احکام القرآن https://Quran1book.blogspot.com
Updated: 6 /5/22 @9:05 PM
حصہ اول
Digital Book (Over 314 Pages A-4) / https://bit.ly/AhkamAlQuran-pdf
تحقیق و ترتیب: بریگیڈیئرآفتاب احمد خان (ر)
Quran Commands [Ahkaam Al Quran English]
أعوذ بالله من الشیطان الرجیم o بسم الله الرحمن الرحيم o
لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ اس کی ہٹ دھرمی پر گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا- ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ پر اہل بیت، خلفاء راشدین واصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین پر- .دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی (ضَلَالَۃٌ) ہے- جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا -
بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ریٹائرڈ) فری لانس مصنف ، محقق اور بلاگر ہیں، پولیٹیکل سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، اسٹریٹجک اسٹڈیزمیں ماسٹرزکیا ہے اور قرآن کریم، دیگر آسمانی کتب، تعلیمات اور پیروکاروں کے مطالعہ میں دو دہائیوں سے زیادہ وقت صرف کیا ہے- وہ 2006 سے " Defence Journal کے لیے لکھ رہے ہیں۔ ان کی منتخب تحریریں پچاس سے زائد کتب میں مہیا [ہیں۔ ان کے علمی و تحقیقی کام کو 4.5 ملین تک رسائی ہو چکی ہے:
https://SalaamOne.com/About / https://www.facebook.com/IslamiRevival
E Mail: Tejdeed@gmail.com
1) کاپی رایٹ نہیں ویب لنک[1] (https://bit.ly/AhkamAlQuraan) کا حوالہ دے کر میڈیا پر کاپی اور شیئر کر سکتے ہیں
2) یہ قرآن نہیں نہ قرآن کا نعم البدل، صرف قرآن فہمی کی کوشش ہے- قرآن کو سمجھنے کے لیے عربی قرآن[2]، تراجم و تفاسیر[3] سے استفادہ کریں-
3) خلاصہ قرآن (30 پارہ ): https://bit.ly/Quran30ParahSummary
انسان کو الله تعالی ںے فطری طور پر اچھائی اور برائی میں پہچان کی صلاحیت کے ساتھ پیدا کیا- لیکن شیطان ہر وقت اس کو گمراہ کرنے کی کوشش کرتا رھتا ہے اور اکثر کمزور لوگوں کو گمراہ کرنے میں کامیاب ہو جاتا ہے- الله تعالی نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے رسول اور نبی بھیجے اور کچھ پر کتب بھی نازل فرمائیں- وقت کے ساتھ ساتھ ان میں تحریف کے باوجود توحید اور احکام موجود ہیں لیکن یہود و نصاری نے کتاب الله کے ساتھ اپنی لکھی کتب کو بھی شامل کر لیا، تورات کے ساتھ تلمود (38 جلد) اور انجیل کے ساتھ 23 کتب سے کتاب الله کو پس پشت کر دیا[4]- اللہ نے خاتم النبیین محمد رسول اللهﷺ پر قرآن نازل فرمایا اور اس کی حفاظت کا ذمہ بھی خود لیا[5] کہ اس میں سے کوئی لفظ تبدیل نہیں ہوگا- یہ واحد کتاب ہے جو قیامت تک باقی رہے گی اور اس کے متن اور اس کے معنی تبدیل نہ ہوں گے اور اس کے عجائبات و معجزات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ قرآن پر غور و فکر اور تدبرکرنے والوں کو ہر مرتبہ اس میں ایک نیا پیغام اور ایک نصیحت آمیز ہدایت ملتی رہتی ہے- "یہ وہ کتاب ہے جس کی آیتیں محکم اور مضبوط بنائی گئی ہیں اور پھر تفصیل کے ساتھ کھول کھول کر بیان کی گئی ہیں یہ اس کی طرف سے ہے جو بڑا حکمت والا، بڑا باخبر ہے."[6]
جید علماء کرام نے اپنی زندگیاں قرآن کی سمجھ ، تدبر، تفکر، استخراج و استنباط، دعوت و تبلیغ میں وقف کر دیں اور ہر طرح کے مسائل کے حل قرآن سسے تلاش کیے اور علم کا ایک عظیم خزانہ اگلی نسلوں کو مہیا کر دیا- لا تعداد تحقیق ، کتب اور تفاسیر موجود ہیں- درجات کے لحاظ سے ان میں سب سے اعلیٰ اور بڑا کام قرآن سے شریعت کے قوانین کا اخذ کرنا ہے، کیونکہ شریعت کے قوانین قرآن کا عملی پیغام ہے جو انسانیت کے لیے اس کی روزمرہ کی زندگی میں رہنمائی کرتا ہے، اورتمام حالات میں بہترین نتائج کی طرف لے جاتا ہے جن کا ہر مسلمان کو سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چنانچہ علماء کے ایک گروہ نے ان احکام کو جمع کرنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں اس موضوع پر بہت سی کتابیں لکھی گیئں۔ اس موضوع پر سب سے قدیم تالیفات میں سے امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب "احکام القرآن" جسے اس موضوع پر پہلی کتاب بھی کہا جاتا ہے[7]۔ اس کے بعد ہر مکتب کے فقہاء نے "احکام القرآن" لکھے، اس موضوع پر جو کچھ تالیف کیا گیا ان میں سے مشہور سولہ کتب کی نشاندہی مفتی تقی عثمانی صاحب ںے کی ہے[8]-
کسی شخص کے لیے ممکن نہیں کہ وہ قرآن میں سے علم اور نورھدایت کے خزانوں کو مکمل طور پر حاصل کرنے کا دعوی کرسکے- چودہ سو سال کی تحقیقات کے باوجود کچھ اہم "احکام القرآن" [9]،[10] نظر انداز ہو گۓ جس کے سنگین دوررس اثرات[11] فہم قرآن[12]،"ایمان[13]" اور"اسلام" پر مرتب ہونے، یہ دانستہ ہوا یا نادستہ واللہ اعلم، لیکن ان کی نشاندہی[14]،[15]،[16] احقر نےاس کتاب میں بھی کر دی ہے- اہل علم اس پر مزید کام کرکہ تلافی کر سکتے ہیں-
احقرقرآن کا ادنی طالب علم ہے، یہ (Digital Book) عوام الناس کے فائدہ اور قرآن فہمی میں دلچسپی پیدا کرنے کی کوشش ہے- مختصر اور مکمل انڈکس میں مضامین ہیڈنگ (hyperlinked) هایپرلنکڈ ہیں جس کو کلک کرکہ متعلقہ مضمون پر پہنچا جا سکتا ہے جفت (even) صفحہ نمبرکے ساتھ 'انڈیکس' کو کلک کرکہ 'انڈکس' پر فوری طور پرواپس جا سکتے ہیں- کتاب کی موج سواری (surfing) آسان ہے- ترجمہ کے ساتھ آیات کے ریفرنس اور لنکس[17] کی مدد سے مزید مطالعہ میں آسانی ہوسکتی ہے- کوشش کی ہے کہ غلطی نہ ہو اگر ہو تو اللہ سے معافی کا طلب گار ہوں-
والسلام
بریگیڈیئرآفتاب احمد خان (ر)
Lahore, Pakistan, 19 March 2022
مکمل انڈکس حصہ اول
احکام القرآن
حصہ اول
احکم ( جمع حُكْم) ایک اسلامی اصطلاح ہے جس کے کئی معنی ہیں۔ قرآن میں 'حکم'[18] کا لفظ مختلف طریقوں سے ثالثی، فیصلہ، اختیار، یا الله تعالی کی مرضی کے لیے استعمال ہوا ہے۔ ابتدائی اسلامی دور میں، خوارج نے یہ اعلان کرتے ہوئے اسے سیاسی مفہوم دیا کہ وہ صرف اللہ کے حکم کو قبول کرتے ہیں (حُكْمُ اللّهِ)[19]- اسلامی تاریخ کے دوران اس لفظ نے نئے معنی حاصل کیے، جو دنیاوی انتظامی طاقت یا عدالتی فیصلے کے لیے استعمال ہوتے ہیں۔ احکام، جمع ہے حکم کی، اس سے عام طور پر مخصوص قرآنی احکام، یا فقہ کے طریقہ کار سے اخذ کیے گئے قانونی احکام کی طرف اشارہ ہوتا ہے۔ شرعی احکام پانچ قسموں میں سے ایک میں آتے ہیں جنہیں "الاحکام الخمسہ" کہا جاتا ہے: فرض یا واجب، مستحب (مندوب)، مباح (غیر جانبدار/جائز)،مکروہ ( قابل مذمت)، اور حرام۔ قرآن میں دوسرا لفظ "أمر" (command) بھی 247 آیات میں 265مرتبہ استعمال ہوا ہے[20]- جس کے معنی (context) کے مطابق بہت وسیع بھی ہو سکتے ہیں :
بَدِيعُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۖ وَإِذَا قَضَىٰ أَمْرًا فَإِنَّمَا يَقُولُ لَهُ كُن فَيَكُونُ ﴿١١٧﴾
وہ (الله تعالی ) آسمانوں اور زمین کا موجد [ بغیر مادے اور نمونے کے پیدا کرنے والا ہے] ہے اور جب وہ کسی امر کا فیصلہ کرلیتا ہے تو بس اس کیلئے فرمادیتا ہے کہ ہوجا! تو وہ ہوجاتا ہے (2:117)
یہ کتاب عام مسلمانوں کے لئے قرآن فہمی میں مدد (aid/help) کے لیے مدون کی گیئی ہے، فقہ کی کتاب نہیں کیونک[21]ہ فقہی مسائل میں اختلافات ہوتے ہیں جن کو دلائل کی بنیاد پر قبول یا مسترد کیا جا سکتا ہے- مختلف اہم امور پراللہ کے احکام پر قرانی آیات اور ترجمہ، کہیں مختصر تشریح کے ساتھ پیش کیا گیا ہے لیکن جس فقہ پر قاری مطمئن ہو اسی پر عمل پیرا ہو- قرآن میں تقریبا پانچ سو آیات احکام بیان کی جاتی ہیں مگر یہ حتمی تعداد نہیں کیونکہ کئی مرتبہ ایک آیت میں کئی احکام ہو سکتے ہیں- اورکبھی کئی آیات مل کر کسی حکم کو واضح کرتی ہیں- کوشش ہے کہ جتنا ممکن ہو احکام اور اہم آیات کو اکٹھا کیا جاسکے-
اس سوال کا جواب الله تعالی نے قرآن[22]میں دیا:[23]
بِسْمِ اللَّـهِ الرَّحْمَـٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ هُوَ اللَّـهُ أَحَدٌ ﴿١﴾ اللَّـهُ الصَّمَدُ ﴿٢﴾ لَمْ يَلِدْ وَلَمْ يُولَدْ ﴿٣﴾ وَلَمْ يَكُن لَّهُ كُفُوًا أَحَدٌ ﴿٤﴾
کہو کہ وہ (ذات پاک جس کا نام) الله (ہے) ایک ہے (1) معبود برحق جو بےنیاز ہے (2) نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا (3) اور کوئی اس کا ہمسر نہیں (112:4)[24]
اَللّٰہُ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَۚ اَلۡحَیُّ الۡقَیُّوۡمُ ۬ ۚ لَا تَاۡخُذُہٗ سِنَۃٌ وَّ لَا نَوۡمٌ ؕ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الۡاَرۡضِ ؕ مَنۡ ذَا الَّذِیۡ یَشۡفَعُ عِنۡدَہٗۤ اِلَّا بِاِذۡنِہٖ ؕ یَعۡلَمُ مَا بَیۡنَ اَیۡدِیۡہِمۡ وَ مَا خَلۡفَہُمۡ ۚ وَ لَا یُحِیۡطُوۡنَ بِشَیۡءٍ مِّنۡ عِلۡمِہٖۤ اِلَّا بِمَا شَآءَ ۚ وَسِعَ کُرۡسِیُّہُ السَّمٰوٰتِ وَ الۡاَرۡضَ ۚ وَ لَا یَئُوۡدُہٗ حِفۡظُہُمَا ۚ وَ ہُوَ الۡعَلِیُّ الۡعَظِیۡمُ ﴿۲۵۵﴾
آیات الکرسی
"اللہ تعالٰی ہی معبود برحق ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں جو زندہ اور سب کا تھامنے والا ہے ، جسے نہ اونگھ آتی ہے نہ نیند ، اس کی ملکیت میں زمین اور آسمانوں کی تمام چیزیں ہیں ۔ کون ہے جو اس کی اجازت کے بغیر اس کے سامنے شفاعت کرسکے ، وہ جانتا ہے جو اس کے سامنے ہے اور جو ان کے پیچھے ہے اور وہ اس کے علم میں سے کسی چیز کا احاطہ نہیں کر سکتے مگر جتنا وہ چاہے ، اس کی کرسی کی وُسعت نے زمین اور آسمان کو گھیر رکھا ہے اور اللہ تعالٰی ان کی حفاظت سے نہ تھکتا ہے اور نہ اُکتاتا ہے وہ تو بہت بلند اور بہت بڑا ہے [سورة البقرة 2 آیت: 255][25], [26]
اللَّهُ نُورُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ ۚ مَثَلُ نُورِهِ كَمِشْكَاةٍ فِيهَا مِصْبَاحٌ ۖ الْمِصْبَاحُ فِي زُجَاجَةٍ ۖ الزُّجَاجَةُ كَأَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّيٌّ يُوقَدُ مِن شَجَرَةٍ مُّبَارَكَةٍ زَيْتُونَةٍ لَّا شَرْقِيَّةٍ وَلَا غَرْبِيَّةٍ يَكَادُ زَيْتُهَا يُضِيءُ وَلَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌ ۚ نُّورٌ عَلَىٰ نُورٍ ۗ يَهْدِي اللَّهُ لِنُورِهِ مَن يَشَاءُ ۚ وَيَضْرِبُ اللَّهُ الْأَمْثَالَ لِلنَّاسِ ۗ وَاللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ ﴿٣٥﴾
"اللہ آسمانوں اور زمین کا نور ہے اس کے نور کی مثال ایسی ہے کہ گویا ایک طاق ہے اس میں چراغ ہے اور چراغ ایک قندیل میں ہے اور قندیل ایسی صاف شفاف ہے گویا موتی جیسا چمکتا ہوا تارا ہو ‘ اس میں ایک مبارک درخت کا تیل جلایا جاتا ہے یعنی زیتون کہ نہ مشرق کی طرف ہے نہ مغرب کی طرف ایسا معلوم ہوتا ہے کہ اس کا تیل خواہ آگ اسے نہ بھی چھوئے جلنے کو تیار ہے بڑی روشنی پر روشنی ہو رہی ہے اللہ اپنے نور سے جس کو چاہتا ہے سیدھی راہ دکھاتا ہے اور اللہ جو مثالیں بیان فرماتا ہے تو لوگوں کے سمجھانے کے لیے اور اللہ ہر چیز سے واقف ہے" (24:35)[27]،[28]
"الله " قرآن میں 2669 مرتبہ ، 1842 آیات میں دہرایا گیا ہے، لنک[29] پر ملاحضہ کر سکتے ہیں-
اللہ کو اس کی صفات کے لئے موزوں دیگر خوبصورت ناموں (اسماء الحسنیٰ) کے ساتھ پکارا جا سکتا ہے:
"وہ اللہ ہے، اس کے سوا کوئی خدا نہیں، اس کے لیے بہترین نام ہیں"(قرآن 20:8).
.قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی. (سورت بنی اسرائیل (آیت:۱۱۰)
’’کہہ دو کہ تم (اللہ کو) اللہ (کے نام سے) پکارو یا رحمن (کے نام سے) جس نام سے پکارو اُس کے سب نام اچھے ہیں۔‘‘ (قرآن 17:110)[30]
اسلامی روایات میں الله کے 99 صفاتی ناموں کا ذکر ہے (تعداد حتمی نہیں):
الرحمن ٭الرحيم ٭ الملك ٭ القدوس ٭ السلام ٭ المؤمن٭ المهيمن٭ ٭العزيز ٭ الجبار ٭ ٭المتكبر ٭ الخالق ٭ البارئ ٭ المصور ٭ الغفار ٭ القهار ٭ الوهاب ٭ الرزاق ٭ الفتاح ٭ العليم ٭ ٭القابض ٭ الباسط ٭ الخافض ٭ الرافع ٭ المعز ٭ المذل ٭ السميع ٭ البصير ٭ الحكم ٭ العدل٭ ٭اللطيف ٭ الخبير ٭ ٭الحليم ٭ العظيم ٭ الغفور ٭ الشكور ٭ العلي ٭ الكبير٭ الحفيظ ٭ المقيت ٭ ٭الحسيب ٭ الجليل ٭ الكريم ٭ الرقيب ٭ المجيب ٭ الواسع ٭ الحكيم ٭ ٭الودود٭ المجيد٭ الباعث ٭ ٭الشهيد ٭ الحق ٭ الوكيل ٭ القوي ٭ المتين ٭ ٭الولي ٭ الحميد ٭ المحصي ٭ المبدئ ٭ المعيد ٭ ٭المحيي ٭ المميت ٭ الحي ٭ ٭القيوم ٭ الواجد ٭ الماجد ٭ الواحد ٭ الأحد ٭ الصمد ٭ القادر ٭ ٭المقتدر٭ ٭المقدم ٭ المؤخر٭ الأول ٭ الآخر ٭ الظاهر ٭ الباطن ٭ الوالي٭ المتعالي ٭ ٭البر٭ ٭التواب ٭ المنتقم ٭ العفو ٭ الرءوف ٭ مالك الملك ٭ ذو الجلال والإكرام ٭ الرب ٭ المقسط ٭ ٭الجامع٭ الغني ٭ المغني ٭ المانع٭ الضار٭ ٭النافع٭ النور ٭ الهادي ٭ البديع ٭ الباقي ٭ ٭الوارث٭ الرشيد٭ الصبور٭
وہی اللہ ہے جس کے سوا کوئی معبود نہیں، رحمن، رحیم، بادشاہ، برائیوں سے پاک، بے عیب، امن دینے والا، محافظ، غالب، زبردست، بڑائی والا، پیدا کرنے والا، جان ڈالنے والا، صورت دینے وال، درگزر فرمانے والا، سب کو قابو میں رکھنے والا، بہت عطا فرمانے والا، بہت روزی دینے والا، سب سے بڑا مشکل کشا، بہت جاننے والا، روزی تنگ کرنے ولا، عزت دینے والا، ذلت دینے والا، سب کچھ سننے والا، دیکھنے والا، حاکم مطلق، سراپا انصاف، لطف وکرم والا، باخبر، بردبار، بڑا بزرگ، بہت بخشنے والا، قدردان بہت بڑا، محافظ، قوت دینے والا، کفایت کرنے والا، بڑے مرتبے والا، بہت کرم والا، بڑا نگہبان، دعائیں قبول کرنے والا، وسعت والا، حکمتوں والا، محبت کرنے والا، بڑا بزرگ، مردوں کو زندہ کرنے والا، حاضر وناظر، برحق کار ساز، بہت بڑی قوت والا، شدید قوت والا، مددگار، لائق تعریف، شمار میں رکھنے، پہلی بار پیدا کرنے والا، دوبارہ پیدا کرنے والا، موت دینے والا، قائم رکھنے والا، پانے والا، بزرگی والا، تنہا، بے نیاز، قادر، پوری طاقت والا، آگے کرنے والا، پیچہے رکھنے والا، سب سے پہلے، سب کے بعد، ظاہر، پوشیدہ، متصرف، بلند و برتر، اچہے سلوک والا، بہت توبہ قبول کرنیوالا، بدلہ لینے والا، بہت معاف کرنے والا بہت مشفق، ملکوں کا مالک، جلال واکرام والا، پروردگار، عدل کرنے والا، جمع کرنے والا، بے نیاز، غنی بنانے والا، روکنے والا، ضرر پہنچانے والا، نفع بخش ہدایت دینے والا، بے مثال ایجاد کرنے والا، باقی رہنے والا، نیکی کو پسند کرنے والا، صبر وتحمل والا۔
مزید تفصیل[31] : خالق کائنات کون؟[32]
ترجمہ : سورہ الحجر آیت 26 سے 50[33]
" ہم نے انسان کو سٹری ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے بنایا (15:26 تفسیر[34]) اور اُس سے پہلے جنوں کو ہم آگ کی لپٹ سے پیدا کر چکے تھے پھر یاد کرو اُس موقع کو جب تمہارے رب نے فرشتوں سے کہا کہ "میں سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے ایک بشر پیدا کر رہا ہوں جب میں اُسے پورا بنا چکوں اور اس میں اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اس کے آگے سجدے میں گر جانا[35]" چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا رب نے پوچھا "اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟ اس نے کہا "میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اِس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے" رب نے فرمایا "اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تو مردود ہے اور اب روز جزا تک تجھ پر لعنت ہے" اُس نے عرض کیا "میرے رب، یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس روز تک کے لیے مہلت دے جبکہ سب انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے" فرمایا "اچھا، تجھے مہلت ہے اُس دن تک جس کا وقت ہمیں معلوم ہے" وہ بولا "میرے رب، جیسا تو نے مجھے بہکایا [36]اُسی طرح اب میں زمین میں اِن کے لیے دل فریبیاں پیدا کر کے اِن سب کو بہکا دوں گا سوائے تیرے اُن بندوں کے جنہیں تو نے اِن میں سے خالص کر لیا ہو" فرمایا "یہ راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے بے شک، جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں اور ان سب کے لیے جہنم کی وعید [37]ہے[38]" یہ جہنم (جس کی وعید پیروان ابلیس کے لیے کی گئی ہے) اس کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کے لیے اُن میں سے ایک حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے بخلاف اِس کے متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے اور اُن سے کہا جائے گا کہ داخل ہو جاؤ ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر اُن کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کپٹ ہوگی اسے ہم نکال دیں گے، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے اُنہیں نہ وہاں کسی مشقت سے پالا پڑے گا اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے اے نبیؐ، میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہوں مگر اِس کے ساتھ میرا عذاب بھی نہایت دردناک عذاب ہے (15:50[39])
وَ اِذۡ اَخَذَ رَبُّکَ مِنۡۢ بَنِیۡۤ اٰدَمَ مِنۡ ظُہُوۡرِہِمۡ ذُرِّیَّتَہُمۡ وَ اَشۡہَدَہُمۡ عَلٰۤی اَنۡفُسِہِمۡ ۚ اَلَسۡتُ بِرَبِّکُمۡ ؕ قَالُوۡا بَلٰی ۚ ۛ شَہِدۡنَا ۚ ۛ اَنۡ تَقُوۡلُوۡا یَوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ اِنَّا کُنَّا عَنۡ ہٰذَا غٰفِلِیۡنَ ﴿۱۷۲﴾ۙ
"اور اے نبی ، لوگوں کو یاد دلاؤ وہ وقت جبکہ تمہارے رب نے بنی آدم کی پشتوں سے ان کی نسل کو نکالا تھا اور انہیں خود ان کے اوپر گواہ بناتے ہوئے پوچھا تھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے کہا ضرور آپ ہی ہمارے رب ہیں ، ہم اس پر گواہی دیتے ہیں ۔ یہ ہم نے اس لیے کیا کہ کہیں تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ دو کہ ہم اس بات سے بے خبر تھے" (قران 7:172)
درحقیقت سب انسان اپنے خالق کے ساتھ ایک میثاق میں بندھے ہوئے ہیں اور سب انسانوں کو ایک روز جواب دہی کرنی ہے کہ انہوں نے اس میثاق کی کہاں تک پابندی کی ۔ یہ میثاق الست، عام عہد کا ذکر ہے جو فرداً فرداً تمام انسانوں سے لیا گیا تھا اور یہ اس دور کا واقعہ ہے جب اللہ تعالیٰ آدم کو پیدا کرچکے تھے- ”اللہ تعالیٰ نے سب کو جمع کیا اور ( ایک ایک قسم یا ایک ایک دور کے ) لوگوں کو الگ الگ گروہوں کی شکل میں مرتب کر کے انہیں انسانی صورت اور گویائی کی طاقت عطا کی ، پھر ان سے عہد و میثاق لیا اور انہیں آپ اپنے اوپر گواہ بناتے ہوئے پو چھا کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ انہوں نے عرض کیا ضرور آپ ہمارے رب ہیں ۔ تب اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ میں تم پر زمین و آسمان سب کو اور خود تمہارے باپ آدم کو گواہ ٹھیراتا ہوں تا کہ تم قیامت کے روز یہ نہ کہہ سکو کہ ہم کو اس کا علم نہ تھا ۔ خوب جان لو کہ میرے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں ہے اور میرے سوا کوئی رب نہیں ہے ۔ تم میرے ساتھ کسی کو شریک نہ ٹھیرانا ۔ میں تمہارے پاس اپنے پیغمبر بھیجوں گا جو تم کو یہ عہد و میثاق جو تم میرے ساتھ باندھ رہے ہو ، یاد دلائیں گے اور تم پر اپنی کتابیں بھی نازل کروں گا ۔ اس پر سب انسانوں نے کہا کہ ہم گواہ ہوئے ، آپ ہی ہمارے رب اور آپ ہی ہمارے معبود ہیں ، آپ کے سوا نہ کوئی ہمارا رب ہے نہ کوئی معبود“ - ان کے لیے کوئی صحیح طریق زندگی اس کی بندگی و فرماں برداری ( اسلام ) کے سوا نہیں ہے ۔
یہ اقرار اس لیے لیا گیا تھا کہ خلافت ارضی کی بنیاد اس وقت تک اٹھ ہی نہیں سکتی جب تک انسان ان دو باتوں کا اقرار نہ کرلے۔ ایک یہ کہ اس کائنات کا یقینی طور پر کوئی خالق موجود ہے اور دوسرے یہ کہ وہی خالق اس کائنات کی تربیت کر کے اس کو حد کمال تک پہنچانے والا ہے اور اس کے سوا کوئی پروردگار نہیں گویا یہی شہادت خلافت ارضی کے لیے بنیادی پتھر کا کام دیتی ہے اگر اس بنیاد کو نیچے سے کھینچ لیا جائے تو خلافت ارضی کا تصور بھی محال ہے لہذا بنی آدم کی تمام تر ارواح میں اس بنیادی حقیقت کی تخم ریزی کردی گئی۔
یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اگر یہ عہد اتنا اہم تھا تو انسان کو یاد کیوں نہیں رہا ؟ اس کا الزامی جواب تو یہ ہے کہ انسان کو تو یہ بھی یاد نہیں کہ وہ اپنی ماں کے پیٹ میں رہا تھا پھر اس سے پیدا ہوا کہاں پیدا ہوا ؟ کس وقت ہوا۔ غرض یہ کہ بیشمار ایسی باتیں ہیں جو انسان کو یاد نہ رہنے کے باوجود اپنی جگہ پر ٹھوس حقیقتیں ہوتی ہیں لہذا یاد نہ رہنے کا عذر معقول نہیں ہوسکتا اور حقیقی جواب یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو یہ منظور ہی نہ تھا کہ وہ عہد انسان کو ہر وقت یاد رہے کیونکہ اس صورت میں انسان اللہ سے بغاوت اور اس کی نافرمانی کر ہی نہیں سکتا تھا اور یہ بات مشیت الہٰی کے خلاف ہے کیونکہ یہ دنیا انسان کے لیے دارالامتحان ہے لہذا اس واقعہ کو انسان کے شعور میں نہیں بلکہ تحت الشعور یا وجدان میں رکھ دیا گیا اور یہ اسی داعیہ کا اثر ہے کہ بعض دفعہ پکے کافر اور دہریہ قسم کے لوگ بھی اللہ تعالیٰ کی ذات کو تسلیم کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں یا مصیبت کے وقت لاشعوری طور پر اسے پکارنے لگتے ہیں۔ اس عہد کے لاشعور میں موجود ہونے کا دوسرا ثبوت یہ ہے کہ انسان میں دو طرح کی استعدادیں رکھی گئی ہیں ایک بالقوۃ، دوسری بالفعل۔ مثلاً ایک انسان پینٹر بننا چاہتا ہے تو وہ اسی صورت میں ممکن ہے جبکہ اس میں یہ استعداد بالقوۃ موجود ہو یعنی وہ پینٹر بننے کی صلاحیت رکھتا ہو پھر اسے اس کے مطابق خارجی ماحول میسر آجائے یعنی اسے کوئی استاد وقت اور متعلقہ آلات اور سامان مل جائے تو محنت سے وہ پینٹر بن جائے گا۔ اس وقت اس کی وہ استعداد جو بالقوۃ تھی وہ بالفعل میں تبدیل ہوگئی اور اگر انسان یہ چاہے کہ وہ فرشتہ بن جائے تو وہ کبھی نہ بن سکے گا خواہ لاکھوں کوششیں کرے کیونکہ اس میں فرشتہ بننے کی استعداد بالقوۃ موجودہی نہیں ہے۔
قرآن کس لحاظ سے ذکر اور تذکرہ ہے ؟
اب ہمارا دعویٰ یہ ہے کہ اس عہد الست کی یاد اور خلافت ارضی کی استعداد انسان میں بالقوۃ موجود ہے پھر جب اسے خارج سے موافق ماحول اور سامان میسر آجاتا ہے تو اس کی یہی استعداد بالفعل میں تبدیل ہوجاتی ہے موافق سامان اور ماحول سے یہاں مراد اللہ تعالیٰ کے پیغمبر اور اس کی کتابیں ہیں جو انسان کی استعداد کو صحیح راستے پر چلا دیتی ہیں تو اس ماحول سے ایسا صالح عنصر وجود میں آجاتا ہے جو خلافت کی ذمہ داریوں کو سنبھالنے کے معیار پر پورا اترتا ہے اسی لیے قرآن میں انبیاء و رسل کو مذکر (اس عہد الست بربکم کی یاددہانی کرانے والے) اور خود قرآن کو ذکر[40] اور تذکرہ (یاد دہانی) کہا گیا ہے گویا انبیاء (علیہ السلام) اور کتابوں کا یہ کام ہوتا ہے جو استعداد انسان کے اندر بالقوۃ موجود تھی اس کو یاد دہانی کراتے رہیں اور اسے بالفعل کے مقام پر لے آئیں۔
اس میثاق کا کمال ہے کہ افریقہ اور آسٹریلیا کے کچھ قبائل جن کا تھذیب سے تعلق نہیں وہ بھی ایک رب کو تسلیم کرتے ہیں-
اس عہد کا ایک اور ثبوت یہ ہے کہ افریقہ اور آسٹریلیا کے بعض قبائل جن کا تہذیب سے کوئی تعلق نہیں وہ بھی ایک خدا کو تسلیم کرتے ہیں اور اس کی عبادت کرتے ہیں۔ آسٹریلیا کے تمام قبائل میں، بغیر کسی استثناء کے، ایک اعلیٰ طاقت پر عقیدہ موجود ہے، جو تمام تخلیق کی پہلی وجہ ہے[41]۔ ان کی وضاحتیں معمولی نکات پر مختلف ہوتی ہیں اور ان کی اصطلاحات قدرے مختلف ہوتی ہیں، لیکن ماہرین عمرانیات اور ماہرین بشریات کے اتفاق کے مطابق، وہ سب ہمیشہ اس حتمی پہلی وجہ (First Cause) کے وجود پر یقین رکھتے ہیں جسے 'اعلیٰ خدا' کہا جاتا ہے, اللہ، خدا، برہما اور کا دوسرا نام۔ پرماتما وغیرہ۔ اصطلاح 'اعلیٰ خدا' جمع نہیں ہے جیسا کہ یہ ظاہر ہوتا ہے۔ Aborigine اصطلاح میں یہ ہمیشہ ایک واحد سپریم خالق سے مراد ہے۔ یہ شاید احترام کی وجہ ہے کہ اسے جمع میں کہا جاتا ہے جیسے بادشاہ اپنے آپ کو ہم (We) کہتے ہیں۔ عام طور پر، افریقی مذاہب کا خیال ہے کہ ایک ہی خالق خدا ہے[42]، جو ایک متحرک کائنات کا خالق ہے۔ مختلف افریقی لوگوں کی میتھ مختلف ہیں۔
قدیم قبائل میں تصورِ توحید:عہد ِ حاضر میں علمِ بشریات کے ماہرین نے بعض قدیم قبائل کے افکار و اعمال کا جائزہ لیا ہے اور اس جائزے کے لیے ایسے قبائل کو منتخب کیا گیا ہے، جو آج کی متمدن دُنیا سے بالکل الگ تھلگ ہیں، جن کا اندازِ زیست پتھر اور لوہے کے اَدوار سے ملتا جلتا ہے، لیکن وہ ہرمظاہر قدرت کی پرستش کے بجائے خالص توحید کے قائل اور ایک خدا کے پرستار ہیں۔ اس سلسلے میں یوں تو بہت سے محققین نے اپنی تحقیقات پیش کی ہیں، مگر1931 میں ویلہلم شمیٹ (Schmidt) اور ایچ جے روز (Rose) دو جرمن اہلِ قلم کی تصریحات قابلِ غور ہیں۔ اُنھوں نے افریقہ اور آسٹریلیا کے متعدد قدیم قبائل کے حالات کا بڑی گہری نظر سے جائزہ لیا، اور پھر اپنی تحقیقات کو ایک کتاب;
The Origin and Growth of Religion: Facts & Theories[43] : The Origin and Growth of Religion is a much-sought-after volume, as it provides a glimpse into philosophy of religion in the early twentieth century. Wilhelm Schmidt, based on his research and observations as an anthropologist, contends the opposite of the evolutionary theory of religion - which is, that all religions of the world originate in monotheistic worship.
[مذہب کا آغاز اور اُس کا نشوونما] کی صورت میں مدوّن کیا ہے۔ اُنھوں نے صاف طور پر یہ کہا ہے:
قدیم تمدن میں سب سے اعلیٰ اور ارفع ذات خدائے واحد کی ہے، اور جو مذہب ایک خدا کو تسلیم کرتا ہے، وہ ’توحیدی مذہب‘ کہلاتا ہے۔ اس موقف پر بہت سے مصنّفین نے اعتراضات کیے ہیں۔ ان کے جواب میں مَیں یہ کہتا ہوں کہ بہت سے قبائل ایسے ہیں، جن کے ہاں ایک ارفع و اعلیٰ ذات پر ایمان اُن کے توحیدی مزاج کی واضح علامت ہے۔ یہ حقیقت بہت سے پگمی قبائل (Pygmy)، قدیم بُش من (Bushmen)، کرنائے (Kurnai)، کیولن (Kulin) اور جنوب مشرق کے یون قبیلے کے متعلق وثوق کے ساتھ کہی جاسکتی ہے۔(ص ۲۶۲)[44]
ان نیم متمدن قبائل کے ہاں، جنھیں علم کی ہوا تک بھی نہیں لگی، توحید کا تصور اُس حقیقت پر شاہد ہے، جسے قرآن مجید نے پیش کیا ہے، کہ انسان کی فطرت کو صحیح مذہب پربنایا گیااور پھر اوّل روز ہی سے اُس کے لیے ہدایتِ الٰہی کا سامان کیا گیا۔ لہٰذا، وہ ابتدائے آفرینش ہی سے خدا، وحی، حشرونشر، اور رسالت کے بارے میں صحیح قسم کے احساسات رکھتا ہے۔ اگر وہ اس فطری حالت سے الگ ہوکر کوئی دوسری روش اختیار کرتا ہے تو یہ گمراہی کی راہ ہے، جسے اُس نے خود اختیار کیا ہے۔
"الله کی قسم، اے محمدؐ، تم سے پہلے بھی بہت سی قوموں میں ہم رسول بھیج چکے ہیں (اور پہلے بھی یہی ہوتا رہا ہے کہ) شیطان نے اُن کے برے کرتوت اُنہیں خوشنما بنا کر دکھائے (اور رسولوں کی بات انہوں نے مان کر نہ دی) وہی شیطان آج اِن لوگوں کا بھی سرپرست بنا ہوا ہے اور یہ دردناک سزا کے مستحق بن رہے ہیں- ہم نے یہ کتاب تم پر اس لیے نازل کی ہے کہ تم اُن اختلافات کی حقیقت اِن پر کھول دو جن میں یہ پڑے ہوئے ہیں یہ کتاب (قرآن ) رہنمائی اور رحمت بن کر اتری ہے اُن لوگوں کے لیے جو اِسے مان لیں" (16:63,64)[45]
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿١﴾ الْحَمْدُ لِلَّهِ رَبِّ الْعَالَمِينَ ﴿٢﴾ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ ﴿٣﴾ مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ ﴿٤﴾ إِيَّاكَ نَعْبُدُ وَإِيَّاكَ نَسْتَعِينُ ﴿٥﴾ اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾ صِرَاطَ الَّذِينَ أَنْعَمْتَ عَلَيْهِمْ غَيْرِ الْمَغْضُوبِ عَلَيْهِمْ وَلَا الضَّالِّينَ ﴿٧﴾
اللہ کے نام سے جو رحمان و رحیم ہے (1) تعریف اللہ ہی کے لیے ہے جو تمام کائنات کا رب ہے (2) رحمان اور رحیم ہے (3) روز جزا کا مالک ہے (4) ہم تیری ہی عبادت کرتے ہیں اور تجھی سے مدد مانگتے ہیں (5) ہمیں سیدھا راستہ دکھا (6) اُن لوگوں کا راستہ جن پر تو نے انعام فرمایا، جو معتوب نہیں ہوئے، جو بھٹکے ہوئے نہیں ہیں (قرآن: 1:7)[46]
پورا قرآن [اهْدِنَا الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ ﴿٦﴾] اس کی تشریح ہے کہ وہ سیدھاراستہ (الصِّرَاطَ الْمُسْتَقِيمَ) کیا ہے؟
قرآن کے متعلق الله نے واضح کر دیا کہ[47] :
قرآن مجید کلام الٰہی ہے اور اس کے کلام الٰہی ہونے میں کوئی شک نہیں۔ یہ اللہ سے اس کتاب میں کوئی شک نہیں یہ پرہیزگاروں (تقوی اختیار کرنے والوں) کے لیے ہدایت ہے۔ (البقرہ 2:2)
جو الله تعالی سے نہیں ڈرتے اور تقوی اختیار نہیں کرنا چاہتے ان کو اس کتاب سے کوئی فائدہ نہیں-
اِنَّ الَّذِیۡنَ یُلۡحِدُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا لَا یَخۡفَوۡنَ عَلَیۡنَا ؕ اَفَمَنۡ یُّلۡقٰی فِی النَّارِ خَیۡرٌ اَمۡ مَّنۡ یَّاۡتِیۡۤ اٰمِنًا یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ؕ اِعۡمَلُوۡا مَا شِئۡتُمۡ ۙ اِنَّہٗ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ بَصِیۡرٌ ﴿۴۰﴾
بلا شبہ جو لوگ ہماری آیات میں الحاد کرتے ہیں [(یُلۡحِدُوۡنَ فِیۡۤ اٰیٰتِنَا) معنی کو الٹ دیتے ہیں)] وہ ہم سے کچھ چھپے ہوئے نہیں ہیں ۔ خود ہی سوچ لو کہ آیا وہ شخص بہتر ہے جو آگ میں جھونکا جانے والا ہے یا وہ جو قیامت کے روز امن کی حالت میں حاضر ہوگا ؟ کرتے رہو جو کچھ تم چاہو ، تمہاری ساری حرکتوں کو اللہ دیکھ رہا ہے - یہ وہ لوگ ہیں جن کے سامنے کلام نصیحت آیا تو انہوں نے اسے ماننے سے انکار کر دیا مگر حقیقت یہ ہے کہ یہ (قرآن) ایک زبردست کتاب ہے باطل نہ سامنے سے اس پر آ سکتا ہے نہ پیچھے سے، یہ ایک حکیم و حمید کی نازل کردہ چیز ہے (قرآن : 41:40,41,42)[49]
قُلۡ ہُوَ لِلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا ہُدًی وَّ شِفَآءٌ ؕ وَ الَّذِیۡنَ لَا یُؤۡمِنُوۡنَ فِیۡۤ اٰذَانِہِمۡ وَقۡرٌ وَّ ہُوَ عَلَیۡہِمۡ عَمًی ؕ اُولٰٓئِکَ یُنَادَوۡنَ مِنۡ مَّکَانٍۭ بَعِیۡدٍ ﴿44﴾
اے پیغمبر کہہ دے قرآن ایمان والوں کے لئے ہدایت اور دل کی بیماری کے لئے تندرستی ہے جن لوگوں میں ایمان نہیں ان کے کانوں میں قرآن ایک بوجھ ہے اور ان کی آنکھوں پر پردہ ہے وہ ان کو اندھا بنا دیتا ہے ان لوگوں کو جیسے کوئی دور جگہ سے پکار رہا ہے (قرآن : 41:44)
حضرت ابن عباس (رض) نے الحاد کے معنی کیے ہیں (وضع الکلام علی غیر مواضعہ) جس کی رو سے اس میں وہ باطل فرقے بھی آجاتے ہیں جو اپنے غلط عقائد و نظریات کے اثبات کے لیے آیات الہی میں تحریف معنوی اور دجل وتلبیس سے کام لیتے ہیں۔ الحاد کوئی ایسا کفر ہے جس کو یہ لوگ چھپانا چاہتے تھے اس لئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ یہ ہم سے اپنا کفر نہیں چھپا سکتے۔ اور آیت مذکورہ نے صراحتہ یہ بتلا دیا کہ آیات قرانی سے انکار و انحراف صاف اور کھلے لفظوں میں ہو یا معافی میں تاویلات باطلہ کر کے قرآن کے احکام کو بدلنے کی فکر کرے یہ سب کفر و ضلال ہے۔
خلاصہ یہ ہے کہ الحاد ایک قسم کا کفر نفاق ہے کہ ظاہر میں قرآن اور آیات قرآن کو ماننے کا دعویٰ اور اقرار کرے لیکن آیات قرآنی کے معانی ایسے گھڑے جو دوسرے نصوص قرآن و سنت اور اصول اسلام کے منافی ہوں۔ امام ابویوسف نے کتاب الخراج میں فرمایا :۔ ایسے ہی وہ زندیق لوگ ہیں جو الحاد کرتے ہیں اور بظاہر اسلام کا دعویٰ کرتے ہیں۔ اس سے معلوم ہوا کہ ملحد اور زندیق دونوں ہم معنی ہیں، جو ایسے کافر کو کہا جاتا ہے جو ظاہر میں اسلام کا دعویٰ کرے اور حقیقت میں اس کے احکام کی تعمیل سے انحراف کا یہ بہانہ بنائے کہ قرآن کے معنی ہی ایسے گھڑے جو خلاف نصوص و خلاف اجماع امت ہوں-
یہ لوگ ملحدین ہیں جو قرآن میں کجروی نکالتے ہیں۔ حضرت ابن عباس (رض) نے الحاد کا یہی مطلب بتایا اور فرمایا یَصَفُون الکلام فی غیر موضعہٖ یعنی آیات کا مطلب اپنی طرف سے تجویز کرتے ہیں متشابہات کے پیچھے پڑنا اپنی نکالی ہوئی بدعتوں اور خواہشوں کے مطابق قرآن کی تفسیر کرنا یہ سب الحاد کی صورتیں ہیں۔ حضرت حکیم الامت تھانوی (رض) مسائل سلوک میں حضرت ابن عباس (رض) کا قول نقل فرمانے کے بعد لکھتے ہیں: اس میں غلو والے صوفی بھی داخل ہیں جو منقول تفسیر کی نفی کرتے ہیں اور اپنے پاس سے وہ چیزیں نکالتے ہیں جو اصول کے خلاف ہیں-(انوار البیان ، مولاناعا شق الہی مدنی[50])
اس طرح سے قادیانی ملحد اور زندیق کے درجہ میں ہیں جو کہ کفر سے بھی زیادہ خطرناک ہے- ان کو کیسے قبول کیا جاسکتا ہے؟
اسلام کی بنیاد قرآن کی آیات محکمات اور سنت ثابتہ[51] پر کھڑی ہے:
قرآن میں ایسی آیتیں بھی ہیں جن کا بیان بہت واضح بالکل صاف اور سیدھا ہے ۔ ہر شخص اس کے مطلب کو سمجھ سکتا ہے ، اور بعض آیتیں ایسی بھی ہیں جن کے مطلب تک عام ذہنوں کی رسائی نہیں ہوسکتی ، اب جو لوگ نہ سمجھ میں آنے والی آیتوں کے مفہوم کو پہلی قسم کی آیتوں کی روشنی میں سمجھ لیں یعنی جس مسئلہ کی صراحت جس آیت میں پائیں لے لیں ، وہ تو راستی پر ہیں اور جو صاف اور صریح آیتوں کو چھوڑ کر ایسی آیتوں کو دلیل بنائیں جو ان کے فہم سے بالاتر ہیں ، ان میں الجھ جائیں تو منہ کے بل گر پڑیں:
ہُوَ الَّذِیۡۤ اَنۡزَلَ عَلَیۡکَ الۡکِتٰبَ مِنۡہُ اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ ہُنَّ اُمُّ الۡکِتٰبِ وَ اُخَرُ مُتَشٰبِہٰتٌ ؕ فَاَمَّا الَّذِیۡنَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ زَیۡغٌ فَیَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَہَ مِنۡہُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَۃِ وَ ابۡتِغَآءَ تَاۡوِیۡلِہٖ ۚ وَ مَا یَعۡلَمُ تَاۡوِیۡلَہٗۤ اِلَّا اللّٰہُ ۘ ؔ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِی الۡعِلۡمِ یَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِہٖ ۙ کُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَ مَا یَذَّکَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ﴿۷﴾
وہی اللہ تعالٰی ہے جس نے تجھ پر کتاب اُتاری جس میں واضح مضبوط آیتیں (اٰیٰتٌ مُّحۡکَمٰتٌ) ہیں جو اصل کتاب ہیں اور بعض متشابہ آیتیں ہیں- پس جن کے دلوں میں کجی ہے وہ تو اس کی متشابہ آیتوں کے پیچھے لگ جاتے ہیں ، فتنے کی طلب اور ان کی مراد کی جستجو کے لئے ، حالانکہ ان کی حقیقی مراد کو سوائے اللہ تعالٰی کے کوئی نہیں جانتا اور پختہ ومضبوط علم والے یہی کہتے ہیں کہ ہم تو ان پر ایمان لا چکے ، یہ ہمارے رب کی طرف سے ہیں اور نصیحت تو صرف عقلمند حاصل کرتے ہیں ۔ [سورة آل عمران 3 آیت: 7]
اس آیت کو سمجھنے کے لئے پہلے اس حقیقت کا احساس ضروری ہے کہ اس کائنات کی بے شمار چیزیں ایسی ہیں جو انسان کی سمجھ سے بالاتر ہیں، اسی طرح اللہ تعالیٰ کا وجود اور اس کی وحدانیت توایک ایسی حقیقت ہے جو ہر انسان اپنی عقل سے معلوم کرسکتا ہے، لیکن اس کی ذات اور صفات کی تفصیلات انسان کی محدود عقل سے ماورا ہیں، قرآن کریم نے جہاں اللہ تعالیٰ کی ان صفات کا ذکر فرمایا ہے ان سے اللہ تعالیٰ کی قدرت کاملہ اور حکمت بالغہ ظاہر کی گئی ہے، لیکن کوئی شخص ان صفات کی حقیقت اور کنہ کی فلسفیانہ کھوج میں پڑجائے توحیرانی یا گمراہی کے سوا اسے کچھ ہاتھ نہیں آئے گا، کیونکہ وہ اپنی محدود عقل سے اللہ تعالیٰ کی ان لامحدود صفات کا احاطہ کرنے کی کوشش کررہا ہے جو اس کے ادراک سے باہر ہیں، مثلاً قرآن کریم نے کئی مقامات پر فرمایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کا ایک عرش ہے اور یہ کہ وہ اس عرش پر مستوی ہوا، اب یہ بات کہ وہ عرش کیسا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کہ مستوی ہونے کا کیا مطلب ہے ؟ یہ وہ سوالات ہیں جن کا جواب انسان کی عقل اور سمجھ سے بالاتر ہے اور انسان کی زندگی کا کوئی عملی مسئلہ اس پر موقوف بھی نہیں، ایسی آیات جن میں اس قسم کے حقائق بیان کئے گئے ہیں متشابہات کہلاتی ہیں، اسی طرح مختلف سورتوں کے شروع میں جو حروف الگ الگ نازل کئے گئے ہیں (مثلاً اسی صورت کے شروع میں الف لام میم) اور جنہیں حروف مقطعات کہا جاتا ہے وہ بھی متشابہات میں داخل ہیں، ان کے بارے میں قرآن کریم نے اس آیت میں یہ ہدایت دی ہے کہ ان کی کھو دکرید میں پڑنے کے بجائے ان پر اجمالی طور سے ایمان رکھ کر ان کا صحیح مطلب اللہ تعالیٰ کے حوالے کرنا چاہئے اس کے برعکس قرآن کریم کی دوسری آیتیں ایسی ہیں جن کا مطلب واضح ہے اور درحقیقت وہی آیات ہیں جو انسان کے لئے عملی ہدایات فراہم کرتی ہیں انہی آیات کو محکم آیتیں کہا گیا ہے، ایک مومن کو انہی پر خصوصی توجہ دینی چاہئے۔ متشابہات کے بارے میں صحیح طرز عمل بتلانا یوں بھی ضروری تھا، لیکن اس سورت میں اس وضاحت کی خاص وجہ یہ بھی تھی کہ نجران کے عیسائیوں کا جو وفد آنحضرتﷺ کی خدمت میں آیا تھا اور جس کا ذکر اوپر کے حاشیہ میں گزرا ہے، اس نے حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے خدا یا خدا کا بیٹا ہونے پر ایک دلیل یہ بھی پیش کی تھی کہ خود قرآن نے انہیں کلمۃ اللہ (اللہ کا کلمہ) اور روح من اللہ فرمایا ہے جس سے واضح ہوتا ہے کہ وہ اللہ کی صفت کلام اور اللہ کی روح تھے اس آیت نے اس کا یہ جواب دیا ہے کہ قرآن کریم ہی نے جگہ جگہ صاف لفظوں میں بتایا ہے کہ اللہ تعالیٰ کی کوئی اولاد نہیں ہوسکتی اور حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو خدا کا بیٹا یا خدا قراردینا شرک اور کفر ہے، ان واضح آیتوں کو چھوڑکر کلمۃ اللہ کے لفظ کو پکڑ بیٹھنا اور اس کی بنیاد پر ایسی تاویلیں کرنا جو قرآن کریم کی محکم آیات کے بالکل برخلاف ہیں، دل کے ٹیڑھ کی علامت ہے، حقیقت میں حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کو کلمۃ اللہ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ وہ باپ کے واسطے کے بغیر اللہ تعالیٰ کے کلمہ کن سے پیدا ہوئے تھے، جیسا کہ قرآن کریم نے اسی سورت کی آیت : ٥٩ میں بیان فرمایا ہے، اور انہیں روح من اللہ اس لئے کہا گیا ہے کہ ان کی روح براہ راست اللہ تعالیٰ نے پیدا فرمائی تھی، اب یہ بات انسان کی سمجھ سے بالاتر ہے کہ کن سے پیدا کرنے کی کیفیت کیا تھی اور براہ راست ان کی روح کس طرح پیدا کی گئی ؟ یہ امور متشابہات میں سے ہیں، اس لئے ان کی کھود کرید بھی منع ہے (کیونکہ یہ باتیں انسان کی سمجھ میں آہی نہیں سکتیں) اور ان کی من مانی تاویل کرکے ان سے خدا کے بیٹے کا تصور برآمد کرنا بھی کج فہمی ہے۔ [مفتی تقی عثمانی]
بعض آیات محکم ہیں اور بعض متشابہ، تو محکمات سے مراد وہ آیات ہیں جن کا مفہوم بالکل واضح اور صریح ہے، ان میں کسی قسم کی تاویل کی گنجائش نہیں ان کو ” اُمُّ الْكِتٰبِ “ قرار دیا ہے، یعنی اصل اور بنیاد۔ انھی آیات میں لوگوں کو دین کی طرف دعوت دی گئی ہے اور انھی میں دین کے بنیادی عقائد، عبادات اور احکام بیان کیے گئے ہیں۔ قرآن مجید میں مذکور نصیحتیں اور عبرتیں بھی ان میں شامل ہیں، انسانی گمراہیوں کی نشاندہی بھی ان آیات میں کی گئی ہے۔ جبکہ متشابہات سے مراد وہ آیات ہیں جو ملتے جلتے کئی معانی کا احتمال رکھتی ہیں، اس لیے ان کا اصل مرادی معنی سمجھنے میں لوگوں کو اشتباہ ہوجاتا ہے، یا ان میں تاویل کی گنجائش نکل سکتی ہے، یا جن میں ایسے حقائق کا بیان ہے جن پر مجمل طور پر ایمان لانا تو ضروری ہے لیکن ان کی تفصیلات کو جاننا نہ انسان کے لیے ضروری ہے اور نہ عقلی استعداد کے ساتھ ممکن ہے۔
ایک جگہ قرآن مجید کی تمام آیات کو محکم کہا گیا ہے، چناچہ فرمایا : (الۗرٰ ۣ كِتٰبٌ اُحْكِمَتْ اٰيٰتُهٗ ) [ ھود : ١ ] ’ الۗرٰ ، ایک کتاب ہے جس کی آیات محکم کی گئیں۔ “ اور دوسری جگہ تمام آیات کو متشابہ، چناچہ فرمایا : (اَللّٰهُ نَزَّلَ اَحْسَنَ الْحَدِيْثِ كِتٰبًا مُّتَشَابِهًا مَّثَانِيَ ڰ ) [ الزمر : ٢٣ ] ” اللہ نے سب سے اچھی بات نازل فرمائی، ایسی کتاب جو آپس میں ملتی جلتی ہے۔ “ اور یہاں بعض آیات کو متشابہ قرار دیا ہے، بعض کو محکم، مگر اس میں کوئی تعارض نہیں۔ تمام آیات کے محکم ہونے کا مطلب یہ ہے کہ پورے قرآن میں کوئی کمی یا خرابی نہیں، نہایت مضبوط اور محکم ہے اور متشابہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ اس کی تمام آیات فصاحت و بلاغت اور مضامین و معانی میں ایک دوسری سے ملتی جلتی ہیں۔ [عبدالسلام بھٹوی ]
مزید تفصیل : شاه کلید قرآن>>> (Key2 Quran (3:7)>>>
مومن اور نافرمان (فاسق) برابر نہیں, کلمہ پڑھ لیا،ایمان کا پہلا قدم کلمہ جنت کی چابی ہے مگر اس چابی کے دندانے عمل صالح ، شریعت پر عمل ہے - نیک عمل کرنے والا اور بد عمل برابر نہیں۔ بدعمل کے لئیےجہنم کی آگ ، یہ قرآن کا فیصلہ کوئی بدل نہیں سکتا جو اس سے منہ پھیرے گا اس سے بدلہ کا وعدہ اللہ کا ہے-
آیات ذیل اور قران کی 51 آیات جن میں "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" کا حکم 158 مرتبہ ہے[52]، سب مل کر لاالہ الا اللہ پر جنت والی تمام احادیث کو منسوخ کرتی ہیں-[53]
بہت علماء کے مطابق وعدہ سے متعلق احادیث ابتدائے اسلام یعنی فرائض اور اوامرو نواہی سے پہلے کی ہیں، ان کے بعد یہ منسوخ ہوگئی ہیں، اور واجبات و فرائض ناسخ اور باقی ہیں۔ (ڈاکٹر عبدالرحمن بن عبدالجبار الفریوائی . استاذ حدیث جامعۃ الإمام محمد بن سعود الإسلامیۃ ، ریاض)
اَفَمَنۡ كَانَ مُؤۡمِنًا كَمَنۡ كَانَ فَاسِقًا ؕ لَا يَسۡتَوٗنَ ۞ اَمَّا الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ فَلَهُمۡ جَنّٰتُ الۡمَاۡوٰى نُزُلًاۢ بِمَا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ ۞ وَاَمَّا الَّذِيۡنَ فَسَقُوۡا فَمَاۡوٰٮهُمُ النَّارُؕ كُلَّمَاۤ اَرَادُوۡۤا اَنۡ يَّخۡرُجُوۡا مِنۡهَاۤ اُعِيۡدُوۡا فِيۡهَا وَ قِيۡلَ لَهُمۡ ذُوۡقُوۡا عَذَابَ النَّارِ الَّذِىۡ كُنۡتُمۡ بِهٖ تُكَذِّبُوۡنَ ۞ وَلَنـــُذِيۡقَنَّهُمۡ مِّنَ الۡعَذَابِ الۡاَدۡنٰى دُوۡنَ الۡعَذَابِ الۡاَكۡبَرِ لَعَلَّهُمۡ يَرۡجِعُوۡنَ ۞ وَمَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنۡ ذُكِّرَ بِاٰيٰتِ رَبِّهٖ ثُمَّ اَعۡرَضَ عَنۡهَا ؕ اِنَّا مِنَ الۡمُجۡرِمِيۡنَ مُنۡتَقِمُوۡنَ ۞
ترجمہ:
بھلا جو مومن ہو وہ اس شخص کی طرح ہوسکتا ہے جو نافرمان (فاسق) ہو ؟ دونوں برابر نہیں ہوسکتے۔ ۞ جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان کے رہنے کے لیے باغ ہیں یہ مہمانی ان کاموں کی جزا ہے جو وہ کرتے تھے۔ ۞ اور جنہوں نے نافرمانی کی ان کے رہنے کے لیے دوزخ ہے جب چاہیں گے کہ اس میں سے نکل جائیں تو اس میں لوٹا دیے جائیں گے اور ان سے کہا جائے گا کہ جس آگ کے عذاب کو تم جھوٹ سمجھتے تھے اس کے مزے چکھو۔ ۞ ہم ان کو قیامت کے بڑے عذاب کے علاوہ عذاب دنیا کا بھی مزہ چکھاتے رہیں گے شاید کہ لوٹ آئیں۔ ۞ اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون جس کو اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے تو وہ ان سے منہ پھیرلے ہم گنہگاروں سے ضرور بدلہ لینے والے ہیں“۞ (القرآن - سورۃ نمبر 32 السجدة, آیت نمبر 18-22)
آخرت کے بڑے عذاب سے پہلے اسی دنیا میں انسان کو چھوٹی چھوٹی مصیبتیں اس لئے پیش آتی ہیں کہ وہ اپنے طرز عمل پر نظر ثانی کرکے اپنے گناہوں سے باز آجائے، سبق یہ دیا گیا ہے کہ دنیا میں پیش آنے والی مصیبتوں کے وقت اللہ تعالیٰ سے رجوع کرکے اپنے گناہوں سے توبہ کرنی چاہیے، اور اپنے طرز عمل کی اصلاح کرنا چاہیے۔ (آسان قرآن, مفسر: مفتی محمد تقی عثمانی)
وَ لَوْ تَرٰۤى اِذِ الْمُجْرِمُوْنَ نَاكِسُوْا رُءُوْسِهِمْ عِنْدَ رَبِّهِمْ١ؕ رَبَّنَاۤ اَبْصَرْنَا وَ سَمِعْنَا فَارْجِعْنَا نَعْمَلْ صَالِحًا اِنَّا مُوْقِنُوْنَ۰۰۱۲وَ لَوْ شِئْنَا لَاٰتَيْنَا كُلَّ نَفْسٍ هُدٰىهَا وَ لٰكِنْ حَقَّ الْقَوْلُ مِنِّيْ لَاَمْلَـَٔنَّ جَهَنَّمَ مِنَ الْجِنَّةِ وَ النَّاسِ اَجْمَعِيْنَ۰
کاش تم دیکھو وہ وقت جب یہ مُجرم سر جھکائے اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہوں گے (اُس وقت یہ کہہ رہے ہوں گے)”اے ہمارے ربّ ، ہم نے خوب دیکھ لیا اور سُن لیا ، اب ہمیں واپس بھج دے تاکہ ہم نیک عمل کرے ، ہمیں اب یقین آگیا ہے۔“(جواب میں ارشاد ہوگا)”اگر ہم چاہتے تو پہلے ہی ہر نفس کو اس کی ہدایت دے دیتے۔ مگر میری وہ بات پوری ہوگئی جو میں نے کہی تھی کہ میں جہنم کو جنوں اور انسانوں سب سے بھر دوں گا پس اب چکھو مزا اپنی اس حرکت کا کہ تم نے اس دن کی ملاقات کو فراموش کردیا ، ہم نے بھی اب تمہیں فراموش کردیا ہے۔ چکھو ہمیشگی کے عذاب کا مزا اپنے کرتوتوں کی پاداش میں۔(قرآن ,13 ,32:12)
ارشاد باری تعالی کا مقصد ہے کہ حقیقت (جنت ، جہنم ) کا مشاہدہ اور تجربہ کرا کر ہی لوگوں کو ہدایت دینا ہمارے پیش نظر ہوتا تو دنیا کی زندگی میں اتنے بڑے امتحان سے گزار کر تم یہاں لانے کی کیا ضرورت تھی ‘ ایسی ہدایت تو ہم پہلے ہی تم کو دے سکتے تھے لیکن تمہارے لیے تو آغاز ہی سے ہماری اسکیم یہ نہ تھی ہم تو حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل اور حواس سے مخفی رکھ کر تمہارا امتحان لینا چاہتے تھے کہ تم براہ راست اُس کو بے نقاب دیکھنے کے بجائے کائنات میں اور خود اپنے نفس میں اُس کی علامات دیکھ کر اپنی عقل سے اُس کو پہچانتے ہو یا نہیں ، ہم اپنے انبیاء اور اپنی کتابوں کے ذریعہ سے اِس حقیقت شناسی میں تمہاری جو مدد کرتے ہیں اُس سے فائدہ اُٹھاتے ہو یا نہیں ، اور حقیقت جان لینے کے بعد اپنے نفس پر اتنا قابو پاتے ہو یا نہیں کہ خواہشات اور اغراض کی بندگی سے آزاد ہو کر اس حقیقت کو مان جاؤ اور اس کے مطابق اپنا طرز عمل درست کر لو۔ اس امتحان میں تم ناکام ہو چکے ہو۔ اب دوبارہ اِسی امتحان کا سلسلہ شروع کرنے سے کیا حاصل ہو گا۔ دوسرا امتحان اگر اس طرح لیا جائے کہ تمہیں وہ سب کچھ یاد ہو جو تم نے یہاں دیکھ اور سُن لیا ہے تو یہ سرے سے کوئی امتحان ہی نہ ہو گا۔ اگر پہلے کی طرح تمہیں خالی الذہن کر کے اور حقیقت کو نگاہوں سے اوجھل رکھ کر تمہیں پھر دُنیا میں پیدا کر دیا جائے اور نئے سِرے سے تمہارا اُسی طرح امتحان لیا جائے جیسے پہلے لیا گیا تھا، تو نتیجہ پچھلے امتحان سے کچھ بھی مختلف نہ ہو گا۔
روح سے مراد محض وہ زندگی نہیں ہے جس کی بدولت ایک ذی حیات جسم کی مشین متحرک ہوتی ہے، بلکہ اس سے مراد وہ خاص جوہر ہے جو فکر و شعور اور عقل وتمیز اور فیصلہ و اختیار کا حامل ہوتا ہے، جس کی بدولت انسان تمام دوسری مخلوقات ارضی سے ممتاز ایک صاحب شخصیت ہستی، صاحب انا ہستی، اور حامل خلافت ہستی بنتا ہے۔ آدم کی تخلیق پر اللہ نے حکم دیا:
فَاِذَا سَوَّيۡتُهٗ وَنَفَخۡتُ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِىۡ فَقَعُوۡا لَهٗ سٰجِدِيۡنَ ۞
جب میں اُسے پُورا بنا چکوں اور اس میں (مِنۡ رُّوۡحِىۡ) اپنی روح سے کچھ پھونک دوں تو تم سب اُس کے آگے سجدے میں گِر جانا۔“(سورۃ 15 الحجر, آیت 29)[54]
ترجمہ : "چنانچہ تمام فرشتوں نے سجدہ کیا سوائے ابلیس کے کہ اُس نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ دینے سے انکار کر دیا- رب نے پوچھا "اے ابلیس، تجھے کیا ہوا کہ تو نے سجدہ کرنے والوں کا ساتھ نہ دیا؟ اس نے کہا "میرا یہ کام نہیں ہے کہ میں اِس بشر کو سجدہ کروں جسے تو نے سڑی ہوئی مٹی کے سوکھے گارے سے پیدا کیا ہے" رب نے فرمایا "اچھا تو نکل جا یہاں سے کیونکہ تو مردود ہے اور اب روز جزا تک تجھ پر لعنت ہے" اُس نے عرض کیا "میرے رب، یہ بات ہے تو پھر مجھے اُس روز تک کے لیے مہلت دے جبکہ سب انسان دوبارہ اٹھائے جائیں گے" فرمایا "اچھا، تجھے مہلت ہے اُس دن تک جس کا وقت ہمیں معلوم ہے" وہ بولا "میرے رب، جیسا تو نے مجھے بہکایا اُسی طرح اب میں زمین میں اِن کے لیے دل فریبیاں پیدا کر کے اِن سب کو بہکا دوں گا سوائے تیرے اُن بندوں کے جنہیں تو نے اِن میں سے خالص کر لیا ہو" (الله تعالی نے ) فرمایا "یہ راستہ ہے جو سیدھا مجھ تک پہنچتا ہے بے شک، جو میرے حقیقی بندے ہیں ان پر تیرا بس نہ چلے گا تیرا بس تو صرف اُن بہکے ہوئے لوگوں ہی پر چلے گا جو تیری پیروی کریں اور ان سب کے لیے جہنم کی وعید ہے" یہ جہنم (جس کی وعید پیروان ابلیس کے لیے کی گئی ہے) اس کے سات دروازے ہیں ہر دروازے کے لیے اُن میں سے ایک حصہ مخصوص کر دیا گیا ہے بخلاف اِس کے متقی لوگ باغوں اور چشموں میں ہوں گے اور اُن سے کہا جائے گا کہ داخل ہو جاؤ ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف و خطر اُن کے دلوں میں جو تھوڑی بہت کھوٹ کپٹ ہوگی اسے ہم نکال دیں گے، وہ آپس میں بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے تختوں پر بیٹھیں گے اُنہیں نہ وہاں کسی مشقت سے پالا پڑے گا اور نہ وہ وہاں سے نکالے جائیں گے اے نبیؐ، میرے بندوں کو خبر دے دو کہ میں بہت درگزر کرنے والا اور رحیم ہوں مگر اِس کے ساتھ میرا عذاب بھی نہایت دردناک عذاب ہے (ترجمہ -سورۃ 15 الحجر, آیت 30 سے 50 تک )[55]
ابلیس کا تکبر کی وجہ سے اللہ کے حکم کا انکار (کفر) اور اس دنیا میں اچھائی اور برائی کی کشمکش بطورامتحان شروع ہو گیئی اور اللہ نے انسانوں کی رہنمائی کے لئے رسول و نبی بھیجے کتب نازل کیں ، قرآن آخری کتاب ھدایت ہے جو آخری رسول اللہ ﷺ پر نزل ہوئی- اس کے احکام سمجھنے کی کوشش کی جارہی ہے تاکہ جہنم سے بچاؤ اور جنت حاصل ہو سکے اللہ کے صراط مستقیم پر چل کر-
یوں تو ہر صفت جو مخلوقات میں پائی جاتی ہے، اس کا مصدر و منبع اللہ تعالیٰ ہی کی کوئی نہ کوئی صفت ہے۔
ثُمَّ سَوّٰٮهُ وَنَفَخَ فِيۡهِ مِنۡ رُّوۡحِهٖ وَجَعَلَ لَكُمُ السَّمۡعَ وَالۡاَبۡصَارَ وَالۡاَفۡــئِدَةَ ؕ قَلِيۡلًا مَّا تَشۡكُرُوۡنَ ۞
“پھر اُس کو نِک سُک سے درست کیا اور اس کے اندر اپنی روح پھونک دی ، اور تم کو کان دیے ، آنکھیں دیں اور دل دیے ۔ تم لوگ کم ہی شکر گزار ہوتے ہو”۔ (سورۃ 32 السجدة, آیت 9)
اس روح کو اللہ تعالیٰ نے اپنی روح اس معنی میں فرمایا ہے کہ یا تو :
یہ ایک ایسا باریک مضمون ہے جس کے سمجھنے میں ذرا سی غلطی بھی آدمی کر جائے تو اس غلط فہمی میں مبتلا ہوسکتا ہے کہ صفات الہٰی میں سے ایک حصہ پانا الوہیت کا کوئی جز پالینے کا ہم معنی ہے۔ حالانکہ الوہیت اس سے وراء الوراء ہے کہ کوئی مخلوق اس کا ایک ادنیٰ شائبہ بھی پا سکے۔
یعنی انتہائی باریک خورد بینی وجود سے بڑھا کر اسے پوری انسانی شکل تک پہنچایا اور اس کا جسم سارے اعضاء وجوارح کے ساتھ مکمل کردیا۔
یہ ایک لطیف انداز بیان ہے۔ روح پھونکنے سے پہلے انسان کا سارا ذکر صیغۂ غائب میں کیا جاتا رہا۔ ” اس کی تخلیق کی “، ” اس کی نسل چلائی “، ” اس کو نِک سک سے درست کیا “، ” اس کے اندر روح پھونکی “۔ اس لیے اس وقت تک وہ خطاب کے لائق نہ تھا۔ پھر جب روح پھونک دی گئی تو اب اس سے فرمایا جا رہا ہے کہ ” تم کو کان دیے “، ” تم کو آنکھیں دیں “، ” تم کو دل دیے ” اس لیے کہ حامل روح ہوجانے کے بعد ہی وہ اس قابل ہوا کہ اسے مخاطب کیا جائے۔
کان اور آنکھوں سے مراد وہ ذرائع ہیں جن سے انسان علم حاصل کرتا ہے۔ اگرچہ حصول علم کے ذرائع ذائقہ اور لامسہ اور شامہ بھی ہیں، لیکن سماعت و بینائی تمام دوسرے حواس سے زیادہ بڑے اور اہم ذرائع ہیں، اس لیے قرآن جگہ جگہ انہی دو کو خدا کے نمایاں عطیوں کی حیثیت سے پیش کرتا ہے۔ اس کے بعد ” دل ” سے مراد وہ ذہن (Mind) ہے جو حواس کے ذریعہ سے حاصل شدہ معلومات کو مرتب کر کے ان سے نتائج نکالتا ہے اور عمل کی مختلف امکانی راہوں میں سے کوئی ایک راہ منتخب کرتا اور اس پر چلنے کا فیصلہ کرتا ہے۔
یعنی یہ عظیم القدر انسانی روح اتنے بلند پایہ اوصاف کے ساتھ تم کو اس لیے تو عطا نہیں کی گئی تھی کہ تم دنیا میں جانوروں کی طرح رہو اور اپنے لیے بس وہی زندگی کا نقشہ بنا لو جو کوئی حیوان بنا سکتا ہے۔ یہ آنکھیں تمہیں چشم بصیرت سے دیکھنے کے لیے دی گئی تھیں نہ کہ اندھے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ کان تمہیں گوش ہوش سے سننے کے لیے دیے گئے تھے نہ کہ بہرے بن کر رہنے کے لیے۔ یہ دل تمہیں اس لیے دیے گئے تھے کہ حقیقت کو سمجھو اور صحیح راہ فکر و عمل اختیار کرو، نہ اس لیے کہ اپنی ساری صلاحیتیں صرف اپنی حیوانیت کی پرورش کے وسائل فراہم کرنے میں صرف کردو، اور اس سے کچھ اونچے اٹھو تو اپنے خالق سے بغاوت کے فلسفے اور پروگرام بنانے لگو۔ یہ بیش قیمت نعمتیں خدا سے پانے کے بعد جب تم دہریت یا شرک اختیار کرتے ہو، جب تم خود خدا یا دوسرے خداؤں کے بندے بنتے ہو، جب تم خواہشات کے غلام بن کر جسم و نفس کی لذتوں میں غرق ہوجاتے ہو، تو گویا اپنے خدا سے یہ کہتے ہو کہ ہم ان نعمتوں کے لائق نہ تھے، ہمیں انسان بنانے کے بنائے تجھے ایک بندر، یا ایک بھیڑیا، یا ایک مگرمچھ یا ایک کوا بنانا چاہیے تھا.یہ اس آیت سے بھی ظاہر ہے:
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (قرآن:8:22[56])
ایک جاہلانہ نظریہ مشرکین اور انسانی ایجاد کردہ مذاہب سے لیا گیا ہے کہ مذھب میں عقل کا کوئی عمل دخل نہیں، یہ روحانی معاملات عقل سے ماورا ہیں- جیسے مسحت میں عقیده تثلیث (Trinity)- نصرانیوں کے نزدیک التثلیث کا معنی یہ ہے کہ اللہ ایک جوہر ہے جو تین اقنوم (اشخاص) پر مشتمل ہے یعنی باپ، بیٹا اور روح القدس۔ اسے وہ اپنے زعم میں تین میں ایک اور ایک میں تین کا نام دیتے ہیں[57]۔ "نصاریٰ کے عقیدہ کے مطابق جو خدا اپنے آپ کو صرف توحید کی شکل میں ظاہر کرتا رہا (کائنات کی ابتداء سے لیکر حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے دنیا میں پیدا ہونے سے قبل تک) اسی خدا نے اپنے آپ کو عیسیٰ علیہ السلام کے پیدائش کے بعد تین شکلوں (باپ، بیٹا، روح القدس) میں ظاہر کیا۔نصاریٰ کا یہ عقیدہ بھی ہے کہ یہ تینوں اقانیم الٰہی عنصر سے بھرپور ہیں (All three are Divine) اور یہ کہ تینوں کا جوہر ایک ہے (All three are of the same substance) اوراس کے باوجود کہ یہ تینوں برابری کے ساتھ عبادت کے مستحق ہیں (Three worship equally) تینوں الگ الگ خدا، یا دیوتا نہیں بلکہ ایک ہی ہیں"[58] اگر کوئی سوال کرے کہ : 'تین میں ایک اور ایک میں تین [1=3 ؛ 3=1] کو عقل سے بیان کریں تو یہ کہنا کہ بس یہ ایسے ہی ہے اس پر ایمان لا و تو جنت! ہندو ،قدیم ، مصری یونانی اور بت پرست مذاھب میں اس قسم کے ماوراعقل عقائد پا ۓ جاتے ہیں-
لفظ عقل جسے ہم عقل عام Common Sense یا انسانی ذہانت بھی کہہ سکتے ہیں، قرآن کا لفظ ہےجو کتاب اللہ میں تقریباً اُنتالیس مرتبہ، اور مخلتف انداز میں 49 مرتبہ استعمال ہوا ہے- کلام اللہ میں بار بار جو الفاظ آتے ہیں لعلکم تعقلون، افلا تعقلون، لقوم یعقلون، فہم لا یعقلون، اکثرہم لا یعقلون، ان الفاظ پر مشتمل آیتیں انسانی عقل کو بھی اور انسانی ذہانت Intellect کو بھی دعوت دیتی ہیں، تاکہ ہم میں سوچ کا عمل جاری و ساری ہوجائے[59]۔ عقل کو کتاب اللہ اوراسوة الرسول صلى الله علیہ وسلم کی روشنی میں استعمال کیا جائے، چاہے معاملاتِ دنیا ہوں کہ معاملاتِ دینی۔
عقلمندوں کے سوا کوئی نصیحت قبول نہیں کرتا۔ (قرآن 2:269)
رب تعالیٰ کو اپنے وہ بندے مطلق پسند نہیں جو عقل کے استعمال سے گریز کرتے ہیں۔ اسی لئے رب تعالیٰ نے فرمایا:
”کیا تم سمجھتے ہو کہ ان کی اکثریت، سماعت کا یا عقل کا استعمال کرتی ہے؟ نہیں، بلکہ یہ تو محض جانور ہیں، یا ان سے بھی زیادہ بدتر۔“(٢٥:٤٤)
”انسانو! بیشک ہم نے نازل کی ہے تمہاری طرف ایک ایسی کتاب، جس میں تمہارا تذکرہ موجود ہے، کیا اب بھی تم عقل کا استعمال نہیں کروگے؟“(قرآن21:10)
مزید تفصیل : روح ، عقل و شعور اور قرآن[60] ....
اللہ نے بہترین حدیث ( أَحْسَنَ الْحَدِيثِ) اس کتاب (قرآن) کی شکل میں نازل کیا ہے جس کی آیتیں آپس میں ملتی جلتی ہیں اور بار بار دہرائی گئی ہیں کہ ان سے خوف خدا رکھنے والوں کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں اس کے بعد ان کے جسم اور دل یاد خدا کے لئے نرم ہوجاتے ہیں یہی اللہ کی واقعی ہدایت ہے وہ جس کو چاہتا ہے عطا فرمادیتا ہے اور جس کو وہ گمراہی میں چھوڑ دے اس کا کوئی ہدایت کرنے والا نہیں ہے (قرآن 39:23)[61]
یہ الله کی آیات ہیں جو ہم آپ کو بالکل سچی پڑھ کر سناتے ہیں پھر اللہ اور اس کی آیتوں کو چھوڑ کر کونسی حدیث پر ایمان لائیں گے، (الجاثية45:6)
اب اِس (قرآن) کے بعد اور کونسی حدیث پر یہ ایمان لائیں؟ ( المرسلات 77:50)
پھر(قرآن) کے بعد کس حدیث پر یہ لوگ ایمان لائيں گے (الأعراف 7:185)
اللہ وہ ہے جس کے سوا کوئی خدا نہیں ہے، وہ تم سب کو اُس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شبہہ نہیں، اور اللہ کی بات سے بڑھ کر سچی حدیث اور کس کی ہوسکتی ہے (النساء 4:87)
رسول اللہ ﷺ خطبہ سے قبل ارشاد فرماتے تھے:وَيَقُولُ أَمَّا بَعْدُ فَإِنَّ خَيْرَ الْحَدِيثِ کِتَابُ اللَّهِ وَخَيْرُ الْهُدَی هُدَی مُحَمَّدٍ وَشَرُّ الْأُمُورِ مُحْدَثَاتُهَا وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 2005)[62]
(ترجمہ) "اما بعد کہ بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیں (یعنی دین کے نام سے نئے طریقے جاری کرنا) اور ہر بدعت[63] گمراہی ہے" (وَکُلُّ بِدْعَةٍ ضَلَالَةٌ ) (صحیح مسلم، حدیث نمبر:2005 ، نسایی؛ 1579 ، ابن ماجہ 45، مشکوات المصابیح 139، معارف حدیث 1889)[64]
علم تین ہیں: 1) آیت محکمہ[65] اور 2) سنت ثابتہ اور 3) فریضہ عادلہ-[66]
حدیث کا سماع ، حفظ و بیان : رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ اللہ اس شخص کے چہرے کو تروتازہ رکھے جس نے میری حدیث کو سنا، اسےحفظ کیا، اور پھر اسے آگے بیان کیا....(نَضَّرَ اللَّهُ عَبْدًا سَمِعَ مَقَالَتِي فَحَفِظَهَا وَوَعَاهَا وَأَدَّاهَا)‘‘
[(مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 228, صحیح، رواہ الشافعی (فی الرسالۃ ص ۴۰۱ فقرہ: ۱۱۰۲ ص ۴۲۳) و البیھقی فی شعب الایمان (۱۷۳۸) و الترمذی (۲۶۵۸) و احمد (۱/ ۴۳۶) تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ العلم 10 (3660)، سنن ابن ماجہ/المقدمة: 18 (230) (تحفة الأشراف: 3694)، و مسند احمد (1/437)، و (5/183)، وسنن الدارمی/المقدمة 24 (235) (صحیح)[67]
اَلَمۡ تَرَ اِلَی الَّذِیۡنَ اُوۡتُوۡا نَصِیۡبًا مِّنَ الۡکِتٰبِ یَشۡتَرُوۡنَ الضَّلٰلَۃَ وَ یُرِیۡدُوۡنَ اَنۡ تَضِلُّوا السَّبِیۡلَ ﴿ؕ4:44﴾
کیا تم نے نہیں دیکھا؟ جنہیں کتاب کا کچھ حصّہ دیا گیا ہے وہ گُمراہی خریدتے ہیں اور چاہتے ہیں کہ تم بھی راہ سے بھٹک جاؤ ۔ ﴿ؕ4:44﴾[68]
علماء اہل کتاب کے متعلق قرآن نے اکثر یہ الفاظ استعمال کیے ہیں کہ ” انہیں کتاب کے علم کا کچھ حصہ دیا گیا ہے ۔ “ اس کی وجہ یہ ہے کہ اول تو انہوں نے کتاب الہٰی کا ایک حصہ گم کر دیا تھا ۔ پھر جو کچھ کتاب الہٰی میں سے ان کے پاس موجود تھا اس کی روح اور اس کے مقصد و مدعا سے بھی وہ بیگانہ ہو چکے تھے ۔ ان کی تمام دلچسپیاں لفظی بحثوں اور احکام کے جزئیات اور عقائد کی فلسفیانہ پیچیدگیوں تک محدود تھیں ۔ یہی وجہ تھی کہ وہ دین کی حقیقت سے ناآشنا اور دینداری کے جوہر سے خالی تھے ، اگرچہ علماء دین اور پیشوایان ملت کہے جاتے تھے- (تفہیم القران) پھر یہود نے انہوں نے 38 جلد کی تلمود اور نصاری نے انجیل کے ساتھ 23 کتب لکھ کر رہی کسر بھی نکال اور کتاب اللہ کو پس پشت دال دیا- یہودیوں کے مولوی کتاب اللہ میں تحریف کرتے تھے ان کی اسی تحریف کو پہلے اَلضَّلٰلَۃ سے تعبیر فرمایا۔ علماء یہود اپنے ماننے والوں اور اپنے معتقدین سے بڑی بڑی رقمیں وصول کرتے اور اپنی خواہشات کے مطابق تورات میں لفظی اور معنوی تحریفیں کیا کر تھے-
وَأَنَّ هَذَا صِرَاطِي مُسْتَقِيمًا فَاتَّبِعُوهُ وَلَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِكُمْ عَنْ سَبِيلِهِ] (الأنعام:153)[69]
” اور یہ کہ یہ دین میرا راستہ ہے ، سو اسی پر چلو اور دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ تعالی کی راہ سے جدا کردیں گی-"
اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ وَ مَا اخۡتَلَفَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿۱۹﴾
بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے اور اہل کتاب اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بناء پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالٰی اس کا جلد حساب لینے والا ہے (3:19)[70]
اسی لیے رسول اللہ ﷺ ںے بھی یہود و نصاری کی پیروی کی سختی سے ممانعت فرمائی[71] اور قرآن کے علاوہ کسی اور کتاب حدیث سے منع فرمایا[72] ["تقييد العلم للخطيب 33], [الفاظ میں فرق کے ساتھ ، مسند احمد، حدیث: 10670, ، صحیح مسلم، حدیث: 7510، تقييد العلم ، الخطيب البغدادي : 49)] (یہ قرآن کے مطابق ہے[73]) اور حضرت ابوهریره (رضی الله ) نے اپنے ذخیرہ احدیث کو آگ لگا دی اور مرتے دم تک حدیث نہ لکھی حفظ و بیان کی اجازت تھی اس طرح باقی صحابہ[74] ما سوا کچھ کمزورحافظہ والوں کو ذاتی نوٹس لکھنے کی اجازت عطا کی- اس مسلہ کا مستقل حل خلفاء راشدین کی سنت[75] سے ملتا ہے جنہوں ںے قرآن کی مجلد تدوین کردی مگر کتاب حدیث کی تدوین، سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق نہ کی بلکہ اس پر پابندی لگا دی[76]، کہ یہود و نصاری کتاب اللہ کے ساتھ کتب لکھ کر گمراہ ہونے- رسول اللہ ﷺ کی وصیت[77] سے ان کو اختلافات میں اہم فیصلوں کا اختیار حاصل ہے ( ابی داود 4607[78]، ابن ماجہ42[79]) جن پر عمل درآمد کرنا مومنین پر فرض ہے(قرآن 47:33)[80] . الله اور رسول (ﷺ) کی ہدایت کو چھوڑ کر کسی دوسرے کی پیروی کرنا اللہ کے حکم کے خلاف ہے:-
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن؛ 4:14)-
"جہنّم میں ہمیشہ" رہنے کی سخت ترین سزا صرف کفار اور مشرکوں کے لیے ہے، مزید کچھ کہنے کو باقی نہیں رہتا- لہذا کسی صحابی ںے ذاتی نوٹس کے علاوہ کتاب نہ لکھی جو کہ دوسری تیسری صدی حجرہ میں لکھی گیئں- ایمان کے بنیادی ارکان میں مومن کے لئے صرف کتب اللہ پر ایمان لازم ہے(2:285)[81]- اس کو رسول اللہ ﷺ نے مزید واضح کر دیا جب فرمایا:’’ علم تین ہیں:1) آیت محکمہ اور 2)سنت ثابتہ اور3) فریضہ عادلہ [82]. قرآن کا حآل بھی وہی ہوا جیسے پہلی کتب الله ، دوسری کتب (تلمود 38 جلد اور 23 کتب، انجیل کے علاوہ، عہد نامہ جدید میں) کی وجہ سے نظر انداز ہوئیں[83] - اس غلطی ، نافرمانی کا فوری ازالہ کرنا ہوگا- احادیث کے لئے کتب کی جگہ ڈیجیٹل ٹیکنولوجی[84] کے استعمال پر تحقیق کی ضرورت ہے-
قرآن مھجور (متروک العمل) ہو گیا[85] جیسا کہ قرآن میں ہے: "اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو (’مہجور) متروک العمل[86] کر رکھا تھا" (قرآن 03:52).
مزید : علم الحديث کے سات سنہری اصول....
اللہ کی کتاب میں ہدایت اور نور ہے، جو اسے پکڑے گا وہ ہدایت پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہ ہوجائے گا۔" (صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6227)[87]
حضرت علی مرتضی ؓ سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا، آپ ﷺ نے ایک دن فرمایا: "آگاہ ہو جاؤ ایک بڑا فتنہ آنے والا ہے۔" میں نے عرض کیا:"یا رسول اللہ! اس فتنہ کے سر سے بچنے اور نجات پانے کا ذریعہ کیا ہے؟ آپ ﷺ نے فرمایا:
1۔ "کتاب اللہ، اس میں تم سے پہلے امتوں کے (سبق آموز) واقعات ہیں, اور تمہارے بعد کی اس میں اطلاعات ہیں، (یعنی اعمال و اخلاق کے جو دنیوی و اخروی نتائج و ثمرات مستقبل میں سامنے آنے والے ہیں، قرآن مجید میں ان سب سے بھی آگاہی دے دی گئی ہے)
2۔ اور تمہارے درمیان جو مسائل پیدا ہوں قرآن میں ان کا حکم اور فیصلہ موجود ہے (حق و باطل اور صحیح و غلط کے بارے میں)
3۔ وہ قول فیصل ہے، وہ فضول بات اوریا وہ گوئی نہیں ہے۔
4۔ جو کوئی جابر و سرکش اس کو چھوڑے گا (یعنی غرور و سرکشی کی راہ سے قرآن سے منہ موڑے گا) اللہ تعالیٰ اس کو توڑ کے رکھ دے گا
5۔ اور جو کوئی ہدایت کو قرآن کے بغیر تلاش کرے گا اس کے حصہ میں اللہ کی طرف سے صرف گمراہی آئے گی* (یعنی وہ ہدایتِ حق سے محروم رہے گا)
6۔قرآن ہی حبل اللہ المتین یعنی اللہ سے تعلق کا مضبوط وسیلہ ہے، اور محکم نصیحت نامہ ہے، اور وہی صراطِ مستقیم ہے۔
7۔ وہی وہ حق مبین ہے جس کے اتباع سے خیالات کجی سے محفوظ رہتے ہیں اور زبانیں اس کو گڑ بڑ نہیں کر سکتیں (یعنی جس طرح اگلی کتابوں میں زبانوں کی راہ سے تحریف داخل ہو گئی اور محرفین نے کچھ کا کچھ پڑھ کے اس کو محرف کر دیا اس طرح قرآن مین کوئی تحریف نہیں ہو سکے گی، اللہ تعالیی نے تا قیامت اس کے محفوظ رہنے کا انتظام فرما دیا ہے)
8۔ اور علم والے بھی ادانتوںس کے علم سے سیر نہیں ہوں گے (یعنی قرآن میں تدبر کا عمل اور اس کے حقائق و معارف کی تلاش کا سلسلہ ہمیشہ جاری رہے گا اور کبھی ایسا وقت نہیں آئے گا کہ قرآن کا علم حاصل کرنے والے محسوس کریں کہ ہم نے علم قرآن پر پورا عبور حاصل کر لیا اور اب ہمارے حاصل کرنے کے لئے کچھ باقی نہیں رہا، بلکہ قرآن کے طالبین علم کا حال ہمیشہ یہ رہے گا کہ وہ علم قرآن میں جتنے آگے بڑھتے رہین گے اتنی ہی ان کی طلب ترقی کرتی رہے گی اور ان کا احساس یہ ہو گا کہ جو کچھ ہم نے حاصل کیا ہے وہ اس کے مقابلہ میں کچھ بھی نہیں ہے جو ابھی ہم کو حاصل نہیں ہوا ہے)
9۔ اور وہ قرآن کثرت مزاولت سے کبھی پرانا نہیں ہو گا (یعنی جس طرح دنیا کی دوسری کتابوں کا حال ہے کہ بار بار پڑھنے کے بعد ان کے پڑھنے میں آدمی کو لطف نہیں آتا، قرآن مجید کا معاملہ اس کے بالکل برعکس ہے وہ جتنا پڑھا جائے گا اور جتنا اس میں تفکر و تدبر کیا جائے گا اتنا ہی اس کے لطف و لذت میں اضافہ ہو گا)
10۔ اور اس کے عجائب (یعنی اس کے دقیق و لطیف حقائق و معارف) کبھی ختم نہیں ہوں گے۔
11۔قرآن کی یہ شان ہے کہ جب جنوں نے اس کو سنا تو بےاختیار بول اٹھے۔
إِنَّا سَمِعْنَا قُرْآنًا عَجَبًا يَهْدِي إِلَى الرُّشْدِ فَآمَنَّا بِهِ (الجن، 1،2:72)
ہم نے قرآن سنا جو عجیب ہے، رہنمائی کرتا ہے بھلائی کی، پس ہم اس پر ایمان لے آئے۔
12، جس نے قرآن کے موافق بات کہی اس نے سچی بات کہی،
13۔ اور جس نے قرآن پر عمل کیا وہ مستحقِ اجر و ثواب ہوا
14۔ اور جس نے قرآن کے موافق فیصلہ کیا اس نے عدل و انصاف کیا
15۔اور جس نے قرآن کی طرف دعوت دی اس کو صراطِ مستقیم کی ہدایت نصیب ہو گئی۔
(جامع ترمذی، سنن دارمی) (معارف الحدیث، حدیث نمبر: 1084)[88]
..۔فَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ [سورت آل عمران (آیت:۱۲۳)]
’’ اللہ کا تقویٰ اختیار کرو تاکہ شکر کرو۔‘‘
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٠٢﴾
"اے اہل ایمان ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر اسلام (فرمانبرداری) کی حالت میں"(3:102)
وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَ[89]انًا وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَاکَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ.[آل عمران:۱۰۳] ’
’’اور سب مل کر اللہ کی (ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اُس مہربانی کو یاد کرو،جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اُس نے تمھارے دلوں میں اُلفت ڈال دی اور تم اُس کی مہربانی سے بھائی بھائی ہو گئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمھیں اُس سے بچا لیا،اس طرح اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘
تقویٰ کے بعد سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھام لینے کا درس دے کر واضح کر دیا کہ نجات بھی انہی دو اصولوں میں ہے اور اتحاد بھی انھیں پر قائم ہو سکتا اور رہ سکتا ہے۔
مسلمانوں کے زوال کے بنیادی طور پر تین بڑے اسباب[90] معلوم ہوتے ہیں: (١) قرآن سے لا تعلقی (٢) قانون علت و معلول (cause and effect) کو نظر انداز کرنا اور (٣) اخلاقی انحتاط –
آج ہمیں اپنے قومی و ملکی مسائل کے حل کے لیے قرآن کی تلوار ہاتھ میں لے کر جہاد کرنے اور قرآنی دعوت کے ذریعے سے ِ ایک بھر پور انقلابیّ جدوجہد برپا کرنے کی ضروت ہے۔
فَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا
"پس تو کافروں کا کہنا نہ مان اور تو اس ( قرآن کی دعوت اور دلائل ) کے ذریعے ان کے ساتھ بڑا جہاد (جِھَادًا کَبِیْرًا) کر"
ہمارے اجتماعی مسائل کا حل بھی یہی ہے اور ہمارے اندرونی امراض کی دوا ” وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ “( یونس : 57) بھی اسی میں ہے:
وَ مَنۡ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفۡسِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶﴾
“اور ہر ایک جہاد کرنے والا اپنے ہی بھلے کی کوشش کرتا ہے ۔ ویسے تو اللہ تعالٰی تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے” (29:6)
قرآن کے ہم پر چار حقوق ہیں :
الله نے نے تمام مسلمانوں کو قرآن کا وارث بنایا (35:32). [تفسیرلنک[91]] قرآن کے حقوق ہر مسلمان نے استطاعت کے مطابق ادا کرنا ہیں:
١..قرآن پر ایمان ، ٢. .قرآن کو پڑھنا، سمجھنا، تدبر اور تفکر ، ٣. .قرآن پر عمل کرنا ، ٤..قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانا
یاد رہے کہ : قرآن کا پیغام پہنچانا جہاد کبیرہ ہے (25:52)
روز محشر رسول الله ﷺ کہیں گے: ”اے میرے رب ! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا “ (25:30) [ تفسیرلنک[92] ]
جب ہم قرآن کوسمجھ. کر اس پر عمل کریں گے تو اگلا مرحلہ اس “جہاد کبیرہ ” کو کفار تک پھیلانا ہو گا ، گھوڑوں پر سوار تلوار کے زور پر فتوحات کا دور گزر گیا … قرآن کے علم حق اور کلام کی طاقت سے ہم کفار کے ذھن و دماغ سے باطل نظریات کو شکست دے کر فتح کر سکتے ہیں (:9:33) … الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ، انٹرنیٹ اور موبائل آج کے دور کا موثر ہتھیار ہے .. سائبر سپیس (cyber space) میدان جنگ … اسی لیےیہ ای بک "احکام القرآن"ر ، جہاد بالقرآن کا ایک ہتھیار ہے -
خبر دار! کوئی غلط فہمی نہ رہے کہ جہاد (قتال . جنگ ، حرب) موقوف ہو گیا ؟ موجودہ دور مکی ، مدنی ادوار کا مرکب ہے- قرآن کے زریعہ “جہاد کبیرہ” (مسلسل جدو جہد) کرتے ہوے جہاد (قتال . جنگ ، حرب) کی تیاری مکمل رکھیں (8:60) تاکہ جب اسلامی ریاست کو ضرورت پڑے تو دشمنوں کو دندان شکن جواب دے سکیں-
مزید پڑہیں : جہاد کبیرہ[93] ----
سورۃ العلق (آیت:۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِقْرَاْ بِاسْمِ رَبِّکَ الَّذِیْ خَلَقَ.
’’(اے نبیِ !) اپنے پروردگار کا نام لے کر پڑھو،جس نے (عالم کو) پیدا کیا۔‘‘
یہ پہلی وحی تھی جوغار حرا میں رسول اللہ ﷺ پر نازل ہوئی- فرشتے نے جب حضور سے کہا کہ پڑھو ، تو حضور نے جواب دیا کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ فرشتے نے وحی کے یہ الفاظ لکھی ہوئی صورت میں آپ کے سامنے پیش کیے تھے اور انہیں پڑھنے کے لیے کہا تھا ۔ کیونکہ اگر فرشتے کی بات کا مطلب یہ ہوتا کہ جس طرح میں بولتا جاؤں آپ اسی طرح پڑھتے جائیں ، تو حضور کو یہ کہنے کی کوئی ضرورت نہ ہوتی کہ میں پڑھا ہوا نہیں ہوں ۔ سورة العلق حاشیہ نمبر : 2 یعنی اپنے رب کا نام لے کر پڑھو ، یا بالفاظ دیگر بسم اللہ کہو اور پڑھو ۔ اس سے یہ بات بھی معلوم ہوئی کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس وحی کے آنے سے پہلے صرف اللہ تعالی کو اپنا رب جانتے اور مانتے تھے ۔ اسی لیے یہ کہنے کی کوئی ضرورت پیش نہیں آئی کہ آپ کا رب کون ہے ، بلکہ یہ کہا گیا کہ اپنے رب کا نام لے کر پڑھو ۔ مطلقا پیدا کیا فرمایا گیا ہے ، یہ نہیں کہا گیا کہ کس کو پیدا کیا ۔ اس سے خودبخود یہ مفہوم نکلتا ہے کہ اس رب کا نام لے کر پڑھو جو خالق ہے ، جس نے ساری کائنات کو اور کائنات کی ہر چیز کو پیدا کیا ہے-
.وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ قَالُوْا سَمِعْنَا وَ ھُمْ لَا یَسْمَعُوْنَ اِنَّ شَرَّ الدَّوَآبِّ عِنْدَ اللّٰہِ الصُّمُّ الْبُکْمُ الَّذِیْنَ لَا یَعْقِلُوْنَ.
’’اور اُن لوگوں جیسے نہ ہونا جو کہتے ہیں کہ ہم نے (حکمِ الٰہی) سن لیا مگر (حقیقت میں ) نہیں سنتے - کچھ شک نہیں کہ اللہ کے نزدیک تمام جان داروں سے بدتر بہرے گونگے ہیں،جو کچھ نہیں سمجھتے۔‘‘
سن لینے کے باوجود عمل نہ کرنا یہ کافروں کا طریقہ ہے۔ لہٰذا تم اس رویے سے بچو۔اگلی آیت میں ایسے ہی لوگوں کو بہرہ،گونگا،غیر عاقل اور بد ترینِ خلائق قرار دیا گیا ہے۔دَوَابّ،دَابَّۃٌ کی جمع ہے۔جو بھی زمین پر چلنے پھرنے والی چیز ہے وہ دابۃ ہے۔مراد مخلوقات ہے۔یعنی یہ سب سے بدتر ہیں،جو حق کے معاملے میں بہرے گونگے اور غیر عاقل ہیں۔
سی بات کو قرآنِ کریم میں دوسرے مقام پر اس طرح بیان فرمایا ہے:
.لَھُمْ قُلُوْبٌ لَّا یَفْقَھُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اَعْیُنٌ لَّا یُبْصِرُوْنَ بِھَا وَ لَھُمْ اٰذَانٌ لَّا یَسْمَعُوْنَ بِھَا اُولٰٓئِکَ کَالْاَنْعَامِ بَلْ ھُمْ اَضَلُّ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْغٰفِلُوْنَ.[الأعراف:۱۷۹]
’’ان کے دل ہیں،لیکن ان سے سمجھتے نہیں،ان کی آنکھیں ہیں،لیکن ان سے دیکھتے نہیں اور ان کے کان ہیں،لیکن ان سے سنتے نہیں،یہ چوپائے کی طرح ہیں،بلکہ ان سے بھی زیادہ گمراہ۔یہ لوگ (اللہ سے) بے خبر ہیں۔‘‘
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
اِتَّبِعُوْا مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَا تَتَّبِعُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ (سورۃ الاعراف:7:3)[94]
لوگو ! یہ کتاب تم پر تمہارے رب کی طرف سے نازل ہوئی ہے اس کی پیروی کرو۔ اور اپنے رب کو چھوڑ کر دوسرے سرپرستوں کی پیروی نہ کرو مگر تم نصیحت کم ہی پاتے ہو- ( سورۃ الاعراف:7:3)
الله تعالی کے اس واضح حکم کی نفی (negation) کرنے کا طریقہ ایجاد کیا گیا کہ ایک "خبرواحد" اور مزید یہ کہ اس کا متن جو کہ واضح محکم نہیں، متشابہ کےدرجہ میں آتا ہے (ملاحضہ قرآن 3:7[95]) اس حدیث کی تشریح کرکہ قرآن کی اس "محکم" آیت کو بے اثر کرنے کی کوشش میں صدیوں سے گمراہ کرنے میں کامیاب ہیں- عقل استعمال کریں کہ اگر قرآن کی متشابه آیت، قرآن کی کسی محکم آیت کو بے اثر یا نفی (negate) نہیں کر سکتی تو ایک خبر واحد (حدیث متواتر بھی نہیں) کی مرضی سے تشریح کرکہ قرآن کی اس آیت محکم پر کیسے تجاوز(override) کیا جا سکتا ہے؟ اللہ کو معلوم ہے کہ یہ لوگ ایسی حرکت کریں گے اسی لیے اسی آیت میں فرمایا ( قَلِیْلًا مَّا تَذَکَّرُوْنَ) "مگر تم نصیحت کم ہی پاتے ہو"-
اس متشابہ ، خبر واحد حدیث کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں قرآن اور اس کی مثل اس کے ساتھ دیا گیا ہوں۔‘‘[96] , [97]
اس حدیث کی حقیقت اور اس موضوع پرتمام دلائل کا مدلل جواب اس تحقیق میں دیا گیا ہے[98] مختصر یہ کہ اگر اس حدیث کو قبول بھی کرلیں تو قرآن کا "مثل" کا مطلب وحی خفی، غیر متلو کیسے بن گیا نہ اصطلاح قرآن میں ہیں نہ ہی کسی حدیث میں نہ صحابہ ، نہ خلفاء راشدین کو معلوم نہ ہی رسول اللہ ﷺ ںے استعمال کیے وہ قرآن کے برخلاف کیسے جا سکتے ہیں - رسول اللہ ﷺ کو "علم"[99] بھی دیا گیا تھا جو وحی نہیں ، تمام پیغمبروں کی طرح آپ ﷺ اور علم سے نوازا گیا تھا- جو سنت میں موجود ہے -
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ علم تین ہیں: ١)آیت محکمہ اور ٢) سنت ثابتہ اور ٣) فریضہ عادلہ
(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 239، رواہ ابوداؤد (2558) و ابن ماجہ (54) الذھبی فی تلخیص المستدرک (۴/ ۳۳۲)
*سنت اور حدیث[100] دو عیلحدہ چیزیں ہیں ، عمومی طور پر عام مسلمان کو یہ باور کرایا جاتا ہے کہ یہ ایک بات ہے جو کہ درست نہیں - رسول ﷺ نے ان دونوں میں فرق[101] رکھا -
احادیث جو رسول اللہ ﷺ کے میعار کے مطابق ہوں قابل قبول ہیں- جو امام ، عالم ، اولیاء ، متقی ، صالحین قرآن و سنت کے مطابق رہنمائی کریں وہ ان کی نہیں قرآن و سنت کی تقلید ہے- تفصیل دیے گئے لنکس پر ملاحضہ کریں-
رسول اللہ ﷺ کی اطاعت فرض ہے ، سنت محفوظ ترین ہے جو کہ ہزاروں صحابہ سے مشاہدہ اور عمل سے نسل در نسل تواتر سے منتقل چلی آرہی ہے- احادیث کی پہچان کے لئے رسول اللہ ﷺ نے اصول[102] دیے ان کے مطابق جو میعار پر پورا اترتی ہیں ان کو قبول کریں- کسی کی من گھڑت موضوع حدیث کو رسول اللہ ﷺ کے صرف نام پر قبول کرنا گمراہی اور نہ فرمانی ہے-
قرآن کا مثل حدیث؟ کی حقیقت
اس موضوع پر کل تیرہ (13) احادیث ملی ہیں۔ تین (3) میں راوی " الْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ الْكِنْدِيِّ" نے روایت کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے حلال ، حرام جانوروں کے بارے میں ذکر کیا ہے اور یہ ہے کہ: "ان کو قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے"- جبکہ نو (9) احادیث میں یہ جملہ:"ان کو قرآن کی طرح کچھ دیا گیا ہے" ، شامل نہیں ہے جبکہ دیگر مشمولات حلال اور حرام کھانے / کھانے پینے کے بارے میں بھی ملتے جلتے ہیں۔ یہ احادیث رسول اللہ ﷺ کنے حدیث کی درستگی/ پہچان کنے میعار پر پوری نہیں اترتیں- تجزیہ لنک پر-
قرآن کا اتباع ضروری ہے،اس کے علاوہ کسی کا اتباع ضروری نہیں، بلکہ کا انکار لازمی ہے۔
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تُطِیْعُوا الَّذِیْنَ کَفَرُوْا یَرُدُّوْکُمْ عَلیٰٓ اَعْقَابِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْنَ (3:149)
’’مومنو! ، اگر تم اُن لوگوں کے اشاروں پر چلو گے جنہوں نے کفر کی راہ اختیار کی ہے تو وہ تم کو الٹا پھیر لے جائیں گے اور تم نامراد ہو جاؤ گے (3:149)
سورت ہود (آیت:۱۱۳) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.وَ لَا تَرْکَنُوْٓا اِلَی الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا فَتَمَسَّکُمُ النَّارُ وَ مَا لَکُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآئَ ثُمَّ لَا تُنْصَرُوْنَ.
’’اور جو لوگ ظالم ہیں،ان کی طرف مائل نہ ہونا نہیں تو تمھیں (دوزخ کی) آگ آلپٹے گی اور اللہ کے سوا تمھارے کوئی دوست نہیں ہیں،اگر تم ظالموں کی طرف مائل ہوگئے تو پھر تم کو (کہیں سے) مدد نہ مل سکے گی۔‘‘
سورۃ الدہر (آیت:۲۴) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلاَ تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِمًا اَوْ کَفُوْرًا.
’’اپنے پروردگار کے حکم کے مطابق صبر کیے رہو اور ان لوگوں میں سے کسی بدعمل اور ناشکرے کا کہا نہ مانو۔‘‘
مزید : وحی متلو اور غیر متلوتحقیقی جائزہ ......
سورۃ النحل (آیت:۹۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاِذَا قَرَاْتَ الْقُرْاٰنَ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ.
’’اور جب تم قرآن پڑھنے لگو تو شیطانِ مردود سے پناہ مانگ لیا کرو۔‘‘
یہاں خطاب اگرچہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے،لیکن مخاطب ساری امت ہے،یعنی تلاوت کے آغاز میں.اَعُوْذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیْطٰنِ الرَّجِیْمِ.پڑھا جائے۔
سورۃ الاعراف (آیت:۲۰۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اِذَا قُرِیَٔ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَہٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.
’’اور جب قرآن پڑھا جائے تو توجہ سے سنا کرو اور خاموش رہا کرو،تاکہ تم پر رحم کیا جائے۔‘‘
یہ اُن کافروں کو کہا جا رہا ہے،جو قرآن کی تلاوت کرتے وقت شور کرتے تھے اور اپنے ساتھیوں سے کہتے تھے:
.لاَ تَسْمَعُوْا لِھٰذَا الْقُرْاٰنِ وَالْغَوْا فِیْہِ.[حم السجدۃ:۲۶]
’’یہ قرآن مت سنو اور شور کرو۔‘‘
ان سے کہا گیا کہ اس کے بجائے،تم اگر غور سے سنو اور خاموش رہو تو شاید اللہ تعالیٰ تمھیں ہدایت سے نواز دے اور یوں تم رحمت الٰہی کے مستحق بن جائو۔
بعض ائمہ دین اسے عام مراد لیتے ہیں،یعنی جب بھی قرآن پڑھا جائے،چاہے نماز ہو یا غیر نماز،سب کو خاموشی سے قرآن سننے کا حکم ہے اور پھر وہ اس عموم سے استدلال کرتے ہوئے،جہری نمازوں میں مقتدی کے لیے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کو بھی اس قرآنی حکم کے خلاف بتاتے ہیں۔لیکن صحیح بات یہ ہے کہ جہری نمازوں میں امام کے پیچھے سورۃ الفاتحہ پڑھنے کی تاکید نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے صحیح احادیث سے ثابت ہے۔اس آیت کو صرف کفار کے متعلق ہی سمجھنا صحیح ہے،جیسا کہ اس کے مکی ہونے سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔
سورت محمد (آیت:۲۴)
.اَفَلاَ یَتَدَبَّرُوْنَ الْقُرْاٰنَ اَمْ عَلٰی قُلُوْبٍ اَقْفَالُھَا.
’’بھلا یہ لوگ قرآن میں غور نہیں کرتے یا (ان کے) دلوں پر قفل لگ گئے ہیں ؟‘‘
وَ قَالَ الرَّسُوۡلُ یٰرَبِّ اِنَّ قَوۡمِی اتَّخَذُوۡا ہٰذَا الۡقُرۡاٰنَ مَہۡجُوۡرًا ﴿۳۰﴾
اور رسول کہے گا کہ اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو مہجور کر رکھا تھا ۔ (قرآن 25:30)
’’مہجورا‘‘ ایسے جانور کو کہتے ہیں جس کے گلے میں رسی ڈال کر اس کا دوسرا سرا پیر سے باندھ دیا گیا ہو، اس طرح جانور چلنے پھرنے کے قابل ہونے کے باوجود مکمل طور سے آزاد نہیں ہوتا۔ وہ چلتا پھرتا ہے لیکن اتنا ہی جتنا اس کے گلے کی رسی اجازت دے۔ علامہ اقبال کے اس مصرعے میں اسی آیت کی تلمیح پائی جاتی ہے : ع
” خوار از مہجورئ قرآں شدی “
کہ اے مسلمان آج تو اگر ذلیل و خوار ہے تو اس کا سبب یہی ہے کہ تو نے قرآن کو چھوڑ دیا ہے۔
قرآن کو مھجور/ ترک العمل کرنا ......[103]
سورۃ البقرۃ (آیت:۴۱،۴۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اٰمِنُوْا بِمَآ اَنْزَلْتُ مُصَدِّقًا لِّمَا مَعَکُمْ وَ لاَ تَکُوْنُوْٓا اَوَّلَ کَافِرٍم بِہٖ وَ لاَ تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلاً وَ اِیَّایَ فَاتَّقُوْنِ . وَ لاَ تَلْبِسُوا الْحَقَّ بِالْبَاطِلِ وَ تَکْتُمُوا الْحَقَّ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.
’’اور جو کتاب میں نے (اپنے رسول پر) نازل کی ہے جو تمھاری کتاب (تورات) کو سچا کہتی ہے،اس پر ایمان لائو اور اس سے منکرِ اوّل نہ بنو اور میری آیتوں میں (تحریف کر کے) ان کے بدلے تھوڑی سی قیمت (دنیاوی منفعت) نہ حاصل کرو اور مجھ ہی سے خوف رکھو اور حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ اور سچی بات کو جان بُوجھ کر نہ چھپاؤ۔‘‘
’’تھوڑی سی قیمت (دنیاوی منفعت) نہ حاصل کرو ‘‘ کا یہ مطلب نہیں کہ زیادہ معاوضہ مل جائے تو احکامِ الٰہی کا سودا کر لو،بلکہ مطلب یہ ہے کہ احکامِ الٰہی کے مقابلے میں دنیاوی مفادات کو اہمیت نہ دو۔احکامِ الٰہی تو اتنے قیمتی ہیں کہ ساری دنیا کا مال و متاع بھی ان کے مقابلے میں ہیچ ہے۔اِس آیت میں اصل مخاطب اگرچہ بنی اسرائیل ہیں،لیکن یہ حکم قیامت تک آنے والوں کے لیے ہے۔جو بھی ابطالِ حق اور اثباتِ باطل یا کتمانِ علم کا ارتکاب اور احقاقِ حق سے محض طلبِ دنیا کے لیے گریز کرے گا،وہ اس وعید میں شامل ہوگا۔[104]
-نیز سورۃ المائدہ (آیت:۴۴) میں فرمایا ہے:
.فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ.
’’تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۵۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْتُمُوْنَ مَآ اَنْزَلْنَا مِنَ الْبَیِّنٰتِ وَالْھُدٰی مِنْم بَعْدِ مَا بَیَّنّٰہُ لِلنَّاسِ فِی الْکِتٰبِ اُولٰٓئِکَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰہُ وَ یَلْعَنُھُمُ اللّٰعِنُوْنَ.
’’جو لوگ ہمارے احکام اور ہدایات کو جو ہم نے نازل کی ہیں (کسی غرضِ فاسد سے) چھپاتے ہیں،باوجودیکہ ہم نے اُن کو لوگوں کے (سمجھانے کے) لیے اپنی کتاب میں کھول کھول کر بیان کر دیا ہے،ایسے لوگوں پر اللہ اور تمام لعنت کرنے والے لعنت کرتے ہیں۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے جو باتیں اپنی کتاب میں نازل فرمائی ہیں،انھیں چھپانا اتنا بڑا جرم ہے کہ اللہ کے علاوہ دیگر لعنت کرنے والے بھی اس پر لعنت کرتے ہیں۔حدیث میں ہے:
’’جس سے کوئی ایسی بات پوچھی گئی،جس کا اس کو علم تھا اور اس نے اسے چھپایا تو قیامت والے دن آگ کی لگام اس کے منہ میں دی جائے گی۔‘‘[105]
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۴۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَمْ تَقُوْلُوْنَ اِنَّ اِبْرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطَ کَانُوْا ھُوْدًا اَوْ نَصٰرٰی قُلْ ئَ اَنْتُمْ اَعْلَمُ اَمِ اللّٰہُ وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ کَتَمَ شَھَادَۃً عِنْدَہٗ مِنَ اللّٰہِ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ.
’’(اے یہود و نصاریٰ!) کیا تم اس بات کے قائل ہو کہ ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد یہودی یا عیسائی تھے؟ (اے نبی! ان سے) کہو کہ بھلا تم زیادہ جانتے ہو یا اللہ تعالیٰ؟ اور اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ کی شہادت (گواہی) کو جو اس کے پاس (کتاب میں موجود) ہے،چھپائے اور جو کچھ تم لوگ کر رہے ہو،اللہ تعالیٰ اس سے غافل نہیں ہے۔‘‘
یعنی تمھیں معلوم ہے کہ یہ انبیا یہودی یا عیسائی نہیں تھے،اسی طرح تمھاری کتابوں میں آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی نشانیاں بھی موجود ہیں،لیکن تم اُن شہادتوں کو لوگوں سے چھپا کر ایک بڑے ظلم کا ارتکاب کر رہے ہو،جو اللہ تعالیٰ سے پوشیدہ نہیں۔
الم ﴿١﴾ ذَٰلِكَ الْكِتَابُ لَا رَيْبَ ۛ فِيهِ ۛ هُدًى لِّلْمُتَّقِينَ ﴿٢﴾
یہ اللہ کی کتاب ہے، اس میں کوئی شک نہیں ہدایت ہے پرہیز گار لوگوں کے لیے (2:2)[106]
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۴۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ.
’’(اے پیغمبر! یہ نیا قبلہ) تمھارے رب کی طرف سے حق ہے تو تم ہر گز شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔‘‘
پیغمبر پر اللہ کی طرف سے جو بھی حکم اترتا ہے،وہ یقینا حق ہوتا ہے،اس میں شک و شبہے کی کوئی گنجایش نہیں ہوتی۔
سورت آل عمران (آیت:۶۰) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.اَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُنْ مِّنَ الْمُمْتَرِیْنَ.
’’(یہ بات) تمھارے پروردگار کی طرف سے حق ہے،سو تم ہر گز شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔‘‘
سورۃ الانعام (آیت:۱۱۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ الَّذِیْنَ اٰتَیْنٰھُمُ الْکِتٰبَ یَعْلَمُوْنَ اَنَّہٗ مُنَزَّلٌ مِّنْ رَّبِّکَ بِالْحَقِّ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ.
’’اور جن لوگوں کو ہم نے کتاب (تورات) دی ہے،وہ جانتے ہیں کہ وہ تمھارے رب کی طرف سے برحق نازل ہوئی ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں سے نہ ہونا۔‘‘
سورت یونس (آیت:۹۴) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.فَاِنْ کُنْتَ فِیْ شَکٍّ مِّمَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ فَسْئَلِ الَّذِیْنَ یَقْرَئُ وْنَ الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکَ لَقَدْ جَآئَ کَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ فَلَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُمْتَرِیْنَ.
’’پس اگر تو اس چیز کے متعلق شک میں ہے جو ہم نے تیری طرف نازل کی ہے،توجو لوگ تم سے پہلے کی (اتری ہوئی) کتابیں پڑھتے ہیں،اُن سے پوچھ لو،تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے حق آچکا ہے تو تم ہرگز شک کرنے والوں میں نہ ہونا۔‘‘
سورۃ النساء (آیت:۱۴۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ قَدْ نَزَّلَ عَلَیْکُمْ فِی الْکِتٰبِ اَنْ اِذَا سَمِعْتُمْ اٰیٰتِ اللّٰہِ یُکْفَرُ بِھَا وَ یُسْتَھْزَاُ بِھَافَلَا تَقْعُدُوْا مَعَھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖٓ اِنَّکُمْ اِذًا مِّثْلُھُمْ اِنَّ اللّٰہَ جَامِعُ الْمُنٰفِقِیْنَ وَ الْکٰفِرِیْنَ فِیْ جَھَنَّمَ جَمِیْعَا.
’’اور اللہ نے تم (مومنوں ) پر اپنی کتاب میں (یہ حکم) نازل فرمایا ہے کہ جب تم (کہیں ) سنو کہ اللہ کی آیتوں کا انکار ہو رہا ہے اور اُن کی ہنسی اڑائی جاتی ہے تو جب تک وہ لوگ دوسری باتیں (نہ) کرنے لگیں،اُن کے پاس مت بیٹھو،ورنہ تم بھی انھیں جیسے ہو جاؤ گے۔کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ منافقوں اور کافروں،سب کو دوزخ میں اکٹھا کرنے والا ہے۔‘‘
یعنی منع کرنے کے باوجود اگر تم ایسی مجلسوں میں جہاں آیاتِ الٰہی کا استہزا کیا جاتا ہو بیٹھو گے اور اس پر نکیر نہیں کرو گے تو پھر تم بھی گناہ میں ان کے برابر ہو گئے۔جیسے ایک حدیث میں آتا ہے:
’’جوشخص اللہ اور یومِ آخر ت ایمان رکھتا ہے،وہ اس دعوت میں شریک نہ ہو جس میں شراب کا دور چلے۔‘‘[107]
اس سے معلوم ہوا کہ ایسی مجلسوں اور اجتماعات میں شریک ہونا، جن میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا قولاً یا عملاً مذاق اڑایا جاتا ہو،جیسے آج کل کے امرا،فیشن ایبل اور مغرب زدہ حلقوں میں بالعموم ایسا ہوتا ہے،سخت گناہ ہے۔.اِنَّکُمْ اِذاً مِّثْلُھُمْ.کی وعیدِ قرآنی اہلِ ایمان کے اندر کپکپی طاری کر دینے کے لیے کافی ہے،بشرطیکہ دل میں ایمان ہو۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ فَاَعْرَضَ عَنْھَا وَ نَسِیَ مَا قَدَّمَتْ یَدٰہُ اِنَّا جَعَلْنَا عَلٰی قُلُوْبِھِمْ اَکِنَّۃً اَنْ یَّفْقَھُوْہُ وَ فِیْٓ اٰذَانِھِمْ وَقْرًا وَ اِنْ تَدْعُھُمْ اِلَی الْھُدٰی فَلَنْ یَّھْتَدُوْٓا اِذًا اَبَدًا.
’’اور اُس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جس کو اس کے رب کے کلام سے سمجھایا گیا تو اُس نے اس سے منہ پھیر لیا اور جو اعمال وہ آگے کر چکا اُس کو بھول گیا،ہم نے ان کے دلوں پر پردے ڈال دیے ہیں کہ اُسے سمجھ نہ سکیں اور کانوں میں بوجھ (پیدا کر دیا ہے کہ سن نہ سکیں ) اور اگر تم ان کو سیدھے راستے کی طرف بلاؤ تو کبھی سیدھے راستے پر نہ آئیں گے۔‘‘(سورۃ الکهف;18:57)[108]
سورۃ النحل (آیت:۹۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَشْتَرُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ ثَمَنًا قَلِیْلًا اِنَّمَا عِنْدَ اللّٰہِ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.
’’اور اللہ سے جو تم نے عہد کیا ہے (اس کو مت بیچو اور) اس کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لو (کیونکہ ایفاے عہد کا) جو (صلہ) اللہ کے ہاں مقرر ہے،وہ اگر سمجھو تو تمھارے لیے بہتر ہے۔‘‘
سورۃ النحل (آیت:۷۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَلَا تَضْرِبُوْا لِلّٰہِ الْاَمْثَالَ اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ.
’’(لوگو!) اللہ کے بارے میں (غلط) مثالیں نہ بناؤ (صحیح مثالوں کا طریقہ) اللہ ہی جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
جس طرح مشرکین مثالیں دیتے ہیں کہ بادشاہ سے ملنا ہو یا اس سے کوئی کام ہو تو براہِ راست بادشاہ سے کوئی نہیں مل سکتا۔اسے پہلے بادشاہ کے مقربین سے رابطہ کرنا پڑتا ہے،تب کہیں جاکر بادشاہ تک اس کی رسائی ہوتی ہے۔اسی طرح اللہ کی ذات بھی بہت اعلیٰ اور اونچی ہے۔اس تک پہنچنے کے لیے ہم اُن معبودوں کو ذریعہ بناتے ہیں یا بزرگوں کا وسیلہ پکڑتے ہیں۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:تم اس قسم کی مثالیں نہ دو،اس لیے کہ اللہ تو واحد ہے،اس کی کوئی مثال ہی نہیں۔وہ تو عالم الغیب،ظاہر و باطن اور حاضر و غائب کا علم رکھتا ہے،بھلا ایک انسانی بادشاہ اور اللہ تعالیٰ کا کیا تقابل و موازنہ؟
سورت لقمان (آیت:۲۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَلَمْ تَرَوْا اَنَّ اللّٰہَ سَخَّرَ لَکُمْ مَّا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ اَسْبَغَ عَلَیْکُمْ نِعَمَہٗ ظَاھِرَۃً وَّ بَاطِنَۃً وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یُّجَادِلُ فِی اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ لَا ھُدًی وَّ لَا کِتٰبٍ مُّنِیْرٍ.
’’کیا تم نے نہیں دیکھا کہ جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے،سب کو اللہ نے تمھارے قابو میں کر دیا ہے اور تم پر اپنی ظاہری اور باطنی نعمتیں پوری کر دی ہیں اور بعض لوگ ایسے ہیں کہ اللہ کے بارے میں جھگڑتے ہیں،نہ علم رکھتے ہیں اور نہ ہدایت اور نہ کتاب روشن۔‘‘
سورت آل عمران (آیت:۱۵۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ کَفَرُوْا وَ قَالُوْا لِاِخْوَانِھِمْ اِذَا ضَرَبُوْا فِی الْاَرْضِ اَوْ کَانُوْا غُزًّی لَّوْ کَانُوْا عِنْدَنَا مَا مَاتُوْا وَ مَا قُتِلُوْا لِیَجْعَلَ اللّٰہُ ذٰلِکَ حَسْرَۃً فِیْ قُلُوْبِھِمْ وَ اللّٰہُ یُحْیٖ وَ یُمِیْتُ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ.
’’مومنو! اُن لوگوں جیسے نہ ہونا جو کفر کرتے ہیں اور اُن کے (مسلمان) بھائی جب (اللہ کی راہ میں ) سفر کریں (اور مرجائیں ) یا جہاد کو نکلیں (اور مارے جائیں ) تو اُن کی نسبت کہتے ہیں کہ اگر وہ ہمارے پاس رہتے تو نہ مرتے اور نہ مارے جاتے۔ان باتوں سے مقصود یہ ہے کہ اللہ اُن لوگوں کے دلوں میں افسوس پیدا کر دے اور زندگی اور موت تو اللہ ہی دیتا ہے اور اللہ تعالیٰ تمھارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۵۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَ لَا تَکْفُرُوْنِ.
’’تم مجھے یاد کیا کرو،میں تمھیں یاد کیا کروں گا اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا۔‘‘
ذکر یعنی یاد کرنے کا مطلب ہروقت اللہ کو یاد کرنا ہے،یعنی اُس کی تسبیح اور تکبیر بلند کرو۔شکر کا مطلب اللہ کی دی ہوئی قوتوں اور توانائیوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرنا ہے۔خداداد قوتوں کو اللہ کی نافرمانی میں صرف کرنا،یہ اللہ کی ناشکرگزاری (کفرانِ نعمت) ہے۔شکر کرنے پر مزید احسانات کی نوید اور ناشکری پر عذابِ شدید کی وعید ہے۔
سورت ابراہیم (آیت:۷) میں فرمایا:
.وَإِذْ تَأَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ.
’’اور جب تمھارے رب نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمھیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کہ) میرا عذاب (بھی) سخت ہے۔‘‘
سورۃ الزمر (آیت:۱۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قُلْ اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ.
’’کہہ دو کہ اگر میں اپنے پروردگار کا حکم نہ مانوں تو مجھے بڑے دن کے عذاب سے ڈر لگتا ہے۔‘‘
سورۃ الاحزاب (آیت:۳۶) میں فرمان الٰہی ہے:
.وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا.
’’اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی اَمر مقرر کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے،وہ صریح گمراہ ہو گیا۔‘‘
سورہ ابراہیم (آیت:۷) میں فرمایا:
.وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ.
’’اور جب تمھارے رب نے تمھیں آگاہ کر دیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمھیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کہ) میرا عذاب (بھی) سخت ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ کُفرانِ نعمت یعنی ناشکری اللہ کو سخت ناپسند ہے،جس پر اس نے سخت عذاب کی وعید بیان فرمائی ہے،اِسی لیے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا کہ عورتوں کی اکثریت اپنے خاوند کی ناشکری کرنے کی وجہ سے جہنم میں جائے گی۔[109]
اللہ تعالیٰ کا حتمی وعدہ ہے اور اس کا اعلان بھی کہ شکر گزاروں کی نعمتیں اور بڑھ جائیں گی اور ناشکروں کی، نعمتوں کے منکروں اور ان کو چھپانے والوں کی نعمتیں چھن جائیں گی اور انھیں سخت سزا ہوگی۔
سورۃ الزمر (آیت:۷) میں ارشاد ربانی ہے:
.اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلاَ یَرْضٰی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ اِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ.
’’اگر ناشکری کرو گے تو اللہ تم سے بے پروا ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتااور اگر شکر کرو گے تو وہ اس کو تمھارے لیے پسند کرے گا اور کوئی اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،پھر تم کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے،پھر جو کچھ تم کرتے رہے،وہ تم کو بتائے گا،وہ تو دلوں کی پوشیدہ باتوں تک سے آگاہ ہے۔‘‘
سورت آل عمران (آیت:۱۵۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاَثَابَکُمْ غَمًّام بِغَمٍّ لِّکَیْلَا تَحْزَنُوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَ لَا مَآ اَصَابَکُمْ.
’’اللہ نے تم کو غم پر غم پہنچایا، تاکہ جو چیز تمھارے ہاتھ سے جاتی رہی یا جو مصیبت تم پر واقع ہوئی ہے،اُس سے تم اندوہناک نہ ہو جاؤ۔‘‘
یعنی فوت شدہ چیز پر غمگین ہوں نہ پہنچنے والے شدائد پر اداس ہوں۔
سورۃ الانفال (آیت:۲۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَخُوْنُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ وَ تَخُوْنُوْٓا اَمٰنٰتِکُمْ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.
’’اے ایمان والو! نہ تو اللہ اور رسول کی امانت میں خیانت کرو اور نہ اپنی امانتوں میں خیانت کرو اور تم (ان باتوں کو) جانتے ہو۔‘‘
اللہ اور رسول کے حقوق میں خیانت یہ ہے کہ جلوت میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کا فرماں بردار بن کر رہے اور خلوت میں اس کے برعکس معصیت کار۔اسی طرح یہ بھی خیانت ہے کہ فرائض میں سے کسی فرض کا ترک اور نواہی میں سے کسی بات کا ارتکاب کیا جائے۔ایک شخص دوسرے کے پاس جو امانت رکھواتا ہے،اس میں خیانت نہ کرے۔نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی امانت کی حفاظت کی بڑی تاکید فرمائی ہے۔حدیث میں ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اپنے اکثر خطبوں میں یہ ضرور ارشاد فرمایا کرتے تھے:
’’اس کا ایمان نہیں،جس میں امانت کی پاس داری نہیں اور اس کا دین نہیں،جس میں عہد کی پابندی کا احساس نہیں۔‘‘[110]
سورۃ الاحزاب (آیت:۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اتَّقِ اللّٰہَ وَ لَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَ الْمُنٰفِقِیْنَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا.
’’اے پیغمبر! اللہ سے ڈرتے رہنا اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا،بے شک اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
تنبیہ کی ایک موثر صورت یہ بھی ہے کہ بڑے کو کہا جائے تاکہ چھوٹا چوکنّا ہوجائے،جب اللہ تعالیٰ اپنے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو کوئی بات تاکید سے کہیں تو ظاہر ہے کہ لوگوں پر وہ تاکید اور بھی زیادہ ہے۔
تقویٰ اسے کہتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کی ہدایت کے مطابق ثواب کی نیت سے اللہ تعالیٰ کے فرمان کی اطاعت کی جائے اور اس کے عذابوں سے بچنے کے لیے اس کی نافرمانیاں ترک کی جائیں۔[111]
اسی طرح آگے چل کر آیت (۴۸) میں فرمایا ہے:
.وَ لَا تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَالْمُنٰفِقِیْنَ وَدَعْ اَذٰھُمْ وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا.
’’اور کافروں اور منافقوں کا کہا نہ ماننا اور نہ اُن کے تکلیف دینے پر نظر کرنا اور اللہ پر بھروسا رکھنا اور اللہ ہی کارساز کافی ہے۔‘‘
وَ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ لَاۤ اِلٰہَ اِلَّا ہُوَ الرَّحۡمٰنُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۶۳﴾
" تم سب کا معبود ایک ہی معبود ہے ، اس کے سوا کوئی معبود برحق نہیں وہ بہت رحم کرنے والا اور بڑا مہربان ہے " [سورة البقرة 2 آیت: 163]۔
وَ مِنَ النَّاسِ مَنۡ یَّتَّخِذُ مِنۡ دُوۡنِ اللّٰہِ اَنۡدَادًا یُّحِبُّوۡنَہُمۡ کَحُبِّ اللّٰہِ ؕ وَ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡۤا اَشَدُّ حُبًّا لِّلّٰہِ ؕوَ لَوۡ یَرَی الَّذِیۡنَ ظَلَمُوۡۤا اِذۡ یَرَوۡنَ الۡعَذَابَ ۙ اَنَّ الۡقُوَّۃَ لِلّٰہِ جَمِیۡعًا ۙ وَّ اَنَّ اللّٰہَ شَدِیۡدُ الۡعَذَابِ ﴿۱۶۵﴾
اِذۡ تَبَرَّاَ الَّذِیۡنَ اتُّبِعُوۡا مِنَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡا وَ رَاَوُا الۡعَذَابَ وَ تَقَطَّعَتۡ بِہِمُ الۡاَسۡبَابُ ﴿۱۶۶﴾
"بعض لوگ ایسے بھی ہیں جو اللہ کے شریک اوروں کو ٹھہرا کر ان سے ایسی محبت رکھتے ہیں ، جیسی محبت اللہ سے ہونی چاہیے اور ایمان والے اللہ کی محبت میں بہت سخت ہوتے ہیں کاش کہ مشرک لوگ جانتے جب کہ اللہ کے عذاب کو دیکھ کر ( جان لیں گے ) کہ تمام طاقت اللہ ہی کو ہے اور اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے ( تو ہرگِز شرک نہ کرتے )- جس وقت پیشوا لوگ اپنے تابعداروں سے بیزار ہوجائیں گے اور عذاب کو اپنی آنکھوں سے دیکھ لیں گے اور کل رشتے ناتے ٹوٹ جائیں گے ۔ [سورة البقرة 2 آیت: ،166,165]
سورۃ الانفال (آیت:۲۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْہُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَ.
’’اے ایمان والو! اللہ اور اُس کے رسول کے حکم پر چلو اور اُس سے روگردانی نہ کرو اور تم سنتے ہو۔‘‘
آگے پھر سورۃ الانفال (آیت:۲۴) میں فرمایا ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰہِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاکُمْ لِمَا یُحْیِیْکُمْ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ یَحُوْلُ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ قَلْبِہٖ وَ اَنَّہٗٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ.
’’مومنو! اللہ اور اُس کے رسول کا حکم قبول کرو،جب کہ رسول اللہ تمھیں ایسے کام کے لیے بلاتے ہیں،جو تمھیں (جاوداں ) زندگی بخشتا ہے اور جان رکھو کہ اللہ آدمی اور اس کے دل کے درمیان حائل ہو جاتا ہے اور یہ بھی کہ تم سب اُس کے رُوبرو جمع کیے جاؤ گے۔‘‘
.لِمَا یُحْیِیْکُمْ.ایسی چیزوں کی طرف جس سے تمھیں زندگی ملے۔بعض نے اس سے جہاد مراد لیا ہے کہ اس میں تمھاری زندگی کا سروسامان ہے۔بعض نے قرآن کے اوامر و نواہی اور احکامِ شرعیہ مراد لیے ہیں،جن میں جہاد بھی آ جاتا ہے۔مطلب یہ ہے کہ صرف اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بات مانو اور اس پر عمل کرو،اسی میں تمھاری زندگی ہے۔
سورت یونس (آیت:۳) میں فرمایا:
.اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْم بَعْدِ اِذْنِہٖ ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ.
’’تمھارا رب تو اللہ ہی ہے،جس نے آسمان اور زمین چھے دن میں بنائے،پھر عرش (عظیم) پر قائم ہوا،وہی ہر ایک کام کا انتظام کرتا ہے،کوئی (اُس کے پاس) اُس کی اِجازت حاصل کیے بغیر (کسی کی) سفارش نہیں کر سکتا[112]، یہی اللہ تمھارا رب ہے تو اُسی کی عبادت کرو،بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے؟‘‘
آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کر کے اس نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا، .اِنَّ رَبَّکُمُ اللّٰہُ الَّذِیْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ فِیْ سِتَّۃِ اَیَّامٍ ثُمَّ اسْتَوٰی عَلَی الْعَرْشِ یُدَبِّرُ الْاَمْرَ مَا مِنْ شَفِیْعٍ اِلَّا مِنْم بَعْدِ اِذْنِہٖ
ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْہُ اَفَلَا تَذَکَّرُوْنَ.
’’تمھارا رب تو اللہ ہی ہے،جس نے آسمان اور زمین چھے دن میں بنائے،پھر عرش (عظیم) پر قائم ہوا،وہی ہر
ایک کام کا انتظام کرتا ہے،کوئی (اُس کے پاس) اُس کی اِجازت حاصل کیے بغیر (کسی کی) سفارش نہیں کر
سکتا،یہی اللہ تمھارا رب ہے تو اُسی کی عبادت کرو،بھلا تم غور کیوں نہیں کرتے؟‘‘
آسمانوں اور زمینوں کی تخلیق کر کے اس نے ان کو یوں ہی نہیں چھوڑ دیا، بلکہ ساری کائنات کا نظم و تدبیر وہ اس طرح کر رہا ہے کہ کبھی کسی کا آپس میں تصادم نہیں ہوا،ہر چیز اس کے حکم پر اپنے اپنے کام میں مصروف ہے۔پھر اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ وہاں اس کی اجازت کے بغیر کسی کو سفارش کرنے کی اجازت نہیں ہوگی اور یہ اجازت بھی صرف انھیں لوگوں کے لیے ہوگی جن کے لیے اللہ پسند کرے۔[113]
شفاعت: https://bit.ly/Shfaat
سورت ہود (آیت:۱۲۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لِلّٰہِ غَیْبُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ اِلَیْہِ یُرْجَعُ الْاَمْرُ کُلُّہٗ فَاعْبُدْہُ وَ تَوَکَّلْ عَلَیْہِ وَ مَا رَبُّکَ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ.
’’اور آسمانوں اور زمین کی چھپی چیزوں کا علم اللہ ہی کو ہے اور تمام امور کا رجوع اسی کی طرف ہے تو اسی کی عبادت کرو اور اسی پر بھروسا رکھو اور جو کچھ تم کر رہے ہو،تمھارا پروردگار اس سے بے خبر نہیں ہے۔‘‘
سورۃ الاعراف (آیت:۱۸۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَوَ لَمْ یَنْظُرُوْا فِیْ مَلَکُوْتِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ مِنْ شَیْئٍ وَّ اَنْ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنَ قَدِ اقْتَرَبَ اَجَلُھُمْ فَبِاَیِّ حَدِیْثٍم بَعْدَہٗ یُؤْمِنُوْنَ.
’’کیا اُنھوں نے آسمان اور زمین کی بادشاہت میں اور جو چیزیں اللہ نے پیدا کی ہیں،اُن پر نظر نہیں کی اور اس بات پر (خیال نہیں کیا) کہ عجب نہیں،اُن (کی موت) کا وقت نزدیک پہنچ گیا ہو تو اس کے بعد وہ اور کس حدیث پر ایمان لائیں گے۔‘‘
مطلب یہ کہ ان چیزوں پر بھی اگر یہ غور کریں تو یقینا یہ اللہ پر ایمان لے آئیں،اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تصدیق اور اُس کی اطاعت اختیار کر لیں اور انھوں نے جو اللہ کے شریک بنا رکھے ہیں،انھیں چھوڑ دیں اور اس بات سے ڈریں کہ انھیں موت اس حال میں آ جائے کہ وہ کفر پر قائم ہوں۔
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۶۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِی الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا وَّ لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ.
’’لوگو! جو چیزیں زمین میں حلال طیب ہیں وہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو،وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔‘‘
یعنی شیطان کے پیچھے لگ کر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام مت کرو،جس طرح مشرکین نے کیا کہ اپنے بتوں کے نام وقف کردہ جانوروں کو وہ حرام کر لیتے تھے۔حدیث میں آتا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’میں نے اپنے بندوں کو حنیف پیدا کیا،پس شیطان نے ان کو دین سے گمراہ کر دیا اور جو چیزیں میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں،وہ اس نے ان پر حرام کر دیں۔‘‘[114]
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۰۸) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ.
’’مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو وہ تو تمھارا صریح دشمن ہے۔‘‘
اہلِ ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو اور اس طرح نہ کرو کہ جو باتیں تمھاری مصلحتوں اور خواہشا ت کے مطابق ہوں،ان پر تو عمل کر لو،لیکن دوسرے حکموں کو نظر انداز کر دو،اس طرح جو دین تم چھوڑ آئے ہو،اس کی باتیں اسلام میں شامل کرنے کی کوشش مت کرو،بلکہ صرف اسلام کو مکمل طور پر اپنائو۔
اس سے دین میں بدعات کی بھی نفی کر دی گئی اور آج کل کے سیکولر ذہن کی تردید بھی،جو اسلام کو مکمل طور پر اپنانے کے لیے تیار نہیں،بلکہ دین کو عبادت،یعنی مساجد تک محدود کرنا اور سیا ست اور ایوانِ حکومت سے دیس نکالا دینا چاہتا ہے۔اسی طرح عوام کو بھی سمجھایا جا رہا ہے،جو رسوم و رواج اور علاقائی ثقافت و روایات کو پسند کرتے ہیں اور انھیں چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے،جیسے مرگ اور شادی بیاہ کی مسرفانہ اور ہندوانہ رسوم اور دیگر رواج وغیرہ اور یہ کہا جا رہا ہے کہ شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو،جو تمھیں خلافِ اسلام باتوں کے لیے حسین فلسفے تراش کر پیش کرتا،برائیوں پر خوش نما غلاف چڑھاتا اور بدعات کو بھی نیکی باور کراتا ہے،تاکہ اس کے دامِ ہم رنگِ زمین میں پھنسے رہو۔
سورۃ الانعام (آیت:۱۴۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ مِنَ الْاَنْعَامِ حَمُوْلَۃً وَّ فَرْشًا کُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ.
’’اور چوپایوں میں بوجھ اٹھانے والے (بڑے بڑے) بھی پیدا کیے اور زمین سے لگے ہوئے (چھوٹے چھوٹے) بھی (پس) اللہ کا دیا ہوا رزق کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو،وہ تمھارا صریح دشمن ہے۔‘‘
شیطان کے قدم بہ قدم نہ چلو،جس طرح مشرکین اس کے پیچھے لگ گئے تھے اور حلال جانوروں کو بھی اپنے اوپر حرام کر لیا تھا،گویا اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام اور حرام کو حلال کر لیا،یہ بھی شیطان کی پیروی ہے۔
سورۃ النور (آیت:۲۱) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ وَمَنْ یَّتَّبِعْ خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ فَاِنَّہٗ یَاْمُرُ بِالْفَحْشَآئِ وَالْمُنْکَرِ وَلَوْلاَ فَضْلُ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَرَحْمَتُہٗ مَا زَکٰی مِنْکُمْ مِّنْ اَحَدٍ اَبَدًا وَّلٰـکِنَّ اللّٰہَ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ.
’’اے مومنو! شیطان کے قدموں پر نہ چلنا اور جو شخص شیطان کے قدموں پر چلے گا تو شیطان تو بے حیائی (کی باتیں ) اور بُرے کام ہی بتائے گا اور اگر تم پر اللہ کا فضل اور مہربانی نہ ہوتی تو ایک شخص بھی تم میں پاک نہ ہو سکتا،مگر جس کو اللہ چاہتا ہے،پاک کر دیتا ہے (اور) اللہ سننے والا (اور) جاننے والا ہے۔‘‘
سورۃ الاعراف (آیت:۲۰۰) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ اِمَّا یَنْزَغَنَّکَ مِنَ الشَّیْطٰنِ نَزْغٌ فَاسْتَعِذْ بِاللّٰہِ اِنَّہٗ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ.
’’اور اگر تمھیں شیطان کی جانب سے کوئی وسوسہ پیدا ہو تو اللہ کی پناہ مانگ لیا کرو،بے شک وہ سنتا جانتا ہے۔‘‘
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم شیطان سے اس طرح اﷲ کی پناہ مانگتے:
( اَعُوْذُ بِاللّٰہِ السَّمِیْعِ الْعَلِیْمِ مِنَ الشَیْطٰنِ الرَّجِیْمِ مِنْ ھَمْزِ ہٖ وَ نَفْخِہٖ وَ نَفْثِہٖ )[115]
نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تاکید فرمائی کہ ہر اہم کام کی ابتدا اللہ کے نام سے کرو، یعنی بسم اللہ پڑھ کر،کیونکہ ا للہ کی یاد،شیطان کو دور کرنے والی چیز ہے۔اسی لیے آپ صلی اللہ علیہ وسلم یہ دعا بھی مانگتے تھے: ( اللَّھُمَّ إِنِّیْ أَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْھَرَمِ وَ اَعُوْذُ بِکَ مِنَ الْغَرَقِ،وَ اَعُوْذُ بِکَ اَنْ یَّتَخَبَّطَنِيَ الشَّیْطَانُ عِنْدَ المُوْتِ )
’’اے اﷲ! میں از حد بوڑھا ہو جانے سے تیری پناہ چاہتا ہوں اور اس سے کہ کوئی مکان یا دیوار مجھ پر اثر کرے اور غرق ہو جانے سے اور اس سے تیری پناہ مانگتا ہوں کہ شیطان مجھے موت کے وقت بد حواس کر دے۔‘‘
سورت لقمان (آیت:۳۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَاالنَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمْ وَاخْشَوْا یَوْمًا لَّا یَجْزِیْ وَالِدٌ عَنْ وَّلَدِہٖ وَ لَا مَوْلُوْدٌ ھُوَ جَازٍ عَنْ وَّالِدِہٖ شَیْئًا اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَ لَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ.
’’لوگو! اپنے رب سے ڈرو اور اس دن کا خوف کرو کہ نہ تو باپ اپنے بیٹے کے کچھ کام آئے اور نہ بیٹا اپنے باپ کے کچھ کام آ سکے،بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے پس دنیا کی زندگی تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ فریب دینے والا (شیطان) تمھیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے۔‘‘
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: .فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَ لَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ. سورہ لقمان (آیت:۳۳)
’’دنیا کی زندگی تم کو دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ فریب دینے والا (شیطان) تمھیں اللہ کے بارے میں کسی طرح کا فریب دے۔‘‘
سورۃ الفاطر (آیت:۵) میں فرمایا ہے:
.یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَلَا تَغُرَّنَّکُمُ الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَ لَا یَغُرَّنَّکُمْ بِاللّٰہِ الْغَرُوْرُ.
’’لوگو! اللہ کا وعدہ سچا ہے تو تم کو دنیا کی زندگی دھوکے میں نہ ڈال دے اور نہ (شیطان) فریب دینے والا تمھیں فریب دے۔‘‘
اس شیطان کے داؤ اور فریب سے بچ کر رہو،کیوں کہ وہ بہت دھوکے باز ہے اور اس کا مقصد ہی تمھیں دھوکے میں رکھ کے جنت سے محروم کرنا ہے۔
نصیحت سے منہ موڑنا۔۔۔ظلم ہے:
سورۃ السجدہ (آیت:۲۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ ذُکِّرَ بِاٰیٰتِ رَبِّہٖ ثُمَّ اَعْرَضَ عَنْھَا اِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِیْنَ مُنْتَقِمُوْنَ.
’’اور اس شخص سے بڑھ کر ظالم کون ہے،جس کو اس کے رب کی آیتوں سے نصیحت کی جائے تو وہ اُن سے منہ پھیر لے ؟ ہم گناہ گاروں سے ضرور بدلہ لینے والے ہیں۔‘‘
سورۃ الزخرف (آیت:۳۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَمَنْ یَّعْشُ عَنْ ذِکْرِ الرَّحْمٰنِ نُقَیِّضْ لَہٗ شَیْطٰنًا فَھُوَ لَہٗ قَرِیْنٌ.
’’اور جو کوئی اللہ کی یاد سے آنکھیں بند کر لے ہم اس پر ایک شیطان مقرر کر دیتے ہیں تووہ اس کا ساتھی ہو جاتا ہے۔‘‘
شرک گناہ عظیم:
اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغۡفِرُ اَنۡ یُّشۡرَکَ بِہٖ وَ یَغۡفِرُ مَا دُوۡنَ ذٰلِکَ لِمَنۡ یَّشَآءُ ۚ وَ مَنۡ یُّشۡرِکۡ بِاللّٰہِ فَقَدِ افۡتَرٰۤی اِثۡمًا عَظِیۡمًا ﴿۴۸﴾
یقیناً اللہ تعالٰی اپنے ساتھ شریک کئے جانے کو نہیں بخشتا اور اس کے سِوا جسے چاہے بخش دیتا ہے اور جو اللہ تعالٰی کے ساتھ شریک مُقّرر کرے اس نے بہت بڑا گناہ اور بُہتان باندھا ۔ [سورة النساء 4 آیت: 48] [116]
سورۃ البقرہ (آیت:۲۲ ) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.
’’پس کسی کو اللہ کا ہمسر (شریک) نہ بناؤ اور تم جانتے تو ہو۔‘‘
اس آیت میں شرک کرنے سے منع کیا گیا ہے،جس کی تفصیل کتاب کے شروع میں گزر چکی ہے۔غرض کہ اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کی دعوت تمام انسانوں کو دی جا رہی ہے۔ فرمایا:جب تمھارا اور کائنات کا خالق اللہ ہے اور تمھاری تمام ضروریات کا مہیا کرنے والا وہی ہے تو پھر تم اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ دوسروں کو اس کا شریک کیوں ٹھہراتے ہو؟ اگر تم عذابِ الٰہی سے بچنا چاہتے ہو تو اس کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اللہ کو ایک مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو،جانتے بو جھتے شرک کا ارتکاب مت کرو۔
سورۃ النساء (آیت:۳۶) میں ارشادِ گرامی ہے:
.وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا.
’’اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ۔‘‘
سورۃ الکہف (آیت:۱۱۰) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوْحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَمَنْ کَانَ یَرْجُوْا لِقَآئَ رَبِّہٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِکْ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖٓ اَحَدًا.
’’کہہ دو کہ میں تمھاری طرح کا ایک بشر ہوں (البتہ) میری طرف وحی آتی ہے کہ تمھارا معبود (وہی) ایک معبود ہے،تو جو شخص اپنے رب سے ملنے کی امید رکھے،اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور اپنے رب کی عبادت میں کسی کو شریک نہ بنائے۔‘‘
سورۃ الروم (آیت:۳۱) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ.’’اور مشرکوں میں سے نہ ہوجاؤ۔‘‘
سورت آل عمران (آیت:۶۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ تَعَالَوْا اِلٰی کَلِمَۃٍ سَوَآئٍم بَیْنَنَا وَ بَیْنَکُمْ اَلَّا نَعْبُدَ اِلَّا اللّٰہَ وَ لَا نُشْرِکَ بِہٖ شَیْئًا وَّ لَا یَتَّخِذَ بَعْضُنَا بَعْضًا اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَقُوْلُوا اشْھَدُوْا بِاَنَّا مُسْلِمُوْنَ.
’’کہہ دو کہ اے اہلِ کتاب! جو بات ہمارے اور تمھارے درمیان یکساں (تسلیم کی گئی) ہے،اُس کی طرف آؤ،وہ یہ کہ اللہ کے سوا ہم کسی کی عبادت نہ کریں اور اُس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بنائیں اور ہم میں سے کوئی کسی کو اللہ کے سوا اپنا کار ساز نہ سمجھے۔اگر یہ لوگ (اس بات کو) نہ مانیں تو (اُن سے) کہہ دو کہ تم گواہ رہو،ہم (اللہ کے) فرماں بردار ہیں۔‘‘
سورۃ النساء (آیت:۴۸ تا ۵۰) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.اِنَّ اللّٰہَ لَا یَغْفِرُ اَنْ یُّشْرَکَ بِہٖ وَ یَغْفِرُ مَا دُوْنَ ذٰلِکَ لِمَنْ یَّشَآئُ وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَقَدِ افْتَرٰٓی اِثْمًا عَظِیْمًا . اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یُزَکُّوْنَ اَنْفُسَھُمْ بَلِ اللّٰہُ یُزَکِّیْ مَنْ یَّشَآئُ وَ لَا یُظْلَمُوْنَ فَتِیْلًا . اُنْظُرْ کَیْفَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ وَ کَفٰی بِہٖٓ اِثْمًا مُّبِیْنًا.
’’اللہ تعالیٰ اس گناہ کو نہیں بخشے گا کہ کسی کو اس کا شریک بنایا جائے اور اس کے سوا اور گناہ جس کو چاہے معاف کر دے اور جس نے اللہ کا شریک مقرر کیا،اُس نے بڑا بہتان باندھا۔کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جو اپنے آپ کو پاکیزہ کہتے ہیں (نہیں )،بلکہ اللہ ہی جس کو چاہتا ہے،پاکیزہ کرتا ہے اور اُن پر دھاگے برابر بھی ظلم نہیں ہوگا۔دیکھو یہ اللہ پر کیسا جھوٹ (طوفان) باندھتے ہیں اور یہی گناہِ صریح کافی ہے۔‘‘
سورۃ الحج (آیت:۱۱،۱۲) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّعْبُدُ اللّٰہَ عَلٰی حَرْفٍ فَاِنْ اَصَابَہٗ خَیْرُنِ اطْمَاَنَّ بِہٖ وَ اِنْ اَصَابَتْہُ فِتْنَۃُ نِ انْقَلَبَ عَلٰی وَجْھِہٖ خَسِرَ الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃَ ذٰلِکَ ھُوَ الْخُسْرَانُ الْمُبِیْنُ . یَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَضُرُّہٗ وَمَا لَا یَنْفَعُہٗ ذٰلِکَ ھُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ.
’’اور لوگوں میں سے کوئی ایسا بھی ہے جو کنارے پر (کھڑا ہو کر) اللہ کی عبادت کرتا ہے،اگر اس کو کوئی (دنیاوی) فائدہ پہنچے تو اُس کے سبب مطمئن ہو جائے اور اگر کوئی آفت پڑے تو منہ کے بل لوٹ جائے
(یعنی پھر کافر ہو جائے)،اُس نے دنیا میں بھی نقصان اٹھایا اور آخرت میں بھی،یہی تو نقصان صریح ہے۔یہ اللہ کے سوا ایسی چیز کو پکارتا ہے جو نہ اُسے نقصان پہنچائے اور نہ اُسے فائدہ دے سکے،یہی تو پرلے درجے کی گمراہی ہے۔‘‘
سورت لقمان (آیت:۱۳) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ اِذْ قَالَ لُقْمٰنُ لِابْنِہٖ وَ ھُوَ یَعِظُہٗ یٰبُنَیَّ لَا تُشْرِکْ بِاللّٰہِ اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ.
’’اور (اس وقت کو یاد کرو) جب لقمان نے اپنے بیٹے کو نصیحت کرتے ہوئے کہا کہ بیٹا! اللہ کے ساتھ شرک نہ کرنا،شرک تو بڑا (بھاری) ظلم ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حضرت لقمان علیہ السلام کی سب سے پہلی وصیت یہ نقل فرمائی کہ انھوں نے اپنے بیٹے کو شرک سے منع فرمایا،جس سے واضح ہوا کہ والدین کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنی اولاد کو شرک سے بچانے کی سب سے زیادہ کوشش کریں۔
شرک کو ’’ظلمِ عظیم‘‘ کہنا،بعض کے نزدیک حضرت لقمان علیہ السلام ہی کا قول ہے۔بعض نے اسے اللہ کا قول قرار دیا ہے اور اس کی تائید میں وہ حدیث پیش کی ہے جو.اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ.کے نزول کے تعلق سے مروی ہے،جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ یہاں ظلم سے مراد ’’ظلمِ عظیم‘‘ یعنی شرک ہے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے آیت.اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ.کا حوالہ دیا۔[117]
مگر در حقیقت اس سے اللہ کا قول ہونے کی تائید ہوتی ہے نہ تردید۔
سورت لقمان (آیت:۱۵) میں فرمایا:
.وَ اِنْ جَاھَدٰکَ عَلٰٓی اَنْ تُشْرِکَ بِیْ مَالَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا.
’’اور اگر وہ تیرے در پے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی ایسی چیز کو شریک کرے،جس کا تجھے کچھ علم نہیں تو اُن کا کہا نہ ماننا۔‘‘
سورۃ الزمر (آیت:۶۵) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.وَلَقَدْ اُوْحِیَ اِلَیْکَ وَاِلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکَ لَئِنْ اَشْرَکْتَ لَیَحْبَطَنَّ عَمَلُکَ وَلَتَکُوْنَنَّ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ.
’’اور (اے نبی!) تمھاری طرف اور ان (پیغمبروں ) کی طرف جو تم سے پہلے ہو چکے ہیں،یہی وحی بھیجی گئی ہے کہ اگر تم نے شرک کیا تو تمھارے عمل برباد ہو جائیں گے اور تم زیاں کاروں میں سے ہو جاؤ گے۔‘‘
سورۃ الذاریات (آیت:۵۱) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.وَلاَ تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ اِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ.
’’اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ،میں اس کی طرف سے تم کو صریح ڈرانے والا ہوں۔‘‘
یعنی میں تمھیں کھول کھول کر ڈرا رہا ہوں اور تمھاری خیر خواہی کر رہا ہوں کہ صرف ایک اللہ کی طرف رجوع کرو،اسی پر اعتماد اور بھروسا کرو اور صرف اسی ایک کی عبادت کرو،اس کے ساتھ دوسرے معبودوں کو شریک مت کرو۔ایسا کرو گے تو یاد رکھنا جنت کی نعمتوں سے ہمیشہ کے لیے محروم ہو جائو گے۔
سوره بنی اسرائیل (آیت:۲) میں فرمایا:
.وَ اٰتَیْنَا مُوْسَی الْکِتٰبَ وَ جَعَلْنٰہُ ھُدًی لِّبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اَلَّا تَتَّخِذُوْا مِنْ دُوْنِیْ وَکِیْلًا.
’’اور ہم نے موسیٰ کو کتاب عنایت کی تھی اور اس کو بنی اسرائیل کے لیے راہنما مقرر کیا تھا کہ میرے سوا کسی کو کارساز نہ ٹھہرانا۔‘‘
سورت بنی اسرائیل (آیت:۲۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتَقْعُدَ مَذْمُوْمًا مَّخْذُوْلًا.
’’اور اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود نہ بنانا کہ ملامتیں سن کر اور بے کس ہو کر بیٹھے رہ جائو گے۔‘‘
سورت بنی اسرائیل (آیت:۲۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ قَضٰی رَبُّکَ اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّآ اِیَّاہُ.
’’اور تمھارے رب نے ارشاد فرمایا ہے کہ اس کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو۔‘‘
سورت حم السجدہ (آیت:۳۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَمِنْ اٰیٰتِہٖ الَّیْلُ وَالنَّھَارُ وَالشَّمْسُ وَالْقَمَرُ لاَ تَسْجُدُوْا لِلشَّمْسِ وَلاَ لِلْقَمَرِ وَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ الَّذِیْ خَلَقَھُنَّ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ.
’’اور رات اور دن اور سورج اور چاند اس کی نشانیوں میں سے ہیں،تم لوگ نہ تو سورج کو سجدہ کرو اور نہ چاند کو بلکہ اللہ ہی کو سجدہ کرو،جس نے ان چیزوں کو پیدا کیا ہے،اگر تم کو اس کی عبادت منظور ہے۔‘‘
سورۃ الانعام (آیت:۷۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قُلْ اَنَدْعُوْا مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُنَا وَ لَا یَضُرُّنَا وَ نُرَدُّ عَلٰٓی اَعْقَابِنَا بَعْدَ اِذْ ھَدٰنَا اللّٰہُ کَالَّذِی اسْتَھْوَتْہُ الشَّیٰطِیْنُ فِی الْاَرْضِ حَیْرَانَ لَہٗٓ اَصْحٰبٌ یَّدْعُوْنَہٗٓ اِلَی الْھُدَی ائْتِنَا قُلْ اِنَّ ھُدَی اللّٰہِ ھُوَ الْھُدٰی وَ اُمِرْنَا لِنُسْلِمَ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.
’’کہو کیا ہم اللہ کے سوا ایسی چیز کو پکاریں جو نہ ہمارا بھلا کر سکے اور نہ بُرا اور جب ہمیں اللہ نے سیدھا راستہ دکھا دیا تو (کیا) ہم الٹے پاؤں پھر جائیں ؟ (پھر ہماری ایسی مثال ہو) جیسے کسی کو جنات نے جنگل میں بھلا دیا ہو (اور وہ) حیران (ہو رہا ہو) اور اُس کے کچھ رفیق ہوں،جو اُس کو راستے کی طرف بلائیں کہ ہمارے پاس چلا آ۔کہہ دو کہ راستہ تو وہی ہے جو اللہ نے بتایا ہے اور ہمیں تو یہ حکم ملا ہے کہ ہم اللہ رب العالمین کے فرماں بردار ہوں۔‘‘
اس آیت میں ان لوگوں کی مثال بیان فرمائی ہے جو ایمان کے بعد کفر اور توحید کے بعد شرک کی طرف لوٹ جائیں،ان کی مثال ایسے ہی ہے کہ ایک شخص اپنے ساتھیوں سے بچھڑ جائے جو سیدھے راہ پر جا رہے ہوں اور بچھڑ جانے والا جنگلوں میں حیران و پریشان بھٹکتا پھر رہا ہو،ساتھی اسے بلا رہے ہوں،لیکن حیرانی میں اسے کچھ سجھائی نہ دے رہا ہو یا جنات کے نرغے میں پھنس جانے کے باعث صحیح راستے کی طرف توجہ اس کے لیے ممکن نہ رہی ہو۔
مطلب یہ کہ کفر اور شرک اختیار کرکے جو گمراہ ہوگیا،وہ بھٹکے ہوئے راہی کی طرح ہدایت کی طرف نہیں آ سکتا۔ہاں اگر اللہ تعالیٰ نے اس کے لیے ہدایت مقدر کر دی ہے تو یقینا اللہ کی توفیق سے وہ راہ یاب ہو جائے گا،کیوں کہ ہدایت پر چلا دینا اسی کا کام ہے۔جیسے دوسرے مقامات پر فرمایا گیا:
’’بے شک اللہ اس کو ہدایت نہیں دیتا،جس کو وہ گمراہ کردے اور ان کے لیے کوئی مدد گار نہیں ہوگا۔‘‘ [النحل:۳۷]
سورۃ الانعام (آیت:۸۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ لَمْ یَلْبِسُوْٓا اِیْمَانَھُمْ بِظُلْمٍ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ الْاَمْنُ وَ ھُمْ مُّھْتَدُوْنَ.
’’جو لوگ ایمان لائے اور اپنے ایمان کو (شرک کے) ظلم سے مخلوط نہیں کیا،اُن کے لیے امن (اور جمعیتِ خاطر) ہے اور وہی ہدایت پانے والے ہیں۔‘‘
۔سورۃ الحج (آیت:۳۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.حُنَفَآئَ لِلّٰہِ غَیْرَ مُشْرِکِیْنَ بِہٖ وَ مَنْ یُّشْرِکْ بِاللّٰہِ فَکَاَنَّمَا خَرَّ مِنَ السَّمَآئِ فَتَخْطَفُہُ الطَّیْرُ اَوْ تَھْوِیْ بِہِ الرِّیْحُ فِیْ مَکَانٍ سَحِیْقٍ.
’’صرف ایک اللہ کے ہو کر اور اُس کے ساتھ شریک نہ ٹھہرا کر اور جو شخص(کسی کو) اللہ کے ساتھ شریک مقرر کرے تو وہ گویا ایسا ہے جیسے آسمان سے گر پڑے،پھر اُس کو پرندے اچک لے جائیں یا ہوا کسی دُور جگہ اُڑا کر پھینک دے۔‘‘
.وَلَئِنْ سَاَلْتَھُمْ مَّنْ خَلَقَ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضَ لَیَقُوْلُنَّ اللّٰہُ قُلْ اَفَرَئَ یْتُمْ مَّا تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اِنْ اَرَادَنِیَ اللّٰہُ بِضُرٍّ ھَلْ ھُنَّ کٰشِفٰتُ ضُرِّہٖٓ اَوْ اَرَادَنِیْ بِرَحْمَۃٍ ھَلْ ھُنَّ مُمْسِکٰتُ رَحْمَتِہٖ قُلْ حَسْبِیَ اللّٰہُ عَلَیْہِ یَتَوَکَّلُ الْمُتَوَکِّلُوْنَ.
’’اور اگر تم ان سے پوچھو کہ آسمانوں اور زمین کو کس نے پیدا کیا؟ تو کہہ دیں گے کہ اللہ نے،کہو کہ بھلا دیکھو تو جن کو تم اللہ کے سوا پکارتے ہو،اگر اللہ مجھ کو کوئی تکلیف پہنچانی چاہے تو کیا وہ اس تکلیف کو دُور کر سکتے ہیں ؟ یا اگر مجھ پر مہربانی کرنا چاہے تو وہ اس کی مہربانی کو روک سکتے ہیں ؟ کہہ دو کہ مجھے اللہ ہی کافی ہے بھروسا رکھنے والے اسی پربھروسا رکھتے ہیں۔‘‘ (سورۃ الزمر (آیت:۳۸)
سورۃ الزمر (آیت:۲،۳) میں فرمایا:
.اِنَّآ اَنْزَلْنَا اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ فَاعْبُدِ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہٗ الدِّیْنَ . اَلاَ لِلّٰہِ الدِّیْنُ الْخَالِصُ وَالَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا مِنْ دُوْنِہٖٓ اَوْلِیَآئَ مَا نَعْبُدُھُمْ اِلَّا لِیُقَرِّبُوْنَآ اِلَی اللّٰہِ زُلْفٰی اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ بَیْنَھُمْ فِیْ مَا ھُمْ فِیْہِ یَخْتَلِفُوْنَ اِنَّ اللّٰہَ لاَ یَھْدِیْ مَنْ ھُوَ کٰذِبٌ کَفَّارٌ .
’’(اے پیغمبر!) ہم نے یہ کتاب تمھاری طرف سچائی کے ساتھ نازل کی ہے تو اللہ کی عبادت کرو (یعنی) اس کی عبادت کو (شرک سے) خالص کر کے۔دیکھو خالص عبادت اللہ ہی کے لیے (زیبا ہے) اور جن لوگوں نے اس کے سوا اور دوست بنائے ہیں (وہ کہتے ہیں ) ہم ان کو اس لیے پوجتے ہیں،تاکہ وہ ہم کو اللہ کا مقرب بنا دیں تو جن باتوں میں یہ اختلاف کرتے ہیں،اللہ ان میں ان کا فیصلہ کر دے گا،بے شک اللہ اس شخص کو جو جھوٹا ناشکرا ہے،ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
اسی طرح آیت (۱۱،۱۲) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.قُلْ اِنِّیٓ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ مُخْلِصًا لَّہُ الدِّیْنَ . وَاُمِرْتُ لِاَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ الْمُسْلِمِیْنَ.
’’کہہ دو کہ مجھ سے ارشاد ہوا ہے کہ اللہ کی عبادت کو خالص کر کے ا س کی بندگی کروں۔اور یہ بھی ارشاد ہوا ہے کہ میں سب سے اوّل مسلمان بنوں۔‘‘
3۔آگے آیت (۱۳،۱۴) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.قُلْ اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ . قُلِ اللّٰہَ اَعْبُدُ مُخْلِصًا لَہٗ دِیْنِیْ.
’’کہہ دو کہ اگر میں اپنے پروردگار کا حکم نہ مانوں تو مجھے بڑے دن کے عذاب سے ڈر لگتا ہے۔کہہ دو کہ میں اپنے دین کو (شرک سے) خالص کر کے اللہ کی عبادت کرتا ہوں۔‘‘
یہاں حکم دیا جارہا ہے کہ لوگوں میں اعلان کردو کہ باوجود اللہ تعالیٰ کا رسول ہونے کے عذابِ الٰہی سے بے خوف نہیں ہوں۔میں بھی اپنے رب کی نافرمانی کروں تو قیامت کے دن عذاب سے نہیں بچ سکتا۔تو دوسرے لوگوں کو اللہ تعالیٰ کی نافرمانی سے بالاولیٰ اجتناب کرنا چاہیے۔ [تفسیر ابن کثیر (۴/ ۴۰۴)]
.فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ.(۔سورۃ المومن (آیت:۱۴)
’’تو اللہ کی عبادت کو خالص کر کے اسی کو پکارو اگرچہ کافر بُرا ہی مانیں۔‘‘
.وَلاَ تَجْعَلُوْا مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ اِنِّیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ مُّبِیْنٌ.(۔سورۃ الذاریات (آیت:۵۱) ’’اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہ بناؤ،میں اس کی طرف سے تم کو صریح راستہ بتانے والا ہوں۔‘‘
.وَ لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَ لَہُ الدِّیْنُ وَاصِبًا اَفَغَیْرَ اللّٰہِ تَتَّقُوْنَ.
’’اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اُسی کا ہے اور اُسی کی عبادت لازم ہے تو اللہ کے سوا دوسروں سے کیوں ڈرتے ہو؟‘‘(۔سورۃ النحل (آیت:۵۲)
.اَمَّنْ ھُوَ قَانِتٌ اٰنَآئَ الَّیْلِ سَاجِدًا وَّقَآئِمًا یَحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ قُلْ ھَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ اِنَّمَا یَتَذَکَّرُ اُوْلُوا الْاَلْبَابِ.
’’یا وہ جو رات کے وقتوں میں زمین پر پیشانی رکھ کر اور کھڑے ہو کر عبادت کرتا اور اپنے پروردگار کی رحمت کی امید رکھتا ہے،کہو بھلا جو لوگ علم رکھتے ہیں اور جو نہیں رکھتے،دونوں برابر ہو سکتے ہیں ؟ اور نصیحت تو وہی پکڑے تے ہیں جو عقل مند ہیں۔‘‘(سورۃ الزمر (آیت:۹)
سورۃ الانعام (آیت:۱۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قُلْ اَغَیْرَ اللّٰہِ اَتَّخِذُ وَ لِیًّا فَاطِرِ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ ھُوَ یُطْعِمُ وَ لَا یُطْعَمُ قُلْ اِنِّیْٓ اُمِرْتُ اَنْ اَکُوْنَ اَوَّلَ مَنْ اَسْلَمَ وَ لَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ.
’’کہو! کیا میں اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کو مددگار بناؤں ؟ کہ (وہی تو) آسمانوں اور زمین کا پیدا کرنے والا ہے اور وہی (سب کو) کھانا دیتا ہے اور خود کسی سے کھانا نہیں لیتا (یہ بھی) کہہ دو کہ مجھے یہ حکم ہوا ہے کہ میں سب سے پہلے اسلام لانے والا ہوں اور یہ کہ تم (اے پیغمبر!) مشرکوں میں سے نہ ہونا۔‘‘
سورت یونس (آیت:۱۰۵) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.وَ اَنْ اَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا وَ لَا تَکُوْنَنَّ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ.
’اور یہ کہ (اے نبی! سب سے) یکسو ہو کر دینِ (اسلام) کی پیروی کیے جاؤ اور مشرکوں میں سے ہرگز نہ ہونا۔‘‘
سورۃ التوبہ (آیت:۳۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ.
’’انھوں نے اپنے علما اور مشائخ اور مسیح ابنِ مریم کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا،حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔‘‘
اس کی تفسیر حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی ہو جاتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبیِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت سن کر عرض کی کہ یہود و نصاریٰ نے تو اپنے علما کی کبھی عبادت نہیں کی،پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انھوں نے ان کو رب بنا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے ان کی عبادت نہیں کی،لیکن یہ بات تو ہے نہ کہ ان کے علما نے جس کو حلال قرار دے دیا،اس کو انھوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کر دیا،اس کو حرام ہی سمجھا۔یہی ان کی عبادت کرنا ہے۔[118]‘‘
1۔ سورت یونس (آیت:۱۰۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَدْعُ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ مَا لَا یَنْفَعُکَ وَ لَا یَضُرُّکَ فَاِنْ فَعَلْتَ فَاِنَّکَ اِذًا مِّنَ الظّٰلِمِیْنَ.
’’اور اللہ کو چھوڑ کر ایسی چیز کو نہ پکارنا جو نہ تمھارا کچھ بھلا کر سکے اور نہ کچھ بگاڑ سکے،اگر ایسا کرو گے تو ظالموں میں ہو جاؤ گے۔‘‘
یعنی اگر اللہ کو چھوڑ کر ایسے معبودوں کو آپ پکاریں گے،جو کسی کو نفع و نقصان پہنچانے پر قادر نہیں ہیں تو یہ ظلم کا ارتکاب ہوگا۔عبادت چونکہ صرف اللہ کا حق ہے،جس نے تمام کائنات بنائی ہے اور تمام اسبابِ حیات بھی وہی پیدا کرتا ہے تو اُس مستحقِ عبادت ذات کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا نہایت ہی غلط ہے،اس لیے شرک کو ظلمِ عظیم سے تعبیر کیا گیا ہے۔(سورت لقمان:۱۳)
یہی بات سورۃ الفرقان (آیت:۶۸،۶۹) میں بھی آئی ہے:
.وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ
حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا . یُّضٰعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُھَانًا.
’’اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں پکارتے اور جن جاندار کا مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے،اُس کو قتل نہیں کرتے،مگر جائز طریق پر (یعنی حکمِ شریعت کے مطابق) اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہوگا۔قیامت کے دن اس کو دوگنا عذاب ہوگا اور ذلت اور خواری سے اس میں ہمیشہ رہے گا۔‘‘
حق کے ساتھ بزریعہ عدل و انصاف ، عدالت سے قتل کرنے کی تین صورتیں ہیں١)اسلام لانے کے بعد کوئی دوبارہ کفر اختیار کرے،جسے ارتداد کہتے ہیں(اس پرعلماء میں اختلاف ہے )، ٢) یا شادی شدہ ہو کر بدکاری کا ارتکاب کرے(یہ سزا قرآن میں نہیں مگر سنت میں ہے ، اس پر بھی اختلا ف ہے) ٣) یا کسی کو قتل کر دے۔
حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال کیا گیا:کون سا گناہ سب سے بڑا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تو اللہ کے ساتھ کسی کو شریک ٹھہرائے،دراں حالیکہ اس نے تجھے پیدا کیا ہے۔اس نے کہا:اس کے بعد کون سا گناہ بڑا ہے؟ فرمایا:اپنی اولاد کو اس خوف سے قتل کرنا کہ وہ تیرے ساتھ کھائے گی۔اس نے پوچھا:پھر کون سا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تو اپنے پڑوسی کی بیوی سے زنا کرے۔پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:ان باتوں کی تصدیق اس آیت سے ہوتی ہے۔پھر آپ نے یہی آیت تلاوت فرمائی۔[119]
سورۃ الشعراء (آیت:۲۱۳) میں بھی فرمانِ الٰہی ہے:
.فَلاَ تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتَکُوْنَ مِنَ الْمُعَذَّبِیْنَ.
’’اللہ کے سوا کسی اور معبود کو مت پکارنا،ورنہ تمھیں عذاب دیا جائے گا۔‘‘
سورۃ القصص (آیت:۸۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ! لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ کُلُّ شَیْئٍ ھَالِکٌ اِلَّا وَجْھَہٗ لَہُ الْحُکْمُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ.
’’اور اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود (سمجھ کر) نہ پکارنا اُس کے سوا کوئی معبود نہیں،اُس کی (پاک) ذات کے سوا ہر چیز فنا ہونے والی ہے۔حکم اُسی کا ہے اور اُسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔‘‘
یعنی کسی دوسرے کی عبادت نہ کرنا،نہ دعا کے ذریعے سے،نہ نذر و نیاز کے ذریعے اور نہ قربانی ہی کے ذریعے سے کہ یہ سب عبادات ہیں،جو صرف ایک اللہ کے لیے خاص ہیں۔قرآن میں ہر جگہ غیر اللہ کی عبادت کو پکارنے سے تعبیر کیا گیا ہے،جس سے مقصود اسی نکتے کی وضاحت ہے کہ غیر اللہ کو مافوق الاسباب طریقے سے پکارنا،ان سے استغاثہ کرنا،ان سے دعائیں اور التجائیں کرنا،یہ ان کی عبادت ہی ہے،جس سے انسان مشرک بن جاتا ہے۔
سورۃ الجن (آیت:۱۸) میں ارشادِ ربانی ہے:
.وَاَنَّ الْمَسٰجِدَ لِلّٰہِ فَلاَ تَدْعُوْا مَعَ اللّٰہِ اَحَدًا.
’’اور یہ کہ مسجدیں (خاص) اللہ کی ہیں تو اللہ کے ساتھ کسی اور کی عبادت نہ کرو۔‘‘
سورہ ہ ہود (آیت:۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَلَّا تَعْبُدُوْٓا اِلَّا اللّٰہَ اِنَّنِیْ لَکُمْ مِّنْہُ نَذِیْرٌ وَّ بَشِیْرٌ.
’’یہ کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کرو اور میں اس کی طرف سے تمھیں ڈرانے والا اور خوشخبری دینے والا ہوں۔‘‘
سوره بنی اسرائیل (آیت:۳۹) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ لَا تَجْعَلْ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ فَتُلْقٰی فِیْ جَھَنَّمَ مَلُوْمًا مَّدْحُوْرًا.
’’اللہ کے ساتھ کوئی اور معبود نہ بنانا کہ (ایسا کرنے سے) ملامت زدہ اور (بارگاہِ الٰہی سے) راندہ بنا کر جہنم میں ڈال دیے جاؤ گے۔‘‘
سورۃ القصص (آیت:۷۰) میں ارشادِ ربانی ہے:
.وَ ھُوَ اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ لَہُ الْحَمْدُ فِی الْاُوْلٰی وَ الْاٰخِرَۃِ وَ لَہُ الْحُکْمُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ.
’’اور وہی اللہ ہے اس کے سوا کوئی معبود نہیں،دنیا اور آخرت میں اُسی کی تعریف ہے اور اُسی کا حکم اور اُسی کی طرف تم لوٹائے جاؤ گے۔‘‘
سورۃ النحل (آیت:۵۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ قَالَ اللّٰہُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰھَیْنِ اثْنَیْنِ اِنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ.
’’اور اللہ نے فرمایا ہے کہ دو،دو معبود نہ بناؤ۔ معبود وہی ایک ہے،پس تم سب صرف میرا ہی خوف رکھو۔‘‘
کیونکہ اللہ کے سوا کوئی معبود ہے ہی نہیں۔اگر آسمان اور زمین میں دو معبود ہوتے تو نظامِ عالم قائم ہی نہیں رہ سکتا تھا،یہ فساد اور خرابی کا شکار ہوچکا ہوتا،چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
.لَوْ کَانَ فِیْھِمَآ اٰلِھَۃٌ اِلَّا اللّٰہُ لَفَسَدَتَا فَسُبْحٰنَ اللّٰہِ رَبِّ الْعَرْشِ عَمَّا یَصِفُوْنَ.[الأنبیاء:۲۲]
’’اگر آسمان اور زمین میں اللہ کے سوا اور معبود ہوتے تو زمین و آسمان درہم برہم ہو جاتے،جو باتیں یہ لوگ بتاتے ہیں،اللہ مالکِ عرش ان سے پاک ہے۔‘‘
”کفر“ کے اصل معنی چھُپانے کے ہیں ۔ اسی سے انکار کا مفہُوم پیدا ہوا اور یہ لفظ ایمان کے مقابلے میں بولا جانے لگا ۔ ایمان کے معنی ہیں ماننا ، قبول کرنا ، تسلیم کرلینا ۔ اس کے برعکس کفر کے معنی ہیں نہ ماننا ، رد کر دینا ، انکار کرنا- قرآن میں فرمان ہے :
اِنَّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ مَاتُوۡا وَ ہُمۡ کُفَّارٌ اُولٰٓئِکَ عَلَیۡہِمۡ لَعۡنَۃُ اللّٰہِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃِ وَ النَّاسِ اَجۡمَعِیۡنَ ﴿۱۶۱﴾ۙ
یقیْنًا جو کفار اپنے کفر میں ہی مر جائیں، ان پر اللہ تعالٰی کی ، فرشتوں کی اور تمام لوگوں کی لعنت ہے ۔ [سورة البقرة 2 آیت: 161][120]
.وَالَّذِیْنَ اجْتَنَبُوا الطَّاغُوتَ اَنْ یَّعْبُدُوْھَا وَاَنَابُوْٓا اِلَی اللّٰہِ لَھُمُ الْبُشْرٰی فَبَشِّرْ عِبَادِ.
’’اور جنھوں نے اس سے اجتناب کیا کہ بتوں کو پوجیں اور اللہ کی طرف رجوع کیا تو ان کے لیے بشارت ہے تو میرے بندوں کو بشارت سنا دو۔‘‘(سورۃ الزمر (آیت:۱۷)
.وَاَنِیْبُوْٓا اِلٰی رَبِّکُمْ وَاَسْلِمُوْا لَہٗ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ ثُمَّ لاَ تُنْصَرُوْنَ.
’’اور اس سے پہلے کہ تم پر عذاب آ واقع ہو،اپنے پروردگار کی طرف رجوع کرو اور اس کے فرماں بردار ہو جاؤ،پھر تم کو مدد نہیں ملے گی۔‘‘(سورۃ الزمر (آیت:۵۴)
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۰۲،۱۰۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اتَّبَعُوْا مَا تَتْلُوْا الشَّیٰطِیْنُ عَلٰی مُلْکِ سُلَیْمٰنَ وَ مَا کَفَرَ سُلَیْمٰنُ وَ لٰکِنَّ الشَّیٰطِیْنَ کَفَرُوْا یُعَلِّمُوْنَ النَّاسَ السِّحْرَ وَ مَآ اُنْزِلَ عَلَی الْمَلَکَیْنِ بِبَابِلَ ھَارُوْتَ وَ مَارُوْتَ وَ مَا یُعَلِّمٰنِ مِنْ اَحَدٍ حتّٰی یَقُوْلَآ اِنَّمَا نَحْنُ فِتْنَۃٌ فَلَا تَکْفُرْ فَیَتَعَلَّمُوْنَ مِنْھُمَا مَا یُفَرِّقُونَ بِہٖ بَیْنَ الْمَرْئِ وَ زَوْجِہٖ وَ مَا ھُمْ بِضَآرِّیْنَ بِہٖ مِنْ اَحَدٍ اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ یَتَعَلَّمُوْنَ مَا یَضُرُّھُمْ وَ لَا یَنْفَعُھُمْ وَ لَقَدْ عَلِمُوْا لَمَنِ اشْتَرٰہُ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ وَ لَبِئْسَ مَا شَرَوْا بِہٖٓ اَنْفُسَھُمْ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ . وَ لَوْ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْا وَاتَّقَوْا لَمَثُوْبَۃٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ خَیْرٌ لَوْ کَانُوْا یَعْلَمُوْنَ.
’’اور اُن چیزوں کے پیچھے لگ گئے جو سلیمان کے عہدِ سلطنت میں شیاطین پڑھا کرتے تھے اور سلیمان نے مطلق کفر کی بات نہیں کی بلکہ شیطان ہی کفر کرتے تھے کہ لوگوں کو جادو سکھاتے تھے اور اُن باتوں کے بھی (پیچھے لگ گئے تھے) جو شہرِ بابل میں دو فرشتوں ہاروت اور ماروت پر اتری تھیں اور وہ دونوں کسی کو کچھ نہیں سکھاتے تھے،جب تک یہ نہ کہہ دیتے کہ ہم تو (ذریعہ) آزمایش ہیں۔تم کفر میں نہ پڑو،غرض کہ لوگ ان سے ایسا (جادو) سیکھتے،جس سے میاں بیوی میں جدائی ڈال دیں اور اللہ کے حکم کے سوا وہ اس (جادو) سے کسی کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے تھے اور کچھ ایسے (منتر) سیکھتے جو اُن کو نقصان ہی پہنچاتے اور فائدہ کچھ نہ دیتے اور وہ جانتے تھے کہ جو شخص ایسی چیزوں (سحر و منتر وغیرہ) کا خریدار ہوگا،اُس کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں اور جس چیز کے عوض انھوں نے اپنی جانوں کو بیچ ڈالا،وہ بُری تھی۔کاش وہ (اس
بات) کو جانتے اور اگر وہ ایمان لاتے اور پرہیز گاری کرتے تو اللہ کے ہاں سے بہت اچھا صلہ ملتا۔اے کاش! وہ اس سے واقف ہوتے۔‘‘
یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ (سورہ محمد (47:33)
’’مومنو! اللہ کا ارشاد مانو اور پیغمبر کی فرماں برداری کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے دو۔‘‘
منافقین اور مرتدین کی طرح ارتداد و نفاق اختیار کر کے اپنے عملوں کو برباد مت کرو،یہ گویا اسلام پر استقامت کا حکم ہے۔بعض نے کبائر و فواحش کے ارتکاب کو بھی حبطِ اعمال کا باعث جانا ہے،اسی لیے مومنین کی صفات میں سے ایک صفت یہ بھی بیان کی گئی ہے کہ وہ بڑے گناہ اور فواحش سے بچتے ہیں۔[سورۃ النجم:۳۲]
اس اعتبار سے کبائر و فواحش سے بچنے کی اس میں تاکید ہے۔اس آیت سے یہ بھی معلوم ہوا کہ کوئی عمل خواہ کتنا ہی بہتر کیوں نہ معلوم ہوتا ہو،اگر اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کے دائرے سے باہر ہے تو رائیگاں اور برباد ہے۔[121]
تحقیق اور تجزیہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ قرآن اور رسول اللہ ﷺ صرف ایک کتاب اللہ (قرآن) جو کہ اللہ کی مظبوط رسی کو پکڑنے کا حکم دیتے ہیں[122] کیونکہ یہود ا نصاری ںے کتاب اللہ کو دوسری کتب لکھ کر کتاب اللہ کو نظر انداز کر دیا[123]- رسول اللہ ﷺ ںے سنت[124] جو کہ آپﷺ کا قرآن کی تعلیمات کا عملی نمونہ ہے اسے عملی طور پر اور احادیث کو سماع ، حفظ اور بیان[125] کے زریعہ منتقل کرنا پسند فرمایا- رسول اللہ ﷺ نے احادیث کی پہچان کے لئے واضح آسان، قابل عمل مفصل ہدایات/ اصول بھی دئیے- سنت خلفاء راشدین و صحابہ نے ان کو تصدیق عمل سے کی- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ 43)
افسوس کہ رسول اللہ ﷺ کے ان اہم احکام و ہدایت پر مکمل طور پر صرف پہلی صدی حجرہ میں عمل ہوا جب تک صحابہ زندہ تھے دوسری تیسری صدی حجرہ میں نافرمانی و بدعة کا آغاز ہوا جو اب بھی خوب زور شور سے جاری ہے- اب بھی وقت ہے کہ معاملات درست کیے جائیں- الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی سزا وہی ہے جو کفرکی ہے:
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن؛ 4:14)[126]
اِنَّ الَّذِیۡنَ ارۡتَدُّوۡا عَلٰۤی اَدۡبَارِہِمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَا تَبَیَّنَ لَہُمُ الۡہُدَی ۙ الشَّیۡطٰنُ سَوَّلَ لَہُمۡ ؕ وَ اَمۡلٰی لَہُمۡ ﴿۲۵﴾
"جو لوگ اپنی پیٹھ کے بل الٹے پھر گئے اس کے بعد کہ ان کے لئے ہدایت واضح ہو چکی یقیناً شیطان نے ان کے لئے ( ان کے فعل کو ) مزین کر دیا ہے اور انہیں ڈھیل دے رکھی ہے ۔ [سورة محمد 47 آیت 25][129]
اعمال سے مراد وہ تمام اعمال ہیں جو مسلمان بن کر وہ انجام دیتے رہے۔ ان کی نمازیں، ان کے روزے، ان کی زکوٰۃ، غرض وہ تمام عبادتیں اور وہ ساری نیکیاں جو اپنی ظاہری شکل کے اعتبار سے اعمال خیر میں شمار ہوتے تھیں اس بنا پر ضائع ہو گئیں کہ انہوں نے مسلمان ہوتے ہوئے بھی اللہ اور اس کے دین اور ملت اسلامیہ کے ساتھ اخلاص و وفاداری کا رویہ اختیار نہ کی، بلکہ محض اپنے دنیوی مفاد کے لیے دشمنان دین کے ساتھ ساز باز کرتے رہے اور اللہ کی راہ میں جہاد کا موقع آتے ہیں اپنے آپ کو خطرات سے بچانے کی فکر میں لگ گئے۔ یہ آیات اس معاملہ میں بالکل ناطق ہیں کہ کفر و اسلام کی جنگ میں جس شخص کی ہمدردیاں اسلام اور مسلمانوں کے ساتھ نہ ہوں، یا کفر اور کفار کے ساتھ ہوں، اس کا ایمان ہی سرے سے معتبر نہیں ہے کجا کہ اس کا کوئی عمل خدا کے ہاں مقبول ہو۔ [تفہیم القرآن]
یقینا وہ لوگ جو پھرگئے اپنی پیٹھوں کے َبل ‘ اس کے بعد کہ ان پر ہدایت واضح ہوچکی ‘ شیطان نے ان کے لیے (ارتداد کا یہ مرحلہ) آسان کردیا ہے اور انہیں لمبی لمبی امیدیں دلائی ہیں۔ “ ” طولِ امل “ کے اس شیطانی چکر میں پڑ کر انسان آخرت کو بالکل ہی فراموش کردیتا ہے۔ ظاہر ہے جس شخص نے لمبی لمبی امیدیں قائم کر کے اپنی زندگی میں بڑے بڑے منصوبے بنا رکھے ہوں ‘ اس کے دل میں شہادت کی تمنا کیسے پیدا ہوسکتی ہے ‘ اور ایسا شخص میدان جنگ میں جانا بھلا کیونکر پسند کرے گا ![ڈاکٹراحمد]
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۱۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا یَزَالُوْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ حَتّٰی یَرُدُّوْکُمْ عَنْ دِیْنِکُمْ اِنِ اسْتَطَاعُوْا وَ مَنْ یَّرْتَدِدْ مِنْکُمْ عَنْ دِیْنِہٖ فَیَمُتْ وَ ھُوَ کَافِرٌ فَاُولٰٓئِکَ حَبِطَتْ اَعْمَالُھُمْ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ.
’’اور یہ لوگ ہمیشہ تم سے لڑتے رہیں گے،یہاں تک کہ اگر قدرت رکھیں تو تمھیں تمھارے دین سے پھیر دیں اور جو کوئی تم میں سے اپنے دین سے پھر کر (کافر ہو) جائے گا اور کافر ہی مرے گا تو ایسے لوگوں کے اعمال دنیا اور آخرت دونوں میں برباد ہوجائیں گے اور یہی لوگ دوزخ (میں جانے) والے ہیں،جس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
جو دینِ اسلام سے پھر جائے،یعنی مرتد ہو جائے (اگر وہ توبہ نہ کرے) تو اس کی دنیوی سزا قتل ہے۔حدیث نبوی میں ہے:
’’جس نے اپنا دین بدلا،اسے قتل کر دو۔‘‘[130]
اس آیت میں اس کی اخروی سزا بیان کی جا رہی ہے،جس سے معلوم ہوا کہ ایمان کی حالت میں کیے گئے اعمالِ صالحہ بھی کفر کی وجہ سے کالعدم ہوجائیں گے اور جس طرح ایمان قبول کرنے سے انسان کے پچھلے گناہ معاف ہو جاتے ہیں،اسی طرح کفر سے تمام نیکیاں برباد ہوجاتی ہیں۔تاہم قرآن کے الفاظ سے واضح ہے کہ حبطِ اعمال اسی وقت ہوگا،جب خاتمہ کفر پر ہوگا،اگر موت سے پہلے تائب ہو جائے گا تو ایسا نہیں ہوگا،یعنی مرتد کی توبہ قبول ہے۔
"عبداللہ بن سعد بن ابی سرح" صحابی رسول اور کاتب وحی تھے۔ یہ حضرت عثمان غنی (رضی الله) کے رضاعی بھائی ہیں، فتحِ مکہ سے پہلے ہی ایمان قبول کیا اور ہجرت کی، پھر شیطان کے بہکاوے میں آکر مرتد ہو گئے اور مشرکینِ مکہ سے جا ملے- رسول اللہ ﷺ نے اس کے خون کو مباح فرمایا تھا مگرفتحِ مکہ کے دن حضرت عثمان غنی (رضی الله) کی سفارش پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امان دیا، [سنن نسائی صحيح حدیث نمبر: 4072][131] پھر انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور بہت پختہ مسلمان رہے، اسلام ہی پر ان کا خاتمہ ہوا[132]- اس حدیث اور قرآن کی مذکورہ آیت کی بنیاد پر کچھ علماء (ڈاکٹر ذکر نائیک) مرتد کی سزا موت پر اختلاف رکھتے ہیں- لیکن وہ مرتد جو کھلم کھلا اعلان کرتا اور اسلام کے خلاف پروپیگنڈا کرتا ہے اسے تین سے سات روز قید میں رکھ کر تبلیغ کی جایے گی اگر پھر بھی نہ مانے تو بغاوت اور فساد فی الارض پر موت کی سزا کا بھی بیان کیا جاتا ہے- (واللہ اعلم )
سورۃ البقرہ (آیت:۲۱۱،۲۱۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.سَلْ بَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ کَمْ اٰتَیْنٰھُمْ مِّنْ اٰیَۃٍم بَیِّنَۃٍ وَ مَنْ یُّبَدِّلْ نِعْمَۃَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَتْہُ فَاِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ . زُیِّنَ لِلَّذِیْنَ کَفَرُوا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا وَ یَسْخَرُوْنَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا فَوْقَھُمْ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَ اللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ.
’’(اے نبی!) بنی اسرائیل سے پوچھو کہ ہم نے اُن کو کتنی کھلی نشانیاں دیں اور جو شخص اللہ کی نعمت کو اپنے پاس آنے کے بعد بدل دے تو اللہ سخت عذاب کرنے والا ہے۔اور جو کافر ہیں ان کے لیے دنیا کی زندگی خوش نما کر دی گئی ہے اور وہ مومنوں سے تمسخر کرتے ہیں، لیکن جوپرہیزگار ہیں وہ قیامت کے دن اُن پر غالب ہوں گے اور اللہ تعالیٰ جس کو چاہتا ہے بے شمار رزق دیتا ہے۔‘‘
سنت و نظامِ الٰہی
اِنَّ اللّٰہَ لَا یُغَیِّرُ مَا بِقَوۡمٍ حَتّٰی یُغَیِّرُوۡا مَا بِاَنۡفُسِہِمۡ ؕ (قرآن 13:11)
“الله لوگوں کی حالت کو تبدیل نہیں کرتا جب تک وہ خود اپنے (نفس) کی حالت کو نہ بدلے“(قرآن 13:11)
“کیا انہوں نے دیکھا نہیں کہ ہم ان سے پہلے کتنی جماعتوں کو ہلاک کر چکے ہیں جن کو ہم نے دنیا میں ایسی قوت دی تھی کہ تم کو وہ قوت نہیں دی اور ہم نے ان پر خوب بارشیں برسائیں اور ہم نے ان کے نیچے سے نہریں جاری کیں ۔ پھر ہم نے ان کو ان کے گناہوں کے سبب ہلاک کر ڈالا اور ان کے بعد دوسری جماعتوں کو پیدا کر دیا” (6:6)
اگر تم منہ موڑو گے تو اللہ تمہاری جگہ کسی اور قوم کو لے آئے گا اور وہ تم جیسے نہ ہوں گے (47:38 قرآن)
“حقیقت یہ ہے کہ اللہ کسی قوم کے حال کو نہیں بدلتا جب تک وہ خود اپنے اوصاف کو نہیں بدل دیتی “(13:11 قرآن)
“آپ کا رب ایسا نہیں کہ کسی بستی کو ظلم سے ہلاک کر دے اور وہاں کے لوگ نیکوکار ہوں” ۔ (11:117)
” تیرا رب کسی ایک بستی کو بھی اس وقت تک ہلاک نہیں کرتا جب تک کہ ان کی کسی بڑی بستی میں اپنا کوئی پیغمبر نہ بھیج دے جو انہیں ہماری آیتیں پڑھ کر سنا دے اور ہم بستیوں کو اسی وقت ہلاک کرتے ہیں جب کہ وہاں والے ظلم و ستم پر کمر کس لیں” (28:59)
بسا اوقات چھوٹی اور تھوڑی سی جماعتیں بڑی اور بہت سی جماعتوں پر اللہ کے حکم سے غلبہ پا لیتی ہیں ، اللہ تعالٰی صبر والوں کے ساتھ ہے ۔[2:249]
اگر اللہ تعالٰی بعض لوگوں کو بعض سے دفع نہ کرتا تو زمین میں فساد پھیل جاتا لیکن اللہ تعالٰی دنیا والوں پر بڑا فضل و کرم کرنے والا ہے ۔ [سورة البقرة 2 آیت: 251]
“تو جو کوئی میری اُس ہدایت کی پیروی کرے گا وہ نہ بھٹکے گا نہ بد بختی میں مبتلا ہو گا” (20:123)
مزید : اقوام کا عروج و زوال - قرآن کا قانون…
سورۃ الحج (آیت:۴۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَلَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بِغَیْرِ حَقٍّ اِلَّآ اَنْ یَّقُوْلُوْا رَبُّنَا اللّٰہُ وَ لَوْ لَا دَفْعُ اللّٰہِ النَّاسَ بَعْضَھُمْ بِبَعْضٍ لَّھُدِّمَتْ صَوَامِعُ وَ بِیَعٌ وَّ صَلَوٰتٌ وَّ مَسٰجِدُ یُذْکَرُ فِیْھَا اسْمُ اللّٰہِ کَثِیْرًا وَ لَیَنْصُرَنَّ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ اِنَّ اللّٰہَ لَقَوِیٌّ عَزِیْزٌ.
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اپنے گھروں سے ناحق نکال دیے گئے (انھوں نے کچھ قصور نہیں کیا) ہاں یہ کہتے ہیں کہ ہمارا رب،اللہ ہے اور اگر اللہ لوگوں کو ایک دوسرے سے نہ ہٹاتا رہتا تو (راہبوں کے) خلوت خانے اور (عیسائیوں کے) گرجے اور (یہودیوں کے) عبادت خانے اور (مسلمانوں کی) مسجدیں جن میں اللہ کا بہت سا ذکر کیا جاتا ہے،ویران ہوچکی ہوتیں اور جو شخص اللہ کی مدد کرتا ہے،اللہ اُس کی ضرور مددکرتا ہے،بے شک اللہ توانا اور بڑا غالب ہے۔‘‘
اس آیت میں ایک سنت الٰہی کا بیان ہے کہ وہ انسانوں کے ہی ایک گروہ کے ذریعے سے دوسرے انسانی گروہ کے ظلم اور اقتدار کا خاتمہ فرماتا رہتا ہے۔اگر وہ ایسا نہ کرتا اور اسی ایک ہی گروہ کو ہمیشہ قوت و اختیار سے بہرہ ور کیے رکھتا تو یہ زمین ظلم و فساد سے بھر جاتی۔اس لیے یہ قانونِ الٰہی اہلِ دنیا کے لیے فضلِ الٰہی کا خاص مظہر ہے۔
اِنَّ الدِّیۡنَ عِنۡدَ اللّٰہِ الۡاِسۡلَامُ ۟ وَ مَا اخۡتَلَفَ الَّذِیۡنَ اُوۡتُوا الۡکِتٰبَ اِلَّا مِنۡۢ بَعۡدِ مَا جَآءَہُمُ الۡعِلۡمُ بَغۡیًۢا بَیۡنَہُمۡ ؕ وَ مَنۡ یَّکۡفُرۡ بِاٰیٰتِ اللّٰہِ فَاِنَّ اللّٰہَ سَرِیۡعُ الۡحِسَابِ ﴿۱۹﴾
"بیشک اللہ تعالٰی کے نزدیک دین اسلام ہی ہے اور اہل کتاب اپنے پاس علم آجانے کے بعد آپس کی سرکشی اور حسد کی بناء پر ہی اختلاف کیا ہے اور اللہ تعالٰی کی آیتوں کے ساتھ جو بھی کفر کرے اللہ تعالٰی اس کا جلد حساب لینے والا ہے" [سورة آل عمران 3 آیت: 19]
اللہ کے نزدیک انسان کے لیے صرف ایک ہی نظام زندگی اور ایک ہی طریقہ حیات صحیح و درست ہے ، اور وہ یہ ہے کہ انسان اللہ کو اپنا مالک و معبود تسلیم کرے اور اس کی بندگی و غلامی میں اپنے آپ کو بالکل سپرد کردے اور اس کی بندگی بجا لانے کا طریقہ خود نہ ایجاد کرے ، بلکہ اس نے اپنے پیغمبروں کے ذریعہ سے جو ہدایت بھیجی ہے ، ہر کمی و بیشی کے بغیر صرف اسی کی پیروی کرے ۔ اسی طرز فکر و عمل کا نام”اسلام“ ہے اور یہ بات سراسر بجا ہے کہ کائنات کا خالق و مالک اپنی مخلوق اور رعیت کے لیے اس اسلام کے سوا کسی دوسرے طرز عمل کو جائز تسلیم نہ کرے ۔ آدمی اپنی حماقت سے اپنے آپ کو دہریت سے لے کر شرک و بت پرستی تک ہر نظریے اور ہر مسلک کی پیروی کا جائز حق دار سمجھ سکتا ہے ، مگر فرماں روائے کائنات کی نگاہ میں تو یہ نری بغاوت ہے ۔
اللہ کی طرف سے جو پیغمبر بھی دنیا کے کسی گوشے اور کسی زمانہ میں آیا ہے ، اس کا دین اسلام ہی تھا اور جو کتاب بھی دنیا کی کسی زبان اور کسی قوم میں نازل ہوئی ہے ، اس نے اسلام ہی کی تعلیم دی ہے ۔ اس اصل دین کو مسخ کر کے اور اس میں کمی بیشی کر کے جو بہت سے مذاہب نوع انسانی میں رائج کیے گئے ، ان کی پیدائش کا سبب اس کے سوا کچھ نہ تھا کہ لوگوں نے اپنی جائز حد سے بڑھ کر حقوق ، فائدے اور امتیازات حاصل کرنے چاہے اور اپنی خواہشات کے مطابق اصل دین کے عقائد ، اصول اور احکام میں رد و بدل کر ڈالا ۔[تفہیم القرآن: سید ابو الاعلیٰ مودودی][133]
سورۃ الروم (آیت:۳۰،۳۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ حَنِیْفًا فِطْرَتَ اللّٰہِ الَّتِیْ فَطَرَ النَّاسَ عَلَیْھَا لَا تَبْدِیْلَ لِخَلْقِ اللّٰہِ ذٰلِکَ الدِّیْنُ الْقَیِّمُ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یَعْلَمُوْنَ . مُنِیْبِیْنَ اِلَیْہِ وَاتَّقُوْہُ وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَلَا تَکُوْنُوْا مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ.
’’تم ایک طرف کے ہو کر دینِ (الٰہی کے راستے) پر سیدھا منہ کیے چلے جاؤ (اور) اللہ کی فطرت کو جس پر اُس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے،(اختیار کیے رہو) اللہ کی بنائی ہوئی (فطرت) میں تغیر و تبدّل نہیں ہو سکتا،یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں جانتے۔(مومنو!) اُسی (اللہ) کی طرف رجوع کیے رہو اور اُس سے ڈرتے رہو اور نماز پڑھتے رہو اور مشرکوں میں سے نہ ہوجانا۔‘‘
اللہ کی اس فطرت کو تبدیل نہ کرو،بلکہ صحیح تربیت کے ذریعے سے اس کی نشو و نما کرو،تاکہ ایمان و توحید بچوں کے دلوں میں راسخ ہوجائے۔
2۔آگے سورۃ الروم (آیت:۴۳) میں بھی ارشادِ الٰہی ہے:
.فَاَقِمْ وَجْھَکَ لِلدِّیْنِ الْقَیِّمِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ یَوْمَئِذٍ یَّصَّدَّعُوْنَ.
’’اس روز سے پہلے جو اللہ کی طرف سے آکر رہے گا اور رُک نہیں سکے گا،دین (کے راستے) پر سیدھا منہ کیے چلے چلو،اُس روز (سب) لوگ منتشر ہو جائیں گے۔‘‘
اس دن کے آنے کو کوئی روک نہیں سکتا۔اس لیے اس دن (قیامت ) کے آنے سے پہلے اطاعتِ الٰہی کا راستہ اختیار کرلیں اور نیکیوں سے اپنا دامن بھر لیں۔
سورۃ البینہ (آیت:۴،۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَمَا تَفَرَّقَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ اِلَّا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَتْھُمُ الْبَیِّنَۃُ . وَمَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ حُنَفَآئَ وَیُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَیُؤْتُوا الزَّکَوٰۃَ وَذٰلِکَ دِیْنُ الْقَیِّمَۃِ.
’’اور اہلِ کتاب جو متفرق (و مختلف) ہوئے ہیں تو دلیل واضح کے آجانے کے بعد (ہوئے ہیں )۔اور ان کو حکم تو یہی ہوا تھا کہ اخلاص کے ساتھ اللہ کی عبادت کریں (اور) یکسو ہو کر اور نماز پڑھیں اور زکات دیں اور یہی سچا دین (دینِ قیم) ہے۔‘‘
سورۃ البینہ (آیت:۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.جَزَآؤُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ جَنّٰتُ عَدْنٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرخٰلِدِیْنَ فِیْھَآ اَبَدًا رَضِیَ اللّٰہُ عَنْھُمْ وَرَضُوْا عَنْہُ ذٰلِکَ لِمَنْ خَشِیَ رَبَّہٗ.
’’ان کا صلہ ان کے پروردگار کے ہاں ہمیشہ رہنے کے باغ ہیں،جن کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں،ابد الآباد تک ان میں رہیں گے،اللہ ان سے خوش اور وہ اس سے خوش،یہ (صلہ) اس کے لیے ہے جو اپنے پروردگار سے ڈرتا رہا۔‘‘
“اللہ تعالی کسی کوبھی اس کی طاقت سے زيادہ مکلف نہیں کرتا اس کو جوبھی وہ عمل کرے اس کا اجروثواب اورجوبھی وہ گناہ کرے اس کا وبال اورگناہ بھی اس پرہی ہے ” البقرۃ ( 286 )
آیت ٢٨٦ (لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا ط) یہ آیت اللہ تعالیٰ کے بہت بڑے فضل و کرم کا مظہر ہے۔ (آیت 2:186)[134] دنیا میں حقوق انسانی کا سب سے بڑا منشور (Magna Carta) ہے کہ اللہ اور بندے کے درمیان کوئی فصل نہیں ہے : (اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ ) میں تو ہر پکارنے والے کی پکار کا جواب دیتا ہوں جب بھی (اور جہاں بھی) وہ مجھے پکارے۔ (فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَلْیُؤْمِنُوْا بِیْ ) پس انہیں بھی چاہیے کہ میرا حکم مانیں اور مجھ پر ایمان رکھیں۔ اگرچہ دعائیں پڑھی جاتی ہیں ‘ لیکن دعائیں قبول کیوں نہیں ہوتیں ! ہمارا جرم یہ ہے کہ تم نے اللہ کو پیٹھ دکھائی ہوئی ہے ‘ اس کے دین کو پاؤں تلے روندا ہوا ہے ‘ اللہ کے باغیوں سے دوستی رکھی ہوئی ہے۔ لیکن یہ آیت اس اعتبار سے بہت بڑی رحمت کا مظہر ہے کہ اللہ تعالیٰ کے ہاں اندھے کی لاٹھی والا معاملہ نہیں ہے کہ تمام انسانوں سے محاسبہ ایک ہی سطح پر ہو۔ اللہ جانتا ہے کہ کس کی کتنی وسعت ہے اور اسی کے مطابق کسی کو ذمہّ دارٹھہراتا ہے۔ اور یہ وسعت موروثی اور ماحولیاتی عوامل پر مشتمل ہوتی ہے۔ ہر شخص کو جو genes ملتے ہیں وہ دوسرے سے مختلف ہوتے ہیں اور ان genes کی اپنی اپنی خصوصیات (properties) اور تحدیدات ‘ (limitations) ہوتی ہیں۔ اسی طرح ہر شخص کو دوسرے سے مختلف ماحول میسرّ آتا ہے۔ تو ان موروثی عوامل (hereditary factors) اور ماحولیاتی عوامل (environmental factors) کے حاصل ضرب سے انسان کی شخصیت کا ایک ہیولیٰ بنتا ہے ‘ جس کو مستری لوگ پاٹن کہتے ہیں۔ جب لوہے کی کوئی شے ڈھالنی مقصود ہو تو اس کے لیے پہلے مٹی یا لکڑی کا ایک سانچہ ( pattern) بنایا جاتا ہے۔ اس کو ہمارے ہاں کاریگر اپنی بولی میں پاٹن کہتے ہیں۔ اب آپ لوہے کو پگھلا کر اس میں ڈالیں گے تو وہ اسی صورت میں ڈھل جائے گا۔ قرآن کی اصطلاح میں یہ شاکلہ ہے جو ہر انسان کا بن جاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے : (قُلْ کُلٌّ یَّعْمَلُ عَلٰی شَاکِلَتِہٖط فَرَبُّکُمْ اَعْلَمُ بِمَنْ ھُوَ اَھْدٰی سَبِیْلاً ) (بنی اسرائیل ) کہہ دیجیے کہ ہر کوئی اپنے شاکلہ کے مطابق عمل کر رہا ہے۔ پس آپ کا رب ہی بہتر جانتا ہے کہ کون سیدھی راہ پر ہے۔ اس شاکلہ کے اندر اندر آپ کو محنت کرنی ہے۔ اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ کس کا شاکلہ وسیع تھا اور کس کا تنگ تھا ‘ کس کے genes اعلیٰ تھے اور کس کے ادنیٰ تھے ‘ کس کے ہاں ذہانت زیادہ تھی اور کس کے ہاں جسمانی قوت زیادہ تھی۔ اسے خوب معلوم ہے کہ کس کو کیسی صلاحیتیں ودیعت کی گئیں اور کیسا ماحول عطا کیا گیا۔ چناچہ اللہ تعالیٰ ہر ایک کے ماحولیاتی عوامل اور موروثی عوامل کو ملحوظ رکھ کر اس کی استعدادات کے مطابق حساب لے گا۔ فرض کیجیے ایک شخص کے اندر استعداد ہی ٢٠ درجے کی ہے اور اس نے ١٨ درجے کام کر دکھایا تو وہ کامیاب ہوگیا۔ لیکن اگر کسی میں استعداد سو درجے کی تھی اور اس نے ٥٠ درجے کام کیا تو وہ ناکام ہوگیا۔ حالانکہ کمیت کے اعتبار سے ٥٠ درجے ١٨ درجے سے زیادہ ہیں۔ تو اللہ تعالیٰ کا محاسبہ جو ہے وہ انفرادی سطح پر ہے۔ اس لیے فرمایا گیا : (وَکُلُّھُمْ اٰتِیْہِ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ فَرْدًا ) (مریم) اور سب لوگ قیامت کے دن اس کے حضور فرداً فرداً حاضر ہوں گے۔ وہاں ہر ایک کا حساب اکیلے اکیلے ہوگا اور وہ اس کی وسعت کے مطابق ہوگا۔ (لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا الاَّ وُسْعَہَا ط) کے الفاظ میں جو ایک اہم اصول بیان کردیا گیا ہے ‘ بعض لوگ دنیا کی زندگی میں اس کا غلط نتیجہ نکال بیٹھتے ہیں۔
وہ دنیا کے معاملات میں تو خوب بھاگ دوڑ کرتے ہیں لیکن دین کے معاملے میں کہہ دیتے ہیں کہ ہمارے اندر صلاحیت اور استعداد ہی نہیں ہے۔ یہ محض خود فریبی ہے۔ استعداد و استطاعت اور ذہانت و صلاحیت کے بغیر تو دنیا میں بھی آپ محنت نہیں کرسکتے ‘ کوئی نتائج حاصل نہیں کرسکتے ‘ کچھ کما نہیں سکتے۔ لہٰذا اپنے آپ کو یہ دھوکہ نہ دیجیے اور جو کچھ کرسکتے ہوں ‘ وہ ضرور کیجیے۔ اپنی شخصیت کو کھود کھود کر اس میں سے جو کچھ نکال سکتے ہوں وہ نکالیے ! ہاں آپ نکال سکیں گے اتنا ہی جتنا آپ کے اندر ودیعت ہے۔ زیادہ کہاں سے لے آئیں گے؟ اور اللہ نے کس میں کیا ودیعت کیا ہے ‘ وہ وہی جانتا ہے۔ تمہارا محاسبہ اسی کی بنیاد پر ہوگا جو کچھ اس نے تمہیں دیا ہے۔ اس مضمون کی اہمیت کا اندازہ کیجیے کہ یہ قرآن مجید میں پانچ مرتبہ آیا ہے۔ (لَھَا مَا کَسَبَتْ وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ط) ۔ اس مقام پر بھی ل اور عَلٰی کے استعمال پر غور کیجیے۔ (لَھَا مَا کَسَبَتْ ) سے مراد ہے جو بھی نیکی اس نے کمائی ہوگی وہ اس کے لیے ہے ‘ اس کے حق میں ہے ‘ اس کا اجر وثواب اسے ملے گا۔ (وَعَلَیْھَا مَا اکْتَسَبَتْ ط) سے مراد ہے کہ جو بدی اس نے کمائی ہوگی اس کا وبال اسی پر آئے گا ‘ اس کی سزا اسی کو ملے گی۔
اب وہ دعا آگئی ہے جو قرآن مجید کی جامع ترین اور عظیم ترین دعا ہے : (رَبَّنَا لاَ تُؤَاخِذْنَآ اِنْ نَّسِیْنَا اَوْ اَخْطَاْنَا ج) اور اسے یہ دعا کرتے رہنا چاہیے کہ اے پروردگار ! ہماری بھول چوک پر ہم سے مؤاخذہ نہ فرمانا۔ انسان کے اندر خطا اور نسیان دونوں چیزیں گندھی ہوئی ہیں : (اَلْاِنْسَانُ مُرَکَّبٌ مِنَ الْخَطَاأ وَالنِّسْیَانِ ) آپ کی نیت صحیح تھی۔ ایک اجتہاد کرنے والا اجتہاد کر رہا ہے ‘ اس نے امکانی حد تک کوشش کی ہے کہ صحیح رائے تک پہنچے ‘ لیکن خطا ہوگئی۔ اللہ معاف کرے گا۔ مجتہد مخطی بھی ہو تو اس کو ثواب ملے گا اور مجتہد مصیب ہو ‘ صحیح رائے پر پہنچ جائے تو اس کو دوہرا ثواب ملے گا۔
اور نسیان یہ ہے کہ بھولے سے کوئی غلطی سرزد ہوجائے۔ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (اِنَّ اللّٰہَ تَجَاوَزَ عَنْ اُمَّتِی الْخَطَأَ وَالنِّسْیَانَ ) (٣٧) اللہ تعالیٰ نے میری امتّ سے خطا اور نسیان معاف فرما دیا ہے۔ (رَبَّنَا وَلاَ تَحْمِلْ عَلَیْنَآ اِصْرًا کَمَا حَمَلْتَہٗ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِنَا ج) ۔ ایک حمل (بوجھ) وہ ہوتا ہے جس کو لے کر انسان چلتا ہے۔ اسی سے حمال بنا ہے جو ایک بوری کو یا بوجھ کو اٹھا کر چل رہا ہے۔ جو بوجھ آپ کی طاقت میں ہے اور جسے لے کر آپ چل سکیں وہ حمل ہے ‘ اور جس بوجھ کو آپ اٹھا نہ سکیں اور وہ آپ کو بٹھا دے اس کو اصر کہتے ہیں۔ یہ لفظ سورة الاعراف (آیت ١٥٧) میں ہے : (وَیَضَعُ عَنْھُمْ اِصْرَھُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْھِمْ ط) ان الفاظ میں ٌ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی یہ شان بیان ہوئی ہے کہ انہوں نے لوگوں کے وہ بوجھ جو ان کی طاقت سے بڑھ کر تھے ‘ ان کے کندھوں سے اتار دیے۔ ہم سے پہلے لوگوں پر بڑے بھاری بوجھ ڈالے گئے تھے۔
شریعت موسوی ہماری شریعت کی نسبت بہت بھاری تھی۔ جیسے ان کے ہاں روزہ رات ہی سے شروع ہوجاتا تھا ‘ لیکن ہمارے لیے یہ کتنا آسان کردیا گیا کہ روزے سے رات کو نکال دیا گیا اور سحری کرنے کی تاکید فرمائی گئی : (تَسَحَّرُوْا فَاِنَّ فِی السُّحُوْرِ بَرَکَۃً ) (٣٨) سحری ضرور کیا کرو ‘ اس لیے کہ سحریوں میں برکت رکھی گئی ہے۔
پھر رات میں تعلق زن و شو کی اجازت دی گئی۔
ان کے روزے میں خاموشی بھی شامل تھی۔ یعنی نہ کھانا ‘ نہ پینا ‘ نہ تعلق زن و شو اور نہ گفتگو۔ ہمارے لیے کتنی آسانی کردی گئی ہے !
ان کے ہاں یوم سبت کا حکم اتنا سخت تھا کہ پورا دن کوئی کام نہیں کرو گے۔ ہمارے ہاں جمعہ کی اذان سے لے کر نماز کے ادا ہوجانے تک ہر کاروبار دنیوی حرام ہے۔ لیکن اس سے پہلے اور اس کے بعد آپ کاروبار کرسکتے ہیں۔
(رَبَّنَا وَلاَ تُحَمِّلْنَا مَا لاَ طَاقَۃَ لَنَا بِہٖ ج) (وَاعْفُ عَنَّاوقفۃ) ہماری لغزشوں کو معاف کرتا رہ ! (وَاغْفِرْ لَنَاوقفۃ) ہماری خطاؤں کی پردہ پوشی فرما دے ! مغفرت کے لفظ کو سمجھ لیجیے۔ اس میں ڈھانپ لینے کا مفہوم ہے۔ مِغْفَرْ ’ خود ‘ (ہیلمٹ) کو کہتے ہیں ‘ جو جنگ میں سر پر پہنا جاتا ہے۔ یہ سر کو چھپا لیتا ہے اور اسے گولی یا تلوار کے وار سے بچاتا ہے۔ تو مغفرت یہ ہے کہ گناہوں کو اللہ تعالیٰ اپنی رحمت سے ڈھانپ دے ‘ ان کی پردہ پوشی فرما دے ۔
(وَارْحَمْنَآوقفۃ) (اَنْتَ مَوْلٰٹنَا) تو ہمارا پشت پناہ ہے ‘ ہمارا والی ہے ‘ ہمارا حامی و مددگار ہے۔ ہم یہ آیت پڑھ آئے ہیں : (اَللّٰہُ وَلِیُّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْالا یُخْرِجُھُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ ط) (آیت ٢٥٧) ۔ (فَانْصُرْنَا عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ ) انہی الفاظ پر وہ دعا ختم ہوئی تھی جو طالوت کے ساتھیوں نے کی تھی۔ اب اہل ایمان کو یہ دعا تلقین کی جا رہی ہے ‘ اس لیے کہ مرحلہ سخت آ رہا ہے۔ گویا : تاب لاتے ہی بنے گی غالب مرحلہ سخت ہے اور جان عزیز ! اب کفار کے ساتھ مقابلے کا مرحلہ آ رہا ہے اور اس کے لیے مسلمانوں کو تیار کیا جا رہا ہے۔ یہ درحقیقت غزوۂ بدر کی تمہید ہے۔ بارک اللّٰہ لی ولکم فی القرآن العظیم ونفعنی وایاکم بالآیات والذکر الحکیم ۔(ماخوز تفسیر ، ڈاکٹر اسرار احمد (رح)[135].
".. اس اللہ تعالی نے تمہیں اختیار کرلیا ہے اور تم پرتمہارے دین میں کوئ تنگی نہیں کی الحج ( 22:78 )[136]
جس میں تم غلطی کرلواس کا تم پرکوئ گناہ نہیں لیکن گناہ اس میں ہے جوتمہارے دل عمدا اورجان بوجھ کرکریں الاحزاب ( 5 ) ۔
اللہ تعالی تمہارے ساتھ آسانی چاہتا ہے اوروہ تمہیں مشکل اورسختی میں نہیں ڈالنا چاہتا البقرۃ ( 185 ) ۔
نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا بھی فرمان ہے :
( یقینا دین ( اسلام ) آسان ہے اورجوبھی دین میں طاقت سے زيادہ سختی کرتا ہے وہ اس کی طاقت نہیں رکھتا ، توتم میانہ روی اختیار کرو ، اور صحیح کام کرو اورخوشياں بانٹو ) صحیح بخاری حدیث نمبر ( 39 ) ۔
ان پرشیطان نے غلبہ حاصل کرلیا اورانہیں اللہ تعالی کا ذکر بھلا دیا ، یہ شیطانی لشکر ہے ، بلاشک شبہ شیطانی لشکر ہی خسارہ میں ہے . المجادلۃ (19)
( یقنا اللہ تعالی نے میری امت کواس کے دل میں پیدا ہونے والی باتوں اورخیالا ت سے درگزر فرمادیا ہے لیکن جب وہ اس کوزبان پر لیے آئيں یا پھر اس پرعمل کرلیں تومعاف نہيں ) صحیح مسلم حدیث نمبر ( 127 ) ۔
جوبھی کوئ معصیت وگناہ کا مرتکب ہواوراللہ تعالی نے اس کے گناہ پرپردہ ڈالا تواس کے لیے یہ جائزنہیں کہ وہ اس معصیت اورگناہ کا پرچارکرتا پھرے اورلوگوں کو بتاۓ کہ میں نے ایسا کیا تھا ۔
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے :"میری ساری امت کودرگزر کردیا گیا ہے مگرگناہ کا اعلان کرنے والوں کونہیں – صحیح مسلم حدیث نمبر( 2990 ) ۔
اورجب انسان کسی گناہ کا ارتکاب کرنے کے بعدنادم ہوتا ہوا اس سےتوبہ کرتا ہے تواللہ تعالی بھی اس کی توبہ قبول فرماتے ہیں ۔
" تمہارے رب نے مہربانی کرنا اپنے ذمہ مقرر کرلیا ہے ، توجوشخص بھی تم میں سے جہالت کی بنا پرکوئ گناہ اورمعصیت کرلے اوراس کے بعد توبہ کرتا ہوۓ اصلاح کرلے تویقینا اللہ تعالی بڑی مغفرت والا اوربڑی رحمت والا ہے " الانعام ( 54 ) ۔
جیسا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رب سے حدیث قدسی بیان کرتے ہوۓ فرمایا ہے :
“بلاشبہ اللہ تعالی نے نیکیوں اور برائیوں کولکھا پھر انہیں بیان کیا ، توجوبھی کسی نیکی کرنے کا ارادہ کرتا ہے اوراس پرعمل نہیں کرتا اللہ تعالی اسے اپنے پاس ایک مکمل نیکی لکھ دیتے ہیں ، اورجو ارادہ کرنے کے بعد اس پر عمل بھی کرتا ہے اللہ تعالی اس کے لیے اپنے پاس دس نیکیوں سے سات سوبلکہ اس سے بھی زيادہ تک کے اضافہ کے ساتھ لکھتے ہیں- اورجوکوئ برائ کرنے کاارادہ کرتا اوراس پرعمل نہیں کرتا تواللہ تعالی اس کے لیے اپنے پاس ایک مکمل نیکی لکھ دیتے ہیں ، اوراگروہ ارادہ کرنے کے بعد اس پرعمل بھی کرلیتا ہے تواللہ تعالی اسے صرف ایک ہی برائ لکھتے ہیں"[137]
قُلْ صَدَقَ اللَّهُ ۗ فَاتَّبِعُوا مِلَّةَ إِبْرَاهِيمَ حَنِيفًا وَمَا كَانَ مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٩٥﴾
کہہ دیجئے کہ اللہ سچّا ہے تم سب ابراھیم حنیف کے ملّت[139] کی پیروی کرو ، جو مُشرک نہ تھے (3:95)[140]
دو ملت ، اقوام ہیں ، ملت ابراهیم (توحید پرست ) اور مشرک ، کافر -
ملت ابراہیم سے مراد دین کی اصولی باتیں ہیں جو ہر نبی پر نازل کی جاتی رہیں۔ مثلاً صرف ایک اللہ کی عبادت کرنا، اسے وحدہ لاشریک سمجھنا اور اس کے سوا کسی دوسری قوت کے سامنے سر تسلیم خم نہ کرنا۔ اللہ کو ہی حرام و حلال قرار دینے کا مختار سمجھنا، اخروی سزاوجزا کے قانون پر ایسے ہی اعتقاد رکھنا، جیسے کتاب اللہ میں اس کی وضاحت ہے وغیرہ۔ رہے شرعی مسائل یا شریعت تو وہ ہر دور کے تقاضوں کے مطابق مختلف رہے ہیں۔ کھانے پینے کی چیزوں کی حلت و حرمت بھی ایسے ہی مسائل سے ہے اور ان میں تبدیلی ہوتی رہی ہے۔[141]
اللہ تعالیٰ نے توحید اور دفع شبہات کے سلسلے میں جو کچھ بیان فرمایا ہے وہ سب حقیقت اور صداقت پر مبنی ہے لہذا تم توحید پر قائم ہوجاؤ اور ابراہیم (علیہ السلام) کی ملت کا اتباع کرو جو باطل دینوں سے یکسو اور شرک سے بیزار تھے اور ملت ابراہیمی سے مراد اسلام ہے۔ حنیفا مائلا عن الباطل وھی ملۃ الاسلام (جامع البیان ص 56) حق بات کو قبول کرلو اور ملت ابراہیمی کا پورا پورا اتباع کرو۔ شرک کو چھوڑ دو اور توحید کو قبول کرلو۔
لَکُمْ دِیْنُکُمْ وَلِیَ دِیْنِ (تمھارے لیے تمھارا دین ہے اور میرے لیے میرا دین۔ الکافرون 109:6)
شرک سے متعلق کسی قسم کی لچک اور رواداری کی کوئی گنجائش نہیں :۔ یہ ہے وہ دوٹوک فیصلہ جو صرف مکہ کے کافروں کو نہیں، دنیا بھر کے کافروں کو بھی نہیں بلکہ مسلمانوں کو بھی واضح الفاظ میں بتایا گیا کہ مشرکوں کو ان کے معبود مبارک رہیں۔ مگر مسلمان اسے کسی قیمت پر گوارا نہیں کرسکتے۔ شرک کے معاملہ میں اسلام نے کسی قسم کی لچک اور روا داری برداشت نہیں کی۔ خواہ یہ مشرک کافر ہوں یا اپنے آپ کو مسلمان ہی کہلاتے ہوں۔ کیونکہ اللہ پر ایمان لانے کے باوجود لوگوں کی اکثریت مشرک ہی ہوتی ہے جیسا کہ سورت یوسف کی آیت نمبر 106 میں فرمایا : ( وَمَا يُؤْمِنُ اَكْثَرُهُمْ باللّٰهِ اِلَّا وَهُمْ مُّشْرِكُوْنَ) ( 12:106)[142]
لیکن مشرکوں اور کافروں سے عام سماجی ، کاروباری تعلقات قائم کرینے کی ممانعت نہیں جیسا کہ شدت پسند ، دہشت گرد پراپیگنڈہ کرتے ہیں, یہ آیات مسلمان اور غیر مسلم کے تعلقات کا آیین (Constitution)[143] ہیں-
لاینہٰکم اللّٰہ عن الذین لم یقاتلوکم فی الدین، ولم یخرجوکم من دیارکم․ أن تبروہم وتقسطوا الیہم․ (الممتحنة: ۸)
اللہ تم کو منع نہیں کرتا ہے ان لوگوں سے جو لڑے نہیں تم سے دین پر اور نکالا نہیں تم کو تمہارے گھروں سے کہ ان سے کرو بھلائی اور انصاف کا سلوک (60:8,9)
"وہ تمہیں جس بات سے روکتا ہے وہ تو یہ ہے کہ تم اُن لوگوں سے دوستی کرو جنہوں نے تم سے دین کے معاملہ میں جنگ کی ہے اور تمہیں تمہارے گھروں سے نکالا ہے اور تمہارے اخراج میں ایک دوسرے کی مدد کی ہے اُن سے جو لوگ دوستی کریں وہی ظالم ہیں"(60:9)[144], [145]
رسول اللہ ﷺ جب فوت ہوے تو آپ کی زرہ یہودی کے پاس گروی پڑی تھی-(البخاری 2916,2068,2096, 2200, 4467)[146]
سورۃ الشوریٰ (آیت:۱۳) میں فرمایا:
.شَرَعَ لَکُمَ مِّنَ الدِّیْنِ مَا وَصّٰی بِہٖ نُوْحًا وَّالَّذِیْٓ اَوْحَیْنَا اِلَیْکَ وَمَا وَصَّیْنَا بِہٖٓ اِبْرٰھِیْمَ وَمُوْسٰی وَعِیْسٰٓی اَنْ اَقِیْمُوْا الدِّیْنَ وَلاَ تَتَفَرَّقُوْا فِیْہِ کَبُرَ عَلَی الْمُشْرِکِیْنَ مَا تَدْعُوْھُمْ اِلَیْہِ اَللّٰہُ یَجْتَبِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَیَھْدِیْٓ اِلَیْہِ مَنْ یُّنِیْبُ.
’’اس نے تمھارے لیے دین کا وہی راستہ مقرر کیا جس (کے اختیار کرنے کا) نوح کو حکم دیا تھا اور جس کی (اے نبی!) ہم نے تمھاری طرف وحی بھیجی ہے اور جس کا ابراہیم اور موسیٰ اور عیسیٰ کو حکم دیا تھا (وہ یہ) کہ دین کو قائم رکھنا اور اس میں پھوٹ نہ ڈالنا،جس چیز کی طرف تم مشرکوں کو بلاتے ہو وہ ان کو دشوار گزرتی ہے،اللہ جس کو چاہتا ہے اپنی بارگاہ کا برگزیدہ کر لیتا ہے اور جو اس کی طرف رجوع کرے،اسے اپنی طرف سے راستہ دکھا دیتا ہے۔‘‘
سورۃ الشوریٰ (آیت:۴۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِسْتَجِیْبُوْا لِرَبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لاَّ مَرَدَّ لَہٗ مِنَ اللّٰہِ مَا لَکُمْ مِّنْ مَّلْجَاٍِ یَّوْمَئِذٍ وَّمَا لَکُمْ مِّنْ نَّکِیْرٍ.
’’(ان سے کہہ دو کہ) قبل اس کے کہ وہ دن جو ٹلے گا نہیں،اللہ کی طرف سے آموجود ہو،اپنے پروردگار کا حکم قبول کرو،اس دن تمھارے لیے کوئی جائے پناہ ہوگی نہ تم سے گناہوں کا انکار ہی بن پڑے گا۔‘‘
میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّا قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰـکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ وَاِنْ تُطِیْعُوا اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ لاَ یَلِتْکُمْ مِّنْ اَعْمَالِکُمْ شَیْئًا اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
’’دیہاتی کہتے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے،کہہ دو کہ تم ایمان نہیں لائے (بلکہ یوں ) کہو کہ ہم اسلام لائے ہیں اور ایمان تو ہنوز تمھارے دلوں میں داخل ہی نہیں ہوا اور اگر تم اللہ اور اس کے رسول کی فرماں برداری کرو گے تو اللہ تمھارے اعمال میں سے کچھ کم نہیں کرے گا،بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات 49/14)
امام ابن کثیر رحمہ اللہ کے نزدیک ان سے وہ اعراب (بادیہ نشین) مراد ہیں،جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور ایمان ابھی ان کے اندر پوری طرح راسخ نہیں ہوا تھا،لیکن دعویٰ انھوں نے اپنی اصل حیثیت سے بڑھ کر ایمان کا کیا تھا۔جس پر انھیں یہ ادب سکھایا گیا کہ پہلے مرتبے پر ہی ایمان کا دعویٰ صحیح نہیں،آہستہ آہستہ ترقی کے بعد تم ایمان کے مرتبے پر پہنچو گے۔ (مزید تفسیر 49/14[147])
سورۃ الحجرات (آیت:۱۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَجٰھَدُوْا بِاَمْوَالِھِمْ وَاَنْفُسِھِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ.
’’مومن تو وہ ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے،پھر شک میں نہ پڑے اور اللہ کی راہ میں مال اور جان سے لڑے،یہی لوگ (ایمان کے) سچے ہیں۔‘‘
1۔ سورۃ الدہر (آیت:۵ تا ۱۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّ الْاَبْرَارَ یَشْرَبُوْنَ مِنْ کَاْسٍ کَانَ مِزَاجُھَا کَافُوْرًا . عَیْنًا یَّشْرَبُ بِھَا عِبَادُ اللّٰہِ یُفَجِّرُوْنَھَا تَفْجِیْرًا . یُوْفُوْنَ بِالنَّذْرِ وَیَخَافُوْنَ یَوْمًا کَانَ شَرُّہٗ مُسْتَطِیْرًا . وَیُطْعِمُوْنَ الطَّعَامَ عَلٰی حُبِّہٖ مِسْکِیْنًا وَّیَتِیْمًا وَّاَسِیْرًا . اِنَّمَا نُطْعِمُکُمْ لِوَجْہِ اللّٰہِ لاَ نُرِیْدُ مِنْکُمْ جَزَآئً وَّلاَ شُکُوْرًا . اِنَّا نَخَافُ مِنْ رَّبِّنَا یَوْمًا عَبُوْسًا قَمْطَرِیْرًا.
’’جو ابرار و نیکوکار ہیں،وہ ایسی شراب نوشِ جان کریں گے،جس میں کافور کی آمیزش ہو گی۔یہ ایک چشمہ ہے جس میں سے اللہ کے بندے پئیں گے اور اس میں سے (چھوٹی چھوٹی) نہریں نکال لیں گے۔یہ لوگ نذریں پوری کرتے ہیں اور اس دن سے جس کی سختی پھیل رہی ہو گی،خوف رکھتے ہیں۔اور باوجودیکہ ان کو خود طعام کی خواہش (اور حاجت) ہے،فقیروں اور یتیموں اور قیدیوں کو کھلاتے ہیں۔(اور کہتے ہیں ) کہ ہم تم کو خالص اللہ کے لیے کھلاتے ہیں،تم سے عوض کے خواستگار ہیں نہ شکر گزاری کے (طلبگار)۔ہم کو اپنے پروردگار سے اس دن کا ڈر لگتا ہے جو (چہروں کو اداس و ) کریہ المنظر اور (دلوں کو) سخت (مضطرب کر دینے والا) ہے۔‘‘
ابرار کے اوصاف کے علاوہ ان کے انعامات سورۃ المطفّفین (آیت:۲۲ تا ۲۶) میں بھی یوں آئے ہیں:
.اِنَّ الْاَبْرَارَ لَفِیْ نَعِیْمٍ . عَلَی الْاَرَآئِکِ یَنْظُرُوْنَ . تَعْرِفُ فِیْ وُجُوْھِھِمْ نَضْرَۃَ النَّعِیْمِ . یُسْقَوْنَ مِنْ رَّحِیْقٍ مَّخْتُوْمٍ خِتٰمُہٗ مِسْکٌ وَفِی ذٰلِکَ فَلْیَتَنَافَسِ الْمُتَنَافِسُوْنَ.
’’بیشک نیک لوگ چین میں ہوں گے۔تختوں پر بیٹھے ہوئے نظارے کریں گے۔تم ان کے چہروں ہی سے راحت کی تازگی معلوم کر لو گے۔ان کو خالص شراب سر بہ مُہر پلائی جائے گی۔جس کی مہر مشک کی ہو گی تو (نعمتوں کے) شائقین کو چاہیے کہ اسی سے رغبت کریں۔‘‘
سورۃ الحدید (آیت:۲۱) میں فرمایا:
.سَابِقُوْٓا اِلٰی مَغْفِرَۃٍ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَجَنَّۃٍ عَرْضُھَا کَعَرْضِ السَّمَآئِ وَالْاَرْضِ اُعِدَّتْ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَرُسُلِہٖ ذٰلِکَ فَضْلُ اللّٰہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآئُ وَاللّٰہُ ذُو الْفَضْلِ الْعَظِیْمِ.
’’(بندو!) اپنے پروردگار کی بخشش کی طرف اور جنت ( کی طرف) لپکو جس کا عرض آسمان اور زمین کے عرض کا سا ہے اور جو ان لوگوں کے لیے تیار کی گئی ہے جو اللہ پر اور اس کے پیغمبر پر ایمان لائے ہیں،یہ اللہ کا فضل ہے،وہ جسے چاہے عطا فرمائے اور اللہ بڑے فضل کا مالک ہے۔‘‘
وہ جس پر چاہتا ہے،اپنا فضل فرماتا ہے،جس کو وہ کچھ دے،کوئی روک نہیں سکتا اور جس سے روک لے،اسے کوئی دے نہیں سکتا،تمام خیر اسی کے ہاتھ میں ہے،وہی کریمِ مطلق اور جوادِ حقیقی ہے،جس کے ہاں بخل کا تصوّر تک نہیں۔
سورۃ الفاطر (آیت:۱۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْعِزَّۃَ فَلِلّٰہِ الْعِزَّۃُ جَمِیْعًا اِلَیْہِ یَصْعَدُ الْکَلِمُ الطَّیِّبُ وَ الْعَمَلُ الصَّالِحُ یَرْفَعُہٗ وَ الَّذِیْنَ یَمْکُرُوْنَ السَّیِّاٰتِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌ وَ مَکْرُ اُولٰٓئِکَ ھُوَ یَبُوْرُ.
"جو شخص عزت حاصل کرنا چاہتا ہو ، تو تمام تر عزت اللہ کے قبضے میں ہے ۔ پاکیزہ کلمہ اسی کی طرف چڑھتا ہے اور نیک عمل اس کو اوپر اٹھاتا ہے ۔ اور جو لوگ بری بری مکاریاں کر رہے ہیں ، ان کو سخت عذاب ہوگا ، اور ان کی مکاری ہی ہے جو ملیا میٹ ہوجائے گی ۔
سورۃ الزمر (آیت:۷) میں فرمایا:
.اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلاَ یَرْضٰی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ اِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ.
’’اگر ناشکری کرو گے تو اللہ تم سے بے پروا ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا اور اگر شکر کرو گے تو وہ اس کو تمھارے لیے پسند کرے گا اور کوئی اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،پھر تم کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے پھر جو کچھ تم کرتے رہے،وہ تم کو بتائے گا وہ تو دلوں کی پوشیدہ باتوں تک سے آگاہ ہے۔‘‘
کفر اگرچہ انسان اللہ کی مشیت ہی سے کرتا ہے،کیوں کہ اس کی مشیت کے بغیر تو کوئی کام ہو ہی نہیں ہوسکتا،تاہم کفر کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا،اس کی رضا حاصل کرنے کا راستہ تو شکر ہی کا راستہ ہے نہ کہ کفر کا۔یعنی اس کی مشیت اور چیزہے اور اس کی رضا اور چیز ہے۔
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَاِنْ طَآئِفَتٰنِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوْا فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا فَاِنْم بَغَتْ اِحْدٰھُمَا عَلَی الْاُخْرٰی فَقَاتِلُوا الَّتِیْ تَبْغِیْ حَتّٰی تَفِیْٓئَ اِلٰٓی اَمْرِ اللّٰہِ فَاِنْ فَآئَتْ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَھُمَا بِالْعَدْلِ وَاَقْسِطُوا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ . اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ اِخْوَۃٌ فَاَصْلِحُوْا بَیْنَ اَخَوَیْکُمْ وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.
’’اور اگر مومنوں میں سے کوئی دو فریق آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کرا دو اور اگر ایک فریق دوسرے پر زیادہ کرے توزیادتی کرنے والے سے لڑو،یہاں تک کہ وہ اللہ کے حکم کی طرف رجوع کرے،پس جب وہ رجوع کرے تو دونوں فریق میں مساوات کے ساتھ صلح کرا دو اور انصاف سے کام لوکہ اللہ انصاف کرنے والوں کو پسند کرتا ہے۔مومن تو آپس میں بھائی بھائی ہیں،تو اپنے دو بھائیوں میں صلح کرا دیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو،تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔‘‘ (سورۃ الحجرات 49/9،10 )[148]
ایمان اور عمل صالح لازم و ملزوم
اسلام کی بنیاد اور قرآن و سنت رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا مرکز "ایمان اور عمل صالح"[149] ہیں- یہ الفاظ قرآن میں 158مرتبہ آیے ہیں[150]- لیکن گنہگاروں کے لئے دوزخ سے بچنے کا راستہ بھی ہے کیونک الله تعالی گناہوں کو بخشنے والا ، توبہ قبول کرنے والا ، سخت عذاب دینے والا اور بڑے فضل و کرم والا ہے. توبہ کے بعد بھی مومن کو عمل صالح کرنا ہیں-
ایمان کے چھ بنیادی عقائد[151] اور پانچ ارکان ہیں-
اسلام میں چھ بنیادی عقائد ہیں جنہیں "ایمان کے چھ ستون" کہا جاتا ہے۔ یہ عقائد ایمان میں مرکزی حیثیت رکھتے ہیں اور مسلمان کے نظریہ کی بنیاد بناتے ہیں۔ ایمان کے "چھ ارکان" اور اسلام کے "پانچ ستون" کی بنیاد قرآن کی محکم آیت (آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ) پر ہے- آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ وہ آیات ہیں جن میں اسلام کے احکام صاف واضح طور پربیان کیے گیے ہیں، جن کا صرف ایک ہی معنی نکتلا ہے کسی تاویل کی ضرورت نہیں- آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ کو قرآن نے ’’ کتاب کی بنیاد‘‘ (أُمُّ الْكِتَابِ) قرار دیا ہے (سورہ آل عمران 3:7). احکام، ذو معنی الفاظ احادیث سے نہیں، قرآن میں واضح ترین الفاظ میں دیے جاتے ہیں، رسول اللہ ﷺ ان کی تفصیل بتلاتے ہیں تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہ جاینے- احکام پرعمل کرنے یا نہ کرنے پر جنت و دوذخ کا فیصلہ ہونا ہے یہ دو ٹوک ہوتے ہیں- جو کوئی قرآن کو نظر انداز کرے گا وہ گمراہی سے بچ نہیں سکتا، تمام فرقے، تمام بدعة ، ضلالہ ، فتنہ کی جڑ قرآن کی آیات محکمات کو نظر انداز کرکہ اپنی تاویلات کرنا ہے-
اسلام کے بنیادی ارکان اسلام کو قرآن کے علاوہ حضرت جبرئیل الہ السلام نے الله تعالی کے حکم سے انسانی صورت میں رسول اللہ ﷺ کے ساتھ سوال و جواب اور مکالمہ کی صورت میں عوامی طور پر لوگوں کی موجودگی میں بیان کیا تاکہ مسلمانوں کو دین کی تعلیم میں کوئی شک و شبہ باقی نہ رہے بعد میں کسی شیطانی مداخلت سے ان میں کمی بیشی نہ کی جاسکے- اسے حدیث جبرائیل کہا جاتا ہے- اتنے واضح طور پراراکین ایمان کے بیان کی مثال مذھب کی انسانی تاریخ میں نہیں ملتی- اگر کوئی فرد یا افراد اس کے باوجود ان بنیادی اراکین میں ردو بدل کرے تو وہ یہ ثابت کرنے کی کوشش کر رہا ہے کہ (خدا نخواسته) الله تعالی ، حضرت جبرائیل علیہ السلام اور رسول اللہ ﷺ اسلام کا پیغام پہنچانے میں ناکام ہو گیے، رسول اللہ ﷺ حق رسالت ادا نہ کر سکے، بھول گیے، غلطی ہو گئی، ایمان کے ارکان نامکمل رہ گۓ تو اب وہ فرد یا افراد قرآن کی غیرمحکم آیات اوراحادیث کی تاویلوں سے اس کمی کو پورا کر رہے ہیں، اسلام کو مکمل کر رہے ہیں (استغفر اللہ.استغفر اللہ.، استغفر اللہ) الله تعالی نے ان لوگوں کو پہلے ہی بے نقاب کر دیا:"منحرف دل والے اپنی جھوٹی تاویلات کے ذریعے شکوک پھیلانے کے لیے مبہم آیات کی پیروی کرتے ہیں (مفھوم 3:7). یہ لوگ قرآن کی نفی کر رہے ہیں، قرآن تو کہتا ہے کہ؛ دین اسلام مکمل ہو گیا (المائدہ 5:3) اور یہ لوگ اپنی تاویلوں سے قرآن اور جبرئیل سے تصدیق شدہ ایمان کےاراکان میں اضافہ کرتے ہیں. اللہ کا فرمان ہے کہ : "جو شخص الله کی ہدایت یعنی قرآن کی پیروی کرے گا وہ نہ گمراہ ہوگا اور نہ تکلیف میں پڑے گا اور جو اللہ کی نصیحت سے منہ پھیرے گا اس کی زندگی تنگ ہوجائے گی اور قیامت کواللہ اسے اندھا کرکے اٹھائیں گے"(مفھوم قرآن, طہ 123,124). حضرت علیؓ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے [152] …‘‘(ترمذی 2906)
1.توحید (اللہ کی وحدانیت ) (قرآن ، سورہ اخلاص: 112, [153]4:136)
2.ملائکہ پر ایمان (قرآن 4:136, 2:285)
3.اللہ کی کتب پر ایمان (کتاب اللہ) (قرآن 2:285)، (قرآن 2:136, 2:4, 5:44)
4.انبیاء (رسولوں) پر ایمان: (قرآن , 4:136, 2:285)
5.قیامت کے دن پر ایمان (قرآن2:4 ,4:136, 73:11,73:12 )
6.تقدیر الہی (قدر) پر ایمان: (قرآن 54:49)
وَمَنْ يَّكْفُرْ باللّٰهِ (4:136) یعنی اگر ان میں سے کسی ایک چیز کا بھی انکار کیا تو گویا تمام چیزوں کا انکار کردیا-[154]
1.توحید (اللہ کی وحدانیت ) (قرآن ، سورہ اخلاص: 112)
2. صلاۃ (نماز) (قرآن 20:14)
3.زکوٰۃ - (قرآن 2:110)
4.صوم (روزہ) - (قرآن 2:183)
5. حج (قرآن؛ 3:97)
تمام مسلمان اپنے عقائد ایمان کا تجزیہ کریں اور اگر کوئی غلطی ہے تو اسے دور کریں، آپ الله تعالی کے سامنے اکیلے خود جواب دہ ہوں گئے ، کوئی مددگار نہ ہو گا-
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ 43)
” میں تمہیں اللہ سے ڈرنے ، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے [ابن ماجہ, 42 , ابی داود 4607 ، ترمزی 2676 وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)][155]
ان کی مزید تفصیل: حدیث ِجبرائیل کو اُمّ السنۃ
ان عقائد کا ماخذ قرآن سے ہے[156]
سورۃ التوبہ (9:112)[157] میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَلتَّآئِبُوْنَ الْعٰبِدُوْنَ الْحٰمِدُوْنَ السَّآئِحُوْنَ الرّٰکِعُوْنَ السّٰجِدُوْنَ الْاٰمِرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ النَّاھُوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ الْحٰفِظُوْنَ لِحُدُوْدِ اللّٰہِ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ.
’’توبہ کرنے والے،عبادت کرنے والے،حمد و ثنا کرنے والے،روزہ رکھنے والے،رکوع کرنے والے،سجدہ کرنے والے،نیک کاموں کا حکم کرنے والے اور بُری باتوں سے منع کرنے والے،اللہ کی حدوں کی حفاظت کرنے والے (یہی مومن لوگ ہیں ) اور اے پیغمبر! مومنوں کو (جنت کی) خوشخبری سنادو۔‘‘
۔۔فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَ تَتَّقُوْا فَلَکُمْ اَجْرٌ عَظِیْمٌ.[آل عمران (آیت:۱۷۹)]
’’تم اللہ پر اور اُس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور اگر ایمان لاؤ گے اور پرہیزگاری کرو گے تو تمھیں اجرِ عظیم ملے گا۔‘‘
یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْ نَزَّلَ عَلٰی رَسُوْلِہٖ وَ الْکِتٰبِ الَّذِیْٓ اَنْزَلَ مِنْ قَبْلُ وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًام بَعِیْدًا [سورۃ النساء (آیت:۱۳۶)ٌ
’’مومنو! اللہ پر اور اُس کے رسول پر اور جو کتاب اُس نے اپنے پیغمبر (آخر الزماں ) پر نازل کی ہے اور جو کتابیں اس سے پہلے نازل کی تھیں،سب پر ایمان لاؤ اور جو شخص اللہ اور اُس کے فرشتوں اور اُس کی کتابوں اور اُس کے پیغمبروں اور روزِ قیامت سے انکار کرے،وہ راستے سے بھٹک کر دُور جا پڑا۔‘‘
۔سورۃ التغابن (آیت:۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَالنُّوْرِ الَّذِیْٓ اَنزَلْنَا وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ.
’’اللہ پر اور اس کے رسول پر اور نور (قرآن) پر جو ہم نے نازل فرمایا ہے،ایمان لاؤ اور اللہ تمھارے سب اعمال سے خبردار ہے۔‘‘
سورۃ البقرہ (آیت:۱۳۶) میں ارشادِ ربانی ہے:
.قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِاللّٰہِ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ مَآ اُنْزِلَ اِلٰٓی اِبْرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ وَ اِسْحٰقَ وَ یَعْقُوْبَ وَ الْاَسْبَاطِ وَ مَآ اُوْتِیَ مُوْسٰی وَ عِیْسٰی وَ مَآ اُوْتِیَ النَّبِیُّوْنَ مِنْ رَّبِّھِمْ لَا نُفَرِّقُ بَیْنَ اَحَدٍ مِّنْھُمْ وَ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ.
’’(مسلمانو!) کہو کہ ہم اللہ پر ایمان لائے اور جو (کتاب) ہم پر اُتری اس پر اور جو (صحیفے) ابراہیم اور اسماعیل اور اسحاق اور یعقوب اور ان کی اولاد پر نازل ہوئے ان پر اور جو (کتابیں ) موسیٰ اور عیسیٰ کو عطا ہوئیں،اُن پر اور جو دوسرے پیغمبروں کو اُن کے پروردگار کی طرف سے ملیں،اُن پر ( ایمان لائے) ہم اُن پیغمبروں میں سے کسی میں کچھ فرق نہیں کرتے اور ہم اسی (معبودِ واحد) کے فرماں بردار ہیں۔‘‘
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے دریافت کیا گیا کہ کون سا عمل افضل ہے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’ایمان باللہ اور ایمان بالرسول سب اعمال سے افضل ہے۔‘‘[صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۶) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۸۳)]
فرمایا:اے مومنو! ایمان لاؤ:(۱)اللہ پر (۲)اس کے رسول پر (۳)کتاب پر جو اس نے نازل کی اور اس کتاب پر جو اس نے نازل کی اس سے پہلے۔
ایمان والوں سے یہ کہنا کہ ایمان لاؤ بظاہر عجیب معلوم ہوتا ہے۔ اے ایمان والو ‘ ایمان لاؤ ! چہ معنی دارد ؟ اس کا مطلب ہے کہ اقرار باللّسان والا ایمان تو تمہیں موروثی طور پر حاصل ہوچکا ہے۔ مسلمان ماں باپ کے گھر پیدا ہوگئے تو وراثت میں ایمان بھی مل گیا ‘ یا یہ کہ جب پورا قبیلہ اسلام لے آیا تو اس میں پکے مسلمانوں کے ساتھ کچھ کچے مسلمان بھی شامل ہوگئے۔ انہوں نے بھی کہا : اَشْہَدُ اَنْ لاَّ اِلٰہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاَشْہَدُ اَنَّ مُحَمَّدًا رَّسُوْلُ اللّٰہِ ۔ اس طرح ایمان ایک درجے (اقرار با للّسان) میں تو حاصل ہوگیا۔ یہ ایمان کا قانونی درجہ ہے۔ پیچھے اسی سورة (آیت ٩٤) میں ہم پڑھ آئے ہیں کہ اگر کوئی شخص راستے میں ملے اور وہ اپنا اسلام ظاہر کرے تو تم اس کو یہ نہیں کہہ سکتے ہو کہ تم مؤمن نہیں ہو ‘ کیونکہ جس نے زبان سے کلمۂ شہادت ادا کرلیا تو قانونی طور پر وہ مؤمن ہے۔ لیکن کیا حقیقی ایمان یہی ہے ؟ نہیں ‘ بلکہ حقیقی ایمان ہے یقین قلبی۔ اس لیے فرمایا : اے ایمان والو ! ایمان لاؤ اللہ پر۔۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لیے ہم اس آیت کا ترجمہ اس طرح کریں گے کہ اے اہل ایمان ! ایمان لاؤ اللہ پر جیسا کہ ایمان لانے کا حق ہے ‘ مانو رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو جیسا کہ ماننے کا حق ہے۔۔ اور یہ حق اسی وقت ادا ہوگا جب اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر ایمان دل میں گھر کر گیا ہو۔ جیسے صحابہ کرام (رض) کے بارے میں سورة الحجرات (آیت ٧) میں فرمایا گیا : (وَلٰکِنَّ اللّٰہَ حَبَّبَ اِلَیْکُمُ الْاِیْمَانَ وَزَیَّنَہٗ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ) اللہ نے ایمان کو تمہارے نزدیک محبوب بنا دیا ہے اور اسے تمہارے دلوں میں مزینّ کردیا ہے۔ آگے چل کر اسی سورة (آیت ١٤) میں کچھ لوگوں کے بارے میں یوں فرمایا : (قَالَتِ الْاَعْرَابُ اٰمَنَّاط قُلْ لَّمْ تُؤْمِنُوْا وَلٰکِنْ قُوْلُوْٓا اَسْلَمْنَا وَلَمَّا یَدْخُلِ الْاِیْمَانُ فِیْ قُلُوْبِکُمْ ط) یہ بدّ و لوگ دعویٰ کر رہے ہیں کہ ہم ایمان لے آئے ہیں۔ اے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ان سے کہہ دیجیے کہ تم ہرگز ایمان نہیں لائے ہو ‘ ہاں یوں کہہ سکتے ہو کہ ہم مسلمان ہوگئے ہیں ‘ لیکن ابھی تک ایمان تمہارے دلوں میں داخل نہیں ہوا۔ چناچہ اصل ایمان وہ ہے جو دل میں داخل ہوجائے۔ یہ درجہ تصدیق بالقلب کا ہے۔ یاد رہے کہ آیت زیر مطالعہ میں دراصل روئے سخن منافقین کی طرف ہے۔ وہ زبانی ایمان تو لائے تھے لیکن وہ ایمان اصل ایمان نہیں تھا ‘ اس میں دل کی تصدیق شامل نہیں تھی۔ ( عربی زبان سے واقفیت رکھنے والے حضرات یہ نکتہ بھی نوٹ کریں کہ قرآن کے لیے اس آیت میں لفظ نَزَّلَاور تورات کے لیے اَنْزَلَ استعمال ہوا ہے ۔ ) (وَمَنْ یَّکْفُرْ باللّٰہِ وَمَلٰٓءِکَتِہٖ وَکُتُبِہٖ وَرُسُلِہٖ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلاً م بَعِیْدًا ) یہ تمام آیات بہت اہم ہیں اور مفہوم کے لحاظ سے ان میں بڑی گہرائی ہے-
اٰمَنَ الرَّسُوۡلُ بِمَاۤ اُنۡزِلَ اِلَیۡہِ مِنۡ رَّبِّہٖ وَ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ ؕ کُلٌّ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ مَلٰٓئِکَتِہٖ وَ کُتُبِہٖ وَ رُسُلِہٖ ۟ لَا نُفَرِّقُ بَیۡنَ اَحَدٍ مِّنۡ رُّسُلِہٖ ۟ وَ قَالُوۡا سَمِعۡنَا وَ اَطَعۡنَا ٭۫ غُفۡرَانَکَ رَبَّنَا وَ اِلَیۡکَ الۡمَصِیۡرُ ﴿۲۸۵﴾
"رسول ایمان لایا اس چیز پر جو اس کی طرف اللہ تعالٰی کی جانب سے اتری اور مومن بھی ایمان لائے یہ سب اللہ تعالٰی اور اس کے فرشتوں پر اور اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر ایمان لائے ، اس کے رسولوں میں سے کسی میں ہم تفریق نہیں کرتے انہوں نے کہہ دیا کہ ہم نے سنا اور اطاعت کی ، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے" (2:285)[158]
یہ سب ایمان بالغیب کے اجزاء ہیں۔ جن پر ایمان لانا ضروری ہے۔ اس سورة کی ابتداء میں اجمالاً بیان ہوئے تھے یہاں قدرے تفصیل ہے۔ ایمان بالغیب کے کل چھ اجزاء ہیں۔ جن میں چار یہاں مذکور ہیں۔ یعنی اللہ پر، اس کے فرشتوں پر، اس کی کتابوں پر اور اس کے رسولوں پر اور جو یہاں مذکور نہیں ہوئے بلکہ دوسرے مقامات پر مذکور ہیں وہ ہیں روز آخرت پر ایمان اور اس بات پر ایمان کہ ہر طرح کی بھلائی اور برائی اللہ ہی طرف سے ہوتی ہے۔ اور یہ سب اشیاء ایسی ہیں جن کا ادراک حواس خمسہ سے ناممکن ہے اور وہ انسان کی نظروں سے اوجھل رہتی ہیں۔ ان میں سے کتابیں اور رسول انسانوں کو نظر تو آتے ہیں۔ لیکن اس یقین کا انسان کے پاس کوئی ذریعہ نہیں کہ فلاں کتاب فی الواقعہ اللہ کی طرف نازل شدہ ہے اور فلاں رسول واقعی اللہ کا رسول ہے۔ یہ یقین اسی صورت میں حاصل ہوسکتا ہے جب پہلے اللہ پر اور اس کے فرشتوں پر ایمان لایا جائے۔ اللہ کی طرف سے جب فرشتہ اللہ کا پیغام لے کر رسول پر نازل ہوتا ہے۔ تو سب سے پہلے رسول اپنی رسالت پر اور اللہ کی طرف سے ملے ہوئے احکام پر ایمان لاتا اور ان احکام کے سامنے سر تسلیم خم کرتا ہے اور عمل پیرا ہوتا ہے۔ اسی حقیقت کو دوسرے مقامات پر ( وَاَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِيْنَ ١٦٣۔ ) 6 ۔ الانعام :163) اور ( وَاَنَا اَوَّلُ الْمُؤْمِنِيْنَ ١٤٣۔ ) 7 ۔ الاعراف :143) کے الفاظ سے بیان کیا گیا ہے پھر اس کے بعد رسول دوسرے لوگوں کو اپنی رسالت پر ایمان لانے اور منزل من اللہ احکام کو بجا لانے کی دعوت دیتا ہے۔ پھر جو لوگ بھی رسول پر ایمان لاتے ہیں۔ ان کے لئے اپنے سے پہلے کے رسولوں اور پہلی نازل شدہ کتابوں پر ایمان لانا ضروری ہوتا ہے۔ اور یہ ایمان اجمالی ہوتا ہے تفصیلی نہیں ہوتا۔ کیونکہ نیا رسول آتا ہی اس وقت ہے جب سابقہ رسول کی کتاب میں تحریف و تاویل کرکے اس کا حلیہ بگاڑ دیا جاتا ہے اور اس کی تعلیم کو مسخ کردیا جاتا یا کچھ کا کچھ بنادیا جاتا ہے۔ گویا اب محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر تفصیلی ایمان لانا ضروری ہے۔ اور آپ پر تفصیلی ایمان کا مطلب آپ پر منزل من اللہ اللشریعت کے ایک ایک جزء کو واجب الاتباع سمجھنا اور اس کے مطابق عمل پیرا ہونا اور اپنی زندگی کو اس سانچہ میں ڈھالنا ہے اور سابقہ کتابوں پر اجمالی ایمان کا مطلب ہے کہ ان کتابوں میں جو باتیں شریعت اسلامیہ کے مطابق ہیں انہیں منزل من اللہ سمجھا جائے۔ اور جو مخالف ہیں انہیں لوگوں کا اضافہ یا تحریف سمجھا جائے اور جو باتیں نہ مطابق ہوں اور نہ مخالف، ان کی نہ تصدیق کی جائے اور نہ تکذیب۔ [٤١٥] رسولوں میں فرق کرنے کی دو صورتیں ہیں ایک یہ کہ کسی کو تو اللہ کا رسول مانا جائے اور کسی کو نہ مانا جائے۔ جیسے یہود نہ عیسیٰ (علیہ السلام) کو رسول مانتے تھے اور نہ نبی اکرم کو اور عیسائی محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اللہ کا نبی نہیں سمجھتے تھے۔ جبکہ مسلمان ان سب کو اللہ کے نبی اور رسول مانتے ہیں۔ ان کے نبی یا رسول ہونے میں کوئی فرق نہیں کرتے۔ اور دوسری صورت یہ ہے کہ بلحاظ نبوت سب انبیاء کا درجہ برابر اور وہ سب ایک سطح پر ہوتے ہیں اور باقی تمام مخلوقات سے افضل ہوتے ہیں۔ ایسی ہی صورت کو ختم کرنے کے لئے آپ نے فرمایا : کہ کسی کو ایسا کہنا درست نہیں کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اور ایک دوسری روایت میں ہے کہ : جو شخص یوں کہے کہ میں یونس بن متی سے بہتر ہوں اس نے جھوٹ بولا (بخاری۔ کتاب التفسیر، تفسیر آیت (اِنَّآ اَوْحَيْنَآ اِلَيْكَ كَمَآ اَوْحَيْنَآ اِلٰي نُوْحٍ وَّالنَّـبِيّٖنَ مِنْۢ بَعْدِهٖ ١٦٣ۚ ) 4 ۔ النسآء :163) پھر جس طرح تمام انسان، انسان ہونے کے لحاظ سے ایک سطح پر ہوتے ہیں لیکن ان میں کچھ اچھے اور کچھ برے، کوئی عادل، کوئی ظالم، کوئی مشرک، کوئی موحد غرضیکہ ان کی بیشمار اقسام بن جاتی ہیں۔ اسی طرح تمام مسلمان، مسلمان ہونے کے لحاظ سے یا بالفاظ دیگر قانونی لحاظ سے تو ایک سطح پر ہوتے ہیں لیکن ان کے اعمال صالحہ اور غیر صالحہ کی بنا پر ان کی کئی اقسام بن جاتی ہیں، بعینہ اسی طرح تمام انبیاء اگرچہ نبوت کے لحاظ سے ایک سطح پر ہیں اور ان میں کوئی فرق نہیں۔ مگر فضائل کے لحاظ سے ان میں بھی فرق ہوتا ہے اور یہ فرق قرآن کریم کی اس آیت ( تِلْكَ الرُّسُلُ فَضَّلْنَا بَعْضَھُمْ عَلٰي بَعْضٍ ۘ مِنْھُمْ مَّنْ كَلَّمَ اللّٰهُ وَرَفَعَ بَعْضَھُمْ دَرَجٰتٍ ۔ (البقرة :253) سے ثابت ہے، اور بیشمار احادیث صحیحہ سے یہ ثابت ہے کہ حضرت محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سب انبیاء سے افضل ہیں-
آخرت توحید و رسالت کے بعد اسلام کا تیسرا بنیادی اور اہم عقیدہ ہے۔ آخرت کے بارے میں تمام رسولوں اور انبیاءعلیھم السلام کی تعلیمات ہمیشہ سے ایک ہی رہی ہیں۔ جن کا سادہ مفہوم یہ ہے کہ یہ دنیا ایک امتحان گاہ ہے اور یہاں اللہ نے ہمیں آزمائش کے لیے بھیجا ہے کہ کون ایمان لا کر اچھے اعمال کرتا ہے اور جس طرح اللہ نے ہمیں یہاں پیدا فرمایا اسی طرح وہ ہمیں ہماری موت کے بعد قیامت کے دن دوبارہ زندگی عطا فرمائے گا اور ہمیں اللہ کے سامنے اپنے اعمال کی جوابدہی کرنا ہو گی۔ جوانبیاء علیھم السلام کی تعلیمات پر ایمان لایااور ان کی اطاعت کی اوراعمال صالحہ کیے وہ وہاں کامیاب ہو گا اور جس نے نافرمانی کی وہ ناکام۔ جو کامیاب ہوا اسے نعمتوں بھری ابدی جنت ملے گی اور جو ناکام ٹھہرا وہ جہنم میں جائے گا اور دردناک سزا بھگتے گا۔ اصل زندگی کا گھر آخرت ہی کا گھر ہے اور دنیا اس سفر میں ایک امتحانی گزرگاہ سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتی۔ اور موت خاتمے کا نہیں بلکہ ایک مرحلے سے دوسرے مرحلے میں منتقل ہونے کا نام ہے[159]،[160]
سورۃ المطففین (آیت:۱۲ تا ۱۴) میں فرمایا:
.وَمَا یُکَذِّبُ بِہٖٓ اِلَّا کُلُّ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ . اِذَا تُتْلٰی عَلَیْہِ اٰیٰتُنَا قَالَ اَسَاطِیْرُ الْاَوَّلِیْنَ . کَلَّا بَلْ رَانَ عَلٰی قُلُوْبِھِمْ مَّا کَانُوْا یَکْسِبُوْنَ.
’’اور اس کو جھٹلاتا وہی ہے،جو حد سے نکل جانے والا گناہ گار ہے۔جب اس کو ہماری آیتیں سنائی جاتی ہیں تو کہتا ہے یہ تو اگلے لوگوں کے افسانے ہیں۔دیکھو یہ جو (اعمالِ بد) کرتے ہیں،ان کا ان کے دلوں پر زنگ بیٹھ گیا ہے۔‘‘
سورۃ الحشر (آیت:۱۸ ) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓـاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَلْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ.
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور ہر شخص کو دیکھنا چاہیے کہ اس نے کل (فرداے قیامت) کے لیے کیا (سامان) بھیجا ہے اور (ہم پھر کہتے ہیں کہ) اللہ سے ڈرتے رہو،بے شک اللہ تمھارے سب اعمال سے خبردار ہے۔‘‘
اہلِ ایمان کو خطاب کرکے انھیں وعظ کیا جارہا ہے۔اللہ سے ڈرنے کا مطلب ہے،اس نے جن چیزوں کے کرنے کا حکم دیا ہے،انھیں بجالاؤ۔جن سے روکا ہے،ان سے رک جاؤ،آیت میں بطورِ تاکید دو مرتبہ یہ حکم فرمایا،کیونکہ یہ تقویٰ (اللہ کا خوف) ہی انسان کو نیکی کرنے اور برائی سے اجتناب پر آمادہ کرتا ہے۔
سورت طٰہٰ (آیت:۱۱۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ مَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا یَخٰفُ ظُلْمًا وَّ لَا ھَضْمًا.
’’اور جو نیک کام کرے گا اور مومن بھی ہو گا تو اُس کو نہ ظلم کا خوف ہوگا اور نہ نقصان کا۔‘‘
ظلم و نا انصافی یہ ہے کہ اس پر دوسروں کے گناہوں کا بوجھ بھی ڈال دیا جائے اور نقصان و حق تلفی یہ ہے کہ نیکیوں کا اجر کم دیا جائے۔یہ دونوں باتیں وہاں نہیں ہوں گی۔
وَ مَا ہٰذِہِ الۡحَیٰوۃُ الدُّنۡیَاۤ اِلَّا لَہۡوٌ وَّ لَعِبٌ ؕ وَ اِنَّ الدَّارَ الۡاٰخِرَۃَ لَہِیَ الۡحَیَوَانُ ۘ لَوۡ کَانُوۡا یَعۡلَمُوۡنَ ﴿۶۴﴾
"اور دنیا کی یہ زندگانی تو محض کھیل تماشا ہے البتہ آخرت کے گھر کی زندگی ہی حقیقی زندگی ہے کاش! یہ جانتے ہوتے"(29:64)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ دنیا میں سرے سے کوئی سنجیدگی اور حقیقت ہے ہی نہیں۔ اللہ کے فرمانبرداروں اور اسے آخرت مقابلہ میں حقیر سمجھنے والوں کے لئے اس دنیا کی۔ زندگی کا ایک ایک لمحہ نہایت قیمتی ہوتا ہے اور وہ اس زندگی سے فائدہ اٹھا کر آخرت کماتے ہیں۔ دنیا کی زندگی محض کھیل تماشا آخرت کے مقابلہ میں ہے۔ اور ان لوگوں کے لئے ہے جو دنیا کی محبت میں مستغرق رہتے اور اللہ اور آخرت کی یاد سے غافل رہتے ہیں۔ انھیں واقعی یہ دنیا ایک کھیل تماشا ہی معلوم ہوگی۔ اس کی مثال بالکل ایسی ہے جیسے کوئی بازی گر کٹھ پتلیوں کا تماشا دکھاتا ہے۔ ایک بادشاہ ہوتا ہے کچھ وزیر اور کچھ دوسرے کردار ہوتے ہیں۔ اور ڈرامہ مکمل ہونے کے بعد سب لوگوں کے سامنے تماشا دکھا کر غائب ہوجاتے ہیں۔ بالکل یہی صورت حال دنیا کے بادشاہوں اور دوسرے لوگوں کی ہوتی ہے۔ لہذا کسی شخص کو بھی دنیا کی دلفریبیوں اور رعنائیوں میں پھنس کر اللہ کی یاد سے غافل نہیں رہنا چاہئے-
اس دنیا کی زندگی میں جو کچھ خوش حالیاں اور زینتیں ہیں یہ سوائے وقتی اور فانی لہو ولعب کے اور کچھ بھی نہیں اور اصلی زندگی وہ جنت ہی کی ہے جہاں فنا نہیں۔ کاش یہ لوگ اس کو مانتے مگر ان کو نہ اس کا علم ہے اور نہ اس کا اقرار کرتے ہیں۔
جس طرح کھیل کود میں کچھ دیر تو مزہ آتا ہے، مگر وہ کوئی پائیدار چیز نہیں ہے، ذرا دیر گذرنے کے بعد سارا تماشا ختم ہوجاتا ہے، اسی طرح دنیا کی لذتیں بھی ناپائیدار ہیں، اور کچھ ہی عرصے میں سب ختم ہوجائیں گی۔ اس کے برخلاف آخرت کی زندگی ہمیشہ کے لیے ہے، اس لیے اس کی لذتیں اور نعمتیں سدا بہار ہیں۔ اس لیے اصل زندگی آخرت ہی کی زندگی ہے۔
دنیا کی تحقیر و تقلیل کا بیان ہے۔ مشرکین اور اہل دنیاجس دولت اور شان دنیا پر مغرور ہو کر توحید کا مغرور ہو کر توحید کا انکار کر رہے ہیں اس کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ وہ بچوں کا ایک کھیل تماشا ہے جس سے محض چند روز دل بہلایا جاسکتا ہے یہ اصل زندگی نہیں اصل زندگی آخرت کی زندگی ہے جو کبھی فنا نہیں ہوگی اس لیے آخرت کے لیے توشہ تیار کرنا چاہئے۔[161]
1.اس دن کے ثواب کی امید رکھتے ہوئے اطاعت کرنے کی رغبت اور حرص پیدا ہوتی ہے –
2.اس دن کی سزا اور عقاب سے ڈرتے ہوئے معصیت کرنے سے اور اس پر راضی ہونے سے خوف اور ڈر –
3. اس دنیا میں مومن سے ان نعمتوں کے چھن جانا جس کے بدلے میں اسے آخرت میں ثواب اور نعمتوں کی امید پر تسلی ہوتی ہے-
سورۃ النازعات (آیت:۳۴ تا ۴۱) میں ارشادِ ربانی ہے:
.فَاِذَا جَآئَتِ الطَّآمَّۃُ الْکُبْرٰی . یَوْمَ یَتَذَکَّرُ الْاِنْسَانُ مَا سَعٰی . وَبُرِّزَتِ الْجَحِیْمُ لِمَنْ یَّرٰی . فَاَمَّا مَنْ طَغٰی . وَاٰثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا . فَاِنَّ الْجَحِیْمَ ھِیَ الْمَاْوٰی . وَاَمَّا مَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّہٖ وَنَھَی النَّفْسَ عَنِ الْھَوٰی . فَاِنَّ الْجَنَّۃَ ھِیَ الْمَاْوٰی.
’’تو جب بڑی آفت آئے گی۔اس دن انسان اپنے کاموں کو یاد کرے گا۔اور دوزخ دیکھنے والے کے سامنے نکال کر رکھ دی جائے گی۔تو جس نے سرکشی کی۔ اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھا۔ اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔اور جو اپنے پروردگار کے سامنے کھڑے ہونے سے ڈرتا اور جی کو خواہشوں سے روکتا رہا۔اس کا ٹھکانا بہشت ہے۔‘‘
سورت ہود (آیت:۱۵ تا ۲۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.مَنْ کَانَ یُرِیْدُ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا وَ زِیْنَتَھَا نُوَفِّ اِلَیْھِمْ اَعْمَالَھُمْ فِیْھَا وَ ھُمْ فِیْھَا لَا یُبْخَسُوْنَ . اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ لَیْسَ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ اِلَّا النَّارُ وَ حَبِطَ مَا صَنَعُوْا فِیْھَا وَ بٰطِلٌ مَّا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ . اَفَمَنْ کَانَ عَلٰی بَیِّنَۃٍ مِّنْ رَّبِّہٖ وَ یَتْلُوْہُ شَاھِدٌ مِّنْہُ وَ مِنْ قَبْلِہٖ کِتٰبُ مُوْسٰٓی اِمَامًا وَّ رَحْمَۃً اُولٰٓئِکَ یُؤْمِنُوْنَ بِہٖ وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِہٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُہٗ فَلَا تَکُ فِیْ مِرْیَۃٍ مِّنْہُ اِنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ وَ لٰکِنَّ اَکْثَرَ النَّاسِ لَا یُؤْمِنُوْنَ . وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اُولٰٓئِکَ یُعْرَضُوْنَ عَلٰی رَبِّھِمْ وَ یَقُوْلُ الْاَشْھَادُ ھٰٓؤُلَآئِ الَّذِیْنَ کَذَبُوْا عَلٰی رَبِّھِمْ اَلَا لَعْنَۃُ اللّٰہِ عَلَی الظّٰلِمِیْنَ . الَّذِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ یَبْغُوْنَھَا عِوَجًا وَ ھُمْ بِالْاٰخِرَۃِ ھُمْ کٰفِرُوْنَ . اُولٰٓئِکَ لَمْ یَکُوْنُوْا مُعْجِزِیْنَ فِی الْاَرْضِ وَ مَا کَانَ لَھُمْ مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ مِنْ اَوْلِیَآئَم٭ یُضٰعَفُ لَھُمُ الْعَذَابُ مَا کَانُوْا یَسْتَطِیْعُوْنَ السَّمْعَ وَ مَا کَانُوْا یُبْصِرُوْنَ.
’’یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے آخرت میں آتش (جہنم) کے سوا اور کچھ نہیں اور جو عمل انھوں نے کیے سب برباد اور جو کچھ وہ کرتے رہے سب ضائع ہوگئے۔بھلا جو لوگ اپنے پروردگار کی طرف سے دلیل (روشن) رکھتے ہوں اور ان کے ساتھ ایک (آسمانی) گواہ بھی اس کی جانب سے ہو اور اس سے پہلے موسیٰ کی کتاب ہو جو پیشوا اور رحمت ہے (تو کیا وہ قرآن پر ایمان نہیں لائیں گے)،یہی لوگ تو اس پر ایمان لاتے ہیں اور جو کوئی اور فرقوں میں سے اس سے منکر ہو تو اس کا ٹھکانا آگ ہے تو تم اس (قرآن) سے شک میں نہ ہونا،یہ تمھارے پروردگار کی طرف سے حق ہے،لیکن اکثر لوگ ایمان نہیں لاتے۔اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ افترا کرے،ایسے لوگ اللہ کے سامنے پیش کیے جائیں گے اور گواہ کہیں گے کہ یہی لوگ ہیں،جنھوں نے اپنے پروردگار پر جھوٹ بولا تھا،سن رکھو کہ ظالموں پر اللہ کی لعنت ہے۔جو اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور اس میں کجی چاہتے ہیں اور وہ آخرت سے بھی انکار کرتے ہیں۔یہ لوگ زمین میں (کہیں بھاگ کر اللہ کو) شکست نہیں دے سکتے اور نہ اللہ کے سوا ان کا کوئی حمایتی ہے،(اے پیغمبر!) ان کو دگنا عذاب دیا جائے گا،کیونکہ یہ (شدتِ کفر سے تمھاری بات) نہیں سن سکتے تھے اور نہ (تمھیں ) دیکھ سکتے تھے۔‘‘
مزید تفصیل >>>> حدیث ِجبرائیل کو اُمّ السنۃ
قُلِ اللهُ يُحْيِيكُمْ ثُمَّ يُمِيتُكُمْ ثُمَّ يَجْمَعُكُمْ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ لَا رَيبَ فِيهِ وَلَكِنَّ أَكَثَرَ النَّاسِ لَا يَعْلَمُونَ
ان سے کہو اللہ ہی تمہیں زندگی بخشتا ہے، پھر وہی تمہیں موت دیتا ہے۔ پھر وہی تم کو اس قیامت کے دن جمع کرے گا جس کے آنے میں کوئی شک نہیں ، مگر اکثر لوگ جانتے نہیں ہیں۔
مِنْهَا خَلَقْنَاكُمْ وَفِيهَا نُعِيدُكُمْ وَمِنْهَا نُخْرِجُكُمْ تَارَةً أُخْرَى
اِسی زمین سے ہم نے تم کو پیدا کیا ہے، اِسی میں ہم تمہیں واپس لے جائیں گے اور اسی سے تم کودوبارہ نکالیں گے۔
كَمَا بَدَأَكُمْ تَعُودُونَ
جس طرح اُس نے تمہیں اب پیدا کیا ہے اسی طرح تم پھر پیدا کیے جاؤ گے۔
وَيَقُولُ الْإِنسَانُ أَئِذَا مَا مِتُّ لَسَوْفَ أُخْرَجُ حَيًا ﴿66﴾ أَوَلَا يَذْكُرُ الْإِنسَانُ أَنَّا خَلَقْنَاهُ مِن قَبْلُ وَلَمْ يَكُ شَيْئًا ﴿67﴾
انسان کہتا ہے کہا واقعی جب میں مر چکوں گا تو پھر زندہ کر کے نکال لایا جاؤں گا؟ کیا انسان کو یاد نہیں آتا کہ ہم پہلے اس کو پیدا کر چکے ہیں جبکہ وہ کچھ بھی نہ تھا؟
أَوَلَيْسَ الَّذِي خَلَقَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضَ بِقَادِرٍ عَلَى أَنْ يَخْلُقَ مِثْلَهُم بَلَى وَهُوَ الْخَلَّاقُ الْعَلِيمُ﴿81﴾ إِنَّمَا أَمْرُهُ إِذَا أَرَادَ شَيْئًا أَنْ يَقُولَ لَهُ كُنْ فَيَكُونُ﴿82﴾ فَسُبْحَانَ الَّذِي بِيَدِهِ مَلَكُوتُ كُلِّ شَيْءٍ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَ﴿83﴾
کیا وہ جس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا کیا اس پر قادر نہیں ہے کہ ان جیسوں کو پیدا کرسکے؟ کیوں نہیں ، جبکہ وہ ماہر خلاق ہے۔ وہ تو جب کسی چیز کا ارادہ کرتا ہے تو اس کا کام بس یہ ہے کہ اسے حکم دے کہ ہو جا اور وہ ہو جاتی ہے۔ پاک ہے وہ جس کے ہاتھ میں ہر چیز کا مکمل اقتدار ہے، اور اسی کی طرف تم پلٹائے جانے والے ۔
اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو سودی لین دین سے روک کر اور ایمان داروں کو ناحق لوگوں کے مال برباد کرنے سے روک کر اور تقویٰ کا حکم دے کر مغفرت و جنت اور نجات کا وعدہ کر رہا ہے۔پھر آگ سے ڈراتا ہے اور اپنے عذابوں سے دھمکاتا ہے،پھر اپنی اور اپنے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت پر آمادہ کرتا ہے اور اس پر رحم و کرم کا وعدہ دیتا ہے۔پھر سعادتِ دارین کے حصول کے لیے نیکیوں کی طرف سبقت کرنے کو فرماتا ہے اور جنت کی تعریف کرتا ہے۔چوڑائی کو بیان کرکے لمبائی کا اندازہ سننے والوں پر ہی چھوڑا جاتا ہے۔[تفسیر ابن کثیر (۱/ ۴۲۸)]
اچھی اور بری تقدیر پر ایمان لانا
وَعِنْدَهُ مَفَاتِحُ الْغَيْبِ لَايَعْلَمُهَآ اِلَّا هُوَ ط وَيَعْلَمُ مَا فِی الْبَرِّ وَالْبَحْرِ ط وَمَا تَسْقُطُ مِنْ وَّرَقَةٍ اِلَّا يَعْلَمُهَا وَلَا حَبَّةٍ فِيْ ظُلُمٰتِ الْاَرْضِ وَلَا رَطْبٍ وَّلَا يَابِسٍ اِلاَّ فِيْ کِتٰبٍ مُّبِيْنٍ (الأنعام 6:59)
اور غیب کی کُنجیاں (یعنی وہ راستے جن سے غیب کسی پر آشکار کیا جاتا ہے) اسی کے پاس (اس کی قدرت و ملکیت میں) ہیں انہیں اس کے سوا (اَز خود) کوئی نہیں جانتا، اور وہ ہر اس چیز کو (بلاواسطہ) جانتا ہے جو خشکی میں اور دریاؤں میں ہے، اور کوئی پتا نہیں گرتا مگر (یہ کہ) وہ اسے جانتا ہے اور نہ زمین کی تاریکیوں میں کوئی (ایسا) دانہ ہے اور نہ کوئی تر چیز ہے اور نہ کوئی خشک چیز مگر روشن کتاب میں (سب کچھ لکھ دیا گیا ہے)۔
يَمْحُوا اﷲُ مَا يَشَآءُ وَيُثْبِتُ ج وَعِنْدَهُٓ اُمُّ الْکِتٰبِ (الرعد، 13/ 39)
اﷲ جس (لکھے ہوئے) کو چاہتا ہے مٹا دیتا ہے اور (جسے چاہتا ہے) ثبت فرما دیتا ہے، اور اسی کے پاس اصل کتاب (لوحِ محفوظ) ہے۔
تَبٰـرَکَ الَّذِيْ نَزَّلَ الْفُرْقَانَ عَلٰی عَبْدِهِ لِيَکُوْنَ لِلْعٰلَمِيْنَ نَذِيْرًاo نِالَّذِيْ لَهُ مُلْکُ السَّمٰوٰتِ وَالْاَرْضِ وَلَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَّلَمْ يَکُنْ لَّهُ شَرِيْکٌ فِی الْمُلْکِ وَخَلَقَ کُلَّ شَيْئٍ فَقَدَّرَهُ تَقْدِيْرًا (الفرقان، 25/ 1-2)
(وہ اللہ) بڑی برکت والا ہے جس نے (حق و باطل میں فرق اور) فیصلہ کرنے والا (قرآن) اپنے (محبوب و مقرب) بندہ پر نازل فرمایا تاکہ وہ تمام جہانوں کے لیے ڈر سنانے والا ہو جائے۔ وہ (اللہ) کہ آسمانوں اور زمین کی بادشاہت اسی کے لیے ہے اور جس نے نہ (اپنے لیے) کوئی اولاد بنائی ہے اور نہ بادشاہی میں اس کا کوئی شریک ہے اور اسی نے ہر چیز کو پیدا فرمایا ہے پھر اس (کی بقا و ارتقاء کے ہر مرحلہ پر اس کے خواص، افعال اور مدت، الغرض ہر چیز) کو ایک مقررہ اندازے پر ٹھہرایا ہے۔
اِنَّ اﷲَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِج وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ ج وَيَعْلَمُ مَا فِی الْاَرْحَامِ ط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌ مَّا ذَاتَکْسِبُ غَدًا ط وَمَا تَدْرِيْ نَفْسٌم بِيِّ اَرْضٍ تَمُوْتُ ط اِنَّ اﷲَ عَلِيْمٌ خَبِيْرٌ (الروم، 30/ 34)
بے شک اﷲ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، اور وہی بارش اتارتا ہے، اور جو کچھ رحموں میں ہے وہ جانتا ہے اور کوئی شخص یہ نہیں جانتا کہ وہ کل کیا (عمل) کمائے گا اور نہ کوئی شخص یہ جانتا ہے کہ وہ کِس سرزمین پر مرے گا بے شک اﷲ خوب جاننے والا ہے، خبر رکھنے والا ہے، (یعنی علیم بالذّات ہے اور خبیر للغیر ہے، اَز خود ہر شے کا علم رکھتا ہے اور جسے پسند فرمائے باخبر بھی کر دیتا ہے)۔
اِنَّا نَحْنُ نُحْیِ الْمَوْتٰی وَنَکْتُبُ مَا قَدَّمُوْا وَاٰثَارَهُمْ ط وَکُلَّ شَيْئٍ اَحْصَيْنٰهُ فِيْٓ اِمَامٍ مُّبِيْنٍ (يٰس، 36/ 12)
بے شک ہم ہی تو مُردوں کو زندہ کرتے ہیں اور ہم وہ سب کچھ لکھ رہے ہیں جو (اعمال) وہ آگے بھیج چکے ہیں، اور اُن کے اثرات (جو پیچھے رہ گئے ہیں) اور ہر چیز کو ہم نے روشن کتاب (لوحِ محفوظ) میں احاطہ کر رکھا ہے۔
فَقَضٰهُنَّ سَبْعَ سَمٰوٰتٍ فِيْ يَوْمَيْنِ وَاَوْحٰی فِيْ کُلِّ سَمَآءٍ اَمْرَهَا ط وَزَيَّنَّا السَّمَآءَ الدُّنْيَا بِمَصَابِيْحَ وَحِفْظًا ط ذٰلِکَ تَقْدِيْرُ الْعَزِيْزِ الْعَلِيْمِ (فصلت، 41/ 12)
پھر دو دِنوں (یعنی دو مرحلوں) میں سات آسمان بنا دیئے اور ہر سماوی کائنات میں اس کا نظام ودیعت کر دیا اور آسمانِ دنیا کو ہم نے چراغوں (یعنی ستاروں اور سیّاروں) سے آراستہ کر دیا اور محفوظ بھی (تاکہ ایک کا نظام دوسرے میں مداخلت نہ کر سکے)، یہ زبر دست غلبہ (و قوت) والے، بڑے علم والے (رب) کا مقرر کردہ نظام ہے۔
اِنَّا کُلَّ شَيْئٍ خَلَقْنٰهُ بِقَدَرٍo وَمَآ اَمْرُنَآ اِلَّا وَاحِدَةٌ کَلَمْحٍم بِالْبَصَرِ(القمر، 54/ 49-50)
بے شک ہم نے ہر چیز کو ایک مقرّرہ اندازے کے مطابق بنایا ہے۔ اور ہمارا حکم تو فق ط یکبارگی واقع ہو جاتا ہے جیسے آنکھ کا جھپکنا ہے۔
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی زندہ شخص ایسا نہیں کہ اُس کا ٹھکانہ جنت یا جہنم میں لکھ نہ دیا گیا ہو اور یہ بھی لکھ دیا گیا ہے کہ وہ شقی ہے یا سعید۔ ایک شخص نے عرض کیا: یا رسول اللہ! کیوں نہ ہم اپنے لکھے ہوئے (یعنی مقدر) پر بھروسہ کرلیں اور عمل کرنا چھوڑ دیں، اس طرح جو ہم میں سے سعادت مند ہوگا وہ سعادت مندوں جیسے کام کرے گا اور جو ہم میں سے بدبخت ہوگا وہ بدبختوں جیسے کام کرے گا؟
آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: سعادت مندوں کے لیے سعادت کے کام آسان کر دیے جاتے ہیں اور بدبختوں کے لیے بدبختی والے اَعمال آسان کر دیے جاتے ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے یہ آیات پڑھیں: .فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰیo وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰٰیo. ’پس جس نے (اپنا مال اﷲ کی راہ میں) دیا اور پرہیزگاری اختیار کی۔ اور اُس نے (اِنفاق و تقویٰ کے ذریعے) اچھائی (یعنی دینِ حق اور آخرت) کی تصدیق کی۔‘۔ [رواہ حضرت علی رضی اللہ عنہ؛ متفق علیہ، و مزید احادیث لنک][162]
ارکان اسلام پانچ ہیں جو قرآن و سنت سے ماخوز ہیں[163]،[164]
1.شہادہ: ایمان
2.صلوٰۃ: نماز
3.زکوٰۃ
4.صوم: روزہ
5.حج
جہاد اسلام کے پانچ ارکان میں نہیں آتا البتہ ایک اہم اور بنیادی عمل صالح ہے، فی جامع الاحادیث للسیوطی (۴: ۳۱)
شیعہ مذہب کے اصول دین میں توحید، نبوت اور معاد ان تین بنیادی اصولوں کے علاوہ امامت اور عدل بھی شامل ہیں۔ اصول دین کے مقابلے میں عملی احکام کو فروع دین کہا جاتا ہے۔ اہل تشیع ارکان اسلام کو فروع دین کہتے ہیں یعنی فروع دین اسلام کے عملی احکام کو کہا جاتا ہے جن پر عمل کرنا ہر مسلمان کا شرعی وظیفہ ہے۔ شیعہ نطقہ نگاہ سے فروع دین دس (10) ہیں: نماز، روزہ، خمس، زکوۃ، حج، جہاد، امر بالمعروف، نہی عن المنکر، تَوَلّی اور تبرا۔[165]
حدیث ِجبرائیل کو اُمّ السنۃ بھی کہتے ہیں- حدیث جبریل ایک مشہور حدیث ہے جس کے روایوں میں عمر ابن الخطاب اور ابوہریرہ جیسے بڑے صحابہ شامل ہیں،۔ اس روایت کو مسلم و بخاری نے اپنے صحیح میں روایت کیا ہے۔ روایت کے مطابق جبریل علیہ السلام (فرشتہ) انسانی صورت میں آئے اور محمد صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم سے ایمان کیا ہے؟ اور دیگر سوالات کیے یہ گفتگو کرنے کے بعد وہ چلے گئے تو حضرت محمد رسول اللهﷺ نے اپنے اصحاب کو بتایا کہ یہ فرشتہ جبریل تھے، جو تمہیں دین کی تعلیم دینے آئے۔
عمر بن خطاب سے روایت ہے انہوں نے فرمایا کہ ہم ایک روز رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضرتھے کہ اچانک ہمارے روبروایک شخص ظاہرہوا،جس کے کپڑے بے حدسفیداوربال نہایت سیاہ تھے، نہ تو اس پرسفرکے آثارتھے اورنہ ہم میں کوئی اس سے واقف تھا، وہ (شخص) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے روبرو بیٹھ گیا اوراپنے دونوں زانوں کونبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زانوئے مبارک سے لگادیااوراپنے ہاتھوں کواپنے دونوں زانوؤں پررکھ لیا اورعرض کیا :ائے محمد(صلی اللہ علیہ وسلم )مجھے بتلائے کہ :۔ ارکان اسلام پانچ ہیں﴾ اسلام کیا ہے؟رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اسلام یہ ہے کہ توگواہی دے کہ اللہ کے سواکوئی معبودنہیں،اوریہ کہ محمد(صلی اللہ علیہ وسلم)اللہ کے رسول ہیں،اور نماز کو اچھی طرح پابندی سے اداکرے،اورزکوۃ دے اوررمضان کے روزے رکھے اورخانۂ کعبہ کاحج کرے بشرطیکہ وہاں تک پہنچنے پرقادرہو،اس شخص نے (یہ سن کر)کہا کے آپ نے سچ فرمایا۔ ہم سب کواس پرحیرت ہوئی کہ آپ سے پوچھتاہے اورساتھ ہی تصدیق بھی کردیتاہے، اس شخص نے کہا کہ مجھے۔ ارکان ایمان چھ ہیں ﴾ ایمان سے آگاہ کیجئے ،آپ نے ارشاد فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو اللہ پرایمان لائے اوراسکے فرشتوں پر اوراسکی کتابوں پر ،اوراس کے رسولوں پر،اورروزقیامت پر،اوریقین رکھے خیروشرپرکہ وہ قضاء وقدرسے ہیں،اس شخص نے کہا آپ نے سچ فرمایا۔ پھراس شخص نے پوچھامجھے بتائے کہ :۔ ارکان احسان دوہیں ﴾ احسان کیا ہے؟ آپ نے ارشاد فرمایاکہ تواللہ تعالی کی (دل لگا کر)اس طرح عبادت کرے گویا کہ تواس کودیکھ رہا ہے، اگرتواس کواس طرح نہ دیکھ سکے تو(خیراتناتوخیال رکھ)کہہ وہ تجھ کودیکھ رہاہے ،پھراس شخص نے پوچھامجھے :۔ قیامت اوراس کی نشانیاں﴾ قیامت کے بارے میں خبردیجئے؟آپ نے فرمایا :جس سے تم دریافت کر رہے ہووہ بھی پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا،پھراس نے پوچھاکہ قیامت کی نشانیاں کیا ہیں؟آپ نے فرمایا: جب لونڈی مالک کوجنے اوریہ کہ ننگے پیرچلنے والے‘ ننگے بدن ‘تنگدست اوربکریاں چرانے والوں کوتودیکھے کہ وہ بلندعمارتیں بنانے میں ایک دوسرے پرفخرکریں گے ،راوی یعنی عمررضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:کہ وہ شخص چلاگیااورمیں دیرتک ٹھیرا رہاپھرآپ نے مجھ سے فرمایا: کہ ائے عمر کیا تم جانتے ہوکہ سائل کون تھا؟میں نے جواب دیاکہ اللہ اوراس کے رسول زیادہ جاننے والے ہیں، آپ نے فرمایا: وہ تو جبرئیل تھے ،تمہارے پاس اس غرض سے آئے تھے کہ تم کوتمہارا دین سکھادیں۔[166],[167] (رواہ بخاری و مسلم )
مزید تفصیل >>>> حدیث ِجبرائیل کو اُمّ السنۃ
قرآن پاک میں کلمہ طیبہ کے دونوں حصے الگ الگ آئے ہیں بعد میں پھر علمائے کرام نے ان بکھرے موتیوں کو جمع کر کے ایک لڑی میں پرو دیا ہے[168]۔ آیات درج ذیل ہیں:
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ.(اللہ کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں۔) (الصافات، 37 : 35)
لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ.(محمد، 47 : 19) اﷲ کے سوا کوئی معبود نہیں۔
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ.(محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اﷲ کے رسول ہیں) (الفتح، 48 : 29)
المستدرك على الصحيحين للحاكم (2/ 671)[169]:
"حدثنا علي بن حمشاذ العدل، إملاء، ثنا هارون بن العباس الهاشمي، ثنا جندل بن والق، ثنا عمرو بن أوس الأنصاري، ثنا سعيد بن أبي عروبة، عن قتادة، عن سعيد بن المسيب، عن ابن عباس رضي الله عنهما، قال: «أوحى الله إلى عيسى عليه السلام يا عيسى آمن بمحمد وأمر من أدركه من أمتك أن يؤمنوا به فلولا محمد ما خلقت آدم ولولا محمد ما خلقت الجنة ولا النار ولقد خلقت العرش على الماء فاضطرب فكتبت عليه لا إله إلا الله محمد رسول الله فسكن» هذا حديث صحيح الإسناد ولم يخرجاه ".
واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
"صَلَاة" کا ترجمہ "نماز" کیا جاتا ہے- یہ اسلام کی بنیادی اہم ترین الله تعالی کی عبادت ہے جو دن میں پانچ مرتبہ فرض ہے- اس کے حکم کی اہمیت اسس سے ظاہر ہے کہ ، سہ حرفی جڑ صاد ،لام ، واو (ص ل و) قرآن میں 99 بار چار اخذ شدہ شکلوں میں آئی ہے: 12 بار بطور فارم II فعل صَلَّىٰ (صَلَّىٰ)، 83 مرتبہ بطور اسم صَلَوٰة (صَلَوٰة)، ایک بار بطور اسم مسالن (مُصَلًّى)، شکل II کے طور پر تین بار ایکٹو پارسیپل (مُصَلِّین)(ریفرنس[170])
.قُلْ لِّعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا یُقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ یُنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَ لَا خِلٰلٌ.[سورت ابراہیم (آیت:۳۱)]
’’(اے پیغمبر!) میرے مومن بندوں سے کہہ دو کہ نماز قائم کریں اور اس دن کے آنے سے پیشتر جس میں نہ (اعمال کا) سودا ہو گا اور نہ دوستی (کام آئے گی) ہمارے دیے ہوئے مال میں سے در پردہ اور ظاہر خرچ کرتے رہیں۔‘‘[سورت ابراہیم (آیت:۳۱)]
نماز کو قائم کرنے کا مطلب ہے کہ اسے اپنے وقت پر او ر نماز کو ٹھیک طریقے کے ساتھ اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کیا جائے،جس طرح نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہے۔انفاق کا مطلب ہے زکات ادا کی جائے،اقارب کے ساتھ صلہ رحمی کی جائے اور دیگر ضرورت مندوں پر احسان کیا جائے،یہ نہیں کہ صرف اپنی ذات اور اپنی ضروریات پر تو بلا دریغ خوب خرچ کیا جائے اور اللہ تعالیٰ کی بتلائی ہوئی جگہوں پر خرچ کرنے سے گریز کیا جائے۔قیامت کا دن ایسا ہوگا کہ جہاں خریدو فروخت ممکن ہوگی نہ کوئی دوستی ہی کسی کام آئے گی۔
سورۃ النور (آیت:۵۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَاَطِیعُوا الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.
’’اور نماز پڑھتے رہو اور زکات دیتے رہو اور پیغمبرِ الٰہی کے فرمان پر چلتے رہو،تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔‘‘
یہاں مسلمانوں کو تاکید کی گئی ہے کہ اللہ کی رحمت اور مدد حاصل کرنے کا طریقہ یہی ہے،جس پر چل کر صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو یہ رحمت اور مدد حاصل ہوئی۔
" اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ " نافذ کرنا اسلامی حکومت کی اہم ذمہ داری
دین اسلام کو نافذ کرنا اسلامی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے،" اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ " اس کا اہم جزو ہے ، اللہ کا فرمان ہے:
اَ لَّذِيۡنَ اِنۡ مَّكَّنّٰهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَنَهَوۡا عَنِ الۡمُنۡكَرِ ؕ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الۡاُمُوۡرِ (الحج 22:41)
"یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰة دیں گے، معرُوف کا حکم دیں گے اور مُنکَر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔"( الحج (22:41)
دنیا کے اسلامی ممالک میں یہ نظام حکومت قائم کرتی ہے . امام ، خطیب ، مساجد کا انتظام ، تربیت حکومت کی ذمہ داری ہے نہ کہ پرائیویٹ افراد اور اداروں کی جیسا کہ پاکستان میں ہو رہا ہے انگریز کے دور غلامی کی حدیث تک ٹھیک تہ مگر آزادی کے بعد حکومت کو اپنی ذمہ داری پورا کرنا ہو گی - علماء کرام، مدارس اور مسلمانوں کواس سلسلہ میں حکومت سے مکمل تعاون کرن چاہیے تاکہ سلیبس کو جدید خطوط اور عصر حاضر کے تقاضوں سے ہم آہنگ کیا جایے، اعلی تعلیمی میعار کا بنودبست کیا جا سکے-[171]
1۔ .وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ ارْکَعُوْا مَعَ الرّٰکِعِیْنَ. (سورۃ البقرۃ (2:43)[172]
’’اور نماز پڑھا کرو اور زکات دیا کرو اور (اللہ تعالیٰ کے آگے) جھکنے والوں کے ساتھ جھکا (باجماعت نماز ادا کیا کرو)کرو۔‘‘
2۔ .وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ مَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ. (2:110)[173]
’’اور نماز قائم کرو اور زکات دیتے رہو اور جو بھلائی اپنے لیے آگے بھیج رکھو گے اس کو اللہ کے ہاں پا لو گے۔کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمھارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘
3. .وَ کَانَ یَاْمُرُ اَھْلَہٗ بِالصَّلٰوۃِ وَالزَّکٰوۃِ وَ کَانَ عِنْدَ رَبِّہٖ مَرْضِیًّا. (19:55)[174]
’’اور اپنے گھر والوں کو نماز اور زکات کا حکم کرتے تھے اور اپنے رب کے ہاں پسندیدہ (برگزیدہ) تھے۔‘‘[175]
گو کہ تمام قران ہی رسول پرنور کی زبان سے ادا ہوا۔ اور ان کی نماز پڑھنے کی یہ سنت جاریہ تمام مساجد میں عموماَ اور حرم شریف میں ہر روز پانچ بار دیکھی جاسکتی ہے
آئیے دیکھتے ہیں کہ نمازیں کتنی ہیں اور پڑھی کیسے جاتی ہے اور نماز میں کیا پڑھا جاتا ہے اور اس " تعدادَ نماز "، " کس طرح " اور " کیا پڑھا جائے " ان تین باتوںکی تعلیم رسول پاک (ص) اور آپ (ص) سے پہلے نبیوں کو اللہ تعالی کی طرف سے کن آیات سے تعلیم ہوئی۔ پھر دیکھتے ہیں کہ نماز کے مزید احکامات کس طرح تعلیم ہوئے۔ جن کی تعلیم رسولِ کریم نے خود اپنی سنت سے عملی طور پر کی اور اس کو سنت جاریہ بنا دیا۔
پانچوں نمازوں کا حکم
آپ سورج ڈھلنے سے لے کر رات کی تاریکی تک (ظہر، عصر، مغرب اور عشاء کی) نماز قائم فرمایا کریں اور نمازِ فجر کا قرآن پڑھنا بھی (لازم کر لیں)، بیشک نمازِ فجر کے قرآن میں (فرشتوں کی) حاضری ہوتی ہے (اور حضوری بھی نصیب ہوتی ہے) (17:78)[176],[177]
فجر، مغرب اور عشاء کی نماز کا حکم:
"اور آپ دن کے دونوں کناروں میں اور رات کے کچھ حصوں میں نماز قائم کیجئے۔ بیشک نیکیاں برائیوں کو مٹا دیتی ہیں۔ یہ نصیحت قبول کرنے والوں کے لئے نصیحت ہے۔ (11:114)
نماز فجر اور عشاء حکم:
اے ایمان والو! چاہئے کہ تمہارے زیردست (غلام اور باندیاں) اور تمہارے ہی وہ بچے جو (ابھی) جوان نہیں ہوئے (تمہارے پاس آنے کے لئے) تین مواقع پر تم سے اجازت لیا کریں: (ایک) نمازِ فجر سے پہلے اور (دوسرے) دوپہر کے وقت جب تم (آرام کے لئے) کپڑے اتارتے ہو اور (تیسرے) نمازِ عشاء کے بعد (جب تم خواب گاہوں میں چلے جاتے ہو)، (یہ) تین (وقت) تمہارے پردے کے ہیں، ان (اوقات) کے علاوہ نہ تم پر کوئی گناہ ہے اور نہ ان پر، (کیونکہ بقیہ اوقات میں وہ) تمہارے ہاں کثرت کے ساتھ ایک دوسرے کے پاس آتے جاتے رہتے ہیں، اسی طرح اللہ تمہارے لئے آیتیں واضح فرماتا ہے، اور اللہ خوب جاننے والا حکمت والا ہے (24:58)
ظہر اور عصر کی نماز کا حکم:
[اور ساری تعریفیں آسمانوں اور زمین میں اسی کے لئے ہیں اور (تم تسبیح کیا کرو) سہ پہر کو بھی (یعنی عصر کے وقت) اور جب تم دوپہر کرو (یعنی ظہر کے وقت) (30:18)
عصر کی نماز کا حکم:
سب نمازوں کی محافظت کیا کرو اور بالخصوص درمیانی نماز کی، اور اﷲ کے حضور سراپا ادب و نیاز بن کر قیام کیا کرو (2:238)[178]
سورت بنی اسرائیل (آیت:۷۸،۷۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَقِمِ الصَّلٰوۃَ لِدُلُوْکِ الشَّمْسِ اِلٰی غَسَقِ الَّیْلِ وَقُرْاٰنَ الْفَجْرِ اِنَّ قُرْاٰنَ الْفَجْرِ کَانَ مَشْھُوْدًا . وَ مِنَ الَّیْلِ فَتَھَجَّدْ بِہٖ نَافِلَۃً لَّکَ عَسٰٓی اَنْ یَّبْعَثَکَ رَبُّکَ مَقَامًا مَّحْمُوْدًا.
’’(اے نبی!) سورج کے ڈھلنے سے رات کے اندھیرے تک (ظہر،عصر،مغرب،عشا کی) نمازیں اور صبح (فجر) کو قرآن پڑھا کرو،کیونکہ صبح کے وقت قرآن پڑھنا موجبِ حضورِ (ملائکہ) ہے اور بعض حصہ شب میں بیدار ہوا کرو (اور تہجد کی نماز پڑھا کرو) یہ (شب خیزی) تمھارے لیے (سبب) زیادت (ثواب اور نمازِ تہجد تمھارے لیے نفل) ہے،قریب ہے کہ اللہ تمھیں مقامِ محمود میں داخل کرے۔‘‘
فجر کے وقت فرشتے حاضر ہوتے ہیں،بلکہ دن کے فرشتوں اور رات کے فرشتوں کا اجتماع ہوتا ہے،جیسا کہ حدیث میں مروی ہے۔[[179]
ایک اور حدیث میں ہے کہ رات والے فرشتے جب اللہ کے پاس جاتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان سے پوچھتا ہے،حالانکہ وہ خود خوب جانتا ہے کہ تم نے میرے بندوں کو کس حال میں چھوڑا؟ فرشتے کہتے ہیں کہ ہم ان کے پاس گئے تھے،اس وقت بھی وہ نماز پڑھ رہے تھے اور جب ہم ان کے پاس سے آئے ہیں تو انھیں نماز پڑھتے ہوئے ہی چھوڑ کر آئے ہیں۔[180]
سورت بنی اسرائیل (آیت:۱۱۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَجْھَرْ بِصَلَاتِکَ وَ لَا تُخَافِتْ بِھَا وَ ابْتَغِ بَیْنَ ذٰلِکَ سَبِیْلًا.
’’اور نماز نہ بلند آواز سے پڑھو اور نہ آہستہ بلکہ اس کے بیچ کا طریقہ اختیار کرو۔‘‘
اس آیت کے سبب و شانِ نزول میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ مکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھپ کر رہتے تھے،جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو آواز قدرے بلند کر لیتے،مشرکین قرآن سن کر قرآن کو سب و شتم کرتے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اپنی آواز کو اتنا اونچا نہ کرو کہ مشرکین سن کر بُرا بھلا کہیں اور آواز اتنی پست بھی نہ کرو کہ صحابہ رضی اللہ عنہم بھی سن نہ سکیں۔
سورۃ المزّمّل (آیت:۱ تا ۴) میں فرمایا:
.یٰٓاَیُّھَا الْمُزَّمِّلُ . قُمِ الَّیْلَ اِلَّا قَلِیْلًا . نِّصْفَہٗٓ اَوِ انْقُصْ مِنْہُ قَلِیْلًا . اَوْ زِدْ عَلَیْہِ وَرَتِّلِ الْقُرْاٰنَ تَرْتِیْلًا.
’’اے (نبی) جو کپڑے میں لپٹ رہے ہو۔رات کو قیام کیاکرو مگر تھوڑی رات۔(قیام) آدھی رات (کیا کرو) یا اس سے کچھ کم- یا کچھ زیادہ اور قرآن کو ٹھہر ٹھہر کر پڑھا کرو۔‘‘
جس وقت ان آیات کا نزول ہوا،نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم چادر اوڑھ کر لیٹے ہوئے تھے،اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اس کیفیت کو بیان کرتے ہوئے خطاب فرمایا:مطلب یہ ہے کہ اب چادر چھوڑ دیں اور رات کو تھوڑا قیام کریں،یعنی نمازِ تہجد پڑھیں،کہا جاتا ہے کہ اس حکم کی بنا پر نمازِ تہجد آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے واجب تھی۔
یہ قیام نصف رات سے کچھ کم (ثُلث) یا اس سے کچھ زیادہ ہو تو کوئی حرج نہیں ہے۔
سورۃ المزّمّل (آیت:۲۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّ رَبَّکَ یَعْلَمُ اَنَّکَ تَقُوْمُ اَدْنٰی مِنْ ثُلُثَیِ الَّیْلِ وَنِصْفَہٗ وَثُلُثَہٗ وَطَآئِفَۃٌ مِّنَ الَّذِیْنَ مَعَکَ وَاللّٰہُ یُقَدِّرُ الَّیْلَ وَالنَّھَارَ عَلِمَ اَنْ لَّنْ تُحْصُوْہُ فَتَابَ عَلَیْکُمْ فَاقْرَئُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنَ الْقُرْاٰنِ عَلِمَ اَنْ سَیَکُوْنُ مِنْکُمْ مَّرْضٰی وَاٰخَرُوْنَ یَضْرِبُوْنَ فِی الْاَرْضِ یَبْتَغُونَ مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاٰخَرُوْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاقْرَئُوْا مَا تَیَسَّرَ مِنْہُ وَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَاٰتُوا الزَّکَوٰۃَ وَاَقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا وَمَا تُقَدِّمُوْا لِاَنْفُسِکُمْ مِّنْ خَیْرٍ تَجِدُوْہُ عِنْدَ اللّٰہِ ھُوَ خَیْرًا وَّاَعْظَمَ اَجْرًا وَّاسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
’’تمھارا پروردگار خوب جانتا ہے کہ تم اور تمھارے ساتھ کے لوگ (کبھی) دو تہائی رات کے قریب اور (کبھی) آدھی رات اور (کبھی) تہائی رات قیام کیا کرتے ہو اور اللہ تو رات اور دن کا اندازہ رکھتا ہے،اس نے معلوم کیا کہ تم اس کو نباہ نہ سکو گے تو اس نے تم پر مہربانی کی،پس جتنا آسانی سے ہو سکے (اتنا) قرآن پڑھ لیا کرو،اس نے جاناکہ تم میں بعض بیمار بھی ہوتے ہیں اور بعض اللہ کے فضل (معاش) کی تلاش میں ملک میں سفر کرتے ہیں اور بعض اللہ کی راہ میں لڑتے ہیں تو جتنا آسانی سے ہوسکے،اتنا پڑھ لیا کرو اور نماز پڑھتے رہو اور زکات ادا کرتے رہو اور اللہ کو ( خلوصِ نیت سے) قرضِ حسن دیتے رہواور جو نیک عمل تم اپنے لیے آگے بھیجو گے،اس کو اللہ کے ہاں بہتر اور صلے میں بزرگ تر پاؤ گے اور اللہ سے بخشش مانگتے رہو،بیشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کی ایک جماعت رات کو قیام کرتی،کبھی دو تہائی سے کم،کبھی نصف رات اور کبھی ثُلث (ایک تہائی حصہ) جیسا کہ یہاں ذکر ہے،لیکن ایک تو یہ رات کا مستقل قیام نہایت گراں تھا۔دوسرے وقت کا یہ اندازہ نصف رات یا ثلث یا دو ثلث حصہ قیام کرنا ہے،اس سے بھی زیادہ مشکل تر تھا،اس لیے اللہ نے اس آیت میں تخفیف کا حکم نازل فرما دیا،جس کا مطلب بعض کے نزدیک ترکِ قیام کی اجازت ہے اور بعض کے نزدیک یہ ہے کہ اس کے فرض کو استحباب میں بدل دیا گیا۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ تخفیف صرف امت کے لیے ہے،نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس کا پڑھنا ضروری تھا۔(واللہ اعلم)
وضو کرنے کا طریقہ:
[اے ایمان والو! جب (تمہارا) نماز کیلئے کھڑے (ہونے کا ارادہ) ہو تو (وضو کے لئے) اپنے چہروں کو اور اپنے ہاتھوں کو کہنیوں سمیت دھو لو اور اپنے سروں کا مسح کرو اور اپنے پاؤں (کا بھی) ٹخنوں سمیت، اور اگر تم حالتِ جنابت میں ہو تو (نہا کر) خوب پاک ہو جاؤ، اور اگر تم بیمار ہو یا سفر میں ہو یا تم سے کوئی رفعِ حاجت سے (فارغ ہو کر) آیا ہو یا تم نے عورتوں سے قربت (مجامعت) کی ہو پھر تم پانی نہ پاؤ تو (اندریں صورت) پاک مٹی سے تیمم کر لیا کرو۔ پس (تیمم یہ ہے کہ) اس (پاک مٹی) سے اپنے چہروں اور اپنے (پورے) ہاتھوں کا مسح کر لو۔ اﷲ نہیں چاہتا کہ وہ تمہارے اوپر کسی قسم کی سختی کرے لیکن وہ (یہ) چاہتا ہے کہ تمہیں پاک کردے اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دے تاکہ تم شکر گزار بن جاؤ (5:6)
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۱۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ مَنْ اَظْلَمُ مِمَّنْ مَّنَعَ مَسٰجِدَ اللّٰہِ اَنْ یُّذْکَرَ فِیْھَا اسْمُہٗ وَ سَعٰی فِیْ خَرَابِھَا اُولٰٓئِکَ مَا کَانَ لَھُمْ اَنْ یَّدْخُلُوْھَآ اِلَّا خَآئِفِیْنَ لَھُمْ فِی الدُّنْیَا خِزْیٌ وَّ لَھُمْ فِی الْاٰخِرَۃِ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.
’’اور اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے،جو اللہ کی مسجدوں میں اللہ کے نام کا ذکر کیے جانے کو منع کرے اور ان کی ویرانی میں ساعی ہو۔ان لوگوں کو کچھ حق نہیں ہے کہ وہ اُن میں داخل ہوں مگر ڈرتے ہوئے۔اُن کے لیے دنیا میں رسوائی ہے اور آخرت میں بڑا عذاب ہے۔‘‘
جن لوگوں نے مسجدوں میں اللہ کا ذکر کرنے سے روکا،یہ کون ہیں ؟ ان کے بارے میں مفسرین کی دو رائے ہیں۔ایک رائے یہ ہے کہ اس سے مراد عیسائی ہیں،جنھوں نے شاہِ روم کے ساتھ مل کر بیت المقدس میں یہودیوں کو نماز پڑھنے سے روکا اور اس کی تخریب میں حصہ لیا،لیکن حافظ ا بن کثیر رحمہ اللہ نے اس سے اختلاف کرتے ہوئے اس کا مصداق مشرکینِ مکہ کو قرار دیا ہے،جنھوں نے ایک تو نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کو مکے سے نکلنے پر مجبور کر دیا اور یوں خانہ کعبہ میں مسلمانوں کو عبادت سے روکا۔پھر صلح حدیبیہ کے موقع پر بھی یہی کردار دہرایا اور کہا کہ ہم اپنے آبا و اجداد کے قاتلوں کو مکے میں داخل نہیں ہونے دیں گے،حالانکہ خانہ کعبہ میں کسی کو عبادت سے روکنے کی اجازت اور روایت نہیں تھی۔
تخریب اور بربادی صرف یہی نہیں ہے کہ اسے گرا دیا جائے اور عمارت کو نقصان پہنچایا جائے،بلکہ ان میں اللہ کی عبادت اور ذکر سے روکنا،اقامتِ شریعت اور مظاہرِ شرک سے پاک کرنے سے منع کرنا بھی تخریب اور اللہ کے گھروں کو برباد کرنا ہے۔
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قُمْتُمْ اِلَی الصَّلٰوۃِ فَاغْسِلُوْا وُجُوْھَکُمْ وَ اَیْدِیَکُمْ اِلَی الْمَرَافِقِ وَ امْسَحُوْا بِرُئُوْسِکُمْ وَ اَرْجُلَکُمْ اِلَی الْکَعْبَیْنِ وَ اِنْ کُنْتُمْ جُنُبًا فَاطَّھَّرُوْا وَ اِنْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَوْ عَلٰی سَفَرٍ اَوْ جَآئَ اَحَدٌ مِّنْکُمْ مِّنَ الْغَآئِطِ اَوْ لٰمَسْتُمُ النِّسَآئَ فَلَمْ تَجِدُوْا مَآئً فَتَیَمَّمُوْا صَعِیْدًا طَیِّبًا فَامْسَحُوْا بِوُجُوْھِکُمْ وَ اَیْدِیْکُمْ مِّنْہُ مَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیَجْعَلَ عَلَیْکُمْ مِّنْ حَرَجٍ وَّ لٰکِنْ یُّرِیْدُ لِیُطَھِّرَکُمْ وَ لِیُتِمَّ نِعْمَتَہٗ عَلَیْکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.سورۃ المائدہ (آیت:۶)
’’مومنو! جب تم نماز پڑھنے کا قصد کیا کرو تو منہ اور کہنیوں تک ہاتھ دھو لیا کرو اور سر کا مسح کر لیاکرو اور ٹخنوں تک پاؤں (دھو لیا کرو) اور اگر نہانے کی حاجت ہو تو (نہا کر) پاک ہو جایا کرو اور اگر بیمار ہو یا سفر میں ہو یا کوئی تم میں سے بیت الخلاء سے ہو کر آیا ہو یا تم عورتوں سے ہم بستر ہوئے ہو اور تمھیں پانی نہ مل سکے تو پاک مٹی لو اور اُس سے منہ اور ہاتھوں کا مسح (تیمم) کر لو،اللہ تعالیٰ تم پر کسی طرح کی تنگی نہیں کرنا چاہتا،بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمھیں پاک کرے اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کرے،تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
جنابت یا نہانے کی حاجت سے مراد وہ ناپاکی ہے،جو احتلام یا بیوی سے ہم بستری کرنے کی وجہ سے ہوتی ہے اور اسی حکم میں حیض اور نفاس بھی داخل ہے،جب حیض اور نفاس کا خون بند ہو جائے تو پاکیزگی حاصل کرنے کے لیے طہارت یعنی غسل ضروری ہے،البتہ پانی نہ ملنے کی صورت میں تیمم کی اجازت ہے-
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَقْرَبُوا الصَّلَاةَ وَأَنتُمْ سُكَارَىٰ حَتَّىٰ تَعْلَمُوا مَا تَقُولُونَ وَلَا جُنُبًا إِلَّا عَابِرِي سَبِيلٍ حَتَّىٰ تَغْتَسِلُوا ۚ وَإِن كُنتُم مَّرْضَىٰ أَوْ عَلَىٰ سَفَرٍ أَوْ جَاءَ أَحَدٌ مِّنكُم مِّنَ الْغَائِطِ أَوْ لَامَسْتُمُ النِّسَاءَ فَلَمْ تَجِدُوا مَاءً فَتَيَمَّمُوا صَعِيدًا طَيِّبًا فَامْسَحُوا بِوُجُوهِكُمْ وَأَيْدِيكُمْ ۗ إِنَّ اللَّهَ كَانَ عَفُوًّا غَفُورًا ﴿٤٣﴾ أَلَمْ تَرَ إِلَى الَّذِينَ أُوتُوا نَصِيبًا مِّنَ الْكِتَابِ يَشْتَرُونَ الضَّلَالَةَ وَيُرِيدُونَ أَن تَضِلُّوا السَّبِيلَ ﴿٤٤﴾
"اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب تم نشے کی حالت میں ہو تو نماز کے قریب نہ جاؤ نماز اُس وقت پڑھنی چاہیے، جب تم جانو کہ کیا کہہ رہے ہو اور اسی طرح جنابت کی حالت میں بھی نماز کے قریب نہ جاؤ جب تک کہ غسل نہ کر لو، الا یہ کہ راستہ سے گزرتے ہو--
--- اور اگر کبھی ایسا ہو کہ تم بیمار ہو، یا سفر میں ہو، یا تم میں سے کوئی شخص رفع حاجت کر کے آئے، یا تم نے عورتوں سے لمس کیا ہو، اور پھر پانی نہ ملے تو پاک مٹی سے کام لو اور اس سے اپنے چہروں اور ہاتھوں پر مسح کر لو، بے شک اللہ نرمی سے کام لینے والا اور بخشش فرمانے والا ہے (4:43)[181]
بیمار سے مراد وہ بیمار ہے،جسے وضو کرنے سے نقصان یا بیماری میں اضافے کا اندیشہ ہو۔ مسافر عام ہے، لمبا سفر کیا ہو یا مختصر، اگر پانی دستیاب نہ ہو تو تیمم کرنے کی اجازت ہے۔ پانی نہ ملنے کی صورت میں یہ اجازت مقیم کو بھی حاصل ہے۔ چارطریقے یہ ہیں:
1.تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ دو بار زمین پرپاک مٹی پر ہاتھ مار کر ایک دفعہ منہ پھیرلیا کرو اور دوسری دفعہ کہنیوں تک ہاتھوں پر پھیرلیا کرو یہ اللہ تعالیٰ کی معافی اور بخشش ہے کہ وہ تم پر آسان احکام جاری کرتا ہے-
2.تیمم کا طریقہ دوسری جگہ یہ ہے کہ پاکی حاصل کرنے کی نیت سے دونوں ہاتھوں کو پاک مٹی پر پھیر کر ان کو جھاڑدیں اور اچھی طرح منھ پر مل لیں اس طور پر کہ ایک بال برابر بھی ہاتھ پہنچنے سے رہ نہ جائے پھر دوبارہ مٹی پر ہاتھ مارکر کہنیوں تک دونوں ہاتھوں پر بھی اسی طرح مل ملیں۔ تیمم پاک مٹی سے ہوتا ہے یا جوچیز مٹی کی جنس سے ہو مثلاً چونا، پتھر، اینٹ وغیرہ۔ گلال، لکڑی لوہا جیسی چیزوں سے تیمم نہیں ہوگا، ہاں اگر ان چیزوں پر گرد ہو اس پر ہاتھ مارکر تیمم کرلیا تو تیمم درست ہوجائے گا، اور اگر گرد نہیں ہے تو تیمم درست نہیں ہوگا-(دیوبند)[182]
3. تیمم کا مسنون طریقہ یہ ہے کہ دونوں ہاتھوں کی انگلیاں کشادہ کر کے زمین پر یا کسی ایسی چیز پر ماریں جو زمین کی قسم سے ہو پھر اس سے ہاتھ ہٹا لیں اور زیادہ گرد لگ جائے تو جھاڑ لیں، اس سے سارے چہرے کا مسح کریں پھر اسی طرح دوسری دفعہ بھی ہاتھ زمین پر یا زمین کی قسم پر مار کر دونوں ہاتھوں کا ناخنوں سے کہنیوں تک مسح کریں۔[183]
4. اہل حدیث : تیمم کا طریقہ یہ ہے کہ ایک ہی مرتبہ ہاتھ زمین پر مار کر کلائی تک دونوں ہاتھ ایک دوسرے پر پھیر لے۔(کہنیوں تک ضروری نہیں ) اور چہرے پر بھی پھیر لے۔
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے تیمم کے بارے میں فرمایا ہے: ’’یہ دونوں ہتھیلیوں اور چہرے کے لیے ایک ہی مرتبہ مارنا ہے۔‘‘[مسند أحمد (۴؍ ۲۶۳)]
.صَعِیْدًا طَیِّباً.سے مراد ’’پاک مٹی‘‘ ہے۔زمین کی جنس سے ہر چیز نہیں جیسا کہ بعض کا خیال ہے،حدیث میں اس کی مزید و ضاحت کردی گئی ہے۔فرمایا: ( جُعِلَتْ تُرْبَتُہَا لَنَا طَہُوْراً اِذَا لَمْ نَجِدِ الْمَائَ) [صحیح مسلم (۴؍ ۵۲۲)]
’’جب ہمیں پانی نہ ملے تو زمین کی مٹی ہمارے لیے پاکیزگی کا ذریعہ بنا دی گئی ہے۔‘‘
بعض علما نے ’’صَعِیْد‘‘ سے مراد ’’وجہ الأرض‘‘ لے کر ریت وغیرہ سے بھی تیمم کو جائز قرار دیا ہے۔[زاد المعاد لابن القیم رحمۃ اللہ علیہ۔][184] [واللہ و رسولہ اعلم بالصواب]
تکبیر کی تعلیم:
وَقُلِ الْحَمْدُ لِلّہ الَّذِي لَمْ يَتَّخِذْ وَلَدًا وَلَم يَكُن لَّہُ شَرِيكٌ فِي الْمُلْكِ وَلَمْ يَكُن لَّہُ وَلِيٌّ مِّنَ الذُّلَّ وَكَبِّرْۃُ تَكْبِيرًا
اور فرمائیے کہ سب تعریفیں اﷲ ہی کے لئے ہیں جس نے نہ تو (اپنے لئے) کوئی بیٹا بنایا اور نہ ہی (اس کی) سلطنت و فرمانروائی میں کوئی شریک ہے اور نہ کمزوری کے باعث اس کا کوئی مددگار ہے (اے حبیب!) آپ اسی کو بزرگ تر جان کر اس کی خوب بڑائی (بیان) کرتے رہئے ( كَبِّرْۃُ تَكْبِيرًا) (17:111)
اس لئے کہ اس نے تمہیں جو ہدایت فرمائی ہے اس پر اس کی بڑائی بیان کرو(وَلِتُكَبِّرُواْ اللّهَ ) اور اس لئے کہ تم شکر گزار بن جاؤ (2:185)
اس طرح (اﷲ نے) انہیں تمہارے تابع کر دیا ہے تاکہ تم (وقتِ ذبح) اﷲ کی تکبیر( لِتُكَبِّرُوا اللَّهَ ) کہو جیسے اس نے تمہیں ہدایت فرمائی ہے، اور آپ نیکی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دیں (22:37)
آپ وہ کتاب پڑھ کر سنائیے جو آپ کی طرف (بذریعہ) وحی بھیجی گئی ہے، اور نماز قائم کیجئے، بیشک نماز بے حیائی اور برائی سے روکتی ہے، اور واقعی اﷲ کا ذکر سب سے بڑا ہے، اور اﷲ ان (کاموں) کو جانتا ہے جو تم کرتے ہو(29:45)
نماز زبان سے ادا کی جائے
[فرما دیجئے کہ اﷲ کو پکارو یا رحمان کو پکارو، جس نام سے بھی پکارتے ہو (سب) اچھے نام اسی کے ہیں، اور نہ اپنی نماز (میں قرات) بلند آواز سے کریں اور نہ بالکل آہستہ پڑھیں اور دونوں کے درمیان (معتدل) راستہ اختیار فرمائیں (17:110)
سورۃ فاتحہ
اور بیشک ہم نے آپ کو بار بار دہرائی جانے والی سات آیتیں (یعنی سورۃ فاتحہ) اور بڑی عظمت والا قرآن عطا فرمایا ہے (15:87)
ساتوں آسمان اور زمین اور وہ سارے موجودات جو ان میں ہیں اﷲ کی تسبیح کرتے رہتے ہیں، اور (جملہ کائنات میں) کوئی بھی چیز ایسی نہیں جو اس کی حمد کے ساتھ تسبیح نہ کرتی ہو لیکن تم ان کی تسبیح (کی کیفیت) کو سمجھ نہیں سکتے، بیشک وہ بڑا بُردبار بڑا بخشنے والا ہے (15:88)
قیام، رکوع اور سجود
اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر (خانہ کعبہ) کو لوگوں کے لئے رجوع (اور اجتماع) کا مرکز اور جائے امان بنا دیا، اور (حکم دیا کہ) ابراہیم (علیہ السلام) کے کھڑے ہونے کی جگہ کو مقامِ نماز بنا لو، اور ہم نے ابراہیم اور اسماعیل (علیھما السلام) کو تاکید فرمائی کہ میرے گھر کو طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے پاک (صاف) کر دو (2:125)
رکوع و سجود
اے ایمان والو! تم رکوع کرتے رہو اور سجود کرتے رہو، اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور (دیگر) نیک کام کئے جاؤ تاکہ تم فلاح پا سکو (22:77)
اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دیا کرو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ (مل کر) رکوع کیا کرو (2:43)
بیشک تمہارا (مددگار) دوست تو اﷲ اور اس کا رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ہی ہے اور (ساتھ) وہ ایمان والے ہیں جو نماز قائم رکھتے ہیں اور زکوٰۃ ادا کرتے ہیں اور وہ (اﷲ کے حضور عاجزی سے) جھکنے والے ہیں (5:55)
(یہ مومنین جنہوں نے اللہ سے اُخروی سودا کر لیا ہے) توبہ کرنے والے، عبادت گذار، (اللہ کی) حمد و ثنا کرنے والے، دنیوی لذتوں سے کنارہ کش روزہ دار، (خشوع و خضوع سے) رکوع کرنے والے، (قربِ الٰہی کی خاطر) سجود کرنے والے، نیکی کاحکم کرنے والے اور برائی سے روکنے والے اور اللہ کی (مقرر کردہ) حدود کی حفاظت کرنے والے ہیں، اور ان اہلِ ایمان کو خوشخبری سنا دیجئے (9:112)
سبحان رب العظیم
فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّكَ الْعَظِيمِ (سو اپنے ربِّ عظیم کے نام کی تسبیح کیا کریں) (56:74)
سبحان رب الاعلی
سَبِّحِ اسْمَ رَبِّكَ الْأَعْلَى (اپنے رب کے نام کی تسبیح کریں جو سب سے بلند ہے) (84:1)
تشھید
شَهِدَ اللّهُ أَنَّهُ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ وَالْمَلاَئِكَةُ وَأُوْلُواْ الْعِلْمِ قَآئِماً بِالْقِسْطِ لاَ إِلَهَ إِلاَّ هُوَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ (3:18)
اﷲ نے اس بات پر گواہی دی کہ اس کے سوا کوئی لائقِ عبادت نہیں اور فرشتوں نے اور علم والوں نے بھی (اور ساتھ یہ بھی) کہ وہ ہر تدبیر عدل کے ساتھ فرمانے والا ہے، اس کے سوا کوئی لائقِ پرستش نہیں وہی غالب حکمت والا ہے (3:18)
التَّحِيَّاتُ لِلَّهِ وَالصَّلَوَاتُ وَالطَّيِّبَاتُ السَّلَامُ عَلَيْكَ أَيُّهَا النَّبِيُّ وَرَحْمَةُ اللَّهِ وَبَرَكَاتُهُ السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ، أَشْهَدُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَشْهَدُ أَنَّ مُحَمَّدًا عَبْدُهُ وَرَسُولُهُ
ترجمہ: تمام زبانی، بدنی اور مالی عبادات اللہ تعالی کے لیے ہیں، اے نبی! آپ پر اللہ تعالی کی جانب سے سلامتی، رحمتیں اور برکتیں نازل ہوں، ہم پر اور اللہ تعالی کے تمام نیک بندوں پر سلامتی نازل ہو، میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود بر حق نہیں ہے اور میں یہ بھی گواہی دیتا ہوں کہ محمد -ﷺ-اللہ تعالی کے بندے اور رسول ہیں۔[ بخاری: (6265)[185] مسلم: (402)]
إِذَا جَاءَكَ الْمُنَافِقُونَ قَالُوا نَشْهَدُ إِنَّكَ لَرَسُولُ اللَّهِ وَاللَّهُ يَعْلَمُ إِنَّكَ لَرَسُولُهُ وَاللَّهُ يَشْهَدُ إِنَّ الْمُنَافِقِينَ لَكَاذِبُونَ (63:1)
جب منافق آپ کے پاس آتے ہیں تو کہتے ہیں: ہم گواہی دیتے ہیں کہ آپ یقیناً اللہ کے رسول ہیں، اور اللہ جانتا ہے کہ یقیناً آپ اُس کے رسول ہیں، اور اللہ گواہی دیتا ہے کہ یقیناً منافق لوگ جھوٹے ہیں(63:1)
درود
انَّ اللَّهَ وَمَلَائِكَتَهُ يُصَلُّونَ عَلَى النَّبِيِّ يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا صَلُّوا عَلَيْهِ وَسَلِّمُوا تَسْلِيمًا (33:56)
بیشک اللہ اور ا س کے (سب) فرشتے نبیِ (مکرمّ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) پر درود بھیجتے رہتے ہیں، اے ایمان والو! تم (بھی) اُن پر درود بھیجا کرو اور خوب سلام بھیجا کرو(33:56)
قران سے ہدایت
(جیسے) اس سے قبل لوگوں کی رہنمائی کے لئے (کتابیں اتاری گئیں) اور (اب اسی طرح) اس نے حق اور باطل میں امتیاز کرنے والا (قرآن) نازل فرمایا ہے، بیشک جو لوگ اﷲ کی آیتوں کا انکار کرتے ہیں ان کے لئے سنگین عذاب ہے، اور اﷲ بڑا غالب انتقام لینے والا ہے (3:4)
قران سے ہدایت حاصل کیجئے۔ اللہ تعالی اور قرآن کہ ہم تک رسول پاک کی زبان اور سنت کے ذریعے پہنچا ہی ہدایت کا سرچشمہ ہے۔[186]
رفع یدین اور صَلَاة میں فروعی اختلافات
ایک بہت بڑا مسلہ مومنین میں رفع یدین ،جماعت میں امام کے پیچھے جھری نمازوں میں سورہ فاتحہ کی تلاوت ، آمین بلند یا کم آواز میں کہنا ہے، ہاتھ باندھنا یا چھوڑنا وغیرہ - یہ سب کچھ قرآن سے نہیں سنت رسول اللہ ﷺ سے ہم تک پہنچا ہے- کسی ںے اپنی طرف سے بدعة[187] شامل نہیں کی نہ ہی کر سکتا ہے- اس لئے اپنی اپنی قابل قبول احادیث اور دوسروں منسوخ سمجھنے کی بنیاد پر مباحث ، طعنہ و تشنیع، فتوے جاری کرنا ماسوا علمی مغالطے ، کم فہمی اور اسلام کی روح کو نہ سمجھنے کی وجہ سے ہیں- کیا جو احادیث دو تین صدی بعد لکھی گیں جب کہ چاروں فقہ پہلے وجود میں آ چکے تھے- کیا وہ شخص جو پہلی صدی ہجرہ میں پیدا ہوا، کچھ صحابہ سے بھی ملا صَلَاة کے متعلق جو دن میں پانچ مرتبہ پڑھی جاتی ہے بہتر جانتا ہے یا صدیوں بعد والے؟ کتب احادیث لکھنے والوں پر وحی نازل نہیں ہوتی تھی،ان کو اللہ یا رسول اللہ ﷺ ںے اس کام کا اختیار[188] نہیں دیا تھا- دین اسلام خوابوں[189] کی بنیاد پر نہیں کھڑا، مسیحیت کو یہ اعزاز حاصل ہے کہ خوابوں کی بنیاد پر خنزیر اور حرام کو حلال کر دیا، پال خواب سے حواری بن کرپھر شریعت منسوخ کر دیتا ہے- وہ اگر متقی اور نیک لوگ تھے لیکن انسان ہی تو تھے اور کوئی انسان ما سوا رسول اللہ ﷺ کے دین میں غلطی سے مبرا نہیں ہو سکتا نہ معصوم الخطا:
(قَالَ لَمْ نَرَ الصَّالِحِينَ فِي شَيْئٍ أَکْذَبَ مِنْهُمْ فِي الْحَدِيثِ) "..نیک لوگوں کا جھوٹ حدیث میں کذب سے بڑھ کر کسی بات میں نہیں دیکھا" [صحیح مسلم, حدیث: 40][190]
اگر وہ "الصَّالِحِينَ" اپنے مسلک اور نظریات کے مطابق احادیث کا انتخاب کرتے ہیں باقی مسترد یا شامل نہیں کرتے دانستہ یا غیر دانستہ طور پر (واللہ اعلم) تو ہم ان کتب کو قرآن کا درجہ کیسے دے سکتے ہیں جبکہ 'احکام القران" سنت رسول اللہ ﷺ ، حدیث رسول اللہ ﷺ ، سنت خلفاء راشدین ، سنت صحابہ اکرام نے کتب حدیث مدون کرنے کی ممانعت فرمائی تھی جس پر پہلی صدی میں مکمل عمل ہوا- رسول اللہ ﷺ کے حکم پر جید صحابہ ، مفسرین قرآن ، عالم دین اور ہزاروں احادیث کے حافظ، راویان ومحدثین جنہوں نے مرتے دم تک عمل کیا، نہ حدیث لکھی نہ کتاب لکھی اور منع فرماتے رہے کہ وہ حکم رسول اللہ ﷺ کے پابند تھے- حضرت ابو ھریرہ(5374 احادیث)[191]، عبدللہ بن عبّاس رض(2660) ، عبدللہ بن مسعود[192]رض( 800) [193]، عبداللہ بن عمررض (2630) ، زيد بن ثابترض، کاتب وحی (92)، ابو سعید خضریرض [194] ( احادیث 1170) (رضی الله تعالی عنہم ) اگریہ صحابہ حدیث کی کتب لکھتے تو وہ مصدقہ ہوتیں جبکہ دوسرے راوی بھی زندہ تھے، اس طرح سے وہ ہزاروں احادیث حفظ کرنے کی مشکل سے بچ جاتے - اگر ان صحابہ اکرام کو حدیث کی کتب لکھنے پر پابندی کا علم نہ تھا تو ان کی احادیث کیسے قبول ہو سکتی ہیں؟ ان کی احادیث نکال دیں تو باقی کیا رہ جاتا ہے؟[195] اور زید بن ثابت (رضی الله) تو کاتب وحی اور قرآن مدون کرنے والے ہیں ، پھران کا مدون کردہ قرآن کیسے قبول کریں گے؟ بہت صحابہ تو حدیث لکھنا بھی مکروہ سمجھتے تھے، کچھ کو حافظہ کمزوری پر اجازت ملی کچھ کو انکار۔ ان عظیم صحابہ اکرام کی سنت و عمل شہادت دیتے ہیں کہ کتاب حدیث مدون کرنا ممنوع ہے- اور آج احادیث کی بنیاد پر تفرقہ کا فساد اور فتنہ پیدا کیا جاتا ہے جبکہ قرآن موجود ہے اور میں سے منع فرماتا ہے-
اگر یہ بہت اہم ہوتا توجہاں ، وضو ، تیمم کا طریقہ بتلایا ، صَلَاة کا طریقہ بھی اللہ قرآن میں بیان فرما دیتا یا رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین لکھوا دیتے مگر ایسا نہیں کیا- کیا سب بے عقل اور لا علم تھے؟ (استغفر اللہ). ہم بے عقل اور لا علم ہیں جو اتنی سی بات نہیں سمجھ پاتے کہ یہ ہمارا امتحان ہے کہ اختلافات میں قرآن اور سنت رسول اللہ ﷺ کو نظر انداز کر کہ خود منصف بن کر فیصلے کرنا شروع کر دیتے ہیں- جبکہ اختلافات کا آخری فیصلہ اللہ نے یوم حشر کو کرنا ہےہم کو نیکیوں میں ایک دوسرے پر سبقت کا حکم ہے:
" --- اس نے یہ اس لیے کیا کہ جو کچھ اس نے تم لوگوں کو دیا ہے اس میں تمہاری آزمائش کرے، لہٰذا بھلائیوں میں ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کی کوشش کرو۔ آخر کار تم سب کو اللہ کی طرف پلٹ کر جانا ہے ؟ پھر وہ تمہیں اصل حقیقت بتا دے گا جس میں تم اختلاف کرتے رہے ہو۔ (قرآن 5:48[196] )
جس تک جو سنت پہنچی ہے تحقیق سے جس پر مطمئن ہو وہ اس کی صراط مستقیم کے اندر اپنی لین (lane[197]) ہے- سب مومنین صراط مستقیم میں اپنی اپنی لین (lane) میں چلیں منزل ایک ہے-
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ 43)
"صراط مستقیم" راستہ ہے اور راستہ چوڑا ہوتا ہے "خط مستقیم" ایک سیدھی لکیر، یا لائن ہوتی ہے- بہت سارے متوازی خطوط مستقیم (لین) مل کر سیدھا راستہ بناتے ہیں لیکن تمام خطوط متوازی ہوتے ہیں- اگر لاہور- اسلام آباد موٹر وے کی مثال لیں تو تین لین متوازی ہیں، جس لین پر بھی سفر کریں وہ اسلام آباد ہے جاتی ہے- لیکن اگر ایسی لین پر چلیں جوکہیں خروج (exit) کرتی ہے تو پھر کسی اور طرف پہنچیں گے نہ کہ اسلام آباد- اگر کوئی شخص یا افراد صرف اپنی لین کی درستی پر اصرار کرتا ہے اور دوسری اسی سمت میں متوازی لینزکوغلط سمجھتا ہے اور جھگڑتا ہے ان کو زبرسستی اپنی پسندیدہ لین میں شامل کرنے پر اصرار کرتا ہے تو وہ فتنہ و فساد و تفرقہ پیدا کرتا ہے- قرآن کے واضح احکامات اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کو چھوڑ کر جو لوگ تاویلات سےنئے نئے غیر متوازی خطوط، لین ایجاد کرتے ہیں وہ صراط مستقیم سے ہٹ کر، نافرمانی اور گمراہی کے راستہ پر بھٹک جاتے ہیں-
رفع یدین پر مزید تفصیل اس لنک[198] پر...
انسان کی دو ہی حالتیں ہوتی ہیں آرام اور راحت (نعمت) یا تکلیف و پریشانی۔ نعمت میں شکر الہی کی تلقین اور تکلیف میں صبر اور اللہ سے مدد کی تاکید ہے۔: "مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے اسے خوشی پہنچتی ہے تو اللہ کا شکر ادا کرتا ہے اور تکلیف پہنچتی ہے تو صبر کرتا ہے۔ دونوں ہی حالتیں اس کے لئے خیر ہیں۔" (صحیح مسلم) صبر کی دو قسمیں ہیں، برے کام کے ترک اور اس سے بچنے پر صبر اور لذتوں کے قربان اور عارضی فائدوں کے نقصان پر صبر۔ دوسرا احکام الٰہی کے بجا لانے میں جو مشکلیں اور تکلیفیں آئیں، انہیں صبر اور ضبط سے برداشت کرنا۔ بعض لوگوں نے اس کو اس طرح تعبیر کیا ہے۔ اللہ کی پسندیدہ باتوں پر عمل کرنا چاہے وہ نفس اور بدن پر کتنی ہی گراں ہوں اور اللہ کی ناپسندیدگی سے بچنا چاہیے اگرچہ خواہشات و لذات اس کو اس کی طرف کتنا ہی کھنچیں۔ (ابن کثیر) .
صبر اور صَلَاة کا اکٹھا ذکر کرنے سے مسلمانوں کو تلقین کی جارہی ہے کہ دین حق کے راستے میں یہ آزمائشیں تو پیش آنی ہیں، ایک مومن کا کام یہ ہے کہ وہ اللہ تعالیٰ کی مشیت پر راضی رہ کر صبر کا مظاہرہ کرے، واضح رہے کہ صبر کا مطلب یہ نہیں ہے کہ انسان کسی تکلیف یا صدمہ پر روئے نہیں، صدمے کی بات پر رنج کرنا انسان کی فطرت میں داخل ہے اس لئے شریعت نے اس پر کوئی پابندی نہیں لگائی، جو رونا بے اختیار آجائے وہ بھی بے صبری میں داخل نہیں، البتہ صبر کا مطلب یہ ہے کہ صدمے کے باوجود اللہ تعالیٰ سے کوئی شکوہ نہ ہو ؛ بلکہ اللہ تعالیٰ کے فیصلے پر انسان عقلی طور پر راضی رہے، اس کی مثال ایسی ہے جیسے کوئی ڈاکٹر آپریشن کرے توانسان کو تکلیف تو ہوتی ہے اور بعض اوقات اس تکلیف کی وجہ سے انسان بیساختہ چلا بھی اٹھتا ہے ؛ لیکن اسے ڈاکٹر سے شکایت نہیں ہوتی ؛ کیونکہ اسے یقین ہے کہ وہ جو کچھ کررہا ہے اس کی ہمدردی میں اور اس کی مصلحت کی خاطر کررہا ہے۔
.وَاسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَالصَّلٰوۃِ وَ اِنَّھَا لَکَبِیْرَۃٌ اِلاَّ عَلَی الْخٰشِعِیْنَ. (سورۃ البقرۃ (2:45)[199]
’’اور (رنج و تکلیف میں ) صبر اور نماز سے مدد لیا کرو اور بے شک نماز گراں ہے مگر ان لوگوں پر (گراں نہیں ) جو عجز و انکساری کرنے والے ہیں۔‘‘
5 ۔ .یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ. (سورۃ البقرۃ (2:153)
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد لیا کرو،بے شک اللہ تعالیٰ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
اس آیت میں اللہ تعالیٰ حکم فرماتا ہے کہ تم دنیا و آخرت کے کاموں پر نماز اور صبر کے ساتھ مدد طلب کیا کرو، فرائض کو بجا لاؤ اور نماز کو ادا کرتے رہو، روزہ رکھنا بھی صبر کرنا ہے،اسی لیے رمضان کو صبر کا مہینا کہا گیا ہے۔ صبر سے مراد گناہوں سے رُک جانا بھی ہے۔
حضرت سعید بن مسیب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ انسان کا ہر چیز کے اللہ کی طرف سے ہونے کا اقرار کرنا،ثواب کا طلب کرنا اوراللہ تعالیٰ کے پاس مصیبتوں کے اجر کا ذخیرہ سمجھنا صبر ہے۔اللہ تعالیٰ کی مرضی کے کام پر صبر کرو اور اسے بھی اللہ تعالیٰ کی اطاعت سمجھو،اس سے نیکیوں کے کاموں پر بڑی مدد ملتی ہے۔[تفسیر ابن کثیر (۱/ ۱۰۶ )]
سورۃ الکوثر (آیت:۲،۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَصَلِّ لِرَبِّکَ وَانْحَرْ . اِنَّ شَانِئَکَ ھُوَ الْاَبْتَرُ.: ’’اپنے پروردگار کے لیے نماز پڑھا کرو اور قربانی کیا کرو۔کچھ شک نہیں کہ تمھارا دشمن ہی بے اولاد رہے گا۔‘‘
یعنی نماز بھی صرف ایک اللہ کے لیے اور قربانی بھی صرف ایک اللہ کے نام پر۔ مشرکین کی طرح ان میں دوسروں کو شریک نہ کر۔
جب نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد نرینہ زندہ نہ رہی تو بعض کفار نے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو ’’ابتر‘‘ کہا،جس پر اللہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو تسلی دی کہ ابتر تو نہیں،تیرے دشمن ہی ہونگے،چنانچہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی نسل کو باقی رکھا،گو اس کا سلسلہ لڑکی کی طرف سے ہی ہے۔اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی امت بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی اولادِ معنوی ہی ہے،جس کی کثرت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قیامت والے دن فخر کریں گے،علاوہ ازیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا ذکر پوری دنیا میں نہایت عزت و احترام سے لیا جاتا ہے،جبکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے بغض و عناد رکھنے والے صرف صفحاتِ تاریخ پر ہی موجود رہ گئے ہیں،لیکن کسی دل میں ان کا احترام نہیں اور کسی زبان پر اچھے لفظوں میں ان کا ذکر نہیں۔
سورۃ الاخلاص (آیت:۱ تا ۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
بِسْمِ اللّٰہِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْم.قُلْ ھُوَ اللّٰہُ اَحَدٌ . اَللّٰہُ الصَّمَدُ . لَمْ یَلِدْ وَلَمْ یُوْلَدْ . وَلَمْ یَکُنْ لَّـہٗ کُفُوًا اَحَدٌ.
شروع اللہ کا نام لے کر جو بڑا مہربان نہایت رحم والا ہے۔’’کہو کہ وہ (ذاتِ پاک جس کا نام) اللہ (ہے) ایک ہے۔(وہ) معبودِ برحق جو بے نیاز ہے۔وہ نہ کسی کا باپ ہے اور نہ کسی کا بیٹا۔اورکوئی اس کا ہمسر نہیں۔‘‘
سورۃ الاخلاص مختصر سی ہے،مگر بڑی فضیلت کی حامل ہے۔اسے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ثلث (ایک تہائی) قرآن قرار دیا ہے اور اسے رات کو پڑھنے کی ترغیب دی ہے۔[200]
بعض صحابہ رضی اللہ عنہم ہر رکعت میں دیگر سورتوں کے ساتھ اسے بھی ضرور پڑھتے تھے۔جس پر نبیِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں فرمایا:
’’تمھاری اس کے ساتھ محبت تمھیں جنت میں داخل کردے گی۔‘‘[201]
.وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ طَرَفَیِ النَّھَارِ وَ زُلَفًا مِّنَ الَّیْلِ اِنَّ الْحَسَنٰتِ یُذْھِبْنَ السَّیِّاٰتِ ذٰلِکَ ذِکْرٰی لِلذّٰکِرِیْنَ . وَ اصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ.سورت ھود (آیت:۱۱۴،۱۱۵) میں فرمایا:
’’اور دن کے دونوں سروں (صبح اور شام کے اوقات میں ) اور رات کی کئی ساعات میں بھی نماز پڑھا کرو،کچھ شک نہیں کہ نیکیاں گناہوں کو دُور کر دیتی ہیں۔یہ ان کے لیے نصیحت ہے جو نصیحت قبول کرنے والے ہیں اور صبر کیے رہو کہ اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘
زحضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ دن کے دونوں سروں سے مراد صبح کی اور مغرب کی نماز ہے۔قتادہ اور ضحاک رحمہم اللہ کا قول ہے کہ پہلے سرے سے مراد صبح کی نماز اور دوسرے سرے سے مراد ظہر اور عصر کی نماز ہے۔رات کی گھڑیوں سے مراد عشا کی نماز ہے۔اور بقولِ مجاہد رحمہ اللہ مغرب و عشا کی نیکیوں کا کرنا گناہوں کا کفارہ ہوجاتا ہے۔
سنن میں ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’جس مسلمان سے کوئی گناہ ہو جائے،پھر وہ وضو کر کے دو رکعت نماز پڑھ لے تو اللہ تعالیٰ اس کے گناہ معاف کر دیتا ہے۔‘‘
ایک مرتبہ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ نے وضو کیا پھر فرمایا:اسی طرح میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو وضو کرتے دیکھا ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو میرے اس وضو جیسا وضو کرے گا،پھر دو رکعت نماز ادا کرے،جس میں اپنے دل سے باتیں نہ کرے تو اس کے تمام اگلے گناہ معاف کر دیے جاتے ہیں۔‘‘[202]
سورۃ الاعراف (آیت:۲۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قُلْ اَمَرَ رَبِّیْ بِالْقِسْطِ وَ اَقِیْمُوْا وُجُوْھَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّ ادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ کَمَا بَدَأَکُمْ تَعُوْدُوْنَ.
’’کہہ دو کہ میرے رب نے تو انصاف کرنے کا حکم دیا ہے اور یہ کہ ہر نماز کے وقت سیدھا (قبلے کی طرف) رخ کیا کرو اور خاص اسی کی عبادت کرو اور اُسی کو پکارو،اُس نے جس طرح تمھیں ابتدا میں پیدا کیا تھا،اُسی طرح تم پھر پیدا ہو گے۔‘‘
امام شوکانی نے اس کا مطلب یہ بیان کیا ہے کہ اپنی نمازوں میں اپنا رخ قبلے کی طرف کرلو،چاہے تم کسی بھی مسجد میں ہو۔‘‘ امام ابن کثیر نے اس سے استقامت بہ معنیٰ متابعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم مراد لی ہے اور اگلے جملے سے اخلاص للہ مراد لیا اور کہا ہے کہ ہر عمل کی مقبولیت کے لیے ضروری ہے کہ وہ شریعت کے مطابق ہو اور خالص رضاے الٰہی کے لیے ہو۔اس آیت میں ان ہی باتوں کی تاکید کی گئی ہے۔
سورۃ الاعراف (آیت:۳۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ.
’’اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنے آپ کو مزین کیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور بے جا نہ اڑاؤ کہ اللہ بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
’’اِسْرَافٌ‘‘ (حد سے نکل جانا) کسی چیز میں حتیٰ کہ کھانے پینے میں بھی ناپسندیدہ ہے۔ایک حدیث میں نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’جو چاہو کھائو،جو چاہو پیو اور جو چاہو پہنو،البتہ دو باتوں سے گریز کرو:اسراف اور تکبر سے۔‘[صحیح البخاري،کتاب اللباس (۵۷۸۳)]
بعض ائمہ سلف کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آدھی آیت.کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا.میں ساری طب جمع فرما دی ہے۔[تفسیر ابن کثیر اردو (۲/ ۱۵۷)]
سورۃ الانعام (آیت:۷۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اَنْ اَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اتَّقُوْہُ وَ ھُوَ الَّذِیْٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ.
’’اور یہ (بھی) کہ نماز پڑھتے رہو اور اس سے ڈرتے رہو اور وہی تو ہے،جس کے پاس تم جمع کیے جاؤ گے۔‘‘
جب یہ آیت نازل ہوئی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نے ظلم کا عام مطلب (کوتاہی اور غلطی،گناہ اور زیادتی وغیرہ) سمجھا،جس سے وہ پریشان ہوگئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں آکر کہنے لگے:ہم میں سے کو ن شخص ایسا ہے جس نے ظلم (گناہ) نہ کیا ہو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’اس ظلم سے مراد وہ ظلم نہیں جو تم سمجھ رہے ہو،بلکہ اس سے مراد شرک ہے،جس طرح حضرت لقمان علیہ السلام نے (سورت لقمان:۱۳) اپنے بیٹے کو کہا:
.اِنَّ الشِّرْکَ لَظُلْمٌ عَظِیْمٌ.’’یقینا شرک ظلمِ عظیم ہے۔‘‘[203]
سورۃ الجمعہ (آیت:۹،۱۰،۱۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نُوْدِیَ لِلصَّلٰوۃِ مِنْ یَّوْمِ الْجُمُعَۃِ فَاسْعَوْا اِلٰی ذِکْرِ اللّٰہِ وَذَرُوا الْبَیْعَ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ . فَاِذَا قُضِیَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِی الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللّٰہِ وَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ . وَاِذَا رَاَوْا تِجَارَۃً اَوْ لَھْوًانِ انْفَضُّوْٓا اِلَیْھَا وَتَرَکُوْکَ قَآئِمًا قُلْ مَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ مِّنَ اللَّھْوِ وَمِنَ التِّجَارَۃِ وَاللّٰہُ خَیْرُ الرّٰزِقِیْنَ.
’’مومنو! جب جمعے کے دن نماز کے لیے اذان دی جائے تو اللہ کی یاد (نماز) کے لیے جلدی کرو اور (خرید و) فروخت ترک کر دو،اگر سمجھو تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔پھر جب نماز ہو چکے تو اپنی اپنی راہ لو اور اللہ کا فضل تلاش کرو اور اللہ کو بہت بہت یاد کرتے رہو،تاکہ نجات پاؤ۔اور جب یہ لوگ سودا بِکتا یا تماشا ہوتا دیکھتے ہیں تو ادھر بھاگ جاتے ہیں اور تمھیں (کھڑے کا) کھڑا چھوڑ جاتے ہیں،کہہ دو کہ جو چیز اللہ کے ہاں ہے،وہ تماشے اور سودے سے کہیں بہتر ہے اور اللہ سب سے بہتر رزق دینے والا ہے۔‘‘
اللہ کے فضل سے مراد کاروبار اور تجارت ہے،یعنی نمازِ جمعہ سے فارغ ہو کر تم اپنے اپنے کاروبار اور دنیا کے مشاغل میں مصروف ہو جائو،مقصد اس امر کی وضاحت ہے کہ جمعے کا سارا دن کاروبار بند رکھنے کی ضرورت نہیں،صرف نماز کے وقت ایسا کرنا ضروری ہے۔[204]
سورۃ الانعام (آیت:۱۴۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ ھُوَ الَّذِیْٓ اَنْشَاَ جَنّٰتٍ مَّعْرُوْشٰتٍ وَّ غَیْرَ مَعْرُوْشٰتٍ وَّ النَّخْلَ وَ الزَّرْعَ مُخْتَلِفًا اُکُلُہٗ وَ الزَّیْتُوْنَ وَ الرُّمَّانَ مُتَشَابِھًا وَّ غَیْرَ مُتَشَابِہٍ کُلُوْا مِنْ ثَمَرِہٖٓ اِذَآ اَثْمَرَ وَ اٰتُوْا حَقَّہٗ یَوْمَ حَصَادِہٖ وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ.
’’اور اللہ ہی تو ہے جس نے باغ پیدا کیے،چھتریوں پر چڑھائے ہوئے بھی اور چھتریوں پر نہیں چڑھائے ہوئے وہ بھی اور کھجور اور کھیتی جن کے طرح طرح کے پھل ہوتے ہیں اور زیتون اور انار جو (بعض باتوں میں ) ایک دوسرے سے ملتے جلتے ہیں اور (بعض باتوں میں ) نہیں ملتے،جب یہ چیزیں پھلیں تو اُن کے پھل کھاؤ اور جس دن (پھل توڑو اور کھیتی) کاٹو تو اللہ کا حق بھی اُس میں سے ادا کرو اور بے جا نہ اڑانا کہ اللہ بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
جب کھیتی سے غلہ کاٹ کر صاف کرلو اور پھل درختوں سے توڑ لو تواس کا حق ادا کرو۔اس حق سے مراد علما کے نزدیک نفلی صدقہ ہے اور بعض کے نزدیک صدقہ واجبہ یعنی عُشر (دسواں حصہ) اگر زمین بارانی ہو یا نصفِ عشر (بیسواں حصہ) اگر زمین کنویں،ٹیوب ویل یا نہری پانی سے سیراب کی جاتی ہے۔ لیکن صدقہ خیرات میں بھی حد سے تجاور نہ کرو۔ایسا نہ ہو کل کو تم ضرورت مند ہو جائو۔
بعض کہتے ہیں اس کا تعلق حکام سے ہے۔ یعنی صدقات اور زکات کی وصولی میں حد سے تجاور نہ کرو۔امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ سیاقِ آیت کی رو سے زیادہ صحیح یہ بات لگتی ہے کہ کھانے میں اسراف مت کرو،کیوں کہ بسیار خوری عقل اور جسم کے لیے مضر ہے۔کئی دوسرے مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں اسراف سے منع فرمایا ہے،جس سے واضح ہوتا ہے کہ کھانے پینے میں بھی اعتدال بہت ضروری ہے اور اس سے تجا وز اللہ کی نافرمانی ہے۔
.وَاتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لَا یُقْبَلُ مِنْھَا عَدْلٌ وَّ لَا تَنْفَعُھَا شَفَاعَۃٌ وَّ لَا ھُمْ یُنْصَرُوْنَ. [سورۃ البقرۃ 2:123][205]
’’اور اس دن سے ڈرو جب کوئی شخص کسی شخص کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ اس سے کوئی بدلہ قبول کیا جائے گا اور نہ اس کو کسی کی سفارش کچھ فائدہ دے گی اور نہ لوگوں کو (کسی اور طرح کی) مدد مل سکے گی۔‘‘سورۃ البقرۃ 2:123]
سفارش ، شفاعت کا بہت غلط نظریہ مسلمانوں میں مشہور ہے اور وہ گناہ کرتے رہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ کی شفاعت سے جہنم سے محفوظ ہوں گے- یہ درست نہیں شفاعت صرف الله تعالی کی اجازت سے مشروط ہے (قرآن 2:255)[206] اور رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ جب گناہگار کوئلہ بن چکے ہوں گے (یعنی کافی سزا بھگت چکے) تو شفاعت کی اجازت ملے گی“( مسلم حدیث: 459[207]) لیکن بددیانت ، جن پر سونے چاندی، مال کا بوجھ ہو گا رسول اللہ ﷺ ان کی شفاعت سے انکار کریں گے (البخاری، 3073)[208] (مزید تفصیل[209])
.وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَۃً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًا وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰھٖمَ مُصَلًّی وَ عَھِدْنَآ اِلٰیٓ اِبْرٰھٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَھِّرَا بَیْتِیَ لِطَّآئِفِیْنَ وَ الْعٰکِفِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ. [سورۃ البقرہ (2:125)[210] ]
’’اور جب ہم نے خانہ کعبہ کو لوگوں کے جمع ہونے اور امن پانے کی جگہ مقرر کیا اور (حکم دیا کہ) جس مقام پر ابراہیم کھڑے ہوئے تھے اس کو نماز کی جگہ بنا لو اور ابراہیم اور اسماعیل کو کہا کہ طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے میرے گھر کو پاک صاف رکھا کرو۔‘‘
.حٰفِظُوْا عَلَی الصَّلَوٰتِ وَ الصَّلٰوۃِ الْوُسْطٰی وَ قُوْمُوْا لِلّٰہِ قٰنِتِیْنَ. [سورۃ البقرۃ (آیت:۲۳۸)]
’’(مسلمانو) سب نمازیں خصوصاً درمیانی نماز پورے التزام کے ساتھ ادا کرتے رہو اور اللہ کے آگے ادب سے کھڑے رہا کرو۔‘‘
درمیان والی نماز سے مراد عصر کی نماز ہے،جس کو اُس حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے متعین کر دیا ہے جس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خندق والے دن عصر کی نماز کو ’’صلاۃ الوسطی‘‘ قرار دیا تھا۔[صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۹۳۱) صحیح مسلم رقم الحدیث (۲۰۵۔۶۲۷)]
.فَاِنْ خِفْتُمْ فَرِجَالًا اَوْ رُکْبَانًا فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَمَا عَلَّمَکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَ .[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۳۹)]
’’اگر تم خوف کی حالت میں ہو تو پیادے یا سوار (جس حال میں ہو نماز پڑھ لو) پھر جب امن (اطمینان) ہو جائے تو جس طریق سے اللہ نے تمھیں سکھایا ہے،جو تم پہلے نہیں جانتے تھے،اللہ کو یاد کرو۔‘‘
یعنی دشمن سے خوف کے وقت جس طرح بھی ممکن ہے،پیادہ چلتے ہوئے اور سواری پر بیٹھے ہوئے نماز پڑھ لو۔تاہم جب خوف کی حالت ختم ہو جائے تو اسی طرح نماز پڑھو،جس طرح تمھیں سکھلایا گیا ہے۔
.وَ اِذَا کُنْتَ فِیْھِمْ فَاَقَمْتَ لَھُمُ الصَّلٰوۃَ فَلْتَقُمْ طَآئِفَۃٌ مِّنْھُمْ مَّعَکَ وَلْیَاْخُذُوْٓا اَسْلِحَتَھُمْ فَاِذَا سَجَدُوْا فَلْیَکُوْنُوْا مِنْ وَّرَآئِکُمْ وَلْتَاْتِ طَآئِفَۃٌ اُخْرٰی لَمْ یُصَلُّوْا فَلْیُصَلُّوْا مَعَکَ وَلْیَاْخُذُوْا حِذْرَھُمْ وَ اَسْلِحَتَھُمْ وَدَّ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا لَوْ تَغْفُلُوْنَ عَنْ اَسْلِحَتِکُمْ وَ اَمْتِعَتِکُمْ فَیَمِیْلُوْنَ عَلَیْکُمْ مَّیْلَۃً وَّاحِدَۃً وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ کَانَ بِکُمْ اَذًی مِّنْ مَّطَرٍ اَوْ کُنْتُمْ مَّرْضٰٓی اَنْ تَضَعُوْٓا اَسْلِحَتَکُمْ وَ خُذُوْاحِذْرَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابًا مُّھِیْنًا.[سورۃ النساء (آیت:۱۰۲)]
’’اور (اے پیغمبر!) جب تم ان (مجاہدین کے لشکر) میں ہو اور ان کو نماز پڑھانے لگو تو چاہیے کہ ان کی ایک جماعت تمھارے ساتھ مسلح ہو کر کھڑی رہے؟ جب وہ سجدہ کر چکیں تو پرے ہو جائیں پھر دوسری جماعت جس نے نماز نہیں پڑھی (ان کی جگہ) آئے اور ہوشیار اور مسلح ہو کر تمھارے ساتھ نماز ادا کرے۔کافر اس گھات میں ہیں کہ تم ذرا اپنے ہتھیاروں اور سامانوں سے غافل ہو جاؤ تو تم پر یک بارگی حملہ کر دیں۔اگر تم بارش کے سبب تکلیف میں یا بیمار ہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ہتھیار اتار رکھو،مگر ہوشیار ضرور رہنا۔اللہ نے کافروں کے لیے ذلت آمیز عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
اگر کافروں کی فوج مقابلے میں ہو تو مسلمانوں کی فوج دو حصے ہوجائے،ایک حصہ آدھی نماز پڑھ کر دشمن کے مقابلے میں کھڑا ہو جائے،دوسرا حصہ آکر امام کے ساتھ آدھی نماز پڑھے۔امام کے سلام کے بعد دونوں جماعتیں اپنی آدھی نماز جدا جدا پڑھ لیں۔[تفسیر ابن کثیر (۱/ ۶۱۱)]
اس آیت میں صلاۃ الخوف کی اجازت بلکہ حکم دیا جا رہا ہے۔’’صلاۃ الخوف‘‘ کے معنیٰ ’’خوف کی نماز‘‘ ہیں۔ یہ اس وقت مشروع ہے،جب مسلمان اور کافروں کی فوجیں ایک دوسرے کے مقابل جنگ کے لیے تیار کھڑی ہوں تو ایک لمحے کی غفلت مسلمانوں کے لیے خطرناک ثابت ہوسکتی ہے،ایسے حالات میں اگر نماز کا وقت ہو جائے تو صلاۃ الخوف پڑھنے کا حکم ہے،جس کی مختلف صورتیں بیان کی گئی ہیں ۔
مثلاً فوج دو حصوں میں تقسیم ہوگئی،ایک حصہ دشمن کے بالمقابل کھڑا رہا تاکہ کافروں کو حملہ کرنے کی جسارت نہ ہو اور ایک حصے نے آکر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نماز پڑھی،جب یہ حصہ نمازسے فارغ ہو گیا تو یہ پہلے کی جگہ مورچہ زن ہو گیا اور مورچہ زن پہلے والا گروہ نماز کے لیے آگیا۔
بعض روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں حصوں کو ایک ایک رکعت پڑھائی،اس طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دو رکعت اور باقی فوجیوں کی ایک ایک رکعت ہوئی۔[ أحسن البیان (ص: ۲۱۲)]
1. .قَدْ نَرٰی تَقَلُّبَ وَجْھِکَ فِی السَّمَآئِ فَلَنُوَلِّیَنَّکَ قِبْلَۃً تَرْضٰھَا فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ وَ اِنَّ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ لَیَعْلَمُوْنَ اَنَّہُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّھِمْ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا یَعْمَلُوْنَ وَ لَئِنْ اَتَیْتَ الَّذِیْنَ اُوْتُوْا الْکِتٰبَ بِکُلِّ اٰیَۃٍ مَّا تَبِعُوْا قِبْلَتَکَ وَ مَآ اَنْتَ بِتَابِعٍ قِبْلَتَھُمْ وَ مَا بَعْضُھُمْ بِتَابِعٍ قِبْلَۃَ بَعْضٍ وَ لَئِنِ اتَّبَعْتَ اَھْوَآئَ ھُمْ مِّنْم بَعْدِ مَا جَآئَ کَ مِنَ الْعِلْمِ اِنَّکَ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ. [سورۃ البقرۃ 2:125,124)]
’’(اے نبی!) ہم تمھارا آسمان کی طرف منہ پھیرپھیر کر دیکھنا دیکھ رہے ہیں پس ہم تمھیں اسی قبلے کی طرف جس کو تم پسند کرتے ہو،منہ کرنے کا حکم دیں گے۔تو اپنا منہ مسجد حرام (خانہ کعبہ) کی طرف پھیر لو اور تم لوگ جہاں ہوا کرو (نماز کے وقت) اسی مسجد کی طرف منہ کر لیا کرو اور جن لوگوں کو کتاب دی گئی ہے،وہ خوب جانتے ہیں کہ (نیا قبلہ) اُن کے رب کی طرف سے حق ہے اور جو کام یہ لوگ کرتے ہیں اللہ تعالیٰ اُن سے بے خبر نہیں ہے۔اور اگر تم ان اہل کتاب کے پاس تمام نشانیاں بھی لے کر آؤ تو بھی یہ تمھارے قبلے کی پیروی نہ کریں اور تم بھی اُن کے قبلے کی پیروی کرنے والے نہیں ہو اور اُن میں سے بھی بعض بعض کے قبلے کے پیرو نہیں ہیں اور اگر تم باوجود اس کے کہ تمھارے پاس دانش (اللہ کی وحی) آ چکی ہے،اُن کی خواہشوں کے پیچھے چلو گے تو ظالموں میں (داخل) ہو جاؤ گے۔‘‘ [سورۃ البقرۃ 2:125,124) [211]
2۔ .وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِنَّہٗ لَلْحَقُّ مِنْ رَّبِّکَ وَ مَا اللّٰہُ بِغَافِلٍ عَمَّا تَعْمَلُوْنَ وَ مِنْ حَیْثُ خَرَجْتَ فَوَلِّ وَجْھَکَ شَطْرَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ حَیْثُ مَا کُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ شَطْرَہٗ لِئَلَّا یَکُوْنَ لِلنَّاسِ عَلَیْکُمْ حُجَّۃٌ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِیْ وَ لِاُتِمَّ نِعْمَتِیْ عَلَیْکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ. [2:149,150]
’’اور تم جہاں سے نکلو (نماز میں ) اپنا منہ مسجد حرام کی طرف کر لیا کرو،بلاشبہہ وہ تمھارے رب کی طرف سے حق ہے اور تم لوگ جو کچھ کرتے ہو،اللہ اس سے بے خبر نہیں ہے۔اور تم جہاں سے نکلو مسجد محترم کی طرف منہ (کر کے نماز پڑھا) کرو اور مسلمانو! تم جہاں بھی ہوا کرو،اسی (مسجد) کی طرف رخ کیا کرو (یہ تاکید) اس لیے (کی گئی ہے) کہ لوگ تمھیں کسی طرح کا الزام نہ دے سکیں،مگر اُن میں سے جو ظالم ہیں (وہ الزام دیں تو دیں )،سو اُن سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور یہ بھی مقصود ہے کہ میں تمھیں اپنی تمام نعمتیں بخشوں اور یہ بھی کہ تم راہِ راست پر چلو۔‘‘[2:149,150][212]
قبلے کی طرف منہ پھیرنے کا حکم تین مرتبہ دوہرایا گیا،یا تو اس کی تاکید اوراہمیت واضح کرنے کے لیے ،اس لیے ذہنی خلجان دور کرنے کے لیے ضروری تھا کہ اسے بار بار دھرا کر دلوں میں راسخ کر دیا جائے۔ایک علت نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مرضی اور خواہش تھی،وہاں اسے بیان کیا گیا ہے۔دوسری علت ہر اہلِ ملت اور صاحبِ دعوت کے لیے ایک مستقل مرکز کا وجود ہے،وہاں اسے دہرایا۔تیسری،علت مخالفین کے اعتراضات کا ازالہ ہے،اس لیے اسے بیان کیا گیا ہے۔[فتح القدیر و أحسن البیان (ص: ۵۳،۵۴)]
اسلام نے غرباء اور ضرورتمندوں مدد کے لئے اخلاق اور قانون دونوں سے کام لیا ہے۔ زکوٰۃ کی صورت میں نقد اور عشر کی صورت میں زمین سے پیدا ہونے والی اجناس پر مقرر و متعین شرح سے آمدنی کا ایک حصہ صاحب ثروت لوگوں سے قانوناً لیکر ضرورت مندوں کی کفالت کا بندوبست کیا اور یہ کام اسلامی حکومت کے اولین فرائض میں شامل کردیا۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
الَّذِينَ إِن مَّكَّنَّاهُمْ فِي الْأَرْضِ أَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ وَأَمَرُوا بِالْمَعْرُوفِ وَنَهَوْا عَنِ الْمُنكَرِ.
’’وہ لوگ کہ اگر ہم ان کو زمین میں اختیار و اقتدار دیں تو نماز قائم کریں اور زکوٰۃ دیں اور نیکی کا حکم دیں اور برائی سے روکیں‘‘۔(الحج، 22: 41)
توخذ من اغنياهم فترد علی فقرائهم.
’’زکوٰۃ ان کے امیروں سے لی جائے اور ان کے غریبوں پر لوٹا دی جائے گی‘‘۔ (متفق علیہ)
ہر عاقل و بالغ مسلمان، مرد و عورت جو نصابِ شرعی کے مالک ہوں ان پر زکوٰۃ واجب ہے۔ نصابِ شرعی سے مراد سونے چاندی، مالِ تجارت یا روپیے پیسے (کرنسی) کی اتنی مالیت جو ساڑھے سات تولے سونا یا ساڑھے باون تولہ چاندی کے برابر مالیت کے اور ضروریات اصلیہ سے زائد ہو۔ ضروریاتِ اصلیہ میں رہائش، لباس، خوراک، سواری، علاج، تعلیم وغیرہ شامل ہیں۔ اس مال پر سال گزر جائے تو ایسے مال سے اڑھائی فیصد کے حساب سے زکوٰۃ وصول کی جائے گی۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے:
إِنَّمَا الصَّدَقَاتُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْمَسَاكِينِ وَالْعَامِلِينَ عَلَيْهَا وَالْمُؤَلَّفَةِ قُلُوبُهُمْ وَفِي الرِّقَابِ وَالْغَارِمِينَ وَفِي سَبِيلِ اللّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ فَرِيضَةً مِّنَ اللّهِ وَاللّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌO
’’زکوٰۃ تو صرف ان لوگوں کے لئے جو محتاج اور نرے نادار (مسکین) ہوں اور جو اس کی تحصیل پر مقرر ہیں اور جن کے دلوں کو اسلام سے الفت دی جائے (اسلام کی طرف مائل کرنا ہو) اور (مملوکوں کی) گردنیں آزاد کرنے میں اور قرض داروں کو اور اللہ کی راہ اور مسافر کو، یہ ٹھہرایا ہوا (مقرر شدہ) ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ علم و حکمت والا ہے‘‘۔ (التوبة،9:60)[213]
اس آیت مبارکہ میں آٹھ مصارفین کا ذکر موجود ہے:
١.فقراء، ٢.مساکین، ٣ عاملین زکوٰۃ (زکوٰۃ اکٹھی کرنے والے)، ٤ مؤلفۃ القلوب، ٥. غلام کی آزادی، ٦ مقروض
٧ فی سبیل اللہ، ٨ مسافر
قرآن کریم میں زکوٰۃ کے یہ آٹھ مصارف ذکر ہوئے ہیں، احناف کے نزدیک ان میں سے کسی بھی مصرف میں زکوٰۃ دینے سے ادائیگی ہوجائے گی اور دینے والا دینی فریضہ سے سبکدوش ہوجائے گا۔ خواہ ایک پر صرف کرے خواہ دو پر خواہ زیادہ پر یہ اس کے اپنے اختیار میں ہے۔ (واللہ و رسولہ اعلم بالصواب۔
ان مصارفِ ثمانیہ کی مختصر تفصیل حسبِ ذیل ہے:
1،2 فقیر اور مسکین چونکہ قریب قریب ہیں اور ایک کا اطلاق دوسرے پر بھی ہوتا ہے،یعنی فقیر کو مسکین اور مسکین کو فقیر کہہ لیا جاتا ہے،اس لیے ان میں خاصا اختلاف ہے۔مسکین کی تعریف یہ منقول ہے کہ جو گداگر ہو،گھوم پھر کر اور لوگوں کے پیچھے پڑکر مانگتا ہو اور فقیر وہ ہے جو نادار ہونے کے باوجود سوال سے بچے اور لوگوں سے کسی چیز کا سوال نہ کرے۔[217]
3 عاملین سے مراد حکومت کے وہ اہلکار ہیں،جو زکات و صدقات کی وصولی و تقسیم اور اس کے حساب کتاب پر معمور ہوں۔
4 مولفۃ القلوب،ایک تو وہ کافر ہے جو کچھ اسلام کی طرف مائل ہو اور اس کی امداد کرنے پر امید ہو کہ وہ مسلمان ہو جائے گا۔دوسرے وہ نو مسلم افراد ہیں،جن کو اسلام پر مضبوطی سے قائم رکھنے کے لیے امداد دینے کی ضرورت ہو۔تیسرے وہ افراد بھی ہیں،جن کو امداد دینے کی صورت میں یہ امید ہو کہ وہ اپنے علاقے کے لوگوں کو مسلمانوں پر حملہ آور ہونے سے روکیں گے اور اس طرح وہ قریب والے کمزور مسلمانوں کا تحفظ کریں۔
5 گردنیں آزاد کرانے میں۔بعض علما نے اس سے صرف مکاتب غلام مراد لیے ہیں،دیگر علما نے مکاتب وغیر مکاتب ہر قسم کے غلام مراد لیے ہیں۔امام شوکانی رحمہ اللہ نے اسی رائے کو ترجیح دی ہے۔
6 غارمین سے وہ مقروض مراد ہیں جو اپنے اہل و عیال کے نان و نفقہ اور ضروریاتِ زندگی فراہم کرنے میں لوگوں کے زیر بار ہو گئے اور ان کے پاس نقد رقم بھی نہیں ہے اور ایسا سامان بھی نہیں ہے جسے بیچ کر وہ قرض ادا کریں سکیں۔
7 فی سبیل اللہ سے مراد جہاد ہے،یعنی جنگی سامان و ضروریات اور مجاہد ( چاہے وہ مال دار ہی ہو) پر زکات کی رقم خرچ کرنا جائز ہے۔احادیث میں آتا ہے کہ حج و عمرہ بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے۔اسی طرح بعض علما کے نزدیک تبلیغ و دعوت بھی فی سبیل اللہ میں داخل ہے،کیوں کہ اس سے بھی مقصد،جہاد کی طرح اعلاے کلمۃ اللہ ہے۔
8 مسافر،یعنی اگر کوئی مسافر سفر میں مستحقِ امداد ہو گیا ہے،چاہے وہ اپنے گھر یا وطن میں صاحبِ حیثیت ہی ہو،اس کی امداد زکات کی رقم سے کی جا سکتی ہے۔[218]
زکواۃ کا نصاب، ڈھائی فی صد کی کیا دلیل ہے؟[219]
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۸۳ سے ۱۸۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الصِّیَامُ کَمَا کُتِبَ عَلَی الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ اَیَّامًا مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ وَ عَلَی الَّذِیْنَ یُطِیْقُوْنَہٗ فِدْیَۃٌ طَعَامُ مِسْکِیْنٍ فَمَنْ تَطَوَّعَ خَیْرًا فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ وَ اَنْ تَصُوْمُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْن . شَھْرُ رَمَضَانَ الَّذِیْٓ اُنْزِلَ فِیْہِ الْقُرْاٰنُ ھُدًی لِّلنَّاسِ وَ بَیِّنٰتٍ مِّنَ الْھُدٰی وَ الْفُرْقَانِ فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ وَمَنْ کَانَ مَرِیْضًا اَوْ عَلٰی سَفَرٍ فَعِدَّۃٌ مِّنْ اَیَّامٍ اُخَرَ یُرِیْدُ اللّٰہُ بِکُمُ الْیُسْرَ وَ لَا یُرِیْدُ بِکُمُ الْعُسْرَ وَ لِتُکْمِلُوا الْعِدَّۃَ وَ لِتُکَبِّرُوا اللّٰہَ عَلٰی مَا ھَدٰکُمْ وَ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ . وَاِذَا سَاَلَکَ عِبَادِیْ عَنِّیْ فَاِنِّیْ قَرِیْبٌ اُجِیْبُ دَعْوَۃَ الدَّاعِ اِذَا دَعَانِ فَلْیَسْتَجِیْبُوْا لِیْ وَ لْیُؤْمِنُوْا بِیْ لَعَلَّھُمْ یَرْشُدُوْنَ . اُحِلَّ لَکُمْ لَیْلَۃَ الصِّیَامِ الرَّفَثُ اِلٰی نِسَآئِکُمْ ھُنَّ لِبَاسٌ لَّکُمْ وَ اَنْتُمْ لِبَاسٌ لَّھُنَّ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ کُنْتُمْ تَخْتَانُوْنَ اَنْفُسَکُمْ فَتَابَ عَلَیْکُمْ وَ عَفَا عَنْکُمْ فَالْئٰنَ بَاشِرُوْھُنَّ وَابْتَغُوْا مَا کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا حَتّٰی یَتَبَیَّنَ لَکُمُ الْخَیْطُ الْاَبْیَضُ مِنَ الْخَیْطِ الْاَسْوَدِ مِنَ الْفَجْرِ ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ وَ لَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَقْرَبُوْھَا کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَّقُوْنَ.
’’اے مومنو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جس طرح تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔(روزوں کے دن) گنتی کے چند روز ہیں تو جو شخص تم میں سے بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں روزوں کا شمار پورا کر لے اور جو لوگ روزہ رکھنے کی طاقت رکھیں (لیکن رکھیں نہیں ) وہ روزے کے بدلے محتاج کو کھانا کھلا دیں اور جو کوئی شوق سے نیکی کرے تو اُس کے حق میں زیادہ اچھا ہے اور اگر سمجھو تو روزہ رکھنا ہی تمھارے حق میں بہتر ہے۔(روزوں کا مہینا) رمضان کا مہینا (ہے) جس میں قرآن نازل ہوا،جو لوگوں کا راہنما ہے اور (جس میں ) ہدایت کی کھلی نشانیاں ہیں اور (جو حق و باطل کو) الگ الگ کرنے والا ہے۔تو جو کوئی تم میں سے اس مہینے میں موجود ہو توچاہیے کہ پورے مہینے کے روزے رکھے اور جو بیمار ہو یا سفر میں ہو تو دوسرے دنوں میں (روزے رکھ کر) ان کا شمار پورا کر لے،اللہ تعالیٰ تمھارے حق میں آسانی چاہتا ہے اور سختی نہیں چاہتا اور (یہ آسانی کا حکم) اس لیے (دیا گیا ہے) کہ تم روزوں کا شمار پورا کر لو اور اُس احسان کے بدلے کہ اللہ نے تمھیں ہدایت بخشی ہے تم اُس کو بزرگی سے یاد کرو اور اُس کا شکر ادا کیا کرو۔اور (اے پیغمبر !) جب تم سے میرے بندے میرے بارے میں دریافت کریں تو (کہہ دو کہ) میں تو (تمھارے) پاس ہوں۔جب کوئی پکارنے والا مجھے پکارتا ہے تو میں اس کی دعا قبول کرتا ہوں تو ان کو چاہیے کہ میرے احکام کو مانیں اور مجھ پر ایمان لائیں تاکہ نیک راستہ پائیں۔روزوں کی راتوں میں تمھارے لیے اپنی عورتوں کے پاس جانا جائز کر دیا گیا ہے،وہ تمھاری پوشاک ہیں اور تم اُن کی پوشاک ہو،اللہ تعالیٰ کومعلوم ہے کہ تم (اُن کے پاس جانے سے) اپنے حق میں خیانت کرتے تھے،پس اُس نے تم پر مہربانی کی اورتمھاری حرکات سے درگزر فرمایا،اب (تمھیں اختیار ہے کہ) اُن سے مباشرت کرو اور اللہ نے جو چیز تمھارے لیے لکھ رکھی ہے (یعنی اولاد) اُس کو (اللہ سے) طلب کرو اور کھاؤ اور پیو،یہاں تک کہ صبح کی سفید دھاری (رات کی) سیاہ دھاری سے الگ نظر آنے لگے،پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو اور جب مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو اُن سے مباشرت نہ کرو،یہ اللہ کی حدیں ہیں،ان کے پاس نہ جانا۔اسی طرح اللہ اپنی آیتیں لوگوں کے (سمجھانے کے) لیے کھول کھول کر بیان فرماتا ہے،تاکہ وہ پرہیز گار بنیں۔‘‘
.یُطِیْقُوْنَہٗ. کا ترجمہ ’’یَتَجَشَّمُونَہٗ‘‘ (نہایت مشقت سے روزہ رکھ سکیں ) کیا گیا ہے۔یہ حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے منقول ہے،امام بخاری نے بھی اسے پسند کیا ہے۔یعنی جو شخص بڑھا پے یا بیماری کی وجہ سے جسے شفایابی کی امید نہ ہو،روزہ رکھنے میں مشقت محسوس کرے،وہ ایک مسکین کو کھانا بطور فدیہ دے دے،لیکن زیادہ تر مفسرین نے اس کا ترجمہ ’’طاقت رکھتے ہیں ‘‘ کیا ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ ابتداے اسلام میں روزے کی عادت نہ ہونے کی وجہ سے طاقت رکھنے والوں کو بھی رخصت دے دی گئی تھی کہ اگر وہ روزہ نہ رکھیں تو اس کے بدلے میں ایک مسکین کو کھانا دیا کریں۔لیکن بعد میں.فَمَنْ شَھِدَ مِنْکُمُ الشَّھْرَ فَلْیَصُمْہُ. کے ذریعے سے منسوخ کرکے ہر صاحبِ طاقت کے لیے روزہ فرض کر دیا گیا،تاہم زیادہ بوڑھے،دائمی مریض کے لیے اب بھی یہ حکم ہے کہ وہ فدیہ دے دیں۔دودھ پلانے والی عورتیں اگر مشقت محسوس کریں تو وہ مریض کے حکم میں ہوں گی،یعنی وہ روزہ نہ رکھیں،بعد میں روزے کی قضا دیں۔
ابتداے اسلام میں ایک حکم یہ تھا کہ روزہ افطار کرنے کے بعد عشا کی نماز یا سونے تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت تھی،سونے کے بعد ان میں سے کوئی کام نہیں کیا جا سکتا تھا۔ظاہر بات ہے یہ پابندی سخت تھی اور اس پر عمل مشکل تھا۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں یہ دونوں پابندیاں اُٹھا لیں اور افطار سے لے کر صبح صادق تک کھانے پینے اور بیوی سے مباشرت کرنے کی اجازت فرما دی۔
اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بوس و کنار کی اجازت نہیں ہے۔البتہ ملاقات اوربات چیت جائز ہے۔اعتکاف کے لیے مسجد ضروری ہے،چاہے مرد ہو چاہے عورت۔
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا،اس لیے عورتوں کا اپنے گھر میں اعتکاف بیٹھنا صحیح نہیں۔البتہ مسجد میں ان کے لیے ہر چیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے۔جب تک مسجد میں معقول،محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو،عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔یہ ایک نفلی عبادت ہے۔جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو،اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے۔فقہ کا اصول ہے:
’’مصالح کے حصول کے مقابلے میں مفاسد سے بچنا زیادہ ضروری ہے۔‘‘[رمضان و روزے سے متعلق امور[220]]
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۸۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.ثُمَّ اَتِمُّوا الصِّیَامَ اِلَی الَّیْلِ وَ لَا تُبَاشِرُوْھُنَّ وَ اَنْتُمْ عٰکِفُوْنَ فِی الْمَسٰجِدِ.
’’پھر روزہ (رکھ کر) رات تک پورا کرو اور جب مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو تو اُن (بیویوں ) سے مباشرت نہ کرو۔‘‘
اعتکاف کی حالت میں بیوی سے مباشرت اور بوس و کنار کی اجازت نہیں ہے،البتہ ملاقات اور بات چیت جائز ہے۔اعتکاف کے لیے مسجد ضروری ہے،چاہے اعتکاف کرنے والا مرد ہو یا عورت۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں نے بھی مسجد میں اعتکاف کیا۔اس لیے عورتوں کا اپنے گھر میں اعتکاف بیٹھنا صحیح نہیں،البتہ مسجد میں ان کے لیے ہر چیز کا مردوں سے الگ انتظام کرنا ضروری ہے،تاکہ مردوں سے کسی طرح کا میل جول نہ ہو۔جب تک مسجد میں معقول،محفوظ اور مردوں سے بالکل الگ انتظام نہ ہو،عورتوں کو مسجد میں اعتکاف بیٹھنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔یہ ایک نفلی عبادت ہے،جب تک پوری طرح تحفظ نہ ہو،اس نفلی عبادت سے گریز بہتر ہے۔فقہ کا اصول ہے:
’’مصالح کے حصول کے مقابلے میں مفاسد سے بچاؤ زیادہ ضروری ہے۔‘‘
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۹۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَلشَّھْرُ الْحَرَامُ بِالشَّھْرِ الْحَرَامِ وَ الْحُرُمٰتُ قِصَاصٌ فَمَنِ اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ فَاعْتَدُوْا عَلَیْہِ بِمِثْلِ مَا اعْتَدٰی عَلَیْکُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ.
’’ادب کا مہینا ادب کے مہینے کے مقابل ہے اور ادب کی چیزیں ایک دوسرے کا بدلہ ہیں۔پس اگر کوئی تم پر زیادتی کرے تو جیسی زیادتی وہ تم پر کرے ویسی ہی تم اُس پر کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ ڈرنے والوں کے ساتھ ہے۔‘‘
۶ ہجری میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چودہ سو صحابہ رضی اللہ عنہم کو ساتھ لے کر عمرے کے لیے گئے تھے،لیکن کفارِ مکہ نے انھیں مکے میں نہیں جانے دیا اور یہ طے پایا کہ آیندہ
سال مسلمان تین دن کے لیے عمرہ کرنے کی غرض سے مکہ آ سکیں گے۔یہ وہ مہینا تھا جو حرمت والے مہینوں میں سے ایک ہے۔جب دوسرے سال حسبِ معاہدہ اسی مہینے میں عمرہ کرنے کے لیے جانے لگے تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیات نازل فرمائیں۔مطلب یہ ہے کہ اس دفعہ بھی اگر کفارِ مکہ اس مہینے کی حرمت پامال کرکے (گذشتہ سال کی طرح) تمھیں مکہ جانے سے روکیں توتم بھی اس کی حرمت کو نظر انداز کرکے ان سے بھرپور مقابلہ کرو۔حرمتوں کو ملحوظ رکھنے میں بدلہ ہے،یعنی وہ حرمت کا خیال رکھیں تو تم بھی رکھو،بصورت دیگر تم بھی حرمت کو نظر انداز کرکے کفار کو عبرت ناک سبق سکھائو۔[مختصر تفسیر ابن کثیر للرفاعي (۱/ ۱۵۲)]
رکان اسلام پانچ ہیں جو قرآن و سنت سے ماخوز ہیں : 1).شہادہ: ایمان، 2).صلوٰۃ 3) زکوٰۃ 4.)صوم: روزہ، 5).حج
حج اسلام کا ایک اہم رکن ہے- حج ہر اس شخص پر فرض ہے جومسلمان ہو ، عاقل، بالغ اور آزاد ہو، حوائج اصلیہ اور دیون کے علاوہ اتنے مال کامالک ہو جس سے بہ آسانی ، بیت اللہ تک جاکردوران قیام خرچ برداشت کر کے واپس ہو سکے ۔اور واپسی تک کے لئے زیر کفالت لوگوں کے واسطے ضروری اشیاء کا بھی ا نتظام کر کے جائے ۔
سورۃ الحج (آیت:۲۶،۲۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اِذْ بَوَّاْنَا لِاِبْرٰھِیْمَ مَکَانَ الْبَیْتِ اَنْ لَّا تُشْرِکْ بِیْ شَیْئًا وَّ طَھِّرْبَیْتِیَ لِلطَّآئِفِیْنَ وَ الْقَآئِمِیْنَ وَ الرُّکَّعِ السُّجُوْدِ . وَ اَذِّنْ فِی النَّاسِ بِالْحَجِّ یَاْتُوْکَ رِجَالًا وَّ عَلٰی کُلِّ ضَامِرٍ یَّاْتِیْنَ مِنْ کُلِّ فَجٍّ عَمِیْقٍ.
’’اور (ایک وقت تھا) جب ہم نے ابراہیم کے لیے خانہ کعبہ کو مقام مقرر کیا (اور ارشاد فرمایا) کہ میرے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ کرنا اور طواف کرنے والوں اور قیام کرنے والوں اور رکوع کرنے والوں (اور) سجدہ کرنے والوں کے لیے میرے گھر کو صاف رکھا کرو اور لوگوں میں حج کے لیے منادی کر دو کہ تمھاری طرف پیدل اور دُبلے دُبلے اونٹوں پر جو دُور (دراز) راستوں سے چلے آتے ہوں (سوار ہو کر) چلے آئیں۔‘‘
وہاں یعنی بیت اللہ کی جگہ بتلا دی اور ہم نے ذریتِ ابراہیم علیہ السلام کو وہاں ٹھہرایا۔اس سے معلوم ہوتا ہے کہ طوفانِ نوح علیہ السلام کی ویرانی کے بعد خانہ کعبہ کی تعمیر حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ہاتھ سے ہوئی-
سورۃ الحج (آیت:۲۸،۲۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.لِیَشْھَدُوْا مَنَافِعَ لَھُمْ وَ یَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْلُوْمٰتٍ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْم بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ فَکُلُوْا مِنْھَا وَ اَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ . ثُمَّ لْیَقْضُوْا تَفَثَھُمْ وَ لْیُوْفُوْا نُذُوْرَھُمْ وَ لْیَطَّوَّفُوْا بِالْبَیْتِ الْعَتِیْقِ.
’’تاکہ اپنے فائدے کے کاموں کے لیے حاضر ہوں اور (قربانی کے) معلوم ایام میں چوپائے مویشی (کے ذبح کے وقت) جو اللہ نے اُن کو دیے ہیں،ان پر ا للہ کا نام لیں۔اس میں سے تم بھی کھاؤ اور فقیر درماندہ کو بھی کھلاؤ۔پھر چاہیے کہ لوگ اپنا میل کچیل دُور کریں اور نذریں پوری کریں اور خانہ کعبہ (بیت اللہ) کا طواف کریں۔‘‘
مویشی یا پالتو جانوروں سے مراد اونٹ،گائے،بکری( اور بھیڑ،دنبے) ہیں۔ان پر اللہ کا نام لینے کا مطلب ان کو ذبح کرنا ہے جو اللہ کا نام لے کر کیا جاتا ہے اور ایامِ معلومات سے مراد،ذبح کے ایام ’’ایام تشریق‘‘ ہیں،جو یومِ نحر (۱۰؍ ذوالحجہ) اور تین دن اس کے بعد ہیں۔یعنی ۱۱،۱۲ اور ۱۳ ذوالحجہ تک قربانی کی جا سکتی ہے۔عام طور پر ایامِ معلومات سے عشرہ ذوالحجہ اور ایامِ معدودات سے ایامِ تشریق مراد لیے جاتے ہیں۔تاہم یہاں ’’معلومات‘‘ جس سیاق میں آیا ہے،اس سے یہی معلوم ہوتا ہے کہ یہاں ایامِ تشریق مراد ہیں۔واللہ ا علم۔
سورۃ الحج (آیت:۳۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.ذٰلِکَ وَ مَنْ یُّعَظِّمْ حُرُمٰتِ اللّٰہِ فَھُوَ خَیْرٌ لَّہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ وَ اُحِلَّتْ لَکُمُ الْاَنْعَامُ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ فَاجْتَنِبُوا الرِّجْسَ مِنَ الْاَوْثَانِ وَ اجْتَنِبُوْا قَوْلَ الزُّوْرِ.
’’یہ (ہمارا حکم ہے) اور جو شخص ادب کی چیزوں کی جو اللہ نے مقرر کی ہیں،عظمت رکھے تو یہ اللہ کے نزدیک اس کے حق میں بہتر ہے اور تمھارے لیے مویشی حلال کر دیے گئے ہیں،سوائے اُن کے جو تمھیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں تو بتوں کی پلیدی سے بچو اور جھوٹی بات سے اجتناب کرو۔‘‘
جھوٹی بات میں،جھوٹی بات کے علاوہ جھوٹی قسم بھی شامل ہے ( جس کو حدیث میں شرک اور عقوقِ والدین کے بعد تیسرے نمبر پر کبیرہ گناہوں میں شمار کیا گیا ہے) اور سب سے بڑا جھوٹ یہ ہے کہ اللہ جن چیزوں سے پاک ہے،وہ اس کی طرف منسوب کی جائیں۔مثلاً اللہ کی اولاد ہے یا فلاں بزرگ اللہ کے اختیارات میں شریک ہے۔
سورت آل عمران (آیت:۹۶،۹۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَکَّۃَ مُبٰرَکًاوَّ ھُدًی لِّلْعٰلَمِیْن . فِیْہِ اٰیٰتٌم بَیِّنٰتٌ مَّقَامُ اِبْرٰھِیْمَ وَ مَنْ دَخَلَہٗ کَانَ اٰمِنًا وَ لِلّٰہِ عَلَی النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْہِ سَبِیْلًا وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنِ الْعٰلَمِیْنَ.
’’پہلا گھر جو لوگوں (کے عبادت کرنے) کے لیے مقرر کیا گیا تھا وہی ہے جو مکہ میں ہے،بابرکت اور جہان کے لیے موجبِ ہدایت۔اس میں کھلی ہوئی نشانیاں ہیں جن میں سے ایک ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ ہے،جو شخص اس (مبارک) گھر میں داخل ہوا،اس نے امن پا لیا۔اور لوگوں پر اللہ تعالیٰ کا حق (یعنی فرض) ہے کہ جو اس گھر تک جانے کی راہ پاسکتے ہوں،وہ اُس کا حج کریں اور جو اُس کے حکم کی تعمیل نہ کرے گا تو اللہ تعالیٰ بھی اہل عالم سے بے نیاز ہے۔‘‘
’’راہ پا سکتے ہوں ‘‘ کا مطلب زادِ راہ کی استطا عت اور فراہمی ہے- یعنی اتنا خرچ کہ سفر کے اخراجات پورے ہو جائیں۔علاوہ ازیں استطاعت کے مفہوم میں یہ بھی داخل ہے کہ راستہ پُر امن ہو اور جان و مال محفوظ رہے،اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ صحت اور تندرستی کے لحاظ سے سفر کے قابل ہو،نیز عورت کے لیے محرم بھی ضروری ہے۔یہ آیت ہر صاحبِ استطاعت کے لیے وجوبِ حج کی دلیل ہے اور احادیث سے اس امر کی وضاحت ہوتی ہے کہ یہ عمر میں صرف ایک دفعہ فرض ہے۔
استطاعت کے باوجود حج نہ کرنے کو قرآن نے ’’کفر‘‘ سے تعبیر کیا ہے،جس سے حج کی فرضیت میں اور اس کی تاکید میں کوئی شبہہ نہیں رہتا،احادیث و آثار میں بھی ایسے شخص کے لیے سخت و عید آئی ہے۔
حدیث شریف میں ہے : اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے (۱)اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے علاوہ کوئی معبود نہیں ہے ۔اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے بندے اور رسول ہیں ۔(۲)نماز قائم کرنا ۔(۳)زکوۃ ادا کرنا ۔(٤)حج کرنا ۔(۵)رمضان کے روزے رکھنا۔(متفق علیہ )
وَ لِلّٰہِ علی الناس حج البیت من استطاع الیہ سبیلا و من کفر فان اللہ غنی عن العالمین ،، (آل عمران 97)
اور اللہ کے لئے بیت اللہ کا حج کرنا اس شخص پرواجب ہے جو وہاں تک جانے کی استطاعت رکھتا ہو ۔اور جو شخص انکار کرے توا للہ تعالی سارے جہاں سے بے نیاز ہے ۔ (آل عمران 97)[221]
و أتموا الحج والعمرۃ للہ ،،(البقرۃ۔۱۹۶)
اللہ کے لئے حج اور عمرہ کو پورا کرو ۔
حج کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا
جس آدمی نے حج کیا اور اس میں نہ تو کسی شہوانی اور فحش بات کا ارتکاب کیا اور نہ ہی اللہ کی نا فرمانی کی تو وہ گناہوں سے ایسا پاک و صاف ہو کر واپس آئے گا جیسا اس دن تھا جس دن وہ ماں کے پیٹ سے پیدا ہوا تھا ۔(متفق علیہ )
حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حج اور عمرہ کی فضیلت کو بیان کرتے ہوئے فرمایا ,
حج اور عمرہ پے در پے کیا کرو اس لئے کہ حج اور عمرہ فقر اور گناہوں کو اس طرح ختم کر دیتے ہیں جس طرح (لوہار اور سنار کی) بھٹی لوہے اور سوناچاندی کے میل کچیل کو ختم کر دیتی ہے ۔اور حج مبرور کا صلہ تو بس جنت ہی ہے ۔(رواہ الترمذی و النسائی )
حج مبرور کے متعلق علماء نے لکھا ہے کہ وہ ایسا حج ہے جو اخلاص کے ساتھ اللہ کی رضاء جوئی کے واسطے کیا جائے ۔فخر و مباہات، ریاء اورشہرت و نمود کا شائبہ بھی اس میں نہ ہو۔اس سفر میں حلال مال خرچ کیا جائے ،نمازوں کی پابندی ،ذکر و تلاوت اور نوافل کا اہتمام کیا جائے ۔رفقاء حج کی خدمت ،ان کے ساتھ حسن سلوک کا پورا خیال رکھا جائے ۔پورے سفر میں لڑائی جھگڑا، فسق و فجور،بے حیائی و بے شرمی کی بات اور ہر طرح کے گناہ کے ارتکاب سے مکمل اجتناب کیا جائے ۔دیکھنے والوں کو حج سے پہلے اور بعد کی زندگی میں نمایاں فرق نظر آئے ۔چنانچہ اہل علم نے ,,حج مبرور کی علامت اور نشانی یہ بیان کی ہے کہ حج کے بعد حاجی کی زندگی بدل جائے ۔اس کے اندر گناہوں سے نفرت اور نیکیوں کی رغبت پیدا ہو جائے۔حاجی اچھے اخلاق و کردار اور نرم گفتارکا حامل ہو جائے ۔حسن بصری ؒنے اس سلسلہ میں بہت ہی مختصر مگر جامع بات کہی ہے کہ حج مبرور کی علامت یہ ہے کہ حاجی دنیا سے بے رغبت ہو کر اور آخرت کی رغبت لے کر لوٹے ۔اسی طرح بعض اہل علم نے یہ بھی کہا کہ سفر حج میں ناگہانی طور پر کوئی جسمانی یا مالی مصیبت لاحق ہو جائے تو یہ بھی قبولیت حج کی علامات میں سے ہے ۔
ان حدیث میں ان لوگوں کے لئے بڑی سخت وعید ہے جو حج کرنے کی استطاعت رکھنے کے باوجود حج نہ کریں فرمایا گیا ہے کہ ان کا اس حال میں مرنا اور یہودی یا نصرانی ہو کر مرنا گویا برابر ہے (معاذ اللہ )
اگر کوئی آدمی فرضیت حج کا انکار کرے تو وہ کافر ہو جائے گا ۔اور اسلام سے خارج شمار ہوگا اور اگر فرضیت کا اعتقاد تو رکھتا ہے مگر باوجود قدرت کے فریضہ حج ادا نہیں کرتا ہے تو گنہگار ہوگا ۔اور ترک فرض کی وجہ سے فاسق کہلائے گا ۔اور اس صورت میں کافر نہیں ہوگا ۔
.وَ اَتِمُّوا الْحَجَّ وَ الْعُمْرَۃَ لِلّٰہِ فَاِنْ اُحْصِرْتُمْ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ وَ لَا تَحْلِقُوْا رُئُ وْسَکُمْ حَتّٰی یَبْلُغَ الْھَدْیُ مَحِلَّہٗ فَمَنْ کَانَ مِنْکُمْ مَّرِیْضًا اَوْ بِہٖٓ اَذًی مِّنْ رَّاْسِہٖ فَفِدْیَۃٌ مِّنْ صِیَامٍ اَوْ صَدَقَۃٍ اَوْ نُسُکٍ فَاِذَآ اَمِنْتُمْ فَمَنْ تَمَتَّعَ بِالْعُمْرَۃِ اِلَی الْحَجِّ فَمَا اسْتَیْسَرَ مِنَ الْھَدْیِ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ فِی الْحَجِّ وَ سَبْعَۃٍ اِذَا رَجَعْتُمْ تِلْکَ عَشَرَۃٌ کَامِلَۃٌ ذٰلِکَ لِمَنْ لَّمْ یَکُنْ اَھْلُہٗ حَاضِرِی الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ . اَلْحَجُّ اَشْھُرٌ مَّعْلُوْمٰتٌ فَمَنْ فَرَضَ فِیْھِنَّ الْحَجَّ فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ یَّعْلَمْہُ اللّٰہُ وَ تَزَوَّدُوْا فَاِنَّ خَیْرَ الزَّادِ التَّقْوٰی وَ اتَّقُوْنِ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ . لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَبْتَغُوْا فَضْلاً مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاِذَآ اَفَضْتُمْ مِّنْ عَرَفٰتٍ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ عِنْدَ الْمَشْعَرِ الْحَرَامِ وَ اذْکُرُوْہُ کَمَا ھَدٰکُمْ وَ اِنْ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلِہٖ لَمِنَ الضَّآلِّیْنَ . ثُمَّ اَفِیْضُوْا مِنْ حَیْثُ اَفَاضَ النَّاسُ وَ اسْتَغْفِرُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
[سورۃ البقرۃ (آیت:۱۹۶ تا ۱۹۹)]
’’اور اللہ (کی خوشنودی) کے لیے حج اور عمرے کو پورا کرو اور اگر (راستے میں ) روک لیے جاؤ تو جیسی قربانی میسر ہو (کر دو) اور جب تک قربانی اپنے مقام پر نہ پہنچ جائے سر نہ منڈواؤ اور اگر کوئی تم میں سے بیمار ہو یا اُس کے سر میں کسی طرح کی تکلیف ہو تو (اگر وہ سرمنڈوا لے تو) اُس کے بدلے روزے رکھے یا صدقہ دے یا قربانی کرے،پھر جب (تکلیف دُور ہو کر) تم مطمن ہو جاؤ تو جو(تم میں سے ) حج کے وقت تک عمرے سے فائدہ اٹھانا چاہے،وہ جیسی قربانی میسر ہو کرے اور جس کو (قربانی) نہ ملے،وہ تین روزے ایامِ حج میں رکھے اور سات جب واپس ہو۔یہ پورے دس ہوئے۔یہ حکم اس شخص کے لیے ہے جس کے اہل و عیال مکے میں نہ رہتے ہوں اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ سخت عذاب دینے والا ہے۔حج کے مہینے (معیّن ہیں جو) معلوم ہیں،تو جو شخص ان مہینوں میں حج کی نیت کر لے تو حج (کے دنوں ) میں نہ عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی بُرا کام کرے نہ کسی سے جھگڑے اور جو نیک کام تم کرو گے،وہ اللہ کو معلوم ہو جائے گا۔اور زادِ راہ (راستے کا خرچ) ساتھ لے جاؤ،کیوں کہ بہتر (فائدہ) زادِ راہ (کا) پرہیز گاری ہے اور اے اہل عقل! مجھ سے ڈرتے رہو،اس کا تمھیں کچھ گناہ نہیں کہ (حج کے دنوں میں بہ ذریعہ تجارت) اپنے رب سے روزی طلب کرو اور جب عرفات سے واپس ہونے لگو تو مشعرِ حرام (مزدلفہ) میں اللہ کا ذکر کرو اور اس طرح ذکر کرو،جس طرح اُس نے تمھیں سکھایا ہے اور اس سے پیشتر تم لوگ (ان طریقوں سے) محض ناواقف تھے۔پھر جہاں سے دوسرے لوگ واپس ہوں،وہیں سے تم بھی واپس ہو اور اللہ سے بخشش مانگو،بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا اور رحمت کرنے والا ہے۔‘‘
حج اور عمرے کا احرام باندھ لو تو پھر اس کا پورا کرنا ضروری ہے،چاہے نفلی حج و عمرہ ہو۔اگر راستے میں دشمن یا شدید بیماری کی وجہ سے رکاوٹ ہو جائے تو ایک جانور بکری یاگائے اور اونٹ کا ساتواں حصہ جو بھی میسر ہو،وہیں ذبح کرکے سر منڈوا لو اور حلال ہو جائو،جیسے نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ نے حدیبیہ میں قربانیاں ذبح کی تھیں اور حدیبیہ حرم سے باہر ہے۔لیکن امن کی حالت میں اس وقت تک سر نہ منڈواؤ (احرام کھول کر حلال نہ ہو) جب تک تمام مناسکِ حج پورے نہ کرلو۔
حج کے متعین مہینے یہ ہیں:شوال،ذوالقعدہ اور ذوالحجہ کے پہلے دس دن۔مطلب یہ ہے کہ عمرہ تو سال میں ہر وقت جائز ہے،لیکن حج صرف مخصوص دنوں میں ہوتا ہے،اس لیے اس کا احرام حج کے مہینوں کے علاوہ باندھنا جائز نہیں۔
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں حدیث ہے کہ جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسق و فجور سے بچا،وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے،جیسے اس دن پاک تھا،جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔[222]
آیاتِ حج میں تقوے سے مراد سوال سے بچنا ہے۔بعض لوگ زادِ راہ لیے بغیر حج کے لیے گھر سے نکل پڑتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہمارا اللہ پر توکل ہے۔اللہ نے توکل کے اس مفہوم کو غلط قرار دیا اور زادِ راہ لینے کی تاکید کی۔
۹؍ ذوالحجہ کو زوالِ آفتاب سے غروبِ شمس تک میدانِ عرفات میں وقوف،حج کا سب سے اہم رکن ہے،جس کی بابت حدیث میں کہا گیا ہے:(( اَلْحَجُّ عَرَفَۃٌ )) ’’عرفات میں وقوف ہی حج ہے۔‘‘[223] یہاں مغرب کی نماز نہیں پڑھنی ہے،بلکہ مزدلفہ پہنچ کر مغرب کی تین رکعات اور عشا کی دو رکعت (قصر) جمع کرکے ایک اذان اور دو اقامت کے ساتھ پڑھی جائیں گی۔مزدلفہ ہی کو مشعرِ حرام کہا گیا ہے،کیونکہ یہ حرم کے اندر ہے۔یہاں ذکرِ الٰہی کی تاکید ہے۔یہاں رات گزارنی ہے اور فجر کی نماز ’’غَلَسٌ‘‘ (اندھیرے ) میں یعنی اول وقت میں پڑھ کر طلوعِ آفتاب تک ذکر میں مشغول رہا جائے،طلوعِ آفتاب کے بعد منیٰ جایا جائے۔
مذکورہ ترتیب کے مطابق عرفات جانا اور وہاں پر وقوف کرکے واپس آنا ضروری ہے،لیکن عرفات چونکہ حرم سے باہر ہے،اس لیے قریشِ مکہ عرفات تک نہیں جاتے تھے،بلکہ مزدلفہ ہی سے لوٹ آتے تھے،چنانچہ یہ حکم دیا گیا ہے کہ جہاں سے سب لوگ لو ٹ کر آتے ہیں،وہیں سے تم لوٹ کر آئو،یعنی عرفات سے۔
.فَاِذَا قَضَیْتُمْ مَّنَاسِکَکُمْ فَاذْکُرُوا اللّٰہَ کَذِکْرِکُمْ اٰبَآئَ کُمْ اَوْ اَشَدَّ ذِکْرًا فَمِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا وَ مَا لَہٗ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنْ خَلَاقٍ . وَ مِنْھُمْ مَّنْ یَّقُوْلُ رَبَّنَآ اٰتِنَا فِی الدُّنْیَا حَسَنَۃً وَّ فِی الْاٰخِرَۃِ حَسَنَۃً وَّ قِنَا عَذَابَ النَّارِ . اُولٰٓئِکَ لَھُمْ نَصِیْبٌ مِّمَّا کَسَبُوْا وَ اللّٰہُ سَرِیْعُ الْحِسَابِ . وَاذْکُرُوا اللّٰہَ فِیْٓ اَیَّامٍ مَّعْدُوْدٰتٍ فَمَنْ تَعَجَّلَ فِیْ یَوْمَیْنِ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ وَ مَنْ تَاَخَّرَ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ لِمَنِ اتَّقٰی وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ. [سورۃ البقرہ ہی میں آیت (۲۰۰ تا ۲۰۳)]
’’پھر جب حج کے تمام ارکان پورے کر چکو تو (منیٰ میں ) اللہ تعالیٰ کو یاد کرو،جس طرح اپنے باپ دادا کو یاد کیا کرتے تھے،بلکہ اس سے بھی زیادہ اور بعض لوگ ایسے ہیں جو (اللہ سے) التجا کرتے ہیں کہ اے اللہ! ہمیں (جو دینا ہے) دنیا ہی میں عنایت کر اور ایسے لوگوں کا آخرت میں کچھ حصہ نہیں۔بعض ایسے ہیں کہ دعا کرتے ہیں کہ اللہ ! ہمیں دنیا میں بھی نعمت عطا فرما اور آخرت میں بھی نعمت عطا فرمانا اور دوزخ کے عذاب سے محفوظ رکھنا۔یہی لوگ ہیں جن کے لیے ان کے کاموں کا حصہ (نیک اجر تیار) ہے اور اللہ تعالیٰ جلد ہی حساب لینے والا (اور جلد اجر دینے والا) ہے۔(قیامِ منیٰ کے) دنوں میں (جو) گنتی کے (دن ہیں ) اللہ کو یاد کرو، اگر کوئی جلدی کرے (اور) دو ہی دن میں (چل دے) تو اُس پر بھی کچھ گناہ نہیں اور جو بعد تک ٹھہرا رہے،اس پر بھی کچھ گناہ نہیں اور یہ باتیں اُس شخص کے لیے ہیں،جو (اللہ سے ڈرے) اور تم لوگ اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ تم سب اُس کے پاس جمع کیے جاؤ گے۔‘‘
گنتی کے دنوں سے مراد ایام تشریق:۱۱،۱۲ اور ۱۳؍ ذوالحجہ ہیں۔ان میں ذکرِ الٰہی،یعنی باآواز بلند تکبیرات مسنون ہیں،صرف فرض نمازوں کے بعد ہی نہیں (جیسے ایک کمزور حدیث کی بنیاد پرمشہور ہے) بلکہ ہر وقت یہ تکبیرات پڑھی جائیں۔کنکریاں مارتے وقت ہر کنکری کے ساتھ تکبیر پڑھنی مسنون ہے اور تکبیر یہ ہے:
’’اَللّٰہُ أَکْبَرْ،اَللّٰہُ أَکْبَرْ،لَا إِلٰہَ إِلَّا اللّٰہُ وَاللّٰہُ أَکْبَرْ،اَللّٰہُ أَکْبَرْ وَ لِلّٰہِ الْحَمْدُ‘‘[224]
رمیِ جمار (جمرات کو کنکریاں مارنا ) ۳ دن افضل ہیں،لیکن اگر کوئی دو دن (۱۱ اور ۱۲ ذوالحجہ) کی کنکریاں مار کر واپس آ جائے تو اس کی بھی اجازت ہے۔
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۹۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَلَا رَفَثَ وَ لَا فُسُوْقَ وَ لَا جِدَالَ فِی الْحَجِّ.
’’حج (کے دنوں ) میں عورتوں سے اختلاط کرے نہ کوئی بُرا کام کرے اور نہ کسی سے جھگڑے۔‘‘
صحیح بخاری اور صحیح مسلم میں مروی ہے:
’’جس نے حج کیا اور شہوانی باتوں اور فسق و فجور سے بچا،وہ گناہوں سے اس طرح پاک ہو جاتا ہے،جیسے اس دن پاک تھا جب اسے اس کی ماں نے جنا تھا۔‘‘[225]
1۔ سورۃ المائدہ (آیت:۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ.
’’اے ایمان والو! اپنے اقراروں کو پورا کرو،تمھارے لیے چارپائے جانور حلال کر دیے گئے ہیں،بجز اُن کے جو تمھیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں،مگر احرامِ (حج) میں شکار کو حلال نہ جاننا،اللہ تعالیٰ جیسا چاہتا ہے،حکم دیتا ہے۔‘‘
2۔ سورۃ المائدہ (آیت:۹۵) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقْتُلُوا الصَّیْدَ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ.
’’مومنو! جب تم احرام کی حالت میں ہو تو شکار نہ مارنا۔‘‘
امام شافعی نے اس سے مراد صرف ان جانوروں کا شکار لیا ہے جو ماکول اللحم ہیں،یعنی جو کھانے کے کام آتے ہیں۔دوسرے بری جانوروں کا شکار وہ جائز قرار دیتے ہیں۔لیکن زیادہ تر علما کے نزدیک اس میں کوئی تفریق نہیں۔البتہ ان موذی جانوروں کا قتل جائز ہے جن کا ذکر احادیث میں آیا ہے اور وہ پانچ ہیں:
(۱) کوا، (۲) چیل، (۳) بچھو، (٤) چوہا (۵) باؤلا کتا۔[226]
اسی طرح ائمہ کرام نے سانپ، بھیڑیے، درندے، چیتے اور شیر کو بھی حالتِ احرام میں مارنے کی اجازت دی ہے۔[227]
سورۃ المائدہ (آیت:۹۶) میں فرمایا:
.وَ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا.
’’جنگل (کی چیزوں ) کا شکار جب تک تم احرام کی حالت میں رہو،تم پر حرام ہے۔‘‘
سورۃ المائدہ (آیت:۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحِلُّوْا شَعَآئِرَ اللّٰہِ وَ لَا الشَّھْرَ الْحَرَامَ وَ لَا الْھَدْیَ وَ لَا الْقَلَآئِدَ وَ لَآ آٰمِّیْنَ الْبَیْتَ الْحَرَامَ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رِضْوَانًا وَ اِذَا حَلَلْتُمْ فَاصْطَادُوْا.
’’مومنو! اللہ کے نام کی چیزوں کی بے حرمتی نہ کرنا اور نہ ادب کے مہینے کی اور نہ قربانی کے جانوروں کی اور نہ اُن جانوروں کی (جو اللہ کی نذر کر دیے گئے ہوں اور) جن کے گلوں میں پٹے بندھے ہوں اور نہ اُن لوگوں کی جو عزت کے گھر (بیت اللہ) کو جا رہے ہوں (اور) اپنے رب کے فضل اور اُس کی خوشنودی کے طلب گار بنو اور جب احرام اتار دو تو (پھر اختیار ہے کہ) شکار کرو۔‘‘
’’شعائر اﷲ‘‘ سے مراد حرمات اللہ ہیں،جن کی تعظیم و حرمت اللہ نے مقرر فرمائی ہے۔بعض نے اسے عام رکھا ہے اور بعض کے نزدیک یہاں حج و عمرے کے مناسک مراد ہیں،یعنی ان کی بے حرمتی اور بے توقیری نہ کرو۔اسی طرح حج و عمرے کو ادا کرنے میں کسی کے درمیان رکاوٹ مت بنو کہ یہ بھی بے حرمتی ہی ہے۔
’’أشھر الحُرام‘‘ سے مراد حرمت والے چاروں مہینے (رجب،ذوالقعدہ،ذوالحجہ اور محرم) ہیں کہ ان کی حرمت برقرار رکھو اور ان میں قتال مت کرو۔بعض نے اس سے صرف ایک مہینا یعنی ماہِ ذوالحجہ (حج کا مہینا) مراد لیا ہے۔
’’ھَدی‘‘ ایسے جانور کو کہا جاتا ہے جو حاجی حرم میں قربان کرنے کے لیے ساتھ لے جاتے تھے اور اس کے گلے میں پٹا باندھتے تھے،جو نشانی کے طور پر ہوتا تھا۔یہ مزید تاکید ہے کہ ان جانوروں کو کسی سے چھینا جائے نہ ان کے حرم تک پہنچنے میں کوئی رکاوٹ کھڑی کی جائے۔حج و عمرے کی نیت سے یا تجارت و کاروبار کی غرض سے حرم جانے والوں کو مت روکو اور نہ انھیں تنگ کرو[228]
1۔سورۃ الحج (آیت:۳۴ تا ۳۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لِکُلِّ اُمَّۃٍ جَعَلْنَا مَنْسَکًا لِّیَذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلٰی مَا رَزَقَھُمْ مِّنْم بَھِیْمَۃِ الْاَنْعَامِ فَاِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ اللّٰہُ وَّاحِدٌ فَلَہٗٓ اَسْلِمُوْا وَ بَشِّرِ الْمُخْبِتِیْنَ . الَّذِیْنَ اِذَا ذُکِرَ اللّٰہُ وَجِلَتْ قُلُوْبُھُمْ وَ الصّٰبِرِیْنَ عَلٰی مَآ اَصَابَھُمْ وَ الْمُقِیْمِی الصَّلٰوۃِ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ . وَ الْبُدْنَ جَعَلْنٰھَا لَکُمْ مِّنْ شَعَآئِرِ اللّٰہِ لَکُمْ فِیْھَا خَیْرٌ فَاذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْھَا صَوَآفَّ فَاِذَا وَجَبَتْ جُنُوْبُھَا فَکُلُوْا مِنْھَا وَ اَطْعِمُوا الْقَانِعَ وَ الْمُعْتَرَّ کَذٰلِکَ سَخَّرْنٰھَا لَکُمْ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.
’’اور ہم نے ہر ایک اُمت کے لیے قربانی کا طریقہ مقرر کر دیا ہے تاکہ جو مویشی چارپائے اللہ نے اُن کو دیے ہیں (اُن کے ذبح کرنے کے وقت) اُن پر اللہ کا نام لیں،سو تمھارا معبود ایک ہی ہے،اُسی کے فرمانبردار ہو جاؤ اور عاجزی کرنے والوں کو خوش خبری سنا دو۔یہ وہ لوگ ہیں کہ جب اللہ کا نام لیا جاتا ہے تو اُن کے دل ڈر جاتے ہیں اور (جب) ان پر مصیبت پڑتی ہے تو صبر کرتے ہیں اور نماز آداب سے پڑھتے ہیں اور جو (مال) ہم نے ان کو عطا کیا ہے،اُس میں سے (نیک کاموں میں ) خرچ کرتے ہیں اور قربانی کے اونٹوں کو بھی ہم نے تمھارے لیے شعائر اللہ مقرر کیا ہے،اس میں تمھارے لیے فائدے ہیں تو (قربانی کرنے کے وقت) قطار باندھ کر اُن پر اللہ کا نام لو،جب پہلو کے بل گر پڑیں تو اُن میں سے کھاؤ اور قناعت سے بیٹھ رہنے والوں اور سوال کرنے والوں کو بھی کھلاؤ،اس طرح ہم نے اُن کو تمھارے زیرِ فرماں کر دیا ہے،تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
اس آیت سے استدلال کرتے ہوئے کہا جاتا ہے کہ قربانی کے گوشت کے تین حصے کیے جائیں۔ایک اپنے لیے،دوسرا ملاقاتیوں اور رشتے داروں کے لیے اور تیسرا سائلین اور معاشرے کے ضرورت مند افراد کے لیے۔جس کی تائید میں حدیث بھی پیش کی جاتی ہے،جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’میں نے تمھیں (پہلے) تین دن سے زیادہ قربانی کا گوشت ذخیرہ کرکے رکھنے سے منع کیا تھا،لیکن اب تمھیں اجازت ہے کہ کھاؤ اور جو مناسب سمجھو،ذخیرہ کرو۔‘‘
ایک اور روایت کے الفاظ اس طرح ہیں:’’پس کھاؤ،کھلاؤ اور صدقہ کرو۔‘‘[229]
بعض علما دو حصے کرنے کے قائل ہیں۔نصف اپنے لیے اور نصف صدقے کے لیے،وہ اس آیت.فَکُلُوْا مِنْھَا وَأَطْعِمُوا الْبَآئِسَ الْفَقِیْرَ.سے استدلال کرتے ہیں۔لیکن در حقیقت کسی بھی آیت یا حدیث سے اس طرح کے دو یا تین حصوں میں تقسیم کرنے کا حکم نہیں نکلتا،بلکہ ان میں مطلقاً کھانے کھلانے کا حکم ہے۔اس لیے اس اطلاق کو اپنی جگہ برقرار رہنا چاہیے اور کسی تقسیم کا پابند نہیں بنانا چاہیے۔
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ادْخُلُوْا فِی السِّلْمِ کَآفَّۃً وَ لَا تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ. [سورۃ البقرۃ (آیت:۲۰۸)]
’’مومنو! اسلام میں پورے پورے داخل ہو جاؤ اور شیطان کے پیچھے نہ چلو،وہ تو تمھارا صریح دشمن ہے۔‘‘
اہلِ ایمان کو کہا جا رہا ہے کہ اسلام میں پورے پورے داخل ہو جائو اور اس طرح نہ کرو کہ جو باتیں تمھاری مصلحتوں اور خواہشا ت کے مطابق ہوں،ان پر تو عمل کرلو اور دوسرے حکموں کو نظر انداز کر دو،اسی طرح جو دین تم چھوڑ آئے ہو،اس کی باتیں اسلام میں شامل کرنے کی کوشش مت کرو،بلکہ صرف اسلام کو مکمل طور پر اپنائو،اس سے دین میں بدعات کی بھی نفی کر دی گئی اور آج کل کے سیکولر ذہن کی تردید بھی،جو اسلام کو مکمل طور پر اپنانے کے لیے تیار نہیں،بلکہ دین کو عبادت،یعنی مساجد تک محدود کرنا اور سیا ست اور ایوانِ حکومت سے دیس نکالا دینا چاہتا ہے۔
اس طرح عوام کو بھی سمجھایا جا رہا ہے کہ جو رسم و رواج اور علاقائی ثقافت و روایات کو پسند کرتے ہیں اور انھیں چھوڑنے کے لیے آمادہ نہیں ہوتے،جیسے مرگ اور شادی بیاہ کی مسرفانہ اور ہندوانہ رسوم اور دیگر رواج وغیرہ۔
یہاں یہ بھی کہا جا رہا ہے کہ شیطان کے قدموں کی پیروی مت کرو،جو تمھیں مذکورہ خلافِ اسلام باتوں کے لیے حسین فلسفے تراش کر پیش کرتا، برائیوں پر خوش نما غلاف چڑھاتا اور بدعات کو بھی شریعت باور کراتا ہے،تاکہ اس کے دامِ ہم رنگِ زمین میں پھنسے رہو۔ [بحوالہ أحسن البیان (ص: ۷۵)]
اسلام کی بنیاد اور قرآن و سنت رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کا مرکز "ایمان اور عمل صالح"[230] ہیں- یہ الفاظ قرآن میں 158مرتبہ آیے ہیں[231]- لیکن گنہگاروں کے لئے دوزخ سے بچنے کا راستہ بھی ہے کیونک الله تعالی گناہوں کو بخشنے والا ، توبہ قبول کرنے والا ، سخت عذاب دینے والا اور بڑے فضل و کرم والا ہے. توبہ کے بعد بھی مومن کو عمل صالح کرنا ہیں-
سورۃ النحل (آیت:۹۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.مَنْ عَمِلَ صَالِحًا مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَنُحْیِیَنَّہٗ حَیٰوۃً طَیِّبَۃً وَ لَنَجْزِیَنَّھُمْ اَجْرَھُمْ بِاَحْسَنِ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.
’’جو شخص نیک عمل کرے گا،مرد ہو یا عورت اور وہ مومن بھی ہو گا تو ہم اُس کو (دنیا میں ) پاک (اور آرام کی) زندگی سے زندہ رکھیں گے اور (آخرت میں ) اُن کے اعمال کا نہایت اچھا صلہ دیں گے۔‘‘
اللہ تبارک و تعالیٰ اپنے ان بندوں سے جو اپنے دل میں اللہ تعالیٰ پر اور اُس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمانِ کامل رکھیں اور کتاب و سنت کی اطاعت کے تحت نیک اعمال کریں،وعدہ کرتا ہے کہ وہ انھیں دنیا میں بھی بہترین اور پاکیزہ زندگی عطا فرمائے گا،عمدگی سے اُن کی عمر بسر ہوگی،خواہ وہ مرد ہو یا عورت،انھیں اپنے پاس سے ان کے نیک اعمال کا بہترین بدلہ عطا فرمائے گا۔[232]
ارشادِ باری تعالیٰ ہے: .اِنْ تَجْتَنِبُوْا کَبَآئِرَ مَا تُنْھَوْنَ عَنْہُ نُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ نُدْخِلْکُمْ مُّدْخَلًا کَرِیْمًا.
’’اگر تم بڑے بڑے گناہوں سے جن سے تم کو منع کیا جاتا ہے،اجتناب کرو گے تو ہم تمھارے (چھوٹے چھوٹے) گناہ معاف کر دیں گے اور تمھیں عزت کے مکانوں میں داخل کریں گے۔‘‘ (سورۃ النساء4:31)[233]
کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔بعض کے نزدیک وہ گناہ ہیں،جن پر حد مقرر ہے۔بعض کے نزدیک وہ گناہ جس پر قرآن میں یا حدیث میں سخت وعید یا لعنت آئی ہے۔بعض کہتے ہیں کہ ہر وہ کام جس سے اللہ نے یا اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے بطورِ تحریم کے روکا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ان میں سے کوئی ایک بات بھی کسی گناہ میں پائی جائے تو وہ کبیرہ ہے۔یہاں یہ اصول بیان کیا گیا ہے کہ جو مسلمان کبیرہ گناہوں مثلاً شرک،والدین کی نافرمانی اور جھوٹ وغیرہ سے اجتناب کرے گا تو ہم اس کے صغیرہ گناہ معاف کر دیں گے۔[234]
سورۃ الرعد (آیت:۲۰ تا ۲۲) میں فرمایا:
.الَّذِیْنَ یُوْفُوْنَ بِعَھْدِ اللّٰہِ وَ لَا یَنْقُضُوْنَ الْمِیْثَاقَ وَ الَّذِیْنَ یَصِلُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یَخْشَوْنَ رَبَّھُمْ وَ یَخَافُوْنَ سُوْٓئَ الْحِسَابِ . وَ الَّذِیْنَ صَبَرُوا ابْتِغَآئَ وَجْہِ رَبِّھِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً وَّ یَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عُقْبَی الدَّارِ.
’’جو اللہ کے عہد کو پورا کرتے ہیں اور اقرار کو نہیں توڑتے۔اور جن (رشتہ ہائے قرابت) کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے اُن کو جوڑے رکھتے ہیں اور اپنے رب سے ڈرتے رہتے اور بُرے حساب سے خوف رکھتے ہیں۔اور جو اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے (مصائب پر) صبر کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور جو (مال) ہم نے اُن کو دیا ہے،اُس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں اور نیکی سے بُرائی کو دُور کرتے ہیں،یہی لوگ ہیں جن کے لیے عاقبت کا گھر ہے۔‘‘
معبودِ بر حق صرف اللہ ہے:
سورۃ الرعد (آیت:۳۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قُلْ ھُوَ رَبِّیْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ اِلَیْہِ مَتَابِ.
’’کہہ دو وہی تو میرا رب ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں۔میں اُسی پر بھروسا کرتا ہوں اور اُسی کی طرف رجوع کرتا ہوں۔‘‘
سورۃ النساء (آیت:۳۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَتَمَنَّوْا مَا فَضَّلَ اللّٰہُ بِہٖ بَعْضَکُمْ عَلٰی بَعْضٍ لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبُوْا وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا اکْتَسَبْنَ وَسْئَلُوا اللّٰہَ مِنْ فَضْلِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمًا.
’’اور جس چیز میں اللہ نے تم میں سے بعض کو بعض پر فضیلت دی ہے اُس کی ہوس مت کرو۔مردوں کو اُن کاموں کا ثواب ہے جو اُنھوں نے کیے اور عورتوں کو اُن کاموں کا ثواب ہے جو اُنھوں نے کیے اور اللہ سے اُس کا فضل (و کرم) مانگتے رہو،کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘
اس کے سبب و شانِ نزول میں بتلایا گیا ہے کہ حضرت ام سلمہ رضی اللہ عنہما نے عرض کی:مرد جہاد میں حصہ لیتے ہیں اور شہادت پاتے ہیں۔ہم عورتیں ان فضیلت والے کاموں سے محروم ہیں۔ہماری میراث بھی مردوں سے نصف ہے،اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
اللہ تعالیٰ کے اس فرمان کا مطلب یہ ہے کہ مردوں کو اللہ تعالیٰ نے جو جسمانی قوت و طاقت اپنی حکمت اور ارادے کے مطابق عطا کی ہے،جس کی بنیاد پر وہ جہاد بھی کرتے ہیں اور دیگر بیرونی کاموں میں حصہ لیتے ہیں،یہ ان کے لیے خاص عطیہ ہے۔اس کو دیکھتے ہوئے عورتوں کو مردانہ صلاحیتوں کے کام کرنے کی آرزو نہیں کرنی چاہیے۔البتہ اللہ کی اطاعت اور نیکی کے کاموں میں خوب حصہ لینا چاہیے اور اس میدان میں وہ جو کچھ کمائیں گی،مردوں کی طرح ان کا پورا پورا صلہ انھیں ملے گا۔علاوہ ازیں اللہ تعالیٰ سے اس کے فضل کا سوال کرنا چاہیے،کیونکہ مرد اور عورت کے درمیان استعداد،صلاحیت اور قوتِ کار کا جو فرق ہے،وہ تو قدرت کا ایک اٹل فیصلہ ہے،جو محض آرزو سے تبدیل نہیں ہو سکتا۔البتہ اس کے فضل سے کسب و محنت میں رہ جانے والی کمی کا ازالہ ہو سکتا ہے۔
سورۃ الرعد (آیت:۳۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قُلْ اِنَّمَآ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ اللّٰہَ وَ لَآ اُشْرِکَ بِہٖ اِلَیْہِ اَدْعُوْا وَ اِلَیْہِ مَاٰبِ.
’’کہہ دو کہ مجھے یہی حکم ہوا ہے کہ اللہ ہی کی عبادت کروں اور اُس کے ساتھ (کسی کو) شریک نہ بناؤں،میں اُسی کی طرف بلاتا ہوں اور اُسی کی طرف مجھے لوٹنا ہے۔‘‘
سورۃ المزمل (آیت:۸ تا ۱۰) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ وَتَبَتَّلْ اِلَیْہِ تَبْتِیْلًا . رَبُّ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ فَاتَّخِذْہُ وَکِیْلًا . وَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَاھْجُرْھُمْ ھَجْرًا جَمِیْلًا.
’’اور اپنے پروردگار کے نام کا ذکر کرو اور ہر طرف سے بے تعلق ہو کر اس کی طرف متوجہ ہو جاؤ۔(وہی) مشرق اور مغرب کا مالک (ہے اور) اس کے سوا کوئی معبود نہیں تو اسی کو اپنا کارساز بناؤ۔اور جو جو (دل آزار) باتیں یہ لوگ کہتے ہیں،ان کو سہتے رہو اور اچھے طریق سے ان سے کنارہ کش رہو۔‘‘
سورت بنی اسرائیل (آیت:۱۱۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قُلِ ادْعُوا اللّٰہَ اَوِ ادْعُوا الرَّحْمٰنَ اَیًّا مَّا تَدْعُوْا فَلَہُ الْاَسْمَآئُ الْحُسْنٰی.
’’کہہ دو کہ تم (اللہ کو) اللہ (کے نام سے) پکارو یا رحمن (کے نام سے) جس نام سے پکارو اُس کے سب نام اچھے ہیں۔‘‘
اس آیت کے سبب و شانِ نزول میں حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بیان فرماتے ہیں کہ مکے میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم چھپ کر رہتے تھے،جب اپنے ساتھیوں کو نماز پڑھاتے تو آواز قدرے بلند فرما لیتے،مشرکین قرآن سن کر قرآن کو اور اللہ کو گالی گلوچ کرتے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا:اپنی آواز کو اتنا اونچا نہ کرو کہ مشرکین سن کر قرآن کو برا بھلا کہیں اور نہ آواز اتنی پست کرو کہ صحابہ بھی نہ سن سکیں۔[235]
ایک رات نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا گزر حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کی طرف سے ہوا تو وہ پست آواز سے نماز پڑھ رہے تھے،پھر حضرت عمر رضی اللہ عنہ کو بھی دیکھنے کا اتفاق ہوا تو وہ اونچی آواز سے نماز پڑھ رہے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دونوں سے پوچھا تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے فرمایا:میں جس سے مصروفِ مناجات تھا،وہ میری آواز سن رہا تھا۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے جواب دیا کہ میرا مقصد سوتوں کو جگانا اور شیطان کو بھگانا تھا۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے فرمایا:’’اپنی آواز قدرے بلند کرو۔‘‘[236] اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے کہا:’’اپنی آواز کچھ پست رکھو۔‘‘ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ یہ آیت دعا کے بارے میں نازل ہوئی ہے۔[237]
سورۃ الفاطر (آیت:۲۹،۳۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّ الَّذِیْنَ یَتْلُوْنَ کِتٰبَ اللّٰہِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْفَقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ سِرًّا وَّ عَلَانِیَۃً یَّرْجُوْنَ تِجَارَۃً لَّنْ تَبُوْرَ . لِیُوَفِّیَھُمْ اُجُوْرَھُمْ وَ یَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ اِنَّہٗ غَفُوْرٌ شَکُوْرٌ.
’’جو لوگ اللہ کی کتاب پڑھتے اور نماز کی پابندی کرتے ہیں اور جو کچھ ہم نے ان کو دیا ہے،اس میں سے پوشیدہ اور ظاہر خرچ کرتے ہیں،وہ اس تجارت (کے فائدے)کے امیدوار ہیں جوکبھی تباہ نہیں ہو گی۔کیونکہ اللہ ان کو پورا پورا بدلہ دے گا اور اپنے فضل سے کچھ زیادہ بھی دے گا وہ تو بخشنے والا (اور) قدردان ہے۔‘‘
سورت ابراہیم (آیت:۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اِذْ تَاَذَّنَ رَبُّکُمْ لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ.
’’اور جب تمھارے رب نے (تم کو) آگاہ کیا کہ اگر شکر کرو گے تو میں تمھیں زیادہ دوں گا اور اگر ناشکری کرو گے تو (یاد رکھو کہ) میرا عذاب (بھی) سخت ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے حتمی وعدہ کیا ہے اور اس کا اعلان بھی کہ شکر گزاروں کی نعمتیں اور بڑھ جائیں گی اور اگر ناشکری کی تو نعمتوں کے منکروں اور ان کے چھپانے والوں کی نعمتیں چِھن جائیں گی اور انھیں سخت عذاب ہوگا۔حدیث میں ہے کہ بندہ بوجہ گناہ اللہ تعالیٰ کے رزق سے محروم ہوجاتا ہے۔[238]
سورہ ہود (آیت:۹،۱۰) میں فرمایا:
.وَ لَئِنْ اَذَقْنَا الْاِنْسَانَ مِنَّا رَحْمَۃً ثُمَّ نَزَعْنٰھَا مِنْہُ اِنَّہٗ لَیَئُوْسٌ
کَفُوْرٌ . وَ لَئِنْ اَذَقْنٰہُ نَعْمَآئَ بَعْدَ ضَرَّآئَ مَسَّتْہُ لَیَقُوْلَنَّ ذَھَبَ السَّیِّاٰتُ عَنِّیْ اِنَّہٗ لَفَرِحٌ فَخُوْرٌ.
’’اور اگر ہم انسان کو اپنے پاس سے نعمت بخشیں،پھر اس سے اس کو چھین لیں تو ناامید (اور) ناشکر (ہو جاتا) ہے۔اور اگر تکلیف پہنچنے کے بعد آسایش کا مزہ چکھائیں (تو خوش ہو کر) کہتا ہے کہ (آہا) سب سختیاں مجھ سے دُور ہو گئیں،بے شک وہ خوشیاں منانے،اِترانے والا (اور)،فخر کرنے اور شیخیاں بگھارنے والا ہے۔‘‘
1۔ سورۃ النساء (آیت:۱۳۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا.
’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو! انصاف پر پوری طرح قائم رہنے والے،اللہ کے لیے شہادت دینے والے بن جاؤ،خواہ تمھاری ذاتوں یا والدین اور زیادہ قرابت والوں کے خلاف ہو،اگر کوئی غنی ہے یا فقیر تو اللہ ان دونوں پر زیادہ حق رکھنے والا ہے۔پس اس میں خواہش کی پیروی نہ کرو کہ عدل کرو اور اگر تم زبان کو پیچ دو،یا پہلو بچاؤ تو بے شک اللہ اس سے جو تم کرتے ہو،ہمیشہ سے پوری طرح با خبر ہے۔‘‘
تم خواہشِ نفس کے پیچھے پڑ کر انصاف نہ چھوڑنا،یعنی کسی مالدار کی مالداری کی وجہ سے رعایت کی جائے نہ کسی فقیر کے فقر کا اندیشہ تمھیں سچی بات کہنے سے روکے،بلکہ اللہ ان دونوں سے تمھارے زیادہ قریب اور مقدم ہے۔
سورۃ الحجر (آیت:۹۸،۹۹) میں فرمایا:
.فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَ کُنْ مِّنَ السّٰجِدِیْنَ . وَاعْبُدْ رَبَّکَ حَتّٰی یَاْتِیَکَ الْیَقِیْنُ.
’’تم اپنے رب کی تسبیح کہتے اور (اس کی) خوبیاں بیان کرتے رہو اور سجدہ کرنے والوں میں داخل رہو اور اپنے رب کی عبادت کیے جاؤ،یہاں تک کہ تمھاری موت (کا وقت) آجائے۔‘‘
مشرکین آپ کو ساحر،مجنون اور کاہن وغیرہ کہتے،جس سے بشری جبلت کی وجہ سے آپ کبیدہ خاطر ہوتے،اللہ تعالیٰ نے تسلی دیتے ہوئے فرمایا کہ آپ حمد و ثنا کریں،نماز پڑھیں اور اپنے رب کی عبادت کریں،اس سے آپ کو قلبی سکون بھی ملے گا اور اللہ کی مدد بھی حاصل ہوگی۔سجدے سے یہاں نماز اور یقین سے مراد موت ہے۔
۔سورۃ النحل (آیت:۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یُنَزِّلُ الْمَلٰٓئِکَۃَ بِالرُّوْحِ مِنْ اَمْرِہٖ عَلٰی مَنْ یَّشَآئُ مِنْ عِبَادِہٖٓ اَنْ اَنْذِرُوْٓا اَنَّہٗ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاتَّقُوْنِ.
’’وہی فرشتوں کو پیغام دے کر اپنے حکم سے اپنے بندوں میں سے جس کے پاس چاہتا ہے بھیجتا ہے کہ (لوگوں کو) بتا دوکہ میرے سوا کوئی معبود نہیں تومجھ ہی سے ڈرو۔‘‘
سورۃ النحل (آیت:۵۱) میں فرمایا ہے:
.وَ قَالَ اللّٰہُ لَا تَتَّخِذُوْٓا اِلٰھَیْنِ اثْنَیْنِ اِنَّمَا ھُوَ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ.
’’اور اللہ نے فرمایا ہے کہ دو،دو معبود نہ بناؤ۔معبود وہی ایک ہے،تو مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔‘‘
آسمانوں میں اور زمینوں میں جو کچھ ہے،سب اسی کا ہے اور اسی کی عبادت لازم ہے۔اللہ واحد کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں،وہ لا شریک اور ہر چیز کا خالق اور پالن ہار ہے۔اسی کی عبادتِ خالص دائمی اور واجب ہے،اس کے سوا دوسروں کی عبادت کے طریقے اختیار نہ کرو۔آسمان اور زمین کی تمام مخلوقات خوشی اور نا خوشی اسی کے ما تحت ہیں۔سب کا لوٹایا جانا اسی کی طرف ہے،خلوص کے ساتھ اسی کی عبادت کرو۔اس کے ساتھ دوسروں کو شریک کرنے سے بچو۔[239]
یہ انھیں مومنوں کی صفات بیان کی جا رہی ہیں،جن کے مالوں اور جانوں کا سودا اللہ نے کرلیا ہے۔مومن کامل وہ ہے جو قول و عمل میں اسلام کی تعلیمات کا عمدہ نمونہ ہو اور ان چیزوں سے بچنے والا ہو جن سے اللہ نے اسے روک دیا ہے۔یہاں اُن اعمالِ صالحہ کی تفصیل بیان کی گئی ہے۔
سورۃ النحل (آیت:۹۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُ بِالْعَدْلِ وَ الْاِحْسَانِ وَ اِیْتَآیِٔ ذِی الْقُرْبٰی وَ یَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ وَ الْبَغْیِ یَعِظُکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ.
’’اللہ تمھیں انصاف اور احسان کرنے اور رشتے داروں کو (خرچ سے مدد) دینے کا حکم دیتا ہے اور بے حیائی اور نامعقول کاموں اور سرکشی سے منع کرتا ہے (اور) تمھیں نصیحت کرتا ہے،تاکہ تم یاد رکھو۔‘‘
عدل کے مشہور معنیٰ انصاف کرنے کے ہیں،یعنی اپنوں اور بیگانوں سب کے ساتھ انصاف کیا جائے۔کسی کے ساتھ دشمنی و عناد و محبت یا قرابت کی وجہ سے،انصاف کے تقاضے مجروح نہ ہوں۔ایک دوسرے معنیٰ اعتدال کے یہ ہیں کہ کسی معاملے میں بھی زیادتی یا کمی کا ارتکاب نہ کیا جائے،حتیٰ کہ دین کے معاملے میں بھی،کیونکہ دین میں زیادتی کا نتیجہ حد سے زیادہ گزر جانا ہے،جو سخت خراب ہے اور کمی،دین میں کوتاہی ہے،یہ بھی نا پسندیدہ ہے۔
مزید پڑھیں : احسان (وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ )[240]
’’لوگو! اپنے نفس کے ساتھ نرمی کرو (یعنی آواز پست رکھو) تم جس کو پکار رہے ہو،وہ بہرا ہے نہ غائب،وہ تمھاری دعائیں سننے والا اور بہت قریب ہے۔‘‘[صحیح البخاري،کتاب الدعوات (۶۳۸۴) صحیح مسلم،کتاب الجنۃ (۴۴/ ۲۷۰۴)]
صلاح کے بعد فساد نہ پھیلایا جائے،یعنی اللہ کی نافرمانیاں کرکے فساد پھیلانے میں حصہ نہ لیا جائے۔
اس کے عذاب کا ڈر بھی دل میں ہو اور اس کی رحمت کی امید بھی۔اس طریقے سے دعا کرنے والے محسنین ہیں۔یقینا اللہ کی رحمت ان کے قریب ہے۔
سورۃ الرعد (آیت:۲۵) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.وَ الَّذِیْنَ یَنْقُضُوْنَ عَھْدَ اللّٰہِ مِنْم بَعْدِ مِیْثَاقِہٖ وَ یَقْطَعُوْنَ مَآ اَمَرَ اللّٰہُ بِہٖٓ اَنْ یُّوْصَلَ وَ یُفْسِدُوْنَ فِی الْاَرْضِ اُولٰٓئِکَ لَھُمُ اللَّعْنَۃُ وَ لَھُمْ سُوْٓئُ الدَّارِ.
’’اور جو لوگ اللہ سے عہدِ واثق کر کے اُس کو توڑ ڈالتے اور جن (رشتہ ہائے قرابت) کے جوڑے رکھنے کا اللہ نے حکم دیا ہے،اُن کو قطع کر دیتے ہیں اور ملک میں فساد کرتے ہیں،ایسوں پر لعنت ہے اور اُن کے لیے گھر بھی بُرا ہے۔‘‘
180۔عفو و درگزر اور جاہلوں سے اعراض:
پارہ 9.قَالَ الْمَلَاُ.سورۃ الاعراف (آیت:۱۹۹) میں فرمایا:
.خُذِ الْعَفْوَ وَاْمُرْ بِالْعُرْفِ وَ اَعْرِضْ عَنِ الْجٰھِلِیْنَ.
’’(اے نبی!) عفو اختیار کرو اور نیک کام کرنے کا حکم دو اور جاہلوں سے کنارہ کر لو۔‘‘
سورۃ الاعراف (آیت:۵۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اُدْعُوْا رَبَّکُمْ تَضَرُّعًا وَّ خُفْیَۃً اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ.
’’(لوگو!) اپنے رب سے عاجزی سے اور چپکے چپکے دعائیں مانگا کرو،کیوں کہ وہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
1۔سورت ھود (آیت:۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اَنِ اسْتَغْفِرُوْا رَبَّکُمْ ثُمَّ تُوْبُوْٓا اِلَیْہِ یُمَتِّعْکُمْ مَّتَاعًا حَسَنًا اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی وَّ یُؤْتِ کُلَّ ذِیْ فَضْلٍ فَضْلَہٗ وَ اِنْ تَوَلَّوْا فَاِنِّیْٓ اَخَافُ عَلَیْکُمْ عَذَابَ یَوْمٍ کَبِیْرٍ.
’’اور یہ کہ اپنے رب سے بخشش مانگو اور اس کے آگے توبہ کرو،وہ تمھیں ایک وقت مقرر تک متاعِ نیک سے بہرہ مند کرے گا اور ہر صاحبِ بزرگی کو اُس کی بزرگی (کی داد) دے گا اور اگر رُوگردانی کرو گے تو مجھے تمھارے بارے میں (قیامت کے) بڑے دن کے عذاب کا ڈر ہے۔‘‘
اس سامانِ دنیا کو جس کو قرآن نے عام طور پر ’’متاعِ غرور‘‘ دھوکے کا سامان کہا ہے،یہاں اسے ’’متاعِ حسن‘‘ قرار دیا ہے۔اس کا مطلب یہ ہوا کہ جو آخرت سے غافل ہو کر متاعِ دنیا سے استفادہ کر لے گا،اس کے لیے یہ متاعِ غرور ہے،کیوں کہ اس کے بعد اسے برے انجام سے دو چار ہونا ہے اور جو آخرت کی تیاری کے ساتھ ساتھ اس سے فائدہ اٹھائے گا،اس کے لیے یہ چند روزہ سامانِ زندگی متاعِ حسن ہے،کیونکہ اس نے اسے اللہ کے احکام کے مطابق برتا ہے۔
2۔سورۃالمومن (آیت:۵۵) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَ۔م وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ بِالْعَشِیِّ وَالْاِبْکَارِ.
’’صبر کرو،بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور صبح و شام اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو۔‘‘
3۔سورۃ المومن (آیت:۷۷) میں فرمایا ہے:
.فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ فَاِمَّا نُرِیَنَّکَ بَعْضَ الَّذِیْ نَعِدُھُمْ اَوْ نَتَوَفَّیَنَّکَ فَاِلَیْنَا یُرْجَعُوْنَ.
’’(اے پیغمبر!) صبر کرو اللہ کا وعدہ سچا ہے،اگر ہم تم کو کچھ اس میں سے دکھا دیں،جس کا ہم تم سے وعدہ کرتے ہیں (یعنی کافروں پر عذاب نازل کریں ) یا تمھاری مدتِ حیات پوری کر دیں تو ان کو ہماری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
سورت طٰہٰ (آیت:۱۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّنِیْٓ اَنَا اللّٰہُ لَآ اِلٰہَ اِلَّآ اَنَافَاعْبُدْنِیْ وَ اَقِمِ الصَّلوٰۃَ لِذِکْرِیْ.
’’بے شک میں ہی اللہ ہوں،میرے سوا کوئی معبود نہیں تو میری عبادت کرو اور میری یاد کے لیے نماز پڑھا کرو۔‘‘
عبادت کے بعد نماز کا خصوصی حکم دیا،حالانکہ عبادت میں نماز بھی شامل تھی،تاکہ اس کی مزید اہمیت واضح ہو جائے۔
.لِذِکْرِیْ.کا ایک مطلب یہ ہے کہ تو مجھے یاد کرے،اس لیے یاد کرنے کا طریقہ عبادت ہے اور عبادت میں نماز کو خصوصی اہمیت و فضیلت حاصل ہے۔
دوسرا مفہوم یہ ہے کہ جب بھی میں تجھے یاد آجائوں نماز پڑھ،یعنی اگر کسی وقت غفلت یا نیند کا غلبہ ہو تو اس کیفیت سے نکلتے ہی اور میری یاد آتے ہی نماز پڑھ۔جس طرح کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’جو نماز سے سو جائے یا بھول جائے،تو اس کا کفارہ یہی ہے کہ جب بھی اسے یاد آ جائے پڑھ لے۔‘‘[241]
سورۃ الانشرح (آیت:۷،۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاِذَا فَرَغْتَ فَانْصَبْ . وَاِلٰی رَبِّکَ فَارْغَبْ.
’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) جب فارغ ہوا کرو تو (عبادت میں ) محنت کیا کرو۔اور اپنے پروردگار کی طرف متوجہ ہو جایا کرو۔‘‘
نماز سے،یا تبلیغ سے یا جہاد سے فارغ ہو،تو دعا میں محنت کر،یا اتنی عبادت کر کہ تو تھک جائے۔اُسی سے جنت کی امید رکھ،اُسی سے اپنی حاجتیں طلب کر اور تمام معاملات میں اُسی پر اعتماد اور بھروسا رکھ۔
1۔سورت طٰہٰ (آیت:۱۳۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَ سَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَ قَبْلَ غُرُوْبِھَا وَ مِنْ اٰنَآیِٔ الَّیْلِ فَسَبِّحْ وَ اَطْرَافَ النَّھَارِ لَعَلَّکَ تَرْضٰی.
’’پس جو کچھ یہ بکواس کرتے ہیں اس پر صبر کرو اور سورج کے نکلنے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اپنے رب کی تسبیح و تحمید کیا کرو اور رات کی ساعات میں بھی اُس کی تسبیح کیا کرو اور دن کے اطراف میں بھی تاکہ تم خوش ہو جاؤ۔‘‘
بعض مفسرین اس سے پانچ نمازیں مراد لیتے ہیں۔طلوع الشمس سے پہلے فجر۔غروب سے پہلے عصر۔رات کی گھڑیوں سے مغرب اور عشا اور اطراف النہار سے ظہر کی نماز مراد ہے۔کیوں کہ ظہر کا وقت نہارِ اول کا طرفِ آخر اور نہارِ آخر کا طرفِ اول ہے۔بعض کے نزدیک ان اوقات میں ویسے ہی اللہ کی تسبیح و تحمید کرنا مراد ہے،جس میں نماز،تلاوت،ذکر و اذکار،دعا و مناجات اور نوافل سب داخل ہیں۔
سورۃ الطور (آیت:۴۸،۴۹) میں فرمایا ہے:
.وَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ فَاِنَّکَ بِاَعْیُنِنَا وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ حِیْنَ تَقُوْمُ . وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاِدْبَارَ النُّجُوْمِ.
’’اور تم اپنے پروردگار کے حکم کے انتظار میں صبر کیے رہو،تم تو ہماری آنکھوں کے سامنے ہو اور جب اٹھا کرو تو اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کیا کرو۔اور رات کے بعض اوقات میں بھی اور ستاروں کے غروب ہونے کے بعد بھی اس کی تسبیح کیا کرو۔‘‘
اس کھڑے ہونے سے کو نسا کھڑا ہونا مراد ہے ؟ بعض کہتے ہیں جب نماز کے لیے کھڑے ہوں،جیسے آغاز نماز میں ( سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَ بِحَمْدِکَ ) پڑھی جاتی ہے۔بعض کہتے ہیں کہ جب کسی مجلس سے کھڑے ہوں،جیسے حدیث میں آتا ہے کہ جو شخص کسی مجلس سے اٹھتے وقت یہ دعا پڑھ لے گا تو یہ اس کی مجلس کے گناہوں کا کفارہ ہو جائے گا:
( سُبْحَانَکَ اللّٰھُمَّ وَبِحَمْدِک أَشْھَدُ أَنْ لَّآ إِلٰہِ إِلَّا أَنْتَ أَسْتَغْفِرُکَ وَ أَتُوْ بُ إِلَیْکَ )[242]
ستاروں کے ڈوبتے وقت تسبیح سے مراد فجر کی دو سنتیں ہیں۔نوافل میں سب سے زیادہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کی حفاظت فرماتے تھے۔[243] ایک روایت میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’فجر کی دو سنتیں دنیا و ما فیہا سے بہتر ہیں۔‘‘[244]
۔سورت قٓ (آیت:۳۹،۴۰) میں بھی صبر و تسبیح کا حکم دیتے ہوئے فرمایا ہے:
.فَاصْبِرْ عَلٰی مَا یَقُوْلُوْنَ وَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ قَبْلَ طُلُوْعِ الشَّمْسِ وَقَبْلَ الْغُرُوْبِ . وَمِنَ الَّیْلِ فَسَبِّحْہُ وَاَدْبَارَ السُّجُوْدِ.
’’جو کچھ یہ (کفار) بکتے ہیں اس پر صبر کرو اور آفتاب کے طلوع ہونے سے پہلے اور اس کے غروب ہونے سے پہلے اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو۔اور رات کے بعض اوقات میں بھی اور نماز کے بعد بھی اس (کے نام) کی تسبیح کیا کرو۔‘‘
سورۃ الواقعہ (آیت:۷۴) میں فرمایا ہے:
.فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ.
’’تم اپنے پروردگار بزرگ کے نام کی تسبیح کرو۔‘‘
سورۃ الاعلیٰ (آیت:۱) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.سَبِّحِ اسْمَ رَبِّکَ الْاَعْلَی.
’’(اے پیغمبر!) اپنے جلیل الشان پروردگار کے نام کی تسبیح کرو۔‘‘
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سورۃ الاعلیٰ اور سورۃ الغاشیہ عیدین اور جمعے کی نمازوں میں پڑھا کرتے تھے،اسی طرح وتر کی پہلی رکعت میں سورۃ الاعلی،دوسری میں سورۃ الکافرون اور تیسری میں سورۃ الاخلاص پڑھتے تھے۔[245]
سورۃ الفرقان (آیت:۵۸) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَتَوَکَّلْ عَلَی الْحَیِّ الَّذِیْ لاَ یَمُوْتُ وَسَبِّحْ بِحَمْدِہٖ وَکَفٰی بِہٖ بِذُنُوبِ عِبَادِہٖ خَبِیْرًا.
’’اور اس (اللہ) زندہ پر بھروسا رکھو جو (کبھی) نہیں مرے گا اور اُس کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرتے رہو اور وہ اپنے بندوں کے گناہوں سے خبر رکھنے کو کافی ہے۔‘‘
سورۃ الانبیاء (آیت:۹۲ تا ۹۴) میں فرمایا:
.اِنَّ ھٰذِہٖٓ اُمَّتُکُمْ اُمَّۃً وَّاحِدَۃً وَّ اَنَا رَبُّکُمْ فَاعْبُدُوْنِ . وَ تَقَطَّعُوْٓا اَمْرَھُمْ بَیْنَھُمْ کُلٌّ اِلَیْنَا رٰجِعُوْنَ . فَمَنْ یَّعْمَلْ مِنَ الصّٰلِحٰتِ وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَلَا کُفْرَانَ لِسَعْیِہٖ وَ اِنَّا لَہٗ کٰتِبُوْنَ.
’’یہ تمھاری جماعت ایک ہی جماعت ہے اور میں تمھارا رب ہوں تو میری ہی عبادت کیا کرو اور یہ لوگ اپنے معاملے میں باہم متفرق ہو گئے (مگر) سب ہماری طرف رجوع کرنے والے ہیں۔جو نیک کام کرے گا اور مومن بھی ہو گا تو اُس کی کوشش رائیگاں نہ جائے گی اور ہم اس کے لیے (ثوابِ اعمال) لکھ رہے ہیں۔‘‘
لوگ دین،توحید اور عبادت کو چھوڑ کر مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئے،ایک گروہ تو مشرکین اور کفار کا ہو گیا اور انبیا و رسل کے ماننے والے بھی گروہ بن گئے،کوئی یہودی ہو گیا،کوئی عیسائی،کوئی کچھ،اور بدقسمتی سے یہ فرقہ بندیاں خود مسلمانوں میں بھی پیدا ہو گئیں اور یہ بھی بیسیوں فرقوں میں تقسیم ہوگئے۔ان سب کا فیصلہ،جب یہ بارگاہِ الٰہی میں لوٹ کر جائیں گے تو وہیں ہوگا۔
سورۃ الاحزاب (33:35) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّ الْمُسْلِمِیْنَ وَ الْمُسْلِمٰتِ وَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ وَالْقٰنِتِیْنَ وَالْقٰنِتٰتِ وَالصّٰدِقِیْنَ وَالصّٰدِقٰتِ وَالصّٰبِرِیْنَ وَالصّٰبِرٰتِ وَالْخٰشِعِیْنَ وَالْخٰشِعٰتِ وَالْمُتَصَدِّقِیْنَ وَالْمُتَصَدِّقٰتِ وَالصَّآئِمِیْنَ وَالصّٰئِمٰتِ۔ٓ وَالْحٰفِظِیْنَ فُرُوْجَھُمْ وَ الْحٰفِظٰتِ وَ الذّٰکِرِیْنَ اللّٰہَ کَثِیْرًا وَّ الذّٰکِرٰتِ اَعَدَّ اللّٰہُ لَھُمْ مَّغْفِرَۃً وَّ اَجْرًا عَظِیْمًا.
’’( اللہ کے آگے سرِ اطاعت خم کرنے والے ) مسلمان مرد اور مسلمان عورتیں اور مومن مرد اور مومن عورتیں اور فرمانبردار مرد اور فرمانبردار عورتیں اور سچے مرد اور سچی عورتیں اور صبر کرنے والے مرد اور صبر کرنے والی عورتیں اور متقی مرد اور متقی عورتیں اور خیرات کرنے والے مرد اور خیرات کرنے والی عورتیں اور روزے رکھنے والے مر
د اور روزے رکھنے والی عورتیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کرنے والے مرد اور حفاظت کرنے والی عورتیں اور اللہ کو کثرت سے یاد کرنے والے مرد اور یاد کرنے والی عورتیں،کچھ شک نہیں کہ ان کے لیے اللہ نے بخشش اور اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے۔‘‘ سورۃ الاحزاب (33:35)[246], [247]
اسلام میں وہ مسلم علماء جنہوں نے اپنی توانائیاں جسم کے لیے معیاری خطوطِ راہنمائی کو سمجھنے پر مرکوز کیں وہ فقہی کہلائے ، اور وہ جنہوں نے اس بات پر زور دیا کہ سب سے اہم مہم (task)، درست فہم تک رسائی کے لیےعقل کی تربیت ہے وہ پھر تین مکتبوں میں تقسیم ہوئے ۔ ماہرین الٰہیات، فلاسفہ اور صوفیاء۔ یہاں ہمارے پاس اس انسانی وجود سے متعلق تیسرا ساحہ رہ جاتا ہے، (یعنی) روح؛ متعدد مسلم، جنہوں نے اپنی زیادہ تر کوششیں انسانی شخصیت کی (ان) روحانی ابعاد کی پرورش کے لیےمختص کردیں وہ صوفی کے نام سے جانے گئے- ایک دوسری تعریف کے مطابق تصوف (الصُّوفِيَّة) جسے التَّصَوُّف کے نام سے بھی جانا جاتا ہے،اسلام میں مذہب کا ایک طرز عمل ہے، جو بنیادی طور پر سنی اسلام کے اندر پایا جاتا ہے جس کی خصوصیت اسلامی روحانیت، رسم پرستی، اور باطنیت پر مرکوز ہے۔ اسے "اسلامی تصوف"، "اسلامی عقیدے کا صوفیانہ اظہار"،"اسلام کی باطنی جہت"، "اسلام کے اندر تصوف کا رجحان"، "اہم مظہر اور سب سے اہم اور مرکزی کرسٹلائزیشن" کے طور پر مختلف طریقے سے بیان کیا گیا ہے۔ اسلام میں صوفیانہ مشق، اور "اسلامی عقیدے اور عمل کی اندرونی شدت" بھی کہا جا سکتا ہے-
ڈاکٹر اسرار احمد کے مطابق اس کے ضمن میں پہلی ہمالیہ جیسی غلطی اس کے لیے خالص ’’غیر قرآنی‘‘ ہی نہیں بلکہ ایک ’’مجہول الاصل‘‘ عنوان کا اختیار کر لیا جانا ہے.
آیت استخلاف
وَعَدَ اللّٰهُ الَّذِيْنَ اٰمَنُوْا مِنْكُمْ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَيَسْتَخْلِفَنَّهُمْ فِي الْاَرْضِ كَمَا اسْتَخْلَفَ الَّذِيْنَ مِنْ قَبْلِهِمْ١۪ وَ لَيُمَكِّنَنَّ لَهُمْ دِيْنَهُمُ الَّذِي ارْتَضٰى لَهُمْ وَ لَيُبَدِّلَنَّهُمْ مِّنْۢ بَعْدِ خَوْفِهِمْ اَمْنًا١ؕ يَعْبُدُوْنَنِيْ۠ لَا يُشْرِكُوْنَ بِيْ شَيْـًٔا١ؕ وَ مَنْ كَفَرَ بَعْدَ ذٰلِكَ فَاُولٰٓىِٕكَ هُمُ الْفٰسِقُوْنَ (24:55 سوره النور)
“اللہ نے وعدہ فرمایا ہے تم میں سے اُں لوگوں کے ساتھ جو ایمان لائیں اور نیک عمل کریں کہ وہ ان کو اُسی طرح زمین میں خلیفہ بنائے گا جس طرح اُن سے پہلے گزرے ہوئے لوگوں کو بنا چکا ہے، اُن کے لیے اُن کے اُس دین کو مضبوط بُنیادوں پر قائم کر دے گا جسے اللہ تعالےٰ نے اُن کے حق میں پسند کیا ہے ، اور اُن کی (موجودہ )حالتِ خوف کو امن سے بدل دے گا، بس وہ میری بندگی کریں اور میرے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں۔ اور جو اس کے بعد کُفر کرے تو ایسے ہی لوگ فاسق ہیں” [سوره النور(24:55)][249](تفسیر ، تفہیم القرآن[250])
1.خلافت کیا ہے؟
2. قرآن میں خلافت کا کیا مطلب ہے؟
3.کیا خلافت اور شرعی نظام میں فرق ہے؟
4.کیا خلافت ایک مستقل اسلامی سیاسی نظام حکومت ہے؟
5.کیا خلافت قائم کرنا اسلامی احکام میں شامل ہے؟
6.کیا خلافت قائم کرنے کے لیے حکمرانوں کا خروج اور جنگ و جدل جائیز ہے؟
7.خلافت اور اسلامی جمہوریت میں کیا فرق ہے؟
8. خلافت راشدہ کے بعد خلافت کی تاریخ کیا ہے؟
9.مسلمان حکمران (سلطان، بادشاہ ، ملک یا کوئی اور نام ) خلیفہ ہو سکتا ہے؟
10. پاکستان میں خلافت کی معروف تنظیموں کا طریقه کاراور تجزیہ؟
11. شرعی نظام قائم کرنے کا ممکنہ شرعی طریقه اورمسلمانوں کے آپشنز؟
12. کیا اسلامی جمہوریت کفر ہے ؟
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّن ذُكِّرَ بِآيَاتِ رَبِّهِ ثُمَّ أَعْرَضَ عَنْهَا ۚ إِنَّا مِنَ الْمُجْرِمِينَ مُنتَقِمُونَ ﴿٢٢﴾ وَلَقَدْ آتَيْنَا مُوسَى الْكِتَابَ فَلَا تَكُن فِي مِرْيَةٍ مِّن لِّقَائِهِ ۖ وَجَعَلْنَاهُ هُدًى لِّبَنِي إِسْرَائِيلَ ﴿٢٣﴾ وَجَعَلْنَا مِنْهُمْ أَئِمَّةً يَهْدُونَ بِأَمْرِنَا لَمَّا صَبَرُوا ۖ وَكَانُوا بِآيَاتِنَا يُوقِنُونَ ﴿٢٤﴾ إِنَّ رَبَّكَ هُوَ يَفْصِلُ بَيْنَهُمْ يَوْمَ الْقِيَامَةِ فِيمَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ﴿٢٥﴾
"اور اُس سے بڑا ظالم کون ہو گا جسے اس کے رب کی آیات کے ذریعہ سے نصیحت کی جائے اور پھر وہ ان سے منہ پھیر لے ایسے مجرموں سے تو ہم انتقام لے کر رہیں گے- اِس سے پہلے ہم موسیٰؑ کو کتاب دے چکے ہیں، لہٰذا اُسی چیز کے ملنے پر تمہیں کوئی شک نہ ہونا چاہیے اُس کتاب کو ہم نے بنی اسرائیل کے لیے ہدایت بنایا تھا - اور جب انہوں نے صبر کیا اور ہماری آیات پر یقین لاتے رہے تو ان کے اندر ہم نے ایسے (أَئِمَّةً) پیشوا پیدا کیے جو ہمارے حکم سے رہنمائی کرتے تھے- یقیناً تیرا رب ہی قیامت کے روز اُن باتوں کا فیصلہ کرے گا جن میں (بنی اسرائیل) باہم اختلاف کرتے رہے ہیں (قرآن: 32:22to25)[252]
جس طرح کتاب توریت موسیٰ (علیہ السلام) کو دی گئی تھی اسی طرح قرآن کریم آپ ﷺ کو دیا ہے اس میں کوئی شک نہیں ہونا چاہئے-
وَ جَعَلۡنَا مِنۡہُمۡ اَئِمَّۃً یَّہۡدُوۡنَ بِاَمۡرِنَا لَمَّا صَبَرُوۡا ۟ ؕ وَ کَانُوۡا بِاٰیٰتِنَا یُوۡقِنُوۡنَ ﴿۲۴﴾
ائمۃ، امام کی جمع پیشوا ۔ مقتدائ۔ امام افتعال کے وزن پر اسم ہے بمعنی من یؤتم بہ (جس کا قصد کیا جائے) چونکہ رہنما اور مقتدا کا قصد کیا جاتا ہے اس لئے اس کو "امام" کہتے ہیں ۔ غرض جس کی بھی پیروی کی جائے وہ امام ہے ۔ یہ پیروی حق میں ہو یا ناحق میں۔ اور جب ان لوگوں نے صبر کیا تو ہم نے ان میں سے ایسے پیشوا بنائے جو ہمارے حکم سے لوگوں کو ہدایت کرتے تھے ، اور وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے تھے ۔
جب بنی اسرائیل نے کتاب الٰہی پر عمل کیا اور کافروں کی ایذا رسانی پر صبر کرتے رہے لیکن بعد میں جب انہوں نے تحریف کا راستہ اختیار کیا اور اللہ تعالیٰ کے احکام کی من مانی تاویلیں کرنے لگے تو ان سے پیشوائی کا یہ پیغام چھین لیا گیا اور ان پر ذلت و رسوائی مسلط کردی گئی۔
ائمۃ سے کون حضرات مراد ہیں؟
یہ بنی اسرایئل کی امت کے افراد مراد ہیں جو ہدایت اور دعوت کے کام میں لگے رہتے تھے(تفصیل ملاحضہ:Judges[253])، کیونکہ (وَکَانُوْا بِاٰیٰتِنَا یُوْقِنُوْنَ) حال کے مناسب ہے- تفسیر روح المعانی کے مصنف نے کہا ہے اور مراد یہ ہے کہ اسی طرح ہم نے آپ کو جو کتاب دی اسے (قران کو) یا خود آپ کو آپ کی امت کے لیے ہدایت کا سامان بنائیں گے- اب قرآن مسلمانوں کا امام ہے اور سنت رسول اللہ ﷺ -
(فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي) (قرآن ؛20:123)
ترجمہ جس آدمی نے میری(اللہ کی) ہدایت (یعنی قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا۔ (مشکوٰۃ المصابیح: حدیث:185)[17]
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(رواہ حضرت علیؓ، ماخوز، ترمذی 2906)
ترجمہ. تلخیص: ا" --- احضرت عمر (رضی الله) ۓ فرمایا : " -- اور یہ کتاب اللہ موجود ہے جس کے ذریعہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے رسول کو دین و سیدھا راستہ بتلایا پس اسے تم تھامے رہو تو ہدایت یاب رہو گے۔ یعنی اس راستے پر رہو گے جو اللہ نے اپنے پیغمبر کو بتلایا تھا۔[23] [ البخاری: 7269]
(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 6227، (البخاری: حدیث نمبر: 5022)، " [ صحیح مسلم 2950، [ابی داوود 1905][19]
رسول اللہ ﷺ فرما چکے ہیں کہ قران اور سنت رہنمائی کے لیے ہے. جو قرآن پر قائم رہے گا گمراہ نہ ہوگا.[254]
بنی اسرائیل میں مسیح علیہ السلام نے آنا تھا اس لئے عبوری دور میں ائمۃ (Twelve Judges) تورات سے رہنمائی کرتے رہے- پھر بنی اسرائیل نے تورات میں تحریف کر دی اور تلمود لکھ کر تورات کو پس پشت ڈال دیا- لیکن اب رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی نبی یا رسول نے نہیں آنا ، قرآن محفوظ ہے ، سنت رسول اللہ ﷺ موجود ہے- اب کسی امام کی بنی اسرائیل کی طرح ضرورت نہیں نہ ہی بنی اسرایئل کے نقش قدم پر چلنا ہے جس سے رسول اللہ ﷺ ۓ سختی سے ممانعت فرمادی[255]- ان کی کی نقل میں بارہ امام کیسے مقرر کر سکتے ہیں جس کا حکم نہیں ملا- جبکہ قیامت کب ہو گی کسی کو علم نہیں- اب علماء اور مجددین قرآن و سنت کی روشنی میں راہنمائی کا فریضہ ادا کرتے رہیں گے تا قیامت[256]- ڈیجیٹل ٹیکنولوجی نے قرآن و سنت کو ہر انسان کی پہنچ میں کر دیا ہے- اب اگر کوئی عالم زرا سا بھی صراط مستقیم سے ہٹ کر بات کرے تو مسلمان ان کو پکڑ لیتے ہیں-
وجعلنا منہم ائمة تہدون بامرنا لما صبروا اوکانوا بایتنا یوقنون
” یعنی ہم نے بنی اسرائیل میں سے کچھ لوگوں کو امام اور پیشوا و مقتداء بنادیا جو اپنے پیغمبر کے نائب ہونے کی حیثیت سے باذن ربانی لوگوں کو ہدایت کیا کرتے تھے، جبکہ انہوں نے صبر کیا اور جبکہ وہ ہماری آیتوں پر یقین رکھتے ہیں۔ “
بنی اسرائیل کے ائمہ جو کتاب کی تعلیم و تبلیغ میں مصروف تھے وہ صبر کرنے کے ساتھ ساتھ اللہ تعالیٰ کی آیات پر پختہ یقین بھی رکھتے تھے۔ گویا اللہ تعالیٰ کی آیات پر یقین رکھنا ‘ اس کے وعدوں کو من و عن سچ ماننا اور اس پر توکل کرنا راہ حق کی جدوجہد کی لازمی شرائط ہیں- اس سے مقصود کفار عرب کو متنبہ کرنا ہے کہ جس طرح اللہ کی کتاب کے نزول نے بنی اسرائیل کے اندر قسمتوں کے فیصلے کیے تھے اسی طرح اب اس کتاب کا نزول تمہارے درمیان بھی قسمتوں کا فیصلہ کر دے گا ۔
عبداﷲ بن سبا علماء یہود میں سے ایک سربر آوردہ عالم تھا اور جب سے سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکال کر فلسطین کی طرف دھکیل دیا تھا۔ اس وقت سے اس کے دل میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی آگ سلگ رہی تھی اور وہ اندر ہی اندر ایسی تراکیب سوچتا رہتا تھا جس کے ذریعے مسلمانوں سے بغض و عداوت کی وجہ سے کوئی نہ کوئی مصیبت کھڑی کرسکے۔ انہی تراکیب میں سے ایک ترکیب اسے یہ سوجھی کہ مسلمان ہوکر پھر ان کے رازونیاز سے واقفیت حاصل کی جائے اور کچھ ساتھی ڈھونڈے جائیں تاکہ مستقل گروہ بن جانے پر اسلام کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ چنانچہ وہ یمن سے مدینہ آیا اور مدینہ آکر اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا۔ اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ امیر المومنین تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ کی نرم دلی اور خوش خلقی سے اس نے یہ ناجائز فائدہ اٹھایا- وہ اپنی مخفی دشمنی کے لئے راستہ ہموار کرنے کے درپے رہنے لگا اور اپنے ہم خیال لوگوں کی تلاش میں مصروف ہوا۔ ’’جویندہ یابندہ‘‘ کے مطابق اسے ایسے ہمنوا مل گئے جو بظاہر مسلمان تھے لیکن دل سے سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دشمن تھے۔ ان سے میل جول صلاح و مشورہ شروع ہوا اور خفیہ خفیہ ایک منظم گروہ تیار کرلیا۔ اسی منظم کے ذریعے اس نے اولین کامیابی یہ حاصل کی کہ سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو شہید کرادیا۔ اس یہودی عالم (عبداﷲ ابن سبا) کی ان خفیہ سرگرمیوں اور اسلام و مسلمانوں کے ساتھ بغض و عداوت کی تفصیلات شیعہ سنی دونوں مکتبہ فکر کے مورخین کے ہاں صراحتاً ملتی ہیں-[257]
"یہودی انسکیکلوپیڈیا " میں آج بھی عبداللہ بن سبا کا مسلمانوں میں تفرقہ ڈالنے کا یہودی کارنامہ فخریہ موجود ہے.[258]
ترجمہ : "ساتویں صدی میں یمن، عرب کا ایک یہودی، جو مدینہ میں آباد ہوا اور اسلام قبول کیا۔ خلیفہ عثمان کی انتظامیہ پر منفی تنقید کرنے کے بعد اسے شہر سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد وہ مصر چلا گیا، جہاں اس نے علی کے مفادات کو فروغ دینے کے لیے ایک "عثمان مخالف" فرقہ قائم کیا۔ اپنی تعلیم کی وجہ سے اس نے وہاں بہت اثر و رسوخ حاصل کیا، اور یہ نظریہ وضع کیا کہ جس طرح ہر نبی کا ایک معاون ہوتا ہے جو بعد میں اس کا جانشین ہوتا تھا، اسی طرح محمدص کا وزیر علی تھا، جسے دھوکے سے خلافت سے دور رکھا گیا تھا۔ خلافت پر عثمان کا کوئی قانونی دعویٰ نہیں تھا۔ اور اس کی حکومت کے خلاف عام عدم اطمینان نے عبداللہ کی تعلیمات کو پھیلانے میں بہت مدد کی۔ روایت بتاتی ہے کہ جب علی نے اقتدار سنبھالا تو عبداللہ نے ان سے یہ الفاظ کہے کہ "تو ہی تو ہے!" اس کے بعد علی نے اسے مدین میں جلاوطن کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ علی کے قتل کے بعد عبداللہ نے سکھایا تھا کہ علی مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے، اور کبھی مارا نہیں گیا تھا۔ کہ اس میں الہ کا ایک حصہ چھپا ہوا تھا۔ اور یہ کہ ایک خاص وقت کے بعد وہ زمین کو انصاف سے بھرنے کے لیے واپس آئے گا۔ اس وقت تک علی کا الٰہی کردار اماموں میں پوشیدہ رہنا تھا، جنہوں نے عارضی طور پر ان کی جگہ کو پر کیا۔ یہ دیکھنا آسان ہے کہ ایلیاہ نبی کے افسانے کے ساتھ مل کر پورا خیال مسیحا پر منحصر ہے۔ علی کی طرف الہی اعزازات کا انتساب شاید بعد کی ارتقاء ایجاد تھی، اور اس کو پروان اس طرح چڑھایا گیا کہ قرآن میں اللہ کو اکثر "العلی" (سب سے اعلیٰ) کہا گیا ہے۔"[259]
امامت کی دلیل بھی ایک یہودی سے ملنا بھی قابل حیرت ہے:
"نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ(ص) سے عرض کیا: ہمیں اپنے جانشین سے آگاہ کریں، کیونکہ کوئی بھی ایسا پیغمبر نہیں ہے جس کا کوئی جانشین نہ ہو اور ہمارے نبی (موسی) نے یوشع بن نون کو اپنا وصی اور جانشین قرار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے جواب دیا: بے شک میرے بعد میرے وصی اور خلیفہ علی بن ابی طالب ہیں اور ان کے بعد ان کے دو بیٹے حسن اور حسین اور ان کے بعد نو مزید امام ہیں جو حسین بن علی کی صلب سے ہیں۔ نعثل نے کہا: اے محمد(ص)! ان نو جانشینوں کے نام بھی میرے لیے بیان کریں۔ اور رسول اللہ(ص) نے ان کے نام بھی بیان فرمائے[260]، [261] [استغفر اللہ ]
Abdullah bin Saba, a Yamnite Rabbi (Jewish Scholar) apparently converted to Islam and introduced Hebrew Biblical Concepts among Mulsims. He played a role in rising against 4th Caliph Usman bin Affan، he was exiled. Later he was punished by Ali bin Abu Talib due to his heretical ideologies. [Read more at Jewish Encyclopedia[262]]
In the Hebrew Bible, Moses is described as a shofet over the Israelites and appoints others to whom cases were delegated in accordance with the advice of Jethro, his Midianite father-in-law. The Hebrew term shofet, which is translated into English as “judge,” is closer in meaning to “ruler,” a kind of military leader or deliverer from potential or actual defeat. [It can be called as Imam or leader in Arabic]
The biblical judges are described in the Hebrew Bible, and mostly in the Book of Judges, as people who served roles as military leaders in times of crisis, in the period before an Israelite monarchy was established. The Book of Judges mentions twelve leaders (12) who are said to "judge" Israel: Othniel, Ehud, Shamgar, Deborah, Gideon, Tola, Jair, Jephthah, Ibzan, Elon, Abdon, and Samson. Ehud, described in the text between Othniel and Shamgar, is usually included as a judge because the history of his leadership follows a set pattern characteristic of five of the others[263].
عبرانی بائبل میں، موسیٰ کو بنی اسرائیل پر ایک شافٹ کے طور پر بیان کیا گیا ہے اور وہ دوسروں کو مقرر کرتے ہیں جن کے پاس اس کے مدیانی سسر جیتھرو کے مشورے کے مطابق معاملات سونپے گئے تھے۔ عبرانی اصطلاح شوفٹ، جس کا انگریزی میں ترجمہ "جج" کے طور پر کیا جاتا ہے، معنی میں "حکمران" کے قریب ہے، ایک قسم کا فوجی رہنما یا ممکنہ یا حقیقی شکست سے نجات دہندہ ۔ [عربی میں اسے امام یا رہنما کہا جا سکتا ہے]
بائبل کے ججوں کو عبرانی بائبل میں بیان کیا گیا ہے، اور زیادہ تر ججوں کی کتاب میں، ایسے لوگوں کے طور پر جنہوں نے اسرائیلی بادشاہت کے قائم ہونے سے پہلے کے دور میں بحران کے وقت لیڈروں کے طور پر کردار ادا کیا۔ ججوں کی کتاب میں بارہ رہنماؤں (12) کا تذکرہ کیا گیا ہے جن کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ وہ اسرائیل کو "جج" کرتے ہیں: اوتھنیل، ایہود، شمگر، ڈیبورا، جدعون، تولا، جیر، یفتھا، ابزان، ایلون، عبدون اور سمسون۔ اوتھنیل اور شمگر کے درمیان متن میں بیان کردہ ایہود کو عام طور پر ایک جج کے طور پر شامل کیا جاتا ہے کیونکہ اس کی قیادت کی تاریخ دیگر میں سے پانچ کی ایک سیٹ پیٹرن کی پیروی کرتی ہے۔[264]
مزید تفصیل: امامت کا نظریہ >>>
قرآن نے اسلامی ریاست اور حکومت کے بنیادی اصول مقرر کر دیے ہیں، ان اصولوں پرعمل درآمد کے بغیر صرف "اسلامی" کہنے سے کوئی ریاست "اسلامی"نہیں بن جاتی :
1.اللہ کی حاکمیت (3:189)
2. الله کا قانون (5:44,45,46,47)
” اور جو شخص اس قانون کے مطابق فیصلے نہیں کرتا جو اللہ نے نازل کیا ہے تو وہ کافر(٤٤) (ظالم ٤٥ . فاسق٤٧ ) ہے (قرآن, سورہ المائدہ آیات 44,45,47)[265]
3.مشاورت (42:38)
4.حکمرانوں کے فرائض (3:110) (22:41)
اسلامی حکومت کا فرض بھی ہے اور اس کے پاس اختیار ، ریاستی طاقت پولیس ، فوج اور ادارے ہیں جو نفاذ میں مدد کرسکتے ہیں:
اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾
"یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں ، اور زکوٰۃ ادا کریں ، اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں ، اور برائی سے روکیں ، ( ٢٥ ) اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے" (قرآن :22:41)[266]
5.نظام مملکت سے دیانت داری (8:27)
6.امانتیں امانت داروں کو اور انصاف (4:58)
7. حاکم وقت کی اطاعت کا حکم (4:59)
8. اطاعت حاکم کی حد (76:24)
9.آمریت کی نفی (3:79)
10.دوسرے نظاموں کی نفی (25:43, 45:24)
11.بری قیادت کی پیروی کا انجام11:98
1..اہلیت کے مطابق منتخب کریں (4:58. 2:247)
2.میرٹ ، لوگوں کے مابین انصاف کے ساتھ فیصلہ کریں (4:58)
3.انصاف کے لئے مضبوطی سے کھڑے ہو جاؤ (4:135)
4.کسی کے اعتماد ، بھروسہ کو ٹھیس مت پہنچاؤ (2:283)
5.حق کو باطل کے ساتھ نہ ملاؤ (2:42)
6.اچھے کاموں کی نصیحت، برے کاموں سے منع کرو (31:17)
7.نفس کی حرص سے اپنے آپ کو بچائیں (64:16)
8.ایک دوسرے کے مال کو ناجائز استعمال نہ کریں (4:29)
9.خود عمل کرنے کے بعد لوگوں کو راستبازی کا حکم دو (2:44)
10.گناہ اور ناجائز کاموں کے خلاف جدوجہد کریں (5:63)
11.کسی شخص پراس کی استعداد سے زیادہ بوجھ مت ڈالو (2:286)
12. بد دیانت لوگوں کی حمایت نہ کریں (4:105)
13.گناه اور ﻇلم و زیادتی میں مدد نہ کرو (5:2)
14.نیکی اور پرہیزگاری میں تعاون کریں(5:2)
15.’’ اکثریت ‘‘ حق کی کسوٹی نہیں ہے (6:116)
16.انصاف کرو (5:8)
آسمانوں اور زمین کی بادشاہی اللہ ہی کے لئے ہے اور اللہ تعالٰی ہرچیز پر قادر ہے ۔ [سورة آل عمران 3 آیت: 189]
سورۃ النساء (آیت:۶۰،۶۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ یَزْعُمُوْنَ اَنَّھُمْ اٰمَنُوْابِمَآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ وَمَآ اُنْزِلَ مِنْ قَبْلِکَ یُرِیْدُوْنَ اَنْ یَّتَحَاکَمُوْٓا اِلَی الطَّاغُوْتِ وَ قَدْ اُمِرُوْٓا اَنْ یَّکْفُرُوْا بِہٖ وَ یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّضِلَّھُمْ ضَلٰلًا بَعِیْدًا . وَ اِذَا قِیْلَ لَھُمْ تَعَالَوْا اِلٰی مَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ وَاِلَی الرَّسُوْلِ رَاَیْتَ الْمُنٰفِقِیْنَ یَصُدُّوْنَ عَنْکَ صُدُوْدًا.
’’کیا تم نے اُن لوگوں کو نہیں دیکھا جو دعویٰ تو یہ کرتے ہیں کہ جو (کتاب) تم پر نازل ہوئی اور جو (کتابیں ) تم سے پہلے نازل ہوئیں اُن سب پر ایمان رکھتے ہیں اور چاہتے یہ ہیں کہ اپنا مقدمہ ایک سرکش کے پاس لے جا کر فیصلہ کرائیں،حالانکہ اُن کو حکم دیا گیا تھا کہ اُس سے اعتقاد نہ رکھیں اور شیطان (تو یہ) چاہتا ہے کہ اُن کو بہکا کر راستے سے دُور ڈال دے۔اور جب اُن سے کہا جاتا ہے کہ جو حکم اللہ نے نازل فرمایا ہے،اُس کی طرف (رجوع کرو)اور پیغمبر کی طرف آؤ تو تم منافقوں کو دیکھتے ہو کہ تم سے اعراض کرتے اور رُکے جاتے ہیں۔‘‘
وَ الَّذِیْنَ اسْتَجَابُوْا لِرَبِّهِمْ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ١۪ وَ اَمْرُهُمْ شُوْرٰى بَیْنَهُمْ١۪ وَ مِمَّا رَزَقْنٰهُمْ یُنْفِقُوْنَۚ
جو اپنے ربّ کا حکم مانتے ہیں، نماز قائم کرتے ہیں، اپنے معاملات آپس کے مشورے سے چلاتے ہیں، ہم نے جو کچھ بھی رزق انہیں دیا ہے اُس میں سے خرچ کرتے ہیں، (42:38)[268]
اہلِ ایمان ہر اہم کام باہمی مشاورت سے کرتے ہیں،اپنی ہی رائے کو حرفِ آخر نہیں سمجھتے- جو مشورہ اہل شوریٰ کے اجماع (اتفاق رائے) سے دیا جائے، یا جسے ان کے جمہور (اکثریت) کی تائید حاصل ہو، اسے تسلیم کیا جائے۔ کیونکہ اگر ایک شخص یا ایک ٹولہ سب کی سننے کے بعد اپنی من مانی کرنے کا مختار ہو تو مشاورت بالکل بےمعنی ہوجاتی ہے، اللہ تعالیٰ یہ نہیں فرما رہا ہے کہ " ان کے معاملات میں ان سے مشورہ لیا جاتا ہے " بلکہ یہ فرما رہا ہے کہ " ان کے معاملات آپس کے مشورے سے چلتے ہیں۔ " اس ارشاد کی تعمیل محض مشورہ لے لینے سے نہیں ہوجاتی، بلکہ اس کے لیے ضروری ہے کہ مشاورت میں اجماع یا اکثریت کے ساتھ جو بات طے ہو اسی کے مطابق معاملات چلیں۔
اسلام کے اصول شوریٰ کی اس توضیح کے ساتھ یہ بنیادی بات بھی نگاہ میں رہنی چاہیے کہ یہ شوریٰ مسلمانوں کے معاملات چلانے میں مطلق العنان اور مختار کل نہیں ہے بلکہ لازماً اس دین کے حدود سے محدود ہے جو اللہ تعالیٰ نے خود اپنی تشریع سے مقرر فرمایا ہے، اور اس اصل الاصول کی پابند ہے کہ " تمہارے درمیان جس معاملہ میں بھی اختلاف ہو اس کا فیصلہ کرنا اللہ کا کام ہے "، اور " تمہارے درمیان جو نزاع بھی ہو اس میں اللہ اور رسول کی طرف رجوع کرو "۔ اس قاعدہ کلیہ کے لحاظ سے مسلمان شرعی معاملات میں اس امر پر تو مشورہ کرسکتے ہیں کہ کسی نص کا صحیح مفہوم کیا ہے، اور اس پر عمل در آمد کس طریقہ سے کیا جائے تاکہ اس کا منشا ٹھیک طور سے پورا ہو، لیکن اس غرض سے کوئی مشورہ نہیں کرسکتے کہ جس معاملہ کا فیصلہ اللہ اور اس کے رسول نے کردیا ہو اس میں وہ خود کوئی آزادانہ فیصلہ کریں۔ (تفہیم القرآن )[269]
بعض لوگ مشاورت کے اس حکم اور تاکید سے ملوکیت کی تردید اور جمہوریت کا اثبات کرتے ہیں- کے لیے مقرر فرما دیا گیا۔ نظام حکومت کوئی بھی ہو اللہ و رسول اللہ ﷺ کی اطاعت و انصاف لازم ہے-
.اِنَّآ اَنْزَلْنَآ اِلَیْکَ الْکِتٰبَ بِالْحَقِّ لِتَحْکُمَ بَیْنَ النَّاسِ بِمَآ اَرٰکَ اللّٰہُ وَ لَا تَکُنْ لِّلْخَآئِنِیْنَ خَصِیْمًا . وَّاسْتَغْفِرِ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا.[۔سورۃ النساء (آیت:۱۰۵،۱۰۶)]
’’(اے پیغمبر!) ہم نے تم پر سچی کتاب نازل کی ہے،تاکہ اللہ کی ہدایات کے مطابق لوگوں کے مقدمات کا فیصلہ کرو اور (دیکھو) دغا بازوں کی حمایت میں کبھی بحث نہ کرنا اور اللہ سے بخشش مانگنا، بیشک اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
یعنی کسی تحقیق کے بغیر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے خیانت کرنے والوں کی حمایت کی تو اس پر اللہ تعالیٰ سے مغفرت طلب کریں۔ اس سے معلوم ہوا کہ فریقین میں سے جب تک کسی کی بابت پورا یقین نہ ہو کہ وہ حق پر ہے،اس کی حمایت اور وکالت کرنا جائز نہیں۔
.اِنَّآ اَنْزَلْنَا التَّوْرٰۃَ فِیْھَا ھُدًی وَّ نُوْرٌ یَحْکُمُ بِھَا النَّبِیُّوْنَ الَّذِیْنَ اَسْلَمُوْا لِلَّذِیْنَ ھَادُوْا وَ الرَّبّٰنِیُّوْنَ وَ الْاَحْبَارُ بِمَا اسْتُحْفِظُوْا مِنْ کِتٰبِ اللّٰہِ وَ کَانُوْا عَلَیْہِ شُھَدَآئَ فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ.[سورۃ المائدہ (آیت:۴۴)]
’’بے شک ہم ہی نے تورات نازل فرمائی،جس میں ہدایت اور روشنی ہے۔اسی کے مطابق انبیا جو (اللہ کے) فرماں بردار تھے،یہودیوں کو حکم دیتے رہے اور مشائخ اور علما،بھی کیوں کہ وہ کتاب اللہ کے نگہبان مقرر کیے گئے تھے اور اس پر گواہ تھے (یعنی حکمِ الٰہی کا یقین رکھتے تھے) تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ بِالْقِسْطِ شُھَدَآئَ لِلّٰہِ وَ لَوْ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَوِ الْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ اِنْ یَّکُنْ غَنِیًّا اَوْ فَقِیْرًا فَاللّٰہُ اَوْلٰی بِھِمَا فَلَا تَتَّبِعُوا الْھَوٰٓی اَنْ تَعْدِلُوْا وَ اِنْ تَلْوٗٓا اَوْ تُعْرِضُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا .[سورۃ النساء (آیت:۱۳۵)]
’’اے ایمان والو! انصاف پر قائم رہو اور اللہ کے لیے سچی گواہی دو،خواہ (اس میں ) تمھارا یا تمھارے ماں باپ اور رشتے داروں کا نقصان ہی ہو۔اگر کوئی امیر ہے یا فقیر تو اللہ ان کا خیر خواہ ہے،تم خواہشِ نفس کے پیچھے چل کر عدل کو نہ چھوڑ دینا،اگر تم پیچ دار شہادت دو گے یا (شہادت سے) بچنا چاہو گے تو (جان رکھو کہ) اللہ تمھارے سب کاموں سے واقف ہے۔‘‘
۔جیسے دوسرے مقام پر فرمایا:
.وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا.[المائدۃ:۸]
’’تمھیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔‘‘
پیچ دار کا مطلب شہادت میں تحریف و تغیر ہے اور اعراض و بچنے سے مراد شہادت کا چھپانا اور اس کا ترک کرنا ہے۔ان دونوں باتوں سے بھی روکا گیا ہے۔ان آیات میں عدل و انصاف کی تاکید اور اس کے لیے جن باتوں کی ضرورت ہے۔ان کا اہتمام کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔مثلاً:
ہر حال میں عدل کرو اور اس سے انحراف نہ کرو،کسی ملامت گر کی ملامت اور کوئی دوسرا محرک اس میں رکاوٹ نہ بنے،بلکہ اس کے قیام میں تم ایک دوسرے کے معاون اور دست و بازو بنو۔
صرف اللہ کی رضا تمھارے پیشِ نظر ہو،کیونکہ اس صورت میں تم تحریف، تبدیل اور کتمان سے گریز کرو گے اور تمھارا فیصلہ عدل کی میزان میں پورا اترے گا۔
عدل و انصاف کی زد اگر تم پر یا تمھارے والدین پر یا دیگر قریبی رشتے داروں پر بھی پڑے،تب بھی تم پروا مت کرو اور اپنی اور ان کی رعایت کے مقابلے میں عدل کے تقاضوں کو اہمیت دو۔[270]
3۔ سورت صٓ (آیت:۲۶) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰا دَاوٗدُ اِنَّا جَعَلْنٰکَ خَلِیْفَۃً فِی الْاَرْضِ فَاحْکُمْ بَیْنَ النَّاسِ بِالْحَقِّ وَلاَ تَتَّبِعِ الْھَوٰی فَیُضِلَّکَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اِنَّ الَّذِیْنَ یَضِلُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ لَھُمْ عَذَابٌ شَدِیْدٌم بِمَا نَسُوْا یَوْمَ الْحِسَابِ.
’’اے داوٗد! ہم نے تم کو زمین میں بادشاہ بنایا ہے تو لوگوں میں انصاف کے فیصلے کیا کرو اور خواہش کی پیروی نہ کرنا کہ وہ تمھیں اللہ کے راستے سے بھٹکا دے گی،جو لوگ اللہ کے راستے سے بھٹکتے ہیں،ان کے لیے سخت عذاب (تیار) ہے کہ انھوں نے حساب کے دن کو بھلا دیا۔‘‘
4۔ سورت مریم (آیت:۵۹) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.فَخَلَفَ مِنْم بَعْدِھِمْ خَلْفٌ اَضَاعُوا الصَّلوٰۃَ وَ اتَّبَعُوا الشَّھَوٰتِ فَسَوْفَ یَلْقَوْنَ غَیًّا.
’’پھر ان کے بعد چند ناخلف اُن کے جانشین ہوئے،جنھوں نے نماز کو (چھوڑ دیا گویا اُسے) کھو دیا اور خواہشاتِ نفسانی کے پیچھے لگ گئے۔سو عنقریب ان کو گمراہی (کی سزا) ملے گی۔‘‘
5۔ سورۃ القصص (آیت:۵۰) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.فَاِنْ لَّمْ یَسْتَجِیْبُوْا لَکَ فَاعْلَمْ اَنَّمَا یَتَّبِعُوْنَ اَھْوَآئَ ھُمْ وَ مَنْ اَضَلُّ مِمَّنِ اتَّبَعَ ھَوٰہُ بِغَیْرِ ھُدًی مِّنَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ.
’’پھر اگر یہ تمھاری بات قبول نہ کریں تو جان لو کہ یہ صرف اپنی خواہشوں کے پیچھے چلے،بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
.وَ کَتَبْنَا عَلَیْھِمْ فِیْھَآ اَنَّ النَّفْسَ بِالنَّفْسِ وَ الْعَیْنَ بِالْعَیْنِ وَ الْاَنْفَ بِالْاَنْفِ وَ الْاُذُنَ بِالْاُذُنِ وَالسِّنَّ بِالسِّنِّ وَ الْجُرُوْحَ قِصَاصٌ فَمَنْ تَصَدَّقَ بِہٖ فَھُوَ کَفَّارَۃٌ لَّہٗ وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ.[۔سورۃ المائدہ (آیت:۴۵)]
’’اور ہم نے ان لوگوں کے لیے تورات میں یہ حکم لکھ دیا تھا کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے آنکھ اور ناک کے بدلے ناک اور کان کے بدلے کان اور دانت کے بدلے دانت اور سب زخموں کا اسی طرح بدلہ ہے،لیکن جو شخص بدلہ معاف کر دے،وہ اس کے لیے کفارہ ہوگا اور جو اللہ کے فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ بے انصاف ہیں۔‘‘
[وَ الَّذِیۡنَ لَا یَدۡعُوۡنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰـہًا اٰخَرَ وَ لَا یَقۡتُلُوۡنَ النَّفۡسَ الَّتِیۡ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالۡحَقِّ وَ لَا یَزۡنُوۡنَ ۚ وَ مَنۡ یَّفۡعَلۡ ذٰلِکَ یَلۡقَ اَثَامًا ﴿ۙ2:68﴾
اور اللہ کے ساتھ کسی دوسرے معبود کو نہیں پکارتے اور کسی ایسے شخص کو جسے قتل کرنا اللہ تعالٰی نے منع کر دیا ہو وہ بجز حق کے قتل نہیں کرتے نہ وہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں اور جو کوئی یہ کام کرے وہ اپنے اوپر سخت وبال لائے گا ۔ ﴿ۙ2:68﴾
سزاے موت بذریعه عدالت: ان جرائم کی سزا میں اسے قتل کیا جائے گا۔۔[271]‘[272]
1 اسلام کے بعد کوئی دوبارہ کفر اختیار کرے،جسے ارتداد کہتے ہیں (اس پر اختلافات ہیں )
2. شادی شدہ ہو کر بدکاری کا ارتکاب کرے۔[ قرآن میں نہیں سنت و احادیث میں ہے ]
3.کسی کو قتل کر دے۔ [متفقہ علیہ]
جہاد میں دشمن کو قتل کرنا جائز ہے، لیکن اگر وہ کلمہ پڑھے توجان بخشی -
جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی کافر ہیں (5:44)[273]
اور جو لوگ اللہ کے نازل کردہ قانون کے مطابق فیصلہ نہ کریں وہی ظالم ہیں (5:45)[274]
اور جو اللہ کے نازل کیے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے گا تو ایسے لوگ فاسق ہیں۔ (5:47)
.قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَسْتُمْ عَلٰی شَیْئٍ حَتّٰی تُقِیْمُوا التَّوْرٰۃَ وَ الْاِنْجِیْلَ وَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ لَیَزِیْدَنَّ کَثِیْرًا مِّنْھُمْ مَّآ اُنْزِلَ اِلَیْکَ مِنْ رَّبِّکَ طُغْیَانًا وَّ کُفْرًا فَلَا تَاْسَ عَلَی الْقَوْمِ الْکٰفِرِیْنَ .[سورۃ المائدہ (آیت:۶۸)]
’’کہو کہ اے اہلِ کتاب! جب تک تم تورات اور انجیل کو اور جو (اور کتابیں ) تمھارے رب کی طرف سے تم لوگوں پر نازل ہوئیں،اُن کو قائم نہ رکھو گے،کچھ بھی راہ پر نہیں ہو سکتے اور (یہ قرآن) جو تمھارے رب کی طرف سے تم پر نازل ہوا ہے،اس سے اُن میں سے اکثر کی سرکشی اور کفر اور بڑھے گا تو تم قوم کفار پر افسوس نہ کرو۔‘‘
.وَ اِنْ حَکَمْتَ فَاحْکُمْ بَیْنَھُمْ بِالْقِسْطِ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ.[سورۃ المائدہ (آیت:۴۲)]
’’اور اگر فیصلہ کرنا چاہو تو انصاف کا فیصلہ کرنا ہے کہ اللہ تعالیٰ انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘
.لَقَدْ اَرْسَلْنَا رُسُلَنَا بِالْبَیِّنٰتِ وَاَنْزَلْنَا مَعَھُمُ الْکِتٰبَ وَالْمِیْزَانَ لِیَقُوْمَ النَّاسُ بِالْقِسْطِ وَاَنْزَلْنَا الْحَدِیْدَ فِیْہِ بَاْسٌ شَدِیْدٌ وَّمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَلِیَعْلَمَ اللّٰہُ مَنْ یَّنْصُرُہٗ وَرُسُلَہٗ بِالْغَیْبِ اِنَّ اللّٰہَ قَوِیٌّ عَزِیْزٌ.[سورۃ الحدید (آیت:۲۵)]
’’ہم نے اپنے پیغمبروں کو کھلی نشانیاں دے کر بھیجا اور ان پر کتابیں نازل کیں اور ترازو (قواعدِ عدل) تاکہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور لوہا پیدا کیا،اس میں (جنگ کے لحاظ سے) خطرہ بھی شدید ہے اور لوگوں کے لیے فائدے بھی ہیں اور اس لیے کہ جو لوگ بن دیکھے اللہ اور اس کے پیغمبروں کی مدد کرتے ہیں،اللہ ان کو معلوم کر لے،بے شک اللہ قوی (اور) غالب ہے۔‘‘
سورت بنی اسرائیل (آیت:۳۵) میں فرمایا:
.وَ اَوْفُوا الْکَیْلَ اِذَا کِلْتُمْ وَزِنُوْا بِالْقِسْطَاسِ الْمُسْتَقِیْمِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا.
’’اور جب کوئی چیز ناپ کر دینے لگو تو پیمانہ پورا بھرکردو اور (جب تول کر دو تو ) ترازو سیدھی رکھ کر تولا کرو،یہ بہت اچھی بات اور انجام کے لحاظ سے بھی بہت بہتر ہے۔‘‘
سورۃ الرحمن (آیت:۷ تا ۹) میں فرمایا ہے:
.وَالسَّمَآئَ رَفَعَھَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ . اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ . وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ.
’’اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی۔کہ ترازو (سے تولنے) میں حد سے تجاوز نہ کرو۔اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو اور تول کم مت کرو۔‘‘
سورہ ہود (آیت:۸۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ.
’’اور ( اے قوم! ) ماپ اور تول انصاف کے ساتھ پوری پوری کیا کرو اور لوگوں کو ان کی چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں خرابی کرتے نہ پھرو۔‘‘
انبیا علیہم السلام کی دعوت دو اہم بنیادوں پر مشتمل ہوتی ہے:حقوق اللہ اور حقوق العباد کو ادا کرنا۔اس آیت میں حقوق العباد کی طرف اشارہ کیا گیا ہے کہ لوگوں کو انصاف کے ساتھ پورا پورا ناپ تول دیں اور لوگوں کو چیزیں کم دینے سے منع کیا جارہا ہے،کیونکہ اللہ تعالیٰ کے ہاں یہ بھی ایک بڑا جرم ہے۔اللہ تعالیٰ نے ایک پوری سورت ’’سورۃ المطفّفین‘‘ میں اس جرم کی شناعت و قباحت اور اس کی اخروی سزا بیان فرمائی ہے۔
چنانچہ مذکورہ بالا سورت کی پہلی چھے آیات میں فرمایا ہے:
.وَیْلٌ لِّلْمُطَفِّفِیْنَ . الَّذِیْنَ اِذَا اکْتَالُوْا عَلَی النَّاسِ یَسْتَوْفُوْنَ . وَاِذَا کَالُوْھُمْ اَوْ وَّزَنُوْھُمْ یُخْسِرُوْنَ . اَلاَ یَظُنُّ اُولٰٓئِکَ اَنَّھُمْ مَّبْعُوْثُوْنَ . لِیَوْمٍ عَظِیْمٍ . یَوْمَ یَقُوْمُ النَّاسُ لِرَبِّ الْعٰلَمِیْنَ.
’’ناپ اور تول میں کمی کرنے والوں کے لیے خرابی ہے۔جو لوگوں سے ناپ کر لیں تو پورا کریں۔اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیں تو کم دیں۔کیا یہ لوگ نہیں جانتے کہ اٹھائے بھی جائیں گے؟ (یعنی) ایک بڑے (سخت) دن میں۔جس دن (تمام) لوگ رب العالمین کے سامنے کھڑے ہوں گے۔‘‘
لینے اور دینے کے الگ الگ پیمانے رکھنا اور اسی طرح ڈنڈی مار کر ناپ تول میں کمی کرنا،بہت بڑی اخلاقی بیماری ہے،جس کا نتیجہ دین اور آخرت میں تباہی ہے۔ایک حدیث میں ہے:
’’جو قوم ناپ تول میں کمی کرتی ہے،اس پر قحط سالی،سخت محنت اور حکمرانوں کا ظلم مسلط کر دیا جاتا ہے[276]۔‘‘
یہ ڈنڈی مارنے والے اس بات سے نہیں ڈرتے کہ ایک بڑا ہولناک دن آنے والا ہے،جس میں سب لوگ رب العالمین کے سامنے ہوں گے،جو تمام پوشیدہ باتوں کو جانتا ہے؟ مطلب یہ ہے کہ یہ کام وہی لوگ کرتے ہیں جن کے دلوں میں اللہ کا خوف اور قیامت کا ڈر نہیں ہے۔احادیث میں آتا ہے کہ جس وقت لوگ رب العالمین کے لیے کھڑے ہوں گے تو پسینا انسانوں کے آدھے آدھے کانوں تک پہنچا ہوگا۔[277]
ایک اور روایت میں ہے کہ قیامت والے دن سورج مخلوق کے اتنا قریب ہوگا کہ ایک میل کی مقدار کے قریب فاصلہ ہوگا۔حدیث کے راوی حضرت سلیم بن عامر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نہیں جانتا کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے میل سے زمین کی مسافت والا میل مراد لیا ہے یا وہ سلائی جس سے سرمہ آنکھوں میں لگایا جاتا ہے۔پس لوگ اپنے اعمال کے مطابق پسینے میں ہوں گے،یہ پسینا کسی کے ٹخنوں تک،کسی کے گھٹنوں تک،کسی کی کمر تک ہوگا اور کسی کے لیے یہ لگام بنا ہوا ہوگا،یعنی اس کے منہ تک پسینا ہوگا۔[278]
سورۃ الاعراف (آیت:۸۵) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ اِلٰی مَدْیَنَ اَخَاھُمْ شُعَیْبًا قَالَ یٰقَوْمِ اعْبُدُوا اللّٰہَ مَا لَکُمْ مِّنْ اِلٰہٍ غَیْرُہٗ قَدْ جَآئَ تْکُمْ بَیِّنَۃٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ فَاَوْفُوا الْکَیْلَ وَ الْمِیْزَانَ وَ لَا تَبْخَسُوا النَّاسَ اَشْیَآئَ ھُمْ وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.
’’اور مدین کی طرف اُن کے بھائی شعیب کو بھیجا (تو) انھوں نے کہا کہ اے قوم! اللہ ہی کی عبادت کرو،اس کے سوا تمھارا کوئی معبود نہیں،تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے نشانی آچکی ہے تو تم ماپ اور تول پوری کیا کرو اور لوگوں کو چیزیں کم نہ دیا کرو اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو،اگر تم صاحبِ ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمھارے حق میں بہتر ہے۔‘‘
دعوتِ توحید کے بعد اُس قوم میں ناپ تول کی بڑی خرابی تھی،اس سے انھیں منع فرمایا اور پورا پورا ناپ اور تول کر دینے کی تلقین کی۔یہ کوتاہی بھی بڑی خطرناک ہے،جس سے اس قوم کی اخلاقی پستی اور گراوٹ کا پتا چلتا ہے۔یہ بدترین خیانت ہے کہ پیسے پورے لیے جائیں اور چیز کم دی جائے۔اس لیے سورۃ المطفّفین میں ایسے لوگوں کی ہلاکت کی خبر دی گئی ہے۔
حضرت شعیب علیہ السلام نے پہلے تو اپنی قوم کو ناپ تول میں کمی بیشی سے روکا،پھر لین دین کے وقت عدل و انصاف کے ساتھ پورے پورے ناپ تول کا حکم دیتے ہیں اور زمین میں فساد و تباہ کاری کرنے سے منع کرتے ہیں۔ان میں رہزنی اور ڈاکا مارنے کی بدخصلت بھی تھی۔[279]
4۔ سورۃ الرحمن (آیت:۸) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ.
’’کہ ترازو (سے تولنے) میں حد سے تجاوز نہ کرو۔‘‘
5۔ جبکہ (آیت:۹) میں فرمایا ہے:
.وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ.
’’اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو اور تول کم مت کرو۔‘‘
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُوْنُوْا قَوّٰمِیْنَ لِلّٰہِ شُھَدَآئَ بِالْقِسْطِ وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا اِعْدِلُوْا ھُوَ اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ خَبِیْرٌم بِمَا تَعْمَلُوْنَ.[سورۃ المائدہ (آیت:۸)]
’’اے ایمان والو! اللہ کے لیے انصاف کی گواہی دینے کے لیے کھڑے ہو جایا کرو اور لوگوں کی دشمنی تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ انصاف چھوڑ دو (بلکہ) انصاف کیا کرو کہ یہی پرہیزگاری کی بات ہے اور اللہ سے ڈرتے رہو،کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ تمھارے سب اعمال سے خبردار ہے۔‘‘
.وَ لَا یَأْبَ الشُّھَدَآئُ اِذَا مَا دُعُوْا.[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۸۲)]
’’اور جب گواہ (گواہی کے لیے) طلب کیے جائیں تو وہ انکار نہ کریں۔‘‘
.وَ لَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَ وَ مَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ. [سورۃ البقرۃ (آیت:۲۸۳)]
’’اور (دیکھنا) شہادت کو مت چھپانا جو اُس کو چھپائے گا،وہ دل کا گناہ گار ہوگا اور اللہ تمھارے سب کاموں سے واقف ہے۔‘‘
.وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ اَنْ یَّقْتُلَ مُؤْمِنًا اِلَّا خَطَئًا وَ مَنْ قَتَلَ مُؤْمِنًا خَطَئًا فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَّ دِیَۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَھْلِہٖٓ اِلَّآ اَنْ یَّصَّدَّقُوْا فَاِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍ عَدُوٍّلَّکُمْ وَ ھُوَ مُؤْمِنٌ فَتَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ وَ اِنْ کَانَ مِنْ قَوْمٍم بَیْنَکُمْ وَ بَیْنَھُمْ مِّیْثَاقٌ فَدِیْۃٌ مُّسَلَّمَۃٌ اِلٰٓی اَھْلِہٖ وَ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ مُّؤْمِنَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ تَوْبَۃً مِّنَ اللّٰہِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا.[سورۃ النساء (آیت:۹۲)]
’’اور کسی مومن کو شایاں نہیں کہ مومن کو مار ڈالے مگر بھول کر اور جو بھول کر بھی مومن کو مار ڈالے تو (ایک تو) ایک مسلمان غلام آزاد کر دے اور (دوسرے) مقتول کے وارثوں کو خون بہا دے۔ہاں اگر وہ معاف کر دیں (تو اُن کو اختیار ہے)،اگر مقتول تمھارے دشمنوں کی جماعت میں سے ہو اور وہ خود مومن ہو تو صرف ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہیے اور اگر مقتول ایسے لوگوں میں سے ہو جن میں اور تم میں صلح کا عہد ہو تو وارثانِ مقتول کو خون بہا دینا اور ایک مسلمان غلام آزاد کرنا چاہیے اور جس کو یہ میسر نہ ہو،وہ متواتر دو مہینے کے روزے رکھے۔یہ (کفارہ) اللہ کی طرف سے (قبولِ) توبہ (کے لیے) ہے اور اللہ (سب کچھ) جانتا (اور ) بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
یہ قتل خطا کا جرمانہ بیان کیا جا رہا ہے،جو دو چیزیں ہیں۔ایک بطورِ کفارہ و استغفار ہے،یعنی مسلمان غلام کی گردن آزاد کرنا اور دوسری چیز بطورِ حق العباد کے ہے اور وہ ہے مقتول کے خون کے بدلے میں جو چیز مقتول کے وارثوں کو دی جائے۔دیت کی مقدار حدیث کی رو سے سو اونٹ یا اس کے مساوی قیمت سونے چاندی یا کرنسی کی شکل میں ہوگی۔
.وَ مَنْ یَّقْتُلْ مُؤْمِنًا مُّتَعَمِّدًا فَجَزَآؤُہٗ جَھَنَّمُ خٰلِدًا فِیْھَا وَ غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْہِ وَ لَعَنَہٗ وَ اَعَدَّلَہٗ عَذَابًا عَظِیْمًا.[سورۃ النساء (آیت:۹۳)]
’’اور جو شخص مسلمان کو قصداً مار ڈالے گا تو اس کی سزا دوزخ ہے،جس میں وہ ہمیشہ (جلتا) رہے گا اور اللہ اس پر غضب ناک ہوگا اور اس پر لعنت کرے گا اور ایسے شخص کے لیے اُس نے بڑا (سخت) عذاب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
خیال رہے کہ یہ قتلِ عمد ہے اور قتلِ عمد میں یہ نفی،نہی کے معنیٰ میں ہے جو حرمت کی دلیل ہے۔یعنی ایک مومن کو قتل کرنا ممنوع اور حرام ہے۔
قتل کی تین قسمیں ہیں۔ قتلِ خطا، قتلِ شبہہ عمد اور قتلِ عمد، جس کا مطلب ہے،ارادے اور نیت سے کسی کو قتل کرنا اور اس کے لیے وہ آلہ استعمال کرنا، جس سے فی الواقع عادتاً قتل کیا جاتا ہے،جیسے تلوار،خنجر وغیرہ۔آیت میں کسی مومن کے قتل پر نہایت سخت وعید بیان کی گئی ہے۔ مثلاً اس کی سزا جہنم ہے،جس میں ہمیشہ رہنا ہوگا،نیز اللہ کا غضب اور اس کی لعنت اور عذاب عظیم بھی ہوگا۔اتنی سزائیں بیک وقت کسی بھی گناہ کی بیان نہیں کی گئیں۔ جس سے یہ واضح ہو جاتا ہے کہ ایک مومن کو قتل کرنا اللہ کے ہاں کتنا بڑا جرم ہے۔احادیث میں بھی اس کی بڑی سخت مذمت اور اس پر سخت وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔
.وَ السَّارِقُ وَ السَّارِقَۃُ فَاقْطَعُوْٓا اَیْدِیَھُمَا جَزَآئًم بِمَا کَسَبَا نَکَالًا مِّنَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْم . فَمَنْ تَابَ مِنْم بعْدِ ظُلْمِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاِنَّ اللّٰہَ یَتُوْبُ عَلَیْہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْم.[سورۃ المائدہ (آیت:۳۸،۳۹)]
’’اور جو چوری کرے مرد ہو یا عورت اُن کے ہاتھ کاٹ ڈالو،یہ اُن کے فعلوں کی سزا اور اللہ تعالیٰ کی طرف سے عبرت ہے اور اللہ زبردست حکمت والا ہے۔جو شخص گناہ کے بعد توبہ کرلے اور نیکوکار ہو جائے تو اللہ اس کو معاف کر دے گا،کچھ شک نہیں کہ اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
بعض فقہاے ظاہریہ کے نزدیک سرقہ کا یہ حکم عام ہے،چوری تھوڑی سی چیز کی ہو یا زیادہ کی،اسی طرح محفوظ جگہ میں رکھی ہو یا غیر محفوظ میں،ہر صورت میں چوری کی سزا دی جائے گی،جب کہ دوسرے فقہا اس کے لیے محفوظ جگہ پر رکھی گئی اور نصاب کو ضروری قرار دیتے ہیں۔ پھر نصاب کے تعین میں ان کے مابین اختلاف ہے۔ محدثین کے نزدیک نصاب ربع دینا ر یا تین درہم (یا ان کے مساوی قیمت کی چیز) ہے،اس سے کم چوری پر ہاتھ نہیں کاٹا جائے گا۔اسی طرح ہاتھ کلائی سے کاٹے جائیں گے،کہنی یا کندھے سے نہیں،جیسا کہ بعض کا خیال ہے۔
.وَ الّٰتِیْ یَاْتِیْنَ الْفَاحِشَۃَ مِنْ نِّسَآئِکُمْ فَاسْتَشْھِدُوْا عَلَیْھِنَّ اَرْبَعَۃً مِّنْکُمْ فَاِنْ شَھِدُوْا فَاَمْسِکُوْھُنَّ فِی الْبُیُوْتِ حَتّٰی یَتَوَفّٰھُنَّ الْمَوْتُ اَوْ یَجْعَلَ اللّٰہُ لَھُنَّ سَبِیْلًا . وَ الَّذٰنِ یَاْتِیٰنِھَا مِنْکُمْ فَاٰذُوْھُمَا فَاِنْ تَابَا وَ اَصْلَحَا فَاَعْرِضُوْا عَنْھُمَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا.[سورۃ النساء (آیت:۱۵،۱۶)]
’’مسلمانو! تمھاری عورتوں میں جو بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں اُن پر اپنے لوگوں میں سے چار آدمیوں کی شہادت لو،اگر وہ (اُن کی بدکاری کی) گواہی دیں تو اُن عورتوں کو گھروں میں بند رکھو،یہاں تک کہ موت اُن کا کام تمام کر دے یا اللہ اُن کے لیے کوئی اور سبیل (پیدا) کر دے۔ اور جو دو مرد تم میں سے بدکاری کریں تو اُن کو ایذا دو، پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نیکوکار ہو جائیں تو اُن کا پیچھا چھوڑ دو،بے شک اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والا (اور) مہربان ہے۔‘‘
سورۃ النور (آیت:۲) میں فرمایا:
.اَلزَّانِیَۃُ وَالزَّانِیْ فَاجْلِدُوْا کُلَّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا مِائَۃَ جَلْدَۃٍ وَّلاَ تَاْخُذْکُمْ بِھِمَا رَاْفَۃٌ فِیْ دِیْنِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَلْیَشْھَدْ عَذَابَھُمَا طَآئِفَۃٌ مِّنَ الْمُؤْمِنِیْنَ.
’’بدکاری کرنے والی عورت اور بدکاری کرنے والا مرد (جب ان کی بدکاری ثابت ہو جائے تو) دونوں میں سے ہر ایک کو سو دُرے مارو اور اگر تم اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو شرعِ الٰہی (کے حکم) میں تمھیں ان پر ہرگز ترس نہ آئے اور چاہیے کہ ان کی سزا کے وقت مسلمانوں کی ایک جماعت بھی موجود ہو۔‘‘
بدکاری کی ابتدائی سزا جو اسلام میں عبوری طور پر بتلائی گئی تھی،وہ سورۃ النساء کی آیت (۱۵) میں مذکور ہے۔اس میں کہا گیا ہے کہ اس کے لیے جب تک مستقل سزا مقرر نہ کی جائے،ان بدکار عورتوں کو گھروں میں بند رکھو،پھر جب سورۃ النور کی یہ آیت نازل ہوئی تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے جو وعدہ فرمایا تھا،اس کے مطابق بدکار مرد اور عورت کی مستقل سزا مقرر کر دی گئی ہے،وہ تم مجھ سے سیکھ لو،کنوارے مرد اور عورت کے لیے سو سو کوڑے اور شادی شدہ مرد اور عورت کو سو سو کوڑے اور سنگ ساری کے ذریعے سے مار دینا۔[280] [پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے شادی شدہ زانیوں کے لیے کوڑوں کی سزا ختم کرکے صرف رجم (سنگساری) برقرار رکھی(اس پر اختلاف ہے کہ قرآن میں سزا واضح ہے)]
سورۃ النور (آیت:۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَلزَّانِیْ لاَ یَنْکِحُ اِلَّا زَانِیَۃً اَوْ مُشْرِکَۃً وَّالزَّانِیَۃُ لاَ یَنْکِحُھَا اِلَّا زَانٍ اَوْ مُشْرِکٌ وَحُرِّمَ ذٰلِکَ عَلَی الْمُؤْمِنِیْنَ.
’’بدکار مرد بدکار یا مشرک عورت کے سوا نکاح نہیں کرتا اور بدکار عورت کو بھی بدکار یا مشرک مرد کے سوا اور کوئی نکاح میں نہیں لاتا اور یہ (بدکار عورت سے نکاح کرنا) مومنوں پر حرام ہے۔‘‘
اس کے مفہوم میں مفسرین کے درمیان اختلاف ہے: [تفصیل مختلف تفاسیر میں ملاحظه کریں[281]]
1۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ غالب احوال کے اعتبار سے ہے اور مطلب یہ ہے کہ عام طور پر بدکار قسم کے لوگ نکاح کے لیے اپنے ہی جیسے لوگوں کی طرف رجوع کرتے ہیں،چنانچہ زانیوں کی اکثریت زانیوں کے ساتھ ہی نکاح کرنا پسند کرتی ہے۔ مقصود اس سے اہلِ ایمان کو متنبہ کرنا ہے کہ جس طرح زنا ایک نہایت قبیح اور بڑا گناہ ہے، اسی طرح زناکاروں کے ساتھ شادی بیاہ کے تعلقات قائم کرنا بھی منع اور حرام ہے۔امام شوکانی نے اسی مفہوم کو راجح قرار دیا ہے۔احادیث میں اس کا جو سببِ نزول بیان کیا گیا ہے،اس سے بھی اسی کی تایید ہوتی ہے کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم نے بدکار عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کی اجازت طلب کی،جس پر یہ آیت نازل ہوئی، یعنی انھیں ایسا کرنے سے روک دیا گیا۔اسی سے استدلال کرتے ہوئے علما نے کہا ہے کہ ایک شخص نے جس عورت سے یا عورت نے جس مرد سے بدکاری کی ہو ان کا آپس میں نکاح جائز نہیں،ہاں اگر وہ خالص توبہ کر لیں تو پھر ان کے درمیان نکاح جائز ہے۔[282]
2۔ بعض کہتے ہیں کہ یہاں نکاح سے مراد معروف نکاح نہیں ہے،بلکہ جماع کے معنیٰ میں ہے اور مقصد زنا کی شناعت و قباحت بیان کرنا ہے۔ مطلب یہ ہے کہ بدکار مرد اپنی جنسی خواہش کی ناجائز طریقے سے تسکین کے لیے بدکار عورت کی طرف اور اسی طرح بدکار عورت بدکار مرد کی طرف رجوع کرتی ہے،مومنوں کے لیے ایسا کرنا یعنی زنا کاری حرام ہے۔
مشرک مرد اور عورت کا ذکر اس لیے کر دیا کہ شرک بھی زنا سے ملتا جلتا گناہ ہے،جس طرح مشرک اللہ کو چھوڑ کر دوسروں کے در پر جھکتا ہے،اسی طرح ایک زناکار اپنی بیوی چھوڑ کر یا بیوی اپنے خاوند کو چھوڑ کر غیروں سے اپنا منہ کالا کراتی ہے،یوں مشرک اور زانی کے درمیان ایک عجیب معنوی مناسبت پائی جاتی ہے۔
سورۃ النور (آیت:۳۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَلاَ تُکْرِھُوْا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآئِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَنْ یُّکْرِھْھُّنَّ فَاِنَّ اللّٰہَ مِنْم بَعْدِ اِکْرَاھِھِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
’’اور اپنی لونڈیوں کو اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں تو دنیاوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لیے بدکاری پر مجبور نہ کرنا اور جو ان کو مجبور کرے گا تو ان (بیچاریوں ) کے مجبور کیے جانے کے بعد اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
.وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِکُمْ بَعْضُکُمْ مِّنْم بَعْضٍ فَانْکِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ وَ اٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ ذٰلِکَ لِِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ وَ اَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.[سورۃ النساء (آیت:۲۵)]
’’اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (بیبیوں ) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں ہی میں جو تمھارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کر لے) اور اللہ تعالیٰ تمھارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے،تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو ان لونڈیوں کے ساتھ اُن کے مالکوں کی اجازت حاصل کر کے نکاح کر لو اور دستور کے مطابق اُن کا مہر بھی ادا کر دو بشرطیکہ عفیفہ ہوں،نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں،پھر اگر نکاح میں آکر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں کے لیے ہے،اُس کی آدھی اُن کو (دی جائے) یہ (لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی) اجازت اس شخص کو ہے،جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو اور اگر صبر کرو تو یہ تمھارے لیے بہت اچھا ہے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘[تفصیل تفسیر ابن کثیر (۱/ ۵۲۳)]
سورۃ النمل (آیت:۵۴،۵۵) میں فرمایا:
.وَلُوْطًا اِذْ قَالَ لِقَوْمِہٖٓ اَتَاْتُوْنَ الْفَاحِشَۃَ وَاَنْتُمْ تُبْصِرُوْنَ . اَئِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ شَھْوَۃً مِّنْ دُوْنِ النِّسَآئِ بَلْ اَنْتُمْ قَوْمٌ تَجْھَلُوْنَ.
’’اور لوط کو (یاد کرو) جب انہوں نے اپنی قوم سے کہا کہ تم بے حیائی (کے کام) کیوں کرتے ہو اور تم دیکھتے ہو۔کیا تم عورتوں کو چھوڑ کر لذت (حاصل کرنے) کے لیے مردوں کی طرف مائل ہوتے ہو،حقیقت یہ ہے کہ تم احمق لوگ ہو۔‘‘
آگے سورۃ العنکبوت (آیت:۲۹) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.اَئِنَّکُمْ لَتَاْتُوْنَ الرِّجَالَ وَ تَقْطَعُوْنَ السَّبِیْلَ وَ تَاْتُوْنَ فِیْ
نَادِیْکُمُ الْمُنْکَرَ فَمَا کَانَ جَوَابَ قَوْمِہٖٓ اِلَّآ اَنْ قَالُوا ائْتِنَا بِعَذَابِ اللّٰہِ اِنْ کُنْتَ مِنَ الصّٰدِقِیْنَ .
’’تم کیوں (لذت کے ارادے سے) لونڈوں کی طرف مائل ہوتے اور (مسافروں کی) رہزنی کرتے ہو اور اپنی مجلسوں میں ناپسندیدہ کام کرتے ہو؟ تو اُن کی قوم کے لوگ جواب میں بولے تو یہ بولے کہ اگر تم سچے ہو تو ہم پر اللہ کا عذاب لے آؤ۔‘‘
سورۃ الشوریٰ (آیت:۳۹) میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
.وَالَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَھُمُ الْبَغْیُ ھُمْ یَنْتَصِرُوْنَ.
’’اور جو ایسے ہیں کہ جب ان پر ظلم و تعدی ہو تو (مناسب طریقے سے) بدلہ لیتے ہیں۔‘‘
برائی کا بدلہ اُسی جیسی برائی ہے اور جو معاف کردے اور اصلاح کرلے،اس کا اجر اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔اللہ تعالیٰ ظالموں کو دوست نہیں رکھتا اور جو شخص اپنے مظلوم ہونے کے بعد برابر کا بدلہ لے لے تو ایسے لوگوں پر الزام کا کوئی راستہ نہیں۔یہ راستہ صرف ان لوگوں پر ہے،جو خود دوسروں پر ظلم کریں اور زمین میں ناحق فساد کرتے پھریں۔یہی لوگ ہیں جن کے لیے دردناک عذاب ہے اور جو شخص صبر کرے اور معاف کردے تو یقینا یہ بڑی ہمت کے کاموں میں سے ہے۔اِن آیات میں کسی کی ایذا رسانی پر بدلہ اور معافی کے متعلق حکم دیا گیا ہے۔ارشاد ہوتا ہے کہ برائی کا بدلہ لینا جائز ہے،لیکن عفو اور درگزر اس سے افضل ہے۔[283]
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِصَاصُ فِی الْقَتْلٰی اَلْحُرُّ بِالْحُرِّ وَ الْعَبْدُ بِالْعَبْدِ وَ الْاُنْثٰی بِالْاُنْثٰی فَمَنْ عُفِیَ لَہٗ مِنْ اَخِیْہِ شَیْئٌ فَاتِّبَاعٌ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اَدَآئٌ اِلَیْہِ بِاِحْسَانٍ ذٰلِکَ تَخْفِیْفٌ مِّنْ رَّبِّکُمْ وَ رَحْمَۃٌ فَمَنِ اعْتَدٰی بَعْدَ ذٰلِکَ فَلَہٗ عَذَابٌ اَلِیْمٌ. [سورۃ البقرۃ (آیت:۱۷۸)]
’’اے مومنو! تمھیں مقتولوں کے بارے میں قصاص (خون کے بدلے خون) کا حکم دیا جاتا ہے (اس طرح پر کہ) آزاد کے بدلے آزاد (مارا جائے) اور غلام کے بدلے غلام اور عورت کے بدلے عورت اور اگر قاتل کو اس کے (مقتول) بھائی (کے قصاص میں ) سے کچھ معاف کر دیا جائے تو (وارثِ مقتول کو) پسندیدہ طریقے سے (قرارداد کی) پیروی (مطالبہ خون بہا) کرنا اور (قاتل) کو خوش خوئی کے ساتھ ادا کرنا چاہیے۔یہ رب کی طرف سے تمھارے لیے آسانی اور مہربانی ہے۔جو اس کے بعد زیادتی کرے اُس کے لیے دردناک عذاب ہے۔‘‘
.وَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلَالاً طَیِّباً وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ أَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ. [سورۃ المائدہ (آیت:۸۸)]
’’اور جو حلال وطیب روزی اللہ نے تمھیں دی ہے،اُسے کھاؤ اور اللہ سے،جس پر ایمان رکھتے ہو،ڈرتے رہو۔‘‘
سورۃ النحل (آیت:۱۱۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَا تَصِفُ اَلْسِنَتُکُمُ الْکَذِبَ ھٰذَا حَلٰلٌ وَّ ھٰذَا حَرَامٌ لِّتَفْتَرُوْا عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ اِنَّ الَّذِیْنَ یَفْتَرُوْنَ عَلَی اللّٰہِ الْکَذِبَ لَا یُفْلِحُوْنَ.
’’اور یونہی جھوٹ جو تمھاری زبان پر آجائے مت کہہ دیا کرو کہ یہ حلال ہے اور یہ حرام ہے کہ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھنے لگو،جو لوگ اللہ پر جھوٹ بہتان باندھتے ہیں ان کا بھلا نہیں ہوگا۔‘‘
حلال اور حرام اللہ کی طرف سے ہوتا ہے ۔[284]
حضرت سلمان فارسی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے گھی، پنیر اور جنگلی گدھے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:" حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں چپ رہے وہ معاف (مباح) ہے (سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 3367)[285]
.یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ کُلُوْا مِمَّا فِیْ الْاَرْضِ حَلٰلًا طَیِّبًا وَّ لاَ تَتَّبِعُوْا خُطُوٰتِ الشَّیْطٰنِ اِنَّہٗ لَکُمْ عَدُوٌّ مُّبِیْنٌ.۔ (سورۃ البقرۃ (آیت:۱۶۸)
’’لوگو! جو چیزیں زمین میں حلال و طیب ہیں وہ کھاؤ اور شیطان کے قدموں پر نہ چلو،کیوں کہ وہ تمھارا کھلا دشمن ہے۔‘‘
شیطان کے پیچھے لگ کر اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام مت کرو۔جس طرح مشرکین نے کیا کہ اپنے بتوں کے نام وقف کردہ جانوروں کو وہ حرام کر لیتے تھے۔حدیث میں آتا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’میں نے اپنے بندوں کو حنیف پیدا کیا،پس شیطان نے ان کو دین سے گمراہ کر دیا اور جو چیزیں میں نے ان کے لیے حلال کی تھیں، وہ اس نے ان پر حرام کر دیں۔‘‘
حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ مُوسَى السُّدِّيُّ، حَدَّثَنَا سَيْفُ بْنُ هَارُونَ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ، عَنْ أَبِي عُثْمَانَ النَّهْدِيِّ، عَنْ سَلْمَانَ الْفَارِسِيِّ، قَالَ: سُئِلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنِ السَّمْنِ وَالْجُبْنِ وَالْفِرَاءِ، قَالَ: الْحَلَالُ مَا أَحَلَّ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَالْحَرَامُ مَا حَرَّمَ اللَّهُ فِي كِتَابِهِ، وَمَا سَكَتَ عَنْهُ فَهُوَ مِمَّا عَفَا عَنْهُ.(سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 3367)
ترجمہ: سلمان فارسی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے گھی، پنیر اور جنگلی گدھے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا:" حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں چپ رہے وہ معاف (مباح) ہے (سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 3367)[286]
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا کُلُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا رَزَقْنٰکُمْ وَ اشْکُرُوْا لِلّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ.(سورۃ البقرۃ (۱۷۲)
’’ا ے اہلِ ایمان! جو پاکیزہ چیزیں ہم نے تمھیں عطا فرمائی ہیں اُن کو کھاؤ اور اگر اللہ ہی کے بندے ہو تو اُس (کی نعمتوں ) کا شکر بھی ادا کرو۔‘‘
اس میں اہلِ ایمان کو ان تمام چیزوں کے کھانے کا حکم ہے جو اللہ نے حلال کی ہیں اور اس پر اللہ کا شکر ادا کرنے کی تاکید ہے۔اس سے ایک تو یہ معلوم ہوا کہ اللہ کی حلال کردہ چیزیں ہی پاک ہیں،حرام کردہ اشیا پاک نہیں ہیں،چاہے وہ اپنے نفس کو کتنی ہی اچھی کیوں نہ لگیں (جیسے اہل یورپ کو سور کا گوشت بڑا پسند ہے) دوسرا یہ کہ بتوں کے نام پر منسوب جانوروں اور اشیا کو مشرکین اپنے اوپر جو حرام کر لیتے تھے (جس کی تفصیل سورۃ الانعام میں بیان ہوئی ہے) مشرکین کا یہ عمل غلط ہے اور اس طرح ایک حلال چیز حرام نہیں ہوتی،تم ان کی طرح ان کو حرام مت کرو۔تیسرا یہ کہ اگر تم صرف ایک اللہ کے عبادت گزار ہو تو اداے شکر کا اہتمام کرو۔
.یٰٓاَیُّھَا الرُّسُلُ کُلُوْا مِنْ الطَّیِّبٰتِ وَاعْمَلُوْا صَالِحًا اِنِّی بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ.[المومنون:۵۱]
’’اے پیغمبرو! پاکیزہ چیزیں کھاؤ اور نیک عمل کرو،جو عمل تم کرتے ہو،میں ان سے واقف ہوں۔‘‘
.طَیِّبٰتِ. سے مراد پاکیزہ اور لذت بخش چیزیں ہیں۔بعض نے اس کا ترجمہ حلال چیزیں کیا ہے۔دونوں ہی اپنی جگہ صحیح ہیں،کیوں کہ ہر پاکیزہ چیز اللہ نے حلال کردی ہے اور ہر حلال چیز پاکیزہ اور لذت بخش ہے۔خبائث کو اللہ نے اس لیے حرام کیا ہے کہ وہ اثرات و نتائج کے لحاظ سے پاکیزہ نہیں ہیں۔حلال روزی کے ساتھ عملِ صالح کی تاکید سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کا آپس میں گہرا تعلق ہے اور یہ ایک دوسرے کے معاون ہیں۔اسی لیے اللہ نے تمام پیغمبروں کو ان دونوں باتوں کا حکم دیا ہے۔ چنانچہ تمام پیغمبر محنت کرکے حلال روزی کمانے اور کھانے کا اہتمام کرتے رہے،جس طرح حضرت داود علیہ السلام کے بارے میں آتا ہے کہ وہ اپنے ہاتھ کی کمائی سے کھاتے تھے۔[صحیح البخاري،کتاب البیوع،رقم الحدیث (۲۰۷۲)]
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’ہر نبی نے بکریاں چرائی ہیں،میں بھی اہلِ مکہ کی بکریاں چند سکوں کے عوض چراتا رہا۔‘‘[صحیح البخاري،کتاب الاجارۃ،رقم الحدیث (۲۲۶۲)]
جبکہ یہی حکم عام لوگوں کو بھی ہے،جیسا کہ سورۃ البقرہ (آیت:۱۶۸) میں آیا ہے۔
سورۃ المائدہ (آیت:۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَوْفُوْا بِالْعُقُوْدِ اُحِلَّتْ لَکُمْ بَھِیْمَۃُ الْاَنْعَامِ اِلَّا مَا یُتْلٰی عَلَیْکُمْ غَیْرَ مُحِلِّی الصَّیْدِ وَ اَنْتُمْ حُرُمٌ اِنَّ اللّٰہَ یَحْکُمُ مَا یُرِیْدُ.
’’اے ایمان والو! اپنے اقراروں کو پورا کرو۔تمھارے لیے چارپائے جانور (جو چرنے والے ہیں ) حلال کر دیے گئے ہیں،بجز اُن کے جوتمہیں پڑھ کر سنائے جاتے ہیں،مگر احرام (حج و عمرہ ) میں شکار کو حلال نہ جاننا،اللہ تعالیٰ جیسا چاہتا ہے حکم دیتا ہے۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ اے ایمان والو! پورا کرو،اپنے عہد و پیمان کو۔عہد دو طرح کے ہوتے ہیں:
1۔ اللہ سے براہِ راست کیے گئے عہد
2۔ اللہ کا نام لے کر بندوں سے کیے گئے عہد یعنی قانونی وصیت
.وَ مِنَ الْاِبِلِ اثْنَیْنِ وَ مِنَ الْبَقَرِ اثْنَیْنِ قُلْ ئٰٓ الذَّکَرَیْنِ حَرَّمَ اَمِ الْاُنْثَیَیْنِ اَمَّا اشْتَمَلَتْ عَلَیْہِ اَرْحَامُ الْاُنْثَیَیْنِ اَمْ کُنْتُمْ شُھَدَآئَ اِذْ وَصّٰکُمُ اللّٰہُ بِھٰذَا فَمَنْ اَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا لِّیُضِلَّ النَّاسَ بِغَیْرِ عِلْمٍ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ. [سورۃ الانعام (آیت:۱۴۴)]
’’اور اونٹوں میں سے دو اور گائیوں میں سے دو،کہہ کیا اس نے دونوں نر حرام کیے ہیں یا دونوں مادہ؟ یا وہ (بچہ) جس پر دونوں ماداؤں کے رحم لپٹے ہوئے ہیں ؟ یا تم اس وقت حاضر تھے جب اللہ نے تمھیں اس کی وصیت کی تھی؟ پھر اس سے زیادہ ظالم کون ہے جو اللہ پر جھوٹ باندھے،تاکہ لوگوں کو کسی علم کے بغیر گمراہ کرے۔بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
البتہ جو جانور اپنی کچلی کے دانتوں سے اپنا شکار پکڑتا اور چیرتا ہے،مثلاً شیر،چیتا،کتا،بھیڑیا وغیرہ اور وہ پرندے جو اپنے پنجے سے اپنا شکار جھپٹتے پکڑتے ہے،مثلاً شقرہ،باز،شاہین،عقاب وغیرہ حرام ہیں اور جو جانور حرام کیے گئے ہیں-
.حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ اَلْیَوْمَ یَئِسَ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا مِنْ دِیْنِکُمْ فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَ اخْشَوْنِطاَلْیَوْمَ اَکْمَلْتُ لَکُمْ دِیْنَکُمْ وَ اَتْمَمْتُ عَلَیْکُمْ نِعْمَتِیْ وَ رَضِیْتُ لَکُمُ الْاِسْلَامَ دِیْنًا فَمَنِ اضْطُرَّ فِیْ مَخْمَصَۃٍ غَیْرَ مُتَجَانِفٍ لِّاِثْمٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. [سورۃ المائدہ (آیت:۳)]
’’تم پر مرا ہوا جانور اور (بہتا) لہو اور سُوَر کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کرمر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے،یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں،مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کر لو اور وہ جانور بھی جو تھان پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو،یہ سب گناہ (کے کام) ہیں،آج کافر تمھارے دین سے نا امید ہو گئے ہیں تو اُن سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو (اور) آج ہم نے تمھارے لیے تمھارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمھارے لیے اسلام کو دین پسند فرمایا۔ہاں جوشخص بھوک میں ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) گناہ کی طرف مائل نہ ہو تو اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
پارہ8.وَلَوْ اَنَّنَا.سورۃ الانعام (آیت:۱۱۸) میں فرمایا:
.فَکُلُوْا مِمَّا ذُکِرَاسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ اِنْ کُنْتُمْ بِاٰیٰتِہٖ مُؤْمِنِیْنَ.
’’جس چیز پر (ذبح کے وقت) اللہ کا نام لیا جائے،اگر تم اُس کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہو تو اُسے کھا لیا کرو۔‘‘
جس جانور پر شکار کرتے وقت یا ذبح کرتے وقت اللہ کا نام لیا جائے،اسے کھالو،بشرطیکہ وہ ان جانوروں میں سے ہو،جن کا کھانا حلال ہے۔
اس کا مطلب یہ ہوا کہ جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا جائے،وہ حلال اور طیب نہیں۔البتہ اس سے ایسی صورت مستثنیٰ ہے،جس میں یہ التباس ہو کہ ذبح کے وقت ذبح کرنے والے نے اللہ کا نام لیا ہے یا نہیں ؟ اس میں حکم یہ ہے کہ اللہ کا نام لے کر اسے کھالو۔
حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا کہ کچھ لوگ ہمارے پاس گوشت لے کر آتے ہیں (اس سے مراد اعرابی تھے،جو نئے نئے مسلمان ہوئے تھے اور اسلامی تعلیم و تربیت سے پوری طرح بہرہ ور نہیں تھے)
ہم نہیں جانتے کہ انھوں نے اللہ کا نام لیا یا نہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:تم اللہ کا نام لے کر اسے کھا لو۔شبہے کی صورت میں یہ رخصت ہے۔اس کا مطلب یہ نہیں کہ ہر قسم کے جانور کا گوشت بسم اللہ پڑھ لینے سے حلال ہو جائے گا۔اس سے زیادہ سے زیادہ یہ ثابت ہوتا ہے کہ مسلمانوں کی منڈیوں اور دکانوں پر ملنے والا گوشت حلال ہے۔ہاں اگر کسی کو وہم اور التباس ہو تو وہ کھاتے وقت بسم اللہ پڑھ لے۔
سورۃ الانعام (آیت:۱۲۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَاْکُلُوْا مِمَّا لَمْ یُذْکَرِ اسْمُ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ اِنَّہٗ لَفِسْقٌ وَ اِنَّ الشَّیٰطِیْنَ لَیُوْحُوْنَ اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِھِمْ لِیُجَادِلُوْکُمْ وَ اِنْ اَطَعْتُمُوْھُمْ اِنَّکُمْ لَمُشْرِکُوْنَ.
’’اور جس چیز پر اللہ کا نام نہ لیا جائے،اُسے مت کھاؤ کہ اُس کا کھانا گناہ ہے اور شیطان (لوگ) اپنے رفیقوں کے دلوں میں یہ بات ڈالتے ہیں کہ تم سے جھگڑا کریں اور اگر تم لوگ اُن کے کہے پر چلے تو بے شک تم بھی مشرک ہوئے۔‘‘
جس جانور پر اللہ کا نام نہ لیا گیا،اس کا کھانا فسق اور ناجائز ہے۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے اس کے یہی معنیٰ بیان کیے ہیں۔وہ کہتے ہیں کہ بھول جانے والے کو فاسق نہیں کہا جاتا۔امام بخاری کا رجحان بھی یہی ہے،تاہم امام شافعی کا مسلک یہ ہے کہ مسلمان کا ذبیحہ دونوں صورتوں میں حلال ہے،چاہے وہ اللہ کا نام لے یا چھوڑ دے۔وہ.وَ اِنَّہٗ لَفِسْقٌ.کو غیر اللہ کے نام ذبح کیے گئے جانور سے متعلق قرار دیتے ہیں۔
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۷۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ بِہٖ لِغَیْرِ اللّٰہِ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لاَ عَادٍ فَلَآ اِثْمَ عَلَیْہِ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
’’اُس نے تم پر مرا ہوا جانور اور (بہا ہوا) خون اور سُوَر کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے حرام کر دیا ہے۔ہاں ! جو ناچار ہو جائے (بشرطیکہ) اللہ کی نافرمانی نہ کرے اور حد (ضرورت) سے باہر نہ نکل جائے،اُس پر کچھ گناہ نہیں،بے شک اللہ تعالیٰ بخشنے والا (اور) رحم کرنے والا ہے۔‘‘
اس آیت میں چار حرام کردہ چیزوں کا ذکر ہے،لیکن اسے کلمہ حصر.اِنَّمَا.کے ساتھ بیان کیا گیا ہے،جس سے ذہن میں یہ شبہہ پیدا ہوتا ہے کہ حرام صرف یہی چار چیزیں ہیں،حالانکہ ان کے علاوہ بھی کئی چیزیں حرام ہیں۔اس لیے اول تو یہ سمجھ لینا چاہیے کہ حصر ایک خاص سیاق میں آیا ہے،یعنی مشرکین کے اس فعل کے ضمن میں کہ وہ حلال جانوروں کو بھی حرام قرار دے لیتے تھے،اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ وہ حرام نہیں،حرام تو صرف یہ چیزیں ہیں ؛ اس لیے یہ حصر اضافی ہے،یعنی اس کے علاوہ بھی دیگر منع کردہ چیزیں ہیں،جن کا یہاں ذکر نہیں کیا گیا ،مثلاً وہ درندہ جو کچلیوں سے شکار کرے اور پرندوں میں جو پنجوں سے شکار کرے،تیسرے جن جانوروں کی حرمت حدیث سے ثابت ہے؛ مثلاً گھریلو گدھا،کتا وغیرہ بھی حرام ہیں۔
ورۃ المائدہ (آیت:۳) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.حُرِّمَتْ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃُ وَ الدَّمُ وَ لَحْمُ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ وَ الْمُنْخَنِقَۃُ وَ الْمَوْقُوْذَۃُ وَ الْمُتَرَدِّیَۃُ وَ النَّطِیْحَۃُ وَ مَآ اَکَلَ السَّبُعُ اِلَّا مَا ذَکَّیْتُمْ وَ مَا ذُبِحَ عَلَی النُّصُبِ وَ اَنْ تَسْتَقْسِمُوْا بِالْاَزْلَامِ ذٰلِکُمْ فِسْقٌ.
’’تم پر مرا ہوا جانور اور (بہا ہوا) خون اور سُوَر کا گوشت اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے اور جو جانور گلا گھٹ کر مر جائے اور جو چوٹ لگ کر مر جائے اور جو گر کر مر جائے اور جو سینگ لگ کر مر جائے،یہ سب حرام ہیں اور وہ جانور بھی جس کو درندے پھاڑ کھائیں،مگر جس کو تم (مرنے سے پہلے) ذبح کر لو اور وہ جانور بھی جو تھان (آستانہ) پر ذبح کیا جائے اور یہ بھی کہ پانسوں سے قسمت معلوم کرو یہ سب گناہ (کے کام) ہیں۔‘‘
بھوک کی اضطراری کیفیت میں مذکورہ محرمات کے کھانے کی اجازت ہے،بشرطیکہ مقصد اللہ کی نافرمانی اور حد سے تجاوز کرنا نہ ہو،صرف جان بچانا مطلوب ہو۔
سورۃ الانعام (آیت:۱۴۵) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.قُلْ لَّآ اَجِدُ فِیْ مَآ اُوْحِیَ اِلَیَّ مُحَرَّمًا عَلٰی طَاعِمٍ یَّطْعَمُہٗٓ اِلَّآ اَنْ یَّکُوْنَ مَیْتَۃً اَوْدَمًا مَّسْفُوْحًا اَوْ لَحْمَ خِنْزِیْرٍ فَاِنَّہٗ رِجْسٌ اَوْ فِسْقًا اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّلَا عَادٍ فَاِنَّ رَبَّکَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
’’کہو کہ جو احکام مجھ پر نازل ہوئے ہیں،میں اُن میں کوئی چیز جسے کھانے والا کھائے حرام نہیں پاتا،بہ جز اس کے کہ وہ مرا ہوا جانور ہو یا بہتا خون یا سُوَر کا گوشت کہ یہ سب ناپاک ہیں یا کوئی گناہ کی چیز ہو کہ اُس پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام لیا گیا ہو اور اگر کوئی مجبور ہو جائے،لیکن نہ تو نافرمانی کرے اور نہ حد سے باہر نکل جائے تو تمھارا رب بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
اس آیت میں جن چار محرمات کا ذکر ہے،ان کی ضروری تفصیل اس موضوع کے آغاز میں سورت بقرہ (آیت:۱۷۳) کے تحت گزر چکی ہے،یہاں یہ نکتہ مزید قابلِ وضاحت ہے کہ ان چار محرمات کا ذکر کلمہ حصر سے کیا گیا ہے،جس سے بہ ظاہر یہ معلوم ہوتا ہے کہ ان چار قسموں کے علاوہ باقی تمام جانور حلال ہیں،جبکہ واقعہ یہ ہے کہ ان چار کے علاوہ دوسرے جانور بھی شریعت میں حرام ہیں،پھر یہاں حصر کیوں کیا گیا؟ بات دراصل یہ ہے کہ اس سے قبل مشرکین کے جاہلانہ طریقوں اور ان کے رد کا بیان چلا آ رہا ہے۔ان ہی میں بعض جانوروں کا بھی ذکر آیا ہے،جو انھوں نے اپنے طور پر حرام کر رکھے تھے۔اس سیاق میں یہ کہا جا رہا ہے کہ مجھ پر جو وحی کی گئی ہے،اس میں اس سے مقصود مشرکین کے حرام کردہ جانوروں کی حلت ہے،یعنی وہ حرام نہیں ہیں،کیوں کہ اللہ نے جن محرمات کا ذکر کیا ہے،ان میں تو وہ شامل ہی نہیں ہیں۔اگر وہ حرام ہوتے تو اللہ تعالیٰ ان کا بھی ذکر ضرور کرتا۔
امام شوکانی رحمہ اللہ نے اس کی توجیہ اس طرح کی ہے کہ اگر یہ آیت مکی نہ ہوتی تو پھر یقینا محرمات کا حصر قابلِ تسلیم تھا،لیکن چوں کہ اس کے بعد خود قرآن نے سورۃ المائدہ میں بعض محرمات کا ذکر کیا ہے اور نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی کچھ محرمات بیان فرمائے ہیں تو اب وہ بھی ان میں شامل ہوں گے۔
سورۃ النحل (آیت:۱۱۵) میں ارشاد فرمایا ہے:
.اِنَّمَا حَرَّمَ عَلَیْکُمُ الْمَیْتَۃَ وَ الدَّمَ وَ لَحْمَ الْخِنْزِیْرِ وَ مَآ اُھِلَّ لِغَیْرِ اللّٰہِ بِہٖ فَمَنِ اضْطُرَّ غَیْرَ بَاغٍ وَّ لَا عَادٍ فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
’’اُس نے تم پر مردار اور خون اور سُوَر کا گوشت حرام کر دیا اور جس چیز پر اللہ کے سوا کسی اور کا نام پکارا جائے (اُس کو بھی)،ہاں اگر کوئی ناچار ہو جائے تو بشرطیکہ گناہ کرنے والا نہ ہو اور نہ حد سے نکلنے والا تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
یہ آیت اس سے قبل تین مرتبہ پہلے بھی گزر چکی ہے۔یہ چوتھا مقام ہے۔ان آیات سے یہ واضح ہوتا ہے کہ ان میں جن چار محرمات کا ذکر ہے،اللہ تعالیٰ ان سے مسلمانوں کو نہایت تاکید کے ساتھ بچانا چاہتا ہے۔اس میں (جس چیز پر اللہ کے سوا دوسرے کا نام پکارا جائے) جو چوتھی قسم ہے،اس کے مفہوم میں تاویلات کو سامنے رکھ کر شرک کے لیے چور دروازہ تلاش کیا جاتا ہے۔
سلمان فارسی ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ سے گھی، پنیر اور جنگلی گدھے کے بارے میں سوال کیا گیا تو آپ ﷺ نے فرمایا: حلال وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حلال قرار دیا ہے، اور حرام وہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے اپنی کتاب میں حرام قرار دیا ہے، اور جس کے بارے میں چپ رہے وہ معاف (مباح) ہے[287]
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَاتَقْرَبُوا الصَّلٰوۃَ وَ اَنْتُمْ سُکٰرٰی حَتّٰی تَعْلَمُوْا مَا تَقُوْلُوْنَ وَ لَاجُنُبًا اِلَّا عَابِرِیْ سَبِیْلٍ حَتّٰی تَغْتَسِلُوْا.
’’مومنو! جب تم نشے کی حالت میں ہو تو جب تک (ان الفاظ کو) جو منہ سے کہو سمجھنے (نہ) لگو نماز کے پاس نہ جاؤ،اور جنابت کی حالت میں بھی (نماز کے پاس نہ جاؤ) جب تک کہ غسل (نہ) کر لو۔‘‘(سورۃ النساء (4:43)[288]
یہ حکم اُس وقت دیاگیا تھا جب ابھی شراب کی حرمت نازل نہیں ہوئی تھی۔چنانچہ ایک دعوت میں شراب نوشی کے بعد جب نماز کے لیے کھڑے ہوئے تو نشے میں قرآن کے الفاظ بھی امام صاحب غلط پڑھ گئے[289] جس پر یہ آیت نازل ہوئی کہ نشے کی حالت میں نمازمت پڑھا کرو۔گویا اس وقت صرف نماز کے وقت کے قریب شراب نوشی سے منع کیا گیا۔
1۔ سورۃ البقرۃ (آیت:۲۱۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ قُلْ فِیْھِمَآ اِثْمٌ کَبِیْرٌ وَّ مَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَ اِثْمُھُمَآ اَکْبَرُ مِنْ نَّفْعِھِمَا.
’’(اے پیغمبر!) لوگ تم سے شراب اور جوے کا حکم دریافت کرتے ہیں تو کہہ دو کہ اُن میں نقصان بڑے ہیں اور لوگوں کے لیے کچھ فائدے بھی ہیں،مگر اُن کے نقصان فائدوں سے کہیں زیادہ ہیں۔‘‘
فائدوں کا تعلق دنیا سے ہے،مثلاً شراب سے بہ ظاہر وقتی طورپر بدن میں چستی اور بعض ذہنوں میں تیزی آجاتی ہے اور جنسی قوت میں اضافہ ہو جاتا ہے،جس کے لیے اس کا استعمال عام ہوتا ہے۔اسی طرح اس کی خرید و فروخت نفع بخش کاروبار ہے۔جوئے میں بھی بعض دفعہ آدمی جیت جاتا ہے تو اس کو کچھ مال مل جاتا ہے،لیکن یہ فائدے ان نقصانات کے مقابلے میں کوئی حیثیت نہیں رکھتے جو انسان کی عقل اور اس کے دین کو ان سے پہنچتے ہیں۔
سورۃ المائدہ (آیت:۹۰،۹۱) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّمَا الْخَمْرُ وَ الْمَیْسِرُ وَ الْاَنْصَابُ وَ الْاَزْلَامُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّیْطٰنِ فَاجْتَنِبُوْہُ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ . اِنَّمَا یُرِیْدُ الشَّیْطٰنُ اَنْ یُّوْقِعَ بَیْنَکُمُ الْعَدَاوَۃَ وَ الْبَغْضَآئَ فِی الْخَمْرِ وَ الْمَیْسِرِ وَ یَصُدَّکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَ عَنِ الصَّلٰوۃِ فَھَلْ اَنْتُمْ مُّنْتَھُوْنَ.
’’اے ایمان والو! شراب اور جوا اور بت اور پانسے (یہ سب) ناپاک کام اعمالِ شیطان سے ہیں،سو ان سے بچتے رہنا تاکہ تم نجات پاؤ۔شیطان تو یہ چاہتا ہے کہ شراب اور جوے کے سبب تمھارے مابین دشمنی اور رنجش ڈلوا دے اور تمھیں اللہ کی یاد سے اور نماز سے روک دے تو تمھیں (ان کاموں سے) باز رہنا چاہیے۔‘‘
یہ شراب کے بارے میں تیسرا حکم ہے،پہلے دوسرے حکم میں صاف طور پر ممانعت نہیں فرمائی گئی۔لیکن یہاں اسے اور اس کے ساتھ جوا،پرستش گاہوں یا آستانوں اور فال کے تیروں کو ’’رجس‘‘ (پلید) اور شیطانی کام قرار دے کر صاف لفظوں میں ان سے اجتناب کا حکم دے دیا گیا ہے۔علاوہ ازیں اس آیت میں شراب اور جوے کے مزید نقصانات بیان کرکے سوال کیا گیا ہے کہ اب بھی باز آجائو گے یا نہیں ؟ جس سے مقصود اہلِ ایمان کی آزمایش ہے،چنانچہ جو اہلِ ایمان تھے،وہ تو منشاے الٰہی سمجھ گئے اور اس کی قطعی حرمت کے قائل ہو گئے اور کہا:اِنْتَہَیْنَا رَبَّنَا! اے رب! ہم باز آگئے۔[290] لیکن آج کل کے بعض ’’دانشور‘‘کہتے ہیں کہ اللہ نے شراب کو حرام کہاں قرار دیا ہے؟ ع
بریں عقل و دانش بباید گریست
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۲۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَنْکِحُوا الْمُشْرِکٰتِ حَتّٰی یُؤْمِنَّ وَ لَاَمَۃٌ مُّؤْمِنَۃٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکَۃٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَتْکُمْ وَ لَا تُنْکِحُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَتّٰی یُؤْمِنُوْا وَ لَعَبْدٌ مُّؤْمِنٌ خَیْرٌ مِّنْ مُّشْرِکٍ وَّ لَوْ اَعْجَبَکُمْ اُولٰٓئِکَ یَدْعُوْنَ اِلَی النَّارِ وَ اللّٰہُ یَدْعُوْٓا اِلَی الْجَنَّۃِ وَ الْمَغْفِرَۃِ بِاِذْنِہٖ وَ یُبَیِّنُ اٰیٰتِہٖ لِلنَّاسِ لَعَلَّھُمْ یَتَذَکَّرُوْنَ.
’’اور (مومنو!) مشرک عورتوں سے جب تک وہ ایمان نہ لائیں (اُن سے) نکاح نہ کرنا،کیوں کہ مشرک عورت خواہ تمھیں کیسی ہی بھلی لگے،اُس سے مومن لونڈی بہتر ہے اور (اسی طرح) مشرک مرد جب تک ایمان نہ لائیں،مومن عورتوں کو اُن کی زوجیت میں نہ دینا کیوں کہ مشرک (مرد) خواہ وہ تمھیں کیسا ہی بھلا لگے (اُس سے) مومن غلام بہتر ہے یہ (مشرک،لوگوں کو) دوزخ کی طرف بلاتے ہیں اور اللہ تعالیٰ اپنی مہربانی سے بہشت اور بخشش کی طرف بلاتا ہے اور اپنے حکم لوگوں سے کھول کھول کر بیان کرتا ہے تاکہ نصیحت حاصل کریں۔‘‘
مشرک عورتوں سے مراد بتوں کی پجاری عور تیں ہیں،اہلِ کتاب (یہودی یا عیسائی) عورتوں سے نکاح کی اجازت قرآن نے دی ہے،البتہ کسی مسلمان عورت کا نکاح کسی اہلِ کتاب مرد سے نہیں ہو سکتا۔تاہم حضرت عمرِ فاروق رضی اللہ عنہ نے مصلحتاً اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح کو ناپسند کیا-[291]
دہشت گرد جہاد اور روایتی جنگوں میں فرق نہیں کرتے۔ جہاد کا مفہوم اپنے اندر بہت وسعت رکھتا ہے اور ایک مسلمان کی شخصی زندگی سے لے کر سماجی زندگی کے تمام دائرے اس میں شامل ہیں اور معاشرے میں یہ عمل ہر مرحلہ پر رواں دواں رہتا ہے، جس کی ایک شکلِ قتال ہے، جو مخصوص حالات میں مسلمانوں کےنظام، یعنی ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے، جب کہ قرآن پاک نے روایتی جنگوں کے لیے حرب کی اصطلاح استعمال کی ہے۔ رسول اللہﷺ کی سیرت طیبہ سے یہ سبق ملتا ہے کہ قتال ایک استثنائی صورت حال ہے، جبکہ عمومی صورت امن و صلح کی ہے۔ فقہاء کی رائے میں قتال عام حالات میں فرض عین نہیں بلکہ فرض کفایہ ہے۔اس وجہ سے ضروری ہے کہ قتال کی کمان حکومت کے ہاتھ میں ہو۔ میثاق مدینہ کی رو سے بھی جنگ کا اختیار رسول اللہﷺ کے ہاتھ میں ہی تھا۔
مسلمان فقہاء کے نزدیک کوئی جنگی کارروائی مسلمانوں کے حاکم یا اس کے مقرر کردہ فوجوں کے کمانڈر کی اجازت کے بغیر نہیں کی جاسکتی۔ مسلمانوں کے لشکر میں کوئی سپاہی مشرکین کے لشکر پر انفرادی حملہ یا مبارزہ بھی کمانڈر کی اجازت کے بغیر نہیں کر سکتا۔
فقہاء کے خیال میں کوئی بھی جنگ حکمران کی اجازت کے بغیر شروع نہیں کی جاسکتی، نیز صرف غلبہ حاصل کرنے کی غرض سے جنگ نہیں کی جاسکتی۔ اسلام میں قتال اور جنگ کی اجازت دینے کی مجاز صرف حکومت وقت ہے اور وہ بھی صرف اس صورت میں کہ جب ملک کے تحفظ کے لیے اس کے سوا کوئی چارہ نہ ہو اور دشمن جب بھی آمادۂصلح ہو تو اس سے صلح کر لی جائے۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے: ﴿وَاِنْ جَنَحُوْا لِلسَّلْمِ فَاجْنَحْ لَھَا وَتَوَکَّلْ عَلَی اللہِﺚ اِنَّھ۫ ھُوَ السَّمِیْعُ الْعَلِیْمُ﴾ (قرآن :8:61)[292]
(اور اگر یہ لوگ صلح کی طرف مائل ہوں تو تم بھی اس کی طرف مائل ہوجاؤ اور خدا پر بھروسہ رکھو۔ کچھ شک نہیں کہ وہ سب کچھ سنتا (اور) جانتا ہے۔)
اسی بناء پر مسلمان فقہاء نے ہر قسم کی جنگ کو جائز قرار نہیں دیا اور اسلامی قانون کی رو سے طاقت حاصل کرنے کی جنگ، جیسا کہ آج کل دہشت گرد گروپ کر رہے ہیں، کسی بھی صورت میں درست نہیں ہے، چاہے اس کے لیے دینی دلائل کا خود ساختہ سہارا ہی کیوں نہ لیا جائے۔
الله تعالی کا فرمان ہے :
کُتِبَ عَلَیْکُمُ الْقِتَالُ وَ ھُوَ کُرْہٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تَکْرَھُوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ خَیْرٌ لَّکُمْ وَ عَسٰٓی اَنْ تُحِبُّوْا شَیْئًا وَّ ھُوَ شَرٌّ لَّکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ [سورۃ البقرۃ (آیت:۲۱۶)]
’’(مسلمانو!) تم پر (اللہ کے راستے میں ) لڑنا فرض کر دیا گیا ہے،وہ تمھیں ناگوار تو ہوگا،مگر عجب نہیں کہ ایک چیز تمھیں بُری لگے اور وہ تمھارے حق میں بھلی ہو اور عجب نہیں کہ ایک چیز تم کو بھلی لگی اور وہ تمھارے لیے مضر ہو اور (ان باتوں کو) اللہ ہی بہتر جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
جہاد کے حکم کی ایک مثال دے کر اہلِ ایمان کو سمجھایا جا رہا ہے کہ اللہ کے ہر حکم پر عمل کرو،چاہے تمھیں وہ گراں اور ناگوار ہی لگے،اس لیے کہ اس کے انجام اور نتیجے کو صرف اللہ تعالیٰ ہی جانتا ہے،تم نہیں جانتے،ہوسکتا ہے اس میں تمھارے لیے بہتری ہو۔
سورۃ الاعراف (آیت:۵۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا وَادْعُوْہُ خَوْفًا وَّ طَمَعًا اِنَّ رَحْمَتَ اللّٰہِ قَرِیْبٌ مِّنَ الْمُحْسِنِیْنَ.
’’اور ملک میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا اور اللہ سے خوف کرتے ہوئے اور امید رکھ کر دعائیں مانگتے رہنا،کچھ شک نہیں کہ اللہ کی رحمت نیکی کرنے والوں سے قریب ہے۔‘‘
.وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ.[سورۃ البقرہ (آیت:۲۴۴)]
’’اور (مسلمانو!) اللہ کی راہ میں جہاد کرو اور جان رکھو کہ اللہ (سب کچھ) سنتا اور (سب کچھ) جانتا ہے۔‘‘
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا خُذُوْا حِذْرَکُمْ فَانْفِرُوْا ثُبَاتٍ اَوِ انْفِرُوْا جَمِیْعًا.[۔سورۃ النساء (آیت:۷۱)]
’’مومنو! (جہاد کے لیے) ہتھیار لے لیا کرو،پھر یا تو جماعت جماعت ہو کر نکلا کرو یا سب اکٹھے کوچ کیا کرو۔‘‘
.فَلْیُقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یَشْرُوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا بِالْاٰخِرَۃِ وَ مَنْ یُّقَاتِلْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَیُقْتَلْ اَوْ یَغْلِبْ فَسَوْفَ نُؤْتِیْہِ اَجْرًاعظِیْمًا.[۔سورۃ النساء (آیت:۷۴)]
’’تو جو لوگ آخرت (کو خریدتے اور اُس) کے بدلے دنیا کی زندگی کوبیچنا چاہتے ہیں،اُن کو چاہیے کہ اللہ کی راہ میں جنگ کریں اور جو شخص اللہ کی راہ میں جنگ کرے،پھر شہید ہو جائے یا غلبہ پائے تو ہم عنقریب اُس کو بڑا ثوا ب دیں گے۔‘‘
.اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَ فِیْ سَبِیْلِہٖ صَفًّا کَاَنَّھُمْ بُنْیَانٌ مَّرْصُوْصٌ. [سورۃ الصف (آیت:۴)]
’’جو لوگ اللہ کی راہ میں (ایسے طور پر) جما کر لڑتے ہیں گویا سیسہ پلائی ہوئی دیوار ہیں،وہ بیشک محبوبِ پروردگار ہیں۔‘‘
.وَ لَاتَھِنُوْا فِی ابْتِغَآئِ الْقَوْمِ اِنْ تَکُوْنُوْا تَاْلَمُوْنَ فَاِنَّھُمْ یَاْلَمُوْنَ کَمَا تَاْلَمُوْنَ وَ تَرْجُوْنَ مِنَ اللّٰہِ مَا لَا یَرْجُوْنَ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا.[سورۃ النساء (آیت:۱۰۴)]
’’اور کفار کا پیچھا کرنے میں سستی نہ کرنا،اگر تم بے آرام ہوتے ہو تو جس طرح تم بے آرام ہوتے ہو،اسی طرح وہ بھی بے آرام ہوتے ہیں اور تم اللہ سے ایسی ایسی امیدیں رکھتے ہو جو وہ نہیں رکھ سکتے اور اللہ سب کچھ جانتا (اور) بڑی حکمت والا ہے۔‘‘
.اِنَّ اللّٰہَ یُدٰفِعُ عَنِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ خَوَّانٍ کَفُوْرٍ . اُذِنَ لِلَّذِیْنَ یُقٰتَلُوْنَ بِاَنَّھُمْ ظُلِمُوْا وَ اِنَّ اللّٰہَ عَلٰی نَصْرِھِمْ لَقَدِیْرُ.[سورۃ الحج (آیت:۳۸،۳۹) ]
’’اللہ تو مومنوں سے اُن کے دشمنوں کو ہٹاتا رہتا ہے،بے شک اللہ کسی خیانت کرنے والے اور کفرانِ نعمت کرنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔جن مسلمانوں سے (خواہ مخواہ) لڑائی کی جاتی ہے،اُن کو اجازت ہے (کہ وہ بھی لڑیں) کیونکہ اُن پر ظلم ہو رہا ہے اور اللہ (اُن کی مدد کرے گا وہ) یقینا اُن کی مدد پر قادر ہے۔‘‘
اکثر علماے سلف کا قول ہے کہ اس آیت میں سب سے پہلے جہاد کا حکم دیا گیا ہے،جس کے دو مقصد یہاں بیان کیے گئے ہیں:مظلومیت کا خاتمہ اور اعلاے کلمۃ اللہ ۔اس لیے کہ مظلومین کی مدد اور ان کی داد رسی نہ کی جائے تو پھر دنیا میں زور آور کمزوروں کو اور بے وسیلہ لوگوں کو جینے ہی نہ دیں،جس سے زمین فساد سے بھر جائے۔اسی طرح اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے کوشش نہ کی جائے اور باطل کی سرکوبی نہ کی جائے تو باطل کے غلبے سے دنیا کا امن و سکون اور اللہ کا نام لینے والوں کے لیے کوئی عبادت خانہ باقی نہ رہے۔
.وَ لَئِنْ قُتِلْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَوْ مُتُّمْ لَمَغْفِرَۃٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَحْمَۃٌ خَیْرٌ مِّمَّا یَجْمَعُوْنَ .[آل عمران (آیت:۱۵۷)]
’’اور اگر تم اللہ کے راستے میں مارے جاؤ یا وفات پا جاؤ تو جو (مال و متاع) لوگ جمع کرتے ہیں،اس سے اللہ کی بخشش اور رحمت کہیں بہتر ہے۔‘‘
.فَاسْتَجَابَ لَھُمْ رَبُّھُمْ اَنِّیْ لَآ اُضِیْعُ عَمَلَ عَامِلٍ مِّنْکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ اَوْ اُنْثٰی بَعْضُکُمْ مِّنْ بَعْضٍ فَالَّذِیْنَ ھَاجَرُوْا وَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ وَ اُوْذُوْا فِیْ سَبِیْلِیْ وَ قٰتَلُوْا وَ قُتِلُوْا لَاُکَفِّرَنَّ عَنْھُمْ سَیِّاٰتِھِمْ وَ لَاُدْخِلَنَّھُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ ثَوَابًا مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ عِنْدَہٗ حُسْنُ الثَّوَابِ .[آل عمران (آیت ۱۹۵)]
’’تو اُن کے رب نے اُن کی دعا قبول کرلی (اور فرمایا) کہ میں کسی عمل کرنے والے کے عمل کو مرد ہو یا عورت ضائع نہیں کرتا۔تم ایک دوسرے کی جنس ہو۔تو جو لوگ میرے لیے وطن چھوڑ گئے اور اپنے گھروں سے نکالے گئے اور ستائے گئے اور لڑے اور قتل کیے گئے،میں اُن کے گناہ دُور کردوں گا اور اُن کو جنتوں میں داخل کروں گا،جن کے نیچے سے نہریں بہہ رہی ہیں (یہ) اللہ کے ہاں سے بدلا ہے اور اللہ کے ہاں اچھا بدلا ہے۔‘‘
موت تو ہر صورت آنی ہے،لیکن اگر موت ایسی آئے کہ جس کے بعد انسان اللہ کی مغفرت و رحمت کا مستحق قرار پائے تو یہ دنیا کے مال و اسباب سے بہت بہتر ہے،جس کے جمع کرنے میں انسان عمر کھپا دیتا ہے،اس لیے اللہ کی راہ میں جہاد کرنے سے گریز نہیں،اس میں رغبت اور شوق ہونا چاہیے کہ اس طرح رحمت و مغفرتِ الٰہی یقینی ہو جاتی ہے،بشرطیکہ اخلاص کے ساتھ ہو۔
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اصْبِرُوْا وَ صَابِرُوْا وَ رَابِطُوْا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْن. [آل عمران (آیت:۲۰۰)]
’’اے اہل ایمان! (کفار کے مقابلے میں ) ثابت قدم رہو اور استقامت رکھو اور (مورچوں پر) جمے رہو اور اللہ سے ڈرو،تاکہ مراد حاصل کرو۔‘‘
صبر کرو یعنی اطاعت کے اختیار کرنے اور شہوات و لذات کے ترک کرنے میں اپنے نفس کو مضبوط اور ثابت قدم رکھو۔جہاد کے لیے تیار رہنا،یہ بڑے عزم اور حوصلے کا کام ہے،اسی لیے حدیث میں یہ فضیلت بیان کی گئی ہے کہ ’’اللہ کے راستے (جہاد ) میں ایک دن پڑاؤ ڈالنا دنیا وما فیہا سے بڑھ کر ہے۔‘‘[صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۸۹۲) صحیح سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۶۶۴)]
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ابْتَغُوْٓا اِلَیْہِ الْوَسِیْلَۃَ وَ جَاھِدُوْا فِیْ سَبِیْلِہٖ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.[سورۃ المائدہ (آیت:۳۵)]
’’اے ایمان والو! اللہ سے ڈرتے رہو اور اُس کا قرب حاصل کرنے کا ذریعہ تلاش کرتے رہو اور اُس کے راستے میں جہاد کرو تاکہ فلاح پاؤ۔‘‘
وسیلے کے معنیٰ ایسی چیز کے ہیں جو کسی مقصود کے حصول یا اس کے قرب کا ذریعہ ہو۔’’اللہ تعالیٰ کی طرف وسیلہ تلاش کرو‘‘ کا مطلب یہ ہوگا کہ ایسے اعمال اختیار کرو،جن سے تمھیں اللہ کی رضا اور اس کاقرب حاصل ہو جائے۔امام شوکانی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
’’وسیلہ جو قربت کے معنیٰ میں ہے،تقویٰ اور دیگر خصالِ خیر پر صادق آتا ہے،جن کے ذریعے سے بندے اپنے رب کا قرب حاصل کرتے ہیں۔‘‘
اسی طرح جن باتوں سے روکا گیا ہو،اُن کا ترک بھی قربِ الٰہی کا وسیلہ ہے۔البتہ حدیث میں اُس مقامِ محمود کو بھی وسیلہ کہا گیا ہے،جو جنت میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو عطا فرمایا جائے گا-
سورۃ الصف (آیت:۱۰ تا ۱۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا ھَلْ اَدُلُّکُمْ عَلٰی تِجَارَۃٍ تُنْجِیْکُمْ مِّنْ عَذَابٍ اَلِیْمٍ . تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتُجَاھِدُوْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِاَمْوَالِکُمْ وَاَنْفُسِکُمْ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ . یَغْفِرْ لَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَیُدْخِلْکُمْ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَسٰکِنَ طَیِّبَۃً فِیْ جَنّٰتِ عَدْنٍ ذٰلِکَ الْفَوْزُ الْعَظِیْمُ . وَاُخْرٰی تُحِبُّوْنَھَا نَصْرٌ مِّنَ اللّٰہِ وَفَتْحٌ قَرِیْبٌ وَبَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ.
’’مومنو! میں تم کو ایسی تجارت بتاؤں جو تمھیں عذابِ الیم سے مخلصی دے؟ (وہ یہ کہ) اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے جہاد کرو،اگر سمجھو تو یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔وہ تمھارے گناہ بخش دے گا اورتم کو باغ ہاے جنت میں جن میں نہریں بہہ رہی ہیں اور پاکیزہ مکانات میں جو بہشت ہائے جاودانی میں (تیار) ہیں،داخل کرے گا،یہ بڑی کامیابی ہے۔اور ایک اور چیز جس کو تم بہت چاہتے ہو (یعنی تمھیں ) اللہ کی طرف سے مدد (نصیب ہو گی) اور فتح عنقریب (حاصل ہو گی) اور مومنوں کو (اس کی) خوشخبری سنا دو۔‘‘
یہاں اس عمل (ایمان اور جہاد) کو تجارت سے تعبیر کیا ہے،کیونکہ اس میں بھی انھیں تجارت کی طرح ہی نفع ہوگا۔وہ نفع کیا ہے؟ جنت میں داخلہ اور جہنم سے نجات۔اس سے بڑا نفع اور کیا ہوگا؟
جب تم اس کی راہ میں لڑو گے اور اس کے دین کی مدد کروگے،تو وہ بھی تمھیں فتح و نصرت سے نوازے گا۔
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۵۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَلَا تَخْشَوْھُمْ وَاخْشَوْنِیْ.
’’سو اُن سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا۔‘‘
ظالموں سے نہ ڈرو،یعنی مشرکوں کی باتوں کی پروا مت کرو۔انھوں نے کہا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمارا قبلہ تو اختیار کر لیا ہے،عنقریب وہ ہمارا دین بھی اپنا لیں گے۔اﷲ تعالیٰ نے فرمایا کہ مجھ سے ڈرتے رہو اور جو حکم میں دیتا ہوں،اس پر بلا خوف عمل کرتے رہو۔
سورت آل عمران (آیت:۱۷۵) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.اِنَّمَا ذٰلِکُمُ الشَّیْطٰنُ یُخَوِّفُ اَوْلِیَآئَہٗ فَلَا تَخَافُوْھُمْ وَ خَافُوْنِ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.
’’یہ (خوف دلانے والا) تو شیطان ہے جو اپنے دوستوں سے ڈراتا ہے،اگر تم مومن ہو تو اُن سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا۔‘‘
یعنی جب وہ تمھیں اس وہم میں مبتلا کرے تو تم صرف مجھ ہی پر بھروسا رکھو اور میری ہی طرف رجوع کرو،میں تمھیں کافی ہو جائوں گا اور تمھارا ناصر ہوں گا،جیسے دوسر ے مقام پر فرمایا:
.اَلَیْسَ اللّٰہُ بِکَافٍ عَبْدَہٗ.[الزمر:۳۶]
’’کیا اللہ اپنے بندے کو کافی نہیں ہے؟‘‘
سورۃ المائدہ (آیت:۴۴) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.فَلَا تَخْشَوُا النَّاسَ وَ اخْشَوْنِ وَ لَا تَشْتَرُوْا بِاٰیٰتِیْ ثَمَنًا قَلِیْلًا وَ مَنْ لَّمْ یَحْکُمْ بِمَآ اَنْزَلَ اللّٰہُ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْکٰفِرُوْنَ.
’’تم لوگوں سے مت ڈرنا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہنا اور میری آیتوں کے بدلے تھوڑی سی قیمت نہ لینا اور جو اللہ کے نازل فرمائے ہوئے احکام کے مطابق حکم نہ دے تو ایسے ہی لوگ کافر ہیں۔‘‘
’’تھوڑی سی قیمت‘‘ کی تفصیل ابھی قریب ہی نمبر (۲) کے تحت گزری ہے۔
میں فرمایا:
.فَلاَ تَھِنُوْا وَتَدْعُوْٓا اِلَی السَّلْمِ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ وَاللّٰہُ مَعَکُمْ وَلَنْ یَّتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ . اِنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا یُؤْتِکُمْ اُجُوْرَکُمْ وَلاَ یَسْئَلْکُمْ اَمْوَالَکُمْ.
’’تم ہمت نہ ہارو اور (دشمنوں کو) صلح کی طرف نہ بلاؤ اور تم تو غالب ہو اوراللہ تمھارے ساتھ ہے،وہ ہرگز تمھارے اعمال کو کم نہیں کرے گا۔ دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے اور اگر تم ایمان لاؤ گے اور پرہیزگاری کرو گے تو وہ تم کو تمھارا اجر دے گا اور تم سے تمھارا مال طلب نہیں کرے گا۔‘‘سورہ محمد (آیت:35,36)[294]
فَلاَ تَھِنُوْا وَتَدْعُوْٓا اِلَی السَّلْمِ وَاَنْتُمُ الْاَعْلَوْنَ وَاللّٰہُ مَعَکُمْ وَلَنْ یَّتِرَکُمْ اَعْمَالَکُمْ . اِنَّمَا الْحَیٰوۃُ الدُّنْیَا لَعِبٌ وَّلَھْوٌ وَ اِنْ تُؤْمِنُوْا وَتَتَّقُوْا یُؤْتِکُمْ اُجُوْرَکُمْ وَلاَ یَسْئَلْکُمْ اَمْوَالَکُمْ
’’تم ہمت نہ ہارو اور (دشمنوں کو) صلح کی طرف نہ بلاؤ اور تم تو غالب ہو اوراللہ تمھارے ساتھ ہے،وہ ہرگز تمھارے اعمال کو کم نہیں کرے گا۔ دنیا کی زندگی تو محض کھیل اور تماشا ہے اور اگر تم ایمان لاؤ گے اور پرہیزگاری کرو گے تو وہ تم کو تمھارا اجر دے گا اور تم سے تمھارا مال طلب نہیں کرے گا۔‘‘[سورہ محمد (آیت:35,36][295]
.یٰقَوْمِ ادْخُلُوْا الْاَرْضَ الْمُقَدَّسَۃَ الَّتِیْ کَتَبَ اللّٰہُ لَکُمْ وَ لَا تَرْتَدُّوْا عَلٰٓی اَدْبَارِکُمْ فَتَنْقَلِبُوْا خٰسِرِیْن.[سورۃ المائدہ (آیت:۲۱)]
’’تو بھائیو! تم ارضِ مقدس (ملکِ شام) میں جسے اللہ نے تمھارے لیے لکھ رکھا ہے،چل داخل ہو اور (دیکھنا مقابلے کے وقت) پیٹھ نہ پھیر دینا،ورنہ نقصان میں پڑ جاؤ گے۔‘‘
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۵۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ یُّقْتَلُ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتٌ بَلْ اَحْیَآئٌ وَّ لٰکِنْ لَّا تَشْعُرُوْنَ.
’’اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے (شہید ہو) جائیں،اُن کی نسبت یہ نہ کہنا کہ وہ مرے ہوئے ہیں (وہ مردہ نہیں) بلکہ زندہ ہیں،لیکن تم نہیں جانتے۔‘‘
شہدا کو مردہ نہ کہنا،ان کے اعزاز اور تکریم کے لیے ہے۔ان کی یہ زندگی برزخ کی زندگی ہے،جس کو ہم سمجھنے سے قاصر ہیں۔یہ زندگی اعلیٰ قدر مراتب انبیا و مومنین،حتیٰ کہ کفار کو بھی حاصل ہے۔شہید کی روح اور بعض روایات میں مومن کی روح بھی ایک پرندے کی طرح جنت میں جہاں چاہتی ہیں،پھرتی رہتی ہیں۔[296]
سورت آل عمران (آیت:۱۶۹) میں بھی ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ لَا تَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ اَمْوَاتًا بَلْ اَحْیَآئٌ عِنْدَ رَبِّھِمْ یُرْزَقُوْنَ.
’’جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے اُن کو مرے ہوئے نہ سمجھنا (وہ مرے ہوئے نہیں ہیں ) بلکہ اللہ کے نزدیک زندہ ہیں اور اُن کو رزق مل رہا ہے۔‘‘
پارہ 10.وَاعْلَمُوْا .سورۃ الانفال (آیت:۴۱) میں فرمایا:
.وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَا غَنِمْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَاَنَّ لِلّٰہِ خُمُسَہٗ وَ لِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ اِنْ کُنْتُمْ اٰمَنْتُمْ بِاللّٰہِ وَ مَآ اَنْزَلْنَا عَلٰی عَبْدِنَا یَوْمَ الْفُرْقَانِ یَوْمَ الْتَقَی الْجَمْعٰنِ وَاللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ قَدِیْرٌ.
’’اور جان رکھو کہ جو چیز تم (کفار سے) حاصل کرو،اس میں سے پانچواں حصہ اللہ کا اور اس کے رسول کا اور اہلِ قرابت کا اور یتیموں کا اور محتاجوں کا اور مسافروں کا ہے،اگر تم اللہ پر اور اس (نصرت) پر ایمان رکھتے ہو،جو (حق و باطل میں ) فرق کرنے کے دن (جنگِ بدر میں ) جس دن دونوں فوجوں میں مڈ بھیڑ ہو گئی،اپنے بندے (نبی) پر نازل فرمائی اور اللہ ہر چیز پر قادر ہے۔‘‘
غنیمت سے مراد وہ مال ہے جو کافروں سے لڑائی میں فتح و غلبہ حاصل ہونے کے بعد حاصل ہو۔پہلی امتوں میں اس کے لیے یہ طریقہ تھا کہ جنگ ختم ہونے کے بعد کافروں سے حاصل کردہ سارا مال ایک جگہ ڈھیر کر دیا جاتا اور آسمان سے آگ آتی اور اسے جلا کر بھسم کر ڈالتی۔لیکن امتِ مسلمہ کے لیے یہ مالِ غنیمت حلال کر دیا گیا اور جو مال لڑائی کے بغیر صلح کے ذریعے یا جزیہ و خراج سے وصول ہو اسے فے کہا جاتا ہے،تھوڑا ہو یا زیادہ،قیمتی ہو یا معمولی،سب کو جمع کرکے اس کی حسبِ ضابطہ تقسیم کی جائے گی۔کسی سپاہی کو اس میں سے کوئی چیز تقسیم سے قبل اپنے پاس رکھنے کی اجازت نہیں۔
اللہ کا لفظ تو بطور تبرک،نیز اس لیے ہے کہ ہر چیز کا اصل مالک وہی ہے اور حکم بھی اسی کا چلتا ہے،اللہ اور اس کے رسول کے حصے سے مراد ایک ہی ہے،یعنی سارے مالِ غنیمت کے پانچ حصے کرکے چار حصے تو ان مجاہدین میں تقسیم کیے جائیں گے،جنھوں نے جنگ میں حصہ لیا۔ان میں پیادہ کو ایک حصہ اور سوار کو تین گنا حصہ ملے گا۔پانچواں حصہ،جسے عربی میں ’’خُمس‘‘ کہتے ہیں،کہا جاتا ہے کہ اس کے پھر پانچ حصے کیے جائیں گے۔ایک حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ( اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اسے مفادِ عامہ میں خرچ کیا جائے گا) جیسا کہ خود آپ صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ حصہ مسلمانوں پر ہی خرچ فرماتے تھے،بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا بھی ہے:’’میرا جو پانچواں حصہ ہے،وہ بھی مسلمانوں کے مصالح پر ہی خرچ ہوتا ہے۔‘‘ دوسرا حصہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قرابت داروں کا،پھر یتیموں کا اور مسکینوں کا اور مسافروں کا ہے۔
سورۃ الانفال (آیت:۴۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.
’’مومنو! جب (کفار کی) کسی جماعت سے تمھارا مقابلہ ہو تو ثابت قدم رہو اور اللہ کو بہت یاد کرو،تاکہ مراد حاصل کرو۔‘‘
یہاں مسلمانوں کو لڑائی کے وہ آداب بتائے جا رہے ہیں،جن کو دشمن کے مقابلے کے وقت ملحوظ رکھنا ضروری ہے۔سب سے پہلی بات ثباتِ قدمی اور استقلال ہے،کیوں کہ اس کے بغیر میدانِ جنگ میں ٹھہرنا ممکن ہی نہیں ہے،تاہم اس سے
تحرّف اور تحیّز کی وہ دونوں صورتیں مستثنیٰ ہوں گی،[297] کیوں کہ بعض دفعہ ثباتِ قدمی کے لیے بھی تحرّف یا تحیّز ناگزیر ہوتا ہے۔دوسری ہدایت یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کو کثرت سے یاد کرو،تاکہ مسلمان اگر تھوڑے ہوں تو اللہ کی مدد کے طالب رہیں اور اللہ بھی کثرتِ ذکر کی وجہ سے ان کی طرف متوجہ رہے اور اگر مسلمان تعداد میں زیادہ ہوں تو کثرت کی وجہ سے ان میں عُجب اور غرور پیدا نہ ہو،بلکہ اصل توجہ اللہ کی امداد پر ہی رہے۔
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا ضَرَبْتُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَتَبَیَّنُوْا وَ لَا تَقُوْلُوْا لِمَنْ اَلْقٰٓی اِلَیْکُمُ السَّلٰمَ لَسْتَ مُؤْمِنًا تَبْتَغُوْنَ عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا فَعِنْدَ اللّٰہِ مَغَانِمُ کَثِیْرَۃٌ کَذٰلِکَ کُنْتُمْ مِّنْ قَبْلُ فَمَنَّ اللّٰہُ عَلَیْکُمْ فَتَبَیَّنُوْا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرًا.[سورۃ النساء (آیت:۹۴)]
’’مومنو! جب تم اللہ کی راہ میں باہر نکلا کرو تو تحقیق سے کام لیا کرو اور جو شخص تم سے سلام علیک کرے،اُس سے یہ نہ کہو کہ تم مومن نہیں ہو اور اس سے تمھاری غرض یہ ہو کہ دنیا کی زندگی کا فائدہ حاصل کرو،پس اللہ کے پاس بہت سی غنیمتیں ہیں۔تم بھی تو پہلے ایسے ہی تھے،پھر اللہ نے تم پر احسان کیا تو (آیندہ) تحقیق کر لیا کرو اور جو عمل تم کرتے ہو،اللہ کو سب کی خبر ہے۔‘‘
سورت ہود (آیت:۱۱۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاسْتَقِمْ کَمَآ اُمِرْتَ وَ مَنْ تَابَ مَعَکَ وَ لَا تَطْغَوْا اِنَّہٗ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ.
’’سو (اے پیغمبر!) جیسا تمھیں حکم ہوتا ہے (اس پر) تم اور جو لوگ تمھارے ساتھ تائب ہوئے ہیں قائم رہو اور حد سے تجاوز نہ کرنا،وہ تمھارے سب اعمال کو دیکھ رہا ہے۔‘‘
اس آیت میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم اور اہلِ ایمان کو دشمن کے مقابلے میں حد سے بڑھ جانے سے روکا گیا ہے،جو اہلِ ایمان کی اخلاقی قوت اور رفعتِ کردار کے لیے بہت ضروری ہے۔
’’جو مسلمان (گھروں میں ) بیٹھ رہتے (اور لڑنے سے جی چراتے) ہیں اور کوئی عذر نہیں رکھتے اور جو اللہ کی راہ میں اپنے مال اور جان سے لڑتے ہیں،وہ دونوں برابر نہیں ہو سکتے۔اللہ نے مال اور جان سے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر درجے میں فضیلت بخشی ہے اور (گو) نیک وعدہ سب سے ہے،لیکن اجرِ عظیم کے لحاظ سے اللہ نے جہاد کرنے والوں کو بیٹھ رہنے والوں پر کہیں زیادہ فضیلت بخشی ہے۔‘‘ (4:95)[298]
جب یہ آیت نازل ہوئی کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والے اور گھروں میں بیٹھ رہنے والے برابر نہیں تو حضرت عبداللہ بن ام مکتوم رضی اللہ عنہ ( نابینا صحابی) وغیرہ نے عرض کیا کہ ہم تو معذور ہیں،جس کی وجہ سے ہم جہاد میں حصہ لینے سے مجبور ہیں۔مطلب یہ تھا کہ گھر میں بیٹھ رہنے کی وجہ سے جہاد میں حصہ لینے والوں کے برابر ہم اجر و ثواب حاصل نہیں کر سکیں گے،اس پر اللہ تعالیٰ نے.غَیْرُ اُولِی الضَّرَرِ.آیت نازل کی کہ عذر کے ساتھ بیٹھ رہنے والے،مجاہدین کے ساتھ اجر میں برابر کے شریک ہیں،کیوں کہ انھیں عذر نے روکا ہوا ہے۔[صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۸۳۹)]
سورۃ الانفال (آیت:۴۵،۴۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا لَقِیْتُمْ فِئَۃً فَاثْبُتُوْا وَ اذْکُرُوا اللّٰہَ کَثِیْرًا لَّعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ . وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ.
’’اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمھارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو کہ اللہ صبر کرنے والوں کا مددگار ہے۔‘‘
یہاں پہلی ہدایت ثابت قدمی
دوسری بہ کثرت ذکرِ الٰہی اور
تیسری ہدایت اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ہے
ظاہر بات ہے ان نازک حالات میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نا فرمانی کتنی سخت خطرناک ہو سکتی ہے۔اس لیے ایک مسلمان کے لیے ویسے تو ہر حالت میں اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت ضروری ہے،تاہم میدانِ جنگ میں اس کی اہمیت دو چند ہو جاتی ہے اور اس موقع پر تھوڑی سی نافرمانی بھی اللہ کی مدد سے محرومی کا باعث بن سکتی ہے۔
چوتھی ہدایت یہ کہ آپس میں تنازع اور اختلاف نہ کرو،اس سے تم بزدل ہو جائو گے اور تمھاری ہوا اکھڑ جائے گی۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی ایک حدیث میں فرمایا ہے:’’لوگو! دشمن سے مڈ بھیڑ کی آرزو مت کرو اور اللہ سے عافیت مانگا کرو۔تاہم جب کبھی دشمن سے لڑائی کا موقع پیدا ہو جائے تو صبر کرو (جم کر لڑو) اور جان لو کہ جنت تلواروں کے سائے تلے ہے۔‘[299]
سورۃالانفال (آیت:۶۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ مِّنْ قُوَّۃٍ وَّ مِنْ رِّبَاطِ الْخَیْلِ تُرْھِبُوْنَ بِہٖ عَدُوَّ اللّٰہِ وَ عَدُوَّکُمْ وَ اٰخَرِیْنَ مِنْ دُوْنِھِمْ لَا تَعْلَمُوْنَھُمْ اَللّٰہُ یَعْلَمُھُمْ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ یُوَفَّ اِلَیْکُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تُظْلَمُوْنَ.
’’اور جہاں تک ہوسکے (فوج کی جمعیت کے) زور سے اور گھوڑوں کے تیار رکھنے سے ان کے (مقابلے کے) لیے مستعد ہو کہ اس سے اللہ کے دشمنوں اور تمھارے دشمنوں اور ان کے سوا اور لوگوں پر جن کو تم نہیں جانتے اور اللہ جانتا ہے،ہیبت و دہشت بیٹھی رہے گی اور تم جو کچھ اللہ کی راہ میں خرچ کرو گے،اس کا ثواب تمھیں پورا پورا دیا جائے گا اور تمھارا ذرا نقصان نہیں کیا جائے گا۔‘‘
.قُـوَّۃٍ.کی تفسیر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے یعنی تیر اندازی،کیوں کہ اُس دور میں یہ بہت بڑا جنگی ہتھیار تھا اور نہایت اہم فن تھا،جس طرح گھوڑے جنگ کے لیے ناگزیر ضرورت تھے،جیسا کہ آیت سے واضح ہے،لیکن اب تیر اندازی اور گھوڑوں کی جنگی اہمیت اور افادیت و ضرورت باقی نہیں رہی،اس لیے.وَاَعِدُّوْا لَھُمْ مَّا اسْتَطَعْتُمْ.کے تحت آج کل کے جنگی ہتھیار (مثلاً میزائل،ٹینک،بم اور جنگی جہاز اور بحری جنگ کے لیے آبدوزیں وغیرہ) کی تیاری ضروری ہے۔
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۹۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ قَاتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ الَّذِیْنَ یُقَاتِلُوْنَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمَعْتَدِیْنَ.
’’اور جو لوگ تم سے لڑتے ہیں تم بھی اللہ کی راہ میں اُن سے لڑو،مگر زیادتی نہ کرنا کہ اللہ تعالیٰ زیادتی کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
اس آیت میں پہلی مرتبہ ان لوگوں سے لڑنے کی اجازت دی گئی جو مسلمانوں سے آمادۂ قتال رہتے تھے۔تاہم زیادتی سے منع فرمایا،جس کا مطلب یہ ہے کہ عورتوں، بچوں اور بوڑھوں کو قتل نہ کرو،جن کا جنگ میں حصہ نہ ہو،اسی طرح درخت وغیرہ جلا دینا یا جانوروں کو بغیر مصلحت کے مار ڈالنا بھی زیادتی ہے،جس سے بچا جائے۔[300]
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۹۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَلَا تُقٰتِلُوْھُمْ عِنْدَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ حَتّٰی یُقٰتِلُوْکُمْ فِیْہِ فَاِنْ قٰتَلُوْکُمْ فَاقْتُلُوْھُمْ کَذٰلِکَ جَزَآئُ الْکٰفِرِیْنَ.
’’اور جب تک وہ تم سے مسجد (خانہ کعبہ) کے پاس نہ لڑیں،تم بھی وہاں اُن سے نہ لڑنا،ہاں اگر وہ تم سے لڑیں تو تم اُن کو قتل کر ڈالو، کافروں کی یہی سزا ہے۔‘‘
حدودِ حرم میں قتال منع ہے،لیکن اگر کفار اس کی حرمت کو ملحوظ نہ رکھیں اور تم سے لڑیں تو تمھیں بھی ان سے لڑنے کی اجازت ہے۔
سورۃ التوبہ (آیت:۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاِذَا انْسَلَخَ الْاَشْھُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِکِیْنَ حَیْثُ وَ جَدْتُّمُوْھُمْ وَخُذُوْھُمْ وَ احْصُرُوْھُمْ وَ اقْعُدُوْا لَھُمْ کُلَّ مَرْصَدٍ فَاِنْ تَابُوْا وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ فَخَلُّوْا سَبِیْلَھُمْ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
And when the sacred months have passed, then kill the polytheists wherever you find them and capture them and besiege them and sit in wait for them at every place of ambush. But if they should repent, establish prayer, and give zakah, let them [go] on their way. Indeed, Allah is Forgiving and Merciful. (Quran 9:5)[See details link[301],[302],[303]]
Most Misinterpreted Verses of Quran[304] .......
’’جب حرمت کے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑ لو اور گھیر لو اور ہر گھات کی جگہ پر ان کی تاک میں بیٹھے رہو،پھر اگر وہ توبہ کر لیں اور نماز پڑھنے اور زکات دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو،بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
بَرَاءَةٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿١﴾ فَسِيحُوا فِي الْأَرْضِ أَرْبَعَةَ أَشْهُرٍ وَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۙ وَأَنَّ اللَّهَ مُخْزِي الْكَافِرِينَ ﴿٢﴾ وَأَذَانٌ مِّنَ اللَّهِ وَرَسُولِهِ إِلَى النَّاسِ يَوْمَ الْحَجِّ الْأَكْبَرِ أَنَّ اللَّهَ بَرِيءٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ۙ وَرَسُولُهُ ۚ فَإِن تُبْتُمْ فَهُوَ خَيْرٌ لَّكُمْ ۖ وَإِن تَوَلَّيْتُمْ فَاعْلَمُوا أَنَّكُمْ غَيْرُ مُعْجِزِي اللَّهِ ۗ وَبَشِّرِ الَّذِينَ كَفَرُوا بِعَذَابٍ أَلِيمٍ ﴿٣﴾ إِلَّا الَّذِينَ عَاهَدتُّم مِّنَ الْمُشْرِكِينَ ثُمَّ لَمْ يَنقُصُوكُمْ شَيْئًا وَلَمْ يُظَاهِرُوا عَلَيْكُمْ أَحَدًا فَأَتِمُّوا إِلَيْهِمْ عَهْدَهُمْ إِلَىٰ مُدَّتِهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ يُحِبُّ الْمُتَّقِينَ ﴿٤﴾ فَإِذَا انسَلَخَ الْأَشْهُرُ الْحُرُمُ فَاقْتُلُوا الْمُشْرِكِينَ حَيْثُ وَجَدتُّمُوهُمْ وَخُذُوهُمْ وَاحْصُرُوهُمْ وَاقْعُدُوا لَهُمْ كُلَّ مَرْصَدٍ ۚ فَإِن تَابُوا وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ فَخَلُّوا سَبِيلَهُمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿٥﴾ وَإِنْ أَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِكِينَ اسْتَجَارَكَ فَأَجِرْهُ حَتَّىٰ يَسْمَعَ كَلَامَ اللَّهِ ثُمَّ أَبْلِغْهُ مَأْمَنَهُ ۚ ذَٰلِكَ بِأَنَّهُمْ قَوْمٌ لَّا يَعْلَمُونَ ﴿٦﴾
(اے اہل اسلام اب) خدا اور اس کے رسول کی طرف سے مشرکوں سے جن سے تم نے عہد کر رکھا تھا بیزاری (اور جنگ کی تیاری) ہے- تو (مشرکو تم) زمین میں چار مہینے چل پھر لو اور جان رکھو کہ تم خدا کو عاجز نہ کرسکو گے۔ اور یہ بھی کہ خدا کافروں کو رسوا کرنے والا ہے - اور حج اکبر کے دن خدا اور اس کے رسول کی طرف سے لوگوں کو آگاہ کیا جاتا ہے کہ خدا مشرکوں سے بیزار ہے اور اس کا رسول بھی (ان سے دستبردار ہے) ۔ پس اگر تم توبہ کرلو تو تمھارے حق میں بہتر ہے۔ اور اگر نہ مانو (اور خدا سے مقابلہ کرو) تو جان رکھو کہ تم خدا کو ہرا نہیں سکو گے اور (اے پیغمبر) کافروں کو دکھ دینے والے عذاب کی خبر سنا دو- البتہ جن مشرکوں کے ساتھ تم نے عہد کیا ہو اور انہوں نے تمہارا کسی طرح کا قصور نہ کیا ہو اور نہ تمہارے مقابلے میں کسی کی مدد کی ہو تو جس مدت تک ان کے ساتھ عہد کیا ہو اسے پورا کرو۔ (کہ) خدا پرہیزگاروں کو دوست رکھتا ہے - جب حرام مہینے مہینے گزر جائیں تو مشرکوں کو جہاں پاؤ قتل کر دو اور پکڑلو اور گھیرلو اور ہر گھات کی جگہ ان کی تاک میں بیٹھے رہو۔ پھر اگر وہ توبہ کرلیں اور نماز پڑھنے اور زکوٰة دینے لگیں تو ان کی راہ چھوڑ دو۔ بےشک خدا بخشنے والا مہربان ہے- اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواستگار ہو تو اس کو پناہ دو یہاں تک کہ کلام خدا سننے لگے پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچادو۔ اس لیے کہ یہ بےخبر لوگ ہیں(قرآن:9:1to6)
سورہ توبہ کی آیت 5 کو اسلام دشمن ، اسلاموفوبیا کے شکار مغرب کے لوگ اور دہشت گردی میں ملوث ان کے اپنے آلہ کار گمراہ تکفیری دشت گرد استعمال کرتے ہیں- سیاق و ثبات میں 6 آیات اکٹھے پڑھنے سے سب کچھ واضح ہوتا ہے کہ یہ قتال کا حکم جنگ میں ہے جب مشرکین ںے معاہدہ کی خلاف درزی کی مگر پھر بھی ان کو وارننگ دی- [مزید تفصیل لنک[305]]
ان حرمت والے مہینوں سے مراد کیا ہے؟ اس میں اختلاف ہے۔ایک رائے تو یہ ہے کہ اس سے مراد چار مہینے ہیں جو حرمت والے ہیں:رجب،ذوالقعدہ،ذوالحجہ اور محرم۔اعلانِ براء ت ۱۰؍ ذوالحجہ کو کیا گیا،اس اعتبار سے گویا یہ اعلان کے بعد پچاس دن کی مہلت انہیں دی گئی،لیکن امام ابن کثیر نے کہا ہے کہ یہاں.اَشْھُرِ الْحُرُمُ.سے مراد حرمت والے مہینے نہیں،بلکہ ۱۰؍ ذوالحجہ سے لے کر ۱۰؍ ربیع الثانی تک کے چار مہینے مراد ہیں۔واللّٰه أعلم۔
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۱۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الشَّھْرِ الْحَرَامِ قِتَالٍ فِیْہِ قُلْ قِتَالٌ فِیْہِ کَبِیْرٌ وَ صَدٌّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ کُفْرٌم بِہٖ وَالْمَسْجِدِ الْحَرَامِ وَ اِخْرَاجُ اَھْلِہٖ مِنْہُ اَکْبَرُ عِنْدَ اللّٰہِ وَ الْفِتْنَۃُ اَکْبَرُ مِنَ الْقَتْلِ.
’’(اے نبی!) لوگ تم سے عزت والے مہینوں میں لڑائی کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دو کہ اُن میں لڑنا بڑا (گناہ) ہے اور اللہ کی راہ سے روکنا اور اُس سے کفر کرنا اور مسجد حرام (خانہ کعبہ میں جانے) سے (بند کرنا) اور اہلِ مسجد کو اُس میں سے نکال دینا (جو یہ کفار کرتے ہیں ) اللہ کے نزدیک اس سے بھی زیادہ (گناہ) ہے اور فتنہ انگیزی خون ریزی سے بھی بڑھ کر ہے۔‘‘
سورۃ التوبہ (آیت:۱۲۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَاتِلُوا الَّذِیْنَ یَلُوْنَکُمْ مِّنَ الْکُفَّارِ وَ لْیَجِدُوْا فِیْکُمْ غِلْظَۃً وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ.
’’اے اہلِ ایمان! اپنے نزدیک کے (رہنے والے) کافروں سے جنگ کرو اور چاہیے کہ وہ تم میں (اپنے لیے) سختی پائیں اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔‘‘
اس میں کافروں سے لڑنے کا ایک اہم اصول بیان کیا گیا ہے کہ ’’الأول فالأول‘‘ اور ’’الأقرب فالأقرب‘‘ کے قاعدے کے مطابق بھی کافروں سے جہاد کرنا ہے،جیسا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پہلے جزیرۂ عرب میں آباد مشرکین سے قتال کیا،جب ان سے فارغ ہو گئے اور اللہ تعالیٰ نے مکہ،طائف،یمن،یمامہ،ہجر،خیبر اور حضر موت وغیرہ ممالک پر مسلمانوں کو غلبہ عطا فرما دیا اور عرب کے سارے قبائل فوج در فوج اسلام میں داخل ہو گئے،تو پھر اہلِ کتاب سے قتال کا آغاز فرمایا اور ۹؍ ہجری میں رومیوں سے قتال کے لیے تبوک تشریف لے گئے،جو جزیرہ عرب سے قریب ہے،اسی کے مطابق آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد خلفاے راشدین نے روم کے عیسائیوں سے قتال فرمایا اور ایران کے مجوسیوں سے جنگ کی۔
1۔سورۃ التوبہ (آیت:۳۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ قَاتِلُوا الْمُشْرِکِیْنَ کَآفَّۃً کَمَا یُقَاتِلُوْنَکُمْ کَآفَّۃً وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ مَعَ الْمُتَّقِیْنَ.
’’اور تم سب کے سب مشرکوں سے لڑو،جیسے وہ سب کے سب تم سے لڑتے ہیں اور جان رکھو کہ اللہ پرہیزگاروں کے ساتھ ہے۔‘‘
2۔نیز آیت (۴۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنْفِرُوْا خِفَافًا وَّ ثِقَالًا وَّ جَاھِدُوْا بِاَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ.
’’تم سبک بار ہو یا گراں بار (یعنی مال و اسباب تھوڑا رکھتے ہو یا بہت،گھروں سے) نکل آؤ اور اللہ کے راستے میں مال اور جان سے لڑو،یہی تمھارے حق میں اچھاہے،بشرطیکہ سمجھو۔‘‘
یعنی غزوۂ تبوک کے لیے تمام مسلمانوں کو ہادیِ امم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہمراہ نکل کھڑے ہونا چاہیے۔اور اہلِ کتاب کافر رومیوں سے جہاد کرنے کے لیے تمام مومنوں کو چلنا چاہیے۔خواہ جی مانے یا نہ مانے خواہ آسانی نظر آئے یا بھاری پڑے۔ذکر ہو رہا تھا کہ کوئی بڑھاپے کا اور کوئی بیماری کا عذر کر دے گا،تو اس سلسلے میں یہ آیت نازل ہوئی۔[306]
سورۃ التوبہ (آیت:۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اِنْ اَحَدٌ مِّنَ الْمُشْرِکِیْنَ اسْتَجَارَکَ فَاَجِرْہُ حَتّٰی یَسْمَعَ کَلٰمَ اللّٰہِ ثُمَّ اَبْلِغْہُ مَاْمَنَہٗ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَوْمٌ لَّا یَعْلَمُوْنَ.
’’اور اگر کوئی مشرک تم سے پناہ کا خواست گار ہو تو اس کو پناہ دو،یہاں تک کہ کلامِ الٰہی سننے لگے،پھر اس کو امن کی جگہ واپس پہنچا دو،اس لیے کہ یہ بے خبر لوگ ہیں۔‘‘
پناہ کے طلب گاروں کو پناہ کی رخصت اس لیے دی گئی ہے کہ یہ بے علم لوگ ہیں۔ممکن ہے اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی باتیں ان کے علم میں آئیں اور وہ مسلمانوں کا اخلاق و کردار دیکھیں تو اسلام کی حقانیت و صداقت کے قائل ہو جائیں۔
سورۃ التوبہ (آیت:۱۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اِنْ نَّکَثُوْٓا اَیْمَانَھُمْ مِّنْم بَعْدِ عَھْدِھِمْ وَ طَعَنُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ فَقَاتِلُوْٓا اَئِمَّۃَ الْکُفْرِ اِنَّھُمْ لَآ اَیْمَانَ لَھُمْ لَعَلَّھُمْ یَنْتَھُوْنَ.
’’اور اگر عہد کرنے کے بعد اپنی قسموں کو توڑ ڈالیں اور تمھارے دین میں طعنے کرنے لگیں تو ان کفر کے پیشواؤں سے جنگ کرو (یہ بے ایمان لوگ ہیں اور) ان کی قسموں کا کچھ اعتبار نہیں۔عجب نہیں کہ اپنی حرکات سے باز آجائیں۔‘‘
اگر یہ لوگ عہد توڑ دیں،دین میں طعن کریں اور ظاہری طور پر یہ قسمیں بھی کھائیں تو ان قسموں کا کوئی اعتبار نہیں۔کفر کے ان پیشوائوں سے لڑائی کرو،ممکن ہے اس طرح اپنے کفر سے باز آجائیں۔
سورۃ الاحزاب (آیت:۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ جَآئَتْکُمْ جُنُوْدٌ فَاَرْسَلْنَا عَلَیْھِمْ رِیْحًا وَّ جُنُوْدًا لَّمْ تَرَوْھَا وَ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرًا.
’’مومنو! اللہ کی اس مہربانی کو یاد کرو جو (اُس نے) تم پر (اُس وقت کی) جب فوجیں تم پر (حملہ کرنے کو) آئیں تو ہم نے اُن پر ہوا بھیجی اور ایسے لشکر (نازل کیے) جن کو تم دیکھ نہیں سکتے تھے اور جو کام تم کرتے ہو،اللہ اُن کو دیکھ رہا ہے۔‘‘
اس آیت میں غزوۂ احزاب کی کچھ تفصیل ہے،جو ۵؍ ہجری میں پیش آیا۔اسے احزاب اس لیے کہتے ہیں کہ اس موقعے پر تمام اسلام دشمن گروہ جمع ہوکر مسلمانوں کے مرکز ’’مدینہ‘‘ پر حملہ آور ہوئے تھے۔اسے جنگِ خندق بھی کہتے ہیں، اس لیے کہ مسلمانوں نے اپنے بچائو کے لیے مدینے کے اطراف میں خندق کھودی تھی،تاکہ دشمن مدینے کے اندر نہ آسکیں۔
سورت محمد (آیت:۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاِذا لَقِیْتُمْ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فَضَرْبَ الرِّقَابِ حَتّٰی۔اِذَآ اَثْخَنْتُمُوْھُمْ فَشُدُّوْا الْوَثَاقَ فَاِمَّا مَنًّامبَعْدُ وَاِمَّا فِدَآئً حَتّٰی تَضَعَ الْحَرْبُ اَوْزَارَھَا ذٰلِکَ وَلَوْ یَشَآئُ اللّٰہُ لاَنْتَصَرَ مِنْھُمْ وَلٰـکِنْ لِّیَبْلُوَاْ بَعْضَکُمْ بِبَعْضٍ وَالَّذِیْنَ قُتِلُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَلَنْ یُّضِلَّ اَعْمَالَھُمْ.
’’جب تم کافروں سے بھڑ جاؤ تو ان کی گردنیں اڑا دو یہاں تک کہ جب ان کو خوب قتل کر چکو تو (جو زندہ پکڑے جائیں ان کو) مضبوطی سے قید کر لو پھر اس کے بعد یا تو احسان رکھ کر چھوڑ دینا چاہیے یا کچھ مال لے کر یہاں تک کہ (فریقِ مقابل) لڑائی (کے) ہتھیار (ہاتھ سے) رکھ دے یہ (حکم یاد رکھو) اور اگر اللہ چاہتا تو (اور طرح) ان سے انتقام لے لیتا،لیکن اس نے چاہا کہ تمھاری آزمایش ایک (کو) دوسرے سے (لڑوا کر) کرے اور جو لوگ اللہ کی راہ میں مارے گئے،ان کے اعمال کو ہرگز ضائع نہ کرے گا۔‘‘
یہاں کافروں اور غیر معاہد اہلِ کتاب سے جہاد کرنے کا حکم دیا جا رہا ہے۔قتل کرنے کے بجائے گردنیں مارنے کا حکم ہے کہ اس تعبیر میں کفار کے ساتھ غلظت و شدت کا زیادہ اظہار ہے۔
زور دار معرکہ آرائی اور زیادہ سے زیادہ ان کو قتل کرنے کے بعد،ان کے جو آدمی قابو میں آجائیں،انھیں قیدی بنالو اور مضبوطی سے انھیں جکڑ کر رکھو،تاکہ وہ بھاگ نہ سکیں۔
میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.مَآ اَفَآئَ اللّٰہُ عَلٰی رَسُوْلِہٖ مِنْ اَھْلِ الْقُرٰی فَلِلّٰہِ وَلِلرَّسُوْلِ وَلِذِی الْقُرْبٰی وَالْیَتٰمٰی وَالْمَسٰکِیْنِ وَابْنِ السَّبِیْلِ کَیْ لاَ یَکُوْنَ دُوْلَۃًم بَیْنَ الْاَغْنِیَآئِ مِنْکُمْ وَمَآ اٰتٰکُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْہُ وَمَا نَھٰکُمْ عَنْہُ فَانْتَھُوْا وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَاب . لِلْفُقَرَآئِ الْمُھٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیارِھِمْ وَاَمْوَالِھِمْ یَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الصّٰدِقُوْنَ.
’’جو مال اللہ نے اپنے پیغمبر کو دیہات والوں سے دلوایا ہے،وہ اللہ کے اور پیغمبر کے اور (پیغمبر کے) قرابت والوں کے اور یتیموں کے اور حاجت مندوں کے اور مسافروں کے لیے ہے،تاکہ جو لوگ تم میں سے دولت مند ہیں،انہی کے ہاتھوں میں نہ پھرتا رہے،سو جو چیز تم کو پیغمبر دیں وہ لے لو اور جس سے منع کریں (اس سے) باز رہو اور اللہ سے ڈرتے رہو،بے شک اللہ سخت عذاب دینے والا ہے۔(اور) ان مفلسانِ تارک الوطن کے لیے بھی جو اپنے گھروں اور مالوں سے خارج (اور جدا) کر دیے گئے ہیں (اور) اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کے طلب گار اور اللہ اور اس کے پیغمبر کے مددگار ہیں،یہی لوگ سچے (ایمان دار) ہیں۔‘‘ (سورۃ الحشر59:7,8)
ان آیات میں مالِ فے کی تقسیم بیان کی گئی ہے۔فے کس مال کو کہتے ہیں ؟ اس کی صفت کیا ہے؟ اس کا حکم کیا ہے؟ فے کافروں کے اس مال کو کہتے ہیں جو ان سے لڑے بِھڑے بغیر مسلمانوں کے قبضہ میں آجائے(تفسیر[307])
سورۃ الفتح (آیت:۱۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلاَ عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلاَ عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّمَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ یُدْخِلْہُ جَنّٰتٍ تَجْرِیْ مِنْ تَحْتِھَا الْاَنْھٰرُ وَمَنْ یَّتَوَلَّ یُعَذِّبْہُ عَذَابًا اَلِیْمًا.
’’نہ تو اندھے پر گناہ ہے (کہ سفرِ جنگ سے پیچھے رہ جائے) اور نہ لنگڑے پر گناہ ہے اور نہ بیمار پر گناہ ہے اور جو شخص اللہ اور اس کے پیغمبر کے فرمان پر چلے،اللہ اس کو بہشتوں میں داخل کرے گا،جن کے تلے نہریں بہہ رہی ہیں اور جو رُوگردانی کرے گا،اسے بڑے دکھ کی سزا دے گا۔‘‘
بصارت سے محرومی اور لنگڑے پن کی وجہ سے چلنے پھرنے سے معذوری،یہ دونوں عذر لازمی و دائمی ہیں۔ان اصحابِ عذر یا ان جیسے دیگر معذورین کو جہاد سے مستثنیٰ کر دیا گیا،ان کے علاوہ جو بیماریاں ہیں وہ عارضی عذر ہیں اور بیماری دور ہوتے ہی لوگ جہاد میں شریک ہوں گے۔
سورت محمد (آیت:۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ تَنْصُرُوا اللّٰہَ یَنْصُرْکُمْ وَیُثَبِّتْ اَقْدَامَکُمْ.
’’اے اہلِ ایمان! اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو وہ بھی تمھاری مدد کرے گا اور تم کو ثابت قدم رکھے گا۔‘‘
اللہ کی مدد کرنے کا مطلب،اللہ کے دین کی مدد ہے،کیونکہ وہ اسباب کے مطابق اپنے مومن بندوں کے ذریعے ہی سے کرتا ہے۔یہ مومن بندے اللہ کے دین کی حفاظت اور اس کی تبلیغ کرتے ہیں تو اللہ تعالیٰ ان کی مدد فرماتا ہے۔یعنی انھیں کافروں پر فتح و غلبہ عطا کرتا ہے،جیسے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم اجمعین اور قرونِ اولیٰ کے مسلمانوں کی روشن تاریخ ہے۔
مسلمانوں کے زوال کے بنیادی طور پر تین بڑے اسباب[308] معلوم ہوتے ہیں: (١) قرآن سے لا تعلقی (٢) قانون علت و معلول (cause and effect) کو نظر انداز کرنا اور (٣) اخلاقی انحتاط –
آج ہمیں اپنے قومی و ملکی مسائل کے حل کے لیے قرآن کی تلوار ہاتھ میں لے کر جہاد کرنے اور قرآنی دعوت کے ذریعے سے ِ ایک بھر پور انقلابیّ جدوجہد برپا کرنے کی ضروت ہے۔
فَلاَ تُطِعِ الْکٰفِرِیْنَ وَجَاھِدْھُمْ بِہٖ جِھَادًا کَبِیْرًا
"پس تو کافروں کا کہنا نہ مان اور تو اس ( قرآن کی دعوت اور دلائل ) کے ذریعے ان کے ساتھ بڑا جہاد (جِھَادًا کَبِیْرًا) کر"
ہمارے اجتماعی مسائل کا حل بھی یہی ہے اور ہمارے اندرونی امراض کی دوا ” وَشِفَآءٌ لِّمَا فِی الصُّدُورِ “( یونس : 57) بھی اسی میں ہے:
وَ مَنۡ جَاہَدَ فَاِنَّمَا یُجَاہِدُ لِنَفۡسِہٖ ؕ اِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ عَنِ الۡعٰلَمِیۡنَ ﴿۶﴾
“اور ہر ایک جہاد کرنے والا اپنے ہی بھلے کی کوشش کرتا ہے ۔ ویسے تو اللہ تعالٰی تمام جہان والوں سے بے نیاز ہے” (29:6)
قرآن کے ہم پر چار حقوق ہیں :
الله نے نے تمام مسلمانوں کو قرآن کا وارث بنایا (35:32). [تفسیرلنک[309]] قرآن کے حقوق ہر مسلمان نے استطاعت کے مطابق ادا کرنا ہیں:
1..قرآن پر ایمان
2. .قرآن کو پڑھنا، سمجھنا، تدبر اور تفکر
3. .قرآن پر عمل کرنا
4..قرآن کے پیغام کو دوسروں تک پہنچانا
یاد رہے کہ : قرآن کا پیغام پہنچانا جہاد کبیرہ ہے (25:52)
روز محشر رسول الله ﷺ کہیں گے: ”اے میرے رب ! بےشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا “ (25:30) [ تفسیرلنک[310] ]
جب ہم قرآن کوسمجھ. کر اس پر عمل کریں گے تو اگلا مرحلہ اس “جہاد کبیرہ ” کو کفار تک پھیلانا ہو گا ، گھوڑوں پر سوار تلوار کے زور پر فتوحات کا دور گزر گیا … قرآن کے علم حق اور کلام کی طاقت سے ہم کفار کے ذھن و دماغ سے باطل نظریات کو شکست دے کر فتح کر سکتے ہیں (:9:33) … الیکٹرانک اور سوشل میڈیا ، انٹرنیٹ اور موبائل آج کے دور کا موثر ہتھیار ہے .. سائبر سپیس (cyber space) میدان جنگ … اسی لیےیہ ای بک "احکام القرآن"ر ، جہاد بالقرآن کا ایک ہتھیار ہے -
خبر دار! کوئی غلط فہمی نہ رہے کہ جہاد (قتال . جنگ ، حرب) موقوف ہو گیا ؟ موجودہ دور مکی ، مدنی ادوار کا مرکب ہے- قرآن کے زریعہ “جہاد کبیرہ” (مسلسل جدو جہد) کرتے ہوے جہاد (قتال . جنگ ، حرب) کی تیاری مکمل رکھیں (8:60) تاکہ جب اسلامی ریاست کو ضرورت پڑے تو دشمنوں کو دندان شکن جواب دے سکیں-
مزید پڑہیں : جہاد کبیرہ[311] ----
.یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَۃٍ وَّ خَلَقَ مِنْھَا زَوْجَھَا وَ بَثَّ مِنْھُمَا رِجَالًا کَثِیْرًا وَّ نِسَآئً وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْ تَسَآئَ لُوْنَ بِہٖ وَ الْاَرْحَامَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلَیْکُمْ رَقِیْبًا.[سورۃ النساء (آیت:۱)]
’’اے لوگو! اپنے رب سے ڈرو،جس نے تم کو ایک شخص سے پیدا کیا، اس سے اس کا جوڑا بنایا،پھر اُن دونوں سے کثرت سے مرد و عورت (پیدا کر کے روے زمین پر) پھیلا دیے اور اللہ سے جس کے نام کو تم اپنی حاجت براری کا ذریعہ بناتے ہو،ڈرو اور ناتا توڑنے سے (بچو) کچھ شک نہیں کہ اللہ تمھیں دیکھ رہا ہے۔‘‘
جب تم سب کو عدم سے وجود میں لانے والا اور پھر تم کو باقی رکھنے والا وہی ہے تو اس سے ڈرنا اور اس کی فرماں برداری کرنا ضروری ہے۔تم تمام حاجتوں میں اللہ کے محتاج ہو،اس لیے اسی کی اطاعت کرنا ضروری ہوگیا،اس کے بعد حکم ہے کہ قرابت سے بھی ڈرو،یعنی ان کے حقوق ادا کرتے رہو صلہ رحمی کرو،قطع رحمی سے بچو۔
اسلام ایک مکمل عالمی دین ہے ، جو دوسرے مذاھب کے لوگوں کو اسلام کی پر امن طریقه سے دعوت دیتا ہے:
اُدۡعُ اِلٰی سَبِیۡلِ رَبِّکَ بِالۡحِکۡمَۃِ وَ الۡمَوۡعِظَۃِ الۡحَسَنَۃِ وَ جَادِلۡہُمۡ بِالَّتِیۡ ہِیَ اَحۡسَنُ ؕ اِنَّ رَبَّکَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِمَنۡ ضَلَّ عَنۡ سَبِیۡلِہٖ وَ ہُوَ اَعۡلَمُ بِالۡمُہۡتَدِیۡنَ ﴿۱۲۵﴾
اپنے رب کی راہ کی طرف لوگوں کو حکمت اور بہترین نصیحت کے ساتھ بلائیے اور ان سے بہترین طریقے سے گفتگو کیجئے یقیناً آپ کا رب اپنی راہ سے بہکنے والوں کو بھی بخوبی جانتا ہے اور وہ راہ یافتہ لوگوں سے پورا واقف ہے -[سورة النحل 16 آیت: 125]
اگر وہ دعوت قبول نہیں کرتے تو پھر بھی انسانیت کے تعلقات قائم رکھتے ہوے انسانی حقوق کا خیال رکھتا ہے، جیسا کہ قرآن سے واضح ہے:
اسلام اور مسلمانوں کے خالف شرانگیز جھوٹے پراپیگنڈہ کے جوابات ....[.........]
ہم نے اسی طرح تمہیں عادل امت بنایا ہے تاکہ تم لوگوں پر گواہ ہو جاؤ اور رسول ( صلی اللہ علیہ وسلم ) تم پر گواہ ہو جائیں ، جس قبلہ پر تم پہلے تھے اسے ہم نے صرف اس لئے مقرر کیا تھا کہ ہم جان لیں کہ رسول کا سچا تابعدار کون ہے اور کون ہے جو اپنی ایڑیوں کے بل پلٹ جاتا ہے گو یہ کام مشکل ہے ، مگر جنہیں اللہ نے ہدایت دی ہے ( ان پر کوئی مشکل نہیں ) اللہ تعالٰی تمہارے ایمان ضائع نہیں کرے گا اللہ تعالٰی لوگوں کے ساتھ شفقت اور مہربانی کرنے والا ہے [سورة البقرة 2 آیت: 143]
"کہو میرے رب نے بالیقین مجھے سیدھا راستہ دکھا دیا ہے، بالکل ٹھیک دین جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں، ابراہیمؑ کا طریقہ جسے یکسو ہو کر اُس نے اختیار کیا تھا اور وہ مشرکوں میں سے نہ تھا (161) کہو، میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور میرا مرنا، سب کچھ اللہ رب العالمین کے لیے ہے (162) جس کا کوئی شریک نہیں اسی کا مجھے حکم دیا گیا ہے اور سب سے پہلے سر اطاعت جھکانے والا میں ہوں، "بیشک میرے رب نے مجھے سیدھا راستہ دکھایا ، سیدھا راستہ ، سیدنا ابراہیم کا راستہ ، ایمان میں سچا ، اور وہ مشرکین میں سے نہیں تھا ،" کہہ دو ، "واقعی میری دعا اور میری قربانی کی خدمت ، میری زندگی اور میری موت ، سب کے لئے اللہ رب العالمین ہے۔ اس کی الوہیت میں کوئی شریک نہیں ہے۔ یہ مجھے حکم دیا گیا ہے ، اور میں مسلمانوں میں پہلا ہوں۔ "(الانعام 6: 161-163)
ے ایمان لانے والو! تم پورے کے پورے اسلام میں آ جاؤ اور شیطان کی پیروی نہ کرو کہ وہ تمہارا کھلا دشمن ہے (208) جو صاف صاف ہدایات تمہارے پا س آ چکی ہیں، اگر ان کو پا لینے کے بعد پھر تم نے لغز ش کھائی، تو خوب جان رکھو کہ اللہ سب پر غالب اور حکیم و دانا ہے(البقرہ 2: 208-209)
مزید : دین اسلام کے نمایاں پہلو >>>[312]
.قُلْ صَدَقَ اللّٰہُ فَاتَّبِعُوْا مِلَّۃَ اِبْرٰھِیْمَ حَنِیْفًا وَ مَا کَانَ مِنَ الْمُشْرِکِیْنَ .[آل عمران( آیت ۹۵)]
’’کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ نے سچ فرما دیا،پس دین ابراہیم کی پیروی کرو،جو سب سے بے تعلق ہو کر ایک (اللہ ہی) کے ہو رہے تھے اور مشرکوں میں سے نہ تھے۔‘‘
الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ فَمَنِ اضْطُرَّ فِي مَخْمَصَةٍ غَيْرَ مُتَجَانِفٍ لِّإِثْمٍ ۙ فَإِنَّ اللَّـهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ (سوره مائده 3)
"آج میں نے تمھارے لئے دین کو کامل کر دیا هے اور اپنی نعمتون کو تمام کر دیا هے اور تمھارے لئے دین اسلام کو پسندیده بنا دیا هے" (سوره مائده 5:3)[313]
هُوَ سَمَّاكُمُ الْمُسْلِمِينَ مِن قَبْلُ وَفِي هَـٰذَا لِيَكُونَ الرَّسُولُ شَهِيدًا عَلَيْكُمْ وَتَكُونُوا شُهَدَاءَ عَلَى النَّاسِ ۚ (سورة الحج22:78)
قائم ہو جاؤ اپنے باپ ابراہیمؑ کی ملت پر اللہ نے پہلے بھی تمہارا نام "مسلم" رکھا تھا اور اِس (قرآن) میں بھی (تمہارا یہی نام ہے) تاکہ رسول تم پر گواہ ہو اور تم لوگوں پر گواہ (القرآن، سورة الحج22:78)[314]
یہ تمہارے باپ ابراہیم کا دین ہے، حضرت ابراہیم (علیہ السلام) نے دعاء میں کہا (وَمِنْ ذُرِّيَّتِنَآ اُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ) (البقرۃ :2:128)[315]
مسلمانوں میں فرقہ واریت کی لعنت کو فوری طور پر ختم کرنا ممکن ہے، اگر تمام ملسمان الله کی کتاب ، قرآن کو پکڑ لیں اور اس کی “محکمات آیات” (3:7) کی بنیاد پر اپنے عقائد و نظریات قائم کریں- ابتدا میں قرآن کے حکم کے مطابق "مسلم" کہلانے، کے ایک قرانی حکم سے منفی رجحانات کو کم کرکہ فرقہ واریت کے خاتمہ کے سفر کا آغاز ہر ایک مسلمان انفرادی طور پر کرسکتا ہے-
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ حَقَّ تُقٰتِہٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْن. [آل عمران (آیت:۱۰۲)]
اے اہل ایمان ! اللہ کا تقویٰ اختیار کرو جتنا کہ اس کے تقویٰ کا حق ہے اور تمہیں ہرگز موت نہ آنے پائے مگر اسلام (فرمانبرداری) کی حالت میں۔‘‘[319](3:102)[320]
اللہ تعالیٰ سے پورا پورا ڈرنا یہ ہے کہ اس کی اطاعت کی جائے اور نافرمانی نہ کی جائے،اس کا ذکر کیا جائے اور اس کی یاد نہ بھلائی جائے،اس کا شکر کیا جائے اور اس کا کفر نہ کیا جائے۔[تفسیر ابن کثیر (۱/ ۲۴۱)]
اس آیت کا مطلب یہ ہے کہ اسلام کے احکام و فرائض پورے طور پر بجا لائے جائیں اور منہیات کے قریب نہ جایا جائے۔ بعض کہتے ہیں کہ اس آیت سے صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم پریشان ہوئے تو اللہ تعالیٰ نے دوسری آیت نازل فرما دی کہ اللہ سے اپنی طاقت کے مطابق ڈرو،جس طرح کہ اپنی طاقت سے ڈرنے کاحق ہے۔ [فتح القدیر بحوالہ أحسن البیان (ص: ۱۳۹)]
.وَ اِذَا حُیِّیْتُمْ بِتَحِیَّۃٍ فَحَیُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْھَآ اَوْ رُدُّوْھَا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ حَسِیْبًا.[سورۃ النساء (آیت ۸۶)]
’’اور جب تم کو کوئی دعا دے تو (جواب میں ) تم اُس سے بہتر (کلمے) سے (اُسے) دعا دو یا انھیں لفظوں سے دعا دے دو،بے شک اللہ ہر چیز کا حساب لینے والا ہے۔‘‘
بہتر کلمے سے جواب دینے کی تفسیر حدیث میں اس طرح آئی ہے کہ ’’السلام علیکم‘‘ کے جواب میں ’’ورحمۃ اللہ‘‘ کا اضافہ اور ’’السلام علیکم و رحمۃ اللہ‘‘ کے جواب میں ’’و برکاتہ‘‘ کا اضافہ کر دیا جائے،لیکن کوئی ’’السلام علیکم ورحمۃ اللہ و برکاتہ‘‘ کہے تو پھر اضافے کے بغیر انہی الفاظ میں جواب دیا جائے۔ایک اور حدیث میں ہے کہ صرف ’’السلام علیکم‘‘ کہنے سے دس نیکیاں اور اس کے ساتھ ’’و رحمۃ اللہ‘‘ کہنے سے بیس نیکیاں اور ’’وبرکاتہ‘‘ کہنے سے تیس نیکیاں ملتی ہیں۔[مسند أحمد (۴/ ۴۳۹)]
یہ حکم مسلمانوں کے لیے ہے،لیکن اہلِ کتاب و کفار کے بارے میں حکم یہ ہے کہ اولاً تو انھیں سلام کرنے میں پہل نہ کی جائے اور اگر وہ سلام کریں تو صرف وعلیکم کہنے پر اکتفا کیا جائے۔[صحیح البخاري،رقم الحدیث (۶۲۵۸) صحیح مسلم (۶/ ۲۱۶۳) ]
.فَاذْکُرُوْنِیْٓ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَ لَا تَکْفُرُوْنِ.
’’پس تم مجھے یاد کیا کرو میں تمھیں یاد کیا کروں گا اور میرا احسان مانتے رہنا اور ناشکری نہ کرنا۔‘‘ [سورۃ البقرۃ 2:152)][321]
ذکر کا مطلب ہر وقت اللہ کو یاد کرنا ہے،یعنی اُس کی تسبیح اور تکبیر بلند کرو اور شکر کا مطلب اللہ کی دی ہوئی قوتوں اور توانائیوں کو اس کی اطاعت میں صرف کرنا ہے۔خداداد قوتوں کو اللہ کی نافرمانی میں صرف کرنا،یہ اللہ کی ناشکر گزاری (کفرانِ نعمت) ہے۔ شکر کرنے پر مزید احسانات کی نوید اور ناشکری پرعذابِ شدید کی وعید ہے:
.لَئِنْ شَکَرْتُمْ لَاَزِیْدَنَّکُمْ وَ لَئِنْ کَفَرْتُمْ اِنَّ عَذَابِیْ لَشَدِیْدٌ .
اور یاد رکھو، تمہارے رب نے خبردار کر دیا تھا کہ اگر شکر گزار بنو گے تو میں تم کو اور زیادہ نوازوں گا اور اگر کفران نعمت کرو گے تو میری سزا بہت سخت ہے" [إبراھیم14:7][322]
.وَ اذْکُرُوْا نِعْمَۃَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ مِیْثَاقَہُ الَّذِیْ وَاثَقَکُمْ بِہٖٓ اِذْ قُلْتُمْ سَمِعْنَا وَ اَطَعْنَا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ.۔سورۃ المائدہ (آیت:۷)
’’اور اللہ نے تم پر جو احسان کیے ہیں،اُن کو یاد کرو اور اُس عہد کو بھی جس کا تم سے قول لیا تھا (یعنی) جب تم نے کہا تھا کہ ہم نے (اللہ کا حکم) سن لیا اور قبول کیا اور اللہ سے ڈرو،کچھ شک نہیں کہ اللہ تعالیٰ دلوں کی باتوں (تک) سے واقف ہے۔‘‘
.قَالَ الَّذِیْ عِنْدَہٗ عِلْمٌ مِّنَ الْکِتٰبِ اَنَا اٰتِیْکَ بِہٖ قَبْلَ اَنْ یَّرْتَدَّ اِلَیْکَ طَرْفُکَ فَلَمَّا رَاٰہُ مُسْتَقِرًّا عِنْدَہٗ قَالَ ھٰذَا مِنْ فَضْلِ رَبِّیْ لِیَبْلُوَنِیْٓ ئَ اَشْکُرُ اَمْ اَکْفُرُ وَمَنْ شَکَرَ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَمَنْ کَفَرَ فَاِنَّ رَبِّیْ غَنِیٌّ کَرِیْمٌ. سورۃ النمل (آیت:۴۰)
’’ایک شخص جس کو کتابِ الٰہی کا علم تھا،کہنے لگا کہ میں آپ کی آنکھ جھپکنے سے پہلے پہلے اُسے آپ کے پاس حاضر کیے دیتا ہوں۔جب سلیمان نے تخت کو اپنے پاس رکھا ہوا دیکھا تو کہا کہ یہ میرے رب کا فضل ہے تاکہ مجھے آزمائے کہ میں شکر کرتا ہوں یا کفرانِ نعمت کرتا ہوں اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو میرا رب بے پروا (اور) کرم کرنے والا ہے۔‘‘
.وَ لَقَدْ اٰتَیْنَا لُقْمٰنَ الْحِکْمَۃَ اَنِ اشْکُرْ لِلّٰہِ وَ مَنْ یَّشْکُرْ فَاِنَّمَا یَشْکُرُ لِنَفْسِہٖ وَ مَنْ کَفَرَ فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ.
’’اور ہم نے لقمان کو دانائی بخشی کہ اللہ کا شکر کرو اور جو شکر کرتا ہے تو اپنے ہی فائدے کے لیے شکر کرتا ہے اور جو ناشکری کرتا ہے تو اللہ بھی بے پروا اور سزاوارِ حمد (و ثنا) ہے۔‘‘ سورت لقمان (آیت:۱۲)
.اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ عَنْکُمْ وَلاَ یَرْضٰی لِعِبَادِہٖ الْکُفْرَ وَاِنْ تَشْکُرُوْا یَرْضَہُ لَکُمْ وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی ثُمَّ اِلٰی رَبِّکُمْ مَّرْجِعُکُمْ فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ اِنَّہٗ عَلِیْمٌم بِذَاتِ الصُّدُوْرِ. سورۃ الزمر (آیت:۷)
’’اگر ناشکری کرو گے تو اللہ تم سے بے پروا ہے اور وہ اپنے بندوں کے لیے ناشکری پسند نہیں کرتا اور اگر شکر کرو گے تو وہ اس کو تمھارے لیے پسند کرے گا اور کوئی اٹھانے والا دوسرے کا بوجھ نہیں اٹھائے گا،پھر تم کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹنا ہے پھر جو کچھ تم کرتے رہے،وہ تم کو بتائے گا وہ تو دلوں کی پوشیدہ باتوں تک سے آگاہ ہے۔‘‘
.وَوَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ اِحْسٰنًا حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ کُرْھًا وَّوَضَعَتْہُ کُرْھًا وَحَمْلُہٗ وَفِصٰلُہٗ ثَلٰـثُوْنَ شَھْرًا حَتّٰی۔ٓ اِذَا بَلَغَ اَشُدَّہٗ وَبَلَغَ اَرْبَعِیْنَ سَنَۃً قَالَ رَبِّ اَوْزِعْنِٓیْ اَنْ اَشْکُرَ نِعْمَتَکَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتَ عَلَیَّ وَعَلٰی وَالِدَیَّ وَاَنْ اَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضٰہُ وَاَصْلِحْ لِیْ فِیْ ذُرِّیَّتِیْ اِنِّیْ تُبْتُ اِلَیْکَ وَاِنِّیْ مِنَ الْمُسْلِمِیْنَ. سورۃ الاحقاف (آیت:۱۵)
’’اور ہم نے انسان کو اپنے والدین کے ساتھ بھلائی کرنے کا حکم دیا اس کی ماں نے اس کو تکلیف سے پیٹ میں رکھااور تکلیف ہی سے جنا اور اس کا پیٹ میں رہنا اور دودھ چھڑانا ڈھائی برس میں ہوتا ہے،یہاں تک کہ جب خوب جوان ہوتا ہے اور چالیس برس کو پہنچ جاتا ہے تو کہتا ہے کہ اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ تو نے جو احسان مجھ پر اور میرے ماں باپ پر کیے ہیں،ان کا شکر گزار بنوں اور یہ کہ نیک عمل کروں جن کو تو پسند کرے اور میرے لیے میری اولاد میں صلاح (و تقویٰ) دے،میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں فرماں بردار ہوں۔‘‘
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَلاَ تُبْطِلُوْٓا اَعْمَالَکُمْ.
’’مومنو! اللہ کا ارشاد مانو اور پیغمبر کی فرماں برداری کرو اور اپنے اعمال کو ضائع نہ ہونے دو۔‘‘ [سورہ محمد (۳۳) ]
.لِاِیْلٰفِ قُرَیْشٍ اٖلٰفِھِمْ رِحْلَۃَ الشِّتَآئِ وَالصَّیْفِ فَلْیَعْبُدُوْا رَبَّ ھٰذَا الْبَیْتِ الَّذِیْٓ اَطْعَمَھُمْ مِّنْ جُوْعٍ وَّاٰمَنَھُمْ مِّنْ خَوْفٍ. سوره قریش (آیت:۱ تا ۴)
’’قریش کو مانوس کرنے کے سبب۔یعنی ان کو جاڑے اورگرمی کے سفرسے مانوس کرنے کے سبب۔لوگوں کو چاہیے کہ (اس نعمت کے شکر میں ) اس گھر کے مالک کی عبادت کریں۔جس نے ان کو بھوک میں کھانا کھلایا اور خوف سے امن بخشا۔‘‘
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۵۵،۱۵۶،۱۵۷)
.وَ لَنَبْلُوَنَّکُمْ بِشَیْئٍ مِّنَ الْخَوْفِ َوالْجُوْعِ وَنَقْصٍ مِّنَ الْاَمْوَالِ وَالْاَنْفُسِ وَ الثَّمَرٰتِ وَ بَشِّرِ الصّٰبِرِیْنَ الَّذِیْنَ اِذَآ اَصَابَتْھُمْ مُّصِیْبَۃٌ قَالُوْ ٓا اِنَّا لِلّٰہِ وَ اِنَّآ اِلَیْہِ رٰجِعُوْنَ اُولٰٓئِکَ عَلَیْھِمْ صَلَوٰتٌ مِّنْ رَّبِّھِمْ وَ رَحْمَۃٌ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُھْتَدُوْنَ.
’’اور ہم کسی قدر خوف اور بھوک اور مال اور جانوں اور میووں کے نقصان سے تمھاری آزمایش کریں گے تو صبر کرے والوں کو (اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی) بشارت سنا دو۔ان لوگوں پر جب کوئی مصیبت واقع ہوتی ہے تو کہتے ہیں کہ ہم اللہ ہی کا مال ہیں اور اُسی کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔یہی لوگ ہیں جن پر اُن کے رب کی مہربانی اور رحمت ہے اور یہی سیدھے راستے پر ہیں۔‘‘
.لَیْسَ الْبِرَّ اَنْ تُوَلُّوْا وُجُوْھَکُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَ لٰکِنَّ الْبِرَّمَنْ اٰمَنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ الْمَلٰٓئِکَۃِ وَ الْکِتٰبِ وَالنَّبِیّٖنَ وَ اٰتَی الْمَالَ عَلٰی حُبِّہٖ ذَوِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ السَّآئِلِیْنَ وَ فِی الرِّقَابِ وَ اَقَامَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَی الزَّکٰوۃَ وَ الْمُوْفُوْنَ بِعَھْدِھِمْ اِذَا عٰھَدُوْا وَ الصّٰبِرِیْنَ فِی الْبَاْسَآئِ وَ الضَّرَّآئِ وَ حِیْنَ الْبَاْسِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ صَدَقُوْا وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُتَّقُوْنَ. [سورۃ البقرۃ (آیت:۱۷۷)]
’’نیکی یہی نہیں کہ تم مشرق یا مغرب (کو قبلہ سمجھ کر ان) کی طرف منہ کر لو،بلکہ نیکی یہ ہے کہ لوگ اللہ پر اور روزِ آخرت پر اور فرشتوں پر اور (اللہ کی) کتابوں پر اور پیغمبروں پر ایمان لائیں اور مال باوجود عزیز رکھنے کے رشتے داروں اور یتیموں اور محتاجوں اور مسافروں اور مانگنے والوں کو دیں اور گردنوں (کے چھڑانے) میں (خرچ کریں ) اور نماز پڑھیں اور زکات دیں اور جب عہد کر لیں تو اُس کو پورا کریں اور سختی اور تکلیف میں اور (معرکہ) کارزار کے وقت ثابت قدم رہیں،یہی لوگ ہیں جو (ایمان میں ) سچے ہیں اور یہی ہیں جو (اللہ سے) ڈرنے والے ہیں۔‘‘
اس آیت میں صحیح عقیدے اور راہِ مستقیم کی تعلیم دی جا رہی ہے۔
صحیح حدیث میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’افضل صدقہ یہ ہے کہ تو اپنی حاجت اور مال کی محبت کی حالت میں اللہ تعالیٰ کے نام پر دے کہ تجھے مال کی کمی کا اندیشہ اور زیادتی کی رغبت ہو۔‘‘[تفسیر ابن کثیر (۱/ ۲۲۴) صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۴۱۹) صحیح مسلم (۱۰۳۲)]
یہ آیت قبلے کے ضمن ہی میں نازل ہوئی ہے۔ایک تو یہودی اپنے قبلے کو (جو بیت المقد س کا مغربی حصہ ہے) اور نصاریٰ اپنے قبلے کو (جو بیت المقدس کا مشرقی حصہ ہے) بڑی اہمیت دے رہے تھے اور اس پر فخر کر رہے تھے۔ دوسری طرف مسلمانوں کے تحویل قبلے پر چہ مگوئیاں کر رہے تھے،جس سے وہ بعض دفعہ رنجیدہ دل ہو جاتے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مشرق یا مغرب کی طرف رخ کر لینا بذات خود کوئی نیکی نہیں ہے،بلکہ یہ تو صرف مرکزیت اور اجتماعیت کے حصول کا ایک طریقہ ہے۔اصل نیکی تو ان عقائد پر ایمان رکھنا ہے،جو االلہ نے بیان فرمائے اور ان اعمال و اخلاق کو اپنانا ہے،جس کی تاکید اس نے فرمائی ہے۔پھر آگے ان عقائد و اعمال کا بیان ہے۔اللہ پر ایمان یہ ہے کہ اسے اپنی ذات و صفات میں یکتا،تمام عیوب سے پاک اور قرآن و حدیث میں بیان کردہ تمام صفاتِ باری تعالیٰ کو بغیر کسی تاویل تسلیم کیا جائے۔آخرت کے روزِ جزا ہونے،حشر نشر اور جنت اور دوزخ پر یقین رکھا جائے۔مال کے نقصان یا بیماری اور لڑائی،تینوں حالتوں میں صبر کرنا،یعنی احکاماتِ الٰہیہ سے انحراف نہ کرنا نہایت کٹھن ہوتا ہے،اس لیے ان حالتوں کو خاص طور پر بیان فرمایا ہے۔
سورۃ الانعام (آیت:۱۵۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اَنَّ ھٰذَا صِرَاطِیْ مُسْتَقِیْمًا فَاتَّبِعُوْہُ وَ لَا تَتَّبِعُوا السُّبُلَ فَتَفَرَّقَ بِکُمْ عَنْ سَبِیْلِہٖ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ.
’’اور یہ کہ میرا سیدھا راستہ یہی ہے تو تم اسی پر چلنا اور دوسرے راستوں پر نہ چلنا کہ (اُن پر چل کر) اللہ کے راستے سے الگ ہو جاؤ گے۔ان باتوں کا اللہ تمھیں حکم دیتا ہے تاکہ تم پرہیزگار بنو۔‘‘
صراطِ مستقیم کو واحد کے صیغے سے بیان فرمایا ہے،کیونکہ اللہ یا قرآن اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی راہ ایک ہے،ایک سے زیادہ نہیں۔اس لیے پیروی صرف اس ایک راہ کی کرنی ہے،کسی اور کی نہیں۔یہی ملت مسلمہ کی وحدت و اجماع کی بنیاد ہے،جس سے ہٹ کر یہ امت مختلف فرقوں اور گروہوں میں بٹ گئی ہے،حالانکہ اس کی تاکید کی گئی ہے کہ دوسری راہوں پر مت چلو کہ وہ راہیں تم کو اللہ کی راہ سے جدا کر دیں گی۔
1۔سورۃ الانعام (آیت:۱۵۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ ھٰذَا کِتٰبٌ اَنْزَلْنٰہُ مُبٰرَکٌ فَاتَّبِعُوْہُ وَ اتَّقُوْا لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.
’’اور (اے کفر کرنے والو!) یہ کتاب (قرآن)بھی ہم نے ہی اتاری ہے،برکت والی تو اس کی پیروی کرو اور (اللہ سے) ڈرو،تاکہ تم پرمہربانی کی جائے۔‘‘
2۔سورۃ الزمر کی آیت (۵۵) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَاتَّبِعُوْٓا اَحْسَنَ مَآ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ مِّنْ رَبِّکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَکُمُ الْعَذَابُ بَغْتَۃً وَّاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ.
’’اور اس سے پہلے کہ تم پر ناگہاں عذاب آ جائے اور تم کو خبر بھی نہ ہو،اس نہایت اچھی (کتاب) کی پیروی کرو،جو تمھارے پروردگار کی طرف سے تم پر نازل ہوئی ہے۔‘‘
سورۃ الانعام (آیت:۱۶۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.مَنْ جَآئَ بِالْحَسَنَۃِ فَلَہٗ عَشْرُ اَمْثَالِھَا وَ مَنْ جَآئَ بِالسَّیِّئَۃِ فَلَا یُجْزٰٓی اِلَّا مِثْلَھَا وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ.
’’جو کوئی (اللہ کے حضور) نیکی لے کر آئے گا،اُس کو ویسی دس نیکیاں ملیں گی اور جو بُرائی لائے گا،اُسے سزا ویسی ہی ملے گی اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا۔‘‘
سورۃ الانعام (آیت:۱۶۲،۱۶۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قُلْ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُکِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ . لَا شَرِیْکَ لَہٗ وَ بِذٰلِکَ اُمِرْتُ وَ اَنَا اَوَّلُ الْمُسْلِمِیْنَ.
’’(یہ بھی) کہہ دو کہ میری نماز اور میری عبادت اور میرا جینا اور میرا مرنا سب اللہ رب العالمین ہی کے لیے ہے۔جس کا کوئی شریک نہیں اورمجھے اسی بات کا حکم ملا ہے اور میں سب سے اوّل فرمانبردار ہوں۔‘‘
توحیدِ الوہیت کی یہ دعوت تمام انبیا علیہم السلام نے دی،جس طرح یہاں آخری پیغمبر کی زبانِ مبارک سے کہلوایا گیا کہ ’’مجھے اسی کا حکم دیا گیا ہے اور میں سب ماننے والوں سے پہلا ہوں۔‘‘
دوسرے مقام پر اللہ تعالیٰ نے فرمایا:
.وَ مَآ اَرْسَلْنَا مِنْ قَبْلِکَ مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا نُوْحِیْٓ اِلَیْہِ اَنَّہٗ لَآاِلٰہَ اِلَّآ اَنَا فَاعْبُدُوْنِ.[الأنبیاء:۲۵]
’’ہم نے آپ سے پہلے جتنے بھی انبیا بھیجے،سب کو یہ وحی کی کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں پس تم میری ہی عبادت کرو۔‘‘
قُلۡ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثۡلُکُمۡ یُوۡحٰۤی اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰـہُکُمۡ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ ۚ فَمَنۡ کَانَ یَرۡجُوۡا لِقَآءَ رَبِّہٖ فَلۡیَعۡمَلۡ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشۡرِکۡ بِعِبَادَۃِ رَبِّہٖۤ اَحَدًا ﴿18:110﴾
اے محمدؐ، کہو کہ میں تو ایک انسان ہوں تم ہی جیسا، میری طرف وحی کی جاتی ہے کہ تمہارا خدا بس ایک ہی خدا ہے، پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو اسے چاہیے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے ﴿18:110﴾[323]
.قُلْ اِنَّمَآ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُکُمْ یُوحٰٓی اِلَیَّ اَنَّمَآ اِلٰہُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَاسْتَقِیْمُوْٓا اِلَیْہِ وَاسْتَغْفِرُوْہُ وَوَیْلٌ لِّلْمُشْرِکِیْنَ.
’’کہہ دو کہ میں بھی آدمی ہوں جیسے تم،(ہاں ) مجھ پر یہ وحی آتی ہے کہ تمھارا معبود اللہ واحد ہے تو سیدھے اسی کی طرف (متوجہ) رہو اور اسی سے مغفرت مانگو اور مشرکوں پر افسوس ہے۔‘‘سورت حٰم السجدہ (آیت:۶)
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا گیا ہے کہ یہ کہہ دیں کہ میرے اور تمھارے درمیان کوئی امتیاز نہیں ہے،بجز وحیِ الٰہی کے،پھر یہ بُعد و حجاب کیوں ؟ علاوہ ازیں میں جو یہ دعوت پیش کر رہا ہوں،یہ بھی ایسی نہیں کہ عقل و فہم میں نہ آسکے،پھر اس سے اعراض کیوں ؟
یہ ہے مقام الوہیت کا افق بعید ، افق بلند۔ اس کے مقابلے میں انسانی علم کا افق بہت ہی نیچے ہے۔ کیونکہ علم نبوی ہو ، بہرحال نبی بشر ہی تو ہوتا ہے۔ قل انما انا بشر مثلکم یوحی الی (18:110) ” اے نبی کہو میں تو ایک انسان ہی ہوں تم ہی جیسا میری طرف وحی کی جاتی۔ “ بس یہی فرق ہے میرے اور تمہارے درمیان کہ میں باری تعالیٰ کے بلند آفاق علم سے کچھ حاصل کرتا رہتا ہوں۔ اس دائمی سرچشمے سے میں علم حاصل کرتا ہوں۔ میں ان ہدایات سے سرمو انحراف نہیں کرسکتا جو مجھے عالم بالا سے ملتی ہیں۔ میں انسان ہوں ، پہلے خود سیکھتا ہوں، پھر سکھاتا ہوں لہٰذا جو شخص ان بلند علوم کو حاصل کرنا چاہتا ہے اسے چاہئے کہ وہ ان علوم سے فائدہ اٹھائے جو اس سرچشمے سے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے سکھائے۔ انسانوں کو چاہئے کہ وہ حصول علوم کے لئے سرچشمہ نبوت سے سیراب ہوں اور اس کے سواتمام سرچشموں کو چھوڑ دیں۔ (فمن کان یرجوالقآء ربعہ فلیعمل عملاً صالحاً ولایشرک بعبادۃ ربہ احداً) ” پس جو کوئی اپنے رب کی ملاقات کا امیدوار ہو ، اسے چاہئے کہ نیک عمل کرے اور بندگی میں اپنے رب کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کرے۔ “ بار گاہ الٰہی کی بلند مملکت میں داخل ہونے کے لئے علم نبوت ویزا ہیں۔ اس سورة کا آغاز بھی مضمون وحی اور توحید سے ہوا تھا۔ خاتمہ بھی علوم الہیہ کے سلسلے میں ان اہم ہدایات سے ہوا اور انسانی شعور و آگہی کے تاروں کو یوں چھیڑا گیا کہ ان سے وہ نغمات حقیقت بلند ہونے لگے جو اس کائنات کے راز کو ظاہر کرتے ہیں۔ عظیم راز یعنی وحی الٰہی و توحید مطلق کے راز(تفسیر: سید قطب شہید)
.وَمَآ اَرْسَلْنَا قَبْلَکَ مِنَ الْمُرْسَلِیْنَ اِلَّآ اِنَّھُمْ لَیَاْکُلُوْنَ الطَّعَامَ وَیَمْشُونَ فِی الْاَسْوَاقِ وَجَعَلْنَا بَعْضَکُمْ لِبَعْضٍ فِتْنَۃً اَتَصْبِرُوْنَ وَکَانَ رَبُّکَ بَصِیْرًا .[الفرقان (آیت:۲۰)]
’’اور ہم نے تم سے پہلے جتنے پیغمبر بھیجے ہیں،سب کھانا کھاتے تھے اور بازاروں میں چلتے پھرتے تھے اور ہم نے تمھیں ایک دوسرے کے لیے آزمایش بنایا ہے،کیا تم صبرو کرو گے؟ اور تمھارا پروردگار تو دیکھنے والا ہے۔‘‘
قرآن کریم کی اس آیت اوران کی تشریح فرامین رسول اللہ ﷺ کے بعد قرآن سے کسی نبی کی آمد کا کوئی ثبوت نہیں:
مَّا كَانَ مُحَمَّدٌ أَبَا أَحَدٍ مِّن رِّجَالِكُمْ وَلَٰكِن رَّسُولَ اللَّهِ وَخَاتَمَ النَّبِيِّينَ ۗ وَكَانَ اللَّهُ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمًا ﴿٤٠﴾
( مسلمانو ! ) محمد (ﷺ) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں ہیں ، لیکن وہ اللہ کے رسول ہیں ، اور تمام نبیوں میں سب سے آخری نبی ہیں ، اور اللہ ہر بات کو خوب جاننے والا ہے (قرآن: 33:40)[324]
قرآن مجید کی رُو سے "نبوت" اسلام کے ان بنیادی عقائد میں سے ہے جن کے ماننے یا نہ ماننے پر آدمی کے کفر و ایمان کا انحصار ہے۔ یہ بڑا ہی نازک معاملہ ہے، ایک شخص نبی ہو اور آدمی اس کو نہ مانے تو کافر ، اور وہ نبی نہ ہو اور آدمی اس کو مان لے تو کافر. مزید تفصیل ان مضامین میں:
سورۃ الاحزاب (33:56) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّ اللّٰہَ وَ مَلٰٓئِکَتَہٗ یُصَلُّوْنَ عَلَی النَّبِیِّ یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْہِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.
’’اللہ اور اُس کے فرشتے پیغمبر پر درود بھیجتے ہیں،مومنو! تم بھی اُن پر درود اور سلام بھیجا کرو۔‘‘ (33:56)
اس آیت میں نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے اس مرتبہ و منزلت کا بیان ہے جو آسمانوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حاصل ہے اور یہ کہ اللہ تبارک و تعالیٰ فرشتوں میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ثنا و تعریف کرتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر رحمتیں بھیجتا ہے اور فرشتے بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بلندیِ درجات کی دعا کرتے ہیں۔اس کے ساتھ ہی اللہ تعالیٰ نے اہلِ زمین کو حکم دیا کہ وہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر صلات اور سلام بھیجیں،تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی تعریف میں دونوں عالم متحد ہو جائیں۔
سورۃ الزمر (آیت:۱۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قُلْ اِنِّیْٓ اَخَافُ اِنْ عَصَیْتُ رَبِّیْ عَذَابَ یَوْمٍ عَظِیْمٍ.
’’کہہ دو کہ اگر میں اپنے پروردگار کا حکم نہ مانوں تو مجھے بڑے دن کے عذاب سے ڈر لگتا ہے۔‘‘
سورۃ الاحزاب (آیت:۳۶) میں فرمان الٰہی ہے:
.وَ مَا کَانَ لِمُؤْمِنٍ وَّ لَا مُؤْمِنَۃٍ اِذَا قَضَی اللّٰہُ وَ رَسُوْلُہٗٓ اَمْرًا اَنْ یَّکُوْنَ لَھُمُ الْخِیَرَۃُ مِنْ اَمْرِھِمْ وَ مَنْ یَّعْصِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ ضَلَّ ضَلٰلًا مُّبِیْنًا.
’’اور کسی مومن مرد اور مومن عورت کو حق نہیں ہے کہ جب اللہ اور اس کا رسول کوئی اَمر مقرر کر دیں تو وہ اس کام میں اپنا بھی کچھ اختیار سمجھیں اور جو کوئی اللہ اور اُس کے رسول کی نافرمانی کرے،وہ صریح گمراہ ہو گیا۔‘‘
سورۃ الحجرات (آیت:۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ.
’’اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو،اللہ سے ڈرتے رہو،بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو،بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بدعات کی ایجاد،اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے،جو کسی بھی صاحبِ ایمان کے لائق نہیں۔اسی طرح کوئی فتویٰ قرآن وسنت میں غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے۔مومن کی شان تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دینا ہے نہ کہ ان کے مقابلے میں اپنی بات پر یا کسی انسان کی رائے پر اڑے رہنا، جیسا کہ ثابت ہے کہ: قرآن ، رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام کے خلاف اجماع باطل کیا گیا اور جو اب بھی جاری ہے[325].
تفصیل : اجماع باطل....
سورۃ الحجرات (آیت:۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَ تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ.
’’اے اہلِ ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمھارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔‘‘
اس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے اس ادب و تعظیم اور احترام و تکریم کا بیان ہے جو ہر مسلمان سے مطلوب ہے:
پہلا ادب:یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی موجودگی میں جب تم آپس میں گفتگو کرو تو تمھاری آواز نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز سے بلند نہ ہو۔
دوسرا ادب:جب خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کلام کرو تو نہایت وقار اور سکون سے کرو،اس طرح اونچی اونچی آواز سے نہ کرو،جس طرح تم آپس میں بے تکلفی سے ایک دوسرے کے ساتھ کرتے ہو۔
بعض نے کہا ہے کہ اس کا مطلب ہے کہ یا محمد، یا احمد نہ کہو، بلکہ ادب سے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہہ کر خطاب کرو۔اگر ادب و احترام کے ان تقاضوں کو ملحوظ نہ رکھو گے تو بے ادبی کا احتمال ہے جس سے بے شعوری میں تمھارے عمل برباد ہوسکتے ہیں۔
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۰۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْا وَ لِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ.
’’اے اہلِ ایمان! (گفتگو کے وقت پیغمبر سے) ’’رَاعِنَا‘‘ نہ کہا کرو اور ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہا کرو اور خوب سن رکھو اور کافروں کے لیے دُکھ دینے والا عذاب ہے۔‘‘
’’رَاعِنَا‘‘ کے معنیٰ ہیں ہمارا لحاظ اور خیال کیجیے۔بات سمجھ میں نہ آئے تو سامع اس لفظ کا استعمال کرکے متکلم کو اپنی طرف متوجہ کرتا تھا،لیکن یہودی اپنے بُغض و عناد کی وجہ سے اس لفظ کو تھوڑا سا بگاڑ کر استعمال کرتے تھے،جس سے اس کے معنیٰ میں تبدیلی اور ان کے جذبہ عناد کی تسلی ہو جاتی،مثلاً وہ کہتے:’’رَاعِیْنَا‘‘ (ہمارا چرواہا) جیسے وہ ’’اَلسَّلَامُ عَلَیْکُمْ‘‘ کے بجائے ’’اَلسَّامُ عَلَیْکُمْ‘‘ (تم پر موت آئے) کہا کرتے تھے،بنابریں اللہ تعالیٰ نے فرمایا:تم ’’اُنْظُرْنَا‘‘ کہا کرو۔
اس سے ایک تو یہ مسئلہ معلوم ہوا کہ ایسے الفاظ جن میں تنقیص و اہانت کا شائبہ ہو،ادب و احترام کے پیشِ نظر اور سدِ ذریعہ کے طور پر ان کا استعمال کرنا صحیح نہیں۔
دوسرا مسئلہ یہ ثابت ہوا کہ کفار کے ساتھ افعال اور اقوال میں مشابہت کرنے سے بچا جائے،تاکہ مسلمان جو کسی کی مشابہت اختیار کرے گا،وہ انہی میں شمار ہوگا۔‘‘ کی وعید میں داخل نہ ہوں۔[326]
سورۃ الاحزاب (آیت:۵۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّآ اَنْ یُّؤْذَنَ لَکُمْ اِلٰی طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰہُ وَ لٰکِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْاوَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍ اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْکُمْ وَ اللّٰہُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّ وَاِذَا سَاَلْتُمُوْھُنَّ مَتَاعًا فَسْئَلُوْھُنَّ مِنْ وَّرَآئِ حِجَابٍ ذٰلِکُمْ اَطْھَرُ لِقُلُوْبِکُمْ وَ قُلُوْبِھِنَّ وَ مَا کَانَ لَکُمْ اَنْ تُؤْذُوْا رَسُوْلَ اللّٰہِ وَ لَآ اَنْ تَنْکِحُوْٓا اَزْوَاجَہٗ مِنْم بَعْدِہٖٓ اَبَدًا اِنَّ ذٰلِکُمْ کَانَ عِنْدَ اللّٰہِ عَظِیْمًا.
’’مومنو! پیغمبر کے گھروں میں نہ جایا کرو،مگر اس صورت میں کہ تم کوکھانے کے لیے اجازت دی جائے اور اُس کے پکنے کا انتظار بھی نہ کرنا پڑے،لیکن جب تمھاری دعوت کی جائے تو جاؤ اور جب کھانا کھا چکو تو چل دو اور باتوں میں جی لگا کر نہ بیٹھ رہو،یہ بات پیغمبر کو ایذا دیتی ہے اور وہ تم سے شرم کرتے ہیں (اور کہتے نہیں ) لیکن اللہ سچی بات کے کہنے سے شرم نہیں کرتا اور جب پیغمبر کی بیویوں سے کوئی سامان مانگو تو پردے کے باہر سے مانگو،یہ تمھارے اور اُن کے دونوں کے دلوں کے لیے بہت پاکیزگی کی بات ہے اور تم کو یہ شایاں نہیں کہ پیغمبرِ الٰہی کو تکلیف دو اور نہ یہ کہ ان کی بیویوں سے کبھی ان کے بعد نکاح کرو،بے شک یہ اللہ کے نزدیک بڑا (گناہ کا کام) ہے۔‘‘
سورۃ الاحزاب (آیت:۵۷،۵۸) میں فرمایا:
.اِنَّ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ لَعَنَھُمُ اللّٰہُ فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَۃِ وَ اَعَدَّ لَھُمْ عَذَابًا مُّھِیْنًا . وَ الَّذِیْنَ یُؤْذُوْنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُؤْمِنٰتِ بِغَیْرِ مَا اکْتَسَبُوْا فَقَدِ احْتَمَلُوْا بُھْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا.
’’جو لوگ اللہ اور اُس کے پیغمبر کو رنج پہنچاتے ہیں،اُن پر اللہ دنیا اور آخرت میں لعنت کرتا ہے اور ان کے لیے اُس نے ذلیل کرنے والا عذاب تیار کر رکھا ہے۔اور جو لوگ مومن مردوں اور مومن عورتوں کو ایسے کام (کی تہمت) سے جو انھوں نے نہ کیا ہو،اِیذا دیں تو انھوں نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا۔‘‘
اللہ کو ایذا دینے کا مطلب برے افعال کا ارتکاب ہے جو وہ نا پسند فرماتا ہے،ورنہ اللہ کو ایذا پہنچانے پر کون قادر ہے؟ جیسے مشرکین،یہود اور نصاریٰ وغیرہ اﷲ تعالیٰ کے لیے اولاد ثابت کرتے ہیں یا جس طرح حدیثِ قدسی میں ہے،اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’ابن آدم مجھے ایذا دیتا ہے،زمانے کو گالی دیتا ہے،حالانکہ میں ہی زمانہ ہوں،اس کے رات دن کی گردش میرے ہی حکم سے ہوتی ہے۔‘‘[327]
سورۃ المدّثّر (آیت:۱ تا ۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الْمُدَّثِّرُ . قُمْ فَاَنْذِرْ . وَرَبَّکَ فَکَبِّرْ . وَثِیَابَکَ فَطَھِّرْ . وَالرُّجْزَ فَاھْجُرْ . وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ . وَلِرَبِّکَ فَاصْبِرْ.
’’اے (نبی!) جو کپڑا لپیٹے پڑے ہو۔اٹھو اور ہدایت کرو۔اور اپنے پروردگار کی بڑائی کرو۔اور اپنے کپڑوں کو پاک رکھو۔اور ناپاکی سے دُور رہو۔اور (اس نیت سے) احسان نہ کرو کہ اس سے زیادہ کے طالب ہو۔اور اپنے رب کے لیے صبر کرو۔‘‘
سورۃ الشعراء (آیت:۲۱۴،۲۱۵) میں فرمایا:
.وَاَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ . وَاخْفِضْ جَنَاحَکَ لِمَنِ اتَّبَعَکَ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ.
’’اور اپنے قریب کے رشتے داروں کو ڈر سنا دو اور جو مومن تمھارے پیرو ہو گئے ہیں،ان سے متواضع پیش آؤ۔‘‘
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی بیٹی فاطمہ رضی اللہ عنہا اور اپنی پھوپھی صفیہ رضی اللہ عنہا کو بھی فرمایا تھا: ’’تم اللہ کے ہاں بچت کا بندوبست کرلو،میں وہاں تمھارے کام نہیں آسکوں گا۔‘‘[328]
ذٰ لِكَ الَّذِىۡ يُبَشِّرُ اللّٰهُ عِبَادَهُ الَّذِيۡنَ اٰمَنُوۡا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِؕ قُلْ لَّاۤ اَسۡئَـــلُـكُمۡ عَلَيۡهِ اَجۡرًا اِلَّا الۡمَوَدَّةَ فِى الۡقُرۡبٰىؕ وَمَنۡ يَّقۡتَرِفۡ حَسَنَةً نَّزِدۡ لَهٗ فِيۡهَا حُسۡنًا ؕ اِنَّ اللّٰهَ غَفُوۡرٌ شَكُوۡرٌ ۞
ترجمہ: یہ ہے وہ چیز جس کی خوشخبری اللہ اپنے ان بندوں کو دیتا ہے جو ایمان لائے اور انھوں نے نیک اعمال کیے۔ کہہ دے میں تم سے اس پر کوئی اجرت نہیں مانگتا مگر رشتہ داری کی وجہ سے دوستی۔ اور جو کوئی نیکی کمائے گا ہم اس کے لیے اس میں خوبی کا اضافہ کریں گے۔ یقینا اللہ بےحد بخشنے والا، نہایت قدردان ہے۔ (سورۃ نمبر 42 الشورى, آیت نمبر 23)[329]
تفسیر:
(1) ذلک الذی یبشر اللہ عبادہ …: یہ پانچویں وجہ ہے۔”ذلک“ اسم اشارہ بعید اس ثواب کی عظمت کے بیان کے لئے ہے۔ جنتوں کے باغوں اور ان کی نعمتوں کی طرف اشارہ کر کے ان کی طرف دوبارہ توجہ دلانے سے مقصود ان کی عظمت کا اظہار ہے اور ساتھ ہی ایمان اور عمل صالح کا ذکر اس لئے ہے کہ اتنی بڑی نعمتوں کے حصول کے لئے ایمان اور عمل صالح ضروری ہے۔
(2) قل لا اسئلکم علیہ اجرا الا المودۃ فی القربی :”قرب یقرب قربا و قربانا و قرباناً“ (س ، ک) قریب ہونا۔ ”قربی“ اور ”قرابۃ“ بھی مصدر ہیں، جیسے ”بشری“ اور ”رجعی“ ہیں۔ ان کا معنی رشتہ داری اور قرابت ہے۔
رشتہ دار اور قرابت دار کے لئے ”ذوالقربی“ (قرابت والا) کا لفظ استعمال ہوتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(وات ذالقربی حقہ) (بنی اسرائیل : 26)”اور رشتہ دار کو اس کا حق دے۔“ ”فی القربی“ میں ”فی“ تعلیل کے لئے ہے : ای من اجل القربی یعنی رشتہ داری کی وجہ سے ، جیسا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :(عذبت امراۃ فی ھرۃ حبس تھا حتی مانت جوعا ، قدخلت فیھا النار) (بخاری، المساقاۃ، باب فضل سقی المائ، 2365)”ایک عورت کو ایک بلی کی وجہ سے عذاب دیا گیا۔ اس نے اسے باندھ کر رکھا، یہاں تک کہ وہ بھوک سے مرگئی، تو اس کی وجہ سے وہ آگ میں داخل ہوگئی۔“
یعنی آپ کہہ دیں کہ میں اس تبلیغ دین پر تم سے کوئی مزدوری نہیں مانگتا، سوائے رشتہ داری کی وجہ سے دوستی کے کچھ نہ سہی، کم از کم میرے اور تمہارے درمیان جو قرابت اور رشتہ داری ہے اس کی وجہ سے میرا حق ہے کہ مجھ سے دوستی رکھو، اس حق کا ماطلبہ میں تم سے ضرور کرتا ہوں
چاہیے تو یہ تھا کہ تم میری بات مان لیتے، اگر نہیں مانتے تو سارے عرب میں سب سے بڑھ کر دشمین تو نہ کرو۔ کم از کم اس قرابت کا تو خیال رکھو جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔ جیسا کہ ابو طالب اگرچہ ایمان نہیں لایا مگر وہ قرابت کی وجہ سے رسول اللہ ﷺ کی حمایت اور آپ ﷺ کا دفاع کرتا رہا۔
آیت کا یہی مطلب ترجمان القرآن ابن عباس ؓ نے بیان فرمایا ہے۔ چناچہ طاؤس فرماتے ہیں کہ ان بع اس ؓ سے ”الا المودۃ فی القربی“ کے متعلق سوال کیا گیا تو سعید بن جبیر کہنے لگے کہ اس سے مراد ”قربی آل محمد ﷺ“ (آل محمد ﷺ کی قرابت) ہے، تو ابن عباس ؓ نے فرمایا :(عجلت ، ان النبی ﷺ لم یکن یطن من قریش الا کان لہ فیھم قرابۃ فقال الا ان تصلوا مابینی وبینکم من القرابۃ) (بخاری التفسیر، باب قولہ (الا المودۃ فی القربی):7818)”
تم نے جلدی کی، قریش کا کوئی خاندان ایسا نہ تھا جس میں نبی ﷺ کی قربات اور رشتہ داری نہ ہ، تو آپ ﷺ نے فرمایا :”(میں تم سے اس پر کسی مزدوری کا سوال نہیں کرتا) مگر یہ کہ تم اس رشتہ داری کو ملاؤ جو میرے اور تمہارے درمیان ہے۔
(3) بعض لوگ خصوصاً شیعہ اس آیت کا یہ مطلب بیان کرتے ہیں کہ آپ کہہ دیں کہ میں تم سے اس پر کسی مزدوری کا سوال نہیں کرتا مگر قرابت والوں سے دوستی کا ، یعنی میں تم سے اس پر اس کے سوا کچھ نہیں مانگتا کہ تم میرے قربات داروں سے دوستی رکھو۔ نبی کریم ﷺ کے مومن قرابت داروں سے دوسی اپنی جگہ مسلمہ ہے، جو دوسرے دلائل سے ثابت ہے، مگر اس آیت کا وہ مطلب ہرگز نہیں جو ان لوگوں نے بیان کیا ہے، کیونکہ ”القربیٰ“ کا معنی رشتہ داری ہے، رشتہ دار نہیں۔ رشتہ داروں کے لئے ذوی القربی“ کا لفظ آتا ہے۔ اگر ”القربی“ کا معنی رشتہ دار ہو بھی تو آیت کے الفاظ یہ ہونے چاہئیں :”الا مودۃ القربی“ ”مگر رشتہ داروں کی دوستی کا۔“ جب کہ الفاظ ہیں :(الا المودۃ فی القربی) ان الفاظ کا وہ معنی ہو ہی نہیں سکتا جو یہ حضرات بیان کرتے ہیں۔
پھر دیکھیں کہ آپ ﷺ یہ سوال کن لوگوں سے کر رہے ہیں، ظاہر ہے کفار سے کر رہے ہیں جو آپ کے شدید مخالف تھے، جو آپ سے بھی دوستی کے روا دار نہیں تھے، آیا ممکن بھی ہے کہ آپ ان سے کہیں کہ میرے رشتہ داروں سے دوستی کرو۔
اگر مان بھی لیں کہ آپ ان سے اپنے رشتہ داروں کے ساتھ دوستی کا سوال کر رہے ہیں تو وہ رشتے ہر کون سے ہیں ؟
کیا آپ ﷺ اپنے پورے قبیلہ قریش کے ساتھ دوستی کا سوال کر رہے ہیں یا اپنے قریب ترین خاندان بنو عبدالمطلب کے ساتھ ؟
دونوں میں مخلص مسلمانوں کے علاوہ ابوجہل اور ابولہب جیسے آپ کے بدترین دشمن بھی موجود تھے جن کے ساتھ دوستی کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا اور
اگر اس سے مراد علی و فاطمہ اور حسن و حسین ؓ ہیں، جیسا کہ شیعہ حضرات کہتے ہیں، تو یہ سورت مکی ہے اور مکہ میں فاطمہ اور علی ؓ کا نکاح تک نہیں ہوا تھا اور نہ ہی حسن و حسین ؓ پیدا ہوئے تھے۔ لہٰذا اس سے یہ لوگ مراد ہو ہی نہیں سکتے۔
(4) بعض مفسرین نے فرمایا کہ رسول اللہ ﷺ کا یہ کہنا کہ میں تم سے صرف رشتہ داری کی وجہ سے دوسی کا سوال کرتا ہوں، یہ دین کی تبلیغ کی اجرت یا مزدوری نہیں جو آپ ان سے مانگ رہے ہیں، بلکہ آپ اپنے اس حق کا مطالبہ کر رہے ہیں، جو تمام دنیا کے ہاں مسلم ہے، خواہ آپ تبلیغ کریں یا نہ کریں۔ غرض اس آیت میں بھی وہی بات بیان ہوئی ہے جو تمام انبیاء نے اپنی اپنی قوم سے کہی کہ میں تم سے اس تبلیغ دین پر کسی قسم کی مزدوری کا سوال نہیں کرتا، کیونکہ میری مزدوری صرف اللہ تعالیٰ کے ذمے ہے۔
جیسا کہ سورة شعراء میں ہے :(وما اسلم علیہ من اجر، ان اجری الا علی رب العلمین) (الشعرائ : 109) ”اور میں اس پر تم سے کسی اجرت کا سوال نہیں کرتا، میری اجرت تو رب العالمین ہی کے ذمے ہے۔“
(قواعد نحو میں یہ بات ان الفاظ میں بیان کی جائے گی کہ یہاں استثناء متصل نہیں منقطع ہے، یعنی صلہ رحمی کے سوال کا تبلیغ دین پر اجرت سے کوئی تعلق نہیں۔ کتنی معمولی ہو، ہم اس کے لئے اس کے حسن وخ وبی میں اضافہ کردیں گے۔ یہ اضافہ کئی طرح سے ہے، ایک تو وہ جتنی نیکی بھی ملیں گے جس سے اس کی نیکی میں اضافہ ہ گا۔ تیسرا اللہ تعالیٰ ہر نیکی کو دس گنا سے سات سو گنا بلکہ شمار سے زیادہ تک بڑھا دیتا ہے، جیسا کہ فرمایا :(وان تک حسنۃ یضعفھا ویوت من لدنہ اجراً عظیماً) (النسائ : 30)”اگر ایک نیکی ہوگی تو وہ اسے کئی گنا کر دے گا اور اپنے پاس سے بہت بڑا اجر عطا کرے گا۔“ چوتھا یہ کہ نیکیوں کے ساتھ گناہ معاف ہوتے ہیں، فرمایا :(ان الحسنت یذھبن السیات) (ھود : 113)”بیشک نیکیاں برائیوں کو لے جاتی ہیں۔“
(6) ان اللہ غفور شکور :”ان“ تعلیل کے لئے آتا ہے، یعنی نیکی کرنے والا کی نیکی میں ہم اضافہ اس لئے کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ گناہوں پر بہت پردہ ڈالنے والا اور نیک عمل کی بےحد قدر کرنے والا ہے۔ (تفسیر القرآن الکریم, مفسر: حافظ عبدالسلام بھٹوی)[330]
سورۃ الاحزاب (آیت:۳۲،۳۳،۳۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا . وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا . وَاذْکُرْنَ مَا یُتْلٰی فِیْ بُیُوْتِکُنَّ مِنْ اٰیٰتِ اللّٰہِ وَ الْحِکْمَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ لَطِیْفًا خَبِیْرًا.
’’اے پیغمبر کی بیویو! تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو،اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (کسی اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کرو،تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے،کوئی امید (نہ) پیدا کرے اور دستور کے مطابق بات کیا کرو۔اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں ) میں اظہارِ تجمل کرتی تھیں،اس طرح زینت نہ دکھاؤ اور نماز پڑھتی رہو اور زکات دیتی رہو اور اللہ اور اُس کے رسول کی فرماں برداری کرتی رہو۔اے (پیغمبر کے) اہلِ بیت! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دُور کر دے اور تمھیں بالکل پاک صاف کر دے۔اور تمھارے گھروں میں جو اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں اور حکمت (کی باتیں سنائی جاتی ہیں ) ان کو یاد رکھو،بے شک اللہ باریک بین اور باخبر ہے۔‘‘
اس کے تعین میں کچھ اختلاف ہے۔بعض نے ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن کو مراد لیا ہے،جیسا کہ یہاں قرآنِ کریم کے سیاق سے واضح ہے۔قرآن نے یہاں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن ہی کو اہل بیت کہا ہے۔قرآن کے دوسرے مقامات پر بھی بیوی کو اہل بیت کہا گیا ہے۔ بعض لوگ بعض روایات کی رو سے اہلِ بیت کا مصداق صرف حضرت علی،حضرت فاطمہ اور حضرت حسن وحسین رضی اللہ عنہم کو مانتے ہیں اور ازواجِ مطہرات کو اس سے خارج سمجھتے ہیں۔ تاہم راہِ اعتدال یہ ہے کہ یہ سبھی اہلِ بیت ہیں،جیسا کہ قرآن کریم کی آیات سے واضح ہے[331]
سورۃ الاحزاب (آیت:۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَلنَّبِیُّ اَوْلٰی بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِھِمْ وَ اَزْوَاجُہٗٓ اُمَّھٰتُھُمْ وَ اُولُوا الْاَرْحَامِ بَعْضُھُمْ اَوْلٰی بِبَعْضٍ فِیْ کِتٰبِ اللّٰہِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ الْمُھٰجِرِیْنَ اِلَّآ اَنْ تَفْعَلُوْٓا اِلٰٓی اَوْلِیٰٓئِکُمْ مَّعْرُوْفًا کَانَ ذٰلِکَ فِی الْکِتٰبِ مَسْطُوْرًا.
’’پیغمبر مومنوں پر اُن کی جانوں سے بھی زیادہ حق رکھتے ہیں اور پیغمبر کی بیویاں اُن کی مائیں ہیں اور رشتے دار آپس میں کتاب اللہ کی رُو سے مسلمانوں اور مہاجروں سے ایک دوسرے (کے ترکے) کے زیادہ حق دار ہیں،مگر یہ کہ تم اپنے دوستوں سے احسان کرنا چاہو (تو اور بات ہے) یہ حکم کتاب ( قرآن) میں لکھ دیا گیا ہے۔‘‘
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن احترام وتکریم میں اور ان سے نکاح نہ کرنے میں۔مومن مردوں اور مومن عورتوں کی مائیں ہیں۔
.فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ.[النساء:۶۵] کے مطابق آدمی مومن نہیں ہوگا۔اسی طرح جب تک آپ کی محبت تمام محبتوں پر غالب نہیں ہوگی وہ صحیح مومن نہ ہوگا۔
سورۃ الاحزاب (آیت:۲۹،۳۰،۳۱) میں فرمایا:
.وَ اِنْ کُنْتُنَّ تُرِدْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ فَاِنَّ اللّٰہَ اَعَدَّ لِلْمُحْسِنٰتِ مِنْکُنَّ اَجْرًا عَظِیْمًا . یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ مَنْ یَّاْتِ مِنْکُنَّ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ یُّضٰعَفْ لَھَا الْعَذَابُ ضِعْفَیْنِ وَ کَانَ ذٰلِکَ عَلَی اللّٰہِ یَسِیْرًا . وَ مَنْ یَّقْنُتْ مِنْکُنَّ لِلّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ تَعْمَلْ صَالِحًا نُّؤْتِھَآ اَجْرَھَا مَرَّتَیْنِ وَ اَعْتَدْنَا لَھَا رِزْقًا کَرِیْمًا.
’’اور اگر تم اللہ اور اُس کے پیغمبر اور عاقبت کے گھر (جنت) کی طلب گار ہو تو تم میں جو نیکوکاری کرنے والی ہیں،اُن کے لیے اللہ نے اجرِ عظیم تیار کر رکھا ہے- اے پیغمبر کی بیویو تم میں سے جو کوئی صریح ناشائستہ (الفاظ کہہ کر رسول الله کو ایذا دینے کی) حرکت کرے گی۔ اس کو دونی سزا دی جائے گی۔ اور یہ (بات) خدا کو آسان ہے۔اور جو تم میں سے اللہ اور اُس کے رسول کی فرماں بردار رہے گی اور نیک عمل کرے گی اُس کو ہم دُوگنا ثواب دیں گے اور اُس کے لیے ہم نے عزت کی روزی تیار کر رکھی ہے۔‘‘
.فَاحِشَۃٌ.(نکرہ) برائی کے لیے استعمال ہوا ہے،جیسے یہاں ہے۔ یہاں اس کے معنیٰ بداخلاقی اورناشائستہ, نامناسب رویے کے ہیں،کیونکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ بد اخلاقی اور نامناسب رویہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ایذا پہنچانا ہے،جس کا ارتکاب کفر ہے۔ علاوہ ازیں ازواجِ مطہرات رضی اللہ عنہن خود بھی مقامِ بلند کی حامل تھیں اور بلند مرتبہ لوگوں کی معمولی غلطیاں بڑی شمار ہوتی ہیں،اس لیے انھیں دوگنے عذاب کی وعید سنائی گئی ہے۔
سورۃ الاحزاب (آیت:۵۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلِّ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَ نِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا.
’’اے پیغمبر! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے (منہ) پر چادر لٹکا (کر گھونگھٹ نکال) لیا کریں،یہ اَمر ان کے لیے موجبِ شناخت (وامتیاز) ہو گا تو کوئی اُن کو ایذا نہ دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘[332]،[333]
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ(سورة النور,24:31).
ترجمہ : "اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے..." ۖ(سورة النور,24:31).
تفصیل : نقاب ، حجاب: قرآن , حدیث اور اجماع .....
سورۃ النساء (آیت:۱۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَرِثُوا النِّسَآئَ کَرْھًا وَ لَا تَعْضُلُوْھُنَّ لِتَذْھَبُوْا بِبَعْضِ مَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ.
’’مومنو! تم کو جائز نہیں کہ زبردستی عورتوں کے وارث بن جاؤ اور (دیکھنا) اس نیت سے کہ جو کچھ تم نے اُن کو دیا ہے،اُس میں سے کچھ لے لو،انھیں (گھروں میں ) مت روک رکھنا۔ہاں اگر وہ کھلے طور پر بدکاری کی مرتکب ہوں (تو روکنا نامناسب نہیں )۔‘‘
اسلام سے قبل عورت پر ایک ظلم یہ بھی ہوتا تھا کہ شوہر کے مر جانے کے بعد اس کے گھر کے لوگ اس کے مال کی طرح اس کی عورت کے بھی زبردستی وار ث بن بیٹھتے تھے اور خود اپنی مرضی سے،اس کی رضا مندی کے بغیر اس سے نکاح کر لیتے یا اپنے بھائی بھتیجے سے اس کا نکا ح کر دیتے،حتیٰ کہ سوتیلا بیٹا تک بھی مرنے والے باپ کی عورت سے نکاح کر لیتا۔اگر چاہتے تو کسی اور جگہ نکاح نہ کرنے دیتے تھے اور وہ ساری عمر یونہی رہنے پر مجبور ہوتی،اسلام نے ظلم کے ان تمام طریقوں سے منع فرمایا۔
ایک ظلم یہ بھی کیا جاتا تھا کہ اگر وہ خاوند کو پسند نہ ہوتی اور وہ اس سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا تو از خود اس کو طلاق نہ دیتا،بلکہ اسے خوب تنگ کرتا، وہ مجبور ہوکر حق مہر جو خاوند نے اسے دیا ہوتا،از خود واپس کرکے اس سے خلاصی پانے کو ترجیح دیتی،اسلام نے اس حرکت کو بھی ظلم قرار دیا۔
کھلی برائی سے مراد بدکاری یا بدزبانی اور نافرمانی ہے،ان دونوں صورتوں میں اجازت دی گئی ہے کہ خاوند اس کے ساتھ ایسا رویہ اختیارکرے کہ وہ اس کا دیا ہوا حق مہر واپس کرکے خلع کرانے پر مجبور ہو جائے،جیسا کہ خلع کی صورت میں حق مہر واپس لینے کا حق دیا گیا ہے۔(ملاحظہ ہو:سورۃ البقرہ،آیت:۲۲۹)
سورۃ النساء (آیت:۲۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَنْکِحُوْا مَا نَکَحَ اٰبَآؤُکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ مَقْتًاوَ سَآئَ سَبِیْلًا.
’’اور جن عورتوں سے تمھارے باپ نے نکاح کیا ہو،اُن سے نکاح مت کرنا،مگر (جاہلیت میں ) جو ہو چکا (سو ہو چکا) یہ نہایت بے حیائی اور (اللہ کی) ناخوشی کی بات تھی اور بہت بُرا دستور تھا۔‘‘
زمانۂ جاہلیت میں سوتیلے بیٹے اپنے باپ کی بیوی (سوتیلی ماں ) سے نکاح کر لیتے تھے،یہاں اس سے روکا جا رہا ہے کہ یہ بہت بے حیائی کا کام ہے۔اس آیت کا عموم ایسی عورت سے نکاح کو ممنوع قرار دیتا ہے،جس سے اس کے باپ نے نکاح کیا،لیکن دخول سے قبل ہی طلاق دے دی۔حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے بھی یہ بات مروی ہے اور علما اسی کے قائل ہیں۔[334]
سورۃ النساء (آیت:۲۳،۲۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.حُرِّمَتْ عَلَیْکُمْ اُمَّھٰتُکُمْ وَ بَنٰتُکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ وَ عَمّٰتُکُمْ وَ خٰلٰتُکُمْ وَ بَنٰتُ الْاَخِ وَ بَنٰتُ الْاُخْتِ وَ اُمَّھٰتُکُمُ الّٰتِیْٓ اَرْضَعْنَکُمْ وَ اَخَوٰتُکُمْ مِّنَ الرَّضَاعَۃِ وَ اُمَّھٰتُ نِسَآئِکُمْ وَ رَبَآئِبُکُمُ الّٰتِیْ فِیْ حُجُوْرِکُمْ مِّنْ نِّسَآئِکُمُ الّٰتِیْ دَخَلْتُمْ بِھِنَّ فَاِنْ لَّمْ تَکُوْنُوْا دَخَلْتُمْ بِھِنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ وَ حَلَآئِلُ اَبْنَآئِکُمُ الَّذِیْنَ مِنْ اَصْلَابِکُمْ وَ اَنْ تَجْمَعُوْا بَیْنَ الْاُخْتَیْنِ اِلَّا مَا قَدْ سَلَفَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا . وَّ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ النِّسَآئِ اِلَّا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ کِتٰبَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ اُحِلَّ لَکُمْ مَّا وَرَآئَ ذٰلِکُمْ اَنْ تَبْتَغُوْا بِاَمْوَالِکُمْ مُّحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ فَمَا اسْتَمْتَعْتُمْ بِہٖ مِنْھُنَّ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ فَرِیْضَۃً وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا تَرٰضَیْتُمْ بِہٖ مِنْ بَعْدِ الْفَرِیْضَۃِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا.
’’تم پر تمھاری مائیں اور بیٹیاں اور بہنیں اور پھوپھیاں اور خالائیں اور بھتیجیاں اور بھانجیاں اور وہ مائیں جنھوں نے تمھیں دودھ پلایا ہو اور رضاعی بہنیں اور ساسیں حرام کر دی گئی ہیں اور جن عورتوں سے تم مباشرت کر چکے ہو،اُن کی لڑکیاں جن کی تم پرورش کرتے ہو (وہ بھی تم پر حرام ہیں ) ہاں اگر اُن کے ساتھ تم نے مباشرت نہ کی ہو تو (اُن کی لڑکیوں کے ساتھ نکاح کر لینے میں ) تم پر کچھ گناہ نہیں اور تمھارے صُلبی بیٹوں کی عورتیں (بہویں ) بھی اور دو بہنوں کا اکٹھا کرنا بھی (حرام ہے) مگر جو ہو چکا (سو ہو چکا) بے شک اللہ بخشنے والا (اور) رحم والا ہے۔اور شوہر والی عورتیں بھی (تم پر حرام ہیں ) مگر وہ جو (اسیر ہو کر لونڈیوں کے طور پر) تمھارے قبضے میں آجائیں (یہ حکم) اللہ نے تمھیں لکھ دیا ہے اور ان (محرمات) کے سوا اور عورتیں تم کو حلال ہیں۔اس طرح سے کہ مال خرچ کر کے اُن سے نکاح کر لو،بشرطیکہ (نکاح سے) مقصود عفت قائم رکھنا ہو،نہ کہ شہوت رانی۔تو جن عورتوں سے تم فائدہ حاصل کرو،اُن کا مہر جو مقرر کیا ہو ادا کر دو اور اگر مقرر کرنے کے بعد آپس کی رضامندی سے کچھ (مہر میں کمی بیشی) کر لو تو تم پر کچھ گناہ نہیں،بے شک اللہ تعالیٰ سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔‘‘
جن عورتوں سے نکاح کرنا حرام ہے،ان کی تفصیل بیان کی جارہی ہے۔ان میں سات محرماتِ نسب اور سات رضاعی اور چار سسرالی بھی ہیں۔ان کے علاوہ حدیثِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے ثابت ہے کہ بھتیجی اور پھوپھی اور بھانجی اور خالہ کو ایک نکاح میں جمع کرنا بھی حرام ہے۔سات نسبی محرمات میں مائیں،بیٹیاں،بہنیں،پھوپھیاں،خالائیں،بھتیجیاں اور بھانجیاں ہیں۔سات رضاعی محرمات میں رضاعی مائیں،رضاعی بیٹیاں،رضاعی بہنیں،رضاعی پھوپھیاں،رضاعی خالائیں،رضاعی بھتیجیاں اور رضاعی بھانجیاں ہیں اور سسرالی محرمات میں ساس،مدخولہ بیوی کے پہلے خاوند کی لڑکیاں،بہو اور دو سگی بہنوں کا اکٹھاکرنا۔اس کے علاوہ باپ کی منکوحہ (جس کا ذکر گذشتہ آیت:۲۲ میں ہے) اور حدیث کے مطابق بیوی جب تک عقد نکاح میں ہے،اس کی پھوپھی اور اس کی خالہ اور اس کی بھتیجی اور اس کی بھانجی سے بھی نکاح حرام ہے۔
’’اُمَّھَات‘‘ (مائیں ) میں مائوں کی مائیں (نانیاں ) ان کی دادیاں اور باپ کی مائیں (دادیاں،پردادیاں اور اس کے آگے تک) شامل ہیں۔
’’بَنَات‘‘ (بیٹیاں ) میں پوتیاں،نواسیاں اور پوتیوں،نواسیوں کی بیٹیاں (نیچے تک) شامل ہیں۔
زنا سے پیدا ہونے والی لڑکی زانی کی بیٹی ہے یا نہیں ؟ اس میں اختلاف ہے۔ائمہ ثلاثہ اسے بیٹی شمار کرتے ہیں اور اس سے نکاح کو حرام سمجھتے ہیں۔البتہ امام شافعی کہتے ہیں کہ وہ شرعی بیٹی نہیں۔پس جس طرح وہ ’’اللہ تعالیٰ تمھیں اولاد میں مالِ متروک تقسیم کرنے کا حکم دیتا ہے‘‘،وہ اس میں داخل نہیں،بالاجماع وہ وارث نہیں،اسی طرح وہ اس آیت میں بھی داخل نہیں۔واللہ اعلم۔[335]
’’اَخَوَاتٌ‘‘ (بہنیں ) عینی (سگی) ہوں یا اخیافی و علاتی (ماں شریک،باپ شریک)
’’عَمَّاتٌ‘‘ (پھوپھیاں ) اس میں باپ کے سب مذکر اصول یعنی نانا،دادا کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔
’’خَالَاتٌ‘‘ (خالائیں ) اس میں ماں کی سب مونث اصول (نانی دادی) کی تینوں قسموں کی بہنیں شامل ہیں۔بھتیجیاں،اس میں تینوں قسم کے بھائیوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ (یا صلبی و فرعی) شامل ہیں۔بھانجیاں،اس میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد بواسطہ اور بلاواسطہ (یا صلبی و فرعی) شامل ہیں۔
جو عورت کسی کے نکاح میں ہے،اس کا نکاح اور کسی سے نہیں ہوسکتا۔تاوقتیکہ وہ طلاق یا وفاتِ زوج سے نکاح سے جدا نہ ہو جائے۔لیکن اگر کوئی عورت خاوند والی یعنی شادی شدہ تمھاری ملکیت میں آجائے تو وہ تم پر حلال ہے،گو اس کا خاوند زندہ ہے اور اس کو طلاق بھی نہیں دی۔اس کی صورت یہ ہے کہ کافر مرد اور کافر عورت میں باہم نکاح ہو اور اس عورت کو قید کرکے دار السلام میں لے آئے،وہ عورت (کنیز) جس مسلمان کو ملے گی،اس کے لیے حلال ہے۔
فرمایا:حلال ہیں تمھارے لیے سب عورتیں اُن محرمات کے سوا،بشرطیکہ طلب کرو ان کو اپنے مال کے بدلے (مہر ادا کرکے) قیدِ نکاح میں لانے کو نہ کہ مستی نکالنے کو،چار شرطوں کے ساتھ:
اول: طلب کرو،یعنی زبان سے ایجاب و قبول دونوں طرف سے ہوجائے۔
دوم: مہر دینا قبول کرو۔
سوم: ان عورتوں کو شادی کی قید میں لانا اور اپنے قبضے میں رکھنا مقصود ہو نہ کہ قضاے شہوت جو زنا میں ہوتا ہے۔
چہارم: مخفی طور پر دوستی نہ ہو،بلکہ گواہوں کی موجودگی میں باقاعدہ نکاح ہو۔پھر جن کو کام میں لاؤ تو ان کو ان کا حق دو (مہر دینا لازم ہوگا) اور کوئی گناہ نہیں تم پر اس میں کہ باہم رضا مندی سے مہر میں کمی بیشی کرو۔بے شک اللہ جاننے والا ہے۔
-44 قتل اور خودکشی نہ کرو:
1۔ پارہ5.وَالْمُحْصَنٰتُ.سورۃ النساء (آیت:۲۹) میں فرمایا:
.وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ بِکُمْ رَحِیْمًا.
’’اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو کچھ شک نہیں کہ اللہ تم پر مہربان ہے۔‘‘
اس سے مراد خودکشی بھی ہو سکتی ہے،جو کبیرہ گناہ ہے اور ارتکابِ معصیت بھی جو ہلاکت کا باعث ہے،اور کسی مسلمان کو قتل کرنا بھی،کیونکہ مسلمان جسدِ واحد کی طرح ہیں،اس لیے اس کا قتل بھی ایسا ہی ہے،جیسے اپنے آپ کو قتل کیا۔
2۔ سورت بنی اسرائیل (آیت:۳۳) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَ مَنْ قُتِلَ مَظْلُوْمًا فَقَدْ جَعَلْنَا لِوَلِیِّہٖ سُلْطٰنًا فَلَا یُسْرِفْ فِّی الْقَتْلِ اِنَّہٗ کَانَ مَنْصُوْرًا.
’’اور جس جان دار کا مارنا اللہ نے حرام کیا ہے اُسے قتل نہ کرنا مگر حق کے ساتھ (یعنی بہ فتویٰ شریعت) اور جو شخص ظلم سے قتل کیا جائے،ہم نے اُس کے وارث کو اختیار دیا ہے (کہ ظالم قاتل سے بدلہ لے) تو اس کو چاہیے کہ قتل (کے قصاص) میں زیادتی نہ کرے کہ منصور و فتح یاب ہے۔‘‘
3۔ قتل کی ممانعت سورۃ الفرقان (آیت:۶۸) میں بھی آئی ہے،چنانچہ ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا.
’’اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں پکارتے اور جس جاندار کا مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے،اُس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق پر (یعنی حکمِ شریعت کے مطابق) اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلاہوگا۔‘‘
حق کے ساتھ قتل کرنے کا مطلب قصاص میں قتل کرنا ہے،جس کو انسانی معاشرے کی زندگی اور امن و سکون کا باعث قرار دیا گیا ہے۔(سورۃ البقرۃ،آیت:۱۷۹) اسی طرح شادی شدہ زانی اور مرتد کو قتل کرنے کا حکم ہے
سورۃ الممتحنہ (آیت:۱۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا جَآئَکَ الْمُؤْمِنٰتُ یُبَایِعْنَکَ عَلٰٓی اَنْ لاَّ یُشْرِکْنَ بِاللّٰہِ شَیْئًا وَّلاَ یَسْرِقْنَ وَلاَ یَزْنِیْنَ وَلاَ یَقْتُلْنَ اَوْلاَدَھُنَّ وَلاَ یَاْتِیْنَ بِبُھْتَانٍ یَّفْتَرِیْنَہٗ بَیْنَ اَیْدِیْھِنَّ وَاَرْجُلِھِنَّ وَلاَ یَعْصِیْنَکَ فِیْ مَعْرُوْفٍ فَبَایِعْھُنَّ وَاسْتَغْفِرْ لَھُنَّ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
’’اے پیغمبر! جب تمھارے پاس مومن عورتیں اس بات پر بیعت کرنے کو آئیں کہ اللہ کے ساتھ نہ تو شرک کریں گی نہ چوری کریں گی نہ بدکاری کریں گی نہ اپنی اولاد کو قتل کریں گی نہ اپنے ہاتھ پاؤں میں کوئی بہتان باندھ لائیں گی اور نہ نیک کاموں میں تمھاری نافرمانی کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لیے اللہ سے بخشش مانگو،بے شک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
بیعت لیتے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم صرف زبان سے عہد لیتے،کسی غیر محرم عورت کے ہاتھ کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہر گز نہیں چھوتے تھے۔
سورت بنی اسرائیل (آیت:۳۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ خَشْیَۃَ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُھُمْ وَ اِیَّاکُمْ اِنَّ قَتْلَھُمْ کَانَ خِطْاً کَبِیْرًا.
’’اور اپنی اولاد کو مفلسی کے خوف سے قتل نہ کرنا (کیونکہ) اُن کو اور تم کو ہم ہی رزق دیتے ہیں،کچھ شک نہیں کہ اُن کا مار ڈالنا بڑا گناہ ہے۔‘‘[336]
صحیح بخاری و مسلم میں ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ نے پوچھا:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے بڑا گناہ کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’تو اللہ تعالیٰ کا شریک ٹھہرائے،حالانکہ اسی اکیلے نے تجھے پیدا کیا ہے۔میں نے پوچھا:اس کے بعد؟ فرمایا:’’تو اپنی اولاد کو اس خوف سے مار ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھائیں گے۔‘‘ پھر فرمایا:’’تو اپنی پڑوسن سے زنا کاری کرے۔‘‘[337]
سوره بنی اسرائیل (آیت:۳۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَقْرَبُوا الزِّنٰٓی اِنَّہٗ کَانَ فَاحِشَۃً وَّ سَآئَ سَبِیْلًا.
’’اور زنا کے پاس بھی نہ جانا کہ وہ بے حیائی اور بری راہ ہے۔‘‘
زنا کی ممانعت کا موضوع سورۃ الفرقان (آیت:۶۸) میں بھی آیا ہے،چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
.وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا.
’’اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں پکارتے اور جن جاندار کا مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے،اُس کو قتل نہیں کرتے،مگر جائز طریق پر (حکمِ شریعت کے مطابق) اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہوگا۔‘‘
اسلام میں زنا بہت بڑا جرم ہے ۔اسی لیے یہاں فرمایا کہ زنا کے قریب بھی نہ جاؤ،یعنی اس کے اسباب سے بھی بچ کر رہو۔ مثلاً غیر محرم عورت کو دیکھنا،اسی طرح عورتوں کا بے پردہ بن سنور کر اور محرم کے بغیر گھر سے نکلنا وغیرہ۔ان تمام امور سے اجتناب ضروری ہے۔
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ وَلَا تُبْطِلُوا أَعْمَالَكُمْ ﴿٣٣﴾
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، تم اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو اور اپنے اعمال کو برباد نہ کر لو (قرآن 47:33)
اللہ کی اطاعت کے ساتھ ساتھ اطاعتِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی تاکید[338] کرکے واضح کر دیا ہے کہ اب نجات اگر ہے تو صرف اطاعتِ محمدی میں ہے اورسنت ثابتہ سے انحراف کفر ہے اور ایسے کافروں کو اللہ تعالیٰ پسند نہیں فرماتا،چاہے وہ اللہ کی محبت اور قرب کے کتنے ہی دعوے دار ہوں۔
جس نے رسول کا حکم مانا بیشک اس نے اللہ کا حکم مانا ۔(4:80)
رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : "--- جس نے میری اطاعت کی اس نے اللہ کی اطاعت کی اور جس نے میری نافرمانی کی اس نے اللہ کی نافرمانی کی....[رواہ ابو ہریرہ، البخاری،2957][339]
سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ . یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَ تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ . اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ . اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ . وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5)
’’مومنو! (کسی بات کے جواب میں ) اللہ اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو،ڈرتے رہو،بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔اے اہلِ ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمھارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔جو لوگ پیغمبر الٰہی کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں،اللہ نے ان کے دل تقوے کے لیے آزما لیے ہیں ان کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔جولوگ تم کو حجروں کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں،ان میں اکثر بے عقل ہیں۔اور اگر وہ صبر کیے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس جاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5)[340]
اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو،بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بدعات[341] کی ایجاد، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے، جو کسی بھی صاحبِ ایمان کے لائق نہیں،اسی طرح کوئی فتویٰ قرآن و سنت پر غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے[342]۔ مومن کی شان تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دینا ہے[343] مگر افسوس صدیوں سے نافرمانی کا سلسلہ جاری ہے ، جسے درست کرنا ضروری ہے-
سورۃ الحجرات کی آیت (۳) میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آوازیں پست رکھتے تھے۔
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا ۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا ، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے ۔ ﴿قران :4:14 ﴾
س آیت میں پیرویِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے گریز کرنے والوں کے لیے سخت وعید ہے،کیوں کہ دونوں ہی اپنے اپنے انداز سے ایسا رویہ اختیار کرتے ہیں جسے یہاں کفر سے تعبیر کیا گیا ہے۔
تمام احکام مذکورہ اللہ تعالیٰ کی باندھی ہوئی حدیں اور اس کے مقرر کردہ ضابطے ہیں جو شخص اللہ تعالیٰ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کرے گا اور اللہ و رسول کا کہنا نہ مانے گا اور اس کی باندھی ہوئی حدوں کو توڑ کر بڑھ جائے گا اور اس کے مقررہ ضابطوں سے تجاوز کرنے پر اصرار کرے گا اور اس کے قوانین کی بالکل خلاف ورزی کرے گا تو اللہ تعالیٰ اس کو آگ میں داخل کردے گا۔ اور اس کا یہ حال ہوگا کہ وہ اس آگ میں ہمیشہ ہمیش پڑا رہے گا اور اس کو ذلت و اہانت آمیز اور رسوا کن عذاب ہوگا-[346]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا أَطِيعُوا اللَّـهَ وَرَسُولَهُ وَلَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَأَنتُمْ تَسْمَعُونَ ﴿٢٠﴾ وَلَا تَكُونُوا كَالَّذِينَ قَالُوا سَمِعْنَا وَهُمْ لَا يَسْمَعُونَ ﴿٢١﴾ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّـهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
اے ایمان لانے والو، اللہ اور اُس کے رسُول کی اطاعت کرو اور حکم سُننے کے بعد اس سے سرتابی نہ کرو (20) اُن لوگوں کی طرح نہ ہو جاؤ جنہوں نے کہا کہ ہم نے سُنا حالانکہ وہ نہیں سُنتے (21) یقیناً الله کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (قرآن؛ 8:22)
ما آتاکم الرسول فخذوہ وما نہکم عنہ فانتہوا[347]
جو اللہ کا رسول تمہیں دے اسے لے لو اور جس سے روکے اس سے باز رہو۔(قران 59:7)[348]
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ لَا تَوَلَّوْا عَنْهُ وَ اَنْتُمْ تَسْمَعُوْنَۚۖ(۲۰)
اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کیا کرواور سن کر اس سے منہ نہ پھیرو ۔ (الانفال : ۲)
یَوۡمَ تُقَلَّبُ وُجُوۡہُہُمۡ فِی النَّارِ یَقُوۡلُوۡنَ یٰلَیۡتَنَاۤ اَطَعۡنَا اللّٰہَ وَ اَطَعۡنَا الرَّسُوۡلَا ﴿۶۶﴾
"جس دن ان کے چہرے جہنم میں الٹ پلٹ کیے جا رہے ہوں۔تو وہ کہیں گے کاش! ہم نے اللہ کی اور رسول صلی الله علیہ وسلم کی اطاعت کی ہوتی۔"(الاحزاب:66)
یَوۡمَئِذٍ یَّوَدُّ الَّذِیۡنَ کَفَرُوۡا وَ عَصَوُا الرَّسُوۡلَ لَوۡ تُسَوّٰی بِہِمُ الۡاَرۡضُ ؕ وَ لَا یَکۡتُمُوۡنَ اللّٰہَ حَدِیۡثًا ﴿٪۴۲﴾ 3
"جس روز کافر اور رسول کے نافرمان آرزو کریں گے کہ کاش! انہیں زمین کے ساتھ ہموار کر دیا جاتا اور اللہ تعالٰی سے کوئی بات نہ چھُپا سکیں گے ۔۔" (النساء: 42)
وَ یَوۡمَ یَعَضُّ الظَّالِمُ عَلٰی یَدَیۡہِ یَقُوۡلُ یٰلَیۡتَنِی اتَّخَذۡتُ مَعَ الرَّسُوۡلِ سَبِیۡلًا ﴿۲۷﴾
اور اس دن ظالم اپنے ہاتھ کو (شرمندگی اور ندامت سے) کاٹتے ہوئے کہے گا،ہائے کاش! میں رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم کے طریقہ کو ہی اپناتا۔"(الفرقان: 27)
وَقَالُوا سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا ۖ .ترجمہ: ہم نے حکم سنا اور اطاعت قبول کی (2:256قرآن).
رسول اللہ ﷺ ںے فرمایا : "جس آدمی نے میری کسی ایسی سنت کو زندہ کیا (یعنی رائج کیا) جو میرے بعد چھوڑ دی گئی تھی تو اس کو اتنا ہی ثواب ملے گا جتنا کہ اس سنت پر عمل کرنے والوں کو ملے گا بغیر اس کے کہ اس (سنت پر عمل کرنے والوں) کے ثواب میں کچھ کمی کی جائے۔ اور جس آدمی نے گمراہی کی کوئی ایسی نئی بات (بدعت) نکالی جس سے اللہ اور اس کا رسول خوش نہیں ہوتا تو اس کو اتنا ہی گناہ ہوگا جتنا کہ اس بدعت پر عمل کرنے والوں کو گناہ ہوگا بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی کی جائے۔ [مشکوٰۃ المصابیح - حدیث نمبر 165][349]
.قُلْ اِنْ کُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰہَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْکُمُ اللّٰہُ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ . قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْکٰفِرِیْنَ. [آل عمران (آیت:۳۱،۳۲)]
’’(اے پیغمبر! لوگوں سے) کہہ دو کہ اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میری پیروی کرو،اللہ بھی تمھیں دوست رکھے گا اور تمھارے گناہ معاف کر دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔کہہ دو کہ اللہ اور اُس کے رسول کا حکم مانو۔اگر نہ مانیں تو اللہ بھی کافروں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
.فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوْنِ.’’تو اللہ سے ڈرو اور میرا کہنا مانو۔‘‘[سورت آل عمران (آیت:۵۰)]
.وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ الرَّسُوْلَ لَعَلَّکُمْ تُرْحَمُوْنَ.[سورت آل عمران (آیت:۱۳۲)]
’’اور اللہ اور اُس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے۔‘‘
.وَاَطِیْعُوا اللّٰہَ وَاَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاِنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ . اَللّٰہُ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ.[۔سورۃ التغابن کی آیت (۱۲،۱۳)]
’’اور اللہ کی اطاعت کرو اور اس کے رسول کی اطاعت کرو،اگر تم منہ پھیر لوگے تو ہمارے پیغمبر کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کھول کر پہنچا دینا ہے۔مومنو! تمھاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن (بھی) ہیں،سو ان سے بچتے رہو اور اگر معاف کر دو اور درگزر کرو اور بخش دو تو اللہ بھی بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
.وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ وَ لَا تَنَازَعُوْا فَتَفْشَلُوْا وَ تَذْھَبَ رِیْحُکُمْ وَ اصْبِرُوْا اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الصّٰبِرِیْنَ.[سورۃ الانفال ( آیت:۴۶)]
’’اور اللہ اور اس کے رسول کے حکم پر چلو اور آپس میں جھگڑا نہ کرنا کہ (ایسا کرو گے تو) تم بزدل ہو جاؤ گے اور تمھارا اقبال جاتا رہے گا اور صبر سے کام لو کہ اللہ صبر کرنے والے کا مددگار ہے۔‘
رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کو صحابی کہا جاتا ہے جو کہ ایک اعزاز ہے- صحابی کے اصل معنی ساتھی اور رفیق کے ہیں, لیکن یہ اسلام کی ایک مستقل اور اہم اصطلاح ہے- اصطلاحی طور پر صحابی کی تعریف صحابی کی تعریف مبہم ہے- صحابہ سے مراد کون لوگ ہیں جن کے اطراف تقدس کا دائرہ کھینچا گیا ہے ، اس سلسلہ میں علماء نے اختلاف کیا ہے علماء ںے اپنی طرف سے تاویلات کی بنیاد پر تعریف کی ہے- اکثرعلماء نے "صحابہ" کے وسیع معنی کو اختیار کیا ہے- بعض علماء نے اس دائرے کو اس قدر وسیع کردیا ہے کہ جس اہل ایمان نے بھی اپنی حیات میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہو وہ رسول اللہ ﷺ کا صحابی ہے، امام بخاری نے صحابی کی تعریف اس طرح کی ہے: ”ومن صحب النبی او رآہ من المسلمین فھو من اصحابہ“ ” جو بھی نبی کا ہم نشین رہا ہو یا مسلمانوں میں سے کسی نے آپ کو دیکھا ہو تو وہ آپ کے اصحاب میں سے ہے“-
وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ (قرآن 9:100)
"وہ مہاجر اور انصارجنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے "احسن طریق"[350] پر ان کی پیروی (اتباع) کی ، اللہ ان سب سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ا للہ نے ان کے لئے ایسے باغات تیارکررکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے(قرآن 9:100)
اور وہ مہاجر اور ترک وطن کرنے والے اور مہاجرین کی مدد کرنے والے انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمانی کے قبول کرنے میں سبقت کی اور جنہوں نے اخلاص (احسان) کے ساتھ دعوت ایمانی کو قبول کرنے میں مہاجروں و انصار کا اتباع کیا اور مہاجرین و انصار کی پیروی کی اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لئے ایسے باغ تیارکررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں یہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ انعامات کا حصول سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یعنی وہ مہاجرین و انصار جو ایمان لانے میں مقدم اور سابق (سسبقت) ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نما ز پڑھی ہو خواہ وہ ہوں جو جنگِ بدر سے پہلے مسلمان ہوئے ہوں تمام امت میں یہی لوگ سابق اور قدیم ہیں اس کے بعد خواہ وہ صحابہ (رض) ہوں یعنی غیرمہاجرین و انصار یا تابعین اور تبع تابعین ہوں یا ان کے بعد کے لوگ ہوں علی فرقِ مراتب سب ہی کم و بیش اس بشارت میں شریک ہیں اگرچہ مراتب اور درجات کی نوعیت میں فرق ہوگا۔ جنگِ بدرتک جو مسلمان ہوئے وہ قدیم ہیں اور باقی ان کے تابع [تفسیر کشف الرحمن ، احمد سید دہلوی[351] ]
عبادت کے اعلیٰ درجے کی حالت اور ایمان کی اس اعلیٰ کيفیت کو ’’احسان‘‘ کہتے ہیں[352]،[353],[354]. حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا :’’احسان یہ ہے کہ تو اﷲ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔[355]
(ِ وَ الَّذينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسان) کی عبارت سے سمجھ آتا ہے کہ تابعین اور بعد والے مسلمان ایسی صورت حال میں اہل نجات ہونگے جب وہ نیکی، اچھے اعمال میں میں صحابہ کی پیروی کریں جو صرف اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے ممکن ہے:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (قرآن:3:132) الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے
اس کا مطلب یہ ہے:
پہلا یہ کہ: یہ ممکن ہے کہ کچھ صحابہ غیرشائستہ اعمال کے مرتکب ہوں۔
دوسرا یہ کہ: ان کے ناصالح اعمال کی پیروی باعث نجات نہیں ہے۔
در حقیقت "احسان" کا لفظ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن نے مکمل طور پرصحابہ کی تائید نہیں کی بلکہ بشرط "احسان" ان کی پیروی پر تائید کی مہر لگا دی ہے۔دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ "احسان" ان کاموں کی صفت ہے جن کی پیروی کی جاتی ہے۔اس صورت میں "باحسان" میں حرف "باء" "فی" کا معنی دیتا ہے۔
قرآن پیغمبرﷺ کے سچے صحابہ کی تعریف میں بیان فرماتا ہے:
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿48:29﴾[356]
اس آیت کے ترجمہ اور تفسیر میں اہل تشیع ، اہل سنت اور اہل سنت کے درمیان آپس میں بھی مفسرین میں اختلاف ہے[ تفصیل لنک[357]]
محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں یہ ہے ان کی صفت توراۃ میں اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے(اللہ نے ایسے ہی ان لوگوں کو مضبوط کیا) تاکہ اس کے ذریعے سے کافروں کو غیظ و غضب میں ڈالے (لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ)- ...
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
"اس گروہ " کے لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔(ترجمہ عبدلرحمان کیلانی [358])
الله تعالی نے اصحاب رسول اللہ ﷺ کی فضیلت قرآن میں بیان فرمائی ، کچھ آیات کا خلاصہ و مفھوم درج ذیل (ضمیمہ الف: فضائل صحابه کرام و بشری کمزوریاں)
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿٤٥﴾ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ ﴿٤٦﴾ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ ﴿٤٧﴾ لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ ﴿٤٨﴾
بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں رہیں گے، (ان سے کہا جائے گا:) ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف ہو کر داخل ہو جاؤ، اور ہم وہ ساری کدورت باہر کھینچ لیں گے جو (دنیا میں) ان کے سینوں میں (مغالطہ کے باعث ایک دوسرے سے) تھی، وہ (جنت میں) بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے، انہیں وہاں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی اور نہ ہی وہ وہاں سے نکالے جائیں گے(قرآن.الحجر 15:45,46,47,48)[367]
صحابہ کرام رض کی ایک خاص حیرت انگیز خوبی کہ وہ رسول اللہﷺ پرجھوٹ نہیں بولتے تھے- گناہ اور سچ کی ایک انتہائی مثال؛ ایک شخص اپنے خلاف گناہ کی شہادت چار بار خود رضاکارانہ طورپراوربچاو کے مواقع مہیا کیئے جانے کے باوجود رجم کی تکلیف دہ موت قبول کرے صرف الله تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے، اس سے سچا کون ہو سکتا ہے؟ جس کا جنازہ پڑھا کر رسول اللہ ﷺ کلمہ خیربھی فرمائیں تو کیا اللہ اس سزاوار کو معاف کرکہ راضی نہ ہوگا؟ [1] گناہ کبیرہ کے باوجود کیا اس کی شہادت قبول نہیں جو انپے خلاف شہادت دے کو موت قبول کرتا ہے- ایسی مثال دوبارہ 1400سالہ اسلامی تاریخ میں شاید ہی ملے، یہ ہے ایک گناہگار ترین صحابی کا مقام تو باقی کا کیا مقام ہو گا اندازہ لگا لیں-
علماء، صحابہ کے کردار سے بحث نہ کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ ہمیں صحابہ اور ان کے کردار کے بارے میں گفتگو کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے:
" تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَها ما كَسَبَتْ وَ لَكُمْ ما كَسَبْتُمْ وَ لا تُسْئَلُونَ عَمَّا كانُوا يَعْمَلُون،: یہ گزشتہ امت کی بات ہے، ان کے اعمال ان کے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم لوگوں سے (گزشتہ امتوں کے بارے میں) نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے" (2:134)[368]
الله تعالی ںے صحابہ کی غلطیوں (اختلافات،جھگڑوں) کو معاف بھی فرمایا جب یقینی طور پر انہوں نے الله تعالی سے مغفرت کی دعا ہر صَلَاة میں مانگی، رسول اللہ ﷺ بھی صحابہ ، امت اور مومنین کی بخشش کے لیے دعا مانگتے تھے-
حضرت حسین (رضی الله) سے کسی نے حضرت عثمان غنی کے بارے میں سوال کیا ( جبکہ ان کی شہادت کا واقعہ پیش آ چکا تھا) تو انہوں نے سوال کرنے والے سے پوچھا کہ تم مہاجرین میں سے ہو؟ اس نے انکار کیا پھر پوچھا کہ انصار میں سے ہو؟ اس نے اس کا بھی انکار کیا تو فرمایا بس اب تیسری آیت (والَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ) کی رہ گئی، اگر تم عثمان غنی (رضی الله) کی شان میں شک و شبہ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس درجہ سے بھی نکل جاؤ گے۔
حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے استغفار اور دعا کرنے کا حکم دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ ان کے آپس میں جنگ وجدال کے فتنے بھی پیدا ہوں گے ( اس لئے کسی مسلمان کو مشاجرات صحابہ کی وجہ سے ان میں سے کسی سے بدگمان ہونا جائز نہیں)
حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ یہ امت اس وقت تک ہلاک نہیں ہوگی جب تک اس کے پچھلے لوگ اگلوں پر لعنت و ملامت نہ کریں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ جب تم کسی کو دیکھو کہ کسی صحابی کو برا کہتا ہے تو اس سے کہو کہ جو تم سے زیادہ برا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت، یہ ظاہر ہے کہ زیادہ برے صحابہ تو ہو نہیں سکتے یہی ہوگا جو ان کی برائی کر رہا ہے-
خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی کو برا کہنا سبب لعنت ہے اور عوام بن شب نے فرمایا کہ اس نے اس امت کے پہلے لوگوں کو اس بات پر مستقیم اور مضبوط پایا ہے کہ وہ لوگوں کو یہ تلقین کرتے تھے کہ صحابہ کرام کے فضائل اور محاسن بیان کیا کرو تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہو اور وہ مشاجرات اور اختلافات جو ان کے درمیان پیش آئے ہیں ان کا ذکر نہ کیا کرو جس سے ان کی جرات بڑھے ( اور وہ بےادب ہوجاویں) [369]
صَلَاة، تشہد میں "صالحین" پر سلامتی اور پھر "مومنین" کی مغفرت کی دعا رسول اللہ ﷺ سے آج تک جاری ہے جو قرآن میں ہے جسے سب فرقہ شیعہ ، اہل سنّه مسلمان تلاوت بھی کرتے رہتے ہیں:
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ﴿٤١﴾
پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور تمام مومنین کو اس دن بخش دینا جس دن حساب قائم ہوگا (قرآن 14:41)
اس دعا میں کوئی شیعہ ، سنّه نہیں صرف "مومنین" ہیں ، کون بحالت ایمان (مومن) فوت ہوا اور کون کافر یا مرتد مرا ، باطنی حقیقت صرف الله تعالی ہی جانتا ہے ہمارے فتووں، نفرتوں کی یوم آخرت میں کوئی فائدہ مند حثیت نہیں- اللہ ہمارے دلوں کی کدورتیں اس دنیا میں بھی دورفرما دے - ( آمین)
آیۓ مل کر دعا کریں :
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ (قرآن 59:10)[370]
اے ہمارے پروردگار ! تو ہمارے اور ہمارے ان بھائیوں کے گناہ معاف فرما دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور اہل ایمان میں سے کسی کے لیے بھی ہمارے دل میں کوئی کدورت باقی نہ رہنے دے ‘ بیشک تو رؤف اور رحیم ہے۔ (آمین )
صحابہ کرام (رض): اشتباھات و حقائق[371]: https://bit.ly/Sahaba-Grudge
مفھوم/ خلاصہ : (4607 اَلتِّرْمِذِيُّ 2676 سنن ابی داود، ابن ماجہ 42، 43)
---- عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا :
ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں ، اور دل کانپ گئے ، پھر ایک شخص نے عرض کیا: اللہ کے رسول ! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے ، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں؟
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ ٤٣)
”میں تمہیں اللہ سے ڈرنے ، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے (وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ) [ابن ماجہ, 42 , ابی داود 4607 ، ترمزی 2676 وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)][372]
رسول اللہ ﷺ کے بعد ، ان کے خلفاء کے تسلسل میں اگلے چارخلفاء راشدین ہیں۔ رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو دو کور (جلد) کے درمیان جکڑی ہوئی کتاب کے طور پر نہیں چھوڑا۔ یہ خلفاء راشدین کی سنت ہے کہ قرآن کی مجلد کتابت کا احتمام کیا اگرچہ ابتدا میں خلیفہ اول سمجھتے تھے کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نے نہیں کیا، ایک نئی چیز ہونے کی وجہ سے قرآن کو جمع کرنے سے وہ گریزاں تھنے ۔ ان میں سے کسی خلیفه راشد نے حدیث کی کتابیں لکھنے کا انتظام نہ کیا ، حتی کہ تیسرے خلیفہ کے ذریعہ قرآن مجید کی تدوین کے بعد بھی ، حدیث کی کتابیں نہیں لکھی گئیں۔ یہ ہے رسول اللہ ﷺ اور خلفاء راشدین کی "اجماعی سنت" ہے جس کے لئے کسی ثبوت کو ضرورت نہیں. (تفصیل ملاحضہ کریں[373]،[374]،[375] ) خلفاء راشدین کی اختلافات میں فیصلوں کا اختیار رسول اللہ ﷺ ںے اپنی وصیت میں دیا جو پہلے پڑھ چکے ہیں- "حدیث کتابت ممنوع"[376] کے بارے میں واضح احادیث موجود ہیں ، اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے دی وجہ صرف یہی تھی کہ:
"کیا تم الله کی کتاب کے علاوہ کوئی اور کتاب چاہتے ہو؟ اس سے پہلے قومیں (یہود و نصاری ) صرف اس لیے گمراہ ہوئیں کہ انہوں نے کتاب الله کے ساتھ کتابیں لکھیں۔[377]"
گہری تحقیق اور تجزیہ سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ:
رسول اللہ ﷺ صرف ایک کتاب اللہ (قرآن ) چاہتے تھے کیونکہ یہود ا نصاری ںے کتاب اللہ کو دوسری کتب لکھ کر نظر انداز کر دیا[378]- اور سنت[379] جو کہ آپﷺ کا قرآن کی تعلیمات پر عملی نمونہ ہے وہ عملی طور پر منتقل ہو، احادیث کو سماع ، حفظ اور بیان[380] کے زریعہ منتقل کرنا پسند فرمایا، احادیث کی پہچان کے لئے واضح آسان، قابل عمل مفصل ہدایات/ اصول بھی دئیے- رسول اللہ ﷺ نے فرمایا : میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا (ماجہ 43)
افسوس کہ رسول اللہ ﷺ کے ان اہم احکام و ہدایت پر مکمل طور پر صرف پہلی صدی حجرہ میں عمل ہوا جب تک صحابہ زندہ تھے دوسری تیسری صدی حجرہ میں نافرمانی و بدعة کا آغاز ہوا جو اب بھی خوب زور شور سے جاری ہے- اب بھی وقت ہے کہ معاملات درست کیے جائیں- الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کی نافرمانی کی سزا وہی ہے جو کفرکی ہے:
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن؛ 4:14)[381]
سورۃ التوبہ (آیت:۳۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ وَ الْمَسِیْحَ ابْنَ مَرْیَمَ وَ مَآ اُمِرُوْٓا اِلَّا لِیَعْبُدُوْٓا اِلٰھًا وَّاحِدًا لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ سُبْحٰنَہٗ عَمَّا یُشْرِکُوْنَ.
’’انھوں نے اپنے علما اور مشائخ اور مسیح ابنِ مریم کو اللہ کے سوا معبود بنا لیا،حالانکہ ان کو یہ حکم دیا گیا تھا کہ اللہ کے سوا کسی کی عبادت نہ کریں اس کے سوا کوئی معبود نہیں اور وہ ان لوگوں کے شریک مقرر کرنے سے پاک ہے۔‘‘
اس کی تفسیر حضرت عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ کی بیان کردہ حدیث سے بخوبی ہو جاتی ہے۔وہ کہتے ہیں کہ میں نے نبیِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ آیت سن کر عرض کی کہ یہود و نصاریٰ نے تو اپنے علما کی کبھی عبادت نہیں کی،پھر یہ کیوں کہا گیا کہ انھوں نے ان کو رب بنا لیا؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’یہ ٹھیک ہے کہ انھوں نے ان کی عبادت نہیں کی،لیکن یہ بات تو ہے نہ کہ ان کے علما نے جس کو حلال قرار دے دیا،اس کو انھوں نے حلال اور جس چیز کو حرام کر دیا،اس کو حرام ہی سمجھا۔یہی ان کی عبادت کرنا ہے۔[384]‘‘
سورۃ التوبہ (آیت:۳۴) میں فرمایا:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ کَثِیْرًا مِّنَ الْاَحْبَارِ وَ الرُّھْبَانِ لَیَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ النَّاسِ بِالْبَاطِلِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ الَّذِیْنَ یَکْنِزُوْنَ الذَّھَبَ وَ الْفِضَّۃَ وَ لَا یُنْفِقُوْنَھَا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَبَشِّرْھُمْ بِعَذَابٍ اَلِیْمٍ.
’’مومنو! (اہلِ کتاب کے) بہت سے عالم اور مشائخ لوگوں کا مال ناحق کھاتے اور (ان کو) اللہ کے راستے سے روکتے ہیں اور جو لوگ سونا اور چاندی جمع کرتے ہیں اور اس کو اللہ کے راستے میں خرچ نہیں کرتے ان کو اس دن کے عذابِ الیم کی خوشخبری سنا دو۔‘‘
سورۃ الکہف (آیت:۲۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: .وَ لَا تُطِعْ مَنْ اَغْفَلْنَا قَلْبَہٗ عَنْ ذِکْرِنَا وَ اتَّبَعَ ھَوٰہُ وَ کَانَ اَمْرُہٗ فُرُطًا.
’’اور جس شخص کے دل کو ہم نے اپنی یاد سے غافل کر دیا ہے اور وہ اپنی خواہش کی پیروی کرتا ہے اور اس کا کام حد سے بڑھ گیا ہے،اس کا کہنا نہ ماننا۔‘‘
سورۃ العنکبوت (آیت:۱۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّقُوْلُ اٰمَنَّا بِاللّٰہِ فَاِذَآ اُوْذِیَ فِی اللّٰہِ جَعَلَ فِتْنَۃَ النَّاسِ کَعَذَابِ اللّٰہِ وَ لَئِنْ جَآئَ نَصْرٌ مِّنْ رَّبِّکَ لَیَقُوْلُنَّ اِنَّا کُنَّا مَعَکُمْ اَوَ لَیْسَ اللّٰہُ بِاَعْلَمَ بِمَا فِیْ صُدُوْرِ الْعٰلَمِیْنَ.
’’لوگوں میں سے کوئی ایسا ہے جو کہتا ہے کہ ہم ایمان لائے اللہ پر مگر جب وہ اللہ کے معاملہ میں ستایا گیا تو اس نے لوگوں کی ڈالی ہوئی آزمائش کو اللہ کے عذاب کی طرح سمجھ لیا اب اگر تیرے رب کی طرف سے فتح و نصرت آ گئی تو یہی شخص کہے گا کہ "ہم تو تمہارے ساتھ تھے" کیا دنیا والوں کے دلوں کا حال اللہ کو بخوبی معلوم نہیں ہے؟(29:10)‘‘[385]
.اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ.[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۷۷)]
’’جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکات دیتے رہے،اُن کو اُن کے کاموں کا صلہ اللہ کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) اُن کو نہ کچھ خوف ہوگا اور نہ وہ غمگین ہوں گے-
’’بِر‘‘ ( نیکی بھلائی) سے مراد عمل صالح یا جنت ہے۔ [مختصر تفسیر فتح القدیر للشوکاني (ص: ۲۲۸)]
جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابو طلحہ انصاری رضی اللہ عنہ جو مدینے کے اصحابِ حیثیت لوگوں میں سے تھے،نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور عرض کی کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! بیروحاء کا باغ مجھے سب سے زیادہ محبوب ہے،میں اسے اللہ کی رضا کے لیے صدقہ کرتا ہوں،آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’وہ تو بہت نفع بخش مال ہے۔میری رائے یہ ہے کہ تم اسے اپنے رشتے داروں میں تقسیم کردو۔‘‘ چنانچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے مشورے سے انھوں نے اسے اپنے اقارب اور عم زادوں میں تقسیم کر دیا۔[صحیح البخاري،رقم الحدیث (۵۶۱۱) اللؤلؤ والمرجان،رقم الحدیث (۵۸۷)]
کوشش یہی ہونی چاہیے اچھی چیز صدقہ کی جائے- یہ افضل و اکمل درجہ حاصل کرنے کا طریقہ ہے۔جس کا مطلب یہ بھی نہیں ہے کہ کمتر چیزیا اپنی ضرورت سے زائد فالتو چیز یا استعمال شدہ پرانی چیز کا صدقہ نہیں کیا جا سکتا یا اس کا اجر نہیں ملے گا۔اس قسم کی چیزوں کا صدقہ کرنا بھی یقینا جائز اور باعثِ اجر ہے،گو کمال و افضلیت محبوب چیز کے خرچ کرنے میں ہے۔
یہ ہر مسلمان کا ایمان ہے کہ اچھے کاموں کا پرچار کرنا اور بُرے کاموں سے روکنا فرضِ کفایہ ہے، بالخصوص ان لوگوں پر جو "امر اور نہی" کی طاقت (Authority) رکھتے ہوں۔ حقیقتاً ایمان باللہ کے بعد دینی ذمے داریوں میں سے یہ ایک بہت ہی بڑی ذمے داری بلکہ فرضِ کفایہ ہے۔ اللہ تعالیٰ نے امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کو اپنی کتابِ عزیز میں ایمان کے ساتھ ذکر فرمایا ہے[386]-
چنانچہ ارشادِ الٰہی ہے:
.کُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّۃٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ.[آل عمران:۱۱۰]
’’(مومنو!) جتنی امتیں (قومیں ) لوگوں میں پیدا ہوئیں،تم اُن سب سے بہتر ہو کہ نیک کام کرنے کو کہتے ہو اور بُرے کاموں سے منع کرتے ہو اور اللہ تعالیٰ پر ایمان رکھتے ہو۔‘‘
اسلامی حکومت کا فرض بھی ہے اور اس کے پاس اختیار ، ریاستی طاقت پولیس ، فوج اور ادارے ہیں جو نفاذ میں مدد کرسکتے ہیں:
اَلَّذِیۡنَ اِنۡ مَّکَّنّٰہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَ نَہَوۡا عَنِ الۡمُنۡکَرِ ؕ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الۡاُمُوۡرِ ﴿۴۱﴾
"یہ ایسے لوگ ہیں کہ اگر ہم انہیں زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں ، اور زکوٰۃ ادا کریں ، اور لوگوں کو نیکی کی تاکید کریں ، اور برائی سے روکیں ، ( ٢٥ ) اور تمام کاموں کا انجام اللہ ہی کے قبضے میں ہے" (قرآن :22:41)[387]
مسلمانوں کو انفرادی اور اجتماعی طور پر اپنے اپنے دائرہ اختیار میں فرض ہے کہ ؛ "نیکی کی تاکید کریں ، اور برائی سے روکیں" :
1۔سورت آل عمران (آیت:۱۰۴) میں اللہ تعالیٰ نے ارشاد فرمایا ہے:
.وَلْتَکُنْ مِّنْکُمْ اُمَّۃٌ یَّدْعُوْنَ اِلَی الْخَیْرِ وَ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ
وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
’’اور تم میں ایک جماعت ایسی ہونی چاہیے جو لوگوں کو نیکی کی طرف بلائے اور اچھے کام کرنے کا حکم دے اور بُرے کاموں سے منع کرے۔یہی لوگ ہیں جو نجات پانے والے ہیں۔‘‘
2۔سورۃ الحج (آیت:۴۱) میں اللہ تعالیٰ نے اپنے نیک بندوں کے بارے میں فرمایا ہے کہ وہ بعض دیگر امور کے علاوہ اچھے کاموں کا حکم دیتے ہیں اور بُرے کاموں سے منع کرتے ہیں۔چنانچہ ارشادِ ربانی ہے:
.اَلَّذِیْنَ اِنْ مَّکَّنّٰھُمْ فِی الْاَرْضِ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ وَ اَمَرُوْا بِالْمَعْرُوْفِ وَ نَھَوْا عَنِ الْمُنْکَرِ وَ لِلّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ.
’’یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم ان کو ملک میں دسترس دیں تو نماز پڑھیں اور زکات دیں اور نیک کام کرنے کا حکم دیں اور بُرے کاموں سے منع کریں اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کے اختیار میں ہے۔‘‘
3۔سورۃ التوبہ (آیت:۷۱) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ یَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ یَنْھَوْنَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَ یُقِیْمُوْنَ الصَّلٰوۃَ وَ یُؤْتُوْنَ الزَّکٰوۃَ وَ یُطِیْعُوْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اُولٰٓئِکَ سَیَرْحَمُھُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ.
’’اور مومن مرد اور مومن عورتیں ایک دوسرے کے دوست ہیں کہ اچھے کام کرنے کو کہتے اور بُری باتوں سے منع کرتے اور نماز پڑھتے اور زکات دیتے اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرتے ہیں،یہی لوگ ہیں،جن پر اللہ رحم کرے گا،بے شک اللہ غالب حکمت والا ہے۔‘‘
4۔ سورہ لقمان (آیت:۱۷) میں حضرت لقمان علیہ السلام نے اپنے فرزند کو جو وصیتیں فرمائیں،ان کا ذکر اللہ تعالیٰ یوں فرماتے ہیں:
.یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْروْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ.
’’بیٹا! نماز کی پابندی رکھنا اور (لوگوں کو) اچھے کاموں کے کرنے کا حکم دینا اور بُری باتوں سے منع کرتے رہنا اور جو مصیبت تجھ پر واقع ہو،اُس پر صبر کرنا،بے شک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔‘‘
اس بارے میں اور بھی بہت سی آیات ہیں۔اب بعض احادیث ملاحظہ فرمائیں:
5۔ حضرت ابو سعید الخدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انھوں نے سنا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے:
’’جو شخص تم سے کوئی برائی دیکھے تو اسے اپنے ہاتھ سے بدل دے،اگر اسے ہاتھ سے روکنے کی طاقت نہیں تو زبان سے،اگر اس کی بھی طاقت نہیں تو دل سے اُسے برا جانیں،یہ ایمان کا کمزور ترین درجہ ہے۔‘‘ [صحیح مسلم،کتاب الإیمان،ریاض الصالحین (۱/ ۲۰۰)]
6۔ حضرت ابن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’مجھ سے پہلے اللہ تعالیٰ نے جو بھی نبی بھیجا، اس کی امت میں سے اس کے حواری اور ساتھی ہوتے،جو اس کی سنت پر عمل اور اس کے حکم کی اقتدا کرتے۔پھر ان کے بعد ایسے ناخلف پیدا ہوئے جو ایسی باتیں کہتے جو وہ کرتے نہیں تھے اور وہ کام کرتے تھے،جن کا انھیں حکم نہیں دیا جاتا تھا،پس جو شخص ان سے دل کے ساتھ جہاد کرے گا، وہ مومن ہے،جو ان سے اپنی زبان سے جہاد کرے گا وہ بھی مومن ہے اور اس کے علاوہ رائی کے دانے کے برابر بھی ایمان [کا درجہ] نہیں۔‘‘[صحیح مسلم،کتاب الإیمان،ریاض الصالحین (۱/ ۲۰۱)]
اس سے معلوم ہوا کہ منکرات کے ازالے کا [حسبِ استطاعت] ہر مسلمان ذ مے دار ہے،بلکہ یہ اس کے ایمان کی کسوٹی ہے،اگر ایک مسلمان منکر کے ازالے اور خاتمے کے لیے سعی کرتا ہے یا کم سے کم اسے بُرا سمجھتا ہے تو یہ اس کے ایمان کی دلیل ہے اور اگر بُرائی کو دل میں بھی بُرائی نہیں سمجھتا تو سمجھ لو کہ اس کا دل ایمان کے کمزور ترین درجے سے بھی محروم ہوگیا ہے۔
سورۃ البقرہ (آیت:۴۴) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.اَتَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبِرِّ وَ تَنْسَوْنَ اَنْفُسَکُمْ وَ اَنْتُمْ تَتْلُوْنَ الْکِتٰبَ اَفَلَا تَعْقِلُوْنَ.
’’(یہ) کیا (عقل کی بات ہے کہ) تم لوگوں کو نیکی کرنے کو کہتے ہو اور اپنے آپ کو فراموش کیے دیتے ہو،حالانکہ تم (اللہ تعالیٰ کی) کتاب بھی پڑھتے ہو،کیا تم نہیں سمجھتے؟‘‘ [سورۃ البقرہ آیت:44][388]
7۔ حضرت ابو زید اسامہ بن زید بن حارثہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:
’’قیامت والے دن آدمی لایا جائے گا اور آگ میں ڈال دیا جائے گا،پس اس کی انتڑیاں باہر نکل آئیں گی۔وہ انھیں لے کر ایسے گھومے گا جیسا گدھا چکی میں گھومتا ہے،اس کے گرد جہنمی جمع ہو جائیں گے اور کہیں گے:اے فلاں ! تجھے کیا ہوا ہے؟ کیا تو نیکی کا حکم نہیں دیتا تھا اور برائی سے نہیں روکتا تھا؟ وہ کہے گا:ہاں،یقینا میں وہی ہوں، لیکن میرا حال یہ رہا کہ میں لوگوں کو تو نیکی کا حکم دیتا تھا،مگر خود نیکی نہیں کرتا تھا اور دوسروں کو تو برائی سے روکتا تھا،لیکن خود اس کا ارتکاب کرتا تھا۔‘‘[صحیح البخاري،رقم الحدیث (۶۶۸۵) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۲۹۸۹)]
ان علما و داعیان اور مصلحینِ امت کے لیے تنبیہ ہے،جن کا اپنا عمل اس وعظ اور نصیحت کے خلاف ہوتا ہے،جو وہ اسٹیج اور منبر و محراب سے لوگوں کو کرتے ہیں۔ اس حدیث میں والدین، اساتذہ اور مذہبی و سیاسی لیڈروں کے لیے بھی انتباہ ہے،جو دوسروں کو اچھی باتیں کہتے ہیں مگر خود ان پر عمل نہیں کرتے۔
1 .یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اعْبُدُوْا رَبَّکُمُ الَّذِیْ خَلَقَکُمْ وَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِکُمْ لَعَلَّکُمْ تَتَّقُوْنَ الَّذِیْ جَعَلَ لَکُمُ الْاَرْضَ فِرَاشًا وَّ السَّمَآئَ بِنَآئً وَّ اَنْزَلَ مِنَ السَّمَآئِ مَآئً فَاَخْرَجَ بِہٖ مِنَ الثَّمَرٰتِ رِزْقاً لَّکُمْ فَلَا تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ اَنْدَادًا وَّ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ. [سورۃ البقرہ (آیت:۲۱،۲۲)][389]
’’اے لوگو! اپنے رب کی عبادت کرو جس نے تمھیں اور تم سے پہلے لوگوں کو پیدا کیا،تاکہ تم (اس کے عذاب سے) بچو۔جس نے تمھارے لیے زمین کو بچھونا اور آسمان کو چھت بنایا اور آسمان سے بارش برسا کر تمھارے کھانے کے لیے انواع و اقسام کے میوے پیدا کیے،پس کسی کو اللہ کا ہمسر نہ بناؤ اور تم جانتے تو ہو۔‘‘
ہدایت اور ضلالت کے اعتبارسے انسانوں کے تین گروہوں کے تذکرے کے بعد تمام انسانوں کو اللہ تعالیٰ کی وحدانیت اور اس کی عبادت کی دعوت دی جا رہی ہے۔
فرمایا:جب تمھارا اور کائنات کا خالق اللہ ہے اور تمھاری تمام ضروریات کا مہیا کرنے والا وہی ہے، پھر تم اسے چھوڑ کر دوسروں کی عبادت کیوں کرتے ہو؟ دوسروں کو اس کا شریک کیوں ٹھہراتے ہو؟ اگر تم عذابِ الٰہی سے بچنا چاہتے ہو تواس کا صرف ایک طریقہ ہے کہ اللہ کو ایک مانو اور صرف اسی کی عبادت کرو،جانتے بو جھتے شرک کا ارتکاب مت کرو۔
2۔ .وَ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ اِیَّاکُمْ اَنِ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ کَانَ اللّٰہُ غَنِیًّا حَمِیْدًا. [سورۃ النساء (آیت:۱۳۱)][390]
’’اور جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے،سب اللہ ہی کا ہے اور جن لوگوں کو تم سے پہلے کتاب دی گئی تھی،اُن کو بھی اور تم کو بھی ہم نے حکمِ تاکیدی کیا ہے کہ اللہ سے ڈرتے رہو اور اگر کفر کرو گے تو (سمجھ رکھو کہ) جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے،سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ بے پروا اور سزاوارِ حمد و ثنا ہے۔‘‘
3۔ .ذٰلِکُمُ اللّٰہُ رَبُّکُمْ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ خَالِقُ کُلِّ شَیْئٍ فَاعْبُدُوْہُ وَ ھُوَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ وَّکِیْلٌ. [سورۃ الانعام (آیت:۱۰۲)][391]
’’یہی (اوصاف رکھنے والا) اللہ تمھارا رب ہے،اس کے سوا کوئی معبود نہیں (وہی) ہر چیز کا پیدا کرنے والا (ہے) تو اُسی کی عبادت کرو اور وہ ہر چیز کا نگران ہے۔‘‘
4۔ .یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ اَرْضِیْ وَاسِعَۃٌ فَاِیَّایَ فَاعْبُدُوْنِ. [سورۃ العنکبوت (آیت56)][392]
’’اے میرے بندو! جو ایمان لائے ہو،میری زمین فراخ ہے تو میری ہی عبادت کرو۔‘‘
5۔ .وَاَنِ اعْبُدُوْنِی ھٰذَا صِرَاطٌ مُّسْتَقِیْمٌ.
’’اور یہ کہ میری ہی عبادت کرنا،یہی سیدھا راستہ ہے۔‘‘ [سورت یٰس (آیت:61)][393]
6۔ .لَھُمْ مِّنْ فَوْقِھِمْ ظُلَلٌ مِّنَ النَّارِ وَمِنْ تَحْتِھِمْ ظُلَلٌ ذٰلِکَ یُخَوِّفُ اللّٰہُ بِہٖ عِبَادَہٗ یٰعِبَادِ فَاتَّقُوْنِ. [سورۃ الزمر (آیت:39:16)][394]
’’ان کے اوپر تو آگ کے سائبان ہوں گے اور نیچے (اس کے) فرش ہوں گے،یہ وہ (عذاب) ہے،جس سے اللہ اپنے بندوں کو ڈراتا ہے تو اے میرے بندو! مجھ سے ڈرتے رہو۔‘‘
7۔ .بَلِ اللّٰہَ فَاعْبُدْ وَکُنْ مِّنَ الشّٰکِرِیْنَ.
’’بلکہ اللہ ہی کی عبادت کرو اور شکر گزاروں میں رہو۔‘‘ [ سورۃ الزمر کی آیت (39:66)][395]
8۔ .فَادْعُوا اللّٰہَ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ وَلَوْ کَرِہَ الْکٰفِرُوْنَ. [سورت غافر 40:14 ][396]
’’تو اللہ کی عبادت کو خالص کرکے اسی کو پکارو،اگرچہ کافر بُرا ہی مانیں۔‘‘
یعنی جب سب کچھ اللہ ہی کرنے والا ہے تو کافروں کو چاہے کتنا ہی ناگوار گزرے،صرف اسی ایک اللہ کو پکارو،اس کے لیے عبادت اور اطاعت کو خالص کرتے ہوئے۔[تفسیر أحسن البیان (ص: ۱۳۱۹]
9۔ .ھُوَ الْحَیُّ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا ھُوَ فَادْعُوْہُ مُخْلِصِیْنَ لَہُ الدِّیْنَ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ. [الغافر 40:65]
’’وہ زندہ ہے (جسے موت نہیں ) اس کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں تو اس کی عبادت کو خالص کر کے اسی کو پکارو،ہر طرح کی تعریف اللہ ہی کو (سزاوار) ہے جو تمام جہانو ں کا پروردگار ہے۔‘‘
10۔.وَمَا خَلَقْتُ الْجِنَّ وَالْاِنْسَ اِلَّا لِیَعْبُدُوْنِ.
’’اور میں نے جنوں اور انسانوں کو اس لیے پیدا کیا ہے کہ میری بندگی کریں۔‘‘ [سورۃ الذاریات 51:56 ]
لِیَعْبُدُوْنِ میں "عْبُدُ"، غلام کو کہتے ہیں جو اپنے آقا کا وفادار اور ہر حکم مانتا ہے- بعض لوگوں نے رکوع و سجود، قیام، ذکر، نماز، روزے ، زکوۃ اور حج وغیرہ ہی کو عبادت سمجھ رکھا ہے، بیشک یہ بھی عبادت ہیں، مگر صرف یہی عبادت نہیں، بلکہ اللہ تعالیٰ نے جو حکم بھی دیا ہے اس کی اطاعت کرنا عبادات ہے، کیونکہ بندگی اور عبادت کا مطلب ہی مالک کے حکم بلکہ اشارے پر چلنا ہے۔ جو مالک کا حکم نہ مانے وہ غلام کیسا اور جو اپنے رب کے حکم پر نہ چلے وہ عبد کیسا ؟ جنوں اور انسانوں کو پیدا کرنے سے اللہ کا مقصد اور ارادہ شرعیہ یہی ہے کہ وہ اللہ کی عبادت اورصرف اس کی بندگی و غلامی کریں اور اپنی پوری زندگی اللہ کے احکام کے مطابق گزاریں۔ جو شخص مسجد میں تو نماز پڑھتا ہے مگر گھر بازار اور عدلات میں اپنی مرضی پر چلتا ہے وہ نہ رب کا بندہ ہے اور نہ اس کا عہد۔ ہاں، اگر وہ ہر کام میں اس کے حکم پر چلتا ہے تو اس کا ہر کام عبادت ہے، حتیٰ کہ نماز ہی نہیں، اس کا کھانا پینا، سونا اور بیوی سے صحبت بھی عبادت ہے، کیونکہ رب کے حکم پر عمل کرتے ہوئے اس نے مالک کے منع کئے ہوئے حرام سے اجتناب کیا اور اپنی خواہش پوری کی تو اپنے مالک کے حکم پر چلتے ہوئے پوری کی، یہی بندگی اور یہی عبادت ہے۔ رب تعالیٰ کا اپنے بندوں سے سب سیپ ہلا تقاضا یہ ہے کہ وہ اس اکیلے کو اپنا رب اور مالک مانیں، اس کے ساتھ کسی اور کو شریک نہ کریں۔ اس لئے عبداللہ بن عباس (رض) نے سورة بقرہ کی آیت (٢١) :(یایھا الناس اعبدوا ربکم) کی تفسیر فرمائی :” ای و خدوا ربکم “ ” یعنی اپنے رب کو ایک مانو۔ “ (طبری بسند حسن) اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا :(وما ارسلنا من قبلک من رسول الا نوحی الیہ انہ لا الہ الا انا فاعبدون) (الانبیائ : ٢٥)” اور ہم نے تجھ سے پہلے کوئی رسول نہیں بھیجا مگر اس کی طرف یہ وحی کرتے تھے کہ حقیقت یہ ہے کہ میرے سوا کوئی معبود نہیں ، سو میری عبادت کرو۔ “ (تفسیر قرآن عبدالسلام بھٹوی)[397]
11. .اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ وَتَضْحَکُوْنَ وَلاَ تَبْکُوْنَ وَاَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ فَاسْجُدُوْا لِلّٰہِ وَاعْبُدُوْا.’’(اے منکرین! ) کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو؟ اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ؟ اور تم غفلت میں پڑ رہے ہو۔تو اللہ کے آگے سجدہ کرو اور (اسی کی) عبادت کرو۔‘‘ [۔سورۃ النجم (آیات: 59-62)][398]
12. .فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا قَدْ اَنْزَلَ اللّٰہُ اِلَیْکُمْ ذِکْرًا.
’’اے اربابِ دانش جو ایمان لائے ہو! اللہ سے ڈرو،اللہ نے تمھارے پاس نصیحت (کی کتاب) بھیجی ہے۔‘‘ [۔سورۃ الطلاق (65:10)][399]
پارہ 8.وَلَوْ اَنَّنَا.سورۃ الانعام (آیت:۱۲۰) میں فرمایا:
.وَ ذَرُوْا ظَاھِرَ الْاِثْمِ وَ بَاطِنَہٗ اِنَّ الَّذِیْنَ یَکْسِبُوْنَ الْاِثْمَ سَیُجْزَوْنَ بِمَا کَانُوْا یَقْتَرِفُوْنَ.
’’اور ظاہری اور پوشیدہ (ہر طرح کا) گناہ ترک کر دو جو لوگ گناہ کرتے ہیں،وہ عنقریب اپنے کیے کی سزا پائیں گے۔‘‘
سورۃ المائدہ (آیت:۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ اَنْ صَدُّوْکُمْ عَنِ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ اَنْ تَعْتَدُوْا.
’’اور لوگوں کی دشمنی اس وجہ سے کہ انھوں نے تمھیں عزت والی مسجد سے روکا تھا،تمھیں اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم اُن پر زیادتی کرنے لگو۔‘‘
گو تمھیں ان مشرکین نے چھے (۶) ہجری میں صلح حدیبیہ کے موقع پر مسجدِ حرام میں جانے سے روک دیا تھا،لیکن تم ان کے روکنے کی وجہ سے ان کے ساتھ زیادتی والا رویہ اختیار مت کرنا۔یہاں دشمن کے ساتھ بھی حلم اور عفو کا سبق دیا جا رہا ہے۔
سورۃ المائدہ (آیت:۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ.
’’اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو،کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘
یہ ایک نہایت اہم اصول بیان کر دیا گیا ہے،جو ایک مسلمان کے لیے قدم قدم پر راہنمائی مہیا کر سکتا ہے۔کاش مسلمان اس اصول کو اپنا لیں !!
سورت طہ (آیت:۱۱۱) میں ارشادِ ربانی ہے:
.وَ عَنَتِ الْوُجُوْہُ لِلْحَیِّ الْقَیُّوْمِ وَ قَدْ خَابَ مَنْ حَمَلَ ظُلْمًا.
’’اور اس زندہ و قائم کے رُوبرو منہ نیچے ہو جائیں گے اور جس نے ظلم کا بوجھ اٹھایا وہ نامراد رہا۔‘‘
سورۃ المائدہ (آیت:۸۷) میں فرمایا:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُحَرِّمُوْا طَیِّبٰتِ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکُمْ وَ لَا تَعْتَدُوْا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُعْتَدِیْنَ.
’’مومنو! جو پاکیزہ چیزیں اللہ نے تمھارے لیے حلال کی ہیں،اُن کو حرام نہ کرو اور حد سے نہ بڑھو کہ اللہ حد سے بڑھنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
حدیث میں آتا ہے کہ ایک شخص نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوا اور آکر کہا کہ یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ! جب میں گوشت کھاتا ہوں تو نفسانی شہوت کا غلبہ ہو جاتا ہے،اس لیے میں نے اپنے اوپر گوشت حرام کر لیا ہے،جس پر آیت نازل ہوئی۔[400]
اسی طرح اس سببِ نزول کے علاوہ دیگر روایات سے ثابت ہے کہ بعض صحابہ رضی اللہ عنہم زہد و عبادت کی غرض سے بعض حلال چیزوں سے مثلاً عورت سے نکاح کرنے،رات کے وقت سونے،دن کے وقت کھانے پینے سے اجتناب کرنا چاہتے تھے۔ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے علم میں یہ بات آئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں منع فرمایا۔[401] حضرت عثمان بن مظعون رضی اللہ عنہ نے بھی اپنی بیوی سے کنارہ کشی اختیار کی ہوئی تھی،ان کی بیوی کی شکایت پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انھیں بھی روکا۔[402]
بہر حال اس آیت اور حدیث سے معلوم ہوا کہ اللہ تعالیٰ کی حلال کردہ کسی بھی چیز کو حرام کر لینا یا اس سے ویسے ہی پرہیز کرنا جائز نہیں ہے،چاہے اس کا تعلق کھانے پینے یا مشروبات سے ہو،لباس سے ہو یا مرغوبات و جائز خواہشات سے۔
مسئلہ:اگر کوئی شخص کسی چیز کو اپنے اوپر حرام کرلے گا تو وہ حرام نہیں ہوگی،سوائے عورت کے،البتہ اس صورت میں بعض علما یہ کہتے ہیں کہ اسے قسم کا کفارہ ادا کرنا ہوگا اور بعض کے نزدیک کفارہ ضروری نہیں۔
امام شوکانی کہتے ہیں کہ احادیثِ صحیحہ سے اسی بات کی تائید ہوتی ہے،کیونکہ نبیِ رحمت صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی کو بھی کفارۂ یمین ادا کرنے کا حکم نہیں دیا۔
امام ابن کثیر رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ اس آیت کے بعد اللہ تعالیٰ نے قسم کا کفارہ بیان فرمایا ہے،جس سے معلوم ہوتا ہے کہ کسی حلال چیز کو حرام کر لینا، یہ قسم کھانے کے مرتبے میں ہے،جو تکفیر (کفارہ ادا کرنے) کا متقاضی ہے۔ لیکن یہ استدلال احادیثِ صحیحہ کی موجودگی میں محل نظر ہے۔فَالصَّحِیْحُ مَا قَالَہُ الشَّّوْکَانِيُّ۔لیکن صحیح تر قول امام شوکانی والا ہی ہے۔
سورۃ التحریم (آیت:۱) میں فرمایا ہے:
.یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ لِمَ تُحَرِّمُ مَآ اَحَلَّ اللّٰہُ لَکَ تَبْتَغِیْ مَرْضَاتَ اَزْوَاجِکَ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
’’اے پیغمبر! جو چیز اللہ نے تمھارے لیے جائز کی ہے،تم اس سے کنارہ کشی کیوں کرتے ہو؟ (کیا اس سے) اپنی بیویوں کی خوشنودی چاہتے ہو؟ اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جس چیز کو اپنے لیے حرام کر لیا تھا،وہ کیا تھی،جس پر اللہ نے ناپسندیدگی کا اظہار فرمایا؟ اس سلسلے میں ایک تو وہ مشہور واقعہ ہے جو صحیح بخاری و مسلم وغیرہ میں نقل ہوا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہما کے پاس کچھ دیر ٹھہرتے اور وہاں شہد پیتے،حضرت حفصہ اور حضرت عائشہ رضی اللہ عنہما دونوں نے وہاں معمول سے زیادہ دیر تک آپ کو ٹھہرنے سے روکنے کے لیے یہ سکیم تیار کی کہ ان میں سے جس کے پاس بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائیں تو وہ ان سے کہے کہ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے منہ سے مغافیر (ایک قسم کا پھول جس میں گوشت مچھلی کی سی بو ہوتی ہے) کی بو آ رہی ہے۔چنانچہ انھوں نے ایسا ہی کیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں نے تو زینب رضی اللہ عنہما کے گھر صرف شہد پیا ہے،اب میں قسم کھاتا ہوں کہ یہ نہیں پیوں گا،لیکن یہ بات تم کسی کو مت بتلانا۔[403]
بعض احادیث میں آیا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک کنیز (حضرت ماریہ رضی اللہ عنہا ) کو اپنے لیے حرام کر لیا تھا۔[404]
غرض معلوم ہوا کہ اللہ کی حلال کردہ چیز کو حرام کرنے کا اختیار کسی کے پاس بھی نہیں ہے،حتیٰ کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی یہ اختیار نہیں رکھتے۔
سورۃ الانعام (آیت:۱۵۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قُلْ تَعَالَوْا اَتْلُ مَا حَرَّمَ رَبُّکُمْ عَلَیْکُمْ اَلَّا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَوْلَادَکُمْ مِّنْ اِمْلَاقٍ نَحْنُ نَرْزُقُکُمْ وَ اِیَّاھُمْ وَ لَا تَقْرَبُوا الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ لَا تَقْتُلُوا النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ ذٰلِکُمْ وَصّٰکُمْ بِہٖ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ.
’’کہہ دو کہ (لوگو!) آؤ میں تمھیں وہ چیزیں پڑھ کر سناؤں جو تمھارے رب نے تم پر حرام کی ہیں (اُن کی نسبت اُس نے اس طرح ارشاد فرمایا ہے) کہ کسی چیز کو اللہ کا شریک نہ بنانا اور ماں باپ سے (بدسلوکی نہ کرنا بلکہ) سلوک کرتے رہنا اور ناداری (کے اندیشے) سے اپنی اولاد کو قتل نہ کرنا،کیوں کہ تمھیں اور انھیں ہم ہی رزق دیتے ہیں اور بے حیائی کے کام ظاہر ہوں یا پوشیدہ اُن کے پاس نہ جانا اور کسی جان (والے) کو جس کے قتل کو اللہ نے حرام کر دیا ہے قتل نہ کرنا،مگر جائز طور پر (جس کا شریعت حکم دے) ان باتوں کا وہ تمھیں ارشاد فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔‘‘
زمانہ جاہلیت کا یہ فعلِ قبیح قتلِ اولاد آج کل ضبطِ ولادت یا خاندانی منصوبہ بندی کے نام سے پوری دنیا میں زور و شور سے جاری ہے۔اللہ تعالیٰ اس سے محفوظ رکھے۔[405]
قصاص کے طور پر قتل کرنا نہ صرف جائز ہے،بلکہ اگر مقتول کے وارث معاف نہ کریں تو یہ قتل نہایت ضروری ہے۔فرمایا:
’’قصاص میں تمھاری زندگی ہے۔‘‘ [البقرہ:۱۷۹]
سورۃ المائدہ (آیت:۱۰۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَسْئَلُوْا عَنْ اَشْیَآئَ اِنْ تُبْدَلَکُمْ تَسُؤْکُمْ.
’’مومنو! ایسی چیزوں کے بارے میں مت سوال کرو کہ اگر (اُن کی حقیقتیں ) تم پر ظاہر کر دی جائیں تو تمھیں بُری لگیں۔‘‘
یہ ممانعت نزولِ قرآن کے وقت تھی۔خود نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم بھی صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم کو زیادہ سوالات کرنے سے منع کیا کرتے تھے۔[406]
1۔ سورۃ النساء (آیت:۱۷۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ وَ لَا تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ اِلَّا الْحَقَّ اِنَّمَا الْمَسِیْحُ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ رَسُوْلُ اللّٰہِ وَ کَلِمَتُہٗ اَلْقٰھَآ اِلٰی مَرْیَمَ وَ رُوْحٌ مِّنْہُ فَاٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَ رُسُلِہٖ وَ لَا تَقُوْلُوْا ثَلٰثَۃٌ اِنْتَھُوْا خَیْرًا لَّکُمْ اِنَّمَا اللّٰہُ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ سُبْحٰنَہٗٓ اَنْ یَّکُوْنَ لَہٗ وَلَدٌ
لَہٗ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا.
’’اے اہلِ کتاب! اپنے دین (کی بات) میں حد سے نہ بڑھو اور اللہ کے بارے میں حق کے سوا کچھ نہ کہو،مسیح (یعنی) مریم کے بیٹے عیسیٰ (نہ اللہ تھے اور نہ اس کے بیٹے بلکہ) اللہ کے رسول اور اس کا کلمہ تھے جو اُس نے مریم کی طرف بھیجا تھا اور اس کی طرف سے ایک روح تھے،تو اللہ اور اُس کے رسولوں پر ایمان لاؤ اور (یہ) نہ کہو (کہ اللہ) تین ہیں (اس اعتقاد سے) باز آؤ کہ یہ تمھارے حق میں بہتر ہے۔اللہ ہی اکیلا معبود ہے اور اس سے پاک ہے کہ اس کے اولاد ہو،جو کچھ آسمانوں میں اور جو کچھ زمین میں ہے سب اسی کا ہے اور اللہ ہی کارساز کافی ہے۔‘‘
غلو یا حد سے بڑھنے کا مطلب ہے کسی چیز کو حد سے بڑھا دینا،جیسے عیسائیوں نے حضرت عیسی علیہ السلام اور ان کی والدہ کے بارے میں کیا کہ انھیں رسالت و بندگی کے مقام سے اٹھا کر الوہیت کے مقام پر فائز کر دیا اور ان کی اللہ کی طرح عبادت کرنے لگے۔اسی طرح حضرت عیسی علیہ السلام کے پیروکاروں کو بھی غلو کا مظاہرہ کرتے ہوئے معصوم بنا ڈالا اور ان کو حرام و حلال کے اختیار سے نواز دیا۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے:
.اِتَّخَذُوْٓا اَحْبَارَھُمْ وَ رُھْبَانَھُمْ اَرْبَابًا مِّنْ دُوْنِ اللّٰہِ.[التوبۃ:۳۱]
’’انھوں نے اپنے علما اور اور درویشوں کو اللہ کے سوا رب بنا لیا۔‘‘
یہ رب بنانا حدیث کے مطابق ان کے حلال کیے کو حلال اور حرام کیے کو حرام سمجھنا ہے۔دراں حالیکہ یہ اختیار صرف اللہ کو حاصل ہے،لیکن اہلِ کتاب نے یہ حق بھی اپنے علما و غیرہ کو دے دیا۔اللہ تعالیٰ نے اس آیت میں اہلِ کتاب کو دین میں اسی غلو سے منع فرمایا ہے۔نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی عیسائیوں کے اس غلو کے پیشِ نظر اپنے بارے میں اپنی امت کو متنبہ فرمایا:
(( لَا تُطْرُوْنِيْ کَمَا أَطْرَتِ النَّصَاریٰ عِیْسیٰ ابْنَ مَرْیَم،فَاِنَّمَا أَنَا عَبْدُہٗ،فَقُوْلوْا:عَبْدُ اللّٰہِ وَرَسُوْلُہٗ ) [407]
’’تم مجھے اس طرح حد سے نہ بڑھانا،جس طرح عیسایوں نے عیسی ابن مریم( علیہما السلام ) کو بڑھایا،میں تو صرف اللہ کا بندہ ہوں،پس تم مجھے اس کا بندہ اور رسول ہی کہنا۔‘‘
لیکن افسوس امتِ محمدیہ اس کے باوجود بھی اس غلو سے محفوظ نہ رہ سکی،جس میں عیسائی مبتلا ہوئے اور امتِ محمدیہ نے بھی اپنے پیغمبر کو بلکہ نیک بندوں تک کو الٰہی صفات سے متصف ٹھہرا دیا،جو دراصل عیسائیوں کا وتیرہ تھا۔اسی طرح علما و فقہا کو دین کا شارح اور مفسر ماننے کے بجائے،ان کو شارع (شریعت سازی کا اختیار رکھنے والے) بنا دیا۔فَإِنَّا لِلّٰہِ وَإِنَّا إِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ۔
سچ فرمایا نبیِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے:
(( لَتَتَّبِعَنَّ سَنَنَ مَنْ کَانَ قَبْلَکُمْ شِبْراً بِشِبْرٍ أَوْ ذِرَاعًا بِذِرَاعٍ۔۔)
’’تم بالشت بہ بالشت اور ہاتھ بہ ہاتھ ضرور پچھلی امتوں کی مکمل پیروی کرو گے۔‘‘[408]
حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے کلمۃ اللہ ہونے کا مطلب یہ ہے کہ لفظ ’’کُن‘‘ سے باپ کے بغیر ان کی تخلیق ہوئی یہ لفظ حضرت جبرائیل علیہ السلام کے ذریعے سے حضرت مریم علیہا السلام تک پہنچایا گیا۔روحُ اللہ کامطلب وہ نفخہ (پھونک) ہے،جو حضرت جبرائیل علیہ السلام نے اللہ کے حکم سے حضرت مریم علیہا السلام کے گریبان میں پھونکا،جسے اللہ تعالیٰ نے باپ کے نطفے کے قائم مقام کر دیا۔یوں حضرت عیسیٰ علیہ السلام اللہ کا کلمہ بھی ہیں جو فرشتے نے حضرت مریم علیہا السلام کی طرف ڈالا اور اس کی وہ روح ہیں،جسے لے کر حضرت جبرائیل علیہ السلام حضرت مریم علیہا السلام کی طرف بھیجے گئے۔[409]
عیسائیوں کے کئی فرقے ہیں۔بعض حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو اللہ اور بعض اللہ کا شریک اور بعض اللہ کا بیٹا مانتے ہیں۔پھر جو اللہ مانتے ہیں،وہ (تین الٰہوں ) کے اور حضرت عیسیٰ علیہ السلام کے ثالث ثلاثہ (تین میں سے ایک) ہونے کے قائل ہیں۔اللہ تعالیٰ فرما رہا ہے کہ تین الٰہ کہنے سے باز آجائو،اللہ تعالیٰ ایک ہی ہے۔
سورۃ المائدہ (آیت:۷۷) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.قُلْ یٰٓاَھْلَ الْکِتٰبِ لَا تَغْلُوْا فِیْ دِیْنِکُمْ غَیْرَ الْحَقِّ وَ لَا تَتَّبِعُوْٓا اَھْوَآئَ قَوْمٍ قَدْ ضَلُّوْا مِنْ قَبْلُ وَ اَضَلُّوْا کَثِیْرًا وَّ ضَلُّوْا عَنْ سَوَآئِ السَّبِیْلِ.
’’کہو کہ اے اہلِ کتاب! اپنے دین (کی بات) میں ناحق مبالغہ نہ کرو اور ایسے لوگوں کی خواہش کے پیچھے نہ چلو جو (خود بھی) پہلے گمراہ ہوئے اور دوسروں کو بھی اکثر گمراہ کر گئے اور سیدھے راستے سے بھٹک گئے۔‘‘
یعنی اتباعِ حق میں حد سے تجاور نہ کرو اور جن کی تعظیم کا حکم دیا گیا ہے،اس میں مبالغہ کرکے انھیں منصبِ نبوت سے اٹھا کر مقامِ الوہیت پر فائز مت کرو،جیسے حضرت مسیح علیہ السلام کے معاملے میں تم نے کیا۔غلو ہر دور میں شرک اور گمراہی کا سب سے بڑا ذریعہ رہا ہے۔انسان کو جس سے عقیدت اور محبت ہوتی ہے،وہ اس کی شان میں خوب مبالغہ کرتا ہے۔وہ امام اور دینی قائد ہے تو اس کو پیغمبر کی طرح معصوم سمجھنا اور پیغمبر کو الٰہی صفات سے متصف ماننا عام بات ہے،بدقسمتی سے مسلمان بھی اس غلو سے محفوظ نہیں رہ سکے۔
3۔ سورۃ الجاثیہ (آیت:۱۸) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.ثُمَّ جَعَلْنٰکَ عَلٰی شَرِیْعَۃٍ مِّنَ الْاَمْرِ فَاتَّبِعْھَا وَلاَ تَتَّبِعْ اَھْوَآئَ الَّذِیْنَ لاَ یَعْلَمُوْنَ.
’’پھر ہم نے تم کو دین کے کھلے راستے پر (قائم) کر دیا تو اسی (راستے) پر چلو اور نادانوں کی خواہشوں کے پیچھے نہ چلنا۔‘‘
سورۃ البقرۃ (آیت:۱۹۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ.
’’اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو۔‘‘
اس سے بعض نے ترکِ انفاق، بعض نے ترکِ جہاد اور بعض نے گناہ پر گناہ کیے جانا مراد لیا ہے اور یہ ساری ہی صورتیں ہلاکت کی ہیں۔جہاد چھوڑ دوگے یا جہاد میں اپنا مال صرف کرنے سے گریز کرو گے تو یقینا دشمن قوی ہوگا اور تم کمزور ہوگے،جس کا نتیجہ تباہی ہے۔
سورۃ النور (آیت:۱۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یَعِظُکُمُ اللّٰہُ اَنْ تَعُوْدُوْا لِمِثْلِہٖٓ اَبَدًا اِنْ کُنْتُمْ مُؤْمِنِیْنَ.
’’اللہ تمھیں نصیحت کرتا ہے کہ اگر مومن ہو تو پھر کبھی ایسا (کام) نہ کرنا۔‘‘
سورۃ النور (آیت:۲۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَلاَ یَاْتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُوْلِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُھٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلاَ تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
’’اور جو لوگ تم میں صاحبِ فضل (اور صاحبِ) وسعت ہیں،وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتے داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ پات نہیں دیں گے،ان کو چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں،کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ اللہ تمھیں بخش دے اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘[410]
سورۃ النور (آیت:۲۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَدْخُلُوْا بُیُوتًا غَیْرَ بُیُوتِکُمْ حَتّٰی تَسْتَاْنِسُوا وَتُسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَھْلِھَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ لَعَلَّکُمْ تَذَکَّرُوْنَ.
’’مومنو! اپنے گھروں کے سوا دوسرے (لوگوں کے) گھروں میں گھر والوں سے اجازت لیے اور ان کو سلام کیے بغیر داخل نہ ہوا کرو،یہ تمھارے حق میں بہتر ہے (اور ہم یہ نصیحت اس لیے کرتے ہیں کہ) شاید تم یاد رکھو۔‘‘
یہاں اللہ تعالیٰ گھروں میں داخل ہونے کے آداب بیان فرما رہا ہے،تاکہ مرد و عورت کے درمیان اختلاط نہ ہو،جو عام طور پر زنا اور قذف کا سبب بنتا ہے۔
آیت میں داخل ہونے کی اجازت طلب کرنے کا ذکر پہلے اور سلام کرنے کا ذکر بعد میں ہے،لیکن حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پہلے سلام کرتے اور پھر داخل ہونے کی اجازت طلب کرتے تھے،اسی طرح آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول تھا کہ تین مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم اجازت طلب فرماتے،اگر کوئی جواب نہیں آتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم لوٹ آتے اور یہ بھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادتِ مبارکہ تھی کہ اجازت طلبی کے وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم دروازے کی دائیں یا بائیں جانب کھڑے ہوتے،تاکہ ایک دم سامنا نہ ہو جائے جس سے بے پردگی کا امکان رہتا ہے۔[411]
پھر اگلی ہی آیت (۲۸) میں فرمایا ہے:
.فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فِیْھَآ اَحَدًا فَلاَ تَدْخُلُوْھَا حَتّٰی یُؤْذَنَ لَکُمْ وَاِنْ قِیْلَ لَکُمُ ارْجِعُوْا فَارْجِعُوْا ھُوَ اَزْکٰی لَکُمْ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ.
’’اگر تم گھر میں کسی کو موجود نہ پاؤ تو جب تک تمھیں اجازت نہ دی جائے،اس میں مت داخل ہو اور اگر یہ کہا جائے کہ (اس وقت) لوٹ جاؤ تو لوٹ جایا کرو،یہ تمھارے لیے بڑی پاکیزگی کی بات ہے اور جو کام تم کرتے ہو،اللہ سب جانتا ہے۔‘‘
سورۃ القلم (آیت:۸ تا ۱۳) میں فرمایا:
.فَلاَ تُطِعِ الْمُکَذِّبِیْنَ . وَدُّوْا لَوْ تُدْھِنُ فَیُدْھِنُوْنَ . وَلاَ تُطِعْ کُلَّ حَلَّافٍ مَّھِیْنٍ . ھَمَّازٍ مَّشَّآئٍم بِنَمِیْمٍ . مَّنَّاعٍ لِّلْخَیْرِ مُعْتَدٍ اَثِیْمٍ . عُتُلٍّم بَعْدَ ذٰلِکَ زَنِیْمٍ.
’’تم جھٹلانے والوں کا کہا نہ ماننا۔یہ لوگ چاہتے ہیں کہ تم نرمی ختیار کرو تو یہ بھی نرم ہو جائیں۔اور کسی ایسے شخص کے کہے میں نہ آجانا جو بہت قسمیں کھانے والا ذلیل اوقات ہے۔طعن آمیز اشارے کرنے والا چغلیاں لیے پھرنے والا ہے۔مال میں بخل کرنے والا حد سے بڑھا ہوا بدکار۔سخت خو اور اس کے علاوہ بد ذات ہے۔‘‘
یہ ان کافروں کی اخلاقی پستیوں کا ذکر ہے،جن کی خاطر پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کو خوشامد کرنے سے روکا جا رہا ہے۔
سورۃ المدثر (آیت:۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَلاَ تَمْنُنْ تَسْتَکْثِرُ.
’’اور (اس نیت سے) احسان نہ کرو کہ اس سے زیادہ کے طالب ہو۔‘‘
1۔ سورۃ البقرۃ (آیت:۱۸۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ وَ تُدْلُوْا بِھَآ اِلَی الْحُکَّامِ لِتَاْکُلُوْا فَرِیْقًا مِّنْ اَمْوَالِ النَّاسِ بِالْاِثْمِ وَ اَنْتُمْ تَعْلَمُوْن.
’’اور ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ اور نہ اُس کو (رشوتاً) حاکموں کے پاس پہنچاؤ،تاکہ لوگوں کے مال کا کچھ حصہ ناجائز طور پر کھا جاؤ اور (اسے) تم جانتے بھی ہو۔‘‘
یہ ایسے شخص کے بارے میں ہے،جس کے پاس کسی کا حق ہو،لیکن حق والے کے پاس ثبوت نہ ہو،اس کمزوری سے فائدہ اُٹھا کر وہ عدالت یا حاکمِ مجاز سے اپنے حق میں فیصلہ کروالے اور اس طرح دوسرے کا حق غصب کر لے۔یہ ظلم اور حرام ہے۔عدالت کا فیصلہ ظلم اور حرام کو جائز اور حلال نہیں کر سکتا،یہ ظالم عنداللہ مجرم ہوگا۔[412]
سورۃ النساء (آیت:۲۹) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَکُمْ بَیْنَکُمْ بِالْبَاطِلِ اِلَّآ اَنْ تَکُوْنَ تِجَارَۃً عَنْ تَرَاضٍ مِّنْکُمْ وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ.
’’مومنو! ایک دوسرے کا مال ناحق نہ کھاؤ،ہاں اگر آپس کی رضامندی سے تجارت کا لین دین ہو (اور اس سے مالی فائدہ ہو جائے تو وہ جائز ہے) اور اپنے آپ کو ہلاک نہ کرو۔‘‘
.بِالْبَاطِلِ.میں دھوکا،فریب،جعل سازی اور ملاوٹ کے علاوہ تمام ایسے کاروبار بھی شامل ہیں،جن سے شریعت نے منع کیا ہے،جیسے قمار (جوا) اور سود و رشوت۔اسی طرح ممنوع اور حرام چیزوں کا کاروبار کرنا بھی باطل میں شامل ہے،مثلاً بلا ضرورت فوٹو گرافی،ریڈیو،ٹی وی،وی سی آر،ویڈیو فلموں کا بنانا،بیچنا اور مرمت کرنا وغیرہ سب ناجائز ہے۔
.وَ لَا تَقْتُلُوْٓا اَنْفُسَکُمْ.’’اپنے آپ کو قتل و ہلاک نہ کرو۔‘‘ سے مراد خودکشی بھی ہو سکتی ہے جو کبیرہ گناہ ہے اور ارتکابِ معصیت بھی جو ہلاکت کا باعث ہے اور کسی مسلمان کو قتل کرنا بھی،کیوں کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہے۔اس لیے اس کا قتل بھی ایسا ہی ہے،جیسے اپنے آپ کو قتل کیا۔
سورت آل عمران (آیت:۱۸۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا یَحْسَبَنَّ الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ بِمَآ اٰتٰھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ ھُوَ خَیْرًا لَّھُمْ بَلْ ھُوَ شَرٌّ لَّھُمْ سَیُطَوَّقُوْنَ مَا بَخِلُوْا بِہٖ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ.
’’اُس بخل کو اپنے حق میں اچھا نہ سمجھیں (وہ اچھا نہیں ) بلکہ اُن کے لیے بُرا ہے،وہ جس مال میں بخل کرتے ہیں،قیامت کے دن اس کا طوق بنا کر اُن کی گردنوں میں ڈالا جائے گا۔‘‘
یہاں اس بخیل کا بیان کیا گیا ہے جو اللہ کے دیے ہوئے مال کو اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتا،حتیٰ کہ اس میں سے فرض زکات بھی نہیں نکالتا۔صحیح بخاری کی ایک حدیث میں آتا ہے کہ قیامت والے دن اس کے مال کو ایک زہریلا اور نہایت خوف ناک سانپ بنا کر طوق کی طرح اس کے گلے میں ڈال دیا جائے گا۔وہ سانپ اس کی باچھیں پکڑے گا اور کہے گا کہ میں تیرا مال ہوں ! میں تیرا خزانہ ہوں !‘‘[413]
2۔ سورۃ اللیل (آیت:۸ تا ۱۱) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَاَمَّا مَنْم بَخِلَ وَاسْتَغْنٰی . وَکَذَّبَ بِالْحُسْنٰی . فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْعُسْرٰی . وَمَا یُغْنِیْ عَنْہُ مَالُہٗٓ اِذَا تَرَدّٰی.
’’اور جس نے بخل کیا اور بے پروا بنا رہا۔اور نیک بات کو جھوٹ سمجھا۔اسے سختی میں پہنچائیں گے۔اور جب وہ (دوزخ کے گڑھے میں ) گرے گا تو اس کا مال اس کے کچھ بھی کام نہ آئے گا۔‘
سورۃ الصف (آیت:۲،۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِمَ تَقُوْلُوْنَ مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ . کَبُرَ مَقْتًا عِنْدَ اللّٰہِ اَنْ تَقُوْلُوْا مَا لاَ تَفْعَلُوْنَ.
’’مومنو! تم ایسی باتیں کیوں کہا کرتے ہو،جو کیا نہیں کرتے؟ اللہ اس بات سے سخت بے زار ہے کہ ایسی بات کہو جو کرو نہیں۔‘‘
یہاں ندا اگرچہ عام ہے،لیکن اصل خطاب ان مومنوں سے ہے جو کہہ رہے تھے کہ اللہ کو جو سب سے زیادہ پسند عمل ہیں،وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھنے چاہییں،تاکہ ان پر عمل کیا جا سکے،لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس جاکر پوچھنے کی جراَت کوئی نہیں کر رہا تھا اور جب انھیں وہ عمل بتائے گئے تو وہ سست ہوگئے،اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ سورت نازل فرمائی۔
سورۃ المنافقون (آیت:۹) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُلْھِکُمْ اَمْوَالُکُمْ وَلَآ اَوْلاَدُکُمْ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْخٰسِرُوْنَ.
’’مومنو! تمھارا مال اور اولاد تم کو اللہ کی یاد سے غافل نہ کر دے اور جو ایسا کرے گا تو وہ لوگ خسارہ اٹھانے والے ہیں۔‘‘
یعنی مال اور اولاد کی محبت تم پر غالب نہ آجائے،تاکہ تم اللہ کے بتلائے ہوئے احکام و فرا ئض سے غافل نہ ہو جائو۔
اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ بہ کثرت اللہ کا ذکر کریں اور تنبیہ کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ مال و اولاد کی محبت میں پھنس کر اللہ (کے احکام و فرائض) سے غافل ہو جاؤ (اور حلال و حرام کی پروا نہ کرو) پھر فرماتا ہے کہ جو اللہ کے ذکر سے غافل ہو جائے،دنیا کی زینت میں محو ہو جائے اور اپنے رب کی عبادت میں سُست پڑ جائے وہ اپنا نقصان آپ کرنے والا ہے۔[414]
سورۃ التغابن (آیت:۱۴،۱۵) میں فرمایا ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنَّ مِنْ اَزْوَاجِکُمْ وَاَوْلاَدِکُمْ عَدُوًّا لَّکُمْ فَاحْذَرُوْھُمْ وَاِنْ تَعْفُوْا وَتَصْفَحُوْا وَتَغْفِرُوْا فَاِنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ . اِنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَاَوْلاَدُکُمْ فِتْنَۃٌ وَاللّٰہُ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ.
’’مومنو! تمھاری عورتوں اور اولاد میں سے بعض تمھارے دشمن (بھی) ہیں،سو ان سے بچتے رہو اور اگر معاف کر دو اور درگزر کرو اور بخش دو تو اللہ بھی بخشنے والا مہربان ہے۔تمھارا مال اور تمھاری اولاد تو آزمایش ہے اور اللہ کے ہاں بڑا اجر ہے۔‘‘
1۔ سورۃ النساء (آیت:۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰٓی اَمْوَالَھُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓی اَمْوَالِکُمْ اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًا کَبِیْرًا.
’’اور یتیموں کا مال (جو تمھاری تحویل میں ہو) اُن کے حوالے کردو اور اُن کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) بُرے مال سے نہ بدلو اور نہ اُن کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے۔‘‘
یتیم جب بالغ اور باشعور ہو جائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کر دو،’’خبیث‘‘ سے گھٹیا چیزیں اور ’’طیب‘‘ سے عمدہ چیزیں مراد ہیں،یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لیے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں رکھ دو۔بدلایا گیا مال اگرچہ اصل میں طیب (پاک اور حلال) ہے،لیکن تمھاری اس بددیانتی نے اس میں خباثت داخل کر دی اور وہ اب طیب نہیں رہا،بلکہ تمھارے حق میں وہ خبیث (ناپاک اور حرام) ہوگیا ہے۔اسی طرح بددیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھانا بھی ممنو ع ہے،لیکن اگر مقصد خیر خواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔
2۔ سورۃ النساء (آیت:۶) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰی۔ٓ اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ وَ لَا تَاْکُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا وَ مَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَ مَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْھِدُوْا عَلَیْھِمْ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا.
’’اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو،پھر (بالغ ہونے پر) اگر اُن میں عقل کی پختگی دیکھو تو اُن کا مال اُن کے حوالے کر دو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی میں اور جلدی میں نہ اڑا دینا،جو شخص آسودہ حال ہو اُس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز کرنا چاہیے اور جو بے مقدور ہو،وہ مناسب طور پر (بقدرِ خدمت) کچھ لے لے اور جب اُن کا مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کر لیا کرو اور حقیقت میں تو اللہ ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔‘‘
یہاں اتلافِ مال (مال کے ضائع کرنے) سے روکا جا رہا ہے اور اس میں یتیم کا مال سب سے زیادہ اہم ہے،اس لیے فرمایا کہ یتیم کے بالغ ہونے تک اس کے مال کو ایسے طریقے سے استعمال کرو،جس میں اس کا فائدہ ہو۔یہ نہ ہو کہ سوچے سمجھے بغیر ایسے کاروبار میں لگا دو کہ وہ ضائع یا خسارے سے دو چار ہو جائے یا عمرِ شعور سے پہلے تم اسے اڑا ڈالو۔
3۔ سورۃ النساء (آیت:۱۰) میں فرمایا:
.اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا.
’’جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھاتے ہیں،وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔‘‘
4،5۔ سورۃ الانعام (آیت:۱۵۲) اور سورت بنی اسرائیل (آیت:۳۴) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغُ اَشُدَّہٗ.
’’اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ پھٹکنا،مگر ایسے طریق سے کہ بہت بہتر ہو،یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔‘‘
سورۃ النساء (آیت:۵،۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَھَآئَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَ اکْسُوْھُمْ وَ قُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا . وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰی۔ٓ اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ وَ لَا تَاْکُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا وَ مَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَ مَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْھِدُوْا عَلَیْھِمْ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا.
’’اور بے عقلوں کو اُن کا مال جسے اللہ نے تم لوگوں کے لیے سبب معیشت بنایا ہے،مت دو (ہاں ) اس میں سے اُن کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور اُن سے معقول باتیں کہتے رہو۔اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو،پھر (بالغ ہونے پر) اگر اُن میں عقل کی پختگی دیکھو تو اُن کا مال اُن کے حوالے کر دو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (اور اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی میں اور جلدی میں نہ اڑا دینا،جو شخص آسودہ حال ہو،اُس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز کرنا چاہیے اور جو بے مقدور ہو،وہ مناسب طور پر (یعنی بقدرِ خدمت) کچھ لے لے اور جب اُن کا مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کر لیا کرو اور حقیقت میں تو اللہ ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔‘‘
یتیموں کے مال کے بارے میں ضروری ہدایات دینے کے بعد یہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ وہ جب تک تمھارے پاس رہا،تم نے اس کی کس طرح حفاظت کی اور جب مال ان کے سپرد کیا تو اس میں کوئی کمی بیشی یا کسی قسم کی تبدیلی کی یا نہیں۔عام لوگوں کو تو تمھاری امانت داری یا خیانت کا شاید پتا نہ چلے،لیکن اللہ تعالیٰ سے توکوئی چیز چھپی نہیں۔اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابو ذر رضی اللہ عنہ سے مخاطب ہوکر فرمایا تھا کہ یہ بہت ذمے داری کا کام ہے۔[415]
سورۃ الانعام (آیت:۱۵۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَقْرَبُوْا مَالَ الْیَتِیْمِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ حَتّٰی یَبْلُغُ اَشُدَّہٗ.
’’اور یتیم کے مال کے پاس بھی نہ جانا مگر ایسے طریق سے کہ بہت ہی پسندیدہ ہو،یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائے۔‘‘
سورۃ المطففین (آیت:۳۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَاِذَا مَرُّوْا بِھِمْ یَتَغَامَزُوْنَ.
’’جو گناہ گار (کفار) ہیں وہ (دنیا میں ) مومنوں سے ہنسی کیا کرتے تھے۔‘‘
سورۃ البروج (آیت:۱۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّ الَّذِیْنَ فَتَنُوْا الْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ لَمْ یَتُوْبُوْا فَلَھُمْ عَذَابُ جَھَنَّمَ وَلَھُمْ عَذَابُ الْحَرِیقِ.
’’جن لوگوں نے مومن مَردوں اور مومن عورتوں کو تکلیفیں دیں اور توبہ نہ کی تو ان کو دوزخ کا عذاب ہو گا اور جلنے کاعذاب بھی ہو گا۔‘‘
اسلام کے نام پر جلسے جلوس، نقصان کرنا گناہ ہے-
سورۃ الفجر (آیت:۱۵ تا ۲۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰـہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ . وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیٓ اَھَانَنِ . کَلَّا بَلْ لاَ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ . وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ . وَتَاْکُلُوْنَ التُّرَاثَ اَکْلًا لَّمًّا . وَّتُحِبُّوْنَ الْمَالَ حُبًّا جَمًّا.
’’مگر انسان (عجیب مخلوق ہے کہ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے کہ اسے عزت دیتا اور نعمت بخشتا ہے تو کہتا ہے کہ (آہا) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی۔اور جب (دوسری طرح) آزماتا ہے کہ اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو کہتا ہے کہ (ہائے) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا۔اور نہیں ! بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر نہیں کرتے۔اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے کی ترغیب دیتے ہو۔اور میراث کے مال کو سمیٹ کرکھا جاتے ہو۔اور مال کو بہت ہی عزیز رکھتے ہو۔‘‘
سورۃ الضحٰی (آیت:۹،۱۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاَمَّا الْیَتِیْمَ فَلاَ تَقْھَرْ . وَاَمَّا السَّآئِلَ فَلاَ تَنْھَرْ.
’’تم بھی یتیم پر ستم نہ کرنا۔اور مانگنے والے کو جھڑکی نہ دینا۔‘‘
بلکہ اس کے ساتھ نرمی و احسان کا معاملہ کرو۔اس سے سختی اور تکبر نہ کرو،نہ درشت اور تلخ لہجہ اختیار کرو۔بلکہ جواب بھی دینا ہو تو پیار اور محبت سے دو۔
سورۃ الہمزہ (آیت:۱،۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَیْلٌ لِّکُلِّ ھُمَزَۃٍ لُّمَزَۃِنِ الَّذِیْ جَمَعَ مَالًا وَّعَدَّدَہٗ.
’’ہر طعن آمیز اشارے کرنے والے چغل خور کی خرابی ہے۔جو مال جمع کرتا اور اس کو گِن گِن کر رکھتا ہے۔‘‘
سورۃ الاعراف (آیت:۳۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قُلْ اِنَّمَا حَرَّمَ رَبِّیَ الْفَوَاحِشَ مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَ مَا بَطَنَ وَ الْاِثْمَ وَ الْبَغْیَ بِغَیْرِ الْحَقِّ وَ اَنْ تُشْرِکُوْا بِاللّٰہِ مَا لَمْ یُنَزِّلْ بِہٖ سُلْطٰنًا وَّ اَنْ تَقُوْلُوْا عَلَی اللّٰہِ مَا لَا تَعْلَمُوْنَ.
’’کہہ دو کہ میرے رب نے تو بے حیائی کی باتوں کو ظاہر ہوں یا پوشیدہ اور گناہ کو اور ناحق زیادتی کرنے کو حرام کیا ہے اور اس کو بھی کہ تم کسی کو اللہ کا شریک بناؤ،جس کی اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور اس کو بھی کہ اللہ کے بارے میں ایسی باتیں کہو جن کا تمھیں کچھ علم نہیں۔‘‘
ظاہر و علانیہ فحش باتوں سے مراد بعض کے نزدیک طوائفوں کے اڈے پر جاکر بدکاری کرنا اور پوشیدہ سے مراد کسی گرل فرینڈ سے تعلق پیدا کرنا ہے۔بعض کے نزدیک اول الذکر سے مراد محرموں سے نکاح کرنا ہے جو ممنوع ہے۔اس میں ہر قسم کی ظاہری بے حیائی شامل ہے،جیسے فلمیں،ڈرامے،ٹی وی،وی سی آر،فحش اخبارات و رسائل،رقص و سرود اور مجروں کی محفلیں،عورتوں کی بے پردگی اور مردوں سے ان کا بے باکانہ اختلاط،منہدی اور شادی کی رسموں میں بے حیائی کے کھلے عام مظاہر وغیرہ یہ سب فواحشِ ظاہرہ ہیں۔جبکہ گناہ اللہ کی نافرمانی کا نام ہے۔ایک حدیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’گناہ وہ ہے جو سینے میں کھٹکے اور لوگوں کے اس پر مطلع ہونے کو بُرا سمجھے۔‘‘[416]
’’بغی‘‘ یہ ہے کہ اس کے اثرات دوسروں تک بھی پہنچیں،جیسے کسی کو مارنا پیٹنا اور مال چھیننا وغیرہ۔
1۔ سورۃ الاعراف (آیت:۵۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا.
’’اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرنا۔‘‘
یہی حکم آیت (۷۴) اور (۸۵) میں بھی فرمایا گیاہے۔
2۔ چنانچہ (آیت:۷۴) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ لَا تَعْثَوْا فِی الْاَرْضِ مُفْسِدِیْنَ.’’اور زمین میں فساد نہ کرتے پھرو۔‘‘
3۔ آیت (۸۵) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ لَا تُفْسِدُوْا فِی الْاَرْضِ بَعْدَ اِصْلَاحِھَا ذٰلِکُمْ خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.
’’اور زمین میں اصلاح کے بعد خرابی نہ کرو،اگر تم صاحبِ ایمان ہو تو سمجھ لو کہ یہ بات تمھارے حق میں بہتر ہے۔‘‘
سورۃ الانفال (آیت:۴۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ خَرَجُوْا مِنْ دِیَارِھِمْ بَطَرًا وَّ رِئَآئَ النَّاسِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ بِمَا یَعْمَلُوْنَ مُحِیْطٌ.
’’اور ان لوگوں جیسے نہ ہوناجو اِتراتے ہوئے (حق کا مقابلہ کرنے کے لیے) اور لوگوں کو دکھانے کے لیے گھروں سے نکل آئے اور لوگوں کو اللہ کی راہ سے روکتے ہیں اور جو یہ اعمال کرتے ہیں،اللہ ان پر احاطہ کیے ہوئے ہے۔‘‘
مشرکینِ مکہ جب اپنے قافلے کی حفاظت اور لڑائی کی نیت سے نکلے تو بڑے اِتراتے اور فخر و غرور کرتے ہوئے نکلے۔مسلمانوں کو اس کافرانہ شیوے سے روکا گیا ہے۔
سورت بنی اسرائیل (آیت:۳۷) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّکَ لَنْ تَخْرِقَ الْاَرْضَ وَ لَنْ تَبْلُغَ الْجِبَالَ طُوْلًا.
’’اور زمین پر اکڑ کر ( تن کر) مت چل کہ تو زمین کو پھاڑ تو نہیں ڈالے گا اور نہ لمبا ہو کر پہاڑوں (کی چوٹی) تک پہنچ جائے گا۔‘‘
غرض کہ اِترا کر اور اکڑ کر چلنا اللہ تعالیٰ کو سخت نا پسند ہے۔قارون کو اسی بنا پر اس کے گھر اور خزانوں سمیت زمین میں دھنسا دیا گیا۔[القصص:۸۱]
سورت لقمان (آیت:۱۸) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ لَا تُصَعِّرْ خَدَّکَ لِلنَّاسِ وَ لَا تَمْشِ فِی الْاَرْضِ مَرَحًا اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرٍ.
’’اور (ازراہِ غرور) لوگوں سے گال نہ پھلانا اور زمین میں اکڑ کر نہ چلنا کہ اللہ کسی اِترانے والے خود پسند کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
سورۃ القصص (آیت:۷۶) میں فرمان الٰہی ہے:
.اِنَّ قَارُوْنَ کَانَ مِنْ قَوْمِ مُوْسٰی فَبَغٰی عَلَیْھِمْ وَ اٰتَیْنٰہُ مِنَ الْکُنُوْزِ مَآ اِنَّ مَفَاتِحَہٗ لَتَنُؤٓاُ بِالْعُصْبَۃِ اُولِی الْقُوَّۃِ اِذْ قَالَ لَہٗ قَوْمُہٗ لَا تَفْرَحْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْفَرِحِیْنَ.
’’قارون موسیٰ کی قوم میں سے تھا اور ان پر ظلم کرتا تھا اور ہم نے اُس کو اتنے خزانے دیے تھے کہ اُن کی کنجیاں ایک طاقتور جماعت کو اٹھانی مشکل ہوتیں،جب اُس سے اُس کی قوم نے کہا کہ اِتراؤ مت کہ اللہ اِترانے والوں کو پسند نہیں کرتا۔‘‘
سورت یونس (آیت:۱۲) میں فرمایا:
.وَ اِذَا مَسَّ الْاِنْسَانَ الضُّرُّ دَعَانَا لِجَنْبِہٖٓ۔م اَوْ قَاعِدًا اَوْ قَآئِمًا فَلَمَّا کَشَفْنَا عَنْہُ ضُرَّہٗ مَرَّکَاَنْ لَّمْ یَدْعُنَآ اِلٰی ضُرٍّ مَّسَّہٗ کَذٰلِکَ زُیِّنَ لِلْمُسْرِفِیْنَ مَا کَانُوْا یَعْمَلُوْنَ.
’’اور جب انسان کو تکلیف پہنچتی ہے تو لیٹا اور بیٹھا اور کھڑا (ہرحال میں ) ہمیں پکارتا ہے،پھر جب ہم اس تکلیف کو اس سے دُور کر دیتے ہیں تو (بے لحاظ ہو جاتا اور) اس طرح گزر جاتا ہے،گویا کسی تکلیف کے پہنچنے پر ہمیں کبھی پکارا ہی نہ تھا،اسی طرح حد سے نکل جانے والوں کو اُن کے اعمال آراستہ کر کے دکھائے گئے ہیں۔‘
قرآن نے اسلامی ریاست[417] اور حکومت کے بنیادی اصول مقرر کر دیے ہیں[418]، ان اصولوں پرعمل درآمد کے بغیر صرف "اسلامی" کہنے سے کوئی ریاست "اسلامی"نہیں بن جاتی :
دین اسلام کو نافذ کرنا اسلامی حکومت کی اہم ذمہ داری ہے،" اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ " اس کا اہم جزو ہے ، اللہ کا فرمان ہے:
اَ لَّذِيۡنَ اِنۡ مَّكَّنّٰهُمۡ فِى الۡاَرۡضِ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَاٰتَوُا الزَّكٰوةَ وَاَمَرُوۡا بِالۡمَعۡرُوۡفِ وَنَهَوۡا عَنِ الۡمُنۡكَرِ ؕ وَلِلّٰهِ عَاقِبَةُ الۡاُمُوۡرِ (الحج 22:41)
"یہ وہ لوگ ہیں جنہیں اگر ہم زمین میں اقتدار بخشیں تو وہ نماز قائم کریں گے، زکوٰة دیں گے، معرُوف کا حکم دیں گے اور مُنکَر سے منع کریں گے۔ اور تمام معاملات کا انجامِ کار اللہ کے ہاتھ میں ہے۔"( الحج (22:41)
علماء کرام، مدارس اور مسلمانوں کواس سلسلہ میں حکومت سے مکمل تعاون کرن چاہیے تاکہ اعلی میعار کا بنودبست کیا جا سکے-[419]
1.اللہ کی حاکمیت (3:189)
2. الله کا قانون (5:44,45,46,47)
3.مشاورت (42:38)
4.حکمرانوں کے فرائض (3:110) (22:41)
5.نظام مملکت سے دیانت داری (8:27)
6.امانتیں امانت داروں کو اور انصاف (4:58)
7. حاکم وقت کی اطاعت کا حکم (4:59)
8. اطاعت حاکم کی حد (76:24)
9.آمریت کی نفی (3:79)
10.دوسرے نظاموں کی نفی (25:43, 45:24)
11.بری قیادت کی پیروی کا انجام (11:98)
قرآن کا قانون اور حدود جرائم اور سزائیں >>>>>>
لَّيْسَ الْبِرَّ أَن تُوَلُّوا وُجُوهَكُمْ قِبَلَ الْمَشْرِقِ وَالْمَغْرِبِ وَلَٰكِنَّ الْبِرَّ مَنْ آمَنَ بِاللَّهِ وَالْيَوْمِ الْآخِرِ وَالْمَلَائِكَةِ وَالْكِتَابِ وَالنَّبِيِّينَ وَآتَى الْمَالَ عَلَىٰ حُبِّهِ ذَوِي الْقُرْبَىٰ وَالْيَتَامَىٰ وَالْمَسَاكِينَ وَابْنَ السَّبِيلِ وَالسَّائِلِينَ وَفِي الرِّقَابِ وَأَقَامَ الصَّلَاةَ وَآتَى الزَّكَاةَ وَالْمُوفُونَ بِعَهْدِهِمْ إِذَا عَاهَدُوا ۖ وَالصَّابِرِينَ فِي الْبَأْسَاءِ وَالضَّرَّاءِ وَحِينَ الْبَأْسِ ۗ أُولَٰئِكَ الَّذِينَ صَدَقُوا ۖ وَأُولَٰئِكَ هُمُ الْمُتَّقُونَ ((2:177[420]
"نیکی یہ نہیں ہے کہ تم نے اپنے چہرے مشرق کی طرف کر لیے یا مغرب کی طرف، بلکہ نیکی یہ ہے کہ آدمی اللہ کو اور یوم آخر اور ملائکہ کو اور اللہ کی نازل کی ہوئی کتاب اور اس کے پیغمبروں کو دل سے مانے اور اللہ کی محبت میں اپنا دل پسند مال رشتے داروں اور یتیموں پر، مسکینوں او رمسافروں پر، مدد کے لیے ہاتھ پھیلانے والوں پر اور غلامو ں کی رہائی پر خرچ کرے، نماز قائم کرے اور زکوٰۃ دے اور نیک وہ لوگ ہیں کہ جب عہد کریں تو اُسے وفا کریں، اور تنگی و مصیبت کے وقت میں اور حق و باطل کی جنگ میں صبر کریں یہ ہیں راستباز لوگ اور یہی لوگ متقی ہیں (2:177)
2۔ .یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَ اَوْفُوْا بِعَھْدِیْٓ اُوْفِ بِعَھْدِکُمْ وَ اِیَّایَ فَارْھَبُوْنِ.
’’اے [421]آلِ یعقوب! میرے وہ احسانات یاد کرو جو میں نے تم پر کیے تھے اور اُس اقرار کو پورا کرو جو تم نے مجھ سے کیا تھا،میں اُس اقرار کو پورا کروں گا جو میں نے تم سے کیا تھا اور مجھ ہی سے ڈرتے رہو۔‘‘(سورۃ البقرۃ 2:40)[422]
یہاں بہ ظاہر حکم تو بنی اسرائیل (آل یعقوب) کو ہو رہا ہے،مگر دراصل تمام مسلمانوں کے لیے بھی حکم الٰہی ہے، جیسا کہ قرآن و سنت کی بہ کثرت نصوص سے پتا چلتا ہے۔
3۔ .یٰبَنِیْٓ اِسْرَآئِ یْلَ اذْکُرُوْا نِعْمَتِیَ الَّتِیْٓ اَنْعَمْتُ عَلَیْکُمْ وَ اَنِّیْ فَضَّلْتُکُمْ عَلَی الْعٰلَمِیْنَ وَ اتَّقُوْا یَوْمًا لَّا تَجْزِیْ نَفْسٌ عَنْ نَّفْسٍ شَیْئًا وَّ لاَ یُقْبَلُ مِنْھَا شَفَاعَۃٌ وَّ لاَ یُؤْخَذُ مِنْھَا عَدْلٌ وَّ لاَ ھُمْ یُنْصَرُوْنَ. (2:47,48)[423]
’’اے یعقوب کی اولاد! میرے وہ احسان یاد کرو جو میں نے تم پر کیے تھے اور یہ کہ میں نے تمھیں تمام جہان کے لوگوں پر فضیلت بخشی تھی۔اور اس دن سے ڈرو جب کوئی کسی کے کچھ کام نہ آئے گا اور نہ کسی کی سفارش منظور کی جائے اور نہ کسی سے کسی طرح کا بدلہ قبول کیا جائے اور نہ لوگ (کسی اور طرح) مدد حاصل کر سکیں گے۔‘‘
یہاں پر دوبارہ بنی اسرائیل کو وہ انعامات یاد کرائے جا رہے ہیں،جو ان پر کیے گئے اور ان کوقیامت کے دن سے ڈرایا جا رہا ہے،جس دن کوئی کسی کے کام آئے گا نہ سفارش قبول ہوگی،نہ معاوضہ دے کر چھٹکارا ہو سکے گا اورنہ کوئی مددگار آگے آئے گا۔
4 .وَ اذْکُرْ فِی الْکِتٰبِ اِسْمٰعِیْلَ اِنَّہٗ کَانَ صَادِقَ الْوَعْدِوَ کَانَ رَسُوْلًا نَّبِیًّا. [سورت مریم 18:54][424]
’’اور کتاب میں اسماعیل کا بھی ذکر کرو،وہ وعدے کے سچے اور (ہمارے) بھیجے ہوئے نبی تھے۔‘‘
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِمَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ یَوْمٌ لَّا بَیْعٌ فِیْہِ وَ لَا خُلَّۃٌ وَّ لَا شَفَاعَۃٌ وَ الْکٰفِرُوْنَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ . [سورۃ البقرۃ (آیت:۲۵۴)]
’’اے ایمان والو! جو (مال) ہم نے تمھیں دیا ہے،اُس میں سے اُس دن کے آنے سے پہلے پہلے خرچ کر لو،جس میں نہ (اعمال کا) سودا ہو اور نہ دوستی اور نہ سفارش ہو سکے اور کفر کرنے والے لوگ ظالم ہیں۔‘‘
یہود و انصاریٰ اور کفار و مشرکین اپنے اپنے پیشوائوں،نبیوں،ولیوں،بزرگوں اور مرشدوں کے بارے میں یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ پر ان کا اتنا اثر ہے کہ وہ اپنی شخصیت کے دبائو سے اپنے پیروکاروں کے بارے میں جو بات چاہیں اللہ سے منوا سکتے ہیں اور منوا لیتے ہیں۔اسی کو وہ شفاعت کہتے ہیں۔یعنی ان کا عقیدہ تقریباً وہ ہی تھا جو آج کل کے جاہلوں کا ہے۔
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ .[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۶۷)]
’’مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور جو چیزیں ہم تمھارے لیے زمین سے نکالتے ہیں،اُن میں سے (اللہ کی راہ میں ) خرچ کرو اور بُری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ اگر وہ چیزیں تمھیں دی جائیں تو بجز اس کے کہ (لیتے وقت) آنکھیں بند کر لو،اُن کو کبھی نہ لو اور جان رکھو کہ اللہ بے پروا اور قابل ستایش ہے۔‘‘
صدقے کی قبولیت کے لیے جس طرح ضروری ہے کہ ریاکاری سے پاک ہو،اسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو،چاہے وہ کاروبار (تجارت و صنعت ) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے،نیز یہ فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو۔خبیث سے ایک تو وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں،اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتا۔دوسرے خبیث کے معنیٰ ردی اور نکمی چیز کے ہیں،وہ بھی اللہ کی راہ میں خرچ نہ کی جائیں۔
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۷۵ تا ۲۷۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اَلَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا کَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُہُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّ ذٰلِکَ بِاَنَّھُمْ قَالُوْٓا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰوا وَ اَحَلَّ اللّٰہُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰوا فَمَنْ جَآئَہٗ مَوْعِظَۃٌ مِّنْ رَّبِّہٖ فَانْتَھٰی فَلَہٗ مَا سَلَفَ وَ اَمْرُہٗٓ اِلَی اللّٰہِ وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓئِکَ اَصْحٰبُ النَّارِ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ . یَمْحَقُ اللّٰہُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِ وَ اللّٰہُ لَا یُحِبُّ کُلَّ کَفَّارٍ اَثِیْمٍ . اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتَوُا الزَّکٰوۃَ لَھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ.
’’حالانکہ تجارت کو اللہ نے حلال کیا ہے اور سود کو حرام۔تو جس شخص کے پاس اللہ کی نصیحت پہنچی اور وہ (سود لینے سے) باز آگیا تو جو پہلے ہو چکا وہ اُس کا اور (قیامت میں ) اُس کا معاملہ اللہ کے سپرد۔اور جو پھر لینے لگا تو ایسے لوگ دوزخی ہیں کہ ہمیشہ دوزخ میں (جلتے) رہیں گے۔اللہ سود کو نابود (بے برکت) کرتا اور خیرات (کی برکت)کو بڑھاتا ہے اور اللہ کسی ناشکرے گناہ گار کو دوست نہیں رکھتاہے۔جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کرتے اور نماز پڑھتے اور زکات دیتے رہے،اُن کو اُن کے کاموں کا صلہ اللہ کے ہاں ملے گا اور (قیامت کے دن) اُن کو کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۷۸،۲۷۹) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰٓوا اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ . فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَکُمْ رُئُ وْسُ اَمْوَالِکُمْ لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ.
’’مومنو! اللہ سے ڈرو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو جتنا سُود باقی رہ گیا ہے،اُس کو چھوڑ دو،اگر ایسا نہ کرو گے تو خبردار ہو جاؤ (اور تم) اللہ اور رسول سے جنگ کرنے کے لیے (تیار ہوجاؤ) اور اگر توبہ کر لو گے (اور سود چھوڑ دو گے) تو تم کو اپنی اصل رقم لینے کا حق ہے،جس میں نہ دوسروں کا نقصان ہو اور نہ تمھارا نقصان۔‘‘
اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے جنگ ایسی سخت وعید ہے جو دوسری کسی معصیت کے ارتکاب پر نہیں دی گئی۔اس لیے حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ اسلامی مملکت میں جو شخص سود چھوڑنے پر تیار نہ ہو تو خلیفۂ وقت کی ذمے داری ہے کہ وہ اس سے توبہ کرائے اور باز نہ آنے کی صورت میں اس کی گردن اڑا دے۔[425]
سورہ آل عمران (آیت:۱۳۰) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً وَاتَّقُوا اللّٰہَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.
’’اے ایمان والو! دُگنا چوگنا یا بڑھا چڑھا کر سود نہ کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تاکہ نجات حاصل کرو۔‘‘
چونکہ غزوۂ اُحد میں ناکامی رسول اﷲ صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی اور مالِ دنیا کے لا لچ کے سبب ہوئی تھی،اس لیے اب طمعِ دنیا کی سب سے زیادہ بھیانک اور مستقل شکل ’’سود‘‘ سے منع کیا جا رہا ہے اور اطاعت کی تاکید کی جا رہی ہے۔’’بڑھا چڑھا کر سود نہ کھائو‘‘ کا یہ مطلب نہیں کہ بڑھا چڑھا کر نہ ہو تو سود جائزہے،بلکہ سود کم ہو یا زیادہ مفرد ہو یا مرکب مطلقاً حرام ہے۔اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ اللہ سے ڈرو اور اس آگ سے ڈرو،جو کافروں کے لیے تیار کی گئی ہے،جس سے تنبیہ بھی مقصود ہے کہ سود خوری سے باز نہ آئے تویہ فعل تمھیں کفر تک پہنچا سکتا ہے۔سود کھانے میں تمھارا بھلا نہیں بلکہ اللہ سے ڈر کر سود چھوڑ دینے میں تمھارا بھلا ہے۔
سورۃ الروم (آیت:۳۹) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ رِّبًا لِّیَرْبُوَاْ فِیْٓ اَمْوَالِ النَّاسِ فَلَا یَرْبُوْا عِنْدَ
اللّٰہِ وَ مَآ اٰتَیْتُمْ مِّنْ زَکٰوۃٍ تُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُضْعِفُوْنَ.
’’اور جو تم سُود پر دیتے ہو کہ لوگوں کے مال میں افزایش ہو تو اللہ کے نزدیک اس میں افزایش نہیں ہوتی اور جو تم زکات دیتے ہو اور اس سے اللہ کی رضامندی طلب کرتے ہو تو (وہ موجبِ برکت ہے اور) ایسے ہی لوگ (اپنے مال کو) دوچند کرنے والے ہیں۔‘‘
قرآن سود اور ظلم سے منع کرتا ہے۔ قرآن نے کئی آیات میں ربا (سود) کی مذمت کی ہے (3:130، 4:161، 30:39 اور قرآن؛ 2:275-2:280)[426]
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا لَا تَأْكُلُوا الرِّبَا أَضْعَافًا مُّضَاعَفَةً ۖ وَاتَّقُوا اللَّهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ ﴿١٣٠﴾
ترجمہ : "اے لوگو جو ایمان لائے ہو، یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو، امید ہے کہ فلاح پاؤ گے" (قرآن؛ 3:130)
اور سود لیتے ہیں جس سے انہیں منع کیا گیا تھا، اور لوگوں کے مال ناجائز طریقوں سے کھاتے ہیں، ہم نے بہت سی وہ پاک چیزیں ان پر حرام کر دیں جو پہلے ان کے لیے حلال تھیں، اور جو لوگ اِن میں سے کافر ہیں ان کے لیے ہم نے درد ناک عذاب تیار کر رکھا ہے (4:161)[427]
اور جو کچھ تم لوگوں کے مال میں اضافے کے لیے سود دیتے ہو اللہ کے نزدیک نہیں بڑھتا۔ لیکن تم جو زکوٰۃ دیتے ہو، اللہ کی رضا کی تمنا کرتے ہو، وہی زیادہ کرنے والے ہیں۔ (30:39)[428]
ترجمہ : "جو لوگ سود کھاتے ہیں وہ روزِ قیامت اس شخص کی طرح اُٹھیں گے جسے شیطان نے چھو کر مخبوط الحواس بنا دیا ہو اس لئے کہ انہوں نے یہ کہہ دیا ہے کہ تجارت بھی سود جیسی ہے جب کہ خدا نے تجارت کو حلال قرار دیا ہے اور سودکو حرام . اب جس کے پاس اللہ کی طرف سے نصیحت آگئی اور اس نے سود کو ترک کردیاتو گزشتہ کاروبار کا معاملہ خداکے حوالے ہے اور جو اس کے بعد بھی سود لے تو وہ لوگ سب جہّنمی ہیں او ر وہیں ہمیشہ رہنے والے ہیں (275) اللہ سود کو برباد کردیتا ہے اور صدقات میں اضافہ کردیتا ہے اور اللہ کسی بھی ناشکرے گناہگار کو دوست نہیں رکھتا (276) جو لوگ ایمان لے آئے اور انہوں نے نیک عمل کئے نماز قائم کی . زکوِٰ ادا کی ان کے لئے پروردگار کے یہاں اجر ہے اور ان کے لئے کسی طرح کا خوف یا حزن نہیں ہے (277) ایمان والو اللہ سے ڈرو اور جو سود باقی رہ گیا ہے اسے چھوڑ دو اگر تم صاحبان ایمان ہو (278) اگر تم نے ایسا نہ کیا تواللہ اورسول سے جنگ کرنے کے لئے تیار ہو جاؤ اور اگر توبہ کرلو تو اصل مال پر تمہارا حق ہے . نہ تم ظلم کروگے نہ تم پر ظلم کیا جائے گا (قرآن: 2:279 )[429]
"جو سُود (ربا) تم دیتے ہو تاکہ لوگوں کے اموال میں شامل ہو کر وہ بڑھ جائے، اللہ کے نزدیک وہ نہیں بڑھتا، اور جو زکوٰۃ تم اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے ارادے سے دیتے ہو، اسی کے دینے والے در حقیقت اپنے مال بڑھاتے ہیں (30:39)[430]
سود یا ربا حرام ہے اس پر کوئی شک نہیں ، "ربا" بہت وسیع معنی رکھتا ہے جس وہ منافع جو رقم قرض دے کر حاصل کیا جاتا ہے اس کے علاوہ بھی کچھ اقسام کا لین دین (transactions/ exchange) شامل ہیں جیسے گھٹیا دو کلو کھجور کے بدلہ میں ایک کلو اعلی کھجور حاصل کرنا وغیرہ
"اس نے آسمان کو بلند کیا اور میزان (عدل) رکھ دی۔ (7) تاکہ تم میزان (تولنے) میں زیادتی نہ کرو۔ (8) اور انصاف کے ساتھ ٹھیک طریقہ پر تولو اور وزن (تولنے) میں کمی نہ کرو۔ (قرآن؛ 55:9)[431]
---- اگر توبہ کرلو تو اصل مال پر تمہارا حق ہے . نہ تم ظلم کروگے نہ تم پر ظلم کیا جائے گا (قرآن: 2:279)
"اے نبیؐ! تمہارے رب کی کتاب میں سے جو کچھ تم پر وحی کیا گیا ہے اسے (جوں کا توں) سنا دو، کوئی اُس کے فرمودات کو بدل دینے کا مجاز نہیں ہے، (اور اگر تم کسی کی خاطر اس میں رد و بدل کرو گے تو) اُس سے بچ کر بھاگنے کے لیے کوئی جائے پناہ نہ پاؤ گے (قرآن؛ 18:27)[432]
قدم زمانہ میں سونے اور چاندی کی کرنسی ہوتی تھی جس پر سود یا ربا با آسانی معلوم ہو جاتا تھا اس میں افراط زر (inflation) کا کرنسی پر فرق نہیں پڑتا تھا - اب کاغذ کی کرنسی ہے جی کی بنیاد سونے چاندی پر نہیں. حکومت کے پاس پرنٹنگ پریس ہے اور وہ اربوں کے حساب سے کاغذی نوٹ پرنٹ کرتی ہے جس کے پیچھے نہ سونے کی گارنٹی ہے نہ ملک کی پیداوار، گرووتھ ریٹ کو متناسب طریقہ سے مد نظر رکھا جاتا ہے- اس سے افراط زر (inflation) پیدا ہوتا ہے جبکہ افراط زر پر دوسری مارکیٹ فورسز بھی اثر انداز ہوتی ہیں-
ایک سادہ فرضی مثال حساب کتاب بھی سادہ صرف سمجھنے کے لیے:
کیا یہ درست ہے؟ کیا یہ انصاف ہے؟ کیا یہ ظلم نہیں؟
قرآن نے اصل زر پر حق کی ضمانت دی ہے جو سود نہیں لیتا اس کو:
بنک اگر ایک لاکھ دس ہزار روپیہ واپس کرے (دس فیصد افراط زر شامل کرکہ) تو یہ ربا ، سود ہے یا اس کا اصل زر؟ جدید ، موجودہ معاشی نظام اور بنکنگ سسٹم کو سمجھنا بہت ضروری ہے- موجودہ دجالی معاشی نظام میں بھی اس وقت بھی 26 کافر ممالک[435] سود سے پاک ہیں (صفر سود کی شرح) جن میں صرف دو تیل والے اسلامی ممالک ہیں اور 55 ممالک کی شرح سود، افراط زر بہت کم ہے تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کیوں نہیں؟ [تحقیق و تفصیل اس لنک پر مہیا ہے][436]
إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
یقیناً اللہ کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے ( 8:22)[437]
مزید تفصیل : قرآن اور ربا: جنگ دراصل کون کر رہا ہے؟ >>>[438]
.وَ اِنْ کَانَ ذُوْ عُسْرَۃٍ فَنَظِرَۃٌ اِلٰی مَیْسَرَۃٍ وَ اَنْ تَصَدَّقُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ اِنْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ . وَ اتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْہِ اِلَی اللّٰہِ ثُمَّ تُوَفّٰی کُلُّ نَفْسٍ مَّا کَسَبَتْ وَ ھُمْ لَا یُظْلَمُوْنَ.[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۸۰ تا ۲۸۱)]
’’اور اگر قرض لینے والا تنگ دست ہو تو (اُسے) وسعت (کے حاصل ہونے تک) مہلت (دو) اور اگر (زرِقرض) بخش ہی دو تو تمھارے لیے زیادہ اچھا ہے،بشرطیکہ سمجھو اور اُس دن سے ڈرو جب کہ تم اللہ کے حضور میں لوٹ کر جاؤ گے اور ہر شخص اپنے اعمال کا پورا پورا بدلہ پائے گا اور کسی کا کچھ نقصان نہ ہوگا۔‘‘
زمانہ جاہلیت میں قرض ادا نہ ہونے کی صورت میں سود در سود،اصل رقم میں اضافہ ہی ہوتا چلا جاتا تھا،جس سے تھوڑی سی رقم ایک پہاڑ بن جاتی تھی اور ادا کرنا ناممکن ہو جاتا تھا۔اس کے برعکس اللہ تعالیٰ نے حکم دیا کہ کوئی تنگ دست ہو تو (سود لینا تو درکنار اصل مال لینے میں بھی) آسانی تک اسے مہلت دے دو اور اگر قرض بالکل ہی معاف کر دو تو زیادہ بہتر ہے۔حدیث میں اس کی بڑی فضیلت بیان کی گئی ہے۔
ترجمہ :’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو، جب کسی مقرر مدت کے لیے تم آپس میں قرض کا لین دین کرو، تو اسے لکھ لیا کرو فریقین کے درمیان انصاف کے ساتھ ایک شخص دستاویز تحریر کرے جسے اللہ نے لکھنے پڑھنے کی قابلیت بخشی ہو، اسے لکھنے سے انکار نہ کرنا چاہیے وہ لکھے اور املا وہ شخص کرائے جس پر حق آتا ہے (یعنی قرض لینے والا)، اور اُسے اللہ، اپنے رب سے ڈرنا چاہیے کہ جو معاملہ طے ہوا ہو اس میں کوئی کمی بیشی نہ کرے لیکن اگر قرض لینے والا خود نادان یا ضعیف ہو، املا نہ کرا سکتا ہو، تواس کا ولی انصاف کے ساتھ املا کرائے پھر اپنے مردوں سے دو آدمیوں کی اس پر گواہی کرا لو اور اگر دو مرد نہ ہوں تو ایک مرد اور دو عورتیں ہوں تاکہ ایک بھول جائے، تو دوسری اسے یاد دلا دے یہ گواہ ایسے لوگوں میں سے ہونے چاہییں، جن کی گواہی تمہارے درمیان مقبول ہو گواہوں کو جب گواہ بننے کے لیے کہا جائے، تو انہیں انکار نہ کرنا چاہیے معاملہ خواہ چھوٹا ہو یا بڑا، میعاد کی تعین کے ساتھ اس کی دستاویز لکھوا لینے میں تساہل نہ کرو اللہ کے نزدیک یہ طریقہ تمہارے لیے زیادہ مبنی بر انصاف ہے، اس سے شہادت قائم ہونے میں زیادہ سہولت ہوتی ہے، اور تمہارے شکوک و شبہات میں مبتلا ہونے کا امکان کم رہ جاتا ہے ہاں جو تجارتی لین دین دست بدست تم لوگ آپس میں کرتے ہو، اس کو نہ لکھا جائے تو کوئی حرج نہیں، مگر تجارتی معاملے طے کرتے وقت گواہ کر لیا کرو کاتب اور گواہ کو ستایا نہ جائے ایسا کرو گے، تو گناہ کا ارتکاب کرو گے اللہ کے غضب سے بچو وہ تم کو صحیح طریق عمل کی تعلیم دیتا ہے اور اسے ہر چیز کا علم ہے ‘‘ [سورۃ البقرۃ (2:282)][439]
جب سودی نظام کی سختی سے ممانعت اور صدقات و خیرات کی تاکید بیان کی گئی تو پھر ایسے معاشرے میں (قرضوں) کی بہت ضرورت پڑتی ہے،کیوں کہ سود تو ویسے ہی حرام ہے اور ہر شخص صدقہ وخیرات کی استطاعت نہیں رکھتا۔اسی طرح ہر شخص صدقہ لینا پسند بھی نہیں کرتا۔پھر اپنی ضروریات و حاجات پوری کرنے کے لیے قرض ہی باقی رہ جاتا ہے۔اسی لیے احادیث میں قرض دینے کا بڑا ثواب بیان کیا گیا ہے۔ تاہم قرض جس طرح ایک ناگزیر ضرورت ہے،جھگڑوں کا باعث بھی ہے۔اس لیے اس آیت میں،جسے ’’آیۃُ الدین‘‘ کہا جاتا ہے اور جو قرآن کی سب سے لمبی آیت ہے،اللہ تعالیٰ نے قرض کے سلسلے میں ضروری ہدایات دی ہیں،تاکہ یہ ناگزیر ضرورت لڑائی جھگڑے کا باعث نہ بنے،اس کے لیے ایک حکم یہ دیا گیا ہے کہ مدت کا تعین کرلو،دوسرا یہ کہ اسے لکھ لو،تیسرا یہ کہ اس پر دو مسلمان مرد یا ایک مرد اور دو عورتوں کو گواہ بنا لو،جن کی دیانت داری اور عدالت پر مطمئن ہو۔
علاوہ ازیں قرآن کی اس آیت سے معلوم ہواکہ دو عورتوں کی گواہی ایک مرد کے برابر ہے۔نیز مرد کے بغیر صرف اکیلی عورت کی گواہی بھی جائز نہیں،سوائے ان معاملات کے جن پر عورت کے علاوہ کوئی اور مطلع نہیں ہو سکتا۔دو عورتیں جب ایک مرد گواہ کے برابر ہیں تو دو عورتوں اور قسم کے ساتھ فیصلہ کرنا بھی جائز ہوگا۔[مختصر تفسیر فتح القدیر للشوکاني (ص: ۱۸۹)]
.یٰٓاَ یُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَدَایَنْْتُمْْ بِدَیْْنٍ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی فَاکْتُبُوْہُ وَلْیَکْتُبْْ بَّیْنَکُمْْ کَاتِبٌم بِالْعَدْلِ وَلَا یَاْبَ کَاتِبٌ اَنْ یَّکْتُبَ کَمَا عَلَّمَہُ اللّٰہُ فَلْیَکْتُبْ.
’’مومنو! جب تم آپس میں کسی میعادِ معین کے لیے قرض کا معاملہ کرنے لگو تو اُس کو لکھ لیا کرو اور لکھنے والا تم میں (کسی کا نقصان نہ کرے بلکہ) انصاف سے لکھے نیز لکھنے والا جیسا اُسے اللہ نے سکھایا ہے لکھنے سے انکار بھی نہ کرے اور دستاویز لکھ دے۔‘‘[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۸۲)]
.وَ اِنْ کُنْتُمْ عَلٰی سَفَرٍ وَّ لَمْ تَجِدُوْا کَاتِبًا فَرِھٰنٌمَّقْبُوْضَۃٌ فَاِنْ اَمِنَ بَعْضُکُمْ بَعْضًا فَلْیُؤَدِّ الَّذِی اؤْتُمِنَ اَمَانَتَہٗ وَلْیَتَّقِ اللّٰہَ رَبَّہٗ وَ لَا تَکْتُمُوا الشَّھَادَۃَ وَ مَنْ یَّکْتُمْھَا فَاِنَّہٗٓ اٰثِمٌ قَلْبُہٗ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ عَلِیْمٌ.[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۸۳)]
’’اور اگر تم سفر پر ہو اور (دستاویز) لکھنے والا نہ مل سکے تو (کوئی چیز) رہن یا قبضہ رکھ کر (قرض لے لو) اور اگر کوئی کسی کو امین سمجھے (یعنی رہن کے بغیر قرض دے دے) تو امانت دار کو چاہیے کہ صاحبِ امانت کی امانت ادا کر دے اور اللہ جو کہ اُس کا رب ہے،اُس سے ڈرے اور (دیکھنا) شہادت کو مت چھپانا جو اُس کو چھپائے گا وہ دل کا گناہ گار ہو گا اور اللہ تمھارے سب کاموں سے واقف ہے۔‘‘
اگر سفر میں قرض کا معاملہ کرنے کی ضرورت پیش آئے،وہاں لکھنے والا یا کاغذ پنسل نہ ملے تو اس کی متبادل صورت بتلائی جا رہی ہے کہ قرض لینے والا کوئی چیز قرض دینے والے کے پاس گروی رکھ دے،اس سے گروی کی مشروعیت اور اس کا جواز ثابت ہوتا ہے۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی اپنی زرہ ایک یہودی کے پاس گروی رکھی تھی۔اگر گروی رکھی ہوئی چیز ایسی ہے،جس سے نفع موصول ہوتا ہے تو اس نفع کا حق دار مالک ہوگا اور گروی رکھی ہوئی چیز پر کچھ خرچ ہوتا ہے تو اس سے وہ اپنا خرچ وصول کر سکتا ہے۔ باقی نفع مالک کو ادا کرنا ضروری ہے۔
.وَ اٰتُوا الْیَتٰمٰٓی اَمْوَالَھُمْ وَ لَا تَتَبَدَّلُوا الْخَبِیْثَ بِالطَّیِّبِ وَ لَا تَاْکُلُوْٓا اَمْوَالَھُمْ اِلٰٓی اَمْوَالِکُمْ اِنَّہٗ کَانَ حُوْبًاکَبِیْرًا.[سورۃ النساء (آیت:۲)]
’’اور یتیموں کا مال (جو تمھاری تحویل میں ہو) اُن کے حوالے کر دو اور اُن کے پاکیزہ (اور عمدہ) مال کو (اپنے ناقص اور) بُرے مال سے نہ بدلو اور نہ اُن کا مال اپنے مال میں ملا کر کھاؤ کہ یہ بڑا سخت گناہ ہے۔‘‘
یتیم جب بالغ اور باشعور ہو جائیں تو ان کا مال ان کے سپرد کردو۔خبیث سے گھٹیا چیزیں اور طیب سے عمدہ چیزیں مراد ہیں۔یعنی ایسا نہ کرو کہ ان کے مال سے اچھی چیزیں لے لو اور محض گنتی پوری کرنے کے لیے گھٹیا چیزیں ان کے بدلے میں رکھ دو۔بدلایا گیا مال جو اگرچہ اصل میں طیب (پاک اور حلال) ہے،لیکن تمھاری اس بد دیانتی نے اس میں خباثت داخل کر دی اور وہ اب طیب نہیں رہا،بلکہ تمھارے حق میں وہ خبیث (ناپاک اور حرام) ہوگیا۔اسی طرح بددیانتی سے ان کا مال اپنے مال میں ملا کر کھانا بھی ممنو ع ہے،ورنہ اگر مقصد خیرخواہی ہو تو ان کے مال کو اپنے مال میں ملانا جائز ہے۔
.وَ لَا تُؤْتُوا السُّفَھَآئَ اَمْوَالَکُمُ الَّتِیْ جَعَلَ اللّٰہُ لَکُمْ قِیٰمًا وَّ ارْزُقُوْھُمْ فِیْھَا وَ اکْسُوْھُمْ وَ قُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا . وَ ابْتَلُوا الْیَتٰمٰی حَتّٰی اِذَا بَلَغُوا النِّکَاحَ فَاِنْ اٰنَسْتُمْ مِّنْھُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوْٓا اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ وَ لَا تَاْکُلُوْھَآ اِسْرَافًا وَّ بِدَارًا اَنْ یَّکْبَرُوْا وَ مَنْ کَانَ غَنِیًّا فَلْیَسْتَعْفِفْ وَ مَنْ کَانَ فَقِیْرًا فَلْیَاْکُلْ بِالْمَعْرُوْفِ فَاِذَا دَفَعْتُمْ اِلَیْھِمْ اَمْوَالَھُمْ فَاَشْھِدُوْا عَلَیْھِمْ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ حَسِیْبًا .[سورۃ النساء (آیت:۵ تا ۶)]
’’اور بے عقلوں کو اُن کا مال جسے اللہ نے تم لوگوں کے لیے سبب معیشت بنایا ہے،مت دو (ہاں ) اس میں سے اُن کو کھلاتے اور پہناتے رہو اور اُن سے معقول باتیں کہتے رہو اور یتیموں کو بالغ ہونے تک کام کاج میں مصروف رکھو،پھر (بالغ ہونے پر) اگر اُن میں عقل کی پختگی دیکھو تو اُن کا مال اُن کے حوالے کر دو اور اس خوف سے کہ وہ بڑے ہو جائیں گے (یعنی بڑے ہو کر تم سے اپنا مال واپس لے لیں گے) اس کو فضول خرچی میں اور جلدی میں نہ اڑا دینا،جو شخص آسودہ حال ہو اُس کو (ایسے مال سے قطعی طور پر) پرہیز کرنا چاہیے اور جو بے مقدور ہو وہ مناسب طور پر (بقدرِ خدمت) کچھ لے لے اور جب اُن کا مال اُن کے حوالے کرنے لگو تو گواہ کر لیا کرو اور حقیقت میں تو اللہ ہی (گواہ اور) حساب لینے والا کافی ہے۔‘‘
یتیموں کے مال کے بارے میں ضروری ہدایات دینے کے بعد یہ فرمانے کا مطلب یہ ہے کہ جب تک تمھارے پاس رہا،تم نے اس کی کس طرح حفاظت کی اور جب مال ان کے سپرد کیا تو اس میں کوئی کمی بیشی یا کسی قسم کی تبدیلی کی یا نہیں،عام لوگوں کو تو تمھاری امانت داری یا خیانت کا شاید پتا نہ چلے،لیکن اللہ تعالیٰ سے تو کوئی چیز چھپی نہیں۔اسی لیے حدیث میں آتا ہے کہ یہ یتیم کے مال کا سرپرست بننا بہت ذمے داری کا کام ہے۔[صحیح مسلم،کتاب الأمارہ،حدیث أبي ذررضی اللہ عنہ (۱۷۔۱۸۲۶)]
وَلَا تُؤْتُوا السُّفَهَاءَ أَمْوَالَكُمُ الَّتِي جَعَلَ اللَّهُ لَكُمْ قِيَامًا وَارْزُقُوهُمْ فِيهَا وَاكْسُوهُمْ وَقُولُوا لَهُمْ قَوْلًا مَّعْرُوفًا ﴿٥﴾ وَابْتَلُوا الْيَتَامَىٰ حَتَّىٰ إِذَا بَلَغُوا النِّكَاحَ فَإِنْ آنَسْتُم مِّنْهُمْ رُشْدًا فَادْفَعُوا إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ ۖ وَلَا تَأْكُلُوهَا إِسْرَافًا وَبِدَارًا أَن يَكْبَرُوا ۚ وَمَن كَانَ غَنِيًّا فَلْيَسْتَعْفِفْ ۖ وَمَن كَانَ فَقِيرًا فَلْيَأْكُلْ بِالْمَعْرُوفِ ۚ فَإِذَا دَفَعْتُمْ إِلَيْهِمْ أَمْوَالَهُمْ فَأَشْهِدُوا عَلَيْهِمْ ۚ وَكَفَىٰ بِاللَّهِ حَسِيبًا ﴿٦﴾
Do not entrust (their) property God has given you to maintain (On trust), to those who are immature; but feed them and clothe them from it, and speak to them with kindness. (Quran 4:5)[440]
And test the orphans [in their abilities] until they reach marriageable age [ بَلَغُوا النِّکَاحَ]. Then if you perceive in them sound judgment, release their property to them...(Quran 4:6)[441]
اور اپنے وہ مال جنہیں اللہ نے تمہارے لیے سبب معیشت بنایا ہے، نادان ( نا بالغ ) لوگوں کے حوالہ نہ کرو ، البتہ انہیں کھانے اور پہننے کے لیے دو اور انہیں نیک ہدایت کرو-(Quran 4:5)[442]
اور یتیموں کی پرورش ان کے [بَلَغُوا النِّکَاحَ] بالغ ہونے تک کرتے رہو یہاں تک کہ وہ نکاح کے قابل عمر کو پہنچ جائیں، پھر اگر تم ان کے اندر اہلیت پاؤ تو ان کے مال ان کے حوالے کر دو(قرآن 4:6)[443]
1.احتلام :
الله تعالی کا فرمان ہے کہ یتیموں کیر یتیموں کی پرورش ان کے بالغ ہونے تک کرتے رہو یہاں تک کہ وہ جوانی کو پہنچ جائیں [بَلَغُوا النِّکَاحَ] یہاں نکاح سے مراد بلوغت ہے اور بلوغت اس وقت ثابت ہوتی ہے جب اسے خاص قسم کے خواب آنے لگیں جن میں خاص پانی اچھل کر نکلتا ہے ، حضرت علی فرماتے ہیں مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا یہ فرمان بخوبی یاد ہے کہ احتلام کے بعد یتیمی نہیں اور نہ تمام دن رات چپ رہتا ہے ۔“ [ أبو داوٗد، الوصایا، باب ما جاء متی ینقطع الیتم : ٢٨٧٣ ]
دوسری حدیث میں ہے تین قسم کے لوگوں سے قلم اٹھا لیا گیا ہے . بچے سے جب تک بالغ نہ ہو ، سوتے سے جب جاگ نہ جائے ، مجنوں سے جب تک ہوش نہ آ جائے ، پس ایک تو علامت بلوغ یہ ہے
2.زیر ناف کے بال:
تیسری علامت بلوغت کی زیر ناف کے بالوں کا نکلنا ہے ، کیونکہ اولاً تو جبلی امر ہے علاج معالجہ کا احتمال بہت دور کا احتمال ہے ٹھیک یہی ہے کہ یہ بال اپنے وقت پر ہی نکلتے ہیں ، دوسری دلیل مسند احمد کی حدیث ہے ، جس میں حضرت عطیہ قرضی کا بیان ہے کہ بنو قریظہ کی لڑائی کے بعد ہم لوگ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پیش کئے گئے تو آپ نے حکم دیا کہ ایک شخص دیکھے جس کے یہ بال نکل آئے ہوں اسے قتل کر دیا جائے اور نہ نکلے ہوں اسے چھوڑ دیا جائے چنانچہ یہ بال میرے بھی نہ نکلے تھے مجھے چھوڑ دیا گیا[ أبو داوٗد، الحدود، باب فی الغلام یصیب الحد : ٤٤٠٤ ] سنن اربعہ میں بھی یہ حدیث ہے اور امام ترمذی اسے حسن صحیح فرماتے ہیں ، حضرت سعد کے فیصلے پر راضی ہو کر یہ قبیلہ لڑائی سے باز آیا تھا پھر حضرت سعد نے یہ فیصلہ کیا کہ ان میں سے لڑنے والے تو قتل کر دئیے جائیں اور بچے قیدی بنا لئے جائیں غرائب ابی عبید میں ہے کہ ایک لڑکے نے ایک نوجوان لڑکی کی نسبت کہا کہ میں نے اس سے بدکاری کی ہے دراصل یہ تہمت تھی حضرت عمر نے اسے تہمت کی حد لگانی چاہی لیکن فرمایا دیکھ لو اگر اس کے زیر ناف کے بال اگ آئے ہوں تو اس پر حد جاری کر دو ورنہ نہیں دیکھا تو آگے نہ تھے چنانچہ اس پر سے حد ہٹا دی ۔ پھر فرماتا ہے جب تم دیکھو کہ یہ اپنے دین کی صلاحیت اور مال کی حفاظت کے لائق ہو گئے ہیں تو ان کے ولیوں کو چاہئے کہ ان کے مال انہیں دے دیں ۔
مولانا عبدالرحمن کیلانی کے مطابق بلوغت کے لیے عمر کی کوئی حد مقرر نہیں۔ گرم ممالک میں لڑکے لڑکیاں جلد بالغ ہوجاتے ہیں۔ جبکہ سرد ممالک میں دیر سے ہوتے ہیں۔ البتہ لڑکوں اور لڑکیوں کے لیے کچھ ایسی علامات ضرور ہیں جو ان کے بالغ ہونے کا پتہ دیتی ہیں مثلاً لڑکوں کو احتلام ہونا اور عورتوں کو حیض آنا۔ اور چھاتیوں کا ابھر آنا خاص علامات ہیں۔ پھر کچھ علامات ایسی بھی ہیں جو ان دونوں نوعوں میں یکساں پائی جاتی ہیں۔ جیسے عقل داڑھ کا اگنا۔ آواز کا نسبتاً بھاری ہونا جسے گھنڈی پھوٹنا بھی کہتے ہیں اور بغلوں کے نیچے اور زیر ناف بال اگنا اور صرف مردوں کے لیے داڑھی اور مونچھ کے بال اگنا ہے اور ان سب میں سے پکی علامتیں وہی ہیں جو پہلے مذکور ہوئیں یعنی لڑکوں کو احتلام اور عورتوں کو حیض آنا-[444]
ایک علامت بلوغ بعض کے نزدیک یہ ہے کہ پندرہ سال کی عمر ہو جائے اس کی دلیل بخاری مسلم کی حضرت ابن عمر والی حدیث ہے جس میں وہ فرماتے ہیں کہ احد والی لڑائی میں مجھے حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے ساتھ اس لئے نہیں لیا تھا کہ اس وقت میری عمر چودہ سال کی تھی اور خندق کی لڑائی میں جب میں حاضر کیا گیا تو آپ نے قبول فرما لیا اس وقت میں پندرہ سال کا تھا حضرت عمر بن عبدالعزیز رحمتہ اللہ علیہ کو جب یہ حدیث پہنچی تو آپ نے فرمایا نابالغ بالغ کی حد یہی ہے “ [ بخاری، الشہادات، باب بلوغ الصبیان۔۔ : ٢٦٦٤ ]
عمر پر فقہا کا اختلاف ہے بعض نے لڑکے کے لئے اٹھارہ سال اور لڑکی کے لئے سترہ سال مقرر کئے ہیں اور بعض نے دونوں کے لئے پندرہ سال قرار دیئے، امام اعظم ابوحنیفہ کے مذہب میں فتوی اس قول پر ہے کہ لڑکا اور لڑکی دونوں پندرہ سال کی عمر پوری ہونے پر شرعاً بالغ قرار دیئے جائیں گے، خواہ آثار بلوغ پائے جائیں یا نہیں- (معارف القرآن، مفتی محمد شفیع)
حضرت عائشہ صدیقہؓ نے "بدر" کے حالات پر و واقعات بیان فرمایے ہیں، جو یہ ثابت کرتے ہیں کہ اس وقت آپ کی عمر پندرہ سال سے زیادہ ہی ہوگی ورنہ ان کوساتھ جانے کی اجازت نہ ملتی- [ملاحضہ صحیح مسلم حدیث نمبر: 4700، مسند احمد حدیث نمبر: 25201، مسند احمد حدیث نمبر: 24055، مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: 3971، جامع ترمذی حدیث نمبر: 1558، سنن کبریٰ للبیہقی ، حدیث نمبر: 13056]
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب نکاح کیا تو ان کی عمر چھ سال تھی اور جب ان سے صحبت کی تو ان کی عمر نو سال تھی ۔ ہشام بن عروہ نے کہا کہ مجھے خبر دی گئی ہے کہ وہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نو سال تک رہیں - (ماخوز صحیح البخاری حدیث 5134)[445]
جب خدیجہ رضی اللہ عنہا فوت ہو گئیں تو خولہ بنت حکیم یعنی عثمان بن مظعون کی اہلیہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئیں اور کہا: اللہ کے رسول! آپ شادی نہیں کرو گے؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کس سے کروں؟ ) تو انہوں نے کہا آپ چاہیں تو کسی بکر (کنواری) سے یا کسی بیوہ سے کر لیں، اس پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (کنواری کون ہے؟) اس پر انہوں نے کہا: آپ کے ہاں سب سے عزیز ترین شخصیت کی بیٹی عائشہ بنت ابو بکر۔۔۔۔” اس کے بعد انہوں نے شادی کی دیگر تفصیلات بھی ذکر کیں، اور اس میں حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کی عمر چھ سال رخصتی پر عمر نو سال تھی۔( ماخوز مسند احمد)
کیا کسی زی شعور انسان کا زہن یہ قبول کر سکتا ہے کہ دوسری شادی کے لئیے کنواری (بکر) لڑکی جس کی عمر 6 سال ہو تجویز کی جائیے؟ یہ روایت درست کیسے ہو سکتی ہے؟ اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ اس وقت حضرت عائشہ (رض) شادی کی عمر کی کنواری (بکر) لڑکی تھی نہ کہ 6 سالہ بچی۔ کیا عربی میں 6 سالہ بچی کو "بکر" کہا جاتا ہے؟ عربی میں نو کو "تسع" اور انیس کو "تسعة عشر" کہا جاتا ہے ممکن ہے کہیں کسی سے عشر کہنے یا لکھنے میں رہ گیا ہو-
1۔ رسول اللہ ﷺ خطبہ سے قبل فرماتے: اما بعد کہ بہترین حدیث اللہ کی کتاب ہے اور بہترین سیرت محمد ﷺ کی سیرت ہے اور سارے کاموں میں بدترین کام نئے نئے طریقے ہیںاور ہر بدعت گمراہی ہے (صحیح مسلم:2005)[446]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی قرآن کا عملی نمونہ تھی وہ قرآن( 4:6) کے خلاف خود کیسے عمل کر سکتے ہیں۔ ایسا کہنا بھی رسول اللہ ﷺ پر بہتان، گستاخی ہے- نہ ہی معاشرہ نہ ہی قرآن[447] یہ اجازت دیتا ہے کہ سات یا نو سالہ بےشعور بچی سے شادی کی جائے-
2. اگر یہ بات درست ہوتی تو صحابہ اکرام بھی سیرت رسول اللہ ﷺ (سنت) پر عمل کرتے ہوے 9 سالہ بچیوں سے شادی کرتے، ایسا کوئی رواج مسلمانوں میں موجود نہیں - فقہا و علماء نے بھی اس قسم کی روایات کو قبول نہ کیا اور 15 سے 17 یا 18 سال کی عمر کو نکاح بلوغت کی عمر قرار دیا ، چودہ صدیوں سے اسی پر عمل ہو رہا ہے-
3.رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے کہ جو حدیث قرآن و سنت[448] اور دل (یعنی عقل سے دور ہو وہ مجھ سے بھی دور ہے)[449]-
3۔ جس طرح یہود و نصاری نے اپنے علماء کو خدا کا درجہ دے رکھا ہے کہ ان ہر بات مانتے ہیں (قرآن 9:31) اسی طرح علماء اسلام صرف اپنے محدثین (جن کو خداووں کا درجہ دے رکھا ہے ) کی تحریر کردہ کتب احادیث کو درست ثابت کرنے کے لئیے کتاب اللہ (قرآن) کو پس پشت دال کر رسول اللہ ﷺ کے دوسرے احکام کو بھی نظر انداز کرکہ اخلاقی بہتان لگایا جا رہا ہے۔ اس طرح کی احدیث کو کفار 1200 سال سے اسلام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلاف بطور ہتھیار استعمال کر رہے ہیں۔[450]
5. ضرورت ہے کہ اس قسم کی احدیث کا از سر نو جائزہ کیا جایے اورتحقیق کے بعد مسترد و منسوخ کیا جایے- ایسا کیوں نہیں کیا جاتا؟ علماء کو یہ خدشہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح تمام کتب احادیث کی حیثیت مشکوک ہو جاتی ہے (ہو جایے) اور قرآن کی اپنی کلیدی حیثیت بحال ہو جانے سے فرقہ بازی کے کاروبار اور ان لوگوں کی حیثیت بھی مشکوک ٹھرتی ہے این کی اہمیت ختم ہو جاتی ہے اصلیت کھل جاتی ہے-
6.ان لوگوں کو رسول اللہ ﷺ کی توہین ، قرآن کے احکام کا انکار کرنا گوارا ہے مگر اپنے خداووں کی انسانی تحریروں کی فرامین رسول اللہ ﷺ اور قرآن کی روشنی میں درستگی کرنا گوارا نہیں-
7. جو بات قرآن، سنت، مستند احادیث، عقل و فہم سے ثابت نہیں وہ متروک، مسترد ہے، اس پر اصرار، ملحدین وکفار کو رسول اللہ ﷺ پر بہتان تراشی میں مدد کرنا ہے جو گناہ کبیرہ فتنہ و فساد ہے۔ کتب احادیث کو رسول اللہ ﷺ کے احکام کی روشنی میں خرافات سے پاک کرنا ضروری ہے۔
8. تمام لوگ ہندو، مسلم، یہود و نصاری، ملحدین جو اس گستاخ رسول اللہ ﷺ مہم میں کسی طریقہ سے بھی شامل ہیں ملعون جہنمی ہیں۔
سورۃ الاحزاب (آیت:۵۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ قُلِّ لِّاَزْوَاجِکَ وَبَنٰتِکَ وَ نِسَآئِ الْمُؤْمِنِیْنَ یُدْنِیْنَ عَلَیْھِنَّ مِنْ جَلَابِیْبِھِنَّ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یُّعْرَفْنَ فَلَا یُؤْذَیْنَ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا}
’’اے پیغمبر! اپنی بیویوں اور بیٹیوں اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ (باہر نکلا کریں تو) اپنے پر چادر لٹکا لیا کریں،یہ اَمر ان کے لیے موجبِ شناخت ہو گا تو کوئی اُن کو ایذا نہ دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘[451]،[452]
وَقُل لِّلْمُؤْمِنَاتِ يَغْضُضْنَ مِنْ أَبْصَارِهِنَّ وَيَحْفَظْنَ فُرُوجَهُنَّ وَلَا يُبْدِينَ زِينَتَهُنَّ إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا ۖ(سورة النور,24:31).
ترجمہ : "اور مومنات سے کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہوں کو نیچا رکھیں اور اپنی عفت کی حفاظت کریں اور اپنی زینت کا اظہار نہ کریں علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے..." ۖ(سورة النور,24:31).
حضرت عبدالله بن عبّاس رضی اللہ عنہ نے "إِلَّا مَا ظَهَرَ مِنْهَا" (علاوہ اس کے جو ازخود ظاہر ہے) کے معتلق فرمایا کہ اس سے مراد "چہرہ (وَجْهِهِ) اور ہا تھ" ہیں کیونکہ کام کے دوران ان کا چھپانا مشکل ہے. یہ تفسیرسنن أَبُو دَاوُدَ حدیث نمبر4104 (ام المؤمنین عائشہ ؓ کہتی ہیں کہ اسماء بنت ابی بکر ؓ رسول اللہ ﷺ کے پاس آئیں، وہ باریک کپڑا پہنے ہوئے تھیں آپ ﷺ نے ان سے منہ پھیرلیا اور فرمایا: اسماء! جب عورت بالغ ہوجائے تو درست نہیں کہ اس کی کوئی چیز نظر آئے سوائے اس کے اور اس کے آپ ﷺ نے اپنے چہرہ اور ہتھیلیوں کی جانب اشارہ کیا [453]) میں فرمان رسول اللہ ﷺ سے مطابقت رکھتی ہے.
ابن کثیرمیں بھی اس کا ذکر ہے. مگر حضرت عبدالله بن مسعود رضی اللہ عنہ کو ابن عبّاس رضی اللہ عنہ کی اس تفسیر سے اختلاف ہے. دونوں اصحاب رسول اللہﷺ اعلی درجہ کےعالم اورمفسر قرآن تھے.قاضی بیضاوی اور خازن اس آیت کی تفسیرمیں کہتے ہیں کہ کام کے دوران چہرہ ہاتھ کھلے ہوں تو گناہ نہیں مگر غیر محرم کو نہیں دیکھنا چا ہیے.اس سے دونوں باتیں پوری ہو جاتی ہیں.امام مالک کا بھی یہی مذھب ہے کہ غیر محرم عورتوں کے چہرہ اور ہتھیلیوں پر نظر کرنا بغیر ضرورت مبیحہ کے جائز نہیں. بحر حال تمام علماء کا اجماع ہے کہ اگر فتنہ کا احتمال ہو تو چہرہ اور ہاتھ کھلے نہیں رکھنے چاہیئیں. فتنہ کی تعریف معاشرہ کے حالات کے مطابق کی جا سکتی ہے. [ تفصیل : نقاب ، حجاب: قرآن , حدیث اور اجماع .....]
سورۃ النور (آیت:۳۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَقُلْ لِّلْمُؤْمِنٰتِ یَغْضُضْنَ مِنْ اَبْصَارِھِنَّ وَیَحْفَظْنَ فُرُوْجَھُنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا مَا ظَھَرَ مِنْھَا وَلْیَضْرِبْنَ بِخُمُرِھِنَّ عَلٰی جُیُوْبِھِنَّ وَلاَ یُبْدِیْنَ زِیْنَتَھُنَّ اِلَّا لِبُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اٰبَآئِھِنَّ اَوْ اٰبَآئِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اَبْنَآئِھِنَّ اَوْ اَبْنَآئِ بُعُوْلَتِھِنَّ اَوْ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اِخْوَانِھِنَّ اَوْ بَنِیْٓ اَخَوٰتِھِنَّ اَوْ نِسَآئِھِنَّ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ اَوِ التّٰبِعِیْنَ غَیْرِ اُولِی الْاِرْبَۃِ مِنَ الرِّجَالِ اَوِ الطِّفْلِ الَّذِیْنَ لَمْ یَظْھَرُوْا عَلٰی عَوْرٰتِ النِّسَآئِ وَلاَ یَضْرِبْنَ بِاَرْجُلِھِنَّ لِیُعْلَمَ مَا یُخْفِیْنَ مِنْ زِیْنَتِھِنَّ وَتُوْبُوْٓا اِلَی اللّٰہِ جَمِیْعًا اَیُّہَ الْمُؤْمِنُوْنَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ}
’’اور مومن عورتوں سے بھی کہہ دو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھا کریں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کیا کریں اور اپنی آرایش (زیور کے مقامات) کو ظاہر نہ ہونے دیا کریں،مگر جو اس میں سے کھلا رہتا ہو اور اپنے سینوں پر اوڑھنیاں اوڑھے رہا کریں اور اپنے خاوند اور باپ اور خسر اور بیٹوں اور خاوند کے بیٹوں اور بھائیوں اور بھتیجوں اور بھانجوں اور اپنی (ہی قسم کی) عورتوں اور لونڈی غلاموں کے سوا،نیز ان خدام کے جو عورتوں کی خواہش نہ رکھیں یا ایسے لڑکوں سے جو عورتوں کے پردے کی چیزوں سے واقف نہ ہوں (غرض کہ ان لوگوں کے سوا) کسی پر اپنی زینت (اور سنگھار کے مقامات) ظاہر نہ ہونے دیں اور اپنے پاؤں (ایسے طور سے زمین پر) نہ ماریں کہ (جھنکار کی آواز کانوں میں پہنچے اور) ان کا پوشیدہ زیور معلوم ہو جائے اور مومنو! سب اللہ کے آگے توبہ کرو تاکہ تم فلاح پاؤ۔‘‘
زینت سے مراد وہ لباس اور زیور ہے جو عورتیں اپنے حسن و جمال میں مزید نکھار پیدا کرنے کے لیے پہنتی ہیں،جس کی تاکید انھیں اپنے خاوندوں کے لیے کی گئی ہے۔جب لباس اور زیور کا اظہار غیر مردوں کے سامنے عورت کے لیے ممنوع ہے تو جسم کو عریاں اور نمایاں کرنے کی اجازت اسلام میں کب ہوسکتی ہے؟ یہ تو بہ طریقِ اولیٰ حرام اور ممنوع ہوگا۔
’’جو کھلا رہتا ہے۔‘‘ ( لَمْ یَظْھَرُوْا) اس میں صحابہ اکرام میں اختلاف ہے کہ ’’جو کھلا رہتا ہے۔‘ وہ " چہرہ " کے متعلق ہے اور دوسرا نظریہ ہے کہ وہ زینت اور جسم کا حصہ ہے،جس کا چھپانا اور پردہ کرنا ممکن نہ ہو،جیسے کسی کو کوئی چیز پکڑاتے یا اس سے لیتے ہوئے ہتھیلیوں کا یا دیکھتے ہوئے آنکھوں کا ظاہر ہونا،اس ضمن میں ہاتھوں میں جو انگوٹھی پہنی ہوئی یا مہندی لگی ہوئی ہو،آنکھوں میں سرمہ،کاجل ہو یا لباس اور زینت کو چھپانے کے لیے جو برقع یا چادر لی جاتی ہے،وہ بھی ایک زینت ہی ہے،تاہم یہ ساری زینتیں ایسی ہیں،جن کا اظہار بوقتِ ضرورت یا بوجہ ضرورت مباح ہے۔
تفصیل : نقاب ، حجاب: قرآن , حدیث اور اجماع[454] .....
باپ میں دادا، پردادا، نانا، پرنانا اور اس سے اوپر سب شامل ہیں،اسی طرح خسر میں خسر کا باپ،دادا،پردادا اوپر تک۔بیٹوں میں پوتا،پرپوتا،نواسہ پرنواسہ نیچے تک۔خاوندوں کے بیٹوں میں پوتے،پرپوتے،نیچے تک۔بھائیوں میں تینوں قسم کے بھائی (عینی،اخیافی،علاتی) اور ان کے بیٹے پوتے پرپوتے،نواسے،نیچے تک۔بھتیجوں میں ان کے بیٹے،نیچے تک اور بھانجوں میں تینوں قسم کی بہنوں کی اولاد شامل ہے۔
سورۃ الاحزاب (آیت:۳۲) میں فرمایا:
{یٰنِسَآئَ النَّبِیِّ لَسْتُنَّ کَاَحَدٍ مِّنَ النِّسَآئِ اِنِ اتَّقَیْتُنَّ فَلَا تَخْضَعْنَ بِالْقَوْلِ فَیَطْمَعَ الَّذِیْ فِیْ قَلْبِہٖ مَرَضٌ وَّ قُلْنَ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا}
’’اے پیغمبر کی بیویو! تم دوسری عورتوں کی طرح نہیں ہو،اگر تم پرہیزگار رہنا چاہتی ہو تو (کسی اجنبی شخص سے) نرم نرم باتیں نہ کرو،تاکہ وہ شخص جس کے دل میں کسی طرح کا مرض ہے،کوئی امید (نہ) پیدا کرے اور دستور کے مطابق بات کیا کرو۔‘‘
اللہ تعالیٰ نے عورت کے وجود میں مرد کے لیے جنسی کشش رکھی ہے،جس کی حفاظت کے لیے بھی خصوصی ہدایت دی گئی ہے،تاکہ عورت مرد کے لیے فتنے کا باعث نہ بنے،اسی طرح اللہ تعالیٰ نے عورتوں کی آواز میں بھی فطری طور پر دلکشی،نرمی اور نزاکت رکھی ہے،جو مرد کو اپنی طرف کھینچتی ہے،بنا بریں اس آواز کے لیے بھی یہ ہدایت دی گئی ہے کہ مردوں سے گفتگو کرتے وقت قصداً ایسا لب و لہجہ اختیار کرو کہ نرمی اور لطافت کی جگہ قدرے سختی اور روکھا پن ہو،تاکہ کوئی بدظن لہجے کی نرمی سے تمھاری طرف مائل نہ ہو اور اس کے دل میں برا خیال پیدا نہ ہو۔
روکھا پن،صرف لہجے کی حد تک ہی ہو،زبان سے ایسا لفظ نہ نکالنا جو معروف قاعدے اور اخلاق کے منافی ہو۔{اِنِ اتَّقَیْتُنَّ}کہہ کر اشارہ کر دیا کہ یہ بات اور دیگر ہدایا ت جو آگے آرہی ہیں،متقی عورتوں کے لیے ہیں،کیوں کہ انھیں ہی یہ فکر ہوتی ہے کہ ان کی آخرت برباد نہ ہو جائے،جن کے دل خوفِ الٰہی سے عاری ہیں،انھیں ان ہدایات سے کیا تعلق اور وہ کب ان ہدایات کی پروا کرتی ہیں ؟
سورۃ الاحزاب (آیت:۳۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَ قَرْنَ فِیْ بُیُوْتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجْنَ تَبَرُّجَ الْجَاھِلِیَّۃِ الْاُوْلٰی وَ اَقِمْنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیْنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعْنَ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا}
’’اور اپنے گھروں میں ٹھہری رہو اور جس طرح (پہلے) جاہلیت (کے دنوں ) میں اظہارِ تجمل کرتی تھیں،اس طرح زینت نہ دکھاؤ اور نماز پڑھتی رہو اور زکات دیتی رہو اور اللہ اور اُس کے رسول کی فرماں برداری کرتی رہو۔اے (پیغمبر کے) اہلِ بیت! اللہ چاہتا ہے کہ تم سے ناپاکی (کا میل کچیل) دُور کر دے اور تمھیں بالکل پاک صاف کر دے۔‘‘
اس آیت میں گھر سے باہر نکلنے کے آداب بتلا دیے گئے کہ اگر باہر نکلنے کی ضرورت پیش آئے تو بناؤ سنگھار کرکے یا ایسے انداز سے،جس سے تمھارا بناؤ سنگھار ظاہر ہو،مت نکلو،جیسے بے پردہ ہوکر،جس سے تمھارا سر،چہرہ،بازو اور چھاتی وغیرہ لوگوں کو دعوتِ نظارہ دے۔بلکہ بغیر خوشبو لگائے سادہ لباس میں ملبوس اور باپردہ باہر نکلو۔{تَبَرُّجْ}بے پردگی اور زیب و زینت کے اظہار کو کہتے ہیں۔قرآن نے واضح کر دیا کہ یہ تبرج،جاہلیت ہے،جو اسلام سے پہلے تھی اور آیندہ بھی جب کبھی اسے اختیار کیا جائے گا،یہ جاہلیت ہی ہوگی،اسلام سے اس کا کوئی تعلق نہیں ہے،چاہے اس کا نام کتنا ہی خوش نما اور دل فریب رکھ لیا جائے۔
سورۃ الاحزاب میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{لَا جُنَاحَ عَلَیْھِنَّ فِیْٓ اٰبَآئِھِنَّ وَ لَآ اَبْنَآئِھِنَّ وَ لَآ اِخْوَانِھِنَّ وَ لَآ اَبْنَآئِ اِخْوَانِھِنَّ وَ لَآ اَبْنَآئِ اَخَوٰتِھِنَّ وَ لَا نِسَآئِھِنَّ وَ لَا مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُنَّ وَ اتَّقِیْنَ اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ شَھِیْدًا} (33:55)
’’عورتوں پر اپنے باپوں سے (پردہ نہ کرنے میں ) کچھ گناہ نہیں اور نہ اپنے بیٹوں سے اور نہ اپنے بھائیوں سے اور نہ اپنے بھتیجوں سے اور نہ اپنے بھانجوں سے اور نہ اپنی عورتوں سے اور نہ لونڈیوں سے اور (اے عورتو!) اللہ سے ڈرتی رہو،بے شک اللہ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘ (33:55)[455]
"مسلمان عورتوں سے کہو کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں اور اپنی عصمت میں فرق نہ آنے دیں اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں سوائے اس کے جو ظاہر ہے اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رہیں اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں سوائے اپنے خاوندوں کے یا اپنے والد یا اپنے خسر کے یا اپنے لڑکوں کے یا اپنے خاوند کے لڑکوں کے یا اپنے بھائیوں کے یا اپنے بھتیجوں کے یا اپنے بھانجوں کے یا اپنے میل جول کی عورتوں کے یا غلاموں کے یا ایسے نوکر چاکر مردوں کے جو شہوت والے نہ ہوں یا ایسے بچوں کے جو عورتوں کے پردے کی باتوں سے مطلع نہیں اور اس طرح زور زور سے پاؤں مار کر نہ چلیں کہ ان کی پوشیدہ زینت معلوم ہو جائے ، اے مسلمانوں! تم سب کے سب اللہ کی جناب میں توبہ کرو تاکہ تم نجات پاؤ ۔(قرآن 24:31)[456]
جب عورتوں کے لیے پردے کا حکم نازل ہوا تو پھر گھروں میں موجود اقارب یا ہر وقت آنے جانے والے رشتے داروں کی بابت سوال ہوا کہ ان سے پردہ کیا جائے یا نہیں ؟ چنانچہ اس آیت میں اُن اقارب کا ذکر کر دیا گیا جن سے پردے کی ضرورت نہیں- اس مقام پر عورتوں کو تقوے کا حکم دے کر واضح کر دیا کہ اگر تمھارے دلوں میں تقویٰ ہوگا تو پردے کا جو اصل مقصد،قلب و نظر کی طہارت اور عصمت کی حفاظت ہے،وہ یقینا تمھیں حاصل ہوگا،ورنہ حجاب کی ظاہری پابندیاں تمھیں گناہ میں ملوث ہونے سے نہیں بچا سکیں گی۔
سورۃ النور (آیت:60)[457] میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَالْقَوَاعِدُ مِنَ النِّسَآئِ الّٰتِیْ لاَ یَرْجُوْنَ نِکَاحًا فَلَیْسَ عَلَیْھِنَّ جُنَاحٌ اَنْ یَّضَعْنَ ثِیَابَھُنَّ غَیْرَ مُتَبَرِّجٰتٍم بِزِیْنَۃٍ وَّاَنْ یَّسْتَعْفِفْنَ خَیْرٌ لَّھُنَّ وَاللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ}
’’اور بڑی عمر کی عورتیں جن کو نکاح کی توقع نہیں رہی اور وہ کپڑے اتار کر (سرننگا کر لیا) کریں تو ان پر کچھ گناہ نہیں،بشرطیکہ اپنی زینت کی چیزیں نہ ظاہر کریں اور اگر اس سے بھی بچیں تو یہ ان کے حق میں بہتر ہے اور اللہ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘ سورۃ النور (:24:60)
ان سے مراد وہ بوڑھی اور از کار رفتہ عورتیں ہیں،جن کو حیض آنا بند ہو گیا ہو اور ولادت کے قابل نہ رہی ہوں،اس عمر میں بالعموم عورت کے اندر مرد کے لیے فطری طور پر جو جنسی کشش ہوتی ہے،وہ ختم ہو جاتی ہے۔وہ کسی مرد سے نکاح کی خواہش مند ہوتی ہیں نہ مرد ہی ان کے لیے ایسے جذبات رکھتے ہیں۔ایسی عورتوں کو پردے میں تخفیف کی اجازت دے دی گئی ہے۔’’کپڑے اتار دیں ‘‘ سے مراد جو شلوار قمیص کے اوپر عورت پردے کے لیے بڑی چادر یا برقعہ وغیرہ کی شکل میں لیتی ہے،بشرطیکہ مقصد اپنی زینت اور بنائو سنگھار کا اظہار نہ ہو۔کوئی عورت اپنی جنسی کشش کھو جانے کے باوجود اگر بنائو سنگھار کے ذریعے سے اپنی جنسیت کو نمایاں کرنے کے مرض میں مبتلا ہو تو اس تخفیفِ پردہ کے حکم سے مستثنٰی ہوگی اور اس کے لیے مکمل پردہ کرنا ضروری ہوگا۔
{وَ اِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تُقْسِطُوْا فِی الْیَتٰمٰی فَانْکِحُوْا مَا طَابَ لَکُمْ مِّنَ النِّسَآئِ مَثْنٰی وَ ثُلٰثَ وَ رُبٰعَ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا تَعْدِلُوْا فَوَاحِدَۃً اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَلَّا تَعُوْلُوْا}[سورۃ النساء (آیت:۳)]
’’اور اگر تم کو اس بات کا خوف ہو کہ یتیم لڑکیوں کے بارے میں انصاف نہ کر سکو گے تو اُن کے سوا جو عورتیں تمھیں پسند ہیں،دو دو یا تین تین یا چار چار اُن سے نکاح کر لو اور اگر اس بات کا اندیشہ ہو کہ (سب عورتوں سے) یکساں سلوک نہ کر سکو گے تو ایک عورت (کافی ہے) یا لونڈی جس کے تم مالک ہو،اس سے تم بے انصافی سے بچ جاؤ گے۔‘‘
اس کی تفسیر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا سے اس طرح مروی ہے کہ صاحبِ حیثیت اور صاحبِ جمال یتیم لڑکی کسی ولی کے زیرِ پرورش ہوتی تو اس کے مال اور حسن و جمال کی وجہ سے اس سے شادی تو کر لیتا، لیکن اس کو دوسری عورتوں کی طرح پورا حق مہرنہ دیتا۔اللہ تعالیٰ نے اس ظلم سے روکا کہ اگر تم گھر کی یتیم بچیوں کے ساتھ انصاف نہیں کر سکتے تو ان سے نکاح ہی مت کرو،تمھارے لیے دوسری عورتوں کے ساتھ نکاح کرنے کا راستہ کھلا ہے۔[صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۵۷۴)]
ایک کے بجائے دو سے،تین سے حتیٰ کے چار عورتوں تک سے تم نکاح کر سکتے ہو،بشرطیکہ ان کے درمیان انصاف کے تقاضے پورے کر سکو،ورنہ ایک ہی نکاح کرو یا اس کے بجائے لونڈی پر گزارا کرو۔اس آیت سے معلوم ہوا کہ مسلمان مرد (اگر وہ ضرورت مند ہے) تو چار عورتیں بیک وقت اپنے نکاح میں رکھ سکتا ہے۔
غرض کہ ایک ہی عورت سے شادی کرنا کافی ہو سکتا ہے، کیونکہ ایک سے زیادہ بیویاں رکھنے کی صورت میں انصاف کا اہتمام بہت مشکل ہے۔جس کی طرف قلبی میلان زیادہ ہوگا،ضروریاتِ زندگی کی فراہمی میں زیادہ توجہ بھی اسی کی طرف ہوگی۔یوں بیویوں کے درمیان وہ انصاف کرنے میں ناکام رہے گا اور اللہ کے ہاں مجرم قرار پائے گا۔قرآن نے اس حقیقت کو دوسرے مقام پر نہایت اچھے انداز میں اس طرح بیان فرمایا ہے کہ ’’(تم ہرگز اس بات کی طاقت نہ رکھو گے) کہ بیویوں کے درمیان انصاف کر سکو،اگرچہ تم اس کا اہتمام کرو۔(اس لیے اتنا کرو) کہ ایک ہی طرف نہ جھک جائو کہ دوسری بیویوں کو بیچ میں لٹکا رکھو۔‘‘ [النساء:۱۲۹]
اس سے معلوم ہوا کہ ایک سے زیادہ شادی کرنا اور بیویوں کے ساتھ انصاف نہ کرنا نامناسب اور نہایت خطرناک ہے۔ اگر تم کو اس بات کا ڈر ہے کہ تم یتیم لڑکیوں کی بابت انصاف نہیں کرسکو گے اور ان کے مہر نہ دے سکو گے اور ان کے ساتھ حسنِ معاشرت میں تم سے کوتاہی ہوگی تو تم ان سے نکاح مت کرو،بلکہ دوسری عورتیں جو تم کو پسند آئیں،ان میں سے ایک چھوڑ چار تک کی اجازت ہے۔
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۲۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَ یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْمَحِیْضِ قُلْ ھُوَ اَذًی فَاعْتَزِلُوا النِّسَآئَ فِی الْمَحِیْضِ وَ لَا تَقْرَبُوْھُنَّ حَتّٰی یَطْھُرْنَ فَاِذَا تَطَھَّرْنَ فَاْتُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ اَمَرَکُمُ اللّٰہُ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ التَّوَّابِیْنَ وَ یُحِبُّ الْمُتَطَھِّرِیْنَ}
’’ اور تم سے حیض کے بارے میں دریافت کرتے ہیں،کہہ دو کہ وہ تو گندگی ہے،سو ایامِ حیض میں عورتوں سے کنارہ کش رہو اور جب تک پاک نہ ہو جائیں اُن سے مقاربت نہ کرو۔ہاں جب پاک ہو جائیں تو جس طریق سے اللہ تعالیٰ نے تمھیں ارشاد فرمایا ہے،اُن کے پاس جاؤ،کچھ شک نہیں ہے کہ اللہ تعالیٰ توبہ قبول کرنے والوں اور پاک صاف رہنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘
بلوغت کے بعد ہر عورت کو ایامِ ماہواری میں جو خون آتا ہے،اسے حیض کہا جاتا ہے۔بعض دفعہ عادت کے خلاف بیماری کی وجہ سے خون آتا ہے،اسے استحاضہ
کہتے ہیں،جس کا حکم حیض سے مختلف ہے۔حیض کے ایام میں عورت کو نماز معاف ہے اور روزے رکھنے ممنوع ہیں،تاہم روزوں کی قضا بعد میں ضروری ہے،لیکن نماز کی نہیں۔مردوں کے لیے صرف ہم بستری سے منع کیا ہے،البتہ بوس و کنار جائز ہے،اسی طرح عورت ان دنوں میں کھانا پکانا اور دیگر کام کر سکتی ہے۔
جس طریق یعنی شرم گاہ سے اجازت ہے صرف اُسی سے جماع کرو،کیوں کہ حالتِ حیض میں بھی اسی سے روکا گیا تھا اور اب پاک ہونے کے بعد جو اجازت دی جا رہی ہے تو اس کا مطلب صرف فرج (شرم گاہ) کی اجازت ہے،نہ کہ کسی اور حصے کی۔اس سے یہ استدلال کیا گیا ہے کہ عورت کی دبر کا استعمال حرام ہے،جیسا کہ احادیث میں اس کی مزید وضاحت و صراحت کر دی گئی ہے۔
{وَ اٰتُوا النِّسَآئَ صَدُقٰتِھِنَّ نِحْلَۃً فَاِنْ طِبْنَ لَکُمْ عَنْ شَیْئٍ مِّنْہُ نَفْسًا فَکُلُوْہُ ھَنِیْٓئًا مَّرِیْٓئًا}
’’اور عورتوں کو اُن کے مہر خوشی سے دے دیا کرو۔ہاں اگر وہ اپنی خوشی سے اس میں سے کچھ تمھیں چھوڑ دیں تو اُسے ذوق و شوق سے کھا لو۔‘‘[سورۃ النساء (آیت:۴)]
{اَلرِّجَالُ قَوَّامُوْنَ عَلَی النِّسَآئِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلَی بَعْضٍ وَبِمَا اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ فَالصَّالِحَاتُ قَانِتَاتٌ حٰفِظٰتٌ لِّلْغَیْْبِ بِمَا حَفِظَ اللّٰہُ وَ الّٰتِیْ تَخَافُوْنَ نُشُوْزَھُنَّ فَعِظُوْھُنَّ وَ اھْجُرُوْھُنَّ فِی الْمَضَاجِعِ وَ اضْرِبُوْھُنَّ فَاِنْ اَطَعْنَکُمْ فَلَا تَبْغُوْا عَلَیْھِنَّ سَبِیْلًا اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیًّا کَبِیْرًا}
"مرد وعورتوں کے (قوام) نگراں ہیں ، کیونکہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے ، اور کیونکہ مردوں نے اپنے مال خرچ کیے ہیں ۔ چنانچہ نیک عورتیں فرمانبردار ہوتی ہیں ، مرد کی غیر موجودگی میں اللہ کی دی ہوئی حفاظت سے ( اس کے حقوق کی ) حفاظت کرتی ہیں ۔ اور جن عورتوں سے تمہیں سرکشی کا اندیشہ ہو تو ( پہلے ) انہیں سمجھاؤ ، اور ( اگر اس سے کام نہ چلے تو ) انہیں خواب گاہوں میں تنہا چھوڑ دو، ( اور اس سے بھی اصلاح نہ ہو تو ) انہیں مار سکتے ہو ۔ پھر اگر وہ تمہاری بات مان لیں تو ان کے خلاف کارروائی کا کوئی راستہ تلاش نہ کرو ۔ یقین رکھو کہ اللہ سب کے اوپر ، سب سے بڑا ہے ۔‘[سورۃ النساء (آیت:4:34)][458]
قوام یا قیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا نظام کے معاملات کو درست حالت میں چلانے اور اس کی حفاظت و نگہبانی کرنے اور اس کی ضروریات مہیا کرنے کا ذمہ دار ہو ۔ یہاں فضیلت بمعنی شرف اور کرامت اور عزت نہیں ہے ، جیسا کہ ایک عام اردو خواں آدمی اس لفظ کا مطلب لے گا ، بلکہ یہاں یہ لفظ اس معنی میں ہے کہ ان میں سے ایک صنف ( یعنی مرد ) کو اللہ نے طبعاً بعض ایسی خصوصیات اور قوتیں عطا کی ہیں جو دوسری صنف ( یعنی عورت ) کو نہیں دیں یا اس سے کم دی ہیں ۔ اس بنا پر خاندانی نظام میں مرد ہی قوام ہونے کی اہلیت رکھتا ہے اور عورت فطرةً ایسی بنائی گئی ہے کہ اسے خاندانی زندگی میں مرد کی حفاظت و خبر گیری کے تحت رہنا چاہیے ۔
حدیث میں آیا ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا” بہترین بیوی وہ ہے کہ جب تم اسے دیکھو تو تمہارا جی خوش ہو جائے ، جب تم اسے کسی بات کا حکم دو تو وہ تمہاری اطاعت کرے ، اور جب تم گھر میں نہ ہو تو وہ تمہارے پیچھے تمہارے مال کی اور اپنے نفس کی حفاظت کرے“ ۔ یہ حدیث اس آیت کی بہترین تفسیر کرتی ہے ۔ مگر یہاں یہ اچھی طرح سمجھ لینا چاہیے کہ عورت پر اپنے شوہر کی اطاعت سے اہم اور اقدم اپنے خالق کی اطاعت ہے ۔ لہٰذا اگر کوئی شوہر خدا کی معصیت کا حکم دے ، یا خدا کے عائد کیے ہوئے کسی فرض سے باز رکھنے کی کوشش کرے تو ، اس کی اطاعت سے انکار کر دینا عورت کا فرض ہے ۔ اس صورت میں اگر وہ اس کی اطاعت کرے گی تو گناہ گار ہوگی ۔ بخلاف اس کے اگر شوہر اپنی بیوی کو نفل نماز یا نفل روزہ ترک کرنے کے لیے کہے تو لازم ہے کہ وہ اس کی اطاعت کرے ۔ اس صورت میں اگر وہ نوافل ادا کرے گی تو مقبول نہ ہوں گے -
اور جن عورتوں کی بدخوئی کا ڈر ہو تو ان کی اصلاح کے لیے درج ذیل تدابیر حسبِ مرتبہ اختیار کرو- بدخوئی کا مطلب یہ نہیں کہ چھوٹی بات پر جیسے پر سالن میں نمک ، مرچ کم یا زیادہ ہو گیا تو تشدد شروع کر دیا یہ غلط ہے- بدخوئی یا برائی کوئی بہت بڑی، سیریس بات ہے، جو کہ درج ذیل تین مرحلوں سے سمجھ میں آ جانا چاہیے:
1۔ ان کو زبان سے سمجھاؤ۔
2۔ جدا کر دو سونے میں، بستر علیحدہ کرو [ یہ انتہائی اقدام ہے کہ کوئی ایسی برائی ہو کہ کرنا پڑے ]
3۔ ان کو مارو (لیکن ایسا نہیں جس کا نشان باقی رہے یا ہڈی ٹوٹے، مسواک سے یا کپڑے کے رومال سے ) [ یہ انتہائی اقدام ہے کہ کوئی ایسی برائی ہو کہ کرنا پڑے ]
یہ مطلب نہیں ہے کہ تینوں کام بیک وقت کر ڈالے جائیں ، بلکہ مطلب یہ ہے کہ نشوز کی حالت میں ان تینوں تدبیروں کی اجازت ہے ۔ اب رہا ان پر عمل درآمد ، تو بہرحال اس میں قصور اور سزا کے درمیان تناسب ہونا چاہیے ، اور جہاں ہلکی تدبیر سے اصلاح ہو سکتی ہو وہاں سخت تدبیر سے کام نہ لینا چاہیے ۔ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بیویوں کے مارنے کی جب کبھی اجازت دی ہے بادل ناخواستہ دی ہے اور پھر بھی اسے ناپسند ہی فرمایا ہے ۔ تاہم بعض عورتیں ایسی ہوتی ہیں جو پٹے بغیر درست ہی نہیں ہوتیں ۔ ایسی حالت میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ہدایت فرمائی ہے کہ منہ پر نہ مارا جائے ، بے رحمی سے نہ مارا جائے اور ایسی چیز سے نہ مارا جائے جو جسم پر نشان چھوڑ جائے ۔ [تفہیم القرآن ]
زوجہ کے خلاف تشدد کرنا درست نہ ہوگا یہ رسول اللہ ﷺ کی سنت سے ثابت نہیں حالانکہ ازدواجی زندگی میں مختلف مراحل ہوتے ہیں- حضرت عاشہ (رضی الله ) پر ایک ایسا وقت آیا کہ وہ والد کے گھر چلی گیئں- مگر رسول اللہ ﷺ کوعائشہ صدیقہ کی پاکدامنی پر پورا پورا یقین تھا- - حضرت حفصہ (رضی الله ) کو طلاق دینے کی نوبت بھی آئی جو جبرائیل علیہ السلام نے منع فرمایا- قران کی اجازت کے باوجود شاید یہ واحد آیت ہو(اور طلاق ) جس پر رسول اللہ ﷺ ںے عمل نہ کیا- زوجہ پرضرب (تشدد) سنت رسول اللہ ﷺ نہیں- ایک طرح سےاس اجازت کو رسول اللہ ﷺ کی سنت میں معطل (suspended) سمجھا جا سکتا ہے، منسوخ نہیں (واللہ اعلم) - اس پر علماء کو تحقیق کی ضرورت ہے کیونکہ اس اجازت کا بہت غلط استعمال کیا جا رہا ہے جیسے تین طلاق کا معامله ہے- ان پر حکومت کو قانون سازی کرکہ پہلے دو مراحل کے بغیر تیسرے مرحلہ پر براہ راست عمل کو قانونی طور پر جرم قرار دینے کا جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ قرآن میں بیان کردہ مراحل پر عمل ممکن ہو سکے- اس سے غیر ضروری تشدد پر کنٹرول ممکن ہے-
{نِسَآؤُکُمْ حَرْثٌ لَّکُمْ فَاْتُوْا حَرْثَکُمْ اَنّٰی شِئْتُمْ وَ قَدِّمُوْا لِاَنُفُسِکُمْ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّکُمْ مُّلٰقُوْہُ وَ بَشِّرِ الْمُؤْمِنِیْنَ}[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۲۳)]
’’تمھاری عورتیں تمھاری کھیتی ہیں تو اپنی کھیتی میں جس طرح چاہو جاؤ اور اپنے لیے (نیک عمل) آگے بھیجو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ (ایک دن) تمھیں اُس کے روبرو حاضر ہونا ہے اور (اے پیغمبر!) ایمان والوں کو بشارت سنا دو۔‘‘
یہودیوں کا خیال تھا کہ اگر عورت کو پیٹ کے بل لٹا کر مباشرت کی جائے تو بچہ بھینگا پیدا ہوتا ہے۔اس کی تردید میں کہا جا رہا ہے کہ مباشرت آگے سے کرو (چت لٹا کر) یا پیچھے سے (پیٹ کے بل) یا کروٹ پر،جس طرح چاہو،جائز ہے، لیکن یہ ضروری ہے کہ ہر صورت میں عورت کی فرج ہی استعمال ہو۔ بعض لوگ اس سے یہ دلیل کرتے ہیں (جس طرح چاہو) میں تو دبر بھی آ جاتی ہے، لہٰذا دبر کا استعمال بھی جائز ہے،لیکن یہ بالکل غلط ہے۔جب قرآن نے عورت کو کھیتی (پیداوار. بچہ کی پیدائش) قرار دیا ہے تو اس کا مطلب یہ ہے کہ صرف کھیتی کے استعمال کے لیے کہا جا رہا ہے کہ ’’اپنے کھیتوں میں جس طرح چاہو آئو‘‘ اور یہ کھیتی صرف فرج ہے نہ کہ دبر۔ بہرحال یہ غیر فطری فعل ہے۔ایسے شخص کو جو اپنی عورت کی دبر استعمال کرتا ہے،ملعون قرار دیا گیا ہے۔[سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۱۶۲) مسند أحمد (۲/ ۴۷۹) صحیح الجامع (۵۸۸۹)]
{وَ الْمُطَلَّقٰتُ یَتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ ثَلٰثَۃَ قُرُوْٓئٍ وَ لَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْٓ اَرْحَامِھِنَّ اِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ بُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا وَ لَھُنَّ مِثْلُ الَّذِیْ عَلَیْھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ لِلرِّجَالِ عَلَیْھِنَّ دَرَجَۃٌ وَ اللّٰہُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ}[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۲۸)]
’’اور طلاق والی عورتیں تین حیض تک اپنے آپ کو روکے رہیں اور اگر وہ اللہ تعالیٰ اور روزِ قیامت پر ایمان رکھتی ہیں تو اُن کو جائز نہیں کہ اللہ نے جو کچھ اُن کے شکم میں پیدا کیا ہے،اُس کو چھپائیں اور اُن کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں اور عورتوں کا حق (مردوں ) پر ویسا ہی ہے،جیسے دستور کے مطابق (مردوں کا حق) عورتوں پر ہے،البتہ مردوں کو عورتوں پر فضیلت ہے اور اللہ تعالیٰ غالب (اور) صاحبِ حکمت ہے۔‘‘
طلاق کا معنیٰ بندھن کو کھولنا ہے،یعنی طلاق چھوڑ دینے اور ترک کر دینے کے بعد شرعاً نکاح کی گرہ کھول دینے کو کہتے ہیں۔
اس سے وہ مطلقہ عورت مراد ہے جو حاملہ بھی نہ ہو (کیونکہ حمل والی عورت کی مدت وضع حمل تک ہے) اور جسے دخول سے قبل طلاق مل گئی ہو،وہ بھی نہ ہو (کیونکہ اس کی کوئی عدت ہی نہیں ) اور جس کو حیض آنا بند ہو گیا ہو،وہ بھی نہ ہو،کیونکہ ان کی عدت تین مہینے ہے،گویا مذکورہ عورتوں کے علاوہ صرف مدخولہ عورت کی عدت بیان کی جارہی ہے۔یعنی تیں طہر یا تین حیض عدت گزار کر وہ دوسری شادی کرنے کی مجاز ہے۔
{اَلطَّلَاقُ مَرَّتٰنِ فَاِمْسَاکٌ بِمَعْرُوْفٍ اَوْتَسْرِیْحٌ بِاِحْسَانٍ وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ شَیْئًا اِلَّآ اَنْ یَّخَافَآ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاِنْ خِفْتُمْ اَلَّا یُقِیْمَا حُدُوْدَ اللّٰہِ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا فِیْمَا افْتَدَتْ بِہٖ تِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ فَلَا تَعْتَدُوْھَا وَ مَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ}[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۲۹)]
’’طلاق (صرف) دو بار ہے (یعنی جب دو دفعہ طلاق دے دی جائے تو) پھر (عورت کو) یا تو بطریق شایستہ (نکاح میں ) رہنے دینا ہے یا بھلائی کے ساتھ چھوڑ دینا ہے اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم اُن کو دے چکے ہو،اُس میں سے کچھ واپس لے لو۔ہاں اگر زن و شوہر کو خوف ہو کہ وہ اللہ کی حدوں کو قائم نہیں رکھ سکیں گے تو اگر عورت (خاوند کے ہاتھ سے) رہائی پانے کے بدلے میں کچھ دے ڈالے تو (دونوں پر) کچھ گناہ نہیں،یہ اللہ کی (مقرر کی ہوئی) حدیں ہیں،ان سے باہر نہ نکلنا اور جو لوگ اللہ کی حدوں سے باہر نکل جائیں گے وہ گنہگار ہوں گے۔‘‘
یعنی وہ طلاق جس میں خاوند کو عدت کے اندر رجوع کا حق حاصل ہے،وہ دو مرتبہ ہے- پہلی مرتبہ طلاق کے بعد بھی اور دوسری مرتبہ طلاق کے بعد بھی رجوع ہو سکتا ہے۔ تیسری مرتبہ طلاق دینے کے بعد رجوع کی اجازت نہیں۔زمانہ جاہلیت میں یہ حق طلاقِ و رجوع غیر محدود تھا،جس سے عورتوں پر بڑاظلم ہوتا تھا۔ آدمی بار بار طلاق دے کر رجوع کرتا رہتا تھا،اس طرح اسے بساتا تھا نہ آزاد کرتا تھا۔اللہ نے اس ظلم کا راستہ بند کر دیا اور پہلی یا دوسری مرتبہ سوچنے اور غور کرنے کی سہولت سے محروم بھی نہیں کیا۔ ورنہ اگر پہلی مرتبہ کی طلاق ہی میں ہمیشہ کے لیے جدائی کا حکم دے دیا جاتا تو اس سے پیدا ہونے والے معاشرتی مسائل کی پیچیدگیوں کا اندازہ ہی نہیں کیا جاسکتا۔
اس پر مکاتب فکر کا اختلاف ہے
1. اللہ تعالیٰ نے ’’طَلْقَتَانِ‘‘ ’’دو طلاقیں ‘‘ نہیں فرمایا بلکہ {اَلطَّلَاقُ مَرَّتَانِ}’’طلاق دو مرتبہ‘‘ فرمایا ہے،جس سے اس بات کی طرف اشارہ فرما دیا کہ بیک وقت دو یا تین طلاقیں دینا اور انھیں بیک و قت نافذ کر دینا حکمتِ الٰہی کے خلاف ہے۔ حکمت الٰہی اسی بات کی مقتضی ہے کہ ایک مرتبہ طلاق کے بعد (چاہے وہ ایک ہو یا کئی ایک) اور اسی طرح دوسری مرتبہ طلاق کے بعد (چاہے وہ ایک ہو یا کئی ایک) مرد کو سوچنے سمجھنے اور جلدبازی یا غصے میں کیے گئے کام کے ازالے کا موقع دیا جائے[459]۔ یہ حکمت ایک مجلس کی تین طلاقوں کو ایک طلاق رجعی قرار دینے ہی میں باقی رہتی ہے، نہ کہ تینوں کو بیک وقت نافذ کرکے سوچنے اور غلطی کا ازالہ کرنے کی سہولت سے محروم کر دینا ہے -
2. احناف کا ایک مجلس کی تین طلاقوں کے واقع ہونے ہی کا فتویٰ
لیکن اگر کوئی شخص شریعت کی عطاء کردہ ان سہولیات کو کام میں نہ لائے اور بیک وقت تینوں طلاقیں زبان سے کہہ دے تو اس کا یہ اقدام ناجائز اور بدعت ہے، تاہم اپنی تاثیر کے لحاظ سے یہ مؤثر اور نتیجہ خیز ثابت ہوتا ہے، ہم دیکھتے ہیں کہ بعض ایسے امور ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں ان سے منع کیا ہے ، لیکن جب کوئی شخص اس کا ارتکاب کرتا ہے تو وہ حکم شرعی اپنے تمام احکام کے ساتھ واقع ہوتا ہے ، مثلاً: ''ظہار'' کو قرآنِ مجید میں "مُنکَراً مِّنَ القَولِ وَزُورًا" کہا گیا ہے ، لیکن جب کوئی شخص اپنی بیوی سے ''ظہار'' کرتا ہے تو اس پر حکمِ شرعی نافذ ہوجاتا ہے، قتلِ ناحق جرم اور گناہ ہے، مگر جس کو گولی یا تلوار مار کر قتل کیا جاتا ہے وہ قتل ہو ہی جاتا ہے، اس کی موت اس کا انتظار نہیں کرتی کہ گولی جائز طریقے سے ماری گئی ہے یا ناجائز طریقہ سے؟ اس طرح کی کئی مثالیں ہیں جن سے یہ سمجھ میں آتا ہے کہ جو شخص شریعت کی آسانیوں اور سہولتوں کو نظر انداز کرکے بیک وقت تین طلاقیں دے دے تو تینوں طلاقیں واقع ہوجاتی ہیں۔
قرآن کریم میں ہے : ﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ ﴾ [البقرة: 229]
ترجمہ:وہ طلاق دو مرتبہ کی ہے، پھر خواہ رکھ لینا قاعدہ کے موافق خواہ چھوڑ دینا خوش عنوانی کے ساتھ۔ (بیان القرآن)
اس آیت کے شانِ نزول میں مفسرین حضرات یہ بیان کرتے ہیں کہ ابتدائے اسلام میں لوگ بغیر کسی تعداد اور گنتی کے طلاق دیا کرتے تھے، مرد جب اپنی بیوی کو طلاق دیتا اور اس کی عدت مکمل ہونے کا وقت قریب ہوتا تو وہ رجوع کرلیتا اور پھر طلاق دے کر دوبارہ رجوع کرتا، اس سے ان کا مقصد اس عورت کو تکلیف دینا ہوتا تھا، جس پر قرآنِ کریم کی یہ آیت نازل ہوئی۔[460]
یہی وجہ ہے کہ امام بخاری جیسے جلیل القدر محدث نے اسی آیت کو مدِ نظر رکھتے ہوئے اپنی کتاب "صحیح البخاری" میں یہ باب قائم کیا " باب من أجاز الطلاق الثلاث"[461]
امام قرطبی رحمہ اللہ، امام بخاری رحمہ اللہ کے اس طرز پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں : "اس سے معلوم ہوتا ہے کہ مرد کو تین طلاق کا اختیار دینا شریعت کی جانب سے ایک گنجائش ہے ، جو شخص اپنے اوپراز خود تنگی کرے اس پر یہ حکم لازم ہوجائےگا، ہمارے علماء فرماتے ہیں کہ فتویٰ دینے والے ائمہ کا اس بات پر اتفاق ہے کہ ایک ساتھ دی گئی تینوں طلاقیں واقع ہوتی ہیں، یہ جمہور سلف کا قول ہے"۔[462]
امام ابو بکر جصاص رحمہ اللہ لکھتے ہیں کہ آیت ﴿ الطَّلَاقُ مَرَّتَانِ ﴾ ایک ساتھ دی گئی تین طلاقوں کے واقع ہونے پر دلالت کرتی ہے ، ا گرچہ ایسا کرنا باعث گناہ ہے.[463]
جو عورت بلا وجہ اپنے خاوند سے طلاق کا سوال کرتی ہے اس پر بہشت کی ہوا بھی حرام ہے۔[سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۲۲۶) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۱۸۷) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۲۰۵۵) منہاج المسلم (ص: ۶۳۸) و تفسیر ابن کثیر۔]
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۳۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ سَرِّحُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَ لَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ وَلَا تَتَّخِذُوْٓا اٰیٰتِ اللّٰہِ ھُزُوًا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ مَآ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَ الْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلَیْمٌ}
’’اور جب تم عورتوں کو (دو دفعہ) طلاق دے چکو اور اُن کی عدت پوری ہو جائے تو انھیں یا تو حسنِ سلوک سے نکاح میں رہنے دو یا بہ طریق شایستہ رخصت کر دو اور اس نیت سے اُن کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیے کہ اُنھیں تکلیف دو اور اُن پر زیادتی کرو اور جو ایسا کرے گا،وہ اپنا ہی نقصان کرے گا اور اللہ کے احکام کو ہنسی (اور کھیل) نہ بناؤ اور اللہ نے تمھیں جو نعمتیں بخشی ہیں اور تم پر جو کتاب اور دانائی کی باتیں نازل کی ہیں،جن سے وہ تمھیں نصیحت فرماتا ہے،اُن کو یاد کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘
سورۃ الطلاق (آیت:۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ لاَ تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْم بُیُوْتِھِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ لاَ تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا}
’’اے پیغمبر! (مسلمانوں سے کہہ دو) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو اور اللہ سے جو تمھارا پروردگار ہے ڈرو (نہ توتم ہی) ان کو (ایام عدت میں ) ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود ہی) نکلیں،ہاں اگر وہ صریح بے حیائی کریں (تو نکال دینا چاہیے) اور یہ اللہ کی حدیں ہیں۔جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا،وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا (اے طلاق دینے والے!) تجھے کیا معلوم کہ شاید اللہ اس کے بعد کوئی (رجعت کی) سبیل پیدا کر دے۔‘‘
طلاق دیتے ہی عورت کو اپنے گھر سے مت نکالو،بلکہ عدت تک اسے گھر ہی میں رہنے دو اور اس وقت تک رہایش اور نان و نفقہ تمھاری ذمے داری ہے۔
سورۃ الاحزاب (آیت:۴۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا نَکَحْتُمُ الْمُؤْمِنٰتِ ثُمَّ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ فَمَا لَکُمْ عَلَیْھِنَّ مِنْ عِدَّۃٍ تَعْتَدُّوْنَھَا فَمَتِّعُوْھُنَّ وَ سَرِّحُوْھُنَّ سَرَاحًا جَمِیْلًا}
’’مومنو! جب تم مومن عورتوں سے نکاح کر کے اُن کو ہاتھ لگانے (اُن کے پاس جانے) سے پہلے طلاق دے دو تو تم کو کچھ اختیار نہیں کہ اُن سے عدت پوری کراؤ،اُن کو کچھ فائدہ (خرچ) دے کر اچھی طرح سے رخصت کر دو۔‘‘
نکاح کے بعد جن عورتوں سے ہم بستری کی جا چکی ہو اور وہ جوان ہوں،ایسی عورتوں کو طلاق مل جائے تو ان کی عدت تین حیض ہے۔(البقرۃ:۲۲۸) اور جن سے نکاح ہوا ہے،لیکن میاں بیوی کے درمیان ہم بستری نہیں ہوئی،ان کو اگر طلاق ہو جائے تو عدت نہیں ہے،یعنی ایسی غیر مدخولہ مطلقہ بغیر عدت گزارے،فوری طور پر کہیں نکاح کرنا چاہے تو کر سکتی ہے،البتہ ہم بستری سے قبل خاوند فوت ہوجائے تو پھر اسے ۴ ماہ اور دس دن کی عدت گزارنا پڑے گی۔[465]
سورۃ الطلاق (آیت:۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{یٰٓاَیُّھَا النَّبِیُّ اِذَا طَلَّقْتُمْ النِّسَآئَ فَطَلِّقُوْھُنَّ لِعِدَّتِھِنَّ وَاَحْصُوا الْعِدَّۃَ وَاتَّقُوا اللّٰہَ رَبَّکُمْ لاَ تُخْرِجُوْھُنَّ مِنْم بُیُوْتِھِنَّ وَلاَ یَخْرُجْنَ اِلَّآ اَنْ یَّاْتِیْنَ بِفَاحِشَۃٍ مُّبَیِّنَۃٍ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَمَنْ یَّتَعَدَّ حُدُوْدَ اللّٰہِ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ لاَ تَدْرِیْ لَعَلَّ اللّٰہَ یُحْدِثُ بَعْدَ ذٰلِکَ اَمْرًا}
’’اے پیغمبر! (مسلمانوں سے کہہ دو) جب تم عورتوں کو طلاق دینے لگو تو ان کی عدت کے شروع میں طلاق دو اور عدت کا شمار رکھو اور اللہ سے جو تمھارا پروردگار ہے،ڈرو (نہ توتم ہی) ان کو (ایامِ عدت میں ) ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ (خود ہی) نکلیں،ہاں اگر وہ صریح بے حیائی کریں (تو نکال دینا چاہیے) اور یہ اللہ کی حدیں ہیں جو اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گا،وہ اپنے آپ پر ظلم کرے گا (اے طلاق دینے والے!) تجھے کیا معلوم کہ شاید اللہ اس کے بعد کوئی (رجوع کی) سبیل پیدا کر دے۔‘‘
اس میں طلاق دینے کا طریقہ اور وقت بتلایا ہے (عدت کے آغاز میں
طلاق دو)،یعنی جب عورت حیض سے پاک ہو جائے تو اس سے ہم بستری کے بغیر طلاق دو۔حالتِ طہر اس کی عدت کا آغاز ہے۔
عدت کی ابتدا اور انتہا کا خیال رکھو،تاکہ عورت اس کے بعد نکاح ثانی کر سکے،یا اگر تم ہی رجوع کرنا چاہو،( پہلی اور دوسری طلاق کی صورت میں ) تو عدت کے اندر رجوع کر سکو۔
سورۃ الطلاق (آیت:۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَاَمْسِکُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ اَوْ فَارِقُوْھُنَّ بِمَعْرُوْفٍ وَّاَشْھِدُوْا ذَوَیْ عَدْلٍ مِّنْکُمْ وَاَقِیْمُوا الشَّھَادَۃَ لِلّٰہِ ذٰلِکُمْ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَالْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مَخْرَجًا}
’’پھر جب وہ اپنی میعاد (انقضاے عدت) کے قریب پہنچ جائیں تو یا تو ان کو اچھی طرح سے (زوجیت میں ) رہنے دو یا اچھی طرح سے علاحدہ کر دو اور اپنے میں سے دو منصف مردوں کو گواہ کر لو اور (گواہو!) اللہ کے لیے درست گواہی دینا،ان باتوں سے اس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جوا للہ پر اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتا ہے اور جو کوئی اللہ سے ڈرے گا،وہ اس کے لیے (رنج و غم سے) مخلصی (کی صورت) پیدا کر دے گا۔‘‘
-308 تقویٰ وتوکّل والوں کو رزقِ فراواں:
سورۃ الطلاق (آیت:۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَیَرْزُقْہُ مِنْ حَیْثُ لاَ یَحْتَسِبُ وَمَنْ یَّتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ فَھُوَ حَسْبُہٗ اِنَّ اللّٰہَ بَالِغُ اَمْرِہٖ قَدْ جَعَلَ اللّٰہُ لِکُلِّ شَیْئٍ قَدْرًا}
’’اور اس کو ایسی جگہ سے رزق دے گا جہاں سے اسے (وہم و) گمان بھی نہ ہو اور جو اللہ پر بھروسا رکھے گا تو وہ اس کو کفایت کرے گا،اللہ اپنے کام کو (جو وہ کرنا چاہتا ہے) پورا کر دیتا ہے،اللہ نے ہر چیز کا اندازہ مقرر کر رکھا ہے۔‘‘
اندازہ تنگیوں کے لیے بھی اور آسانیوں کے لیے بھی۔یہ دونوں اپنے وقت پر انتہا پذیر ہو جاتے ہیں۔بعض نے اس سے حیض اور عدت مراد لی ہے۔
سورۃ الطلاق (آیت:۴،۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَالّٰئِیْ یَئِسْنَ مِنَ الْمَحِیْضِ مِنْ نِّسَآئِکُمْ اِنِ ارْتَبْتُمْ فَعِدَّتُھُنَّ ثَلٰثَۃُ اَشْھُرٍ وَّالّٰئِیْ لَمْ یَحِضْنَ وَاُوْلاَتُ الْاَحْمَالِ اَجَلُھُنَّ اَنْ یَّضَعْنَ حَمْلَھُنَّ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّہٗ مِنْ اَمْرِہٖ یُسْرًا . ذٰلِکَ اَمْرُ اللّٰہِ اَنْزَلَہٗٓ اِلَیْکُمْ وَمَنْ یَّتَّقِ اللّٰہَ یُکَفِّرْ عَنْہُ سَیِّاٰتِہٖ وَیُعْظِمْ لَہٗٓ اَجْرًا}
’’اور تمھاری (مطلقہ) عورتیں جوحیض سے ناامید ہو چکی ہوں،اگر تم کو (ان کی عدت کے بارے میں ) شبہہ ہو تو ان کی عدت تین مہینے ہے اور جن کو ابھی حیض نہیں آیا (ان کی عدت بھی یہی ہے) اور حمل والی عورتوں کی عدت وضع حمل (بچہ جننے) تک ہے اور جو اللہ سے ڈرے گا،اللہ اس کے کام میں سہولت پیدا کردے گا۔یہ اللہ کے حکم ہیں جو اللہ نے تم پرنازل کیے ہیں اور جو اللہ سے ڈرے گا،وہ اس سے اس کے گناہ دُور کر دے گا اور اسے اجرِ عظیم بخشے گا۔‘‘
تین مہینے ان کی عدت ہے جن کا حیض عمر رسیدہ ہونے کی وجہ سے بند ہو گیا ہو یا جنھیں حیض آنا شروع ہی نہ ہوا ہو۔مطلقہ اگر حاملہ ہو تو اس کی عدت وضع حمل ہے،چاہے دوسرے روز ہی وضع حمل ہو جائے،ہر حاملہ عورت کی عدت یہی ہے چاہے وہ مطلقہ ہو یا اس کا خاوند فوت ہو گیا ہو۔احادیث سے بھی اس کی تائید ہوتی ہے۔جبکہ بیوہ کی عدت چار ماہ دس دن ہے۔[دیکھیں:البقرہ:۲۳۴]
سورۃ الطلاق (آیت:۶،۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{اَسْکِنُوْھُنَّ مِنْ حَیْثُ سَکَنْتُمْ مِّنْ وُّجْدِکُمْ وَلاَ تُضَآرُّوْھُنَّ لِتُضَیِّقُوْا عَلَیْھِنَّ وَاِنْ کُنَّ اُوْلاَتِ حَمْلٍ فَاَنْفِقُوْا عَلَیْھِنَّ حَتّٰی یَضَعْنَ حَمْلَھُنَّ فَاِنْ اَرْضَعْنَ لَکُمْ فَاٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ وَاْتَمِرُوْا بَیْنَکُمْ بِمَعْرُوْفٍ وَاِنْ تَعَاسَرْتُمْ فَسَتُرْضِعُ لَہٗٓ اُخْرٰی . لِیُنْفِقْ ذُوْسَعَۃٍ مِّنْ سَعَتِہٖ وَمَنْ قُدِرَ عَلَیْہِ رِزْقُہٗ فَلْیُنْفِقْ مِمَّآ اٰتٰہُ اللّٰہُ لاَ یُکَلِّفُ اللّٰہُ نَفْسًا اِلَّا مَآ اٰتٰھَا سَیَجْعَلُ اللّٰہُ بَعْدَ عُسْرٍ یُّسْرًا}
’’(مطلقہ) عورتوں کو (ایامِ عدت میں ) اپنے مقدور کے مطابق وہیں رکھو،جہاں خود رہتے ہو اور ان کو تنگ کرنے کے لیے تکلیف نہ دو اور اگر حمل سے ہوں تو بچہ جننے تک ان کا خرچ دیتے رہو،پھر اگر وہ بچے کو تمھارے کہنے سے دودھ پلائیں تو ان کو ان کی اجرت دو اور (بچے کے بارے میں ) پسندیدہ طریق سے موافقت رکھو اور اگر باہم ضد (اور نااتفاقی) کرو گے تو بچے کو اس کے (باپ کے) کہنے سے کوئی اور عورت دودھ پلائے گی،صاحبِ وسعت کو اپنی وسعت کے مطابق خرچ کرنا چاہیے اور جس کے رزق میں تنگی ہو،وہ جتنا اللہ نے اس کو دیا ہے،اس کے موافق خرچ کرے،اللہ کسی کو تکلیف نہیں دیتا،مگر اسی کے مطابق جو اس کو دیا ہے اور اللہ عنقریب تنگی کے بعد کشایش بخشے گا۔‘‘
باہم مشورے سے اجرت اور دیگر معاملات طے کر لیے جائیں۔مثلاً بچے کا باپ حیثیت کے مطابق اجرت دے اور ماں،باپ کی حیثیت کے مطابق اجرت طلب کرے وغیرہ۔
آپس میں اجرت وغیرہ کا معاملہ طے نہ ہوسکے تو کسی دوسری اَنا کے ساتھ معاملہ کرلے،جو اس کے بچے کو دودھ پلائے۔
{وَ الْوَالِدٰتُ یُرْضِعْنَ اَوْلَادَھُنَّ حَوْلَیْنِ کَامِلَیْنِ لِمَنْ اَرَادَ اَنْ یُّتِمَّ الرَّضَاعَۃَ وَ عَلَی الْمَوْلُوْدِ لَہٗ رِزْقُھُنَّ وَ کِسْوَتُھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ لَا تُکَلَّفُ نَفْسٌ اِلَّا وُسْعَھَا لَا تُضَآرَّ وَالِدَۃٌم بِوَلَدِھَا وَلَا مَوْلُوْدٌ لَّہٗ بِوَلَدِہٖ وَ عَلَی الْوَارِثِ مِثْلُ ذٰلِکَ فَاِنْ اَرَادَا فِصَالًا عَنْ تَرَاضٍ مِّنْھُمَا وَ تَشَاوُرٍ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْھِمَا وَ اِنْ اَرَدْتُّمْ اَنْ تَسْتَرْضِعُوْٓا اَوْلَادَکُمْ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِذَا سَلَّمْتُمْ مَّآ اٰتَیْتُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اتَّقُوْا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ}[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۳۳)]
’’اور مائیں اپنے بچوں کو پورے دو سال دودھ پلائیں یہ (حکم) اُس شخص کے لیے ہے جو پوری مدت تک دودھ پلوانا چاہے اور دودھ پلانے والی ماؤں کا کھانا اور کپڑا دستور کے مطابق باپ کے ذمے ہوگا۔کسی شخص کو اُس کی طاقت سے زیادہ تکلیف نہیں دی جاتی (تو یاد رکھو کہ) نہ تو ماں کو اُس کے بچے کے سبب نقصان پہنچایا جائے اور نہ باپ کو اُس کی اولاد کی وجہ سے نقصان پہنچایا جائے اور اسی طرح (نان و نفقہ) بچے کے وارث کے ذمے ہے اور اگر دونوں (ماں باپ) آپس کی رضا مندی اور صلاح مشورے سے بچے کا دودھ چھڑانا چاہیں تو اُن پر کچھ گناہ نہیں اور اگر تم اپنی اولاد کو دودھ پلوانا چاہو تو تم پر کچھ گناہ نہیں،بشرطیکہ تم دونوں پلانے والیوں کو دستور کے مطابق اُن کا حق جو تم نے دینا کیا تھا دے دو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو،اللہ اُس کو دیکھ رہا ہے۔‘‘
اس آیت میں مسئلہ رضاعت کا بیان ہے۔اس میں پہلی بات یہ ہے کہ جو مدت رضاعت پوری کرنا چاہے تو وہ پورے دو سال دودھ پلائے۔ ان الفاظ سے اس سے کم مدت تک دودھ پلانے کی بھی گنجایش نکلتی ہے۔ دوسری بات یہ معلوم ہوئی کہ مدتِ رضاعت زیادہ سے زیادہ دو سال ہے۔
{مَوْلُودٌ لَّہٗ} سے مراد باپ ہے۔ طلاق ہو جانے کی صورت میں شیرخوار بچے اور اس کی ماں کی کفالت کا مسئلہ ہمارے معاشرے میں بڑا پیچیدہ بن جاتا ہے اور اس کی وجہ شریعت سے انحراف ہے۔اگر حکم الٰہی کے مطابق خاوند اپنی طاقت کے مطابق مطلقہ عورت کی روٹی کپڑے کا ذمے دار ہو،جس طرح اس آیت میں کہا جارہا ہے تو نہایت آسانی سے یہ مسئلہ حل ہو جاتا ہے۔
ماں کو تکلیف پہنچانا یہ ہے کہ مثلًا ما ں بچے کو اپنے پاس رکھنا چاہے،مگر مامتا کے جذبے کو نظر انداز کرکے بچہ زبردستی اس سے چھین لیا جائے،یا بغیر خرچ کی ذمے داری اٹھائے اسے دودھ پلانے پر مجبور کیا جائے۔باپ کو تکلیف پہنچانے سے مراد یہ ہے کہ ماں دودھ پلانے سے انکار کردے یا اس کی حیثیت سے زیادہ کا اس سے مالی مطالبہ کرے۔
{وَ الَّذِیْنَ یُتَوَفَّوْنَ مِنْکُمْ وَ یَذَرُوْنَ اَزْوَاجًا یَّتَرَبَّصْنَ بِاَنْفُسِھِنَّ اَرْبَعَۃَ اَشْھُرٍ وَّ عَشْرًا فَاِذَا بَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا فَعَلْنَ فِیْٓ اَنْفُسِھِنَّ بِالْمَعْرُوْفِ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ }[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۳۴)]
’’اور جو لوگ تم میں سے مر جائیں اور عورتیں چھوڑ جائیں تو عورتیں چار مہینے دس دن اپنے آپ کو روکے رہیں اور جب (یہ) عدت پوری کر چکیں اور اپنے حق میں پسندیدہ کام (نکاح) کر لیں تو تم پر کچھ گناہ نہیں اور اللہ تعالیٰ تمھارے سب کاموں سے واقف ہے۔‘‘
{الَطَّلَاقُ مَرَّتَانِ} میں بتلایا گیا تھا کہ دو طلاق تک رجوع کرنے کا اختیار ہے،اب اس آیت میں کہا جا رہا ہے کہ رجوع عدت کے اندر اندر ہو سکتا ہے،عدت گزرنے کے بعد نہیں۔اس لیے یہ تکرار نہیں ہے جس طرح کے بہ ظاہر نظر آتا ہے۔
یہ عدتِ وفات ہر عورت کے لیے ہے،چاہے گھر میں رہے یا گھر کے باہر،جوان ہو یا بوڑھی۔البتہ اس سے حاملہ عورت مستثنیٰ ہے،کیونکہ اس کی عدت وضع حمل ہے۔اس عدتِ وفات میں عورت کو زیب و زینت کی( حتیٰ کہ سرمہ لگانے) اور خاوند کے مکان سے کسی اور جگہ منتقل ہونے کی اجازت نہیں ہے۔البتہ مطلقہ کو دوبارہ نکاح کے لیے عدت کے اندر زیب و زینت ممنوع نہیں ہے۔
مطلقہ جس سے رجوع نہ ہو سکے،اس کے بارے میں اختلاف ہے،بعض جواز کے اور بعض ممانعت کے قائل ہیں۔یعنی عدت گزرنے کے بعد وہ زیب و زینت اختیار کریں۔اولیا کی اجازت و مشاورت سے کسی اور جگہ نکاح کا بندوبست کریں،تو اس میں کوئی حرج نہیں،اس لیے تم پر بھی(اے عورت کے والیو! ) کوئی گناہ نہیں۔اس سے معلوم ہوا کہ بیوہ کے عقد ثانی کو برا سمجھنا چاہیے نہ اس میں رکاوٹ ڈالنی چاہیے۔جیسا کہ ہندوؤں کے اثرات سے ہمارے معاشرے میں یہ چیز پائی جاتی ہے۔
{وَ لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ فِیْمَا عَرَّضْتُمْ بِہٖ مِنْ خِطْبَۃِ النِّسَآئِ اَوْ اَکْنَنْتُمْ فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ عَلِمَ اللّٰہُ اَنَّکُمْ سَتَذْکُرُوْنَھُنَّ وَلٰکِنْ لَّا تُوَاعِدُوْھُنَّ سِرًّا اِلَّآ اَنْ تَقُوْلُوْا قَوْلًا مَّعْرُوْفًا وَ لَا تَعْزِمُوْا عُقْدَۃَ النِّکَاحِ حَتّٰی یَبْلُغَ الْکِتٰبُ اَجَلَہٗ وَ اعْلَمُوْ ٓا اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا فِیْٓ اَنْفُسِکُمْ فَاحْذَرُوْہُ وَ اعْلَمُوْ ٓا اَنَّ اللّٰہَ غَفُوْرٌ حَلِیْمٌ} سورۃ البقرہ (آیت:۲۳۵)
’’اگر تم (اشارے) کنائے کی باتوں میں عورتوں کو نکاح کا پیغام بھیجو یا (نکاح کی خواہش کو) اپنے دلوں میں مخفی رکھو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔اللہ کو معلوم ہے کہ تم اُن سے (نکاح کا) ذکر کرو گے،مگر (ایامِ عدت میں ) اس کے سوا کہ دستور کے مطابق کوئی بات کہہ دو،پوشیدہ طور پر اُن سے قول و اقرار نہ کرنااور جب تک عدت پوری نہ ہو لے،نکاح کا پختہ ارادہ نہ کرنا اور جان رکھو کہ جو کچھ تمھارے دلوں میں ہے،اللہ کو سب معلوم ہے تو اس سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ بخشنے والا اور حلم والا ہے۔‘‘
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۲۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَ لَا یَحِلُّ لَھُنَّ اَنْ یَّکْتُمْنَ مَا خَلَقَ اللّٰہُ فِیْٓ اَرْحَامِھِنَّ اِنْ کُنَّ یُؤْمِنَّ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ وَ بُعُوْلَتُھُنَّ اَحَقُّ بِرَدِّھِنَّ فِیْ ذٰلِکَ اِنْ اَرَادُوْٓا اِصْلَاحًا}
’’اُن کو جائز نہیں کہ اللہ نے جو کچھ اُن کے شکم میں پیدا کیا ہے،اُس کو چھپائیں اور اُن کے خاوند اگر پھر موافقت چاہیں تو اس (مدت) میں وہ ان کو اپنی زوجیت میں لے لینے کے زیادہ حق دار ہیں۔‘‘
اس سے حیض اور حمل دونوں ہی مراد ہیں۔حیض نہ چھپائیں،مثلاً کہے کہ طلاق کے بعد مجھے ایک یا دو حیض آئے ہیں۔مقصد پہلے خاوند کی طرف رجوع کرنا ہو (اگر وہ رجوع کرنا چاہتا ہو) یا اگر رجوع نہ کرنا چاہتی ہو تو یہ کہہ دے کہ مجھے تو تین حیض آچکے ہیں،یوں خاوند کا حقِ رجوع ضائع کر دے۔اسی طرح حمل نہ چھپائیں،کیوں کہ وہ نطفہ پہلے خاوند کا ہوگا اور منسوب دوسرے خاوند کی طرف ہو جائے گا اور یہ سخت کبیرہ گناہ ہے۔
-27 طلاق دینے پر مہر واپس لینے کی ممانعت:
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۲۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَلَا یَحِلُّ لَکُمْ اَنْ تَاْخُذُوْا مِمَّآ اٰتَیْتُمُوْ ھُنَّ شَیْئًا}
’’اور یہ جائز نہیں کہ جو مہر تم اُن کو دے چکے ہو،اُس میں سے کچھ واپس لے لو۔‘‘
یعنی طلاق دینے کے بعد تمھارے لیے حلال نہیں کہ تم نے انھیں جو حقِ مہر دیا تھا،اس میں سے کچھ واپس لے لو۔لیکن اگر عورت خلع کا مطالبہ کرے اور عورت کے مطالبے پر طلاق ہو تو پھر خاوند کے لیے حق مہر واپس لینا درست ہے۔
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۳۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَ لَا تُمْسِکُوْھُنَّ ضِرَارًا لِّتَعْتَدُوْا وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَقَدْ ظَلَمَ نَفْسَہٗ}
’’اور اس نیت سے اُن کو نکاح میں نہ رہنے دینا چاہیے کہ اُنھیں تکلیف دو اور اُن پر زیادتی کرو اور جو ایسا کرے گا،وہ اپنا ہی نقصان کرے گا۔‘‘
یعنی طلاق دینے کے بعد انھیں محض تکلیف پہنچانے کی نیت اور ظلم وزیادتی کی غرض سے نہ روکو۔
-29 طلاق کو مذاق مت بناؤ:
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۳۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَ لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰیٰتِ اللّٰہِ ھُزُوًا وَّ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ وَ مَآ اَنْزَلَ عَلَیْکُمْ مِّنَ الْکِتٰبِ وَ الْحِکْمَۃِ یَعِظُکُمْ بِہٖ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ بِکُلِّ شَیْ ئٍ عَلَیْمٌ}
’’اور اللہ کے احکام کو ہنسی (اور کھیل) نہ بناؤ اور اللہ نے تمھیں جو نعمتیں بخشی ہیں اور تم پر جو کتاب اور دانائی کی باتیں نازل کی ہیں،جن سے وہ تمھیں نصیحت فرماتا ہے،اُن کو یاد کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو اور جان رکھو کہ اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘
بعض لوگ مذاق میں طلاق دے دیتے یا نکاح کر لیتے یا آزاد کر دیتے،پھر کہتے ہیں کہ میں نے تو مذاق کیا تھا۔اللہ نے اسے آیاتِ الٰہیہ سے استہزا قرار دیا ہے،جس سے مقصود اس سے روکنا ہے،اس لیے نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مذاق سے بھی اگر کوئی مذکورہ کام کرے گا تو وہ حقیقت ہی سمجھا جائے گا اور مذاق کی طلاق یا نکاح یا آزادی نافذ ہو جائے گی۔[466]
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۳۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَ اِذَا طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ فَبَلَغْنَ اَجَلَھُنَّ فَلَا تَعْضُلُوْھُنَّ اَنْ یَّنْکِحْنَ اَزْوَاجَھُنَّ اِذَا تَرَاضَوْا بَیْنَھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ ذٰلِکَ یُوْعَظُ بِہٖ مَنْ کَانَ مِنْکُمْ یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکُمْ اَزْکٰی لَکُمْ وَ اَطْھَرُ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ وَ اَنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ}
’’اور جب تم عورتوں کو طلاق دے چکو اور اُن کی عدت پوری ہو جائے تو اُن کو دوسرے شوہروں کے ساتھ جب وہ آپس میں جائز طور پر راضی ہو جائیں، نکاح کرنے سے مت روکو۔اس (حکم) سے اُس شخص کو نصیحت کی جاتی ہے جو تم میں سے اللہ اور روزِ آخرت پر یقین رکھتا ہے۔یہ تمھارے لیے نہایت خوب اور پاکیزگی کی بات ہے اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے اور تم نہیں جانتے۔‘‘
اس میں مطلقہ عورت کی بابت ایک حکم دیا جا رہا ہے کہ عدت گزرنے کے بعد (پہلی یا دوسری طلاق کے بعد) اگر سابقہ خاوند بیوی باہمی رضا مندی سے دوبارہ نکاح کرنا چاہیں تو ان کو مت روکو۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں ایک ایسا واقع ہوا تو عورت کے بھائی نے دوبارہ نکاح کرنے سے انکار کر دیا،جس پر یہ آیت اتری۔[467]
اس سے معلوم ہوا کہ عورت اپنا نکاح نہیں کر سکتی، بلکہ اس کے نکاح کے لیے ولی کی اجازت اور رضامندی ضروری ہے۔تب ہی تو اللہ تعالیٰ نے ولیوں کو اپنا حقِ ولایت غلط طریقے سے استعمال کرنے سے روکا ہے۔اس کی مزید تائید اس حدیثِ نبوی سے ہوتی ہے:
’’ولی کی اجازت کے بغیر نکاح نہیں۔‘‘[468]
جبکہ دوسری حدیث میں ہے:
’’جس عورت نے ولی کی اجازت کے بغیر نکا ح کر لیا،پس اس کا نکاح باطل ہے،اس کا نکاح باطل ہے،اس کا نکاح باطل ہے۔‘‘[469]
{لَا جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اِنْ طَلَّقْتُمُ النِّسَآئَ مَا لَمْ تَمَسُّوْھُنَّ اَوْ تَفْرِضُوْا لَھُنَّ فَرِیْضَۃً وَّ مَتِّعُوْھُنَّ عَلَی الْمُوْسِعِ قَدَرُہٗ وَ عَلَی الْمُقْتِرِ قَدَرُہٗ مَتَاعًام بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُحْسِنِیْنَ . وَ اِنْ طَلَّقْتُمُوْھُنَّ مِنْ قَبْلِ اَنْ تَمَسُّوْھُنَّ وَ قَدْ فَرَضْتُمْ لَھُنَّ فَرِیْضَۃً فَنِصْفُ مَا فَرَضْتُمْ اِلَّآ اَنْ یَّعْفُوْنَ اَوْ یَعْفُوَا الَّذِیْ بِیَدِہٖ عُقْدَۃُ النِّکَاحِ وَ اَنْ تَعْفُوْٓا اَقْرَبُ لِلتَّقْوٰی وَ لَا تَنْسَوُا الْفَضْلَ بَیْنَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ}سورۃ البقرۃ (آیت ۲۳۶،۲۳۷)
’’اور اگر تم عورتوں کو اُن کے پاس جانے یا اُن کا مہر مقرر کرنے سے پہلے طلاق دے دو تو تم پر کچھ گناہ نہیں۔ہاں اُن کو دستور کے مطابق کچھ خرچ ضرور دو۔مقدور والا اپنے مقدور کے مطابق دے اور تنگدست اپنی حیثیت کے مطابق۔نیک لوگوں پر یہ ایک طرح کا حق ہے۔اگر تم عورتوں کو اُن کے پاس جانے سے پہلے طلاق دے دو،لیکن مہر مقرر کر چکے ہو توآدھا مہر دینا ہوگا۔ہاں اگر عورتیں بخش دیں یا مرد جن کے ہاتھ میں عقدِ نکاح ہے (اپنا حق) چھوڑ دیں (اور پورا مہر دے دیں تو اُن کو اختیار ہے) اور اگر تم مرد لوگ ہی اپنا حق چھوڑ دو تو یہ پرہیزگاری کی بات ہے اور آپس میں بھلائی کرنے کو فراموش نہ کرنا۔کچھ شک نہیں کہ اللہ تمھارے سب کاموں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘
یہ اس عورت کی بابت حکم ہے کہ نکاح کے وقت مہر مقرر نہیں ہوا تھا اور خاوند نے ہم بستری کے بغیر طلاق دے دی،تو انھیں کچھ نہ کچھ دے کر رخصت کرو۔ یہ فائدہ ہر شخص کی طاقت کے مطابق ہونا چاہیے،خوش حال اپنی حیثیت اور تنگ دست اپنی طاقت کے مطابق دے۔
دوسری صورت یہ ہے کہ خلوتِ صحیحہ سے قبل ہی طلاق دے دی اور حق مہر بھی مقرر تھا،اس صورت میں خاوند کے لیے ضروری ہے کہ نصف مہر ادا کرے اور اگر عورت اپنا حق معاف کر دے تو اس صورت میں خاوند کو کچھ نہیں دینا پڑے گا۔
سورۃ المجادلہ (آیت:۲،۳،۴) میں فرمایا:
{اَلَّذِیْنَ یُظٰھِرُوْنَ مِنْکُمْ مِّنْ نِّسَآئِھِمْ مَّا ھُُنَّ اُمَّھٰتِھِمْ اِنْ اُمَّھٰتُھُمْ اِلَّا الّٰیِْٔ۔ٓ وَلَدْنَھُمْ وَاِنَّھُمْ لَیَقُوْلُوْنَ مُنْکَرًا مِّنَ الْقَوْلِ وَزُوْرًا وَّاِنَّ اللّٰہَ لَعَفُوٌّ غَفُوْرٌ . وَالَّذِیْنَ یُظٰھِرُوْنَ مِنْ نِّسَآئِ ھِمْ ثُمَّ یَعُوْدُوْنَ لِمَا قَالُوْا فَتَحْریْرُ رَقَبَۃٍ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَآسَّا ذٰلِکُمْ تُوْعَظُوْنَ بِہٖ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ . فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ شَھْرَیْنِ مُتَتَابِعَیْنِ مِنْ قَبْلِ اَنْ یَّتَمَاسَّا فَمَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ فَاِطْعَامُ سِتِّیْنَ مِسْکِیْنًا ذٰلِکَ لِتُؤْمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَتِلْکَ حُدُوْدُ اللّٰہِ وَلِلْکٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ}
’’جو لوگ تم میں سے اپنی عورتوں کو ماں کہہ دیتے ہیں،وہ ان کی مائیں نہیں (ہو جاتیں ) ان کی مائیں تو وہی ہیں،جن کے بطن سے وہ پیدا ہوئے،بے شک وہ نامعقول اور جھوٹی بات کہتے ہیں اور اللہ بڑا معاف کرنے والا (اور) بخشنے الا ہے۔اور جو لوگ اپنی بیویوں کو ماں کہہ بیٹھیں،پھر اپنے قول سے رجوع کر لیں تو (ان کو) ہم بستر ہونے سے پہلے ایک غلام آزاد کرنا (ضروری) ہے،(مومنو!) اس (حکم) سے تمھیں نصیحت کی جاتی ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اس سے خبردار ہے۔جس کو غلام نہ ملے وہ چھونے سے پہلے متواتر دو مہینے کے روزے رکھے،جس کو اس کا بھی مقدور نہ ہو،(اسے) ساٹھ مسکینوں کو کھانا کھلانا (چاہیے) یہ (حکم) اس لیے (ہے) کہ تم اللہ اور اس کے رسول کے فرمانبردار ہو جاؤ اور یہ اللہ کی حدیں ہیں اور نہ ماننے والوں کے لیے درد دینے والا عذاب ہے۔‘‘
ان آیات میں مسئلہ ظِہار کا کفارہ بیان فرمایا گیا ہے۔[470]
تمھارے کہہ دینے سے تمھاری بیوی تمھاری ماں نہیں بن جائے گی۔اگر ماں کی بجائے کوئی شخص اپنی بیٹی یا بہن وغیرہ کی پیٹھ کی طرح اپنی بیوی کو کہہ دے تو یہ ظِہار ہے یا نہیں ؟ امام مالک اور امام ابو حنیفہ رحمہم اللہ نے اسے بھی ظِہار قرار دیا ہے،جبکہ دوسرے علما اسے ظِہار تسلیم نہیں کرتے۔پہلا قول ہی صحیح معلوم ہوتا ہے۔اسی طرح اس میں بھی اختلاف ہے کہ پیٹھ کی جگہ اگر کوئی یہ کہہ دے تو میری ماں کی طرح ہے، پیٹھ کا نام نہ لے، تو علما کہتے ہیں کہ اگر ظہار کی نیت سے وہ مذکورہ الفاظ کہے تو ظِہار ہوگا، بصورتِ دیگر نہیں۔امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ اگر ایسے عضو کے ساتھ تشبیہ دے گا،جس کا دیکھنا جائز ہے تو یہ ظِہار نہیں ہوگا۔امام شافعی رحمہ اللہ بھی کہتے ہیں کہ ظِہار صرف پیٹھ کی طرح کہنے ہی سے ہوگا۔
چھونے یعنی ہم بستری کرنے سے پہلے وہ یہ کفارہ ادا کریں:
1۔ ایک غلام آزاد کرنا۔
2۔ اس کی طاقت نہ ہو تو پے در پے دو مہینے کے روزے رکھنے پڑیں گے۔اگر درمیان میں بغیر عذر شرعی روزہ چھوڑ دیا تو نئے سرے سے دو مہینے کے روزے رکھنے پڑیں گے۔عذر شرعی سے مراد بیماری یا سفر ہے۔
3۔ امام ابو حنیفہ رحمہ اللہ کہتے ہیں کہ بیماری وغیرہ کی وجہ سے روزے رکھنے کی طاقت نہ ہو تو ساٹھ مساکین کو کھانا کھلائے۔
سورۃ الاحزاب (آیت:۴،۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{مَا جَعَلَ اللّٰہُ لِرَجُلٍ مِّنْ قَلْبَیْنِ فِیْ جَوْفِہٖ وَ مَا جَعَلَ اَزْوَاجَکُمُ الّٰئِیْ۔ٓ تُظٰھِرُوْنَ مِنْھُنَّ اُمَّھٰتِکُمْ وَ مَا جَعَلَ اَدْعِیَآئَکُمْ اَبْنَآئَکُمْ ذٰلِکُمْ قَوْلُکُمْ بِاَفْوَاھِکُمْ وَ اللّٰہُ یَقُوْلُ الْحَقَّ وَ ھُوَ یَھْدِی السَّبِیْلَ . اُدْعُوْھُمْ لِاٰبَآئِھِمْ ھُوَ اَقْسَطُ عِنْدَ اللّٰہِ فَاِنْ لَّمْ تَعْلَمُوْٓااٰبَآئَ ھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ فِی الدِّیْنِ وَ مَوَالِیْکُمْ وَ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ فِیْمَآ اَخْطَاْتُمْ بِہٖ وَ لٰکِنْ مَّا تَعَمَّدَتْ قُلُوْبُکُمْ وَ کَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا}
’’اللہ نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے اور نہ تمھاری عورتوں کو جن کو تم ماں کہہ بیٹھتے ہو،تمھاری ماں بنایا ہے اور نہ تمھارے لَے پالکوں کو تمھارے بیٹے بنایا ہے،یہ سب تمھارے منہ کی باتیں ہیں اور اللہ تو سچی بات فرماتا ہے اور وہی سیدھا راستہ دکھاتا ہے۔مومنو! لے پالکوں کو اُن کے (اصلی) باپوں کے نام سے پکارا کرو کہ اللہ کے نزدیک یہی بات درست ہے،اگر تمھیں ان کے باپوں کے نام معلوم نہ ہوں تو دین میں تمھارے بھائی اور دوست ہیں اور جو بات تم سے غلطی سے ہو گئی ہو،اس میں تم پر کچھ گناہ نہیں،لیکن جو قصدِ دلی سے کرو (اس پر مواخذہ ہے) اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
سورۃ الممتحنہ (آیت:۱۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِذَا جَآئَکُمُ الْمُؤْمِنٰتُ مُھٰجِرٰتٍ فَامْتَحِنُوْھُنَّ اَللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِھِنَّ فَاِنْ عَلِمْتُمُوْھُنَّ مُؤْمِنٰتٍ فَلاَ تَرْجِعُوْھُنَّ اِلَی الْکُفَّارِ لاَ ھُنَّ حِلٌّ لَّھُمْ وَلاَ ھُمْ یَحِلُّوْنَ لَھُنَّ وَاٰتُوْھُمْ مَّآ اَنْفَقُوْا وَلاَ جُنَاحَ عَلَیْکُمْ اَنْ تَنْکِحُوْھُنَّ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ وَلاَ تُمْسِکُوْا بِعِصَمِ الْکَوَافِرِ وَاسْئَلُوْا مَآ اَنْفَقْتُمْ وَلْیَسئَلُوْا مَآ اَنْفَقُوْا ذٰلِکُمْ حُکْمُ اللّٰہِ یَحْکُمُ بَیْنَکُمْ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ}
’’مومنو! جب تمھارے پاس مومن عورتیں وطن چھوڑ کر آئیں تو ان کی آزمایش کر لو (اور) اللہ تو ان کے ایمان کو خوب جانتا ہے،سو اگر تم کو معلوم ہو کہ مومن ہیں تو ان کو کفار کے پاس واپس نہ بھیجو کہ نہ یہ ان کے لیے حلال ہیں،اور نہ وہ ان کے لیے ہیں جائز اور جو کچھ انھوں نے (ان پر) خرچ کیا ہو،وہ ان کو دے دو اور تم پر کچھ گناہ نہیں کہ ان عورتوں کو مہر دے کر ان سے نکاح کر لو اور کافر عورتوں کی ناموس کو قبضے میں نہ رکھو (یعنی کفار کو واپس دے دو)،اور جو کچھ تم نے ان پر خرچ کیا ہو تم ان سے طلب کر لو اور جو کچھ انھوں نے (اپنی عورتوں پر) خرچ کیا ہو،وہ تم سے طلب کر لیں یہ اللہ کا حکم ہے،جو تم میں فیصلہ کیے دیتا ہے اور اللہ جاننے والا حکمت والا ہے۔‘‘
سورۃ الممتحنہ (آیت:۱۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
{وَاِنْ فَاتَکُمْ شَیْئٌ مِّنْ اَزْوَاجِکُمْ اِلَی الْکُفَّارِ فَعَاقَبْتُمْ فَــٰاتُوا الَّذِیْنَ ذَھَبَتْ اَزْوَاجُھُمْ مِّثْلَ مَآ اَنْفَقُوْا وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اَنْتُمْ بِہٖ مُؤْمِنُوْنَ}
’’اور اگر تمھاری عورتوں میں سے کوئی عورت تمھارے ہاتھ سے نکل کر کافروں کے پاس چلی جائے (اور اس کا مہر وصول نہ ہوا ہو)،پھر تم ان سے جنگ کرو (اور ان سے تم کو غنیمت ہاتھ لگے) تو جن کی عورتیں چلی گئی ہیں ان کو (اس مال میں سے) اتنا دے دو،جتنا انھوں نے خرچ کیا تھا اور اللہ سے ڈرو،جس پر تم ایمان لائے ہو۔‘‘
.یُوْصِیْکُمُ اللّٰہُ فِیْٓ اَوْلَادِکُمْ لِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ فَاِنْ کُنَّ نِسَآئً فَوْقَ اثْنَتَیْنِ فَلَھُنَّ ثُلُثَا مَا تَرَکَ وَ اِنْ کَانَتْ وَاحِدَۃً فَلَھَا النِّصْفُ وَ لِاَبَوَیْہِ لِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ مِمَّا تَرَکَ اِنْ کَانَ لَہٗ وَلَدٌ فَاِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّہٗ وَلَدٌ وَّ وَرِثَہٗٓ اَبَوٰہُ فَلِاُمِّہِ الثُّلُثُ فَاِنْ کَانَ لَہٗٓ اِخْوَۃٌ فَلِاُمِّہِ السُّدُسُ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ اٰبَآؤُکُمْ وَ اَبْنَآؤُکُمْ لَا تَدْرُوْنَ اَیُّھُمْ اَقْرَبُ لَکُمْ نَفْعًا فَرِیْضَۃً مِّنَ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَلِیْمًا حَکِیْمًا.[سورۃ النساء (آیت:۱۱)]
’’اللہ تمھاری اولاد کے بارے میں تمھیں ارشاد فرماتا ہے کہ ایک لڑکے کا حصہ دو لڑکیوں کے حصے کے برابر ہے،اور اگر اولادِ میت صرف لڑکیاں ہی ہوں (دو یا) دو سے زیادہ توکل ترکے میں اُن کا دو تہائی اور اگر صرف ایک لڑکی ہو تو اُس کا حصہ نصف اور میت کے ماں باپ کا یعنی دونوں میں سے ہر ایک کا ترکے میں چھٹا حصہ بشرطیکہ میت کے اولاد ہو اور اگر اولاد نہ ہو اور صرف ماں باپ ہی اُس کے وارث ہوں تو ایک تہائی ماں کا حصہ اور اگر میت کے بھائی بھی ہوں تو ماں کا چھٹا حصہ اور یہ (تقسیمِ ترکہ) میت کی وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اُس نے کی ہو،یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اُس کے ذمے ہو عمل میں آئے گی) تم کو معلوم نہیں کہ تمھارے باپ دادوں اور بیٹوں پوتوں میں سے فائدے کے لحاظ سے کون تم سے زیادہ قریب ہے،یہ حصے اللہ کے مقرر کیے ہوئے ہیں اور اللہ سب کچھ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
بیٹا کوئی نہ ہو تو مال کے دو تہائی دو سے زائد لڑکیوں کو دیے جائیں گے اور اگر صرف دو ہی لڑکیاں ہوں،تب بھی انھیں دو تہائی حصہ ہی دیا جائے گا۔جیسا کہ حدیث میں آتا ہے کہ سعد بن ربیع رضی اللہ عنہ غزوہ احد میں شہید ہو گئے اور ان کی لڑکیاں تھیں،مگر سعد رضی اللہ عنہ کے سارے مال پر ان کے بھائی نے قبضہ کر لیا تونبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم ۓ ان دونوں لڑکیوں کو ان کے چچا سے دو تہائی مال دلوایا۔[سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۸۹۱) سنن الترمذي (۲۰۹۲) سنن ابن ماجہ (۲۷۲۰)]
قرآن کریم میں متعدد جگہوں پر میراث کے احکام بیان کیے گئے ہیں، لیکن تین آیات (سورہٴ النساء 11، 12 و176) میں اختصار کے ساتھ بیشتر احکام جمع کردیے گئے ہیں- (تفصیل لنک[471])
ترجمہ : “تمہاری اولاد کے بارے میں اللہ تمہیں ہدایت کرتا ہے کہ: مرد کا حصہ دو عورتوں کے برابر ہے، اگر (میت کی وارث) دو سے زائد لڑکیاں ہوں تو انہیں ترکے کا دو تہائی دیا جائے، اور اگر ایک ہی لڑکی وارث ہو تو آدھا ترکہ اس کا ہے اگر میت صاحب اولاد ہو تواس کے والدین میں سے ہر ایک کو ترکے کا چھٹا حصہ ملنا چاہیے اور اگر وہ صاحب اولاد نہ ہو اور والدین ہی اس کے وارث ہو ں تو ماں کو تیسرا حصہ دیا جائے اور اگر میت کے بھائی بہن بھی ہوں تو ماں چھٹے حصہ کی حق دار ہوگی (یہ سب حصے اُس وقت نکالے جائیں) جبکہ وصیت جو میت نے کی ہو پوری کر دی جائے اور قرض جو اُس پر ہو ادا کر دیا جائے تم نہیں جانتے کہ تمہارے ماں باپ اور تمہاری اولاد میں سے کون بلحاظ نفع تم سے قریب تر ہے یہ حصے اللہ نے مقرر کر دیے ہیں، اور اللہ یقیناً سب حقیقتوں سے واقف اور ساری مصلحتوں کا جاننے والا ہے (سورة النساء:11)[472]
ترجمہ : "اور تمہاری بیویوں نے جو کچھ چھوڑا ہو اس کا آدھا حصہ تمہیں ملے گا اگر وہ بے اولاد ہوں، ورنہ اولاد ہونے کی صورت میں ترکہ کا ایک چوتھائی حصہ تمہارا ہے جبکہ وصیت جو انہوں ں نے کی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو اُنہوں نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے اور وہ تمہارے ترکہ میں سے چوتھائی کی حق دار ہوں گی اگر تم بے اولاد ہو، ورنہ صاحب اولاد ہونے کی صورت میں اُن کا حصہ آٹھواں ہوگا، بعد اس کے کہ جو وصیت تم نے کی ہو وہ پوری کر دی جائے اور جو قرض تم نے چھوڑا ہو وہ ادا کر دیا جائے اور اگر وہ مرد یا عورت (جس کی میراث تقسیم طلب ہے) بے اولاد بھی ہو اور اس کے ماں باپ بھی زندہ نہ ہوں، مگر اس کا ایک بھائی یا ایک بہن موجود ہو تو بھائی اور بہن ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا، اور بھائی بہن ایک سے زیادہ ہوں تو کل ترکہ کے ایک تہائی میں وہ سب شریک ہوں گے، جبکہ وصیت جو کی گئی ہو پوری کر دی جائے، اور قرض جو میت نے چھوڑا ہو ادا کر دیا جائے، بشر طیکہ وہ ضرر رساں نہ ہو یہ حکم ہے اللہ کی طرف سے اور اللہ دانا و بینا اور نرم خو ہے (سورة النساء:12)[473]
"لوگ تم سے کلالہ کے معاملہ میں فتویٰ پوچھتے ہیں کہو اللہ تمہیں فتویٰ دیتا ہے اگر کوئی شخص بے اولاد مر جائے اور اس کی ایک بہن ہو تو وہ اس کے ترکہ میں سے نصف پائے گی، اور اگر بہن بے اولاد مرے تو بھائی اس کا وارث ہوگا اگر میت کی وارث دو بہنیں ہوں تو وہ ترکے میں سے دو تہائی کی حقدار ہوں گی، اور اگر کئی بھائی بہنیں ہوں تو عورتوں کا اکہرا اور مردوں کا دوہرا حصہ ہوگا اللہ تمہارے لیے احکام کی توضیح کرتا ہے تاکہ تم بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ ہر چیز کا علم رکھتا ہے" (4:176)[474]
نبی صلی اﷲ علیہ وسلم نے یہ قاعدہ مقرر فرمادیا کہ وارثوں کے جو حصّے اﷲ تعالیٰ نے مقرر کردیے ہیں ان میں وصیّت سے کمی بیشی نہیں کی جاسکتی اور غیر وارث کے حق میں کل جائیداد کے ایک تہائی سے زیادہ کی وصیّت نہ کرنی چاہیے اور مسلم وکافر ایک دوسرے کے وارِث نہیں ہوسکتے‘‘۔
کسی وارث یا تمام وارثین کو محروم کرنے کے لیے اگر کوئی شخص وصیت کرے تو یہ گناہ کبیرہ ہے، جیسا کہ نبی اکرم صلی الله علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس شخص نے وارث کو میراث سے محروم کیا اللہ تعالیٰ قیامت کے دن جنت سے اس کو محروم رکھے گا (کچھ عرصہ کے لیے)۔ (ابن ماجہ-باب الحیف فی الوصیہ)
لِّلرِّجَالِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ وَلِلنِّسَاءِ نَصِيبٌ مِّمَّا تَرَكَ الْوَالِدَانِ وَالْأَقْرَبُونَ مِمَّا قَلَّ مِنْهُ أَوْ كَثُرَ ۚ نَصِيبًا مَّفْرُوضًا ﴿٧﴾
مردوں کے لیے اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، اور عورتوں کے لیے بھی اُس مال میں حصہ ہے جو ماں باپ اور رشتہ داروں نے چھوڑا ہو، خواہ تھوڑا ہو یا بہت، اور یہ حصہ (اللہ کی طرف سے) مقرر ہے (سورة النساء7)
.کُتِبَ عَلَیْکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ اِنْ تَرَکَ خَیْرَ نِ الْوَصِیَّۃُ لِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ بِالْمَعْرُوْفِ حَقًّا عَلَی الْمُتَّقِیْنَ.
’’تم پر فرض کیا جاتا ہے کہ جب تم میں سے کسی کو موت کا وقت آجائے تو اگر وہ کچھ مال چھوڑ جانے والا ہو تو ماں باپ اور رشتے داروں کے لیے دستور کے مطابق وصیت کر جائے (اللہ سے) ڈرنے والوں پر یہ ایک حق ہے۔‘‘[سورۃ البقرۃ (آیت:۱۸۰) ]
امت مسلمہ کا اجماع ہے کہ جن رشتہ داروں کا میراث میں کوئی حصہ مقرر نہیں ہے، اب ان کے لیے بھی وصیت کرنا فرض ولازم نہیں ہے،کیونکہ فرضیت وصیت کا حکم منسوخ ہوگیا ہے۔ (تفسیر جصاص، تفسیر قرطبی) یعنی بشرطِ ضرورت وصیت کرنا مستحب ہے۔
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا شَھَادَۃُ بَیْنِکُمْ اِذَا حَضَرَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ حِیْنَ الْوَصِیَّۃِ اثْنٰنِ ذَوَا عَدْلٍ مِّنْکُمْ اَوْ اٰخَرٰنِ مِنْ غَیْرِکُمْ اِنْ اَنْتُمْ ضَرَبْتُمْ فِی الْاَرْضِ فَاَصَابَتْکُمْ مُّصِیْبَۃُ الْمَوْتِ تَحْبِسُوْنَھُمَا مِنْم بَعْدِ الصَّلٰوۃِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰہِ اِنِ ارْتَبْتُمْ لَا نَشْتَرِیْ بِہٖ ثَمَنًا وَّ لَوْ کَانَ ذَا قُرْبٰی وَ لَا نَکْتُمُ شَھَادَۃَ اللّٰہِ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الْاٰثِمِیْنَ . فَاِنْ عُثِرَ عَلٰٓی اَنَّھُمَا اسْتَحَقَّآ اِثْمًا فَاٰخَرٰنِ یَقُوْمٰنِ مَقَامَھُمَا مِنَ الَّذِیْنَ اسْتَحَقَّ عَلَیْھِمُ الْاَوْلَیٰنِ فَیُقْسِمٰنِ بِاللّٰہِ لَشَھَادَتُنَآ اَحَقُّ مِنْ شَھَادَتِھِمَا وَ مَا اعْتَدَیْنَآ اِنَّآ اِذًا لَّمِنَ الظّٰلِمِیْنَ . ذٰلِکَ اَدْنٰٓی اَنْ یَّاْتُوْا بِالشَّھَادَۃِ عَلٰی وَجْھِھَآ اَوْ یَخَافُوْٓا اَنْ تُرَدَّ اَیْمَانٌم بَعْدَ اَیْمَانِھِمْ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ وَ اسْمَعُوْا وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْفٰسِقِیْنَ.[سورۃ المائدہ (آیت:۱۰۶۔۱۰۸)]
’’مومنو! جب تم میں سے کسی کی موت آ موجود ہو تو شہادت (کا نصاب) یہ ہے کہ وصیت کے وقت تم (مسلمانوں ) میں سے دو مرد عادل (صاحب ِ اعتبار) گواہ ہوں یا اگر (مسلمان نہ ملیں اور) تم سفر کر رہے ہو اور (اس وقت) تم پر موت کی مصیبت واقع ہو تو کسی دوسرے مذہب کے دو (شخصوں کو) گواہ (کرلو) اگر تم اُن گواہوں کی نسبت کچھ شک کرو تو اُن کو (عصر کی) نماز کے بعد کھڑا کرو اور دونوں اللہ کی قسمیں کھائیں کہ ہم شہادت کا کچھ عوض نہیں لیں گے،گو ہمارا رشتے دار ہی ہو اور نہ ہم اللہ کی شہادت کو چھپائیں گے،اگر ایسا کریں گے تو گنہگار ہوں گے۔پھر اگر معلوم ہو جائے کہ ان دونوں نے (جھوٹ بول کر) گناہ حاصل کیا ہے تو جن لوگوں کا انھوں نے حق مارنا چاہا تھا،ان میں سے ان کی جگہ اور دو گواہ کھڑے ہوں جو (میت سے) قرابتِ قریبہ رکھتے ہوں،پھر وہ اللہ کی قسمیں کھائیں کہ ہماری شہادت ان کی شہادت سے بہت سچی ہے اور ہم نے کوئی زیادتی نہیں کی،ایسا کیا ہو تو ہم بے انصاف ہیں۔اس طریق سے بہت قریب ہے کہ یہ لوگ صحیح شہادت دیں یا اس بات سے خوف کریں کہ (ہماری) قسمیں ان کی قسموں کے بعد رد کر دی جائیں گی اور اللہ سے ڈرو اور (اس کے حکموں کو توجہ سے) سنو اور اللہ نافرمان لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
یہ اُس فائدے کا ذکر ہے،جو اِس حکم میں پنہاں ہے،جس کا ذکر یہاں کیا گیا،وہ یہ کہ یہ طریقہ اختیار کرنے میں اولیا صحیح صحیح گواہی دیں گے،کیوں کہ انھیں خطرہ ہوگا کہ اگر ہم نے خیانت یا دروغ گوئی یا تبدیلی کا ارتکاب کیا تو یہ کار روائیاں خود ہم پر الٹ سکتی ہیں۔
ایک تہائی سے زیادہ جائداد کی وصیت کرنا۔ وارث کے لیے وصیت کرنا۔ اس نوعیت کی وصیت نافذ نہیں ہوگی۔اولاد یا کسی دوسرے وارث کو اپنی جائداد سے محروم کرنے کے لیے کسی دوسرے شخص یا دینی ادارہ کو وصیت کرنا ۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: کئی لوگ (ایسے بھی ہیں جو) ساٹھ سال تک اللہ کی اطاعت وفرمانبرداری میں زندگی گزارتے ہیں، پھر جب موت کا وقت آتا ہے تو وصیت میں وارثوں کو نقصان پہنچادیتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان پر جہنم واجب ہوجاتی ہے۔ پھر حضرت ابوہریرہ نے یہ آیت (سورة النساء ۱۲)پڑھی: ”جو وصیت کی گئی ہو اس پر عمل کرنے کے بعد اور مرنے والے کے ذمہ جو قرض ہو اس کی ادائیگی کے بعد، بشرطیکہ (وصیت اور قرض کے اقرار کرنے سے ) اس نے کسی کو نقصان نہ پہنچایا ہو۔ یہ سب کچھ اللہ کا حکم ہے، اور اللہ ہر بات کا علم رکھنے والا، بردبار ہے۔ “(ترمذی باب جاء فی الوصیة بالثلث)[475]
.لِلرِّجَالِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ وَ لِلنِّسَآئِ نَصِیْبٌ مِّمَّا تَرَکَ الْوَالِدٰنِ وَ الْاَقْرَبُوْنَ مِمَّا قَلَّ مِنْہُ اَوْکَثُرَ نَصِیْبًا مَّفْرُوْضًا.[سورۃ النساء (آیت:۷)]
’’جو مال ماں باپ اور رشتے دار چھوڑ کر مریں،تھوڑا ہو یا بہت،اس میں مردوں کا بھی حصہ ہے اور عورتوں کا بھی،یہ حصے (اللہ کے) مقرر کیے ہوئے ہیں۔‘‘
ماں باپ اور دیگر رشتے داروں کو مالِ متروک سے مردوں یعنی بیٹوں خواہ وہ بچے ہوں یا جوان اور عورتوں یعنی بیٹیوں کو خواہ وہ بالغ ہوں یا نابالغ،ترکے میں سے ان کا حصہ دیا جائے اور یہ حصے اللہ کی طرف سے طے کیے ہوئے ہیں،جن کا دینا ضروری ہے خواہ مال تھوڑا ہو یا بہت۔[تفسیر ابن کثیر (۱/ ۴۹۷)]
اسلام سے قبل ایک یہ ظلم بھی روا رکھا جاتا تھا کہ عورتوں اور چھوٹے بچوں کو وراثت سے حصہ نہیں دیا جاتا تھا اور صرف بڑے لڑکے جو لڑنے کے قابل ہوتے،سارے مال کے وارث قرار پاتے۔اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ مردوں کی طرح عورتوں اور بچے بچیاں اپنے والدین اور اقارب کے مال میں حصہ دار ہوں گے،انھیں محروم نہیں کیا جائے گا۔
.وَ اِذَا حَضَرَ الْقِسْمَۃَ اُولُوا الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنُ فَارْزُقُوْھُمْ مِّنْہُ وَ قُوْلُوْا لَھُمْ قَوْلًا مَّعْرُوْفًا.[سورۃ النساء (آیت:۸)]
’’اور جب میراث کی تقسیم کے وقت (غیر وارث) رشتے دار اور یتیم اور محتاج آجائیں تو اُن کو بھی اُس میں سے کچھ دے دیا کرو اور شیریں کلامی سے پیش آیا کرو۔‘‘
اسے بعض علما نے آیتِ میراث سے منسوخ قرار دیا ہے، لیکن صحیح ترین بات یہ ہے کہ یہ منسوخ نہیں،بلکہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ امداد کے مستحق رشتے داروں میں سے جو لوگ وراثت میں حصے دار نہ ہوں،انھیں بھی تقسیم کے وقت کچھ دے دو۔نیز ان سے بات بھی پیار اور محبت سے کرو،دولت کو آتے ہوئے دیکھ کر قارون اور فرعون نہ بنو۔
.وَ لْیَخْشَ الَّذِیْنَ لَوْ تَرَکُوْا مِنْ خَلْفِھِمْ ذُرِّیَّۃً ضِعٰفًا خَافُوْا عَلَیْھِمْ فَلْیَتَّقُوا اللّٰہَ وَ لْیَقُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا. [سورۃ النساء (آیت:۹)]
’’اور ایسے لوگوں کو ڈرنا چاہیے جو (ایسی حالت میں ہوں کہ) اپنے بعد ننھے ننھے بچے چھوڑ جائیں اور اُن کو اُن کی نسبت خوف ہو (کہ اُن کے مرنے کے بعد اُن بیچاروں کا کیا حال ہو گا؟) پس چاہیے کہ یہ لوگ اللہ سے ڈریں اور معقول بات کہیں۔‘‘
بعض مفسرین کے نزدیک اس کے مخاطب اولیا ہیں (جن کو وصیت کی جاتی ہے) ان کو نصیحت کی جا رہی ہے کہ ان کے زیرِ کفالت جو یتیم ہیں،ان کے ساتھ وہ ایسا سلوک کریں،جو اپنے بچوں کے ساتھ اپنے مرنے کے بعد کیا جانا پسند کرتے ہیں۔بعض کے نزدیک اس کے مخاطب عام لوگ ہیں کہ وہ یتیموں اور دیگر چھوٹے بچوں کے ساتھ اچھا سلوک کریں۔
.اِنَّ الَّذِیْنَ یَاْکُلُوْنَ اَمْوَالَ الْیَتٰمٰی ظُلْمًا اِنَّمَا یَاْکُلُوْنَ فِیْ بُطُوْنِھِمْ نَارًا وَ سَیَصْلَوْنَ سَعِیْرًا.[سورۃ النساء (آیت:۱۰)]
’’جو لوگ یتیموں کا مال ناجائز طور پر کھاتے ہیں،وہ اپنے پیٹ میں آگ بھرتے ہیں اور وہ دوزخ میں ڈالے جائیں گے۔‘‘
یتیموں کے مال میں خیانت کرنے پر وعیدِ شدید بیان فرما کر اس حکم کو واضح کر دیا ہے کہ جو کوئی یتیم کا مال ظلماً کھاتا ہے،وہ اپنے پیٹ میں جہنم کی آگ بھرتا ہے۔
1. پہلی صورت کہ مرنے والے کی اولاد بھی ہو تو مرنے والے کے ماں باپ میں سے ہر ایک کو چھٹا حصہ ملے گا اور باقی دو تہائی مال اولاد پر تقسیم ہو جائے گا۔مرنے والے کی اگر صرف ایک بیٹی ہو تو نصف مال (چھے حصوں میں سے تین حصے) بیٹی کے ہوں گے اور ایک چھٹا حصہ ماں کو اور ایک چھٹا حصہ باپ کو دینے کے بعد مزید ایک چھٹا حصہ باقی بچ جائے گا،اس لیے بچنے والا یہ چھٹا حصہ بطورِ سربراہ باپ کے حصے میں جائے گا۔یعنی اس صورت میں باپ کو دو چھٹے حصے ملیں گے۔ایک باپ کی حیثیت سے اور دوسرا سربراہ ہونے کی حیثیت سے۔
.2 دوسری صورت یہ ہے کہ مرنے والے کی اولاد نہیں ہے (یاد رہے کہ پوتا پوتی بھی اولاد میں شامل ہیں ) اس صورت میں ماں کے لیے تیسرا حصہ اور باقی دو حصے (جو ماں کے حصے سے دو گنا ہیں ) باپ کو بطور عصبہ ملیں گے اور اگر ماں باپ کے ساتھ مرنے والے مرد کی بیوی یا مرنے والی عورت کا شوہر بھی زندہ ہے تو راجح قول کے مطابق بیوی یا شوہر کا حصہ (جس کی تفصیل آرہی ہے) نکال کر باقی ماندہ مال میں سے ماں کے لیے تیسرا حصہ اور باقی باپ کے لیے ہوگا۔
3. تیسری صورت یہ ہے کہ ماں باپ کے ساتھ مرنے والے کے بھائی بہن زندہ ہیں،وہ بھائی چاہے سگے یعنی ایک ہی ماں باپ کی اولاد ہوں اوراگر اولاد بیٹا یا بیٹی الگ باپ سے ہوں تو وراثت کے حق دار نہیں ہوں گے،لیکن ماں کے لیے حجب (نقصان کا سبب) بن جائیں گے یعنی جب ایک سے زیادہ ہوں گے تو ماں کے (تیسرے حصے) کو چھ حصوں میں تبدیل کر دیں گے۔باقی سارا مال باپ کے حصے میں چلا جائے گا بشرطیکہ کوئی اور وارث نہ ہو۔
میراث کے احکام بیان کرنے کے ساتھ ساتھ تین مرتبہ کہا گیا ہے کہ ورثے کی تقسیم،وصیت پر عمل کرنے اور قرض ادا کرنے کے بعد کی جائے،جس سے معلوم ہوتا ہے،ان دونوں باتوں پر عمل کرنا کتنا ضروری ہے۔
.وَ لَکُمْ نِصْفُ مَا تَرَکَ اَزْوَاجُکُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھُنَّ وَلَدٌ فَاِنْ کَانَ لَھُنَّ وَلَدٌ فَلَکُمُ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْنَ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصِیْنَ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ وَ لَھُنَّ الرُّبُعُ مِمَّا تَرَکْتُمْ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّکُمْ وَلَدٌ فَاِنْ کَانَ لَکُمْ وَلَدٌ فَلَھُنَّ الثُّمُنُ مِمَّا تَرَکْتُمْ مِّنْ بَعْدِ وَصِیَّۃٍ تُوْصُوْنَ بِھَآ اَوْ دَیْنٍ وَ اِنْ کَانَ رَجُلٌ یُّوْرَثُ کَلٰلَۃً اَوِ امْرَاَۃٌ وَّ لَہٗٓ اَخٌ اَوْ اُخْتٌ فَلِکُلِّ وَاحِدٍ مِّنْھُمَا السُّدُسُ فَاِنْ کَانُوْٓا اَکْثَرَ مِنْ ذٰلِکَ فَھُمْ شُرَکَآئُ فِی الثُّلُثِ مِنْم بَعْدِ وَصِیَّۃٍ یُّوْصٰی بِھَآ اَوْ دَیْنٍ غَیْرَ مُضَآرٍّ وَصِیَّۃً مِّنَ اللّٰہِ وَ اللّٰہُ عَلِیْمٌ حَلِیْمٌ.[سورۃ النساء (آیت:۱۲)]
’’اور جو مال تمھاری عورتیں چھوڑ کر مریں،اگر ان کے اولاد نہ ہو تو اُس میں نصف حصہ تمھارا اور اگر اولاد ہو تو ترکے میں تمھارا چوتھائی (لیکن یہ تقسیم) وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو اُنھوں نے کی ہو،یا قرض کے (ادا ہونے کے بعد جو اُن کے ذمے ہو،کی جائے گی) اور جو مال تم (مرد) چھوڑ کر مرو،اگر تمھارے اولاد نہ ہو تو تمھاری عورتوں کا اُس میں چوتھا حصہ ہے اور اگر اولاد ہو تو اُن کا آٹھواں حصہ (یہ حصے) تمھاری وصیت (کی تعمیل) کے بعد جو تم نے کی ہو اور اداے قرض کے (بعد تقسیم کیے جائیں گے) اور اگر ایسے مرد یا عورت کی میراث ہو،جس کا نہ باپ ہو نہ بیٹا،مگر اس کا بھائی یا بہن ہو تو اُن میں سے ہرایک کا چھٹا حصہ اور اگر ایک سے زیادہ ہوں تو سب ایک تہائی میں شریک ہوں گے۔(یہ حصے بھی) بعد اداے وصیت و قرض بشرطیکہ اُن سے میت نے کسی کا نقصان نہ کیا ہو (تقسیم کیے جائیں گے) یہ اللہ کا فرمان ہے اور اللہ تعالیٰ نہایت علم والا (اور) نہایت حلم والا ہے۔‘‘
اولاد کی عدم موجودگی میں بیٹے کی اولاد یعنی پوتے بھی اولاد کے حکم میں ہیں،اس پر امت کے علما کا اجماع ہے۔
اسی طرح مرنے والے شوہر کی اولاد خواہ اس کی وارث ہونے والی موجودہ بیوی سے ہو یا کسی اور بیوی سے ہے۔اسی طرح مرنے والی عورت کی اولاد اس کے وارث ہونے والے موجودہ خاوند سے یا پہلے کسی خاوند سے۔
بیوی اگر ایک ہوگی تب بھی اسے چوتھا یا آٹھواں حصہ ملے گا،اگر زیادہ ہوں گی،تب بھی یہی حصہ ان کے درمیان تقسیم ہوگا،ایک ایک کو چوتھائی یا آٹھواں حصہ نہیں ملے گا۔
مرنے والے کا کسی کو نقصان پہنچانا بایں طور ہے کہ وصیت کے ذریعے سے کسی وارث کو محروم کر دیا جائے یا کسی کا حصہ کم کر دیا جائے یا کسی کا حصہ بڑھا دیا جائے یا یوں ہی وارثوں کو نقصان پہنچانے کے لیے کہہ دے کہ فلاں شخص سے میں نے اتنا قرض لیا ہے،درآں حالیکہ کچھ بھی نہ لیا ہو،گویا اقرار کا تعلق وصیت اور قرض دونوں سے ہے اور دونوں کے ذریعے سے نقصان پہنچانا ممنوع اور کبیرہ گناہ ہے۔نیز ایسی وصیت بھی باطل ہے۔
’’کلالہ‘‘ سے مراد وہ میت ہے،جس کا باپ ہو نہ بیٹا اور اس کے بہن بھائی سے مراد اخیافی بہن بھائی ہیں،جن کی ماں ایک اور باپ الگ الگ، کیونکہ عینی بھائی بہن یا علاتی بہن بھائی کا حصہ میراث اس طرح نہیں ہے، جس کا بیان اس سورت کے آ خر میں آرہا ہے۔یہ مسئلہ بھی اجماعی ہے۔
۔بعض لوگوں نے کلالہ اس شخص کو قرار دیا ہے،جس کا صرف بیٹا نہ ہو،یعنی باپ موجود ہو۔
کلالہ کے بہن بھائی ایک سے زیادہ ہونے کی صورت میں یہ سب ایک تہائی حصے میں شریک ہوں گے،نیز ان میں مذکر اور مونث کے اعتبار سے بھی فرق نہیں کیا جائے گا۔بلا تفریق سب کو مساوی حصہ ملے گا،مرد ہو یا عورت۔
.یَسْتَفْتُوْنَکَ قُلِ اللّٰہُ یُفتِیْکُمْ فِی الْکَلٰلَۃِ اِنِ امْرُؤٌا ھَلَکَ لَیْسَ لَہٗ وَلَدٌ وَّ لَہٗٓ اُخْتٌ فَلَھَا نِصْفُ مَا تَرَکَ وَھُوَ یَرِثُھَآ اِنْ لَّمْ یَکُنْ لَّھَا وَلَدٌ فَاِنْ کَانَتَا اثْنَتَیْنِ فَلَھُمَا الثُّلُثٰنِ مِمَّا تَرَکَ وَ اِنْ کَانُوْآ اِخْوَۃً رِّجَالًا وَّ نِسَآئً فَلِلذَّکَرِ مِثْلُ حَظِّ الْاُنْثَیَیْنِ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اَنْ تَضِلُّوْا وَاللّٰہُ بِکُلِّ شَیْئٍ عَلِیْمٌ.[سورۃ النساء (آیت:۱۷۶)]
’’(اے پیغمبر!) لوگ تم سے (کلالہ کے بارے میں ) حکمِ (الٰہی ) دریافت کرتے ہیں تو کہہ دو کہ اللہ تعالیٰ کلالہ کے بارے میں یہ حکم دیتا ہے کہ اگر کوئی ایسا مرد مر جائے،جس کے اولاد نہ ہو (اور نہ ماں باپ) اور اس کی بہن ہو تو اُس کے بھائی کے ترکے میں سے آدھا حصہ ملے گا اور اگر بہن مر جائے اور اس کے اولاد نہ ہو تو اُس کے تمام مال کا وارث بھائی ہوگا اور اگر (مرنے والے بھائی کی) دو بہنیں ہوں تو دونوں کو بھائی کے ترکے میں سے دو تہائی اور اگر بھائی اور بہن یعنی مرد اور عورتیں ملے جلے وارث ہوں تو مرد کا حصہ دو عورتوں کے حصے کے برابر ہے (یہ احکام) اللہ تعالیٰ تم سے اس لیے بیان فرماتا ہے کہ بھٹکتے نہ پھرو اور اللہ تعالیٰ ہر چیز سے واقف ہے۔‘‘
.وَ مَنْ لَّمْ یَسْتَطِعْ مِنْکُمْ طَوْلًا اَنْ یَّنْکِحَ الْمُحْصَنٰتِ الْمُؤْمِنٰتِ فَمِنْ مَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ مِّنْ فَتَیٰتِکُمُ الْمُؤْمِنٰتِ وَ اللّٰہُ اَعْلَمُ بِاِیْمَانِکُمْ بَعْضُکُمْ مِّنْم بَعْضٍ فَانْکِحُوْھُنَّ بِاِذْنِ اَھْلِھِنَّ وَ اٰتُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ بِالْمَعْرُوْفِ مُحْصَنٰتٍ غَیْرَ مُسٰفِحٰتٍ وَّ لَا مُتَّخِذٰتِ اَخْدَانٍ فَاِذَآ اُحْصِنَّ فَاِنْ اَتَیْنَ بِفَاحِشَۃٍ فَعَلَیْھِنَّ نِصْفُ مَا عَلَی الْمُحْصَنٰتِ مِنَ الْعَذَابِ ذٰلِکَ لِِمَنْ خَشِیَ الْعَنَتَ مِنْکُمْ وَ اَنْ تَصْبِرُوْا خَیْرٌ لَّکُمْ وَ اللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.[سورۃ النساء (آیت:۲۵)]
’’اور جو شخص تم میں سے مومن آزاد عورتوں (بیبیوں ) سے نکاح کرنے کا مقدور نہ رکھے تو مومن لونڈیوں ہی میں جو تمھارے قبضے میں آگئی ہوں (نکاح کر لے) اور اللہ تعالیٰ تمھارے ایمان کو اچھی طرح جانتا ہے،تم آپس میں ایک دوسرے کے ہم جنس ہو تو ان لونڈیوں کے ساتھ اُن کے مالکوں کی اجازت حاصل کر کے نکاح کر لو اور دستور کے مطابق اُن کا مہر بھی ادا کر دو بشرطیکہ عفیفہ ہوں،نہ ایسی کہ کھلم کھلا بدکاری کریں اور نہ درپردہ دوستی کرنا چاہیں،پھر اگر نکاح میں آکر بدکاری کا ارتکاب کر بیٹھیں تو جو سزا آزاد عورتوں کے لیے ہے،اُس کی آدھی اُن کو (دی جائے) یہ (لونڈی کے ساتھ نکاح کرنے کی) اجازت اس شخص کو ہے،جسے گناہ کر بیٹھنے کا اندیشہ ہو اور اگر صبر کرو تو یہ تمھارے لیے بہت اچھا ہے اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘[تفصیل تفسیر ابن کثیر (۱/ ۵۲۳)]
.وَ اعْبُدُوا اللّٰہَ وَ لَا تُشْرِکُوْا بِہٖ شَیْئًا وَّ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ بِذِی الْقُرْبٰی وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ الْجَارِ ذِی الْقُرْبٰی وَ الْجَارِ الْجُنُبِ وَ الصَّاحِبِ بِالْجَنْبِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ وَ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ مَنْ کَانَ مُخْتَالًا فَخُوْرَا.سورۃ النساء (آیت:36)
’’اور اللہ ہی کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی چیز کو شریک نہ بناؤ اور ماں باپ اور قرابت والوں اور یتیموں اور محتاجوں اور رشتے دار ہمسایوں اور اجنبی ہمسایوں اور رفقاے پہلو (پاس بیٹھنے والوں ) اور مسافروں اور جو لوگ تمھارے قبضے میں ہوں،سب کے ساتھ احسان کرو کہ اللہ تعالیٰ (احسان کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے اور) تکبر کرنے والے بڑائی مارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
فخر و غرور اور تکبر اللہ تعالیٰ کو سخت ناپسند ہے،بلکہ ایک حدیث میں یہاں تک آتا ہے کہ ’’وہ شخص جنت میں نہیں جائے گا،جس کے دل میں رائی کے ایک دانے کے برابر بھی تکبر ہوگا۔‘‘[صحیح مسلم،رقم الحدیث (۹۱)]
یہاں تکبر کی بطورِ خاص مذمت سے یہ مقصد ہے کہ اللہ تعالیٰ کی عبادت اور جن جن لوگوں سے حسنِ سلوک کی تاکید کی گئی ہے،اس پر عمل وہی شخص کرسکتا ہے جس کا دل تکبر سے خالی ہوگا۔متکبر اور مغرور شخص صحیح معنوں میں حقِ عبادت ادا کرسکتا ہے نہ اپنوں اور بیگانوں کے ساتھ حسنِ سلوک کر سکتا ہے۔
پارہ 14.رُبَمَا.سورۃ النحل (آیت:۲۲،۲۳) میں فرمایا:
.اِلٰھُکُمْ اِلٰہٌ وَّاحِدٌ فَالَّذِیْنَ لَا یُؤْمِنُوْنَ بِالْاٰخِرَۃِ قُلُوْبُھُمْ مُّنْکِرَۃٌ وَّ ھُمْ مُّسْتَکْبِرُوْنَ . لَا جَرَمَ اَنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا یُسِرُّوْنَ وَ مَا یُعْلِنُوْنَ اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْتَکْبِرِیْنَ.
’’تمھارا معبود تو اکیلا اللہ ہے تو جو آخرت پر ایمان نہیں رکھتے،اُن کے دل اِنکار کر رہے ہیں اور وہ سرکش ہو رہے ہیں۔یہ جو کچھ چھپاتے ہیں اور جو ظاہر کرتے ہیں،اللہ ضرور اُس کو جانتا ہے،وہ سرکشوں کو ہرگز پسند نہیں کرتا۔‘‘
.اِنَّ اللّٰہَ یَاْمُرُکُمْ اَنْ تُؤَدُّوا الْاَمٰنٰتِ اِلٰٓی اَھْلِھَا وَ اِذَا حَکَمْتُمْ بَیْنَ النَّاسِ اَنْ تَحْکُمُوْا بِالْعَدْلِ اِنَّ اللّٰہَ نِعِمَّا یَعِظُکُمْ بِہٖ اِنَّ اللّٰہَ کَانَ سَمِیْعًام بَصِیْرًا.[سورۃ النساء (آیت:۵۸)]
’’اللہ تم کو حکم دیتا ہے کہ امانت والوں کی امانتیں اُن کے حوالے کر دیا کرو اور جب لوگوں میں فیصلہ کرنے لگو تو انصاف سے فیصلہ کیا کرو،اللہ تعالیٰ تمھیں بہت خوب نصیحت کرتا ہے،بے شک اللہ سنتا اور دیکھتا ہے۔‘‘
اکثر مفسرین کے نزدیک یہ آیت حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کی شان میں نازل ہوئی ہے،جو خاندانی طور پر خانہ کعبہ کے دربان اور کلید برادر چلے آرہے تھے،مکہ فتح ہونے کے بعد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خانہ کعبہ میں تشریف لائے تو طواف کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت عثمان بن طلحہ رضی اللہ عنہ کو طلب فرمایا،جو صلح حدیبیہ کے موقع پر مسلمان ہو چکے تھے اور انھیں خانہ کعبہ کی چابیاں دے کر فرمایا:
’’یہ تمھاری چابیاں ہیں،آج کا دن وفا اور نیکی کا دن ہے۔‘‘
آیت کا یہ سببِ نزول اگرچہ خاص ہے،لیکن اس کا حکم عام ہے اور اس کے مخاطب عوام اور حکام دونوں ہیں۔ دونوں کو تاکید ہے کہ امانتیں انھیں پہنچائو جو امانتوں کے اہل ہیں۔ اس میں ایک تو وہ اما نتیں شامل ہیں،جو کسی نے کسی کے پاس رکھوائی ہوں۔ان میں خیانت نہ کی جائے،بلکہ باحفاظت عندالطلب لوٹا دی جائیں۔ دوسرے عہدے اور مناصب اہل لوگوں کو دیے جائیں، محض سیاسی بنیاد یا نسلی و وطنی بنیاد یا قرابت و خاندان کی بنیاد پر اقربا پروری میں عہدہ و منصب دینا،اس آیت کے خلاف ہے۔
اس آیت میں حکام کو بطور خاص عدل و انصاف کرنے کا حکم دیا گیا ہے۔ایک حدیث میں ہے کہ حاکم جب تک ظلم نہ کرے،اللہ اس کے ساتھ ہوتا ہے اور جب وہ ظلم کا ارتکاب شروع کر دیتا ہے تو اللہ اسے اس کے اپنے نفس کے حوالے کر دیتا ہے۔[سنن ابن ماجہ،کتاب الأحکام،رقم الحدیث (۲۳۱۲)]
ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اعْتَصِمُوْا بِحَبْلِ اللّٰہِ جَمِیْعًا وَّ لَا تَفَرَّقُوْا وَ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ اِذْ کُنْتُمْ اَعْدَآئً فَاَلَّفَ بَیْنَ قُلُوْبِکُمْ فَاَصْبَحْتُمْ بِنِعْمَتِہٖٓ اِخْوَانًا وَ کُنْتُمْ عَلٰی شَفَا حُفْرَۃٍ مِّنَ النَّارِ فَاَنْقَذَکُمْ مِّنْھَاکَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَھْتَدُوْنَ.[آل عمران:۱۰۳]
’’اور سب مل کر اللہ کی (ہدایت کی) رسی کو مضبوط پکڑے رہنا اور متفرق نہ ہونا اور اللہ کی اُس مہربانی کو یاد کرو،جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے تو اُس نے تمھارے دلوں میں اُلفت ڈال دی اور تم اُس کی مہربانی
سے بھائی بھائی ہوگئے اور تم آگ کے گڑھے کے کنارے تک پہنچ چکے تھے تو اللہ تعالیٰ نے تمھیں اُس سے بچا لیا۔اس طرح اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے،تاکہ تم ہدایت پاؤ۔‘‘
اللہ سبحانہ و تعالیٰ فرقہ بندی کی ممانعت کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ متفق رہو اور اختلاف سے بچو۔
’’حَبْلِ اللّٰہِ‘‘ سے مراد قرآنِ پاک ہے جو اس کی مضبوط رسّی ہے،یہ بہ ظاہر نور ہے۔یہ سراسر ہدایت دینے والا اور نفع بخش ہے،اس پر عمل کرنے والے کے لیے یہ بچاؤ ہے اور اس کی اطاعت کرنے والے کے لیے نجات ہے۔
صحیح مسلم میں ہے کہ نبیِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین باتوں سے اللہ تعالیٰ خوش ہوتا ہے اور تین باتوں سے وہ ناراض ہوتا ہے اور حکم دیتا ہے
1اُسی کی عبادت کرو،اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو
2اللہ تعالیٰ کی رسّی کو مضبوطی سے [متفق ہو کر] پکڑو
3مسلمان بادشاہوں کی خیر خواہی کرو،جبکہ فضول گوئی،زیادتیِ سوال اور بربادیِ مال یہ تینوں چیزیں رب کی ناراضی کا سبب ہیں۔‘[تفسیر ابن کثیر (۱/ ۴۲)]
مسند احمد میں مروی ہے کہ لوگ بیت اللہ شریف کا طواف کر رہے تھے اور حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی وہاں تھے۔ان کے ہاتھ میں لکڑی تھی۔ وہ بیان فرمانے لگے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس آیت کی تلاوت کی پھر فرمایا:
’’اگر زقوم کا ایک قطرہ بھی دنیا میں گرا دیا جائے تو دنیا والوں کی روزیاں بگڑ جائیں اور وہ کوئی چیز کھا پی نہ سکیں،پھر خیال کرو کہ ان دوزخیوں کا حال کیا ہوگا جن کا کھانا پینا ہی یہ زقوم ہوگا؟!‘‘‘[مسند أحمد (۱/ ۳۰۰)]
ایک حدیث میں رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:
’’جو شخص جہنم سے بچنا اور جنت میں جانا چاہتا ہے،اسے چاہیے کہ مرتے دم تک اللہ تعالیٰ پر اور آخرت کے دن پر ایمان رکھے اور لوگوں سے وہ برتاؤ کرے جسے وہ خود اپنے لیے چاہتا ہو۔‘‘[مسند أحمد (۲/ ۱۶۱)]
آیت (۱۰۵) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ لَا تَکُوْنُوْا کَالَّذِیْنَ تَفَرَّقُوْا وَ اخْتَلَفُوْا مِنْم بَعْدِ مَا جَآئَ ھُمُ الْبَیِّنٰتُ وَ اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.
’’اور اُن لوگوں کی طرح نہ ہونا جو متفرق ہوگئے اور واضح احکام کے آجانے کے بعد ایک دوسرے سے اختلاف کرنے لگے،یہ وہ لوگ ہیں جن کو (قیامت کے دن) بڑا عذاب ہوگا۔‘
دعا ہے کہ اللہ تبارک و تعالیٰ ہمیں اپنی رسّی مضبوطی سے تھامنے اور اس کے احکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور اپنی ناراضی سے بچائے۔آمین ثم آمین
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْکُمْ فَاِنْ تَنَازَعْتُمْ فِیْ شَیْئٍ فَرُدُّوْہُ اِلَی اللّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ اِنْ کُنْتُمْ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ذٰلِکَ خَیْرٌ وَّ اَحْسَنُ تَاْوِیْلًا. [سورۃ النساء 4:59][476]
’’مومنو! اللہ اور اُس کے رسول کی فرمانبرداری کرو اور جو تم میں سے صاحبِ اختیار ہیں اُن کی بھی اور اگر کسی بات میں تم میں اختلاف واقع ہو تو اگر اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان رکھتے ہو تو اُس میں اللہ اور اس کے رسول (کے حکم) کی طرف رجوع کرو،یہ بہت اچھی بات ہے اور اس کا انجام بھی اچھا ہے۔‘‘
مطلب یہ ہے کہ اصل اطاعت تو اللہ تعالیٰ کی ہے، کیونکہ ’’حکم صرف اللہ ہی کا ہے ‘‘ لیکن چونکہ رسول اللہ ﷺ خالص منشاے الٰہی ہی کا مظہر ہیں اور اس کی مرضیات کے نمائندہ ہیں،اس لیے اللہ تعالیٰ نے اپنے ساتھ رسول اللہ ﷺ کے حکم کو بھی مستقل طور پر واجب الاطاعت قرار دیا اور فرمایا کہ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت دراصل اللہ کی اطاعت ہے۔
اُولِی الْاَمْرِ ’صاحبِ اختیار‘‘ سے مراد اکثر مفسرین کے مطابق مسلمان حکمران ہیں۔ جائز امور میں ان کے اَحکام کی اطاعت بھی مسلمانوں کا فرض ہے۔ البتہ یہ اطاعت اس شرط کے ساتھ ہے کہ وہ کسی ایسی بات کا حکم نہ دیں جو شرعاً جائز ہو۔ اس بات کو قرآنِ کریم نے دو طرح واضح فرمایا ہے۔ ایک تو اس طرح کہ اصحابِ اختیار کی اطاعت کا ذکر اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے بعد فرمایا ہے جس میں یہ اشارہ ہوگیا کہ حکمرانوں کی اطاعت اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کے تابع ہے۔ دوسرے اگلے جملے میں مزید صراحت کے ساتھ بتادیا گیا کہ اگر کسی معاملے میں یہ اختلاف پیدا ہوجائے کہ آیا حکمرانوں کا دیا ہوا حکم صحیح اور قابلِ طاعت ہے یا نہیں تو اسے اللہ اور اس کے رسول اللہ ﷺ کے حوالے کردو جس کا مطلب یہ ہے کہ اس حکم کو قرآن اور سنت کی کسوٹی پر پرکھ کر دیکھو، اگر وہ قرآن وسنت کے خلاف ہو تو اس کی اطاعت واجب نہیں ہے اور حکمرانوں کا فرض ہے کہ وہ ایسا حکم واپس لے لیں، اور اگر وہ حکم قرآن وسنت کے کسی صریح یا اجماعی طور پر مسلَّم حکم کے خلاف نہیں ہے تو عام مسلمانوں کا فرض ہے کہ اس پر عمل کریں۔ (مفتی تقی عثمانی )
١۔ معاملہ اللہ کی طرف لوٹایا جائے۔ (الشوریٰ : ١٠)
٢۔ کتاب اللہ میں مسائل کا حل ڈھونڈا جائے۔ (المائدۃ : ٤٧)
٣۔ اللہ اور اس کے رسول (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو فیصل تسلیم کیا جائے۔ (النساء : ٥٩)
٤۔جو اللہ کے رسول کو فیصل تسلیم نہیں کرتا وہ مسلمان نہیں۔ (النساء : ٦٥)
٥۔ اللہ اور اس کے رسول کے فیصلہ کے بعد مومن کو کوئی اختیار نہیں باقی رہتا۔ (الاحزاب : ٣٦)
٦۔ کتاب اللہ کے مطابق فیصلہ نہ کرنے والا ظالم، کافر اور فاسق ہے۔ (المائدہ : ٤٤، ٤٥، ٤٧) [فہم القرآن ، میاں محمد جمیل ]
اس کی تشریح کچھ صاحبان اس طرح کرتے ہیں :
تجزیہ :
حدیث کی پہچان کے لئے رسول اللہ ﷺ نے اصول[478] بیان فرمانے، اگر حدیث ان اصولوں پر پورا اترتی ہے تو درست تسلیم کی جا سکتی ہے، موجودہ طریقہ میں ان سات اصولوں میں سے صرف ایک اختیار کیا گیا ہے، نہ معلوم باقی چھ کو کیوں نظر انداز کر رکھا ہے؟ رسول اللہ ﷺ نے سنت اور حدیث[479] کو علیحدہ علیحدہ دو مختلف مصادر (sources) رکھا، جبکہ اکثر ان کو مترادف، ہم معنی بنا کر پیش کیا جاتا ہے جو کہ درست نہیں- قرآن کے بعد سنت رسول اللہ ﷺ کا درجہ ہے- علم تین ہیں: ١. آیت محکمہ[480] اور ٢. سنت ثابتہ اور ٣. فریضہ عادلہ-[481].
قرآن ، سنت اور حدیث سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت کے بعد ایک "تیسری اطاعت" بھی موجود ہے جو کہ اللہ اور رسول اللہ ﷺ کے طابع ہے کیونکہ انہوں ںے ہی ان کے اتباع کی ترغیب دی:
وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ (قرآن 9:100)
"وہ مہاجر اور انصارجنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے "احسن طریق"[482] پر ان کی پیروی (اتباع) کی ، اللہ ان سب سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ا للہ نے ان کے لئے ایسے باغات تیارکررکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے(قرآن 9:100)
یعنی وہ مہاجرین و انصار جو ایمان لانے میں مقدم اور سابق (سسبقت) ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نما ز پڑھی ہو خواہ وہ ہوں جو جنگِ بدر سے پہلے مسلمان ہوئے ہوں تمام امت میں یہی لوگ سابق اور قدیم ہیں اس کے بعد خواہ وہ صحابہ (رض) ہوں یعنی غیرمہاجرین و انصار یا تابعین اور تبع تابعین ہوں یا ان کے بعد کے لوگ ہوں علی فرقِ مراتب سب ہی کم و بیش اس بشارت میں شریک ہیں اگرچہ مراتب اور درجات کی نوعیت میں فرق ہوگا۔ جنگِ بدرتک جو مسلمان ہوئے وہ قدیم ہیں اور باقی ان کے تابع[483] بعد والوں کے لئے السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ کی اطاعت (اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ) مشروط ہے احسان[484] کے ساتھ-
اس میں کوئی شک نہیں کہ چاروں خلفاء راشدین (رضی الله ) "السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ" میں شامل ہیں، جن اللہ راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے- اگر یہ مرتبہ و اعزاز کوئی اور یا، ہم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو ان حضرات، خلفاء راشدین (رضی الله ) کا اتباع احسان سے کرنا ہو گا- خلفاء راشدین (رضی الله ) کا مرتبہ اورمناقب و فضائل[485] سے احادیث اور تاریخ بھری پڑی ہے[486] قران کی آیات[487] بھی ہیں- لیکن رسول اللہ ﷺ نے ان کو اپنی سنت اور وصیت سے اعزاز اور ذمہ داری بھی ڈال دی - رسول اللہ ﷺ نے قرآن کو مجلد کتاب کی شکل میں نہ چھوڑا- حالانکہ قرآن خود اپنے آپ کو "الکتاب" کہتا ہے جس میں کوئی شک نہیں[488]- مگر خلفاء راشدین (رضی الله ) نے کئی سال قرآن جو جمع کرنے کے باوجود تدوین قرآن سے گریز کیا کیوں؟ اس لئے کہ جو کام رسول اللہ ﷺ نےنہ کیا وہ کیسے کر سکتے؟ بلآخر مجبوری میں حضرت عثمان (رضی الله ) ںے یہ فریضہ بھی ادا کر دیا- کتاب حدیث مدون نہ کرنے کی سنت رسول اللہ ﷺ کو خلفاء راشدین نے بہت غور و خوص کے بعد قائم رکھا- وجوہات وہی تھیں جو رسول اللہ ﷺ نے فرمائی تھی کہ یہود و نصاری کتاب اللہ کے علاوہ کتب لکھ کر گمراہ ہو گۓ- رسول اللہ ﷺ نے خلفاء راشدین کو اختلافات میں فیصلوں کا اختیار دیا، جس کا ذکر پہلے ہو چکا ہے ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
”میں تمہیں اللہ سے ڈرنے ، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے (وَإِيَّاكُمْ وَمُحْدَثَاتِ الأُمُورِ فَإِنَّ كُلَّ مُحْدَثَةٍ بِدْعَةٌ وَكُلَّ بِدْعَةٍ ضَلاَلَةٌ ) [ابن ماجہ, 42 , ابی داود 4607 ، ترمزی 2676 وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)][489]
لہذا اللہ ، رسول اللہ ﷺ کے بعد خلفاء راشدین (رضی الله ) کے اجتماعی فیصلہ , سنت کو جو کہ قرآن[490] اور سنت رسول اللہ ﷺ کے بھی مطابق[491] ہے صدی/ صدیوں کے بعد منسوخ کرنے یا انکار کرنے کا کس کو اختیار ہے؟
رسول اللہ ﷺ کے حکم کا انکار کرنے کا کیا مطلب ہے؟
وَ مَنۡ یَّعۡصِ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ وَ یَتَعَدَّ حُدُوۡدَہٗ یُدۡخِلۡہُ نَارًا خَالِدًا فِیۡہَا۪ وَ لَہٗ عَذَابٌ مُّہِیۡنٌ ﴿قرآن؛ 4:14 ﴾
اور جو شخص اللہ تعالٰی کی اور اس کےرسول (ﷺ) کی نافرمانی کرے اور اس کی مُقّررہ حدوں سے آگے نکلے اسے وہ جہنّم میں ڈال دے گا، جس میں وہ ہمیشہ رہے گا، ایسوں ہی کے لئے رُسوا کُن عذاب ہے (قرآن؛ 4:14)-
.فَلَا وَ رَبِّکَ لَا یُؤْمِنُوْنَ حَتّٰی یُحَکِّمُوْکَ فِیْمَا شَجَرَ بَیْنَھُمْ ثُمَّ لَایَجِدُوْا فِیْٓ اَنْفُسِھِمْ حَرَجًا مِّمَّا قَضَیْتَ وَ یُسَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا.[سورۃ النساء 4:65]
’’تمھارے رب کی قسم! یہ لوگ جب تک اپنے تنازعات میں تمھیں منصف نہ بنائیں اور جو فیصلہ تم کر دو،اُس سے اپنے دل میں تنگ نہ ہوں،بلکہ اُس کو خوشی سے مان لیں،تب تک مومن نہیں ہوں گے۔‘‘
.مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰہَ وَ مَنْ تَوَلّٰی فَمَآ اَرْسَلْنٰکَ عَلَیْھِمْ حَفِیْظًا.[سورۃ النساء (آیت:۸۰)]
’’جو شخص رسول کی فرماں برداری کرے گا تو بے شک اُس نے اللہ کی فرماں برداری کی اور جو نافرمانی کرے تو اے پیغمبر تمھیں ہم نے اُن کا نگہبان بنا کر نہیں بھیجا۔‘‘
.وَمَآ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰہِ وَ لَوْ اَنَّھُمْ اِذْ ظَّلَمُوْٓا اَنْفُسَھُمْ جَآئُ وْکَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰہَ وَ اسْتَغْفَرَ لَھُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰہَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا. [سورۃ النساء 4:64)]
.مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً حَسَنَۃً یَّکُنْ لَّہٗ نَصِیْبٌ مِّنْھَا وَ مَنْ یَّشْفَعْ شَفَاعَۃً سَیِّئَۃً یَّکُنْ لَّہٗ کِفْلٌ مِّنْھَا وَ کَانَ اللّٰہُ عَلٰی کُلِّ شَیْئٍ مُّقِیْتًا.[سورۃ النساء (آیت ۸۵)]
’’جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا اور جو بُری بات کی سفارش کرے،اس کو اس (کے عذاب) میں سے حصہ ملے گا اور اللہ ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے۔‘‘[ تفسیر ابن کثیر (۱/ ۵۹۲)]
انفاق فی سبیل اللہ سے مراد ہے : ضرورت مندوں، یتیموں اور بے سہارا لوگوں پر اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کو مدنظر رکھتے ہوئے مال خرچ کرنا[492]۔ قرآن حکیم میں متعدد مقامات پر مسلمانوں کو انفاق فی سبیل اﷲ کا حکم دیا ہے کہ جو مال تمہاری، چند روزہ زندگی میں تمہیں نصیب ہوا ہے اور جسے تم چھوڑ کر جانے والے ہو اسے اللہ تعالیٰ کے راستے میں خرچ کر کے آخرت کا سامان تیار کرو۔
سورۃ الحدید میں بالخصوص انفاق فی سبیل اﷲ کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے :
آمِنُوا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ وَأَنفِقُوا مِمَّا جَعَلَكُم مُّسْتَخْلَفِينَ فِيهِ فَالَّذِينَ آمَنُوا مِنكُمْ وَأَنفَقُوا لَهُمْ أَجْرٌ كَبِيرٌO
’’اللہ اور اس کے رسول ( صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) پر ایمان لاؤ اور اس (مال و دولت) میں سے خرچ کرو جس میں اس نے تمہیں اپنا نائب (و امین) بنایا ہے، پس تم میں سے جو لوگ ایمان لائے اور انہوں نے خرچ کیا اُن کے لئے بہت بڑا اَجر ہے۔‘‘ [الحديد، 57 : 7]
ایک اور مقام پر اللہ تعالیٰ اپنے آپ کو زمین و آسمان کی میراث کا مالک قرار دے کر بڑے عمدہ انداز میں انفاق فی سبیل اﷲ کی ترغیب دلاتے ہوئے فرماتا ہے۔
وَمَا لَكُمْ أَلَّا تُنفِقُوا فِي سَبِيلِ اللَّهِ وَلِلَّهِ مِيرَاثُ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ.
’’اور تمہیں کیا ہوگیا ہے کہ تم اللہ کی راہ میں خرچ نہیں کرتے حالانکہ آسمانوں اور زمین کی ساری ملکیت اللہ ہی کی ہے (تم تو فقط اس مالک کے نائب ہو)۔‘‘ [ الحديد، 57 : 10]
بعض لوگ اپنے مال میں کمی کے اندیشہ کے پیش نظر خرچ نہیں کرتے۔ اللہ تعالیٰ نے بڑی اچھی تمثیل کے ذریعے انفاق فی سبیل اﷲ کو اپنی بارگاہ میں قرض حسنہ قرار دیا ہے۔ کہ جو مجھے قرض دے گا میں اس کی بہترین جزا دیتا ہوں، ارشاد فرمایا :
مَّن ذَا الَّذِي يُقْرِضُ اللّهَ قَرْضًا حَسَنًا فَيُضَاعِفَهُ لَهُ أَضْعَافًا كَثِيرَةً وَاللّهُ يَقْبِضُ وَيَبْسُطُ وَإِلَيْهِ تُرْجَعُونَO
’’کون ہے جو اﷲ کو قرض حسنہ دے پھر وہ اس کے لئے اسے کئی گنا بڑھا دے گا، اور اﷲ ہی (تمہارے رزق میں) تنگی اور کشادگی کرتا ہے، اور تم اسی کی طرف لوٹائے جاؤگے‘‘ [ البقره، 2 : 245]
لہٰذا رضا الٰہی کی خاطر اس کے ضرورتمند بندوں کی ضروریات کو پورا کرنا اور اس کے دیئے ہوئے مال میں سے خرچ کرنا انفاق فی سبیل اللہ کہلاتا ہے۔ جو بڑے اجر کا باعث عمل خیر ہے۔
.یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلْ مَآ اَنْفَقْتُمْ مِّنْ خَیْرٍ فَلِلْوَالِدَیْنِ وَ الْاَقْرَبِیْنَ وَ الْیَتٰمٰی وَ الْمَسٰکِیْنِ وَ ابْنِ السَّبِیْلِ وَ مَا تَفْعَلُوْا مِنْ خَیْرٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ. [سورۃ البقرۃ (آیت:۲۱۵)]
’’(اے نبی!) لوگ تم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں ) کس طرح کا مال خرچ کریں ؟ کہہ دو کہ (جو چاہو خرچ کرو،لیکن) جو مال خرچ کرنا ہو وہ (درجہ بہ درجہ اہلِ استحقاق یعنی) ماں باپ کو اور قریب کے رشتے داروں کو اور یتیموں کو اور محتاجوں کو اور مسافروں کو (سب کو دو) اور جو بھلائی تم کرو گے،اللہ تعالیٰ اُس کو جانتا ہے۔‘‘
بعض صحابۂ کرام کے استفسار پر مال خرچ کرنے کے اولین مصارف بیان کیے جا رہے ہیں، یعنی یہ لوگ سب سے زیادہ تمھارے مالی تعاون کے مستحق ہیں۔ اس لیے معلوم ہوا کہ انفاق کا یہ حکم صدقاتِ نافلہ سے متعلق ہے،زکات سے متعلق نہیں۔ کیونکہ ماں باپ پر زکات کی رقم خرچ کرنی جائز نہیں۔
.لَنْ تَنَالُوا الْبِرَّ حَتّٰی تُنْفِقُوْا مِمَّا تُحِبُّوْنَ وَ مَا تُنْفِقُوْا مِنْ شَیْئٍ فَاِنَّ اللّٰہَ بِہٖ عَلِیْمٌ.[سورت آل عمران (آیت:۹۲)]
’’(مومنو!) جب تک تم اُن چیزوں میں سے جو تمھیں عزیز ہیں (اللہ کی راہ میں ) خرچ نہ کرو گے،کبھی نیکی حاصل نہ کر سکو گے اور جو چیز تم خرچ کرو گے،اللہ تعالیٰ اُس کو جانتا ہے۔‘‘
1۔سورۃ البقرۃ (آیت:۱۹۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اَنْفِقُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَا تُلْقُوْا بِاَیْدِیْکُمْ اِلَی التَّھْلُکَۃِ وَ اَحْسِنُوْا اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ.
’’اور اللہ کی راہ میں (مال) خرچ کرو اور اپنے آپ کو ہلاکت میں نہ ڈالو اور نیکی کرو،بے شک اللہ تعالیٰ نیکی کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘
ہلاکت میں ڈالنے سے بعض نے ترکِ انفاق، بعض نے ترکِ جہاد اور بعض نے گناہ پر گناہ کیے جانا مراد لیا ہے اور یہ ساری ہی صورتیں ہلاکت کی ہیں،جہاد چھوڑ دو گے یا جہاد میں اپنا مال صرف کرنے سے گریز کرو گے تو یقینا دشمن قوی ہوگا اور تم کمزور۔نتیجہ تباہی ہے۔
.مَنْ ذَا الَّذِیْ یُقْرِضُ اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا فَیُضٰعِفَہٗ لَہٗٓ اَضْعَافًا کَثِیْرَۃً وَ اللّٰہُ یَقْبِضُ وَ یَبْصُطُ وَ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ. [سورۃ البقرۃ آیت (۲۴۵)]
’’کوئی ہے جو اللہ کو قرضِ حسنہ دے کہ وہ اس کے بدلے اُس کو کئی حصے زیادہ دے گا اور اللہ ہی روزی کو تنگ کرتا اور (وہی اُسے) کشادہ کرتا ہے اور تم اُسی کی طرف لوٹ کر جاؤ گے۔‘‘
.وَ یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَا یُنْفِقُوْنَ قُلِ الْعَفْوَ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَتَفَکَّرُوْنَ.[۔سورۃ البقرۃ (آیت:۲۱۹) ]
’’اور یہ بھی تم سے پوچھتے ہیں کہ (اللہ کی راہ میں ) کون سا مال خرچ کریں تو کہہ دو کہ جو ضرورت سے زیادہ ہو۔اس طرح اللہ تعالیٰ تمھارے لیے اپنے احکام کھول کھول کر بیان فرماتا ہے،تاکہ تم سوچو۔‘‘
.وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمُ ابْتِغَآئَ مَرْضَاتِ اللّٰہِ وَ تَثْبِیْتًا مِّنْ اَنْفُسِھِمْ کَمَثَلِ جَنَّۃٍ بِرَبْوَۃٍ اَصَابَھَا وَابِلٌ فَاٰتَتْ اُکُلَھَا ضِعْفَیْنِ فَاِنْ لَّمْ یُصِبْھَا وَابِلٌ فَطَلٌّ وَ اللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ بَصِیْرٌ.[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۶۵)]
’’اور جو لوگ اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے اور خلوصِ نیت سے اپنا مال خرچ کرتے ہیں،ان کی مثال ایک باغ کی سی ہے جو اونچی جگہ پر واقع ہو۔(جب) اُس پر مینہ پڑے تو دُگنا پھل لائے اور اگر مینہ نہ بھی پڑے تو خیر پھوار ہی سہی اور اللہ تمھارے کاموں کو دیکھ رہا ہے۔‘‘
.اَلَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَھُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ ثُمَّ لَا یُتْبِعُوْنَ مَآ اَنْفَقُوْا مَنًّا وَّ لَآ اَذًی لَّھُمْ اَجْرُھُمْ عِنْدَ رَبِّھِمْ وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْھِمْ وَ لَا ھُمْ یَحْزَنُوْنَ.[سورۃ البقرہ (آیت:۲۶۲)]
’’جو لوگ اپنا مال اللہ کے راستے میں صرف کرتے ہیں،پھر اُس کے بعد نہ اُس خرچ کا (کسی پر) احسان رکھتے ہیں اور نہ (کسی کو) تکلیف دیتے ہیں،اُن کا صلہ اُن کے رب کے پاس (تیار) ہے اور (قیامت کے روز) نہ اُن کو کچھ خوف ہو گا اور نہ وہ غمگین ہوں گے۔‘‘
.وَاَنْفِقُوْا مِنْ مَّا رَزَقْنٰکُمْ مِّنْ قَبْلِ اَنْ یَّاْتِیَ اَحَدَکُمُ الْمَوْتُ فَیَقُوْلَ رَبِّ لَوْلآَ اَخَّرْتَنِیْٓ اِلٰٓی اَجَلٍ قَرِیْبٍ فَاَصَّدَّقَ وَاَکُنْ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ. [سورۃ المنافقون کی آیت (۱۰)]
’’اور جو (مال) ہم نے تم کو دیا ہے،اس میں سے اس (وقت) سے پیشتر خرچ کر لو کہ تم میں سے کسی کی موت آجائے تو (اس وقت) کہنے لگے کہ اے میرے پروردگار! تو نے مجھے تھوڑی سی مہلت اور کیوں نہ دی؟ تاکہ میں خیرات کر لیتا اور نیک لوگوں میں داخل ہو جاتا۔‘‘
یعنی مال اور اولاد کی محبت اللہ تعالیٰ کے ذکر سے غفلت کا ذریعہ بنتی ہے۔اللہ تعالیٰ اپنے مومن بندوں کو حکم دیتا ہے کہ وہ کثرت سے اللہ تعالیٰ کو یاد کیا کریں اور تنبیہ کرتا ہے کہ ایسا نہ ہو کہ مال اور اولاد کی محبت میں پھنس کر اللہ سے غافل ہوجاؤ۔[تفسیر ابن کثیر (۵/ ۳۴۹)]
.فَاتَّقُوا اللّٰہَ مَا اسْتَطَعْتُمْ وَاسْمَعُوْا وَاَطِیْعُوْا وَاَنْفِقُوْا خَیْرًا لِّاَنْفُسِکُمْ وَمَنْ یُّوقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُوْلٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ . اِنْ تُقْرِضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعِفْہُ لَکُمْ وَیَغْفِرْلَکُمْ وَاللّٰہُ شَکُوْرٌ حَلِیْمٌ . عٰلِمُ الْغَیْبِ وَالشَّھَادَۃِ الْعَزِیْزُ الْحَکِیْمُ.[سورۃ التغابن کی آیت (۱۶،۱۷)]
’’سو جہاں تک ہو سکے اللہ سے ڈرو اور (اس کے احکام کو) سنو اور (اس کے) فرماں بردار رہو اور (اس کی راہ میں ) خرچ کرو (یہ) تمھارے حق میں بہتر ہے اور جو شخص طبیعت کے بخل سے بچایا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔اگر تم اللہ کو (اخلاص اور نیت) نیک (سے) قرض دو گے تو وہ تم کواس کا دو چند دے گا اور تمھارے گناہ بھی معاف کر دے گا اور اللہ قدر شناس اور بردبار ہے۔پوشیدہ اور ظاہر کا جاننے والا غالب اور حکمت والا ہے۔‘‘
.وَ ابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ.[سورۃ القصص (آیت:۷۷)]
’’اور جو (مال) تمھیں اللہ نے عطا فرمایا ہے،اس سے آخرت (کی بھلائی) طلب کیجیے اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے (ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو اور ملک میں طالبِ فساد نہ ہو،کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
.اٰمِنُوْا بِاللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاَنْفِقُوْا مِمَّا جَعَلَکُمْ مُّسْتَخْلَفِیْنَ فِیْہِ فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَاَنْفَقُوْا لَھُمْ اَجْرٌ کَبِیْرٌ.[سورۃ الحدید (آیت:۷)]
’’اللہ پر اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور جس (مال) میں اس نے تم کو نائب بنایا ہے،اس میں سے خرچ کرو،جو لوگ تم میں سے ایمان لائے اور (مال) خرچ کرتے رہے،ان کے لیے بڑا ثواب ہے۔‘‘
اس آیت میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ مال اس سے پہلے کسی دوسرے کے پاس تھا،تمھارے پاس بھی یہ مال نہیں رہے گا۔دوسرے اس کے وارث بنیں گے۔اگر تم نے اسے اللہ کی راہ میں خرچ نہ کیا تو بعد میں اس کے وارث بننے والے اِسے اللہ کی راہ میں خرچ کر کے تم سے زیادہ سعادت حاصل کرسکتے ہیں۔[تفسیر ابن کثیر (۵/ ۲۶۰)]
.اِنَّ الْمُصَّدِّقِیْنَ وَالْمُصَّدِّقٰتِ وَاَقْرَضُوْا اللّٰہَ قَرْضًا حَسَنًا یُّضٰعَفُ لَھُمْ وَلَھُمْ اَجْرٌ کَرِیْمٌ.[سورۃ الحدید (آیت:۱۸)]
’’جو لوگ خیرات کرنے والے ہیں مرد بھی اور عورتیں بھی اور اللہ کو (نیت) نیک (اور خلوص سے) قرض دیتے ہیں،ان کو دو چند ادا کیا جائے گا اور ان کے لیے عزت کا صلہ ہے۔‘‘
یعنی ایک کے بدلے میں کم از کم دس گنا اور اس سے زیادہ سات سو گنا، بلکہ اس سے بھی زیادہ تک - یہ زیادتی اخلاصِ نیت،حاجت و ضرورت اور مکان و زمان کی بنیاد پر ہوسکتی ہے۔ جیسے سورۃ الحدید (آیت:۱۰) میں ہے کہ جن لوگوں نے فتح مکہ سے قبل خرچ کیا،وہ اجر و ثواب میں ان سے زیادہ ہوں گے،جنھوں نے اس کے بعد کیا۔
.اِنَّ سَعْیَکُمْ لَشَتّٰی . فَاَمَّا مَنْ اَعْطٰی وَاتَّقٰی . وَصَدَّقَ بِالْحُسْنٰی . فَسَنُیَسِّرُہٗ لِلْیُسْرٰی.[سورۃ اللیل (آیت:۴ تا ۷)]
’’تم لوگوں کی کوشش طرح طرح کی ہے۔تو جس نے (اللہ کے رستے میں مال) دیا اور پرہیزگاری کی۔ اور نیک بات کو سچ جانا۔ اس کو ہم آسان طریقے کی توفیق دیں گے۔‘‘
.وَیَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْیَتٰمٰی قُلْ اِصْلَاحٌ لَّھُمْ خَیْرٌ وَ اِنْ تُخَالِطُوْھُمْ فَاِخْوَانُکُمْ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ الْمُفْسِدَ مِنَ الْمُصْلِحِ وَ لَوْ شَآئَ اللّٰہُ لَاَعْنَتَکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ.[سورۃ البقرۃ (آیت:۲۲۰)]
’’(یعنی) دنیا اور آخرت (کی باتوں ) میں (غور کرو) اور تم سے یتیموں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں تو کہہ دو کہ اُن کی (حالت کی) اصلاح بہت اچھا کام ہے اور اگر تم اُن سے مل جل کر رہنا (خرچ اکٹھا رکھنا) چاہو تو وہ تمھارے بھائی ہیں اور اللہ تعالیٰ خوب جانتا ہے کہ خرابی کرنے والا کون ہے اور اصلاح کرنے والا کون اور اگر اللہ چاہتا تو تمھیں تکلیف میں ڈال دیتا،بے شک اللہ تعالیٰ غالب (اور) حکمت والا ہے۔‘‘
جب یتیموں کا مال ظلماً کھانے والوں کے لیے سزا کی دھمکی نازل ہوئی تو صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم ڈر گئے اور یتیموں کی ہر چیز الگ کر دی،حتیٰ کہ کھانے پینے کی کوئی چیز بچ جاتی تو اسے بھی استعمال نہ کرتے اور وہ خراب ہو جاتی،اس ڈر سے کہ کہیں ہم بھی اس سزاکے مستحق نہ قرار پا جائیں۔اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔
’’اور جب تم سفر کو جاؤ تو تم پر کچھ گناہ نہیں کہ نماز کو کم کر کے پڑھو،بشرطیکہ تمھیں خوف ہو کہ کافر لوگ تمھیں ایذا دیں گے،بے شک کافر تمھارے کھلے دشمن ہیں۔‘‘ [سورۃ النساء (آیت:۱۰۱) ]
ہمیشہ سفر میں قصر کرنے کا حکم و اجازت ہے،خوف ہو یا نہ ہو،یہ اللہ تعالیٰ کا شکر اور اس کا فضل ہے،اسے شکریے کے ساتھ قبول کرنا چاہیے۔[منہاج المسلم (ص: ۳۶۳)]
اس حالت میں سفر میں نماز قصر کرنے (دوگانہ ادا کرنے) کی اجازت دی جارہی ہے۔’’اگر تمھیں ڈر ہو‘‘ کی شرط غالب احوال کے اعتبار سے ہے،کیوں کہ اس وقت پورا عرب دارالحرب بنا ہوا تھا۔کسی طرف بھی خطرات سے خالی نہیں تھا۔یعنی یہ شرط نہیں ہے کہ سفر میں خوف ہو تو قصر کی اجازت ہے،جیسے قرآن مجید میں اور بھی مقامات پر اس قسم کی قیدیں بیان کی گئی ہیں،جو اتفاقی یعنی غالب احوال کے اعتبار سے ہیں مثلاً:.لَا تَاْکُلُوا الرِّبٰٓوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَۃً.[آل عمران:۱۳۰] ’’سود کو زیادہ بڑھا چڑھا کر نہ کھاؤ۔‘‘
’’پھر جب تم نماز تمام کر چکو تو کھڑے اور بیٹھے اور لیٹے (ہر حالت میں ) اللہ کو یاد کرو،پھر جب خوف جاتا رہے تو (اُس طرح سے) نماز پڑھو (جس طرح امن کی حالت میں پڑھتے ہو) بے شک نماز کا مومنوں پر اوقاتِ (مقررہ) میں ادا کرنا فرض ہے۔‘‘[سورۃ النساء (آیت:۱۰۳)]
اس سے مراد یہ ہے کہ جب خوف اور جنگ کی حالت ختم ہو جائے تو پھر نماز اس طریقے کے مطابق پڑھنا ہے،جو عام حالات میں پڑھی جاتی ہے۔
’’اور جو لوگ اپنے ہم جنسوں کی خیانت کرتے ہیں،اُن کی طرف سے بحث نہ کرنا،کیونکہ اللہ خائن اور مرتکب ِ جرائم کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘[سورۃ النساء (آیت:۱۰۷)]
’’اور جو شخص کوئی بُرا کام کر بیٹھے یا اپنے حق میں ظلم کر لے،پھر اللہ سے بخشش مانگے تو اللہ کو بخشنے والا اور مہربان پائے گا۔‘‘[سورۃ النساء 4:110][493]
قرآن کریم کے عام اسلوب حکیمانہ کے مطابق مجرموں گنہگاروں کو ناامیدی سے بچانے کے لئے فرمایا گیا کہ چھوٹا گناہ ہو یا بڑا، جب گنہگار اللہ تعالیٰ سے توبہ و استغفار کرتا ہے تو اللہ تعالیٰ کو غفور و رحیم پاتا ہے اس میں ان لوگوں کو جن سے یہ گناہ سر زد ہوا تھا اس کی ترغیب ہے کہ اب بھی باز آجائیں اور دل سے توبہ کرلیں تو کچھ نہیں بگڑا، اللہ تعالیٰ سب معاف فرمائیں گے
قُلْ یٰعِبَادِیَ الَّذِیْنَ اَسْرَفُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ لاَ تَقْنَطُوْا مِنْ رَّحْمَۃِ اللّٰہِ اِنَّ اللّٰہَ یَغْفِرُ الذُّنُوْبَ جَمِیْعًا اِنَّہٗ ھُوَ الْغَفُوْرُ الرَّحِیْمُ (سورۃ الزمر39:53)
"کہہ دو کہ اے میرے بندو! جنہوں نے اپنی جانوں پر زیادتی کی ہے تم اللہ کی رحمت سے نا امید نہ ہو جاؤ بالیقین اللہ تعالٰی سارے گناہوں کو بخش دیتا ہے واقعی وہ بڑی ، بخشش بڑی رحمت والا ہے" (سورۃ الزمر39:53)[494]
اس آیت میں اللہ تعالیٰ کی مغفرت کی وسعت کا بیان ہے۔ اسراف کے معنی ہیں گناہوں کی کثرت اور اس میں افراط۔ ' اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو ' کا مطلب ہے کہ ایمان لانے سے قبل یا توبہ و استغفار کا احساس پیدا ہونے سے پہلے کتنے بھی گناہ کئے ہوں، انسان یہ نہ سمجھے کہ میں بہت زیادہ گنہگار ہوں، مجھے اللہ تعالیٰ کیونکر معاف کرے گا ؟ بلکہ سچے دل سے اگر ایمان قبول کرلے گا یا توبہ کرلے گا تو اللہ تعالیٰ تمام گناہ معاف فرما دے گا۔
لیکن اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ اللہ کی رحمت و مغفرت کی امید پر خوب گناہ کیے جاؤ اس کے احکام و فرائض کی مطلق پروا نہ کرو اور اس کے حدود اور ضابطوں کو بےدردی سے پامال کرو اس طرح اس کے غضب و انتقام کو دعوت دے کر اس کی رحمت و مغفرت کی امید رکھنا نہایت نادانش مندی اور خام خیالی ہے یہ تخم حنظل بو کر ثمرات و فواکہ کی امید رکھنے کے مترادف ہے ایسے لوگوں کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ وہ جہاں اپنے بندوں کے لیے غفور رحیم ہے وہاں وہ نافرمانوں کے لیے عزیز ذو انتقام بھی ہے چناچہ قرآن کریم میں منعدد جگہ ان دونوں پہلوؤں کو ساتھ ساتھ بیان کیا گیا مثلا نبیء عبادی انی انا الغفور الرحیم وان عذابی ہو العذاب الالیم (الحجر) غالبا یہی توبہ کر کے صحیح معنوں میں اس کا بندہ بن جائے گا اس کے گناہ اگر سمندر کے جھاگ کے برابر بھی ہوں گے تو معاف فرما دے گا وہ اپنے بندوں کے لیے یقینا غفور رحیم ہے۔[495]
سورہ یوسف (آیت:۸۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰبَنِیَّ اذْھَبُوْا فَتَحَسَّسُوْا مِنْ یُّوْسُفَ وَ اَخِیْہِ وَ لَا تَایْئَسُوْا مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِنَّہٗ لَا یَایْئَسُ مِنْ رَّوْحِ اللّٰہِ اِلَّا الْقَوْمُ الْکٰفِرُوْنَ.
’’بچو! (یوں کرو کہ ایک دفعہ پھر) جاؤ اور یوسف اور اُس کے بھائی کو تلاش کرو اور اللہ کی رحمت سے ناامید نہ ہو کہ اللہ کی رحمت سے بے ایمان لوگ ناامید ہوا کرتے ہیں۔‘‘
.فَسَبِّحْ بِحَمْدِ رَبِّکَ وَاسْتَغْفِرْہُ اِنَّہٗ کَانَ تَوَّابًا.[۔سورۃ النصر (آیت:۳)]
’’اپنے پروردگار کی تعریف کے ساتھ تسبیح کرو اور اس سے مغفرت مانگو،بے شک وہ معاف کرنے والا ہے۔‘‘
نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے خطاب کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے کہ یہ سمجھ لو کہ تبلیغِ رسالت اور احقاقِ حق کا فرض جو تیرے ذمے تھا، پورا ہو گیا اور اب تیرا دنیا سے کوچ کرنے کا مرحلہ قریب آ گیا ہے،اس لیے حمد و تسبیحِ الٰہی اور استغفار کا خوب اہتمام کرو۔اس سے معلوم ہوا کہ زندگی کے آخری ایام میں ان چیزوں کا اہتمام کثرت سے کرنا چاہیے۔
.وَقَالَ رَبُّکُمْ ادْعُوْنِیْٓ اَسْتَجِبْ لَکُمْ اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَکْبِرُوْنَ عَنْ عِبَادَتِیْ سَیَدْخُلُوْنَ جَھَنَّمَ دَاخِرِیْنَ.
’’اور تمھارے پروردگار نے ارشاد فرمایا ہے کہ تم مجھ سے دعا کرو،میں تمھاری (دعا) قبول کروں گا،جو لوگ میری عبادت سے راہِ تکبر اپناتے ہیں،عنقریب جہنم میں ذلیل ہو کر داخل ہوں گے۔‘‘(سورۃ المومن (آیت:۶۰)
جیسا کہ سورۃ المومنون (آیت:۱۱۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَمَنْ یَّدْعُ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ لاَ بُرْھَانَ لَہٗ بِہٖ فَاِنَّمَا حِسَابُہٗ عِنْدَ رَبِّہٖ اِنَّہٗ لاَ یُفْلِحُ الْکٰفِرُوْنَ.
’’اور جو شخص اللہ کے ساتھ کسی اور معبود کو پکارتا ہے،جس کی اس کے پاس کچھ سند نہیں تو اس کا حساب اللہ ہی کے ہاں ہوگا،کچھ شک نہیں کہ کافر فلاح و راست گاری نہیں پائیں گے۔‘‘
سورۃ الاحزاب (آیت:41-44) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اذْکُرُوا اللّٰہَ ذِکْرًا کَثِیْرًا . وَّ سَبِّحُوْہُ بُکْرَۃً وَّ اَصِیْلًا . ھُوَ الَّذِیْ یُصَلِّیْ عَلَیْکُمْ وَ مَلٰٓئِکَتُہٗ لِیُخْرِجَکُمْ مِّنَ الظُّلُمٰتِ اِلَی النُّوْرِ وَ کَانَ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَحِیْمًا . تَحِیَّتُھُمْ یَوْمَ یَلْقَوْنَہٗ سَلٰمٌ وَ اَعَدَّ لَھُمْ اَجْرًا کَرِیْمًا.
’’اے اہلِ ایمان! اللہ کا بہت ذکر کیا کرو اور صبح و شام اُس کی پاکی بیان کرتے رہو۔وہی تو ہے جو تم پر رحمت بھیجتا ہے اور اُس کے فرشتے بھی،تاکہ تم کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف لے جائے اور اللہ مومنوں پر مہربان ہے۔جس روز وہ اس سے ملیں گے ان کا تحفہ (اللہ کی طرف سے) سلام ہوگا اور اُس نے اُن کے لیے بڑا ثواب تیار کر رکھا ہے۔‘‘
ذکرِ الٰہی کرنے والی عورتوں اور مردوں کو ان لوگوں میں سے شمار کیا گیا ہے،جن کے لیے جنت و مغفرت اور اجر عظیم تیار کیا گیا ہے،جیسا کہ اسی سورۃ الاحزاب کی (آیت:۳۵) میں گزرا ہے۔ یہاں بہت سی نعمتوں کے انعام کرنے والے اللہ تعالیٰ کا حکم ہورہا ہے کہ ہمیں اس کا ذکر کثرت سے کرنا چاہیے۔[496]
سورۃ الحاقہ (آیت:۵۲) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.فَسَبِّحْ بِاسْمِ رَبِّکَ الْعَظِیْمِ.
’’سو تم اپنے پروردگار کے نام کی تنزیہ و تسبیح کرتے رہو۔‘‘
.وَ مَنْ یَّکْسِبْ خَطِیْئَۃً اَوْ اِثْمًا ثُمَّ یَرْمِ بِہٖ بَرِیْٓئًا فَقَدِ احْتَمَلَ بُھْتَانًا وَّ اِثْمًا مُّبِیْنًا.[۔سورۃ النساء (آیت:۱۱۲)]
’’اور جو شخص کوئی قصور یا گناہ تو خود کر لے،لیکن اس سے کسی بے گناہ کو متہم کرے تو اس نے بہتان اور صریح گناہ کا بوجھ اپنے سر پر رکھا۔‘‘
اگر کوئی شخص کسی پر زنا کی تہمت لگاکر اسے گواہوں کے ساتھ ثابت نہ کرسکے تو اس پر قذف (تہمت و بہتان ) کی سزا ہے،جو اسّی کوڑے ہے اور آیندہ کسی معاملے میں اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔[تفصیل کے لیے دیکھیں : تفسیر سورۃ النور آیت: 6][497]
’’جن لوگوں نے بہتان باندھا ہے،وہ تم ہی میں سے ایک جماعت ہے اور اس کو اپنے حق میں بُرا نہ سمجھنا،بلکہ وہ تمھارے لیے اچھا ہے۔ان میں سے جس شخص نے گناہ کا جتنا حصہ لیا،اس کے لیے اتنا وبال ہے اور جس نے ان میں سے اس بہتان کا بڑا بوجھ اٹھایا ہے،اس کو بڑا عذاب ہوگا۔جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا اور کیوں نہ کہاکہ یہ صریح بہتان ہے۔‘‘[سورۃ النور (آیت:۱۱،۱۲)]
’’جو لوگ پرہیزگار اور بُرے کاموں سے بے خبر اور ایمان دار عورتوں پر بدکاری کی تہمت لگاتے ہیں،ان پر دنیا و آخرت (دونوں ) میں لعنت ہے اور ان کو سخت عذاب ہوگا۔‘‘[سورۃ النور (آیت:۲۳)]
’’ان لوگوں کی بہت سی باتیں اچھی نہیں،ہاں (اُس شخص کی بات اچھی ہو سکتی ہے) جو خیرات یا نیک بات یا لوگوں میں صلح کرنے کو کہے اور جو ایسے کام اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے کرے گا تو ہم اس کو بڑا ثواب دیں گے۔‘‘[سورۃ النساء (آیت:۱۱۴)]
نَجْوٰی (سرگوشی) سے مراد وہ باتیں ہیں،جو منافقین آپس میں مسلمانوں کے خلاف یا ایک دوسرے کے خلاف کرتے تھے۔ صدقہ،خیرات،معروف (جو ہر قسم کی نیکی کو شامل ہے) اور اصلاح بین الناس کے بارے میں مشورے،خیر پر مبنی ہیں،جیسا کہ احادیث میں بھی ان امور کی فضیلت و اہمیت بیان کی گئی ہے۔ اگر اخلاص (رضاے الٰہی کا ارادہ) نہیں ہوگا تو بڑے سے بڑا عمل بھی نہ صرف ضائع جائے گا،بلکہ وبالِ جان بن جائے گا۔
سورۃ البقرہ (آیت:۲۶۴) میں فرمایا:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُبْطِلُوْا صَدَقٰتِکُمْ بِالْمَنِّ وَ الْاَذٰی کَالَّذِیْ یُنْفِقُ مَالَہٗ رِئَآئَ النَّاسِ وَ لَا یُؤْمِنُ بِاللّٰہِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ فَمَثَلُہٗ کَمَثَلِ صَفْوَانٍ عَلَیْہِ تُرَابٌ فَاَصَابَہٗ وَابِلٌ فَتَرَکَہٗ صَلْدًا لَا یَقْدِرُوْنَ عَلٰی شَیْئٍ مِّمَّا کَسَبُوْا وَ اللّٰہُ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ.
’’مومنو! اپنے صدقات (وخیرات) احسان رکھنے اور ایذا دینے سے اس شخص کی طرح برباد نہ کر دینا،جو لوگوں کو دکھانے کے لیے مال خرچ کرتا ہے اور اللہ اور روزِ آخرت پر ایمان نہیں رکھتا تو اُس (کے مال) کی مثال اُس چٹان کی سی ہے،جس پر تھوڑی سی مٹی پڑی ہو اور اُس پر زور کی بارش برس کر اُسے صاف کر ڈالے (اسی طرح) یہ (ریاکار) لوگ اپنے اعمال کا کچھ بھی صلہ حاصل نہیں کر سکیں گے اور اللہ ایسے ناشکروں کو ہدایت نہیں دیا کرتا۔‘‘
اس میں ایک تو یہ کہا گیا ہے کہ صدقہ اور خیرات کرکے احسان جتلانا اور تکلیف دہ باتیں کرنا اہلِ ایمان کا شیوہ نہیں،بلکہ ان لوگوں کا وتیرہ ہے جو منافق ہیں اور ریاکاری کے لیے خرچ کرتے ہیں۔دوسرے ایسے خرچ کی مثال صاف پتھریلی چٹان کی طرح ہے،جس پر مٹی ہو،کوئی شخص پیداوار حاصل کرنے کے لیے اس میں بیج بو دے،لیکن بارش کا ایک جھٹکا پڑتے ہی وہ ساری مٹی اس سے اتر جائے اور وہ پتھر مٹی سے بالکل صاف ہو جائے،یعنی جس طرح بارش اس پتھر کے لیے نفع بخش ثابت نہیں ہوئی،اس طرح ریاکار کو بھی اسی کے صدقے کا کوئی فائدہ نہیں ہوگا۔
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۶۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْفِقُوْا مِنْ طَیِّبٰتِ مَا کَسَبْتُمْ وَ مِمَّآ اَخْرَجْنَا لَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَلَا تَیَمَّمُوا الْخَبِیْثَ مِنْہُ تُنْفِقُوْنَ وَ لَسْتُمْ بِاٰخِذِیْہِ اِلَّآ اَنْ تُغْمِضُوْا فِیْہِ وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّ اللّٰہَ غَنِیٌّ حَمِیْدٌ.
’’مومنو! جو پاکیزہ اور عمدہ مال تم کماتے ہو اور جو چیزیں ہم تمھارے لیے زمین سے نکالتے ہیں،اُن میں سے (اللہ کی راہ میں ) خرچ کرو اور بُری اور ناپاک چیزیں دینے کا قصد نہ کرنا کہ اگر وہ چیزیں تمھیں دی جائیں تو بجز اس کے کہ (لیتے وقت) آنکھیں بند کر لو،اُن کو کبھی نہ لو اور جان رکھو کہ اللہ بے پروا اور قابلِ ستایش ہے۔‘‘
صدقے کی قبولیت کے لیے جس طرح ضروری ہے کہ ریاکاری سے پاک ہو،اُسی طرح یہ بھی ضروری ہے کہ وہ حلال اور پاکیزہ کمائی سے ہو،چاہے وہ کاروبار (تجارت و صنعت) کے ذریعے سے ہو یا فصل اور باغات کی پیداوار سے۔یہ جو فرمایا کہ خبیث چیزوں کو اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا قصد مت کرو،تو خبیث سے وہ چیزیں مراد ہیں جو غلط کمائی سے ہوں،اللہ تعالیٰ اسے قبول نہیں فرماتا۔غرض کہ جس طرح تم خود نکمی چیزیں لینا پسند نہیں کرتے،اسی طرح اللہ کی راہ میں بھی اچھی چیزیں دو۔
سورۃ النساء (آیت:۱۴۹)
.اِنْ تُبْدُوْا خَیْرًا اَوْ تُخْفُوْہُ اَوْ تَعْفُوْا عَنْ سُوْٓئٍ فَاِنَّ اللّٰہَ کَانَ عَفُوًّا قَدِیْرًا.
’’اگر تم لوگ بھلائی کھلم کھلا کرو گے یا چھپا کر،یا بُرائی سے درگزر کرو گے تو اللہ بھی معاف کرے والا (اور) قدرت والا ہے۔‘‘
کوئی شخص کسی کے ساتھ ظلم یا برائی کا ارتکاب کرے تو شریعت نے اس حد تک بدلہ لینے کی اجازت دی ہے،جس حد تک اس پر ظلم ہوا ہے۔آپس میں گالی گلوچ کرنے والے دو شخص جو کچھ کہیں،اس کا گناہ پہل کرنے والے پر ہے (بشرطیکہ) مظلوم (جسے گالی دی گئی ہے،وہ جواب میں گالی نہ دے) زیادتی نہ کرے،بدلہ لینے کے ساتھ ساتھ معافی اور درگزر کو زیادہ پسند فرمایا ہے،کیوں کہ اللہ تعالیٰ خود باوجود قدرتِ کاملہ کے عفو اور درگزر سے کام لینے والا ہے۔
.یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ قَدْ جَآئَ کُمُ الرَّسُوْلُ بِالْحَقِّ مِنْ رَّبِّکُمْ فَاٰمِنُوْا خَیْرًا لَّکُمْ وَ اِنْ تَکْفُرُوْا فَاِنَّ لِلّٰہِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِ وَ کَانَ اللّٰہُ عَلِیْمًا حَکِیْمًا.[سورۃ النساء (آیت:۱۷۰)]
’’لوگو! اللہ کے پیغمبر تمھارے پاس تمھارے رب کی طرف سے حق بات لے کر آئے ہیں تو (ان پر) ایمان لاؤ (یہی) تمھارے حق میں بہتر ہے اور اگر کفر کرو گے تو (جان رکھو کہ) جوکچھ آسمانوں اور زمین میں ہے،سب اللہ ہی کا ہے اور اللہ سب کچھ جاننے والا (اور) حکمت والا ہے۔‘‘
اگر کوئی ایمان نہیں لاتا تو اس کے کفر سے اللہ کا کیا بگڑے گا؟ جیسے حضرت موسیٰ نے اپنی قوم سے فرمایا:
.اِنْ تَکْفُرُوْٓا اَنْتُمْ وَ مَنْ فِی الْاَرْضِ جَمِیْعًا فَاِنَّ اللّٰہَ لَغَنِیٌّ حَمِیْدٌ.[إبراھیم:۸]
’’اگر تم اور روئے زمین پر بسنے والے سب کے سب کفر کا راستہ اختیار کر لیں (تو وہ اللہ کا کیا بگاڑیں گے؟) یقینا اللہ تعالیٰ تو بے پروا تعریف کیا گیا ہے۔‘‘
ایک حدیثِ قدسی میں ہے کہ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے:
’’اے میرے بندو! اگر تمھارے اوّل و آخر تمام انسان اور جن ایک آدمی کے دل کی طرح ہو جائیں جو تم میں سب سے زیادہ متقی ہے تو اس سے میری بادشاہی میں اضافہ نہیں ہوگا اور اگر تمھارے اوّل و آخر انس و جن اس ایک آدمی کے دل کی طرح ہو جائیں جو تم میں سب سے بڑا نافرمان ہے تو اس سے میری بادشاہی میں کوئی کمی نہیں ہوگی۔اے میرے بندو ! اگرتم سب ایک میدان میں جمع ہو جائو اور مجھ سے سوال کرو اور میں ہر انسان کو اس کے سوال کے مطابق عطا کروں تو اس سے میرے خزانے میں اتنی ہی کمی ہوگی جتنی سوئی کے سمندر میں ڈبو کر نکالنے سے سمندر کے پانی میں ہوتی ہے۔‘‘[صحیح مسلم،کتاب البر،باب تحریم الظلم (۵۵۔۲۵۷۷)]
سورۃ النساء (آیت:۱۷۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰہِ وَ اعْتَصَمُوْا بِہٖ فَسَیُدْخِلُھُمْ فِیْ رَحْمَۃٍ مِّنْہُ وَ فَضْلٍ وَّ یَھْدِیْھِمْ اِلَیْہِ صِرَاطًا مُّسْتَقِیْمًا.
’’پس جو لوگ اللہ پر ایمان لائے اور اُس (کے دین کی رسی) کو مضبوط پکڑے رہے،اُن کو وہ اپنی رحمت اور فضل (کے باغوں ) میں داخل کرے گا اور اپنی طرف (پہنچنے کا) سیدھا راستہ دکھائے گا۔‘‘
سورۃ المائدہ (آیت:۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ تَعَاوَنُوْا عَلَی الْبِرِّ وَ التَّقْوٰی وَ لَا تَعَاوَنُوْا عَلَی الْاِثْمِ وَ الْعُدْوَانِ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ شَدِیْدُ الْعِقَابِ .
’’اور (دیکھو) نیکی اور پرہیزگاری کے کاموں میں ایک دوسرے کی مدد کیا کرو اور گناہ اور ظلم کی باتوں میں مدد نہ کیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو،کچھ شک نہیں کہ اللہ کا عذاب سخت ہے۔‘‘
.یَسْئَلُوْنَکَ مَاذَآ اُحِلَّ لَھُمْ قُلْ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَ مَا عَلَّمْتُمْ مِّنَ الْجَوَارِحِ مُکَلِّبِیْنَ تُعَلِّمُوْنَھُنَّ مِمَّا عَلَّمَکُمُ اللّٰہُ فَکُلُوْا مِمَّآ اَمْسَکْنَ عَلَیْکُمْ وَ اذْکُرُوا اسْمَ اللّٰہِ عَلَیْہِ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَرِیْعُ الْحِسَابِ.[سورۃ المائدہ (آیت:۴)]
’’وہ تم سے پوچھتے ہیں کہ کون کون سی چیزیں ان کے لیے حلال ہیں (ان سے) کہہ دو کہ سب پاکیزہ چیزیں تمھارے حلال ہیں اور وہ (شکار) بھی حلال ہے جو تمھارے لیے ان شکاری جانوروں نے پکڑا ہو،جنہیں تم نے سدھا رکھا ہو اور جس (طریق) سے اللہ نے تمھیں (شکار کرنا) سکھایا ہے،(اس طریق سے) تم نے ان کو سکھایا ہو تو جو شکار وہ تمھارے لیے پکڑ رکھیں اُس کو کھا لیا کرو اور (شکاری جانوروں کے چھوڑتے وقت) اللہ کا نام لیا کرو اور اللہ سے ڈرتے رہو،بیشک اللہ تعالیٰ جلد حساب لینے والا ہے۔‘‘
.جَوَارِحَ.جَارِحٌ کی جمع ہے،جو کاسب (کمانے والا) کے معنیٰ میں ہے۔مراد شکاری کتا،باز،چیتا،شقرا اور دیگر شکاری پرندے اور درندے ہیں۔.مُکَلِّبِیْنَ.کا مطلب ہے شکار پر چھوڑنے سے پہلے ان کو شکار کے لیے سدھایا گیا ہو۔سدھانے کا مطلب ہے،جب اسے شکار پر چھوڑا جائے تو دوڑتا ہوا جائے،جب روک دیا جائے تو رک جائے اور بلایا جائے تو واپس آجائے۔
ایسے سدھائے ہوئے جانوروں کا شکار کیا ہوا جانور دو شرطوں کے ساتھ حلال ہے۔ایک یہ کہ اسے شکار کے لیے چھوڑتے وقت بسم اللہ پڑھ لی گئی ہو۔دوسری یہ کہ شکاری جانور شکار کرکے اپنے مالک کے لیے رکھ چھوڑے اور اسی کا انتظار کرے،خود نہ کھائے۔حتیٰ کہ اگر اس نے مار بھی ڈالا ہو،تب بھی مقتول شکار شدہ جانور حلال ہوگا،بشرطیکہ اس کے شکار میں سدھائے اور چھوڑے ہوئے جانور کے علاوہ کسی اور جانور نے شرکت نہ کی ہو۔[صحیح البخاري،کتاب الذبائح (۵۴۸۳) صحیح مسلم،کتاب الصید (۱/ ۱۹۲۹)]
.اَلْیَوْمَ اُحِلَّ لَکُمُ الطَّیِّبٰتُ وَ طَعَامُ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ حِلٌّ لَّکُمْ وَ طَعَامُکُمْ حِلٌّ لَّھُمْ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الْمُؤْمِنٰتِ وَ الْمُحْصَنٰتُ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ اِذَآ اٰتَیْتُمُوْھُنَّ اُجُوْرَھُنَّ مُحْصِنِیْنَ غَیْرَ مُسٰفِحِیْنَ وَ لَا مُتَّخِذِیْٓ اَخْدَانٍ وَ مَنْ یَّکْفُرْ بِالْاِیْمَانِ فَقَدْ حَبِطَ عَمَلُہٗ وَ ھُوَ فِی الْاٰخِرَۃِ مِنَ الْخٰسِرِیْنَ .[سورۃ المائدہ (آیت:۵)]
’’آج تمھارے لیے سب پاکیزہ چیزیں حلال کر دی گئیں اور اہلِ کتاب کا کھانا بھی تمھارے لیے حلال ہے اور تمھارا کھانا اُن کو حلال ہے،اور پاک دامن مومن عورتیں اور پاک دامن اہلِ کتاب عورتیں بھی (حلال ہیں ) جب کہ اُن کا مہر دے دو اور اُن سے عفت قائم رکھنی مقصود ہو نہ کھلی بدکاری کرنی اور نہ چھپی دوستی کرنی ہو گیا اور جو شخص ایمان سے منکر ہو اس کے عمل ضائع ہو گئے اور وہ آخرت میں نقصان پانے والوں میں سے ہو گا۔‘‘
اہلِ کتاب کی عورتوں کے ساتھ نکاح کی اجازت کے ساتھ ایک تو پاک دامنی کی قید ہے،جو آج کل اکثر اہلِ کتاب کی عورتوں میں مفقود ہے۔ دوسرے اس کے بعد فرمایا گیا کہ جو ایمان کے ساتھ کفر کرے،اس کے عمل برباد ہوگئے،اس سے یہ تنبیہ مقصود ہے کہ اگر ایسی عورت سے نکاح کرنے میں ایمان کے ضیاع کا اندیشہ ہو تو بہت ہی خسارے کا سودا ہوگا اور آج کل اہلِ کتاب کی عورتوں سے نکاح میں ایمان کوجو شدید خطرات لاحق ہوتے ہیں،محتاجِ وضاحت نہیں۔درآں حالیکہ ایمان کو بچانا فرض ہے۔ایک جائز کام کے لیے فرض کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا۔اس لیے اس کا جواز بھی اس وقت تک ناقابلِ عمل رہے گا،جب تک دونوں مذکورہ چیزیں مفقود نہ ہو جائیں۔- اہل کتاب، مسیحت میں توحید پرست ( Unitarian Christians) ہمیشہ رہے ہیں آج کل تیزی سے پھیل رہے ہیں جو تثلیث (Trinity) پر ایمان نہیں رکھتے مسیح کو انسان[498] سمجھتے ہیں[499]-
سورۃ البقرۃ (آیت:۲۲۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَجْعَلُوا اللّٰہَ عُرْضَۃً لِّاَیْمَانِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْا وَ تَتَّقُوْا وَ تُصْلِحُوْا بَیْنَ النَّاسِ وَ اللّٰہُ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ.
’’اور اللہ (کے نام) کو اس بات کا حیلہ نہ بنانا کہ (اُس کی) قسمیں کھا کھا کر بھلائی کرنے اور پرہیزگاری کرنے اور لوگوں میں صلح و سازگاری کرانے سے رک جاؤ اور اللہ تعالیٰ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے۔‘‘
غصے میں اس طرح کی قسم مت کھائو کہ فلاں کے ساتھ نیکی نہیں کروں گا،فلاں سے نہیں بولوں گا،فلاں فلاں کے درمیان صلح نہیں کرائوں گا۔اس طرح کی قسموں کے لیے حدیث میں کہا گیا ہے کہ اگر قسم کھا لو تو انھیں توڑ دو اور قسم کا کفارہ ادا کرو۔
قسم کا کفارہ سورۃ المائدہ (آیت:۸۹) میں آیا ہے۔ارشادِ الٰہی ہے:
.لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ وَ احْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.
’’اللہ تمھاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہ کرے گا،لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا تو اُس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا اُن کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو یہ میسر نہ ہو،وہ تین روزے رکھے۔یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے،جب تم قسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور (تم کو) چاہیے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔اس طرح اللہ تمھارے (سمجھانے کے) لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے،تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
قَسم کی اقسام:
قَسمیں تین قسم کی ہیں:
(۱)لَغْو، (۲)غَمُوْس، (۳)مُعَقَّدۃ۔
سورۃ النحل (آیت:۹۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًا اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ.
’’اور جب اللہ سے پختہ عہد کرو تو اُس کو پورا کرو اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو اُن کو مت توڑو کہ تم اللہ کو اپنا ضامن مقرر کر چکے ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو،اللہ اُس کو جانتا ہے۔‘‘
سورۃ النحل (آیت:۹۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَتَّخِذُوْٓا اَیْمَانَکُمْ دَخَلًام بَیْنَکُمْ فَتَزِلَّ قَدَمٌم بَعْدَ ثُبُوْتِھَا وَ تَذُوْقُوا السُّوْٓئَ بِمَا صَدَدْتُّمْ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ لَکُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ.
’’اور اپنی قسموں کو آپس میں دغابازی کا بہانہ نہ بناؤ کہ ( تم لوگوں کے) قدم جم چکنے کے بعد لڑکھڑا جائیں اور اس وجہ سے کہ تم نے لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکا،تم کو عقوبت کا مزہ چکھنا پڑے اور بڑا سخت عذاب ملے۔‘‘
مسلمانوں کو عہد شکنی سے روکا جا رہا ہے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ تمھاری اس اخلاقی پستی سے کسی کے قدم ڈگمگا جائیں اور کافر تمھارا یہ رویہ دیکھ کر قبولِ اسلام سے رک جائیں اور یوں تم لوگوں کو اللہ کے راستے سے روکنے کے مجرم اور سزا کے مستحق بن جائو۔بعض مفسرین نے قسموں سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت مراد لی ہے۔یعنی نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی بیعت توڑ کر پھر مرتد ہو جانا۔تمھارے ارادوں کو دیکھ کر دوسرے لوگ بھی اسلام قبول کرنے سے رک جائیں گے اور یوں تم دگنے عذاب کے مستحق قرار پاؤگے۔[500]
سورۃ المائدہ (آیت:۸۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.لَا یُؤَاخِذُکُمُ اللّٰہُ بِاللَّغْوِ فِیْٓ اَیْمَانِکُمْ وَ لٰکِنْ یُّؤَاخِذُکُمْ بِمَا عَقَّدْتُّمُ الْاَیْمَانَ فَکَفَّارَتُہٗٓ اِطْعَامُ عَشَرَۃِ مَسٰکِیْنَ مِنْ اَوْسَطِ مَا تُطْعِمُوْنَ اَھْلِیْکُمْ اَوْکِسْوَتُھُمْ اَوْ تَحْرِیْرُ رَقَبَۃٍ فَمَنْ لَّمْ یَجِدْ فَصِیَامُ ثَلٰثَۃِ اَیَّامٍ ذٰلِکَ کَفَّارَۃُ اَیْمَانِکُمْ اِذَا حَلَفْتُمْ وَ احْفَظُوْٓا اَیْمَانَکُمْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ لَعَلَّکُمْ تَشْکُرُوْنَ.
’’اللہ تمھاری بے ارادہ قسموں پر تم سے مواخذہ نہ کرے گا،لیکن پختہ قسموں پر (جن کے خلاف کرو گے) مواخذہ کرے گا تو اُس کا کفارہ دس محتاجوں کو اوسط درجے کا کھانا کھلانا ہے،جو تم اپنے اہل و عیال کو کھلاتے ہو یا اُن کو کپڑے دینا یا ایک غلام آزاد کرنا اور جس کو یہ میسر نہ ہو وہ تین روزے رکھے۔یہ تمھاری قسموں کا کفارہ ہے جب تم قسم کھا لو (اور اسے توڑ دو) اور (تم کو) چاہیے کہ اپنی قسموں کی حفاظت کرو۔اس طرح اللہ تمھارے (سمجھانے کے) لیے اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے،تاکہ تم شکر کرو۔‘‘
قسمیں تین قسم کی ہیں:1لَغوْ 2غَمُوْس،3 مُعَقَّدۃ۔
1۔’’لَغو‘‘ وہ قسم ہے جو انسان بات بات میں عادتاً بغیر ارادے اور نیت کے کہتا رہتا ہے۔اس پر کوئی مواخذہ نہیں۔
2۔’’غموسٌ‘‘ وہ جھوٹی قسم ہے جو انسان دھوکا اور فریب دینے کے لیے کھائے۔یہ کبیرہ گناہ بلکہ اکبر الکبائر ہے،لیکن اس پر کفارہ نہیں۔
3۔’’مُعَقَّدَۃٌ‘‘ وہ قسم ہے جو انسان اپنی بات میں تاکید اور پختگی کے لیے ارادتاً کھائے،ایسی قسم اگر توڑے گا تو اس کا وہ کفارہ ہے،جیسا کہ آیت میں بیان کیا گیا ہے۔
کفارے کی مقدار میں کوئی صحیح روایت نہیں،اس لیے اس میں اختلاف ہے۔البتہ امام شافعی نے اس حدیث سے استدلال کرتے ہوئے،جس میں رمضان میں روزے کی حالت میں بیوی سے ہمبستری کرنے والے کے کفارہ کا ذکر ہے،ایک مد(تقریباً ۱۰ چھٹانک) فی مسکین خوراک قرار دی ہے،کیونکہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک شخص کو کفارہ جماع ادا کرنے کے لیے ۱۵ صاع کھجوریں دی تھیں،جنھیں ساٹھ مسکینوں میں تقسیم کرنا تھا،ایک صاع میں ۴ مد ہوتے ہیں،اس اعتبار سے بغیر سالن کے دس مسکینوں کے لیے دس مد (سوا چھے سیر یا چھے کلو) خوراک کفارہ ہوگی۔[تفسیر ابن کثیر اردو (۲/ ۸) طبع مکتبہ قدوسیہ لاھور]
لباس کے بارے میں اختلاف ہے۔بہ ظاہر مراد جوڑا ہے،جس میں انسان نماز پڑھ سکے۔بعض علما خوراک اور لباس دونوں کے لیے عرف کو معتبر قرار دیتے ہیں۔[مختصر تفسیر ابن کثیر للرفاعي (۱/ ۵۵۹)]
بعض علما قتلِ خطا کی دیت پر قیاس کرتے ہوئے لونڈی،غلام کے لیے ایمان کی شرط عائد کرتے ہیں۔امام شوکانی کہتے ہیں کہ آیت میں عموم ہے،جو مومن اور کافر دونوں کو شامل ہے۔
جس کو مذکورہ تینوں چیزوں میں سے کسی کی طاقت نہ ہو تو وہ تین روزے رکھے،یہ روزے اس کی قسم کا کفارہ ہو جائیں گے۔بعض علما پے در پے روزے رکھنے کے قائل ہیں۔
.وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ احْذَرُوْا فَاِنْ تَوَلَّیْتُمْ فَاعْلَمُوْٓا اَنَّمَا عَلٰی رَسُوْلِنَا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ.[سورۃ المائدۃ (آیت:۹۲)]
’’اور اللہ کی فرماں برداری اور رسول کی فرماں برداری کرتے رہو اورڈرتے رہو،اگر منہ پھیرو گے تو جان رکھو کہ ہمارے پیغمبر کے ذمے تو صرف پیغام کا کھول کر پہنچا دینا ہے۔‘‘
.لَیْسَ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ جُنَاحٌ فِیْمَا طَعِمُوْٓا اِذَا مَا اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اٰمَنُوْا ثُمَّ اتَّقَوْا وَّ اَحْسَنُوْا وَ اللّٰہُ یُحِبُّ الْمُحْسِنِیْنَ.[سورۃ المائدہ (آیت ۹۳)]
’’جو لوگ ایمان لائے اور نیک کام کرتے رہے،ان پر ان چیزوں کا کچھ گناہ نہیں جو وہ کھا چکے،جب کہ انھوں نے پرہیز کیا اور ایمان لائے اور نیک کام کیے،پھر پرہیز کیا اور ایمان لائے،پھر پرہیز کیا اور نیکو کاری کی اور اللہ تعالیٰ نیکوکاروں کو دوست رکھتا ہے۔‘‘
.اُحِلَّ لَکُمْ صَیْدُ الْبَحْرِ وَ طَعَامُہٗ مَتَاعًا لَّکُمْ وَ لِلسَّیَّارَۃِ وَ حُرِّمَ عَلَیْکُمْ صَیْدُ الْبَرِّ مَا دُمْتُمْ حُرُمًا وَ اتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ.[سورۃ المائدہ (آیت:۹۶)]
’’تمھارے لیے دریا (کی چیزوں ) کا شکار اور ان کا کھانا حلال کر دیا گیا ہے،(یعنی) تمھارے اور مسافروں کے فائدے کے لیے اور جنگل (کی چیزوں ) کا شکار اور جب تک تم احرام کی حالت میں رہو تم پر خشکی کا شکار حرام ہے اور اللہ سے،جس کے پاس تم (سب) جمع کیے جاؤ گے،ڈرتے رہو۔‘‘
.صَیْدٌ.زندہ جانور اور.طَعَامُہٗ.سے مراد وہ مردہ(مچھلی وغیرہ) ہے جسے سمندر یا دریا باہر پھینک دے یا پانی کے اوپر آجائے،جس طرح حدیث میں وضاحت ہے کہ سمندر کا مردار حلال ہے۔[سنن أبي داود (۸۳) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۶۹)]
.قُلْ لَّا یَسْتَوِی الْخَبِیْثُ وَ الطَّیِّبُ وَ لَوْ اَعْجَبَکَ کَثْرَۃُ الْخَبِیْثِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ یٰٓاُولِی الْاَلْبَابِ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ.[سورۃ المائدہ (آیت:۱۰۰)]
’’کہہ دو کہ ناپاک چیزیں اور پاک چیزیں برابر نہیں ہوتیں،گو ناپاک چیزوں کی کثرت تمھیں خوش ہی لگے تو عقل والو! اللہ سے ڈرتے رہو تاکہ کامیاب ہو جاؤ۔‘‘
.خَبِیْثٌ.(ناپاک) سے مراد حرام یا کافر یا گناہ گار یا ردی۔ .طَیِّبُ. (پاک) سے مراد حلال یا مومن یا فرماں بردار اور عمدہ چیز ہے یا یہ سارے ہی مراد ہو سکتے ہیں۔ مطلب یہ ہے کہ جس چیز میں خبث (ناپاکی) ہوگی،وہ کفر ہو،فسق و فجور ہو،اشیا و اقوال ہوں،کثرت کے باوجود وہ ان چیزوں کا مقابلہ نہیں کر سکتے جن میں پاکیزگی ہو۔یہ دونوں کسی صورت میں برابر نہیں ہو سکتے۔اس لیے پلیدی کی وجہ سے اس چیز کی قیمت اور برکت ختم ہو جاتی ہے،جب کہ جس چیز میں پاکیزگی ہوگی،اس سے اس کی قیمت اور برکت میں اضافہ ہوگا۔
سورۃ الحجرات (آیت:۱۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اِنَّا خَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ اللّٰہِ اَتْقٰکُمْ اِنَّ اللّٰہَ عَلِیْمٌ خَبِیْرٌ.
’’لوگو! ہم نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا ہے اور تمھاری قومیں اور قبیلے بنائے،تاکہ ایک دوسرے کو شناخت کرو اور اللہ کے نزدیک تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے جو زیادہ پرہیزگار ہے،بے شک اللہ سب کچھ جاننے والا (اور) سب سے خبردار ہے۔‘‘
یعنی اللہ کے ہاں برتری کا معیار خاندان،قبیلہ اور نسل و نسب نہیں ہے،جو کسی انسان کے اختیار ہی میں نہیں ہے،بلکہ یہ معیار تقویٰ ہے،جس کا اختیار کرنا انسان کے ارادے و اختیار میں ہے۔یہی آیت اُن علما کی دلیل ہے جو نکاح میں کفاء تِ نسب کو ضروری نہیں سمجھتے اور صرف دین کی بنیاد پر نکاح کو پسند کرتے ہیں۔ایسے ہی نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا حضرت زینب بنت جحش رضی اللہ عنہا کا حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ سے نکاح کرنا بھی اُن علما کی دلیل ہے۔
سورت حم السجدہ (آیت:۳۴،۳۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ . وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا الَّذِیْنَ صَبَرُوْا وَمَا یُلَقّٰھَآ اِلَّا ذُوْ حَظٍّ عَظِیْمٍ.
’’اور بھلائی اور بُرائی برابر نہیں ہوسکتی تو (سخت کلامی کا) ایسے طریق سے جواب دو جو بہت اچھا ہو (ایسا کرنے سے تم دیکھو گے) کہ جس میں اور تم میں دشمنی تھی،گویا وہ تمھارا گرم جوش دوست ہے۔اور یہ بات انہی لوگوں کو حاصل ہوتی ہے جو برداشت کرنے والے ہیں اور انہی کو نصیب ہوتی ہے جو بڑے صاحبِ نصیب ہیں۔‘‘
یہ ایک بہت ہی اہم اخلاقی ہدایت ہے کہ برائی کو اچھائی کے ساتھ ٹالو،یعنی برائی کا بدلہ احسان کے ساتھ،زیادتی کا بدلہ عفو و درگزر کے ساتھ،غضب کا صبر کے ساتھ،بے ہودگیوں کا جواب چشم پوشی کے ساتھ اور مکروہات (ناپسندیدہ باتوں ) کا جواب برداشت اور حلم کے ساتھ دیا جائے۔اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمھارا دشمن دوست بن جائے گا،دور دور رہنے والا قریب ہوجائے گا اور خون کا پیاسا،تمھارا گرویدہ اور جانثار ہوجائے گا۔
سورت بنی اسرائیل (آیت:۵۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ قَلْ لِّعِبَادِیْ یَقُوْلُوا الَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ الشَّیْطٰنَ یَنْزَغُ بَیْنَھُمْ اِنَّ الشَّیْطٰنَ کَانَ لِلْاِنْسَانِ عَدُوًّا مُّبِیْنًا.
’’اور میرے بندوں سے کہہ دو کہ (لوگوں سے) ایسی باتیں کہا کریں جو بہت پسندیدہ ہوں،کیونکہ شیطان (بری باتوں سے) اُن میں فساد ڈلوا دیتا ہے،کچھ شک نہیں کہ شیطان انسان کا کھلا دشمن ہے۔‘‘
زبان کی ذرہ سی بے اعتدالی سے شیطان،جو تمھارا کھلا دشمن ہے،تمھارے درمیان آپس میں فساد ڈلوا سکتا ہے،یا کفار یا مشرکین کے دلوں میں تمھارے لیے زیادہ بغض و عناد پیدا کر سکتا ہے۔
.وَ اِذَا جَآئَ کَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاٰیٰتِنَا فَقُلْ سَلٰمٌ عَلَیْکُمْ کَتَبَ رَبُّکُمْ عَلٰی نَفْسِہِ الرَّحْمَۃَ اَنَّہٗ مَنْ عَمِلَ مِنْکُمْ سُوْٓئًم بِجَھَالَۃٍ ثُمَّ تَابَ مِنْم بَعْدِہٖ وَ اَصْلَحَ فَاَنَّہٗ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.ْ ]ٍٍْ[سورۃ الانعام (آیت:۵۴]
’’اور جب تمھارے پاس ایسے لوگ آیا کریں جو ہماری آیتوں پر ایمان لاتے ہیں تو (اُن سے) ’’سلام علیکم‘‘ کہا کرو اللہ نے اپنی ذات پر رحمت کو لازم کر لیا ہے کہ جو کوئی تم میں سے نادانی سے کوئی بُری حرکت کر بیٹھے،پھر اس کے بعد توبہ کر لے اور نیکوکار ہو جائے تو وہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
سورۃ الکہف (آیت:۲۳،۲۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: .وَ لَا تَقُوْلَنَّ لِشَایْئٍ اِنِّیْ فَاعِلٌ ذٰلِکَ غَدًا . اِلَّآ اَنْ یَّشَآئَ اللّٰہُ وَ اذْکُرْ رَّبَّکَ اِذَا نَسِیْتَ وَ قُلْ عَسٰٓی اَنْ یَّھْدِیَنِ رَبِّیْ لِاَقْرَبَ مِنْ ھٰذَا رَشَدًا .
’’اور کسی کام کی نسبت نہ کہنا کہ میں اسے کل کر دوں گا،مگر (ان شاء اللہ کہہ کر یعنی اگر) اللہ چاہے تو (کر دوں گا) اور جب اللہ کا نام لینا بھول جاؤ تو یاد آنے پر لے لو اور کہہ دو کہ اُمید ہے کہ میرا رب مجھے اس سے بھی زیادہ ہدایت کی باتیں بتائے گا۔‘‘
جب بھی مستقبل قریب یا بعید میں کوئی کام کرنے کا عزم کرو تو اِن شاء اللہ ضرور کہا کرو،کیونکہ انسان کو تو پتا نہیں کہ جس بات کا عزم کر رہا ہے،اس کی توفیق بھی اسے اللہ کی مشیت سے ملتی ہے یا نہیں ؟
سورۃ المجادلہ (آیت:۱۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا قِیْلَ لَکُمْ تَفَسَّحُوْا فِی الْمَجٰلِسِ فَافْسَحُوْا یَفْسَحِ اللّٰہُ لَکُمْ وَاِذَا قِیْلَ انْشُزُوْا فَانْشُزُوْا یَرْفَعِ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَالَّذِیْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ دَرَجٰتٍ وَاللّٰہُ بِمَا تَعْمَلُوْنَ خَبِیْرٌ.
’’مومنو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کھل کر بیٹھو تو کھل کر بیٹھا کرو،اللہ تم کو کشادگی بخشے گا اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ کھڑے ہوا کرو،جو لوگ تم میں سے ایمان لائے ہیں اور جن کو علم عطا کیا گیا ہے،اللہ ان کے درجے بلند کرے گا اور اللہ تمھارے سب کاموں سے واقف ہے۔‘‘
اس میں مسلمانوں کو مجلس کے آداب بتائے جارہے ہیں۔مجلس کا لفظ عام ہے،جو ہر اس مجلس کو شامل ہے،جس میں مسلمان خیر اور اجر کے حصول کے لیے جمع ہوں،وعظ و نصیحت کی مجلس ہو یا جمعہ کی مجلس ہو۔’’کھل کر بیٹھو‘‘ کا مطلب ہے کہ مجلس کا دائرہ وسیع رکھو، تاکہ بعد میں آنے والوں کے لیے بیٹھنے کی جگہ رہے۔دائرہ تنگ مت رکھو کہ بعد میں آنے والے کو کھڑا رہنا پڑے یاکسی بیٹھے ہوئے کو اٹھا کر اس کی جگہ وہ بیٹھے کہ یہ دونوں باتیں ناشایستہ ہیں۔چنانچہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی فرمایا ہے:
’’کوئی شخص کسی دوسرے شخص کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود نہ بیٹھے،اس لیے مجلس کے دائرے کو فراخ اور وسیع رکھو۔‘‘[501]
اس کے صلے میں اللہ تعالیٰ تمھیں جنت میں وسعت عطا فرمائے گا یا جہاں بھی تم وسعت و فراخی کے طالب ہوگے،مثلاً مکان میں،رزق میں،قبر میں،ہرجگہ تمھیں فراخی عطا فرمائے گا۔
جب جہاد کے لیے،نماز کے لیے یا کسی بھی عملِ خیر کے لیے مجلس سے اٹھ کر جانے کو کہا جائے تو فوراً چلے جائو۔مسلمانوں کو یہ حکم اس لیے دیا گیا کہ صحابۂ کرام رضی اللہ عنہم نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس سے اٹھ کر جانا پسند نہیں کرتے تھے،لیکن اس طرح بعض دفعہ ان لوگوں کو تکلیف ہوتی تھی جو نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے خلوت میں کوئی گفتگو کرنا چاہتے تھے۔
.وَ اِذَا رَاَیْتَ الَّذِیْنَ یَخُوْضُوْنَ فِیْٓ اٰیٰتِنَا فَاَعْرِضْ عَنْھُمْ حَتّٰی یَخُوْضُوْا فِیْ حَدِیْثٍ غَیْرِہٖ وَ اِمَّا یُنْسِیَنَّکَ الشَّیْطٰنُ فَلَا تَقْعُدْ بَعْدَ الذِّکْرٰی مَعَ الْقَوْمِ الظّٰلِمِیْنَ. [سورۃ الانعام (آیت:۶۸)]
’’اور جب تم ایسے لوگوں کو دیکھو جو ہماری آیتوں کے بارے میں بیہودہ بکواس کر رہے ہوں تو اُن سے الگ ہو جاؤ،یہاں تک کہ اور باتوں میں مصروف ہو جائیں اور اگر (یہ بات) شیطان تمھیں بھلا دے تو یاد آنے پر ظالم لوگوں کے ساتھ نہ بیٹھو۔‘‘
آیت میں خطاب اگرچہ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے ہے،لیکن مخاطب امتِ مسلمہ کا ہر فرد ہے۔یہ اللہ تعالیٰ کا ایک تاکیدی حکم ہے جسے قرآن مجید میں متعدد جگہ بیان کیا گیا ہے۔سورۃ النساء (آیت:۱۴۰) میں بھی یہ مضمون ہے۔اس سے ہر وہ مجلس مراد ہے جہاں اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کا مذاق اڑایا جا رہا ہو یا اہلِ بدعت اپنی تاویلات سے آیاتِ الٰہی کو توڑ مروڑ رہے ہوں۔
سورۃ الحجرات (آیت:۱۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ یَسْخَرْ قَوْمٌ مِّنْ قَوْمٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُوْنُوْا خَیْرًا مِّنْھُمْ وَلاَ نِسَآئٌ مِّنْ نِّسَآئٍ عَسٰٓی اَنْ یَّکُنَّ خَیْرًا مِّنْھُنَّ وَلاَ تَلْمِزُوٓا اَنْفُسَکُمْ وَلاَ تَنَابَزُوْا بِالْاَلْقَابِ بِئْسَ الْاِسْمُ الْفُسُوْقُ بَعْدَ الْاِیْمَانِ وَمَنْ لَّمْ یَتُبْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ.
’’اے مومنو! کوئی قوم کسی قوم سے تمسخر نہ کرے،ممکن ہے کہ وہ لوگ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں سے (تمسخر کریں ) ممکن ہے کہ وہ ان سے اچھی ہوں اور اپنے (مومن بھائی) کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کا بُرا نام رکھو،ایمان لانے کے بعد بُرا نام (رکھنا) گناہ ہے اور جو توبہ نہ کریں وہ ظالم ہیں۔‘‘
ایک شخص دوسرے کسی شخص کا استہزا یعنی اس سے مسخرا پن اسی وقت کرتا ہے،جب وہ اپنے آپ کو اس سے بہتر اور اس کو اپنے سے حقیر اور کمتر سمجھتا ہے۔حالانکہ اللہ کے ہاں ایمان و عمل کے لحاظ سے کون بہتر ہے اور کون نہیں ؟ اس کا علم صرف اللہ کو ہے۔اس لیے اپنے کو بہتر اور دوسرے کو کم تر سمجھنے کا کوئی جواز ہی نہیں ہے۔بنا بریں آیت میں اس سے منع فرما دیا گیا ہے اور کہتے ہیں کہ عورتوں میں یہ اخلاقی بیماری زیادہ ہوتی ہے،اس لیے عورتوں کا الگ ذکر کرکے انھیں بھی بطورِ خاص اس سے روک دیا گیا ہے۔ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے فرمان میں لوگوں کو حقیر سمجھنے کو تکبر سے تعبیرکیا گیا ہے:
(( اَلْکِبَرْ بَطَرُ الْحَقِّ وَغَمْطُ النَّاسِ )[502]
ایک دوسرے پر طعنہ زنی مت کرو،مثلاً تو فلاں کا بیٹا ہے،تیری ماں ایسی ویسی ہے تو فلاں خاندان کا ہے نا وغیرہ۔اپنے طور پر استہزا اور تحقیر کے لیے لوگوں کے ایسے نام رکھ لینا جو انھیں ناپسند ہوں یا اچھے بھلے ناموں کو بگاڑ کر بولنا،یہ تنابز بالالقاب ہے،جس کی یہاں ممانعت کی گئی ہے۔
سورۃ الحجرات (آیت:۱۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اجْتَنِبُوْا کَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ اِنَّ بَعْضَ الظَّنِّ اِثْمٌ وَّلاَ تَجَسَّسُوْا وَلَا یَغْتَبْ بَّعْضُکُمْ بَعْضًا اَیُحِبُّ اَحَدُکُمْ اَنْ یَّاْکُلَ لَحْمَ اَخِیْہِ مَیْتًا فَکَرِھْتُمُوْہُ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ تَوَّابٌ رَّحِیْمٌ.
’’اے اہلِ ایمان! بہت گمان کرنے سے احتراز کرو کہ بعض گمان گناہ ہیں اور ایک دوسرے کے حال کا تجسس نہ کیا کرو اور نہ کوئی کسی کی غیبت کرے کیا تم میں سے کوئی اس بات کو پسند کرے گا کہ اپنے مرے ہوئے بھائی کا گوشت کھائے،اس سے تو تم ضرور نفرت کرو گے (تو غیبت نہ کرو) اور اللہ کا ڈر رکھو،بے شک اللہ توبہ قبول کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
اس آیت کا معنیٰ ہے اہلِ خیر و اہلِ اصلاح و تقویٰ کے بارے میں ایسے گمان رکھنا جو بے اصل ہوں اور تہمت و افترا کے ضمن میں آتے ہوں،اسی لیے اس کا ترجمہ بدگمانی کیا جاتا ہے اور اس کو ’’أَکْذَبُ الْحَدِیث‘‘ (سب سے بڑا جھوٹ) کہہ کر اس سے بچنے کی تاکید کی گئی ہے۔[503]
کسی کی ٹوہ میں رہنا کہ کوئی خامی یا عیب معلوم ہو جائے،تاکہ اسے بدنام کیا جائے،یہ تجسس ہے جو منع ہے اور حدیث میں بھی اس سے منع کیا گیا ہے،بلکہ حکم دیا گیا ہے کہ اگر کسی کی خامی،کوتاہی کسی کے علم میں آجائے تو اس کی پردہ پوشی کرو،نہ کہ اسے لوگوں کے سامنے بیان کرتے پھرو۔
غیبت کا مطلب یہ ہے کہ دوسرے لوگوں کے سامنے کسی کی برائیوں اور کوتاہیوں کا ذکر کیا جائے،جسے وہ برا سمجھے اور اگر اس کی طرف ایسی باتیں منسوب کی جائیں جو اس کے اندر موجود ہی نہیں ہیں تو وہ بہتان ہے۔اپنی اپنی جگہ دونوں ہی بڑے جرم ہیں،لیکن بہتان زیادہ بڑا ہے۔
کسی مسلمان بھائی کی کسی کے سامنے برائی بیان کرنا،ایسے ہی ہے جیسے مردار بھائی کا گوشت کھانا تو کوئی پسند نہیں کرتا،لیکن غیبت لوگوں کی نہایت مرغوب غذا ہے۔[ سورہ الحجرات خلاصہ[504]]
سورۃ النّجم (آیت:۳۲) میں فرمایا:
.اَلَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ اِلَّا اللَّمَمَ اِنَّ رَبَّکَ وَاسِعُ الْمَغْفِرَۃِ ھُوَ اَعْلَمُ بِکُمْ اِذْ اَنْشَاَکُمْ مِّنَ الْاَرْضِ وَاِذْ اَنْتُمْ اَجِنَّۃٌ فِیْ بُطُوْنِ اُمَّھٰتِکُمْ.
’’جو صغیرہ گناہوں کے سوا بڑے بڑے گناہوں ا ور بے حیائی کی باتوں سے اجتناب کرتے ہیں،بے شک تمھارا پروردگار بڑی بخشش والا ہے،وہ تمھیں خوب جانتا ہے،جب اس نے تم کو مٹی سے پیدا کیا اور جب تم اپنی ماؤں کے پیٹ میں بچے تھے۔‘‘
’’کَبَائِر‘‘ کَبِیرَۃٌ کی جمع ہے۔کبیرہ گناہ کی تعریف میں اختلاف ہے۔زیادہ اہلِ علم کے نزدیک ہر وہ گناہ کبیرہ ہے،جس میں جہنم کی وعید ہے یا جس کے مرتکب کی سخت مذمت قرآن و حدیث میں مذکور ہے۔اہلِ علم یہ بھی کہتے ہیں کہ چھوٹے گناہ پر اصرار و دوام بھی اسے کبیرہ گناہ بنا دیتا ہے۔علاوہ ازیں اس کے معنیٰ اور ماہیت کی تحقیق میں اختلاف کی طرح،اس کی تعداد میں بھی بہت اختلاف ہے۔
’’فَوَاحِشُ‘‘ فَاحِشَۃٌ کی جمع ہے۔ بے حیائی پر مبنی کام،جیسے زنا،لواطت وغیرہ۔بعض کہتے ہیں جن گناہوں میں حد ہے،وہ سب فواحش میں داخل ہیں۔آج کل بے حیائی کے مظاہر چونکہ بہت عام ہوگئے ہیں،اس لیے بے حیائی کو ’’تہذیب‘‘ سمجھ لیا گیا ہے جن کی بابت یہاں بتلایا جارہا ہے کہ جن لوگوں کی مغفرت ہونی ہے،وہ کبائر و فواحش سے اجتناب کرنے والے ہوں گے نہ کہ ان میں مبتلا۔ ’’لمم‘‘ کا مطلب ہے کسی بڑے گناہ کے ا ٓغاز کا ارتکاب،لیکن بڑے گناہ سے پرہیز کرنا یا کسی گناہ کا ایک دو مرتبہ کرنا پھر ہمیشہ کے لیے اسے چھوڑ دینا،یا کسی گناہ کا محض دل میں خیال کرنا،لیکن عملاً اس کے قریب نہ جانا،یہ سارے صغیرہ گناہ ہوں گے،جو اللہ تعالیٰ بڑے گناہ سے پرہیز کی برکت سے معاف فرما دے گا۔
سورۃ النجم (آیت:۳۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: .فَلاَ تُزَکُّوْٓا اَنْفُسَکُمْ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنِ اتَّقٰی.
’’اپنے آپ کو پاک صاف نہ جتاؤ جو پرہیزگار ہے،وہ اس سے خوب واقف ہے۔‘‘
جب اللہ سے تمھاری کوئی کیفیت اور حرکت پوشیدہ نہیں،حتیٰ کہ جب تم ماں کے پیٹ میں تھے،جہاں تمھیں کوئی دیکھنے پر قادر نہ تھا،وہاں بھی تمھارے تمام احوال سے وہ واقف تھا،تو پھر اپنی پاکیزگی بیان کرنے کی اور اپنے منہ میاں مٹھو بننے کی کیا ضرورت ہے؟ مطلب یہ ہے کہ ایسا نہ کرو،تاکہ ریا کاری سے بچو۔
سورۃ الرحمن (آیت:۷ تا ۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَالسَّمَآئَ رَفَعَھَا وَوَضَعَ الْمِیْزَانَ . اَلَّا تَطْغَوْا فِی الْمِیْزَانِ . وَاَقِیْمُوا الْوَزْنَ بِالْقِسْطِ وَلاَ تُخْسِرُوا الْمِیْزَانَ.
’’اور اسی نے آسمان کو بلند کیا اور ترازو قائم کی۔کہ ترازو (سے تولنے) میں حد سے تجاوز نہ کرو۔اور انصاف کے ساتھ ٹھیک تولو اور تول کم مت کرو۔‘‘
سورۃ الحدید (آیت:۲۳،۲۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.لِکَیْلاَ تَاْسَوْا عَلٰی مَا فَاتَکُمْ وَلاَ تَفْرَحُوْا بِمَآ اٰتٰکُمْ وَاللّٰہُ لاَ یُحِبُّ کُلَّ مُخْتَالٍ فَخُوْرِنِ . الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَمَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ.
’’تاکہ جو (مطلب) تم سے فوت ہو گیا ہے،اس کا غم نہ کھایا کرو اور جو تم کو اس نے دیا ہو،اس پر اِترایا نہ کرو اور اللہ کسی اترانے اور شیخی بگھارنے والے کو دوست نہیں رکھتا۔ جو خود بھی بخل کریں اور لوگوں کو بھی بخل سکھائیں اور جو شخص روگردانی کرے تو اللہ بھی بے پروا (اور) سزاوارِ حمد (و ثنا) ہے۔‘‘
یہاں جس حزن اور فرح سے روکا گیا ہے،وہ غم اور خوشی ہے،جو انسان کو شرعی احکام و حدود سے تجاوز اور ناجائز کاموں تک پہنچا دیتی ہے،ورنہ تکلیف پر رنجیدہ اور راحت پر خوش ہونا،یہ ایک فطری عمل ہے،لیکن مومن تکلیف پر صبر کرتا ہے کہ اللہ کی مشیت اور تقدیر ہے،جزع فزع کرنے سے اس میں تبدیلی نہیں آسکتی اور راحت پر اِتراتا نہیں ہے،بلکہ اللہ کا شکر ادا کرتا ہے کہ یہ صرف اس کی اپنی سعی کا نتیجہ نہیں ہے،بلکہ اللہ کا فضل و کرم اور اس کا احسان ہے۔[1]
سورۃ المجادلہ (آیت:۹،۱۰) میں فرمایا:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِذَا تَنَاجَیْتُمْ فَلاَ تَتَنَاجَوْا بِالْاِثْمِ وَالْعُدْوَانِ وَمَعْصِیَتِ الرَّسُوْلِ وَتَنَاجَوْا بِالْبِرِّ وَالتَّقْوٰی وَاتَّقُوا اللّٰہَ الَّذِیْٓ اِلَیْہِ تُحْشَرُوْنَ . اِنَّمَا النَّجْوٰی مِنَ الشَّیْطٰنِ لِیَحْزُنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَلَیْسَ بِضَآرِّھِمْ شَیْئًا اِلَّا بِاِذْنِ اللّٰہِ وَعَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ.
’’مومنو! جب تم آپس میں سرگوشیاں کرنے لگو تو گناہ اور زیادتی اور پیغمبر کی نافرمانی کی باتیں نہ کرنا،بلکہ نیکوکاری اور پرہیزگاری کی باتیں کرنا اور اللہ سے جس کے سامنے جمع کیے جاؤ گے ڈرتے رہنا۔(کافروں کی) سرگوشیاں تو شیطان (کی حرکات) سے ہیں (جو) اس لیے (کی جاتی ہیں ) کہ مومن (ان سے) غمناک ہوں،مگر اللہ کے حکم کے سوا ان سے انھیں کچھ نقصان نہیں پہنچ سکتا تو مومنوں کو چاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسا رکھیں۔‘‘
یہ سرگوشیاں اور شیطانی حرکتیں مومنوں کو کچھ نقصان نہیں پہنچا سکتیں،الا یہ کہ اللہ کی مشیت ہو،اس لیے تم اپنے دشمنوں کی ان اوچھی حرکتوں سے پریشان نہ ہوا کرو،بلکہ اللہ پر بھروسا رکھو،کیوں کہ تمام معاملات کا اختیار اسی کے ہاتھ میں ہے اور وہی ہر چیز پر قادر ہے،نہ کہ یہود اور منافقین،جو تمھیں برباد و تباہ کرنا چاہتے ہیں۔سرگوشی ہی کے سلسلے میں مسلمانوں کو ایک اخلاقی ہدایت یہ دی گئی ہے کہ جب تم تین آدمی اکٹھے ہو تو اپنے میں سے ایک کو چھوڑ کر دو آدمی آپس میں سرگوشی نہ کریں،کیوں کہ یہ طریقہ اس ایک آدمی کو غم میں ڈال دے گا۔[505]
البتہ اس کی رضا مندی اور اجازت سے ایسا کرنا جائز ہے،کیوں کہ اس صورت میں دو آدمیوں کا سرگوشی کرنا،کسی کے لیے تشویش کا باعث نہیں ہوگا۔
اس دور میں پرنٹ ، الیکٹرونک اور سوشل میڈیا (فیس بک، وہاٹس اپپس وغیرہ) ہر جگہ جھوٹ اور سچ مکس کرکہ دین، سیاست، معاشرہ غرض کہ ہر موضوع پر بے تحاشا غلط معلومات (disinformation) سے سابقہ پڑتا ہے- جھوٹ، بہتان، فساد پھلانا اسلام میں جرم اور گناہ ہیں- اس لیے تمام مسلمانوں کوتحقیق اور احتیاط کی ضرورت ہے قرآن اور صرف مستند احادیث (جو کہ منسوخ شدہ نہ ہوں بعد کی احادیث سے یا قرآن سے متضاد ہونے کی وجہ سے خودبخود منسوخ ہو جاتی ہیں، ملاحضہ کریں:" حدیث کی پہچان کے اصول") ریفرنس کے سآتھ شیرکریں- سوشل میڈیا پر فرضی ناموں سے سرگرم دین ، ملک دشمن عناصر اسلام دشمن طاقتوں کے ایجنٹ غلط معلومات (disinformation) پھیلانے میں ملوث ہیں۔ الله تعالی کا فرمان ہے :
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّـهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا (قرآن ;4:85)
جو بھلائی کی سفارش کریگا وہ اس میں سے حصہ پائے گا اور جو برائی کی سفارش کرے گا وہ اس میں سے حصہ پائے گا، اور اللہ ہر چیز پر نظر رکھنے والا ہے(قرآن[506] ;4:85)[507]
سورت لقمان (آیت:۶) میں فرمایا:
.وَ مِنَ النَّاسِ مَنْ یَّشْتَرِیْ لَھْوَ الْحَدِیْثِ لِیُضِلَّ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ بِغَیْرِ عِلْمٍ وَّ یَتَّخِذَھَا ھُزُوًا اُولٰٓئِکَ لَھُمْ عَذَابٌ مُّھِیْنٌ.
’’اور لوگوں میں کوئی ایسا ہے جو بے ہودہ حکایتیں ( لَھْوَ الْحَدِیْثِ ) خریدتا ہے،تاکہ (لوگوں کو) بے سمجھے اللہ کے راستے سے گمراہ کر ے اور اس سے ہنسی کرے،یہی لوگ ہیں،جن کو ذلت والا عذاب ہو گا۔‘‘
ان چیزوں سے یقینا انسان اللہ کے راستے سے گمراہ ہو جاتے ہیں اور دین کو مذاق کا نشانہ بھی بناتے ہیں-
بعض آدمی یعنی نضر بن حارث ان باتوں کا خریدار بنتا ہے یعنی جھوٹے قصے کہانیاں چاند و سورج کے واقعات اور انسانوں کی کتابیں اور گانے والی عورت وغیرہ یا یہ کہ شرک کا تاکہ اس کے ذریعے سے دین الہی اور اس کی پیروی سے دوسروں کو بغیر علم اور دلیل کے گمراہ کرے اور اس کا مذاق اڑائے ایسے لوگوں کے لیے سخت ترین عذاب ہے۔ شان نزول : وَمِنَ النَّاسِ مَنْ يَّشْتَرِيْ لَهْوَ الْحَدِيْثِ (الخ) ابن جریر نے عوفی کے ذریعے سے حضرت ابن عباس سے روایت نقل کی ہے کہ یہ آیت ایک قریشی شخص کے بارے میں نازل ہوئی ہے جس نے ایک گانے والی لونڈی خرید رکھی تھی۔ اور جبیر نے حضرت ابن عباس سے روایت کی ہے کہ یہ آیت نضر بن حارث کے بارے میں ہوئی ہے اس نے ایک گانے والی لونڈی خرید رکھی تھی اور جس شخص کے متعلق بھی یہ سنتا تھا کہ وہ اسلام لانا چاہتا ہے تو اسے پکڑ کر اس گانے والی لونڈی کے پاس لے جاتا تھا اور اس لونڈی سے کہتا تھا کہ اس کو خوب کھلا پلا اور گانا سنا اور کہتا کہ محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جو تمہیں نماز روزہ کی طرف بلاتے ہیں نعوذ باللہ یہ گانا اس سے بہتر ہے-[508]
۔سورت بنی اسرائیل (آیت:۶۴) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ اسْتَفْزِزْ مَنِ اسْتَطَعْتَ مِنْھُمْ بِصَوْتِکَ وَ اَجْلِبْ عَلَیْھِمْ بِخَیْلِکَ وَ رَجِلِکَ وَ شَارِکْھُمْ فِی الْاَمْوَالِ وَ الْاَوْلَادِ وَ عِدْھُمْ وَ مَا یَعِدُھُمُ الشَّیْطٰنُ اِلَّا غُرُوْرًا.
’’اور ان میں سے جس کو بہکا سکے اپنی آواز سے بہکاتا رہ اور ان پر اپنے سواروں اور پیادوں کو چڑھا کر لاتا رہ اور ان کے مال اور اولاد میں شریک ہوتا رہ اور ان سے وعدے کرتا رہ اور شیطان جو وعدے اُن سے کرتا ہے سب دھوکا ہے۔‘‘
آواز سے مراد پُرفریب دعوت یا گانے،موسیقی اور لہو و لعب کے دیگر آلات ہیں،جن کے ذریعے سے شیطان بہ کثرت لوگوں کو گمراہ کر رہا ہے۔
سورۃ النجم (آیت:۵۹ تا ۶۱) میں ارشادِ ربانی ہے:
.اَفَمِنْ ھٰذَا الْحَدِیْثِ تَعْجَبُوْنَ . وَتَضْحَکُوْنَ وَلاَ تَبْکُوْنَ . وَاَنْتُمْ سٰمِدُوْنَ.
’’(اے منکرین!) کیا تم اس کلام سے تعجب کرتے ہو؟ اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ؟ اور تم غفلت میں پڑ رہے ہو۔‘‘
ترجمان القرآن حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما سے ایک قول، اسی طرح عکرمہ و ابو عبید سے.سٰمِدُوْنَ. کا معنیٰ گانا بتایا گیا ہے۔[509]
سورۃ الفرقان (آیت:۷۲) میں ارشادِ ربانی ہے:
.وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا.
’’اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ان کو بے ہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزر جاتے ہیں۔‘‘
’’زُور‘‘ کے معنیٰ جھوٹ کے ہیں۔ہر باطل چیز بھی جھوٹ ہے،اس لیے جھوٹی گواہی سے لے کر کفر و شرک اور ہر طرح کی غلط چیزیں مثلاً،گانا اور دیگر بے ہودہ جاہلانہ رسوم و افعال، سب اس میں شامل ہیں اور اللہ کے نیک بندوں کی یہ صفت بھی ہے کہ وہ کسی بھی جھوٹ میں اور جھوٹی مجلس میں حاضر نہیں ہوتے۔
سورۃ الانفال (آیت:۳۵) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.وَ مَا کَانَ صَلَاتُھُمْ عِنْدَالْبَیْتِ اِلَّا مُکَآئً وَّ تَصْدِیَۃً فَذُوْقُوا الْعَذَابَ بِمَا کُنْتُمْ تَکْفُرُوْنَ.
’’اور ان لوگوں کی نماز خانہ کعبہ کے پاس سیٹیاں اور تالیاں بجانے کے سوا کچھ نہ تھی تو تم جو کفر کرتے تھے،اس کے بدلے عذاب (کا مزہ) چکھو۔‘‘
مشرکین جس طرح ننگے ہو کر بیت اللہ کا طواف کرتے تھے،اُسی طرح طواف کے دوران وہ انگلیاں منہ میں ڈال کر سیٹیاں اور ہاتھوں سے تالیاں بجاتے۔اس کو بھی وہ عبادت اور نیکی تصور کرتے تھے۔ڈھول،سیٹیوں اور تالیوں کے مجموعے کو ساز و موسیقی کہنے میں کوئی حرج نہیں۔
سابق امام کعبہ شیخ عادل الکلبانی کا کہنا ہے کہ موسیقی کے آلات اور گانا حرام نہیں ہے۔ انہوں نے ایک حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ پیغمبر کی اہلیہ عائشہ نے دیگر دو ہمسایہ خواتین کے ہم راہ گیت سنا تھا۔
متعدد مسلم مذہبی رہنما گانے اور موسیقی کو ناجائز اور حرام قرار دیتے آئے ہیں، تاہم کئی مسلم اسکالر اس پر متضاد رائے رکھتے ہیں۔ شیخ عادل الکلبانی نے اپنے انٹرویو میں ایک اور حدیث کا حوالہ دیتے ہوئے کہا کہ ایک بار پیغمبرِ اسلام ایک شادی میں شرکت کے لیے گئے، تو وہاں ایک خاتون دف بجا رہی تھیں اور گیت گا رہی تھیں:
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم میرے گھر میں داخل ہوئے تو میرے پاس دو بچیاں تھیں جو کہ جنگ بعاث کے گیت گا رہی تھیں۔ آپ آ کر میرے بستر پر لیٹ گئے اور رخ مبارک دوسری جانب کر لیا۔ ابوبکر گھر میں آئے تو بولے: رسول اللہ کے پاس شیطانی گیت؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ان کی جانب رخ انور پھیر کر ارشاد فرمایا: "انہیں چھوڑ دو۔" پھر جب ابوبکر رضی اللہ عنہ دوسری جانب متوجہ ہوئے تو میں نے انہیں اشارہ کیا کہ وہ چلی جائیں۔ آپ فرماتی ہیں کہ وہ عید کا دن تھا۔ سوڈانی لوگ اپنے نیزوں اور ڈھال کی مدد سے کھیل کھیل رہے تھے۔ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا یا آپ نے خود ہی فرمایا: "تم یہ دیکھنا چاہتی ہو؟" میں نے کہا، "جی ہاں۔" تو آپ نے مجھے اپنے پیچھے کھڑا کر لیا اور میرا چہرہ آپ کے چہرے کے ساتھ تھا۔ آپ فرما رہے تھے: "بہت خوب، بنو ارفدہ۔" جب میں تھک گئی تو آپ نے فرمایا: "بس۔" پھر فرمایا: "جاؤ۔" (بخاری، کتاب الجہاد، حدیث 2750)[510]
ربیع بنت معوذ بن عفراء بیان کرتی ہیں کہ جب میں دلہن بنا کر بٹھائی گئی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم تشریف لائے۔ آپ یہاں میرے بستر پر ایسے بیٹھے جیسے تم لوگ بیٹھے ہو۔ پھر ہمارے یہاں کی کچھ لڑکیاں دف بجانے لگیں اور میرے والد اور چچا جو جنگ بدر کے دن شہید ہوئے تھے، ان کی تعریف کرنے لگیں۔ ان میں سے ایک نے کہا، "ہم میں وہ نبی ہیں جو آنے والے کل کی بات جانتے ہیں۔" آپ نے فرمایا: "اسے چھوڑو اور وہ گاؤ جو تم پہلے گا رہی تھیں۔" (بخاری ، کتاب النکاح، حدیث 4852)[511]
موسیقی سے متعلق قرآن میں کوئی واضح حکم نہیں
کینیڈا میں مقیم مسلم مبلغ اور اسلامک انفارمیشن اینڈ دعویٰ مرکز کے صدر ڈاکٹر شبیر علی کے مطابق، ''قرآن میں موسیقی یا گانے کے حرام ہونے سے متعلق کوئی حکم موجود نہیں ہے جب کہ کسی مصدقہ حدیث میں بھی ایسے کسی حکم کی روایت نہیں ملتی۔‘‘ انہوں نے کہا کہ ماضی میں بعض روایتوں کی وجہ سے مسلم دنیا میں موسیقی کو حرام سمجھا جاتا رہا اور تب کے معاشرے میں موسیقی سے اجتناب میں آسانی کی بنا پر اس پر عمل بھی ہوتا رہا، تاہم قرآن یا حدیث اس معاملے میں کسی بھی واضح حکم کے حامل نہیں ہیں۔
پاکستان سے تعلق رکھنے والے مسلم دانشور جاوید غامدی کا بھی موقف ہے کہ موسیقی کی حرمت کے حوالے سے قرآن میں کوئی سند نہیں ملتی۔ اپنے ایک بیان میں غامدی نے کہا کہ قرآن میں ان تمام اقدامات یا چیزوں کا ذکر واضح انداز سے موجود ہے، جن کو حرام قرار دیا گیا ہے، تاہم اس سلسلے میں موسیقی کا کہیں کوئی ذکر نہیں دوسری جانب قدامت پسند مسلم رہنماؤں کا کہنا ہے کہ گو کہ قرآن میں موسیقی کے حرام ہونے سے متعلق کوئی واضح یا دو ٹوک حکم تو موجود نہیں، تاہم بعض روایتیں یہ بتاتی ہیں کہ موسیقی سے دور رہنے کا کہا گیا ہے۔ اس حوالے سے کچھ مسلم علماء کی ایک رائے یہ بھی ہے کہ پیغمبر اسلام کے دور میں استعمال ہونے والے آلات موسیقی تو جائز ہیں، تاہم جدید دور کے آلات بجانا حرام ہے۔[512] (واللہ اعلم )[513]
سوره بنی اسرئیل (آیت:۳۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَقْفُ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ اِنَّ السَّمْعَ وَ الْبَصَرَ وَ الْفُؤَادَ کُلُّ اُولٰٓئِکَ کَانَ عَنْہُ مَسْئُوْلًا.
’’اور (اے بندے !) جس چیز کا تجھے علم نہیں،اُس کے پیچھے نہ پڑ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پرس ہو گی۔‘‘
جس چیز کا علم نہ ہو،اس کے پیچھے مت لگو، یعنی بدگمانی مت کرو اور کسی کی ٹوہ میں مت رہو،اسی طرح جس چیز کا علم نہیں،اس چیز پر عمل مت کرو اور جس چیز کے پیچھے تم پڑو گے،اس کے متعلق کان سے سوال ہوگا:کیا اس نے سنا تھا؟ آنکھ سے سوال ہوگا:کیا اس نے دیکھا تھا؟ اور دل سے سوال ہوگا:کیا اس نے جانا تھا؟ کیونکہ یہی تینوں علم کا ذریعہ ہیں،یعنی ان اعضا کو اللہ تعالیٰ قیامت والے دن قوت گویائی عطا فرمائے گا اور ان سے پوچھا جائے گا۔
سورۃ الحجرات (آیت:۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اِنْ جَآئَ کُمْ فَاسِقٌم بِنَبَاٍِ فَتَبَیَّنُوْٓا اَنْ تُصِیْبُوْا قَوْمًام بِجَھَالَۃٍ فَتُصْبِحُوْا عَلٰی مَا فَعَلْتُمْ نٰدِمِیْنَ.
’’مومنو! اگر کوئی فاسق تمھارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو خوب تحقیق کر لیا کرو کہ (مبادا) کسی قوم کونادانی سے نقصان پہنچا دو،پھر تم کو اپنے کیے پر نادم ہونا پڑے۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے کہ فاسق کی خبر کا اعتماد نہ کرو اور جب تک پوری تحقیق و تفتیش سے اصل واقعہ صاف طور پر معلوم نہ ہوجائے،کوئی حرکت نہ کرو۔[514]
یھاں ایک نہایت ہی اہم اصول بیان فرمایا گیا ہے،جس کی انفرادی اور اجتماعی دونوں سطحوں پر نہایت اہمیت ہے۔ہر فرد اور ہر حکومت کی یہ ذمے داری ہے کہ اس کے پاس جو بھی خبر یا اطلاع آئے،جو بالخصوص بدکردار،فاسق اور مفسد قسم کے لوگوں کی طرف سے ہو تو پہلے اس کی تحقیق کی جائے،تاکہ غلط فہمی میں کسی کے خلاف کوئی کارروائی نہ ہو۔
مزید : سوشل میڈیا پر ڈسکشن کے آداب ...[515]
سورۃ التوبہ (آیت:۱۱۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ کُوْنُوْا مَعَ الصّٰدِقِیْنَ.
’’اے اہلِ ایمان! اللہ سے ڈرتے رہو اور سچوں کے ساتھ رہو۔‘‘
سچائی ہی کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے ان تینوں صحابہ کی غلطی نہ صرف معاف فرما دی،بلکہ ان کی توبہ کو قرآن بنا کر نازل فرما دیا،جو غزوہ تبوک میں شرکت سے رہ گئے تھے۔رضی اللہ عنہم و رضوا عنہ۔اس لیے مومنین کو حکم دیا گیا کہ اللہ سے ڈرو اور سچوں کے ساتھ رہو۔اس کا مطلب یہ ہے کہ جس کے دل میں تقویٰ (اللہ کا خوف) ہو گا،وہ سچا بھی ہوگا،اور جو جھوٹا ہوگا،سمجھ لو کہ اس کا دل تقوے سے خالی ہے۔
سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5) ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰہِ وَرَسُوْلِہٖ وَاتَّقُوا اللّٰہَ اِنَّ اللّٰہَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ . یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَرْفَعُوْٓا اَصْوَاتَکُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَلاَ تَجْھَرُوْا لَہٗ بِالْقَوْلِ کَجَھْرِ بَعْضِکُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُکُمْ وَاَنْتُمْ لاَ تَشْعُرُوْنَ . اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَھُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰہِ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰہُ قُلُوْبَھُمْ لِلتَّقْوٰی لَھُمْ مَّغْفِرَۃٌ وَّاَجْرٌ عَظِیْمٌ . اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَکَ مِنْ وَّرَآئِ الْحُجُرَاتِ اَکْثَرُھُمْ لاَ یَعْقِلُوْنَ . وَلَوْ اَنَّھُمْ صَبَرُوْا حَتّٰی تَخْرُجَ اِلَیْھِمْ لَکَانَ خَیْرًا لَّھُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ. سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5)
’’مومنو! (کسی بات کے جواب میں ) اللہ اور اس کے رسول سے پہلے نہ بول اٹھا کرو،ڈرتے رہو،بے شک اللہ سنتا جانتا ہے۔اے اہلِ ایمان! اپنی آوازیں پیغمبر کی آواز سے اونچی نہ کرو اور جس طرح آپس میں ایک دوسرے سے زور سے بولتے ہو (اس طرح) ان کے روبرو زور سے نہ بولا کرو (ایسا نہ ہو) کہ تمھارے اعمال ضائع ہو جائیں اور تم کو خبر بھی نہ ہو۔جو لوگ پیغمبر الٰہی کے سامنے دبی آواز سے بولتے ہیں،اللہ نے ان کے دل تقوے کے لیے آزما لیے ہیں ان کے لیے بخشش اور اجرِ عظیم ہے۔جولوگ تم کو حجروں کے باہر سے آوازیں دیتے ہیں،ان میں اکثر بے عقل ہیں۔اور اگر وہ صبر کیے رہتے یہاں تک کہ تم خود نکل کر ان کے پاس جاتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘(سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5)[516]
اس کا مطلب یہ ہے کہ دین کے معاملے میں اپنے طور پر کوئی فیصلہ کرو نہ اپنی سمجھ اور رائے کو ترجیح دو،بلکہ اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کرو۔ اپنی طرف سے دین میں اضافہ یا بدعات[517] کی ایجاد، اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے آگے بڑھنے کی ناپاک جسارت ہے، جو کسی بھی صاحبِ ایمان کے لائق نہیں،اسی طرح کوئی فتویٰ قرآن و سنت پر غور و فکر کے بغیر نہ دیا جائے[518]۔ مومن کی شان تو اللہ و رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے احکام کے سامنے سرِ تسلیم خم کر دینا ہے[519] مگر افسوس صدیوں سے نافرمانی کا سلسلہ جاری ہے ، جسے درست کرنا ضروری ہے-
سورۃ الحجرات کی آیت (۳) میں ان لوگوں کی تعریف ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی عظمت و جلالت کا خیال رکھتے ہوئے اپنی آوازیں پست رکھتے تھے۔
سورۃ الانفال(آیت:۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یَسْئَلُوْنَکَ عَنِ الْاَنْفَالِ قُلِ الْاَنْفَالُ لِلّٰہِ وَ الرَّسُوْلِ فَاتَّقُوا اللّٰہَ وَ اَصْلِحُوْا ذَاتَ بَیْنِکُمْ وَ اَطِیْعُوا اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗٓ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.
’’(اے نبی! مجاہد لوگ) تم سے غنیمت کے مال کے بارے میں دریافت کرتے ہیں (کہ کیا حکم ہے؟) کہہ دو کہ غنیمت اللہ اور اُس کے رسول کا مال ہے تو اللہ سے ڈرو اور آپس میں صلح رکھو اور اگر ایمان رکھتے ہو تو اللہ اور اُس کے رسول کے حکم پر چلو۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ مذکورہ تینوں باتوں پر عمل بغیر ایمان مکمل نہیں۔اس سے تقویٰ،اصلاح ذات البین اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت کی اہمیت واضح ہوتی ہے۔خاص طور پر مال غنیمت کی تقسیم میں ان تینوں امور پر عمل نہایت ضروری ہے،کیونکہ مال کی تقسیم میں باہمی فساد کا بھی شدید اندیشہ رہتا ہے۔اس کے علاج کے لیے اصلاح ذات البین پر زور دیا گیا ہے۔ہیرا پھیری اور خیانت کا بھی امکان رہتا ہے،اس لیے تقویٰ کا حکم دیا ہے۔اس کے باوجود بھی کوئی کوتاہی ہو جائے تو اس کا حل اللہ اور اس کے رسول (محمد صلی اللہ علیہ وسلم ) کی اطاعت میں مضمر ہے۔
سورۃ الانفال (آیت:۲۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اعْلَمُوْٓا اَنَّمَآ اَمْوَالُکُمْ وَ اَوْلَادُکُمْ فِتْنَۃٌ وَّ اَنَّ اللّٰہَ عِنْدَہٗٓ اَجْرٌ عَظِیْمٌ.
’’اور جان رکھو کہ تمھارا مال اور اولاد بڑی آزمایش ہے اور یہ کہ اللہ کے پاس (نیکیوں کا) بڑا ثواب ہے۔‘‘
مال اور اولاد کی محبت ہی عام طور پر انسان کو خیانت پر اور اللہ اور رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اطاعت سے گریز پر مجبور کرتی ہے،اس لیے ان کو فتنہ (آزمایش) قرار دیا گیا ہے،یعنی اس کے ذریعے سے انسان کی آزمایش ہوتی ہے کہ وہ ان کی محبت میں امانت اور اطاعت کے تقاضے پورے کرتا ہے یا نہیں ؟ اگر پورے کرتا ہے تو سمجھ لو کہ وہ اس آزمایش میں کامیاب ہے،بہ صورت دیگر ناکام۔اس صورت میں یہی مال اور اولاد اس کے لیے عذابِ الٰہی کا باعث بن جائیں گے۔
سورۃ الشوریٰ (آیت:۳۶،۳۷،۳۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَمَآ اُوْتِیْتُمْ مِّنْ شَیْئٍ فَمَتَاعُ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَا عِنْدَ اللّٰہِ خَیْرٌ وَّاَبْقٰی لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ . وَالَّذِیْنَ یَجْتَنِبُوْنَ کَبٰٓئِرَ الْاِثْمِ وَالْفَوَاحِشَ وَاِذَا مَا غَضِبُوْا ھُمْ یَغْفِرُوْنَ .
’’(لوگو!) جو (مال و متاع) تم کو دیا گیا ہے وہ دنیا کی زندگی کا (ناپایدار) فائدہ ہے اور جو کچھ اللہ کے ہاں ہے وہ بہتر اور قائم رہنے والا ہے۔(یعنی) ان لوگوں کے لیے جو ایمان لائے اور اپنے پروردگار پر بھروسا رکھتے ہیں۔اور جو بڑے بڑے گناہوں اور بے حیائی کی باتوں سے پرہیز کرتے ہیں اور جب غصہ آتا ہے تو معاف کر دیتے ہیں۔اور جو اپنے پروردگار کا فرمان قبول کرتے ہیں اور نماز پڑھتے ہیں اور اپنے کام آپس کے مشورے سے کرتے ہیں اور جو مال ہم نے ان کو دیا ہے،اس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
ان آیات میں اللہ تعالیٰ نے دنیا کی بے قراری اور حقارت بیان فرمائی ہے کہ اسے جمع کرکے کسی کو پھولنا نہ چاہیے،کیونکہ یہ فانی چیز ہے،بلکہ آخرت کی طرف رغبت کرنا چاہیے،نیک اعمال کرکے ثواب جمع کریں۔[522]
لوگوں سے عفو و در گزر کرنا اہلِ ایمان کے مزاج و طبیعت کا حصہ ہے نہ کہ انتقام اور بدلہ لینا،جس طرح نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے بارے میں آتا ہے کہ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ذات کے لیے کبھی بدلہ نہیں لیا،ہاں اللہ تعالیٰ کی حرمتوں کا توڑا جانا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لیے ناقابلِ برداشت تھا۔
سورت طٰہٰ (آیت:۱۳۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ زَھْرَۃَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا لِنَفْتِنَھُمْ فِیْہِ وَ رِزْقُ رَبِّکَ خَیْرٌ وَّ اَبْقٰی.
’’اور کئی طرح کے لوگوں کو جو ہم نے دنیا کی زندگی میں آرایش کی چیزوں سے بہرہ مند کیا ہے،تاکہ ان کی آزمایش کریں،ان پر نگاہ نہ کرنا اور تمھارے رب کی (عطا فرمائی ہوئی) روزی بہت بہتر اور باقی رہنے والی ہے۔‘‘
یہاں آرایشِ دنیا کے ذریعے آزمایش کا ذکر آیا ہے،ایسا ہی مضمون سورت آل عمران (آیت:۱۹۶،۱۹۷) سورت ابراہیم (آیت:۳) سورۃ الحجر (آیت:۸۸) سورۃ النحل (آیت:۱۰۶،۱۰۷) سورۃ الکہف (آیت:۷) اور سورۃ النازعات (آیت:۳۷ تا ۳۹) میں بھی بیان ہوا ہے۔
سورہ آل عمران (آیت:۱۹۶،۱۹۷) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.لَا یَغُرَّنَّکَ تَقَلُّبُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا فِی الْبِلَادِ . مَتَاعٌ قَلِیْلٌ ثُمَّ مَاْوٰھُمْ جَھَنَّمُ وَ بِئْسَ الْمِھَادُ.
’’(اے پیغمبر!) کافروں کا شہروں میں چلنا پھرنا تمھیں دھوکا نہ دے۔(یہ دنیا کا) تھوڑا سا فائدہ ہے پھر (آخرت میں ) تو اُن کا ٹھکانا دوزخ ہے اور وہ بُری جگہ ہے۔‘‘
سورت ابراہیم (آیت:۳) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.اَلَّذِیْنَ یَسْتَحِبُّوْنَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ وَ یَصُدُّوْنَ عَنْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَ یَبْغُوْنَھَا عِوَجًا اُولٰٓئِکَ فِیْ ضَلٰلٍم بَعِیْدٍ.
’’جو آخرت کی نسبت دنیا کو پسند کرتے ہیں اور (لوگوں کو) اللہ کے راستے سے روکتے اور اس میں کجی چاہتے ہیں،یہ لوگ پرلے درجے کی گمراہی میں ہیں۔‘‘
سورۃ الحجر (آیت:۸۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.لَا تَمُدَّنَّ عَیْنَیْکَ اِلٰی مَا مَتَّعْنَابِہٖٓ اَزْوَاجًا مِّنْھُمْ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَ اخْفِضْ جَنَاحَکَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ.
’’اور ہم نے کفار کی کئی جماعتوں کو جو (دنیوی فوائد سے) متمتع کیا ہے،تم ان کی طرف (رغبت سے) آنکھ اٹھا کر نہ دیکھنا اور نہ ان کے حال پر تاسف کرنا اور مومنوں سے خاطر اور تواضع سے پیش آنا۔‘‘
سورۃ النحل (آیت:۱۰۶،۱۰۷) میں فرمان الٰہی ہے:
.مَنْ کَفَرَ بِاللّٰہِ مِنْم بَعْدِ اِیْمَانِہٖٓ اِلَّا مَنْ اُکْرِہَ وَ قَلْبُہٗ مُطْمَئِنٌّم بِالْاِیْمَانِ وَ لٰکِنْ مَّنْ شَرَحَ بِالْکُفْرِ صَدْرًا فَعَلَیْھِمْ غَضَبٌ مِّنَ اللّٰہِ وَ لَھُمْ عَذَابٌ عَظِیْمٌ . ذٰلِکَ بِاَنَّھُمُ اسْتَحَبُّوا الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا عَلَی الْاٰخِرَۃِ وَ اَنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الْکٰفِرِیْنَ.
’’جو شخص ایمان لانے کے بعد اللہ کے ساتھ کفر کرے،لیکن وہ نہیں جو (کفر پر زبردستی) مجبور کیا جائے اور اس کا دل ایمان کے ساتھ مطمئن ہو،بلکہ وہ جو (دل سے اور) دل کھول کر کفر کرے تو ایسوں پر اللہ کا غضب ہے اور ان کو بڑا سخت عذاب ہوگا۔یہ اس لیے کہ انھوں نے دنیا کی زندگی کو آخرت کے مقابلے میں عزیز رکھا اور اس لیے کہ اللہ کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
سورۃ الکہف (آیت:۷) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.اِنَّا جَعَلْنَا مَا عَلَی الْاَرْضِ زِیْنَۃً لَّھَا لِنَبْلُوَھُمْ اَیُّھُمْ اَحْسَنُ عَمَلًا.
’’جو چیز زمین پر ہے،ہم نے اس کو زمین کے لیے آرایش بنا یا ہے،تاکہ لوگوں کی آزمایش کریں کہ ان میں کون اچھے عمل کرنے والا ہے۔‘‘
سورۃ النازعات (آیت:۳۷ تا ۳۹) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.فَاَمَّا مَنْ طَغٰی . وَاٰثَرَ الْحَیٰوۃَ الدُّنْیَا . فَاِنَّ الْجَحِیْمَ ھِیَ الْمَاْوٰی.
’’جس نے سرکشی کی۔اور دنیا کی زندگی کو مقدم سمجھا۔اس کا ٹھکانا دوزخ ہے۔‘‘
"فرما دیجئے: اﷲ کی اس زینت ( و آرائش ) کو کس نے حرام کیا ہے جو اس نے اپنے بندوں کے لئے پیدا فرمائی ہے اور کھانے کی پاک ستھری چیزوں کو ( بھی کس نے حرام کیا ہے ) ؟ فرما دیجئے: یہ ( سب نعمتیں جو ) اہلِ ایمان کی دنیا کی زندگی میں ( بالعموم روا ) ہیں قیامت کے دن بالخصوص ( انہی کے لئے ) ہوں گی ۔ اس طرح ہم جاننے والوں کے لئے آیتیں تفصیل سے بیان کرتے ہیں(7:32) اے محمدؐ، اِن سے کہو کہ میرے رب نے جو چیزیں حرام کی ہیں وہ تو یہ ہیں: بے شرمی کے کام خواہ کھلے ہوں یا چھپے اور گناہ اور حق کے خلاف زیادتی اور یہ کہ اللہ کے ساتھ تم کسی کو شریک کرو جس کے لیے اُس نے کوئی سند نازل نہیں کی اور یہ کہ اللہ کے نام پر کوئی ایسی بات کہو جس کے متعلق تمہیں علم نہ ہو کہ وہ حقیقت میں اسی نے فرمائی ہے (7:33)
سورۃ الانعام (آیت:۱۴۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ.
’’اور بے جا نہ اڑانا کہ اللہ بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
یعنی صدقہ خیرات میں بھی حد سے تجاور نہ کرو،ایسا نہ ہو کہ کل کو تم محتاج ضرورت مند ہو جائو۔بعض کہتے ہیں کہ اس کا تعلق حکام سے ہے،یعنی صدقات اور زکات کی وصولی میں حد سے تجاور نہ کرو۔امام ابن کثیر فرماتے ہیں کہ سیاقِ آیت کی رو سے زیادہ صحیح یہ بات لگتی ہے کہ کھانے میں اسراف مت کرو،کیونکہ بسیار خوری عقل اور جسم کے لیے مضر ہے۔دوسرے مقامات پر بھی اللہ تعالیٰ نے کھانے پینے میں اسراف سے منع فرمایا،جس سے واضح ہوتا ہے کہ کھانے پینے میں بھی اعتدال بہت ضروری ہے اور اس سے تجاوز اللہ کی نافرمانی ہے۔
سورۃ الاعراف (آیت:۳۱) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰبَنِیْٓ اٰدَمَ خُذُوْا زِیْنَتَکُمْ عِنْدَ کُلِّ مَسْجِدٍ وَّ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا اِنَّہٗ لَا یُحِبُّ الْمُسْرِفِیْنَ.
’’اے بنی آدم! ہر نماز کے وقت اپنے آپ کو مزین کیا کرو اور کھاؤ اور پیو اور بے جا نہ اڑاؤ کہ اللہ بے جا اڑانے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
کسی چیز میں حتی کہ کھانے پینے میں بھی حد سے آگے نکل جانا ناپسندیدہ ہے۔ایک حدیث میں نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے:
’’جو چاہو کھاؤ اور جو چاہو پہنو،البتہ دو چیزوں سے گریز کرو۔اسراف اور تکبر۔‘‘[523]
بعض علما کا قول ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اس آدھی آیت.وَ کُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا.میں ساری طب جمع فرما دی ہے۔[524]
سوره بنی اسرائیل (آیت:۲۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تَجْعَلْ یَدَکَ مَغْلُوْلَۃً اِلٰی عُنُقِکَ وَ لَا تَبْسُطْھَا کُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا.
’’اور اپنے ہاتھ کو نہ تو گردن کے گرد بندھا ہوا (بہت تنگ ) کر لو (کہ کسی کو کچھ دو ہی نہیں ) اور نہ بالکل کھول ہی دو (کہ سبھی کچھ دے ڈالو اور انجام یہ ہو) کہ ملامت زدہ اور درماندہ ہو کر بیٹھ جائو۔‘‘
انسان نہ بخل کرے کہ اپنے اور اپنے اہل و عیال کی ضروریات پر بھی خرچ نہ کرے اور فضول خرچی کے نتیجے میں محسور (تھکا ہارا اور پچھتانے والا) بھی نہ بن جائے۔
سورۃ الفرقان (آیت:۶۷) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَالَّذِیْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا.
’’اور جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں،بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم۔‘‘
اللہ کی نافرمانی میں خرچ کرنا اسراف اور اللہ کی اطاعت میں خرچ نہ کرنا، بخیلی اور اللہ کے احکام و اطاعت کے مطابق خرچ کرنا قوام ہے۔[525]
سورۃ الحدید (آیت:۲۴) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.الَّذِیْنَ یَبْخَلُوْنَ وَیَاْمُرُوْنَ النَّاسَ بِالْبُخْلِ وَمَنْ یَّتَوَلَّ فَاِنَّ اللّٰہَ ھُوَ الْغَنِیُّ الْحَمِیْدُ.
’’وہ لوگ جو بخل کرتے ہیں اور لوگوں کو بخل کا حکم دیتے ہیں اور جو منہ موڑ جائے تو یقینا اللہ ہی ہے جو بڑا بے پروا ہے،بہت تعریفوں والا ہے۔‘‘
سورت بنی اسرائیل (آیت:۲۵،۲۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَ الْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا . اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ کَانُوْٓا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ کَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّہٖ کَفُوْرًا.
’’اور رشتے داروں اور محتاجوں اور مسافروں کو اُن کا حق ادا کرو اور فضول خرچی سے مال نہ اڑائو کہ فضول خرچی کرنے والے تو شیطان کے بھائی ہیں اور شیطان تو اپنے رب (کی نعمتوں ) کا کفران کرنے والا (ناشکرا) ہے۔‘‘
اسراف اور تبذیر میں فرق ہے۔اسراف تو مباح امور میں ضرورت سے زیادہ خرچ کرنا ہے،جبکہ تبذیر کا معنیٰ ناجائز امور میں خرچ کرنا ہے،چاہے تھوڑا ہی ہ
1۔سورۃ الانفال (آیت:۲۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اِنْ تَتَّقُوا اللّٰہَ یَجْعَلْ لَّکُمْ فُرْقَانًا وَّ یُکَفِّرْ عَنْکُمْ سَیِّاٰتِکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ وَ اللّٰہُ ذُوالْفَضْلِ الْعَظِیْمِ.
’’مومنو! اگر تم اللہ سے ڈرو گے تو وہ تمھارے لیے امرِ فارق پیدا کردے گا (تمھیں ممتاز کر دے گا) اور تمھارے گناہ مٹا دے گا اور تمھیں بخش دے گا اور اللہ بڑے فضل والا ہے۔‘‘
تقویٰ کا مطلب ہے اوامرِ الٰہی کی مخالفت اور اس کے مناہی کے ارتکاب سے بچنا اور فرقان کے کئی معنیٰ بیان کیے گئے ہیں،مثلاً:ایسی چیز جس سے حق و باطل کے درمیان فرق کیا جا سکے۔مطلب یہ ہے کہ تقوے کی بدولت دل مضبوط،بصیرت تیز تر اور ہدایت کا راستہ واضح تر ہو جاتا ہے،جس سے انسان کو ہر ایسے موقعے پر،جب عام انسان شک و شبہے کی وادیوں میں بھٹک رہے ہوں،صراطِ مستقیم کی توفیق مل جاتی ہے۔علاوہ ازیں فتح اور نصرت اور نجات و مخرج بھی اس کے معنیٰ کیے گئے ہیں،یہاں سارے ہی معانی مراد ہو سکتے ہیں،کیوں کہ تقوے سے یقینا یہ سارے ہی فوائد حاصل ہوتے ہیں،بلکہ اس کے ساتھ تکفیرِ سیئات،مغفرتِ ذنوب اور فضلِ عظیم بھی حاصل ہوتا ہے۔
2۔سورۃ الحدید (آیت:۲۸) میں فرمایا ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا اتَّقُوا اللّٰہَ وَاٰمِنُوْا بِرَسُوْلِہٖ یُؤْتِکُمْ کِفْلَیْنِ مِنْ رَّحْمَتِہٖ وَیَجْعَلْ لَّکُمْ نُوْرًا تَمْشُونَ بِہٖ وَیَغْفِرْ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
’’مومنو! اللہ سے ڈرو اور اس کے پیغمبر پر ایمان لاؤ،وہ تمھیں اپنی رحمت سے دوگنا اجر عطا فرمائے گا اور تمھارے لیے روشنی کر دے گا،جس میں چلو گے اور تم کو بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
یہ دوگنا اجر ان اہلِ ایمان کو ملے گا،جو نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے قبل بھی کسی رسول پر ایمان رکھتے تھے،پھر نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم پر بھی ایمان لے آئے،جیسا کہ حدیث میں بیان کیا گیا ہے۔[صحیح البخاري،کتاب العلم (۹۷) صحیح مسلم،کتاب التفسیر (۱۵۴)]
ان آیات میں چار چیزوں کی تلقین کی گئی ہے:
سورۃ النحل (آیت:۹۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ اَوْفُوْا بِعَھْدِ اللّٰہِ اِذَا عٰھَدْتُّمْ وَ لَا تَنْقُضُوا الْاَیْمَانَ بَعْدَ تَوْکِیْدِھَا وَ قَدْ جَعَلْتُمُ اللّٰہَ عَلَیْکُمْ کَفِیْلًا اِنَّ اللّٰہَ یَعْلَمُ مَا تَفْعَلُوْنَ.
’’اور جب اللہ سے پختہ عہد کرو تو اُس کو پورا کرو اور جب پکی قسمیں کھاؤ تو اُن کو مت توڑو کہ تم اللہ کو اپنا ضامن مقرر کر چکے ہو اور جو کچھ تم کرتے ہو اللہ اُس کو جانتا ہے۔‘‘
’’قَسَم‘‘ ایک تو وہ ہے جو کسی عہد و پیمان کے وقت اسے مزید پختہ کرنے کے لیے کھائی جاتی ہے۔دوسری قسم وہ ہے جو انسان اپنے طور پر کسی وقت کھا لیتا ہے کہ میں فلاں کام کروں گا یا نہیں کروں گا۔یہاں آیت میں اول الذکر قسم مراد ہے کہ تم نے قسم کھا کر اللہ کو ضامن بنا لیا ہے۔اب اسے نہیں توڑنا،بلکہ عہدو پیمان کو پورا کرنا ہے جس پر تم نے قسم کھائی ہے،کیونکہ ثانی الذکر قسم کی بابت تو حدیث میں حکم دیا گیا ہے کہ کوئی شخص کسی کام کی بابت قسم کھا لے،پھر وہ دیکھے کہ زیادہ خیر دوسری چیز میں ہے ( یعنی قسم کے خلاف کرنے میں ہے) تو بہتری والے کام کو اختیار کرے اور قسم کو توڑ کر اس کا کفارہ ادا کرے،نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا عمل بھی یہی تھا۔[526]
سورۃ النحل (آیت:۹۹،۱۰۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّہٗ لَیْسَ لَہٗ سُلْطٰنٌ عَلَی الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَلٰی رَبِّھِمْ یَتَوَکَّلُوْنَ . اِنَّمَا سُلْطٰنُہٗ عَلَی الَّذِیْنَ یَتَوَلَّوْنَہٗ وَ الَّذِیْنَ ھُمْ بِہٖ مُشْرِکُوْنَ.
’’جو مومن ہیں اور اپنے رب پر بھروسا رکھتے ہیں،اُن پر اُس (شیطان) کا کچھ زور نہیں چلتا۔اس کا زور اُنہی لوگوں پر چلتا ہے جو اس کو رفیق بناتے ہیں اور اس کے (وسوسے کے) سبب (اللہ کے ساتھ) شریک مقرر کرتے ہیں۔‘‘
سورت آل عمران (آیت:۱۶۰) میں ارشادِ ربانی ہے:
.اِنْ یَّنْصُرْکُمُ اللّٰہُ فَلَا غَالِبَ لَکُمْ وَ اِنْ یَّخْذُلْکُمْ فَمَنْ ذَا الَّذِیْ یَنْصُرُکُمْ مِّنْم بَعْدِہٖ وَ عَلَی اللّٰہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُؤْمِنُوْنَ.
’’اگر اللہ تمھارا مددگار ہے تو تم پر کوئی غالب نہیں آسکتا اور اگر وہ تمھیں چھوڑدے تو پھر کون ہے جو تمھاری مدد کرے؟ اور مومنوں کو چاہیے کہ اللہ ہی پر بھروسا رکھیں۔‘‘
سورۃ النمل (آیت:۷۹) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ اِنَّکَ عَلَی الْحَقِّ الْمُبِیْنِ.
’’اللہ پر بھروسا رکھو،تم تو صریح حق پر ہو۔‘‘
سورۃ الاحزاب (آیت:۳) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَ تَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِ وَ کَفٰی بِاللّٰہِ وَکِیْلًا.
’’اور اللہ پر بھروسا رکھنا اور اللہ ہی کارساز کافی ہے۔‘‘
سورت یوسف (آیت:۶۷) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.وَ قَالَ یٰبَنِیَّ لَا تَدْخُلُوْا مِنْ بَابٍ وَّاحِدٍ وَّ ادْخُلُوْا مِنْ اَبْوَابٍ مُّتَفَرِّقَۃٍ وَ مَآ اُغْنِیْ عَنْکُمْ مِّنَ اللّٰہِ مِنْ شَیْئٍ اِنِ الْحُکْمُ اِلَّا لِلّٰہِ عَلَیْہِ تَوَکَّلْتُ وَ عَلَیْہِ فَلْیَتَوَکَّلِ الْمُتَوَکِّلُوْنَ.
’’اور ہدایت کی کہ اے بیٹا! ایک ہی دروازے میں سے داخل نہ ہونا بلکہ جدا جدا دروازوں سے داخل ہونا اور میں اللہ کی تقدیر تو تم سے روک نہیں سکتا (بے شک) حکم اُسی کا ہے،میں اُسی پر بھروسا رکھتا ہوں اور اہلِ توکّل کو اُسی پر بھروسا رکھنا چاہیے۔‘‘
۔سورۃ النحل (آیت:۱۱۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَکُلُوْا مِمَّا رَزَقَکُمُ اللّٰہُ حَلٰلًا طَیِّبًا وَّ اشْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ اِنْ کُنْتُمْ اِیَّاہُ تَعْبُدُوْنَ.
’’پس اللہ نے جو تم کو حلال و طیب رزق دیا ہے اُسے کھاؤ اور اللہ کی نعمتوں کا شکر کرو،اگر اُسی کی عبادت کرتے ہو۔‘‘
اس کا مطلب یہ ہوا کہ حلال و طیب چیزوں سے تجاوز کرکے حرام اور خبیث چیزوں کا استعمال اور اللہ کو چھوڑ کر کسی اور کی عبادت کرنا،یہ اللہ کی نعمتوں کی نا شکری ہے۔اسی طرح ناجائز کاروبار اور حرام ذرائع آمدنی اختیار کرنا بھی کفرانِ نعمت ہے،علاوہ ازیں یہ اللہ پر عدمِ اعتماد اور عدمِ توکّل کی علامت ہے۔
سورۃ الضحیٰ (آیت:۱۱) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَاَمَّا بِنِعْمَۃِ رَبِّکَ فَحَدِّثْ.
’’اور اپنے پروردگار کی نعمتوں کا بیان کرتے رہنا۔‘‘
سنن ابو داود،ترمذی،مسند احمد،ابن حبان،المختارۃ للضیاء اور الادب المفرد امام بخاری میں ہے کہ اس بندے نے اللہ کی شکر گزاری نہیں کی،جس نے لوگوں کی شکر گزاری نہ کی۔‘‘[527] سنن ابو داود کی ایک اور حدیث میں ہے کہ ’’جسے کوئی نعمت ملے اور اس نے اُسے بیان کیا تو وہ شکر گزار ہے اور جس نے اُسے چھپایا اُس ۓ ناشکری کی۔‘‘ مجاہد رحمہ اللہ فرماتے ہیں کہ یہاں نعمت سے مراد نبوت ہے۔ایک روایت میں ہے کہ قرآن مراد ہے۔
حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:اس کا مطلب یہ ہے کہ جو بھلائی کی باتیں آپ کو معلوم ہیں،وہ اپنے بھائیوں سے بھی بیان کرو۔محمد بن اسحاق رحمہ اللہ کہتے ہیں:جو نعمت کرامت و نبوت کی تمھیں ملی ہے،اُسے بیان کرو،اس کا ذکر کرو اور اس کی طرف لوگوں کو دعوت دو۔اس پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے قبیلے والوں میں سے جن پر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اطمینان ہوتا،پوشیدگی سے دعوت دینی شروع کی۔[528]
سورۃ النساء (آیت:۱۴۸) میں فرمایا:
.لَا یُحِبُّ اللّٰہُ الْجَھْرَ بِالسُّوْٓئِ مِنَ الْقَوْلِ اِلَّا مَنْ ظُلِمَ وَ کَانَ اللّٰہُ سَمِیْعًا عَلِیْمًا.
’’اللہ تعالیٰ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ بُرا کہے،مگر وہ جو مظلوم ہو اور اللہ (سب کچھ) سنتا (اور) جانتا ہے۔‘‘
یعنی اللہ کو پسند نہیں کسی کی بری بات کا ظاہر کرنا۔شریعت نے تاکید کی ہے کہ کسی کے اندر برائی دیکھو تو اس کا چرچا نہ کرو۔بلکہ تنہائی میں اس کو سمجھاؤ،مگر ظالم کے ظلم کو تم لوگوں کے سامنے بیان کرسکتے ہو جس سے ایک فائدہ یہ ہے کہ وہ ظلم سے باز آجائے یا اس کی تلافی کی سعی کرے۔
قرآن کریم کی بہت سی آیات میں موالات کفار(کفار سے دلی دوستی ) کی شدید حرمت و ممانعت کے احکام آئے ہیں اور جو مسلمان کسی کافر سے دلی دوستی رکھے تو اس کو کفار ہی کے زمرہ میں شامل سمجھے جانے کی وعید آئی ہے لیکن یہ سب احکام دلی اور قلبی دوستی کے متعلق ہیں۔ کفار کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی، خیر خواہی، ان پر احسان، حسن اخلاق سے پیش آنا یا تجارتی اور اقتصادی معاملات ان سے کرنا، دوستی کے مفہوم میں داخل نہیں، یہ سب امور کفار کے ساتھ بھی جائز ہیں[ملاحضہ(60:8,9)] رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا کھلا ہوا تعامل اس پر شاہد ہے، البتہ ان سب چیزوں میں اس کی رعایت ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ایسے معاملات رکھنا اپنے دین کے لئے مضر نہ ہو اپنے ایمان اور عمل میں سستی پیدا نہ کرے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی مضر نہ ہو۔ رسول اللہ ﷺ جب فوت ہونے تو آپ کی زرہ یہودی کے پاس گروی رکھی تھی -
لاَیَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ لَمْ یُقَاتِلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَلَمْ یُخْرِجُوْکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ اَنْ تَبَرُّوْھُمْ وَتُقْسِطُوْا اِلَیْھِمْ اِنَّ اللّٰہَ یُحِبُّ الْمُقْسِطِیْنَ . اِنَّمَا یَنْھٰکُمُ اللّٰہُ عَنِ الَّذِیْنَ قٰتَلُوْکُمْ فِی الدِّیْنِ وَاَخْرَجُوکُمْ مِّنْ دِیَارِکُمْ وَظٰھَرُوْا عَلٰٓی اِخْرَاجِکُمْ اَنْ تَوَلَّوْھُمْ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ (60:8,9)
’’ جن لوگوں نے تم سے دین کے بارے میں جنگ نہیں کی اور نہ تم کو تمہارے گھروں سے نکالا ان کے ساتھ بھلائی اور انصاف کا سلوک کرنے سے اللہ تم کو منع نہیں کرتا،اللہ تو انصاف کرنے والوں کو دوست رکھتا ہے۔اللہ صرف ان لوگوں کے ساتھ تم کو دوستی کرنے سے منع کرتا ہے،جنھوں نے تم سے دین کے بارے میں لڑائی کی اور تم کو تمھارے گھروں سے نکالا اور تمھارے نکالنے میں دوسروں کی مدد کی تو جو لوگ ایسوں سے دوستی کریں گے،وہی ظالم ہیں۔‘‘(60:8,9)[529]
آیت (۸) کے اوصاف والے کافروں سے احسان اور انصاف کا معاملہ کرنا ممنوع نہیں ہے،جیسے حضرت اسماء بنت ابی بکر صدیق رضی اللہ عنہما نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اپنی مشرک ماں کی بابت صلہ رحمی اور حسنِ سلوک کرنے کا پوچھا توآپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
( صِلِيْ اُمَّکِ ) ’’اپنی ماں کے ساتھ صلہ رحمی کرو۔‘‘[530]
۔جیسے دوسرے مقام پر فرمایا:
.وَ لَا یَجْرِمَنَّکُمْ شَنَاٰنُ قَوْمٍ عَلٰٓی اَلَّا تَعْدِلُوْا.[المائدۃ:۸]
’’تمھیں کسی قوم کی دشمنی اس بات پر آمادہ نہ کرے کہ تم انصاف نہ کرو۔‘‘
مزید تفصیل : مسلم غیر مسلم تعلقات[531] .....
سورۃ العنکبوت (29:46) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تُجَادِلُوْٓا اَھْلَ الْکِتٰبِ اِلَّا بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْھُمْ وَ قُوْلُوْٓا اٰمَنَّا بِالَّذِیْٓ اُنْزِلَ اِلَیْنَا وَ اُنْزِلَ اِلَیْکُمْ وَ اِلٰھُنَا وَ اِلٰھُکُمْ وَاحِدٌ وَّ نَحْنُ لَہٗ مُسْلِمُوْنَ.
"اور اہل کتاب کے ساتھ بحث و مباحثہ نہ کرو مگر اس طریقہ پر جو عمدہ ہو مگر ان کے ساتھ جو ان میں ظالم ہیں اور صاف اعلان کردو کہ ہمارا تو اس کتاب پر بھی ایمان ہے جو ہم پر اتاری گئی اور اس پر بھی جو تم پر اتاری گئی ہمارا تمہارا معبود ایک ہی ہے ۔ ہم سب اسی کے حکم برادر ہیں ۔" (29:46)
اہل کتاب کو دعوت دیتے ہوئے اچھے طریقے سے ان سے گفتگو کرو۔ تمہاری گفتگو میں نہ تو ان کی توہین کا انداز ہو اور نہ ہی ان کی عصبیت جاہلی کو بھڑکنے کا موقع ملتا ہو۔ بہر حال اپنا پیغام احسن طریقے سے ان تک پہنچا دو ۔ اس کے بعد وہ اپنے نظریے اور عمل کے لیے اللہ کے ہاں خود ذمہ دار ہیں۔ (اِلَّا الَّذِیْنَ ظَلَمُوْا مِنْہُمْ ) ” اس استثناء کے دو معنی ہیں۔ ایک یہ کہ ان میں غیر منصفانہ طرز عمل دکھانے والے افراد سے مجادلہ کرنے کی سرے سے ضرورت ہی نہیں ہے ‘ اور دوسرے یہ کہ دوران گفتگو ایسے لوگوں کی ہٹ دھرمی کے سبب ان کے ساتھ کسی حد تک سخت رویہ اختیار کرنے کی بھی اجازت ہے۔ بہر حال اگر کوئی شخص جان بوجھ کر ضد اور ہٹ دھرمی پر اتر آئے تو اس کے ساتھ بحث و تمحیص میں یہ دونوں صورتیں بھی پید اہو سکتی ہیں۔ یعنی اس کا غیر منصفانہ رویہ دیکھتے ہوئے اس کے ساتھ کچھ سخت جملوں کے تبادلے کی نوبت بھی آسکتی ہے اور اس کے بعد مزید گفتگو کرنے سے اعراض بھی برتا جاسکتا ہے۔
سورت آل عمران (آیت:۲۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.لَا یَتَّخِذِ الْمُؤْمِنُوْنَ الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ وَ مَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ فَلَیْسَ مِنَ اللّٰہِ فِیْ شَیْئٍ اِلَّآ اَنْ تَتَّقُوْا مِنْھُمْ تُقٰۃً وَ یُحَذِّرُکُمُ اللّٰہُ نَفْسَہٗ وَ اِلَی اللّٰہِ الْمَصِیْرُ.
’’مومنوں کو چاہیے کہ مومنوں کے سوا کافروں کو ولی (سرپرست) نہ بنائیں اور جو ایسا کرے گا،اُس سے اللہ کا کچھ (عہد) نہیں،ہاں اگر اس طریق سے تم اُن (کے شر) سے بچائو کی صورت پیدا کرو (تو مضائقہ نہیں ) اور اللہ تم کو اپنے (غضب) سے ڈراتا ہے اور اللہ ہی کی طرف لوٹ کرجانا ہے۔‘‘
’’أولیاء‘‘ ولی کی جمع ہے۔ ولی ایسے دوست کو کہتے ہیں جس سے دلی محبت اور خصوصی تعلق ہو۔ ولی سرپرست (Protecting Friend) بھی ہوتا ہے - جیسے اللہ تعالیٰ نے آپ نے آپ کو اہلِ ایمان کا ولی قرار دیا ہے۔[البقرۃ:۲۵۷] یعنی اللہ اہلِ ایمان کا ولی ہے،مطلب یہ ہوا کہ اہلِ ایمان کو ایک دوسرے سے محبت اور خصوصی تعلق ہے اور وہ آپس میں ایک دوسرے کے ولی (دوست) ہیں۔اللہ تعالیٰ نے یہاں اہلِ ایمان کو اس بات سے سختی کے ساتھ منع فرمایا ہے کہ وہ کافروں کو اپنا ولی سرپرست بنائیں،کیوں کہ کافر اللہ کے دشمن ہیں اور اہلِ ایمان کے بھی دشمن ہیں توپھر ان کو دوست بنانے کا جواز کس طرح ہو سکتا ہے؟ اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس مضمون کو قرآنِ کریم میں کئی جگہ وضاحت کے ساتھ بیان فرمایا ہے۔
لڑکی کا والد اس کا ولی ہوتا ، سرپرست ہوتا ہے جو اس کی شادی . نکاح کا بندوبست کرتا ہے -
جہاں تک کچھ اجازت کا کہا گیا ہے تو یہ اجازت ان مسلمانوں کے لیے ہے جو کسی کافر کی حکومت میں رہتے ہوں کہ ان کے لیے اگر کسی وقت اظہارِ دوستی کے بغیر ان کے شر سے بچنا ممکن نہ ہو تو وہ زبان سے ظاہری طور پر دوستی کا اظہار کر سکتے ہیں۔
آیت (۱۱۸) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْا بِطَانَۃً مِّنْ دُوْنِکُمْ.
’’مومنو! کسی غیر (مذہب کے آدمی) کو اپنا رازداں نہ بنانا۔‘‘
.بِطَانَۃً.دلی دوست اور رازدار کو کہا جاتا ہے۔کافر اور مشرک مسلمانوں کے بارے میں جو جذبات و عزائم رکھتے ہیں،ان میں سے جن کا وہ اظہار کرتے اور جنھیں اپنے سینوں میں مخفی رکھتے ہیں،اللہ تعالیٰ نے ان سب کی نشان دہی فرما دی ہے۔یہ اور اِسی قسم کی دیگر آیات کے پیشِ نظر ہی علما و فقہا نے تحریر کیا ہے کہ ایک اسلامی مملکت میں غیر مسلموں کو کلیدی مناصب پر فائز کرنا جائز نہیں ہے۔مروی ہے کہ حضرت ابو موسیٰ اشعری رضی اللہ عنہ نے ایک (غیر مسلم) کو کاتب (سیکرٹری) رکھ لیا،حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے علم میں یہ بات آئی تو آپ نے انھیں سختی سے ڈانٹا اور فرمایا کہ تم انھیں اپنے قریب نہ کرو،جب کہ اللہ نے انھیں دور کر دیا ہے،ان کو عزت نہ بخشو جب کہ اللہ تعالیٰ نے انھیں ذلیل کر دیا ہے اور انھیں راز دار مت بنائو،جب کہ اللہ نے انھیں بددیانت قرار دیا ہے۔حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے اسی آیت سے استدلال کرتے ہوئے یہ ارشاد فرمایا۔امام قرطبی فرماتے ہیں:
’’اس زمانے میں اہلِ کتاب کو سیکرٹری اور امین بنانے کی وجہ سے احوال بدل گئے ہیں اور اِسی وجہ سے غبی و احمق لوگ سردار اور امرا بن گئے ہیں۔‘‘[532]
سورۃ النساء (آیت:۸۹) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.فَلَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ اَوْلِیَآئَ حَتّٰی یُھَاجِرُوْا فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ فَاِنْ تَوَلَّوْا فَخُذُوْھُمْ وَ اقْتُلُوْھُمْ حَیْثُ وَجَدْتُّمُوْھُمْ وَ لَا تَتَّخِذُوْا مِنْھُمْ وَلِیًّا وَّ لَا نَصِیْرًا.
’’جب تک وہ اللہ کی راہ میں وطن نہ چھوڑ جائیں،اُن میں سے کسی کو ولی نہ بنانا،اگر (ترکِ وطن کو) قبول نہ کریں تو اُن کو پکڑ لو اور جہاں پاؤ قتل کر دو اور ان میں سے کسی کو اپنا ولی اور مددگار نہ بناؤ۔‘‘
ہجرت (ترکِ وطن) اس کی دلیل ہوگی کہ اب یہ مخلص مسلمان ہوگئے ہیں۔اس صورت میں ان سے دوستی اور محبت جائز ہوگی۔
سورۃ النساء ہی کی آیت (۱۴۴) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْکٰفِرِیْنَ اَوْلِیَآئَ مِنْ دُوْنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اَتُرِیْدُوْنَ اَنْ تَجْعَلُوْا لِلّٰہِ عَلَیْکُمْ سُلْطٰنًا مُّبِیْنًا.
’’اے اہلِ ایمان! مومنوں کے سوا کافروں کو اَوْلِیَآ نہ بناؤ،کیا تم چاہتے ہو کہ اپنے اوپر اللہ کی صریح حجت لو؟‘‘
سورۃ المائدہ (آیت:۵۱) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الْیَھُوْدَ وَ النَّصٰرٰٓی اَوْلِیَآئَ بَعْضُھُمْ اَوْلِیَآئُ بَعْضٍ وَ مَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاِنَّہٗ مِنْھُمْ اِنَّ اللّٰہَ لَا یَھْدِی الْقَوْمَ الظّٰلِمِیْنَ.
’’اے ایمان والو! یہود اور نصاریٰ کو اَوْلِیَآ نہ بناؤ،یہ ایک دوسرے کے اَوْلِیَآ ہیں اور جو شخص تم میں سے انھیں اَوْلِیَآ بنائے گا،وہ بھی انھیں میں سے ہوگا،بے شک اللہ ظالم لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
سورۃ المائدہ (آیت:۵۷) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰٓأَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوا الَّذِیْنَ اتَّخَذُوْا دِیْنَکُمْ ھُزُوًا وَّ لَعِبًا مِّنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ الْکُفَّارَ اَوْلِیَآئَ وَ اتَّقُوا اللّٰہَ اِنْ کُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ.
’’اے ایمان والو! جن لوگوں کو تم سے پہلے کتابیں دی گئی تھیں،اُن کو اور کافروں کو جنھوں نے تمھارے دین کو ہنسی اور کھیل بنا رکھا ہے،دوست نہ بناؤ اور مومن ہو تو اللہ سے ڈرتے رہو۔‘‘
سورۃ التوبہ (آیت:۲۳) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَتَّخِذُوْٓا اٰبَآئَ کُمْ وَ اِخْوَانَکُمْ اَوْلِیَآئَ اِنِ اسْتَحَبُّوا الْکُفْرَ عَلَی الْاِیْمَانِ وَمَنْ یَّتَوَلَّھُمْ مِّنْکُمْ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الظّٰلِمُوْنَ.
’’اے اہلِ ایمان! اگر تمھارے (ماں ) باپ اور (بہن) بھائی ایمان کے مقابل کفر کو پسند کریں تو ان سے (ولی ) دوستی نہ رکھو اور جو ان سے دوستی رکھیں گے،وہ ظالم ہیں۔‘‘
سورۃ الممتحنہ (آیت:۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَّخِذُوْا عَدُوِّیْ وَعَدُوَّکُمْ اَوْلِیَآئَ تُلْقُوْنَ اِلَیْھِمْ بِالْمَوَدَّۃِ وَقَدْ کَفَرُوْا بِمَا جَآئَ کُمْ مِّنَ الْحَقِّ.
’’مومنو! اگر تم میری راہ میں لڑنے اور میری خوشنودی طلب کرنے کے لیے (مکے سے) نکلے ہو تو میرے اور اپنے دشمنوں کواَوْلِیَآ مت بناؤ ،تم تو ان کو دوستی کے پیغام بھیجتے ہو اور وہ (دین) حق کے جو تمھارے پاس آیا ہے،اس کے منکر ہیں۔‘‘
9۔ سورۃ الممتحنہ (آیت:۲) ہی میں ارشادِ الٰہی ہے:
.اِنْ یَّثْقَفُوْکُمْ یَکُوْنُوْا لَکُمْ اَعْدَآئً وَّیَبْسُطُوْٓا اِلَیْکُمْ اَیْدِیَھُمْ وَاَلْسِنَتَھُمْ بِالسُّوْٓئِ وَوَدُّوْا لَوْ تَکْفُرُوْنَ.
’’اگر یہ کافر تم پر قدرت پا لیں تو تمھارے دشمن ہو جائیں اور ایذا کے لیے تم پر ہاتھ (بھی) چلائیں اور زبانیں (بھی) اور چاہتے ہیں کہ تم کسی طرح کافر ہو جاؤ۔‘‘
اَلَمْ تَرَ اِلَی الَّذِیْنَ تَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ مَا ھُمْ مِّنْکُمْ وَلاَ مِنْھُمْ وَیَحْلِفُوْنَ عَلَی الْکَذِبِ وَھُمْ یَعْلَمُوْنَ (سورۃ المجادلہ 58:14)[533]
’’بھلا تم نے ان لوگوں کو نہیں دیکھا جو ایسوں سے دوستی کرتے ہیں،جن پر اللہ کا غضب ہوا،وہ نہ تم میں سے ہیں،نہ ان میں سے اور جان بوجھ کر جھوٹی باتوں پر قسمیں کھاتے ہیں۔‘‘
منافقوں کی یہود سے ملی بھگت :۔ان لوگوں سے سے مراد مدینہ کے منافق ہیں اور "مغضوب علیہ" قوم سے مراد مدینہ کے یہودی ہیں۔ منافقوں کی اصل دوستی اور ہمدردی یہودیوں سے تھی۔ کیونکہ اندر سے منافق بھی مسلمانوں کے ایسے ہی دشمن تھے جیسے یہودی۔ اسی اسلام دشمنی کی مشترک قدر نے ان دونوں کو دوستی کے رشتہ میں منسلک کردیا تھا۔ ان دونوں میں بدتر حالت منافقوں کی تھی جن کے زبانی دعویٰ ایمان پر مسلمانوں کا اعتبار اٹھ چکا تھا۔ چونکہ یہ لوگ اسلام کے دعویٰ کی وجہ سے مسلمانوں سے کئی قسم کے مفادات حاصل کر رہے تھے۔ لہذا مسلمانوں میں انہیں اپنا اعتماد بحال رکھنے کے لیے جھوٹی قسمیں بھی کھانا پڑتی تھیں۔ مگر ان کی کرتوتیں چونکہ ان کے دعویٰ اور قسموں کی تکذیب کردیتی تھیں۔ اس لیے ان پر نہ مسلمان اعتماد کرتے تھے اور نہ یہودی۔ ان کی حالت دھوبی کے کتے جیسی ہوگئی تھی جو نہ گھر کا شمار ہوتا ہے اور نہ گھاٹ کا- یہودیوں کے سامنے یہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم دل و جان سے تمہارے ساتھ ہیں اور تمہارے دکھ درد میں شریک ہیں اور مسلمانوں کو تو ہم نے محض اُلّو بنا رکھا ہے۔ اور مسلمانوں کے سامنے وہ یہ قسمیں کھاتے ہیں کہ ہم سچے دل سے اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاچکے ہیں اور ان کے اطاعت گزار اور فرمانبردار ہیں-
قرآن کریم کی بہت سی آیات میں موالات کفار کی شدید حرمت و ممانعت کے احکام آئے ہیں اور جو مسلمان کسی کافر سے دلی دوستی رکھے تو اس کو کفار ہی کے زمرہ میں شامل سمجھے جانے کی وعید آئی ہے لیکن یہ سب احکام دلی اور قلبی دوستی کے متعلق ہیں۔ کفار کے ساتھ حسن سلوک، ہمدردی، خیر خواہی، ان پر احسان، حسن اخلاق سے پیش آنا یا تجارتی اور اقتصادی معاملات ان سے کرنا، دوستی کے مفہوم میں داخل نہیں، یہ سب امور کفار کے ساتھ بھی جائز ہیں، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اور صحابہ کرام کا کھلا ہوا تعامل اس پر شاہد ہے، البتہ ان سب چیزوں میں اس کی رعایت ضروری ہے کہ ان کے ساتھ ایسے معاملات رکھنا اپنے دین کے لئے مضر نہ ہو اپنے ایمان اور عمل میں سستی پیدا نہ کرے اور دوسرے مسلمانوں کے لئے بھی مضر نہ ہو۔
سورۃ التوبۃ (آیت:۸۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ لَا تُصَلِّ عَلٰٓی اَحَدٍ مِّنْھُمْ مَّاتَ اَبَدًا وَّ لَا تَقُمْ عَلٰی قَبْرِہٖ اِنَّھُمْ کَفَرُوْا بِاللّٰہِ وَ رَسُوْلِہٖ وَ مَاتُوْا وَ ھُمْ فٰسِقُوْنَ.
’’اور (اے پیغمبر!) ان میں سے کوئی مر جائے تو کبھی اس (کے جنازے) پر نماز نہ پڑھنا اور نہ اس کی قبر پر (جا کر) کھڑے ہونا،یہ اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ کفر کرتے رہے اور مرے بھی تو نافرمان (ہی مرے)۔‘‘
یہ نمازِ جنازہ اور دعاے مغفرت نہ کرنے کی علّت ہے،جس کا مطلب یہ ہے کہ جن لوگوں کا خاتمہ کفر و نفاق اور فسق پر ہو،ان کی نمازِ جنازہ نہیں پڑھنی چاہیے اور نہ ان کے لیے دعاے مغفرت ہی کرنی چاہیے۔[534]
سورۃ التوبہ (آیت:۱۱۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.مَا کَانَ لِلنَّبِیِّ وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا اَنْ یَّسْتَغْفِرُوْا لِلْمُشْرِکِیْنَ وَ لَوْ کَانُوْٓا اُولِیْ قُرْبٰی مِنْم بَعْدِ مَا تَبَیَّنَ لَھُمْ اَنَّھُمْ اَصْحٰبُ الْجَحِیْمِ.
’’پیغمبر اور مسلمانوں کے شایانِ شان نہیں کہ جب ان پر ظاہر ہوگیا کہ مشرک اہلِ دوزخ ہیں تو اُن کے لیے بخشش مانگیں،گو وہ اُن کے قرابت دار ہی ہوں،اس امر کے ظاہر ہوجانے کے بعد کہ یہ لوگ دوزخی ہیں۔‘‘
صحیح بخاری اور مسند امام احمد میں ابن المسیب سے روایت ہے کہ ابو طالب جب بسترِ مرگ پر تھے تو نبیِ اقدس صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے،ان کے پاس ابو جہل اورعبداللہ بن ابو امیہ بیٹھے ہوئے تھے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابو طالب سے فرمایا:
’’اے چچا جان! آپ لا الٰہ الا اللہ کہہ دیجیے،میں اسی ایک جملہ کی آڑ لے کر اللہ کے پاس آپ کی بخشش کے لیے حجت پیش کروں گا۔‘‘
تو ابو جہل اور عبد اللہ بن ابی امیہ نے کہا:اے ابو طالب! کیا تم ملتِ عبدالمطلب سے روگردانی کروگے؟ تو ابو طالب نے کہا:میں واقعی ملتِ عبد المطلب پر جان دوں گا۔ نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’میں اس وقت تک آپ کی مغفرت کی دعا کرتا رہوں گا،جب تک اللہ مجھے روک نہ دے۔‘‘ چنانچہ یہ آیت نازل ہوئی۔[535]
اس آیت میں انصاف کرنے کی ترغیب بھی ہے،حتیٰ کہ کافروں کے ساتھ بھی۔حدیث میں انصاف کرنے والوں کی فضیلت یوں بیان ہوئی ہے:
(( اِنَّ الْمُقْسِطِینَ عِنْدَ اللّٰہِ عَلٰی مَنَابِرَ مِنْ نُوْرٍ،عَنْ یَمِیْنِ اللّٰہِ عَزَّ وَجَلَّ۔وَکِلْتَا یَدَیْہِ یَمِیْنٌ۔اَلَّذِینَ یَعْدِلُوْنَ فِيْ حُکْمِہِمْ وَأَہَلِہِمْ وَمَا وَلَّوْا )[536]
’’انصاف کرنے والے نور کے منبروں پر ہوں گے،جو رحمن کی دائیں جانب ہوں گے اور رحمن کے دونوں ہاتھ دائیں ہیں،جو اپنے فیصلوں میں،اپنے اہل میں اور اپنی رعایا میں انصاف کا اہتمام کرتے ہیں۔‘‘
کفار سے محبت کرنے والے ظالم ہیں،کیوں کہ انھوں نے ایسے لوگوں سے محبت کی ہے جو محبت کے اہل نہیں تھے،یوں انھوں نے اپنے نفسوں پر ظلم کیا کہ انھیں اللہ کے عذاب کے لیے پیش کر دیا۔
۔ سورۃ الممتحنہ آیت (۱۳) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لاَ تَتَوَلَّوْا قَوْمًا غَضِبَ اللّٰہُ عَلَیْھِمْ قَدْ یَئِسُوْا مِنَ الْاٰخِرَۃِ کَمَا یَئِسَ الْکُفَّارُ مِنْ اَصْحٰبِ الْقُبُوْرِ.
’’مومنو! ان لوگوں سے جن پر اللہ غصے ہوا ہے، ولی نہ بنانا (کیونکہ) جس طرح کافروں کو مُردوں (کے جی اٹھنے) کی امید نہیں،اسی طرح ان لوگوں کو بھی آخرت (کے آنے) کی امید نہیں۔‘‘
ان سے بعض علما نے یہود،بعض نے منافقین اور بعض نے تمام کافر مراد لیے ہیں۔یہ آخری قول ہی زیادہ صحیح ہے،کیوں کہ اس میں یہود و منافقین بھی آ جاتے ہیں،علاوہ ازیں سارے کفار ہی غضبِ الٰہی کے مستحق ہیں،اس لیے مطلب یہ ہوگا کہ کسی بھی کافر سے دوستانہ تعلق مت رکھو،جیسا کہ یہ مضمون قرآن مجید میں مذکورہ سابقہ کئی جگہوں پر بیان کیا گیا ہے۔
سورۃ النحل (آیت:۱۲۵ تا ۱۲۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اُدْعُ اِلٰی سَبِیْلِ رَبِّکَ بِالْحِکْمَۃِ وَ الْمَوْعِظَۃِ الْحَسَنَۃِ وَ جَادِلْھُمْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ اِنَّ رَبَّکَ ھُوَ اَعْلَمُ بِمَنْ ضَلَّ عَنْ سَبِیْلِہٖ وَ ھُوَ اَعْلَمُ بِالْمُھْتَدِیْنَ . وَ اِنْ عَاقَبْتُمْ فَعَاقِبُوْا بِمِثْلِ مَا عُوْقِبْتُمْ بِہٖ وَ لَئِنْ صَبَرْتُمْ لَھُوَ خَیْرٌ لِّلصّٰبِرِیْنَ . وَ اصْبِرْ وَ مَا صَبْرُکَ اِلَّا بِاللّٰہِ وَ لَا تَحْزَنْ عَلَیْھِمْ وَ لَا تَکُ فِیْ ضَیْقٍ مِّمَّا یَمْکُرُوْنَ . اِنَّ اللّٰہَ مَعَ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا وَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مُّحْسِنُوْنَ.
’’(اے پیغمبر!) لوگوں کو دانش اور نیک نصیحت سے اپنے رب کے راستے کی طرف بلاؤ اور بہت ہی اچھے طریق سے ان سے مناظرہ کرو،جو اس کے راستے سے بھٹک گیا،تمھارا رب اُسے بھی خوب جانتا ہے اور جو راستے پر چلنے والے ہیں اُن سے بھی خوب واقف ہے اور اگر تم اُن کوتکلیف دینی چاہو تو اتنی ہی دو جتنی تکلیف تمھیں اُن سے پہنچی اور اگر صبر کرو تو وہ صبر کرنے والوں کے لیے بہت اچھا ہے اور صبر ہی کرو اور تمھارا صبر بھی اللہ ہی کی مدد سے ہے اور ان کے بارے میں غم نہ کرو اور جویہ بد اندیشی کرتے ہیں اُس سے تنگ دل نہ ہو۔کچھ شک نہیں کہ جو پرہیزگار ہیں اور جو احسان کرنے والے ہیں،اللہ اُن کا مددگار ہے۔‘‘
اس لیے کہ اللہ تعالیٰ ان کے مکروں کے مقابلے میں اہلِ ایمان و تقویٰ اور محسنین کے ساتھ ہے اور جس کے ساتھ اللہ ہو،اسے اہلِ دنیا کی سازشیں نقصان نہیں پہنچا سکتیں،جیسا کہ آخری آیت میں ہے۔
سورۃ الصف (آیت:۱۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْٓا کُوْنُوْا اَنْصَارَ اللّٰہِ کَمَا قَالَ عِیْسَی ابْنُ مَرْیَمَ لِلْحَوٰرِیّٖنَ مَنْ اَنْصَارِیْٓ اِلَی اللّٰہِ قَالَ الْحَوَارِیُّوْنَ نَحْنُ اَنْصَارُ اللّٰہِ فَاٰمَنَتْ طَّائِفَۃٌ مِّنْم بَنِیْٓ اِسْرَآئِیْلَ وَکَفَرَتْ طَّآئِفَۃٌ فَاَیَّدْنَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلٰی عَدُوِّھِمْ فَاَصْبَحُوْا ظٰھِرِیْنَ.
’’مومنو! اللہ کے مددگار بن جاؤ جیسے عیسیٰ ابن مریم نے حواریوں سے کہا کہ (بھلا) کون ہیں جو اللہ کی طرف (بلانے میں ) میرے مددگار ہوں ؟ حواریوں نے کہا کہ ہم اللہ کے مددگار ہیں تو بنی اسرائیل میں سے ایک گروہ تو ایمان لے آیا اور ایک گروہ کافر رہا،آخر الامر ہم نے ایمان لانے والوں کو ان کے دشمنوں کے مقابلے میں مدد دی اور وہ غالب ہو گئے۔‘‘
حواریوں نے کہا:ہم آپ کے اس دین کی دعوت و تبلیغ میں مددگار ہیں،جس کی نشرو اشاعت کا حکم اللہ نے آپ کو دیا ہے۔اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایامِ حج میں فرماتے:کون ہے جو مجھے پناہ دے،تاکہ میں لوگوں تک اللہ کا پیغام پہنچا سکوں ؟ کیونکہ قریش مجھے فریضۂ رسالت ادا نہیں کرنے دیتے،حتیٰ کے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پکار پر مدینے کے اوس اور خز رج نے لبیک کہا،آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ پر انھوں نے بیعت کی اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی مدد کا وعدہ کیا۔
جو گروہ کا فر رہا وہ یہودی تھے،جنھوں نے نبوتِ عیسیٰ علیہ السلام ہی کا انکار نہیں کیا، بلکہ ان پر اور ان کی ماں پر بہتان تراشی کی۔ بعض کہتے ہیں کہ یہ اختلاف و تفرّق اس وقت ہوا،جب حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو آسمان پر اٹھا لیا گیا۔ایک نے کہا:عیسیٰ علیہ السلام کی شکل میں اللہ تعالیٰ ہی نے زمین پر ظہور فرمایا تھا،اب وہ پھر آسمان پر چلا گیا،یہ فرقہ یعقوبیہ کہلاتا ہے۔ نسطوریہ فرقے نے کہا:وہ اللہ کے بیٹے تھے،باپ نے بیٹے کو آسمان پر بلا لیا ہے،تیسرے فرقے نے کہا:وہ اللہ کے بندے اور اس کے رسول تھے،یہی فرقہ صحیح تھا۔ اب دوبارہ ایسے فرقے اٹھ کھڑے ہوے ہیں جو توحید پرست اور تثلیث کو مسترد کرتے ہیں Unitarian) Christians) کہلاتے ہیں[537]-
سورت لقمان (آیت:۱۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰبُنَیَّ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ وَاْمُرْ بِالْمَعْروْفِ وَانْہَ عَنِ الْمُنْکَرِ وَاصْبِرْ عَلٰی مَآ اَصَابَکَ اِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ.
’’بیٹا! نماز کی پابندی رکھنا اور (لوگوں کو) اچھے کاموں کے کرنے کا حکم دینا اور بُری باتوں سے منع کرتے رہنا اور جو مصیبت تجھ پر واقع ہو اُس پر صبر کرنا،بے شک یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔‘‘
سورۃ الدّھر (آیت:۲۴،۲۵،۲۶) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاصْبِرْ لِحُکْمِ رَبِّکَ وَلاَ تُطِعْ مِنْھُمْ اٰثِمًا اَوْ کَفُوْرًا . وَاذْکُرِ اسْمَ رَبِّکَ بُکْرَۃً وَّاَصِیْلًا . وَ مِنَ الَّیْلِ فَاسْجُدْ لَہٗ وَسَبِّحْہُ لَیْلًا طَوِیْلًا.
’’(اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم !) اپنے پروردگار کے حکم کے مطابق صبر کیے رہو اور ان لوگوں میں سے کسی بدعمل اور ناشکرے کا کہا نہ مانو۔اور صبح و شام اپنے پروردگار کا نام لیتے رہو۔اور رات کو لمبی مدت تک سجدے کرو اور ا س کی پاکی بیان کرتے رہو۔‘‘
اگر یہ گناہ گار و ناشکرے تجھے اللہ کے نازل کردہ احکام سے روکیں تو ان کا کہنا نہ مان،بلکہ تبلیغ و دعوت کا کام جاری رکھ اور اللہ پر بھروسا رکھ،وہ لوگوں سے تیری حفاظت فرمائے گا۔’’آثم‘‘ جو افعال میں اللہ کی نافرمانی کرنے والا ہو اور ’’کفور‘‘ جو دل سے کفر کرنے والا ہو یا کفر میں حد سے بڑھ جانے والا ہو۔بعض کہتے ہیں کہ اس سے مراد ولید بن مغیرہ ہے،جس نے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا تھا کہ اس کام سے باز آجا،تجھے تیرے کہنے کے مطابق دولت مہیا کر دیتے ہیں اور عرب کی جس عورت سے تو شادی کرنا چاہے،ہم تیری شادی کرا دیتے ہیں۔
سورۃ المائدہ (آیت:۱۰۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا عَلَیْکُمْ اَنْفُسَکُمْ لَا یَضُرُّکُمْ مَّنْ ضَلَّ اِذَا اھْتَدَیْتُمْ اِلَی اللّٰہِ مَرْجِعُکُمْ جَمِیْعًا فَیُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.
’’اے ایمان والو! اپنی جانوں کی حفاظت کرو،جب تم ہدایت پر ہو تو کوئی گمراہ تمھارا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتا،تم سب کو اللہ کی طرف لوٹ کر جانا ہے،اس وقت وہ تمھیں تمھارے سب کاموں سے جو (دنیا میں ) کیے تھے،آگاہ کرے گا (اور ان کا بدلہ دے گا)۔‘‘
بعض لوگوں کے ذہن میں ظاہری الفاظ سے یہ شبہہ پیدا ہوا کہ اپنی اصلاح اگر کر لی جائے تو کافی ہے۔امر بالمعروف و نہی عن المنکر ضروری نہیں ہے،لیکن یہ مطلب صحیح نہیں ہے،کیونکہ امر بالمعروف کا فریضہ بھی نہایت اہم ہے۔اگر ایک مسلمان یہ فریضہ ہی ترک کر دے گا تو اس کا تارک ہدایت پر قائم رہنے والا کب رہے گا؟ جب کہ قرآن نے ’’جب تم خود ہی ہدایت پر چل رہے ہو‘‘ کی شرط عائد کی ہے۔اس لیے جب حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے علم میں یہ بات آئی تو انھوں نے فرمایا:’’لوگو! تم آیت کو غلط جگہ استعمال کر رہے ہو،میں نے تو نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا ہے کہ جب لوگ برائی ہوتے ہوئے دیکھ لیں اور اسے بدلنے کی کوشش نہ کریں تو قریب ہے کہ اللہ تعالیٰ انھیں اپنے عذاب کی گرفت میں لے لے۔‘‘ اس لیے آیت کا صحیح مطلب یہ ہے کہ تمھارے سمجھانے کے باوجود اگر لوگ نیکی کا راستہ اختیار نہ کریں یا برائی سے باز نہ آئیں تو تمھارے لیے یہ نقصان دہ نہیں ہے،جب کہ تم خود نیکی پر قائم اور برائی سے مجتنب ہو۔
سورۃ البلد (آیت:۱۷) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.ثُمَّ کَانَ مِنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ وَتَوَاصَوْا بِالْمَرْحَمَۃِ.
’’پھر ان لوگوں میں بھی (داخل) ہوجاتا جو ایمان لائے اور صبر کی نصیحت کی اور (لوگوں پر) شفقت کرنے کی وصیت کرتے رہے۔‘‘
۔سورۃ العصر میں ارشادِ ربانی ہے:
.وَالْعَصْرِ . اِنَّ الْاِنْسَانَ لَفِیْ خُسْرٍ . اِلَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَتَوَاصَوْا بِالْحَقِّ وَتَوَاصَوْا بِالصَّبْرِ.
’’عصر کی قسم! کہ انسان نقصان میں ہے۔مگر وہ لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے اور آپس میں حق (بات) کی تلقین اور صبر کی تاکید کرتے رہے۔‘‘
سورۃ الحج (آیت:۷۷،۷۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا ارْکَعُوْا وَ اسْجُدُوْا وَ اعْبُدُوْا رَبَّکُمْ وَ افْعَلُوا الْخَیْرَ لَعَلَّکُمْ تُفْلِحُوْنَ . وَ جَاھِدُوْا فِی اللّٰہِ حَقَّ جِھَادِہٖ ھُوَ اجْتَبٰکُمْ وَ مَا جَعَلَ عَلَیْکُمْ فِی الدِّیْنِ مِنْ حَرَجٍ مِلَّۃَ اَبِیْکُمْ اِبْرٰھِیْمَ ھُوَ سَمّٰکُمُ الْمُسْلِمِیْنَ مِنْ قَبْلُ وَ فِیْ ھٰذَا لِیَکُوْنَ الرَّسُوْلُ شَھِیْدًا عَلَیْکُمْ وَ تَکُوْنُوْا شُھَدَآئَ عَلَی النَّاسِ فَاَقِیْمُوا الصَّلٰوۃَ وَ اٰتُوا الزَّکٰوۃَ وَ اعْتَصِمُوْا بِاللّٰہِ ھُوَ مَوْلٰکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَ نِعْمَ النَّصِیْرُ.
’’مومنو! رکوع کرتے اور سجدے کرتے اور اپنے رب کی عبادت کرتے رہو اور نیک کام کرو تاکہ فلاح پاؤ۔اور اللہ (کی راہ) میں جہاد کرو،جیسا جہاد کرنے کا حق ہے،اُس نے تمھیں برگزیدہ کیا ہے اور تم پر دین (کی کسی بات) میں تنگی نہیں کی (اور تمھارے لیے) تمھارے باپ ابراہیم کا دین (پسند کیا) اُسی نے پہلے (پہلی کتابوں میں ) تمھارا نام مسلمان رکھا تھا اور اس کتاب میں بھی (وہی نام رکھا ہے تو جہاد کرو) تاکہ پیغمبر تمھارے بارے میں شاہد ہوں اور تم لوگوں کے مقابلے میں شاہد ہو اور نماز پڑھو اور زکات دو اور اللہ (کے دین کی رسی) کو پکڑے رہو،وہی تمھارا دوست ہے اور خوب مددگار ہے۔‘‘
اس جہاد سے مراد بعض نے وہ جہاد اکبر لیا ہے جو اعلاے کلمۃ اللہ کے لیے کفار و مشرکین سے کیا جاتا ہے اور بعض نے اداے امرِ الٰہی کی بجاآوری کہ اس میں بھی نفسِ امارہ اور شیطان کا مقابلہ کرنا پڑتا ہے اور بعض نے ہر وہ کوشش مراد لی ہے جو حق اور صداقت کے غلبے اور باطل کی سرکوبی اور مغلوبیت کے لیے کی جائے۔
1۔پارہ18.قَدْ اَفْلَحَ.سورۃ المومنون (آیت:۱ تا ۱۱) میں فرمایا:
.قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَ . الَّذِیْنَ ھُمْ فِیْ صَلاَتِھِمْ خَاشِعُوْنَ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَنِ اللَّغْوِ مُعْرِضُوْنَ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِلزَّکٰوۃِ فَاعِلُوْنَ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حَافِظُوْنَ . اِلَّا عَلٰی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ . فَمَنِ ابْتَغٰی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْعَادُوْنَ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمَانٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رَاعُوْنَ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلَوَاتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ . اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْوَارِثُوْنَ . الَّذِیْنَ یَرِثُوْنَ الْفِرْدَوْسَ ھُمْ فِیْھَا خٰلِدُوْنَ.
’’بے شک ایمان والے فلاح پا گئے۔جو نماز میں عجز و نیاز کرتے ہیں۔اور جو بے ہودہ باتوں سے منہ موڑے رہتے ہیں۔اور زکات ادا کرتے ہیں۔اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔مگر اپنی بیویوں یا (کنیزوں سے) جو ان کی ملک ہوتی ہیں کہ (ان سے) مباشرت کرنے سے انھیں ملامت نہیں۔اور جو ان کے سوا اوروں کے طالب ہوں،وہ (اللہ کی مقرر کی ہوئی حد سے) نکل جانے والے ہیں۔اور جو امانتوں اور اقراروں کو ملحوظ رکھتے ہیں۔اور جو نمازوں کی پابندی کرتے ہیں۔یہی لوگ میراث حاصل کرنے والے ہیں۔جو بہشت کی میراث حاصل کریں گے اور اس میں ہمیشہ رہیں گے۔‘‘
یہی کامیابی پانے والے اہلِ ایمان ہیں اور رحمن کے سچے بندے ہیں۔جنھیں عبادالرحمن کے اوصاف والے بھی کہا جاسکتا ہے۔
"عباد الرحمن" کے بعض اوصاف کی تفصیل کے لیے سورۃ الفرقان (آیت:۶۳ تا آخر ۷۶) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا . وَالَّذِیْنَ یَبِیْتُوْنَ لِرَبِّھِمْ سُجَّدًا وَّقِیَامًا . وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَھَنَّمَ اِنَّ عَذَابَھَا کَانَ غَرَامًا . اِنَّھَا سَآئَ تْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا . وَالَّذِیْنَ اِذَا اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَلَمْ یَقْتُرُوْا وَکَانَ بَیْنَ ذٰلِکَ قَوَامًا . وَالَّذِیْنَ لاَ یَدْعُوْنَ مَعَ اللّٰہِ اِلٰھًا اٰخَرَ وَلاَ یَقْتُلُوْنَ النَّفْسَ الَّتِیْ حَرَّمَ اللّٰہُ اِلَّا بِالْحَقِّ وَلاَ یَزْنُوْنَ وَمَنْ یَّفْعَلْ ذٰلِکَ یَلْقَ اَثَامًا . یُّضٰعَفْ لَہٗ الْعَذَابُ یَوْمَ الْقِیٰمَۃِ وَیَخْلُدْ فِیْہٖ مُھَانًا . اِلَّا مَنْ تَابَ وَاٰمَنَ وَعَمِلَ عَمَلًا صَالِحًا فَاُوْلٰٓئِکَ یُبَدِّلُ اللّٰہُ سَیِّاٰتِھِمْ حَسَنٰتٍ وَکَانَ اللّٰہُ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا . وَمَنْ تَابَ وَعَمِلَ صَالِحًا فَاِنَّہٗ یَتُوْبُ اِلَی اللّٰہِ مَتَابًا . وَالَّذِیْنَ لاَ یَشْھَدُوْنَ الزُّوْرَ وَاِذَا مَرُّوْا بِاللَّغْوِ مَرُّوْا کِرَامًا . وَالَّذِیْنَ اِذَا ذُکِّرُوْا بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ لَمْ یَخِرُّوْا عَلَیْھَا صُمًّا وَّعُمْیَانًا . وَالَّذِیْنَ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا ھَبْ لَنَا مِنْ اَزْوَاجِنَا وَذُرِّیّٰتِنَا قُرَّۃَ اَعْیُنٍ وَّاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِیْنَ اِمَامًا . اُولٰٓئِکَ یُجْزَوْنَ الْغُرْفَۃَ بِمَا صَبَرُوْا وَیُلَقَّوْنَ فِیْھَا تَحِیَّۃً وَّسَلٰمًا . خٰلِدِیْنَ فِیْھَا حَسُنَتْ مُسْتَقَرًّا وَّمُقَامًا.
’’اور اللہ کے بندے تو وہ ہیں،جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں۔اور جو اپنے رب کے آگے سجدہ کر کے اور (عجز و ادب سے) کھڑے رہ کر راتیں بسر کرتے ہیں۔اور وہ جو دعا مانگتے ہیں کہ اے اللہ! دوزخ کے عذاب کو ہم سے دُور رکھنا کہ اُس کا عذاب بڑی تکلیف کی چیز ہے۔اور دوزخ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت بُری جگہ ہے۔اور جب وہ خرچ کرتے ہیں تو نہ بے جا اڑاتے ہیں اور نہ تنگی کو کام میں لاتے ہیں بلکہ اعتدال کے ساتھ نہ ضرورت سے زیادہ نہ کم۔اور وہ جو اللہ کے ساتھ کسی اور کو معبود نہیں پکارتے اور جس جاندار کا مار ڈالنا اللہ نے حرام کیا ہے،اُس کو قتل نہیں کرتے مگر جائز طریق پر (حکمِ شریعت کے مطابق) اور بدکاری نہیں کرتے اور جو یہ کام کرے گا سخت گناہ میں مبتلا ہوگا۔قیامت کے دن اس کو دوگنا عذاب ہو گا اور ذلت اور خواری سے اس میں ہمیشہ رہے گا۔مگر جس نے توبہ کی اور ایمان لایا اور اچھے کام کیے تو ایسے لوگوں کے گناہوں کو اللہ نیکیوں سے بدل دے گا اور اللہ توبخشنے والا مہربان ہے۔اور جو توبہ کرتا ہے اور نیک عمل کرتا ہے تو بے شک وہ اللہ کی طرف رجوع کرتا ہے۔اور وہ جو جھوٹی گواہی نہیں دیتے اور جب ا ن کو بے ہودہ چیزوں کے پاس سے گزرنے کا اتفاق ہو تو بزرگانہ انداز سے گزرجاتے ہیں۔اور وہ کہ جب ان کو رب کی باتیں سمجھائی جاتی ہیں تو ان پر اندھے اور بہرے ہو کر نہیں گرتے (بلکہ غور سے سنتے ہیں )۔اور وہ جو (اللہ سے) دعا مانگتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہم کو ہماری بیویوں کی طرف سے (دل کا چین) اور اولاد کی طرف سے آنکھ کی ٹھنڈک عطا فرما اور ہمیں پرہیزگاروں کا امام بنا۔ان (صفات کے) لوگوں کو ان کے صبر کے بدلے اونچے اونچے محل دیے جائیں گے اور وہاں فرشتے ان سے دعا و سلام کے ساتھ ملاقات کریں گے۔اس میں وہ ہمیشہ رہیں گے اور وہ ٹھہرنے اور رہنے کی بہت ہی عمدہ جگہ ہے۔‘‘
۔سورۃ المعارج (آیت:۱۹ سے ۳۵) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.اِنَّ الْاِنْسَانَ خُلِقَ ھَلُوْعًا . اِذَا مَسَّہُ الشَّرُّ جَزُوْعًا . وَاِذَا مَسَّہُ الْخَیْرُ مَنُوْعًا . اِلَّا الْمُصَلِّیْنَ . الَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلاَتِھِمْ دَآئِمُوْنَ . وَالَّذِیْنَ فِیْ اَمْوَالِھِمْ حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ . لِّلسَّآئِلِ وَالْمَحْرُوْمِ . وَالَّذِیْنَ یُصَدِّقُوْنَ بِیَوْمِ الدِّیْنِ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ مِّنْ عَذَابِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ . اِنَّ عَذَابَ رَبِّھِمْ غَیْرُ مَاْمُوْنٍ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِفُرُوْجِھِمْ حٰفِظُوْنَ . اِلَّا عَلٰٓی اَزْوَاجِھِمْ اَوْ مَا مَلَکَتْ اَیْمَانُھُمْ فَاِنَّھُمْ غَیْرُ مَلُوْمِیْنَ . فَمَنِ ابْتَغَی وَرَآئَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْعٰدُوْنَ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ لِاَمٰنٰتِھِمْ وَعَھْدِھِمْ رٰعُوْنَ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِشَھٰدٰتِھِمْ قَآئِمُوْنَ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ عَلٰی صَلاَتِھِمْ یُحَافِظُوْنَ . اُولٰٓئِکَ فِیْ جَنّٰتٍ مُّکْرَمُوْنَ.
’’کچھ شک نہیں کہ انسان کم حوصلہ پیدا ہوا ہے۔جب اسے تکلیف پہنچتی ہے تو گھبرا اٹھتا ہے۔اور جب آسایش حاصل ہوتی ہے تو بخیل بن جاتا ہے۔مگر نماز گزار۔جو نماز کا التزام رکھتے (اور بلاناغہ پڑھتے) ہیں۔اور جن کے مال میں حصہ مقرر ہے۔(یعنی) مانگنے والے کا اور نہ مانگنے والے کا۔اور جو روزِ جزا کو سچ سمجھتے ہیں۔اور جو اپنے پروردگار کے عذاب سے خوف رکھتے ہیں۔ بے شک ان کے پروردگار کا عذاب ہے ہی ایسا کہ اس سے بے خوف نہ ہوا جائے۔اور جو اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کرتے ہیں۔مگر اپنی بیویوں یا لونڈیوں سے کہ (ان کے پاس جانے پر) انھیں کچھ ملامت نہیں۔اور جو لوگ ان کے سوا اور کے خواستگار ہوں،وہ حد سے نکل جانے والے ہیں۔اور جو اپنی امانتوں اور اقراروں کا پاس کرتے ہیں۔اور جو اپنی شہادتوں پر قائم رہتے ہیں۔اور جو اپنی نماز کی خبر رکھتے ہیں۔یہی لوگ باغ ہاے بہشت میں عزت و اکرام سے ہوں گے۔‘‘
سورۃ النور (آیت:۳۷،۳۸) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.رِجَالٌ لاَّ تُلْھِیْھِمْ تِجَارَۃٌ وَّلاَ بَیْعٌ عَنْ ذِکْرِ اللّٰہِ وَاِقَامِ الصَّلٰوۃِ وَاِیْتَآئِ الزَّکٰوۃِ یَخَافُوْنَ یَوْمًا تَتَقَلَّبُ فِیْہِ الْقُلُوْبُ وَالْاَبْصَارُ . لِیَجْزِیَھُمُ اللّٰہُ اَحْسَنَ مَا عَمِلُوْا وَیَزِیْدَھُمْ مِّنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ یَرْزُقُ مَنْ یَّشَآئُ بِغَیْرِ حِسَابٍ.
’’(یعنی ایسے) لوگ جن کو اللہ کے ذکراور نماز پڑھنے اور زکات دینے سے نہ سوداگری غافل کرتی ہے اور نہ خرید و فروخت،وہ اس دن سے جب دل (خوف و گھبراہٹ کے سبب) الٹ جائیں گے اور آنکھیں (اوپر کو چڑھ جائیں گی) ڈرتے ہیں۔تاکہ اللہ ان کو ان کے اعمال کا بہت اچھا بدلا دے اور اپنے فضل سے زیادہ بھی عطا کرے اور جس کو چاہتا ہے اللہ بے شمار رزق دیتا ہے۔‘‘
سورۃ الفرقان (آیت:۶۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَعِبَادُ الرَّحْمٰنِ الَّذِیْنَ یَمْشُوْنَ عَلَی الْاَرْضِ ھَوْنًا وَّاِذَا خَاطَبَھُمُ الْجٰھِلُوْنَ قَالُوْا سَلٰمًا.
’’اور اللہ کے بندے تو وہ ہیں جو زمین پر آہستگی سے چلتے ہیں اور جب جاہل لوگ ان سے (جاہلانہ) گفتگو کرتے ہیں تو سلام کہتے ہیں۔‘‘
سورۃ المومنون (آیت:۵۷۔۶۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّ الَّذِیْنَ ھُمْ مِنْ خَشْیَۃِ رَبِّھِمْ مُّشْفِقُوْنَ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِاٰیٰتِ رَبِّھِمْ یُؤْمِنُوْنَ . وَالَّذِیْنَ ھُمْ بِرَبِّھِمْ لاَ یُشْرِکُوْنَ . وَالَّذِیْنَ یُؤْتُوْنَ مَآ اٰتَوا وَّقُلُوْبَھُمْ وَجِلَۃٌ اَنَّھُمْ اِلٰی رَبِّھِمْ رٰجِعُوْنَ . اُولٰٓئِکَ یُسٰرِعُوْنَ فِی الْخَیْرٰتِ وَھُمْ لَھَا سٰبِقُوْنَ.
’’جو لوگ اپنے پروردگار کے خوف سے ڈرتے ہیں۔اور جو لوگ اپنے پروردگار کی آیتوں پر ایمان رکھتے ہیں۔اور جو اپنے پروردگار کے ساتھ شریک نہیں کرتے۔اور جو دے سکتے ہیں وہ دیتے ہیں اور ان کے دل اس بات سے ڈرتے رہتے ہیں کہ ان کو اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانا ہے۔یہی لوگ نیکیوں میں جلدی کرتے ہیں اور یہی ان کے لیے آگے نکل جاتے ہیں۔‘‘
مومن نیک اعمال کر کے بھی ڈرتے ہیں۔فرمان ہے کہ احسان اور ایمان کے ساتھ ہی ساتھ نیک اعمال اور پھر اللہ کی ہیبت سے تھرتھرانا اور کانپتے رہنا،یہ ان کی صفت ہے۔[538]
وہ اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں،لیکن اللہ سے ڈرتے ہیں کہ کسی کوتاہی کی وجہ سے ہمارا عمل یا صدقہ غیر مقبول قرار نہ پائے۔حدیث میں آتا ہے کہ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا:ڈرنے والے کون ہیں ؟ وہ جو شراب پیتے،بدکاری کرتے اور چوریاں کرتے ہیں ؟ نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:’’نہیں،بلکہ یہ وہ لوگ ہیں جو نماز پڑھتے،روزہ رکھتے اور صدقہ و خیرات کرتے ہیں لیکن ڈرتے رہتے ہیں کہ کہیں یہ غیر مقبول نہ ٹھہریں۔‘‘[539]
برائی کو بھلائی سے دفع کرنا
سورۃ المومنون (آیت:۹۶،۹۷،۹۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِدْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ السَّیِّئَۃَ نَحْنُ اَعْلَمُ بِمَا یَصِفُوْنَ . وَقُلْ رَّبِّ اَعُوْذُبِکَ مِنْ ھَمَزٰتِ الشَّیٰطِیْنِ . وَاَعُوْذُ بِکَ رَبِّ اَنْ یَّحْضُرُوْنِ.
’’ اور بُری بات کے جواب میں ایسی بات کہو جو نہایت اچھی ہو اور جو کچھ یہ بیان کرتے ہیں ہمیں خوب معلوم ہے۔اور کہو کہ ا ے پروردگار! میں شیطانوں کے وسوسوں سے تیری پناہ مانگتا ہوں۔اور اے پروردگار! اس سے بھی تیری پناہ مانگتا ہوں کہ وہ میرے پاس آ موجود ہوں۔‘‘
جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا:
.وَلاَ تَسْتَوِی الْحَسَنَۃُ وَلاَ السَّیِّئَۃُ ادْفَعْ بِالَّتِیْ ھِیَ اَحْسَنُ فَاِذَا الَّذِیْ بَیْنَکَ وَبَیْنَہٗ عَدَاوَۃٌ کَاَنَّہٗ وَلِیٌّ حَمِیْمٌ.[حم السجدۃ:۳۴]
’’برائی ایسے طریقے سے دور کرو جو اچھا ہو،اس کا نتیجہ یہ ہوگا کہ تمھارا دشمن بھی،تمھارا گہرا دوست بن جائے گا۔‘‘
سورۃ القصص (آیت:۷۷) میں فرمایا:
.وَ ابْتَغِ فِیْمَآ اٰتٰکَ اللّٰہُ الدَّارَ الْاٰخِرَۃَ وَ لَا تَنْسَ نَصِیْبَکَ مِنَ الدُّنْیَا وَ اَحْسِنْ کَمَآ اَحْسَنَ اللّٰہُ اِلَیْکَ وَ لَا تَبْغِ الْفَسَادَ فِی الْاَرْضِ اِنَّ اللّٰہَ لَا یُحِبُّ الْمُفْسِدِیْنَ.
’’اور جو (مال) تمھیں اللہ نے عطا فرمایا ہے،اس سے آخرت (کی بھلائی) طلب کریں اور دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے اور جیسی اللہ نے تم سے بھلائی کی ہے،(ویسی) تم بھی (لوگوں سے) بھلائی کرو اور ملک میں طالبِ فساد نہ ہو،کیونکہ اللہ فساد کرنے والوں کو دوست نہیں رکھتا۔‘‘
دنیا سے اپنا حصہ نہ بھلائیے کا مطلب یہ ہے کہ دنیا کے مباحات پر بھی اعتدال کے ساتھ خرچ کر۔مباحاتِ دنیا کیا ہیں ؟ کھانا،پینا،لباس،گھر اور نکاح وغیرہ،مطلب یہ ہے کہ جس طرح تجھ پر تیرے رب کاحق ہے،اسی طرح تیرے اپنے نفس کا، بیوی بچوں کا اور مہمانوں وغیرہ کا بھی حق ہے،لہٰذا ہر حق والے کو اس کا حق دے۔
سورۃ النور (آیت:۱۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.لَوْلآاِذْ سَمِعْتُمُوْھُ ظَنَّ الْمُؤْمِنُوْنَ وَالْمُؤْمِنٰتُ بِاَنْفُسِھِمْ خَیْرًا وَّقَالُوْا ھٰذَا اِفْکٌ مُّبِیْنٌ.
’’جب تم نے وہ بات سنی تھی تو مومن مردوں اور عورتوں نے کیوں اپنے دلوں میں نیک گمان نہ کیا اور کیوں نہ کہاکہ یہ صریح طوفان ہے۔‘‘
یہاں تربیت کے بعض ان پہلوئوں کو نمایاں کیا جا رہا ہے جو حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت کے واقعے میں مضمر ہیں۔ان میں سب سے پہلی بات یہ ہے کہ اہلِ ایمان ایک جان کی طرح ہیں،جب حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا پر تہمت طرازی کی گئی تو تم نے اپنے اوپر قیاس کرتے ہوئے فوراً اس کی تردید کیوں نہ کی اور اسے بہتانِ صریح کیوں قرار نہیں دیا؟
سورۃ النور (آیت:۲۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
[1] سنن أبي داود کتاب الطب،رقم الحدیث (۱۵۵۲) مسند أحمد (۲؍ ۱۸۱)
.وَلاَ یَاْتَلِ اُوْلُوا الْفَضْلِ مِنْکُمْ وَالسَّعَۃِ اَنْ یُّؤْتُوْٓا اُوْلِی الْقُرْبٰی وَالْمَسٰکِیْنَ وَالْمُھٰجِرِیْنَ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰہِ وَلْیَعْفُوْا وَلْیَصْفَحُوْا اَلاَ تُحِبُّونَ اَنْ یَّغْفِرَ اللّٰہُ لَکُمْ وَاللّٰہُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
’’اور جو لوگ تم میں صاحبِ فضل (اور صاحبِ) وسعت ہیں،وہ اس بات کی قسم نہ کھائیں کہ رشتے داروں اور محتاجوں اور وطن چھوڑ جانے والوں کو کچھ خرچ پات نہیں دیں گے،ان کو چاہیے کہ معاف کر دیں اور درگزر کریں،کیا تم پسند نہیں کرتے ہو کہ اللہ تمھیں بخش دے اور اللہ تو بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
سورۃ النور (آیت:۳۲،۳۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَاَنْکِحُوْا الْاَیَامٰی مِنْکُمْ وَالصّٰلِحِیْنَ مِنْ عِبَادِکُمْ وَاِمَآئِکُمْ اِنْ یَّکُوْنُوْا فُقَرَآئَ یُغْنِھِمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَاللّٰہُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ . وَلْیَسْتَعْفِفِ الَّذِیْنَ لاَ یَجِدُوْنَ نِکَاحًا حَتّٰی یُغْنِیَھُمُ اللّٰہُ مِنْ فَضْلِہٖ وَالَّذِیْنَ یَبْتَغُونَ الْکِتٰبَ مِمَّا مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ فَکَاتِبُوْھُمْ اِنْ عَلِمْتُمْ فِیْھِمْ خَیْرًا وَّاٰتُوھُمْ مِّنْ مَّالِ اللّٰہِ الَّذِیْٓ اٰتٰکُمْ وَلاَ تُکْرِھُوا فَتَیٰتِکُمْ عَلَی الْبِغَآئِ اِنْ اَرَدْنَ تَحَصُّنًا لِّتَبْتَغُوْا عَرَضَ الْحَیٰوۃِ الدُّنْیَا وَمَنْ یُّکْرِھْھُّنَّ فَاِنَّ اللّٰہَ مِنْم بَعْدِ اِکْرَاھِھِنَّ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ.
’’اور اپنی قوم کی بیوہ عورتوں کے نکاح کر دیا کرو اور اپنے غلاموں اور لونڈیوں کے بھی جو نیک ہوں (نکاح کر دیا کرو) اگر وہ مفلس ہوں گے تو اللہ ان کو اپنے فضل سے خوش حال کر دے گا اور اللہ (بہت)
وسعت والا اور (سب کچھ) جاننے والا ہے۔اور جن کو بیاہ کا مقدور نہ ہو،وہ پاک دامنی کو اختیار کیے رہیں،یہاں تک کہ اللہ ان کو اپنے فضل سے غنی کر دے اور جو غلام تم سے مکاتبت چاہیں،اگر تم ان میں (صلاحیت اور) نیکی پاؤ تو ان سے مکاتبت کر لو اور اللہ نے جومال تمھیں بخشا ہے،اس میں سے ان کو بھی دو ا ور اپنی لونڈیوں کو اگر وہ پاک دامن رہنا چاہیں تو (بے شرمی سے) دنیوی زندگی کے فوائد حاصل کرنے کے لیے بدکاری پر مجبور نہ کرنا اور جو ان کو مجبور کرے گا تو ان (بیچاریوں ) کے مجبور کیے جانے کے بعد اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔‘‘
نکاح کرنا واجب ہے،جب کہ بعض نے اسے مباح و جائز اور بعض نے مستحب و پسندیدہ قرار دیا ہے۔تاہم استطاعت رکھنے والے کے لیے یہ سنتِ موکدہ بلکہ بعض حالات میں واجب ہے اور اس سے اجتناب کرنے کی سخت وعید ہے۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان ہے:
’’جس نے میری سنت سے انکار کیا،وہ مجھ سے نہیں۔‘‘[540]
محض غربت اور تنگ دستی نکاح میں مانع نہیں ہونی چاہیے،ممکن ہے نکاح کے بعد اللہ ان کی تنگ دستی کو اپنے فضل سے وسعت ورزق میں بدل دے۔حدیث میں آتا ہے کہ تین شخص ہیں جن کی اللہ ضرور مدد فرماتا ہے:
1۔ نکاح کرنے والا جو پاک دامنی کی نیت سے نکاح کرتا ہے۔
2۔ مکاتب غلام،جو ادا کرنے کی نیت رکھتا ہے۔
3۔ اور اللہ کی راہ میں جہاد کرنے والا۔[541]
جب تک شادی کی استطاعت حاصل نہ ہوجائے،پاکدامنی کے لیے نفلی روزے رکھنے کی تاکید کی گئی ہے۔فرمایا:
’’اے نوجوانوں کی جماعت! تم میں سے جو شادی کی طاقت رکھتا ہے،اسے (اپنے وقت پر) شادی کرلینی چاہیے،اس لیے کہ اس سے آنکھوں اور شرم گاہ کی حفاظت ہوجاتی ہے اور جو شادی کی طاقت نہیں رکھتا،اسے چاہیے کہ وہ (کثرت سے نفلی) روزے رکھے،روزے اس کی جنسی خواہش کو قابو میں رکھیں گے۔‘[542]
-236 فرماں برداری،راہِ ہدایت اور پیغام رسانی:
سورۃ النور (آیت:۵۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قُلْ اَطِیعُوا اللّٰہَ وَاَطِیعُوا الرَّسُوْلَ فَاِنْ تَوَلَّوا فَاِنَّمَا عَلَیْہِ مَا حُمِّلَ وَعَلَیْکُمْ مَّا حُمِّلْتُمْ وَاِنْ تُطِیعُوْہُ تَھْتَدُوْا وَمَا عَلَی الرَّسُوْلِ اِلَّا الْبَلٰغُ الْمُبِیْنُ.
’’کہہ دو کہ اللہ کی فرماں برداری کرو اور رسول اللہ کے حکم پر چلو،اگر منہ موڑو گے تو رسول پر (اس چیز کا ادا کرناہے) جو ان کے ذمے ہے اور تم پر (اس چیز کا ادا کرنا) ہے جو تمھارے ذمے ہے اور اگر تم ان کے فرمان پر چلو گے تو سیدھا راستہ پاؤ گے اور رسول کے ذمے تو صاف صاف (احکامِ الٰہی کا) پہنچا دینا ہے۔‘‘
کوئی ان کی دعوت کو مانے یا نہ مانے،جس طرح دوسرے مقام پر فرمایا:
.فَاِنَّمَا عَلَیْکَ الْبَلٰغُ وَ عَلَیْنَا الْحِسَابُ.[الرعد:۴۰]
’’اے پیغمبر! تیرا کام صرف (ہمارے احکام) پہنچا دینا ہے (کوئی مانتا ہے یا نہیں ) اور حساب ہماری ذمے داری ہے۔‘‘
سورۃ النور (آیت:۵۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لِیَسْتَاْذِنْکُمْ الَّذِیْنَ مَلَکَتْ اَیْمَانُکُمْ وَالَّذِیْنَ لَمْ یَبْلُغُوْا الْحُلُمَ مِنْکُمْ ثَلٰثَ مَرّٰتٍ مِّنْ قَبْلِ صَلٰوۃِ الْفَجْرِ وَحِیْنَ تَضَعُوْنَ ثِیَابَکُمْ مِّنَ الظَّھِیرَۃِ وَمِنْم بَعْدِ صَلٰوۃِ الْعِشَآئِ ثَلٰثُ عَوْرٰتٍ لَّکُمْ لَیْسَ عَلَیْکُمْ وَلاَ عَلَیْھِمْ جُنَاحٌم بَعْدَھُنَّ طَوّٰفُوْنَ عَلَیْکُمْ بَعْضُکُمْ عَلٰی بَعْضٍ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ.
’’مومنو! تمھارے غلام لونڈیاں اور جو بچے تم میں سے بلوغت کو نہیں پہنچے تین دفعہ (تین اوقات میں ) تم سے اجازت لیاکریں (ایک تو) نمازِ صبح سے پہلے اور (دوسرے گرمی کی دوپہر کو) جب تم کپڑے اتار دیتے ہو اور تیسرے عشا کی نماز کے بعد۔(یہ) تین (وقت) تمھارے پردے (کے) ہیں،ان کے (آگے) پیچھے ( دوسرے اوقات میں ) نہ تم پر کچھ گناہ ہے نہ ان پر کہ کام کاج کے لیے ایک دوسرے کے پاس آتے رہتے ہو،اس طرح اللہ اپنی آیتیں تم پر کھول کھول کر بیان فرماتا ہے اور اللہ بڑا علم والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
غلاموں سے مراد باندیاں اور غلام دونوں ہیں۔’’ثَلَاثَ مَرَّاتٍ‘‘ کا مطلب تین وقت ہیں۔یہ تینوں اوقات ایسے ہیں کہ انسان اپنے گھر میں اپنی بیوی کے ساتھ بہ کارِ خاص مصروف یا ایسے لباس میں ہوسکتا ہے جس میں کسی کا ان کو دیکھنا جائز اور مناسب نہیں۔اس لیے ان اوقاتِ ثلاثہ میں گھر کے ان خدمت گزاروں کو اس بات کی اجازت نہیں ہے کہ وہ بغیر اجازت طلب کیے گھر کے اندر داخل ہوں۔
-239 بالغ لڑکوں کا اجازت لے کر داخل ہونا:
سورۃ النور (آیت:۵۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَاِذَا بَلَغَ الْاَطْفَالُ مِنْکُمُ الْحُلُمَ فَلْیَسْتَاْذِنُوْا کَمَا اسْتَاْذَنَ الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِھِمْ کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمْ اٰیٰتِہٖ وَاللّٰہُ عَلِیْمٌ حَکِیْمٌ.
’’اور جب تمھارے لڑکے بالغ ہو جائیں تو ان کو بھی اسی طرح اجازت لینی چاہیے،جس طرح ان سے اگلے ( بڑے آدمی) اجازت حاصل کرتے ہیں،اس طرح اللہ تعالیٰ تمھیں اپنی آیتیں کھول کھول کر سناتا ہے اور اللہ جاننے والا اور حکمت والا ہے۔‘‘
سورۃ النور (آیت:61) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.لَیْسَ عَلَی الْاَعْمٰی حَرَجٌ وَّلاَ عَلَی الْاَعْرَجِ حَرَجٌ وَّلاَ عَلَی الْمَرِیْضِ حَرَجٌ وَّلاَ عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ اَنْ تَاْکُلُوْا مِنْم بُیُوتِکُمْ اَوْبُیُوتِ اٰبَآئِکُمْ اَوْ بُیُوتِ اُمَّھٰتِکُمْ اَوْ بُیُوتِ اِخْوَانِکُمْ اَوْ بُیُوتِ اَخَوٰتِکُمْ اَوْ بُیُوتِ اَعْمَامِکُمْ اَوْ بُیُوتِ عَمّٰتِکُمْ اَوْ بُیُوتِ اَخْوَالِکُمْ اَوْ بُیُوتِ خٰلٰتِکُمْ اَوْ مَا مَلَکْتُمْ مَّفَاتِحَہٗٓ اَوْ صَدِیقِکُمْ لَیْسَ عَلَیْکُمْ جُنَاحٌ اَنْ تَاْکُلُوْا جَمِیْعًا اَوْ اَشْتَاتًا.
’’اندھے پر،لنگڑے پر،بیمار پر اور خود تم پر (مطلقاً) کوئی حرج نہیں کہ تم اپنے گھروں سے کھالو یا اپنے باپوں کے گھروں سے یا اپنی مائوں کے گھروں سے یا اپنے بھا ئیوں کے گھروں سے یا اپنی بہنوں کے گھروں سے یا اپنے چچائوں کے گھروں سے یا اپنی پھوپھیوں کے گھروں سے یا اپنے ماموئوں کے گھروں سے یا اپنی خالائوں کے گھروں سے یا ان گھروں سے جن کے کنجیوں کے تم مالک ہو یا اپنے دوستوں کے گھروں سے،تم پر اس میں بھی کوئی گناہ نہیں کہ تم سب ساتھ بیٹھ کر کھانا کھائو یا الگ الگ۔‘‘
بعض علما نے صراحت کی ہے کہ اس سے وہ عام قسم کا کھانا مراد ہے،جس کے کھاجانے سے کسی کو گرانی محسوس نہیں ہوتی۔البتہ ایسی عمدہ چیزیں جو مالکوں نے خصوصی طور پر الگ چھپاکر رکھی ہوں،تاکہ کسی کی نظر ان پر نہ پڑے،اسی طرح ذخیرہ شدہ چیزیں،ان کا کھانا اور ان کو اپنے مقصد میں لانا جائز نہیں۔[543]
اسی طرح بیٹوں کے گھر انسان کے اپنے ہی گھر ہیں،جس طرح حدیث میں ہے:
( أَنْتَ وَمَالُکَ لِأَبِیْکَ )[544] تو اور تیرا مال تیرے باپ کا ہے۔‘‘
دوسری حدیث ہے: ( وَلَدُ الرَّجُلِ مِنْ کَسْبِہٖ )[545] آدمی کی اولاد اس کی کمائی سے ہے۔‘‘
سورۃ النور (آیت:۶۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاِذَا دَخَلْتُمْ بُیُوتًا فَسَلِّمُوْا عَلٰٓی اَنْفُسِکُمْ تَحِیَّۃً مِّنْ عِنْدِ اللّٰہِ مُبٰرَکَۃً طَیِّبَۃً کَذٰلِکَ یُبَیِّنُ اللّٰہُ لَکُمُ الْاٰیٰتِ لَعَلَّکُمْ تَعْقِلُوْنَ.
’’اور جب گھروں میں جایا کرو تو اپنے (گھرو الوں کو) سلام کیا کرو (یہ) اللہ کی طرف سے مبارک اور پاکیزہ تحفہ ہے،اس طرح اللہ اپنی آیتیں کھول کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم سمجھو۔‘‘
1۔پارہ20.اَمَّنْ خَلَقَ.سورۃ القصص (آیت:۵۴) میں فرمایا:
.اُولٰٓئِکَ یُؤْتَوْنَ اَجْرَھُمْ مَّرَّتَیْنِ بِمَا صَبَرُوْا وَ یَدْرَئُ وْنَ بِالْحَسَنَۃِ السَّیِّئَۃَ وَ مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ یُنْفِقُوْنَ.
’’ان لوگوں کو دوگنا بدلا دیا جائے گا،کیونکہ صبر کرتے رہے ہیں اوربھلائی کے ساتھ بُرائی کو دُور کرتے ہیں اور جو (مال) ہم نے اُن کو دیا ہے،اُس میں سے خرچ کرتے ہیں۔‘‘
’’صَبْر‘‘ سے مراد ہر قسم کے حالات میں انبیا علیہم السلام اور کتابِ الٰہی پر ایمان اور اس پر ثابت قدمی سے قائم رہنا ہے۔ پہلی کتاب آئی تو اس پر اور اس کے بعد دوسری پر ایمان رکھا۔ پہلے نبی پر ایمان لائے۔اس کے بعد دوسرا نبی آگیا تو اس پر ایمان لائے۔ان کے لیے دوہرا اجر ہے۔ ان کی یہ فضیلت بیان کی گئی ہے۔نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
’’تین آدمیوں کے لیے دوہرا اجر ہے،ان میں سے ایک وہ اہلِ کتاب ہے جو اپنے نبی پر ایمان رکھتا تھا اور پھر مجھ پر ایمان لے آیا۔‘‘[546]
سورۃ الزمر (آیت:۱۰) میں ارشادِ الٰہی ہے:
.قُلْ یٰعِبَادِ الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوْا رَبَّکُمْ لِلَّذِیْنَ اَحْسَنُوْا فِیْ ھٰذِہٖ الدُّنْیَا حَسَنَۃٌ وَّاَرْضُ اللّٰہِ وَاسِعَۃٌ اِنَّمَا یُوَفَّی الصّٰبِرُوْنَ اَجْرَھُمْ بِغَیْرِ حِسَابٍ.
’’کہہ دو کہ اے میرے بندو جو ایمان لائے ہو! اپنے پروردگار سے ڈرو،جنھوں نے اس دنیا میں نیکی کی ان کے لیے بھلائی ہے اور اللہ کی زمین کشادہ ہے جو صبر کرنے والے ہیں،ان کو بے شمار ثواب ملے گا۔‘‘
3۔سورت یوسف (آیت:۹۰) میں ارشادِ ربانی ہے:
.قَالُوْٓا ئَ اِنَّکَ لَاَنْتَ یُوْسُفُ قَالَ اَنَا یُوْسُفُ وَ ھٰذَآ اَخِیْ قَدْ مَنَّ اللّٰہُ عَلَیْنَا اِنَّہٗ مَنْ یَّتَّقِ وَ یَصْبِرْ فَاِنَّ اللّٰہَ لَا یُضِیْعُ اَجْرَ الْمُحْسِنِیْنَ.
’’وہ بولے کیا تم ہی یوسف ہو؟ انھوں نے کہا کہ ہاں میں ہی یوسف ہوں اور (اپنے بھائی کی طرف اشارہ کر کے کہنے لگے) یہ میرا بھائی ہے،اللہ نے ہم پر بڑا احسان کیا ہے،جو شخص اللہ سے ڈرتا اور صبر کرتا ہے تو اللہ نیکوکاروں کا اجر ضائع نہیں کرتا۔‘‘
-245 بتوں سے نہیں اللہ سے رزق طلب کرو اور اس کا شکر ادا کرو:
سورۃ العنکبوت (آیت:۱۷) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.اِنَّمَا تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ اَوْثَانًا وَّ تَخْلُقُوْنَ اِفْکًا اِنَّ الَّذِیْنَ تَعْبُدُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰہِ لَا یَمْلِکُوْنَ لَکُمْ رِزْقًا فَابْتَغُوْا عِنْدَ اللّٰہِ الرِّزْقَ وَ اعْبُدُوْہُ وَ اشْکُرُوْا لَہٗ اِلَیْہِ تُرْجَعُوْنَ.
’’تم اللہ کو چھوڑ کر بتوں کو پوجتے اور طوفان باندھتے ہو تو جن لوگوں کو تم اللہ کے سوا پوجتے ہو،وہ تمھیں رزق دینے کا اختیار نہیں رکھتے،پس اللہ ہی کے ہاں سے رزق طلب کرو اور اُسی کی عبادت کرو اور اُسی کا شکر ادا کرو،اُسی کی طرف تم لوٹ کر جاؤ گے۔‘‘
جب یہ بت تمھاری روزی کے اسباب و وسائل میں سے کسی بھی چیز کے مالک نہیں ہیں۔وہ بارش برسا سکتے ہیں نہ زمین میں درخت اُگا سکتے ہیں اور نہ سورج کی حرارت پہنچا سکتے ہیں اور نہ تمھیں وہ صلاحیتیں دے سکتے ہیں،جنھیں بروے کار لاکر تم قدرت کی ان چیزوں سے فیض یاب ہوتے ہو،تو پھر تم روزی اللہ ہی سے طلب کرو،اسی کی عبادت اور اسی کی شکر گزاری کرو۔
-246 تلاوتِ قرآن کا حکم اور اقامتِ نماز کے فائدے:
پارہ 21.اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ .سورۃ العنکبوت (آیت:۴۵) میں فرمایا:
.اُتْلُ مَآ اُوْحِیَ اِلَیْکَ مِنَ الْکِتٰبِ وَ اَقِمِ الصَّلٰوۃَ اِنَّ الصَّلٰوۃَ تَنْھٰی عَنِ الْفَحْشَآئِ وَ الْمُنْکَرِ وَ لَذِکْرُ اللّٰہِ اَکْبَرُ وَ اللّٰہُ یَعْلَمُ مَا تَصْنَعُوْنَ.
’’(اے نبی!) یہ کتاب جو تمھاری طرف وحی کی گئی ہے،اس کو پڑھا کرو اور نماز کے پابند رہو،کچھ شک نہیں کہ نماز بے حیائی اور بُری باتوں سے روکتی ہے اور اللہ کا ذکر بڑا (اچھا کام) ہے اور جو کچھ تم کرتے ہو،اللہ اُسے جانتا ہے۔‘‘
نماز سے ( بشرطیکہ وہ صحیح نماز ہو) انسان کا تعلق اللہ تعالیٰ کے ساتھ قائم ہو جاتا ہے،جس سے انسان کو اللہ تعالیٰ کی مدد حاصل ہوتی ہے جو زندگی کے ہر موڑ پر اس کے عزم و ثبات کا باعث اور ہدایت کا ذریعہ ثابت ہوتی ہے۔
اسی لیے قرآن کریم میں کہا گیا ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَعِیْنُوْا بِالصَّبْرِ وَ الصَّلٰوۃِ.[البقرۃ:۱۵۳]
’’اے ایمان والو! صبر اور نماز سے مدد حاصل کرو۔‘‘
نماز اور صبر کوئی مرئی چیز تو ہے نہیں کہ انسان ان کا سہارا پکڑ کر ان سے مدد حاصل کرلے،یہ غیر مرئی چیز ہے۔مطلب یہ ہے کہ ان کے ذریعے سے انسان کا اپنے رب کے ساتھ جو خصوصی ربط و تعلق پیدا ہوتا ہے،وہ قدم قدم پر اس کی دستگیری اور راہنمائی کرتا ہے،اسی لیے نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو رات کی تنہائی میں تہجد کی نماز پڑھنے کی تاکید کی گئی،کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جو عظیم کام سونپا گیا تھا،اس میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ تعالیٰ کی مدد کی بہت ضرورت تھی۔یہی وجہ ہے کہ خود آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کو بھی جب کوئی اہم مرحلہ درپیش ہوتا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نماز کا اہتمام فرماتے:
( إِذَا حَزَبَہٗ أَمْرٌ فَزِعَ إِلیٰ الصَّلَاۃِ )[547]
’’جب آپ کو کوئی اہم معاملہ پیش آتا تو نماز کی طرف جلدی کرتے۔‘‘
اس لیے کہ آدمی جب تک نماز میں ہوتا ہے،برائی سے رکا رہتا ہے۔لیکن بعد میں اس کی تاثیر کمزور ہو جاتی ہے،اس کے برعکس ہر وقت اللہ کا ذکر اس کے لیے ہر وقت برائی میں مانع رہتا ہے۔
سورۃ الروم (آیت:۳۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاٰتِ ذَا الْقُرْبٰی حَقَّہٗ وَ الْمِسْکِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ ذٰلِکَ خَیْرٌ لِّلَّذِیْنَ یُرِیْدُوْنَ وَجْہَ اللّٰہِ وَ اُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ.
’’اہلِ قرابت اور محتاجوں اور مسافروں کو اُن کا حق دیتے رہو،جو لوگ رضاے الٰہی کے طالب ہیں،یہ اُن کے حق میں بہتر ہے اور یہی لوگ نجات حاصل کرنے والے ہیں۔‘‘
1۔سورۃ الروم (آیت:۶۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاصْبِرْ اِنَّ وَعْدَ اللّٰہِ حَقٌّ وَّ لَا یَسْتَخِفَّنَّکَ الَّذِیْنَ لَا یُوْقِنُوْنَ.
’’پس تم صبر کرو،بے شک اللہ کا وعدہ سچا ہے اور (دیکھو) جو لوگ یقین نہیں رکھتے،وہ تمھیں بے صبرا نہ بنا دیں۔‘‘
لوگ آپ کو غضب ناک کرکے صبر و حلم ترک کرنے یا خوش آمد پر مجبور نہ کر دیں،بلکہ آپ اپنے موقف پر ڈٹے رہیں اور اس سے انحراف نہ کریں۔
2۔سورت آل عمران (آیت:۱۸۶) میں فرمانِ الٰہی ہے:
.لَتُبْلَوُنَّ فِیْٓ اَمْوَالِکُمْ وَ اَنْفُسِکُمْ وَ لَتَسْمَعُنَّ مِنَ الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْکِتٰبَ مِنْ قَبْلِکُمْ وَ مِنَ الَّذِیْنَ اَشْرَکُوْٓا اَذًی کَثِیْرًا وَ اِنْ تَصْبِرُوْا وَ تَتَّقُوْا فَاِنَّ ذٰلِکَ مِنْ عَزْمِ الْاُمُوْرِ.
’’(اے اہلِ ایمان!) تمھارے مال و جان میں تمھاری آزمایش کی جائے گی اور تم اہلِ کتاب سے اور اُن لوگوں سے جو مشرک ہیں بہت سی ایذا کی باتیں سنو گے،تو اگر صبر اور پرہیزگاری کرتے رہو گے تو یہ بڑی ہمت کے کام ہیں۔‘‘
سورت لقمان (آیت:۱۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حَمَلَتْہُ اُمُّہٗ وَھْنًا عَلٰی وَھْنٍ وَّ فِصٰلُہٗ فِیْ عَامَیْنِ اَنِ اشْکُرْلِیْ وَ لِوَالِدَیْکَ اِلَیَّ الْمَصِیْرُ .
’’اور ہم نے انسان کو جسے اُس کی ماں تکلیف پر تکلیف سہہ کر پیٹ میں اٹھائے رکھتی ہے (پھر اُس کو دودھ پلاتی ہے) اور (آخر کار) دو برس میں اس کا دودھ چھڑانا ہوتا ہے،(اپنے اور) اس کے ماں باپ کے بارے میں تاکید کی ہے کہ میرا بھی شکر کرتا رہ اور اپنے ماں باپ کا بھی (کہ تم کو) میری ہی طرف لوٹ کر آنا ہے۔‘‘
ماں کے تکلیف پر تکلیف اٹھانے کا مطلب ہے رحمِ مادر میں بچہ جس حساب سے بڑھتا جاتا ہے،ماں پر بوجھ بڑھتا جاتا ہے،جس سے عورت کمزورسے کمزور تر ہوتی چلی جاتی ہے۔ماں کی اس مشقت کے ذکر سے اس طرف بھی اشارہ نکلتا ہے کہ والدین کے ساتھ احسان کرتے وقت ماں کو مقدم رکھا جائے،جیسا کہ حدیث میں بھی مروی ہے۔
سورۃ العنکبوت (آیت:۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ وَصَّیْنَا الْاِنْسَانَ بِوَالِدَیْہِ حُسْنًا وَ اِنْ جَاھَدٰکَ لِتُشْرِکَ بِیْ مَا لَیْسَ لَکَ بِہٖ عِلْمٌ فَلَا تُطِعْھُمَا اِلَیَّ مَرْجِعُکُمْ فَاُنَبِّئُکُمْ بِمَا کُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ.
’’اور ہم نے انسان کو اپنے ماں باپ کے ساتھ نیک سلوک کرنے کا حکم دیا ہے،(اے مخاطب!) اگر تیرے ماں باپ تیرے درپے ہوں کہ تو میرے ساتھ کسی کو شریک بنائے،جس کی حقیقت سے تجھے واقفیت نہیں تو اُن کا کہنا نہ ماننا تم (سب) کو میری طرف لوٹ کر آنا ہے،پھر جو کچھ تم کرتے تھے،میں تمھیں جتاؤں گا۔‘‘
والدین اگر شرک کا حکم دیں اور اسی میں دیگر معاصی بھی شامل ہیں اور اس کے لیے خاص کوشش بھی کریں تو ان کی اطاعت نہیں کرنی چاہیے،کیونکہ ارشادِ نبوی صلی اللہ علیہ وسلم ہے: ’’اللہ کی نافرمانی میں کسی کی اطاعت نہیں۔‘‘[548]
سورت بنی اسرائیل (آیت:۲۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا اِمَّا یَبْلُغَنَّ عِنْدَکَ الْکِبَرَ اَحَدُھُمَآ اَوْ کِلٰھُمَا فَلَا تَقُلْ لَّھُمَآ اُفٍّ وَّ لَا تَنْھَرْھُمَا وَ قُلْ لَّھُمَا قَوْلًا کَرِیْمًا.
’’اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرتے رہو،اگر ان میں سے ایک یا دونوں بڑھاپے کو پہنچ جائیں تو اُن کو اُف تک نہ کہنا اور نہ اُنھیں جِھڑکنا اور ان سے بات ادب سے کرنا۔‘‘
اس آیت میں اللہ تبارک و تعالیٰ نے اپنی عبادت کے بعد دوسرے نمبر پر والدین کے ساتھ حسنِ سلوک کا حکم دیا ہے،جس سے والدین کی اطاعت،ان کی خدمت اور ان کے ادب و احترام کی اہمیت واضح ہے۔پھر بڑھاپے میں بہ طورِ خاص ان کے سامنے اُف یا ہوں تک کہنے اور ان کو ڈانٹنے ڈپٹنے سے منع کیا گیا ہے۔
سورت لقمان (آیت:۱۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَاقْصِدْ فِیْ مَشْیِکَ وَاغْضُضْ مِنْ صَوْتِکَ اِنَّ اَنْکَرَ الْاَصْوَاتِ لَصَوْتُ الْحَمِیْرِ.
’’اور اپنی چال میں اعتدال کیے رہنا اور (بولتے وقت) آواز نیچی رکھنا کیونکہ (اونچی آواز گدھوں کی ہے اور ) سب آوازوں سے بُری آواز گدھوں کی ہے۔‘‘
چیخ چلا کر بات نہ کر،اس لیے کہ زیادہ اونچی آواز سے بات کرنا ناپسندیدہ ہے۔چال بھی اتنی سُست نہ ہو،جیسے کوئی بیمار ہو اور نہ اتنی تیز ہو کہ شرف و وقار کے خلاف ہو۔
سورت لقمان (آیت:۲۲) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَ مَنْ یُّسْلِمْ وَجْھَہٗٓ اِلَی اللّٰہِ وَ ھُوَ مُحْسِنٌ فَقَدِ اسْتَمْسَکَ بِالْعُرْوَۃِ الْوُثْقٰی وَ اِلَی اللّٰہِ عَاقِبَۃُ الْاُمُوْرِ.
’’اور جو شخص اپنے آپ کو اللہ کا فرمانبردار کر دے اور نیکوکار بھی ہو تو اُس نے مضبوط کڑا ہاتھ میں لے لیا اور سب کاموں کا انجام اللہ ہی کی طرف ہے۔‘‘
سورۃ الاحزاب (آیت:۷۰،۷۱) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًا . یُّصْلِحْ لَکُمْ اَعْمَالَکُمْ وَ یَغْفِرْلَکُمْ ذُنُوْبَکُمْ وَ مَنْ یُّطِعِ اللّٰہَ وَ رَسُوْلَہٗ فَقَدْ فَازَ فَوْزًا عَظِیْمًا.
’’مومنو! اللہ سے ڈرا کرو اور بات سیدھی کہا کرو۔وہ تمھارے اعمال درست کر دے گا اور تمھارے گناہ بخش دے گا اور جو شخص اللہ اور اُس کے رسول کی فرماں برداری کرے گا تو بے شک بڑی مراد پائے گا۔‘‘
سورۃ الفاطر (آیت:۳) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.یٰٓاَیُّھَا النَّاسُ اذْکُرُوْا نِعْمَتَ اللّٰہِ عَلَیْکُمْ ھَلْ مِنْ خَالِقٍ غَیْرُ اللّٰہِ یَرْزُقُکُمْ مِّنَ السَّمَآئِ وَ الْاَرْضِ لَآ اِلٰہَ اِلَّا ھُوَ فَاَنّٰی تُؤْفَکُوْنَ.
’’لوگو! اللہ کے جو تم پر احسانات ہیں ان کو یاد کرو،کیا اللہ کے سوا کوئی اور خالق (اور رازق) ہے جو تم کو آسمان اور زمین سے رزق دے؟ اس کے سوا کوئی معبود نہیں،پس تم کہاں بہ کے پھرتے ہو؟‘‘
سورت یونس (آیت:۸۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.قَالَ قَدْ اُجِیْبَتْ دَّعْوَتُکُمَا فَاسْتَقِیْمَا وَ لَا تَتَّبِعٰٓنِّ سَبِیْلَ الَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ.
’’(اللہ نے) فرمایا کہ تمھاری دعا قبول کر لی گئی تو تم ثابت قدم رہنا اور بے عقلوں کے راستے نہ چلنا۔‘‘
یعنی جو لوگ اللہ کی سنت،اس کے قانون اور اس کی مصلحتوں اور حکمتوں کو نہیں جانتے،تم اُن کی طرح مت جانا،بلکہ انتظار اور صبر کرو،اللہ تعالیٰ اپنی حکمت اور مصلحت کے مطابق اپنا وعدہ ضرور پورا کرے گا،کیوں کہ وہ وعدہ خلافی نہیں کرتا۔
سورۃ الزمر (آیت:۱۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.الَّذِیْنَ یَسْتَمِعُوْنَ الْقَوْلَ فَیَتَّبِعُوْنَ اَحْسَنَہٗ اُولٰٓئِکَ الَّذِیْنَ ھَدٰھُمُ اللّٰہُ وَاُولٰٓئِکَ ھُمْ اُولُوا الْاَلْبَابِ.
’’جو بات کو سنتے اور اچھی باتوں کی پیروی کرتے ہیں،یہی وہ لوگ ہیں جن کو اللہ نے ہدایت دی اور یہی عقل والے ہیں۔‘
سورۃ الزخرف (آیت:۱۳،۱۴) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.لِتَسْتَوٗا عَلٰی ظُھُورِہٖ ثُمَّ تَذْکُرُوْا نِعْمَۃَ رَبِّکُمْ اِذَا اسْتَوَیْتُمْ عَلَیْہِ وَتَقُوْلُوْا سُبْحٰنَ الَّذِیْ سَخَّرَ لَنَا ھٰذَا وَمَا کُنَّا لَہٗ مُقْرِنِیْنَ . وَاِنَّآ اِلٰی رَبِّنَا لَمُنْقَلِبُوْنَ.
’’تاکہ تم ان کی پیٹھ پر چڑھ بیٹھو اور جب اس پر بیٹھ جاؤ،پھر اپنے پروردگار کے احسان کو یاد کرو او رکہو کہ وہ (ذات) پاک ہے،جس نے اس کو ہمارے زیرِ فرماں کر دیا اور ہم میں طاقت نہ تھی کہ اس کو بس میں کر لیتے۔اور ہم اپنے پروردگار کی طرف لوٹ کر جانے والے ہیں۔‘‘
نبیِ کریم صلی اللہ علیہ وسلم جب سواری پر سوار ہوتے تو تین مرتبہ ’’اللہ اکبر‘‘ کہتے اور.سُبْحانَ الَّذِیْ۔۔۔.سے.لَمُنقَلِبُونَ.تک آیت پڑھتے۔
رَبَّنَا ظَلَمْنَا أَنفُسَنَا وَإِن لَّمْ تَغْفِرْ لَنَا وَتَرْحَمْنَا لَنَكُونَنَّ مِنَ الْخَاسِرِينَ ( سورة الاعراف، ۷:۲۳ )
"اے ہمارے رب! ہم نے اپنا بڑا نقصان کیا،اور اگر تو ہماری مغفرت نہ کرے گا ،اور ہم پر رحم نہ کرے گا، تو واقعی ہم نقصان پانے والوں میں سے ہو جائیں گے۔”
رَبِّ لَا تَذَرْ عَلَى الْأَرْضِ مِنَ الْكَافِرِينَ دَيَّارًا ( سورة نوح، ۷۱:۲۶ )
"اے میرے پالنے والے! تو روئے زمین پر کسی کافر کو رہنے سہنے والانہ چھوڑ ۔”
إِنَّكَ إِن تَذَرْهُمْ يُضِلُّوا عِبَادَكَ وَلَا يَلِدُوا إِلَّا فَاجِرًا كَفَّارًا (سورة نوح ، ۷۱:۲۷ )
"اگر تو انہیں چھوڑ دے گا تو (یقیناً) یہ تیرے (اور) بندوں کو (بھی) گمراه کر دیں گے۔”
رَبِّ اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِمَن دَخَلَ بَيْتِيَ مُؤْمِنًا وَلِلْمُؤْمِنِينَ وَالْمُؤْمِنَاتِ وَلَا تَزِدِ الظَّالِمِينَ إِلَّا تَبَارًا ( سورة نوح ، ۷۱:۲۸ )
"اور یہ فاجروں اور ڈھیٹ کافروں ہی کو جنم دیں گے اے میرے پروردگار! تو مجھے اور میرے ماں باپ اور جو بھی ایمان کی حالت میں میرے گھر میں آئےاور تمام مومن مردوں اور عورتوں کو بخش دےاور کافروں کو سوائے بربادی کے اور کسی بات میں نہ بڑھا –۔”
رَبِّ إِنِّي أَعُوذُ بِكَ أَنْ أَسْأَلَكَ مَا لَيْسَ لِي بِهِ عِلْمٌ وَإِلَّا تَغْفِرْ لِي وَتَرْحَمْنِي أَكُن مِّنَ الْخَاسِرِينَ( سورة ھود، ۱۱:۴۷ )
"میرے پالنہار میں تیری ہی پناه چاہتا ہوں اس بات سے کہ تجھ سے وه مانگوں جس کا مجھے علم ہی نہ ہواگر تو مجھے نہ بخشے گا اور تو مجھ پر رحم نہ فرمائے گا، تو میں خساره پانے والوں میں ہو جاؤں گا۔”
رَبَّنَا عَلَيْكَ تَوَكَّلْنَا وَإِلَيْكَ أَنَبْنَا وَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ( سورة الممتحنة، ۶۰:۴ )
"اے ہمارے پروردگار تجھی پر ہم نے بھروسہ کیا ہے اور تیری ہی طرف رجوع کرتے ہیںاور تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔”
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلَّذِينَ كَفَرُوا وَاغْفِرْ لَنَا رَبَّنَاإِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ( سورة الممتحنة، ۶۰:۵ )
"اے ہمارے رب! تو ہمیں کافروں کی آزمائش میں نہ ڈال اور اے ہمارے پالنے والے ہماری خطاؤں کو بخش دے بیشک تو ہی غالب، حکمت والاہے ۔” –
رَبِّ هَبْ لِي حُكْمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ( سورة الشعراء، ۲۶:۸۳ )
"اے میرے رب! مجھے قوت فیصلہ عطا فرما اور مجھے نیک لوگوں میں ملا دے ۔”
وَاجْعَل لِّي لِسَانَ صِدْقٍ فِي الْآخِرِينَ ( سورة الشعراء، ۲۶:۸۴ )
"اور میرا ذکر خیر پچھلے لوگوں میں بھی باقی رکھ ۔”
وَاجْعَلْنِي مِن وَرَثَةِ جَنَّةِ النَّعِيمِ –(سورة الشعراء، ۲۶:۸۵ ) "مجھے نعمتوں والی جنت کے وارثوں میں سے بنا دے۔”
وَلَا تُخْزِنِي يَوْمَ يُبْعَثُونَ ( سورة الشعراء، ۲۶:۸۷ ) "اور مجھے ذلیل نہ کر جس دن لوگ اٹھائے جائیں گے۔”
يَوْمَ لَا يَنفَعُ مَالٌ وَلَا بَنُونَ (سورة الشعراء، ۲۶:۸۸ ) "جس دن مال اور اولاد نفع نہیں دے گی ۔”
إِلَّا مَنْ أَتَى اللَّـهَ بِقَلْبٍ سَلِيمٍ ( سورة الشعراء، ۲۶:۸۹ ) "لیکن فائده والا وہی ہوگا جو اللہ تعالیٰ کے سامنے بے عیب دل لے کر جائے ۔”
رَبَّنَا تَقَبَّلْ مِنَّا إِنَّكَ أَنتَ السَّمِيعُ الْعَلِيمُ ( سورة البقرة، ۲:۱۲۷ ) "ہمارے پروردگار! تو ہم سے قبول فرما، تو ہی سننے والااور جاننے والا ہے۔”
رَبَّنَا وَاجْعَلْنَا مُسْلِمَيْنِ لَكَ وَمِن ذُرِّيَّتِنَا أُمَّةً مُّسْلِمَةً لَّكَ وَأَرِنَا مَنَاسِكَنَا وَتُبْ عَلَيْنَا إِنَّكَ أَنتَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ( سورة البقرة، ۲:۱۲۸ ) "اے ہمارے رب! ہمیں اپنا فرماں بردار بنا لے ، اور ہماری اولاد میں سے بھی ایک جماعت کو اپنی اطاعت گزار رکھ، اور ہمیں اپنی عبادتیں سکھا اور ہماری توبہ قبول فرما، تو توبہ قبول فرمانے والااور رحم و کرم کرنے والاہے۔”
رَبَّنَا إِنَّكَ تَعْلَمُ مَا نُخْفِي وَمَا نُعْلِنُ وَمَا يَخْفَىٰ عَلَى اللَّـهِ مِن شَيْءٍ فِي الْأَرْضِ وَلَا فِي السَّمَاءِ ( سورة ابراهيم، ۱۴:۳۸ ) "اے ہمارے پروردگار! تو خوب جانتا ہے جو ہم چھپائیں اور جو ظاہر کریں،زمین و آسمان کی کوئی چیز اللہ پر پوشیده نہیں ۔”
رَبِّ اجْعَلْنِي مُقِيمَ الصَّلَاةِ وَمِن ذُرِّيَّتِي رَبَّنَا وَتَقَبَّلْ دُعَاءِ ( سورة ابراهيم، ۱۴:۴۰ )
"اے میرے پالنے والے! مجھے نماز کا پابند رکھ اور میری اولاد سے بھی،اے ہمارے رب میری دعا قبول فرما۔”
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ( سورة ابراهيم، ۱۴:۴۱ )
"اے ہمارے پروردگار! مجھے بخش دے اور میرے ماں باپ کو بھی بخش اور دیگر مومنوں کو بھی بخش جس دن حساب ہونے لگے ۔”
أَنِّي مَسَّنِيَ الضُّرُّ وَأَنتَ أَرْحَمُ الرَّاحِمِينَ ( سورة الانبياء، ۲۱:۸۳ )
” مجھے یہ بیماری لگ گئی ہے اور تو رحم کرنے والوں سے زیاده رحم کرنے والا ہے۔”
أَنِّي مَسَّنِيَ الشَّيْطَانُ بِنُصْبٍ وَعَذَابٍ –( سورة ص، ۳۸:۴۱ ) "مجھے شیطان نے بڑی اذیّت اور تکلیف پہنچائی ہے ۔”
فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ أَنتَ وَلِيِّي فِي الدُّنْيَا وَالْآخِرَةِ تَوَفَّنِي مُسْلِمًا وَأَلْحِقْنِي بِالصَّالِحِينَ ( سورة یوسف، ۱۲:۱۰۱ )
” اے آسمانوں اور زمین کے پیدا فرمانے والے! تو دنیا میں (بھی) میرا کارساز ہے اور آخرت میں (بھی) مجھے حالتِ اسلام پر موت دینا اور مجھے صالح لوگوں کے ساتھ ملا دے ۔”
رَبَّنَا افْتَحْ بَيْنَنَا وَبَيْنَ قَوْمِنَا بِالْحَقِّ وَأَنتَ خَيْرُ الْفَاتِحِينَ ( سورة الاعراف، ۷:۸۹ )
"اے ہمارے پروردگار! ہمارے اور ہماری قوم کے درمیان حق کے موافق فیصلہ کر دے، اور تو سب سے اچھا فیصلہ کرنے والا ہے۔”
رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَثَبِّتْ أَقْدَامَنَا وَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ( سورة البقرة، ۲:۲۵۰ )
"اے پروردگار ہمیں صبر دے، ثابت قدمی دے، اور قوم کفار پر ہماری مدد فرما۔”
رَبِّ إِنِّي ظَلَمْتُ نَفْسِي فَاغْفِرْ لِي ( سورة القصص، ۲۸:۱۶ )
"اے پروردگار! میں نے خود اپنے اوپر ظلم کیا، تو مجھے معاف فرما دے۔”
رَبِّ بِمَا أَنْعَمْتَ عَلَيَّ فَلَنْ أَكُونَ ظَهِيرًا لِّلْمُجْرِمِينَ( سورة القصص، ۲۸:۱۷ )
"اے میرے رب! جیسے تو نے مجھ پر یہ کرم فرمایا میں بھی اب ہرگز کسی گنہگار کا مددگار نہ بنوں گا۔”
رَبِّ نَجِّنِي مِنَ الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ( سورة القصص، ۲۸:۲۱ ) ” اے پروردگار! مجھے ظالموں کے گروه سے بچا لے۔”
رَبِّ إِنِّي لِمَا أَنزَلْتَ إِلَيَّ مِنْ خَيْرٍ فَقِيرٌ ( سورة القصص، ۲۸:۲۴ )
"تو جو کچھ بھلائی میری طرف اتارے میں اس کا محتاج ہوں۔”
عَلَى اللَّـهِ تَوَكَّلْنَا رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا فِتْنَةً لِّلْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ( سورة یونس، ۱۰:۸۵ )
"ہم نے اللہ ہی پر توکل کیا ، اے ہمارے پروردگار! ہم کو ان ظالموں کے لیے فتنہ نہ بنا۔”
وَنَجِّنَا بِرَحْمَتِكَ مِنَ الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ( سورة یونس، ۱۰:۸۶ )
” اور ہم کو اپنی رحمت سے ان کافر لوگوں سے نجات دے۔”
رَبَّنَا أَفْرِغْ عَلَيْنَا صَبْرًا وَتَوَفَّنَا مُسْلِمِينَ ( سورة الاعراف، ۷:۱۲۶ )
"اے ہمارے رب! ہمارے اوپر صبر کا فیضان فرما، اور ہماری جان حالت اسلام پر نکال۔”
رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَدْخِلْنِي بِرَحْمَتِكَ فِي عِبَادِكَ الصَّالِحِينَ ( سورة النمل، ۲۷:۱۹ )
"اے پروردگار! تو مجھے توفیق دے کہ میں تیری ان نعمتوں کا شکر بجا لاؤں ، جو تو نے مجھ پر انعام کی ہیں اور میرے ماں باپ پر، اور میں ایسے نیک اعمال کرتا رہوں جن سے تو خوش رہے، مجھے اپنی رحمت سے نیک بندوں میں شامل کر لے ۔”
سُبْحَانَ رَبِّنَا إِنَّا كُنَّا ظَالِمِينَ ( سورة القلم، ۶۸:۲۹ ) "ہمارا رب پاک ہے بیشک ہم ہی ظالم تھے۔”
رَبَّنَا آمَنَّا بِمَا أَنزَلْتَ وَاتَّبَعْنَا الرَّسُولَ فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ( سورة آل عمران، ۳:۵۳ )
"اے ہمارے پالنے والے معبود! ہم تیری اتاری ہوئی وحی پر ایمان لائے، اور ہم نے تیرے رسول کی اتباع کی، پس تو ہمیں گواہوں میں لکھ لے۔”
رَبَّنَا وَسِعْتَ كُلَّ شَيْءٍ رَّحْمَةً وَعِلْمًا فَاغْفِرْ لِلَّذِينَ تَابُوا وَاتَّبَعُوا سَبِيلَكَ وَقِهِمْ عَذَابَ الْجَحِيمِ ( سورة غافر، ۴۰:۷ )
” اے ہمارے پروردگار! تو نے ہر چیز کو اپنی بخشش اور علم سے گھیر رکھا ہے، پس تو انہیں بخش دے جو توبہ کریں اور تیری راه کی پیروی کریں، اور تو انہیں دوزخ کے عذاب سے بھی بچا لے۔”
رَبَّنَا وَأَدْخِلْهُمْ جَنَّاتِ عَدْنٍ الَّتِي وَعَدتَّهُمْ وَمَن صَلَحَ مِنْ آبَائِهِمْ وَأَزْوَاجِهِمْ وَذُرِّيَّاتِهِمْ إِنَّكَ أَنتَ الْعَزِيزُ الْحَكِيمُ ( سورة غافر، ۴۰:۸ )
"اے ہمارے رب! تو انہیں ہمیشگی والی جنتوں میں لے جا جن کا تو نے ان سے وعده کیا ہے، اور ان کے باپ دادوں اور بیویوں اور اولاد میں سے (بھی) ان (سب) کو جو نیک عمل ہیں، یقیناً تو تو غالب و باحکمت ہے۔”
وَقِهِمُ السَّيِّئَاتِ وَمَن تَقِ السَّيِّئَاتِ يَوْمَئِذٍ فَقَدْ رَحِمْتَهُ وَذَٰلِكَ هُوَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ( سورة غافر، ۴۰:۹ )
"انہیں برائیوں سے بھی محفوظ رکھ ، اس دن تو نے جسے برائیوں سے بچا لیا اس پر تو نے رحمت کر دی، اور بہت بڑی کامیابی تو یہی ہے۔”
رَبَّنَا آتِنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً وَهَيِّئْ لَنَا مِنْ أَمْرِنَا رَشَدًا ( سورة الکھف، ۱۸:۱۰ )
"اے ہمارے پروردگار! ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، اور ہمارے کام میں ہمارے لیے راه یابی کو آسان کر دے۔”
رَبَّنَا لَا تَجْعَلْنَا مَعَ الْقَوْمِ الظَّالِمِين ( سورة الاعراف، ۷:۴۷ )
” اے ہمارے رب! ہم کو ان ظالم لوگوں کے ساتھ شامل نہ کر۔”
رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ( سورة البقرۃ، ۲:۲۰۱ )
"اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں نیکی دے اور آخرت میں بھی بھلائی عطا فرما، اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے ۔”
سَمِعْنَا وَأَطَعْنَا غُفْرَانَكَ رَبَّنَاوَإِلَيْكَ الْمَصِيرُ ( سورة البقرۃ، ۲:۲۸۵ )
"ہم نے سنا اور اطاعت کی، ہم تیری بخشش طلب کرتے ہیں اے ہمارے رب اور ہمیں تیری ہی طرف لوٹنا ہے۔”
رَبَّنَا آمَنَّا فَاكْتُبْنَا مَعَ الشَّاهِدِينَ ( سورة المائدة، ۵:۸۳ )
"اے ہمارے رب! ہم ایمان لے آئے پس تو ہم کو بھی ان لوگوں کے ساتھ لکھ لے جو تصدیق کرتے ہیں۔”
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَارَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ( سورة البقرۃ، ۲:۲۸۶ )
"اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا، اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جو ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالاتھا، اے ہمارے رب! ہم پر وه بوجھ نہ ڈال جس کی ہمیں طاقت نہ ہو، اور ہم سے درگزر فرما! اور ہمیں بخش دے اور ہم پر رحم کر تو ہی ہمارا مالک ہے، ہمیں کافروں کی قوم پر غلبہ عطا فرما۔”
رَبَّنَا لَا تُزِغْ قُلُوبَنَا بَعْدَ إِذْ هَدَيْتَنَا وَهَبْ لَنَا مِن لَّدُنكَ رَحْمَةً إِنَّكَ أَنتَ الْوَهَّابُ ( سورة آل عمران، ۳:۸ )
"اے ہمارے رب! ہمیں ہدایت دینے کے بعد ہمارے دل ٹیڑھے نہ کر دے، اور ہمیں اپنے پاس سے رحمت عطا فرما، یقیناً تو ہی بہت بڑی عطا دینے والا ہے ۔”
رَبَّنَا إِنَّكَ جَامِعُ النَّاسِ لِيَوْمٍ لَّا رَيْبَ فِيهِ إِنَّ اللَّـهَ لَا يُخْلِفُ الْمِيعَادَ ( سورة آل عمران، ۳:۹ )
"اے ہمارے رب! تو یقیناً لوگوں کو ایک دن جمع کرنے والا ہے جس کے آنے میں کوئی شک نہیں، یقیناً اللہ تعالیٰ وعده خلافی نہیں کرتا ۔”
رَبَّنَا إِنَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( سورة آل عمران، ۳:۱۶ )
"اے ہمارے رب! ہم ایمان لاچکے اس لیے ہمارے گناه معاف فرما، اور ہمیں عذاب جہنم سے نجات دے۔”
رَبَّنَا مَا خَلَقْتَ هَـٰذَا بَاطِلًا سُبْحَانَكَ فَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ( سورة آل عمران، ۳:۱۹۱ )
"اے ہمارے پروردگار! تو نے یہ بے فائده نہیں بنایا، تو پاک ہے، پس ہمیں آگ کے عذاب سے بچا لے۔”
رَبَّنَا إِنَّكَ مَن تُدْخِلِ النَّارَ فَقَدْ أَخْزَيْتَهُ وَمَا لِلظَّالِمِينَ مِنْ أَنصَارٍ ( سورة آل عمران، ۳:۱۹۲ )
"اے ہمارے پالنے والے! تو جسے جہنم میں ڈالے یقیناً تو نے اسے رسوا کیا، اور ظالموں کا مددگار کوئی نہیں۔”
رَّبَّنَا إِنَّنَا سَمِعْنَا مُنَادِيًا يُنَادِي لِلْإِيمَانِ أَنْ آمِنُوا بِرَبِّكُمْ فَآمَنَّا رَبَّنَا فَاغْفِرْ لَنَا ذُنُوبَنَا وَكَفِّرْ عَنَّا سَيِّئَاتِنَا وَتَوَفَّنَا مَعَ الْأَبْرَارِ (سورة آل عمران، ۳:۱۹۳ )
"اے ہمارے رب! ہم نے سنا کہ منادی کرنے والا بآواز بلند ایمان کی طرف بلا رہا ہے، کہ لوگو! اپنے رب پر ایمان لاؤ، پس ہم ایمان لائے، یا الٰہی اب تو ہمارے گناه معاف فرما اور ہماری برائیاں ہم سے دور کر دے، اور ہماری موت نیکوں کے ساتھ کر۔”
رَبَّنَا وَآتِنَا مَا وَعَدتَّنَا عَلَىٰ رُسُلِكَ وَلَا تُخْزِنَا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّكَ لَا تُخْلِفُ الْمِيعَادَ ( سورة آل عمران، ۳:۱۹۴ )
"اے ہمارے پالنے والے معبود! ہمیں وه دے جس کا وعده تو نے ہم سے اپنے رسولوں کی زبانی کیا ہے ، اور ہمیں قیامت کے دن رسوا نہ کر، یقیناً تو وعده خلافی نہیں کرتا۔”
رَبِّ اغْفِرْ وَارْحَمْ وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ –(سورة المؤمنون، ۲۳:۱۱۸ )
"اے میرے رب! تو بخش اور رحم کر اور تو سب مہربانوں سے بہتر مہربانی کرنے والاہے۔”
رَبِّ ارْحَمْهُمَا كَمَا رَبَّيَانِي صَغِيرًا ( سورة الاسراء، ۱۷:۲۴ )
” اے میرے پروردگار! ان دونوں پر ویسا ہی رحم کر جیسا انہوں نے میرے بچپن میں میری پرورش کی ہے۔”
رَبِّ إِمَّا تُرِيَنِّي مَا يُوعَدُونَ ( سورة المؤمنون، ۲۳:۹۳ )
"اے میرے پروردگار! اگر تو مجھے وه دکھائے جس کا وعده انہیں دیا جا رہا ہے۔”
رَبِّ فَلَا تَجْعَلْنِي فِي الْقَوْمِ الظَّالِمِينَ ( سورة المؤمنون، ۲۳:۹۴ )
” اے رب! تو مجھے ان ظالموں کے گروه میں نہ کرنا۔”
رَبَّنَا آمَنَّا فَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا وَأَنتَ خَيْرُ الرَّاحِمِينَ( سورة المؤمنون، ۲۳:۱۰۹ )
"اے ہمارے پروردگار! ہم ایمان لاچکے ہیں تو ہمیں بخش اور ہم پر رحم فرما، تو سب مہربانوں سے زیاده مہربان ہے۔”
رَبَّنَا اصْرِفْ عَنَّا عَذَابَ جَهَنَّمَ إِنَّ عَذَابَهَا كَانَ غَرَامًا ( سورة الفرقان، ۲۵:۶۵ )
"اے ہمارے پروردگار! ہم سے دوزخ کا عذاب پرے ہی پرے رکھ، کیونکہ اس کا عذاب چمٹ جانے والاہے۔”
إِنَّهَا سَاءَتْ مُسْتَقَرًّا وَمُقَامًا ( سورة الفرقان، ۲۵:۶۶ )
"بے شک وه ٹھہرنے اور رہنے کے لحاظ سے بدترین جگہ ہے۔”
رَبِّ زِدْنِي عِلْمًا( سورة الانبياء، ۲۰:۱۱۴ )
"پروردگار! میرا علم بڑھا ۔”
رَبَّنَا هَبْ لَنَا مِنْ أَزْوَاجِنَا وَذُرِّيَّاتِنَا قُرَّةَ أَعْيُنٍ وَاجْعَلْنَا لِلْمُتَّقِينَ إِمَامًا ( سورة الفرقان، ۲۵:۷۴ )
"اے ہمارے پروردگار! تو ہمیں ہماری بیویوں اور اولاد سے آنکھوں کی ٹھنڈک عطا فرما، اور ہمیں پرہیزگاروں کا پیشوا بنا۔”
قُلِ اللَّـهُمَّ فَاطِرَ السَّمَاوَاتِ وَالْأَرْضِ عَالِمَ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ أَنتَ تَحْكُمُ بَيْنَ عِبَادِكَ فِي مَا كَانُوا فِيهِ يَخْتَلِفُونَ ( سورة الزمر، ۳۹:۴۶ )
"آپ کہہ دیجئے! کہ اے اللہ! آسمانوں اور زمین کے پیدا کرنے والے، چھپے کھلے کے جاننے والے، تو ہی اپنے بندوں میں ان امور کا فیصلہ فرمائے گا جن میں وه الجھ رہے تھے۔”
رَبِّ أَوْزِعْنِي أَنْ أَشْكُرَ نِعْمَتَكَ الَّتِي أَنْعَمْتَ عَلَيَّ وَعَلَىٰ وَالِدَيَّ وَأَنْ أَعْمَلَ صَالِحًا تَرْضَاهُ وَأَصْلِحْ لِي فِي ذُرِّيَّتِي إِنِّي تُبْتُ إِلَيْكَ وَإِنِّي مِنَ الْمُسْلِمِينَ ( سورة الاحقاف، ۴۶:۱۵ )
"اے میرے پروردگار! مجھے توفیق دے کہ میں تیری اس نعمت کا شکر بجا لاؤں، جو تو نے مجھ پر اور میرے ماں باپ پر انعام کی ہے، اور یہ کہ میں ایسے نیک عمل کروں جن سے تو خوش ہو جائے، اور تو میری اولاد بھی صالح بنا، میں تیری طرف رجوع کرتا ہوں اور میں مسلمانوں میں سے ہوں۔”
رَبَّنَا أَتْمِمْ لَنَا نُورَنَا وَاغْفِرْ لَنَا إِنَّكَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ( سورة التحریم، ۶۶:۸ )
” اے ہمارے رب ہمیں کامل نور عطا فرما اور ہمیں بخش دے، یقیناً تو ہر چیز پر قادر ہے۔”
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوارَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ ( سورة الحشر، ۵۹:۱۰ )
” اے ہمارے پروردگار! ہمیں بخش دے اور ہمارے ان بھائیوں کو بھی جو ہم سے پہلے ایمان لاچکے ہیں، اور ایمان داروں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (اور دشمنی) نہ ڈال، اے ہمارے رب بیشک تو شفقت و مہربانی کرنے والاہے ۔
سورۃ الاحقاف (آیت:۳۵) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاصْبِرْ کَمَا صَبَرَ اُوْلُوا الْعَزْمِ مِنَ الرُّسُلِ وَلاَ تَسْتَعْجِلْ لَّھُمْ کَاَنَّھُمْ یَوْمَ یَرَوْنَ مَا یُوْعَدُوْنَ لَمْ یَلْبَثُوْٓا اِلَّا سَاعَۃً مِّنْ نَّھَارٍ بَلٰغٌ فَھَلْ یُھْلَکُ اِلَّا الْقَوْمُ الْفٰسِقُوْنَ.
’’پس (اے نبی!) جس طرح عالی ہمت پیغمبر صبرکرتے رہے ہیں،اسی طرح تم بھی صبر کرو اور ان کے لیے (عذاب) جلدی نہ مانگو،جس دن یہ اس چیز کو دیکھیں گے جس کا ان سے وعدہ کیا جاتا ہے تو (خیال کریں گے کہ) گویا (دنیا میں ) رہے ہی نہ تھے،مگر گھڑی بھر دن کی۔(یہ قرآن) پیغام ہے،سو (اب) وہی ہلاک ہوں گے جو نافرمان تھے۔‘‘
انھوں نے دین کو غالب کیا تو اللہ نے انھیں بھی غالب فرما دیا۔سورۃ الحج (آیت:۴۰) میں بھی یہی موضوع بیان ہوا ہے۔
سورت محمد (آیت:۱۹) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاعْلَمْ اَنَّہٗ لَآ اِلٰـہَ اِلَّا اللّٰہُ وَاسْتَغْفِرْ لِذَنْبِکَم وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَالْمُؤْمِنٰتِ وَاللّٰہُ یَعْلَمُ مُتَقَلَّبَکُمْ وَمَثْوٰکُمْ.
’’پس جان رکھو کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور اپنے گناہوں کی معافی مانگو اور مومن مردوں اور مومن عورتوں کے لیے بھی اور اللہ تم لوگوں کے چلنے پھرنے اور ٹھہرنے سے واقف ہے۔‘‘
اس میں نبیِ مکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو استغفار کا حکم دیا گیا ہے،اپنے لیے بھی اور مومنین کے لیے بھی۔استغفار کی بڑی اہمیت اور فضیلت ہے۔احادیث میں بھی اس پر بڑا زور دیا گیا ہے۔ایک حدیث میں نبیِ اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:
((یآٰ أَیُّھَا النَّاسُ! تُوْبُوْا اِلٰی رَبِّکُمْ فَإِنِّیْ أَسْتَغْفِرُ اللّٰہَ وَاَتُوْبُ إِلَیہِ فِي الْیَوْمِ أَکْثَرَ مِنْ سَبْعِیْنَ مَرَّۃً )[551]
’’لوگو! بارگاہ الٰہی میں توبہ و استغفار کیا کرو،میں بھی اللہ کے حضور روزانہ ستر مرتبہ سے زیادہ توبہ و استغفار کرتا ہوں۔‘‘
سورۃ الحشر (آیت:۹،۱۰) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُا الدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِھِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ھَاجَرَ اِلَیْھِمْ وَلاَ یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِھِمْ حَاجَۃً مِّمَّآ اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰٓی اَنْفُسِھِمْ وَلَوْ کَانَ بِھِمْ خَصَاصَۃٌ وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ھُمُ الْمُفْلِحُوْنَ . وَالَّذِیْنَ جَآئُوْا مِنْم بَعْدِھِمْ یَقُوْلُوْنَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بِالْاِیْمَانِ وَلاَ تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَئُوْفٌ رَّحِیْمٌ.
’’اور (ان لوگوں کے لیے بھی) جو مہاجرین سے پہلے (ہجرت کے) گھر (مدینے) میں مقیم اور ایمان میں (مستقل) رہے (اور) جو لوگ ہجرت کر کے ان کے پاس آتے ہیں،ان سے محبت کرتے ہیں اور جو کچھ ان کو ملا،اس سے اپنے دل میں کچھ خواہش (اور) خلش نہیں پاتے اور ان کو اپنی جانوں سے مقدم رکھتے ہیں،خواہ ان کو خود احتیاج ہی ہو اور جو شخص حرصِ نفس سے بچا لیا گیا تو ایسے ہی لوگ مراد پانے والے ہیں۔اور (ان کے لیے بھی) جو ان (مہاجرین) کے بعد آئے (اور) دعا کرتے ہیں کہ اے پروردگار! ہمارے اور ہمارے بھائیوں کے جو ہم سے پہلے ایمان لائے ہیں،گناہ معاف فرما اور مومنوں کی طرف سے ہمارے دل میں کینہ (و حسد) نہ پیدا ہونے دے،اے ہمارے پروردگار! تو بڑا شفقت کرنے والا مہربان ہے۔‘‘
سورۃ الفجر (آیت:۱۵ تا ۱۸) میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
.فَاَمَّا الْاِنْسَانُ اِذَا مَا ابْتَلٰـہُ رَبُّہٗ فَاَکْرَمَہٗ وَنَعَّمَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْٓ اَکْرَمَنِ . وَاَمَّآ اِذَا مَا ابْتَلٰہُ فَقَدَرَ عَلَیْہِ رِزْقَہٗ فَیَقُوْلُ رَبِّیْ اَھَانَنِ . کَلَّا بَلْ لاَ تُکْرِمُوْنَ الْیَتِیْمَ . وَلاَ تَحٰٓضُّوْنَ عَلٰی طَعَامِ الْمِسْکِیْنِ.
’’مگر انسان (عجیب مخلوق ہے کہ) جب اس کا پروردگار اس کو آزماتا ہے کہ اسے عزت دیتا اور نعمت بخشتا ہے تو کہتا ہے کہ (آہا) میرے پروردگار نے مجھے عزت بخشی۔اور جب (دوسری طرح) آزماتا ہے کہ اس پر روزی تنگ کر دیتا ہے تو کہتا ہے کہ (ہائے) میرے پروردگار نے مجھے ذلیل کیا۔نہیں بلکہ تم لوگ یتیم کی خاطر و اکرام نہیں کرتے۔اور نہ مسکین کو کھانا کھلانے (اطعام )کی ترغیب دیتے ہو۔‘‘
قرآنِ کریم کی یہ آخری دوسورتیں مُعوَّذ تین کہلاتی ہیں، یہ دونوں سورتیں اُس وقت نازل ہوئی تھیں جب کچھ یہودیوں نے حضورِ اقدس صلی اﷲ علیہ وسلم) پر جادو کرنے کی کوشش کی تھی، اور اُس کے کچھ اثرات آپ پر ظاہر بھی ہوئے تھے۔ ان سورتوں میں آپ کو جادُو ٹونے سے حفاظت کے لئے ان الفاظ میں اللہ تعالے کی پناہ ما نگنے کی تلقین فرمائی گئی ہے، اور کئی احادیث سے ثابت ہے کہ ان سورتوں کی تلاوت اور اُن سے دَم کرنا جادو کے اثرات دور کرنے کے لئے بہترین عمل ہے اور حضور نبی کریم (صلی اﷲ علیہ وسلم) رات کو سونے سے پہلے ان سورتوں کی تلاوت کرکے اپنے مبارک ہاتھوں پر دم کرتے اور پھر ان ہاتھوں کو پورے جسم پر پھیر لیتے تھے۔
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ الْفَلَقِ ﴿١﴾ مِن شَرِّ مَا خَلَقَ ﴿٢﴾ وَمِن شَرِّ غَاسِقٍ إِذَا وَقَبَ ﴿٣﴾ وَمِن شَرِّ النَّفَّاثَاتِ فِي الْعُقَدِ ﴿٤﴾ وَمِن شَرِّ حَاسِدٍ إِذَا حَسَدَ ﴿٥﴾
کہو، میں پناہ مانگتا ہوں صبح کے رب کی (1) ہر اُس چیز کے شر سے جو اُس نے پیدا کی ہے (2) اور رات کی تاریکی کے شر سے جب کہ وہ چھا جائے (3) اور گرہوں میں پھونکنے والوں (یا والیوں) کے شر سے (4) اور حاسد کے شر سے جب کہ وہ حسد کرے (113:5)[552]
بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَٰنِ الرَّحِيمِ
قُلْ أَعُوذُ بِرَبِّ النَّاسِ ﴿١﴾ مَلِكِ النَّاسِ ﴿٢﴾ إِلَٰهِ النَّاسِ ﴿٣﴾ مِن شَرِّ الْوَسْوَاسِ الْخَنَّاسِ ﴿٤﴾ الَّذِي يُوَسْوِسُ فِي صُدُورِ النَّاسِ ﴿٥﴾ مِنَ الْجِنَّةِ وَالنَّاسِ ﴿٦﴾
کہو، میں پناہ مانگتا ہوں انسانوں کے رب (1) انسانوں کے بادشاہ (2) انسانوں کے حقیقی معبود کی (3) اُس وسوسہ ڈالنے والے کے شر سے جو بار بار پلٹ کر آتا ہے (4) جو لوگوں کے دلوں میں وسوسے ڈالتا ہے (5) خواہ وہ جنوں میں سے ہو یا انسانوں میں سے (114:6)[553]
الله تعالی نے اسلام کے بنیادی عقائد ایمان ، عبادات او احکام کو قرآن میں واضح آیات محکمات کے ذریعہ سے بیان فرما دیا تاکہ کوئی شک و شبہ نہ رہ جایے، رسول اللہ ﷺ ںے قرآن پر عمل پیرا ہو کر اپنی سنت [554]سے عملی نمونہ پیش کیا جو نسل در نسل تواتر سے منتقل ہوتا آرہا ہے تاکہ کسی دوسرے انسان کی تاویل کی ضرورت نہ پڑے- تین بنیادی علوم میں قرآن کی آیت محکمہ ,سنت ثابتہ اور فریضہ عادلہ باقی زائد ہیں[555]- رسول اللہ ﷺ نے احادیث کے سماع، حفظ و بیان کو پسند فرمایا اوراحادیث کی پہچان کے اصول[556] واضح فرمادیۓ- اس طرح سے اختلافات ، فرقہ واریت اور گمراہی کا راستہ بند کردیا تاکہ سب مومنین صراط مستقیم پر چل سکیں-
"صراط مستقیم" راستہ ہے اور راستہ چوڑا ہوتا ہے "خط مستقیم" ایک سیدھی لکیر، یا لائن ہوتی ہے- بہت سارے متوازی خطوط مستقیم (لین) مل کر سیدھا راستہ بناتے ہیں لیکن تمام خطوط متوازی ہوتے ہیں- اگر لاہور- اسلام آباد موٹر وے کی مثال لیں تو تین لین متوازی ہیں، جس لین پر بھی سفر کریں وہ اسلام آباد ہے جاتی ہے- لیکن اگر ایسی لین پر چلیں جوکہیں خروج (exit) کرتی ہے تو پھر کسی اور طرف پہنچیں گے نہ کہ اسلام آباد- اگر کوئی شخص یا افراد صرف اپنی لین کی درستی پر اصرار کرتا ہے اور دوسری اسی سمت میں متوازی لینزکوغلط سمجھتا ہے اور جھگڑتا ہے ان کو زبرسستی اپنی پسندیدہ لین میں شامل کرنے پر اصرار کرتا ہے تو وہ فتنہ و فساد و تفرقہ پیدا کرتا ہے-
قرآن کے واضح احکامات اور رسول اللہ ﷺ کی سنت کو چھوڑ کر جو لوگ تاویلات سےنئے نئے غیر متوازی خطوط، لین ایجاد کرتے ہیں وہ صراط مستقیم سے ہٹ کر، نافرمانی اور گمراہی کے راستہ پر بھٹک جاتے ہیں-
"صراط مستقیم" قرآن اور سنت رسول اللہ ﷺ کا راستہ ہے- "احکام القرآن"، صراط مستقیم پر قائم رہنے کی ایک کوشش ہے - یہ بہت اہم کا م ہے جو بتدریج احتیاط سے کیا جا رہا ہے تاکہ حتی المقدور کوئی اہم حکم شامل ہونے سے راہ نہ جایۓ اس لئے یہ ایک ڈرافٹ مسودہ ہے جس پر کام تسلسل سے جاری ہے- یاد رہے کہ قرآن 23 سال میں نازل ہوا اور اس کو سمجھنے میں لوگوں نے عمریں گزاردیں پھر بھی وہ اس کے نورکی چند کرنیں ہی پا سکے!
قرآن مجید اللہ تعالیٰ کی طرف سے ایک صحیفہ ہے جو دیگر آسمانی کتابوں سے اس لحاظ سے ممتاز ہے کہ یہ صحیفوں کی مہر ہے، جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مہر ہیں۔ انبیاء کا، اور اس میں یہ واحد صحیفہ ہے جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ نے یقین دلایا ہے کہ وہ قیامت تک محفوظ رہے گا (قرآن 15:9)، اس میں سے کوئی لفظ تبدیل نہیں ہوگا اور اس کا کوئی حرف پریشان نہیں ہوگا۔ درحقیقت یہ واحد کتاب ہے جو قیامت کے قیام تک باقی رہے گی اپنے متن اور اس کے معنی، اس کی رہنمائی اور اس کی درآمد میں، اس کے عجائبات کبھی ختم نہیں ہوں گے اور اس کے معجزات کبھی ختم نہیں ہوں گے۔ مختلف [ادبی] اسلوب کی نشوونما کے باوجود اس کے تاثرات کبھی ناپسندیدہ نہیں ہوتے اور وقت گزرنے کے باوجود اس کے معنی کبھی ختم نہیں ہوتے۔ جب بھی آپ غور و فکر اور رہنمائی کی نظر سے اسے غور سے دیکھتے ہیں، آپ کو اس میں ایک نیا پیغام اور ایک نصیحت آمیز ہدایت ملتی ہے - "ایک کتاب جس کی آیات کو پختہ کیا گیا ہے، اور پھر اس کو حکمت والے، باخبر کی طرف سے بیان کیا گیا ہے۔ " (قرآن 11:1)
اللہ تعالیٰ نے یہ ارادہ کیا تھا کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی امت وہی ہو گی جس کا اس عظیم وحی کے ذریعے خطاب کیا جائے گا۔ اس طرح اس نے اس امت میں سے ایسے روشن خیالوں اور ذہینوں کا انتخاب کیا جو ہر زاویے اور نقطہ نظر سے قرآن کریم کی خدمت کی ذمہ داری قبول کریں گے۔ انہوں نے ایسی خدمت انجام دی کہ جن لوگوں نے کسی کتاب کی خدمت کا بیڑا اٹھایا ان میں سے کوئی ان کا موازنہ نہیں کرسکتا۔ انہوں نے اپنی زندگی قرأت و قرأت، فصاحت و بلاغت، فصاحت و بلاغت، استخراج و استنباط، دعوت و تبلیغ میں ایسی گزاری کہ آج کسی کے لیے ممکن نہیں، وہ علم و تجربہ کے جس درجہ تک بھی پہنچ گیا ہو۔ ان خدمات کو تعداد میں شامل کریں، ان کو پڑھنے اور سمجھنے میں اکیلا چھوڑ دیں۔
اسلامی کتب خانہ تفسیروں سے مالا مال ہے جسے اس امت کے علماء نے اس عظیم کتاب کی خدمت میں مرتب کیا ہے۔ اس طرح ان میں سے وہ لوگ تھے جنہوں نے اپنی تفسیر میں تمام علوم تفسیر کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کیا۔ اور ان میں سے وہ تھے جو اس کے زاویوں سے ایک زاویہ کے ساتھ کافی تھے، لہذا ان میں سے بعض نے جملوں کی وضاحت اور غیر معمولی الفاظ کی وضاحت اور نقاطی نشانات کی شکلوں کی وضاحت پر توجہ دی۔ اور ان میں سے بعض نے تفسیر پر منتقل ہونے والی تمام روایات اور رپورٹوں کو جمع کرنے کی کوشش کی۔ اور ان میں سے کچھ نے اپنی خواہشات کو نوبل قرآن سے پیدا ہونے والی جدلیاتی تحقیقات کی طرف موڑ دیا۔ اور ان میں سے کچھ نے اپنے آپ کو بیان بازی اور بے مثالی کی شکلوں کو واضح کرنے کے لیے وقف کر دیا۔ اور [دوسروں نے] ان معلوم تفسیری مضامین کے علاوہ دوسرے [پہلو] پر توجہ دی۔
درجات کے لحاظ سے ان مضامین میں سب سے نمایاں اور اندازے کے لحاظ سے ان میں سب سے اعلیٰ اور فائدے میں سب سے بڑا، قرآن سے شریعت کے قوانین کا اخذ کرنا ہے، کیونکہ شریعت کے قوانین ’’آہ قرآن کا عملی پیغام ہے جو انسانیت کے لیے اس کی روزمرہ کی زندگی میں راہیں روشن کرتا ہے، اور اس کا ہاتھ ان تمام حالات میں بہترین [نتائج] کی طرف لے جاتا ہے جن کا اسے اپنے دن اور رات میں سامنا کرنا پڑتا ہے۔
چنانچہ علماء کے ایک گروہ نے ان احکام کو جمع کرنے کی کوشش کی اور اس کے نتیجے میں اس [موضوع] پر بہت سی کتابیں تالیف ہوئیں۔ اس موضوع پر سب سے قدیم تالیفات میں سے امام شافعی رحمہ اللہ کی کتاب احکام القرآن ہے ، بلکہ کشف الزنون کے مصنف نے ذکر کیا ہے کہ یہ پہلی کتاب ہے۔ قرآن کے احکام پر مرتب کیا جائے، حالانکہ یہ ہم تک نہیں پہنچی ہے اور احکام القرآن لی الشافعی کے عنوان سے چھپی ہوئی وسیع پیمانے پر گردش کرنے والی کتاب صرف امام ع کی تالیفات میں سے ایک ہے۔ بیہقی، جس میں انہوں نے امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ کی مختلف کتابوں سے احکام قرآن کے مباحث کو جمع کیا ہے۔
اس کے بعد ہر مکتب کے فقہاء نے احکام القرآن لکھنے میں ان کی کامیابی حاصل کی اور اس موضوع پر جو بہت کچھ تالیف کیا گیا-
احکام 99 آیات[557]
ریفرنسز[558]
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿٢٨٦﴾
اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر ﴿ البقرة ٢٨٦﴾
إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
رساله تجديد الاسلام
Message for Islamic Revival
اردو
https://bit.ly/تجدیدالسلام-مقدمہ PDF
English
1)غیر تجارتی مقصد، .دعوہ کے لیے ویب سائٹ / لنک کا حوالہ دے کر میڈیا پر کاپی اور شیئر کرنا احسن اقدام ہو گا 2)یہ مطالعہ قرآن کی واضح (آیاتٌ مُّحْكَمَاتٌ ، أُمُّ الْكِتَابِ) سنت ، حدیث اور مستند تاریخ کی بنیاد پر ہے۔ ا اینڈ نوٹس/ لنکس / ریفرنسز ملاحضہ فرمائیں 3) پڑھنے کے بعد اگر کوئی سوالات اور شبہات ہوں تو وہ مکمل تحقیق کا مطالعہ کرنے سے دور ہو سکتے ہیں ان شاءاللہ
Brigadier Aftab Ahmad Khan (Retired): A freelance writer, researcher, and blogger, holds Masters in Political Science, Business Admin, Strategic Studies, spent over two decades in exploration of The Holy Quran, other Scriptures, teachings & followers. He has been writing for “The Defence Journal” since 2006. His work is available at https://SalaamOne.com/About accessed by over 4.5 Millions. FB: @IslamiRevival Email: Tejdeed@gmail.com
Special Topics
Muslim World & Pakistan
Islam, Basic Books:
Islam :
General:
Political, Religious, Social, Cultural, War & Peace
Islamophobia
Interfaith:
Power Politics, Conspiracies, Wars
http://FreeBookPark.blogspot.com https://SalaamOne.com/About
WP- WORDPRESS
[googleapps domain="docs" dir="document/d/e/2PACX-1vRCG5xt4xzjjOUj-NEgUX6fAyF8KQmqalK2mC4pyOcdJM2NdDoT_OQChx7m3Kabg3d-iAAG4EVtBSdb/pub" query="embedded=true" width="100%" height="1000" /]
Blogspot: Embed google doc in blogspot
<iframe height="1000px" src="https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vRCG5xt4xzjjOUj-NEgUX6fAyF8KQmqalK2mC4pyOcdJM2NdDoT_OQChx7m3Kabg3d-iAAG4EVtBSdb/pub?embedded=true" width="100%"></iframe></div>
https://bit.ly/AhkamAlQuraan / https://bit.ly/AhkamAlQuran / https://bit.ly/AhkamAlQuran-pdf
https://quran1book.blogspot.com/p/ahkamalquran.html
https://drive.google.com/file/d/1jWUs66Ctzl8uc1tjEwuwVcKheSTp1tUx/view?usp=sharing
https://docs.google.com/document/d/1qcn48n81DSDrApl1JaW-O4WpayyTHxIk1Wa-p-nJWFY/edit?usp=sharing
[1] https://QuranSubjects.blogspot.com، https://Quran1Book.blogspot.com , https://Quran1Book.wordpress.com , https://QuranSubjects.wordpress.com
[5] (قرآن 15:9)/ https://tanzil.net/#15:9
[6] (قرآن 11:1)/ https://tanzil.net/#11:1
[8] [1].احکام القرآن از ابو الحسن علی ابن حجر السعدی (متوفی 244ھ), 2.احکام القرآن از قاضی ابو اسحاق اسماعیل بن اسحاق العزدی البصری (متوفی 282) جو کہ مالکی مکتب کے مطابق ہے۔ الجصاس اس کی کثرت سے تردید کرتا ہے۔ بکر بن 3.علاء القشیری نے اس کا خلاصہ مختار احکام القرآن کے عنوان سے کیا ہے۔ 4.احکام القرآن از ابو الحسن علی ابن موسیٰ ابن یزداد القمی الحنفی (متوفی 305ھ), 5.احکام القرآن از ابو جعفر احمد بن محمد الطحاوی الحنفی (متوفی 321ھ), 6.الجامع لِاحکام القرآن از ابو محمد القاسم بن اصبغ القرطبی گرامر (متوفی 340ھ),7.احکام القرآن از شیخ منذر ابن سعد البلوطی القرطبی (متوفی 355ھ), 8.احکام القرآن از امام ابوبکر احمد ابن علی المعروف الجصاص الراضی الحنفی (متوفی 370ھ), 9.احکام القرآن از امام ابو الحسن علی ابن محمد المعروف الکیہ الحراسی الشافعی البغدادی (متوفی 504ھ)۔ وہ امام غزالی کے رفقا میں سے تھے۔,10احکام القرآن از قادی ابوبکر محمد بن عبد اللہ ابن العربی المالکی (متوفی 543ھ) کے نام سے مشہور,11.احکام القرآن از شیخ عبد المنعیم ابن محمد بن فراس الغرناتی (متوفی 597ھ),12.مختار احکام القرآن از شیخ ابو محمد مکی ابن ابی طالب القیسی (متوفی 437ھ), 13.تلخیص احکام القرآن از شیخ جمال الدین محمود ابن احمد جو ابن السراج القنوی الحنفی کے نام سے مشہور ہیں (متوفی 770ھ), 14الاقلیل فی استنبت التنزیل از علامہ جلال الدین السیوطی الشافعی رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 911ھ),15.التفسیرات الاحمدیہ از شیخ احمد ال جونپوری الہندی الحنفی المعروف ملا جیون رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1130ھ), 16.نائل المرام فی تفسیر آیت الاحکام از سید محمد صدیق حسن کنوجی البخاری رحمۃ اللہ علیہ (متوفی 1307ھ),.اور اس موضوع پر جو آخری تصنیف ہوئی ہے اس میں سے شیخ محمد علی الصبونی الحنفی کی کتاب راوی البیان فی تفسیر آیت الاحکام ہے-
[10] https://quran1book.wordpress.com/2020/11/19/quran-on-hadith/ ، https://quran1book.wordpress.com/2021/07/19/index/
[11] بدعة گمراہی (وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ’): https://bit.ly/Bidaah , https://bit.ly/Hadith-Basics
[15] https://quran1book.blogspot.com/2021/08/tajdeed.html ، https://quran1book.wordpress.com/2021/07/19/index/
[17] Quran Websites: (i) https://tanzil.net/#1:1، (ii) https://trueorators.com/quran-tafseer/1/1 (iii) http://www.equranlibrary.com/
[18] https://corpus.quran.com/qurandictionary.jsp?q=Hkm The triliteral root ḥā kāf mīm (ح ك م) occurs 210 times in the Quran, in 13 derived forms: ، 45 times as the form I verb ḥakama (حَكَمَ)، twice as the form II verb yuḥakkimu (يُحَكِّمُ)، twice as the form IV verb uḥ'kimat (أُحْكِمَتْ)،once as the form VI verb yataḥākamu (يَتَحَاكَمُ)، twice as the noun aḥkam (أَحْكَم)
three times as the noun ḥakam (حَكَم)، 30 times as the noun ḥuk'm (حُكْم)
[19] John L. Esposito, ed. (2014). "Hukm". The Oxford Dictionary of Islam. Oxford: Oxford University Press. https://en.wikipedia.org/wiki/Ahkam
[31] خالق کائنات کون؟ https://bit.ly/Allah-God ، The Creator: https://bit.ly/The-Creator
[32] برقی کتاب کا ویب فائل شیر لنک: https://goo.gl/kgkTl8 ، e Book pdf link : https://goo.gl/bsTBJt
[34] تفسیر ،تفہیم القران : http://www.equranlibrary.com/tafseer/tafheemulquran/15/26
[43] https://www.amazon.com/Origin-Growth-Religion-Wilhelm-Schmidt/dp/0990738604
[49] (قرآن : 41:40,41,42) https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/41:40 ، https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/41:44
[58] http://www.darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1464414092%2003-Eisayiyat%20Me%20Tauhid_MDU_07_July_2005.htm
[61] (i) https://quran1book.blogspot.com/2020/06/verses.html، (ii)https://bit.ly/Hadith-Basics علم الحديث کے سنہری اصول
(iii)https://quran1book.blogspot.com/2020/06/quran-reject-hadith.html
[65] Key2Quran (3:7) شاه کلید قرآن https://bit.ly/Key2Quran
[66] (مشکوٰۃ المصابیح 239، رواہ ابوداؤد (2558) ابن ماجہ (54) الذھبی فی تلخیص المستدرک(۴/ ۳۳۲)۔ #مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (النساء : ۸۰)
[71] (صحیح بخاری ، 3456)، جہاں تک ہوسکے شیطان کے چیلوں کی مخالفت کرو . الطبرانی الاوسط .
[72] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith.html ، https://quran1book.blogspot.com/2020/10/hadith-ban.html
[77] https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Last-Will.html (ابی داود 4607 ابن ماجہ42) تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٦)، سنن ابن ماجہ/المقدمة ٦ (٤٣، ٤٤)، (تحفة الأشراف: ٩٨٩٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٢٦)، سنن الدارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح )
[82] (مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 239، رواہ ابوداؤد (2558) و ابن ماجہ (54) الذھبی فی تلخیص المستدرک (۴/ ۳۳۲)۔ ، https://quran1book.blogspot.com/2021/11/IslamicSources.html
[88] AAK-Hadith Notes Urdu (اردو ) : https://bit.ly/Hadiths , AAK-Hadith Notes Eng: https://bit.ly/Hadiths-Eng
[96] صحیح سنن أبي داود للألباني (۱۹۰۵،۴۶۰۴) صحیح الجامع للألباني (۲۶۴۳)
[97] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/wahi-ghair-matloo.html وحی متلو اور غیر متلوتحقیقی جائزہ (2) [قرآن کا مثل ؟]
[98] https://bit.ly/Revelations-Wahi / Theory of Revelations : Recited ( Manifest) & Non Recited (Hidden)
Wahi Jili (Matloo) & Wahi Khiffi (Ghair Matloo) : https://bit.ly/WahiGhairMatlo / https://quran1book.blogspot.com/2020/06/wahi-ghair-matloo2.html.html / وحی متلو اور غیر متلوتحقیقی جائزہ
[102] علم الحديث کے سنہری اصول : https://bit.ly/Hadith-Basics
[104] مختصر تفسیر للشوکاني فتح القدیر (ص: ۴۷)
[105] سنن أبي داود،کتاب العلم،سنن الترمذي،رقم الحدیث (۶۵۱ و حسنہ) والنسائي و سنن ابن ماجہ،مسند أحمد و المستدرک للحاکم و صححہ الألباني في صحیح الجامع (۶۲۸۴)
[107] مسند أحمد (۱/ ۲۰،۳/ ۳۳۹)
[109] صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ العیدین (۴/ ۸۸۵
[110] مسند أحمد (۳/ ۱۳۵) مشکاۃ المصابیح (۳۵ حدیث جید)
[111] تفسیر ابن کثیر (۴/ ۲۰۵)
[112] شفاعت: https://bit.ly/Shfaat
[113] نیز دیکھیں : سورۃ الأنبیاء [آیت: ۲۸] سورۃ النجم [آیت: ۲۶]
[114] صحیح مسلم،کتاب الجنّۃ (۶۳/ ۲۸۶۵)
[115] سنن أبي داود،کتاب الصلاۃ (۷۷۵) سنن الترمذي،کتاب الصلاۃ (۲۴۲)
[117] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۷۷۶)
[118] صحیح سنن الترمذي للألباني،رقم الحدیث (۲۴۷۱)
[119] صحیح البخاري،تفسیر سورۃ الفرقان (۴۴۷۴) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۸۶)
[121] تفسیر أحسن البیان (ص: ۱۱۷۲)
[122] ‘(ترمذی 2906)/ قرآن :3:103)/ https://trueorators.com/quran-translations/3/103
[123]https://bit.ly/2Iv3MkZ. ["تقييد العلم للخطيب البغدادي" ص 33]، ([مسند احمد، حدیث: 10670، https://quran1book.blogspot.com/2020/10/hadith-ban.html
[125] [الترمذی (2658), صحیح، رواہ الشافعی (فی الرسالۃ ص ۴۰۱ فقرہ: ۱۱۰۲ ص ۴۲۳) (مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 228 و البیھقی فی شعب الایمان (۱۷۳۸) و و احمد (۱/ ۴۳۶) تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ العلم 10 (3660)، سنن ابن ماجہ/المقدمة: 18 (230) (تحفة الأشراف: 3694)، و مسند احمد (1/437)، و (5/183)، وسنن الدارمی/المقدمة 24 (235) (صحیح)
[130] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۳۰۱۷)
[132] الاستیعاب 2/ 375، فتح الباری 8/ 11، البدایہ والنہایہ 5/35
[137] [متفق علیہ ، صحیح بخاری کتاب الرقائق حدیث نمبر( 81 )] ۔
[162]خرجه البخاري في الصحيح، کتاب الجنائز، باب موعظة المحدث عند القبر وقعود أصحابه حوله، 1/ 458، الرقم/ 1296، وأيضًا في کتاب تفسیر القرآن، باب وقوله: وکذب بالحسنی، 4/ 1891، الرقم/ 4665، ومسلم في الصحيح، کتاب القدر، باب کیفیة خلق آدمي في بطن أمه وکتابة رزقه وأجله، 4/ 2039، الرقم/ 2647./ https://www.minhajbooks.com/urdu/book/Arbain-Tafseel-e-Iman-ka-Bayan/read/txt/btid/3435/
[164] '' عن أبي عبد الرحمن عبد الله بن عمر بن الخطاب رضي الله عنهما قال : سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول : « بني الإسلام على خمس : شهادة أن لا إله إلا الله ، وأن محمدا رسول الله ، وإقام الصلاة ، وإيتاء الزكاة ، وحج البيت ، وصوم رمضان ». رواه البخاري ومسلم .
[167] http://www.equranlibrary.com/hadith/bukhari/1366/50 , (البخاری4777 ،50)
[169] https://www.banuri.edu.pk/readquestion/2019-09-144012201204/13-لا-ال-ہ-الا-اللہ-محمد-رسول-اللہ-کا-ثبوت
[170] The triliteral root ṣād lām wāw (ص ل و) occurs 99 times in the Quran, in four derived forms: 12 times as the form II verb ṣallā (صَلَّىٰ)، 83 times as the noun ṣalat (صَلَوٰة)، once as the noun muṣallan (مُصَلًّى)، three times as the form II active participle muṣallīn (مُصَلِّين) https://corpus.quran.com/qurandictionary.jsp?q=Slw
[175] نمازِ حدیثِ مصطفی صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کی روشنی میں: http://makranimasjid.com/sister-detail.php?id=734
[179] صحیح البخاري،تفسیر بني اسرائیل،رقم الحدیث (۴۷۱۷)
[180] صحیح البخاري (۵۵۵) صحیح مسلم،باب فضل صلاتي الصبح و العصر (۲۱۰۔۶۳۲)
[186] https://www.urduweb.org/mehfil/threads/7952/ , https://forum.mohaddis.com/threads/37141/ , https://www.banuri.edu.pk/readquestion/2017-04-08/قرآن-کریم-میں-پنج-وقتہ-نماز-کا-ذکر-اور-ثبوت
[187] بدعة گمراہی (وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ’): https://bit.ly/Bidaah
[188] (اختلافات میں فیصلوں کا اختیار رسول اللہ ﷺ نے خلفاء راشدین کو دیا جس کی نافرمانی ہوئی) (ابی داوود 4607, ترمزی ترمزی 2676، ماجہ 42، 43)
[189] سینٹ پال ، سینٹ پطرس اور امام بخاری (رح ) کے خواب، / https://quran1book.blogspot.com/2021/07/St-Paul-Imam-Bukhari-Dreams.html
[195] Hadith Lists [Baghdadi] : https://wp.me/scyQCZ-list ، https://wp.me/scyQCZ-ban001، 30 https://wp.me/scyQCZ-ban002، 31 https://wp.me/scyQCZ-ban3، 32 https://wp.me/scyQCZ-ban4 ، 33 https://wp.me/scyQCZ-ban5، 34 https://wp.me/scyQCZ-ban6 ، 35 https://wp.me/scyQCZ-ban7 ، 36 ، https://wp.me/scyQCZ-ban8، 37 https://wp.me/scyQCZ-ban9، 38 https://wp.me/scyQCZ-ban10 ، 39 https://wp.me/scyQCZ-ban11 ، 40 https://wp.me/scyQCZ-ban12، 41 Abu Hurairah: https://wp.me/scyQCZ-ban13، 42 https://wp.me/scyQCZ-ban14 ، 43 https://wp.me/scyQCZ-ban15 ، 44 https://wp.me/scyQCZ-ban16، 45 https://wp.me/scyQCZ-ban17، 46 https://wp.me/scyQCZ-ban18، 47 https://wp.me/scyQCZ-ban19، Abu Bakr & Umar did not leave written (Hadiths): 20(48)، 48 https://wp.me/scyQCZ-ban20 ، https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith.html
[197] Lane: A division of a road marked off with painted lines and intended to separate single lines of traffic according to speed or direction.
[200] صحیح البخاري،کتاب فضائل القرآن (۳/ ۵۰)
[201] صحیح البخاري،کتاب الأذان (۷۷۴) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۸۱۳)، مسند أحمد (۵/ ۱۳۳،۱۳۴)
[203] صحیح البخاري،کتاب التفسیر (۴۶۲۹)
[204] صحیح البخاري،تفسیر سورۃ الجمعۃ (۴۸۹۹) صحیح مسلم،کتاب الجمعۃ (۸۶۳)
[214] https://www.thefatwa.com/urdu/questionID/3996/ / زکوٰۃ کے احکام کیا ہیں؟
[217] تفسیر ابن کثیر (۲/ ۳۶۲)https://ur.wikishia.net/view/زکات
[218] أحسن البیان تفسیر آیت مذکورہ (ص: ۴۴۱۔۴۴۲)
[220] https://dunya.com.pk/index.php/author/mufti-muneeb-ul-rehman/2021-04-10/34871/91328074، https://islamqa.info/ur/categories/topics/122/ ، http://darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1489982864%2006_Ahkam-e-Ramazan_MDU_8&9_Aug-Sep_11.htm
[222] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۵۲۱) شرح صحیح مسلم مع النووي (۴/ ۹/ ۱۱۹)
[223] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۱۹۴۹) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۸۸۹) سنن النسائي (۵/ ۲۵۶) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۳۰۵۱) وصححہ ابن خزیمۃ و ابن حبان والحاکم والذھبي۔
[224] فتح الباري (۲/ ۴۶۲) الفتح الرباني شرح مسند أحمد (۳/ ۶/ ۱۷۲) زاد المعاد (۱/ ۴۴۹) نیل الأوطار (۲/ ۳/ ۳۱۶) تمام المنۃ للألباني (ص: ۳۵۶) إرواء الغلیل (۳/ ۱۲۵) فقہ السنۃ (۱/ ۳۲۶)
[225] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۸۲۰) صحیح مسلم (۵/ ۹/ ۱۱۹)
[226] صحیح مسلم،کتاب الحج،رقم الحدیث (۶۷/ ۱۱۹۶) موطأ الإمام مالک (۱/ ۳۲۸)
[227] تفسیر ابن کثیر (۲/ ۸۷)
[228] تفصیل کے لیے دیکھیں : مختصر فتح القدیر للشوکاني (ص: ۳۵۹)
[229] صحیح البخاري،کتاب الأضاحي (۵۵۶۹) صحیح مسلم،کتاب الأضاحي۔۔۔(۱۹۷۱) و سنن أبي داود (۲۸۱۲) سنن الترمذي (۱۵۱۰) سنن النسائي (۴۴۳۶) سنن ابن ماجہ (۳۱۶۰)
[232] تفسیر ابن کثیر (۴/ ۱۴۰)
[234] تفصیل کے لیے دیکھیں : تفسیر ابن کثیر (۱/ ۵۳۱)
[235] صحیح البخاري،کتاب التوحید (۷۶۹۰) صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ (۴۴۶)
[236] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۱۳۲۹)
[237] صحیح البخاري (۴۷۲۳) تفسیر آیت مذکورہ سورۃ بنی إسرائیل (۶۳۲۷) کتاب الدعوات (۷۵۲۶) کتاب التوحید۔
[238] تفسیر ابن کثیر (۲/ ۵۸،۵۷)
[239] تفسیر ابن کثیر (۲/ ۱۲۲)
[242] سنن الترمذي،ابواب الدعوات (۳۴۳۳)
[243] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۱۱۶۹)
[244] صحیح مسلم،کتاب الصلاۃ (۷۲۵) و سنن الترمذي،رقم الحدیث (۴۱۶)
[245] تفسیر ابن کثیر (ص: ۱۷۰۹)
[247] مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : تفسیر ابن کثیر (۴/ ۲۳۲)
[250] [سوره النور(24:55 :تفسیر ، تفہیم القرآن ] http://www.tafheemulquran.net/1_Tafheem/Suraes/024/83.html
[251] https://salaamone.com/khilafah/ Khilafah-English : https://salaamone.com/al-khilafah/
[255] نبی کریم صلی اللہ علیہ و سلم نے ارشاد فرمایا : تم لوگ اپنے سے پہلی قوموں کی ضرور پیروی کروگے ، بالشت بالشت برابر اور ہاتھ ہاتھ کے برابر ، حتی کہ اگر وہ لوگ گوہ (mastigure) کے سوراخ میں داخل ہوں گے تو تم لوگ بھی ان کی پیروی کروگے ، حضرت ابو سعید کہتے ہیں کہ یہ سننے کے بعد ہم لوگوں نے عرض کیا : اے اللہ کے رسول کیا [پہلی قوموں سے مراد ] یہود ونصاری ہیں ؟ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے فرمایا : پھر اور کون ۔ ( صحيح البخاري :3456 ،الأنبياء – صحيح مسلم :6781)
[256] تجدید دین اسلام :رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ؛ میری اُمت میں سے ایک جماعت ہمیشہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر قائم رہے گی (مفھوم، متفق علیہ ) حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: یہ دین ہمیشہ قائم رہے گا اور مسلمانوں کی ایک جماعت اس دین کی خاطر قیامت تک (باطل کے خلاف) برسرِپیکار رہے گی۔ [رواہ مسلم ،احمد ] ابوہریرہ ؓ کہتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اللہ اس امت کے لیے ہر صدی کی ابتداء میں ایک ایسے شخص کو مبعوث فرمائے گا جو اس کے لیے اس کے دین کی تجدید# کرے گا ۔[ ابوداؤد: 4291)
[257] (الکامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد سوم ص 154، دخلت سنۃ خمس وثلاثین مطبوعہ بیروت طبع جدید)
[259] By: Hartwig Hirschfeld، Jewish Encyclopedia, Shatrastani al-Milal, pp. 132 et seq. (in Haarbrücken's translation, i. 200-201);
Weil, Gesch. der Chalifen, i. 173-174, 209, 259.
https://www.jewishencyclopedia.com/articles/189-abdallah-ibn-saba
[260] ا ب پ Madelung، Wilferd. "ḤASAN B. ʿALI B. ABI ṬĀLEB". Encyclopaedia Iranica. اخذ شدہ بتاریخ 06 جولائی 2012.، https://ur.wikipedia.org/wiki/امامت_(اہل_تشیع)
[263] https://en.wikipedia.org/wiki/Biblical_judges , Shia Copy Imamte for Bible , Abdullah bin /Saba https://en.shafaqna.com/56237/shia-beliefs-bible/ https://www.shiachat.com/forum/topic/234958829-twelve-holy-imams-and-bible/
[270] تفصیل کے لیے دیکھیں : أحسن البیان (ص: ۲۲۲۔۲۲۳)
[271] صحیح البخاري،تفسیر سورۃ البقرۃ (۴۴۷۷) صحیح مسلم،کتاب الإیمان (۸۶)
[272] صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب ادنیٰ أہل الجنۃ۔۔۔(۱۹۰)
[276] سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۴۰۱۹) الصحیحۃ (۱۰۶)
[277] صحیح البخاري،تفسیر سورۃ المطففین (۴۹۳۸)
[279] تفسیر ابن کثیر (۲/ ۴۹۱)
[280] صحیح مسلم،کتاب الحدود،باب حد الزنیٰ (۱۲/ ۱۶۹۰) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۴۴۱۵) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۴۳۴) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۲۵۵۰)
[282] تفسیر ابن کثیر (۳/ ۲۲۷)
[283] تفسیر ابن کثیر (۴/ ۲۴)
[285] تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/اللباس ٦ (١٧٢٦)، (تحفة الأشراف: ٤٤٩٦) (حسن) (شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، تراجع الألبانی: رقم: ٤٢٨)
http://www.equranlibrary.com/hadith/ibnemajah/1956/3367
[286] تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/اللباس ٦ (١٧٢٦)، (تحفة الأشراف: ٤٤٩٦) (حسن) (شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، تراجع الألبانی: رقم: ٤٢٨)
http://www.equranlibrary.com/hadith/ibnemajah/1956/3367
[287](سنن ابن ماجہ, حدیث نمبر: 3367) تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/اللباس ٦ (١٧٢٦)، (تحفة الأشراف: ٤٤٩٦) (حسن) (شاہد کی بناء پر یہ حدیث حسن ہے، تراجع الألبانی: رقم: ٤٢٨ ) وضاحت: ١ ؎: یعنی حلال ہے اس کے کھانے میں کچھ مواخذہ نہیں، کیونکہ حلال سیکڑوں چیزیں ہیں، ان سب کا بیان کرنا دشوار تھا، اس لئے جو چیزیں حرام تھیں ان کو قرآن میں بیان کردیا گیا، اسی طرح وہ چیزیں جو حلال تھیں لیکن مشرکین جہالت سے ان کو حرام سمجھتے تھے، انہیں بھی بیان کردیا گیا۔ یہ حدیث ابو داود 4604 اور اس موضوع پر احادیث کے برخلاف ہے۔
[290] مسند أحمد (۲؍ ۳۵۱)
[291] تفسیر ابن کثیر (۱/ ۲۲۴) طبع بیروت۔
[296] تفسیر ابن کثیر (۱/ ۲۶۸)
[297] تحرّف کے معنیٰ ہیں : ایک طرف پِھر جانا،یعنی لڑائی میں جنگی چال کے طور پر یا دشمن کو دھوکے میں ڈالنے کی غرض سے لڑتا لڑتا ایک طرف پھر جائے،دشمن یہ سمجھے کہ شاید یہ شکست خوردہ ہو کر بھاگ رہا ہے،لیکن پھر وہ ایک دم پینترا بدل کر اچانک دشمن پر حملہ کر دے۔یہ پیٹھ پھیرنا نہیں ہے،بلکہ یہ تحیّز کے معنیٰ،ملنے اور پناہ لینے کے ہیں،کوئی مجاہد لڑتا لڑتا تنہا رہ جائے تو لطیف انداز کے ساتھ میدانِ جنگ سے ایک طرف ہو جائے،تاکہ وہ اپنی جماعت کی طرف پناہ حاصل کرے اور اس کی مدد سے دوبارہ حملہ کرے۔یہ دونوں صورتیں جائز ہیں۔(احسن البیان،ص: ۴۰۱)
[299] صحیح البخاري،کتاب الجہاد (۲۹۶۶)
[300] مختصر تفسیر ابن کثیر للرفاعي (۱/ ۱۵۱)
[301] https://islamqa.org/hanafi/askimam/125948/context-of-the-verse-of-the-sword-surah-tawbah-verse5/
[306] تفسیر ابن کثیر (۲/ ۳۵۰)
[319] اسلام اور مسلمان - فرقہ واریت کے خاتمہ کا پہلا قدم Islam & Muslims: https://salaamone.com/muslim1/
[326] سنن أبي داود،کتاب اللباس (۴۰۳۱) و حسنہٗ الألباني في حجاب المرأۃ (ص: ۱۰۴)
[327] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۸۲۶) مسلم (۲/ ۲۲۴۶)
[328] صحیح مسلم،کتاب الإیمان،باب: .وَاَنْذِرْ۔۔۔. (۲۰۶)/ صحیح البخاري،تفسیر سورۃ المسد (۴۹۳۱)
[331] مختصر فتح القدیر للشوکاني (ص: ۱۲۶۵) طبع دار السلام۔
[332] http://salaamforum.blogspot.com/2016/04/niqab.html / نقاب ، حجاب: قرآن , حدیث اور اجماع
[335] تفسیر ابن کثیر (۱/ ۴۰۳)
[336] تفسیر ابن کثیر (۳/ ۱۹۱)
[337] [صحیح البخاري (۴۷۶۱) تفسیر سورۃ الفرقان،صحیح مسلم،کتاب التوحید (۱۴۱/ ۸۶)
[340] سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5) /1 https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/49:1 / https://trueorators.com/quran-tafseer/49/1
[341] بدعة گمراہی (وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ’): https://bit.ly/Bidaah
[342] رسول اللہ ﷺ پر بہتان تراشی گہری سازش : https://bit.ly/Bohtan
[343] اجماع باطل : قرآن ، رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام کے خلاف https://bit.ly/False-Ijmaa-pdf , https://bit.ly/False-Ijmaa
[346] [ماخوز ازتفسیر،کشف الرحمان، احمد سید دہلوی] https://trueorators.com/quran-tafseer/4/14
[349] http://www.equranlibrary.com/hadith/mishkaat/1908/165/ (جامع ترمذی) اور اس روایت کو سنن ابن ماجہ نے کثیر بن عبداللہ بن عمر سے اور عمر نے اپنے والد سے اور انہوں نے اپنے دادا سے روایت کیا ہے
[352] نووی، شرح صحيح مسلم، 1 : 27، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی صلی الله عليه وآله وسلم عن الايمان و الاسلام و الاحسان
[355] ‘‘(بخاری ، مسلم / بخاری، الصحيح : 34، رقم : 50، کتاب الايمان، باب بيان الايمان والاسلام والاحسان و وجوب الايمان، مسلم، الصحيح : 65، رقم : 1، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی عن الايمان والاسلام ولإحسان و علم اشاعة)
[369] https://trueorators.com/quran-tafseer/59/10, (یہ سب روایات تفسیر قرطبی سے لی گئی ہیں ) (تفسیر معرف القرآن مفتی محمد شفع)
[372] [رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ4607 ، الأربعون النووية وَاَلتِّرْمِذِيُّ 2676] وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)
[373] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/hadith.html ، https://bit.ly/Hadith-Basics ، https://bit.ly/False-Ijmaa-pdf
[374] https://quran1book.blogspot.com/2021/08/tajdeed.html، https://quran1book.blogspot.com/2021/06/Hadith-Set.html
[375] https://bit.ly/Tejdeed-Islam، https://bit.ly/IslamicRevival-net , AAK-Hadith Notes Eng: https://bit.ly/Hadiths-Eng
AAK-Hadith Notes Urdu (اردو ) : https://bit.ly/Hadiths
[377] https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Last-Will.html، تقييد العلم للخطيب 33], [الفاظ میں فرق کے ساتھ ، مسند احمد، حدیث: 10670.مزید ملاحضہ، ابی داوود 4607, ترمزی 2676، ماجہ 42، صحیح مسلم، حدیث: 7510، تقييد العلم ، الخطيب البغدادي : 49)
[378]https://bit.ly/2Iv3MkZ. ["تقييد العلم للخطيب البغدادي" ص 33]، ([مسند احمد، حدیث: 10670، https://quran1book.blogspot.com/2020/10/hadith-ban.html
[380] [الترمذی (2658), صحیح، رواہ الشافعی (فی الرسالۃ ص ۴۰۱ فقرہ: ۱۱۰۲ ص ۴۲۳) (مشکوٰۃ المصابیح, حدیث نمبر: 228 و البیھقی فی شعب الایمان (۱۷۳۸) و و احمد (۱/ ۴۳۶) تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ العلم 10 (3660)، سنن ابن ماجہ/المقدمة: 18 (230) (تحفة الأشراف: 3694)، و مسند احمد (1/437)، و (5/183)، وسنن الدارمی/المقدمة 24 (235) (صحیح)
[384] صحیح سنن الترمذي للألباني،رقم الحدیث (۲۴۷۱)
[386] منھاج المسلم لأبي بکر جابر الجزائري (ص: ۱۱۷)
[400] صحیح سنن الترمذي للألباني (۳؍ ۴۶)
[401] صحیح البخاري (۵۰۶۳) شرح صحیح مسلم مع النووي (۵/ ۹/ ۱۷۵۔۱۷۶)
[402] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۱۳۶۹) مسند أحمد (۶/ ۲۶۸)
[403] صحیح البخاري،کتاب التفسیر (۴۹۱۲)
[404] صحیح سنن النسائي للألباني (۳/ ۶۳) فتح الباري،تفسیر سورۃ التحریم (۸/ ۸۳۷۔۸۳۸)
[405] مزید تفصیل کے لیے دیکھیں : نمبر (۹۷)
[406] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۷۲۸۹) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۳۲/ ۲۳۵۸)
[407] صحیح البخاري،کتاب الأنبیاء،رقم الحدیث (۳۴۴۵) مسند أحمد (۱؍ ۲۳،۱۴۷)
[408] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۷۳۲۰) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۶/ ۲۶۶۹)
[409] تفسیر ابن کثیر (۱/ ۵۰۶)
[410] فتح القدیر،تفسیر ابن کثیر،صحیح البخاري،رقم الحدیث (۲۵۹۳) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۲۷۷۰) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۳۱۸۰)
[411] صحیح البخاري،کتاب الاستئذان،رقم الحدیث (۶۲۴۵) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۵۱۸۵،۵۱۸۶) مسند أحمد (۳؍ ۱۳۸)
[412] مختصر تفسیر ابن کثیر للرفاعي (۱/ ۱۵۰)
[413] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۵۶۵)
[414] سنن الترمذي،کتاب التفسیر (۳۳۰۹) مسند أحمد (۵/ ۴۵۲)
[415] صحیح مسلم،کتاب الأمارۃ (۱۷/ ۱۸۲۶)
[416] صحیح مسلم،کتاب البر،رقم الحدیث (۱۴/ ۲۵۵۳)
[425] تفسیر ابن کثیر (۱/ ۲۸۵)
[433] The PTI government if the first half of its five-year tenure had got printed Rs2001,53 billion which were 106 percent more than what the last PML-N government had got printed in the first half of its tenure and 268 percent more than the last PPP government’s first half. https://www.24newshd.tv/21-Feb-2021/pti-govt-get-printed-record-currency-notes-in-first-two-feb-weeks
[435] There are 53 Kafir (Infidel) Countries which are Riba/ Interest Free [Zero Interest Rates] & only 2 Muslims countries https://salaamone.com/riba/#KafirsRibaFree
[445] https://sunnah.com/bukhari:5134 / https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=5134
[448] [الرئيسية الكفاية في علم الرواية للخطيب, باب الكلام في أحكام الأداء وشرائطه، حديث رقم 1303]
[450] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/jews-christian-footsteps.html ، https://www.facebook.com/answeringatheist/photos/a.130758608317565/162682798458479/?type=3
[451] http://salaamforum.blogspot.com/2016/04/niqab.html / نقاب ، حجاب: قرآن , حدیث اور اجماع
[453] http://www.equranlibrary.com/hadith/abudawood/1748/4104 / قال الشيخ الألباني: صحيح/ أَبُو دَاوُدَ حدیث نمبر4104
[459] أحكام القرآن للجصاص ط: العلمية (1 / 459): قَالَ أَصْحَابُنَا: أَحْسَنُ الطَّلَاقِ أَنْ يُطَلِّقَهَا إذَا طَهُرَتْ قَبْلَ الْجِمَاعِ ثُمَّ يَتْرُكَهَا حَتَّى تَنْقَضِيَ عِدَّتُهَا، وَإِنْ أَرَادَ أَنْ يُطَلِّقَهَا ثَلَاثًا طَلَّقَهَا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ وَاحِدَةً قَبْلَ الْجِمَاعِ وَهُوَ قَوْلُ الثَّوْرِيِّ. وَقَالَ أَبُو حَنِيفَةَ: وَبَلَغَنَاعَنْ إبْرَاهِيمَ عَنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُمْ كَانُوا يَسْتَحِبُّونَ أَنْ لَا يَزِيدُوا فِي الطَّلَاقِ عَلَى وَاحِدَةِ حَتَّى تَنْقَضِيَ الْعِدَّةُ، وَأَنَّ هَذَا عِنْدَهُمْ أَفْضَلُ مِنْ أَنْ يُطَلِّقَهَا ثَلَاثًا عِنْدَ كُلِّ طُهْرٍ وَاحِدَةً.
[460] تفسير الألوسي = روح المعاني (1 / 530، ط: دار الکتب العلمیه): فقد أخرج مالك والشافعي والترمذي رضي الله تعالى عنهما وغيرهم. عن عروة قال: كان الرجل إذا طلق امرأته ثم ارتجعها قبل أن تنقضي عدّتها كان ذلك له وإن طلقها ألف مرة، فعمد رجل إلى امرأته فطلقها حتى إذا ما شارفت انقضاء عدّتها ارتجعها ثم طلقها ثم قال: والله لا آويك إليّ ولا تخلين أبدا، فأنزل الله تعالى الآية.
[461] صحيح البخاري (2/791، ط:قدیمی): باب من أجاز طلاق الثلاث لقول الله تعالى: {الطلاق مرتان فإمساك بمعروف أو تسريح بإحسان} [البقرة: 229]
[462] تفسير القرطبي (3 / 128): تَرْجَمَ الْبُخَارِيُّ عَلَى هَذِهِ الْآيَةِ" بَابُ مَنْ أَجَازَ الطَّلَاقَ الثَّلَاثَ بِقَوْلِهِ تَعَالَى: الطَّلاقُ مَرَّتانِ فَإِمْساكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسانٍ" وَهَذَا إِشَارَةٌ منه إلى أن هذاالتعديد إنما هو فسخه لَهُمْ، فَمَنْ ضَيَّقَ عَلَى نَفْسِهِ لَزِمَهُ. قَالَ عُلَمَاؤُنَا: وَاتَّفَقَ أَئِمَّةُ الْفَتْوَى عَلَى لُزُومِ إِيقَاعِ الطَّلَاقِ الثَّلَاثِ فِي كَلِمَةٍ وَاحِدَةٍ، وَهُوَ قَوْلُ جُمْهُورِ السَّلَفِ.
[463] أحكام القرآن للجصاص (1 /527 ، ط: قدیمی):قَالَ أَبُو بَكْرٍ: قَوْله تَعَالَى: {الطَّلاقُ مَرَّتَانِ فَإِمْسَاكٌ بِمَعْرُوفٍ أَوْ تَسْرِيحٌ بِإِحْسَانٍ} الْآيَةَ، يَدُلُّ عَلَى وُقُوعِ الثَّلَاثِ مَعًا مَعَ كَوْنِهِ مَنْهِيًّا عَنْهَا.
[464] https://www.banuri.edu.pk/readquestion/%D8%A7%DB%8C%DA%A9-%D9%85%D8%AC%D9%84%D8%B3-%DA%A9%DB%8C-%D8%AA%DB%8C%D9%86-%D8%B7%D9%84%D8%A7%D9%82%DB%8C%DA%BA-2/15-05-2018
[466] تفسیر ابن کثیر (۱/ ۲۴۴) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۱۹۴) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۱۸۴) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۲۰۳۹)
[467] صحیح البخاري،کتاب النکاح،رقم الحدیث (۵۱۳۰)
[468] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۰۸۵) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۱۰۱) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۱۸۸۱) مسند أحمد (۴/ ۴۱۳) و صححہ الألباني في الإرواء (۶/ ۲۳۵)
[469] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۲۰۸۳) سنن الترمذي،رقم الحدیث (۱۱۰۲) سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۱۸۷۹) مسند أحمد (۶/ ۱۶۵) و صححہ الألباني في الإرواء (۶/ ۲۴۳)
[470] تفسیر ابن کثیر (۵/ ۲۷۸)
[477] http://www.darululoom-deoband.com/urdu/articles/tmp/1495335824%2004-Taqlid%20Ki%20Sharai_MDU_11_Nov_14.htm
[478] علم الحديث کے سنہری اصول : https://bit.ly/Hadith-Basics
[480] Key2Quran (3:7) شاه کلید قرآن https://bit.ly/Key2Quran
[481] (مشکوٰۃ المصابیح 239، رواہ ابوداؤد (2558) ابن ماجہ (54) الذھبی فی تلخیص المستدرک(۴/ ۳۳۲)۔ #مَنْ یُّطِعِ الرَّسُوْلَ فَقَدْ اَطَاعَ اللّٰهَۚ- (النساء : ۸۰)
[489] [رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ4607 ، الأربعون النووية وَاَلتِّرْمِذِيُّ 2676] وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)
[496] تفسیر ابن کثیر (۴/ ۴۴۱)
[500] مختصر فتح القدیر للشوکاني (ص: ۸۴۸)
[501] صحیح البخاري،کتاب الجمعہ (۹۱۱) صحیح مسلم،کتاب السلام (۲۸/ ۲۱۷۷)
[502] صحیح مسلم،رقم الحدیث (۹۱) سنن أبي داود،رقم الحدیث (۴۰۹۰)
[503] صحیح البخاي،کتاب الأدب (۶۰۶۶) صحیح مسلم (۲۸/ ۲۵۶۳)
[505] صحیح البخاري،کتاب الاستئذان (۶۲۹۰) صحیح مسلم،کتاب السلام (۲۱۸۴)
[509] تحریم آلات الطرب للألباني (ص: ۱۴۳)
[514] مسند أحمد (۳/ ۴۸۸،۶/ ۳۹۴)
[516] سورۃ الحجرات (آیت:1 تا5) /1 https://tanzil.net/#trans/ur.maududi/49:1 / https://trueorators.com/quran-tafseer/49/1
[517] بدعة گمراہی (وَکُلُّ بِدْعَۃٍ ضَلَالَۃٌ’): https://bit.ly/Bidaah
[518] رسول اللہ ﷺ پر بہتان تراشی گہری سازش : https://bit.ly/Bohtan
[519] اجماع باطل : قرآن ، رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین اور صحابہ اکرام کے خلاف https://bit.ly/False-Ijmaa-pdf , https://bit.ly/False-Ijmaa
[522] تفسیر ابن کثیر (۵/ ۲۲)
[523] صحیح البخاري،کتاب اللباس،رقم الحدیث (۵۷۸۳) سے قبل تبویب میں۔
[524] تفسیر ابن کثیر (۲/ ۱۸۳)
[525] مختصر فتح القدیر للشوکاني (ص: ۱۱۲۰)
[526] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۶۶۲۳) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۲۶۹)
[527] بحوالہ صحیح الجامع،رقم الحدیث (۶۵۴۱) و السلسلۃ الصحیحۃ،رقم الحدیث (۴۱۶)
[528] تفسیر ابن کثیر (۵/ ۴۰،۵۳۸)
[530] صحیح البخاري،کتاب الأدب (۲۶۲۰) صحیح مسلم،کتاب الزکاۃ (۵۰/ ۱۰۰۳)
[531] https://salaamone.com/muslim-non-muslim-relations/ ، https://salaamone.com/quran-misinterpreted-verses/
[532] تفسیر قرطبي بحوالہ أحسن البیان (ص: ۱۴۴)
[534] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۴۶۷۰) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۳/ ۲۷۷۴)
[535] صحیح البخاري،کتاب التفسیر،سورۃ التوبۃ (۱۳۶۰) تفسیر ابن کثیر (۲/ ۳۹۸)
[536] صحیح مسلم،کتاب الأمارۃ (۱۸۲۷)
[537] https://en.wikipedia.org/wiki/Unitarianism ، https://en.wikipedia.org/wiki/List_of_Unitarians,_Universalists,_and_Unitarian_Universalists
[538] تفسیر ابن کثیر (۳/ ۴۵۹)
[539] سنن الترمذی،تفسیر سورۃ المومنون (۳۱۷۵) مسند أحمد (۶۔۱۹۵۔۲۰۵)
[540] صحیح البخاري،رقم الحدیث (۵۰۶۳) صحیح مسلم،رقم الحدیث (۱۴۰۱)
[541] شرح صحیح البخاري لابن الملقن (۲۴/ ۲۳۶) البدر المنیر (۷/ ۴۳۲)
[542] صحیح البخاري،کتاب الصوم (۱۹۰۵) صحیح مسلم،کتاب النکاح (۱۴۰۰)
[543] أیسر التفاسیر للجزائري (۳/ ۵۹۱)
[544] سنن ابن ماجہ،رقم الحدیث (۲۲۹۱) مسند أحمد (۲؍ ۱۷۹)
[545] سنن أبي داود،رقم الحدیث (۳۵۲۸ وصححہ الألباني) سنن ابن ماجہ (۲۱۳۷)
[546] صحیح البخاري،کتاب العلم (۹۷) صحیح مسلم،کتاب الإیمان (۱۵۴)
[547] مسند أحمد (۵/ ۳۸۸) و سنن أبي داود (۱۳۱۹) صحیح الجامع (۴۷۰۳)
[548] مسند أحمد (۵/ ۶۶) و الصحیحۃ،رقم الحدیث (۱۷۹)
[551] صحیح البخاري،کتاب الدعوات (۶۳۰۷) مسند أحمد (۴/ ۲۱۱)
[555] (i) وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَمْرٍو قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: الْعِلْمُ ثَلَاثَةٌ: آيَةٌ مُحْكَمَةٌ أَوْ سُنَّةٌ قَائِمَةٌ أَوْ فَرِيضَةٌ عَادِلَةٌ وَمَا كَانَ سِوَى ذَلِكَ فَهُوَ فضل . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد وَابْن مَاجَه (ترجمہ)عبداللہ بن عمرو ؓ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:’’ علم تین ہیں: آیت محکمہ اور سنت ثابتہ اور فریضہ عادلہ باقی زائد
(مشکوٰۃ المصابیح، حدیث نمبر: 239، رواہ ابوداؤد (2558) و ابن ماجہ (54) الذھبی فی تلخیص المستدرک (۴/ ۳۳۲)۔ https://www.almrsal.com/post/1112034
(ii) حدیث کی سند ضعیف بھی ہو مگر قرآن سے مطابقت اس کے ضعف کو دور کردیتی ہے۔ اور دوسری روایات گو سنداً قوی تر ہیں، لیکن قرآن کے ظاہر بیان سے عدم مطابقت ان کو ضعیف کردیتی ہے ( تفہیم القرآن، سید ابو اعلی مودودی، تفسیر،الحج، 22:1 نوٹ1): (iii) علم الحديث کے سنہری اصول : https://bit.ly/Hadith-Basics
[556] علم الحديث کے سنہری اصول : https://bit.ly/Hadith-Basics
[557] https://quransubjects.blogspot.com/2019/11/ethics99.html, https://wp.me/s9pwXk-ethics, https://salaamone.com/ethics/
[558] https://quransubjects.blogspot.com/2019/11/ethics99.html
Introduction to Ahkam al-Qur’an, By Mufti Muhammad Taqi Usmani
https://www.deoband.org/2011/12/theology-rulings/introduction-to-ahkam-al-quran/
[کتاب: قرآن مجید میں احکامات و ممنوعات , مصنف: ام عبد المتین عظمت فاطمہ, پبلیشر: ام القری پبلی کیشنزگوجرانوالہ]
https://en.wikipedia.org/wiki/Ahkam
https://islam4u.pro/blog/ahkam-in-the-quran/
https://bit.ly/AhkamAlQuran
https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vSLt7h9rYDh75r9ebTXFKn7T0mKmIjHqw9Ch3jihRIKwkVYiGMfnaBEb27YUpwjF3MU6A691KUvx6jy/pub
<iframe height="1000px" src="https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vSLt7h9rYDh75r9ebTXFKn7T0mKmIjHqw9Ch3jihRIKwkVYiGMfnaBEb27YUpwjF3MU6A691KUvx6jy/pub?embedded=true" width="100%"></iframe></div>