ختم نبوت           https://bit.ly/KhatmeNabuwat                        

        

Updated 12/7/2022  4:45   PM                                                 

ختم نبوت اور تثلیث نبوت

 

E- Book Part -1  

E Book Part -2

تحقیق جاری ہے .......

بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ر)

 Web Post https://bit.ly/KhatmeNabuwat 

KhatmeNabuwat ختم نبوت ای بک  https://bit.ly/KhatmeNabuwat-eBook 

https://bit.ly/AhkamAlQuraan /  https://bit.ly/DeenKamil

Tejdeed@gmail.com


آعُوذُ بِاللَّهِ مِنَ الشَّيْطَانِ الرَّجِيمِ

بسم الله الرحمن الرحيم

لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ

شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی  گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ اس کی ہٹ دھرمی پر گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا-  ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ  پر اہل بیت، خلفاء راشدین واصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین  پر- .دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی (ضَلَالَۃٌ) ہے- جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا -

 اَلۡیَوۡمَ یَئِسَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا مِنۡ دِیۡنِکُمۡ فَلَا تَخۡشَوۡہُمۡ وَ اخۡشَوۡنِ ؕ اَلۡیَوۡمَ اَکۡمَلۡتُ لَکُمۡ دِیۡنَکُمۡ وَ اَتۡمَمۡتُ عَلَیۡکُمۡ نِعۡمَتِیۡ وَ رَضِیۡتُ لَکُمُ الۡاِسۡلَامَ دِیۡنًا ؕ

 آج کافر تمہارے دین سے ناامید ہو گئے ہیں تو ان سے مت ڈرو بلکہ مجھ سے ڈرو  آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کی(قرآن 5:3)[1]

هُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ مِنۡهُ اٰيٰتٌ مُّحۡكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الۡكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌ‌ؕ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ زَيۡغٌ فَيَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَهَ مِنۡهُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَةِ وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِيۡلِهٖۚ وَمَا يَعۡلَمُ تَاۡوِيۡلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ؔ‌ۘ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِى الۡعِلۡمِ يَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ كُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ‌ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ۞

وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری  جس کی کچھ آیتیں تو "محکم" (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی)  ہیں "جو اصل کتاب" ہیں اوردوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں۔  اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے تو وہ من مانی تاویلیں کرنے کی خاطر متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں (قرآن 3:7)[2]


ختم نبوت اور تثلیث نبوت

تحقیقی جائزہ

 لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ

جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے (قرآن : ‎(8:42 [3]

🌹 ☆🌹☆🌹☆🌹☆🌹☆

اللَّهُمَّ صَلِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

 اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد

☆☆☆☆☆

"اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ﷺ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔( قرآن:4:59)

🌹 ☆🌹☆🌹☆🌹☆🌹☆

خلاصہ:  تحقیق و دعوة

الله تعالی کی آخری مکمل اور محفوظ  کتاب، قرآن سے یہ ثابت  ہوتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللهﷺ خاتم النبیین ہیں ان کے بعد کوئی نبی یا رسول دنیا میں کسی بھی حثیت سے نہیں آیے گا- قرآن ، فرقان ہے حق اور باطل کی پہچان کرتا ہے- کسی کو جھوٹا نبی ثابت کرنے کے لئیے جو یہ دعوی کرتا ہے کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور یہ کہ اس کو قرآن کا خاص علم دیا گیا ہے  جو دنیا میں کسی کے پاس نہیں اورجو کہتا ہے کہ میں مسیح ، مہدی، نبی  ہوں-  اس کے یہ دعوے قرآن سے باطل ثابت ہوتے ہیں۔

صدیوں سے مسلمانوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قبل قیامت نزول اور امام حضرت مہدی کی آمد  کے نظریات پرعلماء کا احادیث و روایات کی بنیاد پر اجماع ہے- حضرت امام مہدی کا قرآن میں ذکر نہیں ملتا- اس مسئلہ کا احادیث کی روشنی میں بھی تجزیہ کیا گیا تاکہ کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہ رہ  جایے اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللهﷺ خاتم النبیین ہیں ان کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا، حضرت مہدی نبی نہیں بلکہ اللہ تعالی کے مقرب و برگزیدہ بندے ہوں گے، مجدد کامل اور ایک عادل کا درجہ رکھتے ہیں قیامت سے قبل دنیا میں آئیں گے اور دنیا کو ظلم سے نجات دلائیں گے، ناانصافی اور جبر کا خاتمہ کر دیں گے- علماء کے مطابق حضرت عیسیٰ ابن مریم ، مسیح علیہ السلام نبی یا رسول کی حیثیت سے نہیں آئیں گے نہ ہی ان پر وحی نازل ہوگی- آپ محمد رسول اللهﷺ  کے امتی کی حثیت سے تشریف لائیں گے تاکہ دجال کا خاتمہ کریں اور عدل و انصاف سے حکومت کریں، اسلام کا دنیا میں غلبہ قائم کرکہ وفات پا کر رسول اللہ ﷺ کے قریب دفن ہوں[4]-

حضرت عیسی مسیح علیہ السلام  کو اللہ تعالی نے زندہ اٹھا لیا یا وفات دی یہ  معاملہ اصل موضوع کو divert  کرنے کے لییے منکرین ختم نبوت ( اہل تثلیث)  اچھالتے ہیں، اسے اپنے مذھب کی جڑ قرار دیتے ہیں اس تحقیق سے وہ جڑ دلائل کی شمشیر سے کاٹ دی گئی-

تحقیق و تفصیل - ختمِ نبوت 》》》https://bit.ly/KhatmeNabuwat

تمام حضرات سے جو حضرت محمد بن عبداللہ رسول اللهﷺ  کے بعد کسی شخص کو کسی بھی قسم کا نبی ، مسیح مثیل، مہدی وغیرہ سمجھتے ہیں، ان سب کو اسلام کو واپسی کی دعوت ہے تاکہ آخرت اور دنیا میں فلاح پائیں۔ "رسالہ تجدید السلام" پر تحقیقی مضامین کا مطالعہ کریں، اگر کوئی سوالات ہوں تو e-mail پر رابطہ کریں ۔۔۔ مسلسل اللہ سے گمراہی سے بچاو اور هدایت کی دعا کرتے رہیں، صرف الله تعالی ہی ھدائیت دے سکتا ہے ۔ جزاک اللہ

جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے (قرآن : ‎(8:42 

 ☆ ☆ ☆ ☆ ☆

وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن  36:17)

اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے

جو اس پیغام ، دعوہ کو جتنا پھیلائے اللہ اس کو اتنا ہی زیادہ اجرعطا فرمائے، اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت حوض کوثر پر عطا فرمائے۔ آمین

https://bit.ly/AhkamAlQuraan

Tejdeed@gmail.com

قادیانی مذھب کا خلاصہ ان کی زبانی

"ہمارے مذہب کا خلاصہ اور لب لبابیہ ہے کہ لاالٰہ الّا اللّٰہ محمد رسول اللّٰہ ہمارا اعتقاد جو ہم اس دنیوی زندگی میں رکھتے ہیں جس کے ساتھ ہم بفضل و توفیق باری تعالیٰ اس عالم گذران سے کوچ کریں گے یہ ہے کہ حضرت سیدنا و مولانا محمد مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیّین و خیر المرسلین ہیں جن کے ہاتھ سے اکمال دین ہو چکا اور وہ نعمت بمرتبہ اتمام پہنچ چکی جس کے ذریعہ سے انسان راہ راست کو اختیار کر کے خدائے تعالیٰ تک پہنچ سکتا ہے اور ہم پختہ یقین کے ساتھ اس بات پر ایمان رکھتے ہیں کہ قرآن شریف خاتم کتب سماوی ہے اور ایک شُعشہ یا نقطہ اس کی شرائع اور حدود اور احکام اور اوامر سے زیادہ نہیں ہو سکتا اور نہ کم ہو سکتا ہے اور اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ ہمارے نزدیک جماعت مومنین سے خارج اور مُلحد اور کافر ہے۔[حضرت مرزا غلام احمد، مسیح موعودؑ۔ ازالہ اوہام روحانی خزائن جلد3۔ صفحہ169تا170][5]

یہ بھی پڑھیں:

  1.  قادیانی عقائد[6] .....
  2. مرزا صاحب کے چند ایک دعوے[7].......

الجواب

 محمد رسول اللهﷺ  خاتم النبیّین و خاتم  المرسلین  ہیں ( پھر "خیر المرسلین"  اور رحمت اللعالمین بھی ہیں, مرزا صاحب کے پیروکارتصحیح فرما لیں)- قرآن مکمل، محفوظ آخری کتاب الله تعالی ہے جس کے احکام میں ترمیم نہیں ہو سکتی تو مرزا صاحب  نے 'نبی بغیر شریعت ' کی  اصطلاح قرآن میں کہاں سے حاصل کی؟ اگر یہ مرزا صاحب کی  "خاتم النبیّین" کی ذاتی تشریح ہے تو برخلاف قرآن و احادیث کی وجہ سے مسترد ہے-  لیکن اگر مرزا صاحب الہام و وحی کی بنیاد پریہ کہہ رہے ہیں تو، بقول مرزا صاحب ، اب کوئی ایسی وحی یا ایسا الہام منجانب اللہ نہیں ہو سکتا جو احکام فرقانی کی ترمیم یا تنسیخ یا کسی ایک حکم کے تبدیل یا تغییر کر سکتا ہو اگر کوئی ایسا خیال کرے تو وہ جماعت مومنین سے خارج اور مُلحد اور کافر ہے-[8]

انڈکس

  1. تعارف
  2. ہدایت کا اعلی ترین ماخذ - قرآن
  3. اختلاف کے مرکزی نقاط
  4. ختم نبوت
  5. اہل تثلیث نبوت کا نقطۂ نظر
  6. دھوکہ و فریب "نبی بغیر شریعت"- متضاد بیانیہ
  7. رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم - قرآن سے دلائل
  8. اللہ تعالی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بین ایک مکالمہ
  9. مکالمہ کا وقت بہت اہم ہے
  10. اہل "تثلیث نبوت"
  11. سوال کے وقت کی اہمیت  :
  12. مرزا صاحب بطور امام مہدی اور مسیحِ موعود کیوں؟
  13. مقام تدفین
  14. وفات مسیح - قادیانیت کی جڑ کا خاتمہ ( دعوی دار مسیح موعود)
  1. مردوں کی دنیا میں زندہ واپسی
  2. بنی اسرایئل کی گاۓ اور  مقتول کا زندہ ہونا
  3. بنی اسرائیل کے ستر افراد کی موت اور زندگی
  4. حیات حضرت عیسیٰ علیہ السلام
  5. رَفَعْ
  6. رفع:  روحانی اور فزیکل بلندی کے لیے چند مثالیں:
  7. رفع :  روحانی طور پر بلندی کی چند مثالیں:
  8. رفع : فزیکل طور پر بلندی ، اٹھانے کی قرآن سے  تیرہ  (13) مثالیں :
  9. لفظ مُتَوَفِّيْکَ کا معنی و مفہوم:
  10. موت اور وفات میں فرق
  11. خلاصہ: حیات و نزول حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام
  12. آیات الله تعالی کو جھٹلانے والے
  13. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ رفع
  14. طور پہاڑ کا (physically)  اٹھایا جانا
  15. حضرت ادریس (حنوک)  علیہ السلام کا زندہ  (physically) اٹھایا جانا (رَفَعْنَا )
  16. مرزا صاحب کا دعوی باطل ثابت ہے
  17. حضرت  ادریس علیہ السلام
  18. حضرت الیاس علیہ السلام
  19. بائبل کا  ایلیاہ
  20. حضرت الیاس علیہ السلام کا قرآن میں تذکرہ
  21. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ (physically) اٹھایا جانا
  22. ’’مسیح مَوعُود‘‘ کی حقیقت
  23. ’مسیح موعود ‘‘ یا ’’مثیلِ مسیح‘‘ یا ’’ بروزِ مسیح‘‘ کا  خود ساختہ خیالی تصور
  24. حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کا دوبارہ نزول اور حثیت و مرتبہ
  1. دجال
  1. مسیح دجال سے مقابلہ  مثیل مسیح یا اصل مسیح
  2. ابن مریم بننے کا مضحکه انگیز طریقہ
  3. دمشق کی تعبیر
  4. لُد کے دروازے پر دجال کا قتل
  5. بانی مذھب "تثلیث نبوت" (اہل ثلاثة) مرزا صاحب کے عجیب و غریب تصورات
  6. توہین رسالت
  1. حضرت امام مہدی اور قرآن
  1. مسیح اور مہدی
  1. جہاد
  2. تاریخ  کے سات ادوار
  1. صورت حال-1 (تصور)
  2. صورت حال-2 (تصور)
  3. نتیجہ
  1. خلاصہ
  2. خلاصہ:  تحقیق و دعوة
  3. 'محمدیہ پاکٹ بک' بجواب 'احمدیہ پاکٹ بک' انڈکس
  1. انڈکس مضامین
  2. رسالہ تجديد الإسلام - انڈکس
  3. The Author &  Books:

ختم نبوت اور تثلیث نبوت

تعارف

حضرت محمد ﷺ بن عبداللہ کو الله تعالی نے اپنا  آخری رسول (خَاتَمَ النَّبِيِّينَ) مبعوث فرمایا- لیکن چودھویں صدی حجرہ میں ایک شخص مرزا غلام احمد قادیانی (1835–1908) نے دعوی کیا کہ وہ امام مہدی ، عیسیٰ  (مثل) اور نبی ہے یعنی ایک میں تین (Three in One) اس نظریہ کی بنیاد قرآن ، سنت و احادیث میں تو نہیں ملتی البتہ یہود و نصاری (بائبل) کی روایت ہے جیسے یوحنا بپتسمہ دینے والا (John the Baptist ) مسیحیت میں بائبل کے نبی ایلیاہ ( Elijah) کے کردار سے مشابہت رکھتا تھا اسی طرح مرزا صاحب مثیل عیسیٰ کا دعوی بھی رکھتے ہیں- مسیحیت ہی کی ایک اصطلاح  (Trinity) ہے اسی طرز پر اس جدید مذھب کو ایک نئی (Trinity)[9] "تثلیث نبوت" (Trinity of Prophet)  کہنا مناسب ہو گا[10]- اس نۓ مذھب کو مسلمانوں نے اسلام میں قبول کرنے سے انکار کر دیا- اب "منکرین خم نبوت" کے اس مذھب کو "تثلیث نبوت" کے پیروکار کہا جاسکتا ہے- اس مقالہ میں ان کے لئے یہ شناخت (Identity) بھی استعمال ہوگی-

"رسول" کا مطلب ہے پیغام پہنچانے والا (messenger) پیغام رساں اپنی طرف سے اصل پیغام میں اضافہ یا تخفیف نہیں کر سکتا پیغام زبانی ہو یا تحریری- یہ پیغام بھیجنے والے کی صوابدید پر ہے کہ وہ کیا پیغام بھیجتا ہے- حضرت  محمد رسول اللهﷺ نے الله تعالی کا پیغام بذریعہ  وحی وصول کیا اور اسے زبانی ، تحریری طور پر لکھوا کر حفظ و بیان سے محفوظ کیا اور سب کو مکمل طور پر  تحریری (قرآن) عملی (سنت) اور زبانی (حدیث) طور پر پہنچایا جو نسل در نسل تواتر سے حفظ و بیان، عمل اور تحریری طور پر منتقل ہوتا چلا آ رہا ہے اور آج قرآن کی صورت میں اصل حالت میں ہمارے پاس موجود ہے، اس کتاب میں کوئی شک نہیں جواللہ سے ڈرنے والوں کی رہنما ہے[11]- لیکن جولوگ درحقیقت الله تعالی سے نہیں ڈرتے وہ قرآن کو چھوڑ کر دوسری جگہوں سے رہنمائی حاصل کرنے کی کوشش میں گمراہ ہو جاتے ہیں-

 مرزا غلام احمد قادیانی (1853ء تا 1908ء) صاحب  نے  اپنی نبوت کے اعلان سے پہلے مکمل تیاری کی وہ یہ اچھی طرح سے جانتے تھے کہ جب کوئی شخص نبوت یا امامت کا دعوی کر دے  تو مسلمان اسے با آسانی قبول نہیں کرتے باب شیرازی ایرانی کا جو حشر ہوا وہ اس وقت  بہت پرانا واقعہ نہیں تھا جب اسے ایران میں 1850میں  پھانسی دی گیی- مرزا صاحب نے پہلے وفات عیسیٰ علیہ السلام کا نظریہ پیش کیا تاکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کی واپسی ، معجزانہ نزول کا معامله ختم ہو- پھرایک اصطلاح "مثیل عیسیٰ " بنائی  اور اپنا نام عیسی ابن مریم رکھا، کہیں کوئی کسرباقی نہ رہ جا نے، امام حضرت مہدی کو بھی یہ کہہ کر شامل کر لیا کہ عیسی ابن مریم اور مہدی  ایک ہی شخصیت ہیں پھرخود کو بطور مثیل عیسیٰ (مسیح موعود) پیش کرکہ نبوت کا دعوی کر دیا- اتنی ہستیوں کا ایک فرد میں اکٹھا ہونا[12] بظاھر ایک نئی ایجاد ہے لیکن مسیحیت، ہندو اور قدیم مشرکانہ مذاھب میں خدا کے متعلق (Trinity)[13] "تثلیث" کے نظریات ملتے ہیں- اس (Trinity)[14] "تثلیث نبوت" (Trinity of Prophet) کا قرآن ، سنت ، حدیث میں کہیں ذکر نہیں- لیکن اس طرح سے ایک ایسا نبی جو مسلمانوں کے مشہور عقائد پر منطبق ہو سکے قبولیت میں آسان ہو سکتا ہے بجایے اس کے کہ ایک شخص اچانک نبوت کا دعوی کر دے جسے کوئی قبول نہ کرے اور باب شیرازی (پھانسی  / 1850) ایرانی کا حشر ہو یہ اس وقت زیادہ  پرانا واقعہ نہ تھا-  اس لئے وہ مسلمانوں میں مشہور مسیح کی واپسی اور ،امام مہدی  کے نظریہ سے بھی فائدہ حاصل کرنا چاہتے تھے- یہ اپنے آپ کو "جماعت احمدیہ" کہلاتے ہیں مگر عوام میں قادیانی، مرزائی اور "منکرین ختم نبوت"  کے لقب سے مشہورہیں-1974 میں پاکستان کی قومی اسمبلی میں تفصیلی بحث ہوئی جس میں اس جماعت کے سربراہ (خلیفہ) کو دفاع کا مکمل موقع دیا گیا اور پھراتفاق راے (اجماع) سے ان کو آیین پاکستان میں غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا-[15]   مناسب ہے کہ ان کے مذھب کو (Trinity)[16] "تثلیث نبوت" (Trinity of Prophet) کے نام سے مخاطب کیا جایے جو ان کے مذھب کا  بنیادی ستون ہے-

قادیانیت کا اسلام (مسلمان کافروں ) سے کوئی تعلق نہیں[17] ......

ہدایت کا اعلی ترین ماخذ - قرآن

رسول اللہ ﷺ کی زندگی قرآن کا عملی نمونہ تھی جسے سنت کہا جاتا ہے اور احادیث ان کی تفصیل اور بیان ہے- لیکن ان سب کا اصل ماخذ قرآن ہے:

"---- آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس میں ترمیم کر دوں بس میں تو اسی کا اتباع کرونگا جو میرے پاس وحی کے ذریعے سے پہنچا ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں" (قرآن 10:15)

وَاتْلُ مَا أُوحِيَ إِلَيْكَ مِن كِتَابِ رَبِّكَ ۖ لَا مُبَدِّلَ لِكَلِمَاتِهِ وَلَن تَجِدَ مِن دُونِهِ مُلْتَحَدًا ‎﴿٢٧﴾‏

"اے نبیؐ! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں رد و بدل کرو گے تو) اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے" (18:27)

رسول اللہ ﷺ اپنی طرف سے الله تعالی کے اصل پیغام ھدایت میں کمی بیشی نہیں کرتے لیکن جہاں سمجھانا ضروری ہوتا تو پیغام (آیات)  کی عملی اور زبانی تشریح فرماتے- اگرکوئی نیا عقیده پیش کرتا ہے یا کسی آیت کی نئی تشریح کرتا ہے جس کی بنیاد قرآن میں نہ ملے مگر حدیث میں ملے تو الله تعالی کے حکم کے مطابق مکمل تحقیق[18] کرنا ہوگی کے آیا واقعی یہ  رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے یا کہ کسی بدبخت نے آپ کا نام استعمال کیا ہے؟   رسول اللہ ﷺ قرآن کے برخلاف   نہیں ہو سکتے، اسی لئے آپ ﷺ  نے فرمایا :

’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(رواہ حضرت علیؓ، ماخوز، ترمذی 2906)

"اللہ کی کتاب میں ہدایت اور نور ہے، جو اسے پکڑے گا وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔"  (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6227)

میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے اور کلام اللہ کا بعض کو منسوخ کرتا ہے۔ (مشکوٰۃ المصابیح،حدیث 189) (سنن دارقطنی: ۱؍۱۱۷) (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث: 190)

رسول اللہ ﷺ  کے فرمان کے مطابق، علم دین اسلام کے ماخز صرف تین  ہیں[19]، آیات محکمہ قرآن، سنت ثابتہ اور فریضہ عادلہ، باقی زائد ہیں[20]- قابل غور بات ہے کہ علم حدیث کا ذکر نہیں یعنی وہ علم زائد میں شامل ہے- علم حدیث کے اصول[21] بھی  رسول اللہ ﷺ کے فرامین سے حاصل کرنے کی بجانے لوگوں نے اپنے طور پر تخلیق کیئے گۓ یہ بدعة بھی خرابی کا باعث ہے- خطبہ سے قبل  رسول اللہ ﷺ فرمایا کرتے:

أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ کِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَی هُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ

اما بعد کہ بہترین حدیث اللہ کی کتاب[22] ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں اور ہر بدعت گمراہی ہے (صحیح مسلم، حدیث نمبر:2005 ، نسایی؛ 1579 ، ابن ماجہ 45، مشکوات المصابیح 139، معارف حدیث 1889)[23]

الله تعالی کا فرمان :

.. فَإِمَّا يَأْتِيَنَّكُم مِّنِّي هُدًى فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقَىٰ ‎﴿١٢٣﴾‏ وَمَنْ أَعْرَضَ عَن ذِكْرِي فَإِنَّ لَهُ مَعِيشَةً ضَنكًا وَنَحْشُرُهُ يَوْمَ الْقِيَامَةِ أَعْمَىٰ ‎﴿١٢٤﴾‏ قَالَ رَبِّ لِمَ حَشَرْتَنِي أَعْمَىٰ وَقَدْ كُنتُ بَصِيرًا ‎﴿١٢٥﴾‏

"جو شخص میری ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا (123) اور جو میری نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کو ہم اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے[24] (قرآن 20:124)[25]

لیکن بعد کے لوگوں ںے قرآن کو تلاوت تک محدود کرکہ، متروک العمل (مھجور) کر دیا[26] علم کی ترتیب کو الٹا کر دیا اور علم حدیث[27] کو قرآن پر عملی طور پر ترجیح پر رکھ دیا- سنت کو حدیث کے متبادل، برابر کا درجہ دے دیا جبکہ دونوں مختلف اصطلاحات ہیں[28]- اس اکھاڑ پچھاڑ سے گمراہی کے راستے کھل گۓ اور دین میں بدعة ، فرقہ بازی، گمراہی کا بازار گرم ہو گیا، یہود و نصاری کا راستہ اختیار کر لیا گیا[29]- اس کا واحد حل  رسول اللہ ﷺ کی بتلائی ترتیب کی بحالی ہے، صرف قرآن گمراہیوں کا سدباب کر سکتا ہے-

 اسلام

 عقائد اسلام

اسلام کے  چھ بنیادی عقائد اور پانچ ارکان ہیں- پہلے چھ بنیادی عقائد: ان عقائد کا ماخذ قرآن سے ہے (تفصیل[30])

1.اللہ تعالیٰ پر ایمان

2.فرشتوں پر ایمان

3.کتابوں پر ایمان (قرآن آخری کتاب الله )

4.رسولوں پر ایمان ( محمد رسول اللهﷺ  رسول اللہ ﷺ خاتم النبین)

5.یوم آخرت پر ایمان

ارکان اسلام

ارکان اسلام پانچ ہیں جو قرآن و سنت سے ماخوز ہیں (تفصیل [31])

1.شہادہ: ایمان

2.صلوٰۃ: نماز

3.زکوٰۃ

4.صوم: روزہ

5.حج

6.تقدیر پر ایمان

ان عقائد و اراکین اسلام میں کوئی تبدیلی ممکن نہیں، تبدیل شدہ، دین اسلام نہیں ہو سکتا- اب ملاحضہ کریں کہ کس طرح مرزا صاحب دین کو بنیاد کو تبدیل کرتے ہیں اور ساتھ لوگوں کو احمق بنایا جاتا  ہے کہ اس سے طرح سے مرزا صاحب کے عقائد داخل ہونے سے عقائد ایمان، اسلام میں  کوئی تبدیلی نہیں ہوتی! ان کے عقائد و نظریات تضادات (self contradictions) سے بھیر پور ہیں- حیرت ہے کہ پڑھے لکھے لوگ اپنے بزرگوں کی اندھی تقلید میں ان کا  عقلی جائزہ کیوں نہیں لیتے؟ یاد رکھیں کہ الله کو ہر فرد اکیلا جوابدار ہو گا:

"اور بالآخر تم آئے ہمارے پاس اکیلے اکیلے جیسا کہ ہم نے تم کو اوّل بار پیدا کیا اور جو کچھ ہم نے تم کو دیا تھا ، سب تم نے پیچھے چوڑا اور ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے ، جن کے بارے میں تمہارا گمان تھا کہ وہ تمہارے معاملہ میں ہمارے شریک ہیں ۔ تمہارا رشتہ بالکل ٹوٹ گیا اور جو چیزیں تم گمان کیے بیٹھے تھے ، وہ سب ہوا ہوگئیں" (قرآن 6:94)

مرزا صاحب بظاھر قرآن کی برتری (Supremacy) کا دعوی کرتے ہیں:

مرزا صاحب لکھتے ہیں :

"الغرض حاصل کالم یہ ہے ہر بات جو قرآن کے مخالف ہو اور اس کے قصوں کے مخالف ہو تو وہ باطل ، جھوٹ اور افتراء کرنے والوں کی  من گھڑت باتیں ہیں(حمامة البشری، روحانی خزائین جلد ٧ صفہ ٢٢٠/ تفسیرصفحہ ٢٦٥[32] )

 لیکن یہ صرف تحریر تک محدود ہے عملی طور پی ان کے عقائد و نظریات قرآن و سنت سے مطابقت نہیں رکھتے-

مرزا صاحب کا انکار ، ایمان نہ لانا کفر نہیں

(ا) ابتدا سے سے میرا یہی مذہب ہے ہے کہ میرے دعوی کے انکار کی وجہ سے کوئی شخص کافر نہیں ہو سکتا (تریاق القلوب ص ١٣٠،ط ارض، ص٣٢٥،٢، خ ص٤٣٢،ج١٥ )[33]، [34]

(ب) مسیح کے نزول کا عقیده کوئی ایسا نہیں جو ہماری ایمانیات کی جڑ یا ہمارے دین کے رکنوں میں سے ہو بلکہ صد ہا  پیشن گوئیوں میں سے ایک پیشنگوئی ہے جس کو اسلام سے کچھ بھی تعلق نہیں نہیں جس زمانہ تک یہ پیش گوئی بیان نہیں کی گئی تھی اسلام کچھ ناقص نہیں تھا تھا اور جب بیان کی گئی تو اس سے اسلام کامل نہیں ہو گیا- (ازالہ اوہام صفحه ١٤٠،ط،٦٠-١، ط ٣، خزائین صفحہ ، ١٧١ج، 3)[35]

(ج)  اس جگہ توانقلاب کا دعویٰ نہیں وہی اسلام ہے جو پہلے تھا وہی نمازیں ہیں جو پہلے تھیں، دین میں سے کوئی بات چھوڑنی نہیں پڑی جس سے اس قدر حیرانی ہو- مسیح موعود کا دعوی اس حالت میں گراں اور قابل احتیاط ہوتا جبکہ اس کے ساتھ دین کے احکام کی کمی بیشی ہوتی اور ہماری عملی حالت دوسرے مسلمانوں سے کچھ فرق رکھتی-(آینہ کمالات صفحہ ٣٣٥، ط١،خزائین صفحہ ٣٣٩،ج٥)[36]

مرزا صاحب  کا دعویٰ تھا کہ، میں وہ مسیح ہوں جس کے متعلق رسول اللہ نے واضح کیا کہ وہ آئے گا مرزا صاحب عبارات بالا میں صاف صاف مانتے ہیں کہ مسیح موعود کا اقرار و انکار ایمانیات میں داخل نہیں کوئی میرے انکار کی وجہ سے کافر نہیں ہو سکتا-

[نوٹ : صرف نبی اور رسول جن کا  منع جانب الله تعالی سے بھیجنا ثابت ہو ان کا انکار کفر ہے ،مجدد ، علیم اور محدثین کا مرتبہ جتن بھی بڑا ہو ان کا انکار کفر نہیں]

اب اس کے خلاف ملاحظه فرمائیں کہ مرزا صاحب کیسے پینترا بلتے ہیں:

 میرا  (مرزا کا ) منکر جہنمی، کافر ، غیر ناجی ہے:

مرزا صاحب فرماتے ہیں :

(ا) " ہر ایک شخص جس کو میری دعوت پہنچی ہے اور اس نے مجھے قبول نہیں کیا وہ مسلمان نہیں ہے (مکتوب مرزا بنام ڈاکٹر عبدالحکیم صاحب ، مندرجہ الذکر الحکیم نمبر ٤ ص ٢٣مصدقہ مرزا در حقیقت وحی ص ١٦٣ )[37]

(ب) جو مجھے نہیں مانتا وہ خدا رسول کو بھی نہیں مانتا چونکہ میری نسبت خدا اور رسول کی پیشنگوئی موجود ہے(ص١٦٣حقیقتہ الوحی)

(ج)  (اے مرزا)ہے جو شخص تیری پیروی نہ کرے گا اور بیعت میں داخل نہ ہوگا وہ خدا اور رسول کی نافرمانی کرنے والا اور جہنمی ہے (ص٨، رسامعیار الاخبار- الہام مرزا )

(ر) اب دیکھو خدا نے میری وحی  میری تعلیم  اور میری بیعت کو نوح کی کشتی قرار دیا کیا اور تمام انسانوں کے لیے اس کو مدارنجات ٹھرایا (ص٧، اربعین نمبر ٤)

مرزا کا دعوی تھا کہ میں وہ مسیح ہوں جس کے بارے میں  رسول اللہ ﷺ نے  پیشن گوئی کی ہے- بایں ہمہ پہلی تحریرات میں صاف لکھا کہ مسیح موعود کا انکار و اقرار ایمانیات میں داخل نہیں - میرے دعوے کے سے انکار سے کوئی کافر نہیں ہوتا میری تعلیم میں کوئی انقلاب نہیں، ہماری عملی حالت دیگر مسلمانوں جیسی ہے اس کے بخلاف دوسری تحریرات میں  مسیح موعود یعنی بزعم خود بدولت کے انکار کو خدا اور رسول کی پیشین گوئی کا منکر کافر بیعت نہ کرنے والے کو اور پیروی سے بھر رہنے والے کو جہنمی، اپنی تعلیم کو راہ نجات ٹھہرایا ہے:

 بعض اہل تثلیث (مرزا صاحب کے پیروکار) جواب دیا کرتے ہیں کہ یہ کوئی اختلاف نہیں جب تک الله تعالی کی طرف سے آپ پر ظاہر نہ فرمایا گیا آپ انکار فرماتے رہے - جب تک الله تعالی  ۓ تصریح آپ  ۓ بھی اعلان فرما دیا- (ص٢٢٣ تفہیمات )

الجواب :

  اب یہاں اختلاف دعوی کے متعلق ہے ہے اور ہم پہلے مرزا صاحب کی تحریرات سے ثابت کر آئے ہیں کہ براہین احمدیہ  کے زمانے سے ہی مرزا صاحب بقول خود خدا کے نزدیک نبی و رسول  تھے اور اور یہ بھی کہ انبیاء کو ان کے دعوے میں غلطی نہیں ہو سکتی (ملاحضہ ص١٢٦، اعجاز احمدی)

بس مرزا صاحب کا باوجود نبی اللہ ہونے کے یہ کہنا کہ "میرے دعوی کے انکار کی وجہ سے سے کوئی کافر نہیں ہو سکتا" اور پھر کافر کہنا دلیل ہے اس بات کی کہ مرزا صاحب ہرگزنبی نہ تھے بلکہ ایک مراقی یا حسب موقع و ضرورت خود گرگٹ کی طرح رنگ بدلنے والے تھے- (بجواب احمدیہ پاکٹ بک، محمدیہ پاکٹ بک ، صفحہ ١٦٩، ١٧٠)

مسیح ابن مریم دوبارہ نازل ہوگا

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ  شَهِيدًا

"وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اور اللہ گواہ کے طور پر کافی ہے"۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر: 28)[38]

یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں  پیشن گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ مسیح کے ذریعہ  ظہور میں آئے گا- مسیح دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور ان کے ہاتھ سے اسلام جمیع آفاق میں پھیل جائے گا"(ملاحظ براہین احمدیہ ص ٤٩٨،٤٩٩)

اس کے خلاف

"قرآن شریف قطعی طور پر اپنی آیات بینات میں میں مسیح کے فوت ہو جانے کا قائل ہے" (ص، ١٤٣،ط١، ٦٠، ط٣)

" قرآن شریف مسیح مریم کے کے دوبارہ آنے کا کہیں بھی ذکر نہیں"( ص، ١٤٦، ایام الصلح اردو)

مقدم الذکر تحریر میں میں از رونے قرآن قرآن مسیح  کی دوبارہ آمد بتائ  اور  موخرالذکر عبارت میں  از رونے قرآن انکار کیا اس سے نہ صرف اختلاف  ثابت ہوا بلکہ مرزا صاحب کی قرآن کی سمجھ بوجھ بھی آشکار ہوئی-

اعتراض

پہلے مرزا صاحب  ۓ رسمی عقیده کی وجہ سے حیات مسیح تسلیم کی بعد میں بوحی اس عقیده کو چھوڑ دیا-

الجواب

مرزا صاحب کا بقول خود کہ براہین احمدیہ کے زمانہ میں وہ "نبی اللہ" تھے سے اور "مامور الہی"  اور خاص کر مامور بھی اس لیے کیے گئے کہ قرآن کی اصل تعلیم بیان کریں- لہذا مرزا کا ایک ایسے عقیده کو رسما نہیں بلکہ تمسک قرآن لکھنا جو آئندہ ان کے "اصلی دعوی" کے مخالف بننے والا تھا صاف ثابت کر رہا ہے کہ وہ مفتری علی اللہ تھے- انبیاء کو کو ان کے دعوی میں غلطی نہیں ہو سکتی ماسوا اس کے کہ  مرزا صاحب کا یہ بھی مذھب ہے کہ:-

"انبیاء اپنے نے کل اقوال و افعال میں خدا کے ترجمان ہوتے ہیں انکی اپنی ہستی کچھ نہیں ہوتی ایک کٹھ پتلی کی طرح کی مانند خدا کے ہاتھ میں ہوتے ہیں (بجواب احمدیہ پاکٹ بک، محمدیہ پاکٹ بک صفحہ ١٧١) [39]

پس براہیں احمدیہ والا عقیده کبھی غلط نہیں جانا جا سکتا تا وقتیکہ انہیں مفتری علی اللہ نہ سمجھا جائے- پھر مرزا صاحب کا یہ قول ہے "روح القدس کی قدسیت ہر وقت، ہر دم، ہر لحظہ ملہم کے تم قوی میں کم کرتی رہتی ہے(یہ میرا ذاتی تجربہ ہے) (ص،٩٣حاشیہ آیینہ کمالات، خزائین ص ٩٣، ج٥)

خاص کر براہین احمدیہ تو وہ کتاب ہے جو بقول مرزا،  رسول اللہ ﷺ کے دربار میں رجسٹری ہو چکی ہے- چنانچہ لکھتے ہیں "خواب میں  رسول اللہ ﷺ  نے اس اس کا نام قطبی رکھا (مفھوم ص، ٢٤٨،٢٤٩ براہین احمدیہ، خزائین ص ٢٧٥ج)

"ہاں ہاں- براہین احمدیہ وہ کتاب ہے جو بقول مرزا مولف نے ملہم اور مامور ہو کر بغرض اصلاح تجدید دین تالیف کیا" (اشتہار براہین ملحقه آخر رسالہ سرمہ چشم آریہ ، خزائین صفحہ ٣١٩ ج ٢)

پس اس میں اصلاح کی بجایے مرزا صاحب کے کاذب ہونے کی واضح دلیل ہے-

ختم نبوت اور منکرین

"تثلیث نبوت" کی پیدائش کو ایک صدی سے زیادہ کا عرصہ گزر چکا ہے، دلائل ، جوابی دلائل کی کتب اور تحقیقی مقالہ جات سے لائبریریاں بھری پڑی ہیں ، ویب سائٹس اور انٹرنیٹ اورلوڈڈ ہے- لیکن اتنی کوششوں کے باوجود منکرین ختم نبوت اپنے گمراہ کن عقائد پر قائم ہیں- اس کی وجہ مبلغین، علماء حق کا قرآن کو نظر انداز کرنا ہے:  "یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے"۔(الفرقان 25:1)[40]، "قرآن کریم  لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے اتاری گئی ہے۔"(البقرہ2:213)[41]

مسئلہ ختم نبوت کے تین بنیادی حصے ہیں:  رسول اللہ ﷺ کا خاتم النبین ہونا ، قیامت سے قبل حضرت مہدی (امام) کی حکمرانی، اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا ایک منصف عدل حکمران کے طور پر اسلام کا دنیا میں غلبہ، قدرتی وفات-

ختم نبوت کا عقیده قرآن کی محکم آیت ، سنت  رسول اللہ ﷺ ، احادیث ، سنت خلفاء راشدین (حضرت ابوبکر(رض) کا منکرین نبوت سے جہاد) اور اجماع امت سے چودہ سو برس سے قائم و دائم ہے اور قیامت تک رہے گا-

مسلمان مکمل طور پر ختم نبوت پر ایمان رکھتے ہیں ان کا دعوی ہے کہ قرآن یا احادیث میں  رسول اللہ ﷺ کے بعد کہیں کسی  بھی قسم کے نبی (شریعت یا بغیر شریعت) پر ایمان لانے کے لیے حکم نہیں دیا گیا-وہ  مخالفین پر ضعیف احادیث و روایت اور تحریف کا الزام دیتے ہیں-

مگر  "اہل تثلیث نبوت" [مختصر "اہل تثلیث"] اس کے برخلاف اپنے عقیده کو درست قرار دیتے ہیں اور دلائل میں  قدیم علماء اور احادیث سے تاویلیں کرتے ہیں اور مسلمانوں کے احادیث سے دلائل کی اپنی شتریح کرتے ہیں ان کے دلائل والی احادیث کو ضعیف قرار دے کر مسترد کرتے ہیں-

ان حالات میں اللہ اور  رسول اللہ ﷺ نے اختلافات کے حل کا جو طریقہ واضح کر دیا اس پر عمل سے ہی کسی حتمی  نتیجہ پر پہنچا جا سکتا ہے:

"اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (صلی اللہ علیہ وسلم) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔ (قرآن :4:59)

"جن لوگوں نے ہماری آیتوں سے کفر کیا، انہیں ہم یقیناً آگ میں ڈال دیں گے جب ان کی کھالیں پک جائیں گی ہم ان کے سوا اور کھالیں بدل دیں گے تاکہ وه عذاب چکھتے رہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ غالب حکمت واﻻ ہے (قرآن :4:56 )[42]

"وہی اللہ تعالیٰ ہے جس نے تجھ پر کتاب اتاری  جس کی کچھ آیتیں تو "محکم" (یعنی ظاہراً بھی صاف اور واضح معنی رکھنے والی)  ہیں "جو اصل کتاب" ہیں اوردوسری آیتیں متشابہ (یعنی معنی میں کئی احتمال اور اشتباہ رکھنے والی) ہیں۔  اب جن لوگوں کے دلوں میں ٹیڑھ ہے تو وہ من مانی تاویلیں کرنے کی خاطر متشابہات کا اتباع کرتے ہیں تاکہ فتنہ برپا کریں حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا اور پختہ اور مضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ہیں، یہ سب ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں" (قرآن 3:7)[43]

اختلاف کے مرکزی نقاط

  1.  رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا مطلب کیا ہے؟
  2.  نبی کی کب ضرورت ہوتی ہے؟
  3. رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین کے بعد "بغیر شریعت کے نبوت" کی قرآن کی محکم آیات سے دلیل؟
  4. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول یا دوبارہ آمد یا نہ آمد کے قرآن سے ثبوت؟
  5. حضرت امام مہدی کی حقیقت قرآن سے؟
  6. کیا حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور حضرت امام مہدی دو مختلف شخصیات ہیں یا ایک ، قرآن سے دلیل؟
  7. "تثلیث نبوت" نظریہ کی حقیقت:[44] کیا  دنیا میں پیدا ہونے والا شخص بیک وقت مسیح موعود [حضرت عیسیٰ علیہ السلام (مثیل عیسیٰ )] امام مہدی اور نبی ہو سکتا ہے اس کی قران سے دلیل؟

ان نقاط کا مختصر طور پر دونوں مخالفین کے نقطۂ نظر کے مطابق تجزیہ کرتے ہیں، لنکس پر تفصیلات دیکھی جا سکتی ہیں-

ختم نبوت

رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کا مطلب کیا ہے؟

 اللہ کا فرمان ہے :

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ‎﴿٤٠﴾

( مسلمانو ! )  محمد (ﷺ)  تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے (قرآن: 33:40)[45] 

نبی صلی اللہ علیہ وسلم  کے فرمان نے اس آیت کی تشریح میں کوئی ابہام  نہیں چھوڑا ، آپ ﷺ نے فرمایا:

’’میری اور مجھ سے پہلے گزرے ہوئے انبیاء کی مثال ایسی ہے جیسی ایک شخص نے ایک عمارت بنائی اور خوب حسین و جمیل بنائی مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ چھوٹی ہوئی تھی۔ لوگ اس عمارت کے گرد پھرے اور اس کی خوبی پر اظہارِ حیرت کرتے تھے ، مگر کہتے تھے کہ اس جگہ اینٹ کیوں نہ رکھی گئی؟ تو وہ اینٹ میں ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں‘‘ (یعنی میرے آنے پر نبوت کی عمر مکمل ہو چکی ہے، اب کوئی جگہ باقی نہیں ہے جسے پُر کرنے کے لیے کوئی آئے ) [ ترجمہ – مسلم، ترمذی، ابو داوٗد،مُسند احمد]

اگر ختم نبوت کا مطلب جو مرزا قادیانی صاحب نکالتے ہیں کہ؛ "نئی شریعت کے بغیر نبی آتے رہیں گے"  تو رسول اللہﷺ وضاحت فرما دیتے مگر یہ مثال مکمل صاف ہے-

اس کے علاوہ نو(9) احادیث میں (لاَ نَبِیَّ بَعْدِیْ) "میرے بعد کوئی نبی نہیں" موجود ہے اور "ختمِ نبوت کے موضوع پر چالیس (چہل) حدیث" صحاحِ ستہ سے بھی ملاحضہ کی جا سکتی ہیں[46].

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ شریعت محمدی کے مطابق اسلام میں  محمد رسول اللهﷺ کے بعد کسی  نبی کی آمد نہیں ہو سکتی- اب جب کوئی یہ دعوی کرے کہ وہ بغیر شریعت کے نبی ہے تو وہ "شریعت محمدی" میں بنیادی تبدیلی کر رہا ہے جو بات ، ایمان اور شریعت محمدی کا حصہ نہیں ( محمد رسول اللهﷺ کے بعد کسی  نبی کی آمد نہیں ) اسے  شریعت محمدی میں شامل کرنا  شریعت محمدی کو تبدیل کرنا ہے- مرزا صاحب کا نقطۂ آغاز ہی تضاد کا شکار ہے، غلط ہے باطل ہے ان کی اپنے بیانیہ کے مطابق- [Mirza Sahib is contradicting himself]

 وہ  یا کوئی شخص شریعت محمدی کو تبدیل کیئے بغیر اسلام میں نبی نہیں قرار پا سکتا- جیسے ہی وہ اپنے آپ کو مثیل مسیح ، مہدی، 'نبی بغیر شریعت' کہتے ہیں وہ  'شریعت محمدی' میں تبدیلی کر رہے ہیں تو شریعت میں تبدیلی کرنے والا اپنے آپ کو 'نبی بغیر شریعت' نہیں کہہ سکتا وہ عملی طور پر شریعت والا نبی بن بیٹھا ہے، لیکن زبانی طور پر جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے کہ وہ بغیر شریعت کے نبی ہے!

مزید پڑھیں : ختم نبوّت کے بَارے میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشادات[47] .......

اہل تثلیث نبوت کا نقطۂ نظر

اہل تثلیث نبوت (منکرین ختم نبوت ، قادیانی ، احمدیہ) قرآن اوراحادیث کا انکار نہیں کر سکتے مگر وہ  لفظ "خاتم النبیین"[48] کی معنوی تحریف کرتے ہیں؛ عربی میں ایک لفظ کے کئی معنی ممکن ہیں لیکن سیاق و سباق سے درست معنی معلوم ہوتے ہیں- مذکورہ آیت میں جہاں تک سیاق وسباق کا تعلق ہے وہ قطعی طور پر اس امر کا تقاضا کرتا ہے کہ یہاں خاتم النبییّن کے معنی سلسلۂ نبوّت کو ختم کر دینے والے ہی کے لیے جائیں اور یہ سمجھا جائے کہ حضورؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔ لیکن یہ صرف سیاق ہی کا تقاضا نہیں ہے ، لغت بھی اِسی معنی کی مقتضی ہے۔ عرنی لغت اور محاورے کی رُو سے ’’ ختم‘‘ کے معنی مُہر لگانے ، بند کرنے ، آخر تک پہنچ جانے ، اور کسی کام کو پورا کر کے فارغ ہو جانے کے ہیں- اس بنا پر تمام اہل لغت اور اہل تفسیر نے بالاتفاق خاتم النبییّن کے معنی آخر النبییّن  کے لیے ہیں۔ عربی لُغت و محاورے کی رُو سے خاتم کے معنیٰ ڈاک خانے کی مُہر کے نہیں ہیں جسے لگا لگا کر خطوط جاری کیے جاتے ہیں ، بلکہ اس سے مراد وہ مُہر ہے جو لفافے پر اس لیے لگائی جاتی ہے کہ نہ اس کے اندر سے کوئی چیز باہر نکلنے  نہ باہر کی کوئی چیز اندر جائے[49]-

"منکرین ختم نبوت" کے مطابق "خاتم" کا مطلب "آخری نبی" نہیں "افضل نبی"، مہر (stamp) ہے-  اور یہ کہ "خاتم النبیین" کا مفھوم،  رسول اللہ ﷺ ایسا آخری نبی ہیں جن  کے بعد کوئی نئی شریعت لانے والا نبی نہیں آسکتا مگر شریعت محمدی کو تبدیل کینے بغیرامت  محمد رسول اللهﷺ  میں نبی آ سکتے ہیں وہ اس طرح سے  محمد رسول اللهﷺ کے طابع ہوں گے- "منکرین ختم نبوت" اپنی اس خود ساختہ تشریح ، تاویل  کی لفظی دلیل قرآن یا حدیث سے نہیں دے سکتے- وہ پرانے سکالرز کو کوٹ کرتے ہیں جن میں متنازعہ صوفی عالم ابن عربی[50] (وحدہ الوجود کے مشرکانہ عقیده کے موجد سمجھے جاتے ہیں)، وغیرہ شامل ہیں کہ  رسول اللہ ﷺ کے بعد نبی آ سکتا ہے-

ابن عربی وغیرہ کی تحریروں میں نبوت کے جاری رہنے کا ذکر کرنا، خاص طور پرحیران کن ہے کہ جس شخص کو مرزا صاحب نے وحدت الوجود کا بڑا حامی قرار دیا اور ''رسالہ تقریر اور خط'' میں وحدت و جودیوں کو ملحد، زندیق وغیرہ قرار دیا ہے۔(۱۳۳) آج اسی کی تحریروں کو دلیل بنایا جاتا ہے وہ بھی نصوص قرآن اور احادیث رسول علیہ السلام کے مقابلہ پر اس پر مزید لطف یہ کہ ان کی تحریرات میں بھی خیانت معنوی کی جاتی ہے۔ ابن عربی وغیرہ صوفیاءکی اصطلاح میں مرزائیوں کی طرح نبی دو قسم کے نہیں۔ ایک شریعت والے اور دوسرے بغیر شریعت کے بلکہ ان کے نزدیک جملہ نبی سب کے سب صاحبِ شریعت ہیں۔ ہاں اتنا فرق ہے کہ وہ جملہ انبیاء کرام کو رسول کہتے ہیں اور غیر نبی اولیاء کو تشریعی بنی۔ چنانچہ وہ فرماتے ہیں رسول جس کو تبلیغ احکام شرعیہ کا حکم ہو جو اس پر نازل ہوتے ہیں اور نبی جس کو الہام تو ہو مگر وہ اس کی تبلیغ کے لیے مامور نہ ہو۔

(۱۳۴) (الیواقیت والجواھر، ص۲۵)

نبی وہ ہے جس پر وحی خاص اس کی ذات کے لیے نازل ہو وہ اس کی تبلیغ پر مامور نہ ہو پھر اگر اس کو ایسا حکم دیا گیا ہے کہ وہ اس کی تبلیغ پر مامور ہوا ہے خواہ کسی خاص قوم کی طرف جیسا جملہ انبیاء کرام یا تمام دنیا کی طرف تو وہ رسول ہے مگر تمام دنیا کی طرف رسول سوائے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے اور کوئی نہیں ہوا۔ اور ہم نے جو نبوت تشریعی کا ذکر کیا ہے وہ یہی ہے جو اوپر مذکور ہوئی یہ نبوت اولیاء کے لیے نہیں ہے۔

خدا تعالیٰ نے جملہ شرائع کو شریعت محمدیہ پر ختم کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہی آئے گا جس پر خاص اس کی ذات کے لیے وحی ہو اور نہ رسول ہی آئے گا جو تبلیغ کے لیے مامور ہوتا ہے:

یہ وہ خصوصیت ہے جو ولی میں نہیں پائی جاتی صرف نبی میں پائی جاتی ہے یعنی وحی تشریعی شرع نہیں مگر نبی کے لیے اور رسول کے لیے۔۔(۱۳۶) (فتوحات مکیۃ)

ان تحریرات سے صوفیاء کا مطلب ظاہر ہے۔ یعنی وہ جملہ انبیاء کو تو تشریعی نبی کہتے ہیں اور اولیاء امت کا نام انہوں نے غیر تشریعی نبوت رکھا ہے-

خدا تعالیٰ نے جملہ شرائع کو شریعت محمدیہ پر ختم کردیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نہ کوئی نبی ہی آئے گا جس پر خاص اس کی ذات کے لیے وحی ہو اور نہ رسول ہی آئے گا جو تبلیغ کے لیے مامور ہوتا ہے:۔(۱۳۵) (الیواقیت جلد۲، ص۳۷)

یہ وہ خصوصیت ہے جو ولی میں نہیں پائی جاتی صرف نبی میں پائی جاتی ہے یعنی وحی تشریعی شرع نہیں مگر نبی کے لیے اور رسول کے لیے۔ ان تحریرات سے صوفیاء کا مطلب ظاہر ہے۔ یعنی وہ جملہ انبیاء کو تو تشریعی نبی کہتے ہیں اور اولیاء امت کا نام انہوں نے غیر تشریعی نبوت رکھا ہے(۱۳۶) (فتوحات مکیۃ)-[51]

اگرچہ مرزا صاحب نے مسئلہ وحدۃ الوجود کے رد میں حضرت ابن العربی کو ملحد زندیق وغیرہ قرار دیا ہے مگر جہاں ضرورت پڑی انہیں صاحبِ مکاشفات ولی اللہ ظاہر کرکے اپنی اغراضِ نفسانیہ کو پورا بھی کیا ہے۔ (۳۷۴)(ملاحظہ ہو فتویٰ الحاد ورسالہ تقریر اور خط)- کہا گیا ہے کہ یہ بزرگ بھی وفاتِ مسیح علیہ السلام کے قائل تھے۔ اس پر تفسیر عرائس البیان کا حوالہ دیا جاتا ہے۔ حالانکہ خود یہی بات مشکوک ہے کہ یہ تفسیر ان کی ہے بھی یا نہیں پھر جو عبارت پیش کی جاتی ہے اس میں بھی وفاتِ مسیح کا کوئی لفظ نہیں صرف یہ ہے کہ مسیح دوسرے بدن کے ساتھ اترے گا۔ اب دوسرے بدن کا مطلب ظاہر ہے جب تک حضرت مسیح علیہ السلام زمین پر رہے بوجہ طعام اراضی ان میں کثافت موجود تھی مگر اب صدہا برس کے بعد جب نازل ہوں گے تو یقینا روحانیت کا غلبہ تام ہوگا۔ حضرت ابن عربی تو حیاتِ مسیح علیہ السلام کے اس قدر قائل ہیں کہ کوتاہ نظر انسان انہیں غلو تک پہنچا ہوا قرار دے گا۔ تفصیل کے لیے فتوحات مکیہ دیکھیں۔ اس جگہ صرف اختصار کے طور پر ایک دو عبارات پیش ہے:

ان عیسی علیہ السلام ینزل فی ھذہ الامۃ فی اٰخر الزمان ویحکم بشریعۃ محمد ﷺ۔(۳۷۵) (فتوحاتِ مکیہ جلد ۲ص۱۲۵)

انہ لم یمت الی الاٰن بل رفعہ اللّٰہ الٰی ھذہ السمآء۔ واسکنہ فیھا ۔(۳۷۶)

ترجمہ : حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس امت میں آخری وقت پر نازل ہون گے اور شریعت محمدی صلی اللہ علیہ وسلم کے مطابق چلیں گے (375) (فتوحات مکیہ چمڑا 2، ص 125)- وہ اب تک نہیں مرے لیکن اللہ تعالیٰ نے اسے اس آسمان میں اٹھایا۔ اور اس میں رہو (374) ایسا ہی جلد اوّل ص۱۳۵، ۱۴۴و ص۱۸۵، ۲۲۴و جلد ۲ص ۴۹/۳و ص۱۳۵و جلد ۳، ص ۵۱۲میں حیات مسیح کا ذکر کیا ہے[52]-

 کسی عالم کی دلیل صرف اس صورت میں قابل قبول ہو سکتی ہے جب اس کے پیچھے قرآن، سنت سے محکم  ریفرنس ہوں، کسی کے ذاتی خیالات و نظریات امہ مسلمہ کے لئے دلیل یا حجت نہیں-

"اہل تثلیث نبوت" کے عقائد کے مطابق اگر  رسول اللہ ﷺ کے بعد بھی انبیاء آسکتے ہیں  تو مرزا صاحب کومثل عیسیٰ  بننے کے لئے عیسی ابن مریم نام رکھنے کی کیا ضرورت ہے؟ جبکہ وہ خود وفات مسیح کے قائل ہیں اور اقرار کرتے ہیں کہ وفات شدہ شخص دنیا میں واپس نہیں آ سکتا- تو پھر مردہ زندہ کیوں کرنا چاہتے ہیں اپنی ذات میں ؟ مسیح موعود کیوں بننا چاہتے ہیں جبکہ وہ نہیں ہیں- حق سچ کا کا تقاضہ ہے لوگوں کی (ممکنہ) غلط فہمی کو دور کرتے یہ کہہ کر کہ کوئی مسیح نہہں آرہا- لیکن وہ مسلمانوں میں احادیث کی بنیاد پر مشہورنزول مسیح[53] علیہ السلام کے نظریہ سے بھی فائدہ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس لئے کتمان حق (اپنے ہی دعوی کے لحاظ سے) کرتے ہیں جو کسی نبوت کے داعئی کے بھی شایان شان نہیں- کوئی کسرباقی نہ رہ جا نےتو پھرحضرت امام مہدی کے نام کو بھی شامل کرکہ خود کو مہدی ، عیسیٰ (مسیح موعود) اور نبی ثابت کرنا چاہتے ہیں! یعنی تین میں ایک (Three in One) -

 یہ تو ایک نئی (Trinity)[54] "تثلیث نبوت" (Trinity of Prophets) بن جاتی ہے جس کا قرآن ، سنت ، حدیث میں کہیں ذکر نہیں اور نہ ہی اس پر ایمان کا حکم ہے تو کیوں مسلمان کسی کے کہنے پر اپنے ایمان کو برباد کریں؟

دھوکہ و فریب "نبی بغیر شریعت"- متضاد بیانیہ

ختم نبوت پر چودہ سو سال سے قرآن سنت کی بنیاد پر  اجماع صحابہ و امت ہے کہ : "شریعت محمدی" کے مطابق اسلام میں  محمد رسول اللهﷺ کے بعد کسی  نبی کی آمد نہیں ہو سکتی- جب کوئی یہ دعوی کرے کہ وہ "بغیر شریعت کے نبی" ہے تو وہ "شریعت محمدی" میں بنیادی تبدیلی کر رہا ہے - "بغیر شریعت کے نبی" کا عقیده  قرآن و سنت کے مطابق ایمان اور شریعت محمدی کا حصہ نہیں اسے  شریعت محمدی میں شامل کرنا  شریعت محمدی کو تبدیل کرنا ہے- تثلیث نبوت (منکرین ختم نبوت) والے صاحب کا نقطۂ آغاز ہی تضاد  [Self Contradiction] کا شکار ہے، غلط ہے باطل ہے ان کی اپنے بیانیہ کے مطابق-

کوئی شخص شریعت محمدی کو تبدیل کیئے بغیر اسلام میں نبی نہیں قرار پا سکتا- جیسے ہی وہ اپنے آپ کو مثیل مسیح ، مہدی، 'نبی بغیر شریعت' (Three in One-Triune Prophet) کہتا ہے وہ  'شریعت محمدی' میں تبدیلی کر رہا ہے تو شریعت میں تبدیلی کرنے والا اپنے آپ کو 'نبی بغیر شریعت' نہیں کہہ سکتا وہ عملی طور پر شریعت والا نبی بن بیٹھا ہے-  لیکن یا تو اسے سمجھ نہیں کہ وہ کیا کہ رہا ہے یا پھر جھوٹ بول کر لوگوں کو دھوکہ دے رہا ہے کہ وہ بغیر شریعت کے نبی ہے!

اگر کسی گھر کے دروازہ پر قفل لگا ہے اور کوئی شخص قفل توڑ کر گھر میں بلا اجازت گھس  جایے اور کہے کہ میں مہمان ہوں، گھر کا ملک تسلیم نہ کرے بلکہ اسے بغیر اجازت گھرداخل ہونے پر قانونی کاروائی کرے تو کون حق بجانب ہے؟ غیر کا ملک یا زبردستی کا مہمان ؟

فرماتے ہیں : "میری وحی میں امر بھی ہیں اور نہی بھی" [ص ٧٠٦، رسله اربعین ٤،خزائین صفحہ٤٣٥،ج ١٧]

رسول اللہ ﷺ کے خاتم النبیین ہونے کی وجوہات اور آپ کے بعد نبی کی ضرورت کیوں نہیں؟

یہ قابل غور بات یہ ہے کہ نبوت کوئی ایسی صفت نہیں ہے جو ہر اُس شخص میں پیدا ہو جایا کرے جس نے عبادت اور عملِ صالح میں ترقی کر کے اپنے آپ کو اس کا اہل بنا لیا ہو۔ نہ یہ کوئی ایسا انعام ہے جو کچھ خدمات کے صلے میں عطا کیا جاتا ہو۔ بلکہ یہ ایک منصب ہے جس پر ایک خاص ضرورت کی خاطر اللہ تعالیٰ کسی شخص کو مقرر کرتا ہے۔ وہ ضرورت جب داعی ہوتی ہے تو ایک نبی اس کے لیے مامور کیا جاتا ہے ، اور جب ضرورت نہیں رہتی تو خواہ مخواہ انبیاء پر انبیاء نہیں بھیجے جاتے۔

قرآن مجید سے جب ہم یہ معلوم کرنے کی کوشش کرتے ہیں کہ نبی کے تقرر کی ضرورت کن کن حالات میں پیش آئی ہے تو پتہ چلتا ہے کہ صرف چار حالتیں ہیں جن میں انبیاء مبعوث ہوئے ہیں :

  1. اوّل یہ کہ کسی خاص قوم میں نبی بھیجنے کی ضرورت اس لیے کہ کہ اس میں پہلے کبھی کوئی نبی نہ آیا تھا اور کسی دوسری قوم میں آئے ہوئے نبی کا پیغام بھی اس تک نہ پہنچ سکتا تھا۔
  2. دوّم یہ کہ نبی بھیجنے کی ضرورت اس وجہ سے ہو کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کی تعلیم بھُلا دی گئی ہو، یا اس میں تحریف ہو گئی ہو، اور اس کے نقش قدم کی پیروی کرنا ممکن نہ رہا ہو۔
  3. سوم یہ کہ پہلے گزرے ہوئے نبی کے ذریعہ مکمل تعلیم و ہدایت لوگوں کو نہ ملی ہو اور تکمیل دین کے لیے مزید انبیاء کی ضرورت ہو۔
  4. چہارم یہ ایک نبی کے ساتھ اس کی مدد کے لیے ایک اور نبی کی حاجت ہو۔

اب یہ ظاہر ہے کہ ان میں سے کوئی ضرورت بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد باقی نہیں رہی ہے۔

قرآن خود کہہ رہا ہے کہ حضورؐ کو تمام دُنیا کی ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا گیا ہے اور دنیا کی تمدّنی تاریخ بتا رہی ہے کہ آپؐ کی بعثت کے وقت سے مسلسل ایسے حالات موجود رہے ہیں کہ آپؐ کی دعوت سب قوموں کو پہنچ سکتی تھی اور ہر وقت پہنچ سکتی ہے۔ اب انٹرنیٹ  ۓ کم اور آسان کر دیا ہے دنی ایک گلوبل ویلج بن چکی ہے- اس کے بعد الگ الگ قوموں میں بھی انبیاء آنے کی کوئی حاجت باقی نہیں رہتی۔

قرآن اس پر بھی گواہ ہے اور اس کے ساتھ حدیث و سیرت کا پورا ذخیرہ اس امر کی شہادت دے رہا کہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی لائی ہوئی تعلیم بالکل اپنی صحیح صورت میں محفوظ ہے۔ اس میں مسخ و تحریف کا کوئی عمل نہیں ہوا ہے۔ جو کتاب آپ لائے تھے اس میں ایک لفظ بھی کمی و بیشی آج تک نہیں ہوئی، نہ قیامت تک ہو سکتی ہے۔ جو ہدایت آپؐ نے اپنے قول و عمل سے دی اس کے تمام آثار آج بھی اس طرح ہمیں مل جاتے ہیں کہ گویا ہم آپؐ کے زمانے میں موجود ہیں۔ اس لیے دوسری ضرورت بھی ختم ہو گئی۔

احادیث میں کسی تحریف ، غلطی ، کو پکڑنا بہت آسان ہو چکا ہے- قرآن سے ذخیرہ احادیث کو چیک کرکہ تصدیق کی جاسکتی اور یہ کام دنوں ، یا گھنٹوں نہیں سیکنڈز میں سر انجام پاتا ہے کمپوٹرز اور موبائل فون اور ڈیجیٹل آلات کے  زریعہ ، عربی سے کسی زبان میں فوری ترجمہ بھی ہو جاتا ہے-

پھر قرآن مجید یہ بات بھی صاف صاف کہتا ہے کہ حضورؐ کے ذریعہ سے دین کی تکمیل کر دی گئی۔ لہٰذا تکمیل دین کے لیے بھی اب کوئی نبی درکار نہیں رہا۔

اب رہ جاتی ہے چوتھی ضرورت ، تو اگر اس کے لیے کوئی نبی درکار ہوتا تو وہ حضورؐ کے زمانے میں آپؐ کے ساتھ مقرر کیا جاتا۔ ظاہر ہے کہ جب وہ مقرر نہیں کیا گیا تو یہ بھی ساقط ہو گئی۔

اب ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ پانچویں وجہ کونسی ہے جس کے لیے آپؐ کے بعد ایک نبی کی ضرورت ہو؟

اگر کوئی کہے کہ قوم بگڑ گئی ہے اس لیے اصلاح کی خاطر ایک نبی کی ضرورت ہے ، تو ہم اس سے پوچھیں گے کہ محض اصلاح کے لیے نبی دنیا میں کب آیا ہے کہ آج صرف اس کام کے لیے وہ آئے؟

نبی تو اس لیے مقرر ہوتا ہے کہ اس پر وحی کی جائے ، اور وحی کی ضرورت یا تو کوئی نیا پیغام دینے کے لیے ہوتی ہے ، یا پچھلے پیغام کی تکمیل کرنے کے لیے ، یا اس کو تحریفات سے پاک کرنے کے لیے۔ قرآن اور سنتِ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے محفوظ ہو جانے اور دین کے مکمل ہو جانے کے بعد جب وحی کی سب ممکن ضرورتیں ختم ہو چکی ہیں ، تو اب اصلاح کے لیے صرف مصلحین کی حاجت باقی ہے نہ کہ انبیاء کی۔ مجدد اور دین پر کام کرنے والی جماعتیں اور لوگ اب بھی اپنا کم کر رہے ہیں جیسا کہ  رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا-

اہل تثلیث نبوت کے مطابق وہ نبی کی ضرورت تجدید اور اصلاح کے لئے محسوس کرتے ہیں جو قبل بیان کردہ وجوہات سے ضروری نہیں- بلکہ وقت نے ثابت کیا ہے کہ اس طرح سے تفرقہ بڑھا ہے اور امت میں نفاق پیدا ہو گیا ہے-

نبی جب بھی کسی قوم میں آئے گا فوراً اس میں کفر و ایمان کا سوال اُٹھ کھڑا ہو گا۔ جو اس کو مانیں گے وہ ایک امت قرار پائیں گے اور جو اس کو نہ مانیں گے وہ لامحالہ دوسری اُمّت ہوں گے۔ اِن دونوں امتوں کا اختلاف محض فروعی اختلاف نہ ہو گا بلکہ ایک نبی پر ایمان لانے اور نہ لانے کا ایسا بنیادی اختلاف ہو گا جو انہیں اس وقت تک جمع نہ ہونے دے گا جب تک ان میں سے کوئی اپنا عقیدہ نہ چھوڑ دے۔ پھر ان کے لیے عملاً بھی ہدایت اور قانون کے ماخذ الگ الگ ہوں گے ، کیوں کہ ایک گروہ اپنے تسلیم کردہ نبی کی پیش کی ہوئی وحی اور اس کی سنت سے قانون لے گا اور دوسرا گروہ اس کے ماخذِ قانون ہونے کا سرے سے منکر ہو گا۔ اس بنا پر ان کا ایک مشترک معاشرہ بن جانا کسی طرح بھی ممکن نہ ہو گا۔

ان حقائق کو اگر کوئی شخص نگاہ میں رکھے تو اس پر یہ بات بالکل واضح ہو جائے گی کہ ختمِ نبوت اُمتِ مسلمہ کے لیے اللہ کی ایک بہت بڑی رحمت ہے جس کی بدولت ہی اس امت کا ایک دائمی اور عالمگیر برادری بننا ممکن ہوا ہے۔ اس چیز نے مسلمانوں کو ایسے ہر بنیادی اختلاف سے محفوظ کر دیا ہے جو ان کے اندر مستقل تفریق کا موجب ہو سکتا ہو۔ اب جو شخص بھی محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنا ہادی و رہبر مانے اور ان کی دی ہوئی تعلیم کے سوا کسی اور ماخذِ ہدایت کی طرف رجوع کرنے کا قائل نہ ہو وہ اس برادری کا فرد ہے اور ہر وقت ہو سکتا ہے۔ یہ وحدت اس امت کو کبھی نصیب نہ ہو سکتی تھی اگر نبوت کا دروازہ بند نہ ہو جاتا۔ کیوں کہ ہر نبی کے آنے پر یہ  پارہ پارہ ہوتی رہتی۔

انسان سوچے تو اس کی عقل خود یہ کہہ دے گی کہ جب تمام دنیا کے لیے ایک نبی بھیج دیا جائے ، اور جب اس نبی کے ذریعہ سے دین کی تکمیل بھی کر دی جائے ، اور جب اس نبی کی تعلیم کو پوری طرح محفوظ بھی کر دیا جائے ، تو نبوت کا دروازہ بند ہو جانا چاہیے تاکہ اس آخری نبی کی پیروی پر جمع ہو کر تمام دنیا میں ہمیشہ کے لیے اہل ایمان کی ایک ہی امت بن سکے اور بلا ضرورت نئے نئے نبیوں کی آمد سے اس امت میں بار بار تفرقہ نہ برپا ہوتا رہے۔ نبی خواہ ’’ظِلّی‘‘ ہو یا’’ بروزی‘‘، اُمتی ہو یا صاحبِ شریعت اور صاحبِ کتاب، بہر حال جو شخص نبی ہو گا اور خدا کی طرف سے بھیجا ہوا ہو گا، اس کے آنے کا لازمی نتیجہ یہی ہو گا کہ اس کے ماننے والے ایک امّت بنیں اور نہ ماننے والے کافر قرار پائیں۔ یہ تفریق اس حالت میں تو ناگزیر ہے جب کہ نبی کے بھیجے جانے کی فی الواقع ضرورت ہو، مگر جب اس کے آنے کی کوئی ضرورت باقی نہ رہے تو خدا کی حکمت اور اس کی رحمت سے یہ بات قطعی بعید ہے کہ وہ خواہ مخواہ اپنے بندوں کو کفر ایمان کی کشمکش میں مبتلا کرے اور انہیں کبھی ایک امت نہ بننے دے۔ لہٰذا جو کچھ قرآن سے ثابت ہے اور جو کچھ سنت اور اجماع سے ثابت ہے عقل بھی اسی کو صحیح تسلیم کرتی ہے اور اس کا تقاضا بھی یہی ہے کہ اب نبوت کا دروازہ بند ہی رہنا چاہیے۔(تفہیم القرآن) [55]

 رسول اللہ ﷺ خاتم النبیین کے بعد نبوت کا سلسلہ ختم - قرآن سے دلائل

قرآن کریم کی اس آیت  اوران کی تشریح  فرامین  رسول اللہ ﷺ کے بعد قرآن سے کسی نبی کی آمد کا کوئی ثبوت نہیں جو اس آیت کو تبدیل یا منسوخ کرتا ہو:

مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ‎﴿٤٠﴾

( مسلمانو ! )  محمد (ﷺ)  تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے (قرآن: 33:40)[56] 

قرآن مجید کی رُو سے "نبوت" اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہے جن کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کفر و ایمان کا انحصار ہے۔ یہ بڑا ہی نازک معاملہ ہے،  ایک شخص نبی ہو اور آدمی اس کو نہ مانے تو کافر ، اور وہ نبی نہ ہو اور آدمی اس کو مان لے تو کافر۔

ایسے ایک نازک معاملے میں تو اللہ تعالیٰ سے کسی بے احتیاطی کی بدرجۂ اولیٰ توقع نہیں کی جا سکتی۔ اگر محمد صلی اللہ علیہ و سلم کے بعد کوئی نبی آنے والا ہوتا تو اللہ تعالیٰ خود قرآن میں صاف صاف اس کی تصریح فرماتا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعہ سے اس کا کھلم کھُلا اعلان کراتا اور حضور دنیا س کبھی تشریف نہ لے جاتے جب تک اپنی امت کو اچھی طرح خبردار نہ کر دیتے کہ میرے بعد بھی انبیاء آئیں گے اور تمہیں ان کو ماننا ہو گا۔

آخر اللہ اور اس کے رسول کو ہمارے دین و ایمان سے کیا دشمنی تھی کہ حضورؐ کے بعد نبوت کا دروازہ تو کھُلا ہوتا اور کوئی نبی آنے والا بھی ہوتا جس پر ایمان لائے بغیر ہم مسلمان نہ ہو سکتے ، مگر ہم کو نہ صرف یہ کہ اس سے بے خبر رکھا جاتا ، بلکہ اس کے برعکس اللہ اور اس کا رسول دونوں ایسی باتیں فرما دیتے جن سے تیرہ سو برس تک ساری امت یہی سمجھتی رہی اور آج بھی سمجھ رہی ہے کہ حضورؐ کے بعد کوئی نبی آنے والا نہیں ہے۔

اب اگر بفرضِ محال نبوت کا دروازہ کھلا بھی ہو اور کوئی نبی آ بھی جائے تو ہم بے خوف و خطر اس کا انکار کر دیں گے۔ خطرہ ہو سکتا ہے تو اللہ تعالیٰ کی باز پُرس ہی کا تو ہو سکتا ہے۔ وہ قیامت کے روز ہم سے پوچھے گا تو ہم یہ سارا ریکارڈ برسر عدالت لا کر رکھ دیں گے جس سے ثابت ہو جائے گا کہ معاذاللہ اس کفر کے خطرے میں تو اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت ہی نے ہی ہمیں ڈالا تھا۔ ہمیں قطعاً کوئی اندیشہ نہیں ہے کہ ریکارڈ کو دیکھ کر بھی اللہ تعالیٰ ہمیں کسی نئے نبی پر ایمان نہ لانے کی سزا دے ڈالے گا۔

لیکن اگر نبوت کا دروازہ فی الواقع بند ہے اور کوئی نبی آنے والا نہیں ہے ، اور اس کے باوجود کوئی شخص کسی مدعی کی نبوت پر ایمان لاتا ہے تو اسے سوچ لینا چاہیے کہ اس کفر کی پاداش سے بچنے کے لیے وہ کون سا ریکارڈ خدا کی عدالت میں پیش کر سکتا ہے جس سے وہ رہائی کی توقع رکھتا ہو۔ عدالت میں پیشی ہونے سے پہلے اسے اپنی صفائی کے مواد کا یہیں جائزہ لے لین چاہیے ، اور ہمارے پیش کردہ مواد سے مقابلہ کر کے خود ہی دیکھ لینا چاہیے کہ جس صفائی کے بھروسے پر وہ یہ کام کر رہا ہے کیا ایک عقلمند آدمی اس پر اعتماد کر کے کفر کی سزا کا خطرہ مول لے سکتا ہے؟(تفہیم القرآن[57]) کوئی ایسی آیت نہیں ملتی جس سے یہ ثابت ہو کہ کوئی نبی آنے والا ہے، شریعت کے بغیر یا شریعت کے ساتھ کوئی نہیں-

مزید تفصیل : 

  1. ختم نبوت کا ثبوت از قرآن[58].....
  2. ختم نبوت کا ثبوت ازاحادیث[59].....
  3. ثبوت حیات مسیح علیہ السلام از احادیث نبویہ[60].....

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول  اور قرآن

اِسلامی عقیدہ کے مطابق حضرت عیسی ابن مریم نہ تو صلیب پر چڑھائے گئے اور نہ ہی اُن کی طبعی وفات واقع ہوئی بلکہ وہ زِندہ آسمان پر اُٹھا لیے گئے ہیں قرآن ( 4:157) [61]،  اِسی بنا پر آخری زمانے میں اُن کی دوبارہ آمد اِس دنیا میں ہوگی(قرآن: 43:61)۔ مگر اس آیت کو  ( قرآن109، 5:116,117) سے ملا کر نزول مسیح کی تردید ہوتی ہے- 

پہلے اس آیت کو دیکھتے ہیں جسے علماء کی طرف سے  نزول مسیح ثابت کرنے کے لئے پیش کیا جاتا ہے:

وَ اِنَّہٗ لَعِلۡمٌ لِّلسَّاعَۃِ فَلَا تَمۡتَرُنَّ بِہَا وَ اتَّبِعُوۡنِ ؕ ہٰذَا صِرَاطٌ مُّسۡتَقِیۡمٌ ﴿٤٣:٦١﴾

اور وہ در اصل قیامت کی ایک نشانی ہے، پس تم اس میں شک نہ کرو اور میری بات مان لو ، یہی سیدھا راستہ ہے (قرآن: 43:61)

اس فقرے کا یہ ترجمہ بھی ہوسکتا ہے کہ وہ قیامت کے علم کا ایک ذریعہ ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ " وہ ‘’‘ سے کیا چیز مراد ہے؟

حضرت حسن بصری اور سعید بن جبیر کے نزدیک اس (وہ)  سے مراد قرآن ہے، یعنی قرآن سے آدمی یہ علم حاصل کرسکتا ہے کہ قیامت آئے گی۔ لیکن یہ تفسیر سیاق وسباق سے بالکل غیر متعلق ہے۔ سلسلہ کلام میں کوئی قرینہ ایسا موجود نہیں ہے جس کی بنا پر یہ کہا جاسکے کہ اشارہ قرآن کی طرف ہے۔ دوسرے مفسرین قریب قریب بالاتفاق یہ رائے رکھتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ بن مریم ہیں اور یہی سیاق وسباق کے لحاظ سے درست ہے۔ اس کے بعد یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ آنجناب کو قیامت کی نشانی یا قیامت کے علم کا ذریعہ کس معنی میں فرمایا گیا ہے؟

ابن عباس، مجاہد، عکرمہ، قتادہ، سدی، ضحاک، ابوا العالیہ اور ابو مالک کہتے ہیں کہ اس سے مراد حضرت عیسیٰ کا نزول ثانی ہے جس کی خبر بکثرت احادیث میں وارد ہوئی ہے، اور آیت کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب دوبارہ دنیا میں تشریف لائیں گے تو معلوم ہوجائے گا کہ قیامت اب قریب ہے۔

لیکن ان بزرگوں کی جلالت قدر کے باوجود یہ ماننا مشکل ہے کہ اس آیت میں حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کو قیامت کی نشانی یا اس کے علم کا ذریعہ کہا گیا ہے۔ اس لیے کہ بعد کی عبارت یہ معنی لینے میں مانع ہے۔ ان کا دوبارہ آنا تو قیامت کے علم کا ذریعہ صرف ان لوگوں کے لیے بن سکتا ہے جو اس زمانہ میں موجود ہوں یا اس کے بعد پیدا ہوں۔ کفار مکہ کے لیے آخر وہ کیسے ذریعہ علم قرار پاسکتا تھا کہ ان کو خطاب کر کے یہ کہنا صحیح ہوتا کہ " پس تم اس میں شک نہ کرو "۔

لہٰذا ہمارے نزدیک صحیح تفسیر وہی ہے جو بعض دوسرے مفسرین نے کی ہے کہ یہاں حضرت عیسیٰ کے بےباپ پیدا ہونے اور ان کے مٹی سے پرندہ بنانے اور مردے جلانے کو قیامت کے امکان کی ایک دلیل قرار دیا گیا ہے، اور ارشاد خداوندی کا منشا یہ ہے کہ جو خدا باپ کے بغیر بچہ پیدا کرسکتا ہے، اور جس خدا کا ایک بندہ مٹی کے پتلے میں جان ڈال سکتا اور مردوں کو زندہ کرسکتا ہے اس کے لیے آخر تم اس بات کو کیوں ناممکن سمجھتے ہو کہ وہ تمہیں اور تمام انسانوں کو مرنے کے بعد دوبارہ زندہ کر دے۔(تفہیم القرآن)

بعض حضرات نے فرمایا ہے کہ انہ کی ضمیر قرآن کی طرف راجع ہے اور مراد یہ ہے کہ قرآن مجید قرب قیامت کی نشانی ہے کیونکہ حضور اقدس (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا تشریف لانا بھی اس بات کی دلیل ہے کہ اب قیامت قریب ہے کما قال النبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) بعثت انا والساعة کھاتین (میں اور قیامت اس طرح بھیجے گئے ہیں جیسے یہ دونوں انگلیاں قریب قریب ہیں۔)(انوار البیان)

تاہم اس سے یہ مطلب بھی لیا جاسکتا ہے کہ سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) کی بن باپ پیدائش اور آپ کو عطا کردہ معجزات بذات خود قیامت کی علامت بن سکتے ہیں۔ یعنی جو ہستی عام عادی طریقے سے ہٹ کر کسی کو بغیر باپ کے پیدا کرسکتی ہے اور اسے محیر العقول معجزات عطا کرسکتی ہے وہ قیامت کو قائم کرنے کی بھی یقیناً قدرت رکھتی ہے۔ یہ مطلب صرف اس لحاظ سے درست معلوم ہوتا ہے کہ اس آیت میں کوئی ایسا قرینہ نہیں پایا جاتا جو سیدنا عیسیٰ کی دوبارہ آمد یا نزول مسیح پر دلالت کرتا ہو۔(تیسیر القرآن)

بہت سی احادیث میں ان کے نزول کا ذکر ہے جس پر علماء کا اجماع ہے- ان احادیث پر تحقیق سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام بطور رسول یا نبی نہیں بلکہ بطور امتی  محمد رسول اللهﷺ نزول فرمائیں گے ان کی شریعت منسوخ ہو چکی مگر مسلمان ان کی پہلے کی رسالت  و وحی (انجیل) پر ایمان رکھتے ہیں اور ان کی اینٹ عمارت نبوت میں پہلے سے موجود ہے-

 اللہ تعالی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بین ایک مکالمہ

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دوبارہ دنیا میں واپسی یا نزول کی قرآن سے وضاحت ہوتی ہے - قرآن میں اللہ تعالی اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے بین ایک مکالمہ ہو گا، جب اللہ تمام انبیاء کو جمع کریں گے،  بروز قیامت اللہ حضرت عیسیؑ سے سوال کرتے ہیں:

يَوْمَ يَجْمَعُ اللَّهُ الرُّسُلَ فَيَقُولُ مَاذَا أُجِبْتُمْ ۖ قَالُوا لَا عِلْمَ لَنَا ۖ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ‎﴿١٠٩﴾‏

جس روز اللہ سب رسولوں کو جمع کر کے پو چھے گا کہ تمہیں کیا جواب دیا گیا ہے، تو وہ عرض کریں گے کہ ہمیں کچھ علم نہیں، آپ ہی تمام پوشیدہ حقیقتوں کو جانتے ہیں (5:109 قرآن )

اس مخاطبت کا وقوع قیامت میں ہوگا-  انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ان کی قوموں نے اچھا یا برا جو بھی معاملہ کیا، اس کا علم یقینا انہیں ہوگا لیکن وہ اپنے علم کی نفی یا تو محشر کی کی ہولناکی اور اللہ جل جلالہ کی ہیبت و عظمت کی وجہ سے کریں گے یا اس کا تعلق ان کی وفات اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کے بعد کے حالات سے ہوگا۔ علاوہ ازیں باطنی امور کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے۔ اس لئے وہ کہیں گے علام الغیوب تو ہی ہے نہ کہ ہم۔ [62] -

(انبیاء) عرض کریں گے کہ (ظاہری جواب تو ہم کو معلوم ہے اور اس کو بیان بھی کردیں گے، لیکن ان کے دل میں جو کچھ ہو اس کی) ہم کو کچھ خبر نہیں (اس کو آپ ہی جانتے ہیں کیونکہ) آپ بیشک پوشیدہ باتوں کے پورے جاننے والے ہیں(معارف القرآن)‮[63]

وَإِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ أَأَنتَ قُلْتَ لِلنَّاسِ اتَّخِذُونِي وَأُمِّيَ إِلَٰهَيْنِ مِن دُونِ اللَّهِ ۖ قَالَ سُبْحَانَكَ مَا يَكُونُ لِي أَنْ أَقُولَ مَا لَيْسَ لِي بِحَقٍّ ۚ إِن كُنتُ قُلْتُهُ فَقَدْ عَلِمْتَهُ ۚ تَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِي وَلَا أَعْلَمُ مَا فِي نَفْسِكَ ۚ إِنَّكَ أَنتَ عَلَّامُ الْغُيُوبِ ‎﴿١١٦﴾‏  مَا قُلْتُ لَهُمْ إِلَّا مَا أَمَرْتَنِي بِهِ أَنِ اعْبُدُوا اللَّهَ رَبِّي وَرَبَّكُمْ ۚ وَكُنتُ عَلَيْهِمْ شَهِيدًا مَّا دُمْتُ فِيهِمْ ۖ فَلَمَّا تَوَفَّيْتَنِي كُنتَ أَنتَ الرَّقِيبَ عَلَيْهِمْ ۚ وَأَنتَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ شَهِيدٌ ‎﴿١١٧﴾

"جب اللہ فرمائے گا کہ "اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ الله  کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی الله  بنا لو؟" تو وہ (عیسیٰ ابن مریم) جواب میں عرض کرے گا کہ "سبحان اللہ! میرا یہ کام نہ تھا کہ وہ بات کہتا جس کے کہنے کا مجھے حق نہ تھا، اگر میں نے ایسی بات کہی ہوتی، تو آپ کو ضرور علم ہوتا، آپ جانتے ہیں جو کچھ میرے دل میں ہے اور میں نہیں جانتا جو کچھ آپ کے دل میں ہے، آپ تو ساری پوشیدہ حقیقتوں کے عالم ہیں (116) میں نے اُن سے اُس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی میں اُسی وقت تک ان کا نگراں تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا جب آپ نے مجھے واپس بلا لیا تو آپ ان پر نگراں تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگراں ہیں (5:117)

یہ گفتگو قیامت کے میدان میں ہو رہی ہے، اور اس وقت سیدنا عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان سے نزول فرما کر زمین میں رہ کرگمراہوں کو ھدایت سے مستفیض کر کہ طبعی موت پا کر دنیا سے رخصت ہوچکے ہوں گے۔ لہٰذا اگر یھاں "تَوَفَّیتَنِیْ" کو موت کے معنی میں بھی لیا جائے تب بھی ان ملحدوں کا استدلال صحیح نہیں۔ جو اپنے تراشیدہ عقیدہ کے مطابق قرآن مجید کے مفاہیم تجویز کرتے ہیں-

اس سے یہ حجت پکڑنا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر نزول نہ ہونا ثابت ہے درست نہیں- یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اکیلے نہیں بلکہ تمام انبیاء اپنی اقوام کے حالات سے لاعلمی کا اظھار کرتے ہیں جس کی وجوہ  یہ ہیں کہ،

  1. انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ان کی قوموں نے اچھا یا برا جو بھی معاملہ کیا، اس کا علم یقینا انہیں ہوگا لیکن وہ اپنے علم کی نفی یا تو محشر کی کی ہولناکی اور اللہ جل جلالہ کی ہیبت و عظمت کی وجہ سے کریں گے یا اس کا تعلق ان کی وفات اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کے بعد کے حالات سے ہوگا۔
  2. علاوہ ازیں باطنی امور کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے۔ اس لئے وہ کہیں گے علام الغیوب تو ہی ہے نہ کہ ہم۔- اس لئے (انبیاء) عرض کریں گے کہ (ظاہری جواب تو ہم کو معلوم ہے اور اس کو بیان بھی کردیں گے، لیکن ان کے دل میں جو کچھ ہو اس کی) ہم کو کچھ خبر نہیں (اس کو آپ ہی جانتے ہیں کیونکہ) آپ بیشک پوشیدہ باتوں کے پورے جاننے والے ہیں-
  3. حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد موجود گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لا چکے مگر پہلے والوں کے متعلق کچھ نہیں کر سکتے، تو وہ نہایت عاجزی سے الله تعالی سے درخواست کرتے ہیں:

اس سے یہ حجت پکڑنا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زمین پر نزول نہ ہونا ثابت ہے درست نہیں- یہاں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تمام انبیاء اپنی اقوام کے حالات سے لاعلمی کا اظھار کرتے ہیں جس کی وجہ قبل بیان کردی گئی، دوبارہ دھراتے ہیں کہ، انبیاء (علیہم السلام) کے ساتھ ان کی قوموں نے اچھا یا برا جو بھی معاملہ کیا، اس کا علم یقینا انہیں ہوگا لیکن وہ اپنے علم کی نفی یا تو محشر کی کی ہولناکی اور اللہ جل جلالہ کی ہیبت و عظمت کی وجہ سے کریں گے یا اس کا تعلق ان کی وفات اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے رفع کے بعد کے حالات سے ہوگا۔ علاوہ ازیں باطنی امور کا علم تو صرف اللہ ہی کو ہے۔ اس لئے وہ کہیں گے علام الغیوب تو ہی ہے نہ کہ ہم۔ [64] - اس لئے (انبیاء) عرض کریں گے کہ (ظاہری جواب تو ہم کو معلوم ہے اور اس کو بیان بھی کردیں گے، لیکن ان کے دل میں جو کچھ ہو اس کی) ہم کو کچھ خبر نہیں (اس کو آپ ہی جانتے ہیں کیونکہ) آپ بیشک پوشیدہ باتوں کے پورے جاننے والے ہیں- حضرت عیسیٰ علیہ السلام نزول کے بعد موجود گمراہ لوگوں کو راہ راست پر لا چکے مگر پہلے والوں کے متعلق کچھ نہیں کر سکتے، تو وہ نہایت عاجزی سے الله تعالی سے درخواست کرتے ہیں:

 إِن تُعَذِّبْهُمْ فَإِنَّهُمْ عِبَادُكَ ۖ وَإِن تَغْفِرْ لَهُمْ فَإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ‎﴿١١٨﴾‏

اگر تو ان کو عذاب دے تو یہ تیرے بندے ہیں اور اگر بخش دے تو (تیری مہربانی ہے) بےشک تو غالب اور حکمت والا ہے (5:118)

هُوَ الَّذِي أَرْسَلَ رَسُولَهُ بِالْهُدَىٰ وَدِينِ الْحَقِّ لِيُظْهِرَهُ عَلَى الدِّينِ كُلِّهِ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ  شَهِيدًا

"وہی ہے جس نے اپنا رسول ہدایت اور دین حق کے ساتھ بھیجا، تاکہ اسے ہر دین پر غالب کر دے اور اللہ گواہ کے طور پر کافی ہے"۔ (سورۃ الفتح آیت نمبر: 28)

 رسول اللہ ﷺ کی زندگی میں دین اسلام کا پورے خطہ عرب پر غلبہ قائم ہوا- اسلام اپنے پیغام کے مطابق فکری طور پر تمام ادیان پرہمیشہ سے غلبہ رکھتا ہے، سیاسی اونچ نیچ اللہ کے نظام کا حصہ ہے- یہ آیت جسمانی اور سیاست ملکی کے طور پر حضرت مسیح کے حق میں  پیشن گوئی ہے اور جس غلبہ کاملہ دین اسلام کا وعدہ دیا گیا ہے وہ مسیح کے ذریعہ  ظہور میں آئے گا- مسیح دوبارہ اس دنیا میں تشریف لائیں گے اور ان کے ہاتھ سے اسلام دنیا میں پھیل جائے گا، غالب ہو گا-

 إِنَّا أَنزَلْنَا إِلَيْكَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللَّهَ مُخْلِصًا لَّهُ الدِّينَ ‎﴿٢﴾

 لہٰذا تم اللہ ہی کی بندگی کرو دین کو اُسی کی لیے خالص کرتے ہوئے۔ خبردار ، دین  خالص اللہ کا حق ہے (قران 39:2)[65]

 اس کے بنیادی نکات دو ہیں، ایک یہ کہ مطالبہ اللہ کی عبادت کرنے کا ہے۔دوسرے یہ کہ ایسی عبادت کا مطالبہ ہے جو دین کو اللہ کے لیے خالص کرتے ہوئے کی جائے۔ ان مفہومات کو ملحوظ رکھتے ہوئے دین کے معنی اِس آیت میں اُس ’’ طرز عمل اور اس رویّے کے ہیں جو کسی کی بالاتری تسلیم اور کسی کی اطاعت قبول کر کے انسان اختیار کرے۔‘‘ اور دین کو اللہ کے لیے خالص کر کے اس کی بندگی کرنے کا مطلب یہ ہے کہ ’’ آدمی اللہ کی بندگی کے ساتھ کسی دوسرے کی بندگی شامل نہ کرے ، بلکہ اسی کی پرستش، اسی کی ہدایت کاس اتباع اور اسی کے احکام و اوامر کی اطاعت کرے ‘‘۔

قَالَ اللَّهُ هَٰذَا يَوْمُ يَنفَعُ الصَّادِقِينَ صِدْقُهُمْ ۚ لَهُمْ جَنَّاتٌ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ‎﴿١١٩﴾‏

(ترجمہ -1) اللہ نے کہا کہ یہ قیامت کا دن ہے جب صادقین کو ان کا سچ فائدہ پہنچائے گا کہ ان کے لئے باغات ہوں گے جن کے نیچے نہریں جاری ہوں گی اور وہ ان میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے -خدا ان سے راضی ہوگا اور وہ خدا سے اور یہی ایک عظیم کامیابی ہے (5:119)[66]

(ترجمہ 2:) "تب اللہ فرمائے گا "یہ وہ دن ہے جس میں سچوں کو اُن کی سچائی نفع دیتی ہے، ان کے لیے ایسے باغ ہیں جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں، یہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے، یہی بڑی کامیابی ہے" (5:119)[67]

عنی دنیا میں جو لوگ اپنے ایمان و خلوص میں سچے تھے ان کا یہ صدق وخلوص آج (قیا مت کے دن ) ان کے کام آئے گا۔ ( قرطبی)[68]

"سب سے سچی بات کلمہ توحید ہے :۔ اللہ تعالیٰ جواب فرمائیں گے آج عدل و انصاف کا دن ہے آج تو سچ اور سچی بات ہی کچھ فائدہ دے سکتی ہے ... "[69]

میں نے اُن سے اُس کے سوا کچھ نہیں کہا جس کا آپ نے حکم دیا تھا، یہ کہ اللہ کی بندگی کرو جو میرا رب بھی ہے اور تمہارا رب بھی میں اُسی وقت تک ان کا نگراں تھا جب تک کہ میں ان کے درمیان تھا جب آپ نے مجھے واپس بلا لیا تو آپ ان پر نگراں تھے اور آپ تو ساری ہی چیزوں پر نگراں ہیں (قرآن:5:117)

قَال اللّٰهُ يٰعِيْسَى ابْنَ مَرْيَمَ الخ، اللہ تعالیٰ ہر چیز کو جاننے والے ہیں

لہذا الله تعالی عیسیٰ (علیہ السلام) سے سوال اس لئے نہیں فرما رہے کہ ان کو معلوم نہیں ہے، بلکہ اس سے مقصود ان کی قوم نصاریٰ کی ملامت اور سرزنش ہے کہ جس کو تم الٓہ مان رہے ہو وہ خود تمہارے عقیدے کے خلاف اپنی عبدیت کا اقرار کر رہا ہے، اور تمہارے بہتان سے وہ بری ہے (ابن کثیر/ معارف قرآن).

اس کے علاوہ الله تعالی یہ ثابت کر رہے ہیں کہ کس انسان کے دنیا سے چلے جانے کے بعد اگرچہ وہ نبی یا رسول بھی ہو ، اس کا دنیا سے تعلق ختم ہو جاتا ہے، اس کو کچھ خبر نہیں کہ اس کے جانے کے بعد دنیا میں کیا ہورہا ہے-

مکالمہ کا وقت بہت اہم ہے

اس پر دو آراء ہیں :

1. یہ مکالمہ  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا سے جانے کے فوری بعد عالم برزخ میں ہوا-

2. یہ مکالمہ بروز قیامت ہو گا -

یہ کہنا کہ یہ مکالمہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا سے جانے کے فوری بعد عالم برزخ میں ہوا بھی درست نہیں- اگرچہ اسماعیل سدی کبیر نے اپنی تفسیر میں کہا ہے کہ جب اللہ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کو زمین پر سے آسمان پر اٹھالیا اور حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) کے بعد ان کی امت میں اس تثلیث  کا مسئلہ پھیلا اس وقت اللہ تعالیٰ نے یہ سوال حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام) سے کیا تھا قیامت کے دن کا یہ سوال نہیں ہے-

لیکن قتادہ (رض) نے اس کو رد کیا ہے اور کہا ہے کہ ان آیات میں آگے جو اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ ” آج کے دن سچوں کو ان کا سچ نفع دے گا “ یہ قیامت کے دن کا حال ہے کیونکہ حضرت مریم علیہ السلام کی پرستش کا نظریہ مسیحیت میں پانچویں اور چھٹی عیسوی میں شروع ہوا. لہذا یہ مکالمہ بروز قیامت ہو گا- مزید ابتدا میں آیت کہ "ما یحبع اللہ الرسول اور اخر میں ھذا یوم ینفع الصاد قین صدقھم" سے جن سے تینا قیامت کا دن مراد ہے۔ ، ( کبیر، قرطبی)

اس سے یہ بھی ثابت ہوتا ہے کہ بروز قیامت تک حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کوئی خبر نہیں کہ ان کے پیروکار ان کے دنیا سے جانے کے بعد کیا کرتے رہے ، یعنی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی دنیا میں دوبارہ واپسی یا نزول نہیں ہوا؟

نزول عیسیٰ علیہ السلام پر احادیث ، روایات قرآن سے مطابقت نہیں رکھتیں، قرآن محفوظ  کلام الله تعالی ہے جو کبھی غلط نہیں ہو سکتا ایسا سوچنا بھی کفر ہے- اصول یہ ہے کہ : "حدیث کی سند ضعیف بھی ہو مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے[70] ( تفہیم القرآن)

اہل "تثلیث نبوت"

مرزا قدیانی صاحب کے مطابق یہ مکالمہ عالم برزخ میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی وفات کے بعد ہوا (ازالہ اوہام روحانی خزائین  جلد ٣ صفحہ ٥٠٣)(تفسیر مسیح موعود، سورہ المائدہ، صفہحہ 81 )[71] وہ حدیث کا حوالہ بھی دیتے ہیں جس میں عالم برزخ کا کوئی ذکر نہیں- لیکن ایک دوسری جگہ مرزا صاحب اس مکالمہ کو بروز قیامت قرار دیتے ہیں (کشتی نوح روحانی خزائن  جلد ١٩ صفحہ ١٦حاشیہ / تفسیر مسیح موعود، المائدہ صفحہ ١٠٢)[72] مگر کیونکہ وہ بقول خود نبی ہیں اور ان پر وحی نازل ہوتی ہے اور وہ یہ بھی دعوی کرتے ہیں کہ ان کو قرآن کا وہ خاص علم دیا گیا ہے جو دنیا میں کسی کے پاس نہیں ان کے علم قرآن کے دعوی کے مطابق وہ بات سو فیصد درست ہونی چاہیے جو وہ قبول کرکہ بیان یا ریفرکرتے ہیں- اور بات بھی اتنی اہم کہ ان کے مذھب، ان کی سچائی یا ابطال کی بنیاد اس پر ہے,  جس کو ایک صدی قبل، تیرہ سو سال سے موجود قرآن کی اہم آیات کی تفسیر میں تضاد ہو تو وہ نبی کیسے قبول ہو سکتا ہے-

سوال کے وقت کی اہمیت  :

"جب اللہ فرمائے گا کہ "اے عیسیٰ ابن مریم! کیا تو نے لوگوں سے کہا تھا کہ الله  کے سوا مجھے اور میری ماں کو بھی الله  بنا لو؟"

یہ  سوال قیامت کے دن کا ہے کیونکہ حضرت مریم علیہ السلام کی پرستش کا نظریہ مسیحیت میں پانچویں اور چھٹی عیسوی میں شروع ہوا. لہذا یہ مکالمہ بروز قیامت ہو گا- اگر مرزا صاحب کی پہلے والی عالم برزخ والی بات  درست مان لی جانے تو پھرمسیح کے اس جواب سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ  ان کا دنیا میں نزول ممکن نہیں- کیونکہ برزخ کے بعد قیامت سے قبل وہ نزول کر سکتے ہیں- لیکن اگر یہ سوال قیامت کو ہوا تو پھر اس جواب سے ظاہر ہے کہ وہ قیامت سے قبل دنیا میں گئے ان کو مسیحیت کے حالات کا علم ہوا اور انہوں  ۓ موجود گمراہ لوگوں کو راہ ھدایت پر ڈال دیا، یہ بات الله تعالی کو معلوم ہے اس لئے ادب کا تقاضہ ہے کہ الله تعالی کو (contradict) کرنے کی بجانے مسیج   علیہ السلام کا یہ کہہ دینا کہ آپ کو سب کچھ معلوم ہے اور پھر اپنی امت کے گمراہوں کے لئے مغفرت یا سزا کا معامله الله تعالی پر چھوڑ دینا ہی  مناسب ہے-

 مکالمہ کا "وقت" پر مرزا صاحب کے مذھب کے لیے اہم ہے اور وہ اس پر کنفیوزہیں، متضاد بیانیے رکھتے ہیں کس کو درست اور کس کو غلط مانیں؟ وہ اسلام کی تجدید کرنے آنے ہیں تذلیل کرنے؟

 یہی بات اگر کوئی اورعالم یا عام مسلمان کہے تو اس پر در گزر کیا جا سکتا ہے کہ غلطی ممکن ہے، اس موضوع پر مختلف روایات اور حوالہ جات کو بھی دیکھا جا سکتا ہے-  مگر جب ایک نبوت کا مدعی یقین سے ایسا دعوی کرتا ہے تو شک کی گنجائش نہیں رہنی چاہیے- نبی سنی سنائی باتوں پر آنکھ بند کر یقین نہیں کرتا اس پر وحی ، الہام ہوتے ہیں (بقول خود مدعی) - اگر ایسا کرے اور وہ بات غلط ثابت جو جانے تو اس میں اور کسی دیہاتی مولوی (جو قابل معافی ہے کم علمی  کی وجہ سے) میں کوئی فرق نہیں لیکن  وہ نبی نہیں کذاب، بہروپیا (imposter/ عربی- دجال) ، دھوکہ باز ہے جو اللہ اور  رسول اللہ ﷺ کے نام پر جھوٹے دعوے کرکہ مسلمانوں میں تفرقہ اور گمراہی پھیلا رہا ہے-

اگر احادیث کے برخلاف مسیح واپس نہیں آتے نزول نہیں ہوتا تو مرزا صاحب کی یہ دلیل کہ :

"یہ بات بغیر کسی شک کے معین طور پر ثابت ہوجاتی ہے کہ آنے والا مسیح یہود میں سے نہیں ہو گا بلکہ اسی امت میں سے ہو گا اور یہ ہو ہی کیسے سکتا ہے جبکہ یہود پر خود تعالی کی طرف سے ذلت وارد کی گئی اور اس ابدی سزا کے بعد وہ اذیت کے مستحق نہیں ہو سکتے" (مواھب الرحمان روحانی خزائن جلد ١٩صفحہ ٢٩٢ تا ٢٩٤)[73]

اس فرضی خیال کی کیا بنیاد ہے کہ مسیح  (اصلی) یہود میں سے نہیں آیے گا؟ جب تمام احادیث جو نزول عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق مرزا صاحب ںے مسترد کر دیں تو پھر مسیح کی آمد کا کیا جواز؟ جس مسیح کا  یہود کوانتظار تھا وہ دو ہزار سال قبل آیا اور انہوں نے اسے مسترد کر دیا بلکہ اپنی طرف سے مصلوب کیا (اللہ نے بچا لیا) مسیحیوں نے ان کی تعلیمات کو مشرکانہ بنا دیا تو، الله تعالی نے  محمد رسول اللهﷺ کو تمام انسانیت کے لئے بھیجا کچھ یہود و نصاریٰ نے ایمان لایا زیادہ نے کفر اختیار کیا تو پھر آخرت میں سزا بھگتیں گے-

اب  قرآن و سنت اور اسلام موجود ہے اور مسلمان تبلیغ بھی کر رہے ہیں- اس وقت مغرب اور امریکہ میں اسلام سب سے تیزی سے پھیلنے والا دین ہے[74]- جدید ڈیجیٹل نیٹ ورک سے تبلیغ آسان ہے علماء اور ظاہر اور پوشیدہ مجددین خدمت اسلام میں مصروف عمل ہیں، تو پھر اب کسی مسیح کی ضرورت؟ اگر ضرورت ہے تو پھر احادیث کومکمل قبول کریں اور اصل کا انتظار کریں-  یہ کیا بات ہوئی کہ آدھی حدیث  جو ان کے نزول ، آمد اور دوسری نشانیاں بیان کرے جو مرزا صاحب پر لاگو نہیں ہو سکتیں ان کو تو مسترد کریں ، قرآن سے حوالے دیں مگر انہی احدیث کا باقی حصہ جو مسیح مثیل (Imposter Messiah/المسيح الدجال) ، مہدی کا (نقلی) جواز مہیا کر سکے وہ ٹھیک باقی غلط -  میٹھا ھپ ھپ،  کڑوا تھوتھو-

مرزا صاحب بطور امام مہدی اور مسیحِ موعود کیوں؟

’’اُس (خدا) نے مجھے بھیجا اور میرے پر اپنے خاص الہام سے ظاہر کیا کہ مسیح ابن مریم فوت ہو چکا ہے۔ چنانچہ اس کا الہام یہ ہے کہ مسیح ابن مریم رسول اﷲفوت ہو چکا ہے اور اُس کے رنگ میں ہو کر وعدہ کے موافق تُو آیا ہے۔ ‘‘ (ازالہ اوہام حصہ دوم، روحانی خزائن جلد 3 صفحہ402)[75]

 مسیح ابن مریم کی واپسی کا احدیث میں بکثرت تذکرہ ہے جن کو مرزا صاحب نہیں تسلیم کرتے-  مسیح ابن مریم کے رنگ میں کسی اور شخص کی آمد کا ذکر یا وعدہ نہ قرآن میں ہے نہ ہی حدیث میں- یہ وعدہ من گھڑت،نہ قابل قبول ہے- مرزا صاحب کے دعوی الہام پر کوئی تب غور کرے جب " مسیح ابن مریم کے رنگ"  کا وعدہ قرآن و سنت سے  ثابت ہو-

"اہل تثلیث نبوت" کی ویب سائٹ پر یہ وجہ بیان ہے: "خدا تعالیٰ نے اور اس کے رسول مقبول صلی اللہ علیہ وسلم نے آخری زمانے میں احیائے اسلام اور اس کی سربلندی کی خاطر جس امام مہدی اور مسیحِ موعود کے آنے کا وعدہ دیا تھا، وہ وعدہ بڑی شان کے ساتھ پورا ہو گیا ہے۔ آنے والا آیا اور اس نے قادیان کی مقدس بستی سے ظہور فرمایا۔ وہ آیا اور نہایت پر شوکت آسمانی اور زمینی نشانوں کے ساتھ آیا اور اعلان فرمایا"[76]

جو صاحب جو نبوت کے دعوی دار ہیں ان کو یہ بات کیوں سمجھ نہیں آ سکی ؟  کہتے ہیں کہ مجھے الله نے قرآن کا علم دیا ہے - کیسا علم دیا ہے؟ غلط بیانی کر رہے ہیں - ان آیات کی مرزا صاحب کی تفسیر پڑھنے سے معلوم ہوا کہ مرزا صاحب یہ یقین کر بیٹھے کہ یہ الله سے حضرت حضرت عیسیٰ علیہ السلام  کا مکالمہ ان کی وفات (بقول مرزا) کے بعد عالم برزخ میں ہوا[77] ، جبکہ یہ ثابت ہو رہا ہے کہ یہ مکالمہ بروز قیامت ہو گا- دوسری جگہ اس کو بروز قیامت کہ رہے ہیں، اور اپنی غلطی کو تسلیم کرکہ تصحیح بھی نہیں کرتے (اب شاید ہو جایے)-  ایک نبی تضادات کا شکار نہیں ہو سکتا لہذا یھاں بھی کذاب نبی ثابت ہوا-

مزید تفصیل: نزول حضرت عیسیٰ علیہ السلام...[78] 

مقام تدفین

"اہل تثلیث نبوت" کے نظریہ کے مطابق حضرت عیسیٰ علیہ السلام صلیب سے زندہ بچ گئے اور پھر کشمیر چلے گۓ جہاں طبعی وفات پا کر مدفون ہونے- اور مردے قیامت سے پہلے زندہ نہیں ہوتے لہٰذا یہ نظریہ کہ قیامت سے قبل وہ واپس آئیں گے درست نہیں - احادیث میں جو ان کی واپسی ، نزول کا ذکر ہے وہ روحانی ہے، اور یہ کہ ان کے مطابق مرزا مسیح موعود، مہدی، اور نبی ہیں[79]-

مرزا صاحب کبھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو کشمیر میں دفن کرتے کبھی شام : "بلاد شام میں ابھی تک  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی قبر موجود ہے" (مجموعہ اشتہارات جلد دوئم صفحہ ٢٧ سے ٢٩)[80]


 وفات مسیح - قادیانیت کی جڑ کا خاتمہ ( دعوی دار مسیح موعود)

’’ہمارے دعوی کی جڑھ حضرت عیسٰی کی وفات ہے‘‘ (منکرین ختم نبوت)

اور جہاں تک مسلمانوں کاتعلق ہے حیات و و فات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانوں کے مابین ایک فیصلہ کن اور بنیادی اہمیت کا عقیدہ ہے۔ جب تک یہ مسئلہ پوری طرح حل نہ ہوجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مثیلِ مسیح ہونے کے دعوی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہمارے دعوی کی جڑھ حضرت عیسٰی کی وفات ہے‘‘ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ246)[81]

’’یاد رہے کہ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے صدق و کذب آزمانے کے لئے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات حیات ہے۔ اگر حضرت عیسٰی در حقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں اور اگروہ درحقیقت قرآن کے روسے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں ‘‘ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ 264حاشیہ)

ایک شدید غلط فہمی کا ازالہ ضروری ہے کہ تمام نفس ںے موت کا مزه چکھنا ہے- کب؟ کہاں؟ کیسے؟ اس کا علم صرف اللہ تعالی کو ہے-

موت اور "وفات رفع" دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ موت میں انسانی جسم باقی رہتا ہے روح اور زندگی اللہ کے پاس چلی جاتی ہے-روح سے مراد روح حیوانی نہیں ہے جو ہر ذی حیات کو متحرک کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ بلکہ یہاں روح سے مراد روح انسانی ہے۔ جس کی بنا پر انسان دوسرے تمام حیوانات سے ممتاز ہوا۔ اسے عقل و شعور بخشا گیا اور ارادہ و اختیار دے کر خلافت ارضی کا حامل بنایا گیا۔  لیکن 'وفات رفع' میں روح زندگی اور جسم تینوں مکمل طور پر الله تعالی کی طرف اٹھا لیے جاتے ہیں جیسا کہ حضرت ادریس اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے متعلق معلوم  ہے-

’’یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّيْلِ‘‘ میں وفات تو ہے مگر موت نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نیند کی حالت میں روح کو اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں۔ مگر پھر بیداری کے وقت لوٹا دیتے ہیں جبکہ موت میں روح قبضے میں تو لے لی جاتی ہے مگر اسے لوٹایا نہیں جاتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ موت کا وقت آنا الگ چیز ہے اور روح کا قبضہ میں آنا اور وفات پانا ایک الگ چیز ہے۔ پس معلوم ہوا کہ عمر کا پورا ہونا، روح کا قبضے میں لے لینا، قبضے سے واپس لوٹا دینا اور موت کا وقت آنا یا نہ آنا یہ سب جدا جدا حقیقتیں ہیں۔ اپنے قبضہ میں لے لینا یہ بھی وفات کا معنی ہے اور عرصۂ حیات پورا کرنا یہ بھی وفات کا معنی ہے۔

روح سے مراد روح حیوانی نہیں ہے جو ہر ذی حیات کو متحرک کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ بلکہ یہاں روح سے مراد روح انسانی ہے۔ جس کی بنا پر انسان دوسرے تمام حیوانات سے ممتاز ہوا۔ اسے عقل و شعور بخشا گیا اور ارادہ و اختیار دے کر خلافت ارضی کا حامل بنایا گیا۔

 اور اگر کوئی مر جایے تو اس کو دنیا میں واپس لانا بھی الله تعالی کے لئے کوئی مشکل نہیں- ہم لوگ اللہ پر پابندیاں نہیں لگا سکتے کہ وہ کیا کرے یا نہ کرے-  قرآن میں مردوں کو زندگی دینے کی بہت سی مثالیں موجود ہیں-  

مردوں کی دنیا میں زندہ واپسی

عام طور پر مردے دنیا میں واپس نہیں آتے لیکن «ان الله علی کل شیء قدیر»

بنی اسرایئل کی گاۓ اور  مقتول کا زندہ ہونا

 فَقُلْنَا اضْرِبُوهُ بِبَعْضِهَا ۚ كَذَٰلِكَ يُحْيِي اللَّهُ الْمَوْتَىٰ وَيُرِيكُمْ آيَاتِهِ لَعَلَّكُمْ تَعْقِلُونَ ‎﴿٧٣﴾

 اُس وقت ہم نے حکم دیا کہ مقتول کی لاش کو اس کے ایک حصے سے ضرب لگاؤ دیکھو اس طرح اللہ مُردوں کو زندگی بخشتا ہے اور تمہیں اپنی نشانیاں دکھاتا ہے تاکہ تم سمجھو (قرآن: 2:73)[85]

بنی اسرائیل کے ستر افراد کی موت اور زندگی  

بنی اسرائیل کے  ستر منتخب افراد پر بجلی گرا کر انہیں ہلاک کیا گیا اور پھر دوبارہ زندہ کیا گیا تھا۔

حیات حضرت عیسیٰ علیہ السلام

قرآن سے یہ ظاہر ہوتا ہے کہ  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کوالله تعالی نے زندہ  اتھا کر دشمنوں کی سکیم اور پلان کو ناکام کر دیا- الیکن اگر اہل تثلیث ("منکرین ختم نبوت" ) کی یہ بات تسلیم کر لی جایے کہ ان کو موت دی گیئی تو یہ ان کے دشمنوں کا منصوبہ تھا اس کا مطلب یہ ہوا کہ اللہ کا منصوبہ ناکام رہا (استغفراللہ) ایسا ممکن نہیں-  کیا وہ قیامت سے قبل دنیا میں تشریف لاتے ہیں یا نہیں یہ ایک الگ بحث ہے. لیکن احادیث میں ان کے نزول کا ذکر ہے- اس موضوع  پر علماء اسلام کو قرآن و سنت کی روشنی میں جائزہ لینے کی ضرورت ہے- لیکن حیات مسیح کا  معامله قرآن ںے حل کردیا[86]- اب اس پر مرزا صاحب یا کسی کے لیئے مسیح کی کسی بھی صورت یا نام سے زبردستی  واپسی کا مزید بیانیہ قائم کرنا قرآن کے برخلاف قرارپاتا ہے-اس اختلافی معامله پر مرزا صاحب یا کسی کے لیے بھی دو آپشنز ہیں یا تو قرآن پر چلیں یا احادیث پر- اپنی مرضی سے کچھ قرآن سے اور کچھ احادیث کو کانٹ چھانٹ کر ان سے اپنی پسند کے ٹکڑے نکل  کران میں اپنی خواہش نفس شامل کر کہ ایک  نیا بیانیہ مسیح مثیل، رنگ مسیح ، موعود، مسیح اور مہدی ایک شخصیت ، وغیرہ  بنا کر اس پروحی ، الہام کا لیبل لگا کر یہ سمجھنا کہ یہ مسلمانوں کو قابل قبول ہو گا ناممکن ہے-

نزول عیسیٰ علیہ السلام کا قرآن سے ثبوت 

وَ اِنۡ مِّنۡ اَہۡلِ الۡکِتٰبِ اِلَّا لَیُؤۡمِنَنَّ بِہٖ قَبۡلَ مَوۡتِہٖ ۚ وَ یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ یَکُوۡنُ عَلَیۡہِمۡ شَہِیۡدًا ﴿۱۵۹﴾ۚ

"اہل کتاب میں ایک بھی ایسا نہ بچے گا جو حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کی موت سے پہلے ان پر ایمان نہ لا چکے اور قیامت کے دن آپ ان پر گواہ ہونگے ۔"(قران :4:159)[87]

وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ: اس آیت کے دو مطلب ہیں اور دونوں درست ہیں، پہلا تو یہ ہے کہ یہود و نصاریٰ کا ہر شخص اپنے مرنے سے پہلے عیسیٰ (علیہ السلام) کی نبوت اور ان کے زندہ اٹھائے جانے پر ایمان لے آئے گا، مگر یہ اس وقت کی بات ہے جب موت سامنے آجاتی ہے، جیسا کہ فرعون مرتے وقت ایمان لے آیا تھا، مگر اس وقت ایمان لانے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔ دوسرا مطلب یہ ہے کہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) قیامت کے قریب عادل حاکم کی صورت میں اتریں گے اور دجال اور دوسرے تمام کفار سے جہاد کریں گے، تو ان کی موت سے پہلے پہلے تمام دنیا میں اسلام غالب ہوجائے گا۔ یہود و نصاریٰ یا تو مقابلے میں قتل ہوجائیں گے، یا اسلام لے آئیں گے۔ عیسیٰ (علیہ السلام) صلیب توڑ دیں گے، جزیہ ختم کردیں گے (یہ قرآن کے احکام کی مسوخی نہیں بلکہ عمل ہے جب کوئی غیر مسلم نہ ہوگا تو جزیہ ختم ہو جایے گا)، خنزیر کو قتل کریں گے، چناچہ جب عیسیٰ (علیہ السلام) فوت ہوں گے تو ان کی وفات سے پہلے ہر موجود یہودی اور نصرانی ان کی نبوت (جب وہ پہلے بطور رسول آیے تھے)اور ان کے آسمان پر زندہ اٹھائے جانے اور دوبارہ اترنے پر ایمان لا چکا ہوگا۔ چناچہ بخاری اور مسلم میں مذکور اس حدیث کے آخر میں ہے کہ ابوہریرہ (رض) یہ حدیث بیان کر کے فرماتے : ” اگر چاہو تو یہ آیت پڑھو : (وَاِنْ مِّنْ اَهْلِ الْكِتٰبِ اِلَّا لَيُؤْمِنَنَّ بِهٖ قَبْلَ مَوْتِهٖ ۚ )” اور اہل کتاب میں سے کوئی نہیں مگر اس کی موت سے پہلے ضرور اس پر ایمان لائے گا (صحیح بخاری۔ کتاب الانبیاء) یہ احادیث اتنی کثرت سے آئی ہیں کہ انہیں تواتر کا درجہ حاصل ہے[88] اور انہی متواتر صحیح روایات کی بنیاد پر اہلسنت کے تمام مکاتب کا متفقہ عقیدہ ہے کہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) آسمان پر زندہ ہیں اور قیامت کے قریب دنیا میں ان کا نزول ہوگا اور دجال کا اور تمام ادیان کا خاتمہ فرما کر اسلام کو غالب فرمائیں گے۔ یاجوج ماجوج کا خروج بھی حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) ہی کی موجودگی میں ہوگا اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی دعا کی برکت سے ہی اس فتنے کا بھی خاتمہ ہوگا جیسا کہ احادیث سے واضح ہے۔[ 159: 2][89] یہ گواہی اپنی پہلی زندگی کے حالات سے متعلق ہوگی جیسا کہ سورة مائدہ کے آخر میں وضاحت ہے ( وَكُنْتُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا مَّا دُمْتُ فِيْهِمْ ) (5 ۔ المائدہ :117)[90]' میں جب تک ان میں موجود رہا، ان کے حالات سے باخبر رہا ـ ' “ وَيَوْمَ الْقِيٰمَةِ يَكُوْنُ عَلَيْهِمْ شَهِيْدًا : اس جملے  کی تفسیر(سورة مائدہ 117) پہلے بیان کر چکے ہیں-

رَفَعْ

مسلمانوں کا عقیده ہے کہ حضرت  عیسیٰ علیہ السلام نے وفات نہیں پائی الله تعالی ںے ان کو زندہ اپنے پاس اٹھا لیا جس طرح حضرت ادریس  علیہ السلام کو اور کوہ طور پہاڑ کو فزیکلی (physically) اٹھایا اور تینوں کے لئے ایک عربی لفظ (رَفَعْنَا) استعمال کیا-

رفع کا مطلب ہے بلند کرنا، اونچا کرنا - مرزا صاحب کا دعوی ہے کہ یہ لفظ قرآن میں صرف "روحانی بلندی" کے لئے استعمال ہوا ہے- اور اسی وجہ سے لفظ متوفی (موت ، نیند) کو ملا کر وہ وفات حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اپنے مذھب کی جڑھ قرار دیتے ہیں اور اس نظریہ کو قرآن سے باطل ثابت کرنے پر اپنے مذھب کو جھوٹا ماننے کو تیار ہیں-

مرزا صاحب کا یہ دعوی قرآن سے باطل  ثابت ہوتا ہے، جیسا کہ ذیل میں آیات قرآن کی مثالوں سے واضح ہے-

لفظ  "رَفَعْ" قرآن میں تین طرح سے استعمال ہوا ہے- اول جسمانی طور پر بلند کرنے دوئم روحانی طور پر مرتبہ بلند کرنے اور سوئم 'جسمانی و روحانی' دونوں طور پرمرتبہ بلند کرنا- معنی سیاق و ثبات سے واضح ہو جاتا ہے- حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے دونوں معنی میں ہے جسمانی و روحانی طور پران کو  بلند کیا-

 قرآن میں سہ حرفی جڑ (root) ( ر ف ع)  (رفع) 29 بار چھ (6) اخذ کردہ شکلوں میں آیا ہے: [91]22 بار بطور فارم I فعل رفاع (رَفَعَ)، ایک (1) بار بطور صفت رفیع (رَفِيع)، ایک (1) بار بطور فعال رفیع (رَافِع)، ایک (1) بار بطور فعال رفعِ رَفِعَت (رَّافِعَة)، ایک (1) بار بطور غیر فعال شریک مرفوع (مَرْفُوع)، تین (3) بار غیر فعال شریک مرفوعات (مَّرْفُوعَة)[92].

تیرہ  (13) مرتبہ آیات قرآن میں لفظ "رفع' واضح طور پر جسمانی (physical) طورپر بلندی ، اونچائی کے بیان میں استعمال ہوا ہے(تفصیل ذیل ) زندہ انسان جسم کے ساتھ روح بھی شامل ہوتی ہے- تین مرتبہ دونوں معنی یعنی طبیعیاتی اور روحانی طور پر استعمال ہوا ہے- اور صرف روحانی طور پر بلندی کے لئے بھی مگر یہ سب کچھ سیاق و سباق سے واضح ہو جاتا ہے کہ مراد جسمانی . روحانی یا دونوں سے ہے- جب  زندہ انسان کو اٹھایا جاتا ہے توظاہر ہے کہ جسم کے ساتھ روح بھی شامل ہوتی ہے، تو روحانی و جسمانی بلندی ملنا خاص بات ہے- مردہ جسم کو بلندی پر اٹھانے کا کیا مطلب- ارواح تو سب کی عالم برزخ میں جاتی ہیں تو صرف کسی رسول جیسے حضرت ادریس علیہ السلام اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو صرف روحانی طور پر اٹھانے کا کوئی مقصد نہیں، رسولوں کو تو پہلے ہے عام لوگوں پر ترجیح اور اعلی رفع مقام حاصل ہوتا ہے-

حضرت ادریس علیہ السلام  اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام دونوں کا جسمانی طور پر الله تعالی کے پاس اٹھاۓ جانے کی روایات ہیں (اہل کتاب اور مسلمانوں میں) جو کہ بلا وجہ نہیں-

حضرت ادریس علیہ السلام کے لئے تورات (عربی) میں بھی رفع اور انگریزی میں [he disappeared because God took him away] . اور ان دونوں رسولوں کے لئے قرآن میں رفع کا لفظ استعمال ہوا ہے یہ اتفاق نہیں ہے یہ قرآن کا زندہ معجزہ ہے جواس اختلاف کو آج بھی واضح کر رہا ہے اگر کوئی آیات قرآن کا ہی منکر ہو تواسے کیسے یقین دلایا جا اسکتا ہے؟

رفع:  روحانی اور فزیکل بلندی کے لیے چند مثالیں:

  1. اِلَیۡہِ یَصۡعَدُ الۡکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الۡعَمَلُ الصَّالِحُ یَرۡفَعُہٗ ؕ (تمام تر ستھرے کلمات اسی کی طرف چڑھتے ہیں اور نیک عمل ان کو بلند کرتا ہے(35:10 قرآن)[93] کلمات، منہ سے فزیکلی ادا کیئے جاتے ہیں-
  2. وَ رَفَعۡنَا لَکَ ذِکۡرَکَ ؕ﴿۴﴾ ) اور تمہارا ذکر بلند کیا (قرآن : 94:4)[94]  رسول اللہ ﷺ کا ذکر روحانی طور پر بھی بلند ہے اور فزیکل طور پر بھی الله تعالی کے نام کے ساتھ اذان ، صَلَاة‎  میں ادا کیا جاتا ہے-
  3. فِیۡ بُیُوۡتٍ اَذِنَ اللّٰہُ اَنۡ تُرۡفَعَ وَ یُذۡکَرَ فِیۡہَا اسۡمُہٗ ۙ(ان گھروں میں جن کے بلند کرنے اور جن میں اپنے نام کی یاد کا اللہ تعالٰی نے حکم دیا ہے(قرآن 24:36)[95] اللہ کے گھر مساجد فزیکل طور پر بھی نمایاں ، بلند ہوتی ہیں ، گنبد ، منارے اور روحانی طور پر بھی ذکر اللہ سے درجہ بلند ہوتا ہے-

رفع :  روحانی طور پر بلندی کی چند مثالیں:

  1. تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَهُمْ عَلَىٰ بَعْضٍ ۘ مِّنْهُم مَّن كَلَّمَ اللَّهُ ۖ وَرَفَعَ بَعْضَهُمْ دَرَجَاتٍ ۚ (یہ رسول (جو ہماری طرف سے انسانوں کی ہدایت پر مامور ہوئے) ہم نے ان کو ایک دوسرے سے بڑھ چڑھ کر مرتبے عطا کیے(قرآن 2:253)[96]
  2.  نَرْفَعُ دَرَجَاتٍ مَّن نَّشَاءُ ۗ ( ہم جس کے چاہتے ہیں درجے بلند کردیتے ہیں۔ (قرآن 6:83)[97]

رفع : فزیکل طور پر بلندی ، اٹھانے کی قرآن سے  تیرہ  (13) مثالیں :  

تکبیر تحریمہ، رکوع سے پہلے کندھوں یا کانوں تک اپنے دونوں ہاتھ اٹھ نے کو 'رفع یدین' کہا جاتا ہے، یہ ایک جسمانی (physical) عمل ہے- اب قرآن سے  کچھ مثالیں:

  1. وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ ( اور جب ہم نے تم سے عہد (کر) لیا اور کوہِ طُور کو تم پر اٹھا کھڑا کیا (رَفَعْنَا) (قرآن2:63)[98]
  2. وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ ( یاد کرو وہ وقت، جب ہم نے طُور کو تم پر  اٹھا کھڑا کیا تم سے پختہ عہد لیا تھا(قرآن2:93)[99]
  3. وَإِذْ يَرْفَعُ إِبْرَاهِيمُ الْقَوَاعِدَ مِنَ الْبَيْتِ وَإِسْمَاعِيلُ رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا ۖ إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ‎﴿١٢٧﴾ اور جب ابراہیم اور اسمٰعیل بیت الله کی بنیادیں اونچی ( يَرْفَعُ) کر رہے تھے (تو دعا کئے جاتے تھے کہ) اے پروردگار، ہم سے یہ خدمت قبول فرما۔ بےشک تو سننے والا (اور) جاننے والا ہے (2:127)[100] 
  4. وَرَفَعْنَا فَوْقَهُمُ الطُّورَ بِمِيثَاقِهِمْ ( اور ان سے عہد لینے کو ہم نے ان پر کوہ طور اٹھا کھڑا کیا (4:154)[101]
  5. وَ رَفَعَ اَبَوَیۡہِ عَلَی الۡعَرۡشِ (اور(یوسف ںے) اپنے تخت پر اپنے ماں باپ کو اونچا ( رَفَعَ ) بٹھایا  (قرآن 12:100)[102]
  6.  وَإِلَى السَّمَاءِ كَيْفَ رُفِعَتْ ‎﴿١٨﴾‏ ( اور آسمان کی طرف کہ کیسا بلند (رُفِعَتْ) کیا گیا ہے (قرآن :88:18 )[103]
  7. وَ السَّمَآءَ رَفَعَہَا وَ وَضَعَ الۡمِیۡزَانَ ۙ﴿۷﴾ (اسی نے آسمان کو بلند کیا اور اسی نےمیزان رکھی (قرآن 55:7)[104]
  8.  ‏ أَأَنتُمْ أَشَدُّ خَلْقًا أَمِ السَّمَاءُ ۚ بَنَاهَا ‎﴿٢٧﴾‏ رَفَعَ سَمْكَهَا فَسَوَّاهَا ‎﴿٢٨﴾ (بھلا تمہارا بنانا آسان ہے یا آسمان کا؟ اسی نے اس کو بنایا (27) اس کی چھت کو اونچا کیا اور پھر اسے برابر کر دیا (قرآن :79:28 )[105]
  9. یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لَا تَرۡفَعُوۡۤا اَصۡوَاتَکُمۡ فَوۡقَ صَوۡتِ النَّبِیِّ (اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز سے اوپر نہ کرو اور نہ ان سے اونچی آواز سے بات کرو(قرآن :49:2)[106]
  10. اَللّٰہُ الَّذِیۡ رَفَعَ السَّمٰوٰتِ بِغَیۡرِ عَمَدٍ  (اللہ وہی ہے جس نے آسمانوں کو بغیر ستونوں کے بلند فرما دیا (قرآن 13:2)[107]
  11. وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ‎﴿٥٦﴾وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا ‎﴿٥٧﴾‏ ( اور کتاب میں ادریس کا بھی ذکر کرو۔ وہ بھی نہایت سچے نبی تھے (56) (اور اٹھا لیا ہم نے اس کو ایک اونچے مکان پر (قرآن 19:57)[108]
  12. اِذْ قَالَ اللهُ یٰـعِيْسٰٓی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ وَمُطَهِرُکَ مِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰـمَةِ ج ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَيْنَکُمْ فِيْمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ

"جب اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں( مُتَوَفِّيْکَ [109]) اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں (رَافِعُکَ)[110] اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہوں قیامت کے دن تک ، پھر تم سب کا لوٹنا ( مَرْجِعُکُمْ ) میری ہی طرف ہے میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کرونگا   (قرآن 3:55)[111]

“And when Allah said: O Isa, I am going to terminate the period of your stay (on earth) and cause you to ascend unto Me and purify you of those who disbelieve and make those who follow you above those who disbelieve to the day of resurrection; then to Me shall be your return, so l will decide between you concerning that in which you differed” (Quran 3:55) Translation by Shakir 

He told Jesus, "I will save you from your enemies, raise you to Myself, keep you clean from the association with the disbelievers, and give superiority to your followers over the unbelievers until the Day of Judgment. On that day you will all return to Me and I shall resolve your dispute.(Quran 3:55) Translation by Sarwar

تفسیر: ’’اور اللہ تعالیٰ کے اس فرمان: (اِنِّي مُتَوَفِّيْکَ) کا معنی یہ ہے کہ (اے عیسیٰ!) میں تیری عمر پوری کروں گا اور پھر تجھے وفات دوں گا۔ پس میں ان یہود کو تیرے قتل کے لیے نہیں چھوڑوں گا بلکہ میں تجھے آسمان اور ملائکہ کے مسکن کی طرف اٹھا لوں گا اور تجھ کو ان کے قابو میں آنے سے بچا لوں گا اور یہ اس آیت کی نہایت احسن تفسیر ہے۔‘‘ (رازی، التفسیر الکبیر) 

اگریھاں 'متوفی' کا مطلب موت ہوتا تو دشمنوں کا  مقصد بھی  یہی تھا کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو مصلوب کرکہ قتل کرنا- تو کیا اللہ یہ کام خود پورا  کرکہ  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے درجات بلند فرما رہا ہے؟ یا کہ دشمنوں کا مقصد پورا کرنا ہے؟ ایسا ہرگز نہیں ہے الله تعالی اپنے نبی رسول کو دشمنوں سے محفوظ کر رہا ہے اپنی تدبر اور پلان کے مطابق-  [یہ محظ ایک قیاس . speculation ہو سکتی ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اگر خود صلیب پر تھے کوئی اور نہیں تو وہ بیہوش ہوں یا اللہ نے ان پر نیند طاری کی ہو اور بعد میں جیسا کہ مسیحی روایات میں وہ غار سے غائب ہو گئے یعنی الله تعالی نے ان کو زندہ اٹھا لیا؟  واللہ اعلم ]

لفظ مُتَوَفِّيْکَ کا معنی و مفہوم:

اردو زبان میں متوفی مردہ کے لئے استعمال ہوتا ہے لیکن عربی میں اس کا معنی وسیع ہے - لفظِ متوفی وَفیَ، یَفِي، وَفَاءٌ سے مشتق ہے، جس کا معنی ہے پورا دینا یا پورا کرنا۔ قرآنِ حکیم میں یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے مثلاً: وعدہ پورا کرنا، اجر یا بدلہ پورا دینا، عمر پوری کرنا، قبضے میں لے لینا، نذر پوری کرنا، ناپ تول پورا کرنا.اور کبھی تَوَفّٰی کے معنی موت اور نیند کے لیے بھی آتے جو کونٹیکسٹ سے معلوم ہوتا ہے (ملاحضہ ڈکشنری[112])- چنانچہ’’وفاء یا وفاۃ‘‘کا حقیقی معنی موت نہیں ہے بلکہ "پورا کرنا" ہے۔ اردو میں بھی وعدہ وفا کرنا اسی معنی میں ہے-

 کسی کی موت کو بطورِ مجاز وفات اس لیے کہا جاتا ہے کیونکہ موت آنے پر اس کی عمر پوری ہو چکی ہوتی ہے۔

قرآن سے مثالیں:

  1. اَلْوَافِیْ:مکمل اور پوری چیز کو کہتے ہیں جیسے:
  2. دِرْھَمٌ وَافِ،کِیْلٌ وَافِ وَغَیْرُ ذَالِکَ اَوْفَیْتُ الْکَیْلَ وَالْوَزْنَ:میں نے ناپ یا تول کر پورا پورا دیا۔قرآن پاک میں ہے۔
  3. (وَ اَوۡفُوا الۡکَیۡلَ اِذَا کِلۡتُمۡ ) (۱۷۔۳۵) اور جب کوئی چیز ناپ کردینے لگو تو پیمانہ پورا بھراکرو۔
  4. وَفِی بِعَھْدِہ (ض) وَفَائَ وَّاَوْفٰی:اس نے عہد و پیمان پورا کیا یعنی اس کی خلاف ورزی نہیں کی اس کی ضد
  5. غَدْرٌ ہے جو نقص عہد اور عدم وفا کے معنی پر دلالت کرتا ہے لیکن قرآن پاک میں اَوْفٰی (افعال) استعمال ہوا ہے چنانچہ فرمایا:۔
  6. (وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِیۡۤ اُوۡفِ بِعَہۡدِکُمۡ) (۲۔۴۰) اور اس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا اور میں اس اقرار کو پوراکروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا۔
  7. (وَ اَوۡفُوۡا بِعَہۡدِ اللّٰہِ اِذَا عٰہَدۡتُّمۡ ) (۱٦۔۹۱) اور جب خدا سے عہد واثق کرو تو اس کو پورا کرو۔
  8. (بَلٰی مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ وَ اتَّقٰی ) (۳۔۷٦) ہاں جو شخص اپنے اقرار کو پورا کرے اور خدا سے ڈرے۔
  9. (وَ الۡمُوۡفُوۡنَ بِعَہۡدِہِمۡ اِذَا عٰہَدُوۡا) (۳۔۱۷۷) اور جب عہد کرلیں تو اس کو پورا کریں۔
  10. (یُوۡفُوۡنَ بِالنَّذۡرِ) (۷٦۔۷) یہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں
  11. (وَ مَنۡ اَوۡفٰی بِعَہۡدِہٖ مِنَ اللّٰہِ ) (۹۔۱۱۱) اور خدا سے زیادہ وعدہ پورا کرنے والا کون ہے۔اور آیت:۔
  12. (وَ اِبۡرٰہِیۡمَ الَّذِیۡ وَفّٰۤی ) (۵۳۔۳۷) اور ابراہیم علیہ السلام کی جنہوں نے (حق طاعت و رسالت) پورا کیا میں وفی سے مراد یہ ہے کہ حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ان مطالبات کو پورا کرنے میں اپنی پوری کوشش صرف کرڈالی جن کی طرف کہ اﷲ تعالیٰ نے آیت کریمہ:۔
  13. (اِنَّ اللّٰہَ اشۡتَرٰی مِنَ الۡمُؤۡمِنِیۡنَ اَنۡفُسَہُمۡ وَ اَمۡوَالَہُمۡ بِاَنَّ لَہُمُ الۡجَنَّۃَ) (۹۔۱۱۱) خدا نے مومنوں سے ان کی جانیں اور ان کے مال خرید لیے ہیں اور اس کے عوض میں ان کے لئے بہشت تیار کی ہے۔میں ارشاد فرمایا ہے اور حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اگر ایک طرف اﷲ تعالیٰ کی اطاعت میں مال صرف کیا تو دوسری طرف لڑکے کی قربانی پیش کرنے میں بھی کچھ دریغ نہ کیا حالانکہ وہ انہیں ان کی جان سے بھی زیادہ عزیز تھا اور

وفیّٰ سے جن باتوں کے پورا کرنے پر متنبہ کیا وہ وہی ہیں جن کی طرف کہ آیت:۔

  1. (وَ اِذِ ابۡتَلٰۤی اِبۡرٰہٖمَ رَبُّہٗ بِکَلِمٰتٍ فَاَتَمَّہُنَّ) (۲۔۱۲٤) اور جب پروردگار نے چن باتوں میں حضرت ابراہیم علیہ السلام کی آزمائش کی تو وہ ان می پورے پورے اترے میں ارشاد فرمایا ہے۔اورتَوْفِیَۃُ الشَّیْئِ کے معنی بلا کسی قسم کی کمی کے پورا پورا دے دینے کے ہیں اوراِسْتِیْفَاء کے معنی اپنا حق پورا لے لینے کے۔قرآن پاک میں ہے:۔
  2. (وَ وُفِّیَتۡ کُلُّ نَفۡسٍ مَّا کَسَبَتۡ ) (۳۔۲۵) اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ دیا جائے گا۔
  3. (وَ اِنَّمَا تُوَفَّوۡنَ اُجُوۡرَکُمۡ ) (۳۔۱۸۵) اور تم کو تمہارے اعمال کا پورا پورا بدلہ ملے گا۔
  4. (اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوۡنَ اَجۡرَہُمۡ بِغَیۡرِ حِسَابٍ ) (۳۹۔۱۰) جو صبر کرنے والے ہیں ان کو بے شمار ثواب ملے گا۔
  5. (مَنۡ کَانَ یُرِیۡدُ الۡحَیٰوۃَ الدُّنۡیَا وَ زِیۡنَتَہَا نُوَفِّ اِلَیۡہِمۡ اَعۡمَالَہُمۡ فِیۡہَا) (۱۱۔۱۵) جو لوگ دنیا کی زندگی اور اس کی زیب و زینت کے طالب ہوں ہم ان کے اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں پورا پورا دے دیتے ہیں۔
  6. (وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیۡکُمۡ ) (۸۔٦۰) اور تم جو کچھ راہ خدا میں خرچ کروگے اسکا ثواب تم کو پورا پورا دیا جائے گا۔
  7. (فَوَفّٰىہُ حِسَابَہٗ) (۲۴۔۳۹) تو اس سے اس کا حساب پورا پورا چکادے۔

اور کبھی تَوَفّٰی کے معنی موت اور نیند کے بھی آتے ہیں چنانچہ قرآن پاک میں ہے۔

  1. (وَ اللّٰہُ خَلَقَکُمۡ ثُمَّ یَتَوَفّٰىکُمۡ) (۱٦۔۷۰) اور خدا ہی نے تم کو پیدا کیا پھر وہی تم کو موت دیتا ہے۔
  2. (الَّذِیۡنَ تَتَوَفّٰىہُمُ الۡمَلٰٓئِکَۃُ ) (۱٦۔۲۸) انکا حال یہ ہے کہ جب فرشتے ان کی روحیں قبض کرنے لگتے ہیں
  3. (تَوَفَّتۡہُ رُسُلُنَا) (۶۔۶۱) تو ہمارے فرشتے ان کی روح قبض کرلیتے ہیں۔
  4. (اَوۡ نَتَوَفَّیَنَّکَ) (۱۳۔٤۰) یا تمہاری مدت حیات پوری کردیں۔
  5. (وَ تَوَفَّنَا مَعَ الۡاَبۡرَارِ) (۳۔۱۹۳) اور ہم کو دنیا سے نیک بندوں کے ساتھ اٹھا۔
  6. (وَّ تَوَفَّنَا مُسۡلِمِیۡنَ)(۷۔۱۲٦)اور ہمیں ماریو تو مسلمان ہی ماریو۔
  7. (تَوَفَّنِیۡ مُسۡلِمًا) (۱۲۔۱۰۱) مجھے اپنی اطاعت کی حالت میں اٹھائیو۔اور آیت:
  8. (یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ ) (۳۔۵۵) عیسیٰ علیہ السلام میں تمہاری دنیا میں رہنے کی مدت پوری کرکے تم کو اپنی طرف اٹھالوں گا۔ میں بعض نے کہا ہے کہ "توفی" بعض موت نہیں ہے بلکہ اس سے مدراج کو بلند کرنا مراد ہے۔مگر حضرت ابن عباسؓ نے "توفی" کے معنی موت کیے ہیں چنانچہ انکا قول ہے کہ اﷲ تعالیٰ نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فوت کرکے پھر زندہ کردیا تھا۔(یہ ان کا قول ہے ، حدیث نہیں)
  9. (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الۡاَنۡفُسَ حِیۡنَ مَوۡتِہَا ) (۳۹۔۴۲) خدا لوگوں کے مرنے کے وقت ان کی روحیں قبض کرلیتا ہے۔
  10. (وَ ہُوَ الَّذِیۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ بِالَّیۡلِ) (٦۔٦۰) اور وہی تو ہے جو رات کو (سونے کی حالت میں ) تمہاری روح قبض کرلیتا ہے۔
  11. (قُلۡ یَتَوَفّٰىکُمۡ مَّلَکُ الۡمَوۡتِ) (۳۲۔۱۱) کہہ دو کہ موت کا فرشتہ تمہاری روحیں قبض کرلیتا ہے۔[113]

اب دوبارہ غور کریں کہ عربی لفظِ متوفی کا معنی ہے پورا دینا یا پورا کرنا۔ قرآنِ حکیم میں یہ لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے مثلاً: وعدہ پورا کرنا، اجر یا بدلہ پورا دینا، عمر پوری کرنا، قبضے میں لے لینا، نذر پوری کرنا، ناپ تول پورا کرنا(ملاحضہ ڈکشنری[114])- چنانچہ’’وفاء یا وفاۃ‘‘کا حقیقی معنی موت نہیں ہے بلکہ "پورا کرنا" ہے۔

اب مذکورہ بالا معانی پر بطور دلیل قرآنی آیات: یٰٓـاَیُّھَا الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ۔ (’’اے ایمان والو! (اپنے) عہد پورے کرو۔‘-المائدہ، 5: 1)؛ وَاُوْفُوْا بِالْعَھْدِ اِنَّ الْعَھْدَ کَانَ مَسْئُوْلاًo (’’اور وعدہ پورا کیا کرو، بے شک وعدہ کی ضرور پوچھ کچھ ہو گی - الإسراء، 17: 34)

 اَللهُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِيْنَ مَوْتِھَا وَالَّتِی لَمْ تَمُتْ فِيْ مَنَامِھَا فَیُمْسِکُ الَّتِيْ قَضٰی عَلَيْھَا الْمَوْتَ وَیُرْسِلَ الْاُخْرٰٓی اِلٰی اَجَلٍ مُّسَمًّی۔(الزمر، 39: 42) ’’

˹It is˺ Allah ˹Who˺ calls back the souls ˹of people˺ upon their death as well as ˹the souls˺ of the living during their sleep. Then He keeps those for whom He has ordained death, and releases the others until ˹their˺ appointed time. Surely in this are signs for people who reflect.(Quran:39:42 )[115]،[116]

اللہ ہی جانوں کو ان کی موت ( مَوْتِھَا) کے وقت قبض ( یَتَوَفَّی) کرتا ہے اور ان (جانوں) کو بھی جن پر موت طاری نہیں ہوئی، نیند کے وقت کھینچ لیتا ہے۔ پھر ان (جانوں) کو روک لیتا ہے جن پر موت کا حکم صادر کر چکا ہو اور دوسری (جانوں) کو ایک وقت معین تک چھوڑ دیتا ہے۔‘‘ (قرآن:39:42)

اس آیت میں سا ف واضح ہو رہا ہے کہ  (یَتَوَفَّی) اور (مَوْتِھَا) دو الگ الگ الفاظ ہیں ہم معنی نہیں- جب نیند میں سب کی ارواح الله تعالی کے قبضہ میں واپس چلی جاتی ہیں جن پر موت کا وقت مقرر ہے ان کی ارواح واپس نہیں آتیں اور جن کی زندگی ابھی با قی ہے الله تعالی ان کی ارواح کو واپس بھیج دیتا ہے-  یَتَوَفَّی کا معنی قبضہ کرنا واپس لینا ہے موت لازم نہیں-

اردو زبان میں متوفی مردہ یا فوت شدہ انسان کو کہتے ہیں لیکن یہ قرآن کی کلاسیکل عربی ہے اردو نہیں- عربی میں ایک لفظ کے کئی معنی ہوتے ہیں جو سیاق و سباق سے سمجھے جا سکتے ہیں-

ان آیتِ کریمہ میں بھی ’’وفاء‘‘سے مشتق لفظ ’’یتوفّی‘‘کے معنی موت نہیں بلکہ قبضہ میں لے لینا کے ہیں۔ اور پھر جہاں رفع بھی لگتا ہے تو کوئی شک نہیں رہ جاتا-

موت اور وفات میں فرق

كُلُّ نَفْسٍ ذَائِقَةُ الْمَوْتِ ۖ ثُمَّ إِلَيْنَا تُرْجَعُونَ ‎﴿٥٧﴾‏

 ہر متنفس موت کا مزہ چکھنے والا ہے۔ پھر تم ہماری ہی طرف لوٹ کر آؤ گے (قرآن: 29:57)

موت اور وفات دو الگ الگ چیزیں ہیں۔ ’’یَتَوَفّٰکُمْ بِالَّيْلِ‘‘ میں وفات تو ہے مگر موت نہیں چنانچہ اللہ تعالیٰ نیند کی حالت میں روح کو اپنے قبضہ میں لے لیتے ہیں۔ مگر پھر بیداری کے وقت لوٹا دیتے ہیں جبکہ موت میں روح قبضے میں تو لے لی جاتی ہے مگر اسے لوٹایا نہیں جاتا۔ اس سے ثابت ہوا کہ موت کا وقت آنا الگ چیز ہے اور روح کا قبضہ میں آنا اور وفات پانا ایک الگ چیز ہے۔ پس معلوم ہوا کہ عمر کا پورا ہونا، روح کا قبضے میں لے لینا، قبضے سے واپس لوٹا دینا اور موت کا وقت آنا یا نہ آنا یہ سب جدا جدا حقیقتیں ہیں۔ اپنے قبضہ میں لے لینا یہ بھی وفات کا معنی ہے اور عرصۂ حیات پورا کرنا یہ بھی وفات کا معنی ہے۔

روح سے مراد روح حیوانی نہیں ہے جو ہر ذی حیات کو متحرک کرنے کا سبب ہوتا ہے۔ بلکہ یہاں روح سے مراد روح انسانی ہے۔ جس کی بنا پر انسان دوسرے تمام حیوانات سے ممتاز ہوا۔ اسے عقل و شعور بخشا گیا اور ارادہ و اختیار دے کر خلافت ارضی کا حامل بنایا گیا۔

جب قرآن مجید سے وفات کا معنی عمر پوری کرنا اور قبضہ میں لے لینا ثابت ہے تو اب لغت میں اس لفظ سے موت کے معنی تلاش کرنا نصِ قرآنی کو بگاڑنے کے مترادف ہے۔

دشمنوں کی تدابیر اور پلان کے مقابل اللہ نے بھی اپنا منصوبہ بنایا:

وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللهُ واللهُ خَيْرُ الْمَاکِرِيْنَ [’’پھر (عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لیے) انہوں نے خفیہ تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی (عیسیٰ علیہ السلام کو بچانے کی) خفیہ تدبیریں کیں۔ (یعنی کفار کی تدبیر کا رد کیا) اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہترخفیہ تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘(آل عمران،3:54][117]

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں بیان فرمائیں: یہود کا مکر کرنا، اللہ تعالیٰ کا اُن کے مکر کے خلاف تدبیر فرمانا اور اللہ تعالیٰ کا بہتر تدبیر فرمانے والا ہونا۔ اس کو مد نظر رکھنا ہوگا کہ اللہ کا پلان حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بچانے کا تھا-

اِذْ قَالَ اللهُ یٰـعِيْسٰٓی اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ وَرَافِعُکَ اِلَيَّ وَمُطَهِرُکَ مِنَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْا وَجَاعِلُ الَّذِيْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِيْنَ کَفَرُوْٓا اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰـمَةِ ج ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ فَاَحْکُمُ بَيْنَکُمْ فِيْمَا کُنْتُمْ فِيْهِ تَخْتَلِفُوْنَ0

’جب اللہ نے فرمایا: اے عیسیٰ! بے شک میں تمہیں پوری عمر تک پہنچانے والا( مُتَوَفِّيْکَ [118]/پورا پورا لینے والا ہوں/ بض کرنے والا ہوں ) ہوں اور تمہیں اپنی طرف (آسمان پر) اٹھانے والا[119] (رَافِعُکَ) ہوں اور تمہیں کافروں سے نجات[120] دلانے والا ہوں اور تمہارے پیروکاروں کو (ان) کافروں پر قیامت تک برتری دینے والا ہوں، پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے سو جن باتوں میں تم جھگڑتے تھے میں تمہارے درمیان ان کا فیصلہ کر دوں گا‘‘  (قرآن 3:55)[121]

نوٹ کیا جایے کہ الله تعالی کا یہ خطاب حضرت عیسیٰ علیہ السلام سے ہے اور اس میں یہ کہنا : ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ [پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے] تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام تب واپس لوٹ کر آیئں گے جب ان کی  دنیا میں واپسی  (نزول) ہوگی (یہ نزول عیسیٰ علیہ السلام  کا بالواسطہ/ indirect اشارہ ہے)!

 پس اس آیتِ کریمہ میں ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘ کے دو معنی ہو سکتے ہیں۔

1۔ اے عیسیٰ علیہ السلام! میں تیرا عرصۂ حیات پورا کرنے والا ہوں خواہ یہ یہودی جتنے بھی منصوبے بنائیں ان کے باعث تیری موت واقع نہیں ہو گی بلکہ ’’وَرَافِعُکَ اِلَيَّ‘‘ میں اپنی قدرتِ کاملہ سے تجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا۔

2۔ دوسرا معنی یہ ہو گا کہ اے عیسیٰ علیہ السلام میں تجھے اپنے قبضۂ قدرت اور حفاظت میں لے لوں گا وہ اس طرح کہ ’’وَرَافِعُکَ اِلَيَّ‘‘ تجھے اپنی طرف اُٹھا لوں گا۔ یہ جتنی بھی تجھے صلیب پر چڑھانے کی سازشیں تیار کرتے پھریں ناکام و نامراد ہوں گے۔

چنانچہ ثابت ہوا کہ ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘میں وفات بمعنی موت نہیں اور جب وفات موت نہیں تو ’’وَرَافِعُکَ‘‘ سے مراد رفع روح اور رفع درجات نہیں بلکہ اس سے مراد کسی زندہ شخصیت کو معجزةً جسمانی طور پر اُوپر اُٹھا لینا ہے- یہ الله تعالی کا پلان ہے جو کہ عظیم ہے اس کا پلان بھی عظیم ہے-

 بصورت دیگر لفظ ’’مُتَوَفِّيْکَ‘‘ میں اگر وفات بمعنی موت بھی (بطور مجاز) مراد لے لیا جائے، جس طرح قادنیوں کا موقف ہے تو اس سے بھی حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی موت ثابت نہیں ہوتی کیونکہ اس صورت میں ’’اِنِّيْ مُتَوَفِّيْکَ‘‘ کا معنی یہ ہو گا کہ اے عیسیٰ !بے شک میں موت دینے والا ہوں اور تجھے میں جب چاہوں گا موت دوںگا۔ یہ تجھے قتل کرنے کے چاہے جتنے منصوبے اور سازشیں تیار کریں وہ تجھے موت نہیں دے سکتے۔ (مزید آیات قرآن ملاحضہ  لنک[122] )

تفسیر بیان القرآن : آیت 55 (اِذْ قَال اللّٰہُ یٰعِیْسٰٓی اِنِّیْ مُتَوَفِّیْکَ وَرَافِعُکَ اِلَیَّ ) لفظ مُتَوَفِّیْکَ کو قادیانیوں نے اپنے اس غلط عقیدے کے لیے بہت بڑی بنیاد بنایا ہے کہ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کی وفات ہوچکی ہے۔ لہٰذا اس لفظ کو اچھی طرح سمجھ لیجیے۔ وَفٰی کے معنی ہیں پورا کرنا۔ اردو میں بھی کہا جاتا ہے وعدہ وفا کرو۔

اسی سے باب تفعیل میں وَفّٰی۔ یُوَفِّیْ ۔ تَوْفِیَۃً کا مطلب ہے کسی کو پورا دینا۔ جیسا کہ آیت 25[123] میں ہم پڑھ آئے ہیں : (فَکَیْفَ اِذَا جَمَعْنٰہُمْ لِیَوْمٍ لاَّ رَیْبَ فِیْہِقف وَوُفِّیَتْ (پورا پورا بدلہ) کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَہُمْ لاَ یُظْلَمُوْنَ ) تو کیا حال ہوگا جب ہم انہیں اکٹھا کریں گے اس دن جس کے بارے میں کوئی شک نہیں ! اور ہر جان کو پورا پورا بدلہ (وَوُفِّیَتْ) اس کے اعمال کا دے دیا جائے گا اور ان پر کوئی زیادتی نہیں ہوگی۔ باب تفعّل میں تَوَفّٰی۔ یَتَوَفّٰیکا معنی ہوگا کسی کو پورا پورا لے لینا۔ اور یہ لفظ گویا بتمام و کمال منطبق ہوتا ہے حضرت مسیح ( علیہ السلام) پر کہ جن کو اللہ تعالیٰ ان کے جسم اور جان سمیت دنیا سے لے گیا۔ ہم جب کہتے ہیں کہ کوئی شخص وفات پا گیا تو یہ استعارتاً کہتے ہیں۔ اس لیے کہ اس کا جسم تو یہیں رہ گیا صرف جان گئی ہے۔ اور یہی لفظ قرآن میں نیند کے لیے بھی آیا ہے : (اَللّٰہُ یَتَوَفَّی الْاَنْفُسَ حِیْنَ مَوْتِہَا وَالَّتِیْ لَمْ تَمُتْ فِیْ مَنَامِہَا ج) (الزمر : 39:42)[124] وہ اللہ ہی ہے جو موت کے وقت روحیں قبض کرلیتا ہے اور جو ابھی نہیں مرا اس کی روح نیند میں قبض کرلیتا ہے۔ اس لیے کہ نیند میں بھی انسان سے خود شعوری نکل جاتی ہے ‘ اگرچہ وہ زندہ ہوتا ہے۔ روح کا تعلق خود شعوری کے ساتھ ہے۔ پھر جب انسان مرتا ہے تو روح اور جان دونوں چلی جاتی ہیں اور صرف جسم رہ جاتا ہے۔

قرآن حکیم نے ان دونوں حالتوں (نیند اور موت) کے لیے توفّی کا لفظ استعمال کیا ہے۔ اور سب سے زیادہ مکمل تَوَفّی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کو ان کے جسم ‘ جان اور روح تینوں سمیت ‘ جوں کا توں ‘ زندہ سلامت لے گیا۔ حضرت مسیح ( علیہ السلام) کے رفع سماوی کا یہ عقیدہ مسلمانوں کا ہے ‘ اور جہاں تک لفظ تَوَفّی کا تعلق ہے اس میں قطعاً کوئی ایسی پیچیدہ بات نہیں ہے جس سے کوئی شخص آپ ( علیہ السلام) کی موت کی دلیل پکڑ سکے ‘ سوائے اس کے کہ ان لوگوں کو بہکانا آسان ہے جنہیں عربی زبان کی گرامر سے واقفیت نہیں ہے اور وہ ایک ہی وفات جانتے ہیں ‘ جبکہ ازروئے قرآن تین قسم کی وفات ثابت ہوتی ہے ‘ جس کی میں نے وضاحت کی ہے۔ آیت زیر مطالعہ کے متذکرہ بالا ٹکڑے کا ترجمہ پھر کر لیجیے : یاد کرو جب اللہ نے کہا کہ اے عیسیٰ ( علیہ السلام) میں تمہیں لے جانے والا ہوں اور تمہیں اپنی طرف اٹھا لینے والا ہوں۔ (وَمُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا) (وَجَاعِلُ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْکَ فَوْقَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْآ اِلٰی یَوْمِ الْقِیٰمَۃِ ج) [ ڈاکٹر اسرار احمد]

~~~~~~~~~~~~

خلاصہ: حیات و نزول حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام

وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللهُ واللهُ خَيْرُ الْمَاکِرِيْنَ [’’پھر (عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لیے) انہوں نے خفیہ تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی (عیسیٰ علیہ السلام کو بچانے کی) خفیہ تدبیریں کیں۔ (یعنی کفار کی تدبیر کا رد کیا) اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہترخفیہ تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘(آل عمران،3:54][125]

الله تعالی کا پلان یہود کے پلان کو ناکام کرنا تھا نہ کہ حضرت عیسیٰ مسیح  علیہ السلام کو مار کر یہود کے پلان کو کامیاب کرنا؟  جیسا کہ منکرین ختم نبوت آیات قرآن کے برخلاف دعوی کرتے ہیں - الله تعالی  ۓ اپنا پلان ظاہر کر دیا:-

اِذۡ قَالَ اللّٰہُ یٰعِیۡسٰۤی اِنِّیۡ مُتَوَفِّیۡکَ وَ رَافِعُکَ اِلَیَّ وَ مُطَہِّرُکَ مِنَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ جَاعِلُ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡکَ فَوۡقَ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡۤا اِلٰی یَوۡمِ الۡقِیٰمَۃِ ۚ ثُمَّ اِلَیَّ مَرۡجِعُکُمۡ فَاَحۡکُمُ بَیۡنَکُمۡ فِیۡمَا کُنۡتُمۡ فِیۡہِ تَخۡتَلِفُوۡنَ ﴿۵۵﴾

"جب اللہ تعالٰی نے فرمایا کہ اے عیسیٰ! میں تجھے پورا لینے والا ہوں( مُتَوَفِّيْکَ [126]) اور تجھے اپنی جانب اٹھانے والا ہوں (رَافِعُکَ)[127] اور تجھے کافروں سے پاک کرنے والا ہوں اور تیرے تابعداروں کو کافروں کے اوپر غالب کرنے والا ہوں قیامت کے دن تک ، پھر تم سب کا لوٹنا (مَرۡجِعُکُمۡ ) میری ہی طرف ہے میں ہی تمہارے آپس کے تمام تر اختلافات کا فیصلہ کرونگا   (قرآن 3:55)[128] [تین اہم الفاظ میں سارے مسئلہ کا حل پوشیدہ ہے:  مُتَوَفِّيْکَ، رَافِعُکَ، مَرۡجِعُکُمۡ]

1.موت میں انسان کی روح اور جان (زندگی) چلی جاتی ہے جسم یہیں دنیا میں رہ جاتا ہے-

2. عربی لفظ "متوفی" کا ایک یہ مطلب یہ کہ: مکمل پوا کا پورا لے لینا - انسان مرکب ہے تین چیزوں کا :  i) جسم ii)روح ، iii)جان(زندگی)- جب یہ تینوں مکمل ہیں اکٹھے ہیں تو انسان زندہ حالت میں ہے ، جیسے نیند میں[129]-  رَافِعُکَ ، بلند کرنے، اونچا کرنے جسمانی طور پر-

3.اگر جسم دنیا میں رہ جاۓ صرف روح اور جان (زندگی) الله تعالی لیتا ہے جیسا کہ عام مشاہدہ ہے، تو اسے 'موت' کہا جاتا ہے- مگر  یہ تاریخی شہادت، ایک حقیقت ہے کہ حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کا جسم دنیا میں نہیں رہا جوکسی کو نہیں ملا اس پر داستانیں مشہورہیں- لہذا  ان پر یہ لفظ مُتَوَفِّیْکَ یعنی  'مکمل طور پر پورا کا پورا  حضرت عیسیٰ علیہ السلام مسیح علیہ السلام کو الله تعالی  نے لے لیا' درست طور پر بعین لاگو ہوتا ہے- منکرین نبوت  (مُتَوَفِّيْکَ، رَافِعُکَ) کے غلط معنی نکال کر یہود یہود کا پلان کامیاب کرتے ہیں اور اللہ کو ناکام (استغفراللہ )-

4. اسی آیات میں الله تعالی فرماتا ہے: ثُمَّ اِلَيَّ مَرْجِعُکُمْ [پھر تمہیں میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے (قرآن 3:55)[130]] تو حضرت عیسیٰ مسیح علیہ السلام کو تو الله تعالی نے مکمل اٹھا لیا- توالله کے پاس واپس لوٹ کر وہ اسی صورت میں آسکتے ہیں جب ان کی  دنیا میں (واپسی  (نزول) ہو پھر موت (مَرۡجِعُکُمۡ )  (یہ دنیا میں دوبارہ واپسی یا نزول عیسیٰ علیہ السلام کی طرف بالواسطہ/ indirect اشارہ ہے مگر یہ اور احادیث نزول (قرآن:5:116/117)[131] سے متضاد ہیں، اس کا حل علماء کو نکلالنا ہو گا!

لیکن حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی 'موت' جو منکرین ختم نبوت عقیده کی جڑھ ہے قطعی طور پر قرآن سے ثابت نہیں بلکہ مکمل طور پر جسم سمیت زندہ اوپر اٹھایا جانا ثابت ہے-

پس منکرین ختم نبوت کی بنیاد اور جڑھ کا ختمہ ہو گیا- ان کو اسلام کی طرف رجوع، واپسی کی دعوت ہے-

~~~~~~~~~~~~~

وَقَوْلِهِمْ إِنَّا قَتَلْنَا الْمَسِيحَ عِيسَى ابْنَ مَرْيَمَ رَسُولَ اللَّهِ وَمَا قَتَلُوهُ وَمَا صَلَبُوهُ وَلَٰكِن شُبِّهَ لَهُمْ ۚ وَإِنَّ الَّذِينَ اخْتَلَفُوا فِيهِ لَفِي شَكٍّ مِّنْهُ ۚ مَا لَهُم بِهِ مِنْ عِلْمٍ إِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَمَا قَتَلُوهُ يَقِينًا ‎﴿١٥٧﴾‏ بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ‎﴿١٥٨﴾

 اور یہ کہنے کے سبب کہ ہم نے مریم کے بیٹے عیسیٰ مسیح کو جوالله کے رسول تھے قتل کردیا ہے اور انہوں نے عیسیٰ کو قتل نہیں کیا اور نہ انہیں سولی پر چڑھایا بلکہ ان کو ان کی سی صورت معلوم ہوئی اور جو لوگ ان کے بارے میں اختلاف کرتے ہیں وہ ان کے حال سے شک میں پڑے ہوئے ہیں اور پیروئی ظن کے سوا ان کو اس کا مطلق علم نہیں۔ اور انہوں نے عیسیٰ کو یقیناً قتل نہیں کیا (157)  بلکہ اللہ  نے ان کو اپنی طرف اٹھا لیا۔ اور اللہ کے پاس قدرت بھی ہے اور حکمت بھی۔ (4:1قرآن)[132] ----

ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے واضح طور پر اعلان فرما دیا ہے کہ اس نے حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان کی طرف زندہ اُٹھا لیا۔ اس آیت کے بعد کسی تاویل و تفسیر کی ضرورت باقی نہیں رہتی۔

آیات الله تعالی کو جھٹلانے والے

اور اے محمدؐ، اِن کے سامنے اُس شخص کا حال بیان کرو جس کو ہم نے اپنی آیات کا علم عطا کیا تھا مگر وہ ان کی پابندی سے نکل بھاگا آخرکار شیطان اس کے پیچھے پڑ گیا یہاں تک کہ وہ بھٹکنے والوں میں شامل ہو کر رہا (175) اگر ہم چاہتے تو اسے اُن آیتوں کے ذریعہ سے بلندی ( لَرَفَعْنَاهُ ) عطا کرتے، مگر وہ تو زمین ہی کی طرف جھک کر رہ گیا اور اپنی خواہش نفس ہی کے پیچھے پڑا رہا، لہٰذا اس کی حالت کتے کی سی ہو گئی کہ تم اس پر حملہ کرو تب بھی زبان لٹکائے رہے اور اسے چھوڑ دو تب بھی زبان لٹکائے رہے یہی مثال ہے اُن لوگوں کی جو ہماری آیات کو جھٹلاتے ہیں تم یہ حکایات اِن کو سناتے رہو، شاید کہ یہ کچھ غور و فکر کریں (176) بڑی ہی بری مثال ہے ایسے لوگوں کی جنہوں نے ہماری آیات کو جھٹلایا، اور وہ آپ اپنے ہی اوپر ظلم کرتے رہے ہیں (177) جسے اللہ ہدایت بخشے بس وہی راہ راست پاتا ہے اور جس کو اللہ اپنی رہنمائی سے محروم کر دے وہی ناکام و نامراد ہو کر رہتا ہے (قران : 7:178)

 حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ رفع

تیرہ آیات قرآن سے جب یہ ثابت ہو گیا کہ رفع کا معنی جسمانی ، فزیکل طور پر بلند کرنا، اٹھانا بھی ہے، اب واپس موضوع کی طرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ رفع :

طور پہاڑ کا (physically)  اٹھایا جانا

 وَإِذْ أَخَذْنَا مِيثَاقَكُمْ وَرَفَعْنَا فَوْقَكُمُ الطُّورَ خُذُوا مَا آتَيْنَاكُم بِقُوَّةٍ وَاذْكُرُوا مَا فِيهِ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُونَ ‎﴿٦٣﴾

اور جب ہم نے تم سے پختہ وعدہ لیا اور تمہارے اوپر(رَفَعْنَا) طور پہاڑ لا کھڑا  کیا کہ جو ہم نے تمہیں دیا ہے اسے مضبوطی کے ساتھ پکڑو اور جو کچھ اس میں ہے اسے یاد رکھو تاکہ تم پرہیزگار بن جاؤ۔ (قرآن 2:63)[133]

طور پھر روحانی طور پیر نہیں جسمانی ، فزیکل طور پر ان کے اوپر کیا گیا ، اور پختہ وعدہ لیا گیا-

یہ واقعہ بھی بنی اسرائیل کے اس دور سے تعلق رکھتا ہے۔ جب ان کے ستر منتخب افراد پر بجلی گرا کر انہیں ہلاک کیا گیا اور پھر دوبارہ زندہ کیا گیا تھا۔ ان کو بھی اور ان کے ساتھ بنی اسرائیل کے دوسرے لوگوں کو بھی طور کے دامن میں کھڑا کیا گیا اور طور پہاڑ کو ان پر اس طرح کر دیا گیا جیسے وہ ان کے اوپر ایک سائبان ہے۔ اب پیچھے سمندر تھا اور آگے سروں کے اوپر سائبان کی طرح طور پہاڑ، اس وقت ان سے پوچھا گیا بتاؤ تورات پر عمل کرتے ہو یا نہیں ؟ اور اقرار کرتے ہو تو پھر پوری مضبوطی سے عہد و پیمان کرو، ورنہ ابھی اس پہاڑ کو تمہارے اوپر گرا کر تمہیں کچل دیا جائے گا۔ اس وقت بنی اسرائیل کو اپنی نافرمانیوں اور غلطیوں اور عہد شکنیوں کا احساس ہوا اپنے گناہوں سے توبہ کی اور تورات پر عمل پیرا ہونے کا پختہ اقرار کیا۔ اور یہ اس لیے کیا گیا تھا تاکہ تم لوگوں میں کچھ پرہیزگاری کی صفت پیدا ہو- مرزا صاحب کی تفسیر(صفحہ١٩٢) بھی اس سے ملتی جلتی ہے[134]

حضرت ادریس (حنوک)  علیہ السلام کا زندہ  (physically) اٹھایا جانا (رَفَعْنَا )

حضرت ادریس (حنوک)  علیہ السلام کا قرآن مجید کی دو سورتوں میں ذکر آیا ہے۔ سورۃ مریم کی آیت 55 میں خدا نے آپ کو سچا نبی کہا ہے۔ سورہ الانبیا آیت 86،85 میں اسماعیل علیہ السلام اور ذوالکفل علیہ سلام کے ساتھ آپ کو بھی صبر والا اور نیک بخت کہا گیا ہے۔ بائبل کے مطابق آپ کا نام حنوک تھا اور آپ مع جسم خاکی (physically) آسمان پر اٹھا لیے گئے[135]: اور آپ کی واپسی کی بھی کوئی اطلاع نہیں-

بیضاوی (Bidawai) کے مطابق حضرت ادریس  علیہ السلام کو اسرار الہی  پر خاص علم حاصل تھا - وہ پہلا آدمی تھا جو لکھنا جانتا تھا، اورانہوں نے فلکیات اور ریاضی کے علوم ایجاد کیے- ۔کسسی انسان کو آسمانوں پرزندہ لے جانا، وہاں موت اورابدی برزخی زندگی دینا اللہ کے اختیار میں ہے- جس باتوں کا علم نہیں ان پر قیاس آرایوں  سے گریز بہتر ہے[136]-‮[137]

 اب یہ الله تعالی پر ہے کہ وہ اپنے قانون میں استثنیٰ کرتا ہے . جیسے معجزات بھی الله تعالی کے قانون ( cause and effect) میں استثنیٰ(exception to rule) ہوتا ہے کہ آگ کا کام جلانا ہے مگر حضرت ابراہیم کے لئے الله تعالی کا حکم:  ہم نے کہا "اے آگ، ٹھنڈی ہو جا اور سلامتی بن جا ابراہیمؑ پر" (قرآن 21:69)-[138] «ان الله علی کل شیء قدیر»

وَاذْكُرْ فِي الْكِتَابِ إِدْرِيسَ ۚ إِنَّهُ كَانَ صِدِّيقًا نَّبِيًّا ‎﴿٥٦﴾وَرَفَعْنَاهُ مَكَانًا عَلِيًّا ‎﴿٥٧﴾‏

 اور اس کتاب میں ادریسؑ کا ذکر کرو وہ ایک راستباز انسان اور ایک نبی تھا (56) اور اسے ہم نے بلند مقام (رَفَعْنَاهُ[139]) پر اٹھایا تھا (قرآن : 19:57)

مرزا صاحب لکھتے ہیں کہ :

  1. رفع  کے اس جگہ معنی "موت" کے ہیں... اور قرآن میں ان کی موت ، دفن، نزول کا حکم نہیں پاتے پس بالضرور ثابت ہوا کہ  رفع سے مراد موت ہے (صفحہ٢٦٤)[140]--- الغرض حاصل کالم یہ ہے ہر بات جو قرآن کے مخالف ہو اور اس کے قصوں کے مخالف ہو تو وہ باطل ، جھوٹ اور افتراءکرنے والوں کی  من گھڑت باتیں ہیں(حمامة البشری، روحانی خزائین جلد ٧ صفہ ٢٢٠/ تفسیرصفحہ ٢٦٥[141] )
  2. ---- قرآن شریف میں ہر ایک جگہ "رفع"[142] سے مراد رفع روحانی ہے [143]---- زمین پر حضرت ادریس کی قبر بھی موجود ہے جیسا کہ حضرت عیسیٰ کی قبر موجود ہے -

(تفسیر صفحہ 266, کتاب البریہ روحانی خزائیں جلد ١٣صفحہ ٢٣٧،٢٣٨ حاشیہ / تفسیر صفحہ ٢٦٦[144]/ نواب صدیق حسن خان تفسیر فاتح البیان میں بھی روحانی رفع کہتے ہیں/ تفسیر صفحہ ٢٦٧[145])[146]

نوٹ : کوئی قبر بنا کر مشہور کر دے کہ یہ فلاں کی قبر ہے، اس کو کوئی اہمیت انہیں- کتاب الله تعالی اور اس سے مطابقت والی مستند روایات  سے ہی  دلیل، حجت پکڑی جا سکتی ہے-

  1. الله تعالی ہر نبی کو کتاب کے حقائق و معارف اور اسرارو رموز کا کامل علم عطا فرماتا ہے[147]  مرزا صاحب اپنے دعوی میں سچے نہیں ثابت ہوتے لہذا ....

مرزا صاحب کا دعوی باطل ثابت ہے

 تیرہ آیات قرآن دوباره ملاحظه فرمائیں[148]- کوئی کذب کرنے والا شخص نبی نہیں ہو سکتا-

حضرت  ادریس علیہ السلام

بائبل کے مطابق حنوک (ادریس  علیہ السلام) نوح کے سیلاب سے پہلے کے سرپرست ہیں۔ وہ عبرانی بائبل میں (Antidiluvian ) دورمیں تھے۔ پیدائش کی کتاب کا متن کہتا ہے کہ حنوک خدا کی طرف سے اٹھائے جانے سے پہلے 365 سال زندہ رہا۔ متن کے مطابق: حنوک "خدا کے ساتھ چلتا تھا: اور وہ اب نہیں رہا؛ کیونکہ خدا نے اسے لے لیا" (پیدائش 5:21-24)، اسے کچھ یہودی اور عیسائی روایات میں حنوک کے زندہ جنت میں داخل ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے، اور دوسروں میں مختلف طریقے سے تشریح کی گئی ہے۔ . [149]

بائبل / تورات کی متلعقہ آیات کے تراجم سے خاص طور پر عربی تورات جیس میں " ثُمَّ اخْتَفَى، لِأنَّ اللهَ رَفَعَهُ إلَيْهِ " کا ترجمہ [and then he disappeared because God took him away.] واضح کرتا ہے کہ حضرت حضرت ادریس (حنوک)  علیہ السلام کو زندہ جسم کے ساتھ (فزیکلی) اللہ اپنے ساتھ لے گیا- یہی اسرائیلی، مسیحی  روایت میں ہے- مرزا صاحب اہل کتاب کی ان روایات کو قبول کرتے ہیں جو قرآن سے مطابقت رکھتی ہیں اختلاف نہیں. یہ نہیں ہو سکتا کہ اپنے دلائل کے لئے  وہ ان سے استفادہ کریں اور مخالف آراء کو مسترد؟

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے بھی قرآن نے  رَّفَعَهُ کا لفظ استعمال کیا ہے - دونوں کا اللہ کے پاس فزیکل  ہے نہ کہ صرف روحانی:

 بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ‎﴿١٥٨﴾‏

 بلکہ اللہ نے اس (عیسیٰ ابن مریم ) کو اپنی طرف اٹھا لیا ( رَّفَعَهُ) ، اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے (قرآن :4:158)[150]

21 Enoch was 65 years old when he fathered Methuselah. 22 And after he fathered Methuselah, Enoch walked with God 300 years and fathered other sons and daughters. 23 So Enoch’s life lasted 365 years. 24 Enoch walked with God, and then he disappeared because God took him away. (Genesis 5:21-24 NET Bible)[151]

عربی تورات ؛ پیدائش، تکوین ٥،سِجِلُّ عَائلَةِ آدَم

21 وَعَاشَ أخنُوخُ خَمْسًا وَسِتِّينَ سَنَةً، ثُمَّ أنْجَبَ ابْنًا أسْمَاهُ مَتُوشَالَحَ. 22 وَبَعْدَ وِلَادَةِ مَتُوشَالَحَ سَارَ أخنُوخُ فِي طَرِيقِ اللهِ[c] ثَلَاثَ مِئَةِ سَنَةٍ. وَفِي هَذِهِ الأثْنَاءِ أنْجَبَ أبْنَاءً وَبَنَاتٍ. 23 فَكَانَ مَجْمُوعُ السَّنَوَاتِ الَّتِي عَاشَهَا أخنُوخُ ثَلَاثَ مِئَةٍ وَخَمْسًا وَسِتِّينَ سَنَةً. 24 وَسَارَ أخنُوخُ مَعَ اللهِ،[d] ثُمَّ اخْتَفَى، لِأنَّ اللهَ رَفَعَهُ إلَيْهِ ( تورات ؛ پیدائش، تکوین ٥،سِجِلُّ عَائلَةِ آدَم  4 2-5:21)[152]

اردو  تورات ؛ پیدائش، تکوین ٥،آدم کے خاندان کی تا ریخ

21 حنوک جب پینسٹھ برس کا ہوا تو اسے متوسلح نام کا ایک بیٹا پیدا ہوا۔ 22 متوسلح کی پیدا ئش کے بعد حنوک خدا کی سر پرستی میں خدا کے ساتھ تین سو سال اور رہا۔اِس دوران اسے دوسرے بیٹے اور بیٹیاں پیدا ہو ئے۔ 23 اس طرح حنوک کل تین سو پینسٹھ سال زندہ رہا۔ 24 حنوک جب خدا کی سر پرستی میں رہ رہا تھا تو خدا نے اسے اپنے پاس بلا یا۔ اس دن سے وہ زمین پر اور نہیں رہا۔ ( تورات ؛ پیدائش، تکوین ٥،آدم کے خاندان کی تا ریخ  4 2-5:21)[153]

حضرت الیاس علیہ السلام

بائبل کا  ایلیاہ  

حضرت الیاس علیہ السلام کا ذکر بائبل میں  ایلیاہ کے نام سے ہے- ایلیاہ (عبرانی: אֵלִיָּהוּ, ʾĒlīyyāhū) کا  مطلب ہے "میرا خدا یہوواہ ہے"، عبرانی بائبل میں بادشاہوں کی کتابوں کے مطابق، ایک نبی اور معجزہ کار تھا جو اسرائیل کی شمالی بادشاہی میں ایک بادشاہ کے دور میں رہتا تھا۔ (9ویں صدی قبل مسیح)۔ 1 کنگز 18[154] میں، ایلیاہ نے کنعانی دیوتا بعل کی عبادت پر عبرانی خدا کی پرستش کا دفاع کیا۔ خدا نے ایلیاہ کے ذریعے بہت سے معجزات بھی دکھائے، جن میں قیامت، آسمان سے آگ کا نازل ہونا، اور زندہ آسمان میں داخل ہونا شامل ہے"۔ اسے "انبیاء کے بیٹوں" کے نام سے جانا جانے والے نبیوں کے ایک مکتب کی رہنمائی کے طور پر بھی پیش کیا گیا ہے۔ اس کے معراج کے بعد، الیشا، اس کے شاگرد اور سب سے زیادہ عقیدت مند معاون نے اس مکتب کے رہنما کے طور پر اپنا کردار سنبھال لیا۔ ملاکی نے "خُداوند کے عظیم اور ہولناک دن کے آنے سے پہلے" ایلیاہ کی واپسی کی پیشین گوئی کی، [ملاکی 4:5] اُسے مسیحا اور عبرانی بائبل کی تعظیم کرنے والے مختلف عقائد میں اِسکاٹن کا پیش خیمہ بنا۔

“دیکھو! میں نبی الیاس خداوند کے اس عظیم اور بھیانک دن کے آنے سے پہلے تمہا رے ساتھ بھیج رہا ہوں۔ وہ والدین اور بچوں کو ساتھ لا ئیں گے۔ یہ ضرور ہونا چا ہئے ورنہ میں آؤنگا زمین پر وار کروں گا اور اسے پو ری طرح تبا ہ کردو ں گا۔”[بائبل / عہد نامہ قدیم /ملکی 4:5،6][155]

ایلیاہ کے حوالہ جات سراچ، نیا عہد نامہ، مشنا اور تلمود، قرآن[156]، مورمن کی کتاب [Doctrine and Covenants]، اور بہائی تحریروں میں ہیں۔[157]  اس طرح، ایلیاہ کا آخری پرانے عہد نامے کا ظہور ملاکی کی کتاب میں ہے-

حضرت الیاس علیہ السلام کا قرآن میں تذکرہ

وَزَكَرِيَّا وَيَحْيَىٰ وَعِيسَىٰ وَإِلْيَاسَ كُلٌّ مِّنَ الصَّالِحِينَ ‎﴿الأنعام: ٨٥﴾‏

اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو بھی۔ یہ سب نیکوکار تھے (قرآن: 6:85)[158]

‏ وَإِنَّ إِلْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ ‎﴿١٢٣﴾‏ إِذْ قَالَ لِقَوْمِهِ أَلَا تَتَّقُونَ ‎﴿١٢٤﴾‏ أَتَدْعُونَ بَعْلًا وَتَذَرُونَ أَحْسَنَ الْخَالِقِينَ ‎﴿١٢٥﴾‏ اللَّهَ رَبَّكُمْ وَرَبَّ آبَائِكُمُ الْأَوَّلِينَ ‎﴿١٢٦﴾‏ فَكَذَّبُوهُ فَإِنَّهُمْ لَمُحْضَرُونَ ‎﴿١٢٧﴾‏ إِلَّا عِبَادَ اللَّهِ الْمُخْلَصِينَ ‎﴿١٢٨﴾‏ وَتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ‎﴿١٢٩﴾‏ سَلَامٌ عَلَىٰ إِلْ يَاسِينَ ‎﴿١٣٠﴾‏ إِنَّا كَذَٰلِكَ نَجْزِي الْمُحْسِنِينَ ‎﴿١٣١﴾‏ إِنَّهُ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِينَ ‎﴿١٣٢﴾ ‎﴿الصافات: ١٢٣﴾‏

 اور الیاسؑ بھی یقیناً مرسلین میں سے تھا (123) یاد کرو جب اس نے اپنی قوم سے کہا تھا کہ "تم لوگ ڈرتے نہیں ہو؟ (124) کیا تم بعل کو پکارتے ہو اور احسن الخالقین کو چھوڑ دیتے ہو (125) اُس اللہ کو جو تمہارا اور تمہارے اگلے پچھلے آبا و اجداد کا رب ہے؟" (126)مگر انہوں نے اسے جھٹلا دیا، سو اب یقیناً وہ سزا کے لیے پیش کیے جانے والے ہیں (127) بجز اُن بندگان خدا کے جن کو خالص کر لیا گیا تھا (128) اور الیاسؑ کا ذکر خیر ہم نے بعد کی نسلوں میں باقی رکھا (129) سلام ہے الیاسؑ پر (130) ہم نیکی کرنے والوں کو ایسی ہی جزا دیتے ہیں (131) واقعی وہ ہمارے مومن بندوں میں سے تھا (قرآن: 37:132)[159]

حضرت الیاس علیہ السلام بھی بنی اسرائیل کے پیغمبروں میں سے تھے-  قرآن کریم میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کا ذکر صرف دو مقامات پر آیا ہے، ایک سورة انعام میں اور دوسرے سورة صافات کی انہی آیتوں میں۔ چونکہ قرآن کریم میں حضرت الیاس (علیہ السلام) کے حالات تفصیل سے مذکور ہیں، اور نہ مستند احادیث میں آپ کے حالات آئے ہیں، اس لئے آپ کے بارے میں کتب تفسیر کے اندر مختلف اقوال اور متفرق روایات ملتی ہیں، جن میں سے بیشتر بنی اسرائیل کی روایات سے ماخوذ ہیں۔ ( مرزا صاحب کے خیال میں اسرائیلی روایت قابل قبول ہیں اگر قرآن کے برخلاف نہ ہوں(مفھوم)

حضرت الیاس (علیہ السلام) اردن کے علاقہ جلعاد میں پیدا ہوئے تھے، اس وقت اسرائیل کے ملک میں جو بادشاہ حکمران تھا اس کا نام بائبل میں اخی اب اور عربی تواریخ وتفاسیر میں اجب یا اخب مذکور ہے۔ اس کی بیوی ایزبل، بعل نامی ایک بت کی پرستار تھی، اور اسی نے اسرائیل میں بعل کے نام پر ایک بڑی قربان گاہ تعمیر کر کے تمام بنو اسرائیل کو بت پرستی کے راستہ پر لگا دیا تھا۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے حکم ہوا کہ وہ اس خطے میں جا کر توحید کی تعلیم دیں اور اسرائیلیوں کو بت پرستی سے روکیں[160]

ان کی قوم نے ان کو جھٹلایا اور چند مخلص بندوں کے سوا کسی نے حضرت الیاس علیہ السلام کی بات نہ مانی، اس لئے آخرت میں انہیں ہولناک انجام سے دوچار ہونا پڑے گا۔ اکثر اسرائیلی روایات کا خلاصہ  یہ ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) نے اسرائیل کے بادشاہ اخی اب اور اس کی رعایا کو بعل نامی بت کی پرستش سے روک کر توحید کی طرف دعوت دی، مگر دو ایک حق پسند افراد کے سوا کسی نے آپ کی بات نہیں مانی، بلکہ آپ کو طرح طرح سے پریشان کرنے کی کوشش کی، یہاں تک کہ اخی اب اور اس کی بیوی ایزبل نے آپ کو شہید کرنے کے منصوبے بنائے۔ آپ نے ایک دور افتادہ غار میں پناہ لی، چناچہ انہیں شدید قحط میں مبتلا کردیا گیا۔ اس کے بعد حضرت الیاس (علیہ السلام) اللہ تعالیٰ کے حکم سے اخی اب سے ملے، اور اس سے کہا کہ یہ عذاب اللہ کی نافرمانی کی وجہ سے ہے، اور اگر تم اب بھی باز آجاؤ تو یہ عذاب دور ہوسکتا ہے۔ میری سچائی کے امتحان کا بھی یہ بہترین موقع ہے، تم کہتے ہو کہ اسرائیل میں تمہارے معبود بعل کے ساڑھے چار سو نبی ہیں، تم ایک دن ان سب کو میرے سامنے جمع کرلو، وہ بعل کے نام پر قربانی پیش کریں گے اور میں اللہ کے نام پر قربانی کروں گا، جس کی قربانی کو آسمانی آگ بھسم کر دے گی اس کا دین سچا ہوگا-  چنانچہ کوہ کرمل کے مقام پر یہ اجتماع ہوا۔ بعل کے جھوٹے نبیوں نے اپنی قربانی پیش کی، مگر کوئی جواب نہ آیا۔ اس کے بعد حضرت الیاس (علیہ السلام) نے اپنی قربانی پیش کی، اس پر آسمان سے آگ نازل ہوئی اور اس نے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی قربانی کو بھسم کردیا، یہ دیکھ کر بہت سے لوگ سجدے میں گر گئے، اور ان پر حق واضح ہوگیا لیکن بعل کے جھوٹے نبی اب بھی نہ مانے، اس لئے حضرت الیاس (علیہ السلام) نے ان کو وادی قیشون میں قتل کرا دیا۔

لیکن اخی اب کی بیوی ایزبل حضرت الیاس (علیہ السلام) پر ایمان لانے کے بجائے الٹی ان کی دشمن ہوگئی، اور اس نے آپ کو قتل کرانے کی تیاریاں شروع کردیں۔ حضرت الیاس (علیہ السلام) یہ سن کر پھر سامریہ سے روپوش ہوگئے - چند سال بعد آپ دوبارہ اسرائیل تشریف لائے اور یہاں پھر اخی اب اور اس کے بیٹے اخزیاہ کو راہ راست پر لانے کی کوشش کی، مگر وہ بدستور اپنی بداعمالیوں میں مبتلا رہے، یہاں تک کہ انہیں بیرونی حملوں اور مہلک بیماریوں کا شکار بنادیا گیا، اس کے بعد اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کو واپس بلا لیا۔

کیا حضرت الیاس (علیہ السلام) حیات ہیں؟ مورخین اور مفسرین کے درمیان یہاں یہ مسئلہ بھی زیر بحث آیا ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) زندہ ہیں یا وفات پاچکے؟ تفسیر مظہری میں علامہ بغوی کے حوالہ سے جو طویل روایت بیان کی گئی ہے اس میں یہ بھی مذکور ہے کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) کو ایک آتشیں گھوڑے پر سوار کر کے آسمان کی طرف اٹھا لیا گیا تھا اور وہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کی طرح زندہ ہیں (مظہری ص ١٤١ ج ٨) علامہ سیوطی نے بھی ابن عساکر اور حاکم وغیرہ کے حوالے سے کئی روایات ایسی نقل کی ہیں جن سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ زندہ ہیں۔ کعب الاحبار سے منقول ہے کہ چار انبیاء (علیہم السلام) اب تک زندہ ہیں، دو زمین میں، حضرت خضر اور حضرت الیاس اور دو آسمان میں حضرت عیسیٰ اور حضرت ادریس (علیہم السلام) (در منثور، ص ٥٨٢، ٦٨٢، ج ٥)

 لیکن حافظ ابن کثیر جیسے محقق علماء نے ان روایات کو صحیح قرار نہیں دیا، وہ ان جیسی روایتوں کے بارے میں لکھتے ہیں :۔ ” یہ ان اسرائیلی روایتوں میں سے ہے جن کی نہ تصدیق کی جاتی ہے نہ تکذیب-

حضرت الیاس (علیہ السلام) کے رفع آسمانی کا نظریہ اسرائیلی روایات ہی سے ماخوذ ہے، اسی وجہ سے یہودیوں میں یہ عقیدہ پیدا ہوا تھا کہ حضرت الیاس (علیہ السلام) دوبارہ زمین پر تشریف لائیں گے، چناچہ جب حضرت یحییٰ (علیہ السلام) مبعوث ہوئے تو انہوں نے ان پر الیاس (علیہ السلام) ہونے کا شبہ ظاہر کیا۔ انجیل یوحنا میں ہے : ” انہوں نے اس سے پوچھا پھر کون ہے ؟ کیا تو ایلیاہ ہے ؟ اس نے کہا میں نہیں ہوں “ (یوحنا۔ ١: ١٢) ایسا معلوم ہوتا ہے کہ کعب الاحبار اور وہب بن منبہ جیسے علماء نے جو اہل کتاب کے علوم کے ماہر تھے، یہی روایتیں مسلمانوں کے سامنے بیان کی ہوں گی، جن سے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی زندگی کا نظریہ بعض مسلمانوں میں پھیل گیا، ورنہ قرآن یا حدیث میں ایسی کوئی دلیل نہیں ہے جس سے حضرت الیاس (علیہ السلام) کی زندگی یا آپ کا آسمان پر اٹھایا جانا ثابت ہوتا ہو- لہٰذا اس معاملے میں سلامتی کی راہ یہ ہے کہ اس میں سکوت اختیار کیا جائے اور اسرائیلی روایات کے سلسلے میں آنحضرت محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی تعلیم پر عمل کیا جائے کہ ” نہ ان کی تصدیق کرو نہ تکذیب “ کیونکہ قرآن کریم کی تفسیر اور عبرت و موعظت کا مقصد اس کے بغیر بھی پوری طرح حاصل ہوجاتا ہے، واللہ سبحانہ وتعالیٰ اعلم (ماخوز از معارف القرآن ، مفتی  محمد شفیع)[161]

This chapter (Malachi 4)[162] states "Elijah the prophet" not "Elijah the Tishbite" for it is in his official, not his personal capacity, that his coming is here predicted. In this sense, John the Baptist was an Elijah in spirit (Luke 1:16, 17), but not the literal Elijah.[163]

This concept was copied (stolen) by Mirza Ghulam Ahmad Qadiani from Judeo-Chrsitian traditions, to declare himself “Jesus in spirit” not actually physical Jesus and Mehdi. However he forgot that such concept is misfit in Islam due to lack of support from Quran and Traditions of Prophet ﷺ .

ترجمہ : اس باب (ملاکی 4) میں کہا گیا ہے کہ "ایلیاہ نبی ہیں" لیکن "ایلیاہ ٹشبائٹ" نہیں کیونکہ یہ اس کے سرکاری طور پر آنے کی پیشین گوئی ہے نہ کہ ذاتی طور پر آنے کی- اس لحاظ سے، جان بپتسمہ دینے والا (John the Baptist/ یحییٰ ) روحانی طور پرایلیاہ (الیاس) تھا (لوقا: 17. 1:16)[164]، لیکن لفظی ایلیاہ نہیں۔

اس تصور کو مرزا غلام احمد قادیانی نے یہودی-مسیحی روایات سے نقل کیا (چوری کیا)، اپنے آپ کو "مثیل مسیح " ظاہر کرنے کے لیے کہ وہ اصل میں جسمانی عیسیٰ اور مہدی نہیں بلکہ مسیح کی مثال ، مسیح اور مہدی کی طرح ہیں۔ تاہم وہ بھول گئے کہ قرآن اور سنت نبوی صلی اللہ علیہ وسلم سے اس قسم کے نظریات کی بنیاد ، جواز  نہ ہونے کی وجہ سے اس طرح کا تصور اسلام میں قابل قبول نہیں ہو سکتا ، مسترد ہے-

یہ ثابت ہوتا ہے کہ:

  1. انبیاء علیہ السلام کا زندہ جسمانی طور پر رفع کوئی نئی ناممکن بات نہیں ایسا پہلی روایات میں موجود ہے-  
  2. پہلی امتوں میں جھوٹے انبیاء سینکڑوں کی تعداد میں پایے جاتے تھے- (یہود ونصاری کی پیروی میں ممکن ہے[165])
  3.  روحانی طور پرکسی نبی کی جگہ دوسرے کی آمد کے نظریہ [ایلیاہ (الیاس) تھا لیکن لفظی ایلیاہ نہیں] سے مثیل مسیح کے نظریہ کا جواز گھڑنا-

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا زندہ (physically) اٹھایا جانا

بَل رَّفَعَهُ اللَّهُ إِلَيْهِ ۚ وَكَانَ اللَّهُ عَزِيزًا حَكِيمًا ‎﴿١٥٨﴾‏

 بلکہ اللہ نے اس (عیسیٰ ابن مریم ) کو اپنی طرف اٹھا لیا ( رَّفَعَهُ) ، اللہ زبردست طاقت رکھنے والا اور حکیم ہے (قرآن :4:158)[166]

وَمَکَرُوْا وَمَکَرَ اللهُ واللهُ خَيْرُ الْمَاکِرِيْنَ [’’پھر (عیسیٰ علیہ السلام کے قتل کے لیے) انہوں نے خفیہ تدبیریں کیں اور اللہ نے بھی (عیسیٰ علیہ السلام کو بچانے کی) خفیہ تدبیریں کیں۔ (یعنی کفار کی تدبیر کا رد کیا) اور اللہ سب خفیہ تدبیر کرنے والوں سے بہترخفیہ تدبیر کرنے والا ہے۔‘‘(آل عمران،3:54][167]

اس آیتِ کریمہ میں اللہ تعالیٰ نے تین چیزیں بیان فرمائیں:

  1. یہود کا مکر کرنا۔
  2. اللہ تعالیٰ کا اُن کے مکر کے خلاف تدبیر فرمانا۔
  3. اللہ تعالیٰ کا بہتر تدبیر فرمانے والا ہونا۔

إِذْ قَالَ اللَّهُ يَا عِيسَىٰ إِنِّي مُتَوَفِّيكَ وَرَافِعُكَ إِلَيَّ وَمُطَهِّرُكَ مِنَ الَّذِينَ كَفَرُوا وَجَاعِلُ الَّذِينَ اتَّبَعُوكَ فَوْقَ الَّذِينَ كَفَرُوا إِلَىٰ يَوْمِ الْقِيَامَةِ ۖ ثُمَّ إِلَيَّ مَرْجِعُكُمْ فَأَحْكُمُ بَيْنَكُمْ فِيمَا كُنتُمْ فِيهِ تَخْتَلِفُونَ ‎﴿٥٥﴾

(وہ اللہ کی خفیہ تدبیر ہی تھی) جب اُس نے کہا کہ، "اے عیسیٰؑ! اب میں تجھے واپس لے لوں گا ( مُتَوَفِّيكَ) اور تجھ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا (رَافِعُكَ ) اور جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے اُن سے (یعنی ان کی معیت سے اور ان کے گندے ماحول میں ان کے ساتھ رہنے سے) تجھے پاک کر دوں گا اور تیری پیروی کرنے والوں کو قیامت تک ان لوگوں پر بالادست رکھوں گا جنہوں نے تیرا انکار کیا ہے پھر تم سب کو آخر میرے پاس آنا ہے، اُس وقت میں اُن باتوں کا فیصلہ کر دوں گا جن میں تمہارے درمیان اختلاف ہوا ہے (قرآن:3:55)[168]

اللہ تعالی کا اپنے کسی  نبی کو زندہ اٹھا لینا کوئی نیئی بات نہیں یہ پہلے بھی ہوا تو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے ممکن کیوں نہیں جبکہ فزیکل (physically) اٹھانے کے لئے قرآن نے ایک ہی لفظ  (رَفَعْنَاهُ ) طور پہاڑ، حضرت ادریس علیہ السلام  ،  حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے لئے استعمال کیا-

مرزا صاحب  کا زور متوفی پر ہے جس کے  مسلم علماء کے معنی میں ان کو اختلاف ہے لیکن (رَفَعْنَاهُ ) نے سب کچھ واضح کر دیا -

رفع عیسیٰ کے متعلق غورکریں کہ اہل "تثلیث نبوت" / 'منکرین ختم نبوت'  کا سارا زور لفظ 'توفی' پر ہوتا ہے جس کے لغوی معنی "پورے کا پورا وصول کرلینا"۔ اس لفظ کو قرآن ہی نے نیند اور موت کے موقع پر قبض روح کے لیے استعمال کیا۔ حالانکہ نیند کی حالت میں پوری روح قبض نہیں ہوتی بلکہ جسم میں بھی ہوتی ہے۔ پھر اگر اس لفظ کو روح اور بدن دونوں کو وصول کرنے کے لیے استعمال کیا جائے تو لغوی لحاظ سے یہ معنی اور بھی زیادہ درست ہے ( رَافِعُکَ اِلَیَّ ) کے الفاظ اس معنی کی تائید مزید کرتے ہیں اور دوسرے مقام پر تو اس سے بھی زیادہ واضح الفاظ میں فرمایا :

وَّ قَوۡلِہِمۡ اِنَّا قَتَلۡنَا الۡمَسِیۡحَ عِیۡسَی ابۡنَ مَرۡیَمَ رَسُوۡلَ اللّٰہِ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ وَ مَا صَلَبُوۡہُ وَ لٰکِنۡ شُبِّہَ لَہُمۡ ؕ وَ اِنَّ الَّذِیۡنَ اخۡتَلَفُوۡا فِیۡہِ لَفِیۡ شَکٍّ مِّنۡہُ ؕ مَا لَہُمۡ بِہٖ مِنۡ عِلۡمٍ اِلَّا اتِّبَاعَ الظَّنِّ ۚ وَ مَا قَتَلُوۡہُ یَقِیۡنًۢا ﴿۱۵۷﴾ۙ

اور یوں کہنے کے باعث کہ ہم نے اللہ کے رسول مسیح عیسیٰ بن مریم کو قتل کر دیا حالانکہ نہ تو انہوں نے اسے قتل کیا نہ سولی پر چڑھایا بلکہ ان کے لئے ( عیسیٰ ) کا شبیہ بنا دیا گیا تھا یقین جانو کہ حضرت عیسیٰ ( علیہ السلام ) کے بارے میں اختلاف کرنے والے ان کے بارے میں شک میں ہیں انہیں اس کا کوئی یقین نہیں بجز تخمینی باتوں پر عمل کرنے کے اتنا یقینی ہے کہ انہوں نے انہیں قتل نہیں کیا (4:157)[169]

اس آیت میں آپ کی زندگی اور رفع پر تین دلائل دیئے گئے ہیں۔

 ١۔ یہ یقینی بات ہے کہ یہود عیسیٰ (علیہ السلام) کو مار نہ سکے۔

 ٢۔ پھر مزید صراحت یہ فرمائی کہ (بَلۡ رَّفَعَہُ اللّٰہُ اِلَیۡہِ ؕ) اللہ تعالیٰ نے اسے اپنی طرف اٹھا لیا[170]

 ٣۔ بعد میں (وَكَان اللّٰهُ عَزِيْزًا حَكِـيْمًا ) (4 ۔ النسآء :158) کہہ کر یہ وضاحت فرما دی کہ یہ رفع روح مع الجسد تھا ورنہ یہاں لفظ (عَزِیْزا) لانے کی کوئی تک نہیں کیونکہ رفع روح تو ہر نیک و بد کا ہوتا ہے اور رفع درجات ہر صالح آدمی کا۔ لہذا لازماً روح مع الجسد کا رفع ہی ہوسکتا ہے۔

 واضح رہے کہ شریعت کے مسلمہ امور کو تسلیم کرنے میں دو چیزیں رکاوٹ کا سبب بنتی ہیں۔ 

(١) فلسفیانہ یا سائنٹیفک نظریات سے مرعوبیت اور

(٢) اتباع ہوائے نفس۔

منکرین معجزات خارق عادت امور کا انکار اور پھر ان کی تاویل اس لیے کرتے ہیں کہ یہ موجودہ زمانہ کے مادی معیاروں پر پوری نہیں اترتیں۔ لہذا سب عقل پرستوں نے حضرت عیسیٰ کے بن باپ پیدائش۔ ان کے دیگر سب معجزات اور آسمانوں پر اٹھائے جانے کی تاویل کر ڈالی۔ البتہ ان میں مرزا غلام احمد قادیانی متنبی منفرد ہیں جو باقی سب معجزات کے تو قائل ہیں۔ البتہ حضرت عیسیٰ کے آسمانوں پر اٹھائے جانے اور پھر قیامت سے پہلے اس دنیا میں آنے کے منکر ہیں وہ اس لیے کہ اس نے خود مسیح موعود ہونے کا دعویٰ کیا، اور اگر یہ رفع عیسیٰ کو تسلیم کرلیتے تو ان کی اپنی بات نہیں بنتی تھی۔ گویا یہ کام اس نے دوسری وجہ یعنی اتباع ہوائے نفس کے تحت سرانجام دیا ہے۔[171]

بعض حضرات نے اس کا ترجمہ موت دینے سے کیا ہے، جیسا کہ بیان القرآن کے خلاصہ میں مذکور ہے، اور یہی ترجمہ مفسر القرآن حضرت عبداللہ بن عباس (رض) سے اسانید صحیحہ کے ساتھ منقول ہے، مگر اس کے ساتھ ہی یہ بھی منقول ہے کہ معنی آیت کے ہیں کہ حق تعالیٰ نے اس وقت جبکہ یہودی آپ کے قتل کے درپے تھے آپ کی تسلی کے لئے دو لفظ ارشاد فرمائے، ایک یہ کہ آپ کی موت ان کے ہاتھوں قتل کی صورت میں نہیں بلکہ طبعی موت کی صورت میں ہوگی۔ دوسرا یہ کہ اس وقت ان لوگوں کے نرغہ سے نجات دینے کی ہم یہ صورت کریں گے کہ آپ کو اپنی طرف اٹھالیں گے، یہی تفسیر حضرت ابن عباس (رض) سے منقول ہے لیکن اس کا ذکر نہیں کیا جاتا- تفسیر در منثور میں حضرت ابن عباس (رض) کی یہ روایت اس طرح منقول ہے : (اخرج اسحاق بن بشر وابن عساکر من طریق جوھر عن الضحاک عن ابن عباس فی قولہ تعالیٰ انی متوفیک ورافعک الی یعنی رافعک ثم متوفیک فی اخرالزمان۔ (درمنثور صفحہ : ٣٦ جلد ٢) |" اسحاق بن بشر اور ابن عساکر نے بروایت جوہر عن الضحاک حضرت ابن عباس (رض) سے آیت انی متوفیک وافعک الی کی تفسیر میں یہ لفظ نقل کئے ہیں کہ میں آپ کو اپنی طرف اٹھا لوں گا، پھر آخر زمانہ میں آپ کو طبعی طور پر وفات دوں گا "-[172] 

اور دوسر نقطۂ کہ کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ، کیا یہ اللہ تعالی کے لئے مشکل ہے جو  رسول اللہ ﷺ کو معراج پر آسمانوں کی سیر پر لے گئے؟عیسیٰ علیہ السلام کا نزول کیوں نہیں کر سکتے؟ یا یہ کہ ان کو ہمیشہ کے لئے حضرت ادریس علیہ السلام کی طرح عالم بالا میں رکھیں. (واللہ اعلم بالصواب )

حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ اٹھاۓ  جانے سے  قادیانی مذھب کی جڑھ ، جو کہ وفات حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کھڑی ہے قرآن سے باطل ثابت ہو گئی-[173]

’’ہمارے دعوی کی جڑھ حضرت عیسٰی کی وفات ہے‘‘

اور جہاں تک مسلمانوں کاتعلق ہے حیات و و فات مسیح علیہ السلام کا عقیدہ جماعت احمدیہ اور دیگر مسلمانوں کے مابین ایک فیصلہ کن اور بنیادی اہمیت کا عقیدہ ہے۔ جب تک یہ مسئلہ پوری طرح حل نہ ہوجائے حضرت مسیح موعود علیہ السلام کے مثیلِ مسیح ہونے کے دعوی کو سنجیدگی سے نہیں لیا جا سکتا۔ اس حوالے سے حضرت مسیح موعود علیہ السلام فرماتے ہیں: ’’ہمارے دعوی کی جڑھ حضرت عیسٰی کی وفات ہے‘‘ (لیکچر سیالکوٹ، روحانی خزائن جلد 20صفحہ246)[174]

’’یاد رہے کہ ہمارے اور ہمارے مخالفوں کے صدق و کذب آزمانے کے لئے حضرت عیسٰی علیہ السلام کی وفات حیات ہے۔ اگر حضرت عیسٰی در حقیقت زندہ ہیں تو ہمارے سب دعوے جھوٹے اور سب دلائل ہیچ ہیں اور اگروہ درحقیقت قرآن کے روسے فوت شدہ ہیں تو ہمارے مخالف باطل پر ہیں ‘‘ (تحفہ گولڑویہ، روحانی خزائن جلد17صفحہ 264حاشیہ)

وَ قُلْ جَآءَ الْحَقُّ وَ زَهَقَ الْبَاطِلُؕ-اِنَّ الْبَاطِلَ كَانَ زَهُوْقًا(۸۱)

اور کہہ دو کہ حق آگیا اور باطل نابود ہوگیا۔ بےشک باطل نابود ہونے والا ہے (قرآن : 17:81)[175]

تفصیل : 

1 : مسئلہ حیات و ممات مسیح علیہ السلام

2 : مسئلہ نزول مسیح علیہ السلام

3 : مسئلہ ولادت امام مہدی علیہ السلام


خلاصہ

’’مسیح مَوعُود‘‘ کی حقیقت

"اہل تثلیث نبوت" حضرات عام طور پر ناواقف مسلمانوں سے کہتے ہیں کہ احادیث میں ’’مسیح موعود ‘‘ کے آنے کی خبر دی گئی ہے ، اور مسیح نبی تھے ، اس لیے ان کے آنے سے ختم نبوت میں کوئی خرابی واقع نہیں ہوتی ، بلکہ ختمِ نبوت بھی برحق اور اس کے باوجود مسیح موعود کا آنا بھی برحق۔

اسی سلسلے میں وہ یہ بھی کہتے ہیں کہ’’ مسیح موعود‘‘ سے مراد عیسیٰ ابن مریم نہیں ہیں۔ ان کا تو انتقال ہو چکا۔ اب جس کے آنے کی خبر نبوت کے خلاف نہیں ہے۔

اس فریب کا پردہ چاک کرنے کے لیے ہم یہاں پورے حوالوں کے ساتھ وہ مستند روایات نقل کیے دیتے ہیں جو اس مسئلے کے متعلق حدیث کی معتبر ترین کتابوں میں پائی جاتی ہیں۔ اِن احادیث کو دیکھ کر ہر شخص خود معلوم کر سکتا ہے کہ حضورؐ نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے کیا فرمایا تھا اور آج اس کو کیا بنایا جا رہا ہے:

حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:

’’قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے ، ضرور اُتریں گے تمہارے درمیان ابن مریم حاکم عادل بن کر ، پھر وہ صلیب کو توڑ ڈالیں گے، اور خنزیر کو ہلاک کر دیں گے۔ اور جنگ کا خاتمہ کر دیں گے (دوسری روایت میں حرت کے بجائے جزیہ کا لفظ ہے، یعنی جزیہ ختم کر دیں گے) اور مال کی وہ کثرت ہو گی کہ اس ک قبول کرنے والا کوئی نہ رہے گا اور (حالت یہ ہو جائے گی کہ لوگوں کے نزدیک خدا کے حضور) ایک سجدہ کر لینا دنیا و مافیہا سے بہتر ہو گا۔ ‘‘ (بخاری کتاب احادیث الانبیاء، باب نزول عیسیٰ ابن مریم۔مسلم ، باب بیان نزول عیسیٰ۔ ترمذی ابواب الفتن، باب فی نزول عیسیٰ۔ؑ مسند احمد، مرویات ابوہریرہؓ) [مزید احادیث ملاحضہ کریں لنک پر[176] ]

’مسیح موعود ‘‘ یا ’’مثیلِ مسیح‘‘ یا ’’ بروزِ مسیح‘‘ کا  خود ساختہ خیالی تصور

ان احادیث کو پڑھنے سے معلوم ہوتا ہے کہ ان میں کسی ’’مسیح موعود ‘‘ یا ’’مثیلِ مسیح‘‘ یا ’’ بروزِ مسیح‘‘ کا سرے سے کوئی ذکر ہی نہیں ہے۔ نہ ان میں اس امر کی کوئی گنجائش ہے کہ کوئی شخص اِس زمانے میں کسی ماں کے پیٹ اور کسی باپ کے نُطفے سے پیدا ہو کر یہ دعویٰ کر دے کہ میں ہی وہ  مسیح ہوں جس کے آنے کی سیّدنا محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے پیشن گوئی فرمائی تھی۔

یہ تمام حدیثیں صاف اور صریح الفاظ میں اُن عیسیٰ علیہ السلام کے نازل ہونے کی خبر دے رہی ہیں جو اب سے دو ہزار سال پہلے باپ کے بغیر حضرت مریمؑ کے بطن سے پیدا ہوئے تھے۔ اس مقام پر یہ بحث چھیڑنا بالکل لا حاصل ہے کہ وہ وفات پا چکے ہیں یا زندہ کہیں موجود ہیں۔ بالفرض وہ وفات ہی پا چکے ہوں تو اللہ انہیں زندہ کر کے اُٹھا لانے پر قادر ہے،  [سورۂ بقرہ کی آیت نمبر ۲۵۹ جس میں اللہ تعالیٰ صاف الفاظ میں فرماتا ہے کہ اس نے اپنے ایک بندے کو۱۰۰ برس تک مُردہ رکھا اور پھر زندہ کر دیا  فَاَمَاتَہُ مِائَۃَعامٍ ثمَّ بَعَثَہٗ۔[177]، حضرت عیسیٰ علیہ السلام مردہ کو زندہ کرتے اذن الله تعالی سے [178]]. وگرنہ یہ بات بھی اللہ کی قدرت سے ہرگز بعید نہیں ہے کہ وہ اپنے کسی بندے کو اپنی کائنات میں کہیں ہزارہا سال تک زندہ رکھے اور جب چاہے دنیا میں واپس لے آئے۔ بہر حال اگر کوئی شخص حدیث کو مانتا ہو تو اُسے یہ ماننا پڑے گا کہ آنے والے سہی عیسیٰ ابن مریمؑ ہوں گے۔ اور اگر کوئی شخص حدیث کو نہ مانتا ہو تو وہ سرے سے کسی آنے والے کی آمد کا قائل ہی نہیں ہو سکتا، کیونکہ آنے والے کی آمد کا عقیدہ احادیث کے سوا کسی اور چیز پر مبنی نہیں ہے۔ لیکن یہ ایک عجیب مذاق ہے کہ آنے والے کی آمد کا عقیدہ تولے لیا جائے احادیث سے اور پھر انہی احادیث کی اس تصریح کو نظر انداز کر دیا جائے کہ وہ آنے والے عیسیٰ ابن مریمؑ ہوں گے نہ کہ کوئی مثیلِ مسیح۔

حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کا دوبارہ نزول اور حثیت و مرتبہ

دوسری بات جو اتنی ہی وضاحت کے ساتھ ان احادیث سے ظاہر ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کا یہ دوبارہ نزول نبی مقرر ہو کر آنے والے شخص کی حیثیت سے نہیں ہو گا۔ نہ ان پر وحی نازل ہو گی، نہ وہ خدا کی طرف سے کوئی نیا پیغام یا نئے احکام لائیں گے ، نہ وہ شریعتِ محمدی میں کوئی اضافہ یا کوئی کمی کریں گے ،  ان کو تجدید دین کے لیے دنیا میں لایا جائے گا، نہ وہ آ کر لوگوں کو اپنے اوپر ایمان لانے کی دعوت دیں گے ، اور نہ وہ اپنے ماننے والوں کو ایک الگ امت بنائیں گے(علماء نے اسے تفصیل سے بیان کیا ہے)۔[179] وہ صرف ایک کار خاص بھیجے جائیں گے ، اور وہ یہ ہو گا کہ دجال کے تنے کا استیصال کر دیں۔ اس غرض کے لیے وہ ایسے طریقے سے نازل ہونگے کہ جن مسلمانوں کے درمیان ان کا نزول ہو گا، انہیں اس امر میں کوئی شک نہ رہے گا کہ یہ عیسیٰ ابن مریم ہی ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشین گوئیوں کے مطابق ٹھیک وقت پر تشریف لائے ہیں۔ وہ آ کر مسلمانوں کی جماعت میں شامل ہو جائیں گے ، جو بھی مسلمانوں کا امام اس وقت ہو گا سی کے پیچھے نماز پڑھیں گے[180] اور جو بھی اس وقت مسلمانوں کا امیر ہو گا اسی کو آگے رکھیں گے ، تاکہ اس شبہ کی کوئی ادنیٰ سی گنجائش بھی نہ رہے کہ وہ اپنی سابق پیغمبرانہ حیثیت کی طرح اب پھر پیغمبری کے فرائض انجام دینے کے لیے واپس آئے ہیں۔ ظاہر ہے کہ کسی جماعت میں اگر خدا کا پیغمبر  موجود ہو تو نہ اس کا کوئی امام دوسرا شخص ہو سکتا ہے اور نہ امیر۔ پس جب وہ مسلمانوں کی جماعت میں آ کر محض ایک فرد کی حیثیت سے شامل ہوں گے تو یہ گویا خود بخود اس امر کا اعلان ہو گا کہ وہ پیغمبر کی حیثیت سے تشریف نہیں لائے ہیں ، اور اس بنا پر ان کی آد سے مہر نبوت کے ٹوٹنے کا قطعاً کوئی سوال پیدا نہ ہو گا۔

ان کا آنا بلا تشبیہ اسی نوعیت کا ہو گا جیسے ایک صدر ریاست کے دور میں کوئی سابق صدر آئے اور وقت کے صدر کی ماتحتی میں مملکت کی کوئی خدمت انجام دے۔ ایک معمولی سمجھ بوجھ کا آدمی بھی یہ بات بخوبی سمجھ سکتا ہے کہ ایک صدر کے دور میں کسی سابق صدر کے محض آ جانے سے آئین نہیں ٹوٹتا۔ البتہ دونوں صورتوں میں آئین کی خلاف ورزی لازم آتی ہے۔ ایک یہ کہ سابق صدر آ کر پھر سے فرائض صدارت سنبھالنے کی کوشش کرے۔ دوسرے یہ کہ کوئی شخص کی سابق صدارت کا بھی انکار کر دے ، کیونکہ یہ ان تمام کاموں کے جواب کو چیلنج کرنے کا ہم معنی ہو گا جو اسکے دور صدارت میں انجام پائے تھے۔ ان دونوں صورتوں میں سے کوئی صورت بھی نہ تو بجائے خود سابق صدر کی آمد آئینی پوزیشن میں کوئی تبدیلی نہیں کر سکتی۔ یہی معاملہ حضرت عیسیٰ کی آمد ثانی کا بھی ہے کہ ان کے محض آجانے سے ختم نبوت نہیں ٹوٹتی۔ البتہ اگر وہ آ کر پھر نبوت کا منصب سنبھال لیں اور فائض نبوت انجام دینے شروع کر دیں ، یا کوئی شخص ان کی سابق نبوت کا بھی انکار کر دے تو اس سے اللہ تعالیٰ کے آئین نبوت کی خلاف وری لازم  آئے گی۔

احادیث نے پوری وضاحت کے ساتھ دونوں صورتوں کا سد باب کر دیا ہے۔ ایک طرف وہ تصریح کرتی ہیں کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد کوئی نبوت نہیں ہے۔ اور دوسری طرف وہ خبر دیتی ہیں کہ عیسی ابن مریم ؑ دوبارہ نازل ہوں گے۔ اس سے صاف ظاہر ہو جاتا ہے کہ ان کی یہ آمد ثانی منصب نبوت کے فرائض انجام دینے کے لیے نہ ہو گی۔

مرزا صاحب اپنے آپ کو مسیح ابن مریم پر ترجیح دیتے ہیں کہ ان کی اپنی نبوت کا جواز پیدا ہو اور یہ اندیشہ پیش کرتے ہیں کہ جب حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام جزیہ ختم کریں گے تو یہ قرآن کے ایک حکم[181] کی منسوخی ہو گی ،  نئی شریعت ہے، شریعت محمدی میں تبدیلی ہے[182] مگر مرزا صاحب بھول جاتے ہیں کہ جب مسیح ابن مریم  صلیب کو توڑیں گے یعنی سب مسیحیوں کو مسلمان کریں گے تو جزیہ کس سے لینا ہوگا؟ جزیہ خود بخود ختم ہو جانے گا جب سب  اہل کتاب اسلام قبول کر لیں گے- 

دوسرا نقطۂ جو مرزا صاحب نظر انداز کر رہے ہیں کہ یہ پیشین گوئی تو حضرت  محمد رسول اللهﷺ فرما رہے ہیں، اس لئے یہ  کوئی  نیا حکم ، نئی شریعت نہیں بلکہ  محمد رسول اللهﷺ کی پشیئن گوئی پر عمل ہو رہا ہے، نبوت کی مہر کیسے ٹوٹ جا ئے گی؟ کون سی نئی شریعت لاگو ہو گئی؟ یہ شریعت محمدی کا حصہ ہے کہ عیسی بن مریم صلیب توڑ کر جزیہ ختم کریں گے- شریعت محمدی بھی قائم ہے اور قرآن کا حکم بھی قائم ہے کوئی  نئی  وحی بھی نہیں آرہی۔ جبکہ مرزا صاحب کو اپنے لیے وحی حاصل کرکہ مجازیم بروزی نبوت کا شوق پورا کرنا ہے جو شریعت محمدی اور ختم نبوت کی مہر توڑنے کے بغیر ممکن نہیں کیونکہ قرآن اور شریعت محمدی میں کسی بھی قسم کی نبوت یا رسالت (حقیقی ، مجازی ، بروزی ، ظلی، مثیل وغیرہ وغیرہ ) کی کوئی گنجائش نہیں- جس طرح سے اللہ اور  رسول اللہ ﷺ ںے فرمایا وحی حق ہے اور اسی پر عمل ہو گا اس کو نظر انداز کرنا دھوکہ، بدعة ، ضلالہ ، گمراہی ہے-

صوفیانہ متنازعہ اصطلاحات فنا فی الرسول وغیرہ بدعة ہیں قرآن و سنت پر قائم رہنا چاہیے- الله تعالی سے رابطہ کوئی مشکل نہیں وہ شاہ رگ سے بھی زیادہ قریب ہے- حضرت علی (رضی الله )  سے منصوب روایت کہ جب الله تعالی سے کلام کرنا ہو تو صَلَاة‎  ادا کرو اور جب اللہ کی بات سننا ہو تو قرآن تلاوت کرو- قرآن  رسول اللہ ﷺ کا زندہ معجزہ ہے جس میں ہربات موجود ہے- جس کو اس میں شک ہے وہ اپنے ایمان کی خبر لے-

اسی طرح ان کی آمد سے مسلمانوں کے اندر کفر و ایمان کا بھی کوئی نیا سوال پیدا نہ ہو گا۔ ان کی سابقہ نبوت پر تو آج بھی اگر کوئی ایمان نہ لائے تو کافر ہو جائے۔ محمد صلی اللہ علیہ وسلم خود ان کی اس نبوت پر ایمان رکھتے تھے اور آپ کی ساری امت ابتداء سے ان کی امت ہے۔ یہی حیثیت اس وقت بھی ہو گی۔ مسلمان کسی تازہ نبوت پر ایمان نہ لائیں گے بلکہ عیسی ابن مریم علیہ السلام کی سابقہ نبوت پر ہی ایمان رکھیں گے جس طرح آج رکھتے ہیں۔ یہ چیز نہ آج ختم نبوت کے خلاف ہے نہ اس وقت ہو گی ۔

دجال

آخری بات جو ان احادیث سے ، اور بکثرت دوسری احادیث سے بھی معلوم ہوتی ہے وہ یہ ہے کہ دجال ، جس کے فتنہ عظیم کا استیصال کرنے کے لیے حضرت عیسی ابن مریم علیہ السلام کو بھیجا جائے گا، یہودیوں میں سے ہو گا اور اپنے آپ کو ’’مسیح‘‘ کی حیثیت سے پیش کرے گا۔ اس معاملے کی حقیقت کوئی شخص نہیں سمجھ سکتا جب تک وہ یہودیوں کی تاریخ اور ان کے مذہبی تصورات سے واقف نہ ہو۔ حضرت سلیمان علیہ السلام کی وفات جب نبی اسرائیل پے درپے تنزل کی حالت میں مبتلا ہوتے چلے  گئے ، یہاں تک کہ آخر کار بابل اور اسیریا کی سلطنتوں نے ان کو غلام بنا کر زمین میں تتر بتر کر دیا، تو انبیائے بنی اسرائیل نے ان کو خوشخبری دینی شروع کی  کہ خدا کی طرف سے ایک ’’مسیح ‘‘ آنے والا ہے جو ان کو اس ذلت سے نجات دلائے گا۔ ان پیشینگوئیوں کی بنا پر یہودی ایک مسیح کی آمد کے متوقع تھے جو بادشاہ ہو، لڑ کر ملک فتح کرے ، بی اسرائیل کو ملک ملک سے اکر فلسطین میں جمع کر دے ، اور ان کی ایک زبردست قائم کر دے۔ لیکن ان کی ان توقعات کے خلاف جب حضرت عیسیٰ ابن مریم علیہ السلام خدا کی طرف سے مسیح ہو کر آئے اور کوئی لشکر ساتھ نہ لائے تو یہودیوں نے ان کی مسیحیت تسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور انہیں ہلاک کرنے کے درپے ہو گئے۔ اس وقت سے آج تک دنیا بھر کے یہودی اس مسیح موعود (Promised Messiah[183] ) کے منتظر ہیں جس کے آنے کی خوشخبریاں ان کو دی گئی تھیں۔ ان کا لٹریچر اس آنے والے دور کے سہانے خوابوں سے بھر ا پڑا ہے۔ تلمود: اور ربیوں کے ادبیات میں اس کا جو نقشہ کھینچا گیا ہے۔ اس کی خیالی لذت کے سہارے صدیوں سے یہودی جی رہے ہیں اور یہ امید لئے بیٹھے ہیں کہ یہ مسیح موعود ایک زبردست جنگی و سیاسی لیڈر ہو گا جو دریائے نیل سے دریائے فرات تک کا علاقہ (جسے یہودی اپنی میراث کا ملک سمجھتے ہیں ) انہیں واپس دلائے گا، اور دنیا کے گوشے گوشے سے یہودیوں کو لا کراس ملک میں پھر سے جمع کر دے گا۔

اب اگر کوئی شخص مشرقی وسطیٰ کے حالات پر ایک نگاہ ڈالے اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی پیشینگوئیوں کے پس منظر میں ان کو دیکھے تو وہ فوراً یہ محسوس کرے گا کہ اس دجال اکبر کے ظہور کے لیے اسٹیج بالکل تیار ہو چکا ہے جو حضور کی دی ہوئی خبروں کے مطابق یہودیوں کا ’’مسیح موعود‘‘ بن کر اٹھے گا۔ فلسطین کے بڑے حصے سے مسلمان بے دخل کیے جا چکے ہیں اور وہاں اسرائیل کے نام سے ایک یہودی ریاست قائم کر دی گئی ہے۔ اس ریاست میں دنیا بھر کے یہودی کھیچ کھیچ کر چلے آ رہے ہیں۔ امریکہ ، برطانیہ اور فرانس نے اس کو ایک زبردست جنگی طاقت بنا دیا ہے۔ یہودی سرمائے کی بے پایاں امداد سے یہودی سائنس داں اور ماہرین فنون اس کو روز افزوں ترقی دیتے چلے جا رہے ہیں ،اور اس کی یہ طاقت گردو پیش کی مسلمان قوموں کے لیے ایک خطرہ عظیم بن گئی ہے۔ اس ریاست کے لیڈروں نے اپنی اس تمنا کو کچھ چھپا کر نہیں رکھا ہے کہ وہ اپنی ’’میراث کا ملک‘‘ حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ مستقبل کی یہودی سلطنت کا جو نقشہ وہ ایک  مدت سے کھلم کھلا شائع کر رہے ہیں اسے مقابل کے صفحے پر ملاحظہ فرمایئے۔ اس سے ظاہر ہو کہ وہ پورا شام، پورا لبنان پورا اردن اور تقریباً سارا عراق لینے کے علاوہ ترکی سے اسکندرون، مصر سے سینا اور ڈیلٹا کا علاقہ اور سعودی عرب سے بالائی حجاز و نجد کا علاقہ لینا چاہتے ہیں جس میں مدینہ منورہ بھی شامل ہے۔ ان حالات کو دیکھتے ہوئے صاف محسوس ہوتا ہے کہ آئندہ کسی عالمگیر جنگ کی ہڑبونگ سے فائدہ اٹھا کر وہ ان علاقوں پر قبضہ کرنے کی کوشش کریں گے اور ٹھیک اس موقع پر وہ دجال اکبر ان کا مسیح موعود بن کر اٹھے گا جس کے ظہور کی خبر دینے ہی پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اکتفا نہیں فرمایا ہے بلکہ یہ بھی بتا دیا ہے کہ اس زمانے میں مسلمانوں پر مصائب کے ایسے پہاڑ ٹوٹیں گے کہ ایک دن ایک سال کے برابر محسوس ہوتا ہو گا۔ اسی بناء پر آپ فتنۂ دجال سے خود بھی خدا کی پناہ مانگتے تھے اور اپنی امت کو بھی پناہ مانگنے کی تلقین فرماتے تھے۔

مسیح دجال سے مقابلہ  مثیل مسیح یا اصل مسیح

مسیح دجال کا مقابلہ کرنے کے لیے اللہ تعالیٰ کسی مثیل مسیح کو نہیں بلکہ اس اصل مسیح کو نازل فرمائے گا جسے دوہزار برس پہلے یہودیوں نے ماننے سے انکار کر دیا تھا اور جسے وہ اپنی دانست میں صلیب پر چڑھا کر ٹھکانے لگا چکے تھے۔ اس حقیقی مسیح کے نزول کی جگہ ہندوستان یا افریقہ یا امریکہ میں نہیں بلکہ دمشق میں ہو گی کیونکہ یہی مقام اس وقت عین محاذ جنگ پر ہو گا۔ اسرائیل کی سرحد سے دمشق بمشکل 40/50 میل کے فاصلے پر ہے[184]۔ پہلے والی احادیث ریفرنس ملاحضہ[185] کریں تو آپ کو یہ سمجھنے میں کوئی زحمت نہ ہو گی کہ مسیح دجال ۷۰ ہزار یہودیوں کا لشکر لے کر شام میں گھسے گا اور دمشق کے سامنے جا پہنچے گا۔ ٹھیک اس ناک موقع پر دمشق کے مشرقی حصے میں ایک سفید مینار کے قریب حضرت عیسیٰؑ ابن مریم صبح دم نازل ہوں گے اور نماز فجر کے بعد مسلمانوں کو اس کے مقابلے پر لے کر نکلیں گے۔ ان کے حملے سے دجال پسپا ہو کر افیق کی گھاٹی سے (ملاحظہ ہو حدیث نمبر ۲۱) اسرائیل کی طرف پلتے گا اور وہ اس کا تعاقب کریں گے۔ آخر کا لُد کے ہوائی اڈے[186] پر پہنچ کر وہ ان کے ہاتھوں مارا جائے گا (حدیث نمبر ۱۰،۱۴،۱۵) اس کے بعد یہودی چن چن کر قتل کیے جائیں گے اور ملت یہود کا خاتمہ ہو جائے گا (حدیث نمبر ۹،۱۵،۲۱) عیسائیت بھی حضرت عیسیٰؑ کی طرف سے اظہار حقیقت ہو جانے کے بعد ختم ہو جائے گی۔(حدیث نمبر ۱،۲،۴،۶) اور تمام ملیتں ایک ہی ملت مسلمہ میں ضم ہو جائیں گی (حدیث نمبر۶۔۱۵)

یہ ہے وہ حقیقت جو کسی اشتباہ بغیر احادیث میں صاف نظر آتی ہے۔ اس کے بعد امر میں کیا شک باقی رہ جاتا ہے کہ ’’مسیح موعود‘‘ کے نام سے جو کاروبار ہمارے ملک میں پھیلایا گیا ہے وہ ایک جعل سازی سے بڑھ کر کچھ نہیں ہے۔

 ابن مریم بننے کا مضحکه انگیز طریقہ  

اس جعل سازی کا سب سے زیادہ مضحکہ انگیز پہلو یہ ہے کہ جو صاحب اپنے آپ کو ان پیشن گوئیوں کا مصداق قرار دیتے ہیں انہوں نے خود ابن مریم بننے کے لیے یہ دلچسپ تاول فرمائی ہے :

’’اس نے (یعنی اللہ تعالیٰ نے ) براہینِ احمدیہ کے تیسرے حصے میں میرا نام مریم رکھا۔ پھر جیسا کہ براہین احمدیہ سے ظاہر ہے ، دو برس تک صفت مریمیت میں میں نے پرورش پائی۔۔۔ پھر۔۔۔  مریم کی طرح عیسی کی روح مجھ سے نفخ کی گئی اور استعارے کے رنگ میں مجھے حاملہ ٹھہرایا گیا،اور آخر کئی مہینے کے بعد جو دس مہینے سے زیادہ نہیں ، بذریعہ اس الہام کے جو سب سے آخر براہین احمدیہ کے حصہ چہارم میں درج ہے ، مجھے مریم سے عیسیٰ بنا دیا گیا۔ پس اس طور سے میں ابن مریم ٹھہرا۔‘‘ (کشتی نوح۔ ص ۸۷،۸۸،۸۹)

یعنی پہلے مریم بنے ، پھر خود ہی حاملہ ہوئے ، پھر اپنے پیٹ سے آپ عیسیٰ ابن مریم بن کر تولد ہو گئے ! اس کے بعد یہ مشکل پی آئی کہ عیسی ابن مریم کا نزول تو احادیث کی رو س دمشق میں ہوتا تھا جو کئی ہزار برس سے شام کا ایک مشہور و معروف مقام ہے اور آج بھی دنیا کے نقشے پر اسی نام سے موجود ہے۔ یہ مشکل ایک دوسری پر لطف تاول سے یوں رفع کی گئی:

دمشق کی تعبیر

’’واضح ہو کہ دمشق کے لفظ کی تعبیر میں میرے پر منجانب اللہ یہ ظاہر کیا گیا ہے کہ اس جگہ ایسے قصبے کا نام دمشق رکھا گیا ہے جس میں ایسے لوگ رہتے ہیں جو یزیدی ابطع اور یزید پلید کی عادات اور خیالات کے پیرو ہیں۔۔۔  یہ قصبہ قا دیان بوجہ اس کے کہ اکثر یزیدی الطبع لوگ اس میں سکونت رکھتے ہیں دمشق سے ایک مشابہت اور مناسبت رکھتا ہے‘‘۔ (حاشیۂ ازالۂ اوہام ص ۶۳۔۷۳)

پھر ایک اور الجھن یہ باقی رہ گئی کہ احادیث کی روسے ابن مریم کو ایک سفید منارہ کے پاس اترنا تھا۔ چنانچہ اس کا حل یہ نکالا گیا کہ مسیح صاحب نے آ کر اپنا منارہ خود بنوا  لیا۔ اب اسے کون دیکھتا ہے کہ احادیث کی رو سے منارہ وہاں ابن مریم ؑ کے نزول سے پہلے موجود ہونا چاہئے تھا، اور یہاں وہ مسیح موعود صاحب کی تشریف آوری کے بعد تعمیر کیا گیا۔

لُد کے دروازے پر دجال کا قتل

آخری اور زبردست الجھن یہ تھی کہ احادیث کی رو سے تو عیسی ابن مریم کو لُد کے دروازے پر دجال کو قتل کرنا تھا۔ اس مشکل کو رفع کرنے کی فکر میں پہلے طرح طرح کی تاویلیں کی گئیں۔ کبھی تسلیم کیا گیا کہ لُدبیت المقدس کے دیہات میں سے ایک گاؤں کا نام ہے (ازالہ اوہام، شائع کردہ انجمن احمدیہ لاہور، تبقیطع خورد، صفحہ ۲۲۰) پھر کہا گیا کہ ’’لُد ان لوگوں کو کہتے ہیں جو بے جا جھگڑا کرنے والے ہوں۔۔۔  جب دجال کے بیجا جھگڑے کمال تک پہنچ جائیں گے تب مسیح موعود ظہور کرے گا اور اس کے تمام جھگڑوں کا خاتمہ کر دے گا ‘‘ (ازالۂ اوہام ، صفحہ ۷۳۰) لیکن جب اس سے بھی بات نہ بنی تو صاف کہہ دیا گیا کہ لُد سے مراد لدھیانہ ہے اور اس کے دروازے پر دجال کے قتل سے مراد ہے کہ اشرار کی مخالفت کے باوجود وہیں سب سے پہلے مرزا صاحب کے ہاتھ پر بیعت ہوئی (الہدیٰ ص ۹۱)

ان تاویلات کو جو شخص بھی کھلی آنکھوں سے دیکھے گا اسے معلوم ہو جائے گا کہ یہ جھوٹے بہروپ (false impersonation) کا صریح ارتکاب ہے جو علی الاعلان کیا گیا ہے[187]

بانی مذھب "تثلیث نبوت" (اہل ثلاثة) مرزا صاحب کے عجیب و غریب تصورات  

"نبوت کی تمام کھڑکیاں بند کی گئی مگر ایک کھڑکی سیرت صدیقی کی کھلی ہے یعنی فنا فی الرسول[188] (ان کا اپنا وجود اپنا نہ رہا[189]) ----

فرق درمیان یہ ہے کہ ہمارے نبی ﷺ کے بعد قیامت تک کوئی نبی ایسا نہیں جس پر جدید شریعت نازل ہو... تو وہ بغیر مہر توڑے نبی کہلانے گا کیونکہ وہ  محمد رسول اللهﷺ ہے گو ظلی طور پر ----

کیونکہ یہ محمد  ثانی اسی  محمد رسول اللهﷺ کی تصویر ہے اور اسی کا نام ہے ---

اس واسطے کو ملحوز رکھ کر اور اس میں ہو کر اور اس کے نام  محمد رسول اللهﷺ اور احمد سے مسمی ہو کر میں  رسول اللہ ﷺ بھی ہوں اور نبی بھی ہوں ---

اگر کوئی شخص اس وحی الہی پر ناراض ہو کہ کیوں خدا تعالی ںے میرا نام نبی اور رسول اللہ ﷺ رکھا ہے تو یہ اس کی حماقت ہے کیونکہ میرے نبی اور  رسول اللہ ﷺ ہونے سے مہر نہیں ٹوٹتی --

توہین رسالت

میں وہ آئینه ہوں جس میں محمدی شکل اورمحمدی نبوت کامل انعکاس ہے-- اگر میں کوئی علحدہ شخص نبوت کا دعوی کرنے والا ہوتا تو خدا تعالی میرا نام محمد اور احمد اور مصطفیٰ مجتبیٰ نہ رکھتا اور نہ خاتم الانبیا کی طرح مجھے خاتم الاولیا کا خطاب مجھے دیا جاتا بلکہ میں کسی علیحدہ نام سے آتا لیکن خدا تعالی ںے ہر بات میں مجھے وجود محمدی میں داخل کر دیا یھاں تک بھی نہ چآہا کہ میرا کوئی الگ نام ہو یا کوئی الگ قبر ہو کیونکہ ضل اپنے اصل سے الگ ہو ہی نہیں سکتا --- (استغفراللہ ، استغفراللہ، استغفراللہ)

یہ ضروری تھا کہ موسوی مسیح کے مقابل محمدی مسیح بھی شان نبوت کے ساتھ آوے ---- خدا تعالی ںے مجھے شریعت محمدی کے احیاء کے لئے اس صدی میں خاتم الخلفاء کے نام سے مبعوث فرمایا[190]  (تفسیر مسیح موعود، سورہ الاحزاب، صفحہ٧ ،٣٥٦)[191]

 حضرت امام مہدی اور قرآن

اسلامی  روایت  کے مطابق آخر زمانے میں ظاہر ہونے والی شخصیت "مہدی" ہیں جو قیامت سے قبل دنیا میں آئیں گے اور دنیا کو ظلم سے نجات دلائیں گے، ناانصافی اور جبر کا خاتمہ کر دیں گے- حضرت مہدی امت میں ایک مجدد کامل اور ایک عادل کا درجہ رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ انبیا کرام علیہم السلام میں سے نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالی کے مقرب و برگزیدہ بندے ہوں گے۔  قرآن میں مہدی کا ذکر نہیں-

اُمتِ مسلمہ کے اجماعی اور متفق علیہ عقائد میں سے ہے کہ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور اخیر زمانہ میں حق ہے اس لیے اس پر اعتقاد رکھنا ضروری ہے۔ امام مہدی علیہ السلام کا ظہور احادیثِ صحیحہ متواترہ اور اجماعِ اُمت سے ثابت ہے، اگرچہ ان کے ظہور کے حوالے سے بعض تفصیلات اخبارِ احاد سے ثابت ہیں۔ عہدِ صحابہ و تابعین سے لے کر آج تک امام مہدی علیہ السلام کے ظہور کو شرق و غرب کے ہر طبقۂ فکر کے علماء و محققین، ہر قرن اور ہر زمانہ میں نقل کرتے چلے آئے ہیں جن میں ان تمام احادیث اور آثارِ صحابہ کو جمع کیا گیا ہے۔[192] اس سے یہ بات اظہر من الشمس ہو جاتی ہے کہ آمدِ امام مہدی علیہ السلام کا عقیدہ خالصتاً اسلامی عقیدہ ہے۔ کچھ علماء اس سے اتفاق نہیں کرتے-

مسیح اور مہدی

اہل "تثلیث نبوت" (اہل ثلاثةٌ/ قادیانیت) کے بانی، حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور،امام مہدی کو ایک شخصیت سمجھتے ہیں مگر اس کی قرآن ومستند احادیث[193] سے کوئی دلیل نہیں( ضعیف و منکر احادیث[194] عقائد کی بنیاد نہیں بن سکتیں)-لیکن قادیانی نہیں تسلیم کرتے اور 34 حوالہ جات پیش کرتے ہیں کہ یہ مستند بات ہے[195]. اگر دونوں طرف سے مستند احادیث پر زور ہے تو فیصلہ صرف قرآن ، الفرقان کر سکتا ہے- اور قرآن میں کسی مہدی یا امام یا مجدد کا ذکر نہیں پایا جاتا- اس طرح سے دونوں بیان مسترد قرار پاتے ہیں اور یہ کہا جاسکتا ہے کہ مہدی ایک داستان (myth) ہے جیسا کہ ممتاز محققین علماء کا نظریہ ہے- اور  رسول اللہ ﷺ سے ماخوز اصول حدیث[196] کے مطابق بھی قرآن سے مطابقت نہ رکھنے والی احادیث ضعیف قرار پا تی ہیں- اس طرح سے  مرزا غلام احمد قددیانی کے دعووں کو مسترد قرار دیا جا سکتا ہے- اور ان کی وحی اور نبوت بھی کذب ہے جو کمزور دلائل کی بنیادوں پر کھڑی ہے-

اس صورت میں صرف حضرت عیسیٰ علیہ السلام رہ جاتے ہیں، جس کا ذکر قرآن و احادیث میں موجود ہے جس پر بحث کی گنجائش ہے- ان کا زندہ رفع بھی قرآن سے ثابت ہے، جو قادنیت کی جڑھ کو اکھاڑ[197] دیتا ہے.

تفصیل ملاحضہ فرمائیں :

  1. مہدی کی حقیقت[198] .....
  2. حیات،وفات مسیح -منکرین ختم نبوت کی جڑ کا خاتمہ
  3.  حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور تثلیث نبوت / منکرین
  4. لاالمھدی الا عیسٰی حدیث میں قادیانی دجل

7."تثلیث نبوت" نظریہ[199] کی حقیقت: کیا  دنیا میں پیدا ہونے والا شخص بیک وقت مسیح موعود [حضرت عیسیٰ علیہ السلام (مثیل عیسیٰ )] امام مہدی اور نبی ہو سکتا ہے اس کی قران سے دلیل؟

یہ عجیب و غریب نظریہ ہے جس کی اسلام میں کوئی گنجائش نہیں، اس قسم کی داستانیں (myths) ہندو ، مصری. رومن، یونانی قدیم بت پرست مذاھب میں ملتی ہیں جو ادھر سے ادھار حاصل کی گیئں-

مرزا صاحب کی پیشین گویاں

مرزا صاحب نے اپنی نبوت کی سچائی کی بنیاد پیشین گویوں پر رکھی، کیونکہ بنی اسرائیل کے نبی پیشین گویاں کرکہ نبی کہلاتے تھے-  پیشین گوئیاں، علم غیب، الله تعالی کی طرف سے دیا جاتا ہے، اسے ایک طرح سے معجزہ کہہ سکتے ہیں-  اللہ نے یہ سلسلہ بند فرمادیا:

وَمَا مَنَعَنَا أَن نُّرْسِلَ بِالْآيَاتِ إِلَّا أَن كَذَّبَ بِهَا الْأَوَّلُونَ ۚ وَآتَيْنَا ثَمُودَ النَّاقَةَ مُبْصِرَةً فَظَلَمُوا بِهَا ۚ وَمَا نُرْسِلُ بِالْآيَاتِ إِلَّا تَخْوِيفًا﴿٥٩

"اور ہم نے نشانیاں (فرمائشی معجزات) بھیجنا اس لئے بند کردیں کہ اگلے لوگوں نے ان کی تکذیب کی اور ہم نے ثمود کو اونٹنی دی جو کھلی نشانی (معجزہ) تھی تو انہوں نے اس کے ساتھ ظلم کیا اور ہم ایسے معجزات کو صرف (انجام بد سے) ڈرانے کے لئے بھیجا کرتے ہیں“(17:59)[200]

“ہم نے موسیٰ کو نو معجزے بالکل صاف صاف عطا فرمائے، تو خود ہی بنی اسرائیل سے پوچھ لے کہ جب وه ان کے پاس پہنچے تو فرعون بوﻻ کہ اے موسیٰ میرے خیال میں تو تجھ پر جادو کردیا گیا ہے”(17:101)[201]

“اور ان لوگوں نے قسموں میں بڑا زور لگا کر اللہ تعالیٰ کی قسم کھائی کہ اگر ان کے پاس کوئی نشانی آ جائے تو وه ضرور ہی اس پر ایمان لے آئیں گے، آپ کہہ دیجئے کہ نشانیاں سب اللہ کے قبضے میں ہیں اور تم کو اس کی کیا خبر کہ وه نشانیاں جس وقت آجائیں گی یہ لوگ تب بھی ایمان نہ ﻻئیں گے”(6:109)

مرزا صاحب کا یہ معجزانہ پیشیں گویوں والا دعوی بھی خلاف قرآن ہے-

اس پر بہت اختلافات ہیں کیونکہ جب کوئی پیشین گوئی پوری نہیں ہوتی تو مرزا صاحب تاویلات دیتے مگر مخالفین ان کو قبول نہ کرتے- تفصیل ان لنکس پر ملاحضہ فرمائیں- یھاں صرف نمبر 4 کا خلاصہ:

  1. مرزا صاحب کی پیش گوئیاں
  2. مرزا صاحب کی غلط پیشگوئیاں
  3. پیشگوئیوں کے متعلق چند ایک خود ساختہ معیار اور اخبار انبیاء پر اعتراضات کا جواب
  4. مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ: کذب مرزا صاحب پر مشہور دلیل[202]

 رسول اللہ ﷺ کا زندہ  معجزہ قرآن مجید

حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ ، ‏‏‏‏‏‏حَدَّثَنَا اللَّيْثُ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ سَعِيدٍ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِيهِ ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، ‏‏‏‏‏‏قَالَ:‏‏‏‏ مَا مِنَ الْأَنْبِيَاءِ نَبِيٌّ إِلَّا أُعْطِيَ مِنَ الْآيَاتِ مَا مِثْلُهُ، ‏‏‏‏‏‏أُومِنَ أَوْ آمَنَ عَلَيْهِ الْبَشَرُ، ‏‏‏‏‏‏وَإِنَّمَا كَانَ الَّذِي أُوتِيتُ وَحْيًا أَوْحَاهُ اللَّهُ إِلَيَّ، ‏‏‏‏‏‏فَأَرْجُو أَنِّي أَكْثَرُهُمْ تَابِعًا يَوْمَ الْقِيَامَةِ. [صحیح بخاری: حدیث نمبر: 7274]

ترجمہ: ہم سے عبدالعزیز بن عبداللہ اویسی نے بیان کیا، کہا ہم سے لیث بن سعد نے بیان کیا، ان سے سعید بن ابی سعید نے، ان سے ان کے والد نے اور ان سے ابوہریرہ ؓ نے کہ  نبی کریم  ﷺ  نے فرمایا   انبیاء میں سے کوئی نبی ایسا نہیں جن کو کچھ نشانیاں  (یعنی معجزات)  نہ دئیے گئے ہوں جن کے مطابق ان پر ایمان لایا گیا  (آپ  ﷺ  نے فرمایا کہ)  انسان ایمان لائے اور مجھے جو بڑا معجزہ دیا گیا وہ قرآن مجید ہے جو اللہ نے میری طرف بھیجا، پس میں امید کرتا ہوں کہ قیامت کے دن شمار میں تمام انبیاء سے زیادہ پیروی کرنے والے میرے ہوں گے۔  [صحیح بخاری: حدیث:7274][203]

مولوی ثناء اللہ کے ساتھ آخری فیصلہ: کذب مرزا صاحب پر مشہور دلیل

 مولانا ابو الوفاء ثناء اللہ امرتسری، مرزا صاحب کے خلاف پر جوش نمایاں عالم تھے- ان کی تنقید اور مخالفت سے بلآخر تنگ آ کر مرزا صاحب نے  ایک سال کے اندر قدرتی آفت یا بیماری سے  مولانا ثناء اللہ صاحب امرتسری یا اپنی موت کی الله تعالی سے دعا کی دونوں میں جو جھوٹا کذاب ہے وہ مر جایے- مرزا صاحب ںےاس کو اپنے دعوی نبوت کے سچ یا جھوٹ کے فیصلہ کا میعار قرار دیا  اسے پرنٹ کرکہ تشہر کر دی[204]- اس کے اہم نقاط :

بخلاف اس کے اس اشتہار میں صاف شرط توبہ موجود ہے۔ وہ بھی دونوں فریقوں کے لیے نہیں بلکہ صرف مولوی ثناء اللہ کے متعلق: ’’ اے خدا میں تیری جناب میں دعا کرتا ہوں کہ میری زندگی میں ہی ان( مولانا ثناء اللہ امرتسری)  کو نابود کر بجز اس صورت کے وہ کھلے طور پر میرے روُ بُرو توبہ کرے۔‘‘ ( اشتہار مرزا مورخہ ۵؍ مئی ۱۹۰٦ء)

پس اس کو مباہلہ نہیں کہا جاسکتا۔ بفرضِ محال مباہلہ میں شرطِ توبہ بھی ہو، تو بھی وہ دونوں فریقوں کے متعلق ہونی چاہیے نہ کہ صرف ایک فریق کے متعلق اس اشتہار میں بطور جملہ خبریہ بار بار لکھا گیا ہے کہ:

۱۔ ’’ اگر میں کذاب ہوں تو میں آپ کی زندگی میں ہلاک ہو جاؤں گا۔‘‘

۲۔ ’’ کذاب کی بہت عمر نہیں ہوتی۔‘‘

۳۔ ’’ وہ اپنے دشمنوں کی زندگی میں ہلاک ہو جاتا ہے۔‘‘

٤۔ ’’ اگر میں (مرزا ) مسیح موعود ہوں تو آپ مکذبین کی سزا سے نہیں بچیں گے۔‘‘

۵۔ ’’ اگر طاعون، ہیضہ وغیرہ آپ پر میری زندگی ہی میں وارد نہ ہوئیں تو میں خدا کی طرف سے نہیں۔‘‘

پس یہ ایک دعا تھی جس کے متعلق دعا کرتے وقت بخیال مرزا ’’ وحی والہام کی بنا پر نہیں تھی‘‘ مگر دوسری جگہ انہوں نے خود تصریح کردی ہے کہ ’’ یہ دراصل ہماری طرف سے نہیں بلکہ خدا ہی کی طرف سے اس کی بنیاد رکھی گئی ہے۔‘‘[205]

مختصر یہ کہ مرزا صاحب نے آخری فیصلہ میں کاذب کی موت صادق کے سامنے واقع ہونا لکھی تھی اور ہیضہ، طاعون وغیرہ مہلک امراض سے لکھی تھی۔ جس کا نتیجہ یہ ہوا کہ مولانا ثناء اللہ صاحب جو اللہ  کی نظر میں صادق تھے بفضلہ تعالیٰ ١٩٤٨تک زندہ رہے [206]اور مرزا صاحب مؤرخہ ۲۶؍ مئی ۱۹۰۸ء بروز منگل قریباً ساڑھے دس بجے دن کے بہ مرض ہیضہ اس طرح کہ ’’ ایک بڑا دست آیا اور نبض بالکل بند ہوگئی۔‘‘[207]

واضح رہے کہ مرزا صاحب کے خسر نواب میر ناصر کا بیان ہے کہ وفات سے ایک یوم قبل جب میں مرزا صاحب سے ملنے گیا تو آپ نے فرمایا کہ ’’ میر صاحب مجھ کو وبائی ہیضہ ہوگیا ہے[208]، اپنے افتراؤں کی سزا پانے کو حاکم حقیقی کے دربار میں بلائے گئے۔

جہاد

اسلام پر امن دین ہے, جس میں دہشت گردی کی کوئی گنجائش نہیں- مگر ہر طرح سے قلم ، کتاب ،موبائل، کپمپوٹر،  ہتھیار سے جہاد[209] کی تیاری رکھیں جو امن کی ظامن ہے[210]- جہاد اسلام کا جزو لازم ہے، امیر کے حکم سے جہاد کیا جایے نہ کہ گروہ اور لشکر- یہ  فرض کفایہ ہے- الله تعالی کا فرمان ہے :

وَ اَعِدُّوۡا لَہُمۡ مَّا اسۡتَطَعۡتُمۡ مِّنۡ قُوَّۃٍ وَّ مِنۡ رِّبَاطِ الۡخَیۡلِ تُرۡہِبُوۡنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمۡ وَ اٰخَرِیۡنَ مِنۡ دُوۡنِہِمۡ ۚ لَا تَعۡلَمُوۡنَہُمۡ ۚ اَللّٰہُ یَعۡلَمُہُمۡ ؕ وَ مَا تُنۡفِقُوۡا مِنۡ شَیۡءٍ فِیۡ سَبِیۡلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیۡکُمۡ وَ اَنۡتُمۡ لَا تُظۡلَمُوۡنَ ﴿۶۰﴾

"اور تم لوگ ، جہاں تک تمہارا بس چلے ، زیادہ سے زیادہ طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے ان کے مقابلہ کے لیے مہیا رکھو ، تاکہ اس کے ذریعہ سے اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو اور ان دوسرے اعداء کو خوفزدہ کردو جنہیں تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے۔ اللہ کی راہ میں جو کچھ تم خرچ کروگے اس کا پورا پورا بدل تمہاری طرف پلٹایا جائے گا اور تمہارے ساتھ ہر گز ظلم نہ ہوگا" (قرآن: 8:60)[211]

جہاد (قتال) جو شریعت محمدیہ کا جزو ہے جس کی شرائط  ہیں اسے موقوف کرنا ، منسوخ کرنا ، ایک ایسے شخص کے لئے جو اپنے آپ کو "بغیرشریعتی نبی" کهتا ہے کیسے ایسے احکام جاری کر سکتا ہے؟

تاریخ  کے سات ادوار

اہل "تثلیث نبوت" کا ایک اور واضح عقیدہ،  یہ تصور ہے کہ مذہب کی تاریخ  کے ادوار ہیں-  ہر سات ہزار سال بعد اس کی تجدید ہوتی ہے۔ حضرت  آدم کے وقت سے موجودہ دور کو سات ادوار یا عمروں میں تقسیم کیا گیا ہے، جو ہفتے کے سات دنوں کے متوازی ہے، روشنی اور اندھیرے کے ادوار کے ساتھ۔ مرزا غلام احمد چھٹے عہد میں بحیثیت مسیح موعود ظاہر ہوا جو بنی نوع انسان کی ساتویں اور آخری عمر کا آغاز کرتا ہے[212]  جیسا کہ خدا کے نزدیک ایک دن انسان کے حساب کے ہزار سال کے برابر ہے۔(قرآن 22:47). مرزا صاحب کے مطابق جس طرح ہفتے کا چھٹا دن جمعہ کے لیے مخصوص ہے، اسی طرح اس کی عمر بنی نوع انسان کے ایک عالمی اجتماع کے لیے مقرر ہے جس میں دنیا کو ایک عالمگیر مذہب  اسلام  ("تثلیث نبوت") کے تحت متحد ہونا ہے۔

ایک حدیث کا ذکر ہے :الدنيا سبعة آلاف سنة، أنا في آخرها ألفا."طب والبيهقي في الدلائل - عن الضحاك بن زمل".

دنیا (کی عمر) سات ہزار سال ہے اور میں اس کے آخری ہزار میں ہوں۔ (کنزالعمال, حدیث نمبر: 38345) (طبرانی فی الکبیر والبیھقی فی الدلائل عن الضحاک بن زمل)

یہ حدیث من گھڑت معلوم ہوتی ہے کہ اگر  رسول اللہ ﷺ آخری ہزار سال میں تھے تو مرزا صاحب کے وقت تک طرح سو سال گُشڑت چکے تھے اور قیامت انہ آئی- ممکن ہے یہ مسیحی روایات سے اسلام میں داخل ہوئی-[213] 

یہ نظریہ دنیا کے چھ دور/ دنیا کے سات دور، یہود و نصاری سے تاریخی ادوار کی نقل ہے جس کے بارے میں سب سے پہلے ہپپو کے آگسٹین (Augustine of Hippo) نے 400 عیسوی میں لکھا تھا۔[214] اسی طرح یہود کی  ایک قبالسٹک روایت ہے جو برقرار رکھتی ہے کہ تورات (کتاب - پیدائش 1)  (Genesis 1) میں تخلیق کے سات دن سے سات ادوار بنتے ہیں-

رسول اللہ ﷺ نے  فرمایا :- تم لوگ ٹھیک پہلی امتوں کے نقشِ قدم پر چلو گے یہاں تک کہ اگر وہ گوہ کے بل میں گھسے ہوں گے تو تم بھی اس میں گھس کر رہو گے۔کسی نے عرض کیا یارسول اللہ ﷺ ! پہلی امتوں سے آپ کی مراد یہود و نصاری ہیں ؟ ارشاد فرمایا تو اور کون؟ (صحیح بخاری ، 3456)[215]

مرزا صاحب نے  "تثلیث نبوت" کی آڑ میں سو برس قبل جو بین المذاہب کھچڑی یہود و نصاری کی خدمت میں تیار کی وہ اپنے اگلے مرحلہ اسرایئل اور عربوں کے مابین (Abraham Accords) میں خوب بکے گی[216]-

اب دو ایکسٹریم صورت حال (extreme situations) فرض کرتے ہیں:

صورت حال-1 (تصور)

اگر نہ مسیح[217] نہ ہی مہدی[218] آرہے ہیں تو تثلیث نبوت کا بانی درست نہیں جس کو یہ علم نہیں اور اگر علم تھا  تو چھپایا کیوں ، کتمان حق[219]، ایسا نبی  کیسے ہو سکتا ہے ؟

صورت حال-2 (تصور)

مہدی : اگر یہ درست ثابت  ہو جیسا کہ اکثریت کا عقیده  ہے تو مہدی امت میں ایک مجدد کامل اور ایک عادل کا درجہ رکھتے ہیں۔ یاد رہے کہ یہ انبیا کرام علیہم السلام میں سے نہیں ہوں گے بلکہ اللہ تعالی کے مقرب و برگزیدہ بندے ہوں گے۔ وہ مسلمانوں کے  امام ، لیڈر ہوں گے، لیڈر کو اس کے کردار اور عمل سے لوگ قبول کرتے ہیں- جب وہ تشریف لائیں گے تو اپنی جگہ اپنے کردار و عمل  سے حاصل کریں گے- جس طرح اسلام کی خدمت اور سربلندی کے لیے کام کرنے والی جماعت اور افراد ہر دور میں ہوتے ہیں، اسی طرح مجدد ہر صدی میں ہوتے ہیں وہ کسی پر کفر کے فتوے لگا کر اپنے آپ کو نہیں منواتے-

مسیح : اگر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کا نزول ہوتا ہے جیسا کہ مشہور عقیده ہے تو مسیح کی واضح نشانیاں ہیں کوئی پاگل ہی ان کو نہ پہچان سکے- مزید حضرت مہدی ان کو پہچان کر  نماز کی امامت کی دعوت دیں گے- کہیں بھی ان پر ایمان کا ذکر نہیں کیونکہ ان کا حیرت انگیز معجزانہ نزول ایسا ثبوت ہو گا کہ کوئی احمق ہی انکار کر سکتا ہے-

لہذا بانی "تثلیث نبوت"  جو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو فوت ، مدفون کہتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اور مہدی کو ایک شخصیت بھی قرار دیتے ہیں اور خود کو مسیح موعود بھی کہتے جو قرآن و حدیث سے بھی ثابت نہیں تو ایسا شخص نبی کیسے ہو سکتا ہے؟

نتیجہ

  1. ختم نبوت کا عقیده قرآن کی محکم آیت [220]، سنت رسول اللہ ﷺ ، احادیث[221] ، سنت خلفاء راشدین، اجماع صحابہ[222] کرام اور اجماع  علماء امت[223] سے چودہ سو برس سے ثابت،  قائم و دائم ہے اور قیامت تک رہے گا-
  2. قرآن و حدیث میں "مثیل مسیح" کا کوئی وجود نہیں یہ بانی "تثلیث نبوت" کی اختراع ہے-
  3. احادیث میں مسیح اور مہدی[224] دو الگ الگ شخصیات ہیں[225]، ان کو ایک بنانا بانی "تثلیث نبوت" کی اختراع ہے-
  4. قرآن، سنت ، احادیث و عقل فہم سے عدم مطابقت رکھنے والے تمام نظریات نا قابل قبول[226]
  5. حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے زندہ اٹھے جانے سے  قادیانی مذھب کی جڑ ، جو کہ وفات حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر کھڑی ہے قرآن اور تورات سے باطل ثابت ہو گئی-

خلاصہ  

تحقیقی جائزہ

 لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ

جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے (قرآن : ‎(8:42 [227]

🌹 ☆🌹☆🌹☆🌹☆🌹☆

اللَّهُمَّ صَلِ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا صَلَّيْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيدٌ

 اللَّهُمَّ بَارِكْ عَلَى مُحَمَّدٍ وَّ عَلَى آلِ مُحَمَّدٍ كَمَا بَارَكْتَ عَلَى إِبْرَاهِيمَ وَعَلَى آلِ إِبْرَاهِيمَ إِنَّكَ حَمِيدٌ مَجِيد

☆☆☆☆☆

"اے ایمان والو! فرمانبرداری کرو اللہ تعالیٰ کی اور فرمانبرداری کرو رسول (ﷺ) کی اور تم میں سے اختیار والوں کی۔ پھر اگر کسی چیز میں اختلاف کرو تو اسے لوٹاؤ، اللہ تعالیٰ کی طرف اور رسول کی طرف، اگر تمہیں اللہ تعالیٰ پر اور قیامت کے دن پر ایمان ہے۔ یہ بہت بہتر ہے اور باعتبار انجام کے بہت اچھا ہے۔( قرآن:4:59)

🌹 ☆🌹☆🌹☆🌹☆🌹☆

خلاصہ:  تحقیق و دعوة

الله تعالی کی آخری مکمل اور محفوظ  کتاب، قرآن سے یہ ثابت  ہوتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللهﷺ خاتم النبیین ہیں ان کے بعد کوئی نبی یا رسول دنیا میں کسی بھی حثیت سے نہیں آیے گا- قرآن ، فرقان ہے حق اور باطل کی پہچان کرتا ہے- کسی کو جھوٹا نبی ثابت کرنے کے لئیے جو یہ دعوی کرتا ہے کہ اس پر وحی نازل ہوتی ہے اور یہ کہ اس کو قرآن کا خاص علم دیا گیا ہے  جو دنیا میں کسی کے پاس نہیں اورجو کہتا ہے کہ میں مسیح ، مہدی، نبی  ہوں-  اس کے یہ دعوے قرآن سے باطل ثابت ہوتے ہیں۔

صدیوں سے مسلمانوں میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے قبل قیامت نزول اور امام حضرت مہدی کی آمد  کے نظریات پرعلماء کا احادیث و روایات کی بنیاد پر اجماع ہے- حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی واپسی  اور حضرت امام مہدی کی آمد کا قرآن کی کسی محکم آیت میں ذکر نہیں ملتا- حضرت مسیح علیہ السلام کا بروز قیامت اللہ تعالی سے مکالمہ رفع کے بعد کے حالات سے لاعلمی ظاہر کرتا ہے لہذا اس اجماع کا قرآن کے مطابق جائزہ لینے کی ضرورت ہے-[228] 

اس مسئلہ کا احادیث کی روشنی میں بھی تجزیہ کیا گیا تاکہ کسی قسم کا کوئی ابہام باقی نہ رہ  جایے اس سے بھی یہ ثابت ہوتا ہے کہ حضرت محمد رسول اللهﷺ خاتم النبیین ہیں ان کے بعد کوئی نبی مبعوث نہیں ہوگا، حضرت مہدی نبی نہیں بلکہ اللہ تعالی کے مقرب و برگزیدہ بندے ہوں گے، مجدد کامل اور ایک عادل کا درجہ رکھتے ہیں قیامت سے قبل دنیا میں آئیں گے اور دنیا کو ظلم سے نجات دلائیں گے، ناانصافی اور جبر کا خاتمہ کر دیں گے- علماء کے مطابق حضرت عیسیٰ ابن مریم ، مسیح علیہ السلام نبی یا رسول کی حیثیت سے نہیں آئیں گے نہ ہی ان پر وحی نازل ہوگی- آپ محمد رسول اللهﷺ  کے امتی کی حثیت سے تشریف لائیں گے ان کی حیثیت أنحضرت کے خلیفه کی ہو گی- (حدیث طبرانی ، انہ خلقتنی فی اممتی من بعدی، در منشور، ص٢٤٢، ج٢) اس کے ہم معنی روایات مسند احمد ، و ابو داوود ، ابن ابی شیبہ، و ابن حبان م و ابن جریر میں بھی موجود ہے- پس حضرت عیسیٰ علیہ السلام تمام دنیا کی طرف بادشاہ اور خلیفه ہو کر آیئں گے نہ کہ نبی- لہذا  رسول اللہ ﷺ کے وصف رسالت امن میں شریک نہیں ہوں گے اور حدیث مسلم غلط نہیں ہو گی اور اپنی جگہ بحال رہے گی- وہ دجال کا خاتمہ کریں اور عدل و انصاف سے حکومت کریں، اسلام کا دنیا میں غلبہ قائم کرکہ وفات پا کر رسول اللہ ﷺ کے قریب دفن ہوں[229]-

حضرت عیسی مسیح علیہ السلام  کو اللہ تعالی نے زندہ اٹھا لیا یا وفات دی یہ  معاملہ اصل موضوع کو divert  کرنے کے لییے منکرین ختم نبوت ( اہل تثلیث)  اچھالتے ہیں، اسے اپنے مذھب کی جڑ قرار دیتے ہیں اس تحقیق سے وہ جڑ دلائل کی شمشیر سے کاٹ دی گئی-

تحقیق و تفصیل - ختمِ نبوت 》》》https://bit.ly/KhatmeNabuwat

تمام حضرات سے جو حضرت محمد بن عبداللہ رسول اللهﷺ  کے بعد کسی شخص کو کسی بھی قسم کا نبی ، مسیح مثیل، مہدی وغیرہ سمجھتے ہیں، ان سب کو اسلام کو واپسی کی دعوت ہے تاکہ آخرت اور دنیا میں فلاح پائیں۔ "رسالہ تجدید السلام" پر تحقیقی مضامین کا مطالعہ کریں، اگر کوئی سوالات ہوں تو e-mail پر رابطہ کریں ۔۔۔ مسلسل اللہ سے گمراہی سے بچاو اور هدایت کی دعا کرتے رہیں، صرف الله تعالی ہی ھدائیت دے سکتا ہے ۔ جزاک اللہ

جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے (قرآن : ‎(8:42 

 ☆ ☆ ☆ ☆ ☆

وَمَا عَلَيۡنَاۤ اِلَّا الۡبَلٰغُ الۡمُبِيۡنُ (القرآن  36:17)

اور ہمارے ذمہ صرف واضح پیغام پہنچا دینا ہے

جو اس پیغام ، دعوہ[230] کو جتنا پھیلائے اللہ اس کو اتنا ہی زیادہ اجرعطا فرمائے، اور اسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قربت حوض کوثر پر عطا فرمائے۔ آمین

https://bit.ly/AhkamAlQuraan

Tejdeed@gmail.com

اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۲۵﴾

"آپ دعوت دیجیے اپنے رب کے راستے کی طرف حکمت کے ساتھ اور عمدہ نصیحت کے ساتھ اور اس طریقے سے ان سے بحث کیجیے جو نہایت عمدہ ہو ۔ بلاشبہ تمہارا رب اسے بھی خوب جانتا ہے جو اس کے راستے سے بھٹک گئے ہیں اور ہدایت پر قائم لوگوں کو بھی خوب جانتاہے" (قرآن: 16:125)[231]

 انڈکس مضامین

  1. ای بک (E- Book)
  2. وفات مسیح - تثلیث نبوت جڑ کا خاتمہ https://bit.ly/KhatmeRoot
  3. مہدی کی حقیقت https://bit.ly/Al-Mahdi
  4. آخری اینٹ https://bit.ly/LastBrickا
  5. قادیانت https://bit.ly/Qadianiat   
  6. دین کامل https://bit.ly/DeenKamil
  7. ختم نبوت https://bit.ly/KhatmeNabuwat
  8. تثلیث نبوت اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام
  9.  تثلیث نبوت https://bit.ly/NubuwatTrinity 
  10. احکام القرآن https://bit.ly/AhkamAlQuraan
  11. قرآن کی آیات کا انکار کفر
  12. علم الحديث کے سنہری اصول
  13. دعوه ، تبلیغ



کتاب محمدیہ پاکٹ بک

انڈیکس

https://forum.mohaddis.com/threads/172450 

علمائے اسلام نے عموماً اور علمائے اہل حدیث کے اقلام خارا شگاف نے خصوصاً فتنہ مرزائیت کی حقیقت واشگاف کرنے کے سلسلہ میں ہزاروں صفحات لکھے اور شائع کیے ہیں لیکن ''کتاب محمدیہ پاکٹ بک'' (جس کی بنیاد تالیف تو دراصل ''احمدیہ پاکٹ بک'' کا علمی و تنقیدی جائزہ لینا اور اس کے مغالطوں سے پردہ اٹھانا تھا) بعض ایسی منفرد خصوصیات کی حامل ہے کہ اس کو حرفِ آخر کا درجہ حاصل ہو گیا ہے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حسن قبول بھی ایسا بخشا کہ ہر طبقہ و خیال کے اہل علم اور عوام نے اس کا خیر مقدم کیا چنانچہ سابقہ تینوں اشاعتیں اپنے اپنے دور اشاعت میں جلدی ہاتھوں ہاتھ نکلتی چلی گئیں۔

  1. مرزا صاحب کے چند ایک دعاوی
  2. خدائی کے دعوے
  3. مرزا صاحب کے چند ایک مضحکہ خیز اور گول مول الہامات
  4. دلائل کذب مرزا
  5. مرزا صاحب کی غلط پیشگوئیاں
  6. پیشگوئیوں کے متعلق مرزائیوں کے چند ایک خود ساختہ معیار اور اخبار انبیاء پر اعتراضات کا جواب
  7. کاذب ہونے پر دوسری دلیل علاماتِ مسیح موعود
  8. کاذب ہونے پر تیسری دلیل
  9. کاذب ہونے پر چوتھی دلیل
  10. کذب مرزا پر پانچویں دلیل
  11. مرزائی پاکٹ بک کے جھوٹے اعتراضوں کا جواب
  12. کاذب ہونے پر چھٹی دلیل مراقِ مرزا
  13. کاذب ہونے پر ساتویں دلیل
  14. کاذب ہونے پر آٹھویں دلیل
  15. کاذب ہونے پر نویں دلیل
  16. ضمیمہ توہین مسیح علیہ السلام
  17. نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی توہین
  18. دلائل مرزائیہ کا جواب
  19. مرزا صاحب کی پیش گوئیاں
  20. مرزا غلام احمد صاحب قادیانی اور اس کی قرآن دانی
  21. مرزائیت اور عیسائیت
  22. مرزا صاحب قادیانی کا توبہ نامہ
  23. قادیانی عقائد
  24. بشارت اسمہ احمد
  25. مرزا صاحب کے کاذب ہونے پر گیارہوں دلیل
  26. ختم نبوت کا ثبوت از قرآن
  27. ختم نبوت کا ثبوت ازاحادیث
  28. احادیث نبویہ اور مرزائی اعتراضات
  29. حدیث قصر نبوت اور مرزائی اعتراض
  30. اجرائے نبوت پر مرزائی دلائل کے جوابات
  31. احادیث نبویہ کے متعلق مرزائی اعتراضات کے جوابات
  32. اقوال، مرزا متعلقہ ختم نبوت
  33. مسئلہ ختم نبوت میں مرزا صاحب کی دو رنگی
  34. ضمیمہ علمیہ برختم نبوت
  35. حیات مسیح علیہ السلام


Books and Article by By  Brigadier Aftab Khan (r)

رساله تجديد الاسلام

Message for Islamic Revival

اردو

  1. رساله تجديد الاسلام - انڈکس: ویب سائٹ :  https://bit.ly/Tejdee0d-Islam
  2. مصادر الإسلام: -https://bit.ly/IslamicSources-pdf \ https://bit.ly/Islamic-Sources
  3. رساله تجديد الاسلام: مقدمہ-  ویب سائٹ : https://bit.ly/Tejddeed

 https://bit.ly/تجدیدالسلام-مقدمہ  PDF

  1. تجديد الاسلام تحقیق( :  https://bit.ly/Tejdeed-Islam-PDF (Pdf eBook
  2.  تجديد ایمان Web https://bit.ly/Aymaan /  https://bit.ly/Aymaan-g
  3. شفاعت اور شریعت : https://bit.ly/Shfaat   \ https://bit.ly/Shafaat-pdf
  4. رسول اللہ ﷺ کا میعار حدیث: https://bit.ly/Hdees
  5. مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ :  https://bit.ly/Muslim-Tragedy
  6. Important Hadiths اہم احادیث: https://bit.ly/Hadiths 
  7.  متضاد عقائد و نظریات: https://bit.ly/WrongBeliefs-Pdf  https://bit.ly/Wrong-Beliefs
  8. Google Doc (Urdu): https://bit.ly/3jsw67y
  9. Full Research  Google Doc (Urdu): http://bit.ly/31lYQV3 

English

  1. Web  link: https://wp.me/scyQCZ-tajdid
  2. Exclusive Website: https://Quran1book.wordpress.com
  3. Download/ Share  eBooklet- pdf: http://bit.ly/3s6eEse
  4. Full Research (Web): https://wp.me/scyQCZ-index
  5. Full Research (Google Doc): https://bit.ly/3fM75jH
  6. Contact: https://www.facebook.com/IslamiRevival/inbox
  7. E Mail: Tejdeed@gmail.com

1)غیر تجارتی مقصد، .دعوہ  کے لیے ویب سائٹ / لنک کا حوالہ دے کر میڈیا پر کاپی اور شیئر کرنا احسن اقدام ہو گا 2)یہ مطالعہ قرآن کی واضح (آیاتٌ مُّحْكَمَاتٌ ، أُمُّ الْكِتَابِ) سنت ، حدیث اور مستند تاریخ  کی بنیاد پر ہے۔ ا اینڈ نوٹس/ لنکس / ریفرنسز ملاحضہ فرمائیں 3) پڑھنے کے بعد  اگر کوئی سوالات  اور شبہات ہوں تو وہ  مکمل تحقیق کا مطالعہ کرنے سے دور ہو سکتے ہیں ان شاءاللہ



رسالہ تجديد الإسلام - انڈکس

https://bit.ly/Tejdeed-Islam

  1. مصادر الإسلام
  2. تجدید ایمان
  3.  تجديد الإسلام: مقدمہ  [-Abstract English]
  4. رسول اللہ ﷺ کا  میعارحدیث / اصول حدیث
  5. متضاد عقائد و نظریات  https://bit.ly/Wrong-Beliefs
  6. مسلم المیہ (تضاد \ Paradox)  https://bit.ly/Muslim-Tragedy
  7. شفاعت یا شریعت
  8.  قرآن  ترک العمل  ( مھجور)
  9. مقصد حیات: کامیاب  اور ناکام کون؟
  10. بدعة،  گمراہی (ضَلَالَۃٌ)
  11. اسلام ، مسلم فرقہ واریت کا خاتمہ
  12. قرآن اور عقل و شعور
  13. اصول دین (بنیادی عقائد) اور فروع دین ( ارکان اسلام )
  14. شاه کلید قرآن:  Master Key Quran (3:7)
  15. اہم احادیث
  16. حادیث لکھنے کی ممانعت 
  17. احادیث پر احادیث - تقييد العلم للخطيب البغدادي
  18. رسول اللہ ﷺ وصیت  (ابی داوود 4607, ترمزی 266 )  کا انکار اور بدعت
  19. سنت خلفاء راشدین کی شرعی حثیت اور کتابت حدیث  کیوں نہ کی؟ 
  20. احادیث سے استفادہ ڈیجیٹل ٹیکنالوجی؟
  21. مسلمان بھی یہود و نصاری کے نقش قدم پر
  22. قرآن و حدیث اور" توریت و تلمود" موازنہ
  23. تجدید اسلام کا آغاز
  24.  تجديد الإسلام کا آغاز  / MBS Video
  25. تدوین قرآن مجید
  26. ‎قرآن احسن الحدیث
  27. قرآن کا تعارف قرآن سے
  28. اہم آیات قرآن
  29. موضوع تحقیق (تھیم)
  30. خلاصہ تحقیق -  تجديد الإسلام-1
  31. : احیاء دین کامل
  32. حدیث لسٹ  https://wp.me/scyQCZ-list  Hadith List
  33. اہل قرآن اور اہل حدیث کے مغالطے
  34. سینٹ پال ، سینٹ پطرس اور امام بخاری (رح ) کے خواب
  35.  من گھڑت داستانوں سے حقائق  مسخ ، رسول اللہﷺ کی حکم عدولی
  36. حضرت عمر (رضی الله) کا اہم ترین کارنامہ(1)
  37. حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کے اجتہاد
  38. حضرت عمر بن خطاب  ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ (سیرہ)
  39. عظیم فاتح: اﻟﯿﮕﺰﯾﻨﮉﺭ یا ﺣﻀﺮﺕ ﻋﻤﺮ ﻓﺎﺭﻭﻕ ﺭﺿﯽ ﺍﻟﻠﮧ ﻋﻨﮧ؟
  40. Caliph Umer & Hadith
  41. Uumar Ibn Al-khattab  By Micheal Hart
  42. البدعة الكبيرة Big Bid'ah
  43. تجديد الإسلام  (ای - بک)
  44. آخری رسول اور آخری کتاب - قرآن : اطاعت رسول و سنت
  45. حدیث کی قبولیت ، قرآن سے مشروط ( مودودی )
  46. اسنت , حدیث اور متواتر حدیث
  47. وحی متلو اور غیر متلو تحقیقی جائزہ (1)
  48. وحی متلو  اور غیر متلوتحقیقی جائزہ (2) [قرآن کا مثل ؟]
  49. الله ، قرآن پر غلط بیانی کرنا حرام [Don't Hide Truth ]
  50.  "کتاب حدیث" ممنوع - قرآن
  51. کتمان حق : آیات قرآن اور علم حق کو چھپانا سنگین جرم
  52. فقیہ و محدثین
  53. احیا  دین کامل -٩٩: تحقیق کے اہم نقاط و نتائج
  54. دلیل روشن کے ساتھ ہلاک یا زندہ -( سورة الأنفال42)
  55. فقیہ و محدثین
  56. عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ
  57. عالم، محدث، مفسرین صحابہ نے  حدیث لکھنے کی ممانعت  پر مکمل عمل کیا  
  58. تجديد الإسلام- خلاصہ تحقیق-2
  59.  صحابہ کرام (رضی الله )  حقائق و اشتباهات
  60. شیعہ اصلاحات

أَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ 

رساله تجديد الاسلام

https://bit.ly/Tejdeed-Islam 

http://SalaamOne.com/Revival

https://Quran1book.blogspot.com

https://Quran1book.wordpress.com

https://www.facebook.com/IslamiRevival 

https://bit.ly/Tejdeed-Islam

 إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ ‎

The Author &  Books:

Brigadier Aftab Ahmad Khan (Retired): A freelance writer, researcher, and blogger, holds Masters in Political Science, Business Admin, Strategic Studies, spent over two decades in exploration of The Holy Quran, other Scriptures, teachings & followers. He  has been writing for “The Defence Journal” since 2006. His work is available at https://SalaamOne.com/About accessed by over 4.5 Millions. FB: @IslamiRevival Email: Tejdeed@gmail.com

Special Topics

  1. "Islamic Revival (تجديد الإسلام);
  2. Islam, Muslim & Sectarianism / اسلام اور مسلم
  3. Riba Resolved
  4. Al-Khilafah [الخلافة] [Eng & Urdu ]

Muslim World & Pakistan

  1. Kashmir Jihad – Analysis & Options
  2. Hybrid Warfare against Pakistan
  3. Bernard Lewis Plan for Middle East & Pakistan &Counter:
  4. Greater Israel – Oded Yinon Plan & Counter :
  5. Zionism, Bible & Quran
  6. SalaamOne - Special Picks .... 
  7. اردو آرٹیکل اور کتب 

Islam, Basic Books:

  1. The Creator 
  2. The Creation  [Why We Exist?]
  3. The Guidance   
  4. Islam: Broader Perspective

Islam :

  1. Quran Subjects (web)
  2. Prophet Muhammad [ﷺ]
  3. The Great Jihad Through Quran
  4. Quran – Summary of 99 Selected Verses on Ethics
  5. Rise and fall of Nations – Law of Quran
  6. Kashmir- Defender [blog]
  7. Muslims and The Soft Power [mixed articles]

General: 

  1. Humanism Atheism 
  2. Universe, Science & God \ Faith & Reason
  3. Fundamentals of Faith  \ Metaphysics & Eschatology
  4. Challenges to Faith  [Sectarianism]
  5. Philosophy- Islamic Thought Revivalist
  6. Reconstruction of Religious Thought (by Dr.M.Iqbal)

Political, Religious, Social, Cultural, War & Peace

  1. Religion cause Wars?
  2. Tribulation and Discord in Muslim World & Future 
  3. Islamic Culture and Modern World  \ Islamic Society & Culture
  4. Women in Islam \ Rise & Decline of Muslims   
  5. Sectarianism \ Learning & Science

Islamophobia

  1. Islamophobia (Web) \ Jihad, Extremism:  
  2. Jihad: Myth & Reality \ Takfir Doctrine of Terror 
  3. Islamic Decree [Fatwa] Against Terrorism
  4. Tolerance  \ Rebuttal Anti-Islam FAQs  
  5. Rebellion by Khawarij Taliban & Shari’ah in Pakistan 

Interfaith: 

  1. Impact of Islam on Christianity & West
  2. Jesus Christ in Islam & Christianity Theory of Evolution: Bible & Quran  Bible & Quran
  3. Jesus, Bible & Christianity (Website)

Power Politics, Conspiracies, Wars

  1. Christian Zionism Zionism, Bible & Quran [The Blessed Land]
  2. Dialogue- Children of Israel, Ishmael & Peace?
  3. The Thirteenth Tribe  Bible, Christ & Christianity:  

http://FreeBookPark.blogspot.com  https://SalaamOne.com/About

اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر ﴿ البقرة ٢٨٦﴾

 إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ

<iframe height="1000px" src="https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vRTe_8LN5PpbIbrbdE6-6-yN5yapGgaHgTLWr8zZQWPo9Ock95R6JqtGoJsu4dmNjAsvffTghabM-gu/pub?embedded=true" width="100%"></iframe></div>

https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vRTe_8LN5PpbIbrbdE6-6-yN5yapGgaHgTLWr8zZQWPo9Ock95R6JqtGoJsu4dmNjAsvffTghabM-gu/pub


[1] https://trueorators.com/quran-tafseer/5/3 

[2] https://trueorators.com/quran-tafseer/3/7 

[3] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/argument.html 

[4] http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/033/appx.html#7 

[5] https://www.alislam.org/urdu 

[6] https://forum.mohaddis.com/threads/21784/page-17#post-175947 

[7] https://forum.mohaddis.com/threads/21784/#post-172456 

[8] (i) https://bit.ly/KhatmeRoot ،  (ii) https://bit.ly/EisaMasih ،  (iii)  https://bit.ly/Al-Mahdi 

[9] https://en.wikipedia.org/wiki/Trinity 

[10] (Trinity of Prophet) تثلیث نبوت:  https://bit.ly/NabuwatTrinity 

[11] https://tanzil.net/#trans/ur.jalandhry/2:2 

[12] https://tanzil.net/#33:4 

[13] https://en.wikipedia.org/wiki/Trinity 

[14] https://en.wikipedia.org/wiki/Trinity 

[15] قومی اسمبلی میں قادیانیت کا مقدمہ/ https://salaamone.com/qadyaniyat-national-assembly/ 

[16] https://en.wikipedia.org/wiki/Trinity 

[17] https://forum.mohaddis.com/threads/21784/page-17#post-175947 

[18]سورہ  ہججرات ، 6

[19] * (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 239، رواہ ابوداؤد (2558) و ابن ماجہ (54) الذھبی فی تلخیص المستدرک (۴/ ۳۳۲)۔

[20] https://quran1book.blogspot.com/2021/11/IslamicSources.html 

[21] علم الحديث کے سنہری اصول :  https://bit.ly/Hadith-Basics 

[22] https://quran1book.blogspot.com/2021/07/Best-Hadith.html 

[23] (صحیح مسلم، حدیث نمبر:2005 ، نسایی؛ 1579 ، ابن ماجہ 45، مشکوات المصابیح 139، معارف حدیث 1889) / https://bit.ly/Hadith-Basics

[24] https://trueorators.com/quran-tafseer/20/124 

[25] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/verses.html 

[26] https://quran1book.blogspot.com/2021/09/Quran-Neglected.html 

[27] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/wahi-ghair-matloo.html 

[28] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-sunnah.html 

[29] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/jews-christian-footsteps.html 

[30] https://quransubjects.blogspot.com/2019/10/faith.html 

[31] https://quransubjects.blogspot.com/2019/11/pillars-of-islam.html 

[32] https://www.alislam.org/quran/view/?page=265&region=P5&CR=V6,TS 

[33] ( بجواب احمدیہ پاکٹ بک ، محمدیہ پاکٹ بک ، مولانا شاہ عالم گورکھ پوری ،ناشر شاہی کتب خانہ دیوبند اکتوبر ١٩٩٩، صفحہ ١٦٨)

[34] https://forum.mohaddis.com/threads/21784/ 

[35] ( بجواب احمدیہ پاکٹ بک ، محمدیہ پاکٹ بک ، مولانا شاہ عالم گورکھ پوری ،ناشر شاہی کتب خانہ دیوبند اکتوبر ١٩٩٩، صفحہ ١٦٨)

[36] ( بجواب احمدیہ پاکٹ بک ، محمدیہ پاکٹ بک ، مولانا شاہ عالم گورکھ پوری ،ناشر شاہی کتب خانہ دیوبند اکتوبر ١٩٩٩، صفحہ ١٦٨)

( بجواب احمدیہ پاکٹ بک ، محمدیہ پاکٹ بک ، مولانا شاہ عالم گورکھ پوری ،ناشر شاہی کتب خانہ دیوبند اکتوبر ١٩٩٩، صفحہ ١٦٩)

[37] 

[38] https://shamilaurdu.com/quran/tarjumah-bhutvi/tafseer-fahm-ul-quran/4657/ https://trueorators.com/quran-tafseer/48/28 

[39] (بجواب احمدیہ پاکٹ بک ، محمدیہ پاکٹ بک، مولانا شاہ عالم گورکھ پوری ،ناشر شاہی کتب خانہ دیوبند اکتوبر ١٩٩٩، صفحہ ١٧١)

[40] https://tanzil.net/#25:1 

[41] https://tanzil.net/#2:213 

[42] https://tanzil.net/#4:56 

[43] https://trueorators.com/quran-tafseer/3/7 مہدی

[44] https://bit.ly/NabuwatTrinity 

[45] https://tanzil.net/#trans/ur.qadri/33:40 

[46] http://www.darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1397021030%2002-Khatm%20Nabuwwat_MDU_7_July_10.htm ، جو صحاحِ ستہ کی تمام احادیث ”موسوعة الحدیث الشریف الکتب السنة“ مطبوعہ دارالسلام للنشی التوزیع الریاض، ۲۰۰۰ ، سے نقل کی گئی ہیں

[47] http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/033/appx.html#2 

[48] https://www.minhajbooks.com/urdu/book/Belief-in-the-Finality-of-Prophethood/read/txt/btid/1261/ 

[49] http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/033/appx.html#1 

[50] محی الدین محمد ابن العربی الحاتمی الطائی الاندلسی (1240ء—1165ء)،  ممتاز صوفی، عارف، محقق، قدوہ علما ہیں۔ اسلامی تصوف میں آپ كو شیخ اکبر کے نام سے یاد كیا جاتا ہے-عام خیال یہ ہے کہ تصوف اسلامى میں وحدت الوجود کا تصور سب سے پہلے انھوں نے ہی پیش کیا۔ بعض علما نے ان کے اس عقیدے کو الحاد و زندقہ سے تعبیر کیا ہے۔ ان کی تصانیف میں فصوص الحكم اور الفتوحات المکیہ (4000 صفحات) بہت مشہور ہے۔ فتوحات المكيۃ 560 ابواب پر مشتمل ہے-۔

[51] https://forum.mohaddis.com/threads/21784/page-23 

[52] https://forum.mohaddis.com/threads/21784/page-34 

[53] https://www.minhajbooks.com/urdu/book/Belief-in-the-Finality-of-Prophethood/read/txt/btid/1278/ 

[54] https://en.wikipedia.org/wiki/Trinity 

[55] http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/033/appx.html#7 

[56] https://tanzil.net/#trans/ur.qadri/33:40 

[57] http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/033/appx.html#6 

[58] https://forum.mohaddis.com/threads/21784/page-18#post-176288 

[59] https://forum.mohaddis.com/threads/21784/page-19#post-176303 

[60] https://forum.mohaddis.com/threads/21784/page-31 

[61] https://trueorators.com/quran-tafseer/4/157 / https://tanzil.net/#trans/ur.jalandhry/4:157 

[62] Ahsan ul Bayan، by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)/ https://trueorators.com/quran-tafseer/5/109 

[63] Ahsan ul Bayan، by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)/ https://trueorators.com/quran-tafseer/5/109 

[64] Ahsan ul Bayan، by Shah Fahd Abdul Azeez (al saud)/ https://trueorators.com/quran-tafseer/5/109 

[65] https://tanzil.net/#39:2 

[66] https://tanzil.net/#trans/ur.jawadi/5:119 / ترجمہ علامہ جوادی

[67] https://tanzil.net/#trans/ur.jawadi/5:119 / ترجمہ علامہ جوادی

[68] Ashraf ul Hawashi، by Muhammad Abdahul-Falah/ https://trueorators.com/quran-tafseer/5/119 

[69] Taiseer ul Quran، by Abdul Rehman Kilani/  https://trueorators.com/quran-tafseer/5/119 

[70]  علم الحديث کے سنہری اصول :  https://bit.ly/Hadith-Basics / حدیث کی سند ضعیف بھی ہو مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے ( تفہیم القرآن، سید ابو اعلی مودودی، تفسیر،الحج، 22:1  نوٹ1)

[71] https://www.alislam.org/quran/view/?page=81&region=P4&CR=V4%2CTS  تفسیر مسیح موعود، سورہ المائدہ، صفہحہ 81 [Link was active at 2/7/2022, 9:50 PM, screenshot taken]]

[72] https://www.alislam.org/quran/view/?page=102&region=P4&CR=V4%2CTS / تفسیر مسیح موعود، سورہ المائدہ، صفہحہ 102

[73] https://www.alislam.org/quran/view/?page=110&region=P4&CR=V4%2CTS / 110 تفسیر مسیح موعود، سورہ المائدہ، صفہحہ

[74] https://www.waseda.jp/top/en/news/53405 / https://www.pewresearch.org/fact-tank/2017/08/09/muslims-and-islam-key-findings-in-the-u-s-and-around-the-world

[75] https://www.alfazl.com/2021/06/01/31055/ 

[76] https://www.alfazl.com/2021/06/01/31055/ 

[77]  (ازالہ اوہام روحانی خزائین  جلد ٣ صفحہ ٥٠٣)(تفسیر مسیح موعود، سورہ المائدہ، صفہحہ 81 )

[78] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/Easa.html 

[79] https://www.alfazl.com/2021/06/01/31055/ 

[80] https://www.alislam.org/quran/view/?page=120&region=P4&CR=V4,TS / 120 تفسیر مسیح موعود، سورہ المائدہ، صفہحہ

[81] https://www.alfazl.com/2021/06/01/31055/ 

[82] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/2:259 / https://ur.wikipedia.org/wiki/عزیر 

[83] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/3:49 

[84] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/2:260 

[85] https://trueorators.com/quran-tafseer/2/73 

[86] حیات مسیح علیہ السلام/ https://forum.mohaddis.com/threads/21784/page-29#post-181375 

[87] https://trueorators.com/quran-tafseer/4/159 

[88] متواتر وہ حدیث ہے جس کو اتنےزیادہ  لوگوں نے بیان کیا ہو کہ ان کے لیے کسی جھوٹ پر راضی ہونا  ناممکن ہوتا- متواتر کی ایک رپورٹ قرآن کی طرح ہی یقینی ہے ، لہذا ، متواتر حدیث کا رد کفر ہے۔ https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith-sunnah.html 

[89] https://trueorators.com/quran-tafseer/2/159 

[90] https://trueorators.com/quran-tafseer/5/117 

[91] https://tanzil.net/#search/quran/رفع 

[92] The triliteral root rā fā ʿayn (ر ف ع) occurs 29 times in the Quran, in six derived forms:22 times as the form I verb rafaʿa (رَفَعَ)، once as the adjective rafīʿ (رَفِيع)، once as the active participle rāfiʿ (رَافِع)، once as the active participle rāfiʿat (رَّافِعَة)، once as the passive participle marfūʿ (مَرْفُوع)، three times as the passive participle marfūʿat (مَّرْفُوعَة)/ ttps://corpus.quran.com/qurandictionary.jsp?q=rfE 

[93] https://trueorators.com/quran-word-by-word/35/10 

[94] https://trueorators.com/quran-word-by-word/94/4 . / https://trueorators.com/quran-tafseer/94/4 

[95] https://trueorators.com/quran-word-by-word/24/36 

[96] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/2:253 

[97] https://tanzil.net/#trans/ur.jalandhry/6:83 / https://trueorators.com/quran-word-by-word/6/83 

[98] https://tanzil.net/#trans/ur.jalandhry/2:63 

[99] https://tanzil.net/#trans/ur.jalandhry/2:93 

[100] https://tanzil.net/#trans/ur.jalandhry/2:127 

[101] https://tanzil.net/#trans/ur.jalandhry/4:154 

[102] https://trueorators.com/quran-translations/12/100 

[103] https://trueorators.com/quran-word-by-word/88/18 

[104] https://trueorators.com/quran-word-by-word/55/7 

[105] https://tanzil.net/#trans/ur.jalandhry/79:28 

[106] https://trueorators.com/quran-word-by-word/49/2 

[107] https://trueorators.com/quran-word-by-word/13/2 

[108] https://trueorators.com/quran-word-by-word/19/57 

[109] متوفی ، لغت : https://trueorators.com/quran-root-lughaat/3/55/6 / https://tanzil.net/#search/quran/توفی ، https://corpus.quran.com/wordbyword.jsp?chapter=39&verse=42#(39:42:1) 

[110] مردہ یا لاش ، میت کو اوپر اٹھانے کا کیا مقصد کیا فائدہ؟ زندھ مکمل پورا پورا اوپر اٹھانے کی بات ہو رہی ہے

[111] https://trueorators.com/quran-tafseer/3/55 

[112] https://trueorators.com/quran-root-lughaat/3/55/6 ، https://tanzil.net/#search/quran/توفی ، https://corpus.quran.com/wordbyword.jsp?chapter=39&verse=42#(39:42:1) ، https://corpus.quran.com/qurandictionary.jsp?q=wfy#(39:42:2) 

[113] https://trueorators.com/quran-root-lughaat/3/55/6 

[114] https://trueorators.com/quran-root-lughaat/3/55/6 ، https://tanzil.net/#search/quran/توفی ، https://corpus.quran.com/wordbyword.jsp?chapter=39&verse=42#(39:42:1) ، https://corpus.quran.com/qurandictionary.jsp?q=wfy#(39:42:2) 

[115]The Clear Quran, by Dr. Mustafa Khattab/ https://corpus.quran.com/wordbyword.jsp?chapter=39&verse=42#(39:42:1) 

[116] https://corpus.quran.com/wordbyword.jsp?chapter=39&verse=42#(39:42:1) 

[117] https://trueorators.com/quran-tafseer/3/54 

[118] متوفی ، لغت : https://trueorators.com/quran-root-lughaat/3/55/6 / https://tanzil.net/#search/quran/توفی ، https://corpus.quran.com/wordbyword.jsp?chapter=39&verse=42#(39:42:1) 

[119] مردہ یا لاش ، میت کو اوپر اٹھانے کا کیا مقصد کیا فائدہ؟ زندھ مکمل پورا پورا اوپر اٹھانے کی بات ہو رہی ہے

[120] کیا کافروں سے نجات موت سے دینا کوئی خاص یا معجزانہ بانت ہے؟ کفا ر سے نجات تو زندہ اٹھانے سے ہے کہ کفار کا مقصد پورا نہ ہو -

[121] https://trueorators.com/quran-tafseer/3/55 

[122] https://www.minhajbooks.com/urdu/book/Belief-in-the-Finality-of-Prophethood/read/txt/btid/1277/ 

[123] https://trueorators.com/quran-word-by-word/3/25 

[124] https://trueorators.com/quran-word-by-word/39/42 

[125] https://trueorators.com/quran-tafseer/3/54 

[126] متوفی ، لغت : https://trueorators.com/quran-root-lughaat/3/55/6 / https://tanzil.net/#search/quran/توفی ، https://corpus.quran.com/wordbyword.jsp?chapter=39&verse=42#(39:42:1) 

[127] مردہ یا لاش ، میت کو اوپر اٹھانے کا کیا مقصد کیا فائدہ؟ زندھ مکمل پورا پورا اوپر اٹھانے کی بات ہو رہی ہے

[128] https://trueorators.com/quran-tafseer/3/55 

[129] https://trueorators.com/quran-word-by-word/39/42 

[130] https://trueorators.com/quran-tafseer/3/55 

[131] https://tanzil.net/#trans/ur.jalandhry/5:117 

[132] https://tanzil.net/#trans/ur.jalandhry/4:158 / https://trueorators.com/quran-word-by-word/4/158 

[133] https://trueorators.com/quran-tafseer/2/63 

[134] https://www.alislam.org/quran/view/?page=192&region=P2&CR=V2,TS 

[135] https://ur.wikipedia.org/wiki/ادریس 

[136] Hughes, Dictionary of Islam, s.v. Idris;Weil, Biblische Legenden der Muselmänner, pp. 62 et seq.;Mas'udi, Les Prairies d'Or, i. 73./ https://www.jewishencyclopedia.com/articles/5772-enoch / https://www.britannica.com/topic/Idris-Islamic-mythology

[137]  اس کی "موت" کی کہانی مختلف طرح سے جڑی ہوئی ہے۔ جب آسمان کے دورے پر اس کی ملاقات چوتھے آسمان پر موت کے فرشتے سے ہوئی، جس نے اسے بتایا کہ اسے اپنے انجام کو پہنچانے کا حکم ہے۔ اس کے بعد ادریس آسمان کے فرشتے کے گلے لگ گئے اور چوتھے آسمان پروفات اورفوری زنگی پائی اور پھر وہیں رہے، (ان روایات یا قصوں کی حقیقت واللہ اعلم)۔

[138] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/21:69 

[139] اد کرو وہ وقت، جب ہم نے طُور کو تم پر اٹھا کر تم سے پختہ عہد لیا تھا / https://tanzil.net/#search/quran/رَفَعْنَا / Physically lifting mountain

[140] https://www.alislam.org/quran/view/?page=264&region=P5&CR=V6,TS 

[141] https://www.alislam.org/quran/view/?page=265&region=P5&CR=V6,TS 

[142] https://www.alislam.org/quran/view/?page=266&region=P5&CR=V6,TS 

[143] [  نوٹ : یہ بیان درست نہیں ملاحضہ (قرآن 2:63) اور  بارہ ریفرنسزقبل ]

[144] https://www.alislam.org/quran/view/?page=266&region=P5&CR=V6,TS 

[145] https://www.alislam.org/quran/view/?page=267&region=P5&CR=V6,TS 

[146] [ مرزا صاحب کی تفسیر ابن عربی اور نواب صدیق حسن خان (1823-1890) اہل الحدیث / کے حوالہ جات سے بھری پڑی ہے لگتا ہے کہ  ان دو حضرات کے علاوہ دوسرے مسلمان علماء ریفرنس کے قبل نہیں؟ ]

[147] پاکٹ بک صفحہ 821/ راضی تفسیر کبیر

[148]  https://bit.ly/KhatmeRoot / وفات مسیح - ااہل ثلیث (منکرین ختم نبوت) کی جڑ کا خاتمہ

[149] Enoch is a biblical figure and patriarch prior to Noah's flood and the son of Jared and father of Methuselah. He was of the Antediluvian period in the Hebrew Bible. The text of the Book of Genesis says Enoch lived 365 years before he was taken by God. The text reads that Enoch "walked with God: and he was no more; for God took him" (Gen 5:21–24), which is interpreted as Enoch's entering heaven alive in some Jewish and Christian traditions, and interpreted differently in others. / https://en.wikipedia.org/wiki/Enoch 

[150] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/4:158 

[151] https://biblehub.com/genesis/5-24.htm / Hebrew: lā·qaḥ,  לָקַ֥ח ,  the rib which had taken from the man/ https://biblehub.com/hebrew/lakach_3947.htm  https://www.biblegateway.com/passage/?search=%D9%BE%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%A6%D8%B4+5&version=CSB 

[152] https://www.biblegateway.com/passage/?search=%D9%BE%DB%8C%D8%AF%D8%A7%D8%A6%D8%B4+5&version=ERV-AR 

[153]https://www.biblegateway.com/passage/?search=%D9%85%D9%84%D8%A7%DA%A9%DB%8C+4&version=ERV-UR 

[154] https://www.biblegateway.com/passage/?search=%D8%A7%D9%88%D9%91%D9%84%20%D8%B3%D9%84%D8%A7%D8%B7%DB%8C%D9%86+18&version=ERV-UR 

[155] https://www.biblegateway.com/passage/?search=%D9%85%D9%84%D8%A7%DA%A9%DB%8C+4&version=ERV-UR 

[156] https://tanzil.net/#trans/ur.jalandhry/6:85 ،  (قرآن: 37:123,132)

[157] https://en.wikipedia.org/wiki/Elijah 

[158] https://tanzil.net/#trans/ur.jalandhry/6:85 

[159] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/37:132 

[160] (ملاحظہ ہو تفسیر ابن جریر ص ٣٥، ج ٣٢ وابن کثیر ص ٩١ ج ٤ و تفسیر مظری ص ٤٣١ ج ٨ اور بائبل کی کتاب سلاطین اول ٦١۔ ٩٢ تا ٣٣، ٧١: ١)/ https://trueorators.com/quran-tafseer/37/123 

[161] https://trueorators.com/quran-tafseer/37/123 

[162] https://en.wikipedia.org/wiki/Malachi_4 

[163]  Robert Jamieson, Andrew Robert Fausset; David Brown. Jamieson, Fausset, and Brown's Commentary On the Whole Bible. 1871.Public Domain This article incorporates text from this source, which is in the public domain. / https://en.wikipedia.org/wiki/Malachi_4#Elijah_the_prophet 

[164] https://www.biblegateway.com/passage/?search=%D9%84%D9%88%D9%82%D8%A7+1&version=ERV-UR 

[165] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/jews-christian-footsteps.html 

[166] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/4:158 

[167] https://trueorators.com/quran-tafseer/3/54 

[168] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/3:55 / https://trueorators.com/quran-tafseer/3/55 

[169] https://trueorators.com/quran-tafseer/4/157 

[170] https://trueorators.com/quran-tafseer/4/158 

[171]  https://trueorators.com/quran-tafseer/3/55/ (Taiseer ul Quran، by Abdul Rehman Kilani)

[172] https://trueorators.com/quran-tafseer/3/55 / [Maarif ul Quran، by Mufti Muhammad Shafi]

[173]  اور تورات

[174] https://www.alfazl.com/2021/06/01/31055/ 

[175] https://trueorators.com/quran-tafseer/17/81 

[176] http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/033/appx.html#6 

[177] https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/2:259 

[178]  وَأُحْيِي الْمَوْتَىٰ بِإِذْنِ اللَّهِ  (مرددوں کو زندہ کرتا ہوں الله تعالی کے حکم سے)  [قرآن: 3:49] اگر عیسیٰ علیہ السلام الله تعالی کے حکم سے مردوں کو زندہ کر سکتے ہیں تو کیا الله تعالی ایسا نہیں کر سکتا ؟

[179] لامہ تفتازانی (۷۲۲ ھ۔۷۹۲ھ) شرح عقائد نسفی میں لکھتے ہیں :

     ثبت انہ اٰخر النبیاء ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔  فان قیل قد روی فی الحدیث نزول عیسی علیہ السلام بعدہ قلنا نعم لکنہ یتابع محمدعلیہ السلام لان شریعۃ قد نسخت لا یکون الیہ وحی ولا نصب احکام بل یکون خلیفۃ رسول اللہ علیہ السلام (طبع مصر، ص ۱۳۵)     یہ ثابت ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم آخری نبی ہیں۔۔۔ اگر کہا جائے کہ آپ کے بعد عیسی علیہ السلام کے نزول کا ذکر احادیث میں آیا ہے ، تو ہم کہیں گے کہ ہاں ، آیا ہے ، مگر وہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوں گے ، کیونکہ ان کی شریعت تو منسوخ ہو چکی ہے ، اس لیے نہ ان کی طرف وحی ہو گی اور نہ وہ احکام مقرر کریں گے ، بلکہ وہ رسول اللہ ﷺ کے نائب کی حیثیت کام کریں گے۔    اور یہی بات علامہ آلوسی تفسیر روح المعانی میں کہتے ہیں :      ثمالہ علیہ السلام حین ینزل باق علی نبوتہ السابقۃ لم یعزل عنھا بحال لکنہ لا یتعبد بھالنسخھا نی حقہ وحق غیر ہ وتکلیفہ باحکام ہذا الشریعۃ اصلاً وفرعاً فلا یکون الیہ علیہ السلام وحی ولا نصب احکام بدیکون خلیفہ لرسول اللہ صلی اللہ لعیہ و سلم وحاکما من حکام ملتہ بین امتہ (جلد۲۲۔ص۳۲)        پھر، عیسی علیہ السلام جب نازل ہوں گے تو وہ اپنی سابق نبوت پر باقی ہوں گے ، بہرحال اس سے معزول تو نہ ہو جائیں گے ، مگر وہ اپنی پچھلی شریعت کے پیرو نہ ہوں گے کیونکہ وہ ان کے اور دوسرے سب لوگوں کے حق میں منسوخ ہو چکی ہے ، اور اب وہ اصول اور فروغ مین اس شریعت کی پیروی پر تکلف ہوں گے ، لہذا ان پر نہ اب وحی آئے گی اور نہ انہیں انہیں احکام مقرر کرنے کا اختیار ہو گا، بلکہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے نائب اور آپ کی امت میں ملت محمدیہ کے حاکموں میں سے ایک حاکم کی حیثیت سے کام کریں گے۔   امام رازی اس بات کو اور زیادہ وضاحت کے ساتھ اس طرح بیان کرتے ہیں : انتہاء الانبیاء الی مبعث محمدصلی اللہ علیہ وسلم فعند مبعثہ انتھت تلک المدۃ لا یبعدان یصیر(ای عیسی ابن مریم) بعد نزولہ تبعاً لمحمدؐ (تفسیر کبیر، ج۔۳۔ص ۳۴۳)    انبیاء کا دور محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت تک تھا۔ جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم مبعوث ہو گئے تو انبیاء کی آمد کا زمانہ ختم ہو گیا۔ اب یہ بات بعید از قیاس نہیں ہے کہ حضرت عیسیٰ نازل ہونے کے بعد محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے تابع ہوں گے۔

[180]  اگرچہ دو روایتوں (نمبر ۵ و ۲۱) میں بیان کیا گیا ہے کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام نازل ہونے کے بعد پہلی نماز خود پڑھائیں گے، لیکن بیشتر اور قوی تر روایات (نمبر ۳،۷،۹،۱۵،۱۶) یہی کہتی ہیں کہ وہ نماز میں امامت کرانے سے انکار کریں گے اور جو اس وقت مسلمانوں کا امام ہوگا اسی کو آگے بڑھائیں گے۔ اسی بات کو محدثین اور مفسرین نے بالاتفاق تسلیم کیا ہے

[181] https://tanzil.net/#9:29 

[182] https://www.alislam.org/quran/view/?page=352&region=P6 / تفسیر مسیح ماعود ، سورہ احزاب  صفحہ ٣٥٢ / 352

[183] https://en.wikipedia.org/wiki/Messiah#Judaism 

[184] https://goo.gl/maps/f9ick6TGpur5ri6r6 

[185]  http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/033/appx.html#6 

[186] https://en.wikipedia.org/wiki/Ben_Gurion_Airport#/media/File:Israel_outline_center_ta.png 

[187] https://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/033/appx.html 

[188] https://ur.wikipedia.org/wiki/فنا_(تصوف) 

[189] https://www.alislam.org/quran/view/?page=367&region=P6&CR=H3,TS 

[190] https://www.alislam.org/quran/view/?page=378&region=P6&CR=H3,TS 

[191] تفسیرسورہ الاحزاب آیت ختم نبوت سے ماخوز

[192]  آمدِ مہدی علیہ السلام کے حوالے سے کثیر تعداد میں ائمہ حدیث نے اس موضوع پر روایت کی جانے والی احادیث کو متواتر کہا ہے۔ واضح رہے کہ متواتر احادیث کو ماننا واجب کا درجہ رکھتا ہے اور ان پر ایمان نہ رکھنا گمراہی کی دلیل ہے۔ ظہورِ امام مہدی علیہ السلام کے باب میں مروی احادیث کو بیان کرنے والے ائمہ میں امام قرطبی، امام ابن قیم جوزی، امام ابن حجر عسقلانی، امام سخاوی، امام جلال الدین سیوطی، امام ابن حجر مکی، ملا علی قاری، امام زرقانی، امام قسطلانی اور امام برزنجی رحمھم اللہ کے اسماء گرامی قابل ذکر ہیں۔ علاوہ ازیں جن ائمہ نے ان حدیث متواترہ سے استنباط کیا ہے ان میںامام سفیان ثوری، امام ابن حبان، امام بیہقی، امام ابو القاسم السہیلی، امام ابو عبداللہ القرطبی، امام ابن تیمیہ، امام ابن القیم جوزی، امام ابن کثیر، امام جلال الدین سیوطی، امام بن حجر مکی رحمھم اللہ شامل ہیں۔

[193] ضعیف ، موضوع احادیث سے عقیدہ کھڑا نہیں ہو سکتا جب تک قرآن سپورٹ نہ کرے-/ https://forum.mohaddis.com/threads/23512/ ، https://tbsra.blogspot.com/2014/02/blog-post_9682.html 

[194](‏‏‏‏ وَلَا الْمَهْدِيُّ إِلَّا عِيسَى ابْنُ مَرْيَمَ.) اور مہدی عیسیٰ بن مریم (ع) کے علاوہ کوئی نہیں ہے  (سنن ابن ماجہ, حدیث: 4039)  تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 541، ومصباح الزجاجة: 1425) (ضعیف جدا)» ‏‏‏‏ (سند میں محمد بن خالد الجندی ضعیف راوی ہیں، اور حسن بصری مدلس ہیں، اور روایت عنعنہ سے کی ہے، لیکن «ولا تقوم الساعة إلا على شرار الناس» کا جملہ دوسری حدیث سے ثابت ہے) قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا إلا جملة الساعة فصحيحة- قال الشيخ زبير على زئي: إسناده ضعيف ¤ فيه علل : الحسن عنعن (تقدم:243) الجندي لم يثبت توثيقه عن ابن معين ، الإختلاف فى السند ، أبان لم يسمع من الحسن ولبعض الحديث شواهد ضعيفة ، والمهدي (خليفة المسلمين) غير عيسى بن مريم كما جاء فى الأحاديث المتواترة ۔ https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=4&hadith_number=4039 

[195] ابن ماجہ کی حدیث لَاالْمَھْدِی اِلَّا عِیْسٰی کے تائیدی شواہد/ https://www.alfazl.com/2020/01/10/12401/ 

[196] علم الحديث کے سنہری اصول :  https://bit.ly/Hadith-Basics 

[197] https://bit.ly/KhatmeRoot 

[198] https://bit.ly/Al-Mahdi 

[199] https://bit.ly/NabuwatTrinity 

[200] http://rightfulreligion.blogspot.com/2018/01/introduction.html 

[201] http://rightfulreligion.blogspot.com/2018/01/introduction.html 

[202] https://forum.mohaddis.com/threads/21784/page-35 

[203] https://islamicurdubooks.com/hadith/mukarrat-.php?hadith_number=7274&bookid=1 

[204]  اشتہار مرزا مورخہ ۵؍ مئی ۱۹۰۶ء مندرجہ ، مجموعہ اشتہارات ص۵۵۴، ج۳و تبلیغ رسالت ص ۱۱۱، ج۱۰

[205] اخبار بدرجلہ ۶نمبر ۱۷مورخہ ۲۵؍ اپریل ۱۹۰۷ء ص۷و ملفوظات مرزا ص۲۰۶، ج۵

[206] آپ کی وفات ۱۵؍ مارچ ۱۹۴۸ء میں پاکستان آکر سرگودھا میں واقع ہوئی، سیرت ثنائی ص۴۷۹انا للّٰہ وانا الیہ راجعون۔ ابو صہیب

[207] بدر جلد ۷نمبر ۲۲مورخہ ۲؍ جون ۱۹۰۸ء ص۴کالم نمبر۱و سیرت المھدی ص۹تا ۱۱، ج۱طبعہ دوم

[208] حیات نواب میر ناصر ص۱۴

[209] https://salaamone.com/kashmir/ 

[210] https://salaamone.com/great-jihad/ 

[211] https://trueorators.com/quran-tafseer/8/60 

[212] Daud A Hanif (2003). "Prophets of God". The Muslim Sunrise (2)/ https://en.wikipedia.org/wiki/Ahmadiyya 

[213] اہل تثلیث کے مطابق بنی اسرایئل کی روایت اگر قرآن کے کجھلف نہ ہوں تو استفادہ جائز ہے (احمدیہ پاکٹ بک صفحہ 776)

[214] The Six Ages of the World (Latin: sex aetates mundi), also rarely Seven Ages of the World (Latin: septem aetates mundi), is a Christian historical periodization first written about by Augustine of Hippo circa AD 400./ https://en.wikipedia.org/wiki/Six_Ages_of_the_World 

[215] https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=3456 

[216] https://en.wikipedia.org/wiki/Abraham_Accords 

[217] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/Easa.html 

[218] https://bit.ly/Al-Mahdi 

[219] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/misquoting-quran.html 

[220] https://tanzil.net/#33:40 

[221] http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/033/appx.html#2 

[222] http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/033/appx.html#3 

[223] http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/033/appx.html#4 

[224] https://bit.ly/Al-Mahdi مہدی

[225] https://tanzil.net/#search/quran/مھدی/p0 

[226] علم الحديث کے سنہری اصول :  https://bit.ly/Hadith-Basics 

[227] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/argument.html 

[228] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/Easa.html / قرآن ،سورة المائدہ آیات 116,117 / (قرآن 5:109،116,117 اور43:61)

 کذاب تفسیر / https://www.alislam.org/quran/view/?page=191&region=P7&CR=H3,TS  / https://www.alislam.org/quran/view/?page=75&region=P4&CR=H2,TS (5:109)/ https://www.alislam.org/quran/view/?page=137&region=H2&CR=P4,TS (5:116) https://www.alislam.org/quran/view/?page=138&region=H2&CR=P4,TS (5:117)

[229] http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/033/appx.html#7 / محمدیہ پاکٹ بک ص ٥٦٠/

[230] https://quransubjects.blogspot.com/2019/11/dawah.html 

[231] https://trueorators.com/quran-tafseer/16/125