بریگیڈیئرآفتاب احمد خان(ر)
https://DefenceJournal.com/author/aftab-khan/
أَعُوْذُ بِاللّٰهِ مِنَ الشَّيْطٰانِ الرَّجِيْمِ o بِسْمِ ٱللَّٰهِ ٱلرَّحْمَٰنِ ٱلرَّحِيم
ترجمہ: بیشک جو لوگ اس کو چھپاتے ہیں جو ہم نے واضح دلیلوں اور ہدایت میں سے اتارا ہے، اس کے بعد کہ ہم نے اسے لوگوں کے لیے کتاب میں کھول کر بیان کردیا ہے، ایسے لوگ ہیں کہ ان پر اللہ لعنت کرتا ہے اور سب لعنت کرنے والے ان پر لعنت کرتے ہیں۔ (2:159) براہ مہربانی رجوع کریں (2:174)، (3:187) (2:159)
اس لینے مناسب سمجھا کہ جو معلومات احقر کو حاصل ہیں ان کو شیئر کیا جایے ، اس بنیاد پر یہ توقع کہ کوئی اپنے نظریات بدل لے عبث ہے ، بہرحال الله تعالی کے حکم کی تعمیل حذر ہے-
"حدیث ثقلین" بہت اہمیت کی حامل ہے کیونکہ اس کی مختف تاویلات سے مسلم اتحاد کو شدید جھٹکا پہنچا- بطور خاص وہ بات جس سے مسلم اتحاد اور فرقہ واریت کو فروغ ملتا ہو یا کسی بھی موضوع پر ہو اس کا قرآن اور روسری احادث کی روشنی میں تجزیه کی ضرورت ہے تاکہ ہر قسم کی گمراہی سےبچا جا سکے. اسس سلسلہ میں قاری کو اپنے موجودہ عقائد و نظریات کو الگ رکھنا ہو گا اور"دلیل" پر توجہ مرکوز کرنا ہو گی کہ الله تعالی کا یہی فرمان ہے:
"جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً الله سُننے والا اور جاننے والا ہے" (قرآن :8:42)
"اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو" (سورة البقرة 2 آیت: 111)
اس حدیث کو مسلم نے اپنی صحیح میں روایت نہیں کیا جیسا کہ اکثر روایت کیا جاتا ہے، بلکہ یہ حدیث مختلف الفاظ کے ساتھ صحابہ کی ایک جماعت سے روایت کی ہے اور ان صحابہ میں زید بن ارقم رضی اللہ عنہ تھے۔ اس کو زید بن ارقم کی سند سے متعدد طریقوں سے روایت کیا گیا ہے، اور ان میں سے وہ ہے جسے مسلم نے اپنی "صحیح" (2408) میں روایت کیا ہے، اور اس میں کوئی لفظ نہیں ہے: "اللہ کی کتاب اوراہل بیت" یہ ہے اس حدیث کا خلاصہ، اس کے طریقے اور الفاظ کی وضاحت، اور ضعیفوں میں سے صحیح کی وضاحت۔[1]
حسن بن عبید اللہ النخعی کی سند سے، ابو الضحیٰ مسلم بن صبیح کی سند سے، زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے رسول! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں تمہارے درمیان دو گرانقدر چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں: کتاب اللہ اور میرا اہل و عیال، اور وہ منتشر نہیں ہوں گے جب تک کہ وہ حوض پر نہ آئے-م یہ راستہ قابل اعتراض ہے اس میں حسن بن عبید اللہ النخعی رحمہ اللہ کہتے ہیں: "میں نے حسن بن عبید اللہ کی حدیث کو اس لیے نقل نہیں کیا کہ ان کی اکثر حدیثیں منقول ہیں۔" "تہذیب التہذیب" (2/292)[2] اس کی سند ضعیف ہے اس میں عطیہ بن سعد الذہبی نے "دیوان الضعفاء" (2843) میں کہا ہے: "اس کے ضعف پر اجماع ہے۔" "المجروحین" (2/176): "اس کو دلیل کے طور پر استعمال کرنا یا اس کی حدیث کو لکھنا جائز نہیں-
ان میں سے بعض روایات میں پہلی روایت سے معنی میں اضافہ ہے، جو کہ کتاب اللہ اور آل رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو ماننے کا حکم ہے، اور یہ کہ وہ منتشر نہیں ہوں گے جب تک وہ طاس کی طرف لوٹتے ہیں، لیکن یہ روایتیں مستند نہیں ہیں-
مذکورہ بالا سے یہ بات واضح ہے کہ صرف مسلم کی پہلی روایت اور دوسری روایت زید بن ارقم کی سند سے ثابت ہے اور ان میں سوائے کتاب الٰہی اور آل رسول کو کہنے کے اور کچھ نہیں ہے۔ ثقل (وزن)، الله کی کتاب پر عمل کرنے کا حکم، اور پیغمبر کے خاندان کا خیال رکھنے کا حکم۔
1.یہ (قرآن) مومنوں کے لیے شفا اور رحمت لاتا ہے، لوگوں کو اندھیروں سے روشنی کی طرف لے جاتا ہے، اور صحیح اور غلط کا فیصلہ کرنے کے لیے ایک معیار کے طور پر کام کرتا ہے (17:82؛ 14:1؛ 25:1)
2. یہ کتاب فرقان یعنی وہ کسوٹی ہے جو کھرے اور کھوٹے کا فیصلہ کرتی ہے۔(الفرقان 25:1)
3. قرآن کریم لوگوں کے اختلافات کا فیصلہ کرنے کے لیے اتاری گئی ہے۔ (البقرہ2:213)
4.اور ہم نے آپ پر ایسی کتاب نازل کی ہے جس میں ہر چیز کی وضاحت موجود ہے اور (اس میں) مسلمانوں کے لئے ہدایت، رحمت اور خوشخبری ہے (16:89)
5. قرآن آخری مکمل، کامل کتاب ہے، اس کے الفاظ کو کوئی نہیں بدل سکتا اور اسلام دین کامل ہے (6:115، 5:3)
6. قرآن سے ملنے والا علم وہ حق ہے جس کے مقابلے میں ظن و گمان کوئی حیثیت نہیں رکھتا۔ (النجم 53:28)
7. قرآن ایسا کلام ہے جس میں کوئی ٹیڑھ نہیں جو بالکل سیدھی بات کرنے والا کلام ہے (الکہف 18:1,2)
8. یہی وہ کتاب ہدایت ہے جس کو ترک کر دینے کا مقدمہ روزِ قیامت اللہ تعالیٰ کے حضور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے مخاطبین کے حوالے سے پیش کریں گے۔ (الفرقان25:30)
9. ہر سخت جھوٹے گناہگار کے لیے تباہی ہے جو آیات الہیٰ سنتا ہے جو اس پر پڑھی جاتی ہیں پھر نا حق تکبر کی وجہ سے اصرار کرتا ہے گویاکہ اس نے سنا ہی نہیں پس اسے دردناک عذاب کی خوشخبری دے دو (الجاثية45:7,8)
10.“یہ (قرآن) تو ہدایت ہے اور جو اپنے رب کی آیتوں کے منکر ہیں ان کے لیے سخت دردناک عذاب ہے”(الجاثية45:11)
11. ’’اور تم سب مل کر اللہ کی رسی (قرآن) کو مضبوطی سے تھام لو اور تفرقہ مت ڈالو۔‘‘( آل عمران،3 :103)
12. جسے ہلاک ہونا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ ہلاک ہو اور جسے زندہ رہنا ہے وہ دلیل روشن کے ساتھ زندہ رہے، یقیناً خدا سُننے والا اور جاننے والا ہے (8:42)
13. باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو (2:42)
14. اس سے بڑھ کر ظالم کون ہے جو اللہ تعالٰی پر جھوٹ بولے؟ اور سچا دین جب اس کے پاس آئے تو اسے جھوٹا بتائے؟ کیا ایسے کفار کے لئیے جہنم ٹھکانا نہیں ہے؟ (39:32)
15. اگر تم سچے ہو تو کوئی دلیل تو پیش کرو ۔ (سورة البقرة 2 آیت: 111)
16. اے رسول جو کچھ بھی آپ کی طرف آپ کے رب کی جانب سے نازل کیا گیا ہے پہنچا دیجئے ۔ اگر آپ نے ایسا نہ کیا تو آپ نے اللہ کی رسالت ادا نہیں کی اور آپ کو اللہ تعالٰی لوگوں سے بچا لے گا بے شک اللہ تعالٰی کافر لوگوں کو ہدایت نہیں دیتا(سورة المائدة 5 آیت: 67)
قرآن الله تعالی کی طرف سے آخری کتاب ہدایت ہے جس پر عمل کا بار بار تذکرہ ہوا، مگر الله تعالی نے صرف قرآن کی "آیات محکمات" سے احکام اخذ کرنے کی اجازت دی (آيَاتٌ مُّحْكَمَاتٌ هُنَّ أُمُّ الْكِتَابِ)، وہ آیات جن کا ایک مطلب ہوتا ہے ان کو "ام الکتاب" فرمایا - باقی آیات جن کے ایک سے زیادہ مطلب ہو سکتے ہیں، جن لوگوں کے دل میں ٹیڑھ ہے، جو فتنہ پھیلانا چاہتے ہیں وہ ان آیات کی تاویلوں سے مطلب نکالتے ہیں. اس طرح تاویلات کی بنیاد پر دن اسلام میں نئی نئی باتیں، نظریات و عقائد شامل کرنے کا دروازہ الله تعالی نئے بند فرما دیا (قرآن 3:7)[3]. تاویلات کسی کی ذاتی آراء ہو سکتی ہیں جن کو علم کی بنیاد پر قبول یا رد کیا جاسکتا ہے، ان پر عمل کرنا فرض نہیں- ان تاویلوں کو "ایمان اور اسلام" کی بنیاد میں بطور اراکین شامل نہیں کیا سکتا کیونکہ "ایمان اور اسلام" کی تعریف بر سر عام حضرت جبریل علیہ السلام نے رسول اللہ ﷺ سے مکالمہ کی شکل میں پیش کر دی، حدیث ِجبرائیل کو (اُمّ السنۃ)[4] کہا جاتا ہے- دین اسلام مکمل ہو چکا (قرآن 5:3)[5]. خطبہ حج آلودع پر صحابہ بہت بڑی تعداد میں موجود تھے حضرت علی (رضی الله ) بھی موجود تھے اگر کوئی خاص پیغام یعنی جانشین نامزد کرنا یا وصال کے بعد اہل بیت سے کوئی سلسلہ چلنا تھا تو اس کا اعلان کرنے میں کوئی رکاوٹ نہیں تھی. "غدیرخم[6]" جو کہ عرفات سے 250 کلو میٹر ہے اور اکثر حجاج عرفات سے واپس اپنے اپنے اپنے علاقوں کی طرف روانہ ہو چکے تھے وہاں وہ لوگ جو مدینہ اور اطراف کی طرف جا رہے تھے ان کے سامنے اس قسم کے اعلان کی توقع نہیں ہو سکتی. اس خطاب کی وجہ حضرت علی (رضی الله) کی سخت طبیعت پر ان کی فوج میں پھیلی بے چینی پر ان کی سرزنش کرنا ضروری تھی کہ رسول اللہ ﷺ نے اس خطاب کی ضرورت محسوس کی اور حضرت علی (رضی الله ) کے ساتھ محبت اور یکجہتی کے الفاظ ارشاد فرمایے اور یہ بھی ممکن ہے کہ الله تعالی نے ان کو ان کے اہل بیت پر کربلا میں مظالم سے مطلع کیا ہو اور وہ ان کا خاص خیال رکھنے کی ترغیب بھی دے رہے ہوں (واللہ عالم)- اس میں قرآن اور اہل بیت کو متبادل نہیں کھا گیا نہ کوئی قرآن کا متبادل ہو سکتا ہے، بلکہ قرآن کو پکڑنے (تمسک) اور اہل بیت کے بارے میں اللہ کی یاد دلائی. اب اگران عام قا بل فہم سادہ الفاظ کو توڑ مروڑ کرتاویلوں سے کوئی اور مطلب نکا لے تویہ ( قرآن 3:7) "ام الکتاب" اور "ام السنہ" (حدیث جبریل ) کئی خلاف درزی ہے- اگر کوئی شخص "راسخ" (علم میں رسوخ رکھنے) کا دعویدارہو یا کوئی کسی کو "راسخ" سمجھے تو ہمارے پاس کوئی زریعہ نہیں کہ اس کی تصدیق کر سکیں یہ فرد اور اللہ کا معامله ہے جس کا علم صرف الله تعالی کو ہے- ہم کو قرآن پر عمل پیرا ہونا ہے جس کی "محکم آیات" صاف ظاہر ہیں-
سب سے پہلے یہ ضروری ہے کہ کسی نظریہ یا عقیدہ کی حقیقت کو "الفرقان" (قرآن) کی کسوٹی سے پرکھا جائے.
قرآن کا حکم :
"---- آپ صلی اللہ علیہ وسلم یوں کہہ دیجئے کہ مجھے یہ حق نہیں کہ میں اپنی طرف سے اس (قرآن) میں ترمیم کر دوں بس میں تو اسی کا اتباع کرونگا جو میرے پاس وحی کے ذریعے سے پہنچا ہے اگر میں اپنے رب کی نافرمانی کروں تو میں ایک بڑے دن کے عذاب کا اندیشہ رکھتا ہوں" (قرآن 10:15)[7]
حضرت جابر ؓ راوی ہیں کہ سرکار دو عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا میرا کلام، کلام اللہ کو منسوخ نہیں کرتا اور کلام اللہ میرے کلام کو منسوخ کردیتا ہے ..... (مشکوٰۃ المصابیح : حدیث نمبر: ،190 ،189) ( (سنن دارقطنی:۱؍۱۱۷)
کتاب اللہ کے کسی حکم کو حدیث منسوخ نہیں کر سکتی (امام شافعی)[8]
اللہ تعالی نے اس بات کی وضاحت کر دی ہے کہ اللہ کی کتاب میں دیے گئے حکم کو یہ کتاب ہی منسوخ کر سکتی ہے۔ کتاب اللہ کے کسی حکم کو حدیث منسوخ نہیں کر سکتی کیونکہ وہ کتاب اللہ کے تابع ہے۔ سنت کا دائرہ تو کتاب اللہ کے احکامات کی وضاحت ہی ہے (کتاب الرسالہ از امام محمد بن ادریس شافعی)[9]۔
"اے لوگو جو ایمان لائے ہوئے، اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور اُن لوگوں کی جو تم میں سے صاحب امر ہوں، پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ میں نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روز آخر پر ایمان رکھتے ہو یہی ایک صحیح طریق کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے" (4:59)[10]،[11]
حضرت علی (رضی الله ) کی خلافت پر نامزدگی اور نظریہ امامت جس طرح بیان کیا جاتا ہے قرآن میں کسی "آیت محکمات" سے ثابت نہیں، نہ ہی حدیث جبریل میں شامل ہے جو کہ جبریل اور رسول اللہ ﷺ کے درمیان سر عام مکالمہ کی شکل میں صحابہ نے دیکھا اور سنا. اسی طرح رسول اللہ ﷺ کے بعد کسی کی طرف سے رسولت، نبوت اور وحی کے نزول کا دعوی بھی "آیت محکمات" سے ثابت نہیں بلکہ احادیث و آیات قرآن کی تاویلات سے ماخوز ہے جس پر ایمان رکھنا قرآن کے مطابق نہیں.
حضرت لوط علیہ السلام کی زوجہ[12] (29:32) اور حضرت نوح علیہ السلام کا بیٹا (11:45)[13] رشتے داری کے باوجود غرق ہو گئیے۔ اور فرعون کی صاحب ایمان بیوی[14] نے جنت کی دعا کی (66:11)[15] صرف ایمان اور کردار سے جنت ملتی حصے نہ کہ نسب اور رشتہ داریوں سے.
رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے علی رضی اللہ عنہ کو بعض مسائل کے بارے میں ڈانٹا، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ وہ عیب نہیں تھے۔ صحیحین میں ثابت ہے کہ جب حضرت علی (رضی الله ) نے ابوجہل کی بیٹی سے اس وقت نکاح کرنا چاہا جب ان کی شادی فاطمہ الزھرا (رضی الله ) سے ہو چکی تھی تو آپ (ص) نے ان کو جھڑک دیا اور کہا: بنو المغیرہ نے مجھ سے ان کی بیٹی کو دینے کی اجازت چاہی۔ علی ابن ابی طالب سے نکاحکے لیے، لیکن میں اجازت نہیں دوں گا، پھر میں اجازت نہیں دوں گا، پھر اجازت نہیں دوں گا، جب تک کہ ابو طالب کا بیٹا میری بیٹی کو طلاق دے کر ان کی بیٹی سے شادی نہ کرنا چاہے، کیونکہ فاطمہ رضی اللہ عنہ میرا حصہ؛ جو چیز اسے غمگین کرتی ہے وہ مجھےغغمگین کرتی ہے، اور جو چیز اسے پریشان کرتی ہے وہ مجھے پریشان کرتی ہے۔[16]
اسی طرح رات کو جب وہ ان کے اور فاطمہ (رضی الله ) کے پاس آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ڈانٹا اور ان سے کہا: تم دونوں اٹھ کر نماز کیوں نہیں پڑھتے؟ اور علی رضی اللہ عنہ نے کہا: ہماری جانیں اللہ کے ہاتھ میں ہیں۔ اگر ہمیں جگانا اس کی مرضی تھی، تو وہ ایسا کرتا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی ران پر ہاتھ مارتے ہوئے کہا: ’’لیکن انسان ہر چیز سے زیادہ جھگڑالو ہے‘‘ (الکہف 18:54)[17]
اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وصال کے بعد حضرت علی رضی اللہ عنہ نے فتویٰ دیا کہ اگر عورت کا شوہراس کےحاملہ ہونے کی حالت میں فوت ہو جائے تو وہ عدتکی پابندی کرے۔ دو عدت میں سے زیادہ عدت گزاری، اور اسے یہ معلوم نہ تھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے سبیۃ الاسلمیہ کے لیے فتویٰ دیا ہے کہ اس کے لیے دوبارہ نکاح کرنا جائز ہو گیا ہے۔ جب بچہ کی ولادت ہوئی تو اس کی عدت ختم ہو گئی تھی، اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسنابیل بن بکک رضی اللہ عنہ کو بتایا کہ جب انہوں نے اسے یہ فتویٰ دیا تھا کہ وہ عدت کرے گی تو ان سے غلطی ہوئی تھی۔ دو عدتوں میں سے زیادہ عدت یہ کہتے ہوئے کہ "ابوسنابیل نے جھوٹ بولا"۔
دوسری وجہ عقلی اور حقیقت پسندانہ ہے،کہ رسول اللہ ﷺ نے ایسا نہیں کہا ہو گل جو کہ قرآن کے خلاف ہو- آج کل اہل بیت میں بہت زیادہ اختلاف ہے۔ ان میں سے بعض اہل سنت ہیں، ان میں سے کچھ صوفی ہیں، کچھ زیدی ہیں، کچھ اثتنا اشعری رافضی ہیں، اور کچھ اور ہیں، تو سوال کرنے والا اس قدر کنفیوز کیسے ہو سکتا ہے کہ وہ اہل بیت اور گروہ کے بارے میں ان گروہوں میں سب سے زیادہ بدعت کی طرف مائل ہو۔ کیا یہ ان کے طریقے کے خلاف ہے؟ اور خاندان کے سربراہ (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی شان میں گستاخی کرنا اپنی بیوی اور ان کے سب سے عزیز ترین رشتہ داروں، یعنی ام المومنین پر الزام لگانا سب سے بری بات ہے۔ مومنین عائشہ رضی اللہ عنہا، سے آپ صلی اللہ علیہ وسلم اپنے آخری ایام تک محبت کرتے رہے، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی دوسری ازواج سے اجازت طلب کی کہ جب تک وہ انتقال نہ کر لیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کوان کے حجرہ میں خدمت کی اجازت دیں جب تک آپ کا ان کی گود انتقال ہوا-
اہل بیت کے ائمہ کا متفقہ طور پر اتفاق ہے کہ امامت اور فضیلت کے لحاظ سے ابوبکر و عمر (رضی الله ) کو سبقت حاصل ہے، جب کہ آج رافضی ان سے سب سے زیادہ نفرت کرنے والے ہیں، اللہ نہ کرے۔
مزید یہ کہ ان کا اس حدیث کا مطلب صرف علی ابن ابی طالب رضی اللہ عنہ اور ان کی اولاد میں سے صرف گیارہ حضرت حسین (رضی الله ) کی اولاد تک محدود کرنا صریح غلط تاویل ہے، حالانکہ اس حدیث کا نتیجہ اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ جس حدیث کا حوالہ دیا جا رہا ہے وہ صحیح مسلم میں "دو اہم امور" کی حدیث ہے۔: زید بن ارقم نے حدیث کے آخر میں کہا کہ جب ان سے پوچھا گیا کہ اہل بیت کون ہیں: ان کے اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ ان کے جانے کے بعد حرام ہے۔ یہ علی کا خاندان، عقیل کا خاندان، جعفر کا خاندان اور عباس کا خاندان ہے۔ [شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے منہاج السنۃ النبویہ (7/395)]
حدیث ثقلین کو اہل سنت نے اپنی کتابوں میں نقل کیا ہے اور یہ حدیث ثقلین یا غدیر خم کی حدیث کے نام سے مشہور ہے۔ ٹرانسمیشن کی ایک زنجیر کے ساتھ، اور یہ ان کی انصاف پسندی کی طرف اشارہ کرتا ہے، اور یہ کہ وہ خواہشات کے لوگوں میں سے نہیں ہیں۔[18]
رسول اللہ ﷺ کے اہل بیت کی عزت و تکریم ضروری ہےجبکہ ہر قسم کی اطاعت قرآن پرعمل سے مشروط ہے۔ دیکھا جاتا ہے کہ نام "سید" یا "شاہ صاحب" ہے مگر شراب اور عورتوں کے شوقین، نہ صَلَاة نہ روزہ، ان کی اطاعت کیسے کی جا سکتی ہے؟
اللہ کا فرمان ہے:
وَاَنۡذِرۡ عَشِيۡرَتَكَ الۡاَقۡرَبِيۡنَۙ ۞
اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو ڈراوٴ، (سورۃ نمبر 26 الشعراء،آیت نمبر 214)[19]
یعنی اللہ کے اس بےلاگ دین میں جس طرح نبی کی ذات کے لیے کوئی رعایت نہیں اسی طرح نبی کے خاندان اور اس کے قریب ترین عزیزوں کے لیے بھی کسی رعایت کی گنجائش نہیں ہے۔ یہاں جس کے ساتھ بھی کوئی معاملہ ہے اس کے اوصاف (Merits) کے لحاظ سے ہے۔ کسی کا نسب اور کسی کے ساتھ آدمی کا تعلق کوئی نفع نہیں پہنچا سکتا۔ گمراہی و بد عملی پر اللہ کے عذاب کا خوف سب کے لیے یکساں ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اور سب تو ان چیزوں پر پکڑے جائیں، مگر نبی کے رشتہ دار بچے رہ جائیں۔ اس لیے حکم ہوا کہ اپنے قریب ترین رشتہ داروں کو بھی صاف صاف متنبہ کردو۔ اگر وہ اپنا عقیدہ اور عمل درست نہ رکھیں گے تو یہ بات ان کے کسی کام نہ آسکے گی کہ وہ نبی کے رشتہ دار ہیں۔
معتبر روایات میں آیا ہے کہ اس آیت کے نزول کے بعد نبی ﷺ نے سب سے پہلے اپنے دادا کی اولاد کو خطاب فرمایا اور ایک ایک کو پکار کر صاف صاف کہہ دیا کہ ؛
یا بنی عبد المطلب، یا عباس، یا صفیۃ عمۃ رسول اللہ، یا فاطمۃ بنت محمد، انقذوا انفسکم من النار، فانی لا املک لکم من اللہ شیئاً ، سلونی من مالی ماشئتم۔ "
ترجمہ
اے بنی عبد المطلب، اے عباس، اے صفیہ رسول اللہ کی پھوپھی، اے فاطمہ محمد ﷺ کی بیٹی، تم لوگ آگ کے عذاب سے اپنے آپ کو بچانے کی فکر کرلو، میں اللہ کی پکڑ سے تم کو نہیں بچا سکتا، البتہ میرے مال میں سے تم لوگ جو کچھ چاہو مانگ سکتے ہو "۔
آپ نے فرمایا: " اچھا تو میں خدا کا سخت عذاب آنے سے پہلے تم کو خبردار کرتا ہوں۔ اپنی جانوں کو اس کی پکڑ سے بچانے کی فکر کرو۔ میں اللہ کے مقابلے میں تمہارے کسی کام نہیں آسکتا۔ قیامت میں میرے رشتہ دار صرف متقی ہوں گے۔ ایسا نہ ہو کہ دوسرے لوگ نیک اعمال لے کر آئیں اور تم لوگ دنیا کا وبال سر پر اٹھائے ہوئے آؤ۔ اس وقت تم پکارو گے یا محمد ﷺ ، مگر میں مجبور ہوں گا کہ تمہاری طرف سے منہ پھیر لوں۔ البتہ دنیا میں میرا اور تمہارا خون کا رشتہ ہے اور یہاں میں تمہارے ساتھ ہر طرح کی صلہ رحمی کروں گا "۔ (اس مضمون کی متعدد روایات بخاری، مسلم، مسند احمد، ترمذی، نسائی اور تفسیر ابن جریر میں حضرت عائشہ، حضرت ابوہریرہ، حضرت عبداللہ بن عباس، حضرت زہیر بن عمرو اور حضرت قبیصہ بن مخارق سے مروی ہیں)۔
یہ معاملہ صرف اس حد تک نہ تھا کہ قرآن میں (اَنْذِرْ عَشِیْرَتَکَ الْاَقْرَبِیْنَ ) کا حکم آیا اور حضور ﷺ نے اپنے رشتہ داروں کو جمع کر کے بس اس کی تعمیل کردی۔ دراصل اس میں جو اصول واضح کیا گیا تھا وہ یہ تھا کہ:
دین میں نبی اور اس کے خاندان کے لیے کوئی امتیازی مراعات نہیں ہیں جن سے دوسرے محروم ہوں۔ جو چیز زہر قاتل ہے وہ سب ہی کے لیے قاتل ہے،
نبی کا کام یہ ہے کہ سب سے پہلے اس سے خود بچے اور اپنے قریبی لوگوں کو اس سے ڈرائے، پھر ہر خاص و عام کو متنبہ کر دے کہ جو بھی اس زہر کو کھائے گا، ہلاک ہوجائے گا۔ اور جو چیز نافع ہے وہ سب ہی کے لیے نافع ہے، نبی کا منصب یہ ہے کہ سب سے پہلے اسے خود اختیار کرے اور اپنے عزیزوں کو اس کی تلقین کرے، تاکہ ہر شخص دیکھ لے کہ یہ وعظ و نصیحت دوسروں ہی کے لیے نہیں ہے، بلکہ نبی اپنی دعوت میں مخلص ہے۔ اسی طریقے پر نبی ﷺ زندگی بھر عامل رہے۔
ایک مرتبہ چوری کے جرم میں قریش کی ایک عورت فاطمہ نامی کا ہاتھ کاٹنے کا آپ نے حکم دیا۔ حضرت اسامہ بن زید نے اس کے حق میں سفارش کی۔ اس پر آپ نے فرمایا خدا کی قسم، اگر محمد ﷺ کی بیٹی فاطمہ بھی چوری کرتی تو میں اس کا ہاتھ کاٹ دیتا (ماخوزاز تفہیم القرآن، مولانا سید ابو الاعلیٰ مودودی)
قرآن اور رسول اللہ ﷺ نئے سب مسلمانوں کے لینے تقوی کو میعار قرار دیا، حتی کہ اپنے عزیزوں اور رشتے داروں کو بھی- اہل بیت کی بہت اذیت اور مرتبہ ہے ان کے تقوی اور قرآن پر عمل کی وجہ سے. اب اس پس منظر میں "حدیث ثقلین " کا جائزہ لیتے ہیں-
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیر خم کے مقام پر صحابہ کرام سے خطاب کرتے ہوئے فرمایا اس موضوع پر مختف احادیث ہیں ایک مثال لیتے ہیں: ’’ أَنَا تَارِکٌ فِیکُمْ ثَقَلَینِ: أَوَّلُھُمَا کِتَابُ اللّٰہِ فِیہِ الْھَدْيُ وَالنُّورُ فَخُذُوا بِکِتَابِ اللّٰہِ وَاسْتَمْسِکُوا بِہِ فَحَثَّ عَلٰی کِتَابِ اللّٰہِ وَرَغَّبَ فِیْہِ۔ ثُمَّ قَالَ: وَأَھْلُ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي اُذَکِّرُکُمُ اللّٰہَ فِي أَھْلِ بَیْتِي‘‘
''میں تم میں دو ثقل چھوڑے جارہا ہوں: ان میں سے پہلا ثقل اللہ کی کتاب ہے۔ اس ثقل میں ہدایت اور نور ہے پس تم کتاب اللہ کو پکڑ لو اور اس کے ساتھ مضبوطی اختیار کرو۔''
[رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کتاب اللہ پر عمل کے حوالے سے لوگوں کو ابھارا اور ترغیب دلائی (بِکِتَابِ اللّٰہِ وَاسْتَمْسِکُو)۔]
اس کے بعد آپﷺ نے فرمایا: ''اور (دوسرا ثقل) میرے اہل بیت ہیں۔ میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، یعنی اللہ سے ڈراتا ہوں۔'' (صحیح مسلم: 2408)
[ایک دوسری روایت میں کتاب اللہ کے ساتھ'عِتْرَتِي' کے الفاظ ہیں۔ عترتی سے مراد بھی اہل بیت ہی ہیں۔ (مسند احمد: ۳/۱۴)]
یہ روایت مختف مواقع پرروایت ہے ، جیسے عرفات (ترمذی، 5:328)، غدیر خم (نسائی، 96:79)۔ البتہ غدیر خم میں یہ روایت زیادہ مشہور ہوئی۔ اس کے علاوہ اس روایت کو 35 سے زائد صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے سو سے زائد چینلز کے ذریعے منتقل کیا ہے۔
زید بن ارقان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب حج سے واپس آ رہے تھے تو غدیر الخم میں رکے اور فرمایا: مجھے (خدا کی طرف سے) بلایا جائے گا اور میں اس کی پکار پر لبیک کہوں گا، میں جا رہا ہوں۔ تم دو وزنی چیزیں: ان میں سے ایک الله کی کتاب دوسری سے بڑی ہے، اور میرے اہل بیت سے خبردار رہو کہ تم میرے بعد ان کے ساتھ کیا سلوک کرو گے، کیونکہ وہ ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوں گے جب تک کہ تم میرے ساتھ نہ مل جاؤ فیصلے کے دن۔ (مستدرک، 3:109، المسلم، 15:180، مسند، 4:367 وغیرہ)
اس سے یہ استدلال کہ "جس طرح کتاب اللہ کو مضبوطی سے تھامنے کا حکم ہے اسی طرح اہل بیت کی اتباع و پیروی بھی لازمی اور ضروری ہے۔ اہل بیت میں سے جو بھی شخص جو بھی بات کہے اس کو ماننا اور اس پر عمل کرنا ضروری ہے"-
مذکورہ حدیث سے جن حضرات نے جو استدلال لیا ہے وہ شرعی نصوص کے خلاف ہے۔ جب ہم اس حدیث کے مختلف طرق دیکھتے ہیں اور حدیث کے الفاظ پر غور کرتے ہیں تو بات بالکل واضح ہوجاتی ہے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے "تمسّک" کا لفظ کتاب اللہ کے ساتھ ذکر کیا ہے اور اہل بیت کے بارے میں صرف ان کی عزت و توقیر اور ان کے ساتھ محبت کرنے کی وصیت کی ہے [ فرمایا اور میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہلِ بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، میں اپنے اہل بیت کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں، یعنی اللہ سے ڈراتا ہوں۔']
حضرت علی (رضی الله) ایک بہادر ، نڈر اور حق پرست صحابی تھے جن سے بزدلی، موقع پرستی اوررسول اللہﷺ کی نافرمانی کی توقع نہیں کی جاسکتی- حدیث ثقلین کی بنیاد پر تاویلات سے بعد میں جو نظریات و عقائد قائم ہوئے اہم بات کہ کہ کیا حضرت علی (رضی الله ) نے ااس کی بنیاد پر رسول اللہ ﷺ کی رحلت کے بعد خلافت پر حق کا دعوی کیا؟
کیا صحابہ کرام جن حضرت علی (رضی الله ) سے ہمدردی رکھنے والے مشہور صحابہ شامل ہیں، جنہوں نے "غدیرخم" کا خطاب سنا، کیا انہوں نے حضرت علی (رضی الله ) کی رسول اللہ ﷺ کی طرف سے خلافت کی مبینہ نامزدگی یا وصیت کی بنیاد پر ان کی خلافت کا دعوی کیا؟
اگر نہیں تو یہ صاف ظاہر ہے کہ اس مطلب وہی ہے جو حدیث میں بیان ہے کہ: " میں اپنے اہلِ بیت[20] کے بارے میں تمھیں اللہ یاد دلاتا ہوں" (یعنی اہل بیت کا خیال رکھا جایے). اس کا وہ مطلب نہیں جو بعد میں احادیث کی تاویلات سے بنایا گیا.
رسول اللہ ﷺ ںے فرمایا :
’’ تَرَکْتُ فِیکُمْ أَمْرَینِ لَنْ تَضِلُّوا مَاتَمَسَّکْتُمْ بِھِمَا: کِتَابُ اللّٰہِ وَسُنَّۃِ نَبِیِّہٖ‘‘ (موطا امام مالک: 899/2)
''میں تم میں دو چیزیں چھوڑے جارہا ہوں، جب تک تم انھیں تھامے رکھوگے گمراہ نہیں ہوگے، وہ دو چیزیں کتاب اللہ اور اس کے رسول کی سنت ہے۔''
’’ فَعَلَیْکُمْ بِسُنَّتِي وَسُنَّۃِ الْخُلَفَائِ الرَّاشِدِینَ ‘‘ (سنن ابن ماجہ: 42)
''(فتنوں کے دور میں) تم میرے اور میرے صحابہ کرام کے طریقے کو مضبوطی سے تھامے رکھنا۔''
رسول اللہﷺ کی حدیث :
''راہ حق پر چلنے والے لوگ وہ ہوں گے جو میرے راستے پر اور میرے صحابہ کرام کے راستے پر چلنے والے ہوں گے۔''(جامع الترمذی: 2641)
یہ بات بھی یاد رہے کہ خلفائے راشدین کے طریقے کو لازم پکڑنے کے بارے محدثین علمائے کرام کا منہج یہ ہے کہ ان کی اتباع صرف اسی معاملے میں کی جائے گی جو نبیﷺ کی سنت کی مطابقت میں ہوگا یا پھر آپﷺ کی سنت کی مخالفت میں نہیں ہوگا۔
اسی طرح اہل بیت کی اطاعت بھی اسی منہج کے مطابق کی جائے گی۔ اگر ہر معاملے میں اہل بیت کی اطاعت واجب ہے تو پھر خلفائے راشدین کی اطاعت تو بالاولیٰ واجب ہے، اس لیے کہ خلفائے راشدین کے ذکر کے ساتھ تو رسول اللہﷺ نے سنت کا لفظ بھی ذکر کیا ہے جو اہل بیت کے ذکر کے ساتھ منقول نہیں ہے۔ اس لیے ان پر یہ بھی لازم ہے کہ وہ خلفائے راشدین کو طعن و تشنیع کا نشانہ بنانے کے بجائے ان کی عزت و توقیر کریں اور ان کے طریقے کے مطابق زندگی گزاریں۔
امام مناویؒ حدیث کے الفاظ (عِتْرَتِي اَھْلِ بَیْتِي) کے ذیل میں لکھتے ہیں: ''رسول اللہﷺ کی ان الفاظ سے مراد یہ ہے کہ اگر تم کتاب اللہ کے اوامر کی پیروی کرو، اس کی نواہی سے اجتناب کرو اور میرے اہل بیت کے طریقے سے رہنمائی لو اور ان کی سیرت کی اقتداء کرو تو تم ہدایت پاجائو گے اور گمراہ نہیں ہوگے۔'' (فیض القدیر للمناوي: 36/11)
یعنی اوامر و نواہی میں اطاعت صرف کتاب اللہ کی ہے۔ اہل بیت کے طریقے سے صرف راہنمائی لی جائے گی تاکہ کتاب و سنت کا جو فہم ہے اسے صحیح طرح سے سمجھا جاسکے۔ واللہ اعلم
لفظ ''عترتی'' سے مراد تمام اہل بیت ہیں؟
امام حکیمؒ فرماتے ہیں: ''عترتی'' سے مراد باعمل علماء ہیں، اس لیے کہ وہ قرآن سے جدائی اختیار نہیں کرتے۔ باقی رہے وہ لوگ جو جاہل ہیں یا علمائے سوء ہیں تو وہ اس مقام افضلیت سے بہت دور ہیں۔ اصل چیز تو یہ دیکھی جاتی ہے کہ کون ساشخص اچھے خصائل سے آراستہ ہے اور اپنے آپ کو برے اخلاق سے بچائے ہوئے ہے۔ علم نافع اہل بیت کے علاوہ اگر کسی اور کے پاس ہو اور چاہے وہ کوئی بھی ہو اس کی اتباع کرنا بھی ہم پر لازم ہے۔ (فتاویٰ الشبکۃ الاسلامیہ: 2984/5)
امام طحاویؒ فرماتے ہیں: عترۃ سے مراد نبیﷺ کے اہل بیت میں سے وہ لوگ ہیں جو آپﷺ کے دین پر قائم ہیں اور آپﷺ کے اوامر کو مضبوطی سے تھامے ہوئے ہیں۔ (فتاویٰ یسألونک: 164/2)
ملاعلی القاریؒ لکھتے ہیں: ''عترۃ سے مراد اہل بیت میں سے وہ لوگ ہیں جو اہل علم ہیں، آپﷺ کی سیرت پر مطلع ہیں، آپ ﷺ کے طریقے سے واقف ہیں اور آپﷺ کے اوامر اور سنت کو جانتے ہیں۔'' (فتاویٰ یسألونک: 164/2)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ جن اہل بیت کی اطاعت کی جائے گی ان سے مراد وہ اہل بیت ہیں جو اہل علم ہیں اور نبیﷺ کے طریقے پر مضبوطی سے کاربند ہیں۔ اگر کسی شخص کا نسب نامہ اہل بیت سے تو جاملتا ہے مگر وہ بدعات و خرافات میں لت پت ہے تو اس کی اطاعت تو کجا ان بدعات و خرافات کی بناپر اس سے بیزاری کا اعلان بھی کیاجائے گا۔
مجھے اپنی امت کی بابت دجال سے بھی زیادہ ایک چیز کا ڈر ہے گمراہ اماموں کا!
سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ چل رہا تھا- آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا :
مجھے اپنی امت کی بابت دجال سے بھی زیادہ ایک چیز کا ڈر ہے. آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے تین بار یہی بات ارشاد فرمائی- سیدنا ابور ذر رضی اللہ تعالٰی عنہ کہتے ہیں- میں نے پوچھا : اے اللہ کے رسول ! صلی اللہ علیہ وسلم آپ کو اپنی امت کی بابت دجال سے بھی زیادہ کس چیز کا خوف ہے- فرمایا : گمراہ اماموں کا
[البانی رحمہ اللہ ،'' سلسلة الأحاديث الصحيحة " (1582) ، (1989)''بيان تلبيس الجهمية " (2/293) ] [الراوي : أبو ذر الغفاري | المحدث : الهيثمي | المصدر : مجمع الزوائد، الصفحة أو الرقم: 5/2411 ]
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا : '' میں اپنی امت پر گمراہ کن اماموں سے ڈرتا ہوں '' [ الترمذي،2229 صحیح]
۱؎ ، نیز فرمایا : '' میری امت کی ایک جماعت ہمیشہ حق پر غالب رہے گی ، ان کی مدد نہ کرنے والے انہیں کوئی نقصان نہیں پہنچا سکیں گے یہاں تک کہ اللہ کا حکم (قیامت) آجائے ''۔ [امام ترمذی کہتے ہیں : ۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے]
آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ” مجھے اپنی امت پر گمراہ اماموں کا خوف ہے ۔ ''[سنن أبي داؤد 4252 ماخوز][23]
صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا : " مجھے تم لوگوں (حاضرین ) پر دجال کے علاوہ دیگر (جہنم کی طرف بلانے والوں ) کا زیادہ خوف ہے اگر وہ نکلتا ہے اور میں تمھارے درمیان موجود ہوں تو تمھاری طرف سے اس کے خلاف (اس کی تکذیب کے لیے ) دلائل دینے والا میں ہوں گا اور اگر وہ نکلا اور میں موجود نہ ہوا تو ہر آدمی اپنی طرف سے حجت قائم کرنے والا خود ہو گا اور اللہ ہر مسلمان پر میرا خلیفہ (خود نگہبان ) ہوگا ۔ [صحيح مسلم 7373 ماخوز][24]
نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سچ فرمایا :"میں اپنی امت پر گمراہ کن اماموں سے ڈرتاہوں"- دوسرے فرقوں کے بانی جن کی وجہ سے امت تفرقہ کا شکار ہوئی. گمراہ آئمہ سے مراد وہ لوگ ہیں جو دین کے نام پر لوگوں کی قیادت کرتے ہیں، اس میں فاسد حکام اور گمراہ علماء شامل ہیں. ان کا دعوی یہ ہوتا ہے کہ وہ شریعت کی طرف بلارہے ہیں حقیقت میں شریعت کے سب سے زیادہ مخالف ہوتے ہیں [القول المفيد على كتاب التوحيد " (1/365)]
گمراہ امام یعنی شر کے امام [شيخ ابن عثيمين رحمه الله ]
گمراہ اماموں سے امراء مراد ہیں " مجموع الفتاوى" (1/355) .
( گمراہ امام ) یعنی جو مخلوق کو بدعت کی طرف بلائیں " [سندي نے " حاشية ابن ماجة " (2/465)]
نبیﷺ کے ایک ادنیٰ سے ادنیٰ صحابی سے محبت بھی ان کے لیے ایمان کی طرح ہے۔ افضل الامّہ سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ سے لے کر ایک عام صحابی تک سب سے محبت کرنا ہم پر فرض ہے۔ البتہ صحابہ و صحابیات میں سے بعض شخصیات ایسی ہیں جو بہت زیادہ محبت کی مستحق ہیں۔ جس طرح ایک شخص محبت تو اپنے سب رشتے داروں سے کرتا ہے مگر بعض سے کچھ زیادہ ہی محبت ہوتی ہے۔ اسی طرح ہمیں محبت تو تمام صحابہ کرام سے ہے مگر نبیﷺ کی اہل بیت کے بارے میں خاص وصیت کی بنا پر وہ ہماری بہت زیادہ محبت کے مستحق ہیں۔
امام قرطبیؒ فرماتے ہیں: ''رسول اللہ ﷺ نے بڑی تاکید کے ساتھ یہ وصیت فرمائی ہے۔ یہ تاکید اس بات کا تقاضا کرتی ہے کہ آپ کے اہل بیت کی عزت و توقیر کی جائے، ان کا احترام بجالایا جائے اور ان کے ساتھ دلی محبت کی جائے۔'' (حدیث الثقلین وفقھہ للدکتور علی السالوس: 25/1)
اہل بیت کون...؟
درج بالا حدیث کے ذیل میں اس بات کی وضاحت بھی فائدے سے خالی نہیں کہ اہل بیت میں کون کون سے افراد آتے ہیں۔
قرآن کے مطابق اہل بیت گھروالے ہیں یعنی بیویاں. حضرت سارہ کو جب فرشتہ نے بیٹے کی خوشخبری دی تو ان کے حیرانی پر ان کو اہل بیت (أَهْلَ الْبَيْتِ) سے مخاطب کیا- (قرآن 11:73)[25]
ایک گروہ کا موقف یہ ہے کہ سورۃ الاحزاب کی آیت: {اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} سے مراد صرف سیدنا علی، فاطمہ اور حسن و حسین رضی اللہ عنہم ہیں۔ وہ ازواج مطہرات کو اہل بیت میں شمار نہیں کرتے۔ ان کا یہ موقف کئی وجوہ کی بنا پر غلط ہے۔
اگر آیت کا سیاق و سباق دیکھ لیا جائے تو یہ بات باآسانی سمجھ آجاتی ہے کہ اس آیت کا اصل مصداق ازواجِ مطہرات ہی ہیں۔ اسی طرح قرآن وحدیث کے بہت سارے دلائل بھی اس پر دلالت کرتے ہیں۔
نبیﷺ نے ایک دن سیدنا علی و فاطمہ اور حسن و حسین کو اپنے اوپر لی ہوئی چادر میں لیا اور اس آیت کی تلاوت فرمائی: {اِنَّمَا یُرِیْدُ اللّٰہُ لِیُذْھِبَ عَنْکُمُ الرِّجْسَ اَھْلَ الْبَیْتِ وَیُطَھِّرَکُمْ تَطْھِیْرًا} ''اے اہل بیت! اللہ تعالیٰ یہ چاہتا ہے کہ تم سے غلاظت کو دور کردے اور تمھیں بالکل پاک و صاف کردے۔'' (صحیح مسلم: 2424)
کچھ کا استدلال یہ ہے کہ نبیﷺ نے صرف ان چاروں کو چادر میں داخل فرمایا اور پھر اس آیت کی تلاوت فرمائی۔ اگر کوئی اور بھی اہل بیت میں شامل ہوتا تو نبیﷺ اس کو بھی چادر میں داخل کرتے۔ یہ استدلال دلائل سے عاری اور بالکل بے معنی ہے۔ جب ہم اس حدیث کے مختلف طرق دیکھتے ہیں تو یہ بات واضح ہوتی ہے کہ اس موقع پر سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کے سوال کرنے پر آپﷺ نے فرمایا تھا کہ تم تو اہل بیت ہو ہی البتہ یہ بھی اہل بیت میں سے ہیں۔ (المستدرک للحاکم: 278/3)
خلاصہ کلام یہ ہے کہ اہل بیت میں اصل ازواجِ مطہرات ہیں۔ اسی طرح اہل بیت میں وہ تمام لوگ بھی ہیں جن کے لیے صدقے کا مال حلال نہیں۔ واللہ اعلم
آج کل ہم دیکھتے ہیں کہ لوگ اہل بیت کے ساتھ محبت کا دعویٰ کرنے کے ساتھ ساتھ اپنا نسب بھی ان کے ساتھ جوڑنے کی کوشش کرتے ہیں۔ ان کا اہل بیت کے ساتھ دور کا بھی تعلق نہیں ہوتا مگر وہ اپنے آپ کو ''سید'' کہلوانا شروع کردیتے ہیں۔ سید کہلوانے کا عام سا مطلب یہ ہوتا ہے کہ ان کا تعلق بھی اہل بیت کے ساتھ ہے۔ یہ بات ذہن میں رہے کہ اہل بیت سے نہ تو محض دعویٰ محبت سود مند ہے اور نہ ہی زبردستی ان کے ساتھ تعلق جوڑنا کچھ فائدہ دے گا۔ بلکہ یہ محبت اسی وقت فائدہ دے گی جب ان سے حقیقی محبت ہوگی اور شرعی دلائل کی روشنی میں ان کے نقشِ قدم پر چلا جائے گا۔ رسول اللہﷺ کا فرمان ہے: (مَنْ بَطَّأَ بِہِ عَمَلُہُ لَمْ یُسْرِعْ بِہِ نَسَبُہُ) ''جس شخص کے عمل نے اسے پیچھے چھوڑ دیا اس کا نسب اسے آگے نہیں پہنچاسکے گا۔'' (صحیح مسلم: 2699)
یعنی کامیاب ہونے کے لیے عمل صالح کا ہونا ضروری ہے۔ ایسا عمل جو قرآن کے مطابق ہو نہ کہ اپنی خواہشات پر مبنی ہو-
دعوی کیا جاتا ہے غدیر خم کے دن ہزاروں صحابہ کرام وہاں موجود تھے جنہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد علی رضی اللہ عنہ کی خلافت کی وصیت براہ راست سنی تھی ، تو ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ ان ہزاروں صحابہ کرام میں سے ایک صحابی بھی علی رضی اللہ عنہ کی طرفداری کے لیے کیوں نہیں کھڑا ہوا؟۔ حتی کہ عمار بن یاسر، مقداد بن عمرو اور سلمان فارسی رضی اللہ عنہم بھی خلیفہ وقت ابوبکر رضی اللہ عنہ کی خدمت میں استغاثہ لے کر کیوں نہیں آئے کہ آپ نے علی رضی اللہ کی خلافت کا حق غصب کیا؟ جبکہ آپ کو پتا ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے غدیرخم کے دن کیا وصیت فرمائی تھی یا کیا تحریر لکھوائی تھی۔ علی رضی اللہ عنہ تو بڑے بے باک صحابی تھے جنہیں اللہ کے علاوہ کسی اور کا خوف نہ تھا اور نہ ہی وہ کسی سے دب کر بات کرنے کے عادی تھے اور انہیں پتا تھا کہ حق بات پر سکوت اختیار کرنے والا گونگا شیطان کہلاتا ہے۔
اگر علی رضی اللہ عنہ کو اس بات کا علم تھا کہ وہ نص قطعی کی بنیاد پر اللہ تعالی کی طرف سے خلیفہ متعین ہیں تو انہوں نے ابوبکر، عمر اور عثمان رضی اللہ عنہم اجمعین کے ہاتھوں بیعت خلافت کیوں کی؟
اگریہ کہیں کہ وہ مجبور تھے، تو عاجز اور مجبور شخص خلافت کے لیے کیونکر موزوں ہوسکتا ہے؟
کیونکہ خلافت اسی کے لائق ہے جو خلافت کے بوجھ اور ذمہ داریوں کو اپنے کاندھوں پر اُٹھا سکتا ہے۔ اور اگر یہ کہیں کہ وہ خلافت کے بوجھ اُٹھانے کی استطاعت رکھتے تھے لیکن انہوں نے جان بوجھ کر ایسا نہیں کیا تو یہ قول خیانت ہے اور خائن کو امامت کے منصب پر فائز نہیں کیا جاسکتا اور نہ ہی رعایا کے بارے میں اس پر اعتماد اور بھروسہ کیا جاسکتا ہے۔
جب کہ ہمارا یقین ہے کہ حضرت علی رضی اللہ عنہ کی ذات ان تمام عیوب سے منزہ اور مبرا ہے۔
امام حسن اور امام حسین (رضی الله) کی متضاد حکمت عملی، دونوں درست نہیں ہو سکتیں؟ اس سوال کا کوئی جواب نہیں ہے کیونکہ اگر وہ یہ کہیں کہ حسنین رضی اللہ عنہما دونوں ہی حق پر تھے تو انہوں نے اجتماع ضدین کا ارتکاب کیا۔ اور اگر ایک درست ہے تو پھر دوسرے کی امامت پر حرف آتا ہے- 7227 Character)
علی رضی اللہ عنہ نے مسند خلافت پر متمکن ہونے کے بعد اپنے پیش رو خلفائے راشدین رضی اللہ عنہم اجمعین ہی کا راستہ اختیار کیا بلکہ آپ رضی اللہ عنہ منبر خلافت سے برابر یہی کلمات دہراتے "خیر ھذہ الامۃ بعدنبیھا ابوبکر وعمر"
"اس اُمت میں نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد افضل ترین ابوبکر اور عمر ہیں"
لطف کی بات یہ ہے کہ علی رضی اللہ عنہ نےحج تمتع نہیں فرمایا، اور فدک کا مال بھی نہیں حاصل کیا ایام حج میں لوگوں پر متعہ واجب نہیں کیا اور نہ ہی اذان میں "حی علی خیر العمل" کے کلمہ کو رواج دیا اور نہ اذان سے "الصلاۃ خیر من النوم" کا جملہ حذف کیا۔
اگر شیخین رضی اللہ عنہما کافر ہوتے اور انہوں نے علی رضی اللہ عنہ سے خلافت زبردستی غصب کی ہوتی تو اس چیز کو علی رضی اللہ عنہ نے کھول کر بیان کیوں نہیں کیا؟ جبکہ حکومت کی باگ ڈور ان کے ہاتھ میں تھی۔ بلکہ زمینی حقائق سے علی رضی اللہ عنہ کا ذاتی عمل اس کے برعکس نظر آتا ہے کہ انہوں نے شیخین {ابوبکر و عمر} کی تعریف کی ہے اور دل کھول کر ان کی مدح سرائی کی ہے۔
کچھ لوگوں نے غدیر خم کے واقعہ کو سیاق و سباق سے ہٹ کر پیش کیا ہے۔ غدیر خم کی حدیث کا امامت یا خلافت سے قطعاً کوئی تعلق نہیں ہے اور اگر ایسا ہوتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو واضح طور پر یہ بیان کرنے سے کوئی چیز نہیں روکتی تھی کہ بجائے اس کے کہ لفظ "مولا" استعمال کیا جائے جسے ہر کوئی جانتا ہے۔ مطلب "پیارے دوست"۔ مزید برآں، اور اس نکتے پر کافی زور نہیں دیا جا سکتا، غدیر خم[26] مکہ سے 250 کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ہے: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو نامزد کرنے کا ارادہ کیا ہوتا تو آپ بڑے اجتماع میں ایسا کرتے۔ عرفات کی چوٹی پر اپنے الوداعی خطبہ کے دوران ہر شہر کے تمام مسلمانوں کے سامنے۔
پورا بیانیہ اس آسانی سے قابل تردید خیال پر مبنی ہے کہ "غدیر خم" ایک مرکزی مقام تھا جہاں تمام مسلمان علیحدگی اور اپنے اپنے گھروں کو جانے سے پہلے اکٹھے ہوتے تھے۔ درحقیقت صرف مدینہ کی طرف جانے والے مسلمان ہی غدیر خم سے گزریں گے، نہ کہ مکہ، طائف، یمن وغیرہ میں رہنے والے مسلمان۔ چند سو سال پہلے عوام کو آسانی سے گمراہ کیا جا سکتا تھا کیونکہ غدیر خم کہاں ہے یہ معلوم کرنے کے لیے نقشے کی دستیابی آسان نہ تھی اور انھوں نے محض اس تصور کو قبول کیا ہوگا کہ یہ مسلمانوں کے الگ ہونے سے پہلے ان کے لیے ملاقات کی جگہ تھی۔ لیکن آج انفارمیشن اور ٹیکنالوجی کے دور میں درست نقشے ہماری انگلیوں پر ہیں اور کسی بھی معقول شخص کو احمق نہیں بنایا جا سکتا۔
رسول اللہ ( صلی اللہ علیہ وسلم ) نے علی (رضی اللہ عنہ ) کو غدیر خم میں شیعہ نامزد نہیں کیا تھا (اور نہ ہو سکتا تھا )۔ یہی تفرقہ کی بنیاد ہے: اگر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے علی رضی اللہ عنہ کو خلیفہ کے لیے نامزد نہ کیا تو پھر مزید دعویٰ نہیں کیا جا سکتا کہ ابوبکر (رضی اللہ عنہ ) نے علی (رضی اللہ عنہ) کے خدائی طور پر طے شدہ عہدہ کو غصب کیا ۔ یہ سب کچھ "غدیر خم" کو مکہ سے الگ کرنے اور حقیقت سے الگ کرنے کے لیے 250 کلومیٹر کی وجہ سے ہے-
یہ حقیقت سب کو معلوم ہے کہ نہ حضرت علیؓ نے یہ بات (مولا ) خلافت حاصل کرنے کے لینےکہی اور نہ کسی اور نے، سب حضرات نے حضرت ابوبکر صدیقؓ کو آنحضرت ﷺ کا خلیفہ اور جانشین تسلیم کر کے بیعت کر لی۔
بلکہ واقعہ یہ ہے کہ اگر یہ بات مان لی جائے کہ حضورﷺ نے غدیر خم کے اس خطبہ میں "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" فرما کر حضرت علی مرتضیٰؓ کی خلافت و جانشینی صاف صاف اعلان فرمایا تھا تو معاذ اللہ حضرت علی ؓ سب سے بڑے مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے حضور ﷺ کی وصال کے بعد اس کی بنیاد پر خلافت کا دعویٰ کیوں نہیں فرمایا؟
ان کا فرض تھا کہ حضور ﷺ کی اس تجویز کی تنقید اور اس فرمان و اعلان کو عمل میں لانے کے لئے میدان میں آتے اگر کوئی خطرہ تھا تو اس کا مقابلہ فرماتے۔( 5410)
حضرت حسن ؓ کے پوتے حسن مثلث[27] (حضرت ابو علی حسن مثلث بن حسن مثنی بن حسن سبط بن علی بن ابی طالب ہاشمی قریشی (77ھ – 145ھ) نے ایک شخص کے جواب میں فرمائی تھی جو حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں مختلف عقیدہ رکھتا تھا اور حضور ﷺ کے ارشاد (من کنت مولاہ فعلی مولاہ) کے بارے میں کہتا تھا کہ اس ارشاد کے ذریعہ آنحضرتﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ نامزد فرمایا تھا، تو حضرت حسن مثلث نے اس شخص سے فرمایا تھا:
ولو كان الامر كما تقولون ان الله جل وعلى ورسوله صلى الله عليه وسلم اختار عليا لهذا الامر والقيام على الناس بعده فان عليا اعظم الناس خطيئة وجر ما اذ ترك امر رسول الله صلى الله عليه وسلم۔
ترجمہ:
اگر بات وہ ہو جو تم لوگ کہتے ہو کہ اللہ تعالیٰ نے اور اس کے رسول علیہ الصلوٰۃ والسلام نے علیؓ کو رسول کے بعد خلافت کے لئے منتخب اور نامزد فرما دیا تھا تو علیؓ سب سے زیادہ خطاکار اور مجرم ٹھہریں گے کہ انہوں نے رسول اللہ ﷺ کے حکم کی تعمیل نہیں کی۔ اور جب اس شخص نے حضرت حسن مثلث رح سے یہ بات سن کر اپنے عقیدہ کی دلیل میں رسول اللہ ﷺ کے ارشاد "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ" کا حوالہ دیا تو حضرت حسن مثلث رح نے فرمایا:
"اما و الله لو" يعني رسول الله صلى الله عليه و سلم بذالك الامر و السلطان و القيام على الناس لا فصح به كما افصح بالصلاة و الزكاة و الصيام و الحج ولقال ايها الناس ان هذا الولي بعدي اسمعوا واطيعوا.
ترجمہ : سن لو! میں اللہ کی قسم کھا کے کہتا ہوں کہ اگر رسول اللہ ﷺ کا مقصد علی مرتضیٰؓ کو خلیفہ اور حاکم بنانا ہوتا تو بات آپ ﷺ اسی طرح صراحت اور وضاحت سے فرماتے جس طرح آپ ﷺ نے نماز، زکوٰۃ، روزوں اور حج کے بارے میں صراحت اور وضاحت سے فرمایا ہے اور صاف صاف یوں فرماتے کہ اے لوگو! یہ علی میرے بعد ولی الامر اور حاکم ہوں گے لہٰذا تم ان کی بات سننا اور اطاعت و فرمانبرداری کرنا۔[28]
حضرت ابو علی حسن مثلث بن حسن مثنی بن حسن سبط بن علی بن ابی طالب ہاشمی قریشی (77ھ – 145ھ) کا فرمان، (قرآن 3:7)[29] کے عین مطابق ہے، احکام، ذو معنی الفاظ احادیث سے نہیں، قرآن میں واضح ترین الفاظ میں دیے جاتے ہیں، رسول اللہ ﷺ ان کی تفصیل بتلاتے ہیں تاکہ کسی قسم کا شک و شبہ نہ رہ جاینے- احکام پرعمل کرنے یا نہ کرنے پر جنت و دوذخ کا فیصلہ ہونا ہے یہ دو ٹوک ہوتے ہیں- جو کوئی (قرآن 3:7) کو نظر انداز کرے گا وہ گمراہی سے بچ نہیں سکتا، تمام فرقے، تمام بدعة ، ضلالہ ، فتنہ کی جڑ (قرآن 3:7) کو نظر انداز کرکہ اپنی تاویلات کرنا ہے-
حضرت علیؓ سے مروی ایک طویل حدیث میں نبی کریم نے ارشاد فرمایا:
’’جو شخص غیر قرآن میں ہدایت کا متلاشی ہوگا اللہ اس کو گمراہ کردے گا، وہ (قرآن) اللہ تعالیٰ کی ایک مضبوط رسی ہے اور وہ ایک محکم اور مضبوط ذکر ہے اور وہ ایک سیدھا راستہ ہے …‘‘(ترمذی 2906)
امامت کا عقیده قرآن میں موجود نہیں- (5771)
اس کے بعد یہ بات وضاھت طلب رہ جاتی ہے کہ پھر رسول اللہ ﷺ کا مقصد اس ارشاد سے کیا تھا اور حضرت علی مرتضیٰؓ کے بارے میں اسخطاب میں آپ ﷺ نے یہ بات کس خاص وجہ سے اور کس غرض سے فرمائی؟
اصل واقعہ یہ ہے کہ آنحضرت ﷺ نے حجۃ الوداع سے کچھ عرصہ پہلے حضرت علی مرتضیٰؓ کو قریبا تین سو افراد کی جمیعت کے ساتھ یمن بھیج دیا تھا، وہ حجۃ الوداع میں یمن سے مکہ مکرمہ آ کر ہی رسول اللہ ﷺ سے ملے تھے، یمن کے زمانہ قیام میں ان کے چند ساتھیوں کو ان کے بعض اقدامات سے اختلاف ہوا تھا، وہ لوگ بھی حجۃ الوداع میں شرکت کے لئے ان کے ساتھ ہی مکہ مکرمہ آئے تھے، یہاں آ کر ان میں سے بعض لوگوں نے رسول اللہ ﷺ سے بھی اپنے احساس و خیال کے مطابق حضرت علیؓ کی شکایت کی اور دوسرے لوگوں نے بھی ذکر کر دیا ..... بلا شبہ یہ ان کی بہت بڑی غلطی تھی۔ آنحضرت ﷺ سے جن لوگوں نے شکایت کی، رسول اللہ ﷺ نے حضرت علی مرتضیٰؓ کا عنداللہ اور دین میں جو مقام و مرتبہ ہ ان کو بتلا کر اور ان کے اقدامات کی تصویب اور توثیق فرما کر ان کے خیالات کی اصلاح فرما دی، لیکن بات دوسرے لوگوں تک بھی پہنچ چکی تھی، شیطان ایسے موقعوں سے فائدہ اٹھا کر دلوں میں کدورت اور افتراق پیدا کر دیتا ہے۔
آنحضرت ﷺ کو جب اس صورت حال کا علم ہوا تو آپ ﷺ نے ضرورت محسوس فرمائی کہ حضرت علی مرتضیٰؓ کو اللہ تعالیٰ کی طرف سے محبوبیت اور مقبولیت کا جو مقام حاصل ہے اس سے عام لوگوں کو آگاہ فرما دیں اور اس کے اظہار و اعلان کا اہتمام فرمائیں .... اسی مقصد سے آپ ﷺ نے غدیر خم کے اس خطبہ میں جس کے لئے آپ ﷺ نے اپنے رفقاء سفر صحابہ کرامؓ کو جمع فرما دیا تھا، خاص اہتمام سے حضرت علیؓ کا ہاتھ اپنے دست مبارک میں لے کر ارشاد فرمایا تھا:
"مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ، اللَّهُمَّ وَالِ مَنْ وَالَاهُ، وَعَادِ مَنْ عَادَاهُ" جیسا کہ تفصیل سے اوپر ذکر کیا جا چکا ہے آنحضرت ﷺ کے اس ارشاد کا مطلب یہی ہے کہ "میں جس کا محبوب ہوں یہ علیؓ بھی اس کے محبوب ہیں لہذا جو مجھ سے محبت کرے اس کو چاہئے وہ ان علی سے بھی محبت کرے"،
آگے آپ ﷺ نے دعا فرمائی، اے اللہ جو بندہ علی سے محبت و موالاۃ کا تعلق رکھے اس سے تو محبت و موالاۃ کا معاملہ فرما اور جو کوئی علی سے عداوت رکھے اس کے ساتھ عداوت کا معاملہ فرما، جیسا کہ پہلے بھی عرض کیا گیا یہ دعائیہ جملہ اس کا واضح قرینہ ہے کہ اس حدیث میں مولیٰ کا لفظ محبوب ہے اور دوست کے معنی میں استعمال ہوا ہے۔ الغرض رسول اللہ ﷺ کے اس ارشاد "مَنْ كُنْتُ مَوْلَاهُ، فَعَلِيٌّ مَوْلَاهُ ..... الخ" کا مسئلہ امامت و خلافت سے کوئی تعلق نہیں۔
حدیث ثقلین میں قرآن کے ساتھ ان کے گھر کے افراد کا ذکر اسی طرح ہے جیسے سنت رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خلفائے راشدین کے طریقے کا ذکر ہے۔ حدیث میں ہے: "میں تم سے درخواست کرتا ہوں کہ میرے طریقے (سنت) اور خلفائے راشدین کے طریقے پر عمل کرو۔"
ایک بار جب مندرجہ بالا بات کو سمجھ لیں تو حدیث الموطا کی حدیث کی مضبوط تائید کرتی ہے جس میں کہا گیا ہے: "میں تمہارے درمیان دو چیزیں چھوڑے جا رہا ہوں۔ تم ہرگز گمراہ نہیں ہو گے جب تک کہ تم ان پر قائم رہو گے: اللہ کی کتاب اور اس کے رسول کی سنت۔ [سلسلۃ الاحادیث الصحیحۃ (4/260) سے آخر میں اقتباس]
رَبَّنَا لَا تُؤَاخِذْنَا إِن نَّسِينَا أَوْ أَخْطَأْنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تَحْمِلْ عَلَيْنَا إِصْرًا كَمَا حَمَلْتَهُ عَلَى الَّذِينَ مِن قَبْلِنَا ۚ رَبَّنَا وَلَا تُحَمِّلْنَا مَا لَا طَاقَةَ لَنَا بِهِ ۖ وَاعْفُ عَنَّا وَاغْفِرْ لَنَا وَارْحَمْنَا ۚ أَنتَ مَوْلَانَا فَانصُرْنَا عَلَى الْقَوْمِ الْكَافِرِينَ ﴿٢:٢٨٦﴾
مصنف
بریگیڈیئر آفتاب احمد خان(ر): سیاسیات، بزنس ایڈمنسٹریشن، اور اسٹریٹجک اسٹڈیز میں ماسٹر ڈگری کے ساتھ ایک آزاد مصنف، محقق، اور بلاگرہیں۔ انہوں نے دو دہائیوں سے زیادہ عرصہ قرآن پاک، دیگر مقدس کتب، سے وابستہ تعلیمات اور پیروکاروں کے عمل کے مطالعہ میں صرف کیا ۔ وہ 2006 سے "دی ڈیفنس جرنل" کے لیے لکھ رہے ہیں۔ ان کا کام انٹرنیٹ پر مہیا ہے جس تک 5 ملین سے زائد لوگورسائی حاصل کر چکے ہیں-
رابطہ :
FB@IslamiRevival , Twitter/X @QuranAhkam
E Mail: Tejdeed@gmail.com \
https://SalaamOne.com/e-books/ \ https://DefenceJournal.com/author/aftab-khan
Links:
https://docs.google.com/document/d/1423NbPU6OoicH0WsSbdIY1AmHWTW8WsxhEVEdSwD2gw/pub
Embed google doc in blogspot
<iframe height="1000px" src="https://docs.google.com/document/d/1423NbPU6OoicH0WsSbdIY1AmHWTW8WsxhEVEdSwD2gw/pub?embedded=true" width="100%"></iframe></div>
Embed Code WP:
[googleapps domain="docs" dir="document/d/1423NbPU6OoicH0WsSbdIY1AmHWTW8WsxhEVEdSwD2gw/pub" query="embedded=true" width="100%" height="1000" /]
[27] ابو علی حسن مثلث بن حسن مثنی بن حسن سبط بن علی بن ابی طالب ہاشمی قرشی (77ھ – 145ھ) منصور عباسی کے دور میں سخت مبارزوں میں سے ایک تھے۔ منصور سے سنجیدہ ٹکراؤ کے بعد کوفہ میں سنہ 145ھ میں قید خانہ میں فوت ہوگئے۔ https://wp-ur.wikideck.com/حسن%20مثلث
[28] ابن سعد: الطبقات الکبریٰ، جلد 5