شیعہ ارتقاء https://bit.ly/ShiaEvolution
فرقہ واریت و خاتمہ اختلافات
عقائد، نظریات واختلافات و اشتباهات
تحقیق و تجزیہ
https://SalaamOne.com/e-books/Odyssey/Schism
Web: https://bit.ly/Sahaba-Grudge
E-bookPdf: https://bit.ly/ShiaEvolution \ https://bit.ly/Schism-Islam
A5 Pages 57, Font14, Words 75763, Reading time304 Mins , Size2.4MB, [GogDoc]
For a mobile-friendly reading experience try: ttps://bit.ly/eBooks-Reader
Copyright: All Rights Reserved: Nevertheless, free distribution is encouraged. Passages may be copied or quoted with proper references to this book and its web link.
By: Brigadier Aftab Ahmad Khan (R)
https://FreeBookPark.blogspot.com
Distribution of this e-book on non-commercial basis is permitted
Published in “The Defence Journal”[ 2006-2013], 2-C Zamzama Boulevard, Pathfinder Foundation, Clifton, Karachi, Pakistan www.defencejournal.com
Author
Brigadier (Retired) Aftab Ahmad Khan: A freelance writer, researcher, and blogger with Master's degrees in Political Science, Business Administration, & Strategic Studies. For over 20 years, he has passionately delved into the study of the Holy Quran, alongside other sacred scriptures, exploring their teachings and the lives of their followers. Since 2006, he has been a contributing writer for "The Defence Journal," sharing his insights with a wide audience. His work extends beyond the journal, with articles and free eBooks reaching over 5 million downloads. You can find them at the following links:
https://SalaamOne.com/e-books || https://FreEbookpark.blogspot.com
https://DefenceJournal.com/author/aftab-khan/
FB@IslamiRevival, Twitter/X@QuranAhkam , Email: Tejdeed@gmail.com
أَعُوذُ بِاللّٰہِ مِنَ الشَّیطَانِ الرَّجِیمo بسم الله الرحمن الرحيم
مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٣١﴾ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿30:32 سورة الروم﴾
اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے، اور ڈرو اُس سے، اور الصَّلَاةَ قائم کرو، اور نہ ہو جاؤ اُن مشرکین میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور شِيَعًا بن گئے ہیں، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے (سورة الروم 30:32)
سب مل کر اللہ کی رسی کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو (قرآن:3:103)
هُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ مِنۡهُ اٰيٰتٌ مُّحۡكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الۡكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌؕ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ زَيۡغٌ فَيَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَهَ مِنۡهُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَةِ وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِيۡلِهٖۚ وَمَا يَعۡلَمُ تَاۡوِيۡلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ؔۘ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِى الۡعِلۡمِ يَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ كُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ۞ (القرآن 3:7)
ترجمہ:: وہی اللہ ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے۔ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دُوسری متشابہات۔ جن لوگوں کو دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی (تاویلیں) پہنانے کی کو شش کیا کرتے ہیں حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلا ف اِ س کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ”ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں۔“ اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں(القرآن 3:7)
فَمَنِ اتَّبَعَ هُدَايَ فَلَا يَضِلُّ وَلَا يَشْقٰي(قرآن: 20:123)
جس آدمی نے میری ہدایت ( قرآن) کی پیروی کی نہ وہ دنیا میں گمراہ ہوگا اور نہ (آخرت میں) بدبخت ہوگا (قرآن: 20:123)[1]،[2]
نبی کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا: جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے [3] …‘‘(رواہ حضرت علیؓ، ترمذی 2906)
اسلام دین کامل کی بنیاد قرآن کی محکم آیات جن کا صرف ایک مطلب ہوتا ہے ان پر ہے تاویلات پر نہیں-
1)غیر تجارتی مقصد، .دعوہ کے لیے ویب سائٹ / لنک کا حوالہ دے کر میڈیا پر کاپی اور شیئر کرنا احسن اقدام ہو گا
2)یہ مطالعہ قرآن کی واضح (آیاتٌ مُّحْكَمَاتٌ ، أُمُّ الْكِتَابِ) سنت ، حدیث اور مستند تاریخ کی بنیاد پر ہے۔ ا اینڈ نوٹس/ لنکس / ریفرنسز ملاحضہ فرمائیں –
3) پڑھنے کے بعد اگر کوئی سوالات اور شبہات ہوں تو وہ مکمل تحقیق کا مطالعہ کرنے سے دور ہو سکتے ہیں ان شاء اللہ
ھدیہ پیش خدمت
انتساب
حضرت محمد رسول اللهﷺ(خاتم النبیین)
اہل بیت
ازواج مطہرات (رضی الله) ، حضرت فاطمہ (رضی الله) حضرت علی (رضی الله) ، حضرت حسن (رضی الله) حضرت حسین (رضی الله)
اور حضرت ابوبکر صدیق (رضی الله) ، حضرت عمر (رضی الله) ، حضرت عثمان (رضی الله) و صحابہ کرام رضوان الله اجمعین و شہداء، مومنین و الصالحین
* * * * * *
أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ
رساله تجديد الاسلام
پہلی صدی کے اسلام دین کامل کی بحالی
بسم الله الرحمن الرحيم
لآ اِلَهَ اِلّا اللّهُ مُحَمَّدٌ رَسُوُل اللّهِ
شروع اللہ کے نام سے، ہم اللہ کی حمد کرتے ہیں اس کی مدد چاہتے ہیں اوراللہ سے مغفرت کی درخواست کر تے ہیں. جس کواللہ ھدایت دے اس کو کوئی گمراہ نہیں کرسکتا اورجس کو وہ اس کی ہٹ دھرمی پر گمراہی پر چھوڑ دے اس کو کوئی ھدایت نہیں دے سکتا- ہم شہادت دیتے ہیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں، محمد ﷺ اس کے بندے اورخاتم النبین ہیں اور انﷺ کے بعد کوئی نبی یا رسول نہیں ہے. درود و سلام ہوحضرت محمّد ﷺ پر اہل بیت، خلفاء راشدین واصحاب (رضی اللہ تعالیٰ عنہ) اجمعین پر- .دین میں ہر نئی بات بدعت ہے اور ہر بدعت گمراہی (ضَلَالَۃٌ) ہے- جو نیکی وه کرے وه اس کے لئے اور جو برائی وه کرے وه اس پر ہے، اے ہمارے رب! اگر ہم بھول گئے ہوں یا خطا کی ہو تو ہمیں نہ پکڑنا -
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٠٢﴾ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ(قرآن: 3:103)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو (102)
سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو (قرآن:3:103)[4]
مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴿٣١﴾ مِنَ الَّذِينَ فَرَّقُوا دِينَهُمْ وَكَانُوا شِيَعًا ۖ كُلُّ حِزْبٍ بِمَا لَدَيْهِمْ فَرِحُونَ ﴿٣٢سورة الروم﴾
(قائم ہو جاؤ اِس بات پر) اللہ کی طرف رجوع کرتے ہوئے، اور ڈرو اُس سے، اور نماز قائم کرو، اور نہ ہو جاؤ اُن مشرکین میں سے جنہوں نے اپنا اپنا دین الگ بنا لیا ہے اور گروہوں میں بٹ گئے ہیں، ہر ایک گروہ کے پاس جو کچھ ہے اسی میں وہ مگن ہے (سورة الروم 32)
اتَّخَذُوا أَحْبَارَهُمْ وَرُهْبَانَهُمْ أَرْبَابًا مِّن دُونِ اللَّـهِ وَالْمَسِيحَ ابْنَ مَرْيَمَ وَمَا أُمِرُوا إِلَّا لِيَعْبُدُوا إِلَـٰهًا وَاحِدًا ۖ لَّا إِلَـٰهَ إِلَّا هُوَ ۚ سُبْحَانَهُ عَمَّا يُشْرِكُونَ ﴿سورة التوبة31﴾
انہوں (اہل کتاب) نے اپنے علماء اور درویشوں کو اللہ کے سوا اپنا رب بنا لیا ہے اور اسی طرح مسیح ابن مریم کو بھی حالانکہ ان کو ایک معبود کے سوا کسی کی بندگی کرنے کا حکم نہیں دیا گیا تھا، وہ جس کے سوا کوئی مستحق عبادت نہیں، پاک ہے وہ ان مشرکانہ باتوں سے جو یہ لوگ کرتے ہیں (سورة التوبة 31)
وَالَّذِينَ إِذَا ذُكِّرُوا بِآيَاتِ رَبِّهِمْ لَمْ يَخِرُّوا عَلَيْهَا صُمًّا وَعُمْيَانًا ﴿٧٣ الفرقان﴾
اور جب انہیں ان کے پروردگار کی آیتوں کے ذریعہ سے نصیحت کی جاتی ہے تو وہ بہرے اور اندھے ہوکر ان پر گر نہیں پڑتے (بلکہ ان میں غور و فکر کرتے ہیں)۔ (قرآن:25:73)
وَ الَّذِیۡنَ جَآءُوۡ مِنۡۢ بَعۡدِہِمۡ یَقُوۡلُوۡنَ رَبَّنَا اغۡفِرۡ لَنَا وَ لِاِخۡوَانِنَا الَّذِیۡنَ سَبَقُوۡنَا بِالۡاِیۡمَانِ وَ لَا تَجۡعَلۡ فِیۡ قُلُوۡبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا رَبَّنَاۤ اِنَّکَ رَءُوۡفٌ رَّحِیۡمٌ
اورجولوگ اُن کے بعدآئے وہ کہتے ہیں: ’’اے ہمارے رب!ہمیں اورہمارے اُن بھائیوں کو بھی بخش دے جوایمان میں ہم سے سبقت لے گئے ہیں اورہمارے دلوں میں ایمان والوں کے لئے کوئی بغض نہ رکھنااے ہمارے رب! یقیناتوبے حد شفقت کرنے والا، نہایت رحم والاہے۔[5](قرآن :59:10 )
وَ قُلِ الۡحَمۡدُ لِلّٰہِ الَّذِیۡ لَمۡ یَتَّخِذۡ وَلَدًا وَّ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ شَرِیۡکٌ فِی الۡمُلۡکِ وَ لَمۡ یَکُنۡ لَّہٗ وَلِیٌّ مِّنَ الذُّلِّ وَ کَبِّرۡہُ تَکۡبِیۡرًا ﴿111﴾
اور یہ کہہ دیجئے کہ تمام تعریفیں اللہ ہی کے لئے ہیں جو نہ اولاد رکھتا ہے نہ اپنی بادشاہت میں کسی کو شریک رکھتا ہے اور نہ وہ کمزور ہے کہ اسے کسی (وَلِیٌّ) حمایتی کی ضرورت ہو اور تو اس کی پوری پوری بڑائی بیان کرتا رہ ۔(قرآن:17:111)[6]
السلام علیکم !
صحابہ رسول اللہﷺ پر بات کرنا کسی مسلمان کے لئے باعث عزت ہے- کیونکہ یہ عظیم ہستیاں رسول اللہﷺ کے ساتھی تھے جو مشکل وقت میں ان کے ساتھ ڈٹ کر کھڑے ہونے سختیاں اورتکلیفیں برداشت کیں، اپنی جان، مال، فیملی سب کچھ اسلام پر قربان کیا اوررسول اللہ ﷺ سے براہ راست اسلام کی تعلیم حاصل کرکہ قرآن، سنت، حدیث ہم تک پہنچانے کی ذمہ داری بخوبی سر انجام دی، ہم ان کے شکر گزار ہیں- انسانی کمزوریوں سے کوئی شخصیت مبرا نہیں، لیکن صالح مومن وہ ہے جو اپنی غلطیوں کو قبول کرکہ نیکیوں سے ازالہ کرتا ہے اور الله تعالی کی رضا پر خوش رہتا ہے- ان حضرات کی ایک خاص حیرت انگیز خوبی کہ وہ رسول اللہﷺ پر جھوٹ نہیں بولتے تھے- گناہ اور سچ کی ایک انتہائی مثال؛ ایک شخص اپنے خلاف گناہ کی شہادت چار بار خود رضاکارانہ طورپراوربچاو کے مواقع مہیا کیئے جانے کے باوجود رجم کی تکلیف دہ موت قبول کرے صرف الله تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے، اس سے سچا کون ہو سکتا ہے؟ جس کا جنازہ پڑھا کر رسول اللہ ﷺ کلمہ خیربھی فرمائیں تو کیا اللہ اس سزاوار کو معاف کرکہ راضی نہ ہوگا؟[7] کیا اس کی تضحیک کرنا مناسب ہے؟
الله تعالی نے اولین، ایمان میں سبقت کرنے والے اور بیعت رضوان کرنے والے صحابہ کرام کو "رضی الله " کے اعزاز سے نوازا اور انکا احسان سے اتباع کرنے والوں کو بھی اس اعزاز کا مستحق ٹھرایا- رسول اللہﷺ کے بعد آئیڈیل اسلامی شخصیات کا گروہ ان پرمشتمل ہے جن میں سب سے أعلى چار خلفاء راشدین (رضی اللہ اجماعین) ہیں -
فرقہ واریت ںے جہاں اسلام کو نقصان پہنچایا وہاں صحابہ کرام کو بھی نشانہ پررکھا تاکہ اسلام کو مشکوک بنایا جا سکے اور بدعات شامل کرنے کا جواز پیدا کیا جا سکے- یہود و نصاری سے کچھ لوگ بظاھر اسلام قبول کرکہ اس کام میں پیش پیش تھے - صدیوں کے پراپیگنڈا نے حق کو باطل سے اس قدر ملا دیا گیا ہے کہ ایک عام مسلمان جب صحابہ کرام کو مشکل حالات میں مختلف مقدس شخصیات کے ساتھ یا مخالف کھڑا دیکھتا ہے تو اشتباهات کا شکار ہو جاتا ہے- تاریخ کے کئی متضاد پہلو ہوتے ہیں جو مورخین کی شخصیت پر منحصر ہوتے ہیں- جتنا گہرائی میں جائیں اتنا ہی الجھاؤ بڑھتا ہے- مورخین اور علماء کی بھی اپنی ترجیحات و تعصبات ہوتے ہیں اس صورت حال میں قرآن ہماری مدد کو آتا ہے جو اللہ کی طرف سے خالص،مکمل و محفوظ کتاب ھدایت ہے- ان تاریخی واقعات کے اسلام (دین کامل) پر اثرات کو قرآن کی کسوٹی پر پرکھنے سے حق اور باطل واضح ہو جاتا اور تو اشتباهات دور ہو جاتے ہیں - یہ اسلامی تاریخ کی کتاب نہیں ہے، اگرچہ کچھ اہم تاریخی واقعات کا تذکرہ ضروری ہے - اس کتاب میں اہم مواد کو اکٹھا کرکہ اس میں سے "حقائق واشتباهات" (Truth & Errors) کو قرآن ، سنت ، احادیث اور تاریخ کے تناظر میں اجاگر (highlight) کرنے کی کوشش کی گئی ہے تاکہ متلاشی حق ، اس مطالعہ (study) سے آزادانہ طور اسلام (دین کامل) پر اثر انداز نتائج (Conclusion) خود اخذ (deduce) کرسکیں- لیکن اس کے لئے قاری کواپنےموجودہ عقائد، نظریات وتعصبات کو ایک طرف رکھنا ہو گا - یہ سب مسلمنوں کومشترکہ نقطۂ پر اکٹھا کرنے کی ایک سعی ہے-
جذباتی، نادان (immature), مزھبی جنونی، فرقہ پرست، اندھی تقلید کرنے والے، کمزور دل، ذہنی مریض اس(study) سے پرہیز فرمائیں-
والسلام
بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ر)
لاہور ، فروری 2022
نوٹ : جذباتی، نادان (immature) مزھبی جنونی، فرقہ پرست، اندھی تقلید کرنے والے، کمزور دل، ذہنی مریض اور طفل مکتب اس(study) سے پرہیز فرمائیں-
حصہ اول: صحابہ کرام (رضی اللہ عنهم)
حصہ دوئم" شیعہ نظریات اور صحابہ
حصہ سوئم:شیعه ارتقاء و اشتباهات
حصہ چہارم:صحابہ کرام (رضی الله) : اہل سنه نظریات
الله تعالی ںے ھدایت کے لئے آخری رسول محمد بن عبداللہ ﷺ کو بھیجا ، ان پر آخری کتاب ھدایت قرآن نازل فرمائی اور رسول اللہ ﷺ کے اسوہ حسنہ کومومنین کے لیے ایک مثال کے طور پر عملی نمونہ قرار دیا- اسلام کے ابتدائی مشکل دورمیں رسول اللہ ﷺ کے شانہ بشانہ چلنے والے اورآخر تک مکمل طور پرساتھ دینے والے وفادار ساتھیوں جنہوں ۓ آپ کی وفات کے بعد اسلام کے ہراول دستہ کا کم کیا ان جانثاروں کو "صحابی" کہا جاتا ہے- رسول اللہ ﷺ ںے پہلی اقوام (یہود و نصاری[8]) کی گمراہی کی وجہ سے کتاب الله کے علاوہ دوسری کتب (تالمود، عہد نامہ جدید کی 23 کتب[9]) کو قرار دیا اور اپنی سنت و حدیث (اقوال) کی کتاب لکھنے کی ممانعت کا حکم دیا[10]- لیکن کچھ صحابہ کو حفظ کی کمزوری پرحدیث کے ذاتی نوٹس لکھنے کی اجازت دی. حضرت ابوھریرہ، ابن مسعود ، ابن عمر ، ابن عبّاس اور بہت سے دوسرے حضرات جو کہ بعد میں مفسر قرآن ، محدث اور عالم بنے ان کو لکھنے کی اجا زت نہ دی[11] - بعد میں خلفاء راشدین نےصرف قرآن کی تدوین کی اور کتب حدیث نہ لکھنے[12] کی سنت رسول اللہ ﷺ قائم رکھی، بلکہ پابندی لگا دی[13]- رسول اللہ ﷺ کے فرمان کے مطابق، صحابہ کرام نے حدیث کے حفظ و بیان و سماع کا سلسلہ شروع کیا جو صدیوں تک جاری رہا اور اب بھی کسی حد تک قائم ہے[14]- رسول اللہ ﷺ کے قریبی ساتھیوں، اہل بیت[15] اور دوسرے مسلمانوں ںے قرآن (کتاب، حفظ و بیان) اور سنت پر عمل سے اور احادیث کو حفظ و بیان سے نسل در نسل متواتر تسلسل سے منتقل کیا چودہ صدیوں میں لاکھوں کروڑوں مسلمانوں نے اس کام میں اپنا اپنا حصہ ڈالا جو اب بھی جاری ہے اور تا قیامت جاری رہے گا- رسول اللہ ﷺ نے جب کتب حدیث سے منع فرمایا تو ان کو معلوم تھا کہ حدیث میں تحریف ممکن ہے توقرآن اور رسول اللہ ﷺ کے فرامین کی بنیاد پر"علم الحدیث کے سنہری اصول"[16] سے کسی قسم کی تحریف یا من گھڑت احادیث کی شناخت ممکن ہے- احادیث صرف چند ایک صحابہ کرم (رضی الله) اوربعد کے راویان کی صوابدید پر منحصر نہیں- اسلام کسی ایک فرد یا افراد کا مرہون منت نہیں، جو اسلام کی خدمت کرتا ہے وہ اپنی آخرت کا بھلا کرتا ہے لیکن صحابہ کرام میں بحثیت اولین "براہ راست وصول کنندہ" سبقت لے جانے صحابہ کا اسلام میں اپنا ایک خاص مقام ہے- اگرقرآن اور رسول اللہ ﷺ کی ہدایات پر مکمل عمل کیا جانے تو غیر ضروری مباحث کی ضرورت نہیں-
قرآن کے وارثوں میں تین قسم کے لوگ شامل ہیں ( ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ) ١) کچھ تو ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں, اور ٢) کچھ میانہ رو ہیں اور٣) کچھ الله تعالی کے حکم سے نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں۔ (قرآن الفاطر 35:32)[17] رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کو صحابی کہا جاتا ہے جو کہ ایک اعزاز ہے-
صحابی کے اصل معنی ساتھی اور رفیق کے ہیں, لیکن یہ اسلام کی ایک مستقل اور اہم اصطلاح ہے- اصطلاحی طور پر صحابی کی تعریف صحابی کی تعریف مبہم ہے- صحابہ سے مراد کون لوگ ہیں جن کے اطراف تقدس کا دائرہ کھینچا گیا ہے ، اس سلسلہ میں علماء نے اختلاف کیا ہے علماء ںے اپنی طرف سے تاویلات کی بنیاد پر تعریف کی ہے:
1.اکثرعلماء نے "صحابہ" کے وسیع معنی کو اختیار کیا ہے- بعض علماء نے اس دائرے کو اس قدر وسیع کردیا ہے کہ جس اہل ایمان نے بھی اپنی حیات میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہو وہ رسول اللہ ﷺ کا صحابی ہے، امام بخاری نے صحابی کی تعریف اس طرح کی ہے: ”ومن صحب النبی او رآہ من المسلمین فھو من اصحابہ“ ” جو بھی نبی کا ہم نشین رہا ہو یا مسلمانوں میں سے کسی نے آپ کو دیکھا ہو تو وہ آپ کے اصحاب میں سے ہے“
2.ان تعریفوں کے مطابق، وہ پوری جمیعت پیغمبر اکرم کی صحابیت میں داخل ہے جس نے حالت اسلام میں پیغمبر کو درک کیا ہو، چاہے وہ ایک چھوٹا سا بچہ ہو ،یا بزرگ مرد ہو یا عورت۔ (۱)۔ کتاب الاصابة ج/۱ص/۴ ۲)۔ صحیح البخاری۵/۲)[18]
3.اگر کسی نے آپ کو ایک بار دیکھا ہو لیکن آپ کی ہم نشینی کاشرف حاصل نہ کرسکا یا اصلاً آپ کی زیارت سے محروم رہا ہو کسی مانع کی بنا پر مثلا وہ شخص نابینا ہو تو ایسا شخص بھی آپ کی صحابیت کے زمرے میں داخل ہوگا اس تعریف میں جو ایمان کی قید لگائی گئی ہے اس سے وہ شخص خارج ہو جاتا ہے جس نے پیغمبر اکرم ﷺ سے حالت کفر میں ملاقات کی ہو اگر چہ بعد میں مسلمان ہو گیا ہو جب کہ دوسری مرتبہ آپ سے ملاقات نہ کر سکا ہو“
4.حافظ ابن حجر عسقلانی نے اپنی مشہور کتاب “الإصابة في تمييز الصحابة” میں “صحابی” کی تعریف یوں کی ہے : الصحابي من لقي النبي صلى الله عليه وسلم | مؤمنا به ، ومات على الإسلام [صحابی اسے کہتے ہیں جس نے حالتِ ایمان میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے ملاقات کی اور اسلام پر ہی فوت ہوا]
5.پھر درج بالا تعریف کی شرح کرتے ہوئے حافظ ابن حجر رحمة اللہ مزید کہتے ہیں :فيدخل فيمن لقيه من طالت مجالسته له أو قصرت ، | ومن روى عنه أو لم يرو ، ومن غزا معه أو لم يغز ، ومن رآه رؤية ولو لم يجالسه ، | ومن لم يره لعارض كالعمى . | ويخرج بقيد الإيمان من لقيه كافرا ولو أسلم بعد ذلك إذا لم يجتمع به مرة أخرى- اس تعریف کے مطابق ہر وہ شخص صحابی شمار ہوگا جو --- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس حال میں ملا کہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی رسالت کو مانتا تھا، پھر وہ اسلام پر ہی قائم رہا یہاں تک کہ اس کی موت آ گئی، خواہ وہ زیادہ عرصہ تک رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وسلم) کی صحبت میں رہا یا کچھ عرصہ کے لیے، خواہ اس نے آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کی احادیث کو روایت کیا ہو یا نہ کیا ہو، خواہ وہ آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کے ساتھ کسی جنگ میں شریک ہوا ہو یا نہ ہوا ہو، خواہ اس نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) کو اپنی آنکھوں سے دیکھا ہو یا (بصارت نہ ہونے کے سبب) آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) کا دیدار نہ کر سکا ہو، ہر دو صورت میں وہ “صحابئ رسول” شمار ہوگا۔
6.اور ایسا شخص “صحابی” متصور نہیں ہوگا جو آپ (صلی اللہ علیہ وسلم) پر ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گیا ہو۔[ بحوالہ : الإصابة في تمييز الصحابة : أحمد بن علي بن حجر أبو الفضل العسقلاني الشافعي ، ج:1 ، ص:7-8][19]
صحابی وہ شخص جس نے بحالتِ ایمان نبی صلی الله علیہ وسلم سے ملاقات کی ہو اور اسلام پر وفات پائی، اگرچہ درمیاں میں ارتداد پیش آگیا ہو۔
7.صحابی لفظ واحد ہے، اس کی جمع صحابہ ہے۔ مذکر کے لیے صحابی کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے جبکہ مؤنث واحد کے لیے صحابیہ اور جمع کے لیے صحابیات کا لفظ استعمال کیا جاتا ہے۔
8.امام احمد ابن حنبل نے اس دائرے کو وسیع سمجھا ہے "اصحاب رسول اللہ کل من صحبہ شھرا او یوما او ساعة او رآہ" ؛ ہر وہ شخص رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کا صحابی ہے جس نے رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کی مصاحبت میں ایک مہینہ یا ایک دن یا ایک گھنٹہ گذارا ہو یا انہیں دیکھا ہو-
9.بعض علماء جیسے قاضی ابوبکر محمد بن الطیب نے صحابہ کی تعریف کو محدود کرتے ہوئے کہا ہے : اگرچہ لفظ صحابہ کا مفہوم عام ہے لیکن امت صرف اسی کو صحابی مانتی ہے جوایک قابل ملاحظہ مدت تک حضرت(صلی الله علیه و آله وسلم) کی مصاحبت سے برخوردار رہا ہو لہذا اس شخص کوصحابی رسول اللہ ﷺ نہیں کہا جاسکتا جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھ ایک گھنٹہ رہا ہو یا چند قدم ساتھ ساتھ رہا ہو یا آپ (صلی الله علیه و آله وسلم)سے کوئی حدیث سنی ہو ۔
10.بعض علماء جیسے سعید بن المسیب نے اس تعریف کو اور بھی محدود کرتے ہوئے کہا ہے: صحابی رسول(صلی الله علیه و آله وسلم) صرف وہی شخص ہو سکتا ہے جس نے کم از کم ایک یا دوسال رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے ساتھ گذارے ہوں نیز ایک یا دو اسلامی لڑائیوں میں رسول اللہ (صلی الله علیه و آله وسلم)کے ہمراہ شرکت کی ہو ۔
11.ان کے علاوہ بعض شیعہ دانشور جیسے آیت اللہ معرفت، مصاحبت کی مدت کے علاوہ ایک اور شرط کو لازمی سمجھتے ہیں اور وہ یہ کہ مصاحبت اس قدر طویل ہو کہ پیغمبرﷺ کا اخلاق صحابی پر اثر گذار ہو اور صحابی کا کردار و رفتارپیغمبرﷺ کے اخلاق سے مزین ہوجائے۔[20]
ابوزرعہ رازی کا قول ہے کہ آپ کی وفات کے وقت جن لوگوں نے آپ کو دیکھا اور آپ سے حدیث سنی ان کی تعداد ایک لاکھ سے زائد تھی(تجرید/3) جن میں مرد اور عورت دونوں شامل تھے اوران میں ہر ایک نے آپ سے روایت کی تھی (مقدمہ اصابہ :3)۔
12.ابن فتحون نے ذیل استیعاب میں اس قول کو نقل کرکے لکھا ہے کہ ابوزرعہ نے یہ تعداد صرف ان لوگوں کی بتائی ہے جو رواۃ حدیث میں تھے، لیکن ان کے علاوہ صحابہؓ کی جو تعداد ہو گی وہ اس سے کہیں زیادہ ہوگی (مقدمہ اصابہ :3)
13. بہرحال اکابر صحابہ کے نام ان کی تعداد اوران کے حالات تو ہم کو صحیح طورپر معلوم ہیں، لیکن ان کے علاوہ اور صحابہ کی صحیح تعداد نہیں بتا سکتے۔ اسد الغابہ میں لکھا ہے کہ خود صحابہ کے زمانہ میں مشاغل دینیہ نے صحابہ کو یہ موقع نہ دیا کہ وہ اپنی تعداد کو محفوظ رکھیں (مقدمہ اسد الغابہ :3)۔ اس کے علاوہ اکثر صحابہ صحرا نشین بدوی تھے، اس لیے ایسی حالت میں ان کا گمنام رہنا ضروری تھا۔(مقدمہ اصابہ :4)
مشہور صحابہ اکرام (رضی الله) کی فہرست[21]
مسلمانوں میں صحابی کی اس قدر اہمیت ہے کہ ان پر معمولی اعتراض بھی قابل قبول نہیں- یہاں تک کہ ان کی عدالت کے بارے میں گفتگو کو قرآنی نصّ کے برخلاف سمجھا جا تا ہے۔ ایک گروہ نے یہاں تک کہہ دیا ہےکہ جو کوئی بھی صحابہ پر اعتراض کرنے کے لیے لب کشائی کرے گا اور علم رجال کے معیار پر ان کو پرکھے گا وہ دین سے خارج ہے (عدالت صحابہ پر)
عسقلانی لکھتے ہیں :( فانّ جمیع الصحابہ عدول لایتطرّق الیھم الجرح؛ تمام صحابہ عادل ہیں اور ان پر کوئی اعتراض نہیں کیا جاسکتا) جو کوئی بھی صحابہ پر اعتراض کرے گا وہ زندیق ہوگا۔
قاضی، ابوالفضل، عیاض بن موسیٰ، یحصبی (476- 544ھ) فرماتے ہیں : ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی عزت و تکریم کی جائے، ان کا حق پہچانا جائے، ان کی اقتدا کی جائے، ان کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے، ان کے لیے استغفار کیا جائے، ان کے مابین ہونے والے اختلافات میں اپنی زبان بند رکھی جائے، ان کے دشمنوں سے عداوت رکھی جائے، ان کے خلاف مؤرّخین کی (بے سند) خبروں، مجہول راویوں کی بیان کردہ روایات، گمراہ فرقوں اور بدعتی لوگوں کی پھیلائی ہوئی من گھڑت کہانیوں کو نظر انداز کیا جائے، جن سے ان کی شان میں کمی ہوتی ہو۔ ان کے مابین فتنوں پر مبنی جو اختلافات ہوئے ہیں، ان کو اچھے معنوں پر محمول کیا جائے اور ان کے لیے بہتر عذر تلاش کیے جائیں، کیونکہ وہ لوگ اسی کے اہل ہیں۔ ان میں سے کسی کا بھی برا تذکرہ نہ کیا جائے، نہ ان پر کوئی الزام دھرا جائے، بلکہ صرف ان کی نیکیاں، فضائل اور ان کی سیرت کے محاسن بیان کیے جائیں۔ اس سے ہٹ کر جو باتیں ہوں، ان سے اپنی زبان کو بند رکھا جائے۔“ [الشفا بتعريف حقوق المصطفٰي : 612,611/2][22]
الله تعالی ۓ یہ دنیا کیوں بنائی ؟ ہمیں کیوں پیدا کیا اور پھر موت کیوں؟
الَّذِیۡ خَلَقَ الۡمَوۡتَ وَ الۡحَیٰوۃَ لِیَبۡلُوَکُمۡ اَیُّکُمۡ اَحۡسَنُ عَمَلًا ؕ وَ ہُوَ الۡعَزِیۡزُ الۡغَفُوۡرُ ۙ﴿۲﴾
وہ جس نے موت اور زندگی کو پیدا فرمایا تاکہ تمہیں آزمائے کہ تم میں سے کون اچھا عمل ( اَحۡسَنُ عَمَلًا) کرتا ہے اور وہ بہت غلبے والا بڑی بخشش والا ہے۔(67:2)[26]
کیا صرف اچھے عمل ( اَحۡسَنُ عَمَلًا) کرنا کافی ہے؟ بظاهر اچھے عمل تو کافر، مشرک اور ملحد بھی کرتے ہیں- اچھے عمل ( اَحۡسَنُ عَمَلًا) وہ ہیں جو الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ کے مطابق اچھے ہوں جو تبھی ممکن ہے جب ان پر ایمان ہو اور ان کی اطاعت کی جانے- قرآن تفصیلات سے بھرا ہوا ہے مگر امام شافعی کے مطابق سورہ العصر قرآن کا خلاصہ ہے جس میں چار اہم نقاط پر زور ہے : (١) ایمان، (٢) عمل صالح، (٣) ایک دوسرے کو حق کی نصیحت کرنا اور(٤) ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا۔[27]
کیا یہ مقاصد رسول اللہ ﷺ یا کسی اور مقدس ہستی کے دیدار سے پورے ہو جاتے ہیں؟
ایسا کہیں ثابت نہیں، بفرض محال اگر ایسا ہوتا تو ان لوگوں کا کیا قصور جو رسول اللہ ﷺ کے وقت پیدا نہ ہوسکے، کیونکہ پیدائش ، زندگی موت پر انسان کا کوئی اختیار نہیں- بعد والے لوگ الله تعالی سے التجا کر سکتے ہیں کہ ہمیں بھی رسول اللہ ﷺ کے دیدار کا موقع دیں یا ویسے ہی بخسش عطا کریں- الله تعالی نے اصحاب رسول اللہ ﷺ میں جو بہترین لوگ قرار دئیے وہ مہاجرین اور انصار میں سے (السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ) سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کرنے والے تھوڑے سے لوگ تھے- اللہ کا ایک اسم حسنہ "العدل" (سراپا عدل و انصاف) ہے، تو الله تعالی نے ان کے بعد ایمان لانے والوں کو بھی ان کے ساتھ سعادت میں شامل ہونے کا موقع فراہم کر دیا کہ بعد والے وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان (السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ) کی پیروی کی (اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ[28]) اللہ ان سب سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے(تفصیل آگے، 9:100)[29]-
دوسری جگہ اللہ نے رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں کے متعلق فرمآیا: "اِس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے (48:29)
لیکن الله تعالی ںے یہ دنیا آزمائش ، امتحان کے لیے بنائی تاکہ ہماری آزمائش کر سکے- اچھے اعمال (اَحۡسَنُ عَمَلًا) سے-بعد والے اہل ایمان جو رسول اللہ ﷺ کے وقت سے قیامت تک ہوں گے ، احسن طریق پر ان (السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ) کی پیروی کرنے (اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ[30]) سے ان کے ساتھ شامل ہو جاتے ہیں جن سے اللہ راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہونے- اچھا عمل ( اَحۡسَنُ عَمَلًا) کہلاتا ہے جوکہ مقصد حیات و موت ہے-یہ ہے اللہ کا عدل و انصاف! اچھے عمل ( اَحۡسَنُ عَمَلًا) کا ظاہر تو نظر آتا ہے مگر باطن صرف عالم الغیب (اللہ) کو معلوم ہے جس کا نتیجہ بروز قیامت ملے گا- اگر کوئی بعد والوں کو (رضی الله) کا لقب عطا کرتا ہے تو یہ تغلیب ہے حقیقت نہیں، عالم الغیب کا کوئی انسان دعوی نہیں کر سکتا-
اللہ جن لوگوں سے راضی ہوا، (رضی الله) ان سے اللہ نےجنت کا وعدہ کیا ہے لیکن اس دنیا کے نظام اور قانون شریعت میں ان کوئی کوئی رعایت عطا نہیں فرمائی- حتی کہ رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت ، ازواج مطہرات، امھات المومنین جو رسول اللہ ﷺ کی قریب ترین ساتھی تھیں ان کو بھی بھی استثنی نہیں بلکہ (مثال) کسی غلطی کی دوگنا سزا[31]- رسول اللہ ﷺ سے قریب ترین، دل کا ٹکڑا، پیاری حضرت فاطمہ (رضی الله) ہیں- مگر جب کسی جرم پر شرعی قانون ، سزا کا ذکر ہوا تو رسول اللہ ﷺ ںے مثال دی کہ اگر فاطمہ بنت محمد بھی چوری کرے تو ہاتھ کا ٹا جاے گا-[32]
حضرت آدم علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام، حضرت نوح کا بیٹا[33] ، (حضرت نوح اور لوط کی بیویاں)[34]، کسی کو نہ نبی ہونے پر نہ نبی سے قربت کی بنا پر کوئی استثنا ملا[35] نبیوں کو دعا پر الله تعالی سے بخشش ملی- رسول اللہ ﷺ نے خود استسغفارکرکہ ہمیں دعایں سکھائیں-
حضرت عمر بن الخطاب ؓ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا آپ فرماتے تھے کہ: "سب انسانی اعمال کا دارو مدار بس نیتوں پر ہے اور آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملتا ہے.... (بخاری و مسلم)[36] (معارف الحدیث حدیث نمبر 1)
اس دنیا میں صرف ظاہر پر تمام فیصلے کئے جاتے ہیں
یہی وہ سنتُ اللہ اور قانون خداوندی ہے جس کا اعلان رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے۔ اس دنیا میں صرف ظاہر پر تمام فیصلے کئے جاتے ہیں اور آخرت میں نیتوں پر کئے جائیں گے۔
یہ عالم جس میں ہم ہیں اور ہم کو جس میں کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے "عالمِ ظاہر" اور "عالم، شہادت" ہے اور ہمارے حواس و ادراکات کا دائرہ بھی یہاں صرف ظاہر اور مظاہر ہی تک محدود ہے، یعنی یہاں ہم ہر شخص کا صرف ظاہر چال چلن دیکھ کر ہی اس کے متعلق اچھی یا بُری رائے قائم کر سکتے ہیں، اور اسی کی بنیاد پر اس کے ساتھ معاملہ کر سکتے ہیں، ظاہری اعمال پر سے ان کی نیتوں، دل کے بھیدوں اور سینوں کے رازوں کے دریافت کرنے سے ہم قاصر ہیں اسی لیے حضرت فاروق اعظمؓ نے فرمایا: نَحْنُ نَحْكُمُ بِالظَّاهِرِ وَاللهُ يَتَوَلَّى السَّرَائِر (یعنی ہمارا کام ظاہر پر حکم لگانا ہے اور مخفی راز اللہ کے سپرد ہیں) لیکن عالمِ آخرت میں فیصلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہو گا اور وہاں اس کافیصلہ نیتوں اور دل کے ارادوں کے لحاظ سے ہو گا،
گویا احکام کے بارے میں جس طرح یہاں ظاہری اعمال اصل ہیں اور کسی کی نیت پر یہاں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا، اسی طرح وہاں معاملہ اس کے برعکس ہو گا، اور حق تعالیٰ کا فیصلہ نیتوں پر ہو گا، اور ظاہری اعمال کو ان کے تابع رکھا جائے گا۔
تو صحابہ اکرام کو کیا کوئی استثنیٰ حاصل ہو سکتا ہے اللہ کی اس سنت پر؟ تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ بدر، جن کا اعلی مقام ہے سزا سے استثنیٰ نہ ملا- جس کسی نے حدود سے تجاوز کیا ان کو سزائیں ملیں (تفصیل آگے)
جن اصحاب پر اللہ راضی ہوا یا ہو گا ان سے جنت کا وعدہ ہے اللہ کا، یھاں وہ سب مسلمانوں کی طرح قانون شریعت کے پابند ہیں عبادات و معاملات ہر طرح سے- مثلا اگر کوئی حدیث روایت کرتا ہے تو اس کو اسی معیار پر جانچنا ہوگا جس طرح دوسرے راویان-
صحابہ اکرام کی تعظیم و تکریم کرنا ایک اچھا عمل ہے- جو لوگ اس دینا میں نہیں ان پر تنقید کی کیا ضرورت ہے؟ وہ الله تعالی کے پاس ہیں ہم بھی چلے جائیں گے سب مومنین کے لیے بخشش کی دعا مانگنا چاینے- مسلمان صَلَاة میں تشہد میں یہ بھی پڑھتے ہیں : (السَّلَامُ عَلَيْنَا وَعَلَى عِبَادِ اللَّهِ الصَّالِحِينَ) ترجمہ: ہم پر اور اللہ تعالی کے تمام نیک بندوں (لصَّالِحِينَ) پر سلامتی نازل ہو،(ابن مسعود، بخاری ، مسلم )[37]. اس میں تمام صالحین کے لیے سلامتی کی دعا ہے- صالحین کون ہیں اور کون نہیں یہ صرف اللہ کو معلوم ہے-
اللہ کا فرمان ہے:
وَالَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ لَنُبَوِّئَنَّهُم مِّنَ الْجَنَّةِ غُرَفًا تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا ۚ نِعْمَ أَجْرُ الْعَامِلِينَ ﴿٥٨﴾
جو لوگ ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں ان کو ہم جنت کی بلند و بالا عمارتوں میں رکھیں گے جن کے نیچے نہریں بہتی ہوں گی، وہاں وہ ہمیشہ رہیں گے، کیا ہی عمدہ اجر ہے عمل کرنے والوں کے لیے (29:58)
مَّثَلُ الْجَنَّةِ الَّتِي وُعِدَ الْمُتَّقُونَ ۖ تَجْرِي مِن تَحْتِهَا الْأَنْهَارُ ۖ أُكُلُهَا دَائِمٌ وَظِلُّهَا ۚ تِلْكَ عُقْبَى الَّذِينَ اتَّقَوا ۖ وَّعُقْبَى الْكَافِرِينَ النَّارُ ﴿٣٥﴾
جس جنت (باغ) کا متقیوں سے وعدہ کیا گیا ہے اس کے اوصاف یہ ہیں کہ اس کے نیچے نہریں بہہ رہی ہیں۔ اس کے پھل ہمیشہ (قائم رہنے والے) ہیں اور اس کے سائے بھی۔ یہ ان لوگوں کا انجام ہے جو متقی ہیں۔ اور کافروں کا انجام دوزخ ہے (13:35)
وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ۖ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٤٣﴾
اور جو کچھ ان کے دلوں میں کدورت ہوگی ہم اسے باہر نکال دیں گے ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور وہ شکر کرتے ہوئے کہیں گے ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اس منزلِ مقصود تک پہنچایا اور ہم کبھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر وہ ہمیں نہ پہنچاتا۔ یقینا ہمارے پروردگار کے رسول حق کے ساتھ آئے اور انہیں ندا دی جائے گی کہ یہ بہشت ہے جس کے تم اپنے ان اعمال کی بدولت وارث بنائے گئے ہو۔ جو تم انجام دیا کرتے تھے۔ (7:43)
وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ : ابوہریرہ (رض) سے مروی اہل جنت کے اوصاف میں ایک لمبی حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان کے دل ایک آدمی کے دل کی طرح ہوں گے، نہ ان میں کوئی اختلاف ہوگا نہ باہمی بغض۔ “ [ بخاری، بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ : ٣٢٤٦ ] دنیا میں اگر ان کے درمیان کوئی بغض تھا تو وہ صاف ہونے کے بعد جنت میں داخلہ ہوں گے، رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” مومن آگ سے بچ کر نکلیں گے تو انھیں جنت اور آگ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا، پھر وہ ایک دوسرے سے ان زیادتیوں کا قصاص لیں گے جو دنیا میں ان سے ہوئیں یہاں تک کہ جب وہ تراش خراش کروا کر بالکل صاف ستھرے ہوجائیں گے تو انھیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ “ [ بخاری، المظالم، باب قصاص المظالم : ٦٥٣٥، عن أبی سعید الخدری (رض) ] سینوں میں موجود کینے میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کی باہمی رنجشیں بھی شامل ہیں، جو دنیا میں سیاسی یا دوسری وجوہات کی بنا پر پیدا ہوئیں۔ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا۔۔ : یعنی یہ ہدایت جس سے ہمیں ایمان اور عمل صالح کی توفیق عطا ہوئی، پھر انھیں قبولیت کا شرف حاصل ہوا، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور اس کا فضل ہے، اگر یہ نہ ہوتا تو ہم یہاں تک نہ پہنچ پاتے۔ اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : یہ باء سببیہ ہے، باء عوض نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ یہ جنت میرے فضل سے تمہارے کسی عوض یا قیمت اداکیے بغیر تمہیں بطور ہبہ دی جا رہی ہے، جیسا کہ میراث بغیر کسی عوض کے دی جاتی ہے اور تمہاری اس عزت افزائی کا سبب دنیا میں تمہارے اعمال صالحہ ہیں۔ ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا : ” تم میں سے کسی کو اس کا عمل جنت میں ہرگز داخل نہیں کرے گا۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ ! آپ کو بھی نہیں ؟ “ فرمایا : ” نہیں، مجھے بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اور رحمت سے ڈھانپ لے۔ “ [ بخاری، الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل : ٦٤٦٣، ٦٤٦٤ ] آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت انسانی اعمال کی بنیاد پر ہوگی، یعنی اس کے اعمال صالحہ ہی رحمت کا سبب بنیں گے (تفسیر عبد السلام بھٹوی )[38]
تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ پل بظاہر پل صراط کا آخری حصہ ہوگا، جو جنت سے متصل ہے، علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور اس مقام پر جو حقوق کے مطالبات ہوں گے ان کی ادائیگی ظاہر ہے کہ روپیہ پیسہ سے نہ ہوسکے گی، کیونکہ وہ وہاں کسی کے پاس مال نہ ہوگا، بلکہ بخاری و مسلم کی ایک حدیث کے مطابق یہ ادائیگی اعمال سے ہوگی، حقوق کے بدلہ میں اس کے عمل صاحب حق کو دیدئے جائیں گے، اور اگر اس کے اعمال اس طرح سب ختم ہوگئے اور لوگوں کے حقوق ابھی باقی رہے تو پھر صاحب حق کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے۔ ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کو سب سے بڑا مفلس قرار دیا ہے جس نے دنیا میں اعمال صالحہ کئے لیکن لوگوں کے حقوق کی پروا نہیں کی، اس کے نتیجہ میں تمام اعمال سے خالی مفلس ہو کر وہ گیا۔ اس روایت حدیث میں ادائے حقوق اور انتقام کا عام ضابطہ بیان کیا گیا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ سب کو یہی صورت پیش آئے، بلکہ ابن کثیر اور تفسیر مظہری کی روایت کے مطابق وہاں یہ صورت بھی ممکن ہوگی کہ بدوں انتقام لئے آپس کے کینے کدورتیں دور ہوجائیں۔ جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ یہ لوگ جب پل صراط سے گزر لیں گے تو پانی کے ایک چشمہ پر پہنچیں گے اور اس کا پانی پئیں گے، اس پانی کا خاصہ یہ ہوگا کہ سب کے دلوں سے باہمی کینہ و کدورت دھل جائے گی، امام قربطی رحمة اللہ علیہ نے آیت کریمہ (آیت) وسقھم ربھم شرابا طھورا کی تفسیر بھی یہی نقل کی ہے کہ جنت کے اس پانی سے سب کے دلوں کی رنجشیں اور کدورتیں دھل جائیں گی۔ حضرت علی مرتضیٰ نے ایک مرتبہ یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ ہم اور عثمان اور طلحہ اور زبیر انہی لوگوں میں سے ہوں گے جن کے سینے دخول جنت سے پہلے کدورتوں سے صاف کردیئے جائیں گے (ابن کثیر) [معارف القرآن مفتی محمد شفیع][39]
اہل ایمان کو سورة الحشر میں یہ دعا بھی تلقین کی گئی ہے : (رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ ) اے ہمارے پروردگار ! تو ہمارے اور ہمارے ان بھائیوں کے گناہ معاف فرما دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور اہل ایمان میں سے کسی کے لیے بھی ہمارے دل میں کوئی کدورت باقی نہ رہنے دے ‘ بیشک تو رؤف اور رحیم ہے۔ ان مضامین کی آیات کے بارے میں حضرت علی (رض) کا یہ قول بھی (خاص طور پر سورة الحجر ‘ آیت ٤٧ کے شان نزول میں ) منقول ہے کہ یہ میرا اور معاویہ (رض) کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں داخل کرے گا تو دلوں سے تمام کدورتیں صاف کر دے گا۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت علی اور حضرت امیر معاویہ ( علیہ السلام) کے درمیان جنگیں ہوئی ہیں تو کتنی کچھ شکایتیں باہمی طور پر پیدا ہوئی ہوں گی۔ ایسی تمام شکایتیں اور کدورتیں وہاں دور کردی جائیں گی۔[بیان القرآن ، ڈاکٹر اسرار احمد ][40]
حضرت ابن عباس رض کا قول ہے کہ اس آیت میں حضرت ابوبکررض ، حضرت عمررض، حضرت عثمان رض، حضرت علی رض، حضرت طلحہ رض، حضرت زبیررض، حضرت ابن مسعودرض، حضرت عمار بن یاسررض، حضرت سلمان (رضی الله ) اور حضرت ابو ذررض کی طرف اشارہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ عام اہل جنت کی حالت کا اظہار مقصود ہو کہ وہاں کسی پر کسی کو حسد نہیں ہوگا اور نہ آپس میں کوئی جھگڑا ہوگا آواز دی جائے گی یعنی فرشتے یا کوئی خاص فرشتہ اہل جنت سے کہے گا۔ ورثہ اس لئے فرمایا کہ بہرحال جنت آدم کی میراث ہے جو ان کی مسلمان اولاد کو میراث میں دی جائے گی اور نیز اس لئے کہ تملیک کے لئے مضبوط اور بےکھٹکے طریقہ میراث ہی کا ہے۔ .[ کشف الرحمن ، تفسیر احمد سعید دہلوی][41]
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿٤٥﴾ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ ﴿٤٦﴾ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ ﴿٤٧﴾ لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ ﴿٤٨﴾
بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں رہیں گے، (ان سے کہا جائے گا:) ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف ہو کر داخل ہو جاؤ، اور ہم وہ ساری کدورت باہر کھینچ لیں گے جو (دنیا میں) ان کے سینوں میں (مغالطہ کے باعث ایک دوسرے سے) تھی، وہ (جنت میں) بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے، انہیں وہاں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی اور نہ ہی وہ وہاں سے نکالے جائیں گے(قرآن.الحجر 15:45,46,47,48)[42]
سورہ حجر(15) کی 47 ویں آیت کے متعلق امام باقر(ع) سے مروی ہے: امام سجاد(ع) سے سوال ہوا کہ یہ آیت: "اور ہم ان کے سینوں سے ہر قسم کی کدورت نکال دیں گے اور وہ بھائیوں کی طرح تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے" کیا ابوبکر، عمر و علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی؟
امام نے جواب دیا: ہاں یہ ان کی توصیف میں نازل ہوئی۔ کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں تَیْم، عَدِی اور بنی ہاشم کے قبیلوں کے درمیان دشمنی تھی لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد بھائی چارے کو قبول کیا۔ ایسا ہی ہوا ایک روز ابوبکر درد حاضره میں مبتلا ہوا تو علی نے اسے مساج کیا تا کہ اسے اس درد س نجات حاصل ہو۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی (واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۸۲)[43]
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور صلحائے امت باہمی لڑائیوں اور رنجشوں کے باوجود جنت میں جائیں گے، مگر اس سے پہلے ان کے دلوں کی باہمی کدورتیں بالکل دور کردی جائیں گی اور وہ صاف دل بھائی بھائی ہو کر جنت میں جائیں گے-
سیدنا علی نے یہی آیت پڑھ کر فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے عثمان طلحہ اور زبیر کے درمیان بھی صفائی کرا دے گا۔ واضح رہے کہ یہ چاروں صحابہ کرام (رض) ان چھ رکنی کمیٹی کے ممبر تھے جو سیدنا عمر نے اپنے وفات سے پیشتر نئے خلیفہ کے انتخاب کے سلسلہ میں تشکیل دی تھی اور یہ رنجش بعض غلط فہمیوں کی بنا پر پیدا ہوگئی تھی۔(عبدالرحمان کیلانی)
وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ (قرآن 9:100)
وہ مہاجر اور انصارجنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے "احسن طریق"[44] پر ان کی پیروی (اتباع ) کی ، اللہ ان سب سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ا للہ نے ان کے لئے ایسے باغات تیارکررکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے(قرآن 9:100)
اور وہ مہاجر اور ترک وطن کرنے والے اور مہاجرین کی مدد کرنے والے انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمانی کے قبول کرنے میں سبقت کی اور جنہوں نے اخلاص (احسان) کے ساتھ دعوت ایمانی کو قبول کرنے میں مہاجروں و انصار کا اتباع کیا اور مہاجرین و انصار کی پیروی کی اللہ تعالیٰ ان سب سے راضی ہوا اور وہ سب اس سے راضی ہوئے اور اللہ تعالیٰ نے ان سب کے لئے ایسے باغ تیارکررکھے ہیں جن کے نیچے نہریں جاری ہیں یہ لوگ ان باغوں میں ہمیشہ ہمیشہ رہیں گے یہ انعامات کا حصول سب سے بڑی کامیابی ہے۔ یعنی وہ مہاجرین و انصار جو ایمان لانے میں مقدم اور سابق (سسبقت) ہیں خواہ وہ مسلمان ہوں جنہوں نے دونوں قبلوں کی طرف نما ز پڑھی ہو خواہ وہ ہوں جو جنگِ بدر سے پہلے مسلمان ہوئے ہوں تمام امت میں یہی لوگ سابق اور قدیم ہیں اس کے بعد خواہ وہ صحابہ (رض) ہوں یعنی غیرمہاجرین و انصار یا تابعین اور تبع تابعین ہوں یا ان کے بعد کے لوگ ہوں علی فرقِ مراتب سب ہی کم و بیش اس بشارت میں شریک ہیں اگرچہ مراتب اور درجات کی نوعیت میں فرق ہوگا۔ جنگِ بدرتک جو مسلمان ہوئے وہ قدیم ہیں اور باقی ان کے تابع (Kashf ur Rahman,by Ahmed Saeed Dehlvi)
حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا : الإحسان اَنْ تَعْبدَ اﷲَ کَانَّکَ تَرَاهُ، فإنْ لَمْ تَکنْ تَرَاهُ فَإنَّه يَرَاکَ۔- ترجمہ :’’احسان یہ ہے کہ تو اﷲ کی عبادت اس طرح کرے گویا تو اسے دیکھ رہا ہے اور اگر تو (تجھے یہ کيفیت نصیب نہیں اور اسے) نہیں دیکھ رہا تو (کم از کم یہ یقین ہی پیدا کر لے کہ) وہ تجھے دیکھ رہا ہے۔ ‘‘(بخاری ، مسلم / بخاری، الصحيح : 34، رقم : 50، کتاب الايمان، باب بيان الايمان والاسلام والاحسان و وجوب الايمان، مسلم، الصحيح : 65، رقم : 1، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی عن الايمان والاسلام ولإحسان و علم اشاعة)
احسان ،عدل سے بہتر اوراعلیٰ ہے اس لئے کہ عدل یہ ہے کہ انسان کا جو حق بنتا ہے وہ لے اور جو اس پر کسی کا حق بنتا ہے وہ دے ۔اور احسان یہ ہے کہ انسان کا جو حق بنتا ہے اس سے زیادہ دے تو احسان عدل سے بڑھ کر ہے ۔اس وجہ سے اللہ نے احسان کرنے والوں کا اجرو ثواب بھی زیادہ رکھا ہے۔اس کا مصداق یہ فرمان الہی ہے : هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ ﴿٦٠﴾ (الرحمن) جو دنیا میں احسان کرتا ہے آخرت میں اس کا یہی بدلہ ہے کہ اس کے ساتھ احسان کیا جائے-
عبادت کی اس اعلیٰ درجے کی حالت اور ایمان کی اس اعلیٰ کيفیت کو ’’احسان‘‘ کہتے ہیں[45]،[46],[47].
الله تعالی نے اصحاب رسول اللہ ﷺ کی فضیلت قرآن میں بیان فرمائی ، کچھ آیات کا خلاصہ و مفھوم درج ذیل (ضمیمہ الف: فضائل صحابه کرام و بشری کمزوریاں)
الله تعالی نے تمام اہل ایمان کو قرآن کے وارث کا اعزاز دیا جن میں تین قسم کے لوگ شامل ہیں :
ثُمَّ أَوْرَثْنَا الْكِتَابَ الَّذِينَ اصْطَفَيْنَا مِنْ عِبَادِنَا ۖ فَمِنْهُمْ ظَالِمٌ لِّنَفْسِهِ وَمِنْهُم مُّقْتَصِدٌ وَمِنْهُمْ سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ بِإِذْنِ اللَّهِ ۚ ذَٰلِكَ هُوَ الْفَضْلُ الْكَبِيرُ (قرآن الفاطر 35:32)[56]-
پھر ہم نے اس کتاب کا وارث بنا دیا اُن لوگوں کو جنہیں ہم نے (اِس وراثت کے لیے) اپنے بندوں میں سے چن لیا;
1) کچھ تو ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں, اور
2) کچھ میانہ رو ہیں اور
3) کچھ الله تعالی کے حکم سے (سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ) نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں۔ یہی بہت بڑا فضل ہے (قرآن الفاطر 35:32)[57]-
یھاں بھی سبقت لے جانے والوں کا اعلی ترین درجہ ہے- یہ تین درجات رسول اللہﷺ کے وقت سے قیامت تک نافزالعمل ہیں- لہذا اصحاب رسول اللہ ﷺ میں بھی تین قسم کے حضرات شامل ہیں کون کس درجہ میں ہے اس کا حتمی علم صرف اللہ کو ہی ہو سکتا ہے- "سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ" اور "السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ" کے متعلق اندازہ لگانا کوئی مشکل نہیں- باقی واللہ اعلم-
قرآن کی آیت ( 9:100) میں امت محمدی کے تین طبقوں کا ذکردوسرے طریقہ سے ہے:
(ا) مہاجرینن میں سے سابقون الاولون یعنی مکہ کے وہ حق پرست جنہوں نے دعوت حق کی قبولیت میں سبقت کی اور سب سے پہلے ایمان لائے۔ پھر صلح حدیبیہ سے پہلے کہ غربت و مصیبت کا زمانہ تھا اپنا گھر بار چھوڑ کر ہجرت کی۔ بالاتفاق سب سے پہلے ایمان لانے والی ہستی حضرت خدیجہ کی تھی۔ ان کے بعد گھر کے آدمیوں میں سے حضرت علی، (ک دس برس سے زیادہ عمر کے نہ تھے) اور زید بن حارثہ ایمان لائے اور باہر کے آدمیوں میں حضرت ابوبکر، حضرت ابوبکر ہجرت مدینہ میں بھی اسبق ہیں کہ خود آنحضرت کے ساتھی تھی۔
(ب) انصار میں سے سابقون الاولون یعنی مدینہ کے وہ حق شناس جنہوں نے عین اس وقت جبکہ تمام جزیر عرب داعی حق کو جھٹلا رہا تھا اور خود اس کے اہل ون اس کے قتل و ہلاکت کے درپے تھے دعوت حق قبول کی اور عقبہ اولی اور ثانیہ میں بیعت کا ہاتھ بڑھایا۔ پہلی بیعت میں سات آدمی تھی، اور یہ اعلان نبوت سے گیارہویں برس ہوئی۔ دوسری میں ستر مرد تھے اور دو عورتیں اور یہ پہلی سے ایک برس بعد ہوئی۔ پیغمبر اسلام نے دوسری بیعت والوں کے ساتھ ابو زرارہ بن مصعب کو بغرض تعلیم بھیج دیا تھا۔ کچھ لوگ ان کے جانے پر ایمان لائے اور کچھ اس وقت جب خود آنحضرت نے ہجرت فرمائی۔
(ج) وہ لوگ جو ان دونوں جماعتوں کے قدم بہ قدم "احسان" سے چلے اور گو بعد کو آئے لیکن ان کا شمار پہلوں ہی کے ساتھ ہوا۔ چونکہ بعد کو ایمان لانے والوں میں بعض منافق اور کچے دل کے آدمی بھی تھے اس لیے باحسان کی قید لگا دی۔ یعنی وہ جنہوں نے راست بازی کے ساتھ ان کی پیروی کی۔
تاریخ اسلام میں مہاجرین و انصار کی جماعت کا یہی مقام ہے۔ اسی لیے (السابقون الاولون) سے زیادہ ان کے وصف میں کچھ کہنا ضروری نہ ہوا۔ کیونکہ یہاں اسبقیت و اولیت سے بڑھ کر اور کوئی بات نہیں ہوسکتی۔ [ترجمان القرآن تفسیر مولاناابو الکلام آزاد]
"سابقون الاولون" کی پیروی ، یا خلوص دل ( احسان) سے اتباع (اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ) کو جب قرآن کی تعلیمات و ھدایت کی روشنی اور تناظر میں دیکھا جاتا ہے تو معلوم ہوتا ہے کہ اس "اتباع احسان" کا قرآن و سنت (شریعت) کے مطابق ہونا ضروری، مشروط ہے- ایک آیت کی بنیاد پر مکمل قرآن اور رسول اللہ ﷺ کی سنت و فرامین کو پس پشت نہیں ڈالا جاسکتا- اگر "سابقون الاولون" سے کوئی انسانی لغزش سر زد ہوتی ہے تو اس کا اتباع کیسے کیا جا سکتا ہے؟ جیسا کہ رسول اللہ ﷺ کی زندگی اور بعد میں بھی "سابقون الاولون" سے خطا ہوئی تو شریعت کے مطابق سزا دی گئی جو احادیث اور تاریخ کے ریکارڈ کا حصہ ہے-
ان میں تمام مسلمان جو بعد میں آج تک یا قیامت تک "سابقون الاولون " کا احسان (خلوص دل) سے اتباع کرتے ہیں، شامل ہو جاتے ہیں یہ الله کا خاص احسان ، تحفہ ہے کہ جو لوگ بعد میں پیدا ہوں اور وہ الله سے شکوہ کریں کہ یا الله ہمارے اختیار میں نہ تھا کہ ہم رسول الله صلعم کے دور میں پیدا ہوتے اور ان کے صحابہ میں شامل ہونے کا اعزاز پا سکتے ہم محروم رہ گئے- تو اللہ نے انصاف کیا اور سب کے لئے یہ موقع فراہم کر دیا-
اور جو مسلمان اس دور میں موجود تھے مگر اپنی کمزوریوں کی وجہ سے "سابقون الاولون " کا احسان سے اتباع نہ کر سکے ، دنیا کی لذتوں، مال و دولت، حوس اقتداراور گناہوں میں مبتلا ہوگۓ وہ ان میں شامل کیسے ہو سکتے ہیں؟
بھر حال ان پر طعن و طشنیع بھی مناسب نہیں ان کا معامله الله پر چھوڑیں اور ان کے غلط اقدامات کی نہ حمایت کریں نہ اتباع کریں- الله ان کی بخشش فرمایے-
اب چھ آیات کو اکٹھا دیکھتے ہیں تاکہ سیاق و ثبات واضح ہو:
وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ مِنَ الْمُهَاجِرِينَ وَالْأَنصَارِ وَالَّذِينَ اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ وَرَضُوا عَنْهُ وَأَعَدَّ لَهُمْ جَنَّاتٍ تَجْرِي تَحْتَهَا الْأَنْهَارُ خَالِدِينَ فِيهَا أَبَدًا ۚ ذَٰلِكَ الْفَوْزُ الْعَظِيمُ ﴿١٠٠﴾ وَمِمَّنْ حَوْلَكُم مِّنَ الْأَعْرَابِ مُنَافِقُونَ ۖ وَمِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ ۖ مَرَدُوا عَلَى النِّفَاقِ لَا تَعْلَمُهُمْ ۖ نَحْنُ نَعْلَمُهُمْ ۚ سَنُعَذِّبُهُم مَّرَّتَيْنِ ثُمَّ يُرَدُّونَ إِلَىٰ عَذَابٍ عَظِيمٍ ﴿١٠١﴾ وَآخَرُونَ اعْتَرَفُوا بِذُنُوبِهِمْ خَلَطُوا عَمَلًا صَالِحًا وَآخَرَ سَيِّئًا عَسَى اللَّهُ أَن يَتُوبَ عَلَيْهِمْ ۚ إِنَّ اللَّهَ غَفُورٌ رَّحِيمٌ ﴿١٠٢﴾ خُذْ مِنْ أَمْوَالِهِمْ صَدَقَةً تُطَهِّرُهُمْ وَتُزَكِّيهِم بِهَا وَصَلِّ عَلَيْهِمْ ۖ إِنَّ صَلَاتَكَ سَكَنٌ لَّهُمْ ۗ وَاللَّهُ سَمِيعٌ عَلِيمٌ ﴿١٠٣﴾ أَلَمْ يَعْلَمُوا أَنَّ اللَّهَ هُوَ يَقْبَلُ التَّوْبَةَ عَنْ عِبَادِهِ وَيَأْخُذُ الصَّدَقَاتِ وَأَنَّ اللَّهَ هُوَ التَّوَّابُ الرَّحِيمُ ﴿١٠٤﴾ وَقُلِ اعْمَلُوا فَسَيَرَى اللَّهُ عَمَلَكُمْ وَرَسُولُهُ وَالْمُؤْمِنُونَ ۖ وَسَتُرَدُّونَ إِلَىٰ عَالِمِ الْغَيْبِ وَالشَّهَادَةِ فَيُنَبِّئُكُم بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿١٠٥﴾ وَآخَرُونَ مُرْجَوْنَ لِأَمْرِ اللَّهِ إِمَّا يُعَذِّبُهُمْ وَإِمَّا يَتُوبُ عَلَيْهِمْ ۗ وَاللَّهُ عَلِيمٌ حَكِيمٌ ﴿١٠٦﴾
ترجمہ/ مفھوم:
وہ مہاجر اور انصارجنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان کی پیروی کی ، اللہ ان سب سے راضی ہو اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ا للہ نے ان کے لئے ایسے باغات تیارکررکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے(قرآن 9:100)
(ِ وَ الَّذينَ اتَّبَعُوهُمْ بِإِحْسان) کی عبارت سے سمجھ آتا ہے کہ تابعین اور بعد والے مسلمان ایسی صورت حال میں اہل نجات ہونگے جب وہ نیکی، اچھے اعمال میں میں صحابہ کی پیروی کریں جو صرف اللہ اور رسول اللہ ﷺ کی اطاعت سے ممکن ہے:
وَأَطِيعُوا اللَّهَ وَالرَّسُولَ لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُونَ (قرآن:3:132) الله اور اس کے رسول کی اطاعت کرو تاکہ تم پر رحمت کی جائے
اس کا مطلب یہ ہے:
پہلا یہ کہ: یہ ممکن ہے کہ کچھ صحابہ غیرشائستہ اعمال کے مرتکب ہوں۔
دوسرا یہ کہ: ان کے ناصالح اعمال کی پیروی باعث نجات نہیں ہے۔
در حقیقت "احسان" کا لفظ اس بات کی دلیل ہے کہ قرآن نے مکمل طور پرصحابہ کی تائید نہیں کی بلکہ بشرط "احسان" ان کی پیروی پر تائید کی مہر لگا دی ہے۔دوسرے لفظوں میں کہہ سکتے ہیں کہ "احسان" ان کاموں کی صفت ہے جن کی پیروی کی جاتی ہے۔اس صورت میں "باحسان" میں حرف "باء" "فی" کا معنی دیتا ہے۔
علامہ ابن حجرؒ نے ’’الإصابۃ‘‘ کے مقدمے میں امام ابن حزمؒ کا قول نقل کیا ہے کہ تمام صحابہ جنتی ہیں جس کی دلیل یہ قرآنی آیت دی :
لَا یَسْتَوِیْ مِنکُم مَّنْ أَنفَقَ مِن قَبْلِ الْفَتْحِ وَقَاتَلَ أُوْلَئِکَ أَعْظَمُ دَرَجَۃً مِّنَ الَّذِیْنَ أَنفَقُوا مِن بَعْدُ وَقَاتَلُوا وَکُلّاً وَعَدَ اللَّہُ الْحُسْنَی(حدید،10)
’’تم میں سے جو لوگ فتح کے بعد خرچ اور جہاد کریں گے وہ کبھی ان لوگوں کے برابر نہیں ہو سکتے جنھوں نے فتح سے پہلے خرچ اور جہاد کیا ہے۔ان کا درجہ بعد میں خرچ اور جہاد کرنے والوں سے بڑھ کر ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے۔‘‘
(مگر یہ آیت فتح (مکہ) سے پہلے والے مومنین کو بعد والوں سے اعلی مقام کا ذکر کرتی ہے اگرچہ اللہ نے دونوں ہی سے بھلائی کا وعدہ فرمایا ہے)
علامہ ابن حجرؒ لکھتے ہیں کہ، دوسری جگہ ارشاد فرمایا ہے:
إِنَّ الَّذِیْنَ سَبَقَتْ لَہُم مِّنَّا الْحُسْنَی أُوْلَئِکَ عَنْہَا مُبْعَدُونَ٭ لَا یَسْمَعُونَ حَسِیْسَہَا وَہُمْ فِیْ مَا اشْتَہَتْ أَنفُسُہُمْ خَالِدُونَ} (انبیائ، 101,102)
’’بیشک وہ لوگ جن کے لیے ہماری طرف سے بھلائی کا [ سَبَقَتۡ کا غلط ترجمہ :وعدہ ، درست ترجمہ: سَبَقَتۡ: پہلے فیصلہ ہوچکا[59]) فیصلہ ہو چکا ہے تو وہ یقینا اس جہنم سے دور رکھے جائیں گے، اس کی سرسراہٹ تک نہ سنیں گے اور وہ ہمیشہ ہمیشہ اپنی من بھاتی چیزوں کے درمیان رہیں گے۔‘‘
تبصرہ :
اِنَّ الَّذِيْنَ سَبَقَتْ لَهُمْ مِّنَّا الْحُسْنٰٓى ۔۔ :” الْحُسْنٰٓى“ ” اَلْأَحْسَنُ “ کی مؤنث ہے، معنی ہے سب سے اچھی چیز۔ مراد وہ سعادت اور خوش قسمتی ہے جو اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی ان کی تقدیر میں لکھ دی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے شرک کی وجہ سے جہنم میں جانے والوں کے ذکر کے بعد اللہ اور اس کے رسول پر ایمان رکھنے والوں کا ذکر فرمایا۔ یہ وہ لوگ ہیں جن کے لیے اللہ تعالیٰ نے پہلے ہی سعادت اور نیک اعمال کی توفیق یا معافی مقدر کردی ہے اور وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔ بعض مفسرین نے اس آیت سے مراد وہ صالحین، انبیاء اور فرشتے لیے ہیں جن کی مشرکین عبادت کرتے تھے۔ ان کے مطابق یہ آیت مشرکین کے جواب میں اتری ہے جنھوں نے اعتراض کیا تھا کہ اگر اللہ کے علاوہ جن کی عبادت کی گئی ہے وہ جہنم میں جائیں گے تو لوگوں نے عبادت فرشتوں اور پیغمبروں کی بھی کی ہے۔ جواب یہ دیا گیا کہ یہ لوگ جہنم سے دور رکھے جائیں گے۔ اگرچہ اس آیت میں اس اعتراض کا جواب بھی موجود ہے، تاہم آیت کے الفاظ عام ہیں، اس لیے اس میں فرشتوں، پیغمبروں اور صالحین کے ساتھ تمام سعادت مند مومن بھی شامل ہیں اور یہ اللہ تعالیٰ کا خاص اسلوب ہے کہ وہ جنت و جہنم اور نیک و بد دونوں کا ذکر ساتھ ساتھ فرماتا ہے۔ چناچہ اللہ تعالیٰ نے سعادت مند لوگوں کو عطا ہونے والی پانچ نعمتیں ذکر فرمائی ہیں، جن میں سے پہلی یہ ہے کہ وہ جہنم سے دور رکھے جائیں گے(تفسیر القرآن عبدالسلام بھٹوی )[60]
اور کچھ اور لوگ ہیں جو اپنی خطا کے اقراری ہیں جنہوں نے ملے جلے عمل کیے تھے، کچھ بھلے اور کچھ برے۔ اللہ سے امید ہے کہ ان کی توبہ قبول فرمائے۔ بلاشبہ اللہ تعالیٰ بڑی مغفرت واﻻ بڑی رحمت واﻻ ہے (قرآن 9:102)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا إِن جَاءَكُمْ فَاسِقٌ بِنَبَإٍ فَتَبَيَّنُوا أَن تُصِيبُوا قَوْمًا بِجَهَالَةٍ فَتُصْبِحُوا عَلَىٰ مَا فَعَلْتُمْ نَادِمِينَ ﴿٦﴾
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اگر کوئی فاسق تمہارے پاس کوئی خبر لے کر آئے تو تحقیق کر لیا کرو، کہیں ایسا نہ ہو کہ تم کسی گروہ کو نادانستہ نقصان پہنچا بیٹھو اور پھر اپنے کیے پر پشیمان ہو (قرآن :49:6)[61]
یہ آیت اکثر مفسرین کے نزدیک حضرت ولید بن عقبہ (رض) کے بارے میں نازل ہوئی ہے جنہیں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے بنو المصطلق کے صدقات وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا لیکن انہوں نے آ کر یوں ہی رپورٹ دے دی کہ انہوں نے زکوٰۃ دینے سے انکار کردیا جس پر آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ان کے خلاف فوج کشی کا ارادہ فرما لیا تاہم پھر پتہ لگ گیا کہ یہ بات غلظ تھی-[62]
اور کچھ تمہارے گردوپیش والوں میں اور کچھ مدینے والوں میں ایسے منافق ہیں کہ نفاق پر اڑے ہوئے ہیں، آپ ان کو نہیں جانتے، ان کو ہم جانتے ہیں ہم ان کو دہری سزا دیں گے، پھر وه بڑے بھاری عذاب کی طرف بھیجے جائیں گے (قرآن 9:101)
صحابہ کرام رض کی ایک خاص حیرت انگیز خوبی کہ وہ رسول اللہﷺ پرجھوٹ نہیں بولتے تھے- گناہ اور سچ کی ایک انتہائی مثال؛ ایک شخص اپنے خلاف گناہ کی شہادت چار بار خود رضاکارانہ طورپراوربچاو کے مواقع مہیا کیئے جانے کے باوجود رجم کی تکلیف دہ موت قبول کرے صرف الله تعالی کی رضا حاصل کرنے کے لیے، اس سے سچا کون ہو سکتا ہے؟ جس کا جنازہ پڑھا کر رسول اللہ ﷺ کلمہ خیربھی فرمائیں تو کیا اللہ اس سزاوار کو معاف کرکہ راضی نہ ہوگا؟ [1] گناہ کبیرہ کے باوجود کیا اس کی شہادت قبول نہیں جو انپے خلاف شہادت دے کو موت قبول کرتا ہے- ایسی مثال دوبارہ 1400سالہ اسلامی تاریخ میں شاید ہی ملے، یہ ہے ایک گناہگار ترین صحابی کا مقام تو باقی کا کیا مقام ہو گا اندازہ لگا لیں-
نیک نفس اور پاکباز صحابہ قابل احترام ضرور ہیں لیکن معیار حق وہ بھی نہیں۔ نبی رحمت صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی ذات گرامی ہی صرف معیار حق ہے ، پیغمبر کے علاوہ کوئی شخصیت نہ معیار حق ہے اور نہ ہی اس کا قول و فعل حجت بن سکتا ہے ، اسلام نے اس سلسلہ میں اس قدر احتیاط کی ہے کہ پیغمبر کی اطاعت کے لیے بھی ؛ معروف ؛ کی شرط کو لازم قرار دیا ، حدیث میں آتا ہے کہ نبی علیہ السلام جب کسی شخص سے بیعت لیتے تو فرماتے : الطاعة في معروف ؛ کہ تم پر میری اطاعت معروف کی حد تک واجب ہوگی۔
لیکن ہماری بدقسمتی کی یہ حالت ہے کہ ہم نے پیغمبر کی ذات کو چھوڑ کر باقی سب کو حق و عدل کا معیار قرار دے لیا ہے اور شخصیت پرستی کی لعنت میں اس حد تک مبتلا ہوچکے ہیں کہ جہاں واقعات و شواہد اور نصوص قطعیہ موجود ہوں وہاں بھی نظر سب سے پہلے اُس شخصیت کی طرف اُٹھتی ہے جو ہماری عقیدتوں کا مرکز ہو، اور ہم سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ اس کی رائے اس بارے میں کیا ہے ، اور وہ اس معاملے میں کیا موقف رکھتا ہے ۔
رسول اللہ ﷺ کا ارشاد ہے:
دوروا مع الکتاب حیث دار ( بھیقی ) جس طرف کتاب الہی کارُخ ہو اُسی طرف گھوم جاؤ
یعنی الله تعالی کے قانون کو مرکزی نقطہ بنا کر خود اس کے مطابق چلو،لیکن ہم کتاب کو گُھماتے ہیں یا ہوا کے رُخ چلنے کے عادی ہیں یا جس کی لاٹھی اُس کی بھینس کے ہم قائل ہیں یا پھر اندھا دُھند تقلید ہمارا شعار ہے ۔
مشہور محدث ابن جوزی اپنی مشہور کتاب ؛ تلبیس ابلیس میں اس روش سے بچنے کی تلقین کرتے ہوئے لکھتے ہیں : وا علم ان عموم اصحاب المذاهب يعظم في قلوبهم الشخص فيتبعون قوله من غير تدبر بما قال و هذا عين الضلال لان النظر ينبغي ان يكون الي القول لا الي المقائل كما قال علي عليه السلام لحارث بن حوطه وقد قال الاتظن انا نظن ان طلحة والزبير كانا علي باطل ؟ فقال لا يا حارث ، انه ملبوس عليك ، ان الحق لايعرف بالرجال اعرف الحق تعرف لاهله ؛
یہ بات ذہن نشین رہے کہ اصحاب مذاہب کا یہ معمول رہا ہے کہ وہ جس کے معتقد ہوتے ہیں اس کی بات کو سوچے سمجھے بغیر قبول کر لیتے ہیں اور یہ صریحاً گمراہی ہے کیونکہ قائل سے زیادہ قول پر نظر رکھنی چاہیے ، جیسا کہ حضرت علی (رضی الله) نے حارث بن حوطہ کی اس بات کے جواب میں کہ آپ کا کیا خیال ہے کہ طلحہ و زبیر کو ہم غلطی پر سمجھنے لگ جائیں؟ بلکہ یہ فرمایا تھا : حارث تمہیں دھوکہ ہوا ہے ، یاد رکھو حق انسانوں کے ذریعہ نہیں پہچانا جاتا بلکہ حق کے ذریعے اہل حق پہچانے جاتے ہیں-
مسیحیت کی طرح اسلام میں "معصوم عن الخطأ" (infallible) ، سینٹ (sainthood) اور اس قسم کے نظریات کا وجود نہیں- الله تعالی کی طرف سے "ایمان اور اعمال صالحات" پر بخشش کا وعدہ عام ہے لیکن کسی کوبھی ، کسی کو بھی الله تعالی کے قانون شریعت سے استثنیٰ حاصل نہیں ہے، چاہے وہ اہل بیت ہوں یا ان میں پیاری ترین رسول اللہ ﷺ کی بیٹی حضرت فاطمہ (رضی الله) ہوں، یہ رسول اللہ ﷺ کا فرمان ہے- سیاسی اختلآفات ، جنگیں ہوئیں ہزاروں شہید ہونے جس کا فیصلہ الله تعالی کرے گا- جنت میں داخلہ سے قبل سب کی دلوں کی کدورتیں، نفرتیں ختم کرے گا اور سب بھائی بھائی ہوں گے- کیا ہم اس دنیا میں نفرتیں ختم کرکہ بھائی بھائی نہیں ہو سکتے؟ لیکن ان کے معاملات ، مشاجرات صحابہ میں اخلاق، عزت و احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاھیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں اہل البیت اوراصحاب رسول اللہ ﷺ کی محبت پر قائم رکھے۔
مزید : حدیث اورتاریخ میں فرق، تاریخی روایات وجزیات اور صحابہ کرم پر تنقید کا رد از مولآنا سید یوسف بنوری[64] .....
١.مقصد حیات و موت: الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ﴿٢﴾
اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے (٦٧:٢)
٢.ایمان اور عمل صالح:"ایمان اور عمل صالح" قرآن کا مین تھیم (بیانیہ) ہے تسلسل کے ساتھ قرآن میں "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ"[65] ٥١ آیات میں ١٥٨ مرتبہ دہرایا گیا ہے یہ ان کی اہمیت کو واضح کرتا ہے- مزید تفصیل سورہ العصر.[66]
مزید تفصیل سورہ العصر میں ہے
٣. بُرائی کا بدلہ: ليس بأمانيكم ولا اماني أهل الكتاب من يعمل سوء يجزبه (قرآن: 4:123)
"تمہاری اور اہل کتاب کی خواہشات کے مطابق فیصلہ نہیں ہوگا ، جو شخص بھی کسی بُرائی کا ارتکاب کرے گا اُسے اس کا بدلہ مل کر رہے گا ۔(قرآن: 4:123)
٤.لَهَا مَا كَسَبَتْ وَعَلَيْهَا مَا اكْتَسَبَتْ (٢:٢٨٦) جو نیکی کمائی اس کے لئے اس کا اجر ہے اور اس نے جو گناہ کمایا اس پر اس کا عذاب ہے (٢:٢٨٦)[67]
یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرۡکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ ۘ لَوۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ (قرآن :71:4 ﴾
"للہ تمہارے کچھ گناہ معاف کر دے گا اور تمہیں مہلت دے دے گا ایک وقت معین تک۔ اللہ کا مقرر کردہ وقت جب آجائے گا تو اسے موخر نہیں کیا جاسکے گا۔ کاش کہ تمہیں معلوم ہوتا (قرآن :71:4 ﴾ (ترجمہ: ڈاکٹر اسرار احمد )
یعنی سب کے سب گناہ معاف ہونے کی ضمانت نہیں ‘ البتہ کچھ گناہ ضرور معاف ہوجائیں گے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو جسے چاہے گا اور جب چاہے گا معاف کر دے گا ‘ لیکن حقوق العباد کے تنازعات کے حوالے سے وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس کے لیے روز محشر متعلقہ فریقوں کے درمیان باقاعدہ لین دین کا اہتمام کرایا جائے گا۔ مثلاً کسی شخص نے اگر کسی کا حق غصب کیا ہوگا ‘ ظلم کیا ہوگا تو ایسے ظالم کی نیکیوں کے ذریعے سے متعلقہ مظلوم کی تلافی کی جائے گی۔ اس لین دین میں اگر کسی ظالم کی نیکیاں کم پڑجائیں گی تو حساب برابر کرنے کے لیے اس کے ظلم کا شکار ہونے والے مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔[68] گناہوں کی بخسش، معافی پر تمام آیات و احادیث کو اس آیت
(قرآن :71:4 ﴾ اور احادیث (بخاری، 3073[69].[70].مسلم حدیث: 459) کی روشنی میں سمجھنا ضروری ہے-
عنه قال : قال رسول الله صلى الله عليه و سلم : اللهم إني اتخذت عندك عهدا لن تخلفنيه فإنما أنا بشر فأي المؤمنين آذيته شتمته لعنته جلدته فاجعلها له صلاة وزكاة وقربة تقربه بها إليك يوم القيامة [مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: 2245]
ترجمہ:
حضرت ابوہریرہ ؓ روای ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بارگاہ حق میں یوں دعا کی کہ اے میرے پروردگار! میں نے تیری خدمت میں ایک درخواست پیش کی ہے تو مجھے اس کی قبولیت سے نواز اور مجھے ناامید نہ کر۔ یعنی میں امیدوار کرم ہوں کہ میری درخواست ضرور ہی منظور ہوگی اور وہ درخواست یہ ہے کہ میں ایک انسان ہوں لہٰذا جس مومن کو میں نے کوئی ایذاء پہنچائی ہو بایں طور کہ میں نے اسے برا بھلا کہا ہو میں نے اس پر لعنت کی ہو میں نے اسے مارا ہو تو ان سب چیزوں کو تو اس مومن کے حق میں رحمت کا سبب گناہوں سے پاکی کا ذریعہ اور اپنے قرب کا باعث بنا دے کہ تو ان چیزوں کے سبب اس کو قیامت کے دن اپنا قرب بخشے۔ (بخاری ومسلم) [مشکوٰۃ المصابیح حدیث نمبر: 2245]
وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِم ز وَ لَیُسْئَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠ ۧ
"اور وہ اپنے گناہوں کے بوجھ بھی ضرور اٹھایں گے اور اپنے بوجھ کے ساتھ کچھ اور بوجھ بھی ۔ اور یہ لوگ جتنے جھوٹ (افترا پردازیاں، ، بہتان) گھڑا کرتے تھے ، قیامت کے دن ان سے سب کی باز پرس ضرور کی جائے گی (قرآن :29:13 ﴾[71]
یعنی وہ اللہ کے ہاں اگرچہ دوسروں کا بوجھ تو نہ اٹھائیں گے[وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی- الاسراء : ١٥)] لیکن دوہرا بوجھ اٹھانے سے بچیں گے بھی نہیں، ایک بوجھ ان پر خود گمراہ ہونے کا لدے گا اور دوسرا بوجھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا بھی ان پر لادا جائے گا۔ اس بات کو یوں سمجھیے کہ ایک شخص خود بھی چوری کرتا ہے اور کسی دوسرے شخص سے بھی کہتا ہے کہ وہ اس کے ساتھ چوری کے کام میں حصہ لے۔ اب اگر وہ دوسرا شخص اس کے کہنے سے چوری کرے گا تو کوئی عدالت اسے اس بنا پر نہ چھوڑ دے گا کہ اس نے دوسرے کے کہنے سے جرم کیا ہے۔ چوری کی سزا تو بہرحال اسے ملے گی اور کسی اصول انصاف کی رو سے بھی یہ درست نہ ہوگا کہ اسے چھوڑ کر اس کے بدلے کی سزا اس پہلے چور کو دے دی جائے جس نے اسے بہکا کر چوری کے راستے پر ڈالا تھا۔ لیکن وہ پہلا چور اپنے جرم کے ساتھ اس جرم کی سزا بھی پائے گا کہ اس نے خود چوری کی سو کی، ایک دوسرے شخص کو بھی اپنے ساتھ چور بنا ڈالا۔ قرآن مجید میں ایک دوسرے مقام پر اس قاعدے کو ان الفاظ میں بیان کیا گیا ہے:
لِیَحۡمِلُوۡۤا اَوۡزَارَہُمۡ کَامِلَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۙ وَ مِنۡ اَوۡزَارِ الَّذِیۡنَ یُضِلُّوۡنَہُمۡ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوۡ (اقرآن: 6:25)
"تاکہ وہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے پورے اٹھائیں اور ان لوگوں کے بوجھوں کا بھی ایک حصہ اٹھائیں جن کو وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے ہیں " (اقرآن: 6:25)[72]
”ۙ وَمِنْ اَوْزَارِ الَّذِيْنَ يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ “ میں ”مِنْ “ تبعیض کے لیے ہے، یعنی ان کے صرف ان گناہوں کو جو انھوں نے ان کے کہنے پر کیے۔ (شعراوی) يُضِلُّوْنَهُمْ بِغَيْرِ عِلْمٍ : اس سے (اندھی) تقلید کا رد نکلتا ہے، کیونکہ تقلید علم کی ضد ہے اللہ اور رسول کی بات دین میں دلیل اور علم ہے، اس کے خلاف جو بھی ہے تقلید اور جہل ہے۔ یہاں بغیر علم گمراہ کرنے والوں اور ان کے پیچھے چل کر گمراہ ہونے والوں میں سے کسی کا عذر تقلید قبول نہیں ہوگا۔ ابن قیم (رض) نے فرمایا : اَلْعِلْمُ مَعْرِفَۃُ الْھُدٰی بِدَلِیْلِہِ مَا ذَاکَ وَالتَّقْلِیْدُ یَسْتَوِیَانِ إِذْ أَجْمَعَ الْعُلَمَاءُ أَنَّ مُقَلِّدًا لِلنَّاسِ وَالْأَعْمٰی ھُمَا سِیَّانٖ ”علم ہدایت کو اس کی دلیل (قرآن و سنت) کے ساتھ پہچاننے کا نام ہے۔ یہ اور تقلید کبھی برابر نہیں ہوسکتے، کیونکہ علماء کا اس بات پر اتفاق ہے کہ لوگوں کی تقلید کرنے والا اور اندھا دونوں برابر ہیں۔ (بھٹوی)
اور اسی قاعدے کو نبی ﷺ نے اس حدیث میں بیان فرمایا ہے کہ:
من دعا الی ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا و من دعا الی ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اثام من تبعہ لا ینقص ذلک من اثامھم شیئا۔ (مسلم)
" جس شخص نے راہ راست کی طرف دعوت دی اس کو ان سب لوگوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا جنہوں نے اس کی دعوت پر راہ راست اختیار کی بغیر اس کے کہ ان کے اجروں میں کوئی کمی ہو، اور جس شخص نے گمراہی کی طرف دعوت دی اس پر ان سب لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جنہوں نے اس کی پیروی کی بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی ہو "۔(مسلم) / (تفہیم القرآن)
ابن عباس ؓ نے بیان کیا کہ حضرت عمر (رضی الله) نے فرمایا ۔۔۔۔
اور سن لو کہ رسول اللہ ﷺ نے یہ بھی فرمایا تھا کہ میری تعریف حد سے بڑھا کر نہ کرنا جس طرح عیسیٰ ابن مریم عیلہما السلام کی حد سے بڑھا کر تعریفیں کی گئیں (ان کو اللہ کو بیٹا بنادیا گیا) بلکہ (میرے لیے صرف یہ کہو کہ) میں اللہ کا بندہ اور اس کا رسول ہوں (اقتباس ، البخاری 6830 )
عوام میں گمراہ کن نظریہ شفاعت سے عمل صالح غور منسوخ سمجھا جاتے ہے جبکہ ایسا نہیں:
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ہمیں خطاب فرمایا اور غلول (خیانت) کا ذکر فرمایا ‘ اس جرم کی ہولناکی کو واضح کرتے ہوئے فرمایا کہ میں تم میں کسی کو بھی قیامت کے دن اس حالت میں نہ پاؤں کہ اس کی گردن پر بکری لدی ہوئی ہو اور وہ چلا رہی ہو یا اس کی گردن پر گھوڑا لدا ہوا ہو اور وہ چلا رہا ہو اور وہ شخص مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔
لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا۔ میں تو (اللہ کا پیغام) تم تک پہنچا چکا تھا۔
اور اس کی گردن پر اونٹ لدا ہوا ہو اور چلا رہا ہو اور وہ شخص کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمائیے۔ لیکن میں یہ جواب دے دوں کہ :
میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا ‘
یا (وہ اس حال میں آئے کہ) وہ اپنی گردن پر سونا ‘ چاندی ‘ اسباب لادے ہوئے ہو اور وہ مجھ سے کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد فرمایئے ‘ لیکن میں اس سے یہ کہہ دوں کہ:
میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں اللہ تعالیٰ کا پیغام تمہیں پہنچا چکا تھا۔
یا اس کی گردن پر کپڑے کے ٹکڑے ہوں جو اسے حرکت دے رہے ہوں اور وہ کہے کہ یا رسول اللہ! میری مدد کیجئے اور میں کہہ دوں کہ
میں تمہاری کوئی مدد نہیں کر سکتا ‘ میں تو (اللہ کا پیغام) پہلے ہی پہنچا چکا تھا۔
اور ایوب سختیانی نے بھی ابوحیان سے روایت کیا ہے گھوڑا لادے دیکھوں جو ہنہنا رہا ہو۔ (بخاری، 3073[73].[74])
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ لوگ جو جہنم والے ہیں (جیسے کافر اور مشرک) وہ نہ تو مریں گے نہ جئیں گے لیکن کچھ لوگ جو گناہوں کی وجہ سے دوزخ میں جائیں گے، آگ ان کو مار کر کوئلہ بنا دے گی۔ پھر اجازت ہو گی شفاعت ہو گی اور یہ لوگ لائے جائیں گے گروہ گروہ اور پھیلائے جائیں گے جنت کی نہروں پر اور حکم ہو گا اے جنت کے لوگو! ان پر پانی ڈالو تب وہ اس طرح سے جمیں گے جیسے دانہ اس مٹی میں جمتا ہے جس کو پانی بہا کر لاتا ہے۔“(مسلم حدیث: 459)[19]
نظریہ شفاعت کی حقیقت: https://bit.ly/Shfaat
شیطان جن راہوں سے انسان کو گمراہ کرتا ہے ان میں سب سے زیادہ قابل ذکر سستی نجات کا عقیدہ ہے۔ تو اس میدان میں مسلمان یہود و نصاریٰ سے بھی دو ہاتھ آگے ہی ہوں گنے آیت ﴿71:4﴾ میں اللہ تعالیٰ نے ایسی خرافات کی تردید کرتے ہوئے نجات کی صحیح راہ بیان فرمائی اور وہ راہ اللہ تعالیٰ کا قانون جزا و سزا ہے۔ یہ قانون قرآن کریم میں متعدد مقامات پر مذکور ہے اور اس قانون کی قابل ذکر دفعات یہ ہیں :
(١) ہر انسان کو صرف وہی کچھ ملے گا جو اس نے خود کمایا ہو، برے عمل کا بدلہ برا ہوگا اور اچھے عمل کا اچھا۔ .ایمان اور عمل صالح ("آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ")[75] کی تفصیل سورہ العصر.[76]
(٢) جزا و سزا کے لحاظ سے مرد اور عورت میں کوئی فرق نہیں
(٣) اگر کسی نے چھوٹی سے چھوٹی نیکی بھی کی ہوگی تو بھی اس کا اسے ضرور بدلہ ملے گا اللہ کسی کی چھوٹی سے چھوٹی نیکی کو بھی نظر انداز نہیں فرمائے گا۔ کسی کی ذرہ برابر بھی حق تلفی نہیں ہوگی۔
(٤) قیامت کے دن کوئی بھی شخص خواہ وہ اس کا پیر ہو یا کوئی قریبی رشتہ دار ہو دوسرے کے گناہ کا بوجھ نہیں اٹھائے گا
(٥) یہ ناممکن ہے کہ زید کے گناہ کا بار بکر کے سر ڈال دیا جائے (ماسوا حساب کتاب کے بعد حقوق العباد کی تلافی میں انصاف سے)
(٦) شفاعت کے مستحق صرف گناہگار موحدین ہوں گے وہ بھی ان شرائط کے ساتھ کہ اللہ جس کے حق میں خود سفارش چاہے گا اسی کے حق میں کی جاسکے گی اور جس شخص کو سفارش کرنے کی اجازت دے گا صرف وہی سفارش کرسکے گا۔
اس قانون کے علاوہ نجات کی جتنی راہیں انسان نے سوچ رکھی ہیں، ان کا کچھ فائدہ نہ ہوگا البتہ یہ نقصان ضرور ہوگا کہ انسان ایسی امیدوں کے سہارے دنیا میں گناہوں پر اور زیادہ دلیر ہوجاتا ہے۔ اس آیت میں اللہ تعالیٰ نے یہ وضاحت فرما دی کہ قیامت کے دن لوگوں کے ایسے من گھڑت سہارے کسی کام نہ آسکیں گے جو اسے اللہ کے عذاب سے بچا سکیں-[ تفسیر قرآن ، مولانا عبدلرحمان کیلانی ]
حضرت عمر بن الخطاب ؓ سے روایت ہے، بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سُنا آپ فرماتے تھے کہ: "سب انسانی اعمال کا دارو مدار بس نیتوں پر ہے اور آدمی کو اس کی نیت ہی کے مطابق پھل ملتا ہے.... (بخاری و مسلم)[77] (معارف الحدیث حدیث نمبر 1)
اس دنیا میں صرف ظاہر پر تمام فیصلے کئے جاتے ہیں
یہی وہ سنتُ اللہ اور قانون خداوندی ہے جس کا اعلان رسول اللہ ﷺ نے اس حدیث میں فرمایا ہے۔ اس دنیا میں صرف ظاہر پر تمام فیصلے کئے جاتے ہیں اور آخرت میں نیتوں پر کئے جائیں گے۔
یہ عالم جس میں ہم ہیں اور ہم کو جس میں کام کرنے کا موقع دیا گیا ہے "عالمِ ظاہر" اور "عالم، شہادت" ہے اور ہمارے حواس و ادراکات کا دائرہ بھی یہاں صرف ظاہر اور مظاہر ہی تک محدود ہے، یعنی یہاں ہم ہر شخص کا صرف ظاہر چال چلن دیکھ کر ہی اس کے متعلق اچھی یا بُری رائے قائم کر سکتے ہیں، اور اسی کی بنیاد پر اس کے ساتھ معاملہ کر سکتے ہیں، ظاہری اعمال پر سے ان کی نیتوں، دل کے بھیدوں اور سینوں کے رازوں کے دریافت کرنے سے ہم قاصر ہیں اسی لیے حضرت فاروق اعظمؓ نے فرمایا: نَحْنُ نَحْكُمُ بِالظَّاهِرِ وَاللهُ يَتَوَلَّى السَّرَائِر (یعنی ہمارا کام ظاہر پر حکم لگانا ہے اور مخفی راز اللہ کے سپرد ہیں) لیکن عالمِ آخرت میں فیصلہ کرنے والا اللہ تعالیٰ علام الغیوب ہو گا اور وہاں اس کافیصلہ نیتوں اور دل کے ارادوں کے لحاظ سے ہو گا،
گویا احکام کے بارے میں جس طرح یہاں ظاہری اعمال اصل ہیں اور کسی کی نیت پر یہاں کوئی فیصلہ نہیں کیا جاتا، اسی طرح وہاں معاملہ اس کے برعکس ہو گا، اور حق تعالیٰ کا فیصلہ نیتوں پر ہو گا، اور ظاہری اعمال کو ان کے تابع رکھا جائے گا۔
دنیا میں اللہ ںے قانون شریعت نافز کر رکھا ہے جس سے کسی کو استثنا حاصل نہیں، اگر کوئی چوری یا خیانت کرے تو اس کی سزا بھگتے گا - رسول اللہ ﷺ ںے فرمایا :
"اللہ کی قسم! اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرے تو میں اس کا بھی ہاتھ کاٹ ڈالوں"(البخاری:3475)
قرآن پیغمبرﷺ کی ازواج مطہرات کے بارے میں فرماتا ہے :
يَانِسَاءَ النَّبىِ مَن يَأْتِ مِنكُنَّ بِفَحِشَةٍ مُّبَيِّنَةٍ يُضَعَفْ لَهَا الْعَذَابُ ضِعْفَين
اے پیغمبر کی بیویو ! تم میں سے جو کوئی صریح ناشائستہ حرکت کرے گی تو اس کو دو گنا زیادہ سزا دری جائے گی اور یہ کام اللہ کے لیے آسان ہے (قرآن 33:30)[78]
ضَرَبَ اللّٰہُ مَثَلًا لِّلَّذِیۡنَ کَفَرُوا امۡرَاَتَ نُوۡحٍ وَّ امۡرَاَتَ لُوۡطٍ ؕ کَانَتَا تَحۡتَ عَبۡدَیۡنِ مِنۡ عِبَادِنَا صَالِحَیۡنِ فَخَانَتٰہُمَا فَلَمۡ یُغۡنِیَا عَنۡہُمَا مِنَ اللّٰہِ شَیۡئًا وَّ قِیۡلَ ادۡخُلَا النَّارَ مَعَ الدّٰخِلِیۡنَ ﴿۱۰﴾
"جن لوگوں نے کفر اختیار کیا ہے ، اللہ ان کے لیے نوح کی بیوی اور لوط کی بیوی کو مثال کے طور پر پیش کرتا ہے ۔ یہ دونوں ہمارے دو ایسے بندوں کے نکاح میں تھیں جو بہت نیک تھے ۔ پھر انہوں نے ان کے ساتھ خیانت کی ، تو وہ دونوں اللہ کے مقابلے میں ان کے کچھ بھی کام نہیں آئے اور ( ان بیویوں سے ) کہا گیا کہ : دوسرے جانے والوں کے ساتھ تم بھی جہنم میں چلی جاؤ ۔(66:10)[79]
اگر پیغمبر کی مصاحبت کی یہ خاصیت ہے تو یہ صفت پیغمبر کے فرزند میں بطریق اولیٰ ہونی چاہیے جبکہ قرآن حضرت نوح (علیہ السلام ) کے فرزند کے بارے میں فرماتا ہے:
قَالَ یٰنُوۡحُ اِنَّہٗ لَیۡسَ مِنۡ اَہۡلِکَ ۚ اِنَّہٗ عَمَلٌ غَیۡرُ صَالِحٍ ٭ ۫ ۖ فَلَا تَسۡئَلۡنِ مَا لَـیۡسَ لَکَ بِہٖ عِلۡمٌ ؕ اِنِّیۡۤ اَعِظُکَ اَنۡ تَکُوۡنَ مِنَ الۡجٰہِلِیۡنَ ﴿۴۶﴾
اللہ تعالٰی نے فرمایا اے نوح (علیہ السلام ) یقیناً وہ تیرے گھرانے سے نہیں ہے اس کے کام بالکل ہی ناشائستہ ہیں تجھے ہرگز وہ چیز نہ مانگنی چاہیے جس کا تجھے مطلقا علم نہ ہو میں تجھے نصیحت کرتا ہوں کہ تو جاہلوں میں سے اپنا شمار کرانے سے باز رہے ۔ (11:46 )[80]
یہاں تک کہ اللہ نے حضرت نوح (علیہ السلام ) کو ہوشیار کیا کہ اپنے بیٹے کی شفاعت نہ کریں اور اس کی نجات کی درخواست نہ کریں-
قرآنی نصوص کے بعد ہم کیسے یقین کر سکتے ہیں کہ جس شخص نے زندگی میں صرف ایکبار پیغمبرؐ کو دیکھا ہے اسے آپ کا صحابی کہا جائے یہاں تک کہ اگر وہ احدیث کی روایت کرتا ہے تو اس کی تحقیق نہ کی جایے ؟ اگر اس کے خلاف کوئی ثبوت یا روایت ملے تو اسے قبول نہ کریں-
قرآن پیغمبرﷺ کے سچے صحابہ کی تعریف میں بیان فرماتا ہے:
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٤٨:٢٩﴾
اس آیت کے ترجمہ اور تفسیر میں اہل تشیع ، اہل سنت اور اہل سنت کے درمیان آپس میں بھی مفسرین میں اختلاف ہے کچھ تراجم ، تفاسیر اور تجزیہ پیش ہے:
محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں یہ ہے ان کی صفت توراۃ میں اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے(اللہ نے ایسے ہی ان لوگوں کو مضبوط کیا) تاکہ اس کے ذریعے سے کافروں کو غیظ و غضب میں ڈالے (لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ)- ...
وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا
اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔(ترجمہ عبدلرحمان کیلانی )
آیت کا آخری "وَعَدَ اللَّهُ" والا حصہ بہت اہم ہے جس پر اختلافات ہیں ، اسے بغور پڑھیں":
ترجمہ-١: جو لوگ ان میں سے ( رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں میں سے) ایمان پر (قائم) رہیں گے اور نیک اعمال کریں گے "تو" ان سے وعدہ ہے مغفرت اور بڑے اجر کا-
مفھوم-١/ مضمرات (implications): یعنی رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں سے جنت کا وعدہ مشروط ہے؛ ایمان پر قائم رہو اور نیک اعمال کرتے جاؤ- کوئی "معصوم من الخطأ" (infallible) نہیں، دنیا میں موت تک امتحان جاری ہے.[84] الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ﴿٦٧:٢﴾ اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے (قرآن ٦٧:٢)،اللہ کی طرف سے معافی حقوق اللہ کی ہے حقوق العباد پر عدالت / انصاف -
ترجمہ -٢: اﷲ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے -
مفھوم-٢: (رسول اللہﷺ کے ساتھی جن کی خصوصیات کا ذکر پہلے ہوا خوب بڑھ رہے ہیں اور کافر ان سے غیظ و غضب میں جل رہے ہیں . یہاں بات ختم ہو جاتی ہے اور زیر بحث اگلے حصہ کا تعلق رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں سے نہیں بلکہ دوسرے لوگوں (عام مسلمانوں) سے ہے جو رسول اللہ ﷺ کے ساتھی نہیں)
"اﷲ نے ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے"
مضمرات (implications): اس ترجمہ / مفھوم کے مضمرات (implications) یہ ہیں کہ، رسول اللہ ﷺ کے ساتھ کے لوگوں کو جنت کا وعدہ پہلے ہی عطا (granted) کر دیا گیا ہے (ان کا ایمان اور نیک اعمال کامل ہیں جس میں اب موت تک کوئی خرابی نہ ہوگی، یعنی وہ اب "معصوم من الخطأ" infallible ہیں، ان کا امتحان ختم، آیت (قرآن67:2) اب ان پرقابل اطلاق نہیں) لیکن جودوسرے لوگ جو اب ایمان لائیں اور نیک اعمال کریں تو اللہ کا ان سے بھی مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ ہے-
اب مختلف تراجم پر نظر ڈالیں:
اردو تراجم[85] میں بھی زیادہ تر "مِنْهُم" کا معنی ("ان میں سے/ اس گروہ /یہ لوگ ) یعنی رسول اللہ ﷺ کے ساتھیوں سے وعدہ ہے-
وعدہ کیا ہے اللہ نے (مِنْهُم) ان سے جو یقین لائے ہیں اور کئے ہیں بھلے کام معافی کا اور بڑے ثواب کا۔(مفتی محمد شفع )
اس گروہ کے لوگ (مِنْهُم) جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کیے ہیں اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے (مولانا مودودی )
جو لوگ (مِنْهُم) ان میں سے ایمان لائے اور نیک عمل کرتے رہے ان سے خدا نے گناہوں کی بخشش اور اجر عظیم کا وعدہ کیا ہے (فتح محمد جالندھری ، امین اصلاحی )
اﷲ نے (مِنْهُم) ان لوگوں سے جو ایمان لائے اور نیک اعمال کرتے رہے مغفرت اور اجرِ عظیم کا وعدہ فرمایا ہے (طاہر القادری)
اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے (مِنْهُم) جو ان میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے مغفرت اور اجر عظیم کا (ڈاکٹر اسرار احمد )
اس گروہ کے لوگ (مِنْهُم) جو ایمان لائے ہیں اور جنہوں نے نیک عمل کئے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے (ترجمہ سید قطب شہید ، المصری)
(یہ مواد شیعہ ذرائع (sources) سے لیا گیا[86])
شیعہ حضرات کا دعوی ہے کہ صحابہ کے متعلق ان کے نظریات کی بنیاد قرآن اور عقل پر ہے- وہ تمام صحابہ کو عادل و ثقہ[87] نہیں سمجھتے اور احادیث کے راویوں کا میعار صحابہ پر بھی لاگو کرتے ہیں، اس کی بنیاد : سورہ الفتح کی آیت ٢٩ ہے :
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٤٨:٢٩﴾
ترجمہ: "محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں یہ ہے ان کی صفت توراۃ میں اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ اس کے ذریعے سے کافروں کو غیظ و غضب میں ڈالے اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔"
اس آیت (قرآن:48:29)[88] میں ان صفات کو اس طرح سے بیان کیا ہے کہ سارے صحابہ اس میں شامل ہوجائے لیکن آیت کے آخر میں جب مغفرت اور ثواب آخرت کا ذکر ہوا تو صرف ان صحابہ کو ذکر کیا ہے جن کے صالح اعمال ہوں، وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَ أَجْراً عَظيما۔۔ (قران: 48:29)
(وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ مِنْهُم) میں "من"تبعیضیه[89]" ہے اس پر توجہ کرتے ہوئے "منھم" کی عبارت، اس بات کو بیان کرتی ہے کہ ثواب کا وعدہ صحابہ کے ایک گروہ سے مخصوص ہے۔ در حقیقت آیت کا یہ معنی ہوگا کہ تمام صحابہ اعمال صالح والے نہیں ہیں بلکہ ان میں کچھ لوگ عمل صالح والے ہیں، بہرحال اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ میں بعض افراد ایسے ہیں جوپاک اور نیک ہیں اور اپنے اس مقام کی پاسداری کرتے ہوئے(رضی اللہ عنھم) کا اعزاز حاصل کرچکے ہیں، جیسا کہ دوسری آیات میں(ا وَ مِنْكُمْ مَنْ يُريدُ الْآخِرَة : اور کچھ آخرت کے خواہاںَ( آل عمران:152)[90] کے عنوان سے تعریف کی گئی ہے لیکن الله تعالی نے ان کی لغزِش سے درگُزر فرمادیا-[91]
امام جعفر صادق (ع ) نے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم کی تعریف یوں فرمائی ہے: "اللہ سبحانہ وتعالیٰ نے صحابہ میں سے ایک گروہ کو منتخب کیا اور ان پر عزت کی، وہ کامیاب ہوئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے مبارک لبوں نے ان کی خوبیوں کی تعریف کی۔ تم بھی ان سے محبت کرو، ان کی فضیلت کی تعریف کرو اور اہل بدعة سے الگ رہو کیونکہ ان کے ساتھ بیٹھنے سے دل کفر اور نفرت سے بھر جاتا ہے۔ (مصباح الشریعہ صفحہ 67)[92]
شیعہ نظریہ کے مطابق تمام آیات اور روایات جو صحابہ کی تعریف میں بیان ہوئی ہیں اسی گروہ سے متعلق ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو پیغمبرﷺ کے زمانے میں اپنے ایمان کے وعدے پر قائم رہے اور ایمان کی حالت میں وفات پائے یا حضورؐ کی رکاب میں جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ یا پیغمبرﷺ کے بعد حضرت علیؑ سے وعدہ وفا کیا یا اسی عقیدے پر قائم رہے یا حضرت علیؑ کی رکاب میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ان صحابیوں کی تعداد کم نہیں جو شروع ہی سے یا بعد میں حضرت علی (رضی الله) کے ساتھ مل گئے اور جنگ میں آپ کے ساتھ رہے۔ [مزید تفصیل لنک[93]]
ذہبی نےسعید بن جبیر سے نقل کیا: جنگ جمل میں 800 انصاری صحابی شریک تھے ان میں سے 400 وہ لوگ تھےجنہوں نے بیعت رضوان میں پیغمبرﷺ ؐکے ساتھ بیعت کیےتھے[94]
وہ لکھتے ہیں: جنگ جمل میں 130 اصحاب نے شرکت کی جو جنگ احد میں شریک تھے۔اس کے علاوہ 1500 دوسرے اصحاب اس جنگ میں حضرت علی (رضی الله) کے ساتھی تھے۔[95]
مسعودی جنگ صفین میں شرکت کرنے والے صحابہ کی تعداد کو 2800 جن میں سے87 جنگ بدر کے صحابہ اور900 بیعت رضوان کے اصحاب تھے[96]
شیعہ صحابہ کے اس عظیم گروہ کو پیغمبرﷺ کے پاک ترین صحابیوں میں شمار کرتے ہیں[97] جنہوں نے (رضی اللہ عنھم و رضوا عنہ) کا اعزازحاصل کر لیا ہے۔[98]
کسی کو ایسا دل رکھنے پر کیسے مجبور ہو سکتے ہیں جو اہل بیت علیہم السلام سے محبت کرتا ہو اور ساتھ ہی ان کے دشمنوں سے بھی محبت کا اقرار کرتا ہو؟
اہل السنۃ کے امام محدث شاہ عبدالعزیز فرماتے ہیں: "اہل بیت کی محبت دین کا حصہ ہے یہ سنت نہیں ہے، اہل بیت سے محبت کا مطلب مروان سے بغض رکھنا اور اسے برا بھلا کہنا ہے۔ اس نے امام حسین اور دیگر اہل بیت کے ساتھ برا سلوک کیا اور ان کا دشمن تھا۔ ہم اس شیطان کی مذمت کرتے ہیں۔" (فتاوٰی عزیزی، صفحہ 225)
علامہ طحاوی ابو حنیفہ عقیدہ کو بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اصحاب سے محبت کرتے ہیں لیکن ان میں سے کسی ایک فرد کی محبت میں زیادتی نہیں کرتے اور نہ ہی ان میں سے کسی ایک سے انکار کرتے ہیں۔ ہم اس سے نفرت کرتے ہیں جو ان سے نفرت کرتا ہے یا ان کے بارے میں اچھا نہیں بولتا ہے"- چنانچہ یہاں امام نعمان کے فتویٰ کی بنیاد پر صحابہ پر لعنت کرنے والا شائد پسند نہ ہو لیکن اسے کافر قرار نہیں دیا جا سکتا-
صحابہ میں بشری کمزوریوں پر قرآن سے مختلف درجات / اقسام ہیں، جو ان کو عادل و ثقہ اور صحابہ کے اول مخصوص قابل تعریف گروہ (رضی الله) سے الگ کرتا ہے- ( ضمیمہ الف: فضائل صحابہ و بشری کمزوریاں )
مزید تفصیلات : شیعہ ، صحابہ اور اسلام [116]، [117]
تاریخ اور روایات غلطیوں سے بھری پڑی ہے صرف صرف چند ایک: حضرت معاویه (رض) کی خلیفہ چہارم حضرت علی (رضی الله) سے بغاوت، جنگ، منبر پرتوہین کروانا : [119] [صحیح مسلم حدیث نمبر: 6220]
"احنف بن قیس سے، کہا کہ میں اس شخص (علی ؓ) کی مدد کرنے کو چلا۔ راستے میں مجھ کو ابوبکرہ ملے۔ پوچھا کہاں جاتے ہو؟ میں نے کہا، اس شخص (علی ؓ) کی مدد کرنے کو جاتا ہوں۔ ابوبکرہ نے کہا اپنے گھر کو لوٹ جاؤ۔ میں نے نبی کریم ﷺ سے سنا ہے آپ ﷺ فرماتے تھے جب دو مسلمان اپنی اپنی تلواریں لے کر بھڑ جائیں تو قاتل اور مقتول دونوں دوزخی ہیں۔ میں نے عرض کیا یا رسول اللہ! قاتل تو خیر (ضرور دوزخی ہونا چاہیے) مقتول کیوں؟ فرمایا وہ بھی اپنے ساتھی کو مار ڈالنے کی حرص رکھتا تھا۔ (موقع پاتا تو وہ اسے ضرور قتل کردیتا دل کے عزم صمیم پر وہ دوزخی ہوا)" (صحيح البخاری: حدیث 30)[121]
ہم سے عبداللہ بن عبدالوہاب نے بیان کیا، کہا ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، ان سے ایک شخص نے جس کا نام نہیں بتایا، ان سے امام حسن بصری نے بیان کیا کہ میں ایک مرتبہ باہمی فسادات کے دنوں میں میں اپنے ہتھیار لگا کر نکلا تو ابوبکرہ ؓ سے راستے میں ملاقات ہوگئی۔ انہوں نے پوچھا کہاں جانے کا ارادہ ہے؟ میں نے کہا کہ میں رسول اللہ ﷺ کے چچا کے لڑکے کی (جنگ جمل و صفین میں) مدد کرنی چاہتا ہوں، انہوں نے کہا لوٹ جاؤ۔ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ جب دو مسلمان اپنی تلواروں کو لے کر آمنے سامنے مقابلہ پر آجائیں تو دونوں دوزخی ہیں۔ پوچھا گیا یہ تو قاتل تھا، مقتول نے کیا کیا (کہ وہ بھی ناری ہوگیا) ؟ فرمایا کہ وہ بھی اپنے مقابل کو قتل کرنے کا ارادہ کئے ہوئے تھا۔ حماد بن زید نے کہا کہ پھر میں نے یہ حدیث ایوب اور یونس بن عبید سے ذکر کی، میرا مقصد تھا کہ یہ دونوں بھی مجھ سے یہ حدیث بیان کریں، ان دونوں نے کہا کہ اس حدیث کی روایت حسن بصری نے احنف بن قیس سے اور انہوں نے ابوبکر ؓ سے کی۔ ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا کہا ہم سے حماد بن زید نے یہی حدیث بیان کی اور مؤمل بن ہشام نے کہا کہ ہم سے حماد بن زید نے بیان کیا، کہا ہم سے ایوب، یونس، ہشام اور معلی بن زیاد نے امام حسن بصری سے بیان کیا، ان سے احنف بن قیس اور ان سے ابوبکرہ ؓ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے اور اس کی روایت معمر نے بھی ایوب سے کی ہے اور اس کی روایت بکار بن عبدالعزیز نے اپنے باپ سے کی اور ان سے ابوبکرہ ؓ نے اور غندر نے بیان کیا، کہا ہم سے شعبہ نے بیان کیا، ان سے منصور نے، ان سے ربعی بن حراش نے، ان سے ابوبکرہ ؓ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے۔ اور سفیان ثوری نے بھی اس حدیث کو منصور بن معتمر سے روایت کیا، پھر یہ روایت مرفوعہ نہیں ہے۔ (صحيح البخاری حدیث:7083)[122]
مسروق سے مروی ہے عبدالرحمن بن عوف ام سلمہ ؓ کے پاس آئے تو انھوں نے کہا کہ میں نے رسول اللہ ﷺ سے سنا ہے کہ میرے بعد کچھ ایسے صحابی بھی ہوں گے جو مجھے مرنے کے بعد کبھی بھی نہیں دیکھ سکیں گے تو عبدالرحمن بن عوف وہاں سے ہانپتے کانپتے باہر آتے اور۔ عمر ؓ کے پاس آکر فرمایا سنے کہ آپ کی امی جی کیا فرماتی ہیں چنانچہ عمر دوڑتے رہیں ام سلمہ ؓ کے پاس اے اور کہا میں آپ کو اللہ کی قسم دے کر پوچھتا ہوں کیا میں ان میں سے ہوں؟ کہنے لگیں کہ نہیں اور آپ کے بعد میں کسی کے بارے میں کچھ نہیں بتاؤں گی۔ سنداحمد ابن عساکر(کنزالعمال: حدیث 31502)
تمام صحابہ ( بشمول دیدار رسول اللہ ﷺ کی دلیل پر صحابہ بننے والے) کو عادل و ثقہ قرار دینے والوں ںےروایات سے بھی استناد کیے ہیں۔ منجملہ پیغمبرؐسے روایت ذیل میں نقل کرتے ہیں، کہ آپ ﷺ نے فرمایا:
اصحابی کالنجوم فبایّھم اقتدیتم اھتدیتم، میرے اصحاب ستاروں کے مانند ہیں جس کی بھی اقتدا کروگے ہدایت پاوگے-[123]
اسی طرح فرمایا: اللہ اللہ فی اصحابی لاتتخذوھم غرضا من بعدی، من احبھم ومن ابغضھم فببغضی ابغضھم،
خدارا خدارا میرے بعد میرے اصحاب پر حملہ مت کرو، جو کوئی بھی ان کو دوست رکھے گا خدا اس کو دوست رکھے گا جو کوئی بھی ان کو دشمن رکھے گا مجھے دشمن رکھے گا۔[124]
فرمایا:
لاتسبّوا اصحابی فلو انّ احدکم انفق مثل احد ذھبا مابلغ مدّ احدھم ولانصفہ،
میرے اصحاب کو گالی مت دو، اگر تم احد کے پہاڑ کے برابر سونا انفاق کرو تو بھی ان ایک مدّ یا نصف مدّ انفاق کے برابر نہیں ہوگا[125]
ان احادیث کے سلسلہ میں چند نکات اہم ہیں:
1.ان احادیث کے سند کی جانچ پڑتال کیے بغیریہ کہنے میں کوئی عزر مانع نہیں کہ صحابہ اکرام کی تعریف میں احادیث پیغمبرؐ کے اصحاب کے اس خاص گروہ (السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ) کے متعلق ہیں وہ لوگ جن کے دل و جان میں عدالت کی صفت راسخ ہوچکی ہے اور(رضی االی عنھم و رضوا عنہ) کا اعزار الله تعالی سے حاصل کرچکے ہیں۔ لیکن صحابہ کا وہ گروہ جو گناہ اور جرائم میں ملوث ہوے وہ ان احادیث میں وہ شامل کیسے ہو سکتے ہیں؟ اگر وہ (اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ[126]) سے (السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ)[127] کی اتباع کرتے تو کیا گناہ کبیرہ اورجرائم میں ملوث ہوتے؟ انہوں ںے شیطان کے ورغلانے پربرے کام کیے ، اللہ غفور الرحیم ہے وہ ان کی بخشش عطا فرمایے ، یہ ہماری ان کے لیے ، اپنے لیے اور سب گنہگاروں کے لیے دعا ہے لیکن ان کی اتباع کس بنیاد پر کریں؟ کیا ہم بھی شیطانی کام کریں؟ یہ ہدایت کا راستہ ہے یا گمراہی کا؟
2.جس طرح رسول اللہ ﷺ نےان احادیث میں خطاب کیا ہے اس سے پتہ چلتا ہے کہ ان کے سامنے مخاطب صحابہ نہیں ہیں کیونکہ ان احادیث میں حضورﷺ ںے اپنے سامنے ایک گروہ کو مخاطب کرکے صحابہ کی سفارش کی ہے یہاں سے پتہ چلتا ہے کہ آپ کے مخاطب صحابہ نہیں تھے کیونکہ اگر مخاطب صحابہ ہی تھے تو کوئی اور باقی نہ رہتا جس سے صحابہ کی سفارش کرتے۔ اس سے یہ نکتہ استفادہ ہوتا ہے کہ آپ کے سامعین عام لوگ تھے جن سے پیغمبر ؐنےصحابہ کی سفارش کی۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہہ سکتے ہیں کہ انہی احادیث میں توجہ کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ صحابہ مخاطبین میں سے نہیں تھے اس سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ وہ لوگ جو اس دن خطاب کے وقت آپ کے حضورﷺ حاضر تھے، انہیں آپ نے اصحاب میں شمار نہیں کیا بلکہ صرف ان سے صحابہ (السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ)[128] کی سفارش کی۔ حدیث ثقلین پر بھی مختلف آراء ہیں[129]-
اگر مذکورہ احادیث کا معنی تمام اصحاب کی عدالت ہو تو دوسری بہت سے احادیث سے متعارض ہے۔ معتبر مصادر میں بہت زیادہ تعداد میں احادیث نقل ہوئی ہیں کہ آنحضرتؐ کے بعد بعض صحابہ اپنی روش میں تبدیلی لے آئے بلکہ کچھ لوگ آپ کی رحلت کے بعد مرتد ہوگئے تھے ، اسی لیے الله تعالی نے (اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ[130]) سے مشروط کر دیا- مثال کے لیے یہاں چند نمونےپیش ہیں:
بروز قیامت کچھ صحابہ کو رسول اللہ ﷺ کے پاس حوض سے ہٹا کر (جہنم) کی طرف بھیجنے کا بیان: تفصیل آگے آ رہی ہے، ریفرنسز ملاحضہ کریں : (صحیح البخاری حدیث:5996[131] 6582[132], 6583, 6584, 6585[133], 6576 [134], 4170"[135], صحیح مسلم 582) مزید تفصیل آخر میں- ان احادیث کے متن میں تھوڑے اختلاف ہیں مگر مضمون ایک ہے-صحیح بخاری اور مسلم ٥٩٧٢،٥٨٢، ٥٩٧٤ میں مکرر نقل ہوئی ہے[136]- لیکن جہاں موقع لگا ترجمہ میں لفظ "اصحابی" کا ترجمہ "امت" کر دیا تاکہ مخالف دلیل کمزور ہو جایے- اس لیے ترجمہ کے ساتھ عربی متن پڑھنا ضروری ہے - یہ مثال ہے (ویب لنک وزٹ کریں )[137]
تفسیر ابن کثیر کے مطابق، امام مالک نے اس آیت (٤٨:٢٩) سے رافضیوں کے کفر پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ صحابہ سے چڑتے اور ان سے بغض رکھنے والا کافر ہے. علماء کی ایک جماعت بھی اس مسئلہ میں امام صاحب کے ساتھ ہے"[138]،[139]
جب دوسری طرف نظر ڈالتے ہیں توامیر معاویہ نے علی (ع) کو برسر منبر برا بھلا ، سب و شتم کا حکم دیا[140] [صحیح مسلم حدیث نمبر: 6220]. یہ قبیح روایت 55 سال جاری رہی جو عمر بن عبد العزیز (717-720) نے ختم کروائی۔ اس بنا پر حضرت حجر بن عدی نے امیر معاویہ اور ان کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ زیاد نے کوفہ کی امارت کے زمانہ میں حضرت حجر بن عدی اور ان کے چند ساتھیوں کو قتل کرا دیا۔ حضرت حجر بن عدی بڑے مرتبہ کے صحابی تھے۔ آپ کے قتل نے دنیائے اسلام پر بہت برا اثر چھوڑا۔ [141].
[ حضرت علی (رضی الله) کے "السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ" صحابی اور اہل بیت ہونے میں کس کو شک ہے؟ ابن عبّاس کے حضرت علی سے اختلافات اور ان کے والد عبّاس (رض) نے حضرت علی کو گالیاں[142] دیں]
"ابن کثیر نے البدایہ میں لکھا ہے کہ معاویہ کی طرف سے ایک غیر قانونی اور غضبناک عمل شروع کیا گیا تھا کہ وہ اور اس کے گورنر خطبہ جمعہ کے دوران امام کے مقام سے حضرت علی پر لعنت بھیجتے تھے۔ یہ بات اس حد تک پہنچ گئی کہ یہ رواج مسجد نبوی میں بھی ہوا، قبرِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے، سب سے پیارے رشتہ دار کی بددعا حضرت علی رضی اللہ عنہ کے گھر والوں کی موجودگی میں ہو گی۔ یہ گالی اپنے کانوں سے سنیں۔[143]
کیا امام مالک (رح ) اور ان سے متفق علماء ںے امام علی (ع ) سے شددید بغض و عناد رکھنے والوں کو بھی کافر قرار دیں گے؟
کیا صحابہ اور اہل بیت کی شان اور فضیلت پر آیات و احادیث کا اطلاق حضرت علی (رضی الله) جو کہ شرعی طور پر قانونی خلیفہ راشد بھی تھے اور ان کے ساتھیوں پر نہیں ہوتا؟
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (مشکوۃ شریف، بخاری ومسلم)[144]
اہم بات ہے کہ کچھ احادیث کے مطابق ، بعض صحابہ نے روش کی تبدیلی کا خو د ہی اعتراف کیاہے:
1. بخاری نے علابن مسیب اس نے اپنے والد سے نقل کیا ہے کہ اس نے براء بن عازب سے کہا: "طوبی لک صحبت النبیؐ و بایتعہ تحت الشجرۃ،
خوش نصیب ہو تم کہ پیغمبر کے ساتھ رہے اور درخت کے نیچے(بیعت رضوان کے وقت) ان کی بیعت کی۔ اس نے جواب دیا:"یابن اخی انّک لم تدری مااحدثنا بعدہ، اے بیٹے تمہیں نہیں معلوم ہم نے ان کے بعد کیا کام کینے ہیں (صحیح البخاری حدیث :4170)۔"[145]
2.اسماعیل بن قیس کہتے ہیں کہ بوقت وفات حضرت عائشہ (رضی اللہ عنہا) نے وصیت فرمائی کہ: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد نئی نئی باتیں اِختیار کر لی تھیں، لہٰذا مجھے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج المطہرات کے پاس دفن کرنا-[146]
یہ احادیث اور اسی طرح تاریخی سند اور متن اس بات کو بیان کرتے ہیں صحابہ کی تعریف میں نقل ہوئی احادیث میں (ا) تمام صحابہ شامل نہیں۔ (٢) اگر تمام صحابہ ان میں شامل ہیں تو بھی اس شرط پر کہ آیندہ وہ موت تک اپنے رفتاروکردارمیں تبدیلی نہیں لائیں گے۔ (٣) اللہ کا : وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَ أَجْراً عَظيما۔۔ (قران: 48:29) آیت میں میں " من " تبیین کے لئے ہے اور اس سے مقصود "وعدہ مغفرت اور اجر عظیم" کا "الذین امنوا وعملوا الصلحت" کے ساتھ مخصوص کرنا ہے۔
3. خود صحابہ بھی ان آیات اور روایات کو مطلق نہیں سمجھتے تھے بلکہ (ایمان و عمل صالح) پر استمرار اور ثابت قدمی کے ساتھ مشروط جانتے تھے۔
تمام صحابہ کی عدالت کا نظریہ تاریخی حقائق کے موافق نہیں ہے کیونکہ تاریخ واضح طور سے گواہی دیتی ہے کہ بعض صحابہ مختلف فساد اور تباہی کے مرتکب ہوچکے تھے۔ یہاں تک کہ خود صحابہ بھی ایک دوسرے کی عدالت کے قائل نہیں تھے وہ ایک دوسرے کے مقابل میں کھڑے ہوکر ایکدوسرے کے خون کو مباح سمجھتے تھے اور ان میں سے سینکڑوں کی تعداد ایک دوسرے کے ہاتھوں خاک و خوں میں غلطاں ہوچکے تھے۔ تمام صحابہ کے عادل نہ ہونے کے واقعات کی تعداد بہت زیادہ ہیں- (قرآن جب جنت سے قبل دلوں کا کینہ دور کرنے کی بات کرتا ہے جس سے گناہ / غلطیوں کا ثبوت ملتا ہے ، (قرآن :7:43)، (قرآن.الحجر 15:47)[147]
۱-پیغمبر ؐکے توسط حدود کا اجرا، تمام صحابہ سے عدالت کو نفی کرنے کے لیے کافی ہے۔ اگر تمام صحابہ عادل تھے اور ان سے کوئی گناہ سرزد نہ ہوئےہوتے تو پیغمبرؐکے زمانے میں ان پر حدود الہی کو کس طرح جاری کیا جاتا تھا؟
٢.پیغمبرؐکا صحابہ نعیمان نےشراب حرام ہونے کے بعد شراب پی لیا پیغمبرؐنے اسے نعال سے مارنے کا حکم دیا۔[148]
٣.امام بخاری نے ایسے افراد کے بارے میں روایات نقل کیا ہے جو زنا کے مرتکب ہونے کے بعد حدود الہی کی نفاذ کے لیے پیغمبر ؐکے پاس آئے، منجملہ زنائے محصنہ کا مرتکب ہونے والا قبیلہ بنی اسلم کاایک شخص ،پیغمبرؐکے حکم سے سنگسار ہوا[149]
٤.سورہ نور میں بیان شدہ افک کے واقعے کےبعد، پیغمبرؐکے بعض ساتھیوں پر قذف کا حد جاری کیا گیا۔[150]
واقعات کے ان نمونوں سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ عدالت تمام صحابہ کا نظریہ بغیردلیل و ثبوت ہے۔
٥۔ ولید بن عقبہ [خلیفہ سوم کا والی کوفہ] نے تیسرے خلیفہ کےدور خلافت میں شراب پی لیا اور مست ہوکر صبح کی نماز چار رکعت پڑھائی ۔ اس کے بعد اسے مدینہ بلایا گیا اور اس پر شراب کی حد جاری ہوئی۔[151]
٦- مغیرۃ بن شعبہ نے زنا کیا اور کافی لوگوں نےاس کے اس فعل کی گواہی دی جبکہ وہ بیعت رضوان میں شریک ہونے پر مفتخر تھا[152]
٧- ابوذر- صحابی- کا تیسرے خلیفہ سے جھگڑا اور ربذہ میں جلا وطنی ایک اور تاریخی گواہ ہے کہ صحابہ ایک دوسرے کو لعن طن کرتے اور ایک دوسرے کی عدالت کے قائل نہ تھے[153]
٨ - پیغمبرؐکے بزرگ صحابہ جیسے ابن مسعود، ابودرداء، حذیفہ، عمار یاسر، اور دوسرے صحابہ[154] سے بد سلوکی اس بات کی دلیل ہے کہ عدالت صحابہ کے نظریہ اورکچھ صحابہ کے طرز عمل میں کوئی ربط نہیں ہے۔
٩- وہ لوگ جنہوں نے تیسرے خلیفہ کے قتل میں شرکت کی اکثر صحابہ تھے[155]
١٠- حضرت طلحہ و زبیر، حضرت امیرمعاویہ اور جنہوں ںے خلیفہ چهارم حضرت علی (رضی الله) کے خلاف جنگیں لڑیں اور جن میں ہزاروں کی تعدا د میں لوگ مارے گئے، وہ پیغمبرؐکے صحابہ تھے[156] احضرت امیر معاویۃ نے مسلمانوں کے برحق خلیفہ کی پیروی نہیں کی اور جنگ صفین میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے اور زخمی ہوگئےاور اس جنگ میں عمار یاسر جیسے بزرگ صحابی شہید ہوئے۔[157]. علی (ع) کے خلاف جنگیں رسول اللہ ﷺ کی وصیت اور حکم کے خلاف تھں -
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : ” میں تمہیں اللہ سے ڈرنے ، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا... [158][ابن ماجہ, 42 , ابی داود 4607 ، ترمزی 2676 وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)]
١١.قرآن مجید صحابہ کی خصوصیت کو بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے:
رُحَماءُ بَيْنَهُم، (قرآن :٤٨:٢٩) اور آپس میں مہربان ہیں[159] اگر صحابہ کے دوگروہ میں جنگ پیش آئے تو کم سےکم کسی ایک گروہ کو صحابہ کی لسٹ سے نکال لیں، کیونکہ جو علامت قرآن نے بیان کیا ہے اگر دونوں گروہ صحابہ ہوتے تو ان کے درمیان لڑائی نہیں ہوتی لیکن جب ان کے درمیان جنگ پیش آئی تو دونوں گروہ میں سے ایک گروہ کو صحابہ نہیں کہا جائے گا۔ اس بات کو پیش نظر رکھتے ہوئے جنگ جمل اور جنگ صفین کے بارے میں کیا رائے دیں گے؟ الله تعالی کی تکذیب کریں یا ان میں سے ایک گروہ کو صحابہ نہ سمجھیں؟ یا گناہگار کہیں؟
حضرت طلحہ و زبیر، حضرت امیرمعاویہ اور جنہوں ںے خلیفہ چهارم حضرت علی (رضی الله) کے خلاف جنگیں لڑیں اور جن میں ہزاروں کی تعدا د میں لوگ مارے گئے، وہ پیغمبرؐکے صحابہ تھے[160] حضرت امیر معاویۃ نے مسلمانوں کے برحق خلیفہ کی پیروی نہیں کی اور جنگ صفین میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے اور زخمی ہوگئےاور اس جنگ میں عمار یاسر جیسے بزرگ صحابی شہید ہوئے۔[161].حضرت علی (رضی الله) کے خلاف جنگیں رسول اللہ ﷺ کی وصیت اور حکم کے خلاف تھی:[162]
یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف ایکبار پیغمبرؐ[163] کو دیکھنے سے لوگوں کے وجود کو 'عدالت' اس طرح لپیٹ لیتی ہے کہ وہ ہر قسم کی خطا اور غلطی سے مبّرا ہوجاتے ہیں۔ جبکہ قرآن کا تھیم (بیانیہ) "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" ہے جس کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- اسلام میں بخشش ،مغفرت ، انعام ، جنت کا وعدہ یا وعدے میں یہ مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو جسے چاہے گا اور جب چاہے گا معاف کر دے گا ‘ لیکن حقوق العباد کے تنازعات کے حوالے سے وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے گا [ ملاحضہ: 71:4﴾[164] - مزید یہ کہ اگر "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" کا اگر ذکر نہیں بھی تو یہ لازم ، فرض کرنا ہو گا کیونکہ "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" قرآن کا اہم ، جامع بیانیہ ہے، جس کا ذکر قرآن میں 158مرتبہ[165] ہوا ہے-
عدالت صحابہ کے نطریے اور صحابہ کے عمل کے تضاد کو دور کرنے کے لیےاہل سنه کی تاویلات[166]:
صحابہ کی غلطیوں پر پردہ ڈالنے لے لیے یہ تاویل گھڑی گئی کہ تمام صحابہ مجتہد تھے اور ان کی خطا اجتہادی غلطی تھی۔ ڈاکٹر ذہبی "جنگ جمل" کی توجیہ میں لکھتے ہیں:
"انھا{عائشہ}مافعلت الا متاولۃ قاصدۃ للخیر کما اجتھد طلحہ بن عبید اللہ والزبیربن عوام و جماعۃ من الکبار، انہوں(حضرت عائشہ (رضی الله) نےجنگ جمل برپا نہیں کیا مگر یہ کہ یہ ان کا اجتہاد تھا۔ ان کی نیت خیر تھی، جیسا کہ طلحہ و زبیر(رضی الله) اور دوسرے بزرگوں کی اجتہادی رائے یہی تھی۔[167]
اس قسم کی تاویل پیش کرکے انسان کی ہرغلطی کو اجتہادی خطا تسلیم کرکے انہیں نہ صرف ہر قسم کی غلطی سے مبرا سمجھتے ہیں بلکہ اس قاعدہ ' 'للمخطیء اجر واحد" جس مجتھد نے اجتہاد میں خطا کی اس کو ایک ثواب ملے گا"۔ کی بنیاد پرپروردگار کے پاس اجر و ثواب کےقائل ہیں۔ جن صحابہ سے غلطیاں سرزد ہوئیں وہ تو اللہ سے مغفرت مانگ کر شاید فارغ ہوجائیں، مگر جو لوگ صدیوں سے مسلسل ان کی غلطیوں پرتاویلات، تحریف کے غلاف چڑھا کر غلط کو سچ ثابت کرنے میں جھوٹ کا سہارا لیتے ہیں وہ یہ آیت پڑھ لیں:
مَّن يَشْفَعْ شَفَاعَةً حَسَنَةً يَكُن لَّهُ نَصِيبٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن يَشْفَعْ شَفَاعَةً سَيِّئَةً يَكُن لَّهُ كِفْلٌ مِّنْهَا ۗ وَكَانَ اللَّهُ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ مُّقِيتًا ﴿٨٥﴾
"جو شخص نیک بات کی سفارش کرے تو اس کو اس (کے ثواب) میں سے حصہ ملے گا اور جو بری بات کی سفارش کرے اس کو اس (کے عذاب) میں سے حصہ ملے گا اور خدا ہر چیز پر قدرت رکھتا ہے" (4:85)[168]
علماء، صحابہ کے کردار سے بحث نہ کرنے کے لیے کہتے ہیں کہ ہمیں صحابہ اور ان کے کردار کے بارے میں گفتگو کی ضرورت ہی نہیں ہے کیونکہ قرآن مجید فرماتا ہے:
" تِلْكَ أُمَّةٌ قَدْ خَلَتْ لَها ما كَسَبَتْ وَ لَكُمْ ما كَسَبْتُمْ وَ لا تُسْئَلُونَ عَمَّا كانُوا يَعْمَلُون،: یہ گزشتہ امت کی بات ہے، ان کے اعمال ان کے لیے ہیں اور تمہارے اعمال تمہارے لیے، تم لوگوں سے (گزشتہ امتوں کے بارے میں) نہیں پوچھا جائے گا کہ وہ کیا کرتے تھے" (2:134)[169]
لیکن یہ بات قابل قبول کیسے ہو سکتی ہے کیونکہ اگر صحابہ کے اعمال، گفتار اور رفتار دوسروں کی ہدایت کے لیے کوئی تاثیر نہ رکھتے اور دین و اخلاق ان سے نہیں سیکھتے تو یہ بات قابل قبول تھی ۔ اب جبکہ وہ پیغمبرؐکے صحابہ ہیں اور آنے والی نسلیں ان کو نمونہ عمل قرار دے کر اپنے دین کو ان سے سیکھنا چاہتے ہیں تو ان کے اعمال کو کیسے نظر انداز کریں؟
تعجب کی بات یہ ہے کہ ایک طرف سے صحابہ کی ہر غلطی اور گناہ کو اجتہادی غلطی اور علمی فتوی فرض کرتے ہیں لیکن دوسری جانب قرآن میں ایسے پیغمبروں کاذکر ہے جنہیں ایک "ترک اولی" کی وجہ سے سزا ملی۔
حضرت یونس علیہ السلام ؑایک ترک اولی کی خاطر شکم ماہی میں گرفتار ہوگئے،[170] نوح علیہ السلام کی شفاعت ان کے بیٹے کے حق میں قبول نہ ہوئی،[171] اور حضرت آدم علیہ السلام کوشیطان کی چال میں پھنس کرجنت سے جانا پڑا۔[172]
"اصحابی کالنجوم" والی حدیث کا اجمالی جائزہ لے چکے ہیں لیکن دوسری احادیث سے زیادہ اس حدیث سے استناد کیا جاتا ہے، لہذا تفصیل سے اس کا جائزہ لیتے ہیں۔
پیغمبرؐ نے فرمایا: "مثل اصحابی، مثل النجوم یھتدی بھا فبایّھم اخذتم بقولہ اھتدیتم،
"میرے اصحاب کی مثال ستاروں کی طرح ہے جس کے بھی قول کو اخذ کروگے ہدایت پاوگے۔"[173]
یہ حدیث پیغمبرؐ سے نقل ہوئی بھی ہے یا نہیں؟ پیغمبر ؐسے اس قسم کے متن کے صادر ہونے پر بعض محققین، سخت تردید کا شکار ہیں۔[174]
اگر برفرض یہ متن پیغمبرؐ سے صادر ہوا بھی ہے تو اس کے لحن سے معلوم ہوتا کہ سامعین(خاطبین) صحابہ نہ تھے کیونکہ پیغمبرؐ کے مخاطب وہ لوگ تھے جنہیں آپؐ نے صحابہ کی سفارش کی۔
یہ بات واضح ہے کہ اگر آپ ؐ کے تمام مخاطبین صحابہ میں شمار ہوتے تو کوئی فرد باقی نہیں بچتا جسے آپ ؐ صحابہ کی سفارش کرتے۔ دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ آپؐ نے اپنی اس حدیث میں صحابہ کو سفارش نہیں کی بلکہ صحابہ کے بارے میں سفارش کی۔ اور ان دونوں باتوں میں کافی فرق ہے۔
"لاتسبّوا اصحابی" اس عبارت کی جانچ پڑتال میں بھی یہی کہہ سکتے ہیں کہ پیغمبرؐ نے اس حدیث میں ایک گروہ کو مخاطب قرار دے کر صحابہ کی سفارش کی۔
ان مخاطبین سے یقینا عصر پیغمبرؐ کے لوگ مراد ہے یہاں فرضی مخاطب فرض کرنا درست نہیں ہے۔
لہذا "لاتسبّوا اصحابی" یا"اصحابی کالنجوم بایّھم اقتدیتم اھتدیتم"- جن کو سفارش کی گئی ہے اور جن کے بارے میں سفارش کی گئی ہے دو الگ گروہ ہیں۔ اس نکتے کو ثابت کرنے سے یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ:
پیغمبرؐکے صحابہ آپ ؐ کے معاصر کچھ افراد ہیں نہ وہ سارے لوگ جنہوں نے آپؐ کو دیکھا ہے۔ ایسی صورت حال میں یہ حدیث تمام صحابہ کی عدالت پر دلالت نہیں کرتی کیونکہ دلیل مدعی سے خاص ہے۔ [ ملاحضہ کریں :عدالتِ صحابہ اور امام ابن تیمیہؒ]
یادآوری کی جاتی ہے کہ یہ تحلیل ان احادیث کی صحت صدور کی بنیاد پر ہے ورنہ بعض ماہرین حدیث "اصحابی کالنجوم" کو جعلی سمجھتےہیں[175] یا بعض لوگ احادیث کی سند کو مشکوک جانتے ہیں۔ البتہ سند کی مشکل حل ہوجائے تو اس حدیث کے متن میں کوئی مشکل نہیں ہے۔ کیونکہ اس حدیث میں صحابہ سے مراد وہی خاص افراد ہے جنہیں الله تعالی نے قرآن میں جنت کا وعدہ دیا ہے اور پیغمبرؐ کے معاصر تمام افراد مراد نہیں ہے۔ اس حدیث کو "علم الحديث کے سات سنہرے اصول" پر پرکھنا ضروری ہے[176]-
تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ کے یہ خاص گروہ کے کچھ لوگ پیغمبرؐکی رحلت کے بعد خانہ نشین ہوگئے اور کسی نے ان کی آواز نہ سنی۔
اگر تمام صحابہ عظیم مقام کے حامل ہیں اور سب گناہ و خطا سے پاک (معصوم من الخطأ) ہیں لیکن کیا پیغمبرؐ صرف "ابلاغ وحی" کے وقت معصوم ہیں؟
قُلۡ اِنۡ ضَلَلۡتُ فَاِنَّمَاۤ اَضِلُّ عَلٰی نَفۡسِیۡ ۚ وَ اِنِ اہۡتَدَیۡتُ فَبِمَا یُوۡحِیۡۤ اِلَیَّ رَبِّیۡ ؕ اِنَّہٗ سَمِیۡعٌ قَرِیۡبٌ ﴿۵۰﴾
"کہہ دیجئے کہ اگر میں بہک جاؤں تو میرے بہکنے ( کا وبال ) مجھ پر ہی ہے اور اگر میں راہ ہدایت پر ہوں توبہ سبب اس وحی کے جو میرا پروردگار مجھے کرتا ہے وہ بڑا ہی سننے والا اور بہت ہی قریب ہے"(34:50)،(18:110) (68, 8:67 ، 9:43, 9:113-114, 33:37, 66:1 , 80:1-11)[177]
یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف ایکبار پیغمبرؐ[178] کو دیکھنے سے لوگوں کے وجود کو 'عدالت' اس طرح لپیٹ لیتی ہے کہ وہ ہر قسم کی خطا اور غلطی سے مبّرا ہوجاتے ہیں۔ جبکہ قرآن کا تھیم (بیانیہ) "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" ہے جس کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- جوحضرات "الجبرا" سے وقف ہیں ان کے لیے مثال:
When you find “square roots”, the symbol for that operation is called a radical. The “root power” refers to the number outside and to the upper left of the radical. If there is no number, you assume that the root power is 2.
ترجمہ : جب آپ کو مربع جڑیں ملتی ہیں، تو اس عمل کی علامت کو ریڈیکل کہا جاتا ہے۔ جڑ کی طاقت ریڈیکل کے باہر اور اوپری بائیں نمبر کی طرف اشارہ کرتی ہے۔ اگر کوئی نمبر نہیں ہے، تو آپ فرض کرلیتےہیں کہ جڑ کی طاقت 2 ہے اسلام میں بخشش ،مغفرت ، انعام ، جنت کا وعدہ یا وعدے میں یہ مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو جسے چاہے گا اور جب چاہے گا معاف کر دے گا ‘ لیکن حقوق العباد [179]کے تنازعات کے حوالے سے وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے گا، اس کی تفصیل ﴿71:4﴾[180] پہلے بیان ہو چکی- مزید یہ کہ اگر "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" کا اگر ذکر نہیں بھی تو یہ لازم ، فرض کرنا ہو گا جیسے الجبرا کی مذکورمثال میں جب کوئی نمبر لکھا ہوا نہ ہو تو 2 فرض کیا جاتا ہے کیونکہ "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" قرآن کا اہم ، جامع بیانیہ ہے، جس کا ذکر قرآن میں 158مرتبہ[181] ہوا ہے-
ایک سوال پیدا ہوتا کہ: اگر تمام صحابہ عادل ہیں یہاں تک کہ کسی کو ان کے بارے میں گفتگو کرنے کا بھی حق نہیں تو اہل بیتؑ کے لیے اسی "مقدار عدالت" کیوں نہیں جن کو یُطَہِّرَ، پاکیزہ کیا گیا ہے-
وَ قَرۡنَ فِیۡ بُیُوۡتِکُنَّ وَ لَا تَبَرَّجۡنَ تَبَرُّجَ الۡجَاہِلِیَّۃِ الۡاُوۡلٰی وَ اَقِمۡنَ الصَّلٰوۃَ وَ اٰتِیۡنَ الزَّکٰوۃَ وَ اَطِعۡنَ اللّٰہَ وَ رَسُوۡلَہٗ ؕ اِنَّمَا یُرِیۡدُ اللّٰہُ لِیُذۡہِبَ عَنۡکُمُ الرِّجۡسَ اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا ﴿ۚ۳۳﴾ اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اظہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکٰوۃ دیتی رہو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو اللہ تعالٰی یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وہ ( ہر قسم کی ) گندگی کو دور کر دے اور (اَہۡلَ الۡبَیۡتِ وَ یُطَہِّرَکُمۡ تَطۡہِیۡرًا) تمہیں خوب پاک کر دے (قرآن 33:33)[182]
صحابہ کی احادیث کی حجیت کے بارے میں [183] ، صحابہ کو "راوی حدیث" کی طرح لیا جائے- ان کی احادیث کی دوسری احادیث کی طرح سند اور دلالت کے لحاظ سے جانچ پڑتال کی ضرورت ہے-
دوسرے الفاظ میں یوں کہا جاسکتا ہے کہ راوی کا عام صحابہ ہونا حدیث کو خاص اعتبار نہیں بخشتی بلکہ اگر ان کی عدالت اور وثاقت ثابت ہوجائے تو حدیث کو اخذ کیاجائے، ورنہ تاریخ کا حصہ ہو-[184]
[ ملاحضہ کریں :عدالتِ صحابہ اور امام ابن تیمیہؒ]
یہ قانون وہاں لاگو ہوگا جب صحابہ راوی حدیث کے اعتبار سے پیغمبرؐسے روایت نقل کرے گا لیکن ان کی ذاتی رائے اور اجتہاد جنہیں بعض لوگ حدیث مسند سمجھتے ہیں [185] ان کو میرٹ پر دیکھا جایے-[186]
کیونکہ حجیت قول صحابہ پر نہ قرآنی دلیل ہے اور نہ ہی پیغمبرؐکی احادیث سے قابل اثبات ہے جو کچھ پیغمبرؐ کی احادیث سے قابل اثبات ہے وہ قول پیغمبرؐ ہے اور سنت خلفاء راشدین ہے-[187]
مزید پڑھیں:علم الحديث کے سات سنہری اصول[188]
"وَ أَنْزَلْنا إِلَيْكَ الذِّكْرَ لِتُبَيِّنَ لِلنَّاسِ ما نُزِّلَ إِلَيْهِم- آپ پر بھی ہم نے ذکر اس لیے نازل کیا ہے تاکہ آپ لوگوں کو وہ باتیں کھول کر بتا دیں جو ان کے لیے نازل کی گئی ہیں(16:44)"[189]
"یہ آیت قرآن کی تفسیر میں قول پیغمبرؐ کی حجیت پر دلالت کرتی ہے- لیکن امت کے دوسرے افراد جیسے: اصحاب، تابعین، علما کی تشریح حجیت نہیں رکھتی کیونکہ آیت ان کو شامل نہیں ہوتی ہے اورقابل اعتماد نص اس بارے میں نہیں ہے۔"[190]
یہ نکتہ اس قدر واضح اور روشن ہے کہ بعض دانشوروں نے بھی اعتراف کیا ہے منجملہ ابوزهره (اہل سنّه ،مصری) دانشور اس بارے میں لکھتے ہیں:
"حق بات یہ ہے کہ قول صحابی حجت نہیں ہے اللہ نے اس امت کے لیے حضرت محمد رسول اللهﷺ کے علاوہ کسی کو نہیں بھیجا اور ہمارے لیے صرف ایک پیامبرؐ ہیں۔ کتاب اورپیغمبرؐ کی اتباع پرصحابہ مکلف ہیں اور اگر کوئی کتاب اور سنت پیغمبرؐکے علاوہ کسی اور چیز کو حجت مانے تو دین اسلام کے بارے میں ایسی بات کی ہے جس کی کوئی دلیل نہیں ہے"[191]
مشور عالم، دانشور غزالی، صحابہ کے بارے میں یوں لکھتے ہیں:
" کوئی شخص جس کے لیے ممکن ہے کہ وہ سہو اور غلطی کرے تو وہ معصوم نہیں ہوسکتا لہذا ان کا قول حجت نہیں ہے اس صورت میں ان کے قول سے کیسے استناد کیا جاسکتا ہے؟
یہ کیسے ممکن ہے کہ ایک گروہ کی عصمت کے قائل ہوجائیں جبکہ ان کےدرمیان بہت زیادہ اختلاف موجود ہے؟
یہ کیسے ممکن ہے جبکہ خود صحابہ ا س بات پر متفق ہیں کہ صحابی کے قول اور رفتار سے مخالفت کی جاسکتی ہے۔"[192]
مطلق السب لغير الأنبياء لا يستلزم الكفر لأن بعض من كان على عهد النبي صلى الله عليه وسلم كان ربما سب بعضهم بعضا ولم يكفر أحدا بذلك ولأن أشخاص الصحابة لا يجب الإيمان بهم بأعيانهم فسب الواحد لا يقدح في الإيمان بالله وملائكته وكتبه ورسله واليوم الآخر
امام ابن تیمیہ (سلفیوں کے شیخ الاسلام) نے اپنی کتاب الصارم المسلول صفحہ 579 (پہلے طبا سعدہ مصر کی طرف سے شائع) میں صحابہ کی توہین کرنے والے کے کفر پر دلائل دیتے ہوئے لکھا ہے:
انبیاء کے علاوہ کسی اور کی مطلق توہین کفر کے مرتکب نہیں ہے، اس لیے کہ جو لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں تھے، ان میں سے بعض نے ایک دوسرے کی توہین کی ہو اور اس کے لیے کسی کو کافر قرار نہیں دیا، اور کیونکہ صحابہ کرام کی ہستیوں پر ایمان لانا ضروری نہیں ہے، لہٰذا کسی کی توہین خدا، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں اور یوم آخرت پر ایمان کو کمزور نہیں کرتی۔[193]
ومن ذلك كتاب عمر بن عبدالعزيز إلى عامله بالكوفة وقد استشاره في قتل رجل سب عمر رضي الله عنه فكتب إليه عمر إنه لا يحل قتل امرئ مسلم بسب أحد من الناس إلا رجلا سب رسول الله صلى الله عليه وسلم فمن سبه فقد حل دمه
عمر بن عبدالعزیز کا خط کوفہ میں اپنے نمائندے کو ان کے استفسار کے جواب میں کہ کیا وہ کسی ایسے شخص کو قتل کرے جس نے عمر رضی اللہ عنہ کو گالی دی ہو؟ اس نے (عمر بن عبدالعزیز) نے اسے جواب دیا: "کسی مسلمان کو گالی دینے کی وجہ سے قتل کرنا جائز نہیں ہے، سوائے اس کے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو گالی دی جائے۔ پس اگر کسی نے آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو گالی دی تو اس کا خون مباح ہے۔(عدالت کے زریعہ )[194]
مصر کے مشہور محدث علامہ شہاب الدین احمد بن حجر الہیثمی لکھتے ہیں:اور مجھے کسی عالم کا کوئی قول نہیں ملا کہ کسی صحابی کو گالی دینے سے قتل واجب ہو جاتا ہے (گلی گلوچ . بد اخلاقی اور غیر مہذب رویہ ہے) اور ابن منذر کہتے ہیں کہ میں کسی ایسے شخص کو بھی نہیں جانتا جو رسول اللہ ﷺ کے علاوہ کسی کو گالی دینے والے کو قتل کرنا (عدالت کے زریعہ) سمجھتا ہو۔ [195]
ملا علی قاری اپنی کتاب شرح فقہ اکبر میں صحابہ پر حنفی عقیدہ بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: "ابوبکر و عمر (رضی الله) کو گالی دینا کفر نہیں ہے جیسا کہ ابوشکر سلیمی نے اپنی کتاب تمھید میں صحیح طور پر ثابت کیا ہے۔ اور اس لیے کہ اس دعوے کی بنیاد (یہ دعویٰ کہ شیخین کو گالی دینا کفر ہے) ثابت نہیں ہے اور نہ ہی اس کا مطلب ثابت ہے۔ ایسا اس لیے ہے کہ مسلمان کو گالی دینا یقیناً فسق (گناہ) ہے جیسا کہ ایک حدیث سے ثابت ہے، اس لیے شیخین (ابوبکر و عمر) اس حکم میں دوسرے (مسلمانوں) کے برابر ہوں گے۔ اور اگر ہم یہ فرض کریں کہ شیخین کو کسی نے قتل کیا ہے حتیٰ کہ دونوں دامادوں (علی اور عثمان) کو بھی ایک ساتھ قتل کیا ہے تو بھی اہل السنۃ والجماعۃ کے نزدیک وہ اسلام سے خارج نہیں ہوگا۔ (یعنی کافر نہیں بنے گا)[196]
مشہور حنفی عالم، علامہ علاؤالدین حنفی در المختار میں اپنے باب امامت صفحہ 72 میں فرماتے ہیں:
اور جو کعبہ کی طرف رخ کرے وہ کافر نہیں ہے۔ خوارج بھی کافر نہیں ہیں، باوجود اس کے کہ وہ ہماری جان و مال کو حرام سمجھتے ہیں۔ اسی طرح وہ لوگ جو صحابہ پر لعنت بھیجنا جائز سمجھتے ہیں اور اللہ سبحانہ وتعالیٰ کو دیکھنے کے تصور کا انکار کرتے ہیں، انہیں کافر نہیں کہا جا سکتا، کیونکہ ان کے عقائد کی بنیاد تاویل اور شک پر ہے – یہ حقیقت ہے کہ وہ کافر نہیں ہیں۔ اس بات سے ثابت ہے کہ گواہی قبول کی جاتی ہے جب کہ غیر مسلم کی گواہی قبول نہیں ہوتی، اس سے ثابت ہوتا ہے کہ وہ مسلمان ہیں۔
حنفی عالم مولانا عبد الحئی لکھنوی نے صحابہ پر لعنت کرنے کے بارے میں شیعوں کے موقف کے بارے میں ایک سوال کے جواب میں: ’’یہ بدعت ہے نہ کہ کفر۔ ان کا خیال ہے کہ علی کو شیخین سے برتر مانتے ہیں بعض یہ کہتے ہیں کہ علی کے مخالفین جیسے معاویہ اور عائشہ پر لعنت کرنا فرض ہے - یہ بدعت نہیں کفر ہے، یہ تعبیر پر مبنی ہے، آخر میں شیعہ ماننے کے لیے صحابہ پر لعنت کرنے کی وجہ سے کافر علمائے کرام کے قول کے خلاف ہے۔" (مجمع الفتاوی، جلد 1 صفحہ 3-4)
شید احمد گنگوہی نے درج ذیل موضوع پر ایک سوال کا جواب اس انداز میں دیا:
سوال: کیا ہم صحابہ کو برا بھلا کہنے والے گناہ عظیم کا ارتکاب کرنے والے کو اہل سنت کے دائرہ سے باہر سمجھ سکتے ہیں؟
اس گناہ عظیم کے باوجود اسے اہل السنۃ والجماعت سے خارج نہیں کیا گیا۔ (الفتاوی رشیدیہ، جلد 2 صفحہ 140-141)
اگر صحابہ کو برا بھلا کہنے والا سنی کافر نہیں ہے اور سنی مسلک کا رکن ہے تو شیعہ اسی فعل کے مرتکب کیوں ہو جاتے ہیں؟
مودودی اپنی "خلافت و ملوکیت" صفحہ 233 میں فرماتے ہیں:
"جن لوگوں نے علی سے جنگ کی ان کے حوالے سے علی زیادہ حق پر تھے۔" ایک ہی وقت میں وہ ان لوگوں کی مذمت کرنے میں ناکام رہتا ہے جنہوں نے اس کی مخالفت کی۔
وہ بعد میں اسی کتاب کے صفحہ 338 پر کہتے ہیں:
"اکثر علماء نے علی کے موقف پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا کہ وہ صحیح امام تھے، کسی عالم نے اس سے مختلف نہیں کہا۔ حنفی علماء کی اکثریت علماء سے متفق ہے کہ علی صحیح تھے اور ان کے مخالفین باغی تھے۔
آزادی اظہار کے تصور کی تعریف کرتے ہوئے مودودی اسی کتاب کے صفحہ 263 میں لکھتے ہیں:
"ابو حنیفہ کا خیال تھا کہ اگر کوئی صحیح امام کے بارے میں برا کہے، قسم کھائے یا اسے قتل کرنے کا ارادہ کرے تو اس کے خلاف کوئی کارروائی نہیں ہو سکتی، کسی پر فرد جرم عائد نہیں کی جا سکتی اور نہ ہی اسے قید کیا جا سکتا ہے جب تک کہ وہ بغاوت کو عملی طور پر نافذ نہ کردے۔"
صحابہ کرام انسان تھے ان کو مافوق الفطرت شخصیت کے طور پر سمجھنا الله تعالی کے قانون فطرت کے خلاف ہے- حتی کہ رسول اللہﷺ بھی ایک بشر[197] تھے جن کا اعلی مقام تھا، لیکن خالق اور مخلوق کا فرق الله تعالی ںے قائم رکھا [198] . کسی ایک یا چند غلطیوں پر کسی کو مکمل طور پرشیطان یا کافر سمجھنا درست رویہ نہیں- کون غلطی نہیں کرتا؟ ایسا رویہ رکھنے والا خود بھی تو غلطی کا شکار ہور رہا ہوتا ہے جب وہ یکطرفہ دلائل کو دیکھتا ہے اور اپنی خواہش نفس اور عقائد و نظریات کے خلاف قرانی آیات، احادیث اور تاریخ کو مکمل طور پر نظر انداز کر دیتا ہے، ان میں سے اہم دلائل کی نشاندہی اگلے حصہ سوئم میں پیش ہے-
یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ الله تعالی غفور الرحیم ہے جو غلطیوں اور گناہوں کو معاف کرتا رہتا ہے -
ایک صحابی زنا کا گناہ کبیرہ کرتا ہے اور پھر شرمندہ ہوتا ہے خود اپنے خلاف گواہی دیتا ہے اور بار بار دیتا ہے رسول اللہ ﷺ کے نظر انداز کرنے کے باوجود اور رجم ہو جاتا ہے .. کیا یہ سچ بولنے کی انتہا نہیں؟ کیا اس کے بعد تاریخ میں کوئی ایسی مثال ملتی ہے اس قسم کے سچے لوگوں کی؟
"قبیلہ اسلم کے ایک صاحب (ماعز بن مالک) نبی کریم ﷺ کے پاس آئے اور زنا کا اقرار کیا۔ لیکن نبی کریم ﷺ نے ان کی طرف سے اپنا منہ پھیرلیا۔ پھر جب انہوں نے چار مرتبہ اپنے لیے گواہی دی تو نبی کریم ﷺ نے ان سے پوچھا کیا تم دیوانے ہوگئے ہو؟ انہوں نے کہا کہ نہیں۔ پھر آپ نے پوچھا کیا تمہارا نکاح ہوچکا ہے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔ چناچہ آپ کے حکم سے انہیں عیدگاہ میں رجم کیا گیا۔ جب ان پر پتھر پڑے تو وہ بھاگ پڑے لیکن انہیں پکڑ لیا گیا اور رجم کیا گیا یہاں تک کہ وہ مرگئے۔ پھر نبی کریم ﷺ نے ان کے حق میں کلمہ خیر فرمایا اور ان کا جنازہ ادا کیا اور ان کی تعریف کی جس کے وہ مستحق تھے[199]
یہ اس (ماعز بن مالک) کے ایمان کی مضبوطی تھی کہ وہ اس دنیا میں گناہ کی سزا پانا چاہتا تھا تاکہ جہنم کی آگ سے بچے ، ممکن تھا کہ اگر وہ خاموش رہتا، استغفار کرتا تو الله تعالی اسے معاف کر دیتا- بہت ہمت، حوصلہ اور مظبوط ایمان درکار ہے رجم کی موت کے لئے خود کو پیش کرنا. اپنے خلاف خود شہادت دینا- اس صحابی کو (رضی الله) نہ کہیں تو کیا کہیں جس کا جنازہ رسول اللہ ﷺ نے پڑھایا، تعریف کی- یہی حال باقی گنهگاروں کی کی اکثریت کا تھا-
یہ سمجھنا کہ کچھ صحابہ کی غلطیوں سے اسلام کو خطرہ ہو سکتا ہے، ایسا خدشہ بے بنیاد ہے- اسلام کو قرآن کی موجودگی میں کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا یہ انسانی نہیں الہامی دین ہے جسے الله تعالی کی طرف سے رسول اللہ ﷺ نے حالت کامل (Perfected[200]) میں ہم تک پہنچا دیا(5:3)[201] - دوسری تیسری صدی اور بعد کے علماء نے آخری، کامل الہامی دین کو بدعات[202] سے انسانی دین بنانےکی کوشش کی جو قرآن و سنت اور عقل و دلائل[203] کے سامنے بے بس نظر آتا ہے مگربے بس نہیں اگر اسے اصل حالت میں بحال کریں- ( "رسالہ تجدید الاسلام" ایک کوشش ہے )- اب دین اسلام کسی فرد یا افراد کے سہارے پر نہیں کھڑا یہ کلام اللہ، قرآن (الفرقان)[204] پر قائم و دائم ہے اور قیامت تک رہے گا- ان شاء اللہ
مزید پڑھیں :
شیعہ برادران اپنے نقطۂ نظر اور عقائد کی سپورٹ میں بہت دلائل قرآن، احادیث اور تاریخ سے دیتے ہیں مگر بہت سے اہم نقاط نظر انداز کرتے ہیں جو"شیعه اشتباهات" کی اصل وجہ ہے- یہ ان کی توجہ ان اہم نقاط جو قرآن، شیعہ کتب اور تاریخ میں موجود ہیں کی طرف مبذول کرانے کی ایک کوشش ہے تاکہ "شیعه اشتباهات"[208] کا خاتمہ، کمی ہو سکے-
اگر دماغ بغض، کہنہ اور نفرت سے بھرا ہوا ہو تو عقل کوئی دلیل قبول نہیں کرتی، الله تعالی کا فرمان ہے:
۞ إِنَّ شَرَّ الدَّوَابِّ عِندَ اللَّهِ الصُّمُّ الْبُكْمُ الَّذِينَ لَا يَعْقِلُونَ ﴿٢٢﴾
قیناً خدا کے نزدیک بدترین قسم کے جانور وہ بہرے گونگے لوگ ہیں جو عقل سے کام نہیں لیتے (قرآن8:22)[209]
اس سلسلہ میں اہم بات حسن ظن، نیک توقع رکھنا ہے:
لَوۡ لَاۤ اِذۡ سَمِعۡتُمُوۡہُ ظَنَّ الۡمُؤۡمِنُوۡنَ وَ الۡمُؤۡمِنٰتُ بِاَنۡفُسِہِمۡ خَیۡرًا ۙ وَّ قَالُوۡا ہٰذَاۤ اِفۡکٌ مُّبِیۡنٌ ﴿۱۲﴾
"جب تم نے اسے سُنا تومومن مرداورمومن عورتوں نے اپنے آپ سے اچھا گمان کیوں نہ کیا اور کیوں نہیں کہا کہ یہ کھلابہتان ہے؟" (قرآن 24:12)[210]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ نے فرمایا: "اِنّ اللهَ تَعالي حَرَّمَ مِنَ المُسلِمِ دَمَهُ وَمالَهُ وَأَن يُظَنَّ بِهِ ظَنَّ السَّوءِ"؛
بلاشبہ خدائے تعالی نے مسلمان کے خون اور مال [مسلمان پر] اور اس کے بارے میں برے گمان، کو حرام قرار دیا ہے۔ (محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 75، ص 201)[211]
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: "طَهِرّوا قُلوبَكُم مِنَ الحِقدِ فَاِنّهُ داءٌ وَبيءٌ"؛
اپنے دلوں کو بغض اور کینے سے پاک و پاکیزہ کرو، اندرونی کینہ وبا کی مانند ایک مہلک بیماری ہے۔(عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 73)
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: "المُريبُ اَبداً عَليلٌ"؛
بہت زیادہ بدگمان اور شک کرنے والا شخص ہمیشہ کے لئے بیمار ہے۔
(عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 146)
امیرالمؤمنین علیہ السلام نے فرمایا: "أَفضَلُ الوَرَعِ حُسنُ الظَّنِّ"؛
خوش گمانی بہترین پرہیزگاری ہے۔ (عبدالواحد تمیمی آمِدی، فهرست غررالحکم، ص 226)
امام جعفر صادق علیہ السلام نے فرمایا:
"حُسُن الظَّنِّ اَصلُهُ مِن حُسنِ ايمانِ المَرءِ و سَلامَةِ صَدرِهِ".
خوش گمانی کی جڑ انسان کی خوش ایمانی اور اس کے باطن کی سلامتی ہے۔ [جو خوش گمان ہے اس کا ایمان درست اور باطن پاکیزہ ہے]۔ (محمد باقر مجلسی، بحار الانوار، ج 75، ص 196)
ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: حسن ظن حسن عبادت میں سے ہے( ابو داؤد، حدیث4993)[212] (شیعہ حدیث: قاضى قضاعى، شهاب الاخبار، ص 357[213])
"صحابہ کے ساتھ حسن ظن رکھو، پھر ان کے بعد کے زمانہ والوں سے پھر جو ان کے بعد ہیں ان کے ساتھ" (صحیح ، کنز العمال، حدیث 32497)
حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کا ارشاد ہے : (ایاکم والظن قانہ اکذاب الحدیث) گمان سے بچو کیونکہ یہ سب سے بڑھ کر جھوٹی بات ہے.
صحابہ کرام کے فضائل اور بشری کمزوریاں بہت حساس معامله ہے جس میں لا پرواہی سے "بہتان" کے گناہ کا احتمال ہے جس سے بچنا اہم ہے- اخلاق اور تہذیب کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوٹنا چاہینے- اس لئے شتم ستانی اور گالی گلوچ سے مکمل اجتناب ضروری ہے-
اللہ کا فرمان ہے:
إِنَّ الْمُتَّقِينَ فِي جَنَّاتٍ وَعُيُونٍ ﴿٤٥﴾ ادْخُلُوهَا بِسَلَامٍ آمِنِينَ ﴿٤٦﴾ وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ إِخْوَانًا عَلَىٰ سُرُرٍ مُّتَقَابِلِينَ ﴿٤٧﴾ لَا يَمَسُّهُمْ فِيهَا نَصَبٌ وَمَا هُم مِّنْهَا بِمُخْرَجِينَ ﴿٤٨﴾
بیشک متقی لوگ باغوں اور چشموں میں رہیں گے، (ان سے کہا جائے گا:) ان میں سلامتی کے ساتھ بے خوف ہو کر داخل ہو جاؤ، اور ہم وہ ساری کدورت باہر کھینچ لیں گے جو (دنیا میں) ان کے سینوں میں (مغالطہ کے باعث ایک دوسرے سے) تھی، وہ (جنت میں) بھائی بھائی بن کر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے، انہیں وہاں کوئی تکلیف نہ پہنچے گی اور نہ ہی وہ وہاں سے نکالے جائیں گے(قرآن.الحجر 15:45,46,47,48)[214]
امام باقر(ع) سے سورہ حجر(15) کی 47 ویں آیت کے متعلق مروی ہے: امام سجاد(ع) سے سوال ہوا کہ یہ آیت: "اور ہم ان کے سینوں سے ہر قسم کی کدورت نکال دیں گے اور وہ بھائیوں کی طرح تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے" کیا ابوبکر، عمر و علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی؟
امام نے جواب دیا: ہاں یہ ان کی توصیف میں نازل ہوئی۔ کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں تَیْم، عَدِی اور بنی ہاشم کے قبیلوں کے درمیان دشمنی تھی لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد بھائی چارے کو قبول کیا۔ ایسا ہی ہوا ایک روز ابوبکر درد حاضره میں مبتلا ہوا تو علی نے اسے مساج کیا تا کہ اسے اس درد س نجات حاصل ہو۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی (واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۸۲)[215]
اس آیت سے معلوم ہوا کہ صحابہ کرام اور صلحائے امت باہمی لڑائیوں اور رنجشوں کے باوجود جنت میں جائیں گے، مگر اس سے پہلے ان کے دلوں کی باہمی کدورتیں بالکل دور کردی جائیں گی اور وہ صاف دل بھائی بھائی ہو کر جنت میں جائیں گے-
حضرت علی مرتضیٰ نے ایک مرتبہ یہ آیت پڑھ کر فرمایا کہ مجھے امید ہے کہ ہم اور عثمان اور طلحہ اور زبیر انہی لوگوں میں سے ہوں گے جن کے سینے دخول جنت سے پہلے کدورتوں سے صاف کردیئے جائیں گے[216]
زید بن علی بن حسین بن علی بن ابی طالب، (لقب زید شہید) امام علی بن الحسین (ع) کی اولاد میں سے اور امام محمد باقر (ع) و امام جعفر صادق (ع) کے معاصر ہیں، زیدیہ فرقہ آپ سے منسوب ہے۔ آپ کی ولادت مدینہ اور شہادت کوفہ میں ہوئی۔ زید شیعوں کے چوتھے امام امام سجادؑ کے فرزند تھے-
آپ تقیہ کے مخالف تھے اور ایسے افراد سے جو شیخین (ابوبکر و عمر) پر تبرا کرتے تھے، بیزاری کا اظہار کرتے تھے۔[217] آپ لوگوں کو کتاب و سنت کی پیروی اور جابر حکمرانوں سے جہاد اور محروم افراد کی حمایت اور ضرورت مندوں کی دستگیری کی دعوت دیتے تھے[218] زید نے کوفہ میں یوسف بن عمر کی گورنری کے زمانہ میں اس کے خلاف قیام کیا لیکن اہل کوفہ نے آپ کا ساتھ نہیں دیا۔ آپ نے اپنے والد امام سجادع ، اپنے بھائی امام محمد باقرع اور اپنے بھتیجے امام جعفر صادق ع سے روایات نقل کی ہیں۔
زید ںے امام ابو حنیفہ رح کو ایک خط لکھا اور ان سے مدد طلب کی اور بنی امیہ کی حکومت کے خلاف جہاد کی دعوت دی۔ ابو حنیفہ نے بھی زید کے لئے مالی مدد روانہ کی اور اپنی استطاعت کے مطابق ان کی مدد کی۔[219]
امام حسین ع کی شہادت کے بعد بعض علویوں نے مسلحانہ قیام کی فکر کو امامت کے شرائط اور ظالموں سے مقابلہ کی روش کے عنوان سے پیش کیا۔ اس سیاسی تفکر کی تشکیل کے ساتھ، امام زین العابدین ع کے زمانہ میں زیدیہ مسلک کی بنیاد رکھی گئی[220]
جس وقت زید حضرت امام جعفر صادق علیہ السلام کی خدمت سے باہر نکلے، امام نے فرمایا: لعنت ہو اس انسان پر جو زید کی آواز کو سنے اور اس پر لبیک نہ کہے[221]
علویوں کے درمیان اختلاف کی باز گشت ان دو نظریوں اموی حکومت سے ثقافتی جنگ یا مسلحانہ قیام کی طرف ہوتی ہے۔ اس اختلاف کا نتیجہ امام زین العابدین (ع) کی شہادت کے بعد ظاہر ہوا۔ بعض نے امام محمد باقر علیہ السلام کو قبول کر لیا اور دوسرے گروہ نے جو تلوار کے ذریعہ سے قیام مسلحانہ کا قائل تھا، وہ امام محمد باقر کے بھائی زید بن علی کی امامت کے قائل ہو گئے اور زیدیہ مشہور ہو گئے۔[222] اس بنیاد پر وہ شیعہ جو قیام مصلحانہ کا عقیدہ رکھتے تھے انہوں نے زید بن علی کو امام علیؑ ، امامین حسنینؑ اور حسن مثنی[223] کے بعد اہل بیت علیہم السلام میں پانچویں امام کی حیثیت سے مانتے ہیں
جب اہل عراق نے امام زین العابدین (ع ) کے صاحبزادے امام زیدع شہید سے حضرت ابوبکر و عمر (رضی الله) کی تعریف سنی تو کہنے لگے آپ ہمارے امام نہیں ہیں امام بھی ہمارے ہاتھ سے گیا جس پر امام زید شہید(ع ) نے فرمایا : "رفضونا الیوم" ہمیں آج کے دن سے ان لوگوں نے چھوڑ دیا(آج سے یہ رافضی بن گئے) اس دن سے اس جماعت کو رافضی کہا جاتا ہے۔ [رحمۃ للعالمین جلد دوم قاضی محمد سلیمان منصور پوری صفحہ 375 مرکز الحرمین الاسلامی فیصل آباد، ناسخ التواريخ۔ مرزه تقی خان ،ج 2 ،ص 590./ طبری][224]
رافضی[225] کے معنی تتر بتر ہونا، بکھر جانا، منتشر ہونا اور تعصب برتنا ہے۔نہی معنوں میں اہل تشیع میں سے جو لوگ اپنے امام کو چھوڑ دیں اور منتشر ہوں انہیں رافضی کہا جاتا ہے۔( القاموس الوحید عربی اردو لغت صفحہ نمبر: 648) - جیسا کہ آگے دیکھیں گے کہ شیعہ اپنے امام اول علی (رضی الله) کی بات بھی نہیں مانتے ، ان کو ترک کرتے ہیں تو کیا ایسے لوگ رافضی کہلانے کے مستحق نہیں؟
یہ ایک حقیقت ہے کہ صحابہ اکرام اسلام کے ہراول دستہ کے لوگ ، رسول اللہ ﷺ کے ساتھی تھے، تمام انسان برابر ہیں مگر تقوی سے برتری حاصل ہوتی ہے- جو صحابہ "السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ" میں شامل نہیں لیکن ان کے "السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ" کے اتباع میں "احسان" سے شامل ہونے میں زیادہ امکانات (probability) ہے- اس لئے اس بات کو ملحوظ خاطر رکھنا اور حسن ظن سے کام لینے میں بہتری اور غلطی کا امکان کم ہو جاتا ہے-
وقد سمع قوما من أصحابه يسبون أهل الشام أيام حربهم بصفين إِنِّي أَكْرَه لَكُمْ أَنْ تَكُونُوا سَبَّابِينَ - ولَكِنَّكُمْ لَوْ وَصَفْتُمْ أَعْمَالَهُمْ وذَكَرْتُمْ حَالَهُمْ - كَانَ أَصْوَبَ فِي الْقَوْلِ وأَبْلَغَ فِي الْعُذْرِ - وقُلْتُمْ مَكَانَ سَبِّكُمْ إِيَّاهُمْ - اللَّهُمَّ احْقِنْ دِمَاءَنَا ودِمَاءَهُمْ - وأَصْلِحْ ذَاتَ بَيْنِنَا وبَيْنِهِمْ واهْدِهِمْ مِنْ ضَلَالَتِهِمْ - حَتَّى يَعْرِفَ الْحَقَّ مَنْ جَهِلَه - ويَرْعَوِيَ عَنِ الْغَيِّ والْعُدْوَانِ مَنْ لَهِجَ بِه ۔ [نہج البلاغہ 206]
فرمان امام علیؑ : "میں تمہارے لئے اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے والے ہو جائو۔ بہترین بات یہ ہے کہ تم ان کے اعمال اورحالات کاتذکرہ کرو تاکہ بات بھی صحیح رہے اورحجت بھی تمام ہو جائے اور پھر گالیاں دینے کے بجائے یہ دعا کرو کہ یا اللہ! ہم سب کے خونوں کومفحوظ کردے اور ہمارے معاملات کی اصلاح کردے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کیراستہ پر لگادے تاکہ ناواقف لوگ حق سے با خبر ہو جائیں اور حرف باطل کہنے والے اپنی گمراہی اور سرکشی سے بازآجائیں" [نہج البلاغہ خطبہ : 206]
"نہج البلاغہ" حضرت علی ابن ابی طالب (رضى الله عنها) کے خطبات اور اقوال کی اہم شیعہ کتاب ہے، اس کے مطابق حضرت علی ابن ابی طالب (رضى الله عنها) ںے فرمایا :
" میرے بارے میں گمان کرنے والوں کی دو اقسام برباد ہو جائیں گے ،جو لوگ مجھ سے بہت زیادہ محبت کرتے ہیں اور محبت کی شدت ان کو سیدھے راستے سے سے دور لے جاتی ہے، اور وہ لوگ جو مجھ سے بہت زیادہ نفرت کرتے ہیں اور نفرت کی شدت ان کو سیدھے راستے سے دور لے جاتی ہے . میرے حوالے سے سب سے اچھے وہ لوگ ہیں جو درمیان کا راستہ اختیار کریں لہٰذا ان لوگوں کے ساتھ ہو جائیں اور
مسلمانوں کی عظیم اکثریت کے ساتھ ہوجاؤ کیونکہ الله کے حفاظت اتحاد میں ہے . تم لوگ تفرقے سے بچو.جو گروپ سے الگ تھلگ ہوتا ہے وہ شیطان کا آسان شکار ہوتا ہے. جیسے جو بھیڑ گلے سے علیحدہ ہوتی ہے بھیڑے کے لے آسان شکار ہوتی ہے .
ہوشیار! جو بھی اس راستے [فرقہ واریت کے] پر بلاتا ہے چاہے وہ میرے نام کے گروپ سے ہو اس کو قتل کرو.[226] [ خطبہ نمبر 126 /127 "نہج البلاغہ" حضرت علی ابن ابی طالب (رضى الله عنها) کے خطبات اور اقوال ترجمہ و مفہوم]
نوٹ : خبردار : قتل کا اختیار صرف قانون کے مطابق اسلامی حکومت کے قاضی اور عدلیہ کو ہے . فساد فی الارض ممنوع ہے .
امام علیؑ ںے فرمایا :
" بلاشبہ ایک قوم مجھ سے محبت کرے گی حتی کہ میری محبت میں وہ جہنم میں داخل ہو جائیں گے ، اور ایک قوم بلاشبہ مجھ سے بغض رکھے گی حتی کہ میرے بغض میں جہنم میں داخل ہو جائیں گے ___ "
[ فضائل الصحابة : 952 ] ( سنده صحيح )[227]
اگر میں اپنے شیعوں کو جانچوں تو یہ زبانی دعویٰ کرنے والے ہیں اور باتیں بنانے والے نکلیں گے ، اور ان کا امتحان لوں تو یہ سب مرتد نکلیں گے ۔ (ارضہ کلینی:۱۰۷۔ بحوالہ احسن الفتاویٰ:۱/۸۴)[228]
جب لوگ عثمان (رض) کے خلاف حضرت علیؑ کی خدمت میں شکایت لے آتے ہیں اس موقع پر امام علیؑ نے اپنے فرزند امام حسنؑ کو عثمان(رض) کے پاس بھجتے ہیں۔[229] بعض منابع میں آیا ہے کہ عثمان(رض) کی خلافت کے آخری ایام میں لوگوں نے ان کے خلاف شورش کی، ان کے گھر کو محاصرے میں لے لیا، ان پر پانی بند کر دیا اور آخر کار انہیں شہید کر دیا گیا ان تمام واقعات میں امام حسنؑ اپنے بھائی امام حسینؑ اور دیگر جوانان بنی ہاشم کے ساتھ امام علیؑ کے حکم سے عثمان(رض) کے گھر کی حفاظت پر مأمور تھے۔[230] قاضی نعمان مغربی (متوفی 363ھ) جو کتاب دلائل الامامۃ کے مصنف بھی ہیں کے بقول جب شورشیوں نے عثمان(رض) پر پانی بند کر دیا تو امام حسنؑ اپنے والد امام علیؑ کے حکم پر عثمان(رض) کے گھر پانی پہنچاتے تھے۔[231] بعض منابع میں اس واقعے میں آپ کے زخمی ہونے کے اطلاعات بھی موجود ہیں۔[232]- یہ امام علیؑ کی عثمان(رض) سے محبت ظاہر کرتا ہے یا نفرت؟
عبودیت صرف اللہ تعالی کی ذات کے لیے خاص ہے، ارشاد باری تعالی ہے: {بَلِ اللَّـهَ فَاعْبُدْ ۔۔ سورۃ الزمر66} بلکہ تو اللہ ہی کی عبادت کرو[233] شیعہ حضرات اپنی برادری کے لوگوں کو عبدالحسین، عبد علی، عبدالزھراء اور عبدالامام وغیرہ ناموں سے موسوم کرتے ہیں- لیکن ائمہ اپنے بچوں کے نام عبد علی اور عبدالزھراء وغیرہ نہیں رکھتے تھے۔[234]
امام علیؑ نے حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد کئی عورتوں سے شادی کی ہے اور ان سے کئی بیٹے اور بیٹیاں بھی پیدا ہوئے جن میں سے چار اسماء قابل ذکر ہیں: عثمان بن علی بن ابی طالب، ابوبکر بن علی بن ابی طالب، ، ان دونوں کی والدہ کا نام لیلی بنت مسعود الدارمیۃ تھا۔ {نفس المصدر} عمر بن علی بن ابی طالب، جو 35 سال کی عمر میں انتقال کر گئے تھے۔ان دونوں کی والدہ کا نام ام حبیب بنت ربیعہ تھا۔{کشف الغمۃ فی معرفۃ الائمۃ، لعلی الاربلی}۔[235]
کیا یہ بات باور کی جاسکتی ہے کہ ایک عقل مند انسان اپنے احباء و اقرباء کے نام اپنے دشمنوں کے ناموں پر رکھ سکتا ہے- یہ بات بھی معلوم ہے کہ علی رضی اللہ عنہ قریش خاندان کے سب سے پہلے فرد ہیں جنہوں نے اپنے بیٹوں کے نام ابوبکر، عمر اور عثمان رکھے[236] ہیں- اگر انہیں ان ناموں سے بغض ہوتا تو وہ اپنے بیٹوں کو ان ناموں سے کیوں موسوم کرتے؟
گر آپ کسی شیعہ کو حضرت عمر (رضی اللہ عنہ) کو گالی دیتے ہوئے سنیں تو اس سے پوچھیں:
کہ آپ کی مراد کس عمر سے ہے
عمر بن علي بن ابي طالب ؟
یا عمر بن الحسن بن علي ؟
یا عمر بن الحسين بن علي ؟
یا عمر بن علي زين العابدين بن الحسين ؟
یا عمر بن موسى الكاظم ؟
اور اگر ان میں سے کسی کو حضرت أبو بكر(رضی اللہ عنہ) کو گالی دیتے ہوئے سنیں تو اس سے یہ سوال ضرور کریں:
کہ آپ کی مراد کس أبو بكر سے ہے؟
أبو بكر بن علي بن أبي طالب ؟
یا أبو بكر بن الحسن بن علي ؟
یا أبو بكر بن الحسين بن علي ؟
یا أبو بكر بن موسى الكاظم ؟
اور اگر ان میں سے کسی کو نعوذ باللہ "عائشة في النار ..یعنی .. عائشة جہنمی ہے " کے نعرے لگاتے ہوئے سنیں تو اس سے سوال کریں:
کہ آپ کی مراد کس عائشة سے ہے؟
عائشة بنت جعفر الصادق ؟
یا عائشة بنت موسى الكاظم ؟
یا عائشة بنت علي الرضا ؟
یا عائشة بنت علي الهادي ؟
اور پھر اسکے بعد آپ انہیں سمجھاتے ہوئے کہیں کہ ان لوگوں نے (شیعہ جنہیں اپنا امام مانتے ہیں) اپنے بچوں کا نام "ابو بکر" . "عمر" اور "عایشہ" رکھا کیوں..؟؟؟؟؟
........کیونکہ وہ مذکورہ صحابہ کرم سے بیحد عقیدت رکھتے تھے اور چاہتے تھے کہ انکے گھروں میں بوبکر و عمر اور عایشہ نامی ستارے چمکتے دمکتے رہیں-[237]
امام علیؑ نے اپنى صاجزادى ام كلثوم كى شادى عمر بن خطاب سے كى جو كہ امام حسن و حسين رضى الله عنهم كى حقيقى بہن تھيں، اور اس بات كا ذکر شيعہ حضرات كے كبار علماء نے اپنى كتب ميں كيا هے (مثلا كلينى ، طوسى اور ديگر كئى حوالہ جات كے لئے ديكھئے كتاب هذا ، صفحہ نمبر : 14، حاشيه نمبر : 1)[238]
علی رضی اللہ عنہ کے یہ عمل مبنی برصواب ہے کیونکہ ابوبکر و عمر رضی اللہ عنہما دونوں مومن صادق ہیں، دونوں ہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے خلیفہ اور دونوں ہی عدل و انصاف کا پیکر ہیں- جو شیعہ حضرات، ابوبکر اور عمر رضی اللہ عنہما کی تکفیر اور ان پر لعن و طعن اور گالی گلوچ کرنے میں اور ان دونوں کی خلافت سے عدم رضامندی کے اظہار میں اپنے امام کے مخالف ہیں۔
عثمان (رضی الله) کے صاحبزادے ابان بن عثمان رضی اللہ عنہ نے ام کلثوم بنت عبداللہ بن جعفر بن ابی طالب سے شادی کی۔ ام قاسم بنت الحسن بن الحسن بن علی بن ابی طالب کی بیٹی مروان بن ابان بن عثمان کی زوجیت میں تھیں۔ زید بن عمرو بن عثمان کے عقد میں سکینہ بنت حسین تھین۔ صحابہ کرام میں سے صرف خلفائے ثلاثہ کے ذکر پر اکتفا کرتے ہیں ورنہ خلفائے ثلاثہ رضی اللہ عنہم اجمعین کے علاوہ اور بہت سے صحابہ کرام رضی اللہ عنہم ہیں جن کا اہل بیت سے سسرالی تعلق تھا جو اس بات کی واضح دلیل ہے کہ اہل بیت اور صحابہ کرام کا آپس میں رشتہ و ناطہ تھا۔ {دامادی و رشتوں کی تفصیل الدرالمنثور من اھل البیت میں دیکھیں}[239]
علی (رضی الله) نے اپنی بیٹی ام کلثوم(رضی الله) کا نکاح عمر (رضی الله) سے کر دیا۔ یہ ایک ایسی حقیقت ہے جس کا علم اکثرلوگوں کو نہیں ہے۔ یہ ایک حقیقت ہے جو شیعیت کے پورےڈھانچے کو گرا دیتی ہے۔ اس وجہ سے آج کل بہت سے شیعہ کہیں گے کہ عمر رضی اللہ عنہ اور ام کلثوم رضی اللہ عنہا کے درمیان یہ شادی ایک داستان ہے۔ البتہ اس نکاح کا ریکارڈ شیعہ کی معتبر ترین کتاب حدیث الکافی میں موجود ہے۔ کم از کم چار الگ الگ احادیث ائمہ سے منسوب ہیں جو ام کلثوم(رضی الله) کی عمر(رضی الله) سے شادی کی تصدیق کرتی ہیں۔ درحقیقت، فرو الکافی میں کتاب نکاح (کتاب النکاح) کا 23 واں باب ام کلثوم (رضی اللہ عنہا) کی شادی کے لیے مختص ہے اور اسے "باب تجویج ام کلثوم" کہا جاتا ہے۔ چار میں سے دو حدیثیں اس باب میں ہیں، جبکہ باقی دو احادیث ازدواج کے بعد عدت سے متعلق باب میں ہیں۔
علي بن إبراهيم، عن أبيه، عن ابن أبي عمير، عن هشام بن سالم، وحماد، عن زرارة، عن أبي عبدالله (ع) في تزويج أم كلثوم فقال: إن ذلك فرج غصبناه (9536-1) ترجمہ : "ابو عبداللہ نے ام کلثوم کی شادی کے بارے میں کہا: "یہ وہ اندام نہانی (vagina) تھی جو ہمیں دینے پر مجبور کیا گیا تھا۔" [مزید تفصیل ..لنک پر[240]]
نہ صرف عمر(رضی الله) اور علی(رضی الله)میں رشتہ داری تھی بلکہ اسی طرح ابوبکر(رضی الله) اور علی(رضی الله) کا بھی نکاح سے تعلق تھا۔ شیخ احسان الٰہی ظہیر لکھتے ہیں: "اسماء بنت عمیس، علی (رضی الله) کے حقیقی بھائی جعفر(رضی الله) ابن ابی طالب کی بیوی تھیں۔ جب ان کی وفات ہوئی تو ان کا نکاح ابوبکر(رضی الله) سے ہوا۔ اس نے ابوبکر کے بیٹے کو بھی جنم دیا جس کا نام محمد رکھا گیا۔ علی رضی اللہ عنہ نے انہیں مصر کا گورنر مقرر کیا۔ ابوبکر(رضی الله) کی وفات کے بعد علی ابن ابی طالب نے ان سے شادی کی۔ اس نکاح سے یحییٰ نامی بیٹا پیدا ہوا۔(شیعہ حوالہ جات:(1) حق الیقین، مجلسی، (2) کتاب الارشاد، از مفید، (3) جلاۃ العیون، مجلسی، (4) مجالس المومنین، از شوشتری، (شیعہ و اہل بیت، ص 121)[241]
رأيت أصحاب محمد صلى الله عليه وسلم فما أرى أحداً يشبههم منكم لقد كانوا يصبحون شعثاً غبراً وقد باتوا سجداً وقياماً، يراوحون بين جباههم وخدودهم، ويقفون على مثل الجمر من ذكر معادهم كأن بين أعينهم ركب المعزي من طول سجودهم، إذا ذكر الله هملت أعينهم حتى تبل جيوبهم، ومادوا كما يميد الشجر يوم الريح العاصف خوفاً من العقاب ورجاءً للثواب
ترجمہ : میں نے محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کو دیکھا اور میں نے تم میں سے ان کے مشابہ کسی کو نہیں دیکھا، وہ خاک میں جا کر سجدہ کرتے اور کھڑے ہوتے، اپنی پیشانیوں اور رخساروں کے درمیان حرکت کرتے، اور اپنی دشمنی کی یاد کے انگاروں کی طرح کھڑے ہیں، گویا ان کی آنکھوں کے درمیان تسلی دینے والے کے گھٹنے سجدے کی لمبائی سے ہیں، ان کی جیبیں، اور وہ پھیلے ہوئے ہیں جیسے طوفانی آندھی والے دن درخت اگتے ہیں، عذاب کے خوف سے اجر کی امید( نہج البلاغہ ص181ملخصا و مختصرا)[242]، [243]
یہ دعوی کیا جاتا ہے غدیر خم پر حج آلوداع کے تین دن بعد ہزاروں صحابہ کرام وہاں موجود تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی وصیت براہ راست سنی تھی، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان ہزاروں صحابہ کرام میں سے ایک صحابی بھی علی رضی اللہ عنہ کی طرفداری کے لیے کیوں نہیں کھڑا ہوا؟۔ حتی کہ عمار بن یاسر، مقداد بن عمرو اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم بھی خلیفہ وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں استغاثہ لے کر کیوں نہیں آئے کہ آپ نے علی رضی اللہ کی خلافت کا حق غصب کیا؟ جبکہ آپ کو پتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیرخم کے دن کیا وصیت فرمائی تھی یا کیا تحریر لکھوائی تھی۔ علی رضی اللہ عنہ تو بڑے بے باک صحابی تھے جنہیں اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف نہ تھا اور نہ ہی وہ کسی سے دب کر بات کرنے کے عادی تھے اور انہیں پتا تھا کہ حق بات پر سکوت اختیار کرنے والا گونگا شیطان کہلاتا ہے۔
زیدبن ارقم رضي اللہ تعالی عنہ بیان کرتےہیں کہ ایک دن نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے مکہ اورمدینہ کےدرمیان ماءخما کے مقام پر ہمیں خطبہ ارشادفرمایا اللہ تعالی کی حمد وثنا بیان کی اوروعظ ونصیحت فرمائ پھر فرمانے لگے[244] :
اما بعد :اے لوگو بلاشبہ میں ایک بشر اورانسان ہوں قریب ہے کہ میرے پاس میرے رب کا بھیجا ہوا آجاۓ تومیں اس کی دعوت پرلبیک کہوں (موت کی طرف اشارہ ہے ) اوریقینا میں تم میں دواشیاء چھوڑ کر جارہا ہوں ان میں سے پہلی اللہ عزوجل کی کتاب جس میں نورو ھدایت ہے ، اللہ تعالی کی کتاب کوتھام لو اوراس پرمضبوطی اختیار کرو ، توانہوں نے کتاب اللہ پرعمل کرنے کی ابھارا اوراس میں رغبت دلائ ۔
اورفرمایا : میرے اہل بیت ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں ، میں تمہیں اہل بیت کے بارہ میں اللہ کی یاد دلاتا ہوں،
حصین نے کہا کہ اے زيد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون ہیں؟ کیا ان ازواج مطہرات اہل بیت نہیں؟
توانہوں نے کہ ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل ہیں ، لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد صدقہ حرام ہے ، انہوں نے کہا وہ کون ہیں ؟ وہ کہنے لگے :
وہ آل علی اور آل عقیل ، اورآل جعفر ، اور آل عباس رضي اللہ تعالی عنہم ہیں ، انہوں نے پوچھا کیاان سب پر صدقہ حرام ہے؟ زید نے جواب دیا جی ہاں ۔( مسند امام احمد, حدیث نمبر 18468)[245]
اورموالی کے متعلق حدیث میں کچھ طرح ذکر ہے :
نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے مولی ( غلام ) مھران بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
بلاشبہ ہم آل محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) پرصدقہ حلال نہیں اورقوم کے مولی انہیں میں سے ہوتے ہیں ۔ مسند احمد حديث نمبر ( 15152 )
تواس طرح نبی صلی اللہ علیہ کی آل اوراہل بیت میں ان کی ازواج مطہرات ، ان کی اولاد ، اوربنو ھاشم ، اوربنو عبدالمطلب ، اوران کے موالی شامل ہوۓ ۔
اہل بیت رسول اللہ ﷺ کے گھرانہ کے افراد ہیں جو صحابہ بھی تھے اور بعد میں بھی ان کا خاص مقام ہے- علماء کرام نے اہل بیت کی تحدید میں کئ ایک اقوال ذکر کيۓ ہیں[246]:
بعض کا کہنا ہے کہ اہل بیت سے مراد نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات ، ان کی اولاد اوربنوھاشم اور بنو مطلب اوران کے موالی ہیں ۔ اورکچھ کا کہنا ہے کہ: ازواج مطہرات اہل بیت میں شامل نہیں ۔ اورایک قول یہ بھی ہے کہ : اہل بیت قريش ہیں ۔ بعض علماء کا کہنا ہے : امت محمدیہ میں سے متقی لوگ آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہيں ۔ اورکچھ نے کہا ہے کہ :ساری کی ساری امت محمدیہ صلی اللہ علیہ وسلم آل محمد صلی اللہ علیہ وسلم ہے ۔
ازواج مطہرات کے بارہ میں راجح قول یہ ہے کہ وہ اہل بیت میں داخل ہيں اس لیے کہ اللہ تعالی نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی بیویوں کوپردہ کا حکم دینے کے بعد فرما یا ہے کہ :
اللہ تعالی یہی چاہتا ہے کہ اے اہل بیت تم سے وہ ( ہرقسم کی ) گندگی کودورکردے اور تمہیں خوب پاک کرے ( قرآن33:33 )[247]
اورابراھیم علیہ السلام کی زوجہ سارہ رضی اللہ تعالی عنہا کوبھی اہل بیت کہنا جیسا کہ اس فرمان ہے :
فرشتوں نے کہا کیا تم اللہ تعالی کی قدرت سے تعجب کررہی ہو ؟ اے گھروالوں تم پر اللہ تعالی کی رحمت اور اس کی برکتیں نازل ہوں (ھود 73 )
وراس لیے بھی کہ اللہ تعالی نے لوط علیہ السلام کی بیوی کوآل لوط سے خارج کرتے ہوۓ فرمایا :
سواۓ لوط علیہ السلام کی آل کے ہم ان سب کوتو ہم ضرور بچا لیں گے مگر اس کی بیوی ۔۔۔ ( الحجر: 59 – 60 )
تویہ سب آیات اس پردلالت کرتی ہیں کہ زوجہ اہل بیت اورآل میں داخل ہے- (ان پراور صحابہ پر شیعہ لعنت کیوں کرتے ہیں؟[248])
اورآل مطلب کے بارہ میں امام احمد سے روایت ہے کہ وہ اہل بیت میں سےہیں اورامام شافعی رحمہ اللہ تعالی نے بھی یہی کہا ہے ۔
امام ابوحنیفہ اورامام مالک رحمہ اللہ تعالی کا کہنا ہے کہ آل مطلب آل نبی صلی اللہ علیہ وسلم میں داخل نہيں اورامام احمد رحمہ اللہ تعالی سے یہ قول بھی مروی ہے ۔
اس مسئلہ میں راجح قول یہی ہے کہ بنو عبدالمطلب نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی آل میں شامل ہیں اس کی دلیل حدیث[249] میں ہے-
اہل بیت میں بنوھاشم بن عبدمناف جو کہ آل علی ، آل عباس ، آل جعفر ، آل عقیل ، اورآل حارث بن عبدالمطلب شامل ہیں اس کا ذکر اس حدیث میں موجود ہے جسے امام احمد رحمہ اللہ تعالی نے زيد بن ارقم رضي اللہ تعالی عنہ سے بیان کیا ہے ۔ (واللہ تعالی اعلم)[250]
بہت سے شیعہ آیت اللہ عائشہ (رضی اللہ عنہا ) اور حفصہ (رضی اللہ عنہا ) پر بہت سے بے بنیاد الزامات لگاتے ہیں۔ ہم اپنے شیعہ بھائیوں سے درخواست کرتے ہیں کہ اس محبت کی اصل نوعیت پر غور کریں۔ اہل سنت والجماعت اہل بیت کے چاہنے والے ہیں اور یقیناً ناصبی (اہل بیت سے نفرت کرنے والے) نہیں۔ حقیقت یہ ہو سکتی ہے کہ وہ لوگ ناصبی ہیں جو اہل بیت (یعنی ازواج مطہرات) سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ وہ ان کے اہل بیت ہونے کا بھی انکار کرتے ہیں! یہ حقیقت قرآن، حدیث، علمی رائے، لغت، منطق، عام فہم اور لفظ "اہل بیت" کے عام استعمال سے ثابت ہے۔ قرآن کی آیات کے خلاف اس قدر شدید بحث کرنے والے صرف وہی ہوسکتے ہیں جو اہل بیت سے اس قدر نفرت کرتے ہیں کہ اللہ کے کلام کو بھی رد کر دیں۔[251]
قرآن کی آیت 33:33 سے شیعہ یہ مراد لیتے ہیں اہل بیت معصوم بلخطاء، ہیں ان کو اس لحاظ سے کامل بنایا ہے کہ ان سے نہ کوئی غلطی ہو سکتی ہے، نہ کوئی بھول جا سکتی ہے اور نہ ہی کوئی گناہ۔ اس تشریح کی بنا پر شیعہ دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ، علی رضی اللہ عنہ ، فاطمہ رضی اللہ عنہا ، حسن رضی اللہ عنہ ، حسین رضی اللہ عنہ ، اور دیگر۔ نو امام معصوم ہیں۔
لیکن کیا یہ آیت 33:33 درحقیقت کسی کو معصوم بناتی ہے؟ سب سے پہلے، اگر ہم یہ کہیں کہ یہ آیت لوگوں کو معصوم بناتی ہے، تو ہمیں یہ کہنا چاہیے کہ یہ نبی کی ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہم ) کو معصوم قرار دیتی ہے، کیونکہ اللہ (عزوجل ) نبی کی ازواج کو مخاطب کرتے ہیں۔ پوری آیات (قرآن، ,33:32سے 33:34) کا ترجمہ :
"اے نبی کی بیویو! تم عام عورتوں کی طرح نہیں ہو، اگر تم پرہیزگاری اختیار کرو تو نرم لہجے سے بات نہ کرو کہ جس کے دل میں روگ ہو وه کوئی برا خیال کرے اور ہاں قاعدے کے مطابق کلام کرو (32) اور اپنے گھروں میں قرار سے رہو اور قدیم جاہلیت کے زمانے کی طرح اپنے بناؤ کا اﻇہار نہ کرو اور نماز ادا کرتی رہو اور زکوٰة دیتی رہو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت گزاری کرو۔ اللہ تعالیٰ یہی چاہتا ہے کہ اے نبی کی گھر والیو! تم سے وه (ہر قسم کی) گندگی کو دور کردے اور تمہیں خوب پاک کردے (33) اور تمہارے گھروں میں اللہ کی جو آیتیں اور رسول کی احادیﺚ پڑھی جاتی ہیں ان کا ذکر کرتی رہو، یقیناً اللہ تعالیٰ لطف کرنے واﻻ خبردار ہے (33:34)[252]
تجزیہ سے معلوم ہوتا ہے کہ :
حقیقت یہ ہے کہ ان آیات سے کسی کو معصوم الخطاء نہیں بنایا گیا۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد یہ نہیں تھا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو یہ یقین دلایا جائے کہ وہ پہلےہی پاک ہو چکی ہیں، بلکہ یہ شرط عائد کرنا تھی کہ اگر وہ آپ کی اطاعت کریں گی تو وہ ان سے تمام مکروہات کو دور کر دے گا اوراس طرح انہیں پاک کر دے گا۔ وہ صرف اس صورت میں ان کو پاک کرنا چاہتا تھا جب وہ اس شرط پر پورا اتریں، یعنی جب وہ گھر سے باہر ہوں تو حجاب پہنیں (یعنی شاندار نمائش نہ کریں) اور نماز کے ساتھ ساتھ صدقہ بھی کریں۔ اگر ہم سیاق و سباق کا تجزیہ کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ( عز و جل نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو وہ تمام ہدایات دے رہے تھے جن کا اللہ نے انہیں حکم دیا تھا اور جس چیز سے منع کیا تھا اس سے پرہیز کریں۔ اس طرح اس نے انہیں آگاہ کیا کہ اگر وہ اس کے احکام پر عمل کریں اور جس چیز سے اس نے منع کیا ہے اس سے پرہیز کریں تو وہ ان سے تمام مکروہات کو دور کرکے انہیں پاکیزہ اور بے داغ بنا دے گا۔
واضح رہے کہ اللہ تعالیٰ نے بہت سے لوگوں کو مخاطب کرنے کے لیے اس طرزِ تقریر کا استعمال کیا ہے۔ درج ذیل آیت پر غور کریں:
’’اللہ تمہیں تنگی میں ڈالنا نہیں چاہتا بلکہ یہ چاہتا ہے کہ تمہیں پاکیزہ بنائے (لِيُطَهِّرَكُمْ) اور تم پر اپنی نعمت پوری کرے تاکہ تم شکر گزار بنو۔‘‘ (قرآن، 5:6)[253]
اس آیت میں اللہ (عزوجل ) مومن کے بارے میں فرما رہے ہیں۔ کیا ہم واقعی یہ نتیجہ اخذ کریں کہ اب اللہ تعالیٰ نے اس شخص کو بالکل پاک و پاکیزہ بنا دیا ہے؟ درحقیقت اس میں وہ اہم مشروط بیان غائب ہے جو اللہ (عزوجل) فرما رہا ہے۔
دوسری آیت میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:
’’اللہ چاہتا ہے کہ تم پر واضح کرے اور تم سے پہلے لوگوں کے احکام تمہیں دکھا دے‘‘۔ (قرآن، 4:26) [254]
وہ یہ بھی کہتا ہے: ’’ اللہ چاہتا ہے کہ تمہاری (مشکلات) کو ہلکا کرے ، کیونکہ انسان (جسم میں) کمزور پیدا کیا گیا ہے۔‘‘ (قرآن، 4:28)[255]
مندرجہ بالا آیات میں اللہ تعالیٰ کی خواہش کا اظہار اس کے احکام کی وفاداری، اس سے محبت کرنے اور اسے راضی کرنے کی شرط کے طور پر آتا ہے ۔ ورنہ اس شرط کو پورا کیے بغیر اس کی خواہش حقیقت میں نہیں آئے گی، (یعنی طہارت نہیں ہوگی)۔ اسی طرح دوسری آیت (قرآن، 2:222)[256] بھی ہے -
اللہ (عزوجل) اسی طرح بہت سی دوسری قرآنی آیات میں اپنے بندوں کو مخاطب کرتا ہے۔ لہٰذا اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ اہل بیت کو پاک کرنے میں اللہ تعالیٰ کا مقصد ان کو معصوم الخطاء بنانا تھا، تو یہ قرآنی آیت کی پیروی کرتے ہوئے ہمیں یہ کہنا پڑے گا کہ اللہ تعالیٰ نے فرمایا: عز وجل ) تو ان کو پاک کرنے کی خواہش کرتا ہے۔
جیسا کہ اللہ تعالیٰ نے ہمیں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خاندان کے افراد کو پاک کرنے کی اپنی خواہش کے بارے میں بتایا، اسی طرح اس نے مومنوں کو بھی پاک کرنے کی اپنی خواہش سے آگاہ کیا۔ لہٰذا اگر ہم فرض کریں کہ اللہ (عزوجل ) نے مومنین کو پاک کرنے کا ارادہ کیا ہے تو اس کا مقصد ان کو معصوم الخطاء بنانا ہے تو تمام مخلص متقی مومنین عیب اور گناہ سے بے نیاز ہیں۔ (یقیناً، یہ غلط ہے اور ہم دیکھتے ہیں کہ ان آیات میں سے کوئی بھی کسی کو معصوم نہیں بناتی۔)
مذکورہ بالا آیت (33:33)[257] میں جس تزکیہ کا ذکر کیا گیا ہے، اس کا مقصد کسی کو معصوم الخطاء بنانا نہیں تھا، بلکہ اس کا مقصد پچھلے گناہوں کا کفارہ ہے جیسے ہم حج پر جاتے ہوئے اپنے گناہوں کا کفارہ پاتے ہیں۔ یہ اسلوب قرآن میں بہت زیادہ استعمال ہوا ہے۔ ہم قرآن میں پڑھتے ہیں: "آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو (تُطَهِّرُهُمْ) پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ (قرآن، 9:103)[258]
ہمیں کبھی کوئی ایسا شخص نہیں ملے گا جو یہ کہے کہ مذکورہ بالا آیات میں تزکیہ نفس کا مقصد پیغمبر کے اہل بیت یا اہل ایمان کو معصوم بنانا تھا۔
مزید برآں، اور اس پر کافی زور نہیں دیا جا سکتا، شیعہ لفظ (وَيُطَهِّرَكُمْ تَطْهِيرًا) "پاک" کے معنی میں مبالغہ آرائی کر رہے ہیں۔ اللہ (عزوجل ) نے ان کو پاک اور بے داغ بنانا چاہا، لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ وہ معصوم ہیں! الفاظ "خالص" اور "معصوم" قابل تبادلہ نہیں ہیں۔ یقیناً شیعوں کو اس بات پر متفق ہونا پڑے گا کہ سلمان فارسی (رضی اللہ عنہ) اور اسلام کے دوسرے عظیم ہیروز کو پاک مانا جاتا ہے، لیکن ہم یہ نہیں کہتے کہ وہ معصوم ہیں۔ شیعہ کہیں گے کہ ان کے آیت اللہ پاک ہیں، لیکن چند لوگ کہتے ہیں کہ وہ معصوم ہیں۔ اسی طرح قرآن مجید کی یہ آیت نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات کو مخاطب کر رہی ہے )، ان کے خالص ہونے کا وعدہ کرتے ہیں، لیکن یہ کسی بھی طرح سے ان کو معصوم الخطا نہیں کرتا ۔ یہ ایک دوسری صورت میں براہ راست قرآنی آیت کے متن میں پڑھنا ہوگا۔
غدیر خم کی حدیث پر بحث کرنا اس مخصوص سیاق و سباق کو سمجھے بغیر ناممکن ہے جس میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے جو کچھ فرمایا تھا۔ یہ اسلامی اصول سے متعلق ایک عام اصول ہے: اس پس منظر کو جاننا ضروری ہے جس میں کوئی قرآنی آیت نازل ہوئی یا کوئی خاص حدیث کہی گئی۔ مثال کے طور پر، قرآنی آیت "انہیں جہاں بھی پاؤ قتل کرو" اکثر مستشرقین اسے غلط طریقے سے ظاہر کرنے کے لیے استعمال کرتے ہیں گویا اسلام لوگوں کو ہر وقت جہاں کہیں بھی پاؤ قتل کرنے کی وکالت کرتا ہے ۔ البتہ اگر ہم دیکھیں کہ یہ آیت کب نازل ہوئی تو ہمیں معلوم ہوتا ہے کہ یہ خاص طور پر مسلمانوں اور مشرکین قریش کے درمیان لڑائی کے دوران نازل ہوئی تھی۔ اس سے ہمیں یہ احساس ہوتا ہے کہ لوگوں کو قتل کرنے کا عام حکم نہیں ہے بلکہ یہ ایک مخصوص صورت حال میں نازل ہونے والی آیت ہے۔
اسی طرح "غدیر خم کی حدیث"[259] کو صرف اسی تناظر میں سمجھا جا سکتا ہے جس میں کہا گیا تھا: سپاہیوں کا ایک گروہ علی ابن ابی طالب (رضی اللہ عنہ) کو ایک خاص بات پر سخت تنقید کا نشانہ بنا رہا تھا اور یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تک پہنچی۔ جس نے پھر وہی کہا جو حدیث غدیر خم میں کہا ۔ مستشرقین کی طرح، شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والے اس پس منظر کے سیاق و سباق کو ہٹانے کی کوشش کرتے ہیں جس میں حدیث کہی گئی تھی تاکہ بالکل مختلف (اور گمراہ کن) تصویر پینٹ کی جا سکے۔
غدیر خم کے موقع پر جو کچھ آپ نے فرمایا اس کے پیچھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مقصد علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ نامزد کرنا ہرگز نہیں تھا بلکہ یہ صرف علی رضی اللہ عنہ کے خلاف کہے جانے والے بہتان سے دفاع کرنا تھا۔ پس منظر کے سیاق و سباق کو ہٹانے سے ہی متن کی شیعہ تفہیم پیش کرنا ممکن ہے۔ اس لیے ہمیں ہمیشہ اپنے شیعہ بھائیوں کو اس پس منظر کے حوالے سے یاد دلانا چاہیے جس میں غدیر خم کی حدیث کہی گئی تھی۔
شیعہ کا دعویٰ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم نامی جگہ پر علی ( رضی اللہ عنہ ) کو اپنا جانشین مقرر کیا تھا۔ اس سے پہلے کہ ہم اپنے شیعہ بھائیوں کے ساتھ واقعہ غدیر خم پر بحث کریں، ہمیں پہلے اس طرح کی بحث کی حدود متعین کرنی چاہیے۔ دوسرے الفاظ میں، ہمیں“set the stakes”" کرنا چاہئے:
(1) اگر شیعہ غدیر خم کے اپنے بیانیہ کو ثابت کرسکتے ہیں تو یقیناً علی (رضی اللہ عنہ ) کو پیغمبر اکرم ( صلی اللہ علیہ و آلہ وسلم) نے الله تعالی کی طرف سے (امام / خلیفه ) مبعوث کیا تھا اور شیعہ مسلک صحیح ہے۔
(2) البتہ اگر اہل سنت اس خیال کو غلط ثابت کرتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے علی رضی اللہ عنہ کو غدیر خم میں (امام / خلیفه) مبعوث کیا ہے تو ہمارے شیعہ بھائیوں کو اس پر آمادہ ہونا چاہیے۔ اس حقیقت کو قبول کریں کہ علی رضی اللہ عنہ کو کبھی بھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف سے مقرر نہیں کیا گیا تھا اور اس لیے پورا شیعہ عقیدہ باطل ہے۔
ہمیں اس بات کو شروع سے ہی واضح کرنے کی ضرورت یہ ہے کہ شیعہ پروپیگنڈہ کرنے والوں کے پاس یہ غیر معمولی صلاحیت ہے کہ جب بھی وہ کسی بحث میں ہار جاتے ہیں تو گول پوسٹوں (goal posts) کو حرکت دیتے ہیں۔ وہ ایک موضوع سے دوسرے موضوع پر جائیں گے۔ اگر وہ غدیر خم کی بحث میں ہار گئے تو "دروازے[260] کا واقعہ" پیش کریں گے یا "سقیفہ[261]" یا "فدک"[262] یا کون جانے اور کیا ہے!(شیعہ سوالوں کے جوابات- لنک[263])
شیعہ مذہب کی پوری بنیاد واقعہ غدیر خم پر ہے کیونکہ ان کے مطابق یہیں پر رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ) نے علی (رضی اللہ عنہ ) کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ اگر یہ شیعوں کے دعوے کے مطابق درست نہیں، تو پیغمبرﷺ نے کبھی بھی علی رضی اللہ عنہ کو اپنے بعد حکمران نامزد نہیں کیا تو شیعہ کو اپنے تمام دعووں کو ترک کرنا چاہیے، جیسا کہ ابوبکر (رضی اللہ) کے متعلق ان کا کا خیال کہ انہوں ںے علی رضی اللہ عنہ کی اللہ کی مقرر کردہ خلافت پر قبضہ کر لیا ۔
درحقیقت، غدیر خم کا واقعہ شیعہ مذھب کے لیے اس قدر مرکزی حیثیت رکھتا ہے اور شیعہ الہیات کے لیے اس قدر اہم ہے کہ شیعہ عوام ایک سالانہ جشن مناتے ہیں جسے "عید غدیر" کہا جاتا ہے۔
شیعہ دعووں کے برعکس "غدیر خم" [264]کی حدیث کا خلافت یا امامت سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ اس کے بجائے، پیغمبرﷺ صرف علی رض کی حمایت میں لوگوں کے ایک گروہ کی تردید کر رہے تھے جوعلی رض پر سخت الفاظ میں تنقید کر رہے تھے ۔ اس بنا پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں کو تاکید کی کہ علی رض رسول اللہ ﷺ کی طرح تمام مسلمانوں کے مولا (پیارے دوست) ہیں۔ ان پر اور ان کے اہل و عیال پر رحمت نازل فرما )۔ اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم علی رض کو خلیفہ کے طور پر نامزد کرنا چاہتے تو آپ ﷺ مکہ اور باقی مسلمانوں سے 250 کلومیٹر دور صحرا کے وسط[265] میں مدینہ واپسی کے سفر کے بجائے مکہ میں اپنے الوداعی خطبہ حج میں ایسا کیا ہوتا جہاں تمام علاقوں سے مسلمانوں کا جم غفیر موجود تھا-
شیعہ کا دعویٰ ہے کہ یہاں لفظ "مولا" کا مطلب "آقا" (Master) ہے۔ اس لفظ کے اس غلط ترجمہ پر مبنی ہے کہ وہ دعویٰ کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو اپنا جانشین نامزد کیا تھا۔ درحقیقت، لفظ "مولا" - بہت سے دوسرے عربی الفاظ کی طرح, متعدد ممکنہ تراجم ہیں۔ شیعہ عام آدمی یہ جان کر حیران رہ سکتا ہے کہ واقعی لفظ "مولا" کی سب سے عام تعریف دراصل "خادم" ہے نہ کہ "آقا"۔ ایک سابق غلام جو نوکر بن جاتا ہے اور جس کا کوئی قبائلی تعلق نہیں ہے اسے مولا کہا جاتا تھا، جیسے سلیم جسے سالم مولا ابی حذیفہ کہا جاتا تھا کیونکہ وہ ابو حذیفہ کا خادم تھا۔
لفظ "مولا" کی مختلف تعریفیں دیکھنے کے لیے صرف عربی لغت کھولنے کی ضرورت ہے۔
عربی لغت کی مشہور و مستند ترین کتاب "القاموس المحیط" میں اس لفظ مولیٰ کے مندرجہ ذیل ۲۱ معنی لکھے ہیں۔ المولى: (1) المالك(2) والعبد(3) والعتق(4) والمعتق(5) والصاحب(6) والقريب كابن العم ونحوه(7) والجار(8) والحليف(9) والابن(10) والعم(11) والنزيل(12) والشريك(13) وابن الاخت(14) والولى(15) والرب(16) والناصر(17) والمنعم(18) والمنعم عليه(19) والمحب(20) والتابع(21) والصهر
ان تمام الفاظ کا ترجمہ مصباح اللغات کی عبارت میں قاری ملاحظہ فرمائیں گے) اور عربی لغت کی دوسری مستند و معروف کتاب "اقرب الموارد" میں بھی لفظ مولیٰ کے یہی سب معنی لکھے گئے ہیں۔
لغت حدیث کی مشہور و مستند ترین کتاب "النهاية لابن الاثير الجزري فى غريب الحديث والاثر[266]" میں بھی قریبا یہ سب معنی لکھے گئے ہیں، علامہ طاہر پٹنی نے مجمع بحار الانوار میں نہایہ ہی کے حوالہ سے اس کی پوری عبارت نقل کر دی ہے۔
اسی طرح النھایہ میں لفظ مولا کے مختلف معانی بیان کیے گئے ہیں۔
رب (پرورش کرنیوالا) , مالک۔ سردار, انعام کرنیوالا, آزاد کرنیوالا, مدد گار, محبت کرنیوالا, تابع (پیروی کرنے والا), پڑوسی, ابن العم (چچا زاد), حلیف (دوستی کا معاہدہ کرنیوالا ), عقید (معاہدہ کرنے والا ), صھر (داماد، سسر ) , غلام, آزاد شدہ غلام, جس پر انعام ہوا, جو کسی چیز کا مختار ہو۔ کسی کام کا ذمہ دار ہو۔ اسے مولا اور ولی کہا جاتا ہے, جس کے ہاتھ پر کوئی اسلام قبول کرے وہ اس کا مولا ہے یعنی اس کا وارث ہوگا وغیرہ۔ (ابن اثير، النهايه، 5 : 228)[267]
مصباح اللغات جس میں عربی الفاظ کے معنی اردو زبان میں لکھے گئے ہیں، اس میں قریب قریب ان سب الفاظ کا ترجمہ آ گیا ہے جو "القاموس المحیط" اور "اقرب الموارد" وغیرہ مندرجہ بالا کتابوں میں لکھے گئے ہیں، ہم اس کی عبارت بعینہٖ ذیل میں درج کرتے ہیں: المولی = مالک و سردار، غلام آزاد کرنے والا، آزاد شدہ، انعام دینے والا جس کو انعام دیا جائے، محبت کرنے والا، ساتھی۔ حلیف پڑوسی، مہمان، شریک، بیٹا، چچا کا بیٹا، بھانجا، چچا، داماد، رشدہ دار، والی، تابع۔
قرآن اور احادیث کے مطالعہ سے بھی معلوم ہوتا ہے کہ "مولا" مختلف معنی میں استعمال ہوا ہے زیادہ تر مددگار -
تحقیق کے مطابق لفظ "مولا "، قرآن میں 18 مرتبہ[268] مختلف صورت میں (مَوْلَاهُ ، مَوْلًى، مَوْلَاكُمْ، مَوْلَانَا،مَوْلَاهُمُ) استعمال ہوا ہے- 14 مرتبہ بمعنی: مددگار، حفاظت کرنے والا (protector)، دو مرتبہ رشتہ دار (relation) ایک مرتبہ آقا (master, 74:14), ایک مرتبہ (,10:30, [269]True Master ,Lord)- زیادہ تر: اللہ بہترین مددگار ہے -
يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَن مَّوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ﴿٤١﴾
جس دن کوئی دوست (مَوْلًى) کسی دوست (مَّوْلًى) کے کچھ کام نہیں آئے گا اور نہ ہی اُن کی مدد کی جائے گی۔ (قرآن:44:41)[270] مگر وہ جس پر اللہ رحم کرے ... (قرآن:44:42)
انسانوں کی دوستی اور مدد اس دنیا کے لئے ہے ، صرف اللہ ہی حقیقی مولا ہے- اس دنیا میں الله تعالی کے علاوہ انسان بھی ایک دوسرے کے مولا / مددگار /دوست ہو سکتے ہیں، مگر آخرت میں صرف مولا اللہ ہے
بَلِ اللّٰہُ مَوۡلٰىکُمۡ ۚ وَ ہُوَ خَیۡرُ النّٰصِرِیۡنَ
تمہارا مولیٰ تو اللہ ہے اور وہ بہترین مددگار[271] ہے ﴿ قرآن :3:150﴾[272]
اللَّهُ وَلِيُّ الَّذِينَ آمَنُوا (البقرة: 257) جو لوگ ایمان لائے ان کا دوست الله ہے
إِنَّ وَلِيِّيَ اللَّهُ ( الأعراف/ 196) میرا مددگار تو الله ہی ہے ۔
وَاللَّهُ وَلِيُّ الْمُؤْمِنِينَ ( آل عمران/ 68) اور الله مومنوں کا کار ساز ہے ۔
ذلِكَ بِأَنَّ اللَّهَ مَوْلَى الَّذِينَ آمَنُوا (محمد/ 11) یہ اسلئے کہ جو مومن ہیں ان کا الله کار ساز ہے ۔
نِعْمَ الْمَوْلى وَنِعْمَ النَّصِيرُ (الأنفال/ 40) (الله) خوب حمائتی (نِعْمَ الْمَوْلى) اور خوب مددگار ہے ۔
وَاعْتَصِمُوا بِاللَّهِ هُوَ مَوْلاكُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلى (الحج/ 78) اور اللہ کے دین کی رسی کو مضبوط پکڑے رہو وہی تمہارا دوست (مولا) ہے اور خوب (الْمَوْلى) دوست ہے ۔
قُلْ يا أَيُّهَا الَّذِينَ هادُوا إِنْ زَعَمْتُمْ أَنَّكُمْ أَوْلِياءُ لِلَّهِ مِنْ دُونِ النَّاسِ (الجمعة/ 6) کہدو کہ اے یہود اگر تم کو یہ دعوٰی ہو کہ تم ہی اللہ کے دوست ہو اور لوگ نہیں ۔
وَإِنْ تَظاهَرا عَلَيْهِ فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلاهُ ( التحریم/ 4) اور پیغمبر ( کی ایزا ) پر باہم اعانت کردگی تو اللہ ان کے (مَوْلاهُ ) حامی اور ودست دار ہیں ۔
ثُمَّ رُدُّوا إِلَى اللَّهِ مَوْلاهُمُ الْحَقِ ( الأنعام/ 62)
فَإِنَّ اللَّهَ هُوَ مَوْلَاهُ وَجِبْرِيلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ وَالْمَلَائِكَةُ بَعْدَ ذَلِكَ ظَهِيرٌ(قرآن: 66:4)
’’سو بے شک اللہ ہی اُن (رسول اللہ ﷺ) کا مَوْلَاهُ (دوست و مددگار ہے)، اور جبریل اور صالح مومنین (وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ) بھی اور اس کے بعد (سارے) فرشتے بھی (اُن کے) مددگار ہیں۔‘‘
یہاں پر 'مولا' 'مدد گار' کے معنی میں استعمال ہوا ہے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مدد گار (مولا ) کون کون ہیں :
1)اللہ تعالیٰ، 2) جبریل علیہ السلام، 3) نیک مسلمان /صَالِحُ الْمُؤْمِنِينَ 4) تمام فرشتے
الله تعالی مومنین کا مولا ہے اور اللہ کے اس فرمان کے مطابق رسول اللہ ﷺ کے مولا (مددگاروں) میں "صالح مومنین" بھی شامل ہیں -
کون "صالح مومنین" ہیں؟
ہم بظاہر اندازہ لگا سکتے ہیں مگر اصل باطنی حقیقت کا علم صرف الله تعالی کو ہے کہ عالم الغیب ہے- اب ذرا واپس "حصہ اول" کو چلتے ہیں، جب اللہ تعالی ںے کچھ مومنین حضرات کو اس دنیا میں بزریعہ رسول اللہ ﷺ جنت کی بشارت دے دی اور قرآن میں بھی ان کا ذکر فرمایا کہ الله تعالی السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ سے راضی ہو گیا- تو یہ "صالح مومنین" رسول اللہﷺ کے "مولا " ہیں- ان کی نشاندہی کرنا مشکل نہیں یہ ہیں :
وَ السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ مِنَ الۡمُہٰجِرِیۡنَ وَ الۡاَنۡصَارِ وَ الَّذِیۡنَ اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ ۙ رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ وَ رَضُوۡا عَنۡہُ وَ اَعَدَّ لَہُمۡ جَنّٰتٍ تَجۡرِیۡ تَحۡتَہَا الۡاَنۡہٰرُ خٰلِدِیۡنَ فِیۡہَاۤ اَبَدًا ؕ ذٰلِکَ الۡفَوۡزُ الۡعَظِیۡمُ (قرآن 9:100)
وہ مہاجر اور انصارجنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے "احسن طریق"[273] پر ان کی پیروی کی ، اللہ ان سب سے "راضی ہوا" اور وہ اللہ سے راضی ہوئے ا للہ نے ان کے لئے ایسے باغات تیارکررکھے ہیں جن میں نہریں جاری ہیں وہ ان میں ہمیشہ رہیں گے یہی بہت بڑی کامیابی ہے(قرآن 9:100)
چاروں خلفاء راشدین عشرہ مبشرہ ہیں جس کو شیعہ نہیں مانتے مگرچاروں کو قرآن سے رسول اللہ ﷺ کے مولا ہونے کی بشارت مل جاتی ہے - لہذا اگر یہ نتیجہ نکالا جانے کہ (السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ) جن میں خلفاء راشدین اور دوسرے صحابہ کرام بھی شامل ہیں وہ بھی رسول اللہ ﷺ کے مولا ہیں تو یہ غلط نہ ہو گا-
شیعہ[274] حضرات کی دلیل جس میں وہ "مولا " کا مطلب خلافت / حکمرانی سمجھتے یا جو کچھ بھی سمجھا جایے وہ صرف ایک فرد تک محدود نہیں کم از کم چار(خلفاء راشدين (رضی الله عنھم ) بلکہ زیادہ صحابہ و صالح مومنین پر منطبق، لاگو ہو جاتا ہے- اس کے علاوہ خلفاء راشدین کے فضائل پربہت زیادہ احادیث بھی موجود ہیں - لیکن اگر کسی کو بغض ، پرخاش ہے اور کوئی دلیل نہیں قبول کرنا تو اس کا فیصلہ الله تعالی بروز قیامت فرمائیں گے- ہمیں یھاں نیک اعمال میں ایک دوسرے سے سبقت کی کوشش کرنا چاہینے[275]-
يَوْمَ لَا يُغْنِي مَوْلًى عَن مَّوْلًى شَيْئًا وَلَا هُمْ يُنصَرُونَ ﴿٤١﴾
جس دن کوئی دوست (مَوْلًى) کسی دوست (مَّوْلًى) کے کچھ کام نہیں آئے گا اور نہ ہی اُن کی مدد کی جائے گی۔ (قرآن:44:41)[276]
ان آیات قرآن سے ظاہر ہوتا ہے کہ "مولا " کسی صورت میں انسان کی دنیا میں بادشاہت یا حکمران کے طور پر استعمال نہیں ہوا-
فرقان تو قرآن ہے- اب احادیث پیربھی نظر ڈالتے ہیں- خاص طور پر:
"غلام اپنے آقا سے (مَوْلَايَ فَإِنَّ مولاكم اللَّهُ) میرے مولا نہ کہے ، کیونکہ تمہارا مولا اللہ ہے ۔‘‘ (رواہ مسلم ) (مشکوٰۃ حدیث 4760)[277]
یہ حدیث "مولا " کو انسانوں کے لئے استعمال کرنے کومنع / منسوخ کرتی ہے جو کہ قرآن کی مندرجہ بالا آیات کے مطابق ہے (واللہ اعلم )
تو کیا حدیث ثقلین میں لفظ 'مولا' منسوخ ہو جاتا ہے؟
وَيَقُولُ: يَا بُنَيِّ إِنْ عَجَزْتَ عَنْهُ فِي شَيْءٍ فَاسْتَعِنْ عَلَيْهِ مَوْلَايَ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا دَرَيْتُ مَا أَرَادَ حَتَّى، قُلْتُ: يَا أَبَتِ مَنْ مَوْلَاكَ، قَالَ: اللَّهُ، قَالَ: فَوَاللَّهِ مَا وَقَعْتُ فِي كُرْبَةٍ مِنْ دَيْنِهِ إِلَّا، قُلْتُ: يَا مَوْلَى الزُّبَيْرِ اقْضِ عَنْهُ دَيْنَهُ فَيَقْضِيهِ
"...... عبداللہ بن زبیر نے بیان کیا کہ پھر زبیر ؓ مجھے اپنے قرض کے سلسلے میں وصیت کرنے لگے اور فرمانے لگے کہ بیٹا! اگر قرض ادا کرنے سے عاجز ہوجاؤ تو میرے "مالک و مولا" سے اس میں مدد چاہنا۔ عبداللہ نے بیان کیا کہ قسم اللہ کی! میں ان کی بات نہ سمجھ سکا ‘ میں نے پوچھا کہ (قُلْتُ: يَا أَبَتِ مَنْ مَوْلَاكَ، قَالَ: اللَّهُ، ) بابا آپ کے "مولا" کون ہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ اللہ پاک! عبداللہ نے بیان کیا ‘ قسم اللہ کی! قرض ادا کرنے میں جو بھی دشواری سامنے آئی تو میں نے اسی طرح دعا کی ‘ کہ اے زبیر کے مولا! ان کی طرف سے ان کا قرض ادا کرا دے اور ادائیگی کی صورت پیدا ہوجاتی تھی۔ ... (البخاری, حدیث 3129)[278] ,(نسائی 5460, 5540) (معارف الحدیث 583)
ہم سب کا مولیٰ اللہ عزوجل ہے
غلام اپنے آقا (سید) کو میرا مولیٰ نہ کہے تمہارا سب کا مولیٰ اللہ عزوجل ہے۔( ماخوز ،صحیح مسلم، حدیث: 5876)[279](مشکوٰۃ، 4760)
حدیث سے اقتباس ----
رسول اللہ ﷺ ںے:
1) پھر علی ؓ سے فرمایا (وَقَالَ لِعَلِيٍّ: أَنْتَ مِنِّي وَأَنَا مِنْكَ، ) کہ تم مجھ سے ہو اور میں تم سے ہوں۔ [ علی ؓ کو مولا نہیں کہا گیا ]
2) جعفر ؓ سے فرمایا (وَقَالَ لِجَعْفَرٍ: أَشْبَهْتَ خَلْقِي وَخُلُقِي) کہ تم صورت اور عادات و اخلاق سب میں مجھ سے مشابہ ہو۔
3) زید ؓ سے فرمایا کہ (وَقَالَ لِزَيْدٍ: أَنْتَ أَخُونَا وَمَوْلَانَا.) تم ہمارے بھائی بھی ہو اور ہمارے مولا بھی۔[280]
(زید ؓ بن حارثہ ، آزاد کردہ غلام ) (صحيح البخاری حدیث نمبر 2699) ،
مزید احادیث ، آزاد کردہ غلام کو "مولا" کہنا :(ماجہ : 6330, 6100, 662,1922) (موتا امام ملک 1497, 1685)
ریاح بن حارث کہتے ہیں کہ ایک گروہ " رحبہ " میں حضرت علی ؓ کے پاس آیا اور کہنے لگا " السلام علیک یا مولانا " حضرت علی ؓ نے فرمایا کہ میں تمہارا مولا کیسے ہوسکتا ہوں جبکہ تم عرب قوم ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہم نے نبی کریم ﷺ کو غدیر خم کے مقام پر یہ کہتے ہوئے سنا ہے کہ میں جس کا مولا ہوں علی بھی اس کے مولا ہیں جب وہ لوگ چلے گئے تو میں بھی ان کے پیچھے چل پڑا اور میں نے پوچھا کہ یہ لوگ کون ہیں؟ لوگوں نے بتایا کہ یہ کچھ انصاری لوگ ہیں جن میں حضرت ابوایوب انصاری ؓ بھی شامل ہیں۔ گذشتہ حدیث اس دوسری سند سے بھی مروی ہے[281]۔ ( مسند امام احمد - حدیث نمبر 22465)
اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا حضرت علی رض کو اپنا مولا کہنا عوامی طور پران سے یکجہتی , محبت اور قربت کا اعزاز و اظہار تھا-
معلوم ہونا چاہئے کہ قرآن پاک کی کسی آیت یا حضور ﷺ کے کسی ارشاد میں یا کسی بھی فصیح و بلیغ کلام میں جب کوئی کثیر المعنی لفظ استعمال ہو تو خود اس میں یا اس کے سیاق و سباق میں ایسا قرینہ موجود ہوتا ہے جو اس لفظ کے معنی اور اس کی مراد متعین کر دیتا ہے (جیسا کہ پہلے مثالوں سے ظاہر ہے).... اس زیر تشریح حدیث میں خود قرینہ موجود ہے، جس سے اس حدیث کے لفظ مولیٰ کے معنی متعین ہو جاتے ہیں، حدیث کا آخری دعائیہ جملہ ہے "اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" (اے اللہ جو علی سے دوستی اور محبت رکھے تو اس سے دوستی اور محبت فرما، اور جو اس سے دشمنی رکھے، تو اس کے ساتھ دشمنی کا معاملہ فرما)۔ اس سے متعین طور پر معلوم ہو جاتا ہے کہ حدیث میں لفظ مولیٰ دوست اور محبوب کے معنی میں استعمال ہوا ہے، اور "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" کا مطلب وہی ہے جو اوپر تشریح میں بیان کیا گیا ہے۔ پھر آنحضرت ﷺ کی وفات کے بعد جو کچھ ہوا، وہ اس بات کی روشن اور قطعی دلیل ہے کہ غدیر خم کے صحابہ کرام کے اس مجمع میں کسی فرد نے، خود حضرت علی مرتضیٰؓ اور ان کے قریب ترین حضرات نے بھی حضور کے اس ارشاد کا مطلب یہ نہیں سمجھا تھا کہ آنحضرت ﷺ اپنے بعد کے لئے ان کی خلافت و حاکمیت اور امت کی امامت عامہ کا اعلان فرما رہے ہیں، اگر خود حضرت علی مرتضیٰؓ نے اور ان کے علاوہ جس نے بھی ایسا سمجھا ہوتا، تو ان کا فرض تھا کہ جس وقت خلافت کا مسئلہ طے ہو رہا تھا تو یہ لوگ کہتے کہ ابھی صرف ستر (70) بہتر (72) دن پہلے غدیر خم کے موقعہ پر حضور ﷺ نے حضرت علیؓ کو اپنا خلیفہ اور جانشین بنا دیا تھا اور اہتمام سے اس کا اعلان فرمایا تھا الغرض یہ مسئلہ خود حضورﷺ طے فرما گئے ہیں اور حضرت علیؓ کو اپنے بعد کے لئے خلیفہ نامزد فرما گئے ہیں، اب وہی حضورﷺ کے خلیفہ اور آپﷺ کی جگہ امت کے حکمران اور سربراہ ہیں ....
اس طرح یہ حقیقت میں ناقابل یقین ہے کہ شیعہ اس کا ترجمہ خلیفہ اور امام سے کر سکتے ہیں جبکہ سیاق و سباق کا اس سے کوئی تعلق نہیں ہے۔
الجزری نے النہایہ میں کہا:
حدیث میں لفظ مولا کثرت سے آیا ہے اور یہ ایک ایسا نام ہے جس کا اطلاق بہت سے لوگوں پر ہوتا ہے۔ یہ رب، مالک، آقا، احسان کرنے والے، غلام کو آزاد کرنے والے، حمایتی، دوسرے سے محبت کرنے والے، پیروکار، پڑوسی، چچا زاد بھائی سے مراد ہو سکتا ہے۔ پھوپھی)، حلیف، سسر، غلام، آزاد کردہ غلام، جس پر احسان کیا ہو۔ ان میں سے زیادہ تر معانی مختلف احادیث میں مذکور ہیں، لہٰذا اسے حدیث امامت یا خلافت کا مطلب نکلنا درست نہیں- اتنے اہم عقیده کو رسول اللہﷺ کھول کر واضح بیان فرماتے نہ کہ مبہم انداز میں، دراصل انہوں صف بات کی جس کو غلط معنی پہنانے کی کوشش بے سود ہے-
یہ حقیقت کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رض کو "مولا" (پیارے دوست) کے طور پر حوالہ دیا ہے، علی رض کی بطور خلیفہ نامزدگی کے ثبوت کے طور پر استعمال نہیں کیا جا سکتا ۔ اسی طرح بہت سے دوسرے صحابہ کی تعریف کی گئی تھی، لیکن کوئی بھی ان نصوص کو یہ نہیں سمجھتا ہے کہ یہ دوسرے صحابہ کرام الہٰی مقرر کردہ معصوم امام ہیں۔ آئیے مثال کے طور پر عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے متعلق حدیث کی مثال لیتے ہیں ۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میرے بعد حق عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ ہے وہ جہاں کہیں بھی ہیں۔ (حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میرے بعد کوئی نبی ہوتا تو وہ عمر بن الخطاب ہوتا۔ (سنن الترمذی)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "سب سے پہلے جس سے حق مصافحہ کرے گا وہ عمر رضی اللہ عنہ ہیں" (ابی بن کعب رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں)
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم سے پہلے امتوں میں الہام ہوئے اور اگر میری امت میں کوئی ہے تو وہ عمر ہیں۔ (ابوہریرہ رضی اللہ عنہ روایت کرتے ہیں)
اس طرح کی احادیث سب صحابہ کی سربلندی، فضائل کے دلائل ضرور ہیں لیکن ان سے خلافت کے لیے پیغمبری کی نامزدگی نہیں ہوتی اور یہ یقینی طور پر اللہ کی طرف سے تقرری کا کوئی احساس نہیں دلاتے ہیں۔
اب ہم حدیث میں دوسرا اضافہ دیکھتے ہیں، یعنی: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو اس سے دوستی رکھے اس سے دوستی کرو اور جو اس سے دشمنی رکھے اس سے دشمنی کرو۔
شیعہ پھر اس حدیث کو ان صحابہ پر تنقید کرنے کے لیے استعمال کریں گے جنہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے بحث کی تھی ، اور کیا وہ یہ نہیں جانتے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے دوسرے صحابہ کے بارے میں بھی ایسی ہی باتیں کہی ہیں؟ مثال کے طور پر ہم درج ذیل حدیث پڑھتے ہیں:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو عمر سے ناراض ہے وہ مجھ سے ناراض ہے۔ جو عمر سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے محبت کرتا ہے۔ (طبرانی)
درحقیقت رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات صرف علی رضی اللہ عنہ اور عمر رضی اللہ عنہ کے بارے میں ہی نہیں بلکہ اپنے تمام صحابہ کے بارے میں کہی ہے :
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ، اللہ! میرے صحابہ کے بارے میں اس سے ڈرو! میرے بعد انہیں نشانہ نہ بنانا! جو ان سے محبت کرتا ہے وہ مجھ سے اپنی محبت کے ساتھ ان سے محبت کرتا ہے۔ اور جو ان سے نفرت کرتا ہے اس نے مجھ سے بغض رکھتے ہوئے ان سے نفرت کی۔ جو ان کے لیے دشمنی رکھتا ہے، وہ میرے لیے دشمنی رکھتا ہے۔ اور جس نے میری دشمنی کی اس نے اللہ کے لیے دشمنی کی۔ جو اللہ کے لیے دشمنی کرے گا وہ ہلاک ہونے والا ہے۔‘‘ (ترمذی نے عبداللہ بن مغفل سے روایت کی ہے، احمد نے اپنی مسند میں تین اچھی سندوں کے ساتھ، البخاری نے اپنی تاریخ میں، بیہقی نے شعب الایمان میں، اور دیگر۔ سیوطی نے اسے حسن قرار دیا ہے۔ جامع الصغیر 1442)۔
شیعہ نے غدیر خم کے واقعہ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا ہے۔ غدیر خم کی حدیث کا امامت یا خلافت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح طور پر یہ بیان کرنے سے کوئی چیز نہیں روکتی تھی کہ بجائے اس کے کہ لفظ "مولا" استعمال کیا جائے جسے ہر کوئی جانتا ہے۔ مطلب "پیارے دوست"۔ مزید برآں، اور اس نکتے پر کافی زور نہیں دیا جا سکتا، غدیر خم[282] مکہ سے 250 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو نامزد کرنے کا ارادہ کیا ہوتا تو آپ بڑے اجتماع میں ایسا کرتے۔ عرفات کی چوٹی پر اپنے الوداعی خطبہ کے دوران ہر شہر کے تمام مسلمانوں کے سامنے۔
پورا شیعہ بیانیہ اس ناقص اور آسانی سے قابل تردید خیال پر مبنی ہے کہ "غدیر خم" ایک مرکزی مقام تھا جہاں تمام مسلمان علیحدگی اور اپنے اپنے گھروں کو جانے سے پہلے اکٹھے ہوتے تھے۔ درحقیقت صرف مدینہ کی طرف جانے والے مسلمان ہی غدیر خم سے گزریں گے، نہ کہ مکہ، طائف، یمن وغیرہ میں رہنے والے مسلمان۔ چند سو سال پہلے عوام کو آسانی سے گمراہ کیا جا سکتا تھا کیونکہ غدیر خم کہاں ہے یہ معلوم کرنے کے لیے نقشے کی دستیابی آسان نہ تھی اور انھوں نے محض اس تصور کو قبول کیا ہوگا کہ یہ مسلمانوں کے الگ ہونے سے پہلے ان کے لیے ملاقات کی جگہ تھی۔ لیکن آج انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور میں درست نقشے ہماری انگلیوں پر ہیں اور کسی بھی معقول شخص کو خرافات سے بیوقوف نہیں ہونا چاہیے۔
ہم نے دکھایا ہے کہ رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے علی (رضی اللہ عنہ ) کو غدیر خم میں شیعہ دعویٰ کے طور پر نامزد نہیں کیا تھا (اور نہ ہو سکتا تھا )۔ یہی شیعوں کی بنیاد ہے جس کے بغیر ان کے عقیدے کی کوئی بنیاد نہیں ہے: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کے لیے نامزد نہ کیا تو پھر شیعہ مزید دعویٰ نہیں کر سکتے۔ کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) نے علی (رضی اللہ عنہ) کے خدائی طور پر طے شدہ عہدہ کو غصب کیا ۔ اور اس کے ساتھ ہی پوری شیعیت اپنے آپ پر ٹوٹ پڑتی ہے، یہ سب کچھ غدیر خم کو مکہ سے الگ کرنے اور شیعیت کو حقیقت سے الگ کرنے کے لیے ایک بے حساب 250 کلومیٹر کی وجہ سے ہے-
یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ نہ حضرت علیؓ نے یہ بات (مولا ) کہی اور نہ کسی اور نے، سبھی نے حضرت ابو بکر صدیقؓ کو آنحضرت ﷺ کا خلیفہ اور جانشین تسلیم کر کے بیعت کر لی۔
بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر شیعہ علماء کی یہ بات مان لی جائے کہ حضورﷺ نے غدیر خم کے اس خطبہ میں "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" فرما کر حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت و جانشینی صاف صاف اعلان فرمایا تھا تو معاذ اللہ حضرت علی ؓ سب سے بڑے مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے حضور ﷺ کی وصال کے بعد اس کی بنیاد پر خلافت کا دعویٰ کیوں نہیں فرمایا؟
ان کا فرض تھا کہ حضور ﷺ کی اس تجویز کی تنقید اور اس فرمان و اعلان کو عمل میں لانے کے لئے میدان میں آتے اگر کوئی خطرہ تھا تو اس کا مقابلہ فرماتے۔
یہی بات حضرت حسن ؓ کے پوتے حسن مثلث[283] (حضرت ابو علی حسن مثلث بن حسن مثنی بن حسن سبط بن علی بن ابی طالب ہاشمی قریشی (77ھ – 145ھ) نے اس شخص کے جواب میں فرمائی تھی جو حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں رافضیوں والا غالیانہ عقیدہ رکھتا تھا اور حضور ﷺ کے ارشاد (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) کے بارے میں کہتا تھا کہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرتﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ نامزد فرمایا تھا، تو حضرت حسن مثلث نے اس شخص سے فرمایا تھا:
ولو كان الامر كما تقولون ان الله جل وعلى ورسوله صلى الله عليه وسلم اختار عليا لهذا الامر والقيام على الناس بعده فان عليا اعظم الناس خطيئة وجر ما اذ ترك امر رسول الله صلى الله عليه وسلم۔
ترجمہ: اگر بات وہ ہو جو تم لوگ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علیؓ کو رسول کے بعد خلافت کے لئے منتخب اور نامزد فرما دیا تھا تو علیؓ سب سے زیادہ خطاکار اور مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ اور جب اس شخص نے حضرت حسن مثلث رح سے یہ بات سن کر اپنے عقیدہ کی دلیل میں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" کا حوالہ دیا تو حضرت حسن مثلث رح نے فرمایا:
"اما و الله لو" يعني رسول الله صلى الله عليه و سلم بذالك الامر و السلطان و القيام على الناس لا فصح به كما افصح بالصلاة و الزكاة و الصيام و الحج ولقال ايها الناس ان هذا الولي بعدي اسمعوا واطيعوا.
تشریح: سن لو! میں اللہ کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کا مقصد علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ اور حاکم بنانا ہوتا تو بات آپ ﷺ اسی طرح صراحت اور وضاحت سے فرماتے جس طرح آپ ﷺ نے نماز، زکوٰۃ، روزوں اور حج کے بارے میں صراحت اور وضاحت سے فرمایا ہے اور صاف صاف یوں فرماتے کہ اے لوگو! یہ علی میرے بعد ولی الامر اور حاکم ہوں گے لہٰذا تم ان کی بات سننا اور اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔[284]
حضرت ابو علی حسن مثلث بن حسن مثنی بن حسن سبط بن علی بن ابی طالب ہاشمی قریشی (77ھ – 145ھ) کا فرمان، (قرآن 3:7)[285] کے عین مطابق ہے، احکام، ذو معنی الفاظ احادیث سے نہیں، قرآن میں واضح ترین الفاظ میں دیے جاتے ہیں، رسول اللہ ﷺ ان کی تفصیل بتلاتے ہیں تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہ جاینے- احکام پرعمل کرنے یا نہ کرنے پر جنت و دوذخ کا فیصلہ ہونا ہے یہ دو ٹوک ہوتے ہیں- جو کوئی (قرآن 3:7) کو نظر انداز کرے گا وہ گمراہی سے بچ نہیں سکتا، تمام فرقے، تمام بدعة ، ضلالہ ، فتنہ کی جڑ (قرآن 3:7) کو نظر انداز کرکہ اپنی تاویلات کرنا ہے-
حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(ترمذی 2906)
امامت کا شیعہ عقیده قرآن میں موجود نہیں-
رسول اللہ ﷺ کا مقصد اس ارشاد سے کیا تھا؟
اس کے بعد یہ بات وضاھت طلب رہ جاتی ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ کا مقصد اس ارشاد سے کیا تھا اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں اس خطاب میں آپ ﷺ نے یہ بات کس خاص وجہ سے اور کس غرض سے فرمائی؟
جیسا کہ پہلے ذکر کیا، اصل واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع سے کچھ عرصہ پہلے حضرت علی مرتضیٰؓ کو قریبا تین سو افراد کی جمیعت کے ساتھ یمن بھیج دیا تھا، وہ حجۃ الوداع میں یمن سے مکہ مکرمہ آ کر ہی رسول اللہ ﷺ سے ملے تھے، یمن کے زمانہ قیام میں ان کے چند ساتھیوں کو ان کے بعض اقدامات سے اختلاف ہوا تھا، وہ لوگ بھی حجۃ الوداع میں شرکت کے لئے ان کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ آئے تھے، یہاں آ کر ان میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے بھی اپنے احساس و خیال کے مطابق حضرت علیؓ کی شکایت کی اور دوسرے لوگوں نے بھی ذکر کر دیا ..... بلا شبہ یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ آنحضرت ﷺ سے جن لوگوں نے شکایت کی، رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کا عنداللہ اور دین میں جو مقام و مرتبہ ہ ان کو بتلا کر اور ان کے اقدامات کی تصویب اور توثیق فرما کر ان کے خیالات کی اصلاح فرما دی، لیکن بات دوسرے لوگوں تک بھی پہنچ چکی تھی، شیطان ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھا کر دلوں میں کدورت اور افتراق پیدا کر دیتا ہے۔
آنحضرت ﷺ کو جب اس صورت حال کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے ضرورت محسوس فرمائی کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبوبیت اور مقبولیت کا جو مقام حاصل ہے اس سے عام لوگوں کو آگاہ فرما دیں اور اس کے اظہار و اعلان کا اہتمام فرمائیں .... اسی مقصد سے آپ ﷺ نے غدیر خم کے اس خطبہ میں جس کے لئے آپ ﷺ نے اپنے رفقاء سفر صحابہ کرامؓ کو جمع فرما دیا تھا، خاص اہتمام سے حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر ارشاد فرمایا تھا:
"مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" جیسا کہ تفصیل سے اوپر ذکر کیا جا چکا ہے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ "میں جس کا محبوب ہوں یہ علیؓ بھی اس کے محبوب ہیں لہذا جو مجھ سے محبت کرے اس کو چاہئے وہ ان علی سے بھی محبت کرے"،
آگے آپ ﷺ نے دعا فرمائی، اے اللہ جو بندہ علی سے محبت و موالاۃ کا تعلق رکھے اس سے تو محبت و موالاۃ کا معاملہ فرما اور جو کوئی علی سے عداوت رکھے اس کے ساتھ عداوت کا معاملہ فرما، جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا یہ دعائیہ جملہ اس کا واضح قرینہ ہے کہ اس حدیث میں مولیٰ کا لفظ محبوب ہے اور دوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ..... الخ" کا مسئلہ امامت و خلافت سے کوئی تعلق نہیں۔
حدیث غدیر خم ... مزید تفصیل لنک[286] ....
شیعہ الہیات میں ایک اور تضاد یہ ہے کہ شیعہ اس بات کا دعویٰ کرتے ہیں کہ ان کے امام بطور امام پیدا ہوئے ہیں۔ وہ پیدائش سے پاک ہیں اور اپنی زندگی میں کبھی گناہ نہیں کر سکتے۔ یہ شیعہ عقیدہ کا ایک مرکزی حصہ ہے، اور ایک وجہ ان کا دعویٰ ہے کہ غار میں ایک چھوٹا لڑکا امام مہدی ہونا ہے، کیونکہ وہ خالص پیدا ہوا ہے۔ تو پھر آیت 33:33[287] کیوں نازل ہوگی، جو واضح طور پر اس بات کی طرف اشارہ کرتی ہے کہ علی کو اللہ (عزوجل) ان کے گناہوں سے پاک کر رہا ہے-
سوال یہ ہے کہ اگر وہ معصوم امام پیدا ہوا تو پھر کیسے گناہ گار ہیں؟ ہم عیسائیوں سے پوچھتے ہیں کہ اگر عیسیٰ ( علیہ السلام) بائبل میں اللہ (عزوجل) سے معافی کیوں مانگتے ہیں تو وہ معصوم ہیں؟ ایسی بہت سی بائبل کی آیات ہیں جن میں حضرت (عیسیٰ علیہ السلام) "باپ" سے مغفرت کی دعا کر رہا ہے۔[288] بے شک معصوموں کے پاس معافی یا تزکیہ طلب کرنے کے لیے کوئی گناہ نہیں ہوتا کیونکہ وہ پہلے گناہ نہیں کرتے!
(آیت قرآن :33:33) کا مطلب یہ نہیں ہے کہ تزکیہ ہو چکا ہے، بلکہ یہ واضح طور پر اللہ تعالیٰ کی مرضی پر زور دیتی ہے کہ وہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مخلص بیویوں کو پاک کرے ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے قریبی رشتہ داروں اور دیگر رشتہ داروں کے لیے تزکیہ کی آیت میں شامل ہونے کی دعا کرنے کے لیے بے چین تھے، تاکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا وعدہ کیا گیا ہو۔ اسی طرح انہوں نے سلمان فارسی رضی اللہ عنہ کو بھی اپنی اہل بیت میں شامل کیا۔
اور ہم پوچھتے ہیں کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وسلم) نے علی کے خاندان کو پاکیزہ اور بے داغ بنانے کے لیے کتنی بار اللہ تعالیٰ سے دعا کی؟
شیعہ اہل سنت کی حدیث سے بہت سی مثالیں پیش کرتے ہوئے فخر کے ساتھ متعدد بار دکھائیں گے۔ اور اہل سنت اس بات کو تسلیم کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ ( عز وجل ) سے متعدد بار علی کے خاندان کو پاکیزہ اور بے داغ بنانے کے لیے دعا کی۔ لیکن ہم سوچتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کو اپنے اہل و عیال کی تزکیہ کرنے کی ضرورت کیوں پیش آئی؟
اس لیے بار بار پوچھا کہ اگر وہ معصوم ہوتے اور ان سے کوئی گناہ شروع نہ ہوتا تو اللہ سے معافی مانگنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی ۔
اس طہارت کے لیے بار بار دعا ، درحقیقت، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنے رشتہ داروں کے لیے "پاک اور بے داغ" بننے کی درخواست کرنا ان بہت سی دعاؤں میں سے ایک تھی جو وہ اللہ سے کرتے ۔ یہ وہ چیز ہے جسے ہم "ہر روز کی دعا" کہیں گے جیسا کہ ہمارا مقامی امام اپنی تمام جماعت کی بخشش اور پاکیزگی کے لیے دعا کرتا ہے، یا کیسے ایک ماں اپنے بچوں کی مغفرت اور پاکیزگی کے لیے دعا کرتی ہے۔ ہم میں سے کتنے لوگوں نے اللہ (عزوجل) سے دعا کی ہے : "اے اللہ مجھے میرے گناہوں سے پاک کر اور میرے گھر والوں کو گناہوں سے پاک کر"۔ ہم میں سے ہر ایک کو اللہ تعالیٰ سے یہ سوال کرنا چاہیے ۔ ہم میں سے کتنے لوگ روز بہ روز یہی دعا کرتے ہیں جو ظاہر ہے کہ ہمیں اللہ کی رحمت کی ضرورت ہے، یہ نہیں کہ ہم معصوم ہیں۔
بہر حال، اگر شیعہ کسی طرح ہمیں اس بات پر قائل کر لیں کہ آیت (قرآن :33:33) کسی کو معصوم الخطاء قرار دیتی ہے، تو اس آیت کے ذریعے سب سے پہلے جن کو معصوم الخطاء قرار دیا جائے گا، وہ رسول اللہ ﷺ کی ازواج مطہرات (رضی اللہ عنہم ) ہوں گی کیونکہ وہ وہ آیت (قرآن :33:33) کی مخاطب ہیں۔
1. وہ عائشہ (رضی اللہ عنہا ) کو معصوم تسلیم کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں انہیں ان کے اس قول کو قبول کرنا چاہیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کو بیمار ہونے کی حالت میں نماز کا امام مقرر کیا تھا۔ اس کا مطلب یہ ہوگا کہ خلیفہ اول حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ تھے نہ کہ علی (رضی اللہ عنہ)۔ شیعہ کی طرف سے اس طرح کی رعایت شیعہ مذہب کی ایک بہت اہم بنیاد کو گرا دے گی جس کی جڑ علی (رضی اللہ عنہ ) کے جانشین میں ہے۔
2. شیعوں کے لیے دوسرا اختیار یہ ہے کہ وہ یہ کہیں کہ اس آیت سے عائشہ (رضی اللہ عنہا ) اور اہل بیت کو معصوم نہیں بنایا گیا اور یہ بھی شیعہ کے پورے عقیدہ معصوم امامت کو منہدم کر دیتا ہے، جو ان کے عقیدہ کا ایک ستون ہے۔ بہر حال یہ شیعہ کی مشکل (paradox) ہے-[289]
"سقیفئہ بنی ساعدہ" مدینہ میں ایک عمارت (ڈیرہ) کا نام تھا جہاں بنو خزرج کا ایک فرقہ 'بنی ساعدہ' اپنے اجلاس کیا کرتا تھا اسے "سقیفہ" بھی کہا جاتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے وقت "سقیفہ بنی ساعدہ" میں بنو خزرج کا نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی جانشینی کے حوالے سے ایک نیم خفیہ اجلاس جاری تھا۔ اس اجلاس کی خبر حضرت عمر کو پہنچ گئی اور ساتھ ہی یہ بھی کہ ہو سکتا ہے کہ منافقین اور انصار کے باعث کوئی فتنہ نہ پھیل جائے۔ اس پر عمرفاروق رض ، حضرت ابوبکر صدیق رض کو لے کر سقیفہ بنی ساعدہ چلے گئے۔ یہاں جا کر معلوم ہوا کہ "بنوخزرج" جانشینی کا دعوے دار ہے اور "بنو اوس" اس کی مخالفت کر رہا ہے۔ ایسے موقع پر ایک انصاری صحابی نے ہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا یہ قول یاد کرایا کہ ”الائمۃ من لا قریش“ (حکمران قریش ہی ہوں گے)، جو لوگوں کے دل میں اتر گیا، انصار اپنے دعوے سے دستبردار ہو گئے اور سب نے فوراً ہی ابوبکررض کی خلافت پر بیعت کر لی، مگر اس کے باوجود ابوبکر صدیق رض تین دن تک یہ اعلان کراتے رہے کہ آپ سقیفہ بنی ساعدہ کی بیعت سے آزاد ہیں اگر کسی کو اعتراض ہے تو بتا دیں مگر کسی کو اعتراض نہ تھا۔
اس پر شیعہ برادران کو بہت اعترضات ہیں کہ جب حضرت علی رض
تدوففین رسول اللہ ﷺ کے انتظامات میں مصروف تھے تو ان کو اس اہم معامله سے باہر رکھا گیا-
بعض روایات سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ ﷺ نے حضرت علی رضی اللہ تعالی عنہ کو وصیت فرمائی تھی کہ ان کے علاوہ آپ ﷺ کو کوئی غسل نہ دے اور یہ کہ وہ (حضرت علی) اہلِ بیت کے تعاون سے آپﷺ کو غسل دیں؛ اس لیے غسل وغیرہ کا انتظام اہلِ بیت رضوان اللہ علیم اجمعین نے سنبھالا ہوا تھا۔ جیساکہ ’’البدایہ والنھایہ‘‘ میں ہے[290]-
سقیفئہ بنی ساعدہ" کی تفصیل البخاری حدیث :3670,3669,3668,3667] میں موجود ہے جو کہ درج ذیل ہے :
مجھ سے اسماعیل بن عبداللہ نے بیان کیا، کہا ہم سے سلیمان بن بلال نے بیان کیا، ان سے ہشام بن عروہ نے، ان سے عروہ بن زبیر نے اور ان سے نبی کریم ﷺ کی زوجہ مطہرہ عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی جب وفات ہوئی تو ابوبکر ؓ اس وقت مقام سنح میں تھے۔ اسماعیل نے کہا یعنی عوالی کے ایک گاؤں میں۔ آپ کی خبر سن کر عمر ؓ اٹھ کر یہ کہنے لگے کہ اللہ کی قسم رسول اللہ ﷺ کی وفات نہیں ہوئی۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ عمر ؓ کہا کرتے تھے اللہ کی قسم اس وقت میرے دل میں یہی خیال آتا تھا اور میں کہتا تھا کہ اللہ آپ کو ضرور اس بیماری سے اچھا کر کے اٹھائے گا اور آپ ان لوگوں کے ہاتھ اور پاؤں کاٹ دیں گے (جو آپ کی موت کی باتیں کرتے ہیں) اتنے میں ابوبکر ؓ تشریف لے آئے اور اندر جا کر آپ کی نعش مبارک کے اوپر سے کپڑا اٹھایا اور بوسہ دیا اور کہا: میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں۔ آپ زندگی میں بھی پاکیزہ تھے اور وفات کے بعد بھی اور اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اللہ تعالیٰ آپ پر دو مرتبہ موت ہرگز طاری نہیں کرے گا۔ اس کے بعد آپ باہر آئے اور عمر ؓ سے کہنے لگے، اے قسم کھانے والے! ذرا تامل کر۔ پھر جب ابوبکر ؓ نے گفتگو شروع کی تو عمر ؓ خاموش بیٹھ گئے۔
ابوبکر ؓ نے پہلے اللہ کی حمد و ثنا بیان کی۔ پھر فرمایا: لوگو! دیکھو اگر کوئی محمد ( ﷺ ) کو پوجتا تھا (یعنی یہ سمجھتا تھا کہ وہ آدمی نہیں ہیں، وہ کبھی نہیں مریں گے) تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ محمد ﷺ کی وفات ہوچکی ہے اور جو شخص اللہ کی پوجا کرتا تھا تو اللہ ہمیشہ زندہ ہے اسے موت کبھی نہیں آئے گی۔ (پھر ابوبکر ؓ نے سورة الزمر کی یہ آیت پڑھی) إنک ميت وإنهم ميتون اے پیغمبر! تو بھی مرنے والا ہے اور وہ بھی مریں گے۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل أفإن مات أو قتل انقلبتم على أعقابکم ومن ينقلب على عقبيه فلن يضر الله شيئا وسيجزي الله الشاکرين محمد ﷺ صرف ایک رسول ہیں۔ اس سے پہلے بھی بہت سے رسول گزر چکے ہیں۔ پس کیا اگر وہ وفات پاجائیں یا انہیں شہید کردیا جائے تو تم اسلام سے پھر جاؤ گے اور جو شخص اپنی ایڑیوں کے بل پھر جائے تو وہ اللہ کو کوئی نقصان نہیں پہنچا سکے گا اور اللہ عنقریب شکر گزار بندوں کو بدلہ دینے والا ہے۔ راوی نے بیان کیا کہ یہ سن کر لوگ پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ راوی نے بیان کیا کہ انصار سقیفہ بنی ساعدہ میں سعد بن عبادہ ؓ کے پاس جمع ہوگئے اور کہنے لگے کہ ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم (مہاجرین) میں سے ہوگا (دونوں مل کر حکومت کریں گے) پھر ابوبکر، عمر بن خطاب اور ابوعبیدہ بن جراح ؓ ان کی مجلس میں پہنچے۔ عمر ؓ نے گفتگو کرنی چاہی لیکن ابوبکر ؓ نے ان سے خاموش رہنے کے لیے کہا۔ عمر ؓ کہا کرتے تھے کہ اللہ کی قسم میں نے ایسا صرف اس وجہ سے کیا تھا کہ میں نے پہلے ہی سے ایک تقریر تیار کرلی تھی جو مجھے بہت پسند آئی تھی پھر بھی مجھے ڈر تھا کہ ابوبکر ؓ کی برابری اس سے بھی نہیں ہو سکے گی۔ پھر ابوبکر ؓ نے انتہائی بلاغت کے ساتھ بات شروع کی۔ انہوں نے اپنی تقریر میں فرمایا کہ ہم (قریش) امراء ہیں اور تم (جماعت انصار) وزارء ہو۔ اس پر حباب بن منذر ؓ بولے کہ نہیں اللہ کی قسم ہم ایسا نہیں ہونے دیں گے، ایک امیر ہم میں سے ہوگا اور ایک امیر تم میں سے ہوگا۔ ابوبکر ؓ نے فرمایا کہ نہیں ہم امراء ہیں تم وزارء ہو (وجہ یہ ہے کہ) قریش کے لوگ سارے عرب میں شریف خاندان شمار کیے جاتے ہیں اور ان کا ملک (یعنی مکہ) عرب کے بیچ میں ہے تو اب تم کو اختیار ہے یا تو عمر ؓ کی بیعت کرلو یا ابوعبیدہ بن جراح کی۔ عمر ؓ نے کہا: نہیں ہم آپ کی ہی بیعت کریں گے۔ آپ ہمارے سردار ہیں، ہم میں سب سے بہتر ہیں اور رسول اللہ ﷺ کے نزدیک آپ ہم سب سے زیادہ محبوب ہیں۔ عمر ؓ نے ان کا ہاتھ پکڑ لیا اور ان کے ہاتھ پر بیعت کرلی پھر سب لوگوں نے بیعت کی۔ اتنے میں کسی کی آواز آئی کہ سعد بن عبادہ ؓ کو تم لوگوں نے مار ڈالا۔ عمر ؓ نے کہا: انہیں اللہ نے مار ڈالا۔
اور عبداللہ بن سالم نے زبیدی سے نقل کیا کہ عبدالرحمٰن بن قاسم نے بیان کیا، انہیں قاسم نے خبر دی اور ان سے عائشہ ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم ﷺ کی نظر (وفات سے پہلے) اٹھی اور آپ نے فرمایا: اے اللہ! مجھے رفیق اعلیٰ میں (داخل کر) آپ نے یہ جملہ تین مرتبہ فرمایا اور راوی نے پوری حدیث بیان کی۔ عائشہ ؓ نے کہا کہ ابوبکر اور عمر ؓ دونوں ہی کے خطبوں سے نفع پہنچا۔ عمر ؓ نے لوگوں کو دھمکایا کیونکہ ان میں بعض منافقین بھی تھے، اس لیے اللہ تعالیٰ نے اس طرح (غلط افواہیں پھیلانے سے) ان کو باز رکھا۔
اور بعد میں ابوبکر ؓ نے جو حق اور ہدایت کی بات تھی وہ لوگوں کو سمجھا دی اور ان کو بتلا دیا جو ان پر لازم تھا (یعنی اسلام پر قائم رہنا) اور وہ یہ آیت تلاوت کرتے ہوئے باہر آئے وما محمد إلا رسول قد خلت من قبله الرسل محمد ( ﷺ ) ایک رسول ہیں اور ان سے پہلے بھی رسول گزر چکے ہیں الشاکرين تک[291] [البخاری- حدیث :3670,3669,3668,3667][292]
اگر کسی بادشاہ کا انتقال ہوجائے تو جب تک اس کا کوئی جانشین نہ ہوجائے اس وقت تک اس کی تجہیز وتکفین کا انتظام نہیں کیا جاتا، ایسے وقت میں تجہیز وتکفین کا مسئلہ اتنا اہم نہیں ہوتا جتنا جانشینی کا مسئلہ اہم ہوتا ہے، خیرخواہانِ حکومت کو یہ فکر ہوتی ہے کہ انتظامِ مملکت میں خلل نہ آئے، غنیم موقع پاکر بے خبری میں حملہ نہ کر بیٹھے، جس میں تمام ملک کی تباہی اور بربادی کا اندیشہ ہے، بلکہ بسا اوقات بنظرِ مصلحت بادشاہ کی وفات تک کو چھپالیتے ہیں، اور جانشینی کے بعد اس کا اعلان کرتے ہیں، اور شیعہ حکومتوں میں بھی یہی قاعدہ ہے، اور اگر بادشاہ کے انتقال کے بعد سلطنت کے دو امیر ہوجائیں تو وہ سلطنت ضرور تباہ ہوجاتی ہے، ایک سلطنت کا دو امیر ہوجانا موجبِ خرابی اور باعثِ بربادی ہے، اور آپ ﷺ کی وفات کے بعد منافقین اور کفار کی طرف سے غدر اور شور و شر کا احتمال واندیشہ تھا، ایسے وقت میں شیرازۂ اسلام کی حفاظت اولین کام تھا، بایں نظر شیخین (حضرت ابوبکر اور عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما) نے یہ گمان کیا کہ تجہیز وتکفین کوئی مشکل کام نہیں ہے اور اہلِ بیت (گھروالوں) سے متعلق ہے، سب صحابہ کرام کا اس میں شریک ہونا ضروری نہیں ، غلامانِ اہلِ بیت بھی یہ خدمت انجام دے سکتے ہیں ۔۔۔ نیز تمام صحابہ کرام کو یہ معلوم تھا کہ وفات سے انبیاءِ کرام کےاجسامِ مبارکہ میں کوئی تغیر نہیں آتا، اس لیے تاخیر دفن کا کوئی اندیشہ نہ کیا اور کمال دانش مندی سے فتنہ اور فساد کا دروازہ بند کردیا اور مسلمانوں کو افتراق سے بچالیا‘‘۔(سیرت مصطفی 3/182، ط: کتب خانہ مظہری)[293]
حضرت ابوبکر صدیق اور حضرت عمر اور دیگر صحابہ کرام بھی واپس تشریف لائے، آپ ﷺ کو غسل حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ نے حضرت عباس رضی اللہ عنہ، اور ان کے دو صاحبزادے حضرت فضل وحضرت قثم اور حضرت اسامہ وشقران رضی اللہ عنہم کے تعاون سے دیا۔
تمام واقعات سے معلوم ہوتا ہےکہ چاروں (خلفاء راشدین) اس وقت وہیں موجود تھے، جہاں حضرت علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کی وصیت اور اہلِ بیت ہونے کے ناطے آپ ﷺ کی تجہیز وتکفین میں عملاً مصروف تھے، وہیں حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ تعالیٰ عنہ آپ کے جانشین ہونے کے ناطے اس کا انتظام سنبھالے ہوئے تھے، جیسا کہ آپ ﷺ کی وفات کا اعلان اور اس کے بعد ایک بلیغ خطبہ اور پھر بعد میں پیش آنے والے دیگر امور (تدفین کی جگہ کا انتخاب، قبر اور جنازے کا طریقہ وغیرہ ) سب آپ کی راہ نمائی ہی سے کیے گیے-اور جب یہ معاملہ آیا کہ آپ ﷺ کی تدفین کہاں کی جائے؟ اور صحابہ کرام اور اہلِ بیت رضوان اللہ علیہم اجمعین اس معاملہ میں مضطرب ہوئےتو حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے ہی اس کی راہ نمائی کی کہ میں نے آپ ﷺ سے سنا ہے کہ نبی علیہ السلام کا جہاں انتقال ہو، اسی جگہ دفن کیا جائے۔ اور آپ رضی اللہ عنہ کی ہدایت کے مطابق آپ ﷺ کی وفات والی جگہ ہی آپ کی قبر بنائی گئی ۔
حضرت عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہما نے آپ کے جنازہ مبارکہ کے سامنے یہ کہا : ” اے اللہ ہم گواہی دیتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے وہ سب کچھ پہنچادیا جو ان پر اتارا گیا، اور آپ ﷺ نے امت کی خیر خواہی کی، اور اللہ کے راستے میں جہاد کیا، یہاں تک کہ اللہ نے اپنے دین کو غالب کیا، اور اس کا بول بالا ہوا، اور صرف ایک معبود وحدہ لاشریک پر ایمان لایا گیا۔ اے اللہ! ہم کو ان لوگوں میں سے بنا جو آپ ﷺ پر نازل کردہ وحی کی اتباع کرتے ہیں، اور ہم کو آپ ﷺ کے ساتھ جمع کر، آپ ہم کو اور ہم آپ کو پہچانیں، آپ مسلمانوں پر بڑے مہربان تھے،ہم اپنے ایمان کا کوئی معاوضہ اور قیمت نہیں چاہتے “۔ لوگوں نے آمین کہی، جب مرد نماز جنازہ سے فارغ ہوگئے تو عورتوں نے،عورتوں کے بعد بچوں نے اس طرح ادا کیا۔[294](البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 286)
چاروں خلفاء راشدین آپ ﷺ کی تدفین کے وقت موجود تھے اور انہوں نے آپ ﷺ کے جنازہ میں شرکت بھی فرمائی۔ نیز بعض اہلِ باطل کی طرف سے یہ مشہور کیا جاتا ہے کہ خلفاء راشدین آپ ﷺ کی تدفین میں شامل نہیں تھے اور انہوں نے آپ ﷺ کے جنازہ میں شرکت نہیں کی ، مذکورہ تفصیل سے ان کی بات کا جھوٹ ہونا بھی ثابت ہوگیا۔
المستدرك على الصحيحين للحاكم
" عن عبد الله بن مسعود رضي الله عنه قال: لما ثقل رسول الله صلى الله عليه وسلم قلنا: من يصلي عليك يا رسول الله فبكى وبكينا وقال: «مهلاً، غفر الله لكم، وجزاكم عن نبيكم خيراً، إذا غسلتموني وحنطتموني وكفنتموني فضعوني على شفير قبري، ثم اخرجوا عني ساعة، فإن أول من يصلي علي خليلي وجليسي جبريل وميكائيل، ثم إسرافيل، ثم ملك الموت مع جنود من الملائكة، ثم ليبدأ بالصلاة علي رجال أهل بيتي، ثم نساؤهم، ثم ادخلوا أفواجاً أفواجاً وفرادى ولاتؤذوني بباكية، ولا برنة ولا بصيحة، ومن كان غائباً من أصحابي فأبلغوه مني السلام، فإني أشهدكم على أني قد سلمت على من دخل في الإسلام، ومن تابعني على ديني هذا منذ اليوم إلى يوم القيامة» (المستدرك على الصحيحين للحاكم (3 / 62)
ترجمہ :
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، انہوں نے کہا: جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر بوجھ پڑ گیا تو ہم نے کہا:
جس نے آپ کے لیے دعا کی اے اللہ کے رسول، وہ رویا اور ہم روئے، اور فرمایا: ’’رکو، اللہ تمہیں معاف کرے اور تمہارے نبی کی طرف سے تمہیں اچھا بدلہ دے، اگر تم مجھے نہلائیں، مجھے خوشبو لگائیں اور مجھے کفن سے ڈھانپ دیں، پھر مجھے میری قبر کے کنارے پر رکھ دیں، پھر مجھے ایک گھنٹے کے لیے چھوڑ دیں۔ میرے دوست اور بیٹھنے والے کے لیے سب سے پہلے دعا کرنے والے جبرائیل اور میکائیل ہیں، پھر اسرافیل، پھر فرشتوں کے ساتھ موت کا فرشتہ۔ پھر وہ میرے گھر والوں کے مردوں پر، پھر ان کی عورتوں پر صَلَاة پڑھنا شروع کرے، پھر گروہوں، گروہوں اور افراد میں داخل ہو جائے، اور مجھے رونے، گھنٹی یا چیخ و پکار سے نقصان نہ پہنچائے۔
اور میرے ساتھیوں میں سے جو کوئی غیر حاضر ہو تو اس کو میری طرف سے سلام پہنچاؤ کیونکہ میں تمہیں گواہی دیتا ہوں کہ میں نے اسلام میں داخل ہونے والوں اور اس دین پر میری پیروی کرنے والوں کو آج سے لے کر قیامت تک سلام کیا ہے۔[295] ( فقط واللہ اعلم )
"حضرت اسلم سے مروی ہے کہ رسول اللہ ﷺ کی وفات کے بعد جب حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کی گئی تو حضرت علی ؓ اور حضرت زبیر ؓ حضرت فاطمہ ؓ بنت رسول اللہ ﷺ کے پاس آتے اور مشورہ کرتے اور اپنے معاملے میں سوچ بچار کرتے۔ یہ بات حضرت عمر بن خطاب ؓ کے پاس پہنچی تو وہ حضرت فاطمہ ؓ کے پاس تشریف لائے اور فرمایا: اے بنت رسول اللہ! مجھے مخلوق میں تیرے باپ سے زیادہ کوئی محبوب نہیں اور تیرے باپ کے بعد تجھ سے زیادہ ہم کو کوئی محبوب نہیں۔ اللہ کی قسم! یہ کیا معاملہ ہے کہ یہ لوگ تمہارے پاس جمع ہو کر بات کرتے ہیں یہ باز آجائیں ورنہ میں ان کا دروازہ جلادوں گا۔
یہ کہہ کر حضرت عمر ؓ وہاں سے نکل آئے پھر مذکورہ حضرات اندر آئے تو حضرت فاطمہ ؓ نے فرمایا:
جانتے ہو، میرے پاس عمر آئے تھے وہ قسم کھا کر گئے ہیں کہ اگر تم دوبارہ ادھر اختلافی باتوں میں شامل ہوئے تو وہ تمہارا دروازہ جلادیں گے۔ اللہ کی قسم وہ جو کہہ کر گئے ہیں کر گزریں گے۔ لہٰذا تم اپنی رائے سے باز آجاؤ اور آئندہ میرے پاس اس لیے نہ آنا۔ چنانچہ وہ حضرات لوٹ گئے اور حضرت فاطمہ سے ان کے متعلق دوبارہ کوئی بات نہ کی حتیٰ کہ انھوں نے حضرت ابوبکر ؓ کی بیعت کرلی۔ مصنف ابن ابی شیبہ[296] (کنزالعمال، کتاب: امارت اور خلافت کا بیان، باب: خلافت ابی بکرالصدیق (رض)، حدیث نمبر: 14138)
اس بات کو طور مروڑکر من گھڑت داستانیں پھیلائی گیئی ہیں-
حضرت عمر نے ان لوگوں کے خلاف ایک سخت رویہ کیوں اختیار کیا جنہوں نے حضرت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خلافت قائم ہونے کے بعد مخالفت کی، اسکا سبب یہ تھا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا تھا: ’’ خلیفہ ہونے کے بعد کوئی خلیفہ نہیں ہوسکتا، جب اسکو مسلمانوں نے مقرر کرلیا ہو۔ پس جو اسکا دعویٰ کرے اسکو قتل کردو، چاہے وہ کوئی بھی ہو۔‘‘ (صحیح مسلم)
اس روایت کے ذریعے کچھ نکات واضح اور صاف ظاہرہوتے ہیں:
جب عمر رضی اللہ عنہ حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو حضرت علی اور حضرت زبیر رضوان اللہ علیہم اجمعین گھر پر نہیں تھے۔اس لئے عمر کی ان سے ملاقات نہیں ہوئی اور کوئی جھگڑا ہوا۔
1) عمر ؓ ، حضرت فاطمہ ؓ کے ساتھ نہایت عزت کے ساتھ پیش آئے انکو یہ بھی بتایا کہ آپ رضی اللہ عنہا انکے بچوں سے زیادہ محبوب ہیں۔
2) عمر ؓ نےحضرت فاطمہ ؓ کو کسی طور پر دھمکایا نہیں تھا۔
3) جب عمر نے حضرت فاطمہ ؓ کا گھر چھوڑا، تو حضرت فاطمہ ؓ اور انکا گھر بالکل صحیح سالم تھا۔انکو کوئی نقصان نہیں پہنچایا گیا تھا۔ بعد میں جب علی رضی اللہ عنہ گھر پہنچے تو حضرت فاطمہ ؓ نے یہ شکایت نہیں کی کہ عمر نے ان سے بدتمیزی کی۔ بجائے اسکے حضرت فاطمہ ؓ نے انکو مستقبل میں اپنے گھر میں عمر کی کی مخالفت اور ابوبکر کی خلافت کے خلاف سازش کرنے سے روکا تھا۔
۴) علیؓ اور زبیرؓ نے ابوبکر ؓ کے ہاتھوں بغیر کسی مجبوری اور دباؤ کے بیعت کرلی تھی۔
ایک حدیث میں آیا ہے کہ جب حضرت علی نے آنحضرت ﷺ کو روضہ مبارک میں منتقل کیا کو فرمایا ’’ ایک آدمی کی تدفین کے لئے اسکے اہل خانہ اور قریبی رشتہ دار ذمہ دار ہوتے ہیں۔‘‘ (سنن ابوداؤد ج 2ص 102 ) - (سقیفہ اور مزید تفصیل،[297] [298]،[299])
سنی اور شیعہ کے درمیان زیادہ تر بحث مباحثہ متعہ، ماتم، سقیفہ، غدیر خم، فدک، صحابہ کرام اور اس طرح کے دیگر ضمنی مسائل کے گرد گھومتی ہے۔ تاہم، بحث کا بنیادی مسئلہ یعنی امامت کو اکثر نظر انداز کر دیا جاتا ہے- اہل سنت اور شیعہ کے درمیان بحث کا مرکز مسئلہ امامت (یعنی امام معصومین) کے گرد گھومتا ہے۔ "امامت" کی اہمیت اتنی زیادہ ہے کہ شیعہ علمائے کرام امامت کا انکار کرنے والوں کو کافر سمجھتے ہیں۔ اسی طرح سنی علمائے کرام شیعہ کے عقیدہ امامت کو ماننے والوں کو کافر سمجھتے ہیں ۔
امامت کا تصور اسلام کے مرکزی اصول کی نفی ہے یعنی کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم خاتم النبیین ہیں۔ قرآن میں ایک آیت احکام (3:7) بھی نہیں جو ان کے امامت کے عقیدہ کو ثابت کرے, تاویلات سے بنیادی عقائد نہیں گھڑنے جا سکتے- بہت سے("cop out") نیم جوابات کے جوابات سے غیر جانبدار قاری پر یہ بات پوری طرح واضح ہو جائے گی کہ شیعہ کمزوردلائل امامت کے عقیدہ کی نفی پر دلالت کرتے ہیں-[300]
إمام معصوم من الخطأ ؟
شیعہ عقیدے کا مرکزامام العصمة من الخطأ (Infallibility) ہے۔ قرآن اس نظریہ ، عقیدہ کو غلط ثابت کرتا ہے،کہ کوئی انسان معصوم من الخطأ نہیں: (28:16)Quran, 20:121-122) (38:23-24) (66:1) (80:1-11) (Quran, 8:67)(5:77 [301] یہ شیعہ مذہب کی نظریاتی بنیاد کوختم کرتا ہے-
شیخ ابن تیمیہ نے مجموع الفتاوی میں کہا ہے:
یہ قول کہ انبیاء کبائر گناہوں سے محفوظ تھے لیکن صغیرہ گناہوں سے محفوظ نہیں تھے جمہور علماء کا یہی قول ہے… جمہور علماء کا بھی یہی قول ہے۔ اور حدیث، اور فقہا کی. سلف، ائمہ، صحابہ، تابعین یا ان کے بعد آنے والی نسلوں میں سے کسی سے بھی ایسی کوئی چیز نقل نہیں ہوئی جو اس قول سے متفق نہ ہو۔ جمہور اہل علم سے جو بات نقل ہوئی ہے وہ یہ ہے کہ وہ (انبیاء علیہم السلام) صغیرہ گناہوں میں معصوم نہیں ہیں، لیکن ان کو اس پر قائم رہنے کے لیے نہیں چھوڑا جاتا۔ وہ یہ نہیں کہتے کہ ایسا کسی بھی حالت میں نہیں ہوتا۔ پہلا گروہ جن سے نقل کیا گیا ہے کہ وہ ہر حال میں معصوم ہیں، اور جو کہتے ہیں کہ سب سے زیادہ وہ رافضی (شیعہ) ہیں، جو کہتے ہیں کہ وہ معصوم ہیں اور غلط فہمی سے بھی محفوظ ہیں… (ماخوذ: اسلام-کیو اے)[302]
پیغمبرغلطیاں کرتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ انہیں ان کی غلطیوں پر قائم نہیں رہنے دیتا، بلکہ وہ ان کی غلطیوں کو ان کے لیے اور ان کی قوموں کے لیے رحمت بنا کر ان کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور وہ ان کی خطاؤں کو معاف کرتا ہے، اور اپنے فضل و کرم سے ان کی توبہ قبول کرتا ہے۔ کیونکہ اللہ بہت بخشنے والا اور رحم کرنے والا ہے، جیسا کہ ہر اس شخص پر واضح ہو جائے گا جو قرآن کی آیات کا مطالعہ کرتا ہے جو اس کے بارے میں بتاتی ہیں۔ (ماخوذ: اسلام-ق، فتاوٰی اللجنۃ الدائمۃ، 3/194،)
حضرت ابوہریرہ ؓ روای ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے بارگاہ حق میں یوں دعا کی کہ اے میرے پروردگار! میں نے تیری خدمت میں ایک درخواست پیش کی ہے تو مجھے اس کی قبولیت سے نواز اور مجھے ناامید نہ کر۔ یعنی میں امیدوار کرم ہوں کہ میری درخواست ضرور ہی منظور ہوگی اور وہ درخواست یہ ہے کہ میں ایک انسان ہوں لہٰذا جس مومن کو میں نے کوئی ایذاء پہنچائی ہو بایں طور کہ میں نے اسے برا بھلا کہا ہو میں نے اس پر لعنت کی ہو میں نے اسے مارا ہو تو ان سب چیزوں کو تو اس مومن کے حق میں رحمت کا سبب گناہوں سے پاکی کا ذریعہ اور اپنے قرب کا باعث بنا دے کہ تو ان چیزوں کے سبب اس کو قیامت کے دن اپنا قرب بخشے۔ (بخاری ومسلم) [مشکوٰۃ المصابیح حدیث: 2245]
عبداﷲ بن سبا علماء یہود میں سے ایک سربر آوردہ عالم تھا اور جب سے سیدنا حضرت عمر فاروق رضی اﷲ عنہ نے یہودیوں کو مدینہ منورہ سے نکال کر فلسطین کی طرف دھکیل دیا تھا۔ اس وقت سے اس کے دل میں مسلمانوں سے انتقام لینے کی آگ سلگ رہی تھی اور وہ اندر ہی اندر ایسی تراکیب سوچتا رہتا تھا جس کے ذریعے مسلمانوں سے بغض و عداوت کی وجہ سے کوئی نہ کوئی مصیبت کھڑی کرسکے۔ انہی تراکیب میں سے ایک ترکیب اسے یہ سوجھی کہ مسلمان ہوکر پھر ان کے رازونیاز سے واقفیت حاصل کی جائے اور کچھ ساتھی ڈھونڈے جائیں تاکہ مستقل گروہ بن جانے پر اسلام کے خلاف آواز بلند کی جائے۔ چنانچہ وہ یمن سے مدینہ آیا اور مدینہ آکر اپنا مسلمان ہونا ظاہر کیا۔ اس وقت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ امیر المومنین تھے۔ آپ رضی اﷲ عنہ کی نرم دلی اور خوش خلقی سے اس نے یہ ناجائز فائدہ اٹھایا- وہ اپنی مخفی دشمنی کے لئے راستہ ہموار کرنے کے درپے رہنے لگا اور اپنے ہم خیال لوگوں کی تلاش میں مصروف ہوا۔ ’’جویندہ یابندہ‘‘ کے مطابق اسے ایسے ہمنوا مل گئے جو بظاہر مسلمان تھے لیکن دل سے سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کے دشمن تھے۔ ان سے میل جول صلاح و مشورہ شروع ہوا اور خفیہ خفیہ ایک منظم گروہ تیار کرلیا۔ اسی منظم کے ذریعے اس نے اولین کامیابی یہ حاصل کی کہ سیدنا حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ کو شہید کرادیا۔ اس یہودی عالم (عبداﷲ ابن سبا) کی ان خفیہ سرگرمیوں اور اسلام و مسلمانوں کے ساتھ بغض و عداوت کی تفصیلات شیعہ سنی دونوں مکتبہ فکر کے مورخین کے ہاں صراحتاً ملتی ہیں-[303]
"یہودی انسکیکلوپیڈیا " میں آج بہ تحریر فخریہ موجود ہے ( لنک)[304]
ترجمہ : "ساتویں صدی میں یمن، عرب کا ایک یہودی، جو مدینہ میں آباد ہوا اور اسلام قبول کیا۔ خلیفہ عثمان کی انتظامیہ پر منفی تنقید کرنے کے بعد اسے شہر سے نکال دیا گیا۔ اس کے بعد وہ مصر چلا گیا، جہاں اس نے علی کے مفادات کو فروغ دینے کے لیے ایک "عثمان مخالف" فرقہ قائم کیا۔ اپنی تعلیم کی وجہ سے اس نے وہاں بہت اثر و رسوخ حاصل کیا، اور یہ نظریہ وضع کیا کہ جس طرح ہر نبی کا ایک معاون ہوتا ہے جو بعد میں اس کا جانشین ہوتا تھا، اسی طرح محمدص کا وزیر علی تھا، جسے دھوکے سے خلافت سے دور رکھا گیا تھا۔ خلافت پر عثمان کا کوئی قانونی دعویٰ نہیں تھا۔ اور اس کی حکومت کے خلاف عام عدم اطمینان نے عبداللہ کی تعلیمات کو پھیلانے میں بہت مدد کی۔ روایت بتاتی ہے کہ جب علی نے اقتدار سنبھالا تو عبداللہ نے ان سے یہ الفاظ کہے کہ "تو ہی تو ہے!" اس کے بعد علی نے اسے مدین میں جلاوطن کر دیا۔ کہا جاتا ہے کہ علی کے قتل کے بعد عبداللہ نے سکھایا تھا کہ علی مردہ نہیں بلکہ زندہ ہے، اور کبھی مارا نہیں گیا تھا۔ کہ اس میں الہ کا ایک حصہ چھپا ہوا تھا۔ اور یہ کہ ایک خاص وقت کے بعد وہ زمین کو انصاف سے بھرنے کے لیے واپس آئے گا۔ اس وقت تک علی کا الٰہی کردار اماموں میں پوشیدہ رہنا تھا، جنہوں نے عارضی طور پر ان کی جگہ کو پر کیا۔ یہ دیکھنا آسان ہے کہ ایلیاہ نبی کے افسانے کے ساتھ مل کر پورا خیال مسیحا پر منحصر ہے۔ علی کی طرف الہی اعزازات کا انتساب شاید بعد کی ارتقاء ایجاد تھی، اور اس کو پروان اس طرح چڑھایا گیا کہ قرآن میں اللہ کو اکثر "العلی" (سب سے اعلیٰ) کہا گیا ہے۔"[305]
شیعہ کو امامت کی دلیل بھی قرآن کو چھوڑ کر، ایک یہودی سےحاصل کرنا بھی قابل حیرت ہے:
"نعثل نامی یہودی نے رسول اللہ(ص) سے عرض کیا: ہمیں اپنے جانشین سے آگاہ کریں، کیونکہ کوئی بھی ایسا پیغمبر نہیں ہے جس کا کوئی جانشین نہ ہو اور ہمارے نبی (موسی) نے یوشع بن نون کو اپنا وصی اور جانشین قرار دیا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ نے جواب دیا: بے شک میرے بعد میرے وصی اور خلیفہ علی بن ابی طالب ہیں اور ان کے بعد ان کے دو بیٹے حسن اور حسین اور ان کے بعد نو مزید امام ہیں جو حسین بن علی کی صلب سے ہیں۔ نعثل نے کہا: اے محمد(ص)! ان نو جانشینوں کے نام بھی میرے لیے بیان کریں۔ اور رسول اللہ(ص) نے ان کے نام بھی بیان فرمائے[306]، [307]
رسول اللہ ﷺ ںے ایک اہم ترین حکم اپنے قریب ترین جانثار صحابہ کرام کو چھوڑ کر ، حتی کہ حضرت علی (رضی الله ) کو بھی نہیں بتلایا اور ایک یہودی کو بتایا (خفیہ طور پر کہ کسی اور صحابی کو علم نہ ہوا؟) جن کی تقلید سے اتنی نفرت و ممانعت فرمائی کہ صَلَاة جوتوں کے ساتھ پڑھتے تھے کیونکہ یہود جوتے اتا کر پڑھتے تھے ، یہود کے الٹ کرو- اس دلیل کے باطل و گمراہ کن ہونے پر مزید کچھ کہنے کی ضرورت نہیں کہ کذب صاف ظاہر ہے:
[پڑھیں : مسلمان بھی یہود و نصاری کے نقش قدم پر]
عرباض بن ساریہ ؓ کہتے کہ رسول اللہ ﷺ نے ہمیں ایسی نصیحت فرمائی جس سے ہماری آنکھیں ڈبدبا گئیں، اور دل لرز گئے، ہم نے کہا: اللہ کے رسول! یہ تو رخصت ہونے والے کی نصیحت معلوم ہوتی ہے، تو آپ ہمیں کیا نصیحت کرتے ہیں؟
آپ ﷺ نے فرمایا: میں نے تم کو ایک ایسے صاف اور روشن راستہ پر چھوڑا ہے جس کی رات بھی دن کی طرح روشن ہے، اس راستہ سے میرے بعد صرف ہلاک ہونے والا ہی انحراف کرے گا، تم میں سے جو شخص میرے بعد زندہ رہے گا وہ بہت سارے اختلافات دیکھے گا، لہٰذا میری اور میرے ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کی سنت سے جو کچھ تمہیں معلوم ہے اس کی پابندی کرنا، اس کو اپنے دانتوں سے مضبوطی سے تھامے رکھنا، اور امیر کی اطاعت کرنا، چاہے وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو، اس لیے کہ مومن نکیل لگے ہوئے اونٹ کی طرح ہے، جدھر اسے لے جایا جائے ادھر ہی چل پڑتا ہے[308] (ماجہ 43)
الله تعالی کا فرمان ہے :
لِّيَهْلِكَ مَنْ هَلَكَ عَن بَيِّنَةٍ وَيَحْيَىٰ مَنْ حَيَّ عَن بَيِّنَةٍ ۗ وَإِنَّ اللَّهَ لَسَمِيعٌ عَلِيمٌ(قرآن:(8:42
تاکہ جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً اللہ سُننے والا اور جاننے والا ہے (قرآن : (8:42
شیعہ مورخ مرزا محمد تقی اپنی کتاب "ناسخ التواریخ تاریخ خلفاء" میں لکھتا ہے (ترجمہ) : عبداﷲ بن سبا ایک یہودی عالم تھا۔ عہد عثمانی میں اسلام لایا اور کتب سابقہ اور مصاحف گزشتہ سے خوف واقف تھا۔ جب مسلمان ہوا تو حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کی خلافت اس کو اچھی نہ لگی چنانچہ وہ اپنے ساتھیوں کے ساتھ محافل میں بیٹھتا اور حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کے خلافت جتنا کچھ قبیح افعال کا ذکر کرسکتا کرتا رہتا تھا۔ حضرت عثمان رضی اﷲ عنہ کو یہ خبر ملی تو کہا الٰہی یہ یہودی کون ہے؟ چنانچہ حکم دیا کہ اسے مدینہ شریف سے نکال دیا جائے۔ عبداﷲ بن سبا مصر آپہنچا چونکہ عالم و دانا آدمی تھا۔ اس لئے لوگ اس کے گرد جمع ہونے شروع ہوئے اور اس کی باتیں قبول کرنے لگے۔ تب اس نے کہا! اے لوگو! تم نے سنا نہیں کہ عیسائیوں کا عقیدہ ہے کہ عیسٰی علیہ السلام دنیا میں واپس آئیں گے اور ہماری شریعت کے مطابق بھی یہ بات درست ہے۔ اگر عیسٰی واپس آسکتے ہیں تو حضرت محمدﷺ جوان سے افضل ہیں، کیوں واپس نہیں آسکتے۔ اﷲ تعالی ٰبھی قرآن کریم میں فرماتا ہے (ترجمہ) جس خدا نے تجھے قرآن دیا وہ تجھے لوٹنے کے وقت پر لوٹائے گا۔
جب یہ بات لوگوں کے دلوں میں راسخ ہوگئی (رجعت کا عقیدہ پختہ ہوگیا) تو اب ابن سبا نے کہا کہ اﷲ تعالیٰ نے ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیاء اس زمین پربھیجے اور ہر پیغمبرکا ایک وزیر اور خلیفہ ہوا ہے۔ یہ کس طرح ہوسکتا ہے کہ ایک پیغمبرﷺ دنیا سے جائے جبکہ وہ صاحب شریعت نبی ہو مگر اپنا خلیفہ و نائب لوگوں میں نہ چھوڑ جائے۔ اپنی امت کا معاملہ (مسئلہ خلافت) مہمل چھوڑ جائے۔
لہذا محمدﷺ کے لئے علی علیہ السلام وصی ہیں اور خلیفہ ہیں۔
جیسا کہ آپ نے علی کو خود فرمایا تو میرے لئے یوں ہے جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہارون علیہ السلام، اسی سے سمجھا جاسکتا ہے کہ علی علیہ السلام ہی محمدﷺ کے خلیفہ ہیں اور عثمان نے یہ منصب (خلافت) غصب کرکے اپنے اوپر چسپاں کررکھا ہے۔ عمررض نے بھی کسی حق کے بغیر یہ شوریٰ پر ڈال دیا اور عبدالرحمن بن عوف نے نفسانی ہوس سے عثمان کی بیعت کرلی اور علی کا ہاتھ بھی اس نے پکڑ رکھا تھا جب علی نے بیعت کرلی تو اس کا ہاتھ چھوڑ دیا۔
اب جو ہم شریعت محمدی میں ہیں ہم پر واجب آتا ہے کہ امر بالمعروف اور نہی عن المنکر سے سستی نہ کریں جیسا کہ ارشاد خداوندی ہے (ترجمہ) "تم وہ بہترین امت ہو جو لوگوں کے لئے لائی گئی تاکہ انہیں نیکی کا حکم کرے، برائی سے روکے۔"
پھر ابن سبا نے لوگوں سے کہا بھی ہم میں یہ طاقت نہیں کہ عثمان کو خلافت سے اتار سکیں۔ البتہ یہ ہم پر ضروری ہے کہ جتنا ہوسکے عثمان کے عمال (گورنروں) کو جو ظلم و ستم روا رکھے ہیں، کمزور کر ڈالیں۔ ان کے قبیح اعمال اہل دنیا پر واضح کریں اور لوگوں کے دل عثمان اور اس کے عمال سے متنفر کر ڈالیں۔ چنانچہ انہوں نے کئی خطوط لکھے اور والی مصر عبداﷲ بن سعد (کے ظلم) کی شکایت کرتے ہوئے جہاں میں ہر طرف ارسال کردیئے اس طرح انہوں نے لوگوں کو اس بات پر یکدل بنایا کہ وہ مدینہ میں جمع ہوکر عثمان کو امر بالمعروف کریں اور اسے خلافت سے اتاردیں۔
عثمان یہ معاملہ سمجھتے تھے اور مروان بن حکم نے ہر شہر میں جاسوس بھیجے چنانچہ وہ یہ خبر لے کر واپس آئے کہ ہر شہر کے بڑے لوگ عثمان کو اتار دینے میں یک زبان ہیں ناچار عثمان کمزور ہوگئے اور اپنے معاملہ میں عاجز آگئے، قتل ہوگئے۔"[309]
خلاصہ یہ ہوا کہ ننے فرقے کی بنیاد رکھنے والا بہت بڑا یہودی عالم تھا جو بظاہر اسلام لانے کے باوجود درپردہ یہودی ہی رہا جیسا کہ تاریخ روضۃ الصفاء اور فرق شیعہ جیسی معتبر شیعہ کتب سے اس کی نہایت وقباحت ہوچکی، اس یہودی عالم نے اسلام کے متعلق اپنی قلبی شقاوت و عداوت کو تسکین دینے کے لئے نۓ فرقہ کی بنیاد رکھی اور اسلام کو پارہ پارہ کرنے کی کوشش کی جس میں وہ کامیاب ہوا اورشہادت حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ میں کامیاب ہوکر فساد کا وہ دروازہ کھولا جو آج تک بند نہیں ہوسکا۔
عبداﷲ بن سبا نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے بارے میں ’’الہ‘‘ ہونے کا عقیدہ ایجاد کیا۔ اس پر حضرت علی رضی اﷲ عنہ نے اسے جلاوطن کردیا اور کہا گیا ہے کہ یہ اصل میں یہودی تھا پھر مسلمان ہوگیا۔ یہودیت کے دوران حضرت یوشع بن نون اور حضرت موسیٰ علیہما السلام کے بارے میں اسی قسم کی باتیں کیا کرتا تھا جیسی حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے متعلق کیں اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ ’’وجوب امامت‘‘ کا عقیدہ اسی کی اختراع و ایجاد ہے[310]،[311]،[312]
ابان بن عثمان سے مروی ہے وہ کہتا ہے کہ میں نے امام جعفر رضی اﷲ عنہ سے سنا آپ فرما رہے تھے کہ اﷲ تعالیٰ عبداﷲ بن سبا پر لعنت کرے کہ اس نے حضرت علی رضی اﷲ عنہ کے متعلق خدا ہونے کا دعویٰ کیا۔ حالانکہ قسم بخدا حضرت امیر المومنین خدا کے اطاعت گزار بندے تھے۔ ہم پر افترا بازی کرنے والے کے لئے ہلاکت ہو۔ تحقیق جو قوم ہمارے متعلق وہ بات کہتی ہے جو ہم خود اپنے لئے کہنا روا نہیں سمجھتے۔ ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔ ہم اس سے بری الذمہ ہیں۔[313]،[314]
البخاری، حدیث نمبر: 3017
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ ان سے ایوب نے ‘ ان سے عکرمہ نے کہ علی ؓ نے ایک قوم کو (جو عبداللہ بن سبا کی متبع تھی اور علی ؓ کو اپنا رب کہتی تھی) جلا دیا تھا۔ جب یہ خبر عبداللہ بن عباس ؓ کو ملی تو آپ نے کہا کہ اگر میں ہوتا تو کبھی انہیں نہ جلاتا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے کہ اللہ کے عذاب کی سزا کسی کو نہ دو ‘ البتہ میں انہیں قتل ضرور کرتا کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا ہے جو شخص اپنا دین تبدیل کر دے اسے قتل کر دو۔ (البخاری: 3017 )[315]
سنن نسائی، حدیث نمبر: 4065
عکرمہ سے روایت ہے کہ کچھ لوگ اسلام سے پھرگئے ١ ؎ تو انہیں علی ؓ نے آگ میں جلا دیا۔ ابن عباس ؓ نے کہا: اگر میں ہوتا تو انہیں نہ جلاتا، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: تم کسی کو اللہ کا عذاب نہ دو ، اگر میں ہوتا تو انہیں قتل کرتا (کیونکہ) رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہے: جو اپنا دین بدل ڈالے اسے قتل کر دو ۔ (سنن نسائی: 4065)[316]، تخریج دارالدعوہ: انظر ما قبلہ (صحیح ) قال الشيخ الألباني: صحيح
وضاحت: ١ ؎: کہا جاتا ہے کہ یہ لوگ عبداللہ بن سبا کے متبعین و پیروکاروں میں سے تھے، انہوں نے فتنہ پھیلانے اور امت کو گمراہ کرنے کے لیے اسلام کا اظہار کیا تھا۔
سنی اور شیعہ دونوں کے ساتھ ساتھ دیگر تمام اسلامی بنیاد پرست فرقوں کے پاس اپنی اپنی حدیث، تفسیر، تاریخی بیانات اور رسومات ہیں۔ تاہم، قرآن کو حق کی طرف مستند رہنما ہونے کے ناطے دونوں فریقوں کی طرف سے متفق ہونا چاہیے۔ سدی ابو صالح کے الفاظ میں، سنی اور شیعہ کے درمیان بات چیت کے نتیجہ خیز ہونے کے لیے، … سب سے کم مشترک ڈینومینیٹر (denominator/ صفة مشتركة) تلاش کیا جائے، ایک ایسا کام جسے اس کے پیغام اور اس کی سالمیت کے لحاظ سے سنی اور شیعہ دونوں طرف سے مکمل طور پر مستند تسلیم کیا جائے گا۔ یہ کتاب یقیناً "قرآن کریم" ہے۔ اس لیے سنی اور شیعہ فرقوں کے درمیان عقیدہ کے بڑے اختلافات کو حل کرنے کے لیے سب سے پہلا اور اہم مقام قرآن ہونا چاہیے۔،
شیعہ عقیدہ امامت: "انبیاء کے علاوہ، اللہ کے مقرر کردہ افراد کا ایک اور گروہ ہے جسے "امام" کہتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہیں جو اسماء کے مالک ہیں اور ایسے علم تک رسائی رکھتے ہیں جس تک عام لوگوں کی رسائی نہیں ہے۔ دنیا امام سے خالی نہیں ہو سکتی ورنہ فنا ہو جائے گی۔ شیعہ تناظر میں یہ افراد حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی اولاد میں سے بارہ افراد ہیں جنہیں مسلمانوں کی قیادت کے لیے اللہ تعالیٰ کے سوا کسی نے مقرر نہیں کیا ہے۔ جو بھی ان بارہ کے علاوہ کسی کو پیشوا چنتا ہے وہ گمراہ ہے اور مکمل مومن نہیں ہے۔ اماموں میں سے بارھویں (آخری) مہدی ہیں اور اگرچہ وہ ایک ہزار سال سے زائد عرصے سے غیبت میں ہیں، وہ اس وقت واپس آئیں گے جب اللہ عزوجل)خواہشیں اور پھر انصاف غالب ہوگا"
شیعہ اصول دین میں پانچ ارکان کو مذہب کی بنیادی مانتے ہیں، فروع دین کا تعلق دین کے معمولات سے ہے، جیسے نماز، روزہ، حج وغیرہ- "یہ امامت کا عقیده ہے جو شیعہ فرقہ کو تمام فرقوں سے علیحدہ کرتا ہے۔ دیگر اختلافات بنیادی نہیں ہیں؛ وہ فروعی ہیں (یعنی ثانوی)- اصول دین یہ ہیں :
1. توحید (خدا کی وحدانیت)
2. نبوت
3. معاد (قیامت کا دن)
4. عادل (الله تعالی کا انصاف)
5. امامت (مذکورہ بالا عقیدہ)
امام صدوق فرماتے ہیں کہ ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو امیر المومنین علی علیہ السلام کی امامت اور ان کے بعد کی ائمہ اطہار علیہم السلام کا انکار کرے اس کا وہی مقام ہے جو انبیاء کی رسالت کا انکار کرنے والے کا ہے۔ "
مزید فرماتے ہیں: "اور ہمارا عقیدہ یہ ہے کہ جو امیر المومنین علی علیہ السلام کو مانتا ہے لیکن ان کے بعد کسی ایک امام کو رد کرتا ہے، اس کا وہی مقام ہے جو تمام انبیاء کو مانتا ہے اور پھر محمد صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کا انکار کرتا ہے۔"
شیعہ اثنا عشری کا "عقیدہ امامت "جو ان کی اساسی کتب میں کچھ اس طرح بیان کیا گیا ہے جیسا کہ:
علامہ مجلسی لکھتے ہیں
بعض اہل علم نے ذکر کیا ہے کہ عبداللہ ابن سبا یہودی تھا اسلام لے آیا اور پھر حضرت علی کی ولایت کا قائل ہوا۔ اس پہلے جب یہ یہودی تھا تو حضرت یوشع کے بارے میں غلو کرتا تھا کہ وہ موسی کے وصی ہیں۔ اسلام لانے کے بعد اس قسم کی بات حضرت علی کے بارے میں کی۔ یہ سب سے پہلا شخص ہے جس نے حضرت علی کی امامت کا قائل ہونا فرض ہے اور ان کی دشمنوں پر اعلانیہ تبرا کیا۔اور مخالفوں کو کافر کہا (بحارالنوار صفحہ 287 جلد 25)۔[317]
علامہ مجلسی کی اس روایت سے جو باتیں ظاہر ہوتی ہیں وہ یہ ہیں۔
1) علامہ مجلسی کی اہل علم سے مراد اہل سنت کے علماء نہیں بلکہ شیعہ کے علماء ہیں جو یقینا اس کے وجود کے قائل تھے
2) عبد اللہ بن سبا یہودی تھا سب سے پہلے ولایت و امامت علی رضہ کا قائل ہوا
3) اس نے حضرت یوشع کے بارے میں زمانہ یہود میں غلو کیا وہی غلو حضرت علی کے بارے میں زمانہ اسلام میں کیا
حیرت ہے علامہ مجلسی نے یا شیعہ اہل علم نے وصی موسی کو تو غلو سے تعبیر کیا ہے اور خود حضرت علی کے بارے میں یہی غلو آج تک کرتے آرہے ہیں۔
4) ابن سبا ہی امامت کا فرض ہونے کا پہلا قائل ہے اور اسی نے ہی سب سے پہلے خلفاء علانیہ تبرا کیا جو آج تک شیعہ کرتے آرہے ہیں
5)ان سب احادیث کے مطابق نبی و امام میں فرق کرنا مشکل ہے بس خاتم الانبیاء کی رعایت کرتے ہوئے انہیں نبی نہیں کہتے ورنہ ہماری عقل شریف تو یہ فرق کرہی نہیں سکتی۔ (بحار الانوار ص 82 جلد 26)۔
6)علامہ مجلسی لکہتے ہیں: امامت کا درجہ نبوت سے بالاتر ہے (حیات القلوب ص 10 جلد 3)۔
7)علامہ مجلسی نے اپنی کتاب بحار الانوار کے جلد 26 کے باب کا نام کچھ اس طرح رکھا ہے: آئمہ علیہ السلام تمام انبیاء سے اور تمام مخلوق سے افضل ہیں۔۔۔ آئمہ علیہ السلام کے بارے میں تمام انبیاء سے ملائکہ سے اور ساری مخلوق سے عہد لیا گیا۔۔۔ اولو العزم انبیاء صرف آئمہ کی محبت کی وجہ سے اولو العزم بنے۔ (بحارالانوار ص 267 جلد 26 )۔ [یاد رہے علامہ مجلسی نے تمام انبیاء لکها ہے اور تمام انبیاء میں حضور صلی اللہ علیہ وسلم بھی آتے ہیں]
8)سب نبیوں کو نبوت بھی تب ملی جب تک انہوں ولایت آئمہ کا اقرار نہیں کیا[318]
9) لکھتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : عالم ارواح میں کسی نبی کو اس وقت تک نبوت نہیں ملی جب تک اس کے سامنے میری اور میرے اہل بیت کی ولایت پیش نہیں کی گئی اور یہ ائمہ ان کے سامنے پیش نہیں کئے گئے پس انہوں نے ان کی ولایت و اطاعت کا اقرار کیا تب ان کو نبوت ملی۔ ( بحار الانوار ص 281 جلد 26)۔
10)امام صادق نے فرمایا کسی بھی نبی کو اس وقت تک نبوت نہیں ملی جب تک اس نے ہمارے حق کا اقرار نہیں کرلیا اور سب لوگوں پر ہمارے فضلیت تسلیم نہیں کی۔ [319]( بحار الانوار ص 281 26)۔
11) ابوالبصیر نے ابو عبد اللہ سے روایت کیا ہے کہ اس وقت تک کسی نبی کو نبی نہیں بنایا گیا نہ ہی کسی رسول کو رسول نہیں بنایا گیا جب تک اس نے ہماری ولایت و فضلیت کا اقرار نہیں کیا۔( بحار الانوار ص 281 26)[320]
12) کہتے ہیں کہ : رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بھی اقرار لیا گیا۔ ابو سعید خدری سے روایت ہے کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ اے علی اللہ نے ہر نبی کو مبعوث کرنے سے پہلے طوعن و کرہن تیری ولایت کا اس سے اقرار کرایا۔۔( بحار الانوار ص 280 26)[321]
13) اور سب سے بڑہ کر حضور علیہ السلام کو بھی یہ حکم دیا گیا کہ جو علم اللہ آپ کو سکھائیں وہ علی کو بھی سکہادیں۔ ( اصول کافی جلد 1)
یہ سب روایات اس بات پر دلالت کرتی ہیں کہ شیعہ کے نزدیک امامت نبوت سے بالاتر ہے۔ اس لئے خمینی نے کہا یہ عقیدہ ہماری ضرورت دین ہے یعنی دوسرے لفظوں میں بنیاد دین ہے۔
چناچہ شیعہ نہ صرف امامت و وصایت بلکہ تبرہ بازی میں اس ابن سبا کے پیروکار ہیں اب وہ اپنے اس محسن اعظم کو جھٹلائیں تو جو بات پہنچی ہے وہ یہ ہے کہ ابن سبا شیعوں کا مرشد اعظم ہے اور مذہب شیعہ کی بنیاد اس کے عقائد پر ہی ہوئی۔
نظریہ امامت و وصایت کے موجد شیعہ کے محسن اعظم عبد اللہ بن سبا لعنہ اللہ کے عقائد
عبداللہ بن سبا سے پہلے کے لوگ تقیہ سے کام لیتے تھے اور ان امور کو (وصایت ، امامت ، افضلیت علی رضہ ) کو اعلانیہ نہیں کہتے تھے لیکن اس نے تقیہ چھوڑ دیا اور ان باتوں کو اعلانیہ ذکر کرنا شروع کر دیا۔ مخالفین امامت کو کافر کہنا بھی پہلے اس نے شروع کیا۔ ( بحار النوار ص 287 جلد 25 حاشیہ)۔
حضرت صادق رح اس کے بارے میں فرماتے ہیں: عبداللہ بن سبا پر اللہ کی لعنت ہو اس نے امیر المومنین کے بارے میں ربوبیت کا دعوی کیا۔ (بحارالانوار جلد 25 ص 287)[322]
چناچہ شیعوں نے عبداللہ بن سبا کے عقائد کو آپس میں بانٹ لیا۔ تفضلیوں نے اس کی افضلیت کا عقیدہ اپنایا، رافضیوں نے امامت وصایت اور تبرہ بازی کے عقائد کو اپنایا، اور پھر غالی رافضیوں نے الہویت علی کے عقیدہ کو اپنایا۔ چناچہ مجموعی طرح سب شیعہ عقائد کا موجد یہی ہے۔ اب اس یہودی کی قیاس آرئیوں پر بنا ہوا عقیدہ امامت، کس حد تک اسلامی ہے یا نہیں؟
اصل میں بات یہ ہے کہ جب صحابہ نے حضرت ابوبکر کو خلیفہ بلافصل تسلیم کیا اور علماء امت نے اس بات سے افضلیت ابوبکر عن صحابہ کے قائل ہوئے تو بعد کے دور کے شیعہ مجتہدین نے حضرت علی کی افضلیت ثابت کرنے کے چکر میں ایسا غلو کیا کہ انہیں انبیاء سے بھی بالاتر بنادیا ۔اب حضرت ابوبکر کی کیا مجال کہ علی رضہ سے افضل ہوں کیوں کہ وہ تو انبیاء سے بھی افضل ہیں (نعوذ باللہ)
ہم قاری سے پوچھتے ہیں کہ قرآن میں امامت کا عقیدہ کہاں ہے؟ یہ ایک بہت ہی معقول سوال ہے۔ قرآن ہدایت کی کتاب ہے اور ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بتایا ہے کہ جب بھی ہم ھدایت حاصل کرنا چاہیں تو ہم قرآن سے مشورہ کر سکتے ہیں اور یہ کبھی ہمارے ساتھ خیانت نہیں کرے گا۔ امامت کا شیعہ عقیدہ کوئی معمولی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ بہت اہم ہے اور یہ شیعوں کا بنیادی عقیدہ ہے۔ اس کی اہمیت اس حد تک ہے کہ شیعہ علماء کے نزدیک اس نظریے پر کفر کی وجہ سے 80% مسلمان گمراہ ہیں اور درحقیقت سچے مومن نہیں ہیں۔ اگر ایسا ہے تو ہم قاری سے پوچھتے ہیں کہ قرآن کی کون سی آیات نے ہمیں امامت کا یہ "اہم ترین " نظریہ دیا ہے؟
اگر امامت اسلام میں مرکزی حیثیت رکھتی ہے اور قرآن اسلام کی مرکزی کتاب ہے تو یقیناً قرآن میں امامت کا عقیدہ ہونا چاہیے۔ اور ابھی تک، سینکڑوں سالوں سے، شیعہ علماء "قرآن چیلنج" کا جواب نہیں دے سکے ہیں۔ اہل سنت والجماعت نے بارہا شیعوں کو چیلنج کیا ہے کہ وہ قرآن میں ایک ایسی آیت بھی پیش کریں جو امامت کے شیعہ تصور کو بیان کرے۔ بار بار، جو کوئی قرآن سے امامت کا ثبوت تلاش کرنے کی کوشش کرتا ہے وہ ایسا کرنے میں ناکام رہتا ہے۔
یہ شیعوں کے لیے ایک کھلا چیلنج ہے کہ وہ قرآنی آیات پیش کریں جو امامت کے شیعہ تصور کی وضاحت اور جواز پیش کرتی ہیں۔ کیا شیعہ امامت کا خاکہ پیش کرنے والی ایک آیت بھی بتا سکتے ہیں، بغیر ترجمہ کے بغیر کسی اضافے کے، ترجمے میں قوسین ( ) کے اضافے کے بغیر ، بغیر تفسیر کے، بغیر تفسیر کے، اور ان کی اپنی ذاتی تفسیروں کے بغیر جو ہمیں آیت سے دوسری آیت تک پہنچاتی ہے؟
جب شیعہ کو قرآنی آیات بغیر کسی اضافے کے تیار کرنے پر مجبور کیا جائے گا، تو وہ "قرآن چیلنج" کو پورا کرنے کے قریب پہنچنا بھی ناممکن سمجھے گا۔ قرآن مجید کی کوئی ایک آیت بھی اس کے قریب سے کچھ نہیں کہتی کہ :
’’اے ایمان والو، نبی کے بعد اللہ کے منتخب کردہ بارہ امام ہوں گے اور تم ان کی پیروی کرو۔‘‘ شیعہ کبھی بھی قرآن میں کوئی ایسی آیت پیش نہیں کر سکتے جو اس سے ملتی جلتی چیز کو ظاہر کرے۔اس کے لیے درحقیقت، شیعہ طویل تفسیر اور منقولہ دلائل پیش کرنے پر مجبور ہوں گے جن میں بعض آیات کے اضافی معانی شامل ہوں گے۔ لیکن اگر ہم شیعوں سے کہیں کہ بغیر کسی داخل کے آیت کو پڑھ لیں تو اچانک وہ امامت کے جواز کے لیے قرآن میں ایک آیت بھی پیش نہیں کر سکتے۔ یہ کہنا کافی ہے کہ شیعہ اگر صرف قرآن اور قرآن کو استعمال کرنے پر مجبور ہو جائے تو وہ سیاسی طور پر معذور ہو جاتا ہے۔
فہم قرآن کی ماسٹر کی (Master Key Ayah 3:7)[324]
هُوَ الَّذِىۡۤ اَنۡزَلَ عَلَيۡكَ الۡكِتٰبَ مِنۡهُ اٰيٰتٌ مُّحۡكَمٰتٌ هُنَّ اُمُّ الۡكِتٰبِ وَاُخَرُ مُتَشٰبِهٰتٌؕ فَاَمَّا الَّذِيۡنَ فِىۡ قُلُوۡبِهِمۡ زَيۡغٌ فَيَتَّبِعُوۡنَ مَا تَشَابَهَ مِنۡهُ ابۡتِغَآءَ الۡفِتۡنَةِ وَابۡتِغَآءَ تَاۡوِيۡلِهٖۚ وَمَا يَعۡلَمُ تَاۡوِيۡلَهٗۤ اِلَّا اللّٰهُ ؔۘ وَ الرّٰسِخُوۡنَ فِى الۡعِلۡمِ يَقُوۡلُوۡنَ اٰمَنَّا بِهٖۙ كُلٌّ مِّنۡ عِنۡدِ رَبِّنَا ۚ وَمَا يَذَّكَّرُ اِلَّاۤ اُولُوا الۡاَلۡبَابِ ۞ (القرآن - سورۃ نمبر 3 آل عمران، آیت نمبر 7)
ترجمہ:: وہی اللہ ہے، جس نے یہ کتاب تم پر نازل کی ہے۔ اس کتاب میں دو طرح کی آیات ہیں: ایک محکمات، جو کتاب کی اصل بنیاد ہیں اور دُوسری متشابہات۔ جن لوگوں کو دلوں میں ٹیڑھ ہے، وہ فتنے کی تلاش میں ہمیشہ متشابہات ہی کے پیچھے پڑے رہتے ہیں اور اُن کو معنی (تاویلیں) پہنانے کی کو شش کیا کرتے ہیں حالانکہ ان کا حقیقی مفہوم اللہ کے سوا کوئی نہیں جانتا۔ بخلا ف اِ س کے جو لوگ علم میں پختہ کار ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ”ہمارا اُن پر ایمان ہے، یہ سب ہمارے رب ہی کی طرف سے ہیں۔“ اور سچ یہ ہے کہ کسی چیز سے صحیح سبق صرف دانشمند لوگ ہی حاصل کرتے ہیں(القرآن 3:7)
شیعوں نے کہا ہے کہ امامت ایمان کی بنیاد ہے، اس لیے اس موضوع پر قرآن مجید میں بہت سی آیات ہونی چاہیے۔ پھر بھی، "قرآن چیلنج" صرف شیعوں سے کہتا ہے کہ وہ قرآن کی ایک دو آیات بھی نکالیں، پھر بھی یہ ممکن نہیں ہے۔ قرآن کی ایک آیت میں بھی ان کے معصوم اماموں کے ناموں کا ذکر نہیں ہے۔ حتیٰ کہ علی رضی اللہ عنہ کا نام بھی نہیں۔) کا ذکر کبھی قرآن میں آیا ہے۔ لیکن اس سے زیادہ اہم بات یہ ہے کہ امامت کے تصور کا ایک بھی ذکر نہیں ہے۔ یہ عجیب ہے، کم از کم کہنا؛ امامت اصول دین (ایمان کا ایک بنیادی رکن) کا حصہ کیسے ہو سکتی ہے اور اس کا قرآن میں ایک مرتبہ بھی ذکر نہیں؟ سچی بات یہ ہے کہ قرآن میں عقیدہ کی تمام بنیادی باتوں کا ذکر ہے، اور اگر کوئی چیز قرآن میں نہیں ہے تو وہ "چیز" ممکنہ طور پر عقیدہ کی بنیاد نہیں ہو سکتی۔
امامہ کا قرآن میں ذکر نہیں ہے۔
اسلام کے ہر ایک بنیادی اصول کا قرآن مجید میں متعدد بار ذکر ہوا ہے۔ توحید اور تصور اللہ (عزوجل ) کا ذکر دو ہزار سے زیادہ مرتبہ آیا ہے۔ رسولوں اور انبیاء کے تصور کا بار بار ذکر کیا جاتا ہے۔ درحقیقت لفظ "رسول" اور "نبی" چار سو سے زائد مرتبہ استعمال ہوا ہے۔ امامت کے علاوہ باقی تمام اصول دین کا قرآن میں سینکڑوں مرتبہ ذکر آیا ہے۔ اس کے باوجود امامت کے مسئلہ پر قرآن بالکل خاموش ہے۔
شیعہ کہتے ہیں کہ امامت اصول دین میں سے ہے، لیکن ہم دیکھتے ہیں کہ یہاں تک کہ فروع دین (دین کے ذیلی اور ثانوی حصے) کا ذکر امامت سے کہیں زیادہ کیا گیا ہے (جس کا حقیقت میں کبھی ذکر نہیں کیا گیا)۔ نماز، اسلام کا دوسرا ستون، قرآن مجید میں 700 مرتبہ ذکر ہوا ہے۔ اسلام کا تیسرا ستون زکوٰۃ کا ذکر 150 سے زائد مرتبہ آیا ہے۔ اور پھر بھی امامہ کہاں ہے؟ [امام کا لفظ قرآن میں (12) بارہ مرتبہ آیا ہے، لیکن جو امامت کا شیعہ عقیده ہے وہ ان میں شامل نہیں، ملاحظه فرمائیں اس لنک پر[325]] قرآن انسانیت کے لیے مکمل رہنما ہے، پھر بھی شیعہ کہہ رہے ہیں کہ بنیادی عقیدہ (یعنی امامت) اس میں نہیں ہے۔
قرآن واضح طور پر کہتا ہے کہ محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اللہ کے رسول کے طور پر مقرر کیے گئے ہیں اور ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہیے۔ اگر اس کے بعد کوئی اور الہٰی مقرر کیا گیا تھا جس کی پیروی ہمیں کرنی تھی تو کیا اس کا نام بھی قرآن میں نہیں ہونا چاہیے؟
قرآن میں بارہ اماموں کے نام لینے کا سوال کیوں ہے؟
یا ان میں سے ایک کے بارے میں کیا خیال ہے؟
علی (رضی اللہ) عنہ کا نام بھی قرآن میں نہیں ہے۔ دلیل کی خاطر، ہم نام بھی نہیں مانگیں گے۔
یہاں تک کہ خدائی مقرر کردہ اماموں کے تصور کے بارے میں بھی کیا خیال ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آئیں گے اور ہمیں ان کی پیروی کرنی چاہیے؟
ہم بحث کریں گے کہ اللہ (عزوجل )کتاب کے مکمل ہونے کے لیے ایسے لوگوں کے نام شامل کرنے چاہیے تھے، لیکن ہم قرآن میں ایک بھی آیت نہیں پاتے جو امامت کے تصور کو بھی بیان کرتی ہو۔ شیعہ اس سلسلے میں ایک آیت بھی پیش نہیں کر سکتے۔
قرآن انسانیت کے لیے آخری رہنما ہے۔ اس میں ہمارے ایمان کے تمام بنیادی عقائد موجود ہیں۔
اگر امامت واقعی ہمارے ایمان کا حصہ ہوتی تو قرآن میں ہوتی۔
لیکن امامت قرآن میں نہیں ہے اور جو عقیدہ قرآن میں جائز نہیں ہے ہم اسے رد کرتے ہیں۔
قرآن مجید میں بہت سی آیات ہیں جو کہتی ہیں کہ مومن وہ ہیں جو نماز پڑھتے ہیں، غریبوں کو زکوٰۃ دیتے ہیں، نیک اعمال کرتے ہیں اور اس طرح کے دوسرے کام کرتے ہیں۔ لیکن ایسا کیوں ہے؟ کہ ایک آیت بھی یہ نہیں کہتی کہ مومن وہ ہیں جو معصوم امام کی پیروی اور اطاعت کرتے ہیں؟
1.اثنا عشری شیعہ اپنے بارہ اماموں کو مُفترضُ الطاعة مانتے ہیں یعنی ان پر ایمان لے آنا ضروری ہے، اگر ان پر کوئی ایمان نہیں لے آیا تو وہ ان کے مطابق مومن نہیں ہے،جب کہ قرآن وسنت میں اللہ پر،اسکے رسولوں اور نبیوں پر، اسکے فرشتوں پر، اس کی طرف سے آئی ہوئی تمام آسمانی کتابوں پر، تقدیر پر، مرنے کے بعد دوبارہ اٹھائے جانے پر ایمان لانا فرض ہے[326]، ان کا یہ عقیدہ اسلام کے بنیادی عقیدہ سے اور قرآن وحدیث سے متصادم ہے۔
2. ان کے ائمہ کو اختیار ہے کہ جس کو چاہیں حلال یا حرام کردیں یہ عقیدہ بھی قرآن سے متصادم ہے۔ یہ پاور تو کسی نبی کو بھی حاصل نہیں ہے۔ گویا ائمہ کا درجہ انھوں نے نبیوں سے بھی آگے بڑھادیا۔
3. شیعوں کے یہاں ائمہ معصوم ہوتے ہیں۔ یہ عقیدہ بھی قرآن وحدیث سے متصادم ہے، معصوم صرف نبی ہوتا ہے اور کوئی معصوم نہیں ہوتا۔
4. شیعہ برادران کے عقیدہ کے مطابق امام "جمیع ما کان ومایکون" کا علم رکھتے ہیں۔ یہ قرآن کے ساتھ متصادم ہے کیونکہ یہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے دوسروں کو اس میں شریک گردانتا درست نہیں۔
5. وہ لوگ اپنے 12 اماموں کے بارے میں یہ بھی عقیدہ رکھتے ہیں کہ ان کے پاس اللہ کی طرف سے نئی شریعت اور نئی کتاب بھی آتی ہے۔ یہ عقیدہ ختم نبوت کے عقیدہ سے متصادم ہے، اور یہ بالکل کھلی ہوئی بات ہے کہ جو لوگ اپنے بارہ اماموں کو غیب دانی میں اللہ کے برابر ٹھہرائیں یا انھیں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے برابر ٹھہرائیں یا ان سے بھی زیادہ پاور والا اپنے نبی کو مانیں، یا ان کو آخری نبی نہ مانیں وہ کیا ہیں؟(مزید لنک [327])
کتاب نہج البلاغہ ایک معتبر شیعہ ذریعہ (source) کے مطابق علی رضی اللہ عنہ نے حضرت عثمان (رضی الله) کی شہادت کے بعد خلیفہ بننے سے انکار کر دیا جب لوگ ان کے گرد جمع ہوئے اور ان سے خلافت سنبھالنے کی درخواست کی اور ان سے ان کی قیادت قبول کرنے کی التجا کی تو آپ ںے فرمایا :
"مجھے اکیلا چھوڑ دو؛ کسی اور کی تلاش میں جاؤ.... اگر تم مجھے اکیلا چھوڑ دو تو میں بھی اسلامی ریاست کے ایک عام شہری کے طور پر تمہاری طرح رہوں گا... حقیقت یہ ہے کہ میں تمہاری رہنمائی کرنا اور تمہیں نصیحت کرنا چاہتا ہوں بجانے یہ میں تم پر حکومت کرنا چاہوں"[328] ، [329]
"تم نے (بیعت کیلئے) میرا ہاتھ (اپنی طرف) پھیلانا چاہا تو میں نے اُسے روکا اور تم نے کھینچا تو میں اُسے سمیٹتا رہا، مگر تم نے مجھ پر اس طرح ہجوم کیا جس طرح پیاسے اونٹ پانی پینے کے دن تالابوں پر ٹوٹتے ہیں..."[خطبہ (۲۲۶)، نہج البلاغہ][330]
"پھر ایک فراوان ہجوم نے مجھے خلافت کو قبول کرنے کے لیے مجبور کیا، ان سب نے مجھے ہر طرف سے گھیرا ہوا تھا، رش کی یہ حالت تھی کہ نزدیک تھا کہ میرے دونوں نور چشم میرے بچے، رسول خدا (ص) کی یادگار حسن و حسین پاؤں تلے روندے جاتے، اس رش کے دھکوں سے میرے دونوں پہلوؤں پر بھی زور پڑا، میری عبا دونوں طرف سے پھٹ گئی، لوگوں نے بھیڑوں کی طرح مجھے اپنے گھیرے میں لیا ہوا تھا، لیکن اسکے باوجود بھی جب میں نے خلافت کو قبول کر لیا..."
امام علی (رضی الله) کا یہ فرمان شیعہ مذہب کو مکمل طور پر منسوخ کر دیتا ہے، کیوں کہ وہ اس عہدہ سے فارغ ہونے کی درخواست کیسے کر سکتے ہیں جسے شیعہ عقیده کے مطابق اللہ کی طرف سے مقرر کیا گیا ہے اور جس کی قبولیت اللہ نے تمام بنی نوع انسان پر لازم کر دی ہے اور جس کا دعویٰ بھی کرتے ہیں کہ حضرت علی رض خود حضرت ابوبکر(رضی الله) سے خلافت واپس مانگتے تھے؟
لہٰذا جس بھی گروہ کے پاس قرآن میں اپنے عقائد کی بنیاد ہے، ہمیں اسی گروہ پر قائم رہنا چاہیے۔ جس گروہ کے عقائد قرآن میں نہیں ہیں اس کی پیروی نہیں کی جا سکتی کیونکہ یہ اللہ کے کلام کی تردید ہو گی ۔ قرآن اپنی رہنمائی میں مکمل ہے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے: ہم نے کتاب میں سے کوئی چیز نہیں چھوڑی۔ (قرآن، 6:38)
پہلے 11گیارہ امام متقی افراد تھے جو اہل سنت والجماعت کا حصہ تھے۔ ان کا شیعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔ ان میں سے کسی نے امامت کا دعویٰ نہیں کیا جیسا کہ شیعہ دعویٰ کرتے ہیں، کیونکہ یہ ان پر دجال ہونے کا الزام لگائے گا اور وہ اس سے بری الزمہ تھے۔ یہ حضرت عیسیٰ (علیہ السلام) کے معاملے سے ملتا جلتا ہے، جو مسلمان تھے عیسائی نہیں تھے۔ عیسائیوں نے اپنے عقائد کے اعتبار سے حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر طاغوت میں سے ایک ہونے کا الزام لگایا ہے اور پھر بھی ہم جانتے ہیں کہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام اس سے بے قصور تھے۔ جس طرح حضرت عیسیٰ علیہ السلام نے کبھی خدا کا بیٹا ہونے کا دعویٰ نہیں کیا، اسی طرح 11 اماموں نے کبھی اپنے لئے امامت (یعنی خدائی تقرری) کا دعویٰ نہیں کیا۔ مسلمانوں کا حضرت عیسیٰ علیہ السلام پر عیسائیوں سے زیادہ حق ہے۔
ہم اللہ سے دعا گو ہیں کہ وہ 11 اماموں میں سے ہر ایک پر اپنی رحمتیں نازل فرمائے، علی ابن ابی طالب سے لے کر حسن العسکری تک، اللہ ان سے راضی ہو! وہ نہ صرف اہل بیت کی صالح اولاد تھے بلکہ بہترین لوگوں میں سے تھے۔
جہاں تک 12ویں امام کا تعلق ہے تو ان کا کوئی وجود نہیں تھا کیونکہ حسن عسکری رحمۃ اللہ علیہ کا کوئی بیٹا نہیں تھا۔ شیخ جبریل حداد سے شیعوں کے ائمہ کی حیثیت کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے جواب دیا:
میں نے ڈاکٹر نورالدین عطر کو یہ کہتے ہوئے سنا: "ان میں سے ہر ایک پرہیزگار، نسل نبوی سے سچا مسلمان تھا اور ان میں سے بہت سے اپنے زمانے میں علم کے بہترین لوگوں میں سے بھی تھے۔"
ام القریٰ کے فارغ التحصیل شیخ مقبول احمد المکی سے سوال کیا: گیارہ اماموں کی کیا حیثیت ہے؟ جس کے جواب میں شیخ نے فرمایا:
’’اس میں کوئی شک نہیں کہ وہ صالح تھے اور مسلمانوں کے متقی روحانی پیشواوں میں سے تھے۔ ان کا شیعہ سے کوئی تعلق نہیں تھا۔[331]،[332]
نہج البلاغہ میں، جسے شیعہ علی (رضی الله) کے خطبات اور خطوط کو مانتے ہیں، علی (رضی اللہ عنہ ) کہتے ہیں: "قرآن اپنے بندوں کے لیے اللہ کی حجت (ثبوت) ہے… یہ اسلام کی بنیاد ہے… اور ہر اس شخص کے لیے ہدایت ہے جو اس کی پیروی کرتا ہے اور ہر اس شخص کے لیے جواز ہے جو اسے اپنا نقطہ نظر سمجھتا ہے اور ہر اس شخص کے لیے ثبوت ہے جو اسے اپنے مباحثوں میں اپنا حامی سمجھتا ہے اور ہر اس شخص کے لیے جو اسے اپنے دلائل کے لیے استعمال کرتا ہے۔ [نہج البلاغہ، خطبہ 198]
شیعہ حدیث میں امام صادقؑ سے منقول ہے کہ:
"جو شخص قرآن کے علاوہ کسی اور ذریعہ سے حق کو پہچانے گا وہ فتنہ سے نہیں بچ سکے گا۔"
قرآن کی اہمیت کو شیعوں کے معصوم اماموں نے واضح طور پر بیان کیا ہے:
"اگر آپ کو ہم سے روایت کردہ دو حدیثیں نظر آئیں تو ان کا موازنہ اللہ کی کتاب سے کریں۔ جو موافق ہو اسے لے لو اور جو اختلاف ہو اسے رد کر دو۔ (الاستبصار، جلد 1، صفحہ 190) اور پھر: "جو کچھ آپ کو ہماری طرف سے بیان کیا جائے [امام] تو اس کا موازنہ اللہ کی کتاب سے کریں۔ جو اس کے موافق ہو اسے قبول کرو اور جو اس کے خلاف ہو اسے رد کر دو۔ (الاستبصار، جلد 3، صفحہ 158)
یہ احساس کہ امامت قرآن میں ظاہر نہیں ہوتی ہمارے شیعہ بھائیوں کے لیے صدمے کا باعث بن سکتی ہے۔ ہم ان کی ترغیب دیتے ہیں کہ وہ قرآن میں بارہ معصوم اماموں کے بارے میں آیات تلاش کریں، اور یقیناً انہیں کوئی نہیں ملے گا۔ جیسا کہ ایک بھائی نے کہا: "میں نے قرآن میں شیعہ نہیں پایا۔"[333] ان اماموں ںے حکومت کا دعوی کیا وہ میرٹ پر تھا وہ ان لوگوں میں سب سے متقی اور اہل تھے اور بنی ہاشم سے اور رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت سے نہ کہ الله تعالی کی طرف سے نامزد امام ، یہ عقیده بعد کی ایجاد ہے ان کے نام کو استعمال کرتے ہیں-
شیعہ کہتے ہیں کہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے خلافت کو غلط طریقے سے چھین لیا۔ شیعہ کہتے ہیں کہ لیڈر کا انتخاب لوگ نہیں کر سکتے، بلکہ اللہ کی طرف سے مقرر ہونا چاہیے۔ ہم حیران ہیں: پھر آیت اللہ خمینی کو قائد کیوں منتخب کیا گیا؟ کیا وہ بھی لوگوں کے ذریعے منتخب نہیں ہوا؟
آیت اللہ خمینی اور باقی شیعہ آیت اللہ اپنی طاقت اور حیثیت کو آگے بڑھانے کے لیے شیعہ مذہب کی تعلیمات سے فائدہ اٹھاتے ہیں۔ "آیت اللہ" معصوم اماموں کے تصور کی وضاحت کرتے ہیں اور ایسا کرنے سے وہ بالواسطہ طور پر اپنا مقام اور مرتبہ بڑھاتے ہیں کیونکہ وہ "عبوری امام" ہیں۔ اسے دو ٹوک الفاظ میں کہوں تو آیت اللہ ہمیں بتا رہے ہیں کہ چونکہ پوشیدہ امام آج کام نہیں کر سکے، اس لیے آیت اللہ خمینی ان کے لیے کام کرنے والے ہیں۔
اس تصور کو ولایت فقیہ کہتے ہیں۔ پوشیدہ امام کی غیر موجودگی میں، شیعہ نے فیصلہ کیا کہ وہ ایک مقبول رہنما، یا نائب امام کا انتخاب کریں گے۔ یہ نائب امام، جیسا کہ آیت اللہ خمینی، مہدی کے "نمائندے" ہوں گے جب وہ غیبت میں ہوں گے۔
ولایت فقیہ کے اس نظام کے تحت آیت اللہ خمینی ایران کے شیعوں کے سپریم لیڈر بنے۔ (1969,70) میں، مرحوم آیت اللہ خمینی نے اپنی تصنیف "اسلامی حکومت" میں اس تصور کی مزید وضاحت کی اور 1979 میں ایرانی آئین میں ولایت فقیہ کا تصور شامل کیا گیا۔ آیت اللہ خمینی نے اعلان کیا کہ نائب امام کو بھی اسی سے نوازا گیا ہے۔ ایک معصوم امام کے طور پر اختیار ، زندگی کے تمام شعبوں پر محیط۔ آیت اللہ خمینی نے اپنے آپ کو ولایت المطلق، یا اللہ کی طرف سے مطلق اختیار کا اعلان کیا۔ آیت اللہ خمینی نے اپنی ایک تقریر میں کہا کہ ولایت فقیہ مسلمانوں کو نماز پڑھنے سے روکنے کا حکم بھی دے سکتا ہے اگر اسے یہ معلوم ہو کہ نماز پڑھنے سے اسلام کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
شیعہ علماء نے معصوم اماموں کو خود کو آیت اللہ (اللہ کی نشانیاں) کہنے کے حوالے سے نقل کیا ہے۔ ہمیں یہ جان کر حیرت نہیں ہوئی کہ خمینی نے بھی یہ لقب اختیار کیا تھا۔ ہم حیران ہیں:
خمینی کس طرح "اللہ کی نشانی" ہیں؟
درحقیقت ان کا پورا نام آیت اللہ روح اللہ خمینی ایک الجھن ہے۔ روح اللہ کا ترجمہ "روح اللہ"۔ کیا واقعی شیعہ یہ دعویٰ کر رہے ہیں کہ خمینی اللہ کی روح ہیں؟
اسی طرح عیسائیوں نے اپنے نبی کے ساتھ کیا۔ شیعہ یہ بھی کہتے ہیں کہ ان کے معصوم امام اللہ کی حجت (ثبوت) تھے اور پھر ہمیں یہ جان کر کوئی تعجب نہیں ہوا کہ آیت اللہ خمینی نے بھی خود کو اللہ کا حجت قرار دیا۔
ولایت فقیہ اور متلقہ کے تصور کو استعمال کرتے ہوئے شیعہ ائمہ نے بہت جلد اپنے آپ کو ایران کے حکمرانوں اور بادشاہوں کی طرح ایک بلند مقام تک پہنچا دیا ہے۔ یہ ولایت فقیہ دنیا کا سب سے بڑا فراڈ ہے۔ ان شیعہ اماموں نے لاکھوں لوگوں کو اپنی حکمرانی کے تابع ہونے کا جھانسہ دیا ہے۔
خمینی اور باقی شیعہ قائدین نے ولایت فقیہ کے تصور کو استعمال کرتے ہوئے اپنی سیاسی طاقت کو بڑھانے کے لیے امامت کے شیعہ نظریے کو استعمال کیا اور اس کا غلط استعمال کیا۔ شیعہ آیت اللہ اس قدر طاقتور اور سیاسی طور پر بااثر ہو چکے ہیں کہ ان کے لاکھوں شیعہ پیروکار آیت اللہ کی تصویریں لگاتے ہیں جیسے کہ وہ پاپ آئڈل (Idol Pope) ہوں۔
شیعہ پادریوں نے اپنی طاقت کو بے پناہ دولت حاصل کرنے کے لیے استعمال کیا ہے۔ خمس کے تصور کی بدولت وہ کافی حد تک پیسے میں تیر رہے ہیں۔ خمس کی ادائیگی (جو کہ آدمی کی آمدنی کا 20% ہے)، اس کا نصف نائب امام کو دینا چاہیے۔ اس طرح ایران میں شیعہ کے آیت اللہ اور امام ارب پتی بن گئے ہیں۔
یہ سراسر ذلت آمیز ہے کہ کس طرح شیعہ امام اپنے مذہب سے بے وقوف عوام کو بے وقوف بنانے کے لیے استعمال کرتے ہیں جو اپنے قائدین کی بلندی پر سوال اٹھانے کی زحمت گوارا نہیں کرتے۔[334]
آئیے کہتے ہیں کہ میں شیعہ مذہب اختیار کرنا چاہتا تھا... چلو فرض کرتے ہیں کہ مجھے یقین ہو گیا ہے کہ ہمیں معصوم اماموں کی پیروی کرنے کی ضرورت ہے اور میں شیعہ مذہب اختیار کرنا چاہتا تھا۔ اب، شیعہ مذہب میں ایک ممکنہ تبدیلی کے طور پر، شیعہ مذہب کا ہر فرقہ مجھ سے کہہ رہا ہے کہ مجھے ان کے معصوم اماموں کی پیروی کرنی چاہیے۔ شیعہ مذہب کے کم از کم 70 مختلف فرقے ہیں، جن میں سے ہر ایک اپنے اپنے اماموں کے لیے اپنے نسب کی پیروی کرتا ہے۔ یہاں دروز، بوہرہ، نزاری، زیدی، جارودی، سلیمانی، بطرس، اسماعیلی، قیاسانیہ، قداحیہ، غلت، آغا خانی وغیرہ موجود ہیں۔ حتیٰ کہ اتنا اشعری شیعہ میں بھی بہت سے مختلف فرقے ہیں جن میں اصولی، اکابرین اور شائقین۔ مجموعی طور پر ، درجنوں شیعہ فرقے ہیں ، جن میں سے ہر ایک کا اپنا نسب امام ہے۔
سچائی کے متلاشی کے طور پر، میں کیسے جان سکتا ہوں کہ ان میں سے کون سا سلسلہ صحیح ہے؟
یہ ایک اہم ترین فیصلہ ہے۔ شیعہ مسلک کے مطابق کسی شخص پر جھوٹی امامت کا دعویٰ کفر ہے۔
لہٰذا اگر میں غلط نسب کا انتخاب کروں تو میں کافر ہو جاؤں گا جس کا مقدر جہنم ہے۔ اس لیے مجھے بہت احتیاط کرنی ہوگی جب میں یہ چنتا ہوں کہ میں ان میں سے کس کی پیروی کرنا چاہتا ہوں اور اماموں میں سے کون صحیح ہے؟
ان فرقوں میں سے ہر ایک کے پاس اپنی حدیثوں کا مجموعہ ہے جس سے معلوم ہوتا ہے کہ ان کے اماموں کا مجموعہ صحیح ہے۔ ان میں سے بعض فرقوں کے عقائد بہت مختلف ہیں، لیکن بہت سے فرقے ایسے بھی ہیں جو کسی دوسرے امام کی پیروی، یا کسی دوسرے مقام پر نسب کی شاخیں چھوڑ کر تقریباً ایک جیسے ہیں [یعنی تیسرے کی بجائے دوسرے بیٹے کو امام بنانا، وغیرہ]
براہِ کرم مجھے بتائیں کہ میں صحیح راستہ تلاش کرنے کے لیے کیسے آگے بڑھوں؟
کاش میں جوابات کے لیے قرآن کے پاس جاؤں، کیونکہ اللہ نے اسے حتمی ہدایت کی کتاب کہا ہے۔ بدقسمتی سے، قرآن میں کسی امام کے نام کا ذکر نہیں ہے، جو کہ عجیب ہے، کیونکہ کیا یہ کتاب ہدایت میں ڈالنے کے لیے اہم چیز نہیں ہوگی؟ قرآن نے واضح طور پر محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) کی پیروی کرنے کا کہا جو اللہ کے رسول ہیں، اور پھر بھی مجھے ان اماموں میں سے کسی کی پیروی کے بارے میں ایک آیت بھی نہیں ملتی، ان کے ناموں کو چھوڑ دیں۔
اس لیے اب میں مختلف فرقوں کی "حدیث" کو دیکھنے پر مجبور ہوں۔ ان میں سے ہر ایک کی اپنی اپنی حدیث ہے اور ان میں سے ہر ایک دوسرے فرقے کو غلط امام اور جھوٹی حدیث پر عمل کرنے پر منحرف قرار دیتا ہے۔ میں بہت الجھن میں ہوں! میں سائنسی طور پر یہ کیسے طے کروں گا کہ کون سی حدیث صحیح ہے اور کون سی من گھڑت ہے؟ کیا اللہ واقعی مجھ سے ایسا کرنے کی امید رکھتا ہے؟
میں جانتا ہوں کہ اتھنا اشعری اس وقت سب سے زیادہ آبادی والا شیعہ گروپ ہے۔ لیکن کچھ سرسری تحقیق نے مجھے دکھایا کہ یہ صرف ایک حالیہ واقعہ تھا:
شاہ اسماعیل اول صفوی سلطنت کے دوران اقتدار میں آیا اور وہ صرف اتھنا اشعری فرقہ میں تبدیل ہوا، اور پھر اس نے تمام فارسیوں کو جرمانے کے ذریعے مذہب تبدیل کرنے پر مجبور کیا موت کے ڈر سے-
اس سے پہلے دوسرے شیعہ فرقے تھے جو زیادہ بااثر تھے۔ اگر میں فاطمی سلطنت میں رہتا (جو اسماعیلی شیعہ تھا) تو یہ اسماعیلیت ہوتی جو شیعہ کی اکثریت تھی۔ بات یہ ہے کہ ہم محض اعتنا اشعری فرقہ کی پیروی نہیں کر سکتے کیونکہ یہ سب سے بڑا فرقہ ہے، یعنی ہمیشہ ایسا نہیں تھا۔
اگر آپ اعتنا اشعری امامی اصولی فرقے کا حصہ ہیں تو میں شرط لگاتا ہوں کہ آپ شاید اسی طرح پیدا ہوئے ہیں۔ اگر شاہ اسماعیل اول نے شیعہ مذہب کا ایک مختلف فرقہ اختیار کر لیا ہوتا اور اماموں کے دوسرے مجموعے کی پیروی کی ہوتی تو شاید آپ اس فرقے میں پیدا ہوتے۔ بہر حال، صرف اس وجہ سے کہ اعتنا اشعری کی اکثریت ہے، کیا اس کا مطلب ہے کہ میں اس کی پیروی کروں؟
تاریخی طور پر، شیعہ کا عقیدہ ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت نے امام کو رد کیا اور صرف مٹھی بھر لوگ ان کے وفادار تھے۔ اگر امام کے حقیقی پیروکار واقعی ایک چھوٹا اور غیر واضح شیعہ فرقہ ہے تو کیا ہوگا؟
پھر میں انہیں کیسے تلاش کروں؟
درجنوں شیعہ فرقوں میں سے کس کا تعلق صحیح ہے؟
میں کھو گیا ہوں. رہنمائی کے لیے میں کہاں سے رجوع کر سکتا ہوں؟ اگر میں شیعہ مذہب اختیار کرنا چاہتا ہوں تو مجھے کس فرقے کی پیروی کرنی چاہیے اور امام کا کون سا سلسلہ صحیح ہے؟ کیا اثنا عشری مجھے کوئی وجہ بتا سکتے ہیں کہ انہوں نے دوسرے فرقے کے ائمہ کے مقابلے میں اپنے اماموں کا انتخاب کیوں کیا؟
اس معاملے کی حقیقت یہ ہے کہ کسی شخص کے لیے یہ فیصلہ کرنے کا قطعاً کوئی طریقہ نہیں ہے کہ اماموں کا صحیح مجموعہ کون سا ہے، کیونکہ قرآن میں ائمہ کا ذکر نہیں ہے۔ قرآن میں جس چیز کا ذکر ہے وہ ہے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی پیروی کرنا، اور ہمیں یہی کرنا چاہیے۔ چونکہ امامت کا عقیدہ قرآن سے غائب ہے اس لیے ہمیں اسے رد کرنا چاہیے۔[335]
[ یہ کھا جا سکتا ہے کہ اہل سنت میں بھی بہت فرقے ہیں، لیکن ہمارے پاس قرآن موجود ہے فرقان ، جس سے کس بھی فرقہ کے عقائد کو چیک کر سکتے ہیں جو آپ کو قرآن کے مطابق لگے اس کو قبول کر لیں، ویسے سنی فرقوں میں اختلافات اصول میں نہیں فروعی ہیں جو زیادہ اہم نہیں- چار بڑے سنی مسلک ایک دوسرے کو درست مانتے ہیں کسی میں شامل ہو سکتے ہیں ]
قرآن کے بعد احادیث کو چیک کر سکتے ہیں :
علم الحديث کے سنہری اصول[336] : https://bit.ly/Hadith-Basics
یہ بہت طویل موضوع ہے جو اس کتاب کے دائرہ کار سے باہر ہے، تفصیل ملاحضہ کریں اس لنک پر- ۔
اگر علی رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم تھا کہ وہ نص قطعی کی بنیاد پر اللہ تعالی کی طرف سے امام یا خلیفہ متعین ہیں تو انہوں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاتھوں بیعت خلافت کیوں کی؟
اگریہ کہیں کہ وہ مجبور تھے، تو عاجز اور مجبور شخص خلافت کے لیے کیونکر موزوں ہوسکتا ہے؟
پھر جب حضرت عثمان (رضی الله) کی شہا دت کے بعد لوگوں ۓ ان کو خلافت کے لئے منتخب کیا تو انہوں ۓ پہلے انکار کیوں کیا؟[338] جبکہ وہ اللہ کی طرف سے نامزد تھے شیعہ عقیده کے مطابق؟
کیونکہ خلافت اسی کے لائق ہے جو خلافت کے بوجھ اور ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر اُٹھا سکتا ہے۔ اور اگر یہ کہیں کہ وہ خلافت کے بوجھ اُٹھانے کی استطاعت رکھتے تھے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تو یہ قول خیانت ہے اور خائن کو امامت کے منصب پر فائز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی رعایا کے بارے میں اس پر اعتماد اور بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
جب کہ ہمارا ایمان ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات ان تمام عیوب سے منزہ اور مبرا ہے۔ آپ کا جواب کیا ہے؟
امام حسن اور امام حسین (رضی الله) کی متضاد حکمت عملی، دونوں درست نہیں ہو سکتیں؟ اس سوال کا شیعہ کے پاس کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ اگر وہ یہ کہیں کہ حسنین رضی اللہ عنہما دونوں ہی حق پر تھے تو انہوں نے اجتماع ضدین کا ارتکاب کیا۔ اور اگر ایک درست ہے تو پھر دوسرے کی امامت پر حرف آتا ہے-
علی رضی اللہ عنہ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اپنے پیش رو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین ہی کا راستہ اختیار کیا بلکہ آپ رضی اللہ عنہ منبر خلافت سے برابر یہی کلمات دہراتے "خیر ھذہ الامۃ بعدنبیھا ابوبکر وعمر"
"اس اُمت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین ابوبکر اور عمر ہیں"
لطف کی بات یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نےحج تمتع نہیں فرمایا، اور فدک کا مال بھی نہیں حاصل کیا ایام حج میں لوگوں پر متعہ واجب نہیں کیا اور نہ ہی اذان میں "حی علی خیر العمل" کے کلمہ کو رواج دیا اور نہ اذان سے "الصلاۃ خیر من النوم" کا جملہ حذف کیا۔
اگر شیخین رضی اللہ عنہما کافر ہوتے اور انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے خلافت زبردستی غصب کی ہوتی تو اس چیز کو علی رضی اللہ عنہ نے کھول کر بیان کیوں نہیں کیا؟ جبکہ حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھی۔ بلکہ زمینی حقائق سے علی رضی اللہ عنہ کا ذاتی عمل اس کے برعکس نظر آتا ہے کہ انہوں نے شیخین {ابوبکر و عمر} کی تعریف کی ہے اور دل کھول کر ان کی مدح سرائی کی ہے۔
وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا مِنۡکُمۡ وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسۡتَخۡلِفَنَّہُمۡ فِی الۡاَرۡضِ کَمَا اسۡتَخۡلَفَ الَّذِیۡنَ مِنۡ قَبۡلِہِمۡ ۪ وَ لَیُمَکِّنَنَّ لَہُمۡ دِیۡنَہُمُ الَّذِی ارۡتَضٰی لَہُمۡ وَ لَیُبَدِّلَنَّہُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ خَوۡفِہِمۡ اَمۡنًا ؕ یَعۡبُدُوۡنَنِیۡ لَا یُشۡرِکُوۡنَ بِیۡ شَیۡئًا ؕ وَ مَنۡ کَفَرَ بَعۡدَ ذٰلِکَ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الۡفٰسِقُوۡنَ ﴿55﴾
"تم میں سے ان لوگوں سے جو ایمان لائے ہیں اور نیک اعمال کئے ہیں اللہ تعالٰی وعدہ فرما چکا ہے کہ انہیں ضرور زمین میں خلیفہ بنائے گا جیسے کہ ان لوگوں کو خلیفہ بنایا تھا جو ان سے پہلے تھے اور یقیناً ان کے لئے ان کے اس دین کو [339]مضبوطی کے ساتھ محکم کرکے جما دے گا جسے ان کے لئے وہ پسند فرما چکا ہے اور ان کے اس خوف و خطر کو وہ امن امان سے بدل دے گا ، وہ میری عبادت کریں گے میرے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ ٹھہرائیں گے اس کے بعد بھی جو لوگ ناشکری اور کفر کریں وہ یقیناً فاسق ہیں" (قرآن 24:55)[340]
اس ارشاد سے مقصود منافقین کو متنبہ کرنا ہے کہ اللہ نے مسلمانوں کو خلافت عطا فرمانے کا جو وعدہ کیا ہے اس کے مخاطب محض مردم شماری کے مسلمان نہیں ہیں بلکہ وہ مسلمان ہیں جو صادق الایمان ہوں ، اخلاق اور اعمال کے اعتبار سے صالح ہوں ، اللہ کے پسندیدہ دین کا اتباع کرنے والے ہوں ، اور ہر طرح کے شرک سے پاک ہو کر خالص اللہ کی بندگی و غلامی کے پابند ہوں ۔ ان صفات سے عاری اور محض زبان سے ایمان کے مدعی لوگ نہ اس وعدے کے اہل ہیں اور نہ یہ ان سے کیا ہی گیا ہے ۔ لہٰذا وہ اس میں حصہ دار ہونے کی توقع نہ رکھیں ۔
اس بات کا تاریخی ثبوت ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنا یہ وعدہ ابو بکر صدیق ، عمر فاروق اور عثمان غنی رضی اللہ عنہم کے زمانے میں پورا کر دیا ۔ اس کے بعد کوئی انصاف پسند آدمی مشکل ہی سے اس امر میں شک کر سکتا ہے کہ ان تینوں حضرات کی خلافت پر خود قرآن کی مہر تصدیق لگی ہوئی ہے اور ان کے مومن صالح ہونے کی شہادت اللہ تعالیٰ خود دے رہا ہے ۔ اس میں اگر کسی کو شک ہو تو نہج البلاغہ میں سیدنا علی کرم اللہ وجہہ کی وہ تقریر پڑھ لے جو انہوں نے حضرت عمر (رضی الله) کو ایرانیوں کے مقابلے پر خود جانے کے ارادے سے باز رکھنے کے لیے کی تھی ۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :
"اس کام کا فروغ یا ضعف کثرت و قلت پر موقوف نہیں ہے ۔ یہ تو اللہ کا دین ہے جس کو اس نے فروغ دیا اور اللہ کا لشکر ہے جس کی اس نے تائید و نصرت فرمائی ، یہاں تک کہ یہ ترقی کر کے اس منزل تک پہنچ گیا ۔ ہم سے تو اللہ خود فرما چکا ہے ( وَعَدَ اللہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا مِنْکُمْ وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ لَیَسْتَخْلِفَنَّھُمْ فِی الْاَرْضِ) ............ اللہ اس وعدے کو پورا کر کے رہے گا اور اپنے لشکر کی ضرور مدد کرے گا ۔
اسلام میں قیم کا مقام وہی ہے جو موتیوں کے ہار میں رشتے کا مقام ہے۔ رشتہ ٹوٹتے ہی موتی بکھر جاتے ہیں اور نظم درہم برہم ہو جاتا ہے ۔ اور پراگندہ ہو جانے کے بعد پھر جمع ہونا مشکل ہو جاتا ہے ۔ اس میں شک نہیں کہ عرب تعداد میں قلیل ہیں ۔ مگر اسلام نے ان کو کثیر اور اجتماع نے ان کو قوی بنا دیا ہے ۔
سیدنا علی کرم اللہ وجہہ فرماتے ہیں :
آپ (عمر) یہاں قطب بن کر جمے بیٹھے رہیں اور عرب کی چکی کو اپنے گرد گھماتے رہیں اور یہیں سے بیٹھے بیٹھے جنگ کی آگ بھڑکاتے رہیں ۔ ورنہ آپ اگر ایک دفعہ یہاں سے ہٹ گئے تو ہر طرف سے عرب کا نظام ٹوٹنا شروع ہو جائے گا اور نوبت یہ آ جائے گی کہ آپ کو سامنے کے دشمنوں کی بہ نسبت پیچھے کے خطرات کی زیادہ فکر لاحق ہو گی ۔ اور ادھر ایرانی آپ ہی کے اوپر نظر جما دیں گے کہ یہ عرب کی جڑ ہے ، اسے کاٹ دو تو بیڑا پار ہے ، اس لیے وہ سارا زور آپ کو ختم کر دینے پر لگا دیں گے ۔ رہی وہ بات جو آپ نے فرمائی ہے کہ اس وقت اہل عجم بڑی کثیر تعداد میں امنڈ آئے ہیں ، تو اس کا جواب یہ ہے کہ اس سے پہلے بھی ہم جو ان سے لڑتے رہے ہیں تو کچھ کثرت تعداد کے بل پر نہیں لڑتے رہے ہیں ، بلکہ اللہ کی تائید و نصرت ہی نے آج تک ہمیں کامیاب کرایا ہے "
دیکھنے والا خود ہی دیکھ سکتا ہے کہ اس تقریر میں جناب امیر کس کو آیت استخلاف کا مصداق ٹھہرا رہے ہیں ۔ کفر سے مراد یہاں کفران نعمت بھی ہو سکتا ہے اور انکار حق بھی ۔ پہلے معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق وہ لوگ ہوں گے جو نعمت خلافت پانے کے بعد طریق حق سے ہٹ جائیں اور دوسرے معنی کے لحاظ سے اس کے مصداق منافقین ہوں گے جو اللہ کا یہ وعدہ سن لینے کے بعد بھی اپنی منافقانہ روش نہ چھوڑیں (تفہیم القرآن)[341]
جن حضرات کا خیال ہے کہ خلفائےراشدین کافر تھے ان کے ہاتھوں پر اللہ تعالی نے اسلامی فتوحات کا دروازہ کھول کر اسلام اور مسلمانوں کو عزت و سربلندی عطا فرمائی تھی اور مسلمانوں کو تاریخ میں ایسا دورمشاہدہ کرنے کو نہیں ملا۔ کیا یہ بات اللہ تعالی کے اس دوٹوک فیصلے کے موافق ہے جس کی رو سے اللہ تعالی نے کفار اور منافقین کو ذلیل و رسوا کیا ہے؟ اس کے بالمقابل دوسرا رخ مشکلات کا تھا-
شیعہ کا دعوی ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ کافر تھے، لیکن تاریخ گواہ ہے کہ حسین بن علی رضی اللہ عنہ نے ان کے حق میں خلافت سے دست برداری کا اعلان کیا، حالانکہ حسین امام معصوم ہیں لہذا یہاں پر یہ بات ثابت ہوتی ہے کہ انہوں نے ایک کافر کے لیے خلافت سے دستبرداری کا اعلان کیا حالانکہ یہ چیز حسین رضی اللہ عنہ کی عصمت کے خلاف ہے یا اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ امیر معاویہ رضی اللہ عنہ مسلمان ہیں ، ان دو صورتوں میں ایک صورت کو بہرحال تسلیم کرنا ہے۔
شیعوں کا دعوی ہے کہ صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد مرتد ہوگئے تھے اور وہ پہلی کیفیت پر آگئے تھے۔ شیعہ حضرات سے سوال ہے کہ کیا اصحاب رسول نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل شیعہ اثنا عشریہ تھے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اہل سنت والجماعت ہوگئے تھے۔ یا لوگ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات سے قبل اہل سنت والجماعت تھے اور بعد از وفات شیعہ اثنا عشریہ ہوگئے ؟
کیونکہ ایک حال سے دوسرے حال کی طرف منتقل ہونے کو ہی انقلاب، تغیر اور تبدل کہا جاتا ہے؟
صحابہ کرام کے آپس کے اختلافات ، کدورت دورکرنے کے متعلق مضامین کی آیات کے بارے میں حضرت علی (رض) کا یہ قول بھی (خاص طور پر سورة الحجر ‘ آیت ٤٧ کے شان نزول میں ) منقول ہے کہ یہ میرا اور معاویہ (رض) کا ذکر ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمیں جنت میں داخل کرے گا تو دلوں سے تمام کدورتیں صاف کر دے گا۔ ظاہر بات ہے کہ حضرت علی (رضی الله) اور حضرت امیر معاویہ (رضی الله) کے درمیان جنگیں ہوئی ہیں تو کتنی کچھ شکایتیں باہمی طور پر پیدا ہوئی ہوں گی۔ ایسی تمام شکایتیں اور کدورتیں وہاں دور کردی جائیں گی[342]
اسی سلسلے میں سیدنا علی (رضی الله) نے یہ بھی فرمایا تھا کہ مجھے امید ہے کہ اللہ میرے عثمان طلحہ اور زبیر کے درمیان بھی صفائی کرا دے گا۔ واضح رہے کہ یہ صحابہ کرام (رض) ان چھ رکنی کمیٹی کے ممبر تھے جو سیدنا عمر نے اپنے وفات سے پیشتر نئے خلیفہ کے انتخاب کے سلسلہ میں تشکیل دی تھی اور یہ رنجش بعض غلط فہمیوں کی بنا پر پیدا ہوگئی تھی۔[343]
وَنَزَعْنَا مَا فِي صُدُورِهِم مِّنْ غِلٍّ تَجْرِي مِن تَحْتِهِمُ الْأَنْهَارُ ۖ وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلَّهِ الَّذِي هَدَانَا لِهَٰذَا وَمَا كُنَّا لِنَهْتَدِيَ لَوْلَا أَنْ هَدَانَا اللَّهُ ۖ لَقَدْ جَاءَتْ رُسُلُ رَبِّنَا بِالْحَقِّ ۖ وَنُودُوا أَن تِلْكُمُ الْجَنَّةُ أُورِثْتُمُوهَا بِمَا كُنتُمْ تَعْمَلُونَ ﴿٤٣﴾
اور جو کچھ ان کے دلوں میں کدورت ہوگی ہم اسے باہر نکال دیں گے ان کے نیچے سے نہریں بہتی ہوں گی۔ اور وہ شکر کرتے ہوئے کہیں گے ہر قسم کی تعریف اس اللہ کے لئے ہے جس نے ہمیں اس منزلِ مقصود تک پہنچایا اور ہم کبھی یہاں تک نہیں پہنچ سکتے تھے اگر وہ ہمیں نہ پہنچاتا۔ یقینا ہمارے پروردگار کے رسول حق کے ساتھ آئے اور انہیں ندا دی جائے گی کہ یہ بہشت ہے جس کے تم اپنے ان اعمال کی بدولت وارث بنائے گئے ہو۔ جو تم انجام دیا کرتے تھے۔ (7:43)
کہ مذکورہ آیت میں حضرت ابوبکر (رض) ، حضرت عمر (رض) ، حضرت عثمان (رض) ، حضرت علی (رض) ، حضرت طلحہ (رض) ، حضرت زبیر (رض) ، حضرت ابن مسعود (رض) ، حضرت عمار بن یاسر (رض) ، حضرت سلمان (رض) اور حضرت ابو ذر (رض) کی طرف اشارہ ہے اور ہوسکتا ہے کہ عام اہل جنت کی حالت کا اظہار مقصود ہو کہ وہاں کسی پر کسی کو حسد نہیں ہوگا اور نہ آپس میں کوئی جھگڑا ہوگا آواز دی جائے گی یعنی فرشتے یا کوئی خاص فرشتہ اہل جنت سے کہے گا۔ ورثہ اس لئے فرمایا کہ بہرحال جنت آدم کی میراث ہے جو ان کی مسلمان اولاد کو میراث میں دی جائے گی اور نیز اس لئے کہ تملیک کے لئے مضبوط اور بےکھٹکے طریقہ میراث ہی کا ہے۔[344]
وَنَزَعْنَا مَا فِيْ صُدُوْرِهِمْ مِّنْ غِلٍّ : ابوہریرہ (رض) سے مروی اہل جنت کے اوصاف میں ایک لمبی حدیث میں رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا : ” ان کے دل ایک آدمی کے دل کی طرح ہوں گے، نہ ان میں کوئی اختلاف ہوگا نہ باہمی بغض۔ “ [ بخاری، بدء الخلق، باب ما جاء فی صفۃ الجنۃ : ٣٢٤٦ ] دنیا میں اگر ان کے درمیان کوئی بغض تھا تو وہ صاف ہونے کے بعد جنت میں داخلہ ہوں گے-
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا :
” مومن آگ سے بچ کر نکلیں گے تو انھیں جنت اور آگ کے درمیان ایک پل پر روک لیا جائے گا، پھر وہ ایک دوسرے سے ان زیادتیوں کا قصاص لیں گے جو دنیا میں ان سے ہوئیں یہاں تک کہ جب وہ تراش خراش کروا کر بالکل صاف ستھرے ہوجائیں گے تو انھیں جنت میں داخلے کی اجازت ملے گی۔ “ [ بخاری، المظالم، باب قصاص المظالم : ٦٥٣٥، عن أبی سعید الخدری (رض) ]
سینوں میں موجود کینے میں صحابہ کرام اور تابعین عظام کی باہمی رنجشیں بھی شامل ہیں، جو دنیا میں سیاسی یا دوسری وجوہات کی بنا پر پیدا ہوئیں۔
وَقَالُوا الْحَمْدُ لِلّٰهِ الَّذِيْ هَدٰىنَا۔۔ : یعنی یہ ہدایت جس سے ہمیں ایمان اور عمل صالح کی توفیق عطا ہوئی، پھر انھیں قبولیت کا شرف حاصل ہوا، یہ اللہ تعالیٰ کی خاص رحمت اور اس کا فضل ہے، اگر یہ نہ ہوتا تو ہم یہاں تک نہ پہنچ پاتے۔
اُوْرِثْتُمُوْهَا بِمَا كُنْتُمْ تَعْمَلُوْنَ : یہ باء سببیہ ہے، باء عوض نہیں، یعنی اللہ تعالیٰ ان سے فرمائے گا کہ یہ جنت میرے فضل سے تمہارے کسی عوض یا قیمت اداکیے بغیر تمہیں بطور ہبہ دی جا رہی ہے، جیسا کہ میراث بغیر کسی عوض کے دی جاتی ہے اور تمہاری اس عزت افزائی کا سبب دنیا میں تمہارے اعمال صالحہ ہیں۔
ابوہریرہ (رض) نے فرمایا کہ میں نے رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا :
” تم میں سے کسی کو اس کا عمل جنت میں ہرگز داخل نہیں کرے گا۔ “ لوگوں نے کہا : ” یا رسول اللہ ! آپ کو بھی نہیں ؟ “ فرمایا : ” نہیں، مجھے بھی نہیں، مگر یہ کہ اللہ تعالیٰ مجھے اپنے فضل اور رحمت سے ڈھانپ لے۔ “ [ بخاری، الرقاق، باب القصد والمداومۃ علی العمل : ٦٤٦٣، ٦٤٦٤ ] آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی رحمت انسانی اعمال کی بنیاد پر ہوگی، یعنی اس کے اعمال صالحہ ہی رحمت کا سبب بنیں گے (تفسیر عبد السلام بھٹوی )[345]
تفسیر مظہری میں ہے کہ یہ پل بظاہر پل صراط کا آخری حصہ ہوگا، جو جنت سے متصل ہے، علامہ سیوطی رحمة اللہ علیہ نے بھی اسی کو اختیار کیا ہے۔ اور اس مقام پر جو حقوق کے مطالبات ہوں گے ان کی ادائیگی ظاہر ہے کہ روپیہ پیسہ سے نہ ہوسکے گی، کیونکہ وہ وہاں کسی کے پاس مال نہ ہوگا، بلکہ بخاری و مسلم کی ایک حدیث کے مطابق یہ ادائیگی اعمال سے ہوگی، حقوق کے بدلہ میں اس کے عمل صاحب حق کو دیدئے جائیں گے، اور اگر اس کے اعمال اس طرح سب ختم ہوگئے اور لوگوں کے حقوق ابھی باقی رہے تو پھر صاحب حق کے گناہ اس پر ڈال دیئے جائیں گے۔ ایک حدیث میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایسے شخص کو سب سے بڑا مفلس قرار دیا ہے جس نے دنیا میں اعمال صالحہ کئے لیکن لوگوں کے حقوق کی پروا نہیں کی، اس کے نتیجہ میں تمام اعمال سے خالی مفلس ہو کر وہ گیا۔ اس روایت حدیث میں ادائے حقوق اور انتقام کا عام ضابطہ بیان کیا گیا ہے، لیکن یہ ضروری نہیں کہ سب کو یہی صورت پیش آئے، بلکہ ابن کثیر اور تفسیر مظہری کی روایت کے مطابق وہاں یہ صورت بھی ممکن ہوگی کہ بدوں انتقام لئے آپس کے کینے کدورتیں دور ہوجائیں۔ جیسا کہ بعض روایات میں ہے کہ یہ لوگ جب پل صراط سے گزر لیں گے تو پانی کے ایک چشمہ پر پہنچیں گے اور اس کا پانی پئیں گے، اس پانی کا خاصہ یہ ہوگا کہ سب کے دلوں سے باہمی کینہ و کدورت دھل جائے گی-
امام قربطی رحمة اللہ علیہ نے آیت کریمہ (آیت) وسقھم ربھم شرابا طھورا کی تفسیر بھی یہی نقل کی ہے کہ جنت کے اس پانی سے سب کے دلوں کی رنجشیں اور کدورتیں دھل جائیں گی۔
ذیل میں کچھ روایات اور حقائق شیعہ کتب سے پیش ہیں- سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ شیعہ حضرات کیوں حق کی مخالفت پر آمادہ ہیں؟ اب آپ ہی بتلائیں کہ کس کی تصدیق کریں اللہ کی، رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی اور اہل بیت کی یا شیعہ کے ذاکرین کی؟؟۔[346]
1.علی رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی وفات کے بعد اپنے آپ کو مخاطب کرتے ہوئے فرمایا: " اے نفس!اگر تجھے جزع و فزع اور نوحہ و ماتم سے نہ منع کیا گیا ہوتا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبر کی تلقین نہ کی ہوتی تو میں رو رو کر آنکھوں کا پانی خشک کر لیتا۔"{نہج البلاغہ اور مستدرک الوسائل}۔
2.یہ روایت بھی مروی ہے کہ علی علیہ السلام نے فرمایا ہے " جس نے مصیبت کے وقت اپنی رانوں پر ہاتھ مارا تو اس کا عمل ضائع اور برباد ہوئے گا۔{الخصال للصدوق اور وسائل الشیعہ}۔
3.حسین رضی اللہ عنہ نے حادثہ کربلا میں اپنی بہن زینب کو مخاطب کرکے فرمایا تھا میری پیاری بہن! میں تم کو اللہ کی قسم دے کر کہتا ہوں اگر میں قتل کر دیا جاوں تو تم مجھ پر گریبان چاک نہ کرنا اور اپنے ناخنوں سے اپنے چہرے کو نہ چھیدنا اور میری شہادت پر ہلاکت و تباہی کی دہائی نہ دینا۔
4.ابو جعفر القمی نے نقل کیا ہے امیر المومنین علیہ السلام کو جب اپنے ساتھیوں کے متعلق معلوم ہوا فرمایا: "تم کالا لباس زیب تن مت کیا کرو کیونکہ یہ فرعون کا لباس ہے۔ " {من لا یحضرہ الفقیہ اور کتاب وسائل الشیعہ}
5.تفسیر صافی میں اس آیت { وَلَا يَعْصِينَكَ فِي مَعْرُوفٍ ۙ۔۔﴿١٢﴾ سورۃ الممتحنۃ} کے ضمن میں یہ ہی کہا گیا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے عورتوں سے اس بات پر بیعت لی کہ وہ بطور سوگ کالا لباس نہیں پہنیں گی اور نہ گریبان چاک کریں گی اور نہ ہلاکت وبربادی کی پکار لگائیں گی۔
6.کلینی کی کتاب فروع الکافی میں ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فاطمہ رضی اللہ عنہا کو وصیت کی تھی کہ جب میرا انتقال ہوجائے تو نہ تو اپنے چہرے کو نوچنا اور نہ ہی مجھ پر بال لٹکا لٹکا کر غم کا اظہار کرنا اور نہ ہی ہلاکت و بربادی کی دہائی دینا اور نہ میرے لیے کسی نوحہ کناں کو مقرر کرنا۔ {ملاحظہ ہو:فروع الکافی}۔
7.شیعہ کے علماء المجلسی، النوری اور البردجردی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:" نوحہ و ماتم اور گانے بجانے کی آوازیں اللہ کے نزدیک ناپسندیدہ ہیں۔"{بحارالانوار، مستدرک الوسائل، جامع احادیث الشیعہ اور من لایحضرہ الفقیہ}
8.بدعات، قمہ زنی (خونی ماتم)
اگر زنجیر زنی، نوحہ خوانی اور سینہ کوبی میں عظیم اجروثواب ہے جیسا کہ شیعہ حضرات کا دعوی ہے (دیکھیے ارشاد السائل اور صراط النجاۃ)۔ تو شیعوں کے مذہبی رہنما اور ان کے ملاں و ذاکر زنجیر زنی کیوں نہیں کرتے ہیں؟
مزید پڑھیں :
ابن عباس (رض) کو حضرت علی (رض) کی جانب سے بصرہ کا گورنر معین کیا گیا تھا۔ بعض نقل قول کے مطابق امام علی (رض) کی حکومت کے اواخر میں آپ پر بیت المال میں خرد برد کا الزام لگا اور آپ نے بصرہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور مکہ روانہ ہو گئے۔ (حوالہ: بلاذری، جمل من انساف الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۳۹) /تفصیل: تاریخ طبری)
عبداللہ بن محمد بن اسماء ضبعی، جویریہ، مالک، حضرت زہری ؓ سے روایت ہے کہ حضرت مالک بن اوس ؓ فرماتے ہیں کہ حضرت عمر ؓ بن خطاب نے مجھے پیغام بھیج کر بلوایا میں دن چڑھے آپ کی خدمت میں آگیا حضرت مالک فرماتے ہیں کہ میں نے دیکھا کہ آپ گھر میں خالی تخت پر چمڑے کا تکیہ لگائے بیٹھے ہیں (فرمایا کہ اے مالک) تیری قوم کے کچھ آدمی جلدی جلدی میں آئے تھے میں نے ان کو کچھ سامان دینے کا حکم کردیا ہے اب تم وہ مال لے کر ان کے درمیان تقسیم کردو میں نے عرض کیا اے امیر المومنین! آپ میرے علاوہ کسی اور کو اس کام پر مقرر فرما دیں آپ نے فرمایا اے مالک تم ہی لے لو اسی دوران (آپ کا غلام) یرفاء اندر آیا اور اس نے عرض کیا اے امیر المومنین! حضرت عثمان، حضرت عبدالرحمن بن عوف، حضرت زبیر اور حضرت سعد رضوان اللہ علیھم اجمعین حاضر خدمت ہیں حضرت عمر ؓ نے فرمایا ان کے لئے اجازت ہے وہ اندر تشریف لائے پھر وہ غلام آیا اور عرض کیا کہ حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ تشریف لائے ہیں حضرت عمر ؓ نے فرمایا اچھا انہیں بھی اجازت دے دو حضرت عباس کہنے لگے اے امیر المومنین میرے اور اس جھوٹے گناہ گار دھوکے باز خائن کے درمیان فیصلہ کر دیجئے لوگوں نے کہا ہاں اے امیر المومنین ان کے درمیان فیصلہ کردیں اور ان کو ان سے راحت دلائیں حضرت مالک بن اوس کہنے لگے کہ میرا خیال ہے کہ ان دونوں حضرات یعنی عباس اور حضرت علی ؓ نے ان حضرت کو اسی لئے پہلے بھیجا ہے
حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں تمہیں اس ذات کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم نہیں جانتے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا کہ ہم (پیغمبروں) کے مال میں سے ان کے وارثوں کو کچھ نہیں ملتا جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے سب کہنے لگے کہ جی ہاں پھر حضرت عمر ؓ، حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کی طرف متوجہ ہو کر فرمانے لگے کہ میں تم دونوں کو قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم دونوں جانتے ہو کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہم پیغمبروں کا کوئی وارث نہیں بنایا جاتا جو ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے۔ انہوں نے کہا جی ہاں حضرت عمر ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے رسول اللہ ﷺ سے ایک خاص بات کی تھی کہ جو آپ ﷺ کے علاوہ کسی سے نہیں کی حضرت عمر ؓ نے فرمایا اللہ تعالیٰ نے اپنے رسول کو جو دیہات والوں کے مال سے عطا فرمایا وہ اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول کا ہی حصہ ہے مجھے نہیں معلوم کہ اس سے پہلے کی آیت بھی انہوں نے پڑھی ہے یا نہیں پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا رسول اللہ ﷺ نے تم لوگوں کے درمیان بنی نضیر کا مال تقسیم کردیا ہے اور اللہ کی قسم آپ ﷺ نے مال کو تم سے زیادہ نہیں سمجھا اور ایسے بھی نہیں کیا کہ وہ مال خود لے لیا ہو اور تم کو نہ دیا ہو یہاں تک کہ یہ مال باقی رہ گیا تو رسول اللہ ﷺ اس مال میں سے اپنے ایک سال کا خرچ نکال لیتے پھر جو باقی بچ جاتا وہ بیت المال میں جمع ہوجاتا پھر حضرت عمر ؓ نے فرمایا میں تم کو اس اللہ کی قسم دیتا ہوں کہ جس کے حکم سے آسمان و زمین قائم ہیں کیا تم کو یہ معلوم ہے انہوں نے کہا جی ہاں پھر اسی طرح حضرت عباس ؓ اور حضرت علی ؓ کو قسم دی انہوں نے بھی اسی طرح جواب دیا لوگوں نے کہا کیا تم دونوں کو اس کا علم ہے انہوں نے کہا جی ہاں
حضرت عمر ؓ نے فرمایا جب رسول اللہ ﷺ کی وفات ہوئی تو حضرت ابوبکر ؓ نے فرمایا میں رسول اللہ ﷺ کا والی ہوں اور تم دونوں اپنی وراثت لینے آئے ہو حضرت عباس ؓ تو اپنے بھتیجے کا حصہ اور حضرت علی ؓ اپنی بیوی کا حصہ ان کے باپ کے مال سے مانگتے تھے حضرت ابوبکر ؓ نے کہا کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا ہمارے مال کا کوئی وراث نہیں ہوتا جو کچھ ہم چھوڑتے ہیں وہ صدقہ ہوتا ہے اور تم ان کو جھوٹا، گناہ گار، دھوکے باز اور خائن سمجھتے ہو؟
اور اللہ جانتا ہے کہ وہ سچے نیک اور ہدایت یافتہ تھے اور حق کے تابع تھے پھر حضرت ابوبکر ؓ کی وفات ہوئی اور
میں رسول اللہ ﷺ اور حضرت ابوبکر ؓ کا ولی بنا اور تم نے مجھے بھی جھوٹا، گناہ گار، دھوکے باز اور خائن خیال کیا
اور اللہ تعالیٰ جانتا ہے کہ میں سچا، نیک، ہدایت یافتہ ہوں اور میں اس مال کا بھی والی ہوں اور پھر تم میرے پاس آئے تم بھی ایک ہو اور تمہارا معاملہ بھی ایک ہے تم نے کہا کہ یہ مال ہمارے حوالے کردیں میں نے کہا کہ میں اس شرط پر مال تمہارے حوالے کر دوں گا کہ اس مال میں تم وہی کچھ کرو گے جو رسول اللہ ﷺ کیا کرتے تھے اور تم نے یہ مال اسی شرط سے مجھ سے لیا پھر حضرت عمر ؓ نے ان سے فرمایا کیا ایسا ہی ہے ان دونوں حضرات نے کہا جی ہاں حضرت عمر ؓ نے فرمایا تم دونوں اپنے درمیان فیصلہ کرانے کے لئے میرے پاس آئے ہو اللہ کی قسم میں قیامت تک اس کے علاوہ اور کوئی فیصلہ نہیں کروں گا اگر تم سے اس کا انتظار نہیں ہوسکتا تو پھر یہ مال مجھے لوٹا دو۔ [صحيح مسلم : 1757,4577[349] ، صحيح البخاري : 3094، مختصرا]
الکافی میں درج ذیل شیعہ حدیث ملتی ہیں، جو حدیث کی چار شیعہ کتب میں شیعہ کے درمیان سب سے زیادہ معتبرسمجھی جاتی ہے:
"انبیاء کرام نے دینار اور درہم کو وراثت میں نہیں چھوڑا بلکہ علم کو چھوڑا ہے۔" (الکافی، جلد 1 صفحہ 42)[350]
الکافی میں یہ شیعہ حدیث دو الگ الگ روایات پر مشتمل ہے، اور شیعہ اسے صحیح مانتے ہیں۔ اس کی تصدیق آیت اللہ خمینی سے ہوتی ہے، جنہوں نے ولایت فقیہ کے اپنے دعوے کو ثابت کرنے کے لیے اس حدیث کو استعمال کیا۔ خمینی نے حدیث کے بارے میں کہا:
"اس روایت کے راوی سب ثقہ اور ثقہ ہیں۔ علی بن ابراہیم [یعنی ابراہیم بن ہاشم] کے والد نہ صرف قابل اعتماد ہیں، [بلکہ درحقیقت] وہ سب سے زیادہ قابل اعتماد اور ثقہ راویوں میں سے ایک ہیں۔ (خمینی، الحکمۃ الاسلامیہ، ص 133، شائع شدہ مرکز بقیات اللہ الاعظم، بیروت)
مزید تفصیل : باغ فدک[351] .....
کیا عمر (ر) نے فاطمہ (ر) کے گھر پر حملہ کیا اور انکے رحم کے بچے کا اسقاط کیا؟ [352]>>
آیت اللہ العظمی شیخ محمد یعقوبی نے کہا کہ اہل بیت (ع) کی تعلیمات کا سنی مسلمانوں کے مقدس شخصیات کی بے حرمتی کرنے والوں سے کوئی تعلق نہیں ہے۔ انہوں نے کہا کہ دونوں طرف (شیعہ اور سنی) کے ایسے گروہ ہو سکتے ہیں جو (اختلاف کے) شعلوں کو بھڑکاتے ہیں اور ایسی جاہلانہ حرکتوں کو ہوا دیتے ہیں۔ حال ہی میں ایک ویڈیو کلپ آن لائن آئی ہے جس میں طائر الدارجی نامی ایک شخص اور کچھ دیگر صحابہ کرام کی توہین کر رہا ہے۔ اس اقدام پر عراقی شیعہ علماء اور شخصیات کی جانب سے شدید تنقید کی گئی ہے۔ آیت اللہ علی السیستانی نے ایک بیان جاری کرتے ہوئے کہا ہے کہ صحابہ کی بے حرمتی کرنا اہل بیت(ع) کی تعلیمات کے منافی ہے۔عراقی وزیر اعظم اور شیعہ عالم مقتدیٰ الصدر نے بھی اس اقدام کی مذمت کی۔[353]
اہلسنت کے مقدسات کی توہین پر سید علی خامنائی کا فتوی :
اہلسنت برادران کے مقدسات کی توہین اور اہانت حرام ہے اور پیغمبر اسلام (ص) کی زوجہ پر الزام اس سےکہیں زیادہ سخت و سنگین ہے اور یہ امر تمام انبیاء (ع) کی ازواج بالخصوص پیغمبر اسلام (ص) کی ازواج کے لئے ممنوع اور ممتنع ہے۔ ( سید علی خامنائی)[354]
"میں تمہارے لئے اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے والے ہو جائو۔ بہترین بات یہ ہے کہ تم ان کے اعمال اورحالات کاتذکرہ کرو تاکہ بات بھی صحیح رہے اورحجت بھی تمام ہو جائے اور پھر گالیاں دینے کے بجائے یہ دعا کرو کہ؛
یا اللہ! ہم سب کے خونوں کومفحوظ کردے اور ہمارے معاملات کی اصلاح کردے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کےراستہ پر لگادے تاکہ ناواقف لوگ حق سے با خبر ہو جائیں اور حرف باطل کہنے والے اپنی گمراہی اور سرکشی سے بازآجائیں" [نہج البلاغہ خطبہ : 206][355]
پاکستانی شیعہ حضرات قرآن ، فرامین رسول اللہ ﷺ ، امام اول علی (ع) کے احکام اور اس دور کے ایرانی علماء کے فتووں پر عمل کیوں نہیں کرتے؟
کیوں متعصب ، فرقہ پرست جاہل علماء اور ذاکرین جن کی معیشت کا انحصار گالی گلوچ ، تضحیک، نفرت کے فروغ سے وابستہ ہے ان کو آئمہ (ع) اہل بیت پر کیوں ترجیح دیتے؟
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ:
قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)[356]
اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)
افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ”
دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔ (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)
الله تعالی ںے صحابہ کی غلطیوں (اختلافات،جھگڑوں، بدزبانی) کو معاف بھی فرمایا جب یقینی طور پر انہوں نے الله تعالی سے مغفرت کی دعا ہر صَلَاة میں مانگی، رسول اللہ ﷺ بھی صحابہ ، امت اور مومنین کی بخشش کے لیے دعا مانگتے تھے-
آیۓ مل کر دعا کریں :
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ (قرآن 59:10)[357]
اے ہمارے پروردگار ! تو ہمارے اور ہمارے ان بھائیوں کے گناہ معاف فرما دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور اہل ایمان میں سے کسی کے لیے بھی ہمارے دل میں کوئی کدورت باقی نہ رہنے دے ‘ بیشک تو رؤف اور رحیم ہے۔ (آمین )
حضرت حسین (رضی الله) سے کسی نے حضرت عثمان غنی کے بارے میں سوال کیا ( جبکہ ان کی شہادت کا واقعہ پیش آ چکا تھا) تو انہوں نے سوال کرنے والے سے پوچھا کہ تم مہاجرین میں سے ہو؟ اس نے انکار کیا پھر پوچھا کہ انصار میں سے ہو؟ اس نے اس کا بھی انکار کیا تو فرمایا بس اب تیسری آیت (والَّذِيْنَ جَاۗءُوْ مِنْۢ بَعْدِهِمْ) کی رہ گئی، اگر تم عثمان غنی (رضی الله) کی شان میں شک و شبہ پیدا کرنا چاہتے ہو تو اس درجہ سے بھی نکل جاؤ گے۔
حضرت عبداللہ بن عباس نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے سب مسلمانوں کو اصحاب محمد (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے لئے استغفار اور دعا کرنے کا حکم دیا، حالانکہ اللہ تعالیٰ کے علم میں تھا کہ ان کے آپس میں جنگ وجدال کے فتنے بھی پیدا ہوں گے ( اس لئے کسی مسلمان کو مشاجرات صحابہ کی وجہ سے ان میں سے کسی سے بدگمان ہونا جائز نہیں)
حضرت صدیقہ عائشہ نے فرمایا کہ میں نے تمہارے نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) سے سنا ہے کہ یہ امت اس وقت تک ہلاک نہیں ہوگی جب تک اس کے پچھلے لوگ اگلوں پر لعنت و ملامت نہ کریں گے۔
حضرت عبداللہ بن عمر نے فرمایا کہ جب تم کسی کو دیکھو کہ کسی صحابی کو برا کہتا ہے تو اس سے کہو کہ جو تم سے زیادہ برا ہے اس پر اللہ تعالیٰ کی لعنت، یہ ظاہر ہے کہ زیادہ برے صحابہ تو ہو نہیں سکتے یہی ہوگا جو ان کی برائی کر رہا ہے-
خلاصہ یہ ہے کہ صحابہ کرام میں سے کسی کو برا کہنا سبب لعنت ہے اور عوام بن شب نے فرمایا کہ اس نے اس امت کے پہلے لوگوں کو اس بات پر مستقیم اور مضبوط پایا ہے کہ وہ لوگوں کو یہ تلقین کرتے تھے کہ صحابہ کرام کے فضائل اور محاسن بیان کیا کرو تاکہ لوگوں کے دلوں میں ان کی محبت پیدا ہو اور وہ مشاجرات اور اختلافات جو ان کے درمیان پیش آئے ہیں ان کا ذکر نہ کیا کرو جس سے ان کی جرات بڑھے ( اور وہ بےادب ہوجاویں) [358]
صَلَاة، تشہد میں "صالحین" پر سلامتی اور پھر "مومنین" کی مغفرت کی دعا رسول اللہ ﷺ سے آج تک جاری ہے جو قرآن میں ہے جسے سب فرقہ شیعہ ، اہل سنّه مسلمان تلاوت بھی کرتے رہتے ہیں:
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ﴿٤١﴾
پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور تمام مومنین کو اس دن بخش دینا جس دن حساب قائم ہوگا (قرآن 14:41)
اس دعا میں کوئی شیعہ ، سنّه نہیں صرف "مومنین" ہیں ، کون بحالت ایمان (مومن) فوت ہوا اور کون کافر یا مرتد مرا ، باطنی حقیقت صرف الله تعالی ہی جانتا ہے ہمارے فتووں، نفرتوں کی یوم آخرت میں کوئی فائدہ مند حثیت نہیں- اللہ ہمارے دلوں کی کدورتیں اس دنیا میں بھی دورفرما دے - ( آمین)
اکثرعلماءاہل سنّه نے "صحابہ" کے وسیع معنی کو اختیار کیا ہے، جیسا کہ شروع میں بیان کیا کہ بعض علماء نے اس دائرے کو اس قدر وسیع کردیا ہے کہ جس اہل ایمان نے بھی اپنی حیات میں رسول اللہ ﷺ کی زیارت کی ہو وہ بھی رسول اللہ ﷺ کا صحابی ہے، امام بخاری نے صحابی کی تعریف اس طرح کی ہے: ”ومن صحب النبی او رآہ من المسلمین فھو من اصحابہ“ ” جو بھی نبی کا ہم نشین رہا ہو یا مسلمانوں میں سے کسی نے آپ کو دیکھا ہو تو وہ آپ کے اصحاب میں سے ہے“. صحابی کی اس قدر اہمیت ہے کہ ان پر معمولی اعتراض بھی روا نہیں سمجھتے یہاں تک کہ ان کی عدالت کے بارے میں گفتگو کو قرآنی نصّ کے برخلاف سمجھتے ہیں۔ ایک گروہ نے یہاں تک کہہ دیا ہےکہ جو کوئی بھی صحابہ پر اعتراض کرنے کے لیے لب کشائی کرے گا اور علم رجال کے معیار پر ان کو پرکھے گا وہ دین سے خارج ہے- قاضی، ابوالفضل، عیاض بن موسیٰ، یحصبی (476- 544ھ) فرماتے ہیں : ’’ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی عزت و تکریم کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ کرام کی عزت و تکریم کی جائے، ان کا حق پہچانا جائے، ان کی اقتدا کی جائے، ان کے بارے میں حسن ظن رکھا جائے، ان کے لیے استغفار کیا جائے، ان کے مابین ہونے والے اختلافات میں اپنی زبان بند رکھی جائے، ان کے دشمنوں سے عداوت رکھی جائے، ان کے خلاف مؤرّخین کی (بے سند) خبروں، مجہول راویوں کی بیان کردہ روایات، گمراہ فرقوں اور بدعتی لوگوں کی پھیلائی ہوئی من گھڑت کہانیوں کو نظر انداز کیا جائے، جن سے ان کی شان میں کمی ہوتی ہو۔ ان کے مابین فتنوں پر مبنی جو اختلافات ہوئے ہیں، ان کو اچھے معنوں پر محمول کیا جائے اور ان کے لیے بہتر عذر تلاش کیے جائیں، کیونکہ وہ لوگ اسی کے اہل ہیں۔ ان میں سے کسی کا بھی برا تذکرہ نہ کیا جائے، نہ ان پر کوئی الزام دھرا جائے، بلکہ صرف ان کی نیکیاں، فضائل اور ان کی سیرت کے محاسن بیان کیے جائیں۔ اس سے ہٹ کر جو باتیں ہوں، ان سے اپنی زبان کو بند رکھا جائے۔“ [الشفا بتعريف حقوق المصطفٰي : 612,611/2][361]
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٤٨:٢٩﴾
ترجمہ:
"محمدؐ اللہ کے رسول ہیں، اور جو لوگ ان کے ساتھ ہیں وہ کفار پر سخت اور آپس میں رحیم ہیں تم جب دیکھو گے اُنہیں رکوع و سجود، اور اللہ کے فضل اور اس کی خوشنودی کی طلب میں مشغول پاؤ گے سجود کے اثرات ان کے چہروں پر موجود ہیں جن سے وہ الگ پہچانے جاتے ہیں یہ ہے ان کی صفت توراۃ میں اور انجیل میں اُن کی مثال یوں دی گئی ہے کہ گویا ایک کھیتی ہے جس نے پہلے کونپل نکالی، پھر اس کو تقویت دی، پھر وہ گدرائی، پھر اپنے تنے پر کھڑی ہو گئی کاشت کرنے والوں کو وہ خوش کرتی ہے تاکہ اس کے ذریعے سے کافروں کو غیظ و غضب میں ڈالے اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔"
آیات اک آخری حصہ بہت اہم ہے : ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٤٨:٢٩﴾
ترجمہ : اس گروہ کے لوگ جو ایمان لائے اور نیک عمل کئے اللہ نے ان سے مغفرت اور بڑے اجر کا وعدہ فرمایا ہے۔"
"منھم" میں من بیانیہ ہے "تبیین" کے لئے آیا ہے مراد "الذین امنوا و عملوا الصلحت" ہے۔ وہ سب کے سب۔ جیسا کہ اور جگہ قرآن مجید میں آیا ہے :۔ فاجتنبوا الرجس من الاوثان (22:30) تو (سب کے سب) بتوں کی پلیدی سے بچو۔ اگر "منھم" میں "نمن" کا "تبعیضیه" لیا جائے تو لازم آئے گا کہ بعض بتوں کی پلیدی سے بچو اور بعض کی پوجا کرتے رہو۔ یہاں بھی اس آیت میں (48:29) میں " منع " تبیین کے لئے ہے اور اس سے مقصود "وعدہ مغفرت اور اجر عظیم" کا "الذین امنوا وعملوا الصلحت" کے ساتھ مخصوص کرنا ہے۔ ہم ضمیر کا مرجع وہی ہے جو بھم میں ہے۔ مغفرۃ اور اجر عظیما موصوف و صفت مل کر مفعول ہیں فعل وعد کے۔ دونوں پر تنوین اظہار عظمت کے لئے ہے یعنی بڑی مغفرت اور عظیم اجر-
یہاں 'منھم' بیان ہے 'الذین امنوا' کا اور روافض نے (بہت اہل سنت نے بھی) جو اس جگہ حرف ' منع' کو 'تبعیض' کے لئے یہ کہہ کر مطلب نکالا ہے کہ ان میں سے جو بعض لوگ ایمان و عمل صالح پر ہیں ان سے یہ وعدہ ہے یہ سراسر سیاق کلام اور اوپر کی آیات کے منافی ہے کیونکہ اس آیت کے مفہوم میں وہ صحابہ کرام تو بلاشبہ داخل اور آیت کے پہلے مصداق ہیں جو سفر حدیبیہ اور بیعت رضوان میں شریک تھے ان سب کے متعلق اوپر کی آیات میں حق تعالیٰ نے اپنی رضا اور خوشنودی کا اعلان فرما دیا ہے (آیت) لقد (رض) عن المومنین اذ یبایعونک تحت الشجرة اور رضائے الٰہی کا یہ اعلان اس کی ضمانت ہے کہ یہ سب مرتے دم تک ایمان و عمل صالح پر قائم رہیں گے کیونکہ اللہ تو علیم وخبیر ہے اگر کسی کے متعلق اس کو یہ معلوم ہو کہ یہ کسی وقت ایمان سے پھرجانے والا ہے تو اس سے اپنی رضا کا اعلان نہیں فرما سکتے۔
[نوٹ-١ : یہ رضا تو اس واقعہ "بیت رضوان" پر تھی ، الله تعالی ںے کوئی بخشش کا وعدہ یھاں نہیں فرمایا : ترجمہ:" اللہ مومنوں سے خوش ہو گیا (رَضِيَ اللَّهُ عَنِ الْمُؤْمِنِينَ) جب وہ درخت کے نیچے تم سے بیعت کر رہے تھے ان کے دلوں کا حال اُس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی، ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی (انعام عطا فرما دیا اور مزید مال غنیمت کا وعدہ بھی،معامله ختم) (48:18) اور بہت سا مال غنیمت انہیں عطا کر دیا جسے وہ (عنقریب) حاصل کریں گے اللہ زبردست اور حکیم ہے (19) اللہ تم سے بکثرت اموال غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے، تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے (20) اِس کے علاوہ دوسرے اور غنیمتوں کا بھی وہ تم سے وعدہ کرتا ہے جن پر تم ابھی تک قادر نہیں ہوئے ہو اور اللہ نے ان کو گھیر رکھا ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے (48:21)][362]
ابن عبدالبر نے مقدمہ استیعاب میں اسی آیت کو نقل کر کے لکھا ہے کہ ومن (رض) لم یسخط علیہ ابدًا یعنی اللہ جس سے راضی ہوجائے پھر اس پر کبھی ناراض نہیں ہوتا (کیوں؟) اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے اسی آیت کی بنا پر ارشاد فرمایا کہ بیعت رضوان میں شریک ہونے والوں میں سے کوئی آگ میں نہ جائے- (آگ میں نہ جانا تو گناہوں کی بخشش سے بھی ممکن ہے) گو یہ وعدہ اصالةً انہی کے لئے کیا گیا ہے ان میں سے بعض کا مستثنیٰ ہونا قطعاً باطل ہے اسی لئے امت کا اس پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام سب کے سب عادل و ثقہ ہیں۔ صحابہ کرام سب کے سب اہل جنت ہیں ان کی خطائیں مغفور ہیں ان کی تنقیص گناہ عظیم ہے@-
قرآن مجید کی بہت سی آیتوں میں اس کی تصریحات ہیں جن میں چند آیات تو اسی سورت میں آ چکی ہیں (آیت) لقد (رض) عن المومنین اور الزمھم کلمتہ التقوی و کانوا احق بھا واھلھا، ان کے علاوہ اور بہت سی آیات میں یہ مضمون مذکور ہے (آیت) یوم لا یخزی اللہ النبی والذین امنوا معہ والسبقون الاولون من المھجرین والانصار والذین اتبعوھم باحسان (رض) و رضواعنہ واعدلھم جنت تجری تحتھا الانھر اور سورة حدید میں حق تعالیٰ نے صحابہ کرام کے بارے میں فرمایا ہے (آیت) وکلا وعداللہ الحسنیٰ یعنی ان سب سے اللہ نے حسنیٰ کا وعدہ کیا ہے پھر سورة انبیاء میں حسنیٰ کے متعلق فرمایا (آیت) ان الذین سبقت لھم منا الحسنی اولٓئک عنھا مبعدون یعنی جن لوگوں کے لئے ہماری طرف سے حسنیٰ کا فیصلہ پہلے ہوچکا ہے وہ جہنم کی آگ سے دور رکھے جائیں گے اور رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا۔ خیر الناس قرنی ثم الذین یلونہم ثم الذین یلونہم (بخاری) یعنی تمام زمانوں میں میرا زمانہ بہتر ہے اس کے بعد اس زمانے کے لوگ بہتر ہیں جو میرے زمانے کے متصل ہیں پھر وہ جو ان کے متصل ہیں۔ اور ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ میرے صحابہ کو برا نہ کہو کیونکہ ( ان کی قوت ایمان کی وجہ سے ان کا حال یہ ہے کہ) اگر تم میں سے کوئی شخص اللہ کی راہ میں احد پہاڑ کی برابر سونا خرچ کر دے تو وہ ان کے خرچ کئے ہوئے ایک مد کی برابر بھی نہیں ہوسکتا اور نہ نصف مد کی برابر۔ مد عرب کا ایک پیمانہ ہے جو تقریباً ہمارے آدھے سیر کی برابر ہوتا ہے (بخاری) اور حضرت جابر کی حدیث میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے میرے صحابہ کو سارے جہان میں سے پسند فرمایا ہے پھر میرے صحابہ میں میرے لئے چار کو پسند فرمایا ہے۔ ابوبکر، عمر، عثمان علی[363] (رض) (رواہ البزار بسند صحیح) اور ایک حدیث میں ارشاد ہے۔ اللہ للہ فی اصحابی لا تتخذو ھم غرضا من بعدی فمن احبھم فبجی احبہم و من ابغضہم فببغضی ابغضہم ومن اذاھم فقد اذانی و من اذانی فقد اذی اللہ ومن اذی اللہ فیوشک ان یاخذہ (رواہ الترمذی عن عبداللہ بن المغفل از جمع الفوائد) اللہ سے ڈرو میرے صحابہ کے معاملے میں میرے بعد ان کو طعن تشنیع کا نشانہ مت بناؤ کیونکہ جس شخص نے ان سے محبت کی تو میری محبت کے ساتھ ان سے محبت کی اور جس نے ان سے بغض رکھا تو میرے بغض کے ساتھ ان سے بغض رکھا اور جس نے ان کو ایذا پہنچائی اس نے مجھے ایذا پہنچائی اور جس نے مجھے ایذا دی اس نے اللہ کو ایذا پہنچائی اور جو اللہ کو ایذا پہنچانے کا قصد کرے تو قریب ہے کہ اللہ اس کو عذاب میں پکڑے گا۔(کیا حضرت علی رض، اور ساتھیوں پر شتم کرنے والوں کو استثنیٰ ہے؟) آیات و احادیث اس کے متعلق بہت ہیں جن کو احقر نے اپنی کتاب مقام صحابہ میں جمع کردیا ہے یہ کتاب شائع ہوچکی ہے۔ تمام صحابہ کرام کے عدل و ثقہ ہونے پر پوری امت کا اجماع ہے اور صحابہ کے مابین جو اختلافات جنگ و قتال تک پہنچے ان کے متعلق بحث و تمحیص اور تنقید و تحقیق یا سکوت کا مسئلہ بھی اس کتاب میں تفصیل کے ساتھ لکھ دیا گیا ہے اور اس میں سے بقدر ضرورت سورة محمد کی تفسیر میں آ چکا ہے اس کو دیکھ لیا جائے۔ (تفسیر معارف قرآن ، مفتی محمد شفیع)[364]
امام مالک (رح ) نے اس آیت سے رافضیوں کے کفر پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ صحابہ سے چڑتے اور ان سے بغض رکھنے والا کافر ہے. [365]علماء کی ایک جماعت بھی اس مسئلہ میں امام صاحب کے ساتھ ہے- (ملاحضہ،تجزیہ@) صحابہ کرام کے فضائل میں اور ان کی لغزشوں سے چشم پوشی کرنے میں بہت سی احادیث آئی ہیں خود اللہ تعالیٰ نے ان کی تعریفیں بیان کیں اور ان سے اپنی رضامندی کا اظہار کیا ہے کیا ان کی بزرگی میں یہ کافی نہیں؟ پھر فرماتا ہے ان ایمان والوں اور نیک اعمال والوں سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے گناہ معاف اور انکا اجر عظیم اور رزق کریم ثواب جزیل اور بدلہ کبیر ثابت یاد رہے کہ (منھم ) میں جو ( من ) ہے وہ یہاں بیان جنس کے لئے ہے اللہ کا یہ سچا اور اٹل وعدہ ہے جو نہ بدلے نہ خلاف ہو ان کے قدم بقدم چلنے والوں ان کی روش پر کاربند ہونے والوں سے بھی اللہ کا یہ وعدہ ثابت ہے لیکن فضیلت اور سبقت کمال اور بزرگی جو انہیں ہے امت میں سے کسی کو حاصل نہیں اللہ ان سے خوش اللہ ان سے راضی یہ جنتی ہو چکے اور بدلے پالئے (تفسیر ابن کثیر)
نوٹ ٢
حضرت امیر معاویہ (رضی الله) نے حضرت علی (رضی الله) کو برسر منبر برا بھلا کہنے کا حکم دیا۔ سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا معاویہ بن ابی سفیان(661-680) نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو امیر کیا تو کہا: تم کیوں برا نہیں کہتے ابوتراب [علی بن ابو طالب (رضی الله)] کو؟
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تین باتوں کی وجہ سے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا نہیں کہوں گا، اگر ان باتوں میں سے ایک بھی مجھ کو حاصل ہو تو وہ مجھے لال اونٹوں سے زیادہ پسند ہے....“[366]
حضرت علی کو برسر منبر برا بھلا کہنے کی روایت (جو 55سال سے جاری تھی) حضرت عمر بن عبد العزیز (717-720) نے ختم کروائی۔ اس بنا پر حضرت حجر بن عدی (رضی الله) نے حضرت امیر معاویہ رض اور ان کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ زیاد نے کوفہ کی امارت کے زمانہ میں حضرت حجر بن عدی (رضی الله) اور ان کے چند ساتھیوں کو قتل کرا دیا۔حضرت حجر بن عدی (رضی الله) بڑے مرتبہ کے صحابی تھے۔ آپ کے قتل نے دنیائے اسلام پر بہت برا اثر چھوڑا۔ [367]
کیا حضرت علی (رضی الله) جوکہ (وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ[368])، اور اہل بیت میں سے ہیں انکو برسر منبر مساجد میں 55سال تک برا بھلا کہلانے والوں کا کیا مقام و مرتبہ ہے؟
صحیح بخاری[370] و مسلم میں ابوہریرہ سے اور صحیح مسلم میں حضرت عائشہ سے جو روایتیں ہیں انکا حاصل یہ ہے کہ قیامت کے دن حوض کوثر پر سے بعض مرتد صحابہ کو فرشتے کھینچ کر دوزخ میں لے جائیں گے۔ آیت میں اللہ تعالیٰ نے سب صحابہ سے اجر عظیم کا وعدہ جو نہیں فرمایا یہ حدیثیں گویا اس کی تفسیر ہیں جن کا حاصل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کے علم غیب میں آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی وفات کے بعد بعض صحابہ کا اسلام پر قائم نہ رہنا ٹھہرچکا تھا۔
” لِیَغِیْظَ بِہِمُ الْکُفَّارَ “ کے الفاظ میں ایک اہم نکتہ یہ بھی ہے کہ محمد رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی اس کھیتی پر جس کا دل جلتا ہو قرآن حکیم اس کے ایمان کی نفی کر رہا ہے صحابہ (رض) سے بغض ہو اور دعویٰ ایمان کا ہو تو اس دعویٰ میں کوئی صداقت نہیں۔
"وَعَدَ اللّٰہُ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَعَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ مِنْہُمْ مَّغْفِرَۃً وَّاَجْرًا عَظِیْمًا” اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ‘ مغفرت اور اجر عظیم کا۔ “ تفسیر عثمانی میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام صحابہ (رض) ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کرچکے تھے ‘ پھر بھی یہاں مِنْہُمْ کی قید لگا کر ان پر واضح کردیا گیا کہ اس کیفیت پر موت تک قائم رہنا بھی ضروری ہے (نوٹ-٣)‘ مبادا کہ بعد میں کسی کے اندر کسی قسم کا کوئی تزلزل پیدا ہوجائے۔ انسان چونکہ طبعاً کمزور واقع ہوا ہے ‘ اس لیے اگر اس کو کامیابی کا یقین دلادیا جائے تو اطمینان کی وجہ سے اس میں تساہل پیدا ہوجاتا ہے ‘ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ کے ہاں بلند مقام حاصل کرلینے کے باوجود بھی انسان آخری دم تک ” بین الخوف و الرجاء “ کی کیفیت میں رہے-
نوٹ-٣:
ظاہر ہوا کہ اللہ کا صحابہ اکرام سے جنت کا وعدہ مشروط ہے "ایمان اور عمل صالح" کے ساتھ ، جو کہ قرآن کا مین تھیم (بیانیہ) ہے تسلسل کے ساتھ قرآن میں "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ"[371] ٥١ آیات میں ١٥٨ مرتبہ دہرایا گیا ہے یہ ان کی اہمیت کو واضح کرتا ہے، سورہ العصر[372] خلاصہ ہے- یہ کوئی نئی یا عجیب بات نہیں الله تعالی کسی کو "معصوم من الخطأ" (Infallible) قرار نہیں دے رہا ، اب کوئی زبردستی بنا دے تویہ اس کی ذاتی رانے ہو سکتی ہے اسے الله تعالی کے ساتھ منسوب کیسے کر سکتے ہیں-
"تم لوگوں کی ر ہنما ئی کرتے ہو، لیکن تم خود اندھے ہو. تم تو دوسروں کے شربت میں مچھر پکڑتے ہو اور خود اونٹ نگل جاتے ہو" یہ بات حضرت عیسی علیہ السلام نے علماء یہود کو کہی۔[373]
"تمہاری اور اہل کتاب کی خواہشات کے مطابق فیصلہ نہیں ہوگا ، جو شخص بھی کسی بُرائی کا ارتکاب کرے گا اُسے اس کا بدلہ مل کر رہے گا ۔(قرآن: ٤:١٢٣)
"اے اہل کتاب! کیوں حق کو باطل کا رنگ چڑھا کر مشتبہ بناتے ہو؟ کیوں جانتے بوجھتے حق کو چھپاتے ہو؟" (٣:٧١)[374]
"یقیناًان میں ایسا گروه بھی ہے جو کتاب پڑھتے ہوئے اپنی زبان مروڑتا ہے تاکہ تم اسے کتاب ہی کی عبارت خیال کرو حاﻻنکہ دراصل وه کتاب میں سے نہیں، اور یہ کہتے بھی ہیں کہ وه اللہ تعالیٰ کی طرف سے ہے حاﻻنکہ در اصل وه اللہ تعالی کی طرف سے نہیں، وه تو دانستہ اللہ تعالیٰ پر جھوٹ بولتے ہیں" (٣:٧٨)[375]
وہ اصحاب جن سے الله تعالی راضی ہوا (رضی الله) اور ان سے اللہ ںے جنت کا وعدہ فرمایا، یعنی ان کی بخشش فرمادی- ان اصحاب کی تعداد پر شیعہ اور اہل سنت کے علماء میں اختلاف ہے- اہل سنت کے مطابق تمام صحابہ (ہزاروں ، لاکھوں ، اگر کسی نے ایمان کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کا ایک لمحہ کے لیے بھی دیدارکیا ہو ) کو جنت کی بشارت ہے اور (رضی الله) میں سب شامل ہیں- جبکہ شیعہ نظریہ کے مطابق تمام آیات اور روایات جو صحابہ کی تعریف (رضی الله) میں بیان ہوئی ہیں اس گروہ سے متعلق ہیں جو پیغمبرﷺ کے زمانے میں اپنے ایمان کے وعدے پر قائم رہے اور ایمان کی حالت میں وفات پائے یا حضورؐ کی رکاب میں جنگ کرتے ہوئے جام شہادت نوش کر گئے۔ یا پیغمبرﷺ کے بعد حضرت علیؑ سے وعدہ وفا کیا یا اسی عقیدے پر قائم رہے یا حضرت علیؑ کی رکاب میں لڑتے ہوئے شہید ہوگئے۔ان صحابیوں کی تعداد کم نہیں جو شروع ہی سے یا بعد میں حضرت علی (رضی الله) کے ساتھ مل گئے اور جنگ میں آپ کے ساتھ رہے۔
الَّذِي خَلَقَ الْمَوْتَ وَالْحَيَاةَ لِيَبْلُوَكُمْ أَيُّكُمْ أَحْسَنُ عَمَلًا ۚ وَهُوَ الْعَزِيزُ الْغَفُورُ ﴿٢﴾
اسی نے موت اور زندگی کو پیدا کیا تاکہ تمہاری آزمائش کرے کہ تم میں کون اچھے عمل کرتا ہے۔ اور وہ زبردست (اور) بخشنے والا ہے (67:2) مزید تفصیل سورہ العصر - کسی کو استثنیٰ نہیں- کسی ایک آیت کو قرآن کے مکمل سیاق و ثبات، تعلیمات کے دائرہ کے اندررکھ کر مطلب اخذ کرنالازم ہے ورنہ گمراہی کا خدشہ ہے[376]-
یَغۡفِرۡ لَکُمۡ مِّنۡ ذُنُوۡبِکُمۡ وَ یُؤَخِّرۡکُمۡ اِلٰۤی اَجَلٍ مُّسَمًّی ؕ اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآءَ لَا یُؤَخَّرُ ۘ لَوۡ کُنۡتُمۡ تَعۡلَمُوۡنَ ﴿71:4﴾
(ڈاکٹر اسرار احمد ) اللہ تمہارے کچھ گناہ معاف کر دے گا اور تمہیں مہلت دے دے گا ایک وقت معین تک۔ اللہ کا مقرر کردہ وقت جب آجائے گا تو اسے موخر نہیں کیا جاسکے گا۔ کاش کہ تمہیں معلوم ہوتا !﴿71:4﴾
(مفتی تقی عثمانی ) اللہ تمہارے گناہوں کی مغفرت فرمائے گا ، اور تمہیں ایک مقرر وقت تک باقی رکھے گا ۔ بیشک جب اللہ کا مقرر کیا ہوا وقت آجاتا ہے تو پھر وہ موخر نہیں ہوتا ۔ کاش کہ تم سمجھتے ہوتے۔
(امین احسن اصلاحی ) اللہ تمہارے ( پچھلے ) گناہ معاف کردے گا اور تم کو مہلت دے گا ایک معین مدت تک ۔ بیشک اللہ کی مقرر کی ہوئی مدت جب آجائے گی تو وہ ٹالے نہیں ٹلے گی ۔ کاش کہ تم اس کو سمجھتے![377]
(نور الامین ) وہ تمہارے گناہ معاف کردے گا اور تمہیں ایک مقرر مدت تک مہلت دے گا اور جب اللہ تعالیٰ کامقرر کیا ہوا وقت آجائے گاتواس میں تاخیرنہ ہو گی ، کاش تم یہ با ت جان لو‘
(عبدہ الفلاح ) ایسا کرو گے تو وہ تمہارے کچھ گناہ بخش دے گا جو تم نے کفر کی حالت میں کئے اور تم کو مقرر وعدے تک موت تک مہلت دے گا آرام سے زندگی گزارو گے کیونکہ خدا کا وعدہ عذاب جب آن پہنچتا ہے وہ کسی کے ٹالے ٹل نہیں سکتا کاش تم یہ بات سمجھتے ہوتے-
تراجم میں فرق (ہ تمہارے گناہ معاف کردے گا) اور ( کچھ گناہ معاف کر دے گا) کی وجہ تبعیضیه ہے- ڈاکٹر اسرار احمد فرماتے ہیں : آیت { یَغْفِرْ لَــکُمْ مِّنْ ذُنُوْبِکُمْ }﴿71:4﴾ ” اللہ تمہارے کچھ گناہ معاف کر دے گا “ یہاں پر حرف "مِنْ" (تبعیضیہ) بہت معنی خیز ہے۔ یعنی سب کے سب گناہ معاف ہونے کی ضمانت نہیں ‘ البتہ کچھ گناہ ضرور معاف ہوجائیں گے۔ اس کی تاویل یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو جسے چاہے گا اور جب چاہے گا معاف کر دے گا ‘ لیکن حقوق العباد کے تنازعات کے حوالے سے وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے گا۔ اس کے لیے روز محشر متعلقہ فریقوں کے درمیان باقاعدہ لین دین کا اہتمام کرایا جائے گا۔ مثلاً کسی شخص نے اگر کسی کا حق غصب کیا ہوگا ‘ کسی کی عزت پر حملہ کیا ہوگا یا کسی بھی طریقے سے کسی پر ظلم کیا ہوگا تو ایسے ظالم کی نیکیوں کے ذریعے سے متعلقہ مظلوم کی تلافی کی جائے گی۔ اس لین دین میں اگر کسی ظالم کی نیکیاں کم پڑجائیں گی تو حساب برابر کرنے کے لیے اس کے ظلم کا شکار ہونے والے مظلوموں کے گناہ اس کے کھاتے میں ڈال دیے جائیں گے۔ { وَیُؤَخِّرْکُمْ اِلٰٓی اَجَلٍ مُّسَمًّی} ” اور تمہیں مہلت دے دے گا ایک وقت معین تک۔ “ یعنی اگر تم لوگ اللہ کو معبود مانتے ہوئے اس کا تقویٰ اختیار کرو گے اور میرے احکام کی تعمیل کرتے رہو گے تو اللہ تعالیٰ کچھ مدت کے لیے تمہیں بحیثیت قوم دنیا میں زندہ رہنے کی مزید مہلت عطا فرما دے گا۔ لیکن تمہیں معلوم ہونا چاہیے کہ وہ مہلت بھی ایک وقت معین تک ہی ہوگی۔ اس معاملے میں اللہ تعالیٰ کے قوانین بہت سخت اور اٹل ہیں۔ { اِنَّ اَجَلَ اللّٰہِ اِذَا جَآئَ لَا یُؤَخَّرُ ٧ لَـوْ کُنْتُمْ تَعْلَمُوْنَ ۔ } ” اللہ کا مقرر کردہ وقت جب آجائے گا تو اسے موخر نہیں کیا جاسکے گا۔ کاش کہ تمہیں معلوم ہوتا ![378]
مولانا عبدالسلام بھٹوی فرما تے ہیں : یغفرلکم من ذنوبکر :” من “ کا معنی عام طور پر ” بعض “ ہوتا ہے، اس صورت میں معنی ہوگا ” اور وہ تمہارے کچھ گناہ معاف کر دے گا۔ “ مگر اس پر یہ سوال وارد ہوتا ہے کہ کچھ گناہ تو پھر بھی باقی رہ گئے، ان کا کیا بنے گا ؟ اس کا ایک جواب وہ ہے جو امام ابن جریر طبری (رح) نے دیا ہے کہ یہاں ” من “ ” عن “ کی جگہ آیا ہے اور ” جمیع “ کا معنی دے رہا ہے، گویا ” یغفر “ کے ضمن میں ” یصفح “ اور ” یعفو “ کا معنی ملحظو ہے : ای یعفولکم عن جمیع ذنوبکم، “ یعنی وہ تمہارے سب گناہ معاف کر دے گا۔ “ دوسرا یہ ہے کہ ” من “ ” بعض “ ہی کے معنی میں ہے اور مراد یہ ہے کہ اگر تم میری دعوت قبول کر کے ایمان لے آؤ گے تو تمہارے پہلے گناہ معاف ہوجائیں گے، کیونکہ اسلام پہلے سب گناہ مٹا دیتا ہے۔ البتہ آئندہ کے لئے گناہوں سے بچتے رہنا، یہ نہ سمجھنا کہ ایمان لانے سے پہلے پچھلے سب گناہ معاف ہو اجیئں گے-
دوسری جگہ :وَاٰتٰىكُمْ مِّنْ كُلِّ مَا سَاَلْتُمُوْهُ (14:34) "یعنی یہ سب کچھ اور بہت کچھ تمہارے مانگے بغیر دیا۔ علاوہ ازیں جو کچھ تم نے مانگا اس میں سے بھی جتنا چاہا اس نے تمہیں دیا۔ ” من “ تبعیضیہ[379] ہے
مفتی محمد شفع، معارف القرآن میں لکھتے ہیں: ۙيَغْفِرْ لَكُمْ مِّنْ ذُنُوْبِكُمْ ، حرف من اکثر تبعین یعنی جزئمت بتلانے کے لئے آتا ہے اگر یہ معنے لئے جاویں تو مطلب یہ ہے کہ ایمان لانے سے تمہارے سے وہ گناہ مغاف ہوجائیں گے جن کا تعلق حقوق اللہ سے ہے کیونکہ حقوق العباد کی معافی کے لئے ایمان لانے کے بعد بھی یہ شرط ہے کہ جو حقوق ادائیگی کے قابل ہیں ان کو ادا کرے جیسے مالی واجبات، اور جو قابل ادائیگی نہیں جیسے زبان یا ہاتھ سے کسی کو ایذاء پہنچائی اس سے معاف کرائے۔ حدیث میں جو یہ آیا ہے کہ ایمان لانے سے پچھلے سب گناہ معاف ہوجاتے ہیں اس میں بھی حقوق العباد کی ادائیگی یا معافی شرط ہے اور بعض مفسرین نے فرمایا کہ حرف من اس جگہ زائد ہے اور مراد یہ ہے کہ ایمان لانے سے تمہارے سب گناہ معاف ہو جائینگے، مگر دوسری نصوص کی بناء پر شرط مذکور بہرحال ضروری ہے۔[380]
ایک اہم نقطۂ جو دونوں طرف کے علماء نظر انداز کر رہے ہیں کہ جنت کے وعدہ کا تعلق آخرت سے ہے تعداد جو بھی ہو- الله تعالی جن اصحاب اور مسلمان گناہ گاروں کی بخشش فرماے گا اس کی تین وجوہات ہے: ١)اعمال کی بنیاد پر (یہ قرآن کا تھم ہے ) یا ٢)اپنی رحمت سے یا ٣) رسول اللہ ﷺ کو شفاعت کی اجازت عطا فرما کر (شفاعت کی اجازت آگ میں کوئلہ کے بعد اور خیانت کار وں کی شفاعت نہ ہو گی[381])
یہ عمل تھا سبقت ، پہل کر نے والوں کا جس کی بنیاد پر اللہ راضی ہوا- :وہ مہاجر و انصار جنہوں نے سب سے پہلے دعوت ایمان پر لبیک کہنے میں سبقت کی، نیز وہ بعد والے جنہوں نے ان کا اتباع احسان (راستبازی) کےساتھ کیا، اللہ ان سے راضی ہوا اور وہ اللہ سے راضی ہوئے (٩:١٠٠)
لیکن اللہ نے کسی کواس دنیا میں اپنے قوانین اور شریعت سے کوئی استثنیٰ عطا نہیں فرمایا- صحابہ اکرام ںے جرم ، گناہ کیے اور سزائیں بھی پائیں جن میں پہلے والوں اور بعد والے اصحاب میں سے شامل ہیں- اسی طرح جب صحابہ سے رسول اللہ ﷺ کے فرامین / احادیث کی روایت ہوں گی تو ان کو قرآن اور رسول اللہ ﷺ کے میعار[382] پر پورا اترنا ہو گا جس طرح اللہ کے قانون اور شریعت پر استسنی کسی کو حاصل نہیں، اسں کا ذکر یھاں پہلے ہو چکا ہے- لیکن یاد دہانی ضروری ہے:
رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت[383] ، ازواج مطہرات، امھات المومنین جو رسول اللہ ﷺ کی قریب ترین ساتھی تھیں ان کو بھی بھی استثنی نہیں بلکہ کسی غلطی کی دوگنا سزا[384]- رسول اللہ ﷺ سے قریب ترین، دل کا ٹکڑا، پیاری حضرت فاطمہ (رضی الله) ہیں- مگر جب کسی جرم پر شرعی قانون ، سزا کا ذکر ہوا تو رسول اللہ ﷺ ںے مثال دی کہ اگر فاطمہ بنت محمد ﷺ بھی چوری کرے تو ہاتھ کا ٹا جاے گا-[385] (ان کے جنتی ہونے پر کس کو شک ہو سکتا ہے). حضرت آدم علیہ السلام، حضرت یونس علیہ السلام، حضرت نوح کا بیٹا[386] ، (حضرت نوح اور لوط کی بیویاں)[387]، کسی کو نہ نبی ہونے پر نہ نبی سے قربت کی بنا پر کوئی استثنا ملا[388] نبیوں کو دعا پر الله تعالی سے بخشش ملی- رسول اللہ ﷺ نے خود استسغفارکرکہ ہمیں دعایں سکھائیں-
تو صحابہ اکرام کو کیا کوئی استثنیٰ حاصل ہو سکتا ہے اللہ کی اس سنت پر؟ وَلَن تَجِدَ لِسُنَّةِ اللَّهِ تَبْدِيلًا(2 (6[389] : (اور تم اللہ کے دستور(سنت ) میں ہرگز ردوبدل نہ پائے گا (33:62) تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ بدر، جن کا اعلی مقام ہے اگر کسی ںے جرم / گناہ کیا تو اسےشرعی قانون کی سزا سے استثنیٰ نہ ملا- جس کسی نے حدود سے تجاوز کیا ان کو سزائیں ملیں (تفصیل آگے)
جن اصحاب پر اللہ راضی ہوا یا ہو گا ان سے جنت کا وعدہ ہے اللہ کا، مگر سنت رسول اللہ ﷺ اور سنت خلفاء راشدین کے مطابق اس دنیا میں وہ سب مسلمانوں کی طرح الله تعالی کے نافذ کردہ قانون شریعت کے پابند ہیں عبادات و معاملات میں اور ہر طرح سے- مثلا اگر کوئی حدیث روایت کرتا ہے تو اس کو اسی معیار پر جانچنا ہوگا جس طرح دوسرے راویان-
"امت کا اس پر اجماع ہے کہ صحابہ کرام سب کے سب عادل و ثقہ ہیں۔ صحابہ کرام سب کے سب اہل جنت ہیں ان کی خطائیں مغفور ہیں ان کی تنقیص گناہ عظیم ہے"
ا.قرآن ںے "قرآن کے وارثوں" (مسلمانوں) کو تین درجات میں تقسیم کیا ہے ، گناہگار ، درمیان والے ، نیکیوں میں سبقت والے(سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ) (قرآن الفاطر 35:32)[390]. اگر صحابہ کی مروجہ تعریف کے مطابق آپ کے دیدار والے سا رے مسلمان صحابہ ہیں اور سارے "عادل و ثقہ" ہیں تو یہ نہ صرف قرآن کے خلاف ہے بلکہ عقل و دانش سے با ہر "علم الغیب" کا دعوی ہے ، "عالم الغیب" صرف اللہ ہے جس کا کوئی شریک نہیں-
"اجماع"[391] قرانی اصطلاح نہیں ہے، یہ ایک اخذ کردہ اصطلاح ہے[392] جس پرعلماء میں اختلاف ہے- "وَمَن يُشَاقِقِ الرَّسُولَ مِن بَعْدِ مَا تَبَيَّنَ لَهُ الْهُدَىٰ وَيَتَّبِعْ غَيْرَ سَبِيلِ الْمُؤْمِنِينَ نُوَلِّهِ مَا تَوَلَّىٰ وَنُصْلِهِ جَهَنَّمَ ۖ وَسَاءَتْ مَصِيرًا ﴿١١٥﴾ مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو، تو اُس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بد ترین جائے قرار ہے (4:115)[393] اس آیات کے نزول کے سلسلے میں یہ کہا گیا ہے کہ ایک مقدمہ میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے بشیر ابن ابیرق خائن مسلمان کے خلاف اوربے گناہ یہودی کے حق میں فیصلہ صادر فرما دیا تو اس منافق پر جاہلیت کا اس قدر سخت دورہ پڑا کہ وہ مدینہ سے نکل کر اسلام اور نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے دشمنوں کے پاس مکہ چلا گیا اور کھلم کھلا مخالفت پر آمادہ ہو گیا ۔ اس آیت میں اس کی اسی حرکت کی طرف اشارہ ہے۔ حالانکہ اس پر راست واضح ہوچکی تھی لیکن اس نے اہل ایمان کی راہ (اسلام) کو چھوڑ کر دوسری راہ (کفار) کو اپنا لیا (یہ اجماع کی دلیل ہے؟ یہں اہل ایمان کا اجماع اسلام پر ہوا ہے کسی نئی بات ، بدعة پر نہیں ہوا جسے اجماع کی دلیل بنا لی جاۓ- پاک و ہند میں بریلوی سب سے زیادہ ہیں تو پھر اجماع سے سب کو بریلوی ہونا چاہیے مگر ایسا نہیں ہے- دنیا میں حنفی سب سے زیادہ زیادہ ہیں تو سرے اجماع سے حنفی نہیں)-
آیت (4:115) کو جب (9:100) کے ساتھ دیکھیں جس کا یہاں بار بار تذکرہ ہے تو واضح ہو جاتا ہے کہ اولین صحابہ (وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ) کی طرف کھلا اشارہ ہے[394]، ان صحابہ اکرام (وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ) سے اوربعد میں ان کی اتباع (اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ) "احسان"[395] کے ساتھ کرنے والوں پر الله تعالی راضی ہوا ( رَّضِيَ اللَّهُ عَنْهُمْ)، جو کہ رسول اللہ ﷺ کے بعد اجماع کا اعلی معیار ہے، جو واضح، قابل مشاہدہ، قابل پیمائش،غیر مبہم، ناقابل تردید(observable, variable, unambiguous) ہے اور جس کی الله تعالی اور رسول اللہ ﷺ ںے تصدیق کی-(بعد کے اجماع ہمیشہ متنازعہ ہیں، ہمیشہ کچھ مسلمان مخالفت کرتے رہتے ہیں اور فرقہ بازی خوب پھیلتی ہے، بلکہ مخالفین پر کفرکے فتوے لگاۓ جاتے ہیں- یہ نتیجہ ہے علماء کا اپنی تاویلوں کو قرآن و سنت پر ترجیح دینے کا اور قرآن کی محکم آیات[396] (3:7) کو چھوڑ کر مبہم، متشابھات سےزبردستی مرضی کی تاویلیں نکلنے کا[397]) اس کی سپورٹ ، خلفاء راشدین کی اطاعت اور ان کی سنت کی حجیت پراحادیث [أَبُو دَاوُدَ4607 ، وَاَلتِّرْمِذِيُّ 2676، ماجہ 42][398] سے بھی ہوتی ہے اور خلفاء راشدین ںے صرف قرآن کی کتابت کی حدیث کی کتابت سے منع فرمادیا[399] ، وجہ وہی جو رسول اللہ ﷺ ںے بیان فرمائی کہ پہلی اقوام کتاب الله تعالی کے علاوہ کتب لکھ کر گمراہ ہوئیں- یہود و نصاری کے راستہ کی تقلید[400] صرف گمراہی ہے- رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’اللہ تعالیٰ اس کو خوش رکھے جس نے مجھ سے کوئی بات سنی، اسے حفظ کیا اور اسے اپنے ذہن میں رکھا اور پھر دوسروں کو سنایا۔‘‘[401] حدیث کا حفظ و بیان و سماع ہی احسن طریقہ ہے جو صدیوں جاری رہا اب بھی کس حدیث تک جاری ہے-
قرآن ، سنت رسول اللہ ﷺ ، سنت / اجماع خلفاء راشدین کے خلاف ٢/٣ صدی حجرہ میں ایک "اجماع " ہوا ، اس کی کیا شرعی حثیت ہے؟[402] الله تعالی کے فرمان کو بھی دیکہیں :" "مگر جو شخص رسول کی مخالفت پر کمر بستہ ہو اور اہل ایمان کی روش (خلفاء راشدین) کے سوا کسی اور روش پر چلے، درآں حالیکہ اس پر راہ راست واضح ہو چکی ہو، تو اُس کو ہم اُسی طرف چلائیں گے جدھر وہ خود پھر گیا اور اسے جہنم میں جھونکیں گے جو بد ترین جائے قرار ہے" (ترجمہ قرآن: 4:115)[403]
مولانا عبدالرحمن کیلانی لکھتے ہیں کہ : "اجماع امت یا صحابہ کرام کا کسی مسئلہ پر متفق ہوجانا منجملہ ادلہ شرعیہ ایک قابل حجت امر ہے اور اس اجماع کی مخالفت کرنے والا اور [404]اجماع کو تسلیم نہ کرنے والا گناہ گار ہوتا ہے تاہم اس سلسلہ میں دو باتوں کو ذہن نشین رکھنا چاہیے۔
١) ایک یہ کہ صحابہ کرام کے اجماع کے حجت ہونے میں تو کسی کو کلام نہیں لیکن مابعد کے ادوار کا حجت ہونا بذات خود مختلف فیہ مسئلہ ہے اور راجح قول یہی ہے کہ مابعد کا اجماع امت کے لیے قابل حجت نہیں ہے۔
٢) اور دوسرا یہ کہ صحابہ کا اجماع تو ثابت کیا جاسکتا ہے کیونکہ ان کا زمانہ بھی محدود اور علاقہ بھی محدود تھا۔ لیکن مابعد کے ادوار میں اجماع امت کا ثابت کرنا ہی بہت مشکل ہے جبکہ امت اقصائے عالم میں پھیل چکی ہے اور علماء بھی ہر جگہ موجود ہیں۔
٣) دور صحابہ کے بعد جتنے مسائل کے متعلق یہ دعویٰ کیا گیا ہے کہ ان پر امت کا اجماع ہے، ان میں سے زیادہ ایسے ہیں کہ ان کو فی الواقع ثابت نہیں کیا جاسکتا(تیسرالقرآن )۔[405]
٤)جو شخص یا گروہ وہ شریعت کے خلاف راستہ اختیار کرے اور حق معلوم ہوجانے کے باوجود مسلمانوں کی سیدھی اور صاف روشن ہے ہٹ جائے تو ہم بھی اسے ٹیڑھی راہ پر لگا دیتے ہیں جو اس کو جہنم میں لے جا کر ڈال دیتی ہے۔ مومنوں کی راہ میں دراصل تو کتاب و سنت کی راہ ہے.
قرآن ٣٩ مرتبہ "عقل[406]" پر زور دیتا ہے اور جو لوگ عقل استعمال نہیں کرتے انھیں جانوروں سے بدتر قرار دیتا ہے[407]. لہٰذا اجماع ، قیاس ، اجتہاد کی بنیاد قرآن و سنت کے بعد عقل کے استعمال کے بغیر کیسے ہو سکتی ہے-[408] رسول اللہ ﷺ اللہ ۓ معاز بن جبل سے پوچھا : "فیصلہ کس طرح کروگے"؟ حضرت معاذؓ نے کہا کہ قرآن مجید سے فیصلہ کرونگا، فرمایا اگر اس میں نہ ملے کہا کہ سنت رسول اللہ ﷺ کے مطابق فیصلہ کروں گا ،فرمایا اوراس میں بھی نہ ہو،عرض کیا اس وقت (أَجْتَهِدُ رَأْيِي) اپنی رائے سے اجتہاد و استنباط کرونگا، اور (حق تک پہنچنے کی کوشش میں)کوتاہی نہیں کرونگا آنحضرتﷺ نہایت مسرور ہوئے اور فرمایا کہ خدا کا شکر ہے کہ اس نے رسول اللہ ﷺ کے رسول کو اس چیز کی توفیق دی جس کو اس کا رسول پسند کرتا ہے۔(سنن ابی داؤد ،کتاب الاقضیہ ،باب اجتہاد الرأی فی القضاء) اپنی رائے سے اجتہاد عقل کے بغیر نہیں ہو سکتا-
کفر کا فتویٰ: تفسیر ابن کثیر کے مطابق، "حضرت امام مالک نے اس آیت (48:29) سے رافضیوں کے کفر پر استدلال کیا ہے کیونکہ وہ صحابہ سے چڑتے اور ان سے بغض رکھنے والا کافر ہے. علماء کی ایک جماعت بھی اس مسئلہ میں امام صاحب کے ساتھ ہے"(اس پرشیعہ جواب پہلے بیان چکے ہیں )
اسی طرح روافض کی طرف سے صحابہ اکرام (رضی الله) پرشتم ستانی کو قبول نہیں کیا جا سکتا- غلط اقدام کسی بھی طرف سے ہو اس کی مذمت لازم ہے، انصاف کا یہی تقاضہ ہے-
مشکوۃ شریف میں ہے: " حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص نے اپنے مسلمان بھائی کو کافر کہا تو ان دونوں میں سے ایک پر کفر لوٹ گیا یعنی یا تو کہنے والا خود کافر ہوگیا یا وہ شخص جس کو اس نے کافر کہا ہے۔ (بخاری ومسلم)[409]
الله تعالی کا فرمان ہے:
"اے لوگوجوایمان لائے ہو! اﷲ تعالیٰ کے لیے خوب قائم رہنے والے، انصاف کے ساتھ گواہی دینے والے بن جاؤ ،اور کسی قوم کی دشمنی تمہیں ہرگز اس بات کا مجرم نہ بنادے کہ تم عدل نہ کرو،عدل کرویہی تقویٰ کے زیادہ قریب ہے اور اﷲ تعالیٰ سے ڈر جاؤ،جوبھی تم عمل کرتے ہو یقیناًاﷲ تعالیٰ اُس سے پوری طرح باخبرہے-جو لوگ ایمان لائے اور نیک عمل کیے ان سے اللہ کا وعدہ ہے کہ ان کے لیے بخشش ۔ اور بہت بڑا اجر ہے" (قرآن:5:8,9)[410]
فرقہ واریت کی لعنت انسان کی عقل اور علم و دانش پر پردہ ڈال دیتی ہے، تسلسل پر مہر لگ جاتی ہے اورانسان گمراہی کے کھڈے میں گرجاتا ہے-
جو اصحاب گناہ/ جرم کرتے ہیں اور رجم بھی ہوتے ، کوڑے بھی کھاتے ہیں، ان کو مروجہ اصول روایت حدیث کے مطابق ان کے جرم کی نوعیت کے میریٹ پر لینا ہو گا (یہ صرف تکنیکی بات ہے ) اگرچہ الله ان کوآخرت میں مغفرت فرما کر جنت عطا فرماتا ہے مگراس دنیا میں اللہ کے قانون اور شریعت کے مطابق سزا بھگتنا پڑتی ہے- رسول اللہ ﷺ ، خلفاء راشدین میں سے کسی ںے یہ لائن کراس نہیں کی کہ فلاں بدری یا اعلی صحابی ہے اسے چھوڑ دیں- رسول اللہ ﷺ گواہان کے بیانات و دلائل پر فیصلہ فرماتے تھے حدیث سے ظاہر ہے :
ام المؤمنین ام سلمہ ؓ کہتی ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: میں انسان ہی ہوں تم اپنے مقدمات کو میرے پاس لاتے ہو، ہوسکتا ہے کہ تم میں کچھ لوگ دوسرے کے مقابلہ میں اپنی دلیل زیادہ بہتر طریقے سے پیش کرنے والے ہوں تو میں انہیں کے حق میں فیصلہ کر دوں جیسا میں نے ان سے سنا ہو، تو جس شخص کے لیے میں اس کے بھائی کے کسی حق کا فیصلہ کر دوں تو وہ اس میں سے ہرگز کچھ نہ لے کیونکہ میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں ۔ (سنن ابوداؤد حدیث: 3583 صحیح)[411]
"آگ کا ایک ٹکڑا" کسی صحابی ہی کے لیے ہے جو دوسرے کا حق مار رہا ہے- اس کا مطلب ہے کہ جو احادیث صحابہ کی تعریف اور شان میں ہیں وہ خاص صحابہ کم تعداد میں تھے(وَالسَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ) اور بعد والے جو(اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ) ان کی اتباع "بِإِحْسَانٍ" کرنے والے بھی سارے نہیں کم لوگ ہوں گے یا اگر زیادہ بھی تھے تو ان کا علم الله تعالی کو ہی ہو گا- رسول اللہ ﷺ ظاہری دلائل پر فیصلے فرماتے تھے نہ کہ لوگوں کی آخرت میں حیثیت پر- اگر سارے مسلمان صحابہ کو "ثقہ و عادل" تسلیم کیا جاتا ہے تو پھر پہلی صدی حجرہ میں نہ جرم ہوتے نہ فساد، نہ جھگڑے، نہ جنگیں، نہ گناہ نہ سزا نہ رسول اللہ ﷺ یہ فرماتے کہ : "میں اس کے لیے آگ کا ایک ٹکڑا کاٹ رہا ہوں".( صحابہ کرام میں وفات پانے والے آخری صحابی "ابو الطفیل عامر بن واثلہ"، ١١٠ھ میں فوت ہوئے[412])
انسان کو معاملہ کی حقیقت اور اس کے باطنی امر کا علم نہیں ہوتا، اس لیے رسول اللہ ﷺ کتاب اللہ کے ظاہر کے موافق لوگوں کے درمیان فیصلہ کرتے، اور وہ لوگ اکثر صحابہ ہی ہوتے تھے لہذا دنیا میں کسی کے "عادل و ثقہ" ہونے کا فیصلہ مروجہ ظاہری اصولوں کی بنیاد پر ہوگا نہ کہ اس بات پر کہ آخرت میں اللہ ان کے ساتھ کیا سلوک کرتا ہے جس کا کسی کو یقین سے علم بھی نہیں ہو سکتا (اتَّبَعُوهُم بِإِحْسَانٍ) کی شرط بہت سخت ہے- اگر کوئی چھپ کر ایسے کام کرے کہ بدنام شہرت (شرابی، زانی) رکھتا ہو تو کیا ہم اس کو سزا دے سکتے ہیں جب تک گواہان کے شرعی تقاضے پورے نہ ہوں-
امام خطیب بغدادیؒ نے اپنی کتاب ’’الکفایۃ فی علم الروایۃ‘‘ میں تعدیلِ صحابہؓ کے تناظر میں امیر المومنین حضرت عمرؓ کا ایک قولِ زریں نقل کیا ہے۔حضرت عمرؓ فرماتے ہیں: ’’عہدِ رسالت میں لوگوں کو وحی کی بنیاد پر مأخوذ کیا جاتا تھا۔ اب وحی کا سلسلہ منقطع ہوگیا ہے۔ میں اب تمہارے ظاہری اعمال کے مطابق مواخذہ کروں گا۔ تم میں سے جو خیر ظاہر کرے گاتو ہم اسے امان دیں گے اور قریب رکھیں گے۔ اس کے باطن کی ذمے داری ہماری نہیں ہے۔ اللہ اس سے اس کی نیت اور ارادے کا احتساب کرے گا۔ اور جو ہمارے سامنے برائی ظاہر کرے گاتو ہم اس کے تئیں کھٹک جائیں گے اور اسے سچا نہ سمجھیں گے، چاہے وہ کہے کہ اس کی نیت اچھی ہے۔‘‘[إن أناسا کانوا یؤخذون بالوحی فی عہد رسول اللّٰہ وأن الوحی قد انقطع وإنما آخذکم الآن بما ظہر من أعمالکم فمن أظہر لنا خیرا آمناہ وقربناہ ولیس إلینا من سریرتہ شییٔ اللّٰہ یحاسبہ فی سریرتہ ومن أظہر لنا سوئا لم نأمنہ ولم نصدقہ وإن قال إن سریرتی حسنۃ](الکفایۃ:ص۴۹)[413]
حضرت عمر (رضی الله) نے زنا کی تین گواہیوں پر ایسا نہ کیا بلکہ الٹا الزام لگانے والوں کو سزا ملی بہتان پرجو سب صحابی تھے اور جس کو جھانک کر شراب کی بوتل اور گانے والی کے ساتھ خود دیکھا اسے سزا بھی نہ دے سکے کہ شرعی تقاضے پورے نہ تھے اور خود لاجواب ہونے جب ملزم نے تانک جھانک پر دلائل دینے-
وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا عفان بن مسلم الصفار ، حدثنا وهيب ، قال: سمعت عبد العزيز بن صهيب يحدث، قال: حدثنا انس بن مالك ، ان النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " ليردن علي الحوض رجال ممن صاحبني، حتى إذا رايتهم ورفعوا إلي، اختلجوا دوني، فلاقولن: اي رب اصيحابي، اصيحابي، فليقالن لي: إنك لا تدري ما احدثوا بعدك ".
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”حوض پر چند آدمی ایسے آئیں گے جو دنیا میں میرے ساتھ رہے، جب میں ان کو دیکھ لوں گا، اور وہ میرے سامنے کر دیئے جائیں گے تو اٹکائے جائیں گے میرے پاس آنے سے۔ میں کہوں گا: اے رب ! یہ تو میرے اصحاب ہیں، میرے اصحاب ہیں۔ جواب ملے گا، تم نہیں جانتے، جو انہوں ۓ( کیا) گل کھلایا تمہارے بعد۔“(صحیح البخاری حدیث:5996)[414] (مزید صحیح البخاری حدیث: 6583, 6584, 6585)[415]
امام بخاری (رح) نے نقل کیا ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا: انافرطکم علی الحوض و لیعرفنّ رجال منکم ثمّ لختلجنّ دونی فاقول: یا ربّ اصحابی، فیقال: إِنَّكَ لَا تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَكَ
عبداللہ بن مسعود ؓ نے بیان کیا کہ نبی کریم نے فرمایا کہ میں اپنے حوض پر تم سے پہلے ہی موجود رہوں گا اور تم میں سے کچھ لوگ میرے سامنے لائے جائیں گے پھر انہیں میرے سامنے سے ہٹا دیا جائے گا تو میں کہوں گا کہ اے میرے رب! یہ میرے اصحابی ہیں لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ نہیں جانتے کہ انہوں نے آپ کے بعد دین میں کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں۔ اس روایت کی متابعت عاصم نے ابو وائل سے کی، ان سے حذیفہ ؓ نے اور ان سے نبی کریم ﷺ نے بیان فرمایا۔(البخاری:6576) [416]
یہاں بلکل صاف اور واضح طور پر رسول اللہ ﷺ نے لفظ "اصحابی" استعمال کیا ہے، یعنی آپ ﷺ ان کو پہچان لیتے ہیں مگر کیونکہ وہ گمراہ ہوگنے تھے آپ کے بعد، تو ان کو ہٹا دیا جائے گا یعنی جنت سے دور اور جہنم کی طرف- اس حدیث سے کوئی شک باقی نہیں رھتا کہ صحابہ کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں وہاں فیصلے کی بنیاد اللہ کے وعدہ کے مطابق ہو گی: وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَ أَجْراً عَظيما۔۔ (قران: 48:29) ترجمہ ڈاکٹر اسرار احمد : "اللہ نے وعدہ کیا ہے ان لوگوں سے جو ان میں سے ایمان لائے اور انہوں نے نیک اعمال کیے ‘ مغفرت اور اجر عظیم کا" “ تفسیر عثمانی میں یہ مضمون بیان ہوا ہے کہ اگرچہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے تمام صحابہ (رض) ایمان اور عمل صالح کا حق ادا کرچکے تھے ‘ پھر بھی یہاں مِنْہُمْ کی قید لگا کر ان پر واضح کردیا گیا کہ اس کیفیت پر موت تک قائم رہنا بھی ضروری ہے ‘ مبادا کہ بعد میں کسی کے اندر کسی قسم کا کوئی تزلزل پیدا ہوجائے۔ انسان چونکہ طبعاً کمزور واقع ہوا ہے ‘ اس لیے اگر اس کو کامیابی کا یقین دلادیا جائے تو اطمینان کی وجہ سے اس میں تساہل پیدا ہوجاتا ہے ‘ جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ اللہ کے ہاں بلند مقام حاصل کرلینے کے باوجود بھی انسان آخری دم تک ” بین الخوف و الرجاء “ کی کیفیت میں رہے-
یہ حدیث متن میں تھوڑے اختلاف کے ساتھ صحیح بخاری اور مسلم ٥٩٧٢،٥٨٢، ٥٩٧٤ میں مکرر نقل ہوئی ہے[417]- لیکن جہاں موقع لگا ترجمہ میں لفظ "اصحابی" کا ترجمہ "امت" کر دیا تاکہ مخالف دلیل کمزور ہو جایے- اس لیے ترجمہ کے ساتھ عربی متن پڑھنا ضروری ہے - یہ مثال ہے (ویب لنک وزٹ کریں )[418]
عَنِّي طَائِفَةٌ مِنْکُمْ فَلَا يَصِلُونَ فَأَقُولُ يَا رَبِّ هَؤُلَائِ مِنْ أَصْحَابِي فَيُجِيبُنِي مَلَکٌ فَيَقُولُ وَهَلْ تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَکَ
ترجمہ: اور تم میں سے ایک جماعت کو میرے پاس آنے سے روکا جائے گا وہ میرے تک نہ پہنچ سکیں گے تو میں کہوں گا اے میرے رب یہ میری امت میں سے ہیں ایک فرشتہ مجھے جواب دے گا کہ آپ ﷺ کو معلوم بھی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد انہوں نے دین میں کیا کیا نئی باتیں (بدعات) نکال لی تھیں (رواہ ، ابوکریب، واصل بن عبدالاعلی، واصل، ابن فضیل، ابومالک اشجعی، ابوحازم، ابوہریرہ)
خط کشیدہ عربی اور اردو ترجمہ پر غور فرمائیں مِنْ أَصْحَابِي کا ترجمہ "میری امت" کر دیا تاکہ دھوکہ دیا جاسکے کہ یہ حدیث تو امت کے لوگوں پر ہے صحابہ پر نہیں- امتی کا لفظ شروع میں ہے ، مگر جن کو دور کیا جا رہا ہے وہ صحابہ کا گروہ ( طَائِفَةٌ) ہے - حالانکہ رسول اللہ ﷺ تو خطاب ہی صحابہ سے کر رہے ہیں جو سامنے موجود ہیں اور پہلے فرمآیا "وَلَيُصَدَّنَّ عَنِّي طَائِفَةٌ مِنْکُمْ" : تم میں سے ایک جماعت کو میرے پاس آنے سے روکا جائے گا- معنوی تحریف قرآن کے بعد معنوی تحریف حدیث (استغفراللہ)-
حَدَّثَنَا أَبُو کُرَيْبٍ وَوَاصِلُ بْنُ عَبْدِ الْأَعْلَی وَاللَّفْظُ لِوَاصِلٍ قَالَا حَدَّثَنَا ابْنُ فُضَيْلٍ عَنْ أَبِي مَالِکٍ الْأَشْجَعِيِّ عَنْ أَبِي حَازِمٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَرِدُ عَلَيَّ أُمَّتِي الْحَوْضَ وَأَنَا أَذُودُ النَّاسَ عَنْهُ کَمَا يَذُودُ الرَّجُلُ إِبِلَ الرَّجُلِ عَنْ إِبِلِهِ قَالُوا يَا نَبِيَّ اللَّهِ أَتَعْرِفُنَا قَالَ نَعَمْ لَکُمْ سِيمَا لَيْسَتْ لِأَحَدٍ غَيْرِکُمْ تَرِدُونَ عَلَيَّ غُرًّا مُحَجَّلِينَ مِنْ آثَارِ الْوُضُوئِ وَلَيُصَدَّنَّ عَنِّي طَائِفَةٌ مِنْکُمْ فَلَا يَصِلُونَ فَأَقُولُ يَا رَبِّ هَؤُلَائِ مِنْ أَصْحَابِي فَيُجِيبُنِي مَلَکٌ فَيَقُولُ وَهَلْ تَدْرِي مَا أَحْدَثُوا بَعْدَکَ (صحیح مسلم، ٥٨٢)
ترجمہ : ابوکریب، واصل بن عبدالاعلی، واصل، ابن فضیل، ابومالک اشجعی، ابوحازم، ابوہریرہ ؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ میری امت کے لوگ میرے پاس حوض پر آئیں گے اور میں اس سے لوگوں کو اس طرح دور کروں گے جس طرح کوئی آدمی دوسرے آدمی کے اونٹوں کو دور کرتا ہے صحابہ کرام ؓ نے عرض کی اے اللہ کے نبی آپ ﷺ ہم کو پہچان لیں گے فرمایا ہاں تمہارے لئے ایک ایسی علامت و نشانی ہوگی جو تمہارے علاوہ کسی کے لئے نہ ہوگی تم جس وقت میرے پاس آؤ گے تو وضو کے آثار کی وجہ سے تمہارے چہرے ہاتھ اور پاؤں چمکدار اور روشن ہوں گے اور تم میں سے ایک جماعت کو میرے پاس آنے سے روکا جائے گا وہ میرے تک نہ پہنچ سکیں گے تو میں کہوں گا اے میرے رب یہ میری امت میں سے ہیں (يَا رَبِّ هَؤُلَائِ مِنْ أَصْحَابِي) ایک فرشتہ مجھے جواب دے گا کہ آپ ﷺ کو معلوم بھی ہے کہ آپ ﷺ کے بعد انہوں نے دین میں کیا کیا نئی باتیں (بدعات) نکال لی تھیں۔
اگر بحث کریں تو کہیں گئے کہ صحابی کیا امتی نہیں ہوتا؟ جی ہوتا ہے مگر رسول اللہ ﷺ ںے اس حدیث میں امتی اور صحابی میں فرق رکھا اور مخاطبین صحابہ سے فرمایا "تم میں سے ایک جماعت کو میرے پاس آنے سے روکا جائے گا"
دوسری مشور ویب سائٹ پر چیک کیا تو ادھر بھی تحریف : يا رب، هؤلاء من اصحابي کا ترجمہ : اے پروردگار! یہ تو میرے لوگ ہیں- اصحابي = لوگ ؟..... [ویب سائٹ لنک ..][419]
یہ حدیث اتنی زیادہ اور مختلف راویوں کی طرف سے ہیں کہ موضوع کے مطابق متواترہی بن جاتی ہیں-
اگر الله تعالی سب صحابیوں پر راضی ہوتا تو وہ جنت کے حوض سے رسول اللہ ﷺ سے دور کیوں کیے جائیں گے ؟ جو جنت سے نکالا جاتا ہے تو پھرظاہر ہے جہنم میں سزا بھگتے گا اور اگر شرک نہیں کیا تو پھر واپس آ سکے گا- ["عمل صالح" سے الله تعالی راضی ہوتا ہے اور عمل سيئة (برے عمل سے ناراض) الله تعالی کی خوشی یا ناراضی ہمارےاعمال پر منحصر ہے[420]]- سزا جزا کا فیصلہ حساب کتاب (جمع ، تفریق ) سے ہو گا :
مَن جَاءَ بِالْحَسَنَةِ فَلَهُ خَيْرٌ مِّنْهَا ۖ وَمَن جَاءَ بِالسَّيِّئَةِ فَلَا يُجْزَى الَّذِينَ عَمِلُوا السَّيِّئَاتِ إِلَّا مَا كَانُوا يَعْمَلُونَ ﴿٨٤﴾
جو شخص نیکی لے کر آئے گا اس کے لئے اس سے بہتر (صلہ موجود) ہے اور جو برائی لائے گا تو جن لوگوں نے برے کام کئے ان کو بدلہ بھی اسی طرح کا ملے گا جس طرح کے وہ کام کرتے تھے (28:84)[421]
دین میں جھوٹ اور حدیث پرجھوٹ ...
حَدَّثَنَا أَبُو بَکْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ حَدَّثَنَا غُنْدَرٌ عَنْ شُعْبَةَ ح و حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّی وَابْنُ بَشَّارٍ قَالَا حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ حَدَّثَنَا شُعْبَةُ عَنْ مَنْصُورٍ عَنْ رِبْعِيِّ بْنِ حِرَاشٍ أَنَّهُ سَمِعَ عَلِيًّا رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ يَخْطُبُ قَالَ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّی اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَا تَکْذِبُوا عَلَيَّ فَإِنَّهُ مَنْ يَکْذِبْ عَلَيَّ يَلِجْ النَّارَ (صحیح مسلم, :حدیث نمبر: 2)
ترجمہ:
ابوبکر بن ابی شیبہ، غندر، شعبہ، محمد بن مثنی، ابن بشار، محمد بن جعفر، شعبہ، منصور، ربعی بن حراش کہتے ہیں کہ اس نے سنا حضرت علی نے دوران خطبہ بیان کیا کہ رسول اللہ ﷺ نے ارشاد فرمایا مجھ پر جھوٹ مت باندھو جو شخص میری طرف جھوٹ منسوب کرے گا وہ جہنم میں داخل ہوگا۔ (صحیح مسلم, :حدیث نمبر: 2)[422], [423] یہ اہم ترین حدیث ، متواتر[424] ہے ، جسے 62 راویوں نے رپورٹ کیا ہے- اور یہ اجماع ہے کہ متواتر حدیث کا درجہ قرآن کے قریب ترین ہے اور اس کا انکار کفر ہے -
[ کس کس کا رونا روئیں، ایسی بہت سی تحریفات قرآن میں دیکھی ہیں اس گنہگار آنکھوں سے، ترجمہ اور اصل عربی سکرپٹ کا تقابل مشکل نہیں. الْحَمْدُ لِلَّهِ]
حدثنا مسلم بن إبراهيم، حدثنا وهيب، حدثنا عبد العزيز، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال:" ليردن علي ناس من اصحابي الحوض حتى عرفتهم اختلجوا دوني، فاقول: اصحابي، فيقول: لا تدري ما احدثوا بعدك".
ہم سے مسلم بن ابراہیم نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، کہا ہم سے عبدالعزیز نے بیان کیا، ان سے انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ”میرے کچھ اصحابي حوض پر میرے سامنے لائے جائیں گے اور میں انہیں پہچان لوں گا لیکن پھر وہ میرے سامنے سے ہٹا دئیے جائیں گے۔ میں اس پر کہوں گا کہ یہ تو میرے صحابي ہیں۔ لیکن مجھ سے کہا جائے گا کہ آپ کو معلوم نہیں کہ انہوں نے آپ کے بعد کیا کیا نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں۔“ (صحیح البخاری حدیث:6582)[425]
وَعَدَ اللَّهُ الَّذينَ آمَنُوا وَ عَمِلُوا الصَّالِحاتِ مِنْهُمْ مَغْفِرَةً وَ أَجْراً عَظيما۔۔ (قران: 48:29) آیت میں میں " من " تبیین کے لئے ہے اور اس سے مقصود "وعدہ مغفرت اور اجر عظیم" کا "الذین امنوا وعملوا الصلحت" کے ساتھ مخصوص کرنا ہے۔
حضرت طلحہ و زبیر، حضرت امیرمعاویہ اور جنہوں ںے خلیفہ چهارم حضرت علی (رضی الله) کے خلاف جنگیں لڑیں اور جن میں ہزاروں کی تعدا د میں لوگ مارے گئے، وہ پیغمبرؐکے صحابہ تھے[426] حضرت امیر معاویۃ نے مسلمانوں کے برحق خلیفہ کی پیروی نہیں کی اور جنگ صفین میں ہزاروں کی تعداد میں لوگ مارے گئے اور زخمی ہوگئےاور اس جنگ میں عمار یاسر جیسے بزرگ صحابی شہید ہوئے۔[427].حضرت علی (رضی الله) کے خلاف جنگیں رسول اللہ ﷺ کی وصیت اور حکم کے خلاف تھی:[428]
عرباض رضی اللہ عنہ نے کہا :ایک دن ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی ، پھر ہماری طرف متوجہ ہوئے اور ہمیں دل موہ لینے والی نصیحت کی جس سے آنکھیں اشک بار ہو گئیں ، اور دل کانپ گئے ، پھر ایک شخص نے عرض کیا :اللہ کے رسول ! یہ تو کسی رخصت کرنے والے کی سی نصیحت ہے ، تو آپ ہمیں کیا وصیت فرما رہے ہیں ؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
” میں تمہیں اللہ سے ڈرنے ، امیر کی بات سننے اور اس کی اطاعت کرنے کی وصیت کرتا ہوں ، خواہ وہ کوئی حبشی غلام ہی کیوں نہ ہو ، اس لیے کہ جو میرے بعد تم میں سے زندہ رہے گا عنقریب وہ بہت سے اختلافات دیکھے گا ، تو تم میری سنت اور ہدایت یافتہ خلفاء راشدین کے طریقہ کار کو لازم پکڑنا ، تم اس سے چمٹ جانا ، اور اسے دانتوں سے مضبوط پکڑ لینا ، اور دین میں نکالی گئی نئی باتوں سے بچتے رہنا ، اس لیے کہ ہر نئی بات بدعت ہے ، اور ہر بدعت گمراہی ہے [ابن ماجہ, 42 , ابی داود 4607 ، ترمزی 2676 وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)]
تاریخ گواہ ہے کہ صحابہ کے یہ خاص گروہ کے کچھ لوگ پیغمبرؐکی رحلت کے بعد خانہ نشین ہوگئے اور کسی نے ان کی آواز نہ سنی۔
"معصوم من الخطأ"
یہ کیسے ممکن ہے کہ صرف ایکبار پیغمبرؐ[429] کو دیکھنے سے لوگوں کے وجود کو 'عدالت' اس طرح لپیٹ لیتی ہے کہ وہ ہر قسم کی خطا اور غلطی سے مبّرا ہوجاتے ہیں۔ جبکہ قرآن کا تھیم (بیانیہ) "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" ہے جس کو قطعی طور پر نظر انداز نہیں کیا جا سکتا- اسلام میں بخشش ،مغفرت ، انعام ، جنت کا وعدہ یا وعدے میں یہ مد نظر رکھنا بھی ضروری ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے حقوق تو جسے چاہے گا اور جب چاہے گا معاف کر دے گا ‘ لیکن حقوق العباد کے تنازعات کے حوالے سے وہ انصاف کے تقاضے پورے کرے گا، اس کی تفصیل ﴿71:4﴾[430] پہلے بیان ہو چکی- مزید یہ کہ اگر "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" کا اگر ذکر نہیں بھی تو یہ لازم ، فرض کرنا ہو گا کیونکہ "آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ" قرآن کا اہم ، جامع بیانیہ ہے، جس کا ذکر قرآن میں 158مرتبہ[431] ہوا ہے-
اصحاب کی غلطیوں کی نشاندھی کا مطلب یہ نہیں کہ اکثریت ایسی ہی تھی- اکثریت نیک پرهیز گار, متقی اور ایمان دار اصحاب کی تھی جنھوں نے رسول اللہ ﷺ کا مسلسل ساتھ دیا اور اسلام کو پھیلانے میں اہم کردار ادا کیا. الله تعالی کا فرمان ہے :
’’اور جو لوگ ایمان لائے اور ہجرت کی اور اللہ کی راہ میں جہاد کیا او رجنہوں نے پناہ دی اور مد دپہنچائی یہی لوگ سچے مومن ہیں ،ان کیلئے بخشش ہے اور عزت کی روزی۔‘‘ ( الانفال74)[432]’’
"لیکن خود رسول اللہ اور ان کے ساتھ کے ایمان والے اپنے مالوں اور جانوں سے جہاد کرتے ہیں، یہی لوگ بھلائی والے ہیں اور یہی لوگ کامیابی حاصل کرنے والے ہیں،انہی کیلئے اللہ نے وہ جنتیں تیار کی ہے جن کے نیچے نہریں جاری ہیں، جن میں ہمیشہ رہنے والے ہیں، یہ بہت بڑی کامیابی ہے۔‘‘ ( التوبہ88،89)[433]
یقینا اللہ تعالیٰ مومنوں سے خوش ہوگیا جبکہ وہ درخت تلے تجھ سے بیعت کررہے تھے ، ان کے دلوں کا حال اُس کو معلوم تھا، اس لیے اس نے ان پر سکینت نازل فرمائی، ان کو انعام میں قریبی فتح بخشی۔‘‘ (48:18)[434]
"اور بہت سا مال غنیمت انہیں عطا کر دیا جسے وہ (عنقریب) حاصل کریں گے اللہ زبردست اور حکیم ہے (19) اللہ تم سے بکثرت اموال غنیمت کا وعدہ کرتا ہے جنہیں تم حاصل کرو گے فوری طور پر تو یہ فتح اس نے تمہیں عطا کر دی اور لوگوں کے ہاتھ تمہارے خلاف اٹھنے سے روک دیے، تاکہ یہ مومنوں کے لیے ایک نشانی بن جائے اور اللہ سیدھے راستے کی طرف تمہیں ہدایت بخشے (20) اِس کے علاوہ دوسرے اور غنیمتوں کا بھی وہ تم سے وعدہ کرتا ہے جن پر تم ابھی تک قادر نہیں ہوئے ہو اور اللہ نے ان کو گھیر رکھا ہے، اللہ ہر چیز پر قادر ہے (48:21)
مزید : حدیث اورتاریخ میں فرق، تاریخی روایات وجزیات اور صحابہ کرم پر تنقید کا رد از مولآنا سید یوسف بنوری[435]
صحیح بخاری میں نبی کریم کا فرمان ہے:
’’ میرے صحابہ کو برا نہ کہو (تین مرتبہ فرمایا ) اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، اگر تم میں سے کوئی احد پہاڑ کے برابر بھی سونا خرچ کرے تو نہ ان کے مد (یعنی آدھا کلو) اور نہ ہی ان کے نصف کے برابر پہنچ سکتا ہے۔‘‘
ایک دوسری حدیث میں نبی کریم کا ارشاد ہے :
’’جس نے میرے صحابہ پر سب وشتم کیا ،اس پر اللہ، اس کے فرشتوں اور سارے لوگوں کی لعنت ہو۔‘‘ نیز آپ نے فرمایا : ’’میرے صحابہ کے بارے میں اللہ سے ڈرو ،میرے بعد انہیں ہدفِ تنقید نہ بنانا۔ ‘‘( سنن ترمذی )
بعض لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ اور ان کے ساتھی صحابہ کرام کو انہی مشاجرات کی بنا پر تنقید کا نشانہ بناتے ہیں اور لوگوں کو بھی ان سے بدظن کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مثلاً وہ کہتے ہیں کہ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ نے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا بھلا کہا، وغیرہ - یہ معامله تاریخ کا حصہ ہے اسے الله تعالی کے سپرد کریں، آپس میں مسلمان محبت اور اتحاد کا رشتہ قائم کریں- قرآن و سنت کے مطابق اسلام پر عمل کریں-
حق پر ثابت قدم رہنا: عدیسہ بنت اہبان کہتی ہیں کہ جب علی بن ابی طالب ؓ یہاں بصرہ میں آئے، تو میرے والد (اہبان بن صیفی غفاری ؓ) کے پاس تشریف لائے، اور کہا: ابو مسلم! ان لوگوں (شامیوں) کے مقابلہ میں تم میری مدد نہیں کرو گے؟ انہوں نے کہا: کیوں نہیں، ضرور مدد کروں گا، پھر اس کے بعد اپنی باندی کو بلایا، اور اسے تلوار لانے کو کہا: وہ تلوار لے کر آئی، ابو مسلم نے اس کو ایک بالشت برابر (نیام سے) نکالا، دیکھا تو وہ تلوار لکڑی کی تھی، پھر ابو مسلم نے کہا: میرے خلیل اور تمہارے چچا زاد بھائی (محمد ﷺ ) نے مجھے ایسا ہی حکم دیا ہے کہ جب مسلمانوں میں جنگ اور فتنہ برپا ہوجائے تو میں ایک لکڑی کی تلوار بنا لوں ، اگر آپ چاہیں تو میں آپ کے ہمراہ نکلوں، انہوں نے کہا: مجھے نہ تمہاری ضرورت ہے اور نہ تمہاری تلوار کی ١ ؎۔
ابن ماجة [436]3960, تخریج دارالدعوہ: سنن الترمذی/الفتن ٣٣ (٢٢٠٣)، (تحفة الأشراف: ١٧٣٤)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٥/٦٩، ٦/٣٩٣) (حسن صحیح , سنن الترمذي الألباني: حديث 2203[437])
ابوبردہ ۓ کہا آپ (محمد بن مسلمہ ) اس معاملے میں کٹ کر اس جگہ بیٹھے ہوئے ہیں آپ لوگوں میں نکل کر امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کریں انہوں نے فرمایا کہ نبی ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ عنقریب فتنے، تفرقے اور اختلافات ہوں گے جب ایسا ہونے لگے تو تم اپنی تلوار لے کر احد پہاڑ کے پاس جانا اور اسے چوڑائی سے لے کر پہاڑ پردے مارنا اس کا پھل توڑ دینا اپنی کمان توڑ دینا اور اپنے گھر بیٹھ جانا اور اب ایسا ہوگیا ہے اور میں نے وہی کام کیا ہے جس کا نبی ﷺ نے مجھ کو حکم دیا تھا (مسند امام احمد:حدیث: 15456[438]، 19754[439])
وضاحت: ١ ؎: اور ان کو لڑائی سے معاف کردیا، نبی اکرم ﷺ کا یہ حکم کہ لکڑی کی تلوار بنا لو، اس صورت میں ہے جب مسلمانوں میں فتنہ ہو اور حق و صواب معلوم نہ ہو تو بہتر یہی ہے کہ آدمی خاموش رہے کسی جماعت کے ساتھ نہ ہو۔
قول باری ہے اللہ تعالیٰ نے بنی اسرائیل سے پختہ عہد لیا تھا اور ان میں بارہ نقیب مقرر کیے تھے- لفظ نقیب نقب سے ماخوذ ہے جس کے معنی بڑے سوراخ کے ہیں۔ کسی کو نقیب القوم اس لیے کہا جاتا ہے کہ وہ ان کے احوال پر نظر رکھتا ہے اور ان کے پوشیدہ خیالات و امور سے مطلع رہتا ہے۔ اسی مفہوم کی بنا پر قوم کے معاملات کی دیکھ بھال کرنے والوں کے سردار کو نقیب کہا جاتا ہے۔
حسن کا قول ہے کہ نقیب کفیل اور ذمہ دار کو کہتے ہیں انہوں نے اس سے یہ مراد لی ہے کہ نقیب اس کا ذمہ دار ہوتا تھا کہ وہ اپنے متعلقہ لوگوں کے احوال، ان کے امور، ان کے صلاح و فساد اور ان کی استقامت اور کج روی سے باخبر رہ کر رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کو اس کی اطلاع فراہم کرے، حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے انصار پر بارہ نقیب اسی معنی میں مقرر فرمائے تھے۔ ربیع بن انس کا قول ہے کہ امین کو نقیب کہتے ہیں-
ایک حدیث میں ارشاد ہے کہ ہر نبی کو اس کی امت میں سے سات نقیب دیے گئے تھے اور مجھے چودہ(14) دیے گئے ہیں جو یہ ہیں:
1 علی المرتضی، 2 حسن، 3 حسین، 4 جعفر، 5 حمزہ، 6 ابوبکر، 7 عمر، 8 مصعب بن عمیر، 9 بلال، 10 سلمان، 11 عمار، 12 عبد اللہ بن مسعود، 13 مقداد، 14 حذیفہ بن یمان [ ترمذی 3785 ،مستدرک عن علی بن ابی طالب]
حق یہ ہے کہ صحابہ اکرام قرآن کے مطابق "وارث قرآن"[440] کے تین بڑے درجات اور کئی چھوٹے درجات میں تقسیم کیے جا سکتے ہیں- الله تعالی نے ان کو رسول اللہ ﷺ کے دیدار اور قرب کی سعادت سے نوازا مگر انصاف کے مروجہ اصولوں کے مطابق سب کا ایک درجہ و مقام نہیں ہوسکتا- اہل بیت، رسول اللہ ﷺ کے قریب ترین ساتھی، ایمان لانے میں سبقت والوں (السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ) اور بعد میں جب اسلام مستحکم ہو گیا اور لوگ فوج در فوج اسلام میں داخل ہونے ان کے برابر کیسے ہو سکتا ہے- لیکن الله تعالی نے اپنی رحمت اور انصاف سے ان سب مومنین کے لینے قیامت تک، جو سبقت والوں (السَّابِقُونَ الْأَوَّلُونَ) کی اتباع بشرط "احسان"[441]، (قرآن و سنت کے دائرۂ میں) کریں تو ان کے لیے (رضی الله) کا اعزاز حاصل کرنے کا موقع فراہم کر دیا، بظاھر کچھ بھی ہو مگر "اتباع احسان" ایک باطنی معامله ہے جس کا علم صرف "عالم الغیب" (الله تعالی) کو ہی ہے، سب کو نتیجہ اور علم بروز قیامت معلوم ہو گا- ہم ظاہر پرصرف قیاس آرایاں کر سکتے ہیں، جس سے کچھ حاصل نہیں-
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:[442] ’’الحمد للہ تمام صحابۂ کرامؓ زبان کے سب سے بڑھ کر سچے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی نہیں ملتا کہ اس کی زبان سے کبھی ارادتاً جھوٹ نکلا ہو۔ اگرچہ ان میں کسی سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں یاکچھ گناہوں کا ارتکاب ہوگیا ہے، اس کے باوجود کسی کے بارے میں کذب بیانی اور دروغ گوئی کاالزام ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ صحابۂ کرامؓ اپنی انفرادی حیثیت سے معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ اس کے باوجود جانچ پڑتال کرنے والوں نے ان کی احادیث کو خوب آزما کر دیکھ لیا ہے اوران کی روایات کا باہم تقابل وموازنہ بھی کیا ہے جسے اصطلاحِ محدثین میں "اعتبار” کہتے ہیں، اس پوری چھان پھٹک کے بعد بھی کسی محدث نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس نے کسی صحابی کا جھوٹ پکڑا ہے۔ مگر عہدِ صحابہؓ گزرتے ہی حالات یک لخت تبدیل ہوگئے۔ زمانۂ تابعینؒ میں ہی کوفہ میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی پیدا ہوئی جو احادیث کے نام پر جھوٹ پھیلاتے تھے اور بعد کی صدیوں میں تو امانت ودیانت کا گراف نیچے ہی آیا ہے۔ اس لیے حدیث اور فقہ سے اشتغال رکھنے والے تمام علماء وماہرین کا اجماعی فیصلہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ سب کے سب ثقہ اور عدول تھے۔‘‘(منہاج السنۃ النبویۃ:۱/۳۰۷)
صحابہؓ اور غیرِ انبیاء لوگوں کے حق میں عدالت کا مطلب یہ ہے کہ متعلق شخص جان بوجھ کر گناہ نہیں کرتا اور اگر اس سے گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کر لیتا ہے۔ صحابہؓ کی عدالت کا یہی مطلب ہے۔
محدثین کے نزدیک فرد کی عدالت کا مطلب ہے کہ وہ جان بوجھ کر نقل وروایت میں جھوٹ نہیں بولتا یا اس میں تحریف نہیں کرتا۔ اس سلسلے میں عرض کرنا ہے کہ صحابۂ کرامؓ بالاجماع گناہ کا ارتکاب نہیں کر سکتے اورنہ گناہ کا ارتکاب ہوتے دیکھ کر خاموش بیٹھ سکتے ہیں۔ اس لیے اگر کوئی صحابی ایک عمل کرتا ہے اور دیگر صحابہ خاموش رہتے ہیں تو یہ جواز کی دلیل ہے۔ اور اگر کسی مسئلے میں ان کے متعدد موقف مل جائیں تو یہ اس بات کی دلیل ہے کہ فلاں مسئلہ اجتہادی ہے اور اس میں توسع اور اختلاف کی گنجائش ہے۔ انفرادی سطح پر کسی صحابی سے غلطی ہو سکتی ہے اور وہ گناہ کا ارتکاب بھی کر سکتا ہے،مگر وہ گناہ پر جم نہیں سکتا، بلکہ یاددہانی ہونے پر فوراً اللہ کی جانب رجوع کر لیتا ہے۔(صحابی کا خود اپنے خلاف گواہی دے کر رجم ہونا ثبوت ہے) اللہ کا شکر ہے کہ کسی صحابی کی نسبت سے ہمیں ایسا کوئی گناہ یا غلطی نہیں معلوم ہے جسے بنیاد بناکر اس کی روایتوں اور حدیثوں کو ناقابلِ قبول قرار دیا جائے۔
دراصل صحابۂ کرامؓ اللہ کے رسولﷺ کی نسبت سے اور دینی مسائل میں جھوٹ بولنے سے حد درجہ نفور تھے۔ متعدد ائمۂ دین نے سیرتِ صحابہؓ کے اس پہلو پر روشنی ڈالی ہے۔ مثلاًحضرت شاہؒ ولی اللہ دہلوی ’’حجۃ اللّٰہ البالغۃ‘‘ میں لکھتے ہیں: ’’استقراء وتتبع سے معلوم ہوتا ہے کہ جملہ صحابۂ کرامؓ یہ عقیدہ رکھتے تھے کہ اللہ کے رسولﷺ کی نسبت سے جھوٹ بولنا شدید ترین گناہوں میں شامل ہے۔‘‘ (حجۃ اللہ البالغۃ:۲/۷۵)
اس لیے صحابۂ کرامؓ سے حسنِ ظن اور ان کے تئیں جذبۂ شکرمندی کا تقاضا ہے کہ ہم ان کی بیان کردہ احادیثِ نبویہ پر اعتماد کریں اور انھیں جھوٹا نہ سمجھیں اور نہ معتزلہ اوررافضی شیعوں کی مانند ان کی غلطیوں اور لغزشوں کی وجہ سے انھیں کافر اور فاسق کہنا شروع کر دیں۔ شیعہ اور معتزلہ دعویٰ کرتے ہیں کہ سوائے سترہ یا چار صحابۂ کرامؓ کے جن کے نام یہ لوگ بیان کرتے ہیں جملہ صحابۂ کرامؓ -معاذ اللہ-اسلام سے مرتد ہوگئے تھے اور وفاتِ نبوی کے بعد دین میں کتربیونت کرنے لگے تھے۔ اگر واقعتا یہ بات ان روسیاہوں کی کتابوں میں درج نہ ہوتی تو ہم سوچ بھی نہیں سکتے تھے کہ خود کو مومن کہنے والا کوئی شخص اللہ کے رسولﷺ کے جاں نثار صحابہؓ کے بارے میں ایسی غلیظ اور متعفن بات زبان سے نکال سکتا ہے،بلکہ ایسا سوچ بھی سکتا ہے۔
صفین وغیرہ میں حضرت علیؓ اور ان کے ہم نوا بہرحال حضرت معاویہؓ اور ان کے ہم نوائوں کے مقابلے میں حق سے قریب تر تھے[443]
صحیح بخاریؒ میں ہے کہ اللہ کے رسولﷺ نے اپنے نواسے حضرت حسن بن علیؓ کو گود میں اٹھایا اور منبر پر تشریف لے گئے اور فرمایا: ’’میرا یہ بیٹا سید ہے اور عنقریب اللہ تعالیٰ اس سے مسلمانوں کے دو گروہوں کے درمیان صلح کرادے گا۔‘‘[إن ابنی ہذا سید و سیصلح اللّٰہ بہ بین فئتین عظیمتین من المسلمین](صحیح بخاریؒ:2704[444] ۔سنن ابو داؤدؒ:۴۶۶۲۔سنن ترمذیؒ:۱۴۱۰۔ مسند احمدؒ:۲۰۳۹۲)
اس پیش گوئی کا تحقق اور وقوع اس طرح ہوا کہ حضرت حسنؓ نے حضرت معاویہؓ کے حق میں خلافت سے علاحدگی اور دستبرداری اختیار کر لی اوراس طرح امت حضرت معاویہؓ کی امارت وخلافت پر متحد ومتفق ہوگئی اور اسی اتحاد ومصالحت کی وجہ سے وہ سال عام الجماعت کے نام سے تاریخ میں مشہور ہوا۔ یہ سن چالیس ہجری کا واقعہ ہے۔ اب دیکھو اللہ کے رسولﷺ نے اپنی پیش گوئی میں دونوں جماعتوں کو مسلمان قرار دیا تھا۔ اسی طرح قرآن میں بتایا گیا ہے کہ کبھی مسلمانوں کی دو جماعتوں میں جنگ کی نوبت بھی آسکتی ہے، ایسے میں دونوں کے مابین مصالحت اور جنگ بندی کی کوشش ہونی چاہیے،مگر اس کے باوجود انھیں دائرۂ اسلام سے خارج نہیں کیا جائے گا۔ ارشادِ باری ہے:{وَإِن طَائِفَتَانِ مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ اقْتَتَلُوا فَأَصْلِحُوا بَیْْنَہُمَا}(حجرات،9)[445]’’اور اگر اہلِ ایمان میں سے دو گروہ آپس میں لڑ جائیں تو ان کے درمیان صلح کرائو۔‘‘دیکھو اللہ تعالیٰ نے باہم جنگ کرنے کے باوجود دونوں گروہوں کو زمرۂ مومنین میں شامل رکھا ہے۔‘‘(اختصار علوم الحدیث:ص۱۲۸)
علامہ سخاویؒ فرماتے ہیں:’’مشاجراتِ صحابہؓ کے سلسلے میں حضرت عمرؒ بن عبدالعزیز کا موقف نہایت خوبصورت اور مناسب ہے۔ وہ فرماتے تھے کہ ان جنگوں میں جو خون بہا، اللہ تعالیٰ نے ہماری تلواروں کو اس سے دور رکھا، تو اب ہم اپنی زبانوں کو اس میں ملوث کیوں کریں؟‘‘ [تلک دماء طہر اللّٰہ منہا سیوفنا فلا نخضب بہا ألسنتنا](فتح المغیث:۳/۱۰۶)
امام آمدیؒ نے ’’أصول الأحکام‘‘ میں لکھا ہے:’’دونوں احتمالوں کے باوجود(یعنی مشاجرات میں کس کا اجتہاد درست اور کس کا غلط تھا) فریقین میں سے کسی کی بھی گواہی اور روایت پر حرف نہیں آتا ہے۔ اگر کسی فریق کو ہم درست مانتے ہیں تب تو کوئی مسئلہ ہی نہیں پیدا ہوتا، اور اگر ہم اسے اجتہادی غلطی پر مانتے ہیں تب بھی بہ اجماعِ امت اجتہادی غلطی کی وجہ سے کسی کی عدالت وثقاہت مجروح نہیں ہوا کرتی۔‘‘(اصول الاحکام:ص112)[446]
یہ بات بھی سمجھ لینی چاہیے کہ عدالت کا تعلق احادیث کی نقل وروایت سے ہے اور اس معاملے میں صحابۂ کرامؓ بڑے محتاط اور ژرف بیں تھے۔ وہ اللہ کے رسولﷺ کی نسبت سے جھوٹ بولنے کا تصور بھی نہیں کرتے تھے۔ ارشاداتِ نبویہ کی حفاظت وصیانت کا ان سے بڑھ کر کوئی حریص نہیں تھا۔ان کی پوری کوشش ہوتی تھی کہ جو بات جن الفاظ میں اللہ کے رسولﷺ سے انھوں نے سنی ہے، من وعن اسے اپنے تلامذہ اور عام مسلمانوں کے سامنے بیان کر دیں۔ انھوں نے اللہ کے رسولﷺ کی زبان سے یہ وارننگ سن رکھی تھی کہ ’’جو شخص جان بوجھ کر میری نسبت سے جھوٹ بولے تو اسے اپنا ٹھکانہ جہنم میں بنالینا چاہیے۔‘‘[من کذب علیّ متعمدا فلیتبوأ مقعدہ من النار](صحیح بخاریؒ:۱۲۹۱۔ صحیح مسلمؒ:۴۔ مسند احمدؒ:۱۸۱۴۰)
احادیثِ نبویہ کے مجموعوں اور دواوین میں کہیں نہیں ملتا کہ کسی صحابی نے کبھی اللہ کے رسولﷺ کی نسبت سے جھوٹ بولا ہو۔ بعض علماء نے صراحت فرمائی ہے کہ اللہ کے رسولﷺ کے نام سے جھوٹ بولنا کفر ہے اور بعض کا کہنا ہے کہ یہ اکبر الکبائر گناہوں میں سے ایک ہے۔ صحابۂ کرامؓ نے اللہ تعالیٰ کا یہ فرمان سنا تھا اور اس کی روشنی میں سب سے پہلے اپنا جائزہ لیا تھا:
وَمَنْ أَظْلَمُ مِمَّنِ افْتَرَی عَلَی اللَّہِ کَذِباً أَوْ کَذَّبَ بِالْحَقِّ لَمَّا جَاء ہُ أَلَیْْسَ فِیْ جَہَنَّمَ مَثْوًی لِّلْکَافِرِیْنَ (عنکبوت، 29:68)
’’اس شخص سے بڑا ظالم کون ہوگا جو اللہ پر جھوٹ باندھے یا حق کو جھٹلائے جب کہ وہ اس کے سامنے آچکا ہو؟ کیا ایسے کافروں کا ٹھکانہ جہنم نہیں ہے؟‘‘ [447]
دینی امور میں اللہ کے نبیﷺ کے نام سے جھوٹ بولنا درحقیقت اللہ کے نام سے جھوٹ بولنے کے مرادف ہے۔ محدثین اورماہرینِ جرح وتعدیل نے کتبِ حدیث کی تنقیح وتمحیص کے بعد صاف فرمایا ہے کہ کسی ایک صحابی کے بارے میں بھی نہیں ملتا کہ اس نے اللہ کے رسولﷺ کی نسبت سے جھوٹی بات بیان کی تھی۔ یقینا بعض صحابہؓ سے غلطیاں اور کوتاہیاں سرزد ہوئی ہیں، مگر دروغ گوئی اور کذب بیانی کی آفت سے اللہ تعالیٰ نے انھیں بالکل محفوظ رکھا ہے۔
اگر کوئی شخص اعتراض کرتا ہے کہ کتبِ حدیث میں تو ایسی ایسی روایات ملتی ہیں جو سراپا خرافات واساطیر ہیں، جنھیں عقلِ صریح قبول نہیں کرتی اور جن کی تائید علمِ جدید بھی نہیں کرتا۔ ان روایات کی وجہ سے غیرمسلم تعلیم یافتہ طبقہ دینِ اسلام کو خرافات واوہام کا دین کہنے لگا ہے۔ وہ اس سے یہ نتیجہ اخذ کرناچاہتے ہیں کہ موجودہ علم وتہذیب کے دور میں اسلام قابلِ عمل نہیں ہے۔ اسلام کی بدنامی کا سبب بننے والی یہ حدیثیں کسی اور نے نہیں، صحابۂ کرامؓ نے بیان کی ہیں۔(اضواء علی السنۃ المحمدیۃ، محمود ابو ریہ:ص۳۴۰)
مگر اس جاہلانہ اعتراض کے جواب میں ہم کہنا چاہیں گے کہ خرافات وجہالات پر مشتمل روایتوں سے صحابۂ کرامؓ کا دامن پاک ہے۔ یہ روایتیں ان کے نام پر کذابوں، وضاعوں، رافضیوں اور زنادقہ وملاحدہ نے گھڑی ہیں۔ یہ آستین کے سانپ تھے جو بہ ظاہر اسلام کا اعلان کرتے تھے مگر سینوں میں اسلام سے نفرت وعداوت کا لاوا چھپائے ہوئے تھے اور ان کی ہر کوشش وکاوش کا محورومدار اسلام کی بیخ کنی تھا۔ انہی لوگوں نے صحابۂ کرامؓ کے نام سے غلط سلط روایتیں سماج میں پھیلائی ہیں۔ اللہ ہمارے محدثین کو جزائے خیر دے کہ انھوں نے ان بدبختوں کے دجل کا پردہ چاک کیا اور سنتِ نبویہ کے تناظرمیں دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی الگ کر دکھایا۔ اس مقصد کی طلب میں محدثین نے علوم ومعارف کی تاریخ میں ایک نئے علم کا اضافہ کیا جسے آج ہم "علمِ جرح وتعدیل" یا "علمِ تراجم" یا "علمِ اسماء الرجال" کے نام سے جانتے ہیں۔ جاہلوں اور اوباشوں کی کذب بیانی کا ذمے دار اگر کوئی شخص صحابۂ کرامؓ کو گردان رہا ہے تو یہ اس کے اپنے دل کا مرضِ نفاق ہے۔ صحابۂ کرامؓ بہرحال ضعیف اور موضوع روایتوں کی شکل میں پھیلی حماقتوں اور خرافات سے بری الذمہ ہیں۔ دینِ اسلام تو علم وتحقیق کا دین ہے۔
البتہ صحیح حدیثوں میں اللہ کے رسولﷺ نے ہمیں جن امورِ غیب اور اخبارِماضیہ کے بارے میں بتایا ہے ہم ان پر ایمان رکھتے ہیں اور انھیں سچ مانتے ہیں کیونکہ اللہ تعالیٰ نے بتادیا ہے کہ اس کا رسولﷺ ہمیشہ سچ بولتا ہے- حق اور باطل کی پہچان لے لئے رسول اللہ ﷺ کی ہدایت کی روشنی میں اصولوں[448] سے استفادہ کیا جا سکتا ہے:
علم الحديث کے سنہری اصول : https://bit.ly/Hadith-Basics
منافق : یہ کہنا کہ بعض صحابہؓ ازروئے قرآن وسنت منافق تھے، درست نہیں۔ منافقین کبھی صحابہؓ نہیں ہو سکتے۔ صحابی کی تعریف ہی یہ ہے کہ جو ایمان کی حالت میں اللہ کے رسولﷺ سے ملے اور اسی پر وفات پائے۔ منافقین نے اللہ کے رسولﷺ سے ایمان کی حالت میں ملاقات ہی نہیں کی اور نہ وہ ایمان پر مرے، اس لیے صحابہؓ کے زمرے میں وہ نہیں آئیں گے۔
شیعه اشتباهات
شیعہ حضرات اپنے نقطۂ نظر اور عقائد کی سپورٹ میں بہت دلائل قرآن، احادیث اور تاریخ سے دیتے ہیں مگر بہت سے اہم نقاط نظر انداز کرتے ہیں جو"شیعه اشتباهات" کی اصل وجہ ہے- یہ ان کی توجہ ان اہم نقاط جو قرآن، شیعہ کتب اور تاریخ میں موجود ہیں کی طرف مبذول کرانے کی ایک کوشش (حصہ سوئم ) تاکہ "شیعه اشتباهات و أخطاء" کا خاتمہ، کمی ہو سکے- (تفصیل : شیعه اشتباهات )[449]
وَعَنْ عَلِیِّ رَضِیَ اﷲُعَنْہُ قَالَ قَالَ رَسُوْلُ اﷲِ صَلَّی اﷲُ عَلَیْہٖ وَسَلَّمَ یُوْشِکُ اَنْ یَّاْتِیَ عَلَی النَّاسِ زَمَانٌ لَا یَبْقَی مِنَ الْاِسْلَامِ اِلَّا اسْمُہۤ وَلَا یَبْقٰی مِنَ الْقُرْاٰنِ اِلَّا رَسْمُہ، مَسَاجِدُ ھُمْ عَامِرَۃٌ وَھِیَ خَرَابٌ مِنَ الْھُدٰی عُلَمَآءُ ھُمْ شَرُّ مَنْ تَحْتَ اٰدِیْمِ السْمَآءِ مِنْ عِنْدِھِمْ تَخْرُجُ الْفِتْنَۃُ وَفِیْھِمْ تَعُوْدُ۔ (رواہ البیہقی فی شعب الایمان)
" اور حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ تعالیٰ عنہ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا۔ عنقریب لوگوں پر ایک ایسا وقت آئے گا کہ اسلام میں صرف اس کا نام باقی رہ جائے گا اور قرآن میں سے صرف اس کے نقوش باقی رہیں گے۔ ان کی مسجدیں (بظاہر تو) آباد ہوں گی مگر حقیقت میں ہدایت سے خالی ہوں گی۔ ان کے علماء آسمان کے نیچے کی مخلوق میں سے سب سے بدتر ہوں گے۔ انہیں سے (ظالموں کی حمایت و مدد کی وجہ سے ) دین میں فتنہ پیدا ہوگا اور انہیں میں لوٹ آئے گا (یعنی انہیں پر ظالم) مسلط کر دیئے جائیں گے۔" (بیہقی)[450]
یہ حدیث اس زمانہ کی نشان دہی کر رہی ہے جب عالم میں اسلام تو موجود رہے گا مگر مسلمانوں کے دل اسلام کی حقیقی روح سے خالی ہوں گے، کہنے کے لئے تو وہ مسلمان کہلائیں گے مگر اسلام کا جو حقیقی مدعا اور منشاء ہے اس سے کو سوں دور ہوں گے۔ قرآن جو مسلمانوں کے لئے ایک مستقل ضابطۂ حیات اور نظام علم ہے اور اس کا ایک ایک لفظ مسلمانوں کی دینی و دنیاوی زندگی کے لئے راہ نما ہے۔ صرف برکت کے لئے پڑھنے کی ایک کتاب ہو کر رہ جائے گا۔ چنانچہ یہاں " رسم قرآن" سے مراد یہی ہے کہ تجوید و قرأت سے قرآن پڑھا جائے گا، مگر اس کے معنی و مفہوم سے ذہن قطعاً نا آشنا ہوں گے، اس کے اوامر و نواہی پر عمل بھی ہوگا مگر قلوب اخلاص کی دولت سے محروم ہوں گے۔
مسجدیں کثرت سے ہوں گی اور آباد بھی ہوں گی مگر وہ آباد اس شکل سے ہوں گی کہ مسلمان مسجدوں میں آئیں گے اور جمع ہوں گے لیکن عبادت خداوندی، ذکر اللہ اور درس و تدریس جو بناء مسجد کا اصل مقصد ہے وہ پوری طرح حاصل نہیں ہوگا۔
اسی طرح وہ علماء جو اپنے آپ کو روحانی اور دنی پیشوا کہلائیں گے۔ اپنے فرائض منصبی سے ہٹ کر مذہب کے نام پر امت میں تفرقے پیدا کریں گے، ظالموں اور جابروں کی مدد و حمایت کریں گے۔ اس طرح دین میں فتنہ و فساد کا بیج بو کر اپنے ذاتی اغراض کی تکمیل کریں گے۔ (مشکوۃ شریف ۔ جلد اول ۔ علم کا بیان ۔ حدیث 263)
افتراق کی سبب دو چیزیں ہیں، عہدہ کی محبت یا مال کی محبت۔ سیدنا کعب بن مالک انصاری رضی اللہ تعالیٰ عنہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:
”ماذئبان جائعان أرسلا في غنم بأفسد لھا من حرص المرء علی المال و الشرف لدینہ”
دو بھوکے بھیڑئیے ، بکریوں کے ریوڑ میں چھوڑ دیئے جائیں تو وہ اتنا نقصان نہیں کرتے جتنا مال اور عہدہ کی حرص کرنے والا اپنے دین کے لئے نقصان دہ ہے۔ (الترمذی:۲۳۷۶ وھو حسن)
ایک بوجھ ان پر خود گمراہ ہونے کا لدے گا اور دوسرا بوجھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا بھی ان پر لادا جائے گا۔[451]
وَ لَیَحْمِلُنَّ اَثْقَالَهُمْ وَ اَثْقَالًا مَّعَ اَثْقَالِهِم ز وَ لَیُسْئَلُنَّ یَوْمَ الْقِیٰمَةِ عَمَّا كَانُوْا یَفْتَرُوْنَ۠ ۧ
"اور وہ اپنے گناہوں کے بوجھ بھی ضرور اٹھایں گے اور اپنے بوجھ کے ساتھ کچھ اور بوجھ بھی ۔ اور یہ لوگ جتنے جھوٹ (افترا پردازیاں، ، بہتان) گھڑا کرتے تھے ، قیامت کے دن ان سے سب کی باز پرس ضرور کی جائے گی (قرآن :29:13 ﴾[452]
یعنی وہ اللہ کے ہاں اگرچہ دوسروں کا بوجھ تو نہ اٹھائیں گے[وَلاَ تَزِرُ وَازِرَۃٌ وِّزْرَ اُخْرٰی- الاسراء : ١٥)] لیکن دوہرا بوجھ اٹھانے سے بچیں گے بھی نہیں، ایک بوجھ ان پر خود گمراہ ہونے کا لدے گا اور دوسرا بوجھ دوسروں کو گمراہ کرنے کا بھی ان پر لادا جائے گا۔
لِیَحۡمِلُوۡۤا اَوۡزَارَہُمۡ کَامِلَۃً یَّوۡمَ الۡقِیٰمَۃِ ۙ وَ مِنۡ اَوۡزَارِ الَّذِیۡنَ یُضِلُّوۡنَہُمۡ بِغَیۡرِ عِلۡمٍ ؕ اَلَا سَآءَ مَا یَزِرُوۡ (اقرآن: 6:25)
"تاکہ وہ قیامت کے روز اپنے بوجھ بھی پورے پورے اٹھائیں اور ان لوگوں کے بوجھوں کا بھی ایک حصہ اٹھائیں جن کو وہ علم کے بغیر گمراہ کرتے ہیں " (اقرآن: 6:25)[453]
من دعا الی ھدی کان لہ من الاجر مثل اجور من تبعہ لا ینقص ذلک من اجورھم شیئا و من دعا الی ضلالۃ کان علیہ من الاثم مثل اثام من تبعہ لا ینقص ذلک من اثامھم شیئا۔ (مسلم)
" جس شخص نے راہ راست کی طرف دعوت دی اس کو ان سب لوگوں کے اجر کے برابر اجر ملے گا جنہوں نے اس کی دعوت پر راہ راست اختیار کی بغیر اس کے کہ ان کے اجروں میں کوئی کمی ہو، اور جس شخص نے گمراہی کی طرف دعوت دی اس پر ان سب لوگوں کے گناہوں کے برابر گناہ ہوگا جنہوں نے اس کی پیروی کی بغیر اس کے کہ ان کے گناہوں میں کوئی کمی ہو "۔(مسلم)
مزید : حدیث اورتاریخ میں فرق، تاریخی روایات وجزنیات اور صحابہ کرم پر تنقید کا رد: از مولآنا سید یوسف بنوری[454]
الله تعالی نے تمام اہل ایمان کو قرآن کے وارث کا اعزاز دیا جن میں تین قسم کے لوگ شامل ہیں: ١) کچھ تو ان میں سے اپنے آپ پر ظلم کرتے ہیں, اور٢) کچھ میانہ رو ہیں اور ٣) کچھ الله تعالی کے حکم سے (سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ) نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں۔ [455]. اصحاب رسول اللہ ﷺ میں بھی تین قسم کے حضرات شامل ہیں- وہ مہاجر اور انصارجنہوں نے سب سے پہلے ایمان لانے میں سبقت کی اور وہ لوگ جنہوں نے احسن طریق پر ان کی پیروی کی ، اللہ ان سب سے راضی ہوا-
ان کے بعد "ملے جلے عمل والے[456]، پھر فاسق[457]، منافقین[458] اور مختلف گناہوں میں ملوث- الله تعالی کی سنت ، قانون و طریقہ کار تبدیل نہیں ہوتے- یہ ایک خیالی تصور ہے کہ تمام صحابہ کو برابر اور ایمان و عمل کے اعلی ترین میعار پر رکھا جا تے- ان کی عزت و احترام اپنی جگہ لیکن اس طرح کے نظریات و عقائد کی بنیاد قرآن ، سنت اور عقل پر ہوتی ہے نہ کہ خواہشات پر-
الله تعالی کا کا خاص کرم ہے کہ وہ اپنی رحمت کی وجہ سے مومن گنہگاروں کو معاف فرماتا ہے کسی خاص وقت ، شخصیت ، سے قربت یا دوری کے بغیر یہ اللہ کی سنت عام ہے ہر ایک کے لئے- لیکن دنیا میں قوانین شریعت کا اطلاق ہر خاص و عام پر ہے کسی کو کوئی استثنیٰ حاصل نہیں- کسی فوت شدہ مومن کی کمزوریوں کی تشہیر، تضحیک کرنا قابل تعریف عمل نہیں، ہم سب گناہ گار ہیں اور ہر وقت الله تعالی سے بخشش کے طالب - لیکن جب کسی ہستی یا شخصیت سے اسلام کا علم حاصل کرنا ہو تو اس شخصیت کا سب سے پہلے اعلی درجہ کا مسلمان ہونا ضروری ہے، اس کے بعد اس کا علمی میعار دیکھا جاتے-
"رضی اللہ" کا اعزاز الله تعالی نے تھوڑے اصحاب رسول اللہ ﷺ کو عطا فرمایا جنہوں نے مہاجرین اور انصار میں سے اسلام قبول کرنے میں سبقت کی-
الله تعالی نے اپنی رحمت اور انصاف سے بعد والوں کو بھی (السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ) کے اتباع کو احسان (اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ) سے مشروط فرمایا ہے-"احسان" کا مطلب پہلے واضح کیا ہے[459] احسان ایسا عمل ہے، جس میں حسن و جمال کی ایسی شان موجود ہو کہ ظاہر و باطن میں حسن ہی حسن ہو اور اس میں کسی قسم کی کراہت اور ناپسندیدگی کا امکان تک نہ ہو اسے ’’تزکیہ‘‘ بھی کہ سکتے ہیں-امام نووی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ ایسی حالت میں بندہ اپنی عبادت کو پورے کمال کے ساتھ انجام دے گا اور اس کے ظاہری ارکان آداب کی بجا آوری اور باطنی خضوع و خشوع میں کسی چیز کی کمی نہیں کرے گا۔ الغرض عبادت کی اس اعلیٰ درجے کی حالت اور ایمان کی اس اعلیٰ کيفیت کو ’’احسان‘‘ کہتے ہیں. [460]،[461]
کسی مومن کی "احسان" کی ظاہری کیفیت تو سب دیکھ سکتے ہیں مگر اصل باطنی حقیقی کیفیت کا علم صرف اللہ کو ہی ہو سکتا ہے- اس لیے یہ کہنا کہ فلاں فلاں "السّٰبِقُوۡنَ الۡاَوَّلُوۡنَ" کا اتباع (اتَّبَعُوۡہُمۡ بِاِحۡسَانٍ) احسان سے کر رہا ہے اور وہ بھی "رَّضِیَ اللّٰہُ عَنۡہُمۡ" میں شامل ہو گیا یا ہو گۓ تغلیب کے طور پر ہے-
جن اصحاب سے غلطیاں سرزد ہوئیں، انہوں نے سزا پائی، اور اللہ ںے معاف بھی کر دیا ، مزید ان کا معاملہ اللہ کے حضور ہے، فیصلہ بروز قیامت الله تعالی کرے گا- اس لیے ان اصحاب پر غیر ضروری تنقید اور طعنہ بازی مناسب عمل نہیں اس مذموم قبیح عمل سے پرهیز ضروری ہے-
اصحاب کے درمیان بلند مقام کے حامل لوگ تھے جو کبھی بھی حق سے منحرف نہیں ہوئے جبکہ دوسری طرف سے اصحاب میں ایسے افراد بھی تھے جو رحلت رسول اللہ ﷺ کے بعد گروہوں میں منقسم ہو گئے اور کچھ گوشہ نشین ہو گئے لہذا شریعت اور دنیاوی میعار میں یہ سب برابر نہیں ہو سکتے البتہ الله تعالی "عالم الغیب" ہے جو سب سے انصاف کرے گا اوراعمال کے مطابق سزا و جزا اور رحمت سے مومنین کی بخشش فرمایے گا-
سورہ حجر(15) کی 47 ویں آیت[462] کے متعلق امام باقر(ع) سے مروی ہے: امام سجاد(ع) سے سوال ہوا کہ یہ آیت: "اور ہم ان کے سینوں سے ہر قسم کی کدورت نکال دیں گے اور وہ بھائیوں کی طرح تختوں پر آمنے سامنے بیٹھے ہوں گے" کیا ابوبکر، عمر و علی(ع) کے بارے میں نازل ہوئی؟
امام نے جواب دیا: ہاں یہ ان کی توصیف میں نازل ہوئی۔ کیونکہ زمانۂ جاہلیت میں تَیْم، عَدِی اور بنی ہاشم کے قبیلوں کے درمیان دشمنی تھی لیکن اسلام قبول کرنے کے بعد بھائی چارے کو قبول کیا۔ ایسا ہی ہوا ایک روز ابوبکر درد حاضره میں مبتلا ہوا تو علی نے اسے مساج کیا تا کہ اسے اس درد س نجات حاصل ہو۔ اس موقع پر یہ آیت نازل ہوئی (واحدی، اسباب نزول القرآن، ۱۴۱۱ق، ص۲۸۲)[463]
یہ سمجھنا کہ کچھ صحابہ کی غلطیوں سے اسلام کو خطرہ ہو سکتا ہے، ایسا خدشہ بے بنیاد ہے- اسلام کو قرآن کی موجودگی میں کسی سے کوئی خطرہ نہیں ہو سکتا یہ انسانی نہیں الہامی دین ہے جسے الله تعالی کی طرف سے رسول اللہ ﷺ نے حالت کامل (Perfected[464]) میں ہم تک پہنچا دیا(5:3)[465] - دوسری تیسری صدی کے علماء نے آخری، کامل الہامی دین کو بدعات[466] سے انسانی دین بنانے کی کوشش کی جو قرآن و سنت اور عقل و دلائل[467] کے سامنے بے بس نظر آتا ہے مگر بے بس نہیں اگر اسے اصل حالت میں بحال کریں- ("رسالہ تجدید الاسلام")- اب دین اسلام کسی فرد یا افراد کے سہارے پر نہیں کھڑا یہ کلام اللہ، قرآن (الفرقان)[468] پر قائم و دائم ہے اور قیامت تک رہے گا- ان شاء اللہ
جب قرآن اور احادیث میں صحابہ اکرام کے اختلافات کے باوجود ان کے جنت میں داخلہ سے پہلے دلوں کی کدورتین دور کرنے کا وعدہ ہے اور وہ بھانیوں کی طرح رہیں گے تو ان سے محبت کرنے والے کیوں آپس میں عداوت اور نفرتوں کا شکار ہیں؟
تِلۡكَ اُمَّةٌ قَدۡ خَلَتۡۚ لَهَا مَا كَسَبَتۡ وَلَـكُمۡ مَّا كَسَبۡتُمۡۚ وَلَا تُسۡئَـلُوۡنَ عَمَّا كَانُوۡا يَعۡمَلُوۡنَ۞
وہ کچھ: لوگ تھے، جو گزر چکے اُن کی کمائی اُن کے لیے تھی اور تمہاری کمائی تمہارے لیے تم سے اُن کے اعمال کے متعلق سوال نہیں ہوگا" (2:141)[469]
تمہارے بزرگوں کی نیکیوں سے تمہیں کوئی فائدہ اور ان کے گناہوں پر تم سے پوچھ گیچھ نہیں ہوگی بلکہ ان کے عملوں کی بابت تم سے یا تمہارے عملوں کی بابت ان سے نہیں پوچھا جائے گا : (وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِّزْرَ اُخْرٰى) (35:18) آیت (وَاَنْ لَّيْسَ لِلْاِنْسَانِ اِلَّا مَا سَعٰى) (53:39 ) کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھائے گا۔
وَالَّذِينَ جَاءُوا مِن بَعْدِهِمْ يَقُولُونَ رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِإِخْوَانِنَا الَّذِينَ سَبَقُونَا بِالْإِيمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِي قُلُوبِنَا غِلًّا لِّلَّذِينَ آمَنُوا رَبَّنَا إِنَّكَ رَءُوفٌ رَّحِيمٌ (59:10)
اور وہ جو ان کے بعد آئے عرض کرتے ہیں اے ہمارے رب ہمیں بخش دے اور ہمارے بھائیوں کو جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور ہمارے دل میں ایمان والوں کی طرف سے کینہ نہ رکھ اے ہمارے رب بیشک تو ہی نہایت مہربان رحم والا ہے (59:10)[470]
قرآن کے مطابق مومنین کو الله تعالی نے کتاب (قرآن) کا وارث بنا دیا جن میں تین طرح کے لوگ ہیں: اول ، اپنے آپ پر ظلم کرنے والے، دوئم میانہ رو اور سوئم (سَابِقٌ بِالْخَيْرَاتِ) نیکیوں میں آگے نکل جانے والے ہیں.[471] یہی اصول صحابہ کرام پر بھی لاگو ہوتا ہے- لیکن ان کے ساتھ اللہ ںے خصوصی معاملہ یہ کیا کہ اسلام کے اولین لوگ ہونے کی وجہ سے ان کی غلطیوں کو معاف کرنے کا وعدہ بھی فرمایا اگر وہ آخری دم تک تک ایمان پر قائم رہیں اپر صالح عمل کرتے رہتے ہیں[472]- شیعہ حضرت ان کی ان غلطیوں کی قرآن سے نشاندہی کر کہ ثابت کرتے ہیں کہ وہ معصوم الخطا نہیں تھے- اس میں کوئی شک نہیں لیکن قرآن میں صحابہ کی فضیلت اور حق میں بھی آیات ہیں، احادیث بھی- جب الله تعالی ںے ان سے بخشش کا مشروط وعدہ فرمایا تو پھر معامله الله تعالی کے سپرد ہو جاتا ہے کہ وہ بروز قیامت کیا فیصلہ کرتا ہے- جب قرآن میں اللہ فرماتا ہے کہ دلوں سے کدورت نکلنے کے بعد مومنین جنت میں داخل ہوں گے اور حدیث کے مطابق اہم صحابہ کے نام بھی لیے کہ وہ بھائی بھائی بن کے رہیں گے جسے حضرت علی (رضی الله) اور دو شیعہ امام بھی کنفرم کرتے ہیں تو یہ معامله ، نفرت ختم ہونا چاہیے- کسی کو ان کی ظاہری حالت پر مزید حتمی فیصلہ کا کوئی اختیار نہیں، الله تعالی کا کوئی شریک نہیں-
فضائل اصحاب رسول اللہ ﷺ کے متعلق قرآن کی آیات
لَقَدْ رَضِیَ اللّٰہُ عَنِ الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ یُبَایِعُوْنَکَ تَحْتَ الشَّجَرَۃِ فَعَلِمَ مَا فِیْ قُلُوْبِہِمْ فَاَنْزَلَ السَّکِیْنَۃَ عَلَیْْہِمْ وَاَثَابَہُمْ فَتْحًا قَرِیْبًا O وَمَغَانِمَ کَثِیْرَۃً یَّاْخُذُوْنَہَا ط وَکَانَ اللّٰہُ عَزِیْزًا حَکِیْمًا (قرآن 48:18)[473]
"اللہ خوش ہوا ایمان والوں سے جب بیعت کرنے لگے تجھ سے اس درخت کے نیچے، پھر معلوم کیا جو اُن کے جِی میں تھا، پھر اتارا ان پر اطمینان اور انعام دیا ان کو ایک فتح نزدیک اور بہت غنیمتیں جن کو وہ لیں گے، اور ہے اللہ زبردست حکمت والا۔(قرآن 48:18)
لِلْفُقَرآئِ الْمُہٰجِرِیْنَ الَّذِیْنَ اُخْرِجُوْا مِنْ دِیَارِہِمْ وَاَمْوَالِہِمْ یَبْتَغُوْنَ فَضْلًا مِّنَ اللّٰہِ وَرِضْوَانًا وَّیَنْصُرُوْنَ اللّٰہَ وَرَسُوْلَہٗ ط اُولٰٓئِکَ ہُمُ الصّٰدِقُوْنَO وَالَّذِیْنَ تَبَوَّؤُالدَّارَ وَالْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِہِمْ یُحِبُّوْنَ مَنْ ہَاجَرَ اِلَیْْہِمْ وَلَا یَجِدُوْنَ فِیْ صُدُوْرِہِمْ حَاجَۃً مِّمَّا اُوْتُوْا وَیُؤْثِرُوْنَ عَلٰی اَنْفُسِہِمْ وَلَوْ کَانَ بِہِمْ خَصَاصَۃٌط وَمَنْ یُّوْقَ شُحَّ نَفْسِہٖ فَاُولٰٓئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(قرآن59:8)[474]
واسطے ان مفلسوں وطن چھوڑنے والوں کے جو نکالے ہوئے آئے ہیں اپنے گھروں سے اور اپنے مالوں سے، ڈھونڈتے آئے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی رضامندی، اور مدد کرنے کو اللہ کی اور اس کے رسول کی، وہ لوگ وہی ہیں سچے ۔اور جو لوگ جگہ پکڑ رہے ہیں اس گھر میں اور ایمان میں اُن سے پہلے سے وہ محبت کرتے ہیں اس سے جو وطن چھوڑ کر آئے اُن کے پاس، اور نہیں پاتے اپنے دل میں تنگی اس چیز سے جو مہاجرین کو دی جائے، اور مقدم رکھتے ہیں اُن کو اپنی جان سے اور اگر چہ ہو اپنے اوپر فاقہ، اور جو بچایا گیا اپنے جِی کے لالچ سے تو وہی لوگ ہیں مرا دپانے والے۔(قرآن59:8)[475]
لَقَدْ تَّابَ اللّٰہُ عَلَی النَّبِیِّ وَالْمُہٰجِرِیْنَ وَالْاَنْصَارِ الَّذِیْنَ اتَّبَعُوْہُ فِیْ سَاعَۃِ الْعُسْرَۃِ مِنمْ بَعْدِ مَا کَادَ یَزِیْغُ قُلُوْبُ فَرِیْقٍ مِّنْہُمْ ثُمَّ تَابَ عَلَیْْہِمْط اِنَّہُ بِہِمْ رَئُ وْفٌ رَّحِیْمٌ O وَّعَلَی الثَّلٰـثَۃِ الَّذِیْنَ خُلِّفُوْاط حَتّٰی اِذَا ضَاقَتْ عَلَیْْہِمُ الْاَرْضُ بِمَا رَحُبَتْ وَضَاقَتْ عَلَیْْہِمْ اَنْفُسُہُمْ وَظَنُّوْا اَنْ لاَّ مَلْجَاَ مِنَ اللّٰہِِ اِلاَّ اِلَیْْہِط ثُمَّ تَابَ عَلَیْْہِمْ لِیَتُوْبُوْا ط اِنَّ اللّٰہََ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیْمُ (قرآن 9:117،118)[476]
اللہ مہربان ہوا نبی پر، اور مہاجرین اور انصار پر جو ساتھ رہے نبی کے مشکل کی گھڑی میں بعد اس کے کہ قریب تھا کہ دل پھر جائیں بعضوں کے ان میں سے، پھر مہربان ہوا ان پر، بے شک وہ ان پر مہربان ہے رحم کرنے والا۔ اور ان تین شخصوں پر جن کو پیچھے رکھا تھا، یہاں تک کہ جب تنگ ہوگئی اُن پر زمین باوجود کشادہ ہونے کے اور تنگ ہوگئیں اُن پر اُن کی جانیں اور سمجھ گئے کہ کہیں پناہ نہیں اللہ سے مگر اسی کی طرف ، پھر مہربان ہوا ان پر تاکہ وہ پھر آئیں ،بے شک اللہ ہی ہے مہربان رحم والا۔(قرآن 9:117،118)
مِنَ الْمُؤْمِنِیْنَ رِجَالٌ صَدَقُوْا مَا عَاہَدُوا اللّٰہَ عَلَیْْہِ ج فَمِنْہُمْ مَّنْ قَضٰی نَحْبَہٗ وَمِنْہُمْ مَّنْ یَّنْتَظِرُج وَمَا بَدَّلُوْا تَبْدِیْلاًO لِّیَجْزِیَ اللّٰہُ الصّٰدِقِیْنَ بِصِدْقِہِمْ وَیُعَذِّبَ الْمُنٰـفِقِیْنَ اِنْ شَآئَ اَوْ یَتُوْبَ عَلَیْْہِمْط اِنَّ اللّٰہَ کَانَ غَفُوْرًا رَّحِیْمًا(قرآن 33:23,24)[477]
ایمان والوں میں کتنے مرد ہیں کہ سچ کر دکھلایا جس بات کا عہد کیا تھا اللہ سے، پھر کوئی تو اُن میں پورا کرچکا اپنا ذمہ اور کوئی ہے اُن میں راہ دیکھ رہا، اور بدلا نہیں ایک ذرّہ۔ تاکہ بدلہ دے اللہ سچوں کو ان کے سچ کا، اور عذاب کرے منافقوں پر اگر چاہے، یا توبہ ڈالے اُن کے دل پر، بے شک اللہ ہے بخشنے والا مہربان۔
اَمَّنْ ہُوَ قَانِتٌ اٰنَآئَ الَّیْْلِ سَاجِدًا وَّقَـآئِمًا یَّحْذَرُ الْاٰخِرَۃَ وَیَرْجُوْا رَحْمَۃَ رَبِّہٖ ط قُلْ ہَلْ یَسْتَوِی الَّذِیْنَ یَعْلَمُوْنَ وَالَّذِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَO(قرآن 39:9)[478]
بھلا ایک جو بندگی میں لگا ہوا ہے رات کی گھڑیوں میں سجدے کرتا ہوا اور کھڑا ہوا، خطرہ رکھتا ہے آخرت کا، امید رکھتا ہے اپنے رب کی مہربانی کی، تو کہہ کوئی برابر ہوتے ہیں سمجھ والے اور بے سمجھ؟
کَمَا اَرْسَلْنَا فِیْکُمْ رَسُوْلاً مِّنْکُمْ یَتْلُوْا عَلَیْْکُمْ اٰیٰـتِنَا وَیُزَکِّیْکُمْ وَیُعَلِّمُکُمُ الْکِتٰبَ وَالْحِکْمَۃَ وَیُعَلِّمُکُمْ مَّا لَمْ تَکُوْنُوْا تَعْلَمُوْنَO فَاذْکُرُوْنِیْ اَذْکُرْکُمْ وَاشْکُرُوْا لِیْ وَلاَ تَکْفُرُوْنَO(قرآن 2:151)
جیسا کہ بھیجا ہم نے تم میں ر سول تم ہی میں کا، پڑھتا ہے تمہارے آگے آیتیں ہماری،اور پاک کرتا ہے تم کو ، اور سکھلاتا ہے تم کو کتاب اور اس کے اَسرار، اور سکھاتا ہے تم کو جو تم نہ جانتے تھے۔ سو تم یاد رکھو مجھ کو میں یاد رکھوں تم کو، اور احسان مانو میرا اور ناشکری مت کرو۔
فَبِمَا رَحْمَۃٍ مِّنَ اللّٰہِِ لِنْتَ لَہُمْج وَلَوْ کُنْتَ فَظًّا غَلِیْظَ الْقَلْبِ لَانْفَضُّوْا مِنْ حَوْلِکَ ص فَاعْفُ عَنْہُمْ وَاسْتَغْفِرْ لَہُمْ وَشَاوِرْہُمْ فِی الْاَمْرِج فَاِذَا عَزَمْتَ فَتَوَکَّلْ عَلَی اللّٰہِِ ط اِنَّ اللّٰہََ یُحِبُّ الْمُتَوَکِّلِیْنَ O(قرآن 3:159)
سو کچھ اللہ ہی کی رحمت ہے جوتو نرم دل مل گیا ان کو، اور اگر تو ہوتا تند خو، سخت دل تو متفرق ہوجاتے تیرے پاس سے، سو تو ان کو معاف کر اور ان کے واسطے بخشش مانگ، اور ان سے مشورہ لے کام میں ، پھر جب قصد کرچکا تو اس کام کا تو پھر بھروسہ کر اللہ پر، اللہ کو محبت ہے تو کل والوں سے۔
اِلاَّ تَنْصُرُوْہُ فَقَدْ نَصَرَہُ اللّٰہُُ اِذْ اَخْرَجَہُ الَّذِیْنَ کَفَرُوْا ثَانِیَ اثْنَیْْنِ اِذْ ہُمَا فِی الْغَارِ اِذْ یَقُوْلُ لِصَاحِبِہٖ لاَ تَحْزَنْ اِنَّ اللّٰہََ مَعَنَاج فَاَنْزَلَ اللّٰہُُ سَکِیْنَتَہٗ عَلَیْْہِ وَاَیَّدَہٗ بِجُنُوْدٍ لَّمْ تَرَوْہَا وَجَعَلَ کَلِمَۃَ الَّذِیْنَ کَفَرُوا السُّفْلٰی ط وَکَلِمَۃُ اللّٰہِِ ہِیَ الْعُلْیَاط وَاللّٰہُُ عَزِیْزٌ حَکِیْمٌ (9:40)[479]
اگر تم نہ مدد کروگے رسول کی تو اس کی مدد کی ہے اللہ نے جس وقت اس کو نکالا تھا کافروں نے کہ وہ دوسرا تھا دو میں کا ، جب وہ دونوں تھے غار میں ، جب وہ کہہ رہا تھا اپنے رفیق سے: تو غم نہ کھا ، بے شک اللہ ہمارے ساتھ ہے، پھر اللہ نے اتاردی اپنی طرف سے اس پر تسکین اور اس کی مدد کو وہ فوجیں بھیجیں کہ تم نے نہیں دیکھیں ، اور نیچے ڈالی بات کافروں کی، اور اللہ کی بات ہمیشہ اوپر ہے، اور اللہ زبردست ہے حکمت والا۔(9:40)
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُ وا إِن تَنصُرُوا اللَّهَ يَنصُرْكُمْ وَيُثَبِّتْ أَقْدَامَكُمْ ﴿٧﴾(قرآن 47:7)[480]
ایمان والو اگر تم اللہ کی مدد کرو گے تو اللہ بھی تمہاری مدد کرے گا اور تمہیں ثابت قدم بنادے گا(قرآن 47:7)
مُّحَمَّدٌ رَّسُولُ اللَّهِ ۚ وَالَّذِينَ مَعَهُ أَشِدَّاءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَاءُ بَيْنَهُمْ ۖ تَرَاهُمْ رُكَّعًا سُجَّدًا يَبْتَغُونَ فَضْلًا مِّنَ اللَّهِ وَرِضْوَانًا ۖ سِيمَاهُمْ فِي وُجُوهِهِم مِّنْ أَثَرِ السُّجُودِ ۚ ذَٰلِكَ مَثَلُهُمْ فِي التَّوْرَاةِ ۚ وَمَثَلُهُمْ فِي الْإِنجِيلِ كَزَرْعٍ أَخْرَجَ شَطْأَهُ فَآزَرَهُ فَاسْتَغْلَظَ فَاسْتَوَىٰ عَلَىٰ سُوقِهِ يُعْجِبُ الزُّرَّاعَ لِيَغِيظَ بِهِمُ الْكُفَّارَ ۗ وَعَدَ اللَّهُ الَّذِينَ آمَنُوا وَعَمِلُوا الصَّالِحَاتِ مِنْهُم مَّغْفِرَةً وَأَجْرًا عَظِيمًا ﴿٢٩﴾ (قرآن 48:29)[481]
محمد ( ﷺ ) رسول اللہ کا ،اور جو لوگ اس کے ساتھ ہیں زور آور ہیں کافروں پر ، نرم دل ہیں آپس میں ، تو دیکھے ان کو رکوع میں اور سجدہ میں ڈھونڈتے ہیں اللہ کا فضل اور اس کی خوشی، نشانی ان کی ان کے منہ پر ہے سجدہ کے اثر سے ، یہ شان ہے ان کی تو رات میں اور مثال ان کی انجیل میں ، جیسے کھیتی نے نکالا اپنا پٹھا، پھر اس کی کمر مضبوط کی، پھر موٹا ہوا، پھر کھڑا ہوگیا اپنی نال پر ،خوش لگتا ہے کھیتی والوں کو تاکہ جلائے ان سے جِی کافروں کا۔ وعدہ کیا ہے اللہ نے اُن سے جو یقین لائے ہیں اور کیے ہیں بھلے کام معافی اور بڑے ثواب کا۔(قرآن 48:29)
اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَہٗ مَکْتُوْبًا عِندَہُمْ فِی التَّوْرٰۃِ وَالْاِنْجِیْلِز یَأْمُرُہُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْہٰـہُمْ عَنِ الْمُنکَرِ وَیُحِلُّ لَہُمُ الطَّیِّبٰتِ وَیُحَرِّمُ عَلَیْْہِمُ الْخَبٰٓئِثَ وَیَضَعُ عَنْہُمْ اِصْرَہُمْ وَالْاَغْلٰلَ الَّتِیْ کَانَتْ عَلَیْْہِمْط فَالَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِہٖ وَعَزَّرُوْہُ وَنَصَرُوْہُ وَاتَّبَعُوا النُّوْرَ الَّذِیْ اُنْزِلَ مَعَہٗ اُولٰٓـئِکَ ہُمُ الْمُفْلِحُوْنَ(قرآن 7:157)[482]
وہ لوگ جو پیروی کرتے ہیں اس رسول کی جو نبی اُمی ہے، کہ جس کو پاتے ہیں لکھا ہوا اپنے پاس تو رات اور انجیل میں ، وہ حکم کرتا ہے اُن کو نیک کام کا اور منع کرتا ہے برے کام سے، اور حلال کرتا ہے اُن کے لیے سب پاک چیزیں ،اور حرام کرتا ہے ان پر ناپاک چیزیں ،اور اُتارتا ہے ان پر سے ان کے بوجھ اور وہ قیدیں جو اُن پر تھیں ، سو جو لوگ اس پر ایمان لائے اور اس کی رفاقت کی اور اس کی مدد کی اور تابع ہوئے اس نور کے جو اس کے ساتھ اُترا ہے، وہی لوگ پہنچے اپنی مراد کو۔(قرآن 7:157)
صحابہ کرام کی بشری کمزوریاں
صحابہ کرام انسان تھے اور بشری کمزوریوں سے مستسنی نہ تھے، لیکن الله تعالی ںےان سے بشرط ایمان و عمل صالح احسان سے بخشش کا وعدہ بھی فرمایا. ان کمزوریوں کی بنیاد پیر ان پر تبرا بازی کوئی احسن عمل نہیں جبکہ الله تعالی ۓ ان کو معاف بھی فرمایا- خلیفه راشد، امیرالمومنین حضرت علی (رضی الله) اجنہیں شیعہ اپنا امام اول (ع) قرار دیتے ہیں انہوں ںے بھی دعا کا فرمایا، جس کی بار بار یادہانی ان سے محبت کرنے کے دعوی داروں کے لیے ضروری ہے:
فرمان امام علیؑ
"میں تمہارے لئے اس بات کو نا پسند کرتا ہوں کہ تم گالیاں دینے والے ہو جائو۔ بہترین بات یہ ہے کہ تم ان کے اعمال اورحالات کا تذکرہ کرو تاکہ بات بھی صحیح رہے اورحجت بھی تمام ہو جائے اور پھر گالیاں دینے کے بجائے یہ دعا کرو کہ؛
یا اللہ! ہم سب کے خونوں کومفحوظ کردے اور ہمارے معاملات کی اصلاح کردے اور انہیں گمراہی سے ہدایت کےراستہ پر لگادے تاکہ ناواقف لوگ حق سے با خبر ہو جائیں اور حرف باطل کہنے والے اپنی گمراہی اور سرکشی سے بازآجائیں" [نہج البلاغہ خطبہ : ٢٠٦][483]
شیعه اشتباهات
شیعہ حضرات اپنے نقطۂ نظر اور عقائد کی سپورٹ میں بہت دلائل قرآن، احادیث اور تاریخ سے دیتے ہیں مگر بہت سے اہم نقاط نظر انداز کرتے ہیں جو"شیعه اشتباهات" کی اصل وجہ ہے- یہ ان کی توجہ ان اہم نقاط جو قرآن، شیعہ کتب اور تاریخ میں موجود ہیں کی طرف مبذول کرانے کی ایک کوشش (حصہ سوئم ) تاکہ "شیعه اشتباهات" کا خاتمہ، کمی ہو سکے- (تفصیل : شیعه اشتباهات )[484]
ملاحضہ کریں :عدالتِ صحابہ اور امام ابن تیمیہؒ
پیغمبرﷺ کے حکم کی نافرمانی کرنے والے
وَ لَقَدْ صَدَقَكُمُ اللَّهُ وَعْدَهُ إِذْ تَحُسُّونَهُمْ بِإِذْنِهِ حَتَّى إِذا فَشِلْتُمْ وَ تَنازَعْتُمْ فِي الْأَمْرِ وَ عَصَيْتُمْ،
اور بے شک اللہ نے تم سے جو وعدہ کیا تھا وہ پورا کیا جب تم اللہ کے حکم سے کفار کو قتل کر رہے تھے یہاں تک کہ تم خود کمزور پڑ گئے اور امر (رسول) میں تم نے باہم اختلاف کیا اور اس کی نافرمانی کی (3:102)
جیساکہ ملاحظہ کیا جاسکتا ہے کہ اس آیت میں اللہ نے جنگ احد کے سپاہیوں سے گناہ اور خطا کی نسبت دی ہے، اس کے باوجود کیا ہم صحابہ کی تعریف میں کہہ سکتے ہیں کہ جس کسی نے بھی پیغمبرﷺ کو دیکھا ہو اگرچہ قلیل مدت کے لیے ہی کیوں نہ ہو وہ جرح و تعدیل سے بالاتر ہے اور کسی کو ان کی عدالت کو شک کی نگاہ سے دیکھنے کا حق نہیں ہے؟
آپ ان کے مالوں میں سے صدقہ لے لیجئے، جس کے ذریعہ سے آپ ان کو پاک صاف کردیں اور ان کے لیے دعا کیجئے، بلاشبہ آپ کی دعا ان کے لیے موجب اطمینان ہے اور اللہ تعالیٰ خوب سنتا ہے خوب جانتا ہے (103) کیا ان کو یہ خبر نہیں کہ اللہ ہی اپنے بندوں کی توبہ قبول کرتا ہے اور وہی صدقات کو قبول فرماتا ہے اور یہ کہ اللہ ہی توبہ قبول کرنے میں اور رحمت کرنے میں کامل ہے (3:104)
اعمال پر فیصلہ والے
کہہ دیجئے کہ تم عمل کیے جاؤ تمہارے عمل اللہ خود دیکھ لے گا اور اس کا رسول اور ایمان والے (بھی دیکھ لیں گے) اور ضرور تم کو ایسے کے پاس جانا ہے جو تمام چھپی اور کھلی چیزوں کا جاننے واﻻ ہے۔ سو وه تم کو تمہارا سب کیا ہوا بتلا دے گا (قرآن 9:105)
فیصلہ ملتوی والے
اور کچھ اور لوگ ہیں جن کا معاملہ اللہ کے حکم آنے تک ملتوی ہے ان کو سزا دے گا یا ان کی توبہ قبول کرلے گا، اور اللہ خوب جاننے واﻻ ہے بڑا حکمت واﻻ ہے (قرآن 9:106)
ان گروہ اور اصناف کوقرآن میں بیان کرنے سے معلوم ہوتا ہے کہ تمام صحابہ کو ایک معیار سے دیکھنا اور سب کو جرح و تعدیل سے بالاتر سمجھنا درست نہیں ہے۔
جنگ سے فراری:
قرآن اس بارے میں، جنگ حنین میں مسلمانوں کے فرار کی جانب اشارہ کرتا ہے اور فرماتا ہے:
وَ ضاقَتْ عَلَيْكُمُ الْأَرْضُ بِما رَحُبَتْ ثُمَّ وَلَّيْتُمْ مُدْبِرينَ، (9:25)
اور زمین [485]اپنی وسعتوں کے باوجود تم پر تنگ ہو گئی پھر تم پیٹھ پھیر کر بھاگ کھڑے ہوئے
رمضان کے مہینے میں خیانت
قرآن اس بارے میں بعض صحابہ کے خیانت کی جانب اشارہ کرتا ہے کہ وہ شب ماہ رمضان میں بعض محرمات کے مرتکب ہوئے تھے اللہ نے اسے ظاہر کیا اور فرمایا:
عَلِمَ اللَّهُ أَنَّكُمْ كُنتُمْ تخَتَانُونَ أَنفُسَكُمْ ،
اللہ نے دیکھا کہ تم اپنے آپ سے خیانت کر رہے تھے( 2:187)
تمہاری پوشیدہ خیانتوں کا اللہ تعالٰی کو علم ہے اس نے تمہاری توبہ قبول فرما کر تم سے درگزر فرمالیا
جنگ احد میں دنیا طلبی
اس بارے میں قرآن نے بعض صحابہ کے دنیاطلبی کے موضوع کو بیان فرمایاہے:
وَ لَقَدۡ صَدَقَکُمُ اللّٰہُ وَعۡدَہٗۤ اِذۡ تَحُسُّوۡنَہُمۡ بِاِذۡنِہٖ ۚ حَتّٰۤی اِذَا فَشِلۡتُمۡ وَ تَنَازَعۡتُمۡ فِی الۡاَمۡرِ وَ عَصَیۡتُمۡ مِّنۡۢ بَعۡدِ مَاۤ اَرٰىکُمۡ مَّا تُحِبُّوۡنَ ؕ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الدُّنۡیَا وَ مِنۡکُمۡ مَّنۡ یُّرِیۡدُ الۡاٰخِرَۃَ ۚ ثُمَّ صَرَفَکُمۡ عَنۡہُمۡ لِیَبۡتَلِیَکُمۡ ۚ وَ لَقَدۡ عَفَا عَنۡکُمۡ ؕ وَ اللّٰہُ ذُوۡ فَضۡلٍ عَلَی الۡمُؤۡمِنِیۡنَ ﴿۱۵۲﴾
اللہ تعالٰی نے تم سے اپنا وعدہ سچّا کر دکھایا جبکہ تم اس کے حکم سے انہیں کاٹ رہے تھے یہاں تک کہ جب تم نے پست ہمّتی اختیار کی اور کام میں جھگڑنے لگے اور نافرمانی کی ، اس کے بعد کہ اس نے تمہاری چاہت کی چیز تمہیں دکھا دی ، تم میں سے بعض دنیا چاہتے تھے اور بعض کا ارادہ آخرت کا تھا تو پھر اس نے تمہیں ان سے پھیر دیا تاکہ تم کو آزمائے اور یقیناً اس نے تمہاری لغزِش سے درگُزر فرمادیا اور ایمان والوں پر اللہ تعالٰی بڑے فضل والا ہے ۔ (3:152)
پیغمبر کو جمعہ کا خطبہ پڑھتے ہوئے اکیلے چھوڑنا:
وَ اِذَا رَاَوۡا تِجَارَۃً اَوۡ لَہۡوَۨا انۡفَضُّوۡۤا اِلَیۡہَا وَ تَرَکُوۡکَ قَآئِمًا ؕ قُلۡ مَا عِنۡدَ اللّٰہِ خَیۡرٌ مِّنَ اللَّہۡوِ وَ مِنَ التِّجَارَۃِ ؕ وَ اللّٰہُ خَیۡرُ الرّٰزِقِیۡنَ (6:11)[486]
اور جب کوئی سودا بکتا دیکھیں یا کوئی تماشا نظر آجائے تو اس کی طرف دوڑ جاتے ہیں اور آپ کو کھڑا ہی چھوڑ دیتے ہیں آپ کہہ دیجئے کہ اللہ کے پاس جو ہے وہ کھیل اور تجارت سے بہتر ہے اور اللہ تعالٰی بہترین روزی رساں ہے (6:11)
قلبی اور زبانی تضاد:
سَیَقُوۡلُ لَکَ الۡمُخَلَّفُوۡنَ مِنَ الۡاَعۡرَابِ شَغَلَتۡنَاۤ اَمۡوَالُنَا وَ اَہۡلُوۡنَا فَاسۡتَغۡفِرۡ لَنَا ۚ یَقُوۡلُوۡنَ بِاَلۡسِنَتِہِمۡ مَّا لَیۡسَ فِیۡ قُلُوۡبِہِمۡ ؕ قُلۡ فَمَنۡ یَّمۡلِکُ لَکُمۡ مِّنَ اللّٰہِ شَیۡئًا اِنۡ اَرَادَ بِکُمۡ ضَرًّا اَوۡ اَرَادَ بِکُمۡ نَفۡعًا ؕ بَلۡ کَانَ اللّٰہُ بِمَا تَعۡمَلُوۡنَ خَبِیۡرًا ﴿۱۱﴾
د یہاتیوں میں سے جو لوگ پیچھے چھوڑ دیئے گئے تھے وہ اب تجھ سے کہیں گے کہ ہم اپنے مال اور بال بچوں میں لگے رہ گئے پس آپ ہمارے لئے مغفرت طلب کیجئے یہ لوگ اپنی زبانوں سے وہ کہتے ہیں جو ان کے دلوں میں نہیں ہے ، آپ جواب دے دیجئے کہ تمہارے لئے اللہ کی طرف سے کسی چیز کا بھی اختیار کون رکھتا ہے اگر وہ تمہیں نقصان پہنچانا چاہے تو یا تمہیں کوئی نفع دینا چاہے تو بلکہ تم جو کچھ کر رہے ہو اس سے اللہ خوب باخبر ہے ۔ (48:11)[487]
گفتار اور کردار میں تضاد:
یٰۤاَیُّہَا الَّذِیۡنَ اٰمَنُوۡا لِمَ تَقُوۡلُوۡنَ مَا لَا تَفۡعَلُوۡنَ ﴿۲﴾
اے ایمان والو! تم وہ بات کیوں کہتے ہو جو کرتے نہیں ۔ (61:2)[488]
اسلام لانے کے لیے احسان جتنا
یَمُنُّوۡنَ عَلَیۡکَ اَنۡ اَسۡلَمُوۡا ؕ قُلۡ لَّا تَمُنُّوۡا عَلَیَّ اِسۡلَامَکُمۡ ۚ بَلِ اللّٰہُ یَمُنُّ عَلَیۡکُمۡ اَنۡ ہَدٰىکُمۡ لِلۡاِیۡمَانِ اِنۡ کُنۡتُمۡ صٰدِقِیۡنَ ﴿۱۷﴾
اپنے مسلمان ہونے کا آپ پر احسان جتاتے ہیں ۔ آپ کہہ دیجئے کہ اپنے مسلمان ہونے کا احسان مجھ پر نہ رکھو ، بلکہ دراصل اللہ کا تم پر احسان ہے کہ اس نے تمہیں ایمان کی ہدایت کی اگر تم راست گو ہو ۔(49:17)[489]
نماز میں خوبصورت عورت پر نظر
وَ لَقَدۡ عَلِمۡنَا الۡمُسۡتَقۡدِمِیۡنَ مِنۡکُمۡ وَ لَقَدۡ عَلِمۡنَا الۡمُسۡتَاۡخِرِیۡنَ ﴿۲۴﴾
اور تم میں سے آگے بڑھنے والے اور پیچھے ہٹنے والے بھی ہمارے علم میں ہیں ۔(15:24)[490]
مستقدمین وہ لوگ ہیں جو نماز کی صفوف یا جہاد کی صفوف اور دوسرے نیک کاموں میں آگے رہنے والے ہیں اور مستاخرین وہ جو ان چیزوں میں پچھلی صفوں میں رہنے والے اور دیر کرنے والے ہیں حسن بصری، سعید بن مسیب، قرطبی، شعبی وغیرہ ائمہ تفسیر کی یہ تفسیر ہے- (معرف القرآن)
شان نزول : (آیت) ” ولقد علمنا المستقدمین “۔ (الخ) امام ترمذی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ، نسائی رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ اور حاکم رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ وغیرہ نے حضرت ابن عباس (رض) سے روایت کیا ہے کہ تمام لوگوں میں ایک سب سے زیادہ خوبصورت عورت حسناء رسول اکرم (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے پیچھے نماز پڑھا کرتی تھی تو کچھ لوگ آگے بڑے کر پہلی صف میں کھڑے ہوا کرتے تھے تاکہ اس عورت پر نظر نہ پڑے اور کچھ لوگ پیچھے ہٹ کر پچھلی صف میں کھڑے ہوا کرتے تھے تاکہ اپنی بغلوں کے درمیان سے اس کو دیکھ سکیں اس پر اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ہم تمہارے اگلوں کو بھی جانتے ہیں اور ہم تمہارے پچھلوں کو بھی جانتے ہیں، اور ابن مردویہ نے داؤد بن صالح سے روایت کیا ہے کہ انہوں نے سہل بن حنیف انصاری سے آیت کے بارے میں دریافت کیا کہ کیا یہ آیت جہاد فی سبیل اللہ کے بارے میں نازل ہوئی ہے انہوں نے کہا نہیں بلکہ نمازوں کی صفوں کے بارے میں نازل ہوئی ہے (تفسیر ابن عبّاس )،[491]،[492]
مرتد اور اسلام کو واپسی (عبداللہ بن ابی سرح )
وَ مَنۡ اَظۡلَمُ مِمَّنِ افۡتَرٰی عَلَی اللّٰہِ کَذِبًا اَوۡ قَالَ اُوۡحِیَ اِلَیَّ وَ لَمۡ یُوۡحَ اِلَیۡہِ شَیۡءٌ وَّ مَنۡ قَالَ سَاُنۡزِلُ مِثۡلَ مَاۤ اَنۡزَلَ اللّٰہُ ؕ وَ لَوۡ تَرٰۤی اِذِ الظّٰلِمُوۡنَ فِیۡ غَمَرٰتِ الۡمَوۡتِ وَ الۡمَلٰٓئِکَۃُ بَاسِطُوۡۤا اَیۡدِیۡہِمۡ ۚ اَخۡرِجُوۡۤا اَنۡفُسَکُمۡ ؕ اَلۡیَوۡمَ تُجۡزَوۡنَ عَذَابَ الۡہُوۡنِ بِمَا کُنۡتُمۡ تَقُوۡلُوۡنَ عَلَی اللّٰہِ غَیۡرَ الۡحَقِّ وَ کُنۡتُمۡ عَنۡ اٰیٰتِہٖ تَسۡتَکۡبِرُوۡنَ ﴿۹۳﴾
اور اس شخص سے زیادہ کون ظالم ہوگا جو اللہ تعالٰی پر جھوٹ تہمت لگائے یا یوں کہے کہ مجھ پر وحی آتی ہے حالانکہ اس کے پاس کسی بات کی بھی وحی نہیں آئی اور جو شخص یوں کہے کہ جیسا کلام اللہ نے نازل کیا ہے اسی طرح کا میں بھی لاتا ہوں اور اگر آپ اس وقت دیکھیں جب کہ یہ ظالم لوگ موت کی سختیوں میں ہونگے اور فرشتے اپنے ہاتھ بڑھا رہے ہونگے کہ ہاں اپنی جانیں نکالو ، آج تم کو ذلت کی سزا دی جائے گی اس سبب سے کہ تم اللہ تعالٰی کے ذمہ جھوٹی باتیں لگاتے تھے اور تم اللہ تعالٰی کی آیات سے تکبر کرتے تھے ۔ (6:93)[493]
ابن جریر (رح) نے عکرمہ (رح) سے روایت کی ہے کہ یہ آیت مسیلمہ کذاب (جھوٹے نبی) کے بارے میں نازل ہوئی ہے اور (آیت) ” ومن قال سانزل مثل ما انزل اللہ “۔ (الخ) یہ "عبداللہ بن سعد بن ابی سرح" کے بارے میں نازل ہوئی ہے ، نیز سدی سے بھی اسی طرح روایت نقل کی ہے البتہ اس میں اتنا اضافہ ہے کہ وہ کہتا تھا کہ اگر محمدﷺ کے پاس وحی آتی ہے، تو میرے پاس بھی وحی آتی ہے اور اگر اللہ تعالیٰ آپ پر کتاب نازل کرتا ہے تو میرے پاس بھی ویسی ہی کتاب نازل ہوتی ہے-
حضرت مصعب بن سعد اپنے والد محترم (حضرت سعد رضی اللہ تعالٰی عنہ ) سے بیان فرماتے ہیں: جس دن مکہ مکرمہ فتح ہوا، رسول اللہﷺ نے چار مردوں اور دو عورتوں کے سوا تمام لوگوں کو امان دے دی۔ آپ نے فرمایا: ’’اگر تم ان کو کعبہ شریف کے پردوں سے لٹکا وہا پائو، تب بھی قتل کر دو۔‘‘ (وہ چار مرد یہ تھے:) عکرمہ بن ابی جہل، عبداللہ بن خطل، مقیس بن صبابہ اور عبداللہ بن سعد بن ابی سرح۔ .........
عبداللہ بن ابی سرح، حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ کے پاس چھپ گیا۔ جب رسول اللہﷺ نے لوگوں کو بیعت کے لیے بلایا تو حضرت عثمان اسے لے کر آئے حتیٰ کہ اسے بالکل آپ کے پاس کھڑا کر دیا اور عرض کی: اے اللہ کے رسول! عبداللہ سے بیعت لے لیں۔ آپ سر اٹھا کر اسے دیکھنے لگے۔ تین بار حضرت عثمان رضی اللہ تعالٰی عنہ نے یہی گزارش کی۔ آپ ہر دفعہ (عملاً) انکار فرما رہے تھے۔ آخر تیسری بار کے بعد آپ نے بیعت لے لی، پھر آپ اپنے صحابہ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا: ’’کیا تم میں کوئی سمجھ دار شخص نہیں تھا کہ جب تم دیکھ رہے تھے کہ میں نے اس کی بیعت لینے سے ہاتھ روک رکھا ہے تو کوئی شخص اٹھتا اور اسے قتل کر دیتا۔‘‘ انہوں نے عرض کی: اے اللہ کے رسول! ہمیں معلوم نہ تھا کہ آپ کے دل میں کیا ہے؟ آپ آنکھ سے ہلکا سا اشارہ فرما دیتے۔ آپ نے فرمایا: ’’نبی کے لائق نہیں کہ اس کی آنکھ خائن ہو۔‘‘ [تشریح: ثابت ہوا مرتد توبہ کرے اور اسلام قبول کرنے کا اعلان کرے تو اس کی سزا کی معافی حاکم وقت کا اختیار ہے]۔ [سنن نسائی صحيح حدیث نمبر: 4072][494]
"عبداللہ بن سعد بن ابی سرح" صحابی رسول اور کاتب وحی تھے۔ یہ حضرت عثمان غنی (رضی الله) کے رضاعی بھائی ہیں، فتحِ مکہ سے پہلے ہی ایمان قبول کیا اور ہجرت کی، پھر شیطان کے بہکاوے میں آکر مرتد ہو گئے اور مشرکینِ مکہ سے جا ملے- رسول اللہ ﷺ نے اس کے خون کو مباح فرمایا تھا مگرفتحِ مکہ کے دن حضرت عثمان غنی (رضی الله) کی سفارش پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو امان دیا، پھر انہوں نے اسلام قبول کر لیا اور بہت پختہ مسلمان رہے، اسلام ہی پر ان کا خاتمہ ہوا[495]
ارتداد سے پہلے دربارِ رسالت مآب صلی اللہ علیہ وسلم میں کتابت کا بھی موقع نصیب ہوا، اہلِ تاریخ و سیر کا اس پر اتفاق ہے۔[496]. حضرت عثمان غنی (رضی الله) ۓ ان کو مصر میں عثمان کا گورنرمقرر کیا- مصر کی گورنری کے دوران میں (646ء تا 656ء)، ابن سعد نے مصری عرب بحریہ کی بنیاد رکھی۔ ان کی سپاہ سالاری میں مسلم بحریہ نے کئی فتوحات سمیٹیں جن میں 655ء میں بازنطینی حکمران قسطن ثانی سے پہلی بڑی بحری جنگ جنگ مستول بھی شامل ہے۔ ان کے عہد گورنری میں ایک اور اہم فتح 647ء میں تریپولی/طرابلس کی فتح بھی تھی، جس سے موجودہ لیبیا کا علاقہ اسلامی سلطنت کا حصہ بن گیا۔
سب سے زیادہ ظالم
آیت قرآن (6:93)[497] میں سب سے بڑے ظالموں کی تین اقسام بیان فرمائیں:
1) ایک وہ جس نے کوئی بات تو خود تراشی ہو اور اللہ کے ذمے لگا دے کہ یہ اللہ کا حکم ہے۔ اس میں وہ تمام لوگ شامل ہیں جو شرک و بدعات کی مختلف اقسام کو ایجاد تو خود کرتے ہیں پھر انہیں شریعت سے ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ اور اس طرح ان رسوم و بدعات پر مذہبی تقدس کا خول چڑھا دیتے ہیں اس میں وہ لوگ بھی شامل ہیں جو اللہ کی آیات کا غلط مطلب نکال کر اور ان کی غلط تاویل کر کے غلط سلط فتوے دیتے ہیں اور اس کے عوض عارضی فوائد حاصل کرتے ہیں۔
2) دوسرے وہ جھوٹے نبی جنہوں نے آپ کے بعد اپنی نبوت کا دعویٰ کیا ہے یا کریں گے حالانکہ آپ خاتم النبیین ہیں جیسے مسیلمہ کذاب، اسود عنسی، سجاح بنت حارث اور مرزا غلام احمد قادیانی اور ایسے ہی دوسرے لوگ اور آپ نے فرمایا ہے کہ میرے بعد تیس کے لگ بھگ ایسے کذاب اور دجال پیدا ہوں گے جو اپنی نبوت کا دعویٰ کریں گے (مسلم۔ کتاب الفتن۔ باب قولہ ان بین یدی الساعۃ کذابین قریبا من ثلاثین)
3) تیسرے وہ لوگ جو یہ دعویٰ کریں کہ ہم بھی قرآن جیسی چیز بنا سکتے ہیں۔ جیسا کہ ایک دفعہ کفار مکہ نے بھی کہا تھا کہ (لَوْ نَشَاۗءُ لَقُلْنَا مِثْلَ هٰذَآ 31) 8 ۔ الانفال :31) حالانکہ جب قرآن نے ان کو ایسی ایک ہی سورت بنا لانے کا چیلنج کیا تو وہ اپنی بھرپور اور اجتماعی کوششوں کے باوجود اس کی نظیر لانے پر قادر نہ ہو سکے تھے۔
مندرجہ بالا اقسام کے ظالم اس لحاظ سے سب سے بڑھ کر ظالم ہیں کہ انہوں نے براہ راست اللہ پر الزام لگائے (تفسیر، عبدالرحمن کیلانی )
بخیل
وَ مِنۡہُمۡ مَّنۡ عٰہَدَ اللّٰہَ لَئِنۡ اٰتٰىنَا مِنۡ فَضۡلِہٖ لَنَصَّدَّقَنَّ وَ لَنَکُوۡنَنَّ مِنَ الصّٰلِحِیۡنَ ﴿۷۵﴾ فَلَمَّاۤ اٰتٰہُمۡ مِّنۡ فَضۡلِہٖ بَخِلُوۡا بِہٖ وَ تَوَلَّوۡا وَّ ہُمۡ مُّعۡرِضُوۡنَ ﴿۷۶﴾
ان میں وہ بھی ہیں جنہوں نے اللہ سے عہد کیا تھا کہ اگر ہمیں اپنے فضل سے مال دے گا تو ہم ضرور صدقہ و خیرات کریں گے اور پکی طرح نیکوکاروں میں ہوجائیں گے- لیکن جب اللہ نے اپنے فضل سے انہیں دیا تو یہ اس میں بخیلی کرنے لگے اور ٹال مٹول کر کے منہ موڑ لیا (9:75,76)[498]
یہ آیت ثعلبہ بن حاطب کے بارے میں نازل ہوئی جو ہمیشہ، پیغمبرﷺ کی جماعت میں حاضر ہوتا تھا، لیکن اصرار کر کے رسول اللہ ﷺ سے درخواست کی کہ اللہ اسے بہت سارا مال عطا کرے، جب اللہ نے اسے بہت زیادہ مال عطا کیا تو اس نے سب کچھ بھلا دیا یہاں تک کہ زکات دینے سے بھی انکار کیا ۔
بہانہ سازی سے جہاد میں شمولیت سے فرار
غزوہ تبوک میں شرکت نہ کرنے والے تین افراد سے مسلمانوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم پران سے قطع تعلق کیا تھا اور یہ آیت نازل ہوئی:
وَّ عَلَی الثَّلٰثَۃِ الَّذِیۡنَ خُلِّفُوۡا ؕ حَتّٰۤی اِذَا ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمُ الۡاَرۡضُ بِمَا رَحُبَتۡ وَ ضَاقَتۡ عَلَیۡہِمۡ اَنۡفُسُہُمۡ وَ ظَنُّوۡۤا اَنۡ لَّا مَلۡجَاَ مِنَ اللّٰہِ اِلَّاۤ اِلَیۡہِ ؕ ثُمَّ تَابَ عَلَیۡہِمۡ لِیَتُوۡبُوۡا ؕ اِنَّ اللّٰہَ ہُوَ التَّوَّابُ الرَّحِیۡمُ ﴿۱۱۸﴾.
اور تین شخصوں کے حال پر بھی جن کا معاملہ ملتوی چھوڑ دیا گیا تھا یہاں تک کہ جب زمین باوجود اپنی فراخی کے ان پر تنگ ہونے لگی اور وہ خود اپنی جان سے تنگ آگئے اور انہوں نے سمجھ لیا کہ اللہ سے کہیں پناہ نہیں مل سکتی بجز اس کے کہ اسی کی طرف رجوع کیا جائے پھر ان کے حال پر توجہ فرمائی تاکہ وہ آئندہ بھی توبہ کر سکیں بیشک اللہ تعالٰی بہت توبہ قبول کرنے والا بڑا رحم والا ہے- (9:118)[499]
ترک جہاد کے لیے بہانہ بازی :
قرآن اس بارے میں ہجرت کے نویں سال میں پیش آئی جنگ تبوک، کی جانب اشارہ کرکے فرماتا ہے
وَ إِذْ قالَتْ طائِفَةٌ مِنْهُمْ يا أَهْلَ يَثْرِبَ لا مُقامَ لَكُمْ فَارْجِعُوا وَ يَسْتَأْذِنُ فَريقٌ مِنْهُمُ النَّبِيَّ يَقُولُونَ إِنَّ بُيُوتَنا عَوْرَةٌ وَ ما هِيَ بِعَوْرَةٍ إِنْ يُريدُونَ إِلاَّ فِراراً ..
اور ان میں سے ایک گروہ نبی سے اجازت طلب کر رہا تھا یہ کہتے ہوئے: ہمارے گھر کھلے پڑے ہیں حالانکہ وہ کھلے نہیں تھے، وہ صرف بھاگنا چاہتے تھے ( 33:13)
یہ ان آیات کا صرف ایک حصہ ہے جو صحابہ کے بارے میں نازل ہوئی ہیں۔ اگر کسی اور موضوع کے بارے میں صرف ایک خاص آیت نازل ہوتی تو عام کی عمومیت کو خاص کرنے کے لیے کافی تھا لیکن چونکہ موضوع صحابہ ہے لہذا کچھ لوگوں کی نگاہ میں (رضی اللہ عنھم) کی عمومیت باقی ہے۔
ملاحضہ کریں :عدالتِ صحابہ اور امام ابن تیمیہؒ
روایت / تاریخی سے منقول غلطیاں
حضرت علی (رضی الله) کی توہین کرنا
سیدنا سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیدنا معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے سیدنا سعد رضی اللہ عنہ کو امیر کیا تو کہا: تم کیوں برا نہیں کہتے ابوتراب [علی بن ابو طالب (رضی الله)] کو؟
سیدنا سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں تین باتوں کی وجہ سے، جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمائیں سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا نہیں کہوں گا، اگر ان باتوں میں سے ایک بھی مجھ کو حاصل ہو تو وہ مجھے لال اونٹوں سے زیادہ پسند ہے....“[500] [صحیح مسلم حدیث نمبر: 6220]
حجر بن عدی (رضی الله) اور ان کے ساتھیوں کا قتل
حضرت حجر بن عدی حضرت علیؑ کے فدائیوں میں سے تھے۔ جب امیر معاویہ نے اپنے عہد اقتدار میں قاتلان عثمان پر سب و شتم کی بنیاد رکھی اور تمام صوبوں کے والیوں اور اعمال حکومت کو حکم دیا کہ وہ بھی جمعہ کے خطبہ میں قا تلان عثمان کو برسر منبر برا بھلا کہیں- امیر معاویہ نے حضرت علی کو برسر منبر برا بھلا کہنے کا حکم دیا۔۔ حضرت علی کو برا بھلا کہنے کی روایت حضرت عمر بن عبد العزیز نے ختم کروائی۔ اس بنا پر حجر بن عدی میں امیر معاویہ اور ان کے ساتھیوں کو برا بھلا کہنا شروع کر دیا۔ زیاد نے کوفہ کی امارت کے زمانہ میں حجر بن عدی اور ان کے چند ساتھیوں کو قتل کرا دیا۔ حجر بن عدی بڑے مرتبہ کے صحابی تھے۔ آپ کے قتل نے دنیائے اسلام پر بہت برا اثر چھوڑا۔[501]
نشہ کرنا
ہم سے سلیمان بن حرب نے بیان کیا، کہا ہم سے وہیب بن خالد نے بیان کیا، ان سے ایوب نے، ان سے عبداللہ بن ابی ملکہ نے اور ان سے عقبہ بن حارث ؓ نے کہ نبی کریم ﷺ کے پاس نعیمان یا ابن نعیمان کو لایا گیا، وہ نشہ میں تھا۔ نبی کریم ﷺ پر یہ ناگوار گزرا اور آپ نے گھر میں موجود لوگوں کو حکم دیا کہ انہیں ماریں۔ چناچہ لوگوں نے انہیں لکڑی اور جوتوں سے مارا اور میں بھی ان لوگوں میں تھا جنہوں نے اسے مارا تھا۔( البخاری، حدیث نمبر 6775[502])
حضرت عباس رضی اللہ عنہ کے حضرت علی رضی اللہ عنہ پر الزامات
سیدنا عباس رضی اللہ عنہ نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں فرمایا :
فَقَالَ عَبَّاسٌ يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ اقْضِ بَيْنِي وَبَيْنَ هَذَا الْکَاذِبِ الْآثِمِ الْغَادِرِ الْخَائِنِ
’’اے امیرالمومنین ! میرے اور اس جھوٹے، سیاہ کار، دھوکہ باز اور خائن کے مابین فیصلہ صادر فرما دیں۔“ [صحيح مسلم : 1757، صحيح البخاري : 3094، مختصرا]
کیا سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے بارے میں ان الفاظ کی بنا پر سیدنا عباس رضی اللہ عنہ کے ساتھ بھی وہی معاملہ کرناجائز ہے جو معاملہ بعض لوگ سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے ساتھ کرتے ہیں ؟
حضرت علی (رضی الله) اورابن عبّاس (رضی الله) کے اختلافات؛
ابن عباس (رض) کو حضرت علی (رض) کی جانب سے بصرہ کا گورنر معین کیا گیا تھا۔ بعض نقل قول کے مطابق امام علی (رض) کی حکومت کے اواخر میں آپ پر بیت المال میں خرد برد کا الزام لگا اور آپ نے بصرہ کو اس کے حال پر چھوڑ دیا اور مکہ روانہ ہو گئے۔ (حوالہ: بلاذری، جمل من انساف الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۳۹) /تفصیل : تاریخ طبری)
مسلمانوں کا رویہ
حق یہ ہے کہ صحابہ کرام بحیثیت انسان معصوم عن الخطا نہیں تھے[503]، لیکن مشاجرات صحابہ میں احترام کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑنا چاھیے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں تمام اصحاب رسول کی محبت پر قائم رکھے۔
امام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:[504] ’’الحمد للہ تمام صحابۂ کرامؓ زبان کے سب سے بڑھ کر سچے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی نہیں ملتا کہ اس کی زبان سے کبھی ارادتاً جھوٹ نکلا ہو۔ اگرچہ ان میں کسی سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں یاکچھ گناہوں کا ارتکاب ہوگیا ہے، اس کے باوجود کسی کے بارے میں کذب بیانی اور دروغ گوئی کاالزام ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ صحابۂ کرامؓ اپنی انفرادی حیثیت سے معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ اس کے باوجود جانچ پڑتال کرنے والوں نے ان کی احادیث کو خوب آزما کر دیکھ لیا ہے اوران کی روایات کا باہم تقابل وموازنہ بھی کیا ہے جسے اصطلاحِ محدثین میں "اعتبار” کہتے ہیں، اس پوری چھان پھٹک کے بعد بھی کسی محدث نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس نے کسی صحابی کا جھوٹ پکڑا ہے۔ مگر عہدِ صحابہؓ گزرتے ہی حالات یک لخت تبدیل ہوگئے۔ زمانۂ تابعینؒ میں ہی کوفہ میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی پیدا ہوئی جو احادیث کے نام پر جھوٹ پھیلاتے تھے اور بعد کی صدیوں میں تو امانت ودیانت کا گراف نیچے ہی آیا ہے۔ اس لیے حدیث اور فقہ سے اشتغال رکھنے والے تمام علماء وماہرین کا اجماعی فیصلہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ سب کے سب ثقہ اور عدول تھے۔‘‘(منہاج السنۃ النبویۃ:۱/۳۰۷)
صحابہؓ اور غیرِ انبیاء لوگوں کے حق میں عدالت کا مطلب یہ ہے کہ متعلق شخص جان بوجھ کر گناہ نہیں کرتا اور اگر اس سے گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کر لیتا ہے۔ صحابہؓ کی عدالت کا یہی مطلب ہے۔
مزید :
" پس آپ یک سو ہو کر اپنا منھ دین کی طرف متوجہ کر دیں۔ اللہ تعالیٰ کی وه فطرت جس پر اس نے لوگوں کو پیدا کیا ہے، اللہ تعالیٰ کے بنائے کو بدلنا نہیں، یہی سیدھا دین ہے لیکن اکثر لوگ نہیں سمجھتے:(قرآن 30:30)[506]
وَمِنْهُم مَّن يَقُولُ رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الْآخِرَةِ حَسَنَةً وَقِنَا عَذَابَ النَّارِ ﴿٢٠١﴾ أُولَٰئِكَ لَهُمْ نَصِيبٌ مِّمَّا كَسَبُوا ۚ وَاللَّهُ سَرِيعُ الْحِسَابِ ﴿٢٠٢﴾
اوربعض یہ کہتے ہیں کہ اے ہمارے رب! ہمیں دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی اور آگ کے عذاب سے ہمیں بچا ایسے لوگ اپنی کمائی کے مطابق (دونوں جگہ) حصہ پائیں گے اور اللہ کو حساب چکاتے کچھ دیر نہیں لگتی (سورة البقرة 2, آیات 202-201)[507]
الله تعالی ںے صحابہ کی غلطیوں (اختلافات،جھگڑوں، بدزبانی) کو معاف بھی فرمایا جب انہوں نے الله تعالی سے مغفرت کی دعا ہر صَلَاة میں مانگی، رسول اللہ ﷺ بھی صحابہ ، امت اور مومنین کی بخشش کے لیے دعا مانگتے تھے- صَلَاة، تشہد میں "صالحین" پر سلامتی اور پھر "مومنین" کی مغفرت کی دعا رسول اللہ ﷺ سے آج تک جاری ہے جو قرآن میں ہے جسے سب فرقہ شیعہ ، اہل سنّه مسلمان تلاوت بھی کرتے رہتے ہیں:
رَبَّنَا اغْفِرْ لِي وَلِوَالِدَيَّ وَلِلْمُؤْمِنِينَ يَوْمَ يَقُومُ الْحِسَابُ ﴿٤١﴾
پروردگار مجھے اور میرے والدین کو اور تمام مومنین کو اس دن بخش دینا جس دن حساب قائم ہوگا (قرآن 14:41)
اس دعا میں کوئی شیعہ ، سنّه نہیں صرف "مومنین" ہیں ، کون بحالت ایمان (مومن) فوت ہوا اور کون کافر یا مرتد مرا ، یہ صرف الله تعالی ہی جانتا ہے ہمارے فتووں، نفرتوں کی یوم آخرت میں کوئی حثیت نہیں یہ سب ادھر ہی رہ جائیں گے-
آیۓ مل کر دعا کریں :
رَبَّنَا اغْفِرْ لَنَا وَلِاِخْوَانِنَا الَّذِیْنَ سَبَقُوْنَا بالْاِیْمَانِ وَلَا تَجْعَلْ فِیْ قُلُوْبِنَا غِلًّا لِّلَّذِیْنَ اٰمَنُوْا رَبَّنَآ اِنَّکَ رَءُ وْفٌ رَّحِیْمٌ (قرآن 59:10)[508]
اے ہمارے پروردگار ! تو ہمارے اور ہمارے ان بھائیوں کے گناہ معاف فرما دے جو ہم سے پہلے ایمان لائے اور اہل ایمان میں سے کسی کے لیے بھی ہمارے دل میں کوئی کدورت باقی نہ رہنے دے ‘ بیشک تو رؤف اور رحیم ہے۔ (آمین )
مزید تفصیلات : شیعہ ، صحابہ اور اسلام [509]، [510]
~~~~~~
يَا أَيُّهَا الَّذِينَ آمَنُوا اتَّقُوا اللَّـهَ حَقَّ تُقَاتِهِ وَلَا تَمُوتُنَّ إِلَّا وَأَنتُم مُّسْلِمُونَ ﴿١٠٢﴾ وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّـهِ جَمِيعًا وَلَا تَفَرَّقُوا ۚ(قرآن: 3:103)
اے لوگو جو ایمان لائے ہو، اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے تم کو موت نہ آئے مگر اس حال میں کہ تم مسلم ہو (102)
سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوط پکڑ لو اور تفرقہ میں نہ پڑو (قرآن:3:103)[511]
~~~~~~
اے ہمارے رب! ہم سے بھول چوک میں جو قصور ہو جائیں، ان پر گرفت نہ کر مالک! ہم پر وہ بوجھ نہ ڈال، جو تو نے ہم سے پہلے لوگوں پر ڈالے تھے پروردگار! جس بار کو اٹھانے کی طاقت ہم میں نہیں ہے، وہ ہم پر نہ رکھ، ہمارے ساتھ نرمی کر، ہم سے در گزر فرما، ہم پر رحم کر، تو ہمارا مولیٰ ہے، کافروں کے مقابلے میں ہماری مدد کر ﴿ البقرة ٢٨٦﴾
إِنَّ اللَّهَ عَلَىٰ كُلِّ شَيْءٍ قَدِيرٌ
"لو اب تم ایسے ہی تن تنہا ہمارے سامنے حاضر ہوگئے جیسا ہم نے تمہیں پہلی مرتبہ اکیلا پیدا کیا تھا ۔ جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا ‘ وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے ہو ‘ اور اب ہم تمہارے ساتھ تمہارے ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم سمجھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا بھی کچھ حصہ ہے ۔ تمہارے آپس میں سب رابطے ٹوٹ گئے اور وہ سب تم سے گم ہوگئے جن کا تم زعم رکھتے تھے "(سورة الأنعام, 6:94)[512]
"رساله تجديد الاسلام" بریگیڈیئر آفتاب احمد خان (ریٹائرڈ) کی تحقیقی کاوش ہے- آپ فری لانس مصنف ، محقق اور بلاگر ہیں، پولیٹیکل سائنس، بزنس ایڈمنسٹریشن، اسٹریٹجک اسٹڈیزمیں ماسٹرزکیا ہے اور قرآن کریم، دیگر آسمانی کتب، تعلیمات اور پیروکاروں کے مطالعہ میں دو دہائیوں سے زیادہ وقت صرف کیا ہے- وہ 2006 سے " Defence Journal کے لیے لکھ رہے ہیں۔ ان کی منتخب تحریریں پچاس سے زائد کتب میں مہیا [ہیں۔ ان کے علمی و تحقیقی کام کو 4.5 ملین تک رسائی ہو چکی ہے:
Brigadier Aftab Ahmad Khan (Retired): A freelance writer, researcher, and blogger, holds Masters in Political Science, Business Admin, Strategic Studies, spent over two decades in exploration of The Holy Quran, other Scriptures, teachings & followers. He has been writing for “The Defence Journal” since 2006. His work is available at https://SalaamOne.com/About accessed by over 4.5 Millions. FB: @IslamiRevival Email: Tejdeed@gmail.com
~~~~~~~~
پہلی صدی کے اسلام دین کامل کا احیاء، حقیقی جائزہ
https://Quran1book.blogspot.com
https://Quran1book.wordpress.com
Google Doc : http://bit.ly/31lYQV3
انڈکس
Books and Article by By Brigadier Aftab Khan (r)
http://FreeBookPark.blogspot.com
اسلامی مذہبی تاریخ کے گہرے مطالعه سےحیران کن ناقابل یقین حقائق سامنے آئے مگر یہ تلخ حقائق پہلی صدی ہجری کے دین کامل اسلام کے احیاء کی ایمیت اور ضرورت کو واضح کرتے ہیں۔ "أَطِيعُوا اللَّهَ وَأَطِيعُوا الرَّسُولَ ﷺ کی بنیاد یر "رساله تجديد الاسلام" مسلمانوں کے انداز فکرو عمل میں مثبت تبدیلی کا پیش خیمہ ثابت ہوگا-
Remember Commands from Allah:
Allah is the Sovereign in the Universe (48:14). Whoever ascribes partners to Allah, or divinity to any of His creation, has indeed invented a tremendous sin. Allah will forgive any transgression but SHIRK.(Quran;4:48)[513]. Included in this category of Shirk , are:
“... whoever follows My guidance will neither go astray ˹in this life˺ nor suffer ˹in the next˺.” (Quran;20:123)[521]
~~~~~~~
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿البقرة٢٨٦﴾
Our Lord, do not hold us accountable, if we forget or make a mistake, and, Our Lord, do not place on us such a burden as You have placed on those before us, and, Our Lord, do not make us bear a burden for which we have no strength. And pardon us, and grant us forgiveness, and have mercy on us. You are our Lord. So then help us against the disbelieving people (Quran 2:286)
Brigadier (Retired) Aftab Ahmad Khan: A freelance writer, researcher, and blogger with Master's degrees in Political Science, Business Administration, and Strategic Studies. He has dedicated over two decades to the study of The Holy Quran, other sacred scriptures, as well as the teachings and followers associated with them. He has been writing for “The Defence Journal” since 2006. His work and free eBooks has been accessed by around 5 Millions.
FB@IslamiRevival, Twitter/X@QuranAhkam ,
Email: Tejdeed@gmail.com
Books & Article by Brig Aftab Khan (r) & Collection
Free eBooks pdf- Download Links
SalaamOne Network
Revival رسالہ التجدید
Books & Article ڈیجیٹل فری کتب - اردو ، انگریزی
https://bit.ly/Revival-RisalaAlTejdeed | https://bit.ly/Tejdeed-Islam
https://SalaamOne.com/books |https://FreeBookPark.blogspot.com
https://bit.ly/Revival-RisalaAlTejdeed-pdf
https://bit.ly/Critical-Inquiry https://bit.ly/Tejdeed-Islam https://bit.ly/AhkamAlQuran
Research Theses/ Books
https://quran1book-blogspot-com.translate.
https://quran1book.blogspot.com/2021/11/Fundamental-Hadiths.html
https://quran1book-blogspot-com.translate.goog/2021/11/Fundamental-Hadiths.html
البدعة الكبيرة Big Bid’ah
https://SalaamOne.com/big-bidah \\ https://bit.ly/BigBida \\ https://bit.ly/Bidah
Eng: https://wp.me/scyQCZ-bidah
E Book Embed Code :
WP- WORDPRESS
[googleapps domain="docs" dir="document/d/e/2PACX-1vQBsVMgqzJw0JBREw9XBQ_I_t01Q_tXGi3dAYl0PRYHXpLH6H7ukbUXd56fB8j0tOYbHoPtCx86kzdc/pub" query="embedded=true" width="100%" height="1000" /]
Blogspot: Embed google doc in blogspot
<iframe height="1000px" src="https://docs.google.com/document/d/e/2PACX-1vQBsVMgqzJw0JBREw9XBQ_I_t01Q_tXGi3dAYl0PRYHXpLH6H7ukbUXd56fB8j0tOYbHoPtCx86kzdc/pub?embedded=true" width="100%"></iframe></div>
https://drive.google.com/file/d/1jBa2Mu_PT3k5O3oJLTe3Uja_kR42yYs5/view?usp=sharing
[22] [الشفا بتعريف حقوق المصطفٰي : 612,611/2]
[37] [بخاری: (6265) مسلم: (402)]
[39] ibid
[40] ibid
[45] نووی، شرح صحيح مسلم، 1 : 27، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی صلی الله عليه وآله وسلم عن الايمان و الاسلام و الاحسان
[61] ابن کثیر کی متعدد روایات کا خلاصہ/معارف القرآن ، مفتی محمد رسول اللهﷺ شفیع، : https://trueorators.com/quran-tafseer/49/
[62] ابن کثیر کی متعدد روایات کا خلاصہ/معارف القرآن ، مفتی محمد رسول اللهﷺ شفیع، : https://trueorators.com/quran-tafseer/49/6
[63] (حوالہ: بلاذری، جمل من انساف الاشراف، جلد ۴، صفحہ ۳۹) /تفصیل : تاریخ طبری)
[70] http://www.equranlibrary.com/hadith/bukhari/1497/3073،
https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=3073
[74] http://www.equranlibrary.com/hadith/bukhari/1497/3073،
https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=3073
[81] مترجم ، محترمہ ڈاکٹر فرحت ہاشمی : https://trueorators.com/quran-word-by-word/48/29
[84] قرآن ٦٧:٢ : https://tanzil.net/#trans/ur.jalandhry/67:1
[86] http://www.valiasr-aj.com/urdu/shownews.php?idnews=1862،
http://www.shiapen.com/comprehensive/creed-of-shia-explained/rejection-of-sahaba.html
https://ur.wikishia.net/، and many Shia websites/ links, given at FM/EN
[87] اس سے فرق نہیں پڑتا کیونکه شیعہ برادران کسی صورت بھی سنی احدیث قبول نہ کریں گے کیونکہ ان کے عقائد و نظریات کی نفی ہو جاتی ہے- یہ تو آیات قرآن، اپنے امام اول علی ؓ اور دوسرے آیمہ کے احکام جو ان کی کتاب نہج البلاغہ اور دوسری کتب سے یھاں حصہ سویم میں منقول ہیں (ملاحضہ کریں) ان پی عمل سے انکاری ہیں کہ ان کے عقائد کے خلاف ہیں-اگر ان کو قبول ہو تو اب بھی "راوی صحابہ" کی تحقیق دوبارہ خود کرلیں، جو کہ سنی کر چکے ہیں، مگر ان کو قبول نہیں، تو یہ بحث لا حاصل ہے، ملاحضہ کریں : عدالتِ صحابہ/ امام ابن تیمیہؒ
[89] "تبعیضیه = امتیاز : ۱۷ تعصّب اور مذہبی امتیاز جیسی مشکلات ، پبلشروں کے لئے مسائل کھڑے کر رہی ہیں۔ / https://ur.glosbe.com/fa/ur/تبعیض، reciprocal ، given, felt, or done in return، متبادل، mutual, reciprocal, cross, alternate.
[94] تاریخ الاسلام جلد 3صفحہ 484،(کان مع علیّ یوم وقعۃ الجمل ثمانماۃ من الانصار و اربعماۃ ممن شھدوا بیعۃ الرضوان)
[95] تاریخ الاسلام جلد 3صفحہ 484
[96] مروجلد الذھب ج1 ص314
[98] التوبہ 9:100 : https://trueorators.com/quran-tafseer/9/100
[107] https://trueorators.com/quran-tafseer/15/2 (تفسیر ابن عبّاس )
[108] ۔المستدرک علی الصحیحین ج۲ص۳۵۳، سنن الکبری ج۳ص۹۸، عن ابن عباس قال:کانت تصلی خلف رسول اللہ امراءہ حسناء من احسن الناس وکان بعض القوم یستقدم فی الصف الاول لان لایراھا و یستاخر بعضھم حتی یکون فی الصف الموخر فاذا رکع ، قال:ھکذا، و نظر من تحت ابطہ و جافی یدیہ، فانزل اللہ عزوجل فی شانھما: {وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمينَ مِنْكُمْ وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرين} اس کو نقل کرنے کے بعد حاکم کہتے ہیں: ھذا حدیث صحیح الاسناد و لم یخرجاہ۔
[114] (صحیح بخاری کتاب المغازی باب شہود الملائکۃ بدرا حدیث نمبر ۳۷۰۹)، قدامة بن مظعون الجمحى القرشى له صحبة. کہ قدامہ بن مظعون صحابی رسول ہے، ( التاریخ الکبیر ج ۷ ص ۱۷۸)، قدامہ نے رسول اللہ کے ساتھ بدر ، احد ، خندق اور تمام جنگوں میں شرکت کی ہے۔(الطبقات الکبری ج ۳ ص ۴۰۱)، ( اسد الغابہ ج ۱ ص ۹۰۷) ، مصنف عبدالرزاق کتاب الاشربہ باب من حد من اصحاب النبی، سنن النسائی الکبری کتاب الاشربہ والحد فیھا باب من وجد منہ ریح شراب او لقی سکران،التاریخ الصغیر للبخاری ج ۱ ص ۴۳ باب من مات فی خلافۃ ابی بکر او قریبا منہ، الطبقات الکبری ج ۵ ص ۵۶۰ باب تسمیۃ من کان بالبحرین من اصحاب رسول اللہ، استیعاب ج ۱ ص ۳۹۴، الاصابہ فی تمییز الصحابہ ج ۵ ص ۴۲۴، سیر اعلام النبلا ج ۱ ص ۱- ،ایک اور بدری صاحب حضرت نعیمان بن عمرو انصاری پر بھی حد لگائی گئی (بخاری، رقم ۶۷۷۵)
[118] حدیث اورتاریخ میں فرق، تاریخی روایات وجزیات اور صحابہ کرم پر تنقید کا رد از مولآنا سید یوسف بنوری / https://islaminsight.org/2020/08/03/حدیث-اور-تاریخ-میں-فرق،-تاریخی-روایات-و
[120] حوالہ خلافت و ملوکیت از مولانا مودودی
[123] عمدہ الباری ج۳ص۲۰۲، مسند عبد بن حمیدص۲۵۱
[124] مسند احمدج۵ص۵۴، سنن ترمذی ج۵ص۳۸۵
[125] صحیح بخاری ج۴ص۱۹۵
[131] https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=2&hadith_number=5996، http://www.equranlibrary.com/hadith/muslim/1705/5996
[132] http://www.equranlibrary.com/hadith/bukhari/1559/6582 ، https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=6582
[136] ۔ صحیح بخاری ج۷صفحہ ۲۴۰، ج۷ص۱۹۵، ّ۲۰/ http://www.equranlibrary.com/hadith/muslim/1705/5974
[141] حوالہ خلافت و ملوکیت از مولانا مودودی
[142] [صحيح مسلم : 1757، صحيح البخاري : 3094، مختصرا]
[143] البدایہ جلد 8 صفحہ 259 اور جلد 9 صفحہ 80, طبری جلد 4 صفحہ 188, ابن اثیر جلد 3 صفحہ 234
[144] (صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219 )/ https://www.banuri.edu.pk/readquestion/کسی-مسلمان-کو-کافر-کہنا/19-10-2016
[146] رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: عائشہ جنت میں بھی میری بیوی ہوں گی۔"
[148] صحیح بخاری ج۸ص۱۲۔"عن عقبہ بن الحرث: ان النبی اتی بنعیمان او بابن نعیمان و ھو سکران فشقّ علیہ وامر من فی البیت ان یضربوہ فضربوہ بالجرید والنعال"۔
[149] صحیح بخاری۔6814"۔۔ : http://www.equranlibrary.com/hadith/bukhari/1491/6814 ، http://www.equranlibrary.com/hadith/bukhari/1491/6815
[150] ۔المعجم الکبیرجلد ۲۳ص۱۲۸
[151] صحیح مسلم جلد ۵ ص۱۲۶
[152] ۔فتح الباری ج۵ص۱۸۷
[153] ۔فتح الباری ج۱ص۱۴۸
[154] ۔ملاحظہ کیجیے تذکرۃ الحفاظ جلد ۱۷
[155] نقش عائشہ در تاریخ اسلام ۲۴۱-۲۷۵
[156] الطبقات الکبری ج۳ص۳۲
[157] الطبقات الکبری ج۳ص۳۲
[159] .فتح/۲۹
[160] الطبقات الکبری ج۳ص۳۲
[161] الطبقات الکبری ج۳ص۳۲
[167] ۔سیر اعلام النبلاءجلد ۲ص۱۹۳
[170] ۔صافات/۱۴۲
[171] ھود/۴۶
[172] بقرہ/۳۶
[173] منتخب مسند عبد بن حمید ص۲۵۰
[174] ۔ملاحظہ فرمائیں مقالہ"بازخوانی حدیث اقتدا و اھتدا" از محمد فاکر میبیدی، دو فصلنامہ حدیث پژوہی، سال اول شمارہ اول بہار وتابستان ۱۳۸۸۔
[175] راہنمائے حقیقت ص۶۴۱ و۶۴۲
[177] https://trueorators.com/quran-translations/34/50 ("معصوم من الخطأ" وحی), https://trueorators.com/quran-translations/18/110 / (8:67-68, 9:43, 9:113-114, 33:37, 66:1 , 80:1-11).
[183] [ابن ماجہ, 42 , ابی داود 4607 ، ترمزی 2676 وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني)] ، https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Last-Will.html
[184] ملاحضہ کریں : عدالتِ صحابہ اور امام ابن تیمیہؒ
[185] عرفۃ علوم الحدیث ص۲۰
[186] مام ابن تیمیہؒ فرماتے ہیں:# ’’الحمد للہ تمام صحابۂ کرامؓ زبان کے سب سے بڑھ کر سچے ہیں۔ ان میں سے کسی ایک کے بارے میں بھی نہیں ملتا کہ اس کی زبان سے کبھی ارادتاً جھوٹ نکلا ہو۔ اگرچہ ان میں کسی سے کچھ غلطیاں سرزد ہوئی ہیں یاکچھ گناہوں کا ارتکاب ہوگیا ہے، اس کے باوجود کسی کے بارے میں کذب بیانی اور دروغ گوئی کاالزام ثابت نہیں کیا جاسکتا ہے۔ صحابۂ کرامؓ اپنی انفرادی حیثیت سے معصوم عن الخطا نہیں تھے۔ اس کے باوجود جانچ پڑتال کرنے والوں نے ان کی احادیث کو خوب آزما کر دیکھ لیا ہے اوران کی روایات کا باہم تقابل وموازنہ بھی کیا ہے جسے اصطلاحِ محدثین میں "اعتبار” کہتے ہیں، اس پوری چھان پھٹک کے بعد بھی کسی محدث نے یہ دعویٰ نہیں کیا کہ اس نے کسی صحابی کا جھوٹ پکڑا ہے۔ مگر عہدِ صحابہؓ گزرتے ہی حالات یک لخت تبدیل ہوگئے۔ زمانۂ تابعینؒ میں ہی کوفہ میں ایک جماعت ایسے لوگوں کی پیدا ہوئی جو احادیث کے نام پر جھوٹ پھیلاتے تھے اور بعد کی صدیوں میں تو امانت ودیانت کا گراف نیچے ہی آیا ہے۔ اس لیے حدیث اور فقہ سے اشتغال رکھنے والے تمام علماء وماہرین کا اجماعی فیصلہ ہے کہ صحابۂ کرامؓ سب کے سب ثقہ اور عدول تھے۔‘‘(منہاج السنۃ النبویۃ:۱/۳۰۷)
صحابہؓ اور غیرِ انبیاء لوگوں کے حق میں عدالت کا مطلب یہ ہے کہ متعلق شخص جان بوجھ کر گناہ نہیں کرتا اور اگر اس سے گناہ ہوجائے تو فوراً توبہ کر لیتا ہے۔ صحابہؓ کی عدالت کا یہی مطلب ہے>>>
[190] ۔المیزان ج۱۲ص۲۷۸
[191] ۔الحدیث و المحدثون ص۱۰۲ / https://ur.wikipedia.org/wikiابو_زہرہ_مصری
[192] المستصفی ج۱ص۱۶۱
[194] 1. الشفاء با شرح حقوق مصطفٰی، جلد 1۔ 2، صفحہ 325، بریلی میں شائع ہوا۔، 2. سلالہ الرسالہ ملا علی قاری، صفحہ 18، اردن میں شائع ہوا۔ 3. الطبقات الکبریٰ، جلد 1۔ 5، صفحہ 369، بیروت میں شائع ہوا
[195] اللہ (ص)صوائق محرقہ، صفحہ 255، طبع مکتبہ القاہرہ، مصر
[196] ملا علی قاری، شرح الفقہ الاکبر مطبع عثمانیہ، استنبول، 1303 صفحہ 130 مطبع مجتبی، دہلی، 1348، صفحہ 86 مطبع آفتاب ہند، ہندوستان، تاریخ نمبر 86) چونکہ یہ نئی سوچ سے متصادم ہے، یعنی شیخین پر لعنت کرنے والے کافر ہیں، انہوں نے ان کی نصوص میں چھیڑ چھاڑ کی ہے۔ مذکورہ بالا اقتباس ہندوستان اور ترکی میں چھپنے والے تین (3) ایڈیشنوں سے لیا گیا ہے۔ اب دارالتوبۃ العلمیہ، بیروت کی طرف سے 1404/1984 میں ایک نیا ایڈیشن چھاپا گیا ہے، جس کا دعویٰ ہے کہ یہ پہلا ایڈیشن ہے، اور اس کے چار صفحات (بشمول مذکورہ بالا متن) کو حذف کر دیا گیا ہے۔
[198] (8:67-68, 9:43, 9:113-114, 33:37, 66:1 and 80:1-11 قرآن) / Creator & Created ، https://tanzil.net/#8:68، https://tanzil.net/#9:43، https://tanzil.net/#9:113 ، https://tanzil.net/#33:37, https://tanzil.net/#66:1, https://tanzil.net/#80:11
[201] https://tanzil.net/#5:3، (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا
[208] http://www.chiite.fr/en/، http://www.chiite.fr/en/m_sahaba.html ، http://rejectionists.blogspot.com/2018/09/index1.html
[217] الحیاة السیاسیة و الفکریة للزیدیة فی المشرق الاسلامی، ص۴۲-۳۴
[218] : مشکور، فرهنگ فرق اسلامی، ص۲۱۴
[219] عمرجی، الحیاة السیاسیة و الفکریة للزیدیة فی المشرق الاسلامی، ص۵۰-۴۷
[220] مصطفی سلطانی، تاریخ و عقاید زیدیہ، ص۲۰. احمد محمود صبحی، فی علم الکلام دراسة فلسفية لآراء الفرق الإسلامية فی اصول الدین، ج۳، ص۴۸ ـ ۵۲.
عیون أخبار الرضا علیہ السلام ج۱، ص۲
[221] مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، الخاتمہ، ج۸، ص۲۸۲.
[222] مستدرک الوسائل و مستنبط المسائل، الخاتمہ، ج۸، ص۲۸۲.
[223] حسن مثنی کی امامت کے سلسلہ میں اختلاف ہے بعض مورخین اور محققین نے حسن مثنی کو زیدیہ کے امام کے عنوان سے ذکر کیا ہے اور بعض اس بات کا انکار کرتے ہیں۔
[226] خطبہ نمبر 126 /127 "نہج البلاغہ"
[228] https://faizahmadchishti.blogspot.com/2019/10/blog-post_12.html, (ارضہ کلینی:۱۰۷۔ بحوالہ احسن الفتاویٰ:۱/۸۴)، https://ahlehadees.co/threads/1057/
[229] ابن عبد ربہ، العقد الفرید، دار الکتب العلمیہ، ج۵، ص۵۸-۵۹۔
[230] ابن سعد، الطبقات الکبری، 1968م، ج6، ص357؛ ابن اثیر، اسدالغابہ، بیروت، ج2، ص10.
[231] ابن منظور، لسان العرب، 1414ق، ج4، ص393؛ زبیدى، تاج العروس، 1414ق، ج7، ص4.
[232] ابن عساکر، تاریخ مدینۃ دمشق، 1415ق، ج13، ص171. / ابن قتیبہ، الامامہ و السیاسۃ، 1410، ج1، ص59؛ بلاذری، انساب الاشراف، 1417ق، ج5، ص558، https://ur.wikipedia.org/wiki/حسین_ابن_علی
[236] {مقاتل الطالبین لابی الفرج الاصبھانی الشیعی}
[241] http://www.chiite.fr/en/sahaba_26.html، (شیعہ حوالہ جات:(1) حق الیقین، مجلسی، (2) کتاب الارشاد، از مفید، (3) جلاۃ العیون، مجلسی، (4) مجالس المومنین، از شوشتری، (شیعہ و اہل بیت، ص 121)
[242] ( نہج البلاغہ ص181ملخصا و مختصرا)
[243] نهج البلاغة للشريف الرضي شرح محمد عبده صفحة 225 .نهج البلاغة ج:1 ص:189 ـ 190، واللفظ له. كنز العمال ج:16 ص:200 حديث: 44222. صفوة الصفوة ج:1 ص:331 ـ 332 في ترجمة أبي الحسن علي بن أبي طالب (رضي الله عنه) : كلمات منتخبة من كلامه ومواعظه (عليه السلام). تاريخ دمشق ج:42 ص: 492 في ترجمة أمير المؤمنين علي بن أبي طالب).
[244] https://ur.wikipedia.org/wiki/حدیث_ثقلین (متواتر حدیث متفق سنی و شیعہ )
[246] https://islamqa.info/ur/answers/10055/ ، http://rejectionists.blogspot.com/p/people-of-household.ht
[249] صحیح بخاری حدیث نمبر ( 2907 ) سنن نسائ حدیث نمبر ( 4067 )
[265] https://mapcarta.com/N7530718678 Ghadir Khum Map
[268] https://corpus.quran.com/search.jsp?q=lem%3AmawolaY%60+pos%3An، https://tanzil.net/#search/quranمولا
[283] ابو علی حسن مثلث بن حسن مثنی بن حسن سبط بن علی بن ابی طالب ہاشمی قرشی (77ھ – 145ھ) منصور عباسی کے دور میں سخت مبارزوں میں سے ایک تھے۔ منصور سے سنجیدہ ٹکراؤ کے بعد کوفہ میں سنہ 145ھ میں قید خانہ میں فوت ہوگئے۔ https://wp-ur.wikideck.com/حسن%20مثلث
[284] ابن سعد: الطبقات الکبریٰ، جلد 5
[286] http://rejectionists.blogspot.com/2011/12/hadith-of-ghadir-khumm.html, http://www.chiite.fr/en/hadith_01.html
[290] (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 282)، (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 285)
[293] حضرت مولانا ادریس کاندہلوی (سیرت مصطفی 3/182، ط: کتب خانہ مظہری)
[294] (البداية والنهاية ط إحياء التراث (5 / 286)
[296] (کنزالعمال، کتاب: امارت اور خلافت کا بیان، باب: خلافت ابی بکرالصدیق (رض)، حدیث نمبر: 14138)
[303] (الکامل فی التاریخ لابن الاثیر جلد سوم ص 154، دخلت سنۃ خمس وثلاثین مطبوعہ بیروت طبع جدید)
[305] By: Hartwig Hirschfeld، Jewish Encyclopedia, Shatrastani al-Milal, pp. 132 et seq. (in Haarbrücken's translation, i. 200-201);
Weil, Gesch. der Chalifen, i. 173-174, 209, 259.
https://www.jewishencyclopedia.com/articles/189-abdallah-ibn-saba
[306] ا ب پ Madelung، Wilferd. "ḤASAN B. ʿALI B. ABI ṬĀLEB". Encyclopaedia Iranica. اخذ شدہ بتاریخ 06 جولائی 2012.، https://ur.wikipedia.org/wiki/امامت_(اہل_تشیع)
[308] تخریج دارالدعوہ: سنن ابی داود/السنة ٦ (٤٦٠٧)، سنن الترمذی/العلم ١٦ (٢٦٧٦)، (تحفة الأشراف: ٩٨٩٠)، وقد أخرجہ: مسند احمد (٤/١٢٦، ١٢٧)، سنن الدارمی/المقدمة ١٦ (٩٦) (صحیح )
وضاحت: ١ ؎: ہدایت یافتہ خلفاء سے مراد خلفاء راشدین ہیں، یعنی ابوبکر، عمر، عثمان اور علی ؓ، حدیث میں وارد ہے: الخلافة ثلاثون عامًا یعنی خلافت راشدہ تیس سال تک رہے گی۔ https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Last-Will.html
[309] (ناسخ التواریخ تاریخ خلفاء جلد سوم صفحہ238,237 طبع جدید مطبوعہ تہران دوران خلافت عثمان بن عفان، مصنفہ مرزا محمد تقی) ، http://rejectionists.blogspot.com/2018/09/shia-tareekh.html
[310] (انوار نعمانیہ مصنفہ نعمت اﷲ جزائری ص197، طبع قدیم مطبوعہ ایران طبع جدید جلد 2، ص 234، فرقہ سبائیہ)، https://faizahmadchishti.blogspot.com/2021/08/blog-post_84.html
[311] (ماخذ: سیدی ابو صالح، امامہ اور قرآن: ایک معروضی تناظر، صفحہ 14)
[312] (رجال کشی مصنفہ عمر بن عبدالعزیز الکشی ص 101 تذکرہ عبداﷲ بن سبا مطبوعہ کربلا)
[313] (رجال کشی صفحہ 100 مطبوعہ کربلا تذکرہ عبداﷲ بن سبا)
[314] (کتاب فرق الشیعۃ لابی محمد بن موسیٰ النو نجتی ص 22 مطبوعہ حیدریہ نجف اشرف من علماء قرن الثالث تحت فرقۃ السبائیۃ)
[317] علامہ مجلسی لکھتے ہیں: وذكر بعض أهل العلم أن عبد الله بن سبا كان يهوديا فأسلم ووالى عليا عليه السلام وكان يقول وهو على يهوديته في يوشع بن نون وصي موسى بالغلو فقال في إسلامه بعد وفاة رسول الله صلى الله عليه وآله في علي عليه السلام مثل ذلك. وكان أول من أشهر بالقول بفرض إمامة علي عليه السلام وأظهر البراءة من أعدائه وكاشف مخالفيه وأكفرهم، http://rejectionists.blogspot.com/2018/09/imamat-ur.html
[318] بصائر الدرجات: أحمد بن محمد بن علي بن الحكم عن ابن عميرة عن الحضرمي عن حذيفة بن أسيد قال: قال رسول الله (صلى الله عليه وآله وسلم): ما تكاملت النبوة لنبي في الأظلة حتى عرضت عليه ولايتي وولاية أهل بيتي ومثلوا له فأقروا بطاعتهم وولايتهم.
[319] قال أبو عبد الله (عليه السلام): ما نبئ نبي قط إلا بمعرفة حقنا وبفضلنا على من سوانا
[320] عن أبي بصير عن أبي عبد الله (عليه السلام) قال: ما من نبي نبئ ولا من رسول ارسل إلا بولايتنا و تفضيلنا على من سوانا
[321] عن أبي سعيد الخدري قال: سمعت رسول الله (صلى الله عليه وآله) يقول يا علي ما بعث الله نبيا إلا وقد دعاه إلى ولايتك طائعا أو كارها
[322] رجال الكشي: محمد بن قولويه عن سعد عن ابن يزيد ومحمد بن عيسى عن علي بن مهزيار عن فضالة بن أيوب الأزدي عن أبان بن عثمان قال: سمعت أبا عبد الله عليه السلام يقول: لعن الله عبد الله بن سبا إنه ادعى الربوبية في أمير المؤمنين،
[325] https://corpus.quran.com/search.jsp?q=lem%3A%3CimaAm+pos%3An, https://tanzil.net/#search/quran/امام
[328] نہج البلاغہ ص 136، ص 366-367 اور ص 322 بھی دیکھیں۔ نہج البلاغہ ص 263 دیکھیں ص 263 عسکری جعفری کا ترجمہ شدہ اسلامی مدرسہ اشاعت۔ Islamic Seminary Publication (خطبہ 95)
[333] مضمون تحریر: اویس محمد، ترمیم شدہ: ابن الہاشمی، www.ahlelbayt.com
[334], http://www.chiite.fr/en/m_imamah.html
مضمون تحریر: ابن الہاشمی، www.ahlelbayt.com , https://www-chiite-fr.translate.goog/en/imamah_11.html?_x_tr_sl=auto&_x_tr_tl=ur&_x_tr_hl=en&_x_tr_sch=http
[335] مضمون تحریر: ابن الہاشمی، www.ahlelbayt.com
[338] نہج البلاغہ
[343] (تفسیر:عبدالرحمان کیلانی)، https://tanzil.net/#trans/ur.qadri/15:47
[358] https://trueorators.com/quran-tafseer/59/10, (یہ سب روایات تفسیر قرطبی سے لی گئی ہیں ) (تفسیر معرف القرآن مفتی محمد شفع)
[361] [الشفا بتعريف حقوق المصطفٰي : 612,611/2]
[363] https://quran1book.blogspot.com/2020/06/4caliphs.html، سنت خلفاء راشدین کی شرعی حثیت اور کتابت حدیث کیوں نہ کی؟
[364] https://trueorators.com/quran-tafseer/48/29 ، (تفسیر معارف قرآن ، مفتی محمد شفیع)
[365] https://ur.wikipedia.org/wiki/رافضی / رافضی کے معنی تتر بتر ہونا، بکھر جانا، منتشر ہونا اور تعصب برتنا ہے۔نہی معنوں میں اہل تشیع میں سے جو لوگ اپنے امام کو چھوڑ دیں اور منتشر ہوں انہیں رافضی کہا جاتا ہے۔( القاموس الوحید عربی اردو لغت صفحہ نمبر: 648) جب اہل عراق نے زین العابدین کے صاحبزادے امام زید شہید سے ابوبکر و عمر کی تعریف سنی تو کہنے لگے آپ ہمارے امام نہیں ہیں امام بھی ہمارے ہاتھ سے گیا جس پر امام زیدشہید نے کہارفضونا الیوم ہمیں آج کے دن سے ان لوگوں نے چھوڑ دیا(آج سے یہ رافضی بن گئے) اس دن سے اس جماعت کو رافضی کہا جاتا ہے۔ [ رحمۃ للعالمین جلد دوم قاضی محمد سلیمان منصور پوری صفحہ 375 مرکز الحرمین الاسلامی فیصل آباد، ناسخ التواريخ۔ مرزه تقی خان ،ج 2 ،ص 590./ طبری]
[366] https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=2&hadith_number=6220 ، [صحیح مسلم حدیث نمبر: ، ت6220، ترمزی ٣٧٢٤، ماجہ ١٢١، مسند احمد ١١٨، ١/٨٤ ، تحفہ الاشرف ٣٩٠١،] (عشرہ مبشرہ معارف الحدیث ٢٠٩١ ) ، [حدیث ثقلین ، مسلم ٦٢٢٥]
[367] حوالہ خلافت و ملوکیت از مولانا مودودی
[369] Ibid ٧٩
[370] (١ ؎ صحیح بخاری کتاب الحوض ص ٩٧٤ ج ٢ و صحیح مسلم باب اثبات الحوض لنبینا (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) ص ٤٤٩ ج ٢۔ ) (٢ ؎ صحیح بخاری باب ماجاء فی صفۃ الجنۃ وانھا مخلوقۃ ص ٤٦٠ ج ١۔ )
[373] Mathew ( 23:24)، https://www.biblegateway.com/verse/en/Matthew%2023%3A24
[379] https://trueorators.com/quran-tafseer/14/34 (تفسیر عبدالسلام بھٹوی )
[382] .اصول علم الحديث https://bit.ly/Hadith-Basics
[392]{4:59}، (النساء:115) ، https://ur.wikipedia.org/wiki/اجماع_(فقہی_اصطلاح)#حجیتِ_اجماع_قرآن_مجید_سے ،
[398] [أَبُو دَاوُدَ4607 ، وَاَلتِّرْمِذِيُّ 2676، ماجہ 42] وَقَالَ: حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ كتاب السنة باب فِي لُزُومِ السُّنَّةِ حكم صحيح (الألباني) ، https://quran1book.blogspot.com/2020/05/Last-Will.html
[401] (رواہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ، اسے امام شافعی نے مسند (ص 240) اور الرسالہ (ص401 # 1102) میں روایت کیا ہے۔ اور طبرانی المعجم الکبیر میں، جلد 2، ص۔ 126 # 1541]
[407] قرآن 9:22
[408]۔(سنن ابی داؤد ،کتاب الاقضیہ ،باب اجتہاد الرأی فی القضاء)
[409] (صحیح مسلم:جلد اول:حدیث نمبر 219 )/ https://www.banuri.edu.pk/readquestion/کسی-مسلمان-کو-کافر-کہنا/19-10-2016
[411] سنن ابوداؤد حدیث نمبر: 3583: تخریج دارالدعوہ: صحیح البخاری/المظالم ١٦ (٢٤٥٨)، الشھادات ٢٧ (٢٦٨٠)، الحیل ١٠ (٦٩٦٧)، الأحکام ٢٠ (٧١٦٩)، ٢٩ (٧١٨١)، ٣١ (٧١٨٥)، صحیح مسلم/الأقضیة ٣ (١٧١٣)، سنن الترمذی/الأحکام ١١ (١٣٣٩)، سنن النسائی/ القضاة ١٢(٥٤٠٣)، سنن ابن ماجہ/الأحکام ٥ (٢٣١٧)، (تحفة الأشراف: ١٨٢٦١)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الأقضیة ١ (١)، مسند احمد (٦/٣٠٧، ٣٢٠) (صحیح )
[412] تقریب التہذیب: 3111
[414] https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=2&hadith_number=5996، http://www.equranlibrary.com/hadith/muslim/1705/5996
[417] ۔ صحیح بخاری ج۷صفحہ ۲۴۰، ج۷ص۱۹۵، ّ۲۰/ http://www.equranlibrary.com/hadith/muslim/1705/5974
[425] http://www.equranlibrary.com/hadith/bukhari/1559/6582 ، https://islamicurdubooks.com/hadith/hadith-.php?tarqeem=1&bookid=1&hadith_number=6582
[426] الطبقات الکبری ج۳ص۳۲
[427] الطبقات الکبری ج۳ص۳۲
[442] https://ilmkidunya.in/عدالتِ-صحابہ/
[بشکریہ : عدالتِ صحابہ، ذکی الرحمٰن غازی مدنی، جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ]
[449] صحابہ کرام اور شیعه اشتباهات : https://bit.ly/Sahaba-Grudge
[460] نووی، شرح صحيح مسلم، 1 : 27، کتاب الايمان، باب سوال جبريل النبی صلی الله عليه وآله وسلم عن الايمان و الاسلام و الاحسان
[465] https://tanzil.net/#5:3، (الْيَوْمَ أَكْمَلْتُ لَكُمْ دِينَكُمْ وَأَتْمَمْتُ عَلَيْكُمْ نِعْمَتِي وَرَضِيتُ لَكُمُ الْإِسْلَامَ دِينًا ۚ) آج ہم نے تمہارے لئے تمہارا دین کامل کر دیا اور اپنی نعمتیں تم پر پوری کر دیں اور تمہارے لئے اسلام کو دین پسند کیا
[484] صحابہ کرام اور شیعه اشتباهات : https://bit.ly/Sahaba-Grudge
[491] https://trueorators.com/quran-tafseer/15/2 (تفسیر ابن عبّاس )
[492] ۔المستدرک علی الصحیحین ج۲ص۳۵۳، سنن الکبری ج۳ص۹۸، عن ابن عباس قال:کانت تصلی خلف رسول اللہ امراءہ حسناء من احسن الناس وکان بعض القوم یستقدم فی الصف الاول لان لایراھا و یستاخر بعضھم حتی یکون فی الصف الموخر فاذا رکع ، قال:ھکذا، و نظر من تحت ابطہ و جافی یدیہ، فانزل اللہ عزوجل فی شانھما: {وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَقْدِمينَ مِنْكُمْ وَ لَقَدْ عَلِمْنَا الْمُسْتَأْخِرين} اس کو نقل کرنے کے بعد حاکم کہتے ہیں: ھذا حدیث صحیح الاسناد و لم یخرجاہ۔
[495] الاستیعاب 2/ 375، فتح الباری 8/ 11، البدایہ والنہایہ 5/35
[496] (سیرة ابن ہشام 3/ 405، تاریخ خلیفہ بن خیاط 1/ 77 / https://ur.wikipedia.org/wiki/عبد_اللہ_بن_ابی_سرح
[501] حوالہ خلافت و ملوکیت از مولانا مودودی
[504] https://ilmkidunya.in/عدالتِ-صحابہ/
[بشکریہ : عدالتِ صحابہ، ذکی الرحمٰن غازی مدنی، جامعۃ الفلاح، اعظم گڑھ]
[515] Quran: The Only Hadith Book: https://wp.me/scyQCZ-quran
[516] Hadith Books Forbidden by Prophet ﷺ & Caliphs:https://wp.me/scyQCZ-forbid
[517] Khatm-e-Nabuwat ختمِ نبوت: https://bit.ly/KhatmeNabuwat
[518] https://www.islamawakened.com/quran/7/173/default.htm , https://tanzil.net/#trans/en.sarwar/7:191