کہ 6 سالہ بچی۔ کیا عربی میں 6 سالہ بچی کو "بکر" کہا جاتا ہے؟  عربی میں نو  کو "تسع"  اور انیس کو "تسعة عشر" کہا جاتا ہے ممکن ہے کہیں کسی سے عشر کہنے یا لکھنے میں رہ گیا ہو-

تجزیہ

1۔  رسول اللہ ﷺ خطبہ سے قبل فرماتے:  اما بعد کہ بہترین حدیث  اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیںاور ہر بدعت گمراہی ہے (صحیح مسلم:2005)[31]

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن کا عملی نمونہ تھی وہ قرآن( 4:6) کے خلاف خود کیسے عمل کر سکتے ہیں۔ ایسا کہنا بھی رسول اللہ ﷺ پر بہتان، گستاخی ہے-  نہ ہی معاشرہ نہ ہی قرآن[32] یہ اجازت دیتا ہے کہ سات یا نو سالہ بےشعور بچی سے شادی کی جائے-

2. اگر یہ بات درست ہوتی تو صحابہ اکرام بھی سیرت  رسول اللہ ﷺ  (سنت)  پر عمل کرتے ہوے 9 سالہ بچیوں سے شادی کرتے، ایسا کوئی رواج مسلمانوں میں موجود نہیں - فقہا و علماء  نے بھی اس قسم کی روایات کو قبول نہ کیا اور 15 سے 17 یا 18 سال کی عمر کو نکاح بلوغت کی عمر قرار دیا ، چودہ صدیوں سے اسی پر عمل ہو رہا ہے-

3.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو حدیث  قرآن و سنت[33] اور دل (یعنی عقل سے دور ہو وہ مجھ سے بھی دور ہے)[34]-

3۔ جس طرح یہود و نصاری نے اپنے علماء کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے کہ ان ہر بات مانتے ہیں (قرآن 9:31) اسی طرح علماء اسلام صرف اپنے محدثین (جن کو خداووں کا درجہ دے رکھا ہے ) کی تحریر کردہ کتب احادیث  کو درست ثابت کرنے کے لئیے کتاب اللہ  (قرآن) کو پس پشت دال کر  رسول اللہ ﷺ کے دوسرے احکام کو بھی نظر انداز کرکہ اخلاقی بہتان لگایا جا رہا ہے۔ اس طرح کی احدیث کو کفار 1200 سال سے اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔[35]

5. ضرورت ہے کہ اس قسم کی احدیث کا از سر نو جائزہ کیا جایے اورتحقیق کے بعد مسترد و منسوخ کیا جایے- ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟  علماء کو یہ خدشہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح تمام کتب احادیث کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے (ہو جایے) اور قرآن کی اپنی کلیدی حیثیت بحال ہو جانے سے فرقہ بازی کے کاروبار اور ان لوگوں کی حیثیت بھی مشکوک ٹھرتی ہے این کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے  اصلیت کھل جاتی ہے-

6.ان لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی توہین ، قرآن کے احکام کا انکار کرنا گوارا ہے مگر اپنے خداووں کی انسانی تحریروں کی فرامین  رسول اللہ ﷺ اور قرآن کی روشنی میں درستگی کرنا گوارا نہیں-

7. جو بات قرآن، سنت، مستند احادیث، عقل و فہم سے ثابت نہیں وہ متروک، مسترد ہے، اس پر اصرار، ملحدین وکفار کو رسول اللہ ﷺ پر بہتان تراشی میں مدد کرنا ہے جو گناہ کبیرہ فتنہ و فساد ہے۔ کتب احادیث کو رسول اللہ ﷺ کے احکام کی روشنی میں خرافات سے پاک کرنا ضروری ہے۔

8. تمام لوگ ہندو، مسلم، یہود و نصاری، ملحدین جو اس گستاخ رسول اللہ ﷺ مہم میں کسی طریقہ سے بھی شامل ہیں ملعون جہنمی ہیں۔

رسول اللہ ﷺ   کی رسالت کا مقصد اور گواہی (شہادت)

الله تعالی نے  رسول اللہ ﷺ کو الله تعالی کا پیغام ھدایت دے کر بھیجا،  نبیؐ کو   بشارت دینے والا اور ڈرانے والا اور  شہادت (گواہ) بنا کر بھیجا ہے-  بعض لوگوں نے اس شہادت کو یہ معنی پہنانے کی کوشش کی ہے کہ نبیﷺ آخرت میں لوگوں کے اعمال پر شہادت دیں گے، اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضور ﷺ تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں، ورنہ بےدیکھے شہادت کیسے دے سکیں گے۔

لیکن قرآن مجید کی رو سے یہ تاویل قطعاً غلط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کے لوگوں کے اعمال پر شہادت قائم کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا  انتظام فرمایا ہے "کاتبین" فرشتے اعمال کومسلسل  لکھ رہے ہیں, اور  رسول اللہ ﷺ لوگوں کے ذمہ دار نہیں:

 وَإِنَّ عَلَيْكُمْ لَحَافِظِينَ ‎﴿١٠﴾‏ كِرَامًا كَاتِبِينَ ‎﴿١١﴾‏ يَعْلَمُونَ مَا تَفْعَلُونَ ‎﴿١٢﴾

 حالانکہ تم پر نگہبان مقرر ہیں (10) عالی قدر (تمہاری باتوں کے) لکھنے والے (11) جو تم کرتے ہو وہ اسے جانتے ہیں (82:12)[36]

 وَمَا أَرْسَلْنَاكَ عَلَيْهِمْ وَكِيلًا ‎﴿٥٤﴾

اور اے نبیؐ، ہم نے تم کو ان پر داروغہ بنا کر نہیں بھیجا (17:54)[37]

إِنَّا أَنزَلْنَا عَلَيْكَ الْكِتَابَ لِلنَّاسِ بِالْحَقِّ ۖ فَمَنِ اهْتَدَىٰ فَلِنَفْسِهِ ۖ وَمَن ضَلَّ فَإِنَّمَا يَضِلُّ عَلَيْهَا ۖ وَمَا أَنتَ عَلَيْهِم بِوَكِيلٍ ‎﴿٤١)

آپ پر ہم نے حق کے ساتھ یہ کتاب لوگوں کے لیے نازل فرمائی ہے، پس جو شخص راه راست پر آجائے اس کے اپنے لیے نفع ہے اور جو گمراه ہوجائے اس کی گمراہی کا (وبال) اسی پر ہے، آپ ان کے ذمہ دار نہیں (39:41)

 رسول اللہ ﷺ کا کم پیغام ھدایت پہنچانا ہے وہ لوگوں کے اعمال پر داروغہ یا ذمہ دار نہیں-

 تو یہ  شہادت کس بات کی ہے؟ یہ فریضہ رسالت ادا کرنے کی شہادت ہے جس کے لیے نبی مبعوث ہونے، یہ کام کسی اور کو نہیں کرنا تھا-

خطبہ حجج میں  رسول اللہ ﷺ  ںے فرمایا :

 اور تمہارے درمیان چھوڑے جاتا ہوں میں ایسی چیز کہ اگر تم اسے مضبوط پکڑے رہو تو کبھی گمراہ نہ ہو اللہ کی کتاب اور تم سے سوال ہو گا (قیامت میں) اور میرا حال پوچھا جائے گا پھر تم کیا کہو گے؟“ تو ان سب نے عرض کی کہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ بیشک آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کا پیغام پہنچایا اور رسالت کا حق ادا کیا اور امت کی خیر خواہی کی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اشارہ کیا اپنی انگشت شہادت (کلمہ کی انگلی) سے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اسے آسمان کی طرف اٹھاتے تھے اور لوگوں کی طرف جھکاتے تھے اور فرماتے تھے: ”یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو، یا اللہ! گواہ رہو۔“ تین بار یہی فرمایا" [ صحیح مسلم 2950]، ۔ [ابی داوود 1905][38]

الله تعالی کا فرمان ہے:

يٰۤـاَيُّهَا النَّبِىُّ اِنَّاۤ اَرۡسَلۡنٰكَ شَاهِدًا وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيۡرًا ۞

اے نبیؐ ،ہم نے تمہیں بھیجا ہے گواہ بنا کر ،  بشارت دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر  (سورۃ نمبر 33 الأحزاب, آیت نمبر 45)

نبی کو " گواہ " بنانے کا مفہوم اپنے اندر بڑی وسعت رکھتا ہے جس میں تین قسم کی شہادتیں شامل ہیں۔

1.ایک قولی شہادت

 یعنی یہ کہ اللہ کا دین جن حقائق اور اصولوں پر مبنی ہے، نبی ان کی صداقت کا گواہ بن کر کھڑا ہو اور دنیا سے صاف صاف کہہ دے کہ وہی حق ہیں اور ان کے خلاف جو کچھ ہے باطل ہے۔ خدا کی ہستی اور اس کی توحید، ملائکہ کا سجود، وحی کا نزول، حیات بعد الموت کا وقوع اور جنت و دوزخ کا ظہور خواہ دنیا کو کیسا ہی عجیب معلوم ہو اور دنیا ان باتوں کے پیش کرنے والے کا مذاق اڑائے یا اسے دیوانہ کہے، مگر نبی کسی کی پروا کیے بغیر اٹھے اور ہانک پکار کر کہہ دے کہ یہ سب کچھ حقیقت ہے اور گمراہ ہیں وہ لوگ جو اسے نہیں مانتے۔ اسی طرح اخلاق اور تہذیب اور تمدن کے جو تصورات اقدار، اصول اور ضابطے خدا نے اس پر منکشف کیے ہیں، انہیں اگر ساری دنیا غلط کہتی ہو اور ان کے خلاف چل رہی ہو تب بھی نبی کا کام یہ ہے کہ انہی کو علی الاعلان پیش کرے اور ان تمام خیالات اور طریقوں کو غلط قرار دے جو ان کے خلاف دنیا میں رائج ہوں۔ اسی طرح جو کچھ خدا کی شریعت میں حلال ہے نبی اس کو حلال ہی کہے خواہ ساری دنیا اسے حرام سمجھتی ہو، اور جو کچھ خدا کی شریعت میں حرام ہے نبی اس کو حرام ہی کہے خواہ ساری دنیا اسے حلال و طیب قرار دے رہی ہو۔

2.دوسرے عملی شہادت

 یعنی یہ کہ نبی اپنی پوری زندگی میں اس مسلک کا عملاً مظاہرہ کرے جسے دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے وہ اٹھا ہے۔ جس چیز کو وہ برائی کہتا ہے اس کے ہر شائبے سے اس کی زندگی پاک ہو۔ جس چیز کو وہ بھلائی کہتا ہے، اس کی اپنی سیرت میں وہ پوری شان کے ساتھ جلوہ گر ہو۔ جس چیز کو وہ فرض کہتا ہے اسے ادا کرنے میں وہ سب سے بڑھ کر ہو۔ جس چیز کو وہ گناہ کہتا ہے اس سے بچنے میں کوئی اس کی برابری نہ کرسکے۔ جس قانون حیات کو وہ خدا کا قانون کہتا ہے اسے نافذ کرنے میں وہ کوئی کسر نہ اٹھا رکھے۔ اس کا اپنا اخلاق و کردار اس بات پر گواہ ہو کہ وہ اپنی دعوت میں کس قدر سچا اور کتنا مخلص ہے۔ اور اس کی ذات اس کی تعلیم کا ایسا مجسم نمونہ ہو جسے دیکھ کر ہر شخص معلوم کرلے کہ جس دین کی طرف وہ دنیا کو بلا رہا ہے وہ کس معیار کا انسان بنانا چاہتا ہے، کیا کردار اس میں پیدا کرنا چاہتا ہے، اور کیا نظام زندگی اس سے برپا کرانا چاہتا ہے۔

3.تیسرے اخروی شہادت

 یعنی آخرت میں جب اللہ کی عدالت قائم ہو اس وقت نبی اس امر کی شہادت دے کہ جو پیغام اس کے سپرد کیا گیا تھا وہ اس نے بےکم وکاست لوگوں تک پہنچا دیا اور ان کے سامنے اپنے قول اور عمل سے حق واضح کردینے میں اس نے کوئی کوتاہی نہیں کی۔ اسی شہادت پر یہ فیصلہ کیا جائے گا کہ ماننے والے کس جزا کے، اور نہ ماننے والے کس سزا کے مستحق ہیں۔

اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ نبی ﷺ کو شہادت کے مقام پر کھڑا کر کے اللہ تعالیٰ نے کتنی بڑی ذمہ داری آپ پر ڈالی تھی اور وہ کیسی عظیم شخصیت ہونی چاہیے جو اس مقام بلند پر کھڑی ہو سکے۔ ظاہر بات ہے کہ نبیﷺ سے دین حق کی قولی اور عملی شہادت پیش کرنے میں ذرہ برابر بھی کوئی کوتاہی نہیں ہوئی ہے، تبھی تو آخرت میں آپﷺ یہ شہادت دے سکیں گے کہ میں نے لوگوں پر حق پوری طرح واضح کردیا تھا، اور تبھی اللہ کی حجت لوگوں پر قائم ہوگی۔ ورنہ اگر معاذاللہ آپ ہی سے یہاں شہادت ادا کرنے میں کوئی کسر رہ گئی ہو تو نہ آپ آخرت میں ان پر گواہ ہو سکتے ہیں اور نہ منکرین کے خلاف مقدمہ ثابت ہوسکتا ہے۔

حاضر و ناظر؟

بعض لوگوں نے اس شہادت کو یہ معنی پہنانے کی کوشش کی ہے کہ نبیﷺ آخرت میں لوگوں کے اعمال پر شہادت دیں گے، اور اس سے وہ یہ استدلال کرتے ہیں کہ حضور ﷺ تمام اعمال کو دیکھ رہے ہیں، ورنہ بےدیکھے شہادت کیسے دے سکیں گے۔

لیکن قرآن مجید کی رو سے یہ تاویل قطعاً غلط ہے۔ قرآن ہمیں بتاتا ہے کے لوگوں کے اعمال پر شہادت قائم کرنے کے لیے تو اللہ تعالیٰ نے ایک دوسرا ہی انتظام فرمایا ہے۔ اس غرض کے لیے اس کے فرشتے ہر شخص کا نامۂ اعمال تیار کر رہے ہیں:

"(اور ہمارے اس براہ راست علم کے علاوہ) دو کاتب اس کے دائیں اور بائیں بیٹھے ہر چیز ثبت کر رہے ہیں- کوئی لفظ اس کی زبان سے نہیں نکلتا جسے محفوظ کرنے کے لیے ایک حاضر باش نگراں موجود نہ ہو (50.17/18)[39]

اور اس کے لیے وہ لوگوں کے اپنے اعضاء سے بھی گواہی لے لے گا

"آج ہم ان کے مونہوں پر مہر لگا دیں گے اور جو کچھ یہ کرتے رہے تھے ان کے ہاتھ ہم سے بیان کردیں گے اور ان کے پاؤں (اس کی) گواہی دیں گے (یٰسٓ36:65)[40]

رہے انبیاء علیم السلام، تو ان کا کام بندوں کے اعمال پر گواہی دینا نہیں بلکہ اس بات پر گواہی دینا ہے کہ بندوں تک حق پہنچا دیا گیا گیا تھا۔ قرآن صاف فرماتا ہے

" یَوْمَ یَجْمَعُ اللّٰہُ الرُّسُلَ فَیَقُوْلُ مَا ذَآ اُجِبْتُمْ قَالُوْا لَا عِلْمَ لَنَا اِنَّکَ اَنْتَ عَلَّامُ الْغُیُوْبِ۔ (المائدہ۔ 109)

جس روز اللہ تمام رسولوں کو جمع کرے گا، کہ تمہاری دعوت کا کیا جواب دیا گیا، تو وہ کہیں گے کہ ہم کو کچھ خبر نہیں، تمام غیب کی باتوں کو جاننے والے تو آپ ہی ہیں۔(المائدہ۔ 109)

اور اسی سلسلے میں حضرت عیسیٰ ؑ کے متعلق قرآن کہتا ہے کہ جب ان سے عیسائیوں کی گمراہی کے متعلق سوال ہوگا تو وہ عرض کریں گے

وَکُنْتُ عَلَیْھِمْ شَھِیْداً مَّادُمْتُ فِیْھِمْ فَلَمَّا تَوَفَّیْتَنِیْ کُنْتَ اَنْتَ الرَّقِیْبَ عَلَیْھِمْ۔ (المائدہ۔ 117)

میں جب تک ان کے درمیان تھا اسی وقت تک ان پر گواہ تھا۔ جب آپ نے مجھے اٹھا لیا تو آپ ہی ان پر نگراں تھے۔

یہ آیات اس باب میں بالکل صریح ہیں کہ انبیا (علیہم السلام) اعمال خلق کے گواہ نہیں ہوں گے۔

پھر گواہ کس چیز کے ہو نگے ؟

 اس کا جواب قرآن اتنی ہی صراحت کے ساتھ یہ دیتا ہے:

وَکذٰلِکَ جَعَلْنٰکُمْ اُمَّتہً وَّسَطاً لِّتَکُوْنُوْا شُھَدَآءَ عَلی النَّاسِ وَ یَکُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْکُمْ شَھِیْداً۔ (البقرہ۔ 143)

اور اے مسلمانو ! اسی طرح ہم نے تم کو ایک امت وَسَط بنایا تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور رسول تم پر گواہ ہوں۔

وَیَوْمَ نَبْعَثُ فِیْ کُلِّ اُمَّۃٍ شَھِیْداً عَلَیْھِمْ مِّنْ اَنْفُسِھِمْ وَجِئْنَا بِکَ شَھِیْداً عَلیٰ ھٰٓؤُلَآءِ۔ (النحل۔ 89)

اور جس روز ہم ہر امت میں انہی کے اندر سے ایک گواہ اٹھا کھڑا کریں گے جو ان پر گواہی دے گا اور (اے محمد) تمہیں ان لوگوں پر گواہ کی حیثیت سے لائیں گے۔

اس سے معلوم ہوا کہ قیامت کے روز نبی ﷺ کی شہادت اپنی نوعیت میں اس شہادت سے مختلف نہ ہوگی جسے ادا کرنے کے لیے حضورﷺ کی امت کو اور ہر امت پر گواہی دینے والے شہداء کو بلایا جائے گا۔

 ظاہر ہے کہ اگر یہ شہادت اعمال کی ہو تو ان سب کا بھی حاضر و ناظر ہونا لازم آتا ہے۔ اور اگر یہ گواہ صرف اس امر کی شہادت دینے کے لیے بلائے جائیں گے کہ خلق تک اس کے خالق کا پیغام پہنچ گیا تھا تو لامحالہ حضورﷺ بھی اسی غرض کے لیے پیش ہوں گے۔

اسی مضمون کی تائید وہ احادیث بھی کرتی ہیں جن کو بخاری، مسلم، ترمذی، ابن ماجہ امام احمد وغیرہم نے عبداللہ بن مسعود، عبداللہ بن عباس، ابو الدرداء، انس بن مالک اور بہت سے دوسرے صحابہ ؓ سے نقل کیا ہے، جن کا مشترک مضمون یہ ہے کہ:

نبی ﷺ قیامت کے روز اپنے بعض اصحاب کو دیکھیں گے کہ وہ لائے جا رہے ہیں، مگر وہ آپ ﷺ کی طرف آنے کے بجائے دوسرے رخ پر جا رہے ہوں گے یا دھکیلے جا رہے ہوں گے۔ حضور ﷺ ان کو دیکھ کر عرض کریں گے کہ خدایا، یہ تو میرے صحابی ہیں۔ اس پر اللہ تعالیٰ فرمائے گا کہ تم نہیں جانتے کہ تمہارے بعد انہوں نے کیا کرتوت کیے ہیں۔

یہ مضمون اتنے صحابہ سے اتنی کثیر سندوں کے ساتھ نقل ہوا ہے کہ اس کی صحت میں کسی شبہ کی گنجائش نہیں۔ اور اس سے یہ بات صریحاً ثابت ہوتی ہے کہ نبیﷺ اپنی امت کے ایک ایک شخص اور اس کی ایک ایک حرکت کے شاہد قطعاً نہیں ہیں۔

رہی وہ حدیث جس میں یہ ذکر آیا ہے کہ حضور ﷺ کے سامنے آپ کی امت کے اعمال پیش کیے جاتے ہیں، تو وہ کسی طرح بھی اس مضمون سے متعارض نہیں ہے۔ اس لیے کہ اس کا حاصل صرف یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضورﷺ کو امت کے حالات سے باخبر رکھتا ہے۔ اس کے یہ معنی کب ہیں کہ حضور ﷺ ہر شخص کے اعمال کا عینی مشاہدہ فرما رہے ہیں۔

 وَّمُبَشِّرًا وَّنَذِيۡرًا

یہاں اس فرق کو ملحوظ رکھیے کہ کسی شخص کا بطور خود ایمان و عمل صالح پر اچھے انجام کی بشارت دینا اور کفر وبد عملی پر برے انجام سے ڈرانا اور بات ہے اور کسی کا اللہ تعالیٰ کی طرف سے مبشر و نذیر بنا کر بھیجا جانا بالکل ہی ایک دوسری بات۔ جو شخص اللہ تعالیٰ کی طرف سے اس منصب پر مامور ہو وہ تو اپنی بشارت اور اپنے انذار کے پیچھے لازماً ایک اقتدار رکھتا ہے جس کی بنا پر اس کی بشارتوں اور اس کی تنبیہوں کو قانونی حیثیت حاصل ہوجاتی ہے۔ اس کا کسی کام پر بشارت دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ جس احکم الحاکمین کی طرف سے وہ بھیجا گیا ہے وہ اس کام کے پسندیدہ اور مستحق اجر ہونے کا اعلان کر رہا ہے، لہٰذا وہ فرض یا واجب یا مستحب ہے اور اس کا کرنے و الا ضرور اجر پائے گا۔ اور اس کا کسی کام کے برے انجام کی خبر دینا یہ معنی رکھتا ہے کہ قادر مطلق اس کام سے منع کر رہا ہے لہٰذا وہ ضرور گناہ اور حرام ہے اور یقیناً اس کا مرتکب سزا پائے گا۔ یہ حیثیت کسی غیر مامور کی بشارت اور تنبیہ کو کبھی حاصل نہیں ہو سکتی۔

[تفہیم القرآن، مفسر: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی]

نماز میں طویل یا مختصرآیات قرآن کی تلاوت

نماز لمبی یا مختصر؟ اس موضوع پر مختلف احادیث ہیں لیکن مناسب، معتدل، اوسط  آیات کی تلاوت آسان ہے۔

۔۔۔۔ فَاقۡرَءُوۡا مَا تَيَسَّرَ مِنَ الۡقُرۡاٰنِ‌ؕ عَلِمَ اَنۡ سَيَكُوۡنُ مِنۡكُمۡ مَّرۡضٰى‌ۙ وَاٰخَرُوۡنَ يَضۡرِبُوۡنَ فِى الۡاَرۡضِ يَبۡتَغُوۡنَ مِنۡ فَضۡلِ اللّٰهِ‌ۙ وَاٰخَرُوۡنَ يُقَاتِلُوۡنَ فِىۡ سَبِيۡلِ اللّٰهِ ۖ فَاقۡرَءُوۡا مَا تَيَسَّرَ ۔۔۔

"----  پس تم پر مہربانی کی  لہذا جتنا قرآن پڑھنا تمہارے لیے آسان ہو پڑھو وہ جانتا ہے کہ تم میں بعض بیمار بھی ہوں گے بعض دوسرے زمین میں چل پھر کر اللہ تعالیٰ کا فضل یعنی روزی بھی تلاش کریں گے  اور کچھ لوگ اللہ کی راہ میں جہاد بھی کریں گے  سو تم بہ آسانی جتنا قرآن پڑھ سکو پڑھو۔۔۔ "

(القرآن - جزو سورۃ نمبر 73 المزمل, آیت نمبر 20)

اگرچہ یہ آئیت نماز تہجد کے متعلق ہے ، اس سے عام نماز کے لئیے بھی انبساط کیا جا سکتا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ

’’جب تو نماز کے لیے کھڑا ہو تو تکبیر کہہ اور قرآن مجید میں سے جو کچھ یاد ہو اس میں سے جو کچھ آسانی سے پڑھ سکے وہ پڑھ۔‘‘

(بخاری، الاذان، باب امر النبی الذی لا یتم رکوعہ بالاعادۃ، ۳۹۷، مسلم: ۷۹۳.)

نماز کے اندر ہر رکعت میں سورۃ فاتحہ لازم ہے اس سے زائد جتنی چاہے قراءت کر لیں۔

آپ (ص) نے فرمایا جب قبلہ کی طرف منہ کرو تو تکبیر کہو پھر سورۃ فاتحہ پڑھو پھر (قرآن میں سے) جو چاہو پڑھو۔... (مسند احمد 4/340 علامہ نیموی حنفی لکھتے ہیں اس کی سند حسن ہے آثار السنن ص 214)

خواہ سورہ الفاتحہ کے بعد ایک آیت پڑھیں یا زیادہ، نماز درست ہو گی۔

 ایک شخص  ( حزم بن ابی کعب)  نے  (رسول اللہ  ﷺ  کی خدمت میں آ کر)  عرض کیا:

یا رسول اللہ! فلاں شخص  (معاذ بن جبل)  لمبی نماز پڑھاتے ہیں اس لیے میں  (جماعت کی)  نماز میں شریک نہیں ہوسکتا  (کیونکہ میں دن بھر اونٹ چرانے کی وجہ سے رات کو تھک کر چکنا چور ہوجاتا ہوں اور طویل قرآت سننے کی طاقت نہیں رکھتا)

 (ابومسعود راوی کہتے ہیں)  کہ اس دن سے زیادہ میں نے کبھی رسول اللہ  ﷺ  کو وعظ کے دوران اتنا غضب ناک نہیں دیکھا۔

آپ  ﷺ  نے فرمایا اے لوگو! تم  (ایسی شدت اختیار کر کے لوگوں کو دین سے)  نفرت دلانے لگے ہو۔  (سن لو)  جو شخص لوگوں کو نماز پڑھائے تو وہ ہلکی پڑھائے، کیونکہ ان میں بیمار، کمزور اور حاجت والے  (سب ہی قسم کے لوگ)  ہوتے ہیں۔ (صحیح بخاری، کتاب: علم کا بیان، حدیث نمبر: 90، 6110)

حَدَّثَنَا وَكِيعٌ عَنْ ابْنِ أَبِي ذِئْبٍ عَنْ خَالِهِ الْحَارِثِ عَنْ سَالِمٍ عَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَأْمُرُنَا بِالتَّخْفِيفِ وَإِنْ كَانَ لَيَؤُمُّنَا بِالصَّافَّاتِ

حضرت ابن عمر ؓ سے مروی ہے کہ *نبی کریم ﷺ ہمیں مختصر نماز پڑھانے کا حکم دیتے تھے اور خود بھی نبی کریم ﷺ ہماری امامت کرتے ہوئے سورت صفّٰت (کی چند آیات) پر اکتفاء فرماتے تھے۔ (مسند احمد، حدیث نمبر: 4565، 4747)

۔۔۔۔ نیز آپس کا خطبہ درمیانہ (نہ زیادہ طویل نہ زیادہ مختصر) ہوتا تھا (اور آپ کی نماز بھی درمیانی ہوتی تھی، مثلا آپ نماز میں " والشمس وضحھا " اور " والسماء والطارق "۔ پڑھتے تھے ہاں البتہ فجر کی نماز قدرے طویل ہوتی تھی، اور ظہر کی نماز کے لیے حضرت بلال ؓ اس وقت اذان دیتے تھے جب زوال شمس ہوچکا ہوتا چنانچہ پھر اگر حضور اکرم ﷺ تشریف لا چکے ہوتے تھے تو بلال ؓ اقامت کہتے دیتے ورنہ تھوڑی دیر ٹھہر جاتے یہاں تک کہ آپ ﷺ تشریف لے آتے آپ عصر کی نماز ایسے ہی پڑھتے جیسے کہ تم پڑھتے ہو اور مغرب کی نماز بھی تمہاری طرح پڑھتے۔ البتہ عشاء کی نماز تمہاری نسبت تھوڑی موخر کر کے پڑھتے تھے۔ (رواہ ابن عساکر) (کنزالعمال، کتاب: نماز کا بیان، حدیث نمبر: 23327)

ابوقتادہ ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ میں لمبی نماز پڑھنے کے ارادے سے نماز شروع کرتا ہوں، لیکن پھر میں بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو اپنی نماز میں تخفیف کر دیتا ہوں، اس لیے کہ میں جانتا ہوں کہ اس کے رونے کی وجہ سے اس کی والدہ غمگین ہوتی ہے۔‘‘    رواہ البخاری۔ (مشکوٰۃ المصابیح،باب: امام کی ذمہ داری کا بیان، حدیث: 1130)

سورۃ اخلاص کی اہمیت:

ایک انصاری مسجد قبا میں امامت کراتے تھے۔ ان کا معمول تھا کہ سورت فاتحہ کے بعد کوئی دوسری سورت پڑھنے سے پہلے (قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ) تلاوت فرماتے، ہر رکعت میں اسی طرح کرتے۔ مقتدیوں نے امام سے کہا کہ آپ (قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ) کی تلاوت کرتے ہیں پھر بعد میں دوسری سورت ملاتے ہیں کیا ایک سورت تلاوت کے لیے کافی نہیں ہے؟ اگر (قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ) کی تلاوت کافی نہیں تو اس کو چھوڑ دیں اور دوسری سورت کی تلاوت کیا کریں۔ امام نے جواب دیا، میں (قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ) کی تلاوت نہیں چھوڑ سکتا۔ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں مسئلہ پیش کیا تو نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے امام سے کہا کہ:

’’تم مقتدیوں کی بات تسلیم کیوں نہیں کرتے اس سورت کو ہر رکعت میں کیوں پڑھتے ہو؟‘‘

اس نے کہا مجھے اس سورت کے ساتھ محبت ہے۔

نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اس سورت کے ساتھ تیری محبت تجھے جنت میں داخل کرے گی‘‘

(بخاری تعلیقا، الاذان، باب الجمع بین السورتین فی الرکعۃ:۴۷۷ سنن ترمذی، فضائل القرآن، باب ماجاء فی سورۃ الاخلاص: ۱۰۹۲، ترمذی نے حسن غریب کہا۔)

ایک صحابی نے نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا کہ میرا ایک پڑوسی رات کو قیام میں صرف (قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ) تلاوت کرتا ہے دوسری کوئی آیت تلاوت نہیں کرتا، :

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے یہ سورت تہائی قرآن کے برابر ہے۔‘‘

(بخاری، فضائل القرآن، باب فضل (قل ھوﷲ احد)، ۳۱۰۵.)

سیدنا ابو قتادہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ہم لوگ گمان کرتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم (ظہر ) پہلی رکعت کو اتنا لمبا اس لیے فرماتے تھے کہ نمازی پہلی رکعت میں ہی شریک ہو سکیں۔ (ابو داود، الصلاۃ،ما جاء فی القراء ۃ فی الظھر، ۰۰۸.)

سیدنا جابر بن عبد اللہ الانصاری رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں کہ ہادی عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے سیّدنا معاذ رضی اللہ عنہ سے کہا:

’’جب تم جماعت کراؤ تو (وَالشَّمْسِ وَضُحَاهَا) اور (وَالَّیْلِ إِذَا یَغْشٰی) اور (سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى) کی تلاوت کرو اس لیے کہ تیرے پیچھے بوڑھے، کمزور اور ضرورت مند (بھی) نماز ادا کرتے ہیں۔‘‘ (بخاری، الاذان باب من شکا امامہ اذا طول، ۵۰۷ ومسلم: ۵۶۴.)

نئیے نمازی کو رعائیت عارضی  سہولت

سیدنا رفاعی بن رافع سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو نماز سکھائی اور فرمایا اگر تمہیں قرآن مجید کا کچھ حصہ یاد ہے تو پڑھو ورنہ (حسب توفیق) الحمد للہ، اللہ اکبر اور لا الہ الا اللہ کہہ کر رکوع کر لو۔‘‘ (ابو داؤد، الصلاۃ، صلاۃ من لا یقیم صلبۃ فی الرکوع السجود، ۱۶۸،ترمذی۲۰۳.)

سیدنا عبد اللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ایک صحابی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ بلا شبہ مجھے قرآن سے کچھ بھی یاد نہیں لہٰذا مجھے وہ سکھائیے جو مجھے کفایت کر جائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہو سبحان اللہ، الحمد للہ، لا الہ الا اللہ، واللہ اکبر، ولا حول ولا قوۃ الا باللہ۔‘‘

(ابو داؤد، ما یجزیء الامی والاعجمی من القراۃ۲۳۸.شیخ البانی نے حسن کہا ہے۔)

سورہ الفاتحہ کا نماز میں پڑھنا واجب ہے لہٰذا فاتحہ سیکھنے کی پوری کوشش کرنا انتہائی ضروری ہے اور یہ رعایت صرف اسی شخص کے لیے ہو سکتی ہے جو فاتحہ کو سیکھنے پر بھی قادر نہ ہو۔ (واللہ اعلم بالصواب)

https://bit.ly/AhkamAlQuraan 

https://urdufatwa.com/view/1/22526 

https://forum.mohaddis.com/threads/39002/page-7 

https://islamqa.info/ur/answers/291352/ 

احترام و آداب  رسول اللہ ﷺ

.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ . یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَ تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ . اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ . اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ . وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5)

’’مومنو! (کسی بات کے جواب میں ) اللہ اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو،ڈرتے رہو،بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔اے اہلِ ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمھارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔جو لوگ پیغمبر الٰہی کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں،اللہ نے ان کے دل تقوے کے لیے آزما لیے ہیں ان کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔جولوگ تم کو حجروں کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں،ان میں اکثر بے عقل ہیں۔اور اگر وہ صبر کیے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس جاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5)[41]

روضہ  رسول اللہ ﷺ پر شور! جرم یا گناہ ؛  قرآن و سنت کی روشنی میں

مسجد نبوی ، مدینہ منورہ میں وزیر اعظم اور وفد پر پاکستانی لوگوں نے نعرہ بازی کی اور چور، چور کے نعرے لگاے- اس مقدس مقام کے ادب آداب کا تقاضہ ہے کہ ایسا نہ کیا جاتا اس کی مذمت کی جاتی ہے تاکہ آئندہ ایسا نہ ہوسکے- اطلاعات ہیں کہ پہلے بھی جب مخالف پارٹی کے وزیر اعظم پر بھی نعرہ بازی ہوئی کبھی حق میں کبھی مخالف دونوں صورتوں میں یہ درست نہیں-

اب ہر کوئی اپنے مخالف پر فتوے لگا رہا ہے اور سزا کا مطلبہ بھی کیا جا رہا ہے دوسری طرف پہلے کی مثالیں دے کہ اسے معمول کہا جا رہا ہے- کچھ لوگ سعودی حکومت  ۓ گرفتار کیے ہیں اور وہ قانون شریعت جو وہاں نافذ ہے اس کے مطابق فیصلہ کریں گے-

اب ہم کو دیکھنا ہے کہ کیا ہوا ؟ ان لوگوں نے  رسول اللہ ﷺ کی شان میں کوئی گستاخی نہ کی بلکہ وفد پر نعرے لگایے جو اس مقدس مقام کے شایان شان نہیں- اب دیکھنا ہے کہ کیا کہیں کوئی غلو [42]تو نہیں ہورہا؟ یہ کیا جرم ہے یا گناہ؟

اگر سعودی قانون میں یہ جرم سے تو سزا مل جایے گی- اگر معمولی جرم ہے تو کم سزا یا بیدخلی ہو سکتی ہے- جو بھی ہو اس کے بعد کسی قانونی چآرہ جوئی کا کوئی حق نہیں کیونکہ سزا صرف ایک بار ملتی ہے بار بار نہیں-

اب دوسرا معاملہ ، گناہ کا ، گناہ تو ہوا ہے اس میں کوئی شک نہیں مگر بہتان نہیں کہ پاکستان کی عدالتوں میں چالیس ارب اور چودہ ارب روپے کی منی لانڈرنگ کا کیس فرد جرم عدالت میں لگنے کو تیار ہے اور موصوف وزیر اعظم بن چکے . مگر کیا خرد برد ، منی لانڈرنگ جو کہ کرپشن شمار ہوتی ہے وہ اس سے بری ہو گئے ، تحقیقی افسران کی پوسٹنگ اور رکارڈ قبضہ میں لے کر ضائع کر دیں تو وہ صادق اور امین بن گے. یہ فیصلہ وقت پر ہو گا کبھی- ان پر بہتان ، جھوٹ نہیں لگایا گیا مقدس جگہ پر کوئی گناہ ، جرم نہیں- حضرت عمر (رضی الله )  پر اسی مقدس مسجد میں سوال ہوا تھا کہ کپڑے کدھر سے آیے؟ انہوں نے تسلی کی جواب دیا ، جیل نہیں بھیجا. یہ ان کی سنت ہے، گناہ نہیں-

اصل گناہ نعرہ ، بلند آواز ہے ، اس جگہ اور  رسول اللہ ﷺ کی قبر کا فاصلہ دیکھیں کہ یہ آواز اس جگہ تک گیی یا نہیں ؟ اگر نزدیک ہوا تو پھر گناہ ہوا- لیکن براہ راست  رسول اللہ ﷺ کی شان میں کوئی گستاخی نہ ہوئی- چھتریوں والا علاقہ ہٹ کر ہے مشکل ہے کہ وہاں سے روضۂ  رسول اللہ ﷺ تک آواز جایے!

اب دیکھتے ہیں کہ کیا  رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں کوئی ایسا واقعہ پیش آیا جب کسی مسلمان  ۓ بلند آواز سے بحث کی ہو؟

آواز  رسول اللہ ﷺ سے بلند نہ کرو:

سورۃ الحجرات (آیت:۲)[43] میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَ تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ.

’’اے اہلِ ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمھارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔‘‘ (الحجرات (آیت:۲)

کسی کو کوئی سزا نہ ملی پیغمبر کے سامنے بلند آواز سے بولنا جرم نہیں گناہ ہے جس کی سزا کا تعلق آخرت سے ہے کہ اعمال برباد ہو جائیں گے - تو روضۂ  رسول اللہ ﷺ کے نزدیک بلند آواز سے بولنا گناہ کے زمرہ میں آتا ہے- گناہ کی معافی ، بخشش یا سزا کا اختیار صرف  اللہ کے پاس ہے اگر کوئی سزا دینا چاہے تو وہ شرک کا مرتکب ہو گا، اپنی حد سے باہر نکل کر اللہ کے اختیار میں در اندزی کرنا شرک ہے:

لَا شَرِيكَ لَهُ ۖ وَبِذَٰلِكَ أُمِرْتُ وَأَنَا أَوَّلُ الْمُسْلِمِينَ ‎﴿١٦٣﴾‏

اس کا کوئی شریک نہیں اور مجھے اسی کا حکم دیا گیا تھا اور میں سب سے پہلے فرمانبردار ہوں (6:163)[44]

اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس ادب و تعظیم اور احترام و تکریم کا بیان ہے جو ہر مسلمان سے مطلوب ہے:

پہلا ادب:یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمھاری آواز نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ ہو۔

دوسرا ادب:جب خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سے کرو،اس طرح اونچی اونچی آواز سے نہ کرو،جس طرح تم آپس میں بے تکلفی سے ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو۔

بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ یا محمد، یا احمد نہ کہو، بلکہ ادب سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر خطاب کرو۔اگر ادب و احترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بے ادبی کا احتمال ہے جس سے بے شعوری میں تمھارے عمل برباد ہوسکتے ہیں۔

 رسول اللہ ﷺ سے زبان درازی، بحث کرنے والے مسلمان کو آپ نے سزا نہ دی

ذوالخویصرہ نے رسول اللہ ﷺ پراس سونے کی تقسیم کی بارے میں اعتراض کیا تھا جسے سیدناعلی بن طالب رضی اللہ عنہ نے ملک یمن سے نبی کریم ﷺکی طرف مدینہ منورہ روانہ کیا تھا۔ اس وقت آپ رضی اللہ عنہ رسول اللہ ﷺکی طرف سے یمن کے امیر گورنر مقرر تھے- آپ ﷺکے اصحاب میں سے ایک آدمی نے اس پر کہا: "ان لوگوں سے زیادہ ہم اس سونے کے حق دار تھے"

 آپنے فرمایا :

“تم میرے اوپر اعتبارنہیں کرتے حالا نکہ اس اللہ نے مجھ پر اعتبار کیا ہے اور اس اللہ رب العزت کی وحی جو آسمان پر ہے میرے پاس صبح و شام آئی ہے ”

پھر ایک شخص کہ جس کی آنکھیں دھنسی ہوئی تھیں ، دونوں رخسار ابھرے ہوئے تھے، پیشانی بھی ابھری ہوئی تھی ، ڈاڑھی گھنی اور سر منڈا ہواتھا ، تہبند اُٹھائے ہوئے تھا ۔ ۔ ۔ کھڑا ہوا اور کہنے لگا:
"یا رسول اللہ! اللہ سے ڈریں"

آپﷺنے فرمایا : “افسوس تجھ پر ۔ کیا میں روئے زمین پر اللہ سے ڈرنے کا سب سے زیادہ مستحق نہیں ہوں؟

پھر وہ شخص چلا گیا ۔ خالد بن ولید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول ﷺ! میں کیوں نہ اس شخص کی گردن مار دوں؟

نبی کریمﷺنے فرمایا : نہیں شاید وہ نماز پڑھتا ہو [مسلم ہو ]

اس پرخالد بن والید رضی اللہ عنہ نے عرض کیا : بہت سے نماز پڑھنے والے ایسے ہوتے ہیں جوزبان سے اسلام کادعوی کرتے ہیں جبکہ ان کے دل میں اسلام نہیں ہوتا ۔

نبی کریم ﷺنے فرمایا : مجھے اس بات کا حکم (اللہ عز وجل کی طرف سے) نہیں دیا گیا کہ لوگوں کے دلوں کی کھوج لگاؤں اور نہ اس کا مجھے حکم ہوا ہے کہ ان کے پیٹ چاک کروں ۔ ”

راوی نے بیان کیا کہ : پھر نبی کریمﷺ نے اس منافق کی طرف دیکھا تو وہ پٹھ پھیر کر جار ہا تھا ۔

آپﷺنے فرمایا : “اس کی نسل سے ایسی قوم نکلے گی جو کتاب اللہ کی تلاوت بڑی خوش الحانی کے ساتھ کرے گی ۔ لیکن قرآن ان کے حلق سے نیچے نہیں اتر ے گا ۔دین سے وہ لوگ اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر جانور کے جسم سے پار نکل جاتا ہے ۔ “ اور میرا یقینی گمان یہ نبی کریمﷺنے یہ بھی فرمایا تھا : “اگر میں نے ان کا دور پا لیا تو بالکل قوم ثمود کی طرح ان کو قتل کر ڈالوں گا۔ [45]

[ رواہ البخاری ، کتاب المغازی : رقم الحدیث : 4351[46] ، صحیح مسلم ، کتاب الزکاۃ رقم الحدیث : 1064 ]

ابن جوزی رحمہ اللہ کی رائے :

اس حدیث کی شرح میں امام ابن جوزی نے لکھا ہے کہ : خارجیوں کا سب سے پہلا شخص خارجیت کا مؤسس ان میں سب سے بُرا (کہ جسں اس فتنے کی بنیاد رکھی)ابن ذو الخویصرہ تمیمی تھا ۔ روایات میں جو اس کے الفاظ منقول ہوئے ہیں ۔ ان میں سے یوں بھی اس نے کہا تھا : "يا رسول الله اعدل" [الله كے رسول ! انصاف کریں ]

چنا نچہ آپﷺنے فرمایا : "ويلك أ ومن يعدل اذا لم أعدل؟" [افسوس ہے تم پر ! اگر میں انصاف نہیں کر رہا تو دنیا میں اور کون انصاف کرے گا؟] [ماخوز صحیح مسلم الحدیث : 2456[47] ]

اتنی بڑی گستاخی پر رسول اللہ ﷺ نے اس کے خلاف کوئی ایکشن نہ لیا نہ کوئی سزا نہ دی-

اس کا معامله الله تعالی پر چھوڑ دیا-

 الله تعالی کا  نظام "سزا و جزا"

اسلام دین کامل ہے الله تعالی جس خالق کاینات ہے اسے انسان کی بشری کمزوریوں علم ہے اس لئے جرم اور گناہ کی سزا میں فرق رکھا- وہ جرائم جن پر معاشرہ میں امن اور انصاف قائم رکھنے کا انحصار ہے ان پر شرعیت میں قاضی کے زریعہ سزا کا طریقہ رکھا اور ایسے گناہ جو چھپ کر ہونے، جن کی معافی ، تصحیح کی گنجائش ہو سکتی ہے ان پر آخرت میں نیکیوں اور بد اعمال لو حساب کتاب کے بعد سزا اور جزا کا نظام رکھا- بہت ایسے گناہ ہیں جن کا دنیا میں ثبوت حاصل کرکہ سزا دینا مشکل ہو سکتا ہے لیکن آخرت میں ایسا کوئی مسلہ نہیں- الله تعالی نے  اپنی رحمت سے بہتری و معافی کی گنجائش بھی رکھی :

وَإِذَا جَاءَكَ الَّذِينَ يُؤْمِنُونَ بِآيَاتِنَا فَقُلْ سَلَامٌ عَلَيْكُمْ ۖ كَتَبَ رَبُّكُمْ عَلَىٰ نَفْسِهِ الرَّحْمَةَ ۖ أَنَّهُ مَنْ عَمِلَ مِنكُمْ سُوءًا بِجَهَالَةٍ ثُمَّ تَابَ مِن بَعْدِهِ وَأَصْلَحَ فَأَنَّهُ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ‎﴿٥٤﴾‏ وَكَذَٰلِكَ نُفَصِّلُ الْآيَاتِ وَلِتَسْتَبِينَ سَبِيلُ الْمُجْرِمِينَ ‎﴿٥٥﴾

اور جب آپ کے پاس وہ لوگ آئیں جو ہماری آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں تو ان سے کہئے السلام علیکم ...._ تمہارے پروردگار نے اپنے اوپر رحمت لازم قرر دے لی ہے کہ تم میں جو بھی ازروئے جہالت برائی کرے گا اور اس کے بعد توبہ کرکے اپنی اصلاح کرلے گا تو خدا بہت زیادہ بخشنے والا اور مہربان ہے اور ہم اسی طرح اپنی نشانیوں کو تفصیل کے ساتھ بیان کرتے ہیں تاکہ مجرمین کا راستہ ان پر واضح ہوجائے (6:54,55)[48]

الله تعالی کا یہ قانون ہے کہ جب بھی کوئی مسلمان جہالت سے کوئی برا کام کر بیٹھے، اور پھر اپنی غلطی پر متنبہ ہو کر اس سے توبہ کرلے اور آئندہ کے لیے اپنے عمل درست کرلے تو اللہ تعالیٰ اس کے پچھلے گناہوں کو معاف فرمادیں گے اور آئندہ اپنی دنیوی اور اخروی نعمتوں سے بھی اس کو محروم نہ فرماویں گے-[معارف القرآن ، مفتی  محمد شفیع[49]]

وَلَوْ يُؤَاخِذُ اللَّهُ النَّاسَ بِمَا كَسَبُوا مَا تَرَكَ عَلَىٰ ظَهْرِهَا مِن دَابَّةٍ وَلَٰكِن يُؤَخِّرُهُمْ إِلَىٰ أَجَلٍ مُّسَمًّى ۖ فَإِذَا جَاءَ أَجَلُهُمْ فَإِنَّ اللَّهَ كَانَ بِعِبَادِهِ بَصِيرًا ‎﴿٤٥﴾‏

اور اگراللہ تمام انسانوں سے ان کے اعمال کا مواخذہ کرلیتا تو روئے زمین پر ایک رینگنے والے کو بھی نہ چھوڑتا لیکن وہ ایک مخصوص اور معین مدّت تک ڈھیل دیتا ہے اس کے بعد جب وہ وقت آجائے گا تو پروردگار اپنے بندوں کے بارے میں خوب بصیرت رکھنے والا ہے (قران  35:45)

نتیجہ

جن لوگوں نے نعرہ بازی کی جہالت کی گناہ کیا لیکن براہ راست  رسول اللہ ﷺ کی شان میں کوئی گستاخی کا ایک لفظ بھی نہیں بولا-

قرآن سنت کی روشنی میں

 اگر وہ نادم ہیں شرمندۂ ہیں اللہ ،  رسول اللہ ﷺ سے معافی کے طلب گار ہیں تو ان کو کسی سزا یا مزید لعن طعن کرنا مناسب نہیں ہو گا ان کا معامله اللہ اور  رسول اللہ ﷺ پر چھوڑنا ہو گا کہ بروز قیامت ان کو سزا دے یا معاف کرے- (واللہ اعلم )

----------------

امت کا مفلس کون؟

رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے پوچھا:کیا تم جانتے ہو کہ مفلس کون ہے؟ ‘صحابہ نے عرض کیا کہ ہم میں مفلس وہ ہے جس کے پاس درہم اور مال و دولت کچھ بھی نہ ہو ‘تو آپ ﷺ نے فرمایا :‘‘میری امت کا مفلس وہ ہوگا جو قیامت کے دن نماز‘روزہ‘زکاۃ لے کر آئے گا ‘اس حال میں کہ اس نے اس کو

 گالی دی ہوگی

‘اس پر بہتان لگایا ہوگا [کسی بھی بے گناہ اور بے قصور مسلمان پر الزام لگانا ‘بہتان تراشی کرنا‘اور اسے ناکردہ گناہ کا مورد ِ الزام قرار دینا گوکہ ایک سنگین جرم ‘بدترین اخلاقی گناہ ِ عظیم ہے ‘مگر یہ ہمیشہ سے معاشرے کا اٹوٹ حصہ رہا ہے ‘اور رہے گا ]

 ‘اس کا مال کھایا ہوگا [٭ حضرت سمرہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھےکہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : جس نے خیانت کرنے والے کو چھپایا وہ بھی اسی جیسا ہے۔ ( ابوداؤد )][50]

 ‘اس کا خون بہایا ہوگا

 ‘اسے مارا پیٹا ہوگا

‘چنانچہ اسے اس کی نیکیاں دے دی جائیں گی‘اور اسے اس کی نیکیاں ‘اس کے حقوق کی ادائیگی سے قبل اگر اس کی نیکیاں ختم ہو جائیں گی ‘اس(مظلوم) کے گناہ اس پر انڈیل دئیے جائیں گے ‘پھر اسے واصل جہنم کردیا جائے گا ‘‘)”( مسلم حدیث نمبر:۲۵۸۱,ترمذی حدیث نمبر:۲۴۱۸؛مسند احمد حدیث نمبر:۸۴۱۴)

سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:

آواز  رسول اللہ ﷺ سے بلند نہ کرو:

.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ . یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَ تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ . اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ . اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ . وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5)

’’مومنو! (کسی بات کے جواب میں ) اللہ اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو،ڈرتے رہو،بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔اے اہلِ ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمھارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔جو لوگ پیغمبر الٰہی کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں،اللہ نے ان کے دل تقوے کے لیے آزما لیے ہیں ان کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔جولوگ تم کو حجروں کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں،ان میں اکثر بے عقل ہیں۔اور اگر وہ صبر کیے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس جاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5)[51]

https://quran1book.blogspot.com/2020/06/Ghulo.html 

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں مبالغہ آرائی، غلو

بعض لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت کے اظہار میں اور آپ کے اوصاف بیان کرنے میں بے اعتدالی کا شکار ہوجاتے ہيں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ایسی صفات تک کا ذکر کرجاتے ہیں جو صرف اللہ تعالی کے لیے خاص ہیں[52]- اور قرآن کریم میں اس چيز کو 'غلو" کہا گیا ہے- یہود و نصاری کی گمراہی کا اہم سبب مبالغہ آرائی اور غلو تھا- الله تعالی کا فرمان ہے:

"کہو، اے اہل کتاب! اپنے دین میں ناحق غلو نہ کرو اور اُ ن لوگوں کے تخیلات کی پیروی نہ کرو جو تم سے پہلے خود گمراہ ہوئے اور بہتوں کو گمراہ کیا، اور "سَوَا٫ السّبیل" سے بھٹک گئے- بنی اسرائیل میں سے جن لوگوں نے کفر کی راہ اختیار کی اُن پر داؤدؑ اور عیسیٰ ابن مریمؑ کی زبان سے لعنت کی گئی کیونکہ وہ سرکش ہوگئے تھے اور زیادتیاں کرنے لگے تھے- اُنہوں نے ایک دوسرے کو برے افعال کے ارتکاب سے روکنا چھوڑ دیا تھا، برا طرز عمل تھا جو اُنہوں نے اختیار کیا (79 /5:77)[53]

رسول اللہ ﷺ  ںے سختی سے  یہود و نصاری کے تقش قدم پر چلنے سے منع فرمایا-

ابن عباس ؓ نے  عمر ؓ کو منبر پر یہ کہتے سنا تھا کہ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے فرمایا"

"مجھے میرے مرتبے سے زیادہ نہ بڑھاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم (علیہما السلام) کو نصاریٰ نے ان کے رتبے سے زیادہ بڑھا دیا ہے۔ میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں، اس لیے یہی کہا کرو (میرے متعلق) کہ میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں۔"[البخاری 3445][54]

عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”غلو کرنے والے ہلاک ہو گئے، آپ ﷺ نے یہ تین بار فرمایا“۔  [صحیح مسلم ][55]

ایک مومن ہر اس چيز سے محبت کرتا ہے جو اللہ تعالی کو مجبوب ہو اور ہر وہ چيز مومن کو محبوب ہوگی جو اللہ کی قربت کا باعث بنے- محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ تعالی کے آخری رسول ہیں- امام النبیاء اور خلیل اللہ ہیں، اس لیے ہمیں سب سے زیادہ محبت نبی رحمت صلی اللہ علیہ وسلم سے ہونی چاہیے، اللہ تعالی فرماتا ہے:

" کہ دو اگر تمہارے باپ، بیٹے، بھائی، بیویاں، خاندان کے آدمی، مال جو تم کماتے ہو، تجارت جس کے بند ہونے سے ڈرتے ہو اور مکانات جن کو پسند کرتے ہو تمہیں اللہ اور اس کے رسول اور اس کی راہ میں جہاد کرنے سے زیادہ عزیز ہوں تو انتظار کرو یہاں تک کہ اللہ اپنا حکم (یعنی عذاب) بھیجے اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں کرتا-" (التوبہ: 9:24)

اس لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے تم میں کوئی شخص اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے اولاد اور اولاد سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں- (صحیح بخاری)

آپ نے یہ بھی فرمایا:

"کوئی بندہ اس وقت تک مومن نہیں ہوسکتا جب تک میں اس کے نزدیک اس کے اہل، مال، اور سب لوگوں سے زیادہ پیارا نہ ہوجاؤں" (صحیح مسلم)

اہل ایمان کے لیے یہ خشخبری ہے کہ جو شخص دنیا میں ایمان کے حالت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرے گا قیامت کے دن وہ آپ ہی کے ساتھ ہوگا-

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے سلسلے میں غلو درست نہیں- خود نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے اس قول میں اسکی ممانعت فرمائی ہے: تم لوگ میری شان میں اس طرح مبالغہ آرائی مت کرو، جس طرح کے عیسائیوں نے حضرت عیسی ابن مريم کی شان میں مبالغہ آرائی کی ہے۔

حبّ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا تقاضا:

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرنے کا تقاضا ہے کہ آپ کے احکام کی تعمیل اور آپ کی منع کردہ باتوں سے اجتناب کیا جائے، آپ کی یہ شان ہے- اس لیے آپ کی محبت اور اتباع شرط ایمان ہے فرمایا:

" کہدو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو اللہ تمہیں دوست رکھے گا"- ( آل عمران: 3:31)

توحید اور  کفر و شرک

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت کا مقصد یہ تھا کہ لوگوں کو کفر و شرک کی تاریکیوں سے نکال کر توحید کی طرف بلایا جائے- غیر اللہ کی بندگی سے لوگوں کو ہٹا کر اللہ کی بندگی پر لگایا جائے- مگر کچھ  لوگ کفر و شرک کو توحید جانتے ہیں- اور جو توحید پر زور دے اسے گستاخ رسول کہتے ہیں- یہ سراسر ظلم ہے کہ اللہ کے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مقصد بعثت کو پہچان کر اس کے مطابق عمل کرنے والوں کو گستاخ رسول کہا جائے اور محبت کے دعوے کو ڈھال بنا کر شرک کو عین اسلام ثابت کیا جائے-

حالانکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

" میری تعریف میں اس طرح مبالغہ نہ کرنا جس طرح نصرانیوں نے ابن مریم علیہ السلام کی تعریف میں مبالغہ آرائی کی- میں تو اللہ کا بندہ ہوں تم کہو اللہ کا بندہ اور اس کا رسول"- (بخاری)

لہذا آپ  رسول اللہ ﷺ  کی سچی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ توحید سے محبت کی جائے اور اس طرح کی جائے جس طرح اس مثالی سیدنا محمد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کی جسے اللہ تعالی نے رسالت کے لیے چنا- آج بہت سے عشق رسول کے دعویداروں نے ایسی تحریریں سپرد قلم کر رکھی ہیں جن میں بظاہر عشق رسول کے جذبات ابھار کر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی سب سے محبوب شئے توحید کی شدید مخالفت اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی انتہائی ناپسندیدہ شے شرک کی وکالت کرتے ہوئے اسی کو اصل دین ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں-[56]

قبر پرستی

 محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا (3:144)[57]

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے مروی ہے کہ '' اے اللہ میری قبر کو بت نہ بنا کہ لوگ اس کو پوجنے لگیں۔ پھر فرمایا: اس قوم پر اللہ کا غضب نازل ہوا جس نے اپنے انبیا کی قبروں کو مساجد بنا لیا۔'' (مسند أحمد)[58]

آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ’’ میری قبر کو عید (میلا گاہ) نہ بننے دینا (کہ سب لوگ وہاں اکٹھا ہوں)۔ “

[ ابوداؤد، كتاب المناسك : باب زيارة القبور : 2042 ][59]

ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ( اللہ تعالی یہود و نصاری پر لعنت فر مائے، کہ انہوں نے اپنے انبیائے کرام کی قبروں کو مسجدیں بنا لیا) *عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ: آپ انکے عمل سے اپنی امت کو خبر دار فرما رہے تھے، مزید کہتی ہیں کہ: اگر یہی خدشہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی قبر مبارک کے ساتھ نہ ہوتا تو آپ کی قبر مبارک سب کے سامنے عیاں ہوتی"*

(صحيح البخاري 1330 ، صحيح مسلم 529)

قیس بن سعد رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں حیرہ آیا، تو دیکھا کہ لوگ اپنے سردار کو سجدہ کر رہے ہیں تو میں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے زیادہ حقدار ہیں کہ انہیں سجدہ کیا جائے، میں جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا تو میں نے آپ سے کہا کہ میں حیرہ شہر آیا تو میں نے وہاں لوگوں کو اپنے سردار کے لیے سجدہ کرتے ہوئے دیکھا تو اللہ کے رسول! آپ اس بات کے زیادہ مستحق ہیں کہ ہم آپ کو سجدہ کریں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بتاؤ کیا *اگر تم میری قبر کے پاس سے گزرو گے، تو اسے بھی سجدہ کرو گے؟ وہ کہتے ہیں: میں نے کہا: نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم ایسا نہ کرنا*، اگر میں کسی کو کسی کے لیے سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورتوں کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہروں کو سجدہ کریں اس وجہ سے کہ شوہروں کا حق اللہ تعالیٰ نے مقرر کیا ہے ۔ ( ابو داؤد 2140)

ابوواقد لیثی رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حنین کے لیے نکلے تو آپ کا گزر مشرکین کے ایک درخت* کے پاس سے ہوا جسے *ذات انواط* کہا جاتا تھا، *اس درخت پر مشرکین اپنے ہتھیار لٹکاتے تھے، *صحابہ نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہمارے لیے بھی ایک ذات انواط مقرر فرما دیجئیے جیسا کہ مشرکین کا ایک ذات انواط ہے، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سبحان اللہ! یہ تو وہی بات ہے جو موسیٰ علیہ السلام کی قوم نے کہی تھی کہ ہمارے لیے بھی معبود بنا دیجئیے جیسا ان مشرکوں کے لیے ہے، اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے! تم گزشتہ امتوں کی پوری پوری پیروی کرو گے“(سنن الترمذي 2180)

ایک حدیث میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :

(یقینا لوگوں میں سب سے برے اور شریر وہ لوگ ہیں جنہیں زندگي کی حالت میں ہی قیامت آدبوچے گی اور وہ لوگ بھی جنہوں نے قبروں کومسجدیں بنا لیا) اسے مسند احمد 1 / 405/ صحیح بخاری کتاب الفتن باب ظہورالفتن حدیث 7067)

مردوں سے کلام

امام ابو حنیفہ سے روایت کیا جاتا ہے کہ امام ابوحنیفہ نے ایک شخص کو کچھ نیک لوگوں کی قبروں کے پاس آکر سلام کر کے یہ کہتے سنا کہ اے قبر والو! تم کو کچھ خبر بھی ہے اور کیا تم پر اس کا کچھ اثر بھی ہے کہ میں تمہارے پاس مہینوں سے آرہا ہوں اور تم سے میرا سوال صرف یہ ہے کہ میرے حق میں دعا کر دو - بتاؤ! تمہیں میرے حال کی کچھ خبر بھی ہے یا تم بلکل غافل ہو - ابو حنیفہ نے اس کا یہ قول سن کر اس سے دریافت کیا کہ کیا قبر والوں نے کچھ جواب دیا؟ وہ بولا نہیں دیا - امام ابو حنیفہ نے یہ سن کر کہا کہ تجھ پر پھٹکار - تیرے دونوں ہاتھ گرد آلود ہو جائیں تو ایسے جسموں سے کلام کرتا ہے جو نہ جواب ہی دے سکتے ہیں اور وہ نہ کسی چیز کے مالک ہی ہیں اور نہ آواز ہی سن سکتے ہیں - پھر امام ابو حنیفہ نے قرآن کی یہ آیت تلاوت فرمائی کہ:

"اور زندے اور مردے برابر نہیں ہو سکتے اللہ تعالٰی جس کو چاہتا ہے سنا دیتا ہے اور آپ ان لوگوں کو نہیں سنا سکتے جو قبروں میں ہیں" ۔ (سورة الفاطر:35:22)[60]

 یہاں زندہ سے مراد وہ لوگ ہیں جن کے دل اور ضمیر زندہ ہیں۔ جو بدی کو بدی ہی سمجھتے ہیں اور نیکی کی راہ کی تلاش میں رہتے ہیں۔ پھر اس پر عمل پیرا بھی ہوتے ہیں۔ اور مردہ سے مردہ دل لوگ یا کافر ہیں۔ ان کے ضمیر اور ان کے دل اس قدر مرچکے ہیں کہ ہدایت کی بات ان کے دل تک پہنچتی ہی نہیں۔ نہ وہ اسے سننا گوارا کرتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ آپ کا ایسے لوگوں کو نصیحت کرنا بےسود ہے[61]۔

سماع موتی کا رد

 ربط مضمون کے لحاظ سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ قبروں میں پڑے لوگوں سے مراد یہی مردہ دل کافر لوگ ہیں مگر الفاظ کے ظاہری معنوں کا اعتبار کرنا زیادہ صحیح ہوگا۔ یعنی جو لوگ قبروں میں جاچکے ہیں انہیں اللہ تو سنا سکتا ہے آپ نہیں سنا سکتے۔ کیونکہ قبروں میں پڑے ہوئے لوگ عالم برزخ میں جا پہنچے ہیں۔ عالم دنیا میں نہیں ہیں۔ اس کی مثال یوں سمجھئے کہ ایک سویا ہوا شخص اپنے پاس بیٹھے ہوئے لوگوں کی گفتگو نہیں سن سکتا۔ اس لیے عالم خواب الگ عالم ہے۔ اور عالم بیداری الگ عالم ہے۔ حالانکہ یہ دونوں عالم، عالم دنیا سے ہی متعلق ہیں مگر عالم برزخ دنیا سے متعلق نہیں بالکل الگ عالم ہے۔

[شفاء الصدور للنيلوي ص ٤٤،احكام الموتي والقبور ص ٩٢،غرائب فی تحقیق المذاہب و تفہیم المسائل ، صفحہ ٩١ صفحہ ١٧٢ ، محمد بشیر الدین قنوجی بحوالة جهود العلماء الحنفية ص ٨٦٨]

عالم برزخ

برزخ دو چیزوں کے درمیان روک اور آڑ کو کہتے ہیں۔ اصطلاح شریعت میں اس سے مراد موت سے قیامت تک کا درمیانی عرصہ ہے۔ مرنے کے بعد تمام جن و انس حسب مراتب برزخ میں رہیں گے۔ جیسا کہ قرآن مجید میں ارشاد ہے :

ترجمہ : ’’یہاں تک کہ جب ان میں سے کسی کو موت آ جائے گی (تو) وہ کہے گا اے میرے رب! مجھے (دنیا میں) واپس بھیج دے۔ تاکہ میں اس (دنیا) میں کچھ نیک عمل کر لوں جسے میں چھوڑ آیا ہوں ہرگز نہیں، یہ وہ بات ہے جسے وہ (بطور حسرت) کہہ رہا ہو گا اور ان کے آگے ایک دن تک ایک پردہ (حائل) ہے (جس دن) وہ (قبروں سے) اٹھائے جائیں گے‘‘[المومنون، 23 : 98 - 100]

عالم برزخ کا کچھ تعلق دنیا کے ساتھ ہوتا ہے اور کچھ آخرت کے ساتھ۔ دنیا کے ساتھ تعلق اس طرح ہے جب انسان مرجاتا ہے تو اس کے عزیز و اقارب میت کے ثواب کیلئے صدقہ و خیرات اور ذکر و اذکار کرتے ہیں۔ اس سے میت کو ثواب پہنچتا ہے اور راحت و آرام ملتا ہے۔ آخرت کے ساتھ تعلق اس طرح ہے کہ جو عذاب یا آرام برزخ میں شروع ہوتا ہے۔ وہ آخرت میں ملنے والے عذاب یا آرام کا ہی حصہ ہوتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے :

ترجمہ : ’’(اور عالم برزخ میں بھی) ان لوگوں کو دوزخ کی آگ کے سامنے صبح و شام لایا جاتا ہے۔‘‘[غافر،40:46]

لہذا قبروں میں پڑے ہوئے لوگ بدرجہ اولیٰ دنیا والوں کی بات براہ راست سن نہیں سکتے۔ یہ آیت سماع موتی کا کلیتاً رد ثابت کرتی ہے۔ رہا قلیب بدر کا واقعہ جو احادیث صحیحہ میں مذکور ہے۔ کہ جنگ بدر میں ستر مقتول کافروں کی لاشیں بدر کے کنوئیں میں پھینک دی گئیں۔ تو تیسرے دن رسول اللہ نے اس کنوئیں کے کنارے کھڑے ہو کر فرمایا : تمہارے مالک نے جو سچا وعدہ تم سے کیا تھا وہ تم نے پالیا ؟ لوگوں نے عرض کیا : یارسول اللہ! کیا آپ مردوں کو سناتے ہیں ؟ آپ نے فرمایا : تم کچھ ان سے زیادہ نہیں سنتے، البتہ وہ جواب نہیں دے سکتے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قتل ابی جھل۔۔ بخاری کتاب الجنائز۔ باب ماجاء فی عذاب القبر) اور سیدنا قتادہ نے اس حدیث کی تفسیر میں کہا کہ اللہ نے اس وقت ان مردوں کو جلا دیا تھا ان کی زجز و توبیخ، ذلیل کرنے، بدلہ لینے اور شرمندہ کرنے کے لیے (بخاری۔ کتاب المغازی۔ باب قتل ابی جھل) گویا یہ ایک معجزہ تھا اور فی الحقیقت سنانے والا اللہ تعالیٰ ہی تھا۔ اور یہ اس آیت کا مفہوم ہے۔[ مولانا عبدلرحمان کیلانی][62]

"بیشک آپ نہ مُردوں کو سنا سکتے ہیں اور نہ بہروں کو اپنی پکار سنا سکتے ہیں، جبکہ وه پیٹھ پھیرے روگرداں جا رہے ہوں اور نہ آپ اندھوں کو ان کی گمراہی سے ہٹا کر رہنمائی کر سکتے ہیں آپ تو صرف انہیں سنا سکتے ہیں جو ہماری آیتوں پر ایمان ﻻئے ہیں پھر وه فرمانبردار ہوجاتے ہیں (27:80,81)[63] 

روحانی موت اور روحانی بہرے پن کو جسمانی موت اور جسمانی بہرے پن کے ساتھ تشبیہ سے ظاہر ہے کہ مردوں کو کوئی بات سنائی نہیں جاسکتی۔ یہ نفی عام ہے، اس سے صرف وہ مواقع مستثنیٰ ہیں جو دلیل (کتاب و سنت) سے ثابت ہوں اور وہ صرف دو ہیں، ان کے علاوہ کسی آیت یا صحیح حدیث سے مردوں کا سننا ثابت نہیں۔ ایک موقع وہ ہے جو انس (رض) نے بیان کیا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ترجمہ : ” بندہ جب قبر میں رکھا جاتا ہے اور اس سے رخ پھیرلیا جاتا ہے اور اس کے ساتھی واپس چل دیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ان کے جوتوں کی آواز سن رہا ہوتا ہے، تو اس کے پاس دو فرشتے آجاتے ہیں، اسے بٹھا دیتے ہیں اور اس سے پوچھتے ہیں : ” اس شخص یعنی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے بارے میں تو کیا کہتا ہے ؟ “ وہ جواب دیتا ہے : ” میں گواہی دیتا ہوں کہ وہ اللہ تعالیٰ کے بندے اور اس کے رسول ہیں۔ “ تو اس سے کہا جاتا ہے : ” جہنم میں اپنے ٹھکانے کی طرف دیکھ، اللہ تعالیٰ نے اس کے بدلے میں تیرے لیے ایک ٹھکانا جنت میں بنادیا ہے۔ “ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” پھر اس بندۂ مومن کو جنت و جہنم دونوں دکھائی جاتی ہیں۔ اور رہا کافر یا منافق تو وہ (اس سوال کے جواب میں) کہتا ہے : ” مجھے نہیں معلوم، میں نے لوگوں کو ایک بات کہتے سنا تھا، وہی میں بھی کہتا رہا۔ “ تو اسے کہا جاتا ہے : ” نہ تو نے کچھ سمجھا اور نہ (اچھے لوگوں کی) پیروی کی۔ “ اس کے بعد ہتھوڑے کے ساتھ اس کے دونوں کانوں کے درمیان (یعنی سر پر) بڑی زور سے مارا جاتا ہے اور وہ اتنے بھیانک طریقے سے چیختا ہے کہ انسان اور جن کے سوا اردگرد کی تمام مخلوق اس چیخ چیخ پکار کو سنتی ہے۔ [ بخاري، الجنائز، باب المیت یسمع ۔۔ : ١٣٣٨]

دوسرا موقع ابو طلحہ (رض) سے مروی ہے کہ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بدر کے دن قریش کے سرداروں میں سے چوبیس آدمیوں کے متعلق حکم دیا تو وہ بدر کے کنوؤں میں سے ایک خبیث گندگی والے کنویں میں پھینک دیے گئے اور آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کسی قوم پر فتح پاتے تو میدان میں تین دن ٹھہرتے تھے۔ جب بدر میں تیسرا دن ہوا تو آپ نے اپنی اونٹنی کے متعلق حکم دیا تو اس پر اس کا پالان کسا گیا، پھر آپ چل پڑے اور آپ کے پیچھے آپ کے اصحاب بھی چل پڑے اور کہنے لگے، ہمارا خیال یہی ہے کہ آپ اپنے کسی کام کے لیے جا رہے ہیں، یہاں تک کہ آپ اس کنویں کے کنارے پر کھڑے ہوگئے اور انھیں ان کے اور ان کے باپوں کے نام لے لے کر پکارنے لگے :ترجمہ : ” اے فلاں بن فلاں ! اور اے فلاں بن فلاں ! کیا تمہیں پسند ہے کہ تم نے اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کی ہوتی، کیونکہ ہم نے تو جو ہمارے رب نے ہم سے وعدہ کیا اسے حق پایا، تو کیا تم نے بھی جو تمہارے رب نے وعدہ کیا تھا، حق پایا ؟ “ تو عمر (رض) نے کہا : ” یا رسول اللہ ! آپ ان جسموں سے کیا بات کرتے ہیں جن میں روحیں نہیں ہیں۔ “ تو رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی جان ہے ! تم ان سے زیادہ وہ باتیں سننے والے نہیں جو میں انھیں کہہ رہا ہوں۔ “ [ بخاري، المغازي، باب قتل أبي جھل : ٣٩٧٦ ]

 ہمارا ایمان ہے کہ ان دونوں موقعوں پر مردے وہ بات سنتے ہیں جس کا حدیث میں ذکر ہے، ان کے سوا مردے زندوں کی کوئی بات نہیں سنتے، مگر ان دو احادیث کو بنیاد بنا کر بعض لوگوں نے عقیدہ بنا لیا کہ تمام مردے سنتے ہیں اور ہر بات ہر وقت سنتے ہیں، حقیقت یہ ہے کہ مردہ پرستی اور غیر اللہ کو پکارنے اور ان سے فریاد کرنے کی بنیاد یہی عقیدہ ہے کہ مردے سنتے ہیں، ورنہ اگر یقین ہو کہ وہ سنتے ہی نہیں تو پاگل ہی ہوگا جو انھیں پکارے گا۔ قرآن مجید میں مردوں کے نہ سننے کا مضمون متعدد جگہ بیان ہوا ہے۔ دیکھیے سورة روم (٥٢) اور فاطر (١٩ تا ٢٢) بلکہ مردوں کو خبر ہی نہیں کہ کوئی انھیں پکار رہا ہے۔ دیکھیے سورة نحل (٢٠، ٢١) ، فاطر (١٣، ١٤) اور احقاف (٤ تا ٦) اور قیامت سے پہلے فوت شدہ لوگ واپس بھی نہیں آتے۔ دیکھیے سورة یٰس (٣١) اور انبیاء (٩٥) عزیر (علیہ السلام) اور جن حضرات کا دنیا میں زندہ ہونا قرآن یا صحیح حدیث سے ثابت ہے، وہ اس سے مستثنیٰ ہیں۔ قبر پرستوں کے برعکس کچھ لوگوں نے ان دو مواقع پر بھی مردوں کے سننے سے انکار کردیا، پھر ان میں سے بعض نے تو صاف ان حدیثوں کا انکار کردیا، حالانکہ یہ صحیح بخاری کی احادیث ہیں جن کی صحت پر امت کا اتفاق ہے اور بعض نے ان کی ایسی لغو تاویلیں کیں جو انکار سے بھی بدتر ہیں، حالانکہ حق افراط و تفریط کے درمیان ہے۔ [مولانا عبدالسلام بھٹوی][64]

قبروں کو سجدہ گاہ بنانا

سیّدنا ابو عبیدہ بن جراح رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی آخری بات یہ تھی:

‘وَاعْلَمُوا أَنَّ شِرَارَ النَّاسِ الَّذِینَ اتَّخَذُوا قُبُورَ أَنْبِیَائِہِمْ مَسَاجِدَ’ .

”جان لو! بلاشبہ سب سے برے لوگ وہ ہیں،جنہوں نے اپنے انبیاء ِکرام کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا۔”

(مسند الإمام أحمد : 196/1، وسندہ، حسنٌ)

سیّدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

” اے اللہ! میری قبر کو بت نہ بنانا، اس قوم پراللہ کی لعنت ہو،جس نے اپنے نبیوں کی قبروں کو سجدہ گاہ بنا لیا ۔”(مسند الحمیدي : 1025، وسندہ، حسنٌ)

اس حدیث کی وضاحت کرتے ہوئے علامہ برکوی حنفی رحمہ اللہ لکھتے ہیں:

”بت پرستی میں سب سے بڑا فتنہ قبر پرستوں کا ہے اور یہی بت پرستی کی بنیاد بنا، جیسا کہ سلف صالحین میں سے صحابہ کرام اور تابعین عظام نے فرمایا ہے۔ شیطان ایک ایسے آدمی کی قبر ان کے سامنے کرتا ہے، جس کی وہ تعظیم کرتے ہیں، پھر اُسے عبادت خانہ بنا دیتا ہے،بعد ازاں شیطان اپنے دوستوں کے ذہنوں میں یہ بات ڈالتا ہے کہ جو لوگ ان کی عبادت کرنے، ان کی قبر کو میلہ ،عرس گاہ اور عبادت خانہ بنانے سے روکتے ہیں،وہ ان کی گستاخی اور حق تلفی کرتے ہیں۔ اس پر جاہل لوگ ایسے (حق گو) لوگوں کو قتل کرنے، انہیں پریشان کرنے اور ان کو کافر قرار دینے کے درپے ہو جاتے ہیں-  واللہ اعلم

زیارتِ قبوکی اجازت ہے مگر شرعی طریقہ سے

حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :

’’میں نے تمہیں زیارتِ قبور سے منع کیا تھا اب تم اُن کی زیارت کیا کرو کیونکہ وہ تمہیں موت کی یاد دلاتی ہے۔‘‘ [حاکم، المستدرک، 1 : 531، رقم : 1388][65][اس موضوع پر مزید 1. نسائي، السنن، کتاب الضحايا، باب الإذن في ذلک، 7 : 234، رقم : 4429، 2. حاکم، المستدرک، 1 : 532، رقم : 1391، 3. ابن حبان، الصحيح، 12 : 212، رقم : 5390، 4. أبو عوانة، المسند، 5 : 84، رقم : 7882، 5. بيهقي، السنن الکبري، 4 : 76، رقم : 6986][66]

زِیارتِ قبور کے حوالے سے احادیثِ مبارکہ سے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی تین اہم سنن[67] ثابت ہوتی ہیں :

1)زیارتِ قبور کو جانا حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا مستقل معمول تھا۔ 2) مؤمنوں اور مسلمانوں کے قبرستان میں جاکر اُنہیں سلام کرنا، اپنے لئے، اُن کے لئے اور پہلے گزرنے والوں کے لئے عافیت، رحمت اور مغفرت کی دعا۔ 3)اہلِ قبرستان کو مخاطب ہوکر اس بات کا اعادہ کرنا کہ آپ ہم سے پہلے قبور میں پہنچے ہیں، ہم بھی آپ کے پیچھے آنے والے ہیں۔

زیآرت قبور میں شرعی اصولوں کو مدنظر رکھنا چاہیئے جن کے  تحت توحید ، شرک ، جائز ناجائز اور حلال حرام میں حدِ فاصل رکھی گئی ہے اور غلو سے پرہیز کرتے ہونے قبور کو بت کی طرح پرستش کی جگہ نہ بنا لیں-

مسلمان یہود و نصاری کے گمراہی کے راستہ سے بچتے ہونے، رسول اللہ ﷺ سے محبت کا بہترین اظھار قرآن اور سنت  رسول اللہ ﷺ پر عمل پیرا ہونے سے کریں اور ان سے محبت واحترام مین غلو سے بچ کر رہیں- آمین  

 محمدؐ اس کے سوا کچھ نہیں کہ بس ایک رسول ہیں، اُن سے پہلے اور رسول بھی گزر چکے ہیں، پھر کیا اگر وہ مر جائیں یا قتل کر دیے جائیں تو تم لوگ الٹے پاؤں پھر جاؤ گے؟ یاد رکھو! جو الٹا پھرے گا وہ اللہ کا کچھ نقصان نہ کرے گا، البتہ جو اللہ کے شکر گزار بندے بن کر رہیں گے انہیں وہ اس کی جزا دے گا (3:144)[68]

*The God Protocol*

And when We decide to destroy a town (population), We (first) send a definite order (to obey Allah and be righteous) to those among them [or We (first) increase in number those of its population] who are given the good things of this life (elite) Then, they transgress therein, and thus the word (of torment) is justified against it (them). Then We destroy it with complete destruction.(Quran;17:16)

Individual societies are ruled by individual, small castes of dominant men; that it is natural for societies to be ruled by small castes of dominant men; and that the world today comprises a single and unified system ruled by a single, small caste of dominant men. One need not argue against the model of “elite” governance; rather, it calls the ruling elite to engage in its proper function: of training its populations along trajectories which tend to godly fear and righteousness.

It is clear today that the ruling elites have abandoned all semblance of noblesse oblige, having detached their interests entirely from those of the peoples they rule.

They have destroyed traditional forms of religions, perverted norms of gender, race, and caste, and dismantled all objective standards of modesty and morality.

And they are presently engaged in removing the last vestiges of reason and instinct for God within those they manage and in establishing a perfected form of slavery for those they leave alive to serve them.

*In short, the ruling elites of the present unified system are aberrant, miscreant, deviant — and highly effective*

Conspicuous among the elites’ practices of dealing with those they rule is the principle of issuing notifications or warnings prior to executing certain policies, usually via entertainment or news media outlets, but by other means also. The elites follow a protocol of warning because it is important to them that one be morally and legally culpable.

But what is sauce for the goose is sauce also for the gander.

The Qur’an contains within it a clear protocol of warning — one which was used by many messengers and prophets — for *holding miscreant elites to account.* This mechanism has nothing to do with the Traditionalist Islamist’s dominant preoccupations; rather, it comprises a legal framework for warning a ruling elite that has transgressed all bounds, and serves as the prerequisite for the punishments of God to become binding thereafter upon a society whose rulers reject that warning. This mechanism is the God protocol.

Historically, such punishment impacted a limited area only. Since today the world is effectively under a single ruling elite, the implication is that the impact of an execution of the same protocol in such circumstances would be universal.

*This book features anthologies of verses from the Qur’an attended by introductions, summaries, comments and conclusions which together support a formal warning under the protocol to the ruling elite of today’s one world government.*

One can press the wrong buttons as many times as one likes — it won’t make any difference. But one has only to press the right button once. This is that button. I am not pressing it because I want to, but because the alternative is a future which, in conscience, I cannot leave to my children.

SAM GERRANS is an English writer and independent thinker with backgrounds in languages, media, strategic communications, and technologies, his book *"The God Protocol" identifies that mechanism in the Qur’an by which miscreant ruling elites of the past were made accountable before God and applies the same principle to the worldwide ruling elite of today.*

Contemporary echoes of sins characteristic of that time

Mention of God has all but been removed from education and approved culture in the present  cult, and reference to the Creator in the broader society is now socially inappropriate, if not  verboten.

Idolatry and polytheism are today standard, with the masses trained to worship the so-called  stars of the prescribed culture, or in the form of solipsism and Humanism which comprise  worship of self.

Much of what is called science is today but polytheism and pantheism in narrative form.  The ruling elites have their own cults to which the profane are not admitted, but in which the  masses unthinkingly participate through symbolism and ritual. The ruling elites themselves  are Satanists and idolaters and pantheists and follow practices which claim their genesis in the  Mystery School cults.

The naturally productive races are being systematically degraded by programs of mass  integration and miscegenation, while the DNA of the broader human stock is debased by means  of diet and other mass systems of weapons delivery. We also see a move to merge humans with  computers, creating a trans-human or post-human society for those allowed to survive under  the new order.

Sexual profligacy, degeneracy, and lack of moral standards have been made the norm.

Solipsism, unhinged delusion, and refusal to acknowledge arguments which do not comport  with the existing cult of egoism have been made standard via systems of so-called training, selfimprovement, and low-level esoterica, as well by passive means through mental downloads  delivered via approved culture. (Page 62)

 اَللَّهُمَّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ

مِنْ عَذَابِ جَهَنَّمَ ,

وَمِنْ عَذَابِ اَلْقَبْرِ ,

وَمِنْ فِتْنَةِ اَلْمَحْيَا وَالْمَمَاتِ ,

 وَمِنْ شَرِّ فِتْنَةِ اَلْمَسِيحِ اَلدَّجَّالِ

 مُتَّفَقٌ عَلَيْهِ .‏ 1‏

https://sunnah.com/bulugh/2/210

Narrated Abu Hurairah (RA):

Allah's Messenger (ﷺ) said: "When one of you finishes the (last) Tashahhud, he should seek refuge in Allah from four things by saying:

'O Allah I seek refuge in You against the punishment of Jahannam (Hell-fire), the punishment of the grave, the trial of life and death and the evil of the trial of Masih ad-Dajjal (Antichrist)."'

[Agreed upon].

احکام القرآن 

https://bit.ly/AhkamAlQuran

وَنَفۡسٍ وَّمَا سَوّٰٮهَا⊙ فَاَلۡهَمَهَا فُجُوۡرَهَا وَتَقۡوٰٮهَا⊙ قَدۡ اَفۡلَحَ مَنۡ زَكّٰٮهَا⊙وَقَدۡ خَابَ مَنۡ دَسّٰٮهَا ⊙(لقرآن, الشمس, 7-10 :91)

اور قسم ہے نفس انسانی کی اور جیسا کہ اس کو سنوارا۔ پس اس کے اندر نیکی اور بدی کا علم الہام کردیا۔  یقینا کامیاب ہوگیا جس نے اس (نفس) کو پاک کرلیا۔ اور ناکام ہوگیا جس نے اسےخاک میں ملایا⊙

And the soul and Him Who made it perfect,  Then He inspired it to understand what is right and wrong for it; He will indeed be successful who purifies it,  And he will indeed fail who corrupts it. (Quran 91:7-10)

https://SalaamOne.com 

نیکی اور تقوی میں تعاون کرو

احکام القرآن 

https://bit.ly/AhkamAlQuran

 وَتَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡبِرِّ وَالتَّقۡوٰى‌ ۖ وَلَا تَعَاوَنُوۡا عَلَى الۡاِثۡمِ وَالۡعُدۡوَانِ‌ ۖ وَاتَّقُوا اللّٰهَ ‌ؕ اِنَّ اللّٰهَ شَدِيۡدُ الۡعِقَابِ 

نیکی اور تقوی میں ایک دوسرے کے ساتھ تعاون کرو، اور گناہ اور ظلم میں تعاون نہ کرو، اور اللہ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اللہ کا عذاب بڑا سخت ہے۔

(القرآن - سورۃ نمبر 5 المائدة، آیت نمبر2 )

SalaamOne.com

وَلَا تُجَادِلۡ عَنِ الَّذِيۡنَ يَخۡتَانُوۡنَ اَنۡفُسَهُمۡ‌ ؕ اِنَّ اللّٰهَ لَا يُحِبُّ مَنۡ كَانَ خَوَّانًا اَثِيۡمًا ۞ 

اور کسی تنازعے میں ان لوگوں کی وکالت نہ کرنا جو خود اپنی جانوں سے خیانت کرتے ہیں۔ اللہ کسی بھی خیانت کرنے والے گنہگار کو پسند نہیں کرتا۔

(سورۃ نمبر 4 النساء, آیت نمبر 107)

جو شخص دوسرے سے خیانت کرتا ہے وہ دراصل سب سے پہلے خود اپنے نفس کے ساتھ خیانت کرتا ہے۔ اپنے ضمیر کو  اس حد تک دبا دیتا ہے کہ وہ اس خیانت کاری میں رکاوٹ نہیں بنتا ۔ 

مَنۡ يَّشۡفَعۡ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَّكُنۡ لَّهٗ نَصِيۡبٌ مِّنۡهَا‌ ۚ وَمَنۡ يَّشۡفَعۡ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَّكُنۡ لَّهٗ كِفۡلٌ مِّنۡهَا‌ ؕ وَكَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَىۡءٍ مُّقِيۡتًا ۞

ترجمہ:

جو کسی اچھی بات کے حق میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور جو اس کی مخالفت میں کہے گا اس کے لیے اس میں سے حصہ ہے اور اللہ ہر چیز کی طاقت رکھنے والا ہے

القرآن - سورۃ نمبر 4 النساء، آیت نمبر 85

احکام القرآن 

خُذِ الۡعَفۡوَ وَاۡمُرۡ بِالۡعُرۡفِ وَاَعۡرِضۡ عَنِ الۡجٰهِلِيۡنَ ⊙

در گزر اختیار کر اور نیکی کا حکم دے اور جاہلوں سے کنارہ کر

Hold to forgiveness, enjoin good and turn aside from the ignorant

(القرآن - سورۃ نمبر 7 الأعراف, آیت نمبر 199 )

https://bit.ly/AhkamAlQuran

احکام القرآن 

https://bit.ly/AhkamAlQuran

 وَلَا تَقْفُ مَا لَيْسَ لَكَ بِهِ عِلْمٌ ۚ 

اور اس کے پیچھے نہ پڑو جس کا تمہیں علم (معلومات) نہ ہو (قران17:36 )

وَفَوۡقَ كُلِّ ذِىۡ عِلۡمٍ عَلِيۡمٌ (القرآن12:76)

 اور ہر صاحب علم کے اوپر کوئی اور

صاحب علم بھی ہے

Above every man of knowledge, there is someone more knowledgeable.

SalaamOne.com


اللہ کا پیغمبروں سے لیا گیا میثاق (عہد)

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 0 بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

وَاِذۡ اَخَذۡنَا مِنَ النَّبِيّٖنَ مِيۡثَاقَهُمۡ وَمِنۡكَ وَمِنۡ نُّوۡحٍ وَّاِبۡرٰهِيۡمَ وَمُوۡسٰى وَعِيۡسَى ابۡنِ مَرۡيَمَۖ وَاَخَذۡنَا مِنۡهُمۡ مِّيۡثاقًا غَلِيۡظًا ۞

ترجمہ:

اور (اے نؐبی)یاد رکھو  اُس عہد وپیمان کو جو ہم نے سب پیغمبروں سے لیا ہے، تم سے بھی اور اور نوحؑ اور ابراھیمؑ اور موسیٰؑ اور عیسیٰؑ ابن مریم سے بھی۔ سب سے ہم پختہ عہد لے چکے ہیں۔ (سورۃ نمبر 33 الأحزاب, آیت نمبر 7)

تفسیر:

یہاں یہ نکتہ خصوصی طور پر لائق ِتوجہ ہے کہ اگر کوئی شخص ارواح کے علیحدہ وجود کا منکر ہو اور یہ بھی تسلیم کرنے کے لیے تیار نہ ہو کہ بنی نوع انسان کی تمام ارواح پہلے پیدا کردی گئی تھیں تو اس کے لیے اس آیت میں مذکور میثاق کی توجیہہ کرنا کسی طرح بھی ممکن نہیں۔ بہر حال قرآن میں واضح طور پر بتایا گیا ہے کہ ارواح سے دو عہد لیے گئے۔ ان میں سے ایک عہد کا ذکر سورة الاعراف کی آیت 172 میں ہے ‘ جسے ”عہد ِالست“ کہا جاتا ہے اور یہ عہد بلا تخصیص تمام انسانی ارواح سے لیا گیا تھا۔

وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚ ۛ شَہِدۡنَا ۚ ۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ ﴿۱۷۲﴾ۙ

"اور جب آپ کے رب نے اولاد آدم کی پشت سے ان کی اولاد کو نکالا اور ان سے ان ہی کے متعلق اقرار لیا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ سب نے جواب دیا کیوں نہیں! ہم سب گواہ بنتے ہیں ۔ تاکہ تم لوگ قیامت کے روز یوں نہ کہو کہ ہم تو اس سے محض بے خبر تھے " (قرآن :7:172)

یہ واقعہ عالم ارواح میں وقوع پذیر ہوا تھا جبکہ انسانی جسم ابھی پیدا بھی نہیں ہوئے تھے۔ اہل عرب جو اس وقت قرآن کے مخاطب تھے ان کی اس وقت کی ذہنی استعداد کے مطابق یہ ثقیل مضمون تھا۔ ایک صورت تو یہ تھی کہ انہیں پہلے تفصیل سے بتایا جاتا کہ انسانوں کی پہلی تخلیق عالم ارواح میں ہوئی تھی اور دنیا میں طبعی اجسام کے ساتھ یہ دوسری تخلیق ہے اور پھر بتایا جاتا کہ یہ میثاق عالم ارواح میں لیا گیا تھا۔ لیکن اس کے بجائے اس مضمون کو آسان پیرائے میں بیان کرنے کے لیے عام فہم الفاظ عام فہم انداز میں استعمال کیے گئے کہ جب ہم نے نسل آدم کی تمام ذریت کو ان کی پیٹھوں سے نکال لیا۔ یعنی قیامت تک اس دنیا میں جتنے بھی انسان آنے والے تھے ‘ ان سب کی ارواح وہاں موجود تھیں۔ (وَاَشْہَدَہُمْ عَلٰٓی اَنْفُسِہِمْ ج اَلَسْتُ بِرَبِّکُمْ ط) یعنی پوری طرح ہوش و حواس اور خود شعوری (self consciousness) کے ساتھ یہ اقرار ہوا تھا۔ ا

انسان کی خود شعوری (self consciousness) ہی اسے حیوانات سے ممتاز کرتی ہے جن میں شعور (conscious) تو ہوتا ہے لیکن خود شعوری نہیں ہوتی۔ انسان کی اس خود شعوری کا تعلق اس کی روح سے ہے جو اللہ تعالیٰ نے بطور خاص صرف انسان میں پھونکی ہے۔ چناچہ جب یہ عہد لیا گیا تو وہاں تمام ارواح موجود تھیں اور انہیں اپنی ذات کا پورا شعور تھا۔ اللہ تعالیٰ نے تمام ارواح انسانیہ سے یہ سوال کیا کہ کیا میں تمہارا رب ‘ تمہارا مالک ‘ تمہارا آقا نہیں ہوں ؟ (قَالُوْا بَلٰی ج شَہِدْنَا ج) تمام ارواح نے یہی جواب دیا کہ تو ہی ہمارا رب ہے ‘ ہم اقرار کرتے ہیں ‘ ہم اس پر گواہ ہیں۔

یہ اقرار تمام انسانوں پر اللہ کی طرف سے حجت ہے۔ جیسے کہ سورة المائدۃ کی آیت ١٩ میں آچکا ہے : اے اہل کتاب ! تمہارے پاس آچکا ہے ہمارا رسول جو تمہارے لیے (دین کو) واضح کر رہا ہے ‘ رسولوں کے ایک وقفے کے بعد ‘ مبادا تم یہ کہو کہ ہمارے پاس تو آیا ہی نہیں تھا کوئی بشارت دینے والا اور نہ کوئی خبردار کرنے والا۔ تو یہ گویا اتمام حجت تھی اہل کتاب پر۔

اسی طرح سورة الانعام کی آیت ١٥٦ میں فرمایا : مبادا تم یہ کہو کہ کتابیں تو دی گئی تھیں ہم سے پہلے دو گروہوں کو اور ہم تو ان کتابوں کو (غیر زبان ہونے کی وجہ سے) پڑھ بھی نہیں سکتے تھے۔ تو یہ اتمام حجت کیا گیا بنی اسماعیل پر کہ اب تمہارے لیے ہم نے اپنا ایک رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) تم ہی میں سے بھیج دیا ہے اور وہ تمہارے لیے ایک کتاب لے کر آیا ہے جو تمہاری اپنی زبان ہی میں ہے۔ لہٰذا اب تم یہ نہیں کہہ سکتے کہ اللہ نے اپنی کتابیں تو ہم سے پہلے والی امتوں پر نازل کی تھیں ‘ اور یہ کہ اگر ہم پر بھی کوئی ایسی کتاب نازل ہوتی تو ہم ان سے کہیں بڑھ کر ہدایت یافتہ ہوتے۔ آیت زیر نظر میں جس گواہی کا ذکر ہے وہ پوری نوع انسانی کے لیے حجت ہے۔ یہ عہد ہر روح نسانی اللہ سے کر کے دنیا میں آئی ہے اور اخروی مواخذے کی اصل بنیاد یہی گواہی فراہم کرتی ہے۔ نبوت ‘ وحی اور الہامی کتب کے ذریعے جو اتمام حجت کیا گیا ‘ وہ تاکید مزید اور تکرار کے لیے اور لوگوں کے امتحان کو مزید آسان کرنے کے لیے کیا گیا۔ لیکن حقیقت میں اگر کوئی ہدایت بذریعہ نبوت ‘ وحی وغیرہ نہ بھی آتی تو روز محشر کے عظیم محاسبہ (accountability) کے لیے عالم ارواح میں لیا جانے والا یہ عہد ہی کافی تھا جس کا احساس اور شعور ہر انسان کی فطرت میں سمو دیا گیا ہے۔(بیان القرآن ، ڈاکٹر اسرار احمد )

 دوسرے عہد کا ذکر آیت زیر مطالعہ اور سورة آل عمران کی آیت 81 میں ہے جو صرف انبیاء کی ارواح سے اضافی طور پر لیا گیا تھا۔ اس عہد میں روح محمد علیٰ صاحبہا الصلوٰۃ والسلام بھی موجود تھی اور دوسرے تمام انبیاء کرام علیہم السلام کی ارواح بھی۔ جو لوگ ارواح کے علیحدہ وجود کو تسلیم نہیں کرتے ان کا کہنا ہے کہ عہد کا یہ ذکر استعا راتی انداز میں ہوا ہے۔ لیکن اگر ان کا یہ موقف تسلیم کرلیا جائے تو پھر قرآن کے تمام احکام ہی استعارہ بن کر رہ جائیں گے اور حقیقت ان استعاروں میں گم ہوجائے گی۔ (بیان القرآن، مفسر: ڈاکٹر اسرار احمد)

اس آیت میں اللہ تعالیٰ نبی ﷺ کو یہ بات یاد دلاتا ہے کہ تمام انبیاء (علیہم السلام) کی طرح آپ سے بھی اللہ تعالیٰ ایک پختہ عہد لے چکا ہے جس کی آپ کو سختی کے ساتھ پابندی کرنی چاہیے۔

اس عہد سے کونسا عہد مراد ہے ؟

اوپر سے جو سلسلۂ کلام چلا آر ہا ہے اس پر غور کرنے سے صاف معلوم ہوجاتا ہے کہ اس سے مراد یہ عہد ہے کہ پیغمبر اللہ تعالیٰ کے ہر حکم کی خود اطاعت کرے گا اور دوسروں سے کرائے گا، اللہ کی باتوں کو بےکم وکاست پہنچائے گا اور انہیں عملاً نافذ کرنے کی سعی و جہد میں کوئی دریغ نہ کرے گا۔ قرآن مجید میں اس عہد کا ذکر متعدد مقامات پر کیا گیا ہے۔ مثلاً :

شَرَعَ لَکُمْ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہ نُوْحاً وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَآ اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوا الدِّیْنَ وَلَا تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ۔ ط (الشُورٰی۔ آیت 13)

اللہ تعالیٰ نے مقرر کردیا تمہارے لیے وہ دین جس کی ہدایت کی تھی اس نے نوح ؑ کو، اور جس کی وحی کی گئی (اے محمد) تمہاری طرف، اور جس کی ہدایت کی گئی ابراہیم ؑ اور موسیٰ ؑ اور عیسیٰ ؑ کو۔ اس تاکید کے ساتھ کہ تم لوگ قائم کرو اس دین کو اور اس میں تفرقہ نہ کرو۔

وَاِذْ اَخَذَ اللہُ مِیْثَاقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ لَتُبَیِّنُنَّہٗ للنَّاسِ وَلَا تَکْتُمُوْنَہٗ۔ ق (آل عمران۔ 187)

اور یاد کرو اس بات کو کہ اللہ نے عہد لیا تھا ان لوگوں سے جن کو کتاب دی گئی تھی کہ تم لوگ اس کی تعلیم کو بیان کرو گے اور اسے چھپاؤ گے نہیں۔

وَ اِذْ اَخَذْنَا مِیْثَاقَ بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ لَا تَعْبُدُوْنَ اِلَّا اللہَ۔ (البقرہ۔ 83)

اور یاد کرو کہ ہم نے بنی اسرائیل سے عہد لیا تھا کہ تم اللہ کے سوا کسی کی بندگی نہ کرو گے۔

اَلَمْ یُؤْخَذْ عَلَیْھِمْ مِّیْثَاقُ الْکِتٰبِ۔۔۔۔۔ خُذُوْا مَٓا اٰتَیْنٰکُمْ بِقُوَّۃٍ وَّاذْکُرُوْا مَا فِیْہِ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ۔۔ (الاعراف۔ آیات 169۔ 171)

کیا ان سے کتاب کا عہد نہیں لیا گیا تھا ؟۔۔۔ مضبوطی کے ساتھ تھامو اس چیز کو جو ہم نے تمہیں دی ہے اور یاد رکھو اس ہدایت کو جو اس میں ہے۔ توقع ہے کہ تم اللہ کی نافرمانی سے بچتے رہو گے۔

وَاذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللہِ عَلَیْکُمْ وَمِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہ۔ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَاَطَعْنَا۔۔۔ (المائدہ۔ 7)

اور اے مسلمانو ! یاد رکھو اللہ کے اس احسان کو جو اس نے تم پر کیا ہے اور اس عہد کو جو اس نے تم سے لیا ہے جبکہ تم نے کہا " ہم نے سنا اور اطاعت کی۔ "

اللہ تعالیٰ حضور ﷺ سے فرما رہا ہے کہ تم ہمارے مقرر کیے ہوئے پیغمبر ہو، تمام پیغمبروں کی طرح تم سے بھی ہمارا یہ پختہ معاہدہ ہے کہ جو کچھ بھی حکم ہم دیں گے اس کو خود بجا لاؤ گے اور دوسروں کو اس کی پیروی کا حکم دو گے، لہٰذا تم کسی کے طعن وتشنیع کی پروا نہ کرو، کسی سے شرم اور خوف نہ کرو، اور خدمت ہم تم سے لینا چاہتے ہیں اسے بلا تأمّل انجام دو۔

ایک گروہ اس میثاق سے وہ میثاق مراد لیتا ہے جو نبی ﷺ سے پہلے کے تمام انبیاء اور ان کی امتوں سے اس بات کے لیے لیا گیا تھا کہ وہ بعد کے آنے والے نبی پر ایمان لائیں گے اور اس کا ساتھ دیں گے۔

اس تاویل کی بنیاد پر اس گروہ کا دعویٰ یہ ہے کہ نبی ﷺ کے بعد بھی نبوت کا دروازہ کھلا ہوا ہے اور حضور ﷺ سے بھی یہ میثاق لیا گیا ہے کہ آپ کے بعد جو نبی آئے آپ ﷺ کی امت اس پر ایمان لائے گی۔ لیکن آیت کا سیاق وسباق صاف بتارہا ہے کہ یہ تاویل بالکل غلط ہے۔ جس سلسلۂ کلام میں یہ آیت آئی ہے اس میں یہ کہنے کا سرے سے کوئی موقع ہی نہیں ہے کہ آپ ﷺ کے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور آپ کی امت کو ان پر ایمان لانا چاہیے۔ یہ مفہوم اس کا لیا جائے تو یہ آیت یہاں بالکل بےمحل ہوجاتی ہے۔ علاوہ بریں آیت کے الفاظ میں کوئی صراحت ایسی نہیں ہے جس سے یہ ظاہر ہوتا ہو کہ یہاں میثاق سے کونسا میثاق مراد ہے۔

لامحالہ اس کی نوعیت معلوم کرنے کے لیے ہم کو قرآن مجید کے دوسرے مقامات کی طرف رجوع کرنا ہوگا جہاں انبیاء سے لیے ہوئے مواثیق کا ذکر کیا گیا ہے۔ اب اگر سارے قرآن میں صرف ایک ہی میثاق کا ذکر ہوتا اور وہ بعد کے آنے والے انبیاء پر ایمان لانے کے بارے میں ہوتا تو یہ خیال کرنا درست ہوتا کہ یہاں بھی میثاق سے مراد ہی میثاق ہے۔ لیکن قرآن پاک کو جس شخص نے بھی آنکھیں کھول کر پڑھا ہے وہ جانتا ہے کہ اس کتاب میں بہت سے میثاقوں کا ذکر ہے جو انبیاء (علیہم السلام) اور ان کی امتوں سے لیے گئے ہیں۔ لہٰذا ان مختلف مواثیق میں سے وہ میثاق یہاں مراد لینا صحیح ہوگا جو اس سیاق وسباق سے مناسبت رکھتا ہو، نہ کہ وہ میثاق جس کے ذکر کا یہاں کوئی موقع نہ ہو۔ اسی طرح کی غلط تاویلوں سے یہ بات کھل جاتی ہے کہ بعض لوگ قرآن سے ہدایت لینے نہیں بیٹھتے بلکہ اسے ہدایت دینے بیٹھ جاتے ہیں۔(تفہیم القرآن, مفسر: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

https://bit.ly/AhkamAlQuraan

روح کی حقیقت

روح سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر و شعور اور عقل وتمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقات ارضی سے ممتاز ایک صاحب شخصیت ہستی، صاحب انا ہستی، اور حامل خلافت ہستی بنتا ہے۔ اس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح یا تو اس معنی میں فرمایا ہے کہ وہ اسی کی ملک ہے اور اس کی ذات پاک کی طرف اس کا انتساب اسی طرح کا ہے جس طرح ایک چیز اپنے مالک کی طرف منسوب ہو کر اس کی چیز کہلاتی۔ یا پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ انسان کے اندر علم، فکر، شعور، ارادہ، فیصلہ، اختیار اور ایسے ہی دوسرے جو اوصاف پیدا ہوئے ہیں وہ سب اللہ تعالیٰ کی صفات کے پر تو ہیں۔ ان کا سر چشمہ مادے کی کوئی ترکیب نہیں ہے بلکہ اللہ تعالیٰ کی ذات ہے۔ اللہ کے علم سے اس کو علم ملا ہے، اللہ کی حکمت سے اس کی دانائی ملی ہے، اللہ کے اختیار سے اس کو اختیار ملا ہے۔ یہ اوصاف کسی بےعلم، بےدانش اور بےاختیار ماخذ سے انسان کے اندر نہیں آئے ہیں۔

انسان کے اندر جو روح پھونکی گئی ہے وہ دراصل صفات الہٰی کا ایک عکس یا پرتو ہے۔ حیات، علم، قدرت، ارادہ، اختیار اور دوسری جتنی صفات انسان میں پائی جاتی ہیں، جن کے مجموعہ کا نام روح ہے، یہ دراصل اللہ تعالیٰ ہی کی صفات کا ایک ہلکا سا پرتو ہے جو اس کا لبد خاکی پر ڈالا گیا ہے، اور اسی پرتو کی وجہ سے انسان زمین پر خدا کا خلیفہ اور ملائکہ سمیت تمام موجودات ارضی کا مسجود قرار پایا ہے۔

ثُمَّ سَوّٰٮهُ وَنَفَخَ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِهٖ‌ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَ وَالۡاَفۡــئِدَةَ ‌ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَشۡكُرُوۡنَ ۞

ترجمہ:

پھر اُس کو نِک سُک سے درست کیا  اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی  ، اور تم کو کان دیے ، آنکھیں دیں اور دل دیے ۔ تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو۔ (سورۃ نمبر 32 السجدة, آیت نمبر 9)

فَاِذَا سَوَّيۡتُهٗ وَنَفَخۡتُ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِىۡ فَقَعُوۡا لَهٗ سٰجِدِيۡنَ ۞

ترجمہ:جب میں اُسے پُورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اُس کے آگے سجدے میں گِر جانا۔“(سورۃ نمبر 15 الحجر, آیت نمبر 29)

یوں تو ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے، اس کا مصدر و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی کوئی نہ کوئی صفت ہے۔

مگر جو چیز انسان کی دوسری مخلوقات پر فضیلت دیتی ہے وہ یہ ہے کہ جس جامعیت کے ساتھ اللہ کی صفات کا پرتو اس پر ڈالا گیا ہے اس سے کوئی دوسری مخلوق سرفراز نہیں کی گئی۔

https://www.facebook.com/QuranSubject

رسول اللہ ﷺ پر بہتان تراشی  گہری سازش : https://bit.ly/Bohtan

احکام القرآن : https://bit.ly/AhkamAlQuraan

یہ ایک ایسا باریک مضمون ہے جس کے سمجھنے میں ذرا سی غلطی بھی آدمی کر جائے تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ صفات الہٰی میں سے ایک حصہ پانا الوہیت کا کوئی جز پالینے کا ہم معنی ہے۔ حالانکہ الوہیت اس سے وراء الوراء ہے کہ کوئی مخلوق اس کا ایک ادنیٰ شائبہ بھی پا سکے۔

 یعنی انتہائی باریک خورد بینی وجود سے بڑھا کر اسے پوری انسانی شکل تک پہنچایا اور اس کا جسم سارے اعضاء وجوارح کے ساتھ مکمل کردیا۔

یہ ایک لطیف انداز بیان ہے۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان کا سارا ذکر صیغۂ غائب میں کیا جاتا رہا۔ " اس کی تخلیق کی "، " اس کی نسل چلائی "، " اس کو نِک سک سے درست کیا "، " اس کے اندر روح پھونکی "۔ اس لیے اس وقت تک وہ خطاب کے لائق نہ تھا۔ پھر جب روح پھونک دی گئی تو اب اس سے فرمایا جا رہا ہے کہ " تم کو کان9 دیے "، " تم کو آنکھیں دیں "، " تم کو دل دیے " اس لیے کہ حامل روح ہوجانے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوا کہ اسے مخاطب کیا جائے۔

کان اور آنکھوں سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا ہے۔ اگرچہ حصول علم کے ذرائع ذائقہ اور لامسہ اور شامہ بھی ہیں، لیکن سماعت و بینائی تمام دوسرے حواس سے زیادہ بڑے اور اہم ذرائع ہیں، اس لیے قرآن جگہ جگہ انہی دو کو خدا کے نمایاں عطیوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد " دل " سے مراد وہ ذہن (Mind) ہے جو حواس کے ذریعہ سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف امکانی راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرتا اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔

 یعنی یہ عظیم القدر انسانی روح اتنے بلند پایہ اوصاف کے ساتھ تم کو اس لیے تو عطا نہیں کی گئی تھی کہ تم دنیا میں جانوروں کی طرح رہو اور اپنے لیے بس وہی زندگی کا نقشہ بنا لو جو کوئی حیوان بنا سکتا ہے۔ یہ آنکھیں تمہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کے لیے دی گئی تھیں نہ کہ اندھے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ کان تمہیں گوش ہوش سے سننے کے لیے دیے گئے تھے نہ کہ بہرے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ دل تمہیں اس لیے دیے گئے تھے کہ حقیقت کو سمجھو اور صحیح راہ فکر و عمل اختیار کرو، نہ اس لیے کہ اپنی ساری صلاحیتیں صرف اپنی حیوانیت کی پرورش کے وسائل فراہم کرنے میں صرف کردو، اور اس سے کچھ اونچے اٹھو تو اپنے خالق سے بغاوت کے فلسفے اور پروگرام بنانے لگو۔ یہ بیش قیمت نعمتیں خدا سے پانے کے بعد جب تم دہریت یا شرک اختیار کرتے ہو، جب تم خود خدا یا دوسرے خداؤں کے بندے بنتے ہو، جب تم خواہشات کے غلام بن کر جسم و نفس کی لذتوں میں غرق ہوجاتے ہو، تو گویا اپنے خدا سے یہ کہتے ہو کہ ہم ان نعمتوں کے لائق نہ تھے، ہمیں انسان بنانے کے بنائے تجھے ایک بندر، یا ایک بھیڑیا، یا ایک مگر مچھ یا ایک کوا بنانا چاہیے تھا.

(تفہیم القرآن, مفسر: مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)

https://www.facebook.com/QuranSubject

رسول اللہ ﷺ پر بہتان تراشی  گہری سازش : https://bit.ly/Bohtan

احکام القرآن : https://bit.ly/AhkamAlQuraan

کفار سے موالات(قلبی محبت) ممنوع الا یہ کہ ان کے ظلم سے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو

أَعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ 0بِسْمِ اللّٰهِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِيْمِ

لَا يَتَّخِذِ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ الۡكٰفِرِيۡنَ اَوۡلِيَآءَ مِنۡ دُوۡنِ الۡمُؤۡمِنِيۡنَ‌ۚ وَمَنۡ يَّفۡعَلۡ ذٰ لِكَ فَلَيۡسَ مِنَ اللّٰهِ فِىۡ شَىۡءٍ اِلَّاۤ اَنۡ تَتَّقُوۡا مِنۡهُمۡ تُقٰٮةً  ؕ وَيُحَذِّرُكُمُ اللّٰهُ نَفۡسَهٗ‌ ؕوَاِلَى اللّٰهِ الۡمَصِيۡرُ ۞

ترجمہ:

مومن لوگ مسلمانوں کو چھوڑ کر کافروں کو اپنا یارومددگار نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا اس کا اللہ سے کوئی تعلق نہیں، الا یہ کہ تم ان (کے ظلم) سے بچنے کے لیے بچاؤ کا کوئی طریقہ اختیار کرو، (9) اور اللہ تمہیں اپنے (عذاب) سے بچاتا ہے، اور اسی کی طرف (سب کو) لوٹ کر جانا ہے۔

(سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 28)

تفسیر:

”یار و مددگارـ“ عربی لفظ ”ولی“ کا ترجمہ کیا گیا ہے۔ ”ولی“ بنانے کو ”موالات“ بھی کہا جاتا ہے۔ اس سے مراد ایسی دوستی اور قلبی محبت کا تعلق ہے جس کے نتیجے میں دو آدمیوں کا مقصد زندگی اور ان کا نفع و نقصان ایک ہوجائے۔ اس قسم کا تعلق مسلمان کا صرف مسلمان ہی سے ہوسکتا ہے اور کسی غیر مسلم سے ایسا تعلق رکھنا سخت گناہ ہے اور اس آیت میں اسے سختی سے منع کیا گیا ہے، یہی حکم سورة نساء (4: 139) سورة مائدہ (5: 51) سورة توبہ (9: 23) سورة مجادلہ (28: 22) اور سورة ممتحنہ (60:1) میں بھی دیا گیا ہے، البتہ جو غیر مسلم جنگ کی حالت میں نہ ہوں ان کے ساتھ حسن سلوک، رواداری اور خیر خواہی کا معاملہ نہ صرف جائز بلکہ مطلوب ہے، جیسا کے خود قرآن کریم نے سورة ممتحنہ (60:8) میں واضح فرمادیا ہے اور آنحضرت ﷺ کی سنت پوری حیات طیبہ میں یہ رہی ہے کہ آپ نے ہمیشہ ایسے لوگوں کے ساتھ احسان کا معاملہ فرمایا، اسی طرح ان کے ساتھ سیاسی اوراقتصادی تعاون کے وہ معاہدہ اور تجارتی معاملات بھی کئے جاسکتے ہیں جن کو آج کل کی سیاسی اصطلاح میں دوستی کے معاہدے کہا جاتا ہے، بشرطیکہ یہ معاہدے یا معاملات اسلام اور مسلمانوں کی مصلحت کے خلاف نہ ہوں اور ان میں کسی خلاف شرع عمل کا ارتکاب لازم نہ آئے، چنانچہ خود آنحضرت ﷺ نے اور آپ کے بعد صحابہ کرام نے ایسے معاہدات اور معاملات کیے ہیں، غیر مسلموں کے ساتھ موالات کی ممانعت کرنے کے بعد قرآن کریم نے جو فرمایا ہے کہ : الا یہ کہ تم ان کے ظلم سے بچنے کے لئے بچاؤ کا کوئی طریقہ احتیار کرو، اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر کفار کے ظلم وتشدد سے بچاؤ کے لئے کوئی ایسا طریقہ اختیار کرنا پڑے جس سے بظاہرموالات معلوم ہوتی ہو تو اس کی گنجائش ہے۔( آسان قرآن، مفسر: مفتی محمد تقی عثمانی)

https://www.facebook.com/QuranSubject


آیات قرآن اور احادیث شئیر کرنے سے پہلے

سوشل میڈیا پرآیات قرآن اور احادیث شئیر کی جاتی ہیں، بغیر سوچے سمجھے فارورڈ بھی کرنا عام ہے، تاکہ امر بالمعروف و نہی عن المنکر"  نیکی کی ترغیب اور برائی سے دور رہنے اور دعوة  کا فریضہ ادا ہو- یہ ایک اہم ذمہ داری کا کم  ہے جس کو عمومی طور سیریس نہیں لیا جاتا- بغیر تحقیق کے ہر چیز فارورڈ کر دی جاتی ہے، یہ فارورڈ کرنے والے کی ذمہ داری ہے کہ وہ جو کچھ  شئیر کر رہا ہے سو فیصد درست ہو-

"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو (49:6)[69]

 شئیر کرنے سے پہلے کچھ تحقیق ضروری ہے، پہلے مذکور موضوع پر تمام آیات قرآن کو چیک کریں اکثر صرف ایک آیت سے مکمل معنی معلوم نہیں ہوتے کیونکہ اکثر دوسری آیات اس کی تفسیر کرتی ہیں جس سے مکمل مفھوم سمجھ آتا ہے- یہ تب آہی ممکن ہے اگر آپ نے قرآن کو سمجھ کر پڑھا ہوا ہے اور اچھی طرح (Comprehend) کر رکھا ہے- کسی کو آدھا یا نامکمل پیغام ھدایت، صراط مستقیم کی بجایے گمراہی کی طرف لے جا سکتا ہے اور جتنے لوگ گمراہ ہوں گے ان کا گناہ آپ کے اوپربھی ہو گا- قرآن میں "محکمات" اور "متشابھات" آیات ہیں،  "محکمات"، واضح ترین آیات کا صرف ایک مطلب ہوتا ہے جبکہ دوسری قسم کی آیات کے گئی مطلب ہو سکتے ہیں اصل مطلب صرف الله تعالی کو معلوم ہے- ان چکروں میں پڑنے کی بجایے صرف واضح محکمات آیات جن پر کوئی اختلاف نہیں ان کو  شئیر کریں- “محکمات آیات”[70] کی تفصیل قرآن سورہ آل عمران کی  (3:7) میں کر دی گیی ہے-

پڑھیں : شاه کلید قرآن:  Master Key Quran 3:7

قرآن و سنت میں کچھ احکامات فوری طور پر نافذالعمل ہو گے اور کچھ آہستہ آہستہ لوگوں کوذہنی اور جسمانی طور پر تیار کرنے کے بعد مکمل طور پر نافذ ہو گۓ- ایک مثال نشے کی ممانعت کے احکام کی ہے، ابتدا میں :

1.) پوچھتے ہیں: شراب اور جوئے کا کیا حکم ہے؟ کہو: ان دونوں چیزوں میں بڑی خرابی ہے اگرچہ ان میں لوگوں کے لیے کچھ منافع بھی ہیں، مگر ان کا گناہ اُن کے فائدے سے بہت زیادہ ہے  (2:219)[71]

2.)"اے ایمان والو ! نشے کی حالت میں نماز کے قریب تک نہ جاؤ تاآنکہ تمہیں یہ معلوم ہوسکے کہ تم نماز میں کہہ کیا رہے ہو" (4:43)[72]

3). اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ شراب اور جوا اور یہ آستانے اور پانسے، یہ سب گندے شیطانی کام ہیں، ان سے پرہیز کرو، امید ہے کہ تمہیں فلاح نصیب ہوگی - شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوئے کے ذریعہ سے تمہارے درمیان عداوت اور بغض ڈال دے اور تمہیں خدا کی یاد سے اور نماز سے روک دے پھر کیا تم ان چیزوں سے باز رہو گے؟ (5:90,91)[73]

پہلے شراب اور جوا کے نقصانات پر زور دیا گیا پھر دوسرے مرحلے میں صرف نماز کے وقت کے قریب شراب نوشی سے منع کیا گیا۔ بالکل ممانعت اور حرمت کا حکم اس کے بعد نازل ہوا-

اگر کوئی صرف پہلی دو آیات  شئیر کرتا ہے تو وہ لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے ، جو چیز حرام ہو چکی ہے اسے حلال کے طور پر پیش کر رہا ہے- کچھ شرابی یہ دلیل بھی پیش کرتے ہیں کہ ہم تو تھوڑی شراب پیتے ہیں جس سے ہم کو نشہ نہی ہوتا اور ہم کو سب معلوم ہوتا ہے کہ کیا کر رہے ہیں- لیکن جب تیسری مرتبہ قرآن نے (5:90,91)[74] شراب اور جوا سب گندے شیطانی کام قرار دیے. ان سے پرہیز، باز رہنے کا حکم نافذ ہو گیا تو فضول بحث کی گنجائش ختم ہو گیی- اب اس موضوع پریا تو تینوں آیات یا صرف آخری حکم  شئیر  کرنا چاہیے-  

اسی طرح سے احادیث کو بھی  رسول اللہ ﷺ کی طرف سے ہدایات کی بنیاد پر اصولوں[75] پر چیک کرنا شیرکرنے والے کی ذمہ داری ہے- حدیث کی کتب میں  ہر طرح کی ہزاروں ملتی جلتی اور متضاد احادیث سے بھری پڑی ہیں- کون سی حدیث شروع میں نافذ تھی پھر منسوخ ہے اور کون سی نافزالعمل یہ  معلوم کرنا ضروری ہے،دو مثالیں :

1.خواتین کا زیارت قبرستان

اسلام کے ابتدائی دور میں جبکہ عورتوں کی تربیت اسلامی خطوط پر نہیں ہوئی تھی وہ قبروں پر جا کر بین کرتیں، بال نوچتیں اور پیٹتی تھیں۔ لہٰذا خواتین کا قبرستان جانا ممنوع تھا :

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے (لعن زوارات القبور) قبروں کی کثرت سے زیارت کرنے والیوں پر لعنت فرمائی۔ زوارات مبالغہ کا صیغہ ہے یعنی بہت زیادہ قبروں پر جانے والیوں پر ۔جس طرح نماز، روزہ، اور باقی عبادات میں مبالغہ آمیزی جائز نہیں، زیارت قبور میں بھی حد اعتدال کاحکم ہے۔ امام ترمذی نے اس کے متعلق فرمایا:

’’بعض اہل علم کے خیال میں یہ (لعنت) حضورنبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی عورتوں کو زیارت قبور کی اجازت سے پہلے تھی۔ جب آپ نے رخصت دی تو آپ کی رخصت میں مرد اور عورتیں سب شامل ہیں اور بعض علماء نے کہا کہ عورتوں کی زیارت قبور اس لئے مکروہ ہے کہ ان میں صبر کم اور بے صبری زیادہ ہوتی ہے۔‘

(ترمذی، السنن، کتاب الجنائز باب ماجاء فی کراهية زيارة القبور للنساء، 3: 372، الرقم: 1056)

 لیکن اسلامی تعلیم و تربیت کے بعد ان کے قول و عمل میں صحیح انقلاب آیا، تو شارع علیہ السلام نے مردوں کی طرح عورتوں کو بھی زیارت قبور کی اجازت عنایت فرمائی۔ آج بھی کوئی عورت یا مرد دورِ جاہلیت کی طرح قبروں پر جا کر غیر شرعی حرکات کرے تو اس کے لئے ممانعت ہے، ورنہ اجازت ہے۔

 آقائے کریم کا فرمان ہے: (نهيتکم عن زيارت القبور فزوروها) ’’میں نے تم کو قبروں کی زیارت سے منع کیا تھا۔ اب ان کی زیارت کیا کرو۔‘‘ (مسلم، الصحيح، کتاب الجنائز، باب استيذان النبی صلی الله عليه وآله وسلم ربه قبر امه، 2 : 672، الرقم: 977)[76]

لیکن کچھ حضرات اجازت کو نہیں تسلیم کرتے اور لعنت والی حدیث پر کھڑے ہیں[77]، اسی طرح فرقہ بازی اور اختلافات ، نفاق بڑھتا ہے-  اب ان دونوں میں سے اگر کوئی بھی ایک حدیث  شئیر کر رہا ہے تو مخالف گروہ کہیں گے کہ  گمراہی پھیلا رہا ہے- احقرںے خود ایک جمعہ کے خطبہ میں خطیب صاحب کو پہلے ممانعت والی حدیث سنا کر نمازیوں کو گمراہ کرتے سنا- اگر علماء کا یہ حال ہے تو ایک عام مومن کا کیا حال ہو گا-

2.وعدہ وعید کی احادیث

اسی طرح سے ایسی احادیث جن میں بہت معمولی نیکی یا عبادت پر لا تعداد ثواب یا کسی معمولی غلطی پر دوزخ کے عذاب کی وعید بیان ہوتی ہے اہے ان کو "وعدہ و وعید" کی احادیث کہتے جن پر بہت علماء کا نظریہ ہے کہ وہ اسلام کے ابتدائی دور کی احادیث ہیں جو بعد میں "احکام شریعت" سے منسوخ ہو چکی ہیں(الفریونی)

"احکام شریعت" پر عمل سنت  رسول اللہ ﷺ اور سنت صحابہ سے متواتر ثابت ہے جس پر نسل در نسل آج تک سختی سے عمل ہو رہا ہے. ورنہ کلمہ تو سب ہی پڑھتے ہیں، اگر اسی سے جنت لازم ہے تو پھر صَلَاة‎  ، روزہ . زکاۃ . حج  اور باقی شریعت پر عمل کی کیا ضرورت؟ اس طرح سے تو قرآن و سنت کی تعلمیات منسوخ ہو جاتی ہیں؟

پڑھیں : صرف لاالہ الا اللہ پر جنت؟ [ محمد رسول اللهﷺ  بھی کہے بغیر ؟]

" یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (القرآن 8:22)[78]

بہتر ہے کہ ایسے  متنازعہ موضوعات پر عام مسلمان مہم جوئی کرنے کی بجایے صرف "محکمات" آیات قرآن اور "محکمات احادیث"  پر توجہ دینی چاہیے- متنازعہ معاملات وعلماء کے قیل و قال اور مباحثوں کے لیے چھوڑ دیں-

 رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے پر جہنم کی آگ

کون سچا کون جھوٹا ہم کو نہیں معلوم ، مگر یہ معلوم ہے کہ : رسول اللہ ﷺ پر جھوٹ باندھنے پر جہنم کی آگ:

حضرت علی نے دوران خطبہ بیان کیا کہ: رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھ پر جھوٹ مت باندھو جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ (صحیح مسلم, :حدیث نمبر: 2)

یہ اہم ترین حدیث ، متواتر ہے ، جسے 62 را ویوں نے رپورٹ کیا ہے- یہ بہت بڑا گناہ بلکہ گناہ کبرہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر جھوٹ بیان کرنا ، (جان بوجھ کر) آپ کو یقینی طور پر یہ معلوم نہ ہوگا کہ یہ حدیث جھوٹی ہے[79]

ہمیں چاہئیے کہ کسی حدیث  یا قرانی آیات کو تحقیق کے بغیر شئیر نہ کریں کہیں ثواب کی بجائیے گناہ میں نہ پکڑ یو:

مَن سُءِلَ عَنْ عِلْمٍ عَلِمَہٗ ثُمَّ کَتَمَہُ اُلْجِمَ یَوْمَ الْقِیَامَۃِ بِلِجَامٍ مِّنْ نَّارٍ

*”جس شخص سے علم کی کوئی بات پوچھی گئی، جسے وہ جانتا ہے، پھر اس نے اسے چھپایا تو قیامت کے دن اسے آگ کی لگام پہنائی جائے گی۔“

[ ترمذی، العلم، باب ما جاء فی کتمان العلم : 2649۔ أحمد : 2؍263، ح : 7588۔ أبو داوٗد : 3658، عن أبی ہریرۃ ؓ و صححہ الألبانی][80]

https://bit.ly/AhkamAlQuraan

معاشرے کی تباہی میں اونچے طبقوں سے  بگاڑ

جب کسی قوم کی شامت آنے کو ہوتی ہے تو اس کے دولت مند اور صاحب اقتدار لوگ فسق و فجور پر اتر آتے ہیں، ظلم و ستم اور بدکاریاں اور شرارتیں کرنے لگتے ہیں، اور آخر یہی فتنہ پوری قوم کو لے ڈوبتا ہے۔

لہٰذا جو معاشرہ آپ اپنا دشمن نہ ہو اسے فکر رکھنی چاہیے کہ اس کے ہاں اقتدار کی باگیں اور معاشی دولت کی کنجیاں کم ظرف اور بداخلاقی لوگوں کے ہاتھوں میں نہ جانے پائیں

اللہ کا فرمان ہے:

وَاِذَآ اَرَدْنَآ اَنْ نُّهْلِكَ قَرْيَةً اَمَرْنَا مُتْرَفِيْهَا فَفَسَقُوْا فِيْهَا فَحَقَّ عَلَيْهَا الْقَوْلُ فَدَمَّرْنٰهَا تَدْمِيْرًا۔ (17:16)

ترجمہ:

اور جب ہم کسی بستی (آبادی) کو تباہ کرنے کا فیصلہ کرتے ہیں تو ہم (پہلے) ایک قطعی حکم بھیجتے ہیں  ان میں سے لوگوں کو (اللہ کی اطاعت کرو اورصالح بنو) یا ہم (پہلے) اس کی آبادی کی تعداد میں اضافہ کرتے ہیں جنکو دنیوی زندگی کی اچھی چیزیں (اشرافیہ) دی ہیں، وہ پھر اس میں تجاوز کرتے ہیں اور اس طرح ان پر (عذاب کا) کلمہ ثابت ہو جاتا ہے، پھر ہم اسے مکمل طور پر تباہ کر دیتے ہیں۔ (قرآن 17:16)

اس آیت میں حکم سے مراد حکم طبعی اور قانون فطری ہے۔ یعنی قدرتی طور پر ہمیشہ ایسا ہی ہوتا ہے کہ *جب کسی قوم کی شامت آنے والی ہوتی ہے تو اس کے مترفین فاسق ہوجاتے ہیں۔

ہلاک کرنے کے ارادے کا مطلب یہ نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ یونہی بےقصور کسی بستی کو ہلاک کرنے کا ارادہ کرلیتا ہے، بلکہ اس کا مطلب یہ ہے کہ جب کوئی انسانی آبادی برائی کے راستے پر چل پڑتی ہے اور اللہ فیصلہ کرلیتا ہے کہ اسے تباہ کرنا ہے تو اس فیصلے کا ظہور اس طریقے سے ہوتا ہے۔

کمنٹس

اج کے دور مین ووٹ کا درست استعمال حکمران منتخب کرنے کا ایک مروجہ طریقہ ہے۔ *لیکن دھاندلی ، رشوت، ہارس ٹریڈنگ کے زریعہ فاسق و فاجر، کرپٹ حکمرانوں کے انتخاب کے نتیجہ میں "قوم کی تباہی میں اب تمام لوگ شریک ہیں"

دعوی و تبلیغ کے لئیے اشرافیہ پر خصوصی توجہ کی ضرورت ہے۔ اس کے لئیے اشرافیہ کی زبان   (English language) اور اصطلاحات اور کمیونیکیشن کے ذرائع(  modes of communication ) پر عبور ضروری ہے،  جس کو مکمل طور پر ignore کیا جاتا ہے ۔

قرآن مضامین

https://salaamone.com/quran-subjects/

https://quransubjects .blogspot. com/2020/08/elite.html

                            -------     --------    ---------

گاڈ پروٹوکول (سنت اللہ)

 انفرادی معاشروں پر انفرادی، غالب مردوں کی چھوٹی تعداد کے اعلی طبقہ حکومت کرتے ہیں کہ معاشروں پر غالب مردوں کی چھوٹی گروہ طبقات  elite کا حکمران ہونا فطری امر ہے۔  اور یہ کہ آج کی دنیا ایک واحد اور متحد نظام پر مشتمل ہے جس پر غالب مردوں کا ایک واحد، چھوٹا طبقہ ، گروہ ، قوم کی حکمرانی ہے۔

*"اشرافیہ" طرز حکمرانی کے ماڈل کے خلاف بحث کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔*  بلکہ، یہ حکمراں اشرافیہ کو اپنے مناسب کام میں مشغول ہونے کے لیے کہتا ہے: اپنی آبادیوں کو ایسے راستے پر تربیت دینا جو خدائی خوف اور راستبازی کی طرف مائل ہیں۔

*آج یہ واضح ہے کہ حکمران اشرافیہ نے شرافت کی تمام علامتیں ترک کر دی ہیں، اپنے مفادات کو ان لوگوں سے مکمل طور پر الگ کر لیا ہے جن پر وہ حکومت کرتے ہیں۔*

*انہوں نے مذاہب کی روایتی شکلوں، جنس، نسل اور ذات، طبقات کے  اصولوں کو تباہ کر دیا ہے، اور شائستگی اور اخلاقیات کے تمام معروضی معیارات کو ختم کر دیا ہے۔*

اور اس وقت وہ لوگوں کے اندر اللہ کے لیے عقل اور جبلت کے آخری آثار کو ہٹانے میں مصروف ہیں اور ان کے لیے غلامی کی ایک مکمل شکل قائم کرنے میں مصروف ہیں جنہیں وہ ان کی خدمت کے لیے زندہ چھوڑ دیتے ہیں۔

*مختصر یہ کہ موجودہ متحد نظام کے حکمران اشرافیہ منحوس، بدمعاش، منحرف اور انتہائی موثر ہیں*

اشرافیہ کے ان لوگوں کے ساتھ نمٹنے کے طریقوں میں نمایاں ہے جن پر وہ حکمرانی کرتے ہیں، بعض پالیسیوں پر عمل درآمد سے پہلے اطلاعات یا انتباہات جاری کرنے کا اصول ہے، عام طور پر تفریحی یا نیوز میڈیا آؤٹ لیٹس کے ذریعے، لیکن دوسرے ذرائع سے بھی۔  اشرافیہ انتباہ کے پروٹوکول کی پیروی کرتے ہیں کیونکہ ان کے لیے یہ ضروری ہے کہ کوئی اخلاقی اور قانونی طور پر مجرم ہو۔

 *قرآن اپنے اندر انتباہ کا ایک واضح پروٹوکول رکھتا ہے - جسے بہت سے رسولوں اور انبیاء نے شرپسند اشرافیہ کا احتساب کرنے کے لیے استعمال کیا تھا۔* اس طریقہ کار کا روایتی اسلام پسندوں کی غالب مصروفیات سے کوئی تعلق نہیں ہے۔  بلکہ، یہ ایک ایسے حکمران اشرافیہ کو تنبیہ کرنے کے لیے ایک قانونی ڈھانچہ پر مشتمل ہے جس نے تمام حدوں کو پار کر دیا ہے، اور یہ لازمی شرط کے طور پر کام کرتا ہے کہ خدا کے عذابوں کو اس کے بعد ایک ایسے معاشرے پر پابند کیا جائے جس کے حکمران اس انتباہ کو مسترد کرتے ہیں۔  یہ طریقہ کار خدا کا پروٹوکول ہے۔

*تاریخی طور پر، اس طرح کی سزا صرف ایک محدود علاقے کو متاثر کرتی ہے۔  چونکہ آج دنیا موثر طور پر ایک ہی حکمران اشرافیہ کے ماتحت ہے، اس کا مطلب یہ ہے کہ ایسے حالات میں ایک ہی پروٹوکول پر عمل درآمد کا اثر عالمگیر ہوگا۔*

*اس کتاب میں قرآن کی آیات کے مجموعے پیش کیے گئے ہیں جن میں تعارف، خلاصے، تبصرے اور نتائج شامل ہیں جو مل کر آج کی ایک عالمی حکومت کے حکمران طبقے کو پروٹوکول کے تحت ایک رسمی انتباہ کی حمایت کرتے ہیں۔*

کوئی شخص جتنی بار چاہے غلط بٹن دبا سکتا ہے - اس سے کوئی فرق نہیں پڑے گا۔  لیکن کسی کو صرف ایک بار درست بٹن کو دبانا ہوگا۔  یہ وہ بٹن ہے۔  میں اس پر دباؤ نہیں ڈال رہا ہوں کیونکہ میں چاہتا ہوں، بلکہ اس لیے کہ متبادل ایک مستقبل ہے جسے، ضمیر کے مطابق، میں اپنے بچوں پر نہیں چھوڑ سکتا۔

                ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

زبانوں، میڈیا، اسٹریٹجک کمیونیکیشنز، اور ٹیکنالوجیز میں پس منظر رکھنے والے SAM GERRANS  ایک انگریزی مصنف اور آزاد مفکر ہیں۔

ان کی کتاب *"دی گاڈ پروٹوکول* قرآن میں اس طریقہ کار کی نشاندہی کرتی ہے جس کے ذریعے ماضی کے شرپسند حکمران اشرافیہ کو خدا کے سامنے جوابدہ بنایا جاتا تھا اور اسی اصول کا اطلاق آج کی دنیا کی حکمران اشرافیہ پر بھی ہوتا ہے۔

( انگلش کتاب کا مطالعہ آپ کی صوابدید پر ہے)

The God Protocol : https://quranite.com/the-god-protocol/


[1] http://www.equranlibrary.com/tafseer/maarifulquran/4/6 

[2] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith.html 

[3] http://www.equranlibrary.com/hadith/bukhari/1855/5134 

[4] http://www.equranlibrary.com/hadith/ibnemajah/1693/4009 

[5] https://shamilaurdu.com/book/dawat-deen-kay-bunyadi-usool/92/ 

[6] http://bit.ly/38fgwDq ، https://salaamone.com/ur-intellect/ 

[7] علم الحديث کے سنہری اصول :  https://bit.ly/Hadith-Basics 

[8] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith.html 

[9] https://wp.me/scyQCZ-ban01

[10] https://quran1book.blogspot.com/2021/11/HadithBan-Sahabh.html 

[11] https://wp.me/scyQCZ-ban04 

[12] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/4caliphs.html 

[13] https://quran1book.blogspot.com/2020/08/narrative.html 

[14]  https://bit.ly/Hadith-Basics 

[15] https://quran1book.blogspot.com/2021/08/Bidah.html 

[16] https://quran1book.blogspot.com/2022/06/AyeshaMyth.html 

[17] http://www.equranlibrary.com/tafseer/maarifulquran/4/6 

[18]  https://bit.ly/Hadith-Basics 

[19]  … في ’’شرح العقائد النسفیۃ‘‘: ص۱۰۹ ۔ ۱۱۰ :(إنّ حقیقۃ الإیمان ہوالتصدیق القلبي فلا یخرج المؤمن عن الاتصاف بہ إلاّ بما ینافیہ، ومجرد الإقدام علی الکبیرۃ لغلبۃ شہوۃ أوحمیّۃ أو أنفۃ أوکسل خصوصاً إذا اقترن بہ خوف العقاب ورجاء العفو والعزم علی التوبۃ لاینافیہ نعم إذا کان بطریق الاستحلال والاستخفاف کان کفراً لکونہ علامۃ للتکذیب ولا نزاع في أنّ من المعاصي ما جعلہ الشارع أمارۃ للتکذیب وعلم کونہ کذلک بالأدلۃ الشرعیۃ کسجود الصنم وإلقاء المصحف في القاذورات والتلفظ بکلمات الکفر ونحو ذلک مما تثبت بالأدلۃ أنّہ کفر)۔

وفي ’’المسامرۃ‘‘ و’’المسایرۃ‘‘، ص۳۵۴ :(یکفر من استخفّ بنبي أو بالمصحف أو بالکعبۃ، وہو مقتضٍ لاعتبار تعظیم کلّ منہا ؛ لأنّ اللّٰہ جعلہ في رتبۃ علیا من التعظیم غیر أنّ الحنفیۃ اعتبروا من التعظیم المنافي للاستخفاف بما عظمہ اللّٰہ تعالی ما لم یعتبرہ غیرہم، (ولاعتبار التعظیم المنافي للاستخفاف) المذکور (کفّر الحنفیۃ) أي: حکموا بالکفر (بألفاظ کثیرۃ وأفعال تصدر من المتہتکین) الذین یجترؤن بہتک حرمات دینیۃ (لدلالتہا) أي: لدلالۃ تلک الألفاظ والأفعال (علی الاستخفاف بالدین، کالصلاۃ بلا وضوء عمداً، بل) قد حکموا بالکفر (بالمواظبۃ علی ترک سنۃ استخفافاً بہا بسبب أنّہا إنّما فعلہا النبي زیادۃ، أو استقباحہا) بالجر عطفاً علی المواظبۃ: أي: بل قد کفّر الحنفیۃ من استقبح سنۃ (کمن استقبح من) إنسان (آخر جعل بعض العمامۃ تحت حلقہ أو) استقبح منہ (إخفاء شاربہ)۔

وانظر ’’منح الروض الأزہر‘‘، ص۱۵۲، و’’رد المحتار‘‘، کتاب الجھاد، باب المرتد، ج۶، ص۳۴۳۔

https://www.dawateislami.net/islamicportal/ur/farzuloom/iman-o-kufr#_ftn15 

[20] ابن قدامہ، ج ۴، ص۵۱۴ـ۵۱۵؛ جزیری، ج ۲، ص۳۵۰؛ زحیلی، ج ۵، ص۴۲۳ـ۴۲۴

[21] https://darulifta.info/d/alikhlas/fatwa/uMh/ 

[22] https://trueorators.com/quran-tafseer/35/10 

[23] https://sunnah.com/bukhari:5134  / https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=5134 

[24] https://sunnah.com/bukhari:5134 / https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=5134 

[25] https://quran.wwpa.com/page/verse-4-5 

[26] https://trueorators.com/quran-translations/4/6 

[27] https://trueorators.com/quran-translations/4/6 

[28] https://trueorators.com/quran-translations/4/6 

[29] https://trueorators.com/quran-translations/4/6

[30] https://sunnah.com/bukhari:5134  / https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=5134 

[31] http://www.equranlibrary.com/hadith/muslim/1470/2005 

[32] (قرآن 4:6)

[33]  [الرئيسية الكفاية في علم الرواية للخطيب, باب الكلام في أحكام الأداء وشرائطه، حديث رقم 1303]

[34] " [ مسند احمد- حدیث: 22505] / http://www.equranlibrary.com/hadith/musnadahmad/947/22505 

[35] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/jews-christian-footsteps.html ، https://www.facebook.com/answeringatheist/photos/a.130758608317565/162682798458479/?type=3 

[36] https://tanzil.net/#82:11 

[37] https://tanzil.net/#trans/ur.najafi/17:54 

[38] https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=3&hadith_number=1905

[39] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/50:17 

[40] https://tanzil.net/#36:65 

[41] سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5) /1 https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/49:1 /  https://trueorators.com/quran-tafseer/49/1 

[42] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/Ghulo.html 

[43] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/49:2 

[44]https://tanzil.net/#trans/ur.ahmedali/6:163 

[45] https://forum.mohaddis.com/threads/35187/ 

[46] http://www.equranlibrary.com/hadith/bukhari/1684/4351 

[47] http://www.equranlibrary.com/hadith/muslim/1605/2456 

[48] https://tanzil.net/#trans/ur.ahmedali/6:54 

[49] https://trueorators.com/quran-tafseer/6/54 

[50] https://www.urduweb.org/mehfil/threads/12069/ 

[51] سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5) /1 https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/49:1 /  https://trueorators.com/quran-tafseer/49/1 

[52] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/Ghulo.html 

[53] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/5:79 

[54] http://www.equranlibrary.com/hadith/bukhari/1358/3445 

[55] https://hadeethenc.com/ur/browse/hadith/3420 

[56] اقتباس: غیر اللہ کی پکار کی شرعی حیثیت ، از: ڈاکٹر شفیق الرحمن حفظ اللہ/ https://forum.mohaddis.com/threads/6837/ 

[57] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/3:144 

[58] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/Ghulo.html 

[59] https://www.facebook.com/867845750035939/posts/1394864897334019/ 

[60] https://trueorators.com/quran-tafseer/35/22 

[61] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/Ghulo.html 

[62] https://trueorators.com/quran-tafseer/35/22 

[63] https://tanzil.net/#trans/ur.junagarhi/27:80 

[64] https://trueorators.com/quran-tafseer/27/80 

[65] https://www.minhajbooks.com/urdu/book/Visitation-of-Graves/read/txt/btid/491/ 

[66] https://www.minhajbooks.com/urdu/book/Visitation-of-Graves/read/txt/btid/491/ 

[67] https://www.minhajbooks.com/urdu/book/Visitation-of-Graves/read/txt/btid/491/ 

[68] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/3:144 

[69] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/49:6 

[70] https://quransubjects.blogspot.com/2021/03/quran-key.html 

[71] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/2:219 

[72] https://trueorators.com/quran-tafseer/4/43 

[73] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/5:90 

[74] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/5:90 

[75] https://bit.ly/Hadith-Basics 

[76] https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/864/ 

[77] http://www.urdufatwa.com/public/index.php/view/1/8612 / فتاویٰ اسلامیہ کتاب الجنائر: ج 2  صفحہ76 محدث فتویٰ

[78] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/8:22 

[79] https://quran1book.blogspot.com/2021/11/Fundamental-Hadiths.html 

[80]